رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر25%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 202772 / ڈاؤنلوڈ: 5565
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

خان ے م یں ان کی کوئی نہ کوئ ی جلد او رنسخہ موجود ہے ۔

چنانچہ اگر فقہ ک ی استدلالی کتابوں اور عمل یہ رسائل کامطالعہ ک یجئے تو آپ دیکھیں گے ک ہ علاو ہ اس ک ے ک ہ کوئ ی شرک کاطریقہ موجود نہیں ہے ،احکام ب ھی مہ مل اور ب ے قاعد ہ ن ہیں ہیں بلکہ فق ہ جعفر ی کے باطن س ے توح ید کا لب لباب ظاہ ر و آشکار ہے ۔

شرح لمعہ اور شرائع الاسلام سار ے کتب خانو ں م یں موجود ہیں ان کامطالعہ ک یجیے تو اسی باب نذر میں نیز جملہ فق ہ ائ ے ش یعہ کے عمل یہ رسالوں م یں ملے گا ۔ نذر چونک ہ خدا ک ے لئ ے کس ی عمل کو اپنے اوپر لازم کرن ے ک ی وجہ س ے ابواب عبادت م یں سے ا یک باب ہے ل ہ ذا اس ک ے لئ ے حت می طور پر دو شرطوں کا لحاظ رک ھ نا ضرور ی ہے ۔ ک یونکہ اگر ان دونوں م یں سے کوئ ی مفقود ہ وگ ی تو نذر منعقد نہ ہ وگ ی ،اول:- نیت متصل بہ عمل ، اور دوسر ی :- صیغہ چاہے و ہ جس زبان م یں ہ و ۔

جب مسلمان یہ سمجھ ل ے گا ک ہ اس ک ی نذر بغیر ان دو شرطوں ک ے صح یح نہ ہ وگ ی تو کوشش کرے گا ک ہ پ ہ ل ے ان دونو ں کامطلب اور نوع یت سمجھ ل ے اس ک ے بعد نذر کر ے جس وقت کس ی فقیہ سے سوال کر ے گا یا کوئی رسالہ پ ڑھے گا تو اس کو معلوم ہ وگا ک ہ اولا سار ی عبادتوں م یں بالخصوص نذر میں نیت اللہ ک ے بار ے م یں اور اللہ ک ی خوشنودی حاصل کرنے ک ے لئ ے ہ ونا چا ہ ئ یے لہ ذا غ یر خدا کے لئ ے ن یت کا سوال یہ ختم ہ و جاتا ہے ۔

دوسری شرط جو پہ ل ی شرط کا تتمہ ہے اور اس کو مضبوط کرن ے وال ی ہے ، یہ ہے ک ہ نذر کن ے وال ے کو نذر ک ے وقت ص یغہ پڑھ نا لازم ی ہے اور ص یغہ میں جب تک خدا کا نا م نہ ہ و ص یغہ جاری نہیں ہ وتا ،مثلا روز ے ک ی نذر کرنا چاہ تا ہے ۔ تو ک ہے "لل ہ عل یّ ان اصوم"

یا شراب ترک کرنا چاہ تا ہے تو ک ہے "لل ہ عل یّ ان اترک شرب الخمر" اور اسی طریقے سے دوسر ی نذریں ہیں۔

اگر فارسی یا اردو وغیرہ بولنے وال ے ک ے لئ ے عرب ی صیغہ جاری کرنا آسان نہ ہ و تو ہ ر قوم والا اپن ی زبان میں صیغہ جاری کر سکتا ہے اس شرط س ے ک ہ ا س ک ے معن ی مذکورہ ص یغہ سے مطابق ہ و ں ، اور اگر ن یت میں غیر خدا ہ و یا کسی اور زندہ یا مردہ کو خدا ک ے نا م ک ے سات ھ شامل کر لے ۔ چ ہ ل ہے پ یغمبر یا امام یا امام زادے ہی کا نام ہ و تو قطعا و ہ نذر باطل ہے اور اگر عمدا جان بوج ھ کر ا یسا کرے تو مشرک ہے ک یونکہ مذکورہ آ یت میں کھ لا ہ و ا ارشاد ہے "ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا" البت ہ ا ہ ل علم پر لازم ہے ک ہ نا واقف لوگو ں کو سمج ھ ا ئ یں کہ ن ذر قطعا خدا کے نام پر اور خدا ہی کے لئ ے ہ ونا چا ہیئے ،چنانچہ واعظ ین اور مبلغین برابر اپنا فرض انجام دیتے رہ ت ے ہیں ۔ اور ش یعہ فقہ ا عموما ب یان کیا کرتے ہیں کہ نذر ہ ر زند ہ یا مردہ ک ے لئ ے چا ہے و ہ پ یغمبر یا امام ہی ہ و باطل ہے اور اگر سمج ھ ک ے عمدا ا یسا کرے ت و مشرک ہے ۔

۸۱

نذر صرف خدا کے لئ ے کر یں اس کے مصرف ک ے تع ین میں اختیار ہے ۔ مثلا نذر کر ے ک ہ خدا ک ے لئ ے کوئ ی گوسفند فلاں مکان یا عبادت خانے یا بقعہ امام وغ یرہ میں لے جا کر قربان ی کرے گا ۔یا کوئی رقم یا لباس خدا کے لئ ے فلا ں س یّد یا عالم یا یتیم یا فقیر کو دے گا تو کوئ ی حرج ن ہی ں ہے ،ل یکن اگر پیغمبر یا امام یا امام زادہ یا عالم یا یتیم یا محتاج وغیرہ کے لئ ے نذر کر ے تو حتما باطل ہے اور علم وقصد ک ے سات ھ قطعا شرک ہے ۔ ہ ر رسول ،فق یہ ،عالم، واعظ اور مبلغ کا فرض لکھ نا اور ب یان کرنا ہے "وما علی الرسول الا البلاغ" یعنی پیامبر پر سوا مکمل طریقے سے پ ہ نچا د ینے کے اور کوئ ی ذمہ دار ی نہیں ہے ۔ سور ہ نور آ یت 54۔

اور لوگوں کا فرض سننا اور عمل کرنا ہے اگر کوئ ی شخص یا اشخاص احکام دین کے س یکھ ن ے اور سکھ ان ے ک ی کوشش نہ کر یں اور ہ دا یات کے مطابق اپن ے مذ ہ ب ی فرائض پر عمل نہ کر یں تو ان کے اصل عق یدے اور اصول وقواعد میں کوئی نقص نہیں پیدا ہ وتا ۔

میرا خیال ہے ک ہ اس ی قدر جواب سے حق یقت ظاہ ر ہ وگئ ی ہ وگ ی اور اس کے بعد آپ حضرات ش یعوں کو مشرک کہہ کر عوام کو غلط ف ہ م ی میں مبتلا نہ کر یں گے ۔

شرک خفی

بہ تر ہے ک ہ ہ م لوگ پ ہ ل ی گفتگو کی طرف رجوع کریں اور مطلب پورا کریں ۔ دوسر ی قسم شرک خفی و پوشیدہ ہے اور و ہ شرک در اعمال اور طاعات وعبادات میں رہ ا ہے اس قسم ک ے شرک اور شرک در عبادت ک ے درم یان جس کو ہ م ن ے شرک جل ی میں شمار کیا ہے فرق یہ ہے ک ہ بند ہ سرک عب ادت میں خدا کے لئ ے شر یک قرار دیتا ہے اور مقام عبادت م یں اس کی پر ستش کرتا ہے ،مثلا اگر نماز یمں غیر خدا کو مد نظر رکھے جیسے شیاطین کے ب ہ کان ے س ے مقام ولا یت کی صورت نگاہ م یں لائے یا کسی مرشد کو مر کز توجہ بنائ ے تو قطعا و ہ عمل باطل اور شرک خف ی ہے ، عبادت میں سوا ذات وحدہ لاشر یک کے انسان ک ے ذ ہ ن وفکر م یں اور کسی کو دخل نہ ہ ونا چا ہیئے ورنہ شرک جل ی میں داخل ہ وجاتا ہے ۔

حضرت رسول خدا(ص) سے مرو ی ہے ک ہ فرما یا "یقول الله تعالی من عمل عملا صالحا اشرک فیه غیری فهو له کله وانا منه برئ وانا اغنی الاعنیاء عن الشرک" یعنی خدائے تعال ی فرماتا ہے ک ہ جو شخص کوئ ی نیک عمل کرے اور اس م یں میرے غیر کو شریک کرلے تو سارا عمل اس ی کے لئ ے ہے اور م یں اس (عمل یا عامل) سے ب یزار ہ و ں اور م یں تمام اغنیا سے ز یادہ شک سے غن ی ہ و ں۔

۸۲

ن یز روایت میں ہے ک ہ ارشاد فرما یا جو شخص نماز پڑھے یا روزہ رک ھے یا حج کرے اور اس کا نظر یہ یہ ہ و ک ہ لوگ اس عمل پر اس ک ی مدح کریں "فقد اشرک فی عملہ "تو یقینا اس نے ا س عمل میں خدا کے لئ ے شر یک قرار دیا۔

نیز کاشف اسرار حقائق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے ک ہ "لو ان عبدا عمل عملا یطلب به رحمة الله والدار الآخرة ثم ادخل فیه رضا احد من الناس کان مشرکا" (یعنی اگر کوئی بندہ رحمت خدا اور جزائ ے آخرت ک ی طلب میں کوئی عمل کرے اور اس م یں کسی انسان کی رضامندی کو شامل کرے تو و ہ عامل مشرک ہ و جائ ے گا) ۔

شرک خفی کا دامن بہ ت وس یع ہے ک یونکہ کسی عمل میں غیر خدا کی طرف ایک مختصر سی توجہ ب ھی مشرک بنا دیتی ہے ۔

شرک در اسباب

اس شرک کی قسموں م یں سے ا یک شرک در اسباب ہے ج یسا کہ اکثر لوگ صرف اسباب اور خلق پر ام ید وخوف کی نظر رکھ ت ے ہیں ، یہ بھی شرک ہے ل یکن شرک در اسباب سے مراد یہ ہے ک ہ اسباب ہی میں اثر سمجھے مثلا آفتاب اش یا کی تربیت میں اثر انداز ہ وتا ہے اگر اس اثر کو ب غیر مؤثر حقیقی کی طرف توجہ کئ ے ہ وئ ے خود آفتاب کی جانب سے سمج ھیں تو شرک ہے اور اگر اس کا مؤثر حک یم مطلق کو اور آفتاب کو فیض رسانی کا ذریعہ جانیں تو ہ رگز شرک ن ہیں ہے ،بلک ہ یہ تو ایک طرح کی عبادت ہے ک یونکہ حق کی نشانیوں پر توجہ کرنا خود حق ک ی طرف توجہ کرنے کا پ یش خیمہ ہے ؛ج یسا کہ قرآن مج ید کی بہ ت س ی آیتوں میں اس امر کی جانب اشارہ موجود ہے ک ہ آ یات الہی پر غور کرو اس لئے ک ہ فکر ونظر خود خدائ ے تعال ی کی طرف توجہ کا مقدم ہ ہے ۔

اسی طرح اسباب میں سے ہ ر سبب ک ی طرف جیسے تاجر کی تجارت کی طرف ،کاشتکار کی زراعت کی طرف ،باغبان کی باغبانی کی طرف ،پیشہ ور کی پیشہ ور کی طرف اور منتظم کی اپنے انتظام ک ی طرف یہ ا ں تک کہ کس ی قسم کا کام کرنے وال ے ک ی اپنے شغل اور عمل ک ی طرف مستقل اور خاص توجہ مشرک بناد یتی ہے اور اگر سبب و اسباب پر اس ک ی نظر اس نیت سے ہ و ک ہ "لا مؤثر ف ی الوجود الا اللہ " یعنی اثر دینے والا سوا خدا کے کوئ ی اور نہیں ہے تو کوئ ی قباحت نہیں ہے اور شرک ن ہ ہ وگا ۔

شیعہ کسی پہ لو س ے مشرک ن ہیں

اس مختص تمھید کے بعد جس س ے مطلب واضح ہ وگ یا ہے اور ہ م اصول شرک اور اس ک ے معان ی وآثار بیان کرچکے ہیں ، اب اجازت دیجئے کہ اپن ے ب یانات سے نت یجہ نکالیں اور دیکھیں کہ ہ م ن ے شرک جل ی و خفی کے جو طر یقے بیان

۸۳

کئے ہیں ان میں سے کس ک ے ماتحت آپ ش یعوں کو مشرک کہ ت ے ہیں ۔ آ یا کہ ا ں اور کس پ ڑھے لک ھے یا جاہ ل ش یعہ سے آپ ن ے سنا ہے ک ہ و ہ خدائ ے تعال ی کی ذات وصفات اور افعال میں کسی شریک کا قائل ہ و؟ یا پروردگار کی عبادت میں کسی دوسرے معبود کو پ یش نظر رکھ تا ہ و ؟ یا شیعوں کی کونسی کتب اور اخبار واحادیث میں دیکھ ا ہے ک ہ اصول وفروع اور عقائد ک ے بار ے م یں ان بزرگان دین اور ائمہ طا ہ ر ین سے کوئ ی ایسی بات یا حکم منقول ہ و جو شرک ک ے ان طر یقوں سے ملتا ہ و جو م یں نے عرض ک یئے ؟۔

اب رہ ا شرک خف ی اور اس کے اقسام ج یسے لوگوں کو دک ھ ان ے اور ان کو متاثر کرن ے ک ے لئ ے کوئ ی عمل کریں یا اسباب سے ربط او ر ام ید قائم کریں تو یہ بات تنہ ا ش یعوں سے مخصوص ن ہیں ہے بلک ہ ش یعہ اور سنی سبھی عالم اجسام میں گرفتار ہیں اور بہ ت س ے عقل ومعرف ت ،تزکیہ نفس اور کامل توجہ ن ہ ہ ون ے ک ی وجہ س ے کب ھی کبھی شیطان کے وسوسو ں م یں مبتلا ہ و کر ر یائی عمل کرتے ہیں ،یا سرتا پا اسباب میں محو ہ وجات ے ہیں اور حق کی اطاعت سے ہٹ کر اطاعت ش یطان کرنے لگت ے ہیں اور جیسا عرض کیا جاچکا ہے اگر چ ہ یہ طرز عمل شرک ک ے مف ہ وم م یں آجاتا ہے ل یکن شرک مغفور ہے اور یقینا معانی اور چشم پوشی کے قابل ہے ک یونکہ تھ و ڑی روحانی توجہ س ے اس ک ی تلافی ہ وجات ی ہے ۔ پ ھ ر آپ کس پ ہ لو س ے ش یعوں کو مشرک سمجھ ت ے ہیں ؟ اور عوام کو دھ وک ے م یں ڈ الت ے ہیں ،جیسا کہ ف ی الحال آپ نے اشار ہ ک یا ہے ۔

حافظ:- آپ کی ساری باتیں صحیح ہیں لیکن میں نے عرض ک یا کہ اگر آپ غور فرمائ یے تو خود تصدیق کیجئے گا کہ امامو ں س ے حاجت طلب کرنا اور ان کا وس یلہ اختیار کرنا شرک ہے چونک ہ ہ م ک و انسانی واسطے ک ی ضرورت نہیں ہے ل ہ ذا جب ب ھی خدا کی طرف توجہ کر یں گے نت یجہ حاصل ہ وجائ ے گا ۔

خیرطلب :- بڑے تعجب کا مقام ہے ک ہ آپ کا ا یسا منصف اور ہ وش یار عالم کیونکر بغیر تحقیق کے اپن ے اسلاف ک ی عادتوں ک ے ز یر اثر رہ کر ا یسے بیان دیتا ہے ،غالبا آپ سور ہے ت ھے یا میری گزارشوں ک ی طرف کوئی توجہ ن ہیں تھی کہ ان مقدمات کو ذکر کرن ے کا اور مطالب ک ی تشریح کردینے کے بعد ب ھی آپ یہ بات دہ را ر ہے ہیں کہ امامو ں س ے حاجت چا ہ نا شرک ہے ۔

جناب محترم! کیا مطلقا مخلوقات سے حاجت طلب کرنا شرک ہے ؟ اگر ایسا ہے تو سارا عالم مشرک ہے اور کب ھی کوئی موحد مل نہیں سکتا ۔ اگر خلق س ے حاجت چا ہ نا اور ان س ے مدد ک ی خواہ ش کرنا شرک ہے تو انب یاء کس لئے خلائق س ے امداد مانگت ے ت ھے ؟ ب ہ تر ہ و گا ک ہ آپ ح ضرات کسی قدر قرآن مجید کی آیتوں پر بھی غورفرمائیں تاکہ حق یقت واضح ہ وجائ ے ۔

۸۴

آصف بن برخیا کا سلیمان کے پاس تخت بلق یس لانا

ضرورت ہے ک ہ سور ہ نمبر27(نمل)ک ی آیات نمبر 38 تا 40 پر توجہ فرمائ یے جن میں ارشاد ہے " قَالَ يَا أَيُّهَا المَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ٭ قَالَ عِفْريتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ ٭ قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرّاً عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ ٭ "( یعنی جناب سلیمان نے حاضر ین مجلس سے ک ہ ا ک ہ تم م یں سے کون شخص بلق یس کا تخت میرے پاس لائے گا ، قبل اس ک ے ک ہ و ہ لوگ م یرے سامنے اطاعت گزار بن ک ے آئ یں ؟ جنا ت میں سے ا یک دیو بولا کہ م یں اس کا تخت لے آن ے پر ا یسا قادر اور امین ہ و ں ک ہ آپ ک ے دربار س ے ا ٹھ ن ے س ے پ ہ ل ے ہی لا کر حاضر کردوں گا ، اس شخص ن ے جس کو ت ھ و ڑ ا سا علم کتاب معلوم ت ھ ا ( یعنی آصف بن برخیا جو اسم اعظم جانتے ت ھے ) ک ہ ا ک ہ م یں آپ کی پلک جھ پکن ے سے قبل اس کو یہ ا ں لے آؤ ں گا ۔ جب سل یمان نے و ہ تخت اپن ے پاس د یکھ ا تو کہ ا ۔ یہ طاقت میرے پروردگار کے فضل س ے ہے ۔۔ ال ی آخر) بدیہی چیز ہے ک ہ بلق یس کا اتنا بڑ ا تخت اتن ی طویل مسافت سے پلک ج ھ پکن ے س ے قبل سل یمان کے پاس ل ے آنا عاجز مخلوق کا کام ن ہیں ہے اور مسلّم ہے ک ہ ا یک خلاف عادت امر ہے ل یکن حضرت سلیمان نے یہ سمجھ ت ے ہ وئ ے ب ھی کہ یہ کام خدائی قدرت چاہ تا ہے تخت منگوان ے ک ی درخواست خدا سے ن ہیں کی بلکہ ا یک عاجز مخلوق سے حاجت روائ ی اور امداد کی خواہ ش ک ی اور اہ ل دربار س ے فرمائش ک ی کہ و ہ ع ظیم الشان تخت میرے لئے منگوادو، ل ہ ذا خود جناب سل یمان کا عاجز بندوں س ے یہ تقاضا کرنا کہ تم م یں سے کون اپن ی خدