رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر18%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 202797 / ڈاؤنلوڈ: 5565
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

معاہدہ کی پابندی کا دوسرا نمونہ '' حلف الفضول'' کا معاہدہ ہے ، یہ وہ معاہدہ ہے جو جاہلیت کے زمانے میں قریش کے کچھ جوانوں نے مظلومین کے حقوق سے دفاع کے لئے کیا تھا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس میں شامل تھے آپ نے صرف بعثت سے پہلے اس معاہدہ پر قاءم رہے بلکہ بعثت کے بعد بھی جب کبھی اسکو یاد کرلیتے تو فرماتے کہ میں اس عہد کو توڑنے پر تیار نہیں ہوں چاہے اس کے بدلے میرے سامنے بہت قیمتی چیز ہی کیوں نہ پیش کی جائے_(۱)

عمار یاسر فرماتے ہیں کہ میں اپنے گوسفند چرا رہا تھا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی گوسفند چرا رہے تھے ایک دن میں نے آپ سے کہا کہ میں نے مقام ''فج'' میں ایک عمدہ چراگاہ دیکھی ہے کیا آپ کل وہاں چلیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، جب میں صبح وہاں پہنچا تو دیکھا کہ آپ پہلے سے موجود ہیں لیکن گوسفند کو چرنے کے لئے چراگاہ میں داخل نہیں ہونے دیا ہے میں نے پوچھا آپ ایسے ہی کیوں کھڑے ہیں ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میں نے تم سے عہد کیا تھا کہ ہم دونوں ملکر گوسفند چرائیں گے _ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ خلاف وعدہ عمل کروں اور اپنے گوسفند کو تم سے پہلے ہی چرالوں _(۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک شخص سے وعدہ کیا کہ جب تک تم آؤگے اسی پتھر کے کنارے تمہارا منتظر رہوں گا_ گرمی بہت زیادہ تھی اصحاب نے

___________________

۱) (سیرہ حلبی ج۲ص ۱۳۱)_

۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص۲۲۴)_

۸۱

فرمایا: اے اللہ کے رسول آپ سایہ میں چلے جائیں اور وہاں اسکا انتظار کریں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں نے اس سے وعدہ کیا ہے میں یہیں رہو نگا اگر وہ نہیں آئیگا تو وعدہ کے خلاف عمل کرے گا _(۱)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس قسم کے سلوک سے اسلام میں وعدہ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے_

اجتماعی معاہدوں کی پابندی

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پہونچنے کے بعد اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایک نئے معاشرہ کی تشکیل کی وجہ سے سماجی معاہدوں کی ضرورت محسوس ہوئی اس لئے کہ قریش جو آپ کے بڑے دشمن تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چین سے رہنے نہیں دیتے تھے دوسری طرف مدینہ کے یہودی کہ جو صاحب کتاب تھے لیکن حق کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے وہ اپنی مخصوص ہٹ دھرمی کی وجہ سے کسی ایسے دین کو ماننے پر تیار نہ تھے جس کو غیر بنی اسرائیل کا کوئی شخص لایا ہو سب سے اہم بات یہ ہے کہحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے لائے ہوئے دین کو عالمی دین سمجھتے تھے اسی لئے صرف مدینہ میں رہنے والے محدود افراد پر اکتفاء نہیں کرسکتے تھے اور یہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ دوسروں سے کوئی سروکار نہ رکھیں ان پہلوؤں کے پیش نظر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عرب کے بعض

___________________

۱) (بحارالانوار ج۹۵/۷۵)_

۸۲

قباءل سے دفاعی معاہدہ کیا اس معاہدہ کی بنیاد پر اگر کوئی کسی پر زیادتی کرتا تو دوسرے کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اس سے اپنا دفاع کرے اور بعض لوگوں کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تھا کہ تم سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا یعنی طرفین میں کوئی بھی کسی پر نہ زیادتی کرے اور نہ اس کے خلاف کوئی اقدام کرے ان میں سے سب سے اہم معاہدے وہ تھے جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کفار قریش اور مدینہ کے یہودیوں سے کئے تھے_

مشرکین سے معاہدوں کی پابندی

سنہ ۶ ھ میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خواب میں دیکھا کہ مسلمانوں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد الحرام میں مناسک حج ادا کررہے ہیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس خواب کو اپنے اصحاب کے سامنے بیان کیا اصحاب نے اسکو نیک فال سمجھا لیکن بعض افراد کو اسکی صحت پر ابھی مکمل اطمینان حاصل نہیں ہوا تھا کہ خدا نے اپنے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خواب کی تعبیر میں آیت نازل کی:

( لقد صدق الله رسوله الروایا بالحق لتدخلن مسجد الحرام ان شاء الله آمنین محلقین رؤسکم مقصرین لا تخافون فعلم مالم تعلموا فجعل من دون ذلک فتحاً قریباً ) (۱)

___________________

۱) (فتح آیت ۲۷)_

۸۳

(بیشک خدا نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خواب کو آشکار کردیا تم لوگ انشاء اللہ بلاخوف و خطر اپنے سروں کے بال منڈواکر اور تقصیر کیے ہوئے مسجد الحرام میں داخل ہوگئے خداوہ جانتاہے جو تم نہیں جانتے اور خدا نے اس ( مکہ میں داخل ہونے ) سے پہلے بہت نزدیک کامیابی (صلح حدیبیہ) قرار دی)

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مسلمان مطمئن ہوگئے کہ وہ بہت جلد نہایت محافظ طریقہ سے خانہ خدا کی زیارت کے لئے جائیں گے _

ماہ ذیقعدہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمرہ کے قصد سے مکہ جانے کا ارادہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام مسلمانوں کو بھی اپنے ہمراہ مکہ چلنے کی دعوت دی چنانچہ ایک جماعت کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ کی جانب روانہ ہوئے راستہ میں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خبردی گئے کہ قریش آپ کی آمد سے واقف ہوگئے ہیں اورانہوں نے اپنے آپ کوجنگ کے لئے تیار کرلیاہے وہ لوگ مقام '' ذی طوی'' میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں اور انہوں نے قسمیں کھائی ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کو مکہ نہیںجانے دیں گے _

چونکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ کے لئے نہیں نکلے تھے بلکہ آپ عمرہ کے ارادہ سے تشریف لائے تھے اسلئے آپ نے ان سے مذاکرہ کیا آپ کے اور ان کے درمیان معاہدہ ہوا جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے اس معاہدہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند امور کو انجام دینے کی پابندی اپنے اوپر عاءد کی ان میں سے مجھ درج ذیل ہے_

۸۴

۱_ قریش میں سے اگر کوئی بھی شخص اپنے بزرگ کی اجازت کے بغیر مکہ سے فرار کرکے اسلام قبول کرلے اور مسلمانوں سے آکر مل جائے تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے قریش کو واپس کردیں گے لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی بھاگ کر قریش سے جاملے تو قریش اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ اسکو واپس کردیں '' جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قریش کے نمآئندہ کے ساتھ یہ معاہدہ کررہے تھے اسی وقت سہیل کا بیٹا '' ابوجندل'' جو مسلمان ہوگیا تھا لیکن اپنے مشرک باپ کی زنجیر میں جکڑا ہوا تھا مکہ سے فرار کرکے آیا اور مسلمانوں کے ساتھ مل گیا سہیل نے جب اسکو دیکھا تو کہا اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ معاہدہ کی پابندی کا پہلا موقع ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ صلح قاءم رہے تو اسکو واپس کردیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول کیا سہیل نے اپنے بیٹے کا گریبان پکڑا اور کھینچتے ہوئے مکہ لے گیا_

ابوجندل نے (نہایت ہی دردناک لہجہ میں ) فریاد کی کہ اے مسلمانو کیا تم اس بات کی اجازت دیتے ہو کہ مجھ کو مشرکین کے حوالہ کیا کردیا جائے اور میں دوبارہ ان کے چنگل میں پھنس جاؤں؟ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے ابوجندل صبر کرو خدا تمہارے اور تم جیسوں کے لئے کشادگی پیدا کریگا ہم نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور اب ہم اپنا عہد و پیمان نہیں توڑسکتے(۱)

___________________

۱) (سیرہ ابن ہشام ج۳ص۳۳۲ _ ۳۳۳)_

۸۵

یہ ایک ہی موقع نہیں تھا کہ جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلح نامہ کی اس شرط کی مطابق عمل کیا تھا کہ جو مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت تھی ، بلکہ جب کوئی مسلمان مشرکین کے چنگل سے چھوٹ کر مسلمانوں سے آملتا تھا اسی وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے ان کے حوالہ کردیتے تھے جیسا کہ ابوبصیر کا واقعہ گواہ ہے_

ابوابصیر ان مسلمانوں میں شامل ہے جو مکہ میں گھرے ہوئے تھے اور صلح حدیبیہ کے بعد وہاں سے فرار کرکے مدینہ آگئے تھے قریش کے نمایان افراد نے ایک خط پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام لکھا اور اس کو ایک شخص کے حوالہ کیا کہ وہ اپنے غلام کے ساتھ مدینہ جاکر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وہ خط پہنچا دے تا کہ قرار داد کے مطابق ابوبصیر کے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے واپس لیکر مکہ لوٹ آئے جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس وہ خط پہونچا تو آپ نے ابوبصیر کو بلایا اور کہا اے ابوبصیر تم کو معلوم ہے کہ ہم نے قریش سے عہد و پیمان کیا ہے اور اس معاہدہ کی مخالفت ہمارے لئے صحیح نہیں ہے خدا تمہارے لئے اور تم جیسوں کیلئے کشادگی پیدا کریگا ابوبصیر نے کہا : اے اللہ کے رسول کیا آپ ہم کو دشمن کے سپرد کردینگے تا کہ وہ ہم کو دین سے برگشتہ کردیں ؟آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے ابوبصیر پلٹ جاؤ خدا تمہارے لئے وسعت پیدا کریگا_

ابوبصیر ان دونوں کے ساتھ مکہ کی طرف چل دیئے جب مقام ''ذوالحلیفہ'' پر پہونچے تو ایک دیوار کے سایہ میں آرام کرنے لگے ابوبصیر نے اس آدمی کی طرف رخ کرکے کہا یہ

تمہاری تلوار بہت تیز ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں ابوبصیر نے کہا کیا میں اسکو دیکھ

۸۶

سکتاہوں اس آدمی نے جواب دیا اگر دیکھنا چاہتے ہو تو دیکھو ابوبصیر نے تلوار اپنے ہاتھ میں لیکر اچانک اس آدمی پر حملہ کرکے اسکو مار ڈالا مقتول کے غلام نے جب یہ ماجرا دیکھا تو ڈر کے مارے مدینہ کی طرف بھاگا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد کے دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ غلام داخل ہوا جب آپ کی نظر اس غلام پر پڑی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ اس نے بڑا ہولناک منظر دیکھا ہے اس کے بعد اس سے پوچھا کہ کیا خبر ہے غلام نے کہا کہ ابوبصیر نے اس آدمی کو قتل کردیا

ذرا دیر بعد ابوبصیر بھی خدمت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں پہونچے اور کہنے لگے یا رسول اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا عہد و پیمان پورا کیا اور مجھ کو ان کے حوالہ کردیا لیکن میں اپنے دین کے بارے میں ڈرگیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اگر اس شخص کے ساتھی موجود ہوتے تو آپ جنگ برپا کردیتے_

ابوبصیر نے دیکھا کہ اگر مدینہ میں رہ گئے تو لوگ پھر پہنچ جائیں گے اور واپسی کا مطالبہ کریں گے اسلئے وہ مدینہ سے نکل کر سواحل دریائے احمر پر پہنچ گئے وہ جگہ ایسی تھی جہاں سے شام جانے والے قریش کے کاروان تجارت گذرتے تھے_

دوسری طرف جب ابوبصیر کی داستان اور ان کی بارے میںرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول کا علم ان سارے مسلمانوں کو ہوا جو مکہ میں پھنسے ہوئے تھے تو وہ کسی طرح سے اپنے کو مشرکین کے چنگل سے چھڑا کر مکہ سے بھاگ کر ابوبصیر تک پہنچے یہاں تک کہ کچھ ہی دنوں میں ابوبصیر سے جاملنے والے مسلمانوں کی تعداد ستر (۷۰) ہوگئی اب وہ لوگ قریش کے قافلہ کیلئے

واقعی خطرہ بن گئے اگر قریش میں سے کوئی مل جاتا تھاتو یہ لوگ اس کو قتل کردیتے تھے اور اگر کوئی قافلہ ادھر سے گذرتا تھا تو اس کے راستہ میں رکاوٹ بنتے یہاں تک کہ قریش نے تھک کررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خط لکھا اور یہ گذارش کی کہ ان کو مدینہ بلالیں اور قریش کو ان کے ہاتھوں اطمینان حاصل ہوجائے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو بلایا اور سب لوگ مدینہ چلے آئے _

ابوجندل اور ابوبصیر کو واپس کردینے کے عمل سے پتہ چلتاہے کہ رسول خدا انسانی بلند قدروں کی اہمیت سمجھتے تھے_

___________________

۱) (سیرہ ابن ہشام ج۱ ص ۳۳۷ ، ۳۳۸)_

۸۷

خلاصہ درس

۱) قرآن کریم اسلام کی زندہ سند ہے وہ معاہدہ کی پابندی کو ضروری سمجھتاہے اور مؤمنین کو اسکی پابندی کی تلقین کرتاہے_

۲)پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدا کی طرف سے بہترین نمونہ کے عنوان سے تعارف کروایا گیاآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی زندگی کی اس بنیادی بات سے صرف نظر نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اسکی پابندی کی تلقین کی ہے_

۳) عہد و پیمان سے وفاداری اور معاہدہ کی پابندی کی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اہل بیت کے نزدیک اتنی اہمیت ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:لا دین لمن لاعهد له '' وہ شخص دین دار نہیں ہے جو معاہدہ کا پابند نہیں ہے _

۴) کلی طور پرا گرپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاہدوں کا جاءزہ لیا جائے تو دو طرح کے معاہدے نظر آتے ہیں_

الف: ذاتی معاہدہ

ب: سماجی معاہدے اور سیاسی قرار دادیں

۵ ) تاریخ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تحقیق سے یہ پتہ چلتاہے کہ آپ کے نزدیک دونوں ہی طرح کے معاہدے محترم تھے اور آپ نے اپنی طرف سے کبھی کوئی معاہدہ نہیں توڑا_

۸۸

سوالات :

۱_ عہدو پیمان کی پابندی کے سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت کے ذریعہ اسلام کا نظریہ بیان کیجئے؟

۲_ عہد و پیمان کی پابندی کی اہمیت کو ایک مثال کے ذریعہ بیان کیجئے؟

۳_پیغمبر اکرم کے کسی ذاتی معاہدہ کا ذکر کیجئے_

۴_ سیاسی معاہدوں میں سے ایک معاہدہ بیان کرتے ہوئے ان معاہدوں کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے طریقہ کو ایک مثال کے ذریعہ بیان کیجئے؟

۵ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کفار قریش کے ساتھ جو معاہدے کئے تھے وہ کس نوعیت کے حامل تھے؟

۸۹

چھٹا سبق:

(یہودیوں کیساتھآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاہدے)

مدینہ وہ شہر تھا کہ جہاں بمدت عرصہ قبلی یہود کے کچھ قباءل نے ہجرت کی اور وہ اس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آمد کے منتظر تھے کہ جسکی توریت نے بشارت دی تھی چونکہ انہوں نے یہ دیکھا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قوم بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں اسلئے ان کی رسالت کو قبول کرنا ان کےلئے مشکل ہوگیا تھا_ لیکن چوں کہ مدینہ میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے باہمی قدیمی اخلاف کو ختم کرکے ایک امت بنادیا تھا اسلئے وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرسکتے تھے لیکن مسلمانوں کے ممکن الوقوع خطرہ سے محفوظ رہنے کیلئے ان میں سے چند سربرآوردہ اشخاص پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے:

اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم آپ کے پاس معاہدہ کرنے کیلئے آئے ہیں اور وہ معاہدہ یہ ہے کہ ہم آپ کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے، آپ کے اصحاب پر حملہ نہیں کریں گے اور آپ کے خلاف کسی بھی گروہ کی مدد نہیں کریں گے _ اسی طرح آپ بھی ہم سے کوئے سروکار نہ

۹۰

رکھیں گے بعد میں دیکھا جائے گا کہ کیا ہوتاہے_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول فرمایا اور جو معاہدہ نامہ لکھا گیا اسمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اضافہ فرمایا کہ اگر یہودیوں نے اس قرار داد کے خلاف عمل کیا تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کا خون بہانے، ان کے مال کو ضبط کرلینے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کرنے میں آزاد ہوں گے _

اس معاہدہ پر تین بزرگ قبیلوں، بنی نضیر، بنی قریظہ اور بنی قینقاع نے دستخط کئے _(۱)

البتہ یہ صرف ایک معاہدہ نہیں تھا جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور یہودیوں کے درمیان ہوا بلکہ دوسرے مواقع پر بھی اس طرح سیاسی اور سماجی معاہدے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور یہودیوں کے درمیان ہوئے ہیں ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان تمام معاہدوں پر ثابت قدم رہے اور یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ آپ نے ایک بار بھی کسی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہو_

معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا برتاو

جس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معاہدوں کے پابند تھے اور اس کو اہمیت دیتے تھے اسی طرح پیمان شکنی سے بیزار بھی تھے اور اس کو ایک ناشاءستہ عمل جانتے تھے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر میں پیمان شکنی کرنیوالا گنہگار اور سزا کا مستحق تھا_

انفرادی معاہدہ میں اگر کسی نے معاہدہ کرکے توڑ دیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بزرگی اور عظمت کے

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۹ ص ۱۱۰ ، ۱۱۱)_

۹۱

خلاف یہ بات تھی کہ آپ اس سے سوال کرتے_ لیکن اجتماعی اور سیاسی معاہدوں میں جس کا تعلق نظام اسلام سے ہوتا تھا ، ان سے کسی طرح کی چشم پوشی کو آپ روا نہیں رکھتے تھے اور اس سے نہایت سختی کا برتاو کرتے تھے اسکا ایک نمونہ وہ رد عمل ہے جس کا اظہار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ کے یہودیوں کے معاہدہ توڑدینے پر فرمایا تھا_

مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کے جو قباءل آباد تھے ان کیلئے تقریبا ہر ایک نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تعرض نہ کرے اور مشترک دفاع کا معاہدہ کیا تھا لیکن ان میں سے ہر گروہ نے بڑے نازک موقع پر اپنا معاہدہ توڑا اور اسلام سے اپنے بغض اور عناد کا مظاہرہ کیا تھا _ ذیل میں ایسی چند مثالوں اور ان عہدشکنی کرنیوالوں کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جو برتاؤ تھا اس کی طرف اشارہ کیا جائیگا_

بنی قینقاع کے یہودیوں کی پیمان شکنی

''بنی قینقاع '' یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جنگ و جدال سے پرہیز کا معاہدہ کیا تھا لیکن ابھی کچھ دن نہ گذرے تھے کہ اسلام کو سرعت کے ساتھ ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے اپنا معاہدہ توڑڈالا ، اس گروہ نے افواہیں پھیلانا اور اسلام کے خلاف غلط قسم کے نعرے لگانا شروع کردیئے _

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی قینقاع کے بازار میں تقریر کی اور انہیں بہت سختی سے خبردار کیا_

۹۲

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلمات سے نصیحت حاصل کرنے کے بجائے بنی قنیقاع کے یہودی جواب دینے پر اتر آئے اور کہنے لگے آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہم کمزور و ناتواں ہیں اور قریش کی طرح جنگ کے رموز سے نا واقف ہیں ؟ آپ اس گروہ سے الجھ پڑے تھے جو جنگ کے اصولوں اور ٹیکنیک سے واقف نہیں تھا لیکن بنی قنیقاع والوں کی طاقت کا آپ کو اس وقت اندازہ ہو گا جب آپ میدان جنگ میں ان سے مقابلہ کیلئے اتریں گے _

ان تیزو تند باتوں نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے حوصلوں کو پست نہیں کیا بلکہ مسلمان تیار ہوگئے کہ کسی مناسب موقعہ پر ان کی رجز خوانی کا جواب دیں ،ایک دن ایک عرب عورت بنی قنیقاع کے بازار میں ایک یہودی سنا رکی دکان پر کچھ سامان بیچ رہی تھی اور اس حوالے سے محتاط تھی کہ کوئی اسکا چہرہ نہ دیکھے مگر بنی قینقاع کے کچھ یہودیوں کو اس کا چہرہ دیکھنے پر اصرار تھا لیکن چونکہ عورت اپنا چہرہ دکھانے پر تیار نہیں تھی اس لئے یہودی سنار نے اس عورت کے دامن کو اس کی پشت پر سی دیا _

تھوڑی دیر کے بعد وہ عورت اٹھی تو اس کے جسم کا کچھ حصہ نمایاں ہوگیا یہ دیکھ کر بنی قنیقاع کے کچھ جوانوں نے اس عورت کا مذاق اڑایا _

بنی قینقاع کا یہ عمل اعلانیہ طور پر پیغمبر سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو توڑ رہا تھا اس عورت کی حالت دیکھ کر ایک مسلمان کو طیش آگیا اس نے فورا اہتھیار نکالا اور اس یہودی سنا ر کو قتل کر ڈالا ، وہاں جو یہودی موجود تھے انہوں نے مل کر اس مسلمان کو بہت بری طرح قتل کیا _

۹۳

ایک مسلمان کے سننے خیز قتل کی خبر دوسرے مسلمانوں کے کان تک پہونچی ، بنی قنیقاع نے جب بگڑی ہوئی حالت دیکھی تو اپنے ان گھروں میں جاچھپے جو مضبوط قلعوں کے در میان بنے ہوئے تھے_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ دشمن کا محاصرہ کیا جائے مسلمانوں نے پندرہ روز تک قلعوں کا محاصرہ کیا اور کسی طرح کی امداد وہاں تک نہ پہونچنے دی _ قلعہ کے یہودی محاصرہ کی بناپر تنگ آگئے اور انہوں نے اپنے کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالہ کردیا_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارادہ تو یہ تھا کہ ان لوگوں کو سخت تنبیہہ کی جائے لکن '' عبداللہ ابی '' کے اصرار پر جو مدینہ کا ایک منافق تھا مگر ظاہرمیں اسلام کا اظہار کیا کرتا تھا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سختی نہیں کی اور یہ طئے پایا کہ یہ لوگ اپنا اسلحہ اوراپنی دولت دیکر جتنی جلدی ہوسکے مدینہ کو ترک کردیں(۱)

۲_ بنی نضیر کے یہودیوں کی پیمان شکنی

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کئے ہوئے معاہدہ کو توڑنے والے '' بنی نضیر'' کے یہودی بھی تھے_

ایک دن ایک مسلمان نے قبیلہ بنی عامر کے ایسے دو آدمیوں کو جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معاہدہ کئے ہوئے تھے قتل کرڈالا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان لوگوں کا خون بہاء ادا کرنے

___________________

۱) ( مغازی واقدی ج۱ ص ۱۷۶ و ۱۷۸)_

۹۴

کے سلسلہ میں بنی نضیر کے یہودیوں سے مدد لینے اپنے چند اصحاب کے ساتھ ان کے یہاں گئے _ انہوں نے ظاہر بظاہر بڑی گرم جوشی سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا استقبال کیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک گھر کی دیوار کے سہارے کھڑے تھے اسی اثنا میں کھانا تناول فرمانے کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بلالیا اسی حال میں '' حی ابن خطب'' جو قبیلہ بنی نضیر کا سردار تھا جس نے بنی نضیر کے یہودیوں کی طرف سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہونے والے معاہدہ پر دستخط کئے تھے، خفیہ طور پر اس نے یہودیوں سے کہا کہ یہ بڑا اچھا موقع ہے آج ان سے چھٹکارا حاصل کرلینا چاہیئے _ آج جتنے کم افراد ان کے ساتھ ہیںاتنے کم افراد تو ان کے ساتھ کبھی بھی نہیں رہے ، ایک آدمی کوٹھے پر چڑھ گیا تا کہ سرپر ایک پتھر گرا کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کام تمام کردے خدا نے یہودیوں کی سازش سے پردہ اٹھادیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کے برے ارادہ سے مطلع کردیا_

اصحاب نے دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی کام سے ایک طرف چلے گئے، اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واپس آنے کے منتظر رہے وہ لوگ بیٹھے رہے مگر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واپس نہیں آئے، وہ لوگ اٹھے کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھونڈھا جائے،اتنے میں ایک شخص وارد ہوا لوگوں نے اس سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں پوچھا اس نے کہا کہ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مدینہ میں دیکھا ہے اصحاب مدینہ پہونچے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چلے آنے کا سبب پوچھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: خدا نے مجھ کو اس سازش سے آگاہ کردیا تھا جو یہودیوں نے میرے خلاف کی تھی اسلئے میں وہاں سے چلا آیا_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ کےلئے نکلنے کا حکم دیا لشکر اسلام نے چھ روز تک بنی نضیر کے گھروں کا محاصرہ کیا چھ روز کے بعد خوف کی وجہ سے ان لوگوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور کہا ہم یہاں

۹۵

سے چلے جانے کے لئے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ہم ہتھیار کے علاوہ اپنے تمام منقولہ سامان اپنے ساتھ لے جائینگے ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی شرط مان لی وہ اپنا تمام سامان حتی کہ دروازہ بھی اکھاڑ کر اونٹوںپر لاد کرلے گئے_(۱)

۳_بنی قریظہ کے یہودیوں کی عہد شکنی

پیمان شکن یہودیوں کے ساتھ رد عمل کے طور پر پیغمبر کا جو برتاؤ ہو تا اس میں شدید ترین برتاو بنی قریظہ کے عہد شکن یہودیوں کے ساتھ روا رکھا _ انہوں نے اس نازک زمانہ میں اپنا معاہدہ توڑا جس زمانہ میں مشرکین قریش نے تمام اسلام مخالف گروہوں سے مل کر بنے ہوئے ایک بڑے لشکر کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کاکام تمام کردینے کے ارادہ سے مدینہ پر حملہ کیا تھا بنی قریظہ کے لوگوں نے مشرکین مکہ کو پیغام بھیج کر دو ہزار کا لشکرمانگا تا کہ مدینہ کو نیست و نابود کردیں اور اندر سے مسلمانوں کو کھوکھلا کردیں_ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان خندق کی حفاظت کررہے تھے ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو افسر اور پانچ سو سپاہیوں کو معین کیا تا کہ شہر کے اندر گشت لگاکر پہرہ دیتے رہیں اور نعرہ تکبیر کی آواز بلند کرکے بنی قریظہ کے حملوں کو روکیں اس طرح صدائے تکبیر کو سن کر عورتوں اور بچوں کی ڈھارس بندھی رہے گی(۲)

___________________

۱) ( سیرہ ابن ہشام ج۳ ص ۱۹۹ _۲۰۰)_

۲) (مغازی واقدی ج۲ ص ۴۶۰)_

۹۶

جب مشرکین احزاب مسلمانوں سے ہارگئے اور بڑی بے عزتی سے میدان چھوڑ کر بھاگے تو پھر بنی قریظہ کے یہودیوں کی بار ی آئی_

ابھی جنگ احزاب کی تھکن اترنے بھی نہ پائی تھی کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی قریظہ کے یہودیوں سے لڑنے کی آواز بلند کی اور لشکر اسلام نے فورا ان کے قلعے کا محاصرہ کرلیا_

بنی قریظہ کے یہودیوں نے جب اپنے کو خطرہ میں گھرا ہوا محسوس کیا تو انہوں نے پہلے تو یہ درخواست کی کہ تمام یہودیوں کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے وہی ان کے ساتھ بھی ہو تا کہ وہ لوگ بھی اپنے قابل انتقال سامان کو لیکر مدینہ سے چلے جائیں لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول نہیں فرمایا اس کے بعد وہ اس بات پر تیار ہوئے کہ ان کے ہم پیمان '' سعد ابن معاذ'' جو فیصلہ کریں گے وہ بلاچون و چرا اس کو قبول کرلینگے پیغمبر نے بھی اس بات کو قبول کرلیا_

سعد ابن معاذ کہ جو تیر لگنے کی وجہ سے زخمی تھے، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب لایا گیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد سے کہا : کہ بنی قریظہ کے یہویوں کے بارے میں فیصلہ کرو_

۹۷

سعد ، جنہوں نے بنی قریظہ کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ عہد و پیمان دیکھا تھا اورجن کے پیش نظر جنگ احزاب میں یہودیوں کی عہد شکنی اور خیانت بھی تھی ، انہوں نے حکم دیا :

۱_ ان کے جنگ کرنے والے مردوں کو قتل کردیا جائے_

۲_ ان کے مال و اسباب کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے_

۳_ ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالیا جائے _(۱)

معاہدہ توڑنا وہ بھی ایسے موقع پر جب فریق مقابل کیلئے وہ معاہدہ زندگی کا مسئلہ ہو اس کی سزا یہی ہوسکتی ہے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس عمل سے بتایا کہ جب کوئی شخص یا کوئی گروہ کسی عہد و پیمان کو نظر انداز کردے تو پھر اس کاکوئی احترام نہیں رہ جاتا اور نہ اس کی کوئی قدر و قیمت باقی رہتی ہے _

___________________

۱) (مغازی واقدی ج ۲ ص ۵۰۲)_

۹۸

خلاصہ درس

۱) مدینہ میں بسنے والے یہودیوں نے ممکنہ خطرہ سے محفوظ رہنے کیلئے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کسی بھی قسم کی چھیڑ خانی نہ کرنے کا معاہدہ کیا _

۲) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جتنے معاہدے کئے ان سب میں ثابت قدم رہے _ کسی بھی معاہدہ کی مخالفت کرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہیں دیکھا گیا _

۳) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سماجی اور سیاسی معاہدہ توڑے جانے کی صورت میں کسی طرح کی چشم پوشی سے کام نہیں لیا اور معاہدہ توڑنے والوں کے ساتھ نہایت سخت برتاو کیا _

۴) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی قینقاع اور بنی نضیر کے ان یہودیوں کو مدینہ سے نکال دیا جنہوں نے امن کے مانہ میں معاہدہ توڑا تھا لیکن بنی قریظہ کے یہودیوں کیساتھ جنہوں نے اسلام کے دشمنوں کی مددکی تھی سخت رویہ اختیار کیا اور سعد بن معاذ کے فیصلہ کے مطابق جنگ کرنے والے مردوں کو قتل کرڈالا ان کے مال کو ضبط کرلیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالایا_

۹۹

سوالات :

۱_ یہودیوں کے قبیلوں نے کس وجہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی _

۲_ یہودیوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کس طرح کا معاہدہ کیا ؟

۳_ یہودیوں کے سربرآوردہ افراد نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جو معاہدہ کیا تھا اسکی شرطیں کیا تھیں ؟

۴_ بنی قینقاع کے یہودیوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا سلوک تھا ؟ اجمالی طور پر بیان کیجئے؟

۵_ بنی قریظہ کے یہودیوں نے دشمنان اسلام میں سے کس سے تعاون کیا ؟ ان کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا مختصر طور پر بیان کیجئے؟

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سوالات :

۱ _ اصحاب نے جب کفار کے بارے میں لعن اور نفرین کی بات کہی تو اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا جواب دیا؟

۲ _ عفو کیونکر انسان کے کمالات کی زمین ہموار کرتاہے؟

۳ _ سب سے بلند اور سب سے بہترین معافی کون سی معافی تھی ؟

۴ _ فتح مکہ کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد بن عبادہ سے کیا فرمایا تھا؟

۵ _ فتح مکہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو عفو اور درگذر کے نمونے پیش کئے ان میں سے ایک نمونہ بیان فرمایئے؟

۱۴۱

دسواں سبق:

(بدزبانی کرنے والوں سے درگزر)

عفو،درگذر، معافی اور چشم پوشی کے حوالے سے رسول اکرم، اور ائمہ اطہار علیہم السلام کا سبق آموز برتاؤ وہاں بھی نظر آتاہے جہاں ان ہستیوں نے ان لوگوں کو معاف فرمادیا کہ جو ان عظیم و کریم ہستیوں کے حضور توہین، جسارت اور بدزبانی کے مرتکب ہوئے تھے، یہ وہ افراد تھے جو ان گستاخوں کو معاف کرکے ان کو شرمندہ کردیتے تھے اور اس طرح ہدایت کا راستہ فراہم ہوجایا کرتا تھا_

اعرابی کا واقعہ

ایک دن ایک اعرابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہونچا اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی چیز مانگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو وہ چیز دینے کے بعد فرمایا کہ : کیا میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا نہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہرگز مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے _ اصحاب کو غصہ

۱۴۲

آگیا وہ آگے بڑھے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو منع کیا ، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور واپس آکر کچھ اور بھی عطا فرمایا اور اس سے پوچھا کہ کیا اب میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احسان کیا ہے خدا آپ کو جزائے خیر دے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : تم نے جو بات میرے اصحاب کہ سامنے کہی تھی ہوسکتاہے کہ اس سے ان کے دل میں تمہاری طرف سے بدگمانی پیدا ہوگئی ہو لہذا اگر تم پسند کرو تو ان کے سامنے چل کر اپنی رضامندی کا اظہار کردو تا کہ ان کے دل میں کوئی بات باقی نہ رہ جائے، وہ اصحاب کے پاس آیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ شخص مجھ سے راضی ہوگیا ہے،کیا ایسا ہی ہے ؟ اس شخص نے کہا جی ہاں خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کو جزائے خیردے، پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میری اور اس شخص کی مثال اس آدمی جیسی ہے جسکی اونٹنی کھل کر بھاگ گئی ہو لوگ اس کا پیچھا کررہے ہوں اور وہ بھاگی جارہی ہو،اونٹنی کا مالک کہے کہ تم لوگ ہٹ جاو مجھے معلوم ہے کہ اس کو کیسے رام کیا جاتا ہے پھر مالک آگے بڑھے اور اس کے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرے اس کے جسم اور چہرہ سے گرد و غبار صاف کرے اور اسکی رسی پکڑلے، اگر کل میں تم کو چھوڑ دیتا تو تم بد زبانی کی بناپر اس کو قتل کردیتے اور یہ جہنم میں چلاجاتا_

___________________

۱)(سفینةا لبحار ج۱ ص۴۱۶)_

۱۴۳

امام حسن مجتبی اورشامی شخص

ایک دن حسن مجتبیعليه‌السلام مدینہ میں چلے جارہے تھے ایک مرد شامی سے ملاقات ہوئی اس نے آپعليه‌السلام کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کیونکہ حاکم شام کے زہریلے پروپیگنڈہ کی بناپر شام کے رہنے والے علیعليه‌السلام اور فرزندان علیعليه‌السلام کے دشمن تھے، اس شخص نے یہ چاہا کہ اپنے دل کے بھڑ اس نکال لے، امامعليه‌السلام خاموش رہے ، وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگیا تو آپعليه‌السلام نے مسکراتے ہوئے کہا '' اے شخص میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور تم میرے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہو ( یعنی تو دشمنوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہے ) لہذا اگر تو مجھ سے میری رضامندے حاصل کرنا چاہے تو میں تجھ سے راضی ہوجاونگا ، اگر کچھ سوال کروگے تو ہم عطا کریں گے ، اگر رہنمائی اور ہدایت کا طالب ہے تو ہم تیری رہنمایی کریں گے _ اگر کسی خدمتگار کی تجھ کو ضرورت ہے تو ہم تیرے لئے اس کا بھی انتظام کریں گے _ اگر تو بھوکا ہوگا تو ہم تجھے سیر کریں گے محتاج لباس ہوگا تو ہم تجھے لباس دیں گے_ محتاج ہوگا تو ہم تجھے بے نیاز کریں گے _ پناہ چاہتے ہو تو ہم پناہ دیں گے _ اگر تیری کوئی بھی حاجت ہو تو ہم تیری حاجت روائی کریں گے _ اگر تو میرے گھر مہمان بننا چاہتاہے تو میں راضی ہوں یہ تیرے لئے بہت ہی اچھا ہوگا اس لئے کہ میرا گھر بہت وسیع ہے اور میرے پاس عزت و دولت سبھی کچھ موجود ہے _

جب اس شامی نے یہ باتیں سنیں تو رونے لگا اور اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ

۱۴۴

آپعليه‌السلام زمیں پر خلیفة اللہ ہیں ، خدا ہی بہتر جانتا ہے اپنی رسالت اور خلافت کو کہاں قرار دے گا _ اس ملاقات سے پہلے آپعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے پدر بزرگوار میرے نزدیک بہت بڑے دشمن تھے اب سب سے زیادہ محبوب آپ ہی حضرات ہیں _

پھروہ امام کے گھر گیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ ہی کا مہمان رہا پھر آپ کے دوستوں اور اہلبیت (علیہم السلام )کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا _(۱)

امام سجادعليه‌السلام اور آپ کا ایک دشمن

منقول ہے کہ ایک شخص نے امام زین العابدینعليه‌السلام کو برا بھلا کہا آپ کو اس نے دشنام دی آپعليه‌السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ، پھر آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے پلٹ کر کہا: آپ لوگوں نے اس شخص کی باتیں سنں ؟ اب آپ ہمارے ساتھ آئیں تا کہ ہمارا بھی جواب سن لیں وہ لوگ آپ کے ساتھ چل دیئے اور جواب کے منتظر رہے _ لیکن انہوں نے دیکھا کہ امامعليه‌السلام راستے میں مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کر رہے ہیں _

( و الکاظمین الغیظ و العافین عن الناس و الله یحب المحسنین ) (۲)

وہ لوگ جو اپنے غصہ کوپی جاتے ہیں; لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے _

___________________

۱) ( منتہی الامال ج ۱ ص ۱۶۲)_

۲) (آل عمران۱۳۴)_

۱۴۵

ان لوگوں نے سمجھا کہ امامعليه‌السلام اس شخص کو معاف کردینا چاہتے ہیں جب اس شخص کے دروازہ پر پہونچے او حضرتعليه‌السلام نے فرمایا : تم اس کو جاکر بتادو علی بن الحسینعليه‌السلام آئے ہیں ، وہ شخص ڈراگیا اور اس نے سمجھا کہ آپعليه‌السلام ان باتوں کا بدلہ لینے آئے ہیں جو باتیں وہ پہلے کہہ کے آیا تھا ، لیکن امامعليه‌السلام نے فرمایا: میرے بھائی تیرے منہ میں جو کچھ ۱آیا تو کہہ کے چلا آیا تو نے جو کچھ کہا تھا اگر وہ باتیں میرے اندر موجود ہیں تو میں خدا سے مغفرت کا طالب ہوں اور اگر نہیں ہیں تو خدا تجھے معاف کرے ، اس شخص نے حضرت کی پیشانی کا بوسہ دیا اور کہا میں نے جو کچھ کہا تھا وہ باتیں آپ میں نہیں ہیں وہ باتیں خود میرے اندر پائی جاتی ہیں _(۱)

ائمہ معصومین (علیہم السلام ) صرف پسندیدہ صفات اور اخلاق کریمہ کی بلندیوں کے مالک نہ تھے بلکہ ان کے مکتب کے پروردہ افراد بھی شرح صدر اور وسعت قلب اور مہربانیوں کا مجسمہ تھے نیز نا واقف اور خود غرض افراد کو معاف کردیا کرتے تھے _

مالک اشتر کی مہربانی اور عفو

جناب مالک اشتر مکتب اسلام کے شاگرد اور حضرت امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے تربیت کردہ تھے اور حضرت علیعليه‌السلام کے لشکر کے سپہ سالار بھی تھے آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ عرب اور عجم میں علیعليه‌السلام کے علاوہ مالک اشتر

___________________

۱) (بحارالانوار ج ۴۶ ص ۵۵) _

۱۴۶

سے بڑھ کر کوئی شجاع نہیں ہے تو اس کی قسم صحیح ہوگی حضرت علیعليه‌السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا : مالک اشتر میرے لئے اس طرح تھا جیسے میں رسول خدا کے لئے تھا _ نیز آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کاش تمہارے در میان مالک اشتر جیسے دو افراد ہوتے بلکہ ان کے جیسا کوئی ایک ہوتا _ایسی بلند شخصیت اور شجاعت کے مالک ہونے کے با وجود آپ کا دل رحم و مروت سے لبریز تھا ایک دن آپ بازار کوفہ سے گذر رہے تھے ، ایک معمولی لباس آپ نے زیب تن کر رکھا تھا اور اسی لباس کی جنس کا ایک ٹکڑا سر پر بندھا ہوا تہا ، بازار کی کسی دو کان پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، جب اس نے مالک کو دیکھا کہ وہ اس حالت میں چلے جارہے ہیں تو اس نے مالک کو بہت ذلیل سمجھا اور بے عزتی کرنے کی غرض سے آپ کی طرف سبزی کا ایک ٹکڑا اچھال دیا، لیکن آپ نے کوئی توجہ نہیں کی اور وہاں سے گزر گئے ایک اور شخص یہ منظر دیکھ رہاتھا وہ مالک کو پہچانتا تھا، اس نے آدمی سے پوچھا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کی توہین کی ہے؟ اس نے کہا نہیں ، اس شخص نے کہا کہ وہ علیعليه‌السلام کے صحابی مالک اشتر ہیں وہ شخص کانپ اٹھا اور تیزی سے مالک کی طرف دوڑا تا کہ آپ تک پہنچ کر معذرت کرے، مالک مسجد میں داخل ہو چکے تھے اور نماز میں مشغول ہوگئے تھے، اس شخص نے مالک کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو اس نے پہلے سلام کیا پھر قدموں کے بوسے لینے لگا، مالک نے اس کا شانہ پکڑ کر اٹھایا اور کہا یہ کیا کررہے ہوا؟ اس شخص نے کہا کہ جو گناہ مجھ سے سرزد ہوچکاہے میں اس کے

۱۴۷

لئے معذرت کررہاہوں، اس لئے کہ میں اب آپ کو پہچان گیا ہوں، مالک نے کہا کوئی بات نہیں تو گناہ گار نہیں ہے اس لئے کہ میں مسجد میں تیری بخشش کی دعا کرنے آیا تھا_(۱)

ظالم سے درگذر

خدا نے ابتدائے خلقت سے انسان میں غیظ و غضب کا مادہ قرار دیا ہے ، جب کوئی دشمن اس پر حملہ کرتاہے یا اس کا کوئی حق ضاءع ہوتاہے یا اس پر ظلم ہوتاہے یا اس کی توہین کی جاتی ہے تو یہ اندرونی طاقت اس کو شخصیت مفاد اور حقوق سے دفاع پر آمادہ کرتی ہے اور یہی قوت خطروں کو برطرف کرتی ہے _

قرآن کا ارشاد ہے :

( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا بمثل ما عتدی علیکم ) (۲)

جو تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس پر اتنی زیادتی کرسکتے ہو جتنی اس نے کی ہے _

قرآن مجید میں قانون قصاص کو بھی انسان اور معاشرہ کی حیات کا ذریعہ قرار دیا گیاہے اور یہ واقعیت پر مبنی ہے _

( و لکم فی القصاص حیوة یا اولی الالباب ) (۳)

اے عقل والو قصاص تمہاری زندگی کی حفاظت کیلئے ہے_

___________________

۱) (منتہی الامال ص ۱۵۵)_

۲) (بقرہ ۱۹۴)_

۳) (بقرہ ۱۷۹) _

۱۴۸

لیکن بلند نگاہیوں اور ہمتوں کے مالکوںکی نظر میں مقابلہ بالمثل اور قصاص سے بڑھ کر جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ آتش غضب کو آپ رحمت سے بجھا دیناہے _

( و ان تعفوااقرب للتقوی ) (۱)

اگر تم معاف کردو تو یہ تقوی سے قریب ہے_

عفو اور درگذر ہر حال میں تقوی سے نزدیک ہے اسلئے کہ جو شخص اپنے مسلم حق سے ہاتھ اٹھالے تو اس کا مرتبہ محرمات سے پرہیز کرنے والوں سے زیادہ بلند ہے(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ان کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار کا ہم کو کچھ اور ہی سلوک نظر آتاہے جن لوگوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں حقوق کو پامال کیا اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا جب وہی افراد ذلیل و رسوا ہوکر نظر لطف و عنایت کے محتاج بن گئے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار نے ان کو معاف کردیا_

امام زین العابدینعليه‌السلام اور ہشام

بیس سال تک ظلم و استبداد کے ساتھ حکومت کرنے کے بعد سنہ ۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان دنیا سے رخصت ہوگیا اس کے بعد اس کا بیٹا ولید تخت خلافت پر بیٹھا اس نے

___________________

۱) (بقرہ ۲۳۷)_

۲) (المیزان ج۲ ص ۲۵۸)_

۱۴۹

لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور عمومی مخالفت کا زور کم کرنے کے لئے حکومت کے اندر کچھ تبدیلی کی ان تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی یہ تھی کہ اس نے مدینہ کے گورنر ہشام بن اسماعیل کو معزول کردیا کہ جس نے اہلبیت (علیہم السلام) پر بڑا ظلم کیا تھا جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ کا حاکم بنا تو اس نے حکم دیا کہ ہشام کو مروان حکم کے گھر کے سامنے لاکر کھڑا کیاجائے تا کہ جو اس کے مظالم کا شکا رہوئے ہیں وہ آئیں اور ان کے مظالم کی تلافی ہوجائے_لوگ گروہ در گروہ آتے اورہشام پر نفرین کرتے تھے اور اسے گالیاں دیتے تھے، ہشام علی بن الحسینعليه‌السلام سے بہت خوفزدہ تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے چونکہ ان کے باپ پر لعن کیا ہے لہذا اسکی سزا قتل سے کم نہیں ہوگی ، لیکن امامعليه‌السلام نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ : یہ شخص اب ضعیف اور کمزور ہوچکاہے اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیفوں کی مدد کرنی چاہئے، امامعليه‌السلام ہشام کے قریب آئے اور آپعليه‌السلام نے اس کو سلام کیا ، مصافحہ فرمایا اور کہا کہ اگر ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم تیار ہیں ، آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ : تم اس کے پاس زیادہ نہ جاو اس لئے کہ تمہیں دیکھ کر اس کو شرم آئے گی ایک روایت کے مطابق امامعليه‌السلام نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس کو آزاد کردو اور ہشام کو چند دنوں کے بعد آزاد کردیا گیا_(۱)

___________________

۱)(بحارالانوار ج۴۶ ص ۹۴)_

۱۵۰

امام رضاعليه‌السلام اور جلودی

جلودی وہ شخص تھا جس کو محمد بن جعفر بن محمد کے قیام کے زمانہ میں مدینہ میں ہارون الرشد کی طرف سے اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ علویوں کی سرکوبی کرے ان کو جہاں دیکھے قتل کردے ، اولاد علیعليه‌السلام کے تمام گھروں کو تاراج کردے اور بنی ہاشم کی عورتوں کے زیورات چھین لے ، اس نے یہ کام انجام بھی دیا جب وہ امام رضاعليه‌السلام کے گھر پہونچا تو اس نے آپعليه‌السلام کے گھر پر حملہ کردیاامامعليه‌السلام نے عورتوں اور بچوں کو گھر میں چھپادیا اور خود دروازہ پر کھڑے ہوگئے، اس نے کہاکہ مجھ کو خلیفہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ عورتوںکے تمام زیورات لے لوں، امام نے فرمایا: میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ میں خود ہی تم کو سب لاکردے دونگا کوئی بھی چیز باقی نہیں رہے گی لیکن جلودی نے امامعليه‌السلام کی بات ماننے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ امامعليه‌السلام نے کئی مرتبہ قسم کھاکر اس سے کہا تو وہ راضی ہوگیا اور وہیں ٹھہرگیا، امامعليه‌السلام گھر کے اندر تشریف لے گئے، آپعليه‌السلام نے سب کچھ یہانتک کہ عورتوں اور بچوں کے لباس نیز جو اثاثہ بھی گھر میں تھا اٹھالائے اور اس کے حوالہ کردیا _

جب مامون نے اپنی خلافت کے زمانہ میں امام رضاعليه‌السلام کو اپنا ولی عہد بنایا تو جلودی مخالفت کرنے والوں میں تھا اور مامون کے حکم سے قید میں ڈال دیا گیا ، ایک دن قیدخانہ سے نکال کر اسکو ایسی بزم میں لایا گیا جہاں امام رضاعليه‌السلام بھی موجود تھے، مامون جلودی کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن امامعليه‌السلام نے کہا : اس کو معاف کردیا جائے، مامون نے کہا : اس نے آپعليه‌السلام پر

۱۵۱

بڑا ظلم کیا ہے _ آپعليه‌السلام نے فرمایا اس کی باوجود اس کو معاف کردیا جائے_

جلودی نے دیکھا کہ امام مامون سے کچھ باتیں کررہے ہیں اس نے سمجھا کہ میرے خلاف کچھ باتیں ہورہی ہیں اور شاید مجھے سزا دینے کی بات ہورہی ہے اس نے مامون کو قسم دیکر کہا کہ امامعليه‌السلام کی بات نہ قبول کی جائے ، مامون نے حکم دیا کہ جلودی کی قسم اور اس کی درخواست کے مطابق اسکو قتل کردیا جائے_(۱)

سازش کرنے والے کی معافی

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ(علیہم السلام) نے ان افراد کو بھی معاف کردیا جنہوں نے آپعليه‌السلام حضرات کے خلاف سازشیں کیں اور آپعليه‌السلام کے قتل کی سازش کی شقی اور سنگدل انسان اپنی غلط فکر کی بدولت اتنا مرجاتاہے کہ وہ حجت خدا کو قتل کرنے کی سازش کرتاہے لیکن جو افراد حقیقی ایمان کے مالک اور لطف و عنایت کے مظہر اعلی ہیں وہ ایسے لوگوں کی منحوس سازشوں کے خبر رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ عفو و بخشش سے پیش آتے ہیں اور قتل سے پہلے قصاص نہیں لیتے البتہ ذہنوں میں اس نکتہ کا رہنا بہت ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہنے ایک طرف تو اپنے ذاتی حقوق کے پیش نظر ان کو معاف کردیا دوسری طرف انہوں نے اپنے علم غیب پر عمل نہیں کیا، ا س لئے کہ علم غیب پر عمل کرنا ان کا فریضہ نہ تھا وہ ظاہر کے

___________________

۱) ( بحارالانوار ج۹ ص ۱۶۷ ، ۱۶۶)_

۱۵۲

مطابق عمل کرنے پر مامور تھے_ لہذا جو لوگ نظام اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں انکا جرم ثابت ہوجانے کے بعد ممکن ہے کہ ان کو معاف نہ کیا جائے یہ چیز اسلامی معاشرہ کی عمومی مصلحت و مفسدہ کی تشخیص پر مبنی ہے اس سلسلہ میں رہبر کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتاہے_

ایک اعرابی کا واقعہ

جنگ خندق سے واپسی کے بعد سنہ ۵ ھ میں ابوسفیان نے ایک دن قریش کے مجمع میں کہا کہ مدینہ جاکر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کون قتل کرسکتاہے؟ کیونکہ وہ مدینہ کے بازاروں میں اکیلے ہی گھومتے رہتے ہیں ، ایک اعرابی نے کہا کہ اگر تم مجھے تیار کردو تو میں اس کام کیلئے حاضر ہوں، ابوسفیان نے اس کو سواری اور اسلحہ دیکر آدھی رات خاموشی کے ساتھ مدینہ روانہ کردیا،اعرابی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھنڈھتاہوا مسجد میں پہنچاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اسکو دیکھا تو کہا کہ یہ مکار شخص اپنے دل میں برا ارادہ رکھتاہے، وہ شخص جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آیا تو اس نے پوچھاکہ تم میں سے فرزند عبدالمطلب کون ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں ہوں، اعرابی آگے بڑھ گیا اسید بن خضیر کھڑے ہوئے اسے پکڑلیا اور اس سے کہا : تم جیسا گستاخ آگے نہیں جاسکتا، جب اسکی تلاشی لی تو اس کے پاس خنجر نکلاوہ اعرابی فریاد کرنے لگا پھر اس نے اسید کے پیروں کا بوسہ دیا _

۱۵۳

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سچ سچ بتادو کہ تم کہاں سے اور کیوں آئے تھے؟ اعرابی نے پہلے امان چاہی پھر سارا ماجرا بیان کردیا،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کے مطابق اسید نے اسکو قید کردیا ، کچھ دنوں بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسکو بلاکر کہا تم جہاں بھی جانا چاہتے ہو چلے جاو لیکن اسلام قبول کرلو تو (تمہارے لئے) بہتر ہے اعرابی ایمان لایا اور اس نے کہا میں تلوار سے نہیں ڈرا لیکن جب میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو مجھ پر ضعف اور خوف طاری ہوگیا، آپ تو میرے ضمیر و ارادہ سے آگاہ ہوگئے حالانکہ ابوسفیان اور میرے علاوہ کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی، کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت حاصل کی اور مکہ واپس چلا گیا _(۱)

اس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو اور درگذر کی بناپر ایک جانی دشمن کیلئے ہدایت کا راستہ پیدا ہوگیا اور وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شامل ہوگیا_

یہودیہ عورت کی مسموم غذا

امام محمد باقرعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ایک یہودی عورت نے ایک گوسفند کی ران کو زہرآلود کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے پیش کیا ، لیکن پیغمبر نے جب کھانا چاہا تو گوسفند نے کلام کی اور کہا اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مسموم ہوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ کھائیں _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے دل میں یہ سوچا تھا کہ

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص۱۵۱)_

۱۵۴

اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ہیں ، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زہر نقصان نہیں کریگا اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر نہیں ہیں تو لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھٹکارا مل جائیگا، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو معاف کردیا _(۱)

علیعليه‌السلام اور ابن ملجم

حضرت علیعليه‌السلام اگرچہ ابن ملجم کے برے ارادہ سے واقف تھے لیکن آپعليه‌السلام نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا اصحاب امیر المؤمنینعليه‌السلام کو اس کی سازش سے کھٹکا تھا انہوں نے عرض کی کہ آپعليه‌السلام ابن ملجم کو پہچانتے ہیں اور آپعليه‌السلام نے ہم کو یہ بتایا بھی ہے کہ وہ آپ کا قاتل ہے پھر اس کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ آپعليه‌السلام نے فرمایا: ابھی اس نے کچھ نہیں کیا ہے میں اسکو کیسے قتل کردوں ؟ ماہ رمضان میں ایک دن علیعليه‌السلام نے منبر سے اسی مہینہ میں اپنے شہید ہوجانے کی خبر دی ابن ملجم بھی اس میں موجود تھا، آپعليه‌السلام کی تقریر ختم ہونے کے بعد آپعليه‌السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے دائیں بائیں ہاتھ میرے پاس ہیں آپعليه‌السلام حکم دےدیجئے کہ میرے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں یا میری گردن اڑادی جائے _

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا: تجھ کو کیسے قتل کردوں حالانکہ ابھی تک تجھ سے کوئی جرم نہیں سرزد ہوا ہے_(۲)

___________________

۱) (حیات القلوب ج۲ ص ۱۲۱)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۱ ص ۲۷۱ ، ۲۶۸)_

۱۵۵

جب ابن ملجم نے آپعليه‌السلام کے سرپر ضربت لگائی تو اسکو گرفتار کرکے آپعليه‌السلام کے پاس لایا گیا آپعليه‌السلام نے فرمایا: میں نے یہ جانتے ہوئے تیرے ساتھ نیکی کہ تو میرا قاتل ہے ، میں چاہتا تھا کہ خدا کی حجت تیرے اوپر تمام ہوجائے پھر اس کے بعد بھی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا_(۱)

سختی

اب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ (علیہم السلام)کے دشمن پر عفو و مہربانی کے نمونے پیش کئے گئے ہیں اور یہ مہربانیاں ایسے موقع پر ہوتی ہیں جب ذاتی حق کو پامال کیا جائے یا ان کی توہین کی جائے اور ان کی شان میں گستاخی کی جائے، مثلا ً فتح مکہ میں کفار قریش کو معاف کردیا گیا حالانکہ انہوں نے مسلمانوں پر بڑا ظلم ڈھایا تھا لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ مومنین کے ولی ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق حاصل ہے ، اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی معاشرہ کی مصلحت کے پیش نظر بہت سے مشرکین کو معاف فرمادیا تو بعض مشرکین کو قتل بھی کیا ، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ معاف کردینے اور درگذر کرنے کی بات ہر مقام پر نہیں ہے اس لئے کہ جہاں احکام الہی کی بات ہو اور حدود الہی سامنے آجائیں اور کوئی شخص اسلامی قوانین کو پامال کرکے مفاسد اور منکرات کا مرتکب ہوجائے یا سماجی حقوق اور مسلمانوں

___________________

۱) (اقتباس از ترجمہ ارشاد مفید رسول محلاتی ص ۱۱)

۱۵۶

کے بیت المال پر حملہ کرنا چاہے کہ جس میں سب کا حق ہے تو وہ معاف کردینے کی جگہ نہیں ہے وہاں تو حق یہ ہے کہ تمام افراد پر قانون کا اجرا ہوجائے چاہے وہ اونچی سطح کے لوگ ہوں یا نیچی سطح کے ، شریف ہوں یا رذیل_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ( والحافظون لحدود الله ) (۱) (حدود و قوانین الہی کے جاری کرنے والے اور انکی محافظت کرنے والے) کے مکمل مصداق ہیں_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی اور حضرت علیعليه‌السلام کے دور حکومت میں ایسے بہت سے نمونے مل جاتے ہیں جن میں آپ حضرات نے احکام الہی کو جاری کرنے میں سختی سے کام لیا ہے معمولی سی ہی چشم پوشی نہیں کی _

مخزومیہ عورت

جناب عائشہ سے منقول ہے کہ ایک مخزومی عورت کسی جرم کی مرتکب ہوئی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اسکا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر ہوا ، اس کے قبیلہ والوں نے اس حد کے جاری ہونے میں اپنی بے عزتی محسوس کی تو انہوں نے اسامہ کو واسطہ بنایا تا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کردہ ان کی سفارش کریں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اسامہ، حدود خدا کے بارے میں تم کو ئی بات نہ کرنا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ میں فرمایا: خدا کی قسم تم سے پہلے کی امتیں اس لئے ہلاک

___________________

۱) (سورہ توبہ ۱۱۲) _

۱۵۷

ہوگئیں کہ ان میں اہل شرف اور بڑے افراد چوری کیا کرتے تھے ان کو چھوڑدیا جاتا تھا اگر کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر حکم خدا کے مطابق حد جاری کرتے تھے ، خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس جرم کی مرکتب ہو تو بھی میرا یہی فیصلہ ہوگا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمائی(۱)

آخرمیں خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ وہ ہم کو رحمة للعالمین کے سچے پیروکاروں میں شامل کرے اور یہ توفیق دے کہ ہم( والذین معه اشداء علی الکفار و رحماء بینهم ) کے مصداق بن جائیں، دشمن کے ساتھ سختی کرنیوالے اور آپس میں مہر و محبت سے پیش آنیوالے قرار پائیں _

___________________

۱) (میزان الحکمہ ج۲ ص ۳۰۸)_

۱۵۸

خلاصہ درس

۱) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کاایک تربیتی درس یہ بھی ہے کہ بدزبانی کے بدلے عفو اور چشم پوشی سے کام لیا جائے_

۲ ) نہ صرف یہ کہ ائمہ معصومین ہی پسندیدہ صفات کی بلندیوں پر فائز تھے بلکہ آپعليه‌السلام کے مکتب اخلاق و معرفت کے تربیت یافتہ افراد بھی شرح صدر اور مہربان دل کے مالک تھے، کہ ناواقف اور خودغرض افراد کے ساتھ مہربانی اور رحم و مروت کا سلوک کیا کرتے تھے_

۳) جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کے اوپر ظلم کیا ان کو بھی ان بزرگ شخصیتوں نے معاف کردیا ، یہ معافی اور درگزر کی بڑی مثال ہے _

۴ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کے عفو کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپ حضرات نے ان لوگوں کو بھی معاف کردیا جن لوگوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تھی_

۵ ) قابل توجہ بات یہ ہے کہ معافی ہر جگہ نہیں ہے اس لئے کہ جب احکام الہی کی بات ہو تو اور حقوق الہی پامال ہونے کی بات ہو اور جو لوگ قوانین الہی کو پامال کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے معافی کو کوئی گنجائشے نہیں ہے بلکہ عدالت یہ ہے کہ تمام افراد کے ساتھ قانون الہی جاری کرنے میں برابر کا سلوک کیا جائے_

۱۵۹

سوالات

۱ _ وہ اعرابی جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ طلب کررہا تھا اس کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا تفصیل سے تحریر کیجئے؟

۲_ امام زین العابدینعليه‌السلام کی جس شخص نے امانت کی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو کب معاف فرمایا؟

۴ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین ( علیہم السلا م) جب سازشوں سے واقف تھے تو انہوں نے سازش کرنیوالوں کو تنبیہ کاکوئی اقدام کیوں نہیں کیا ، مثال کے ذریعہ واضح کیجئے؟

۵ _ جن جگہوں پر قوانین الہی پامال ہورہے ہوں کیاوہاں معاف کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟ مثال کے ذریعہ سمجھایئے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311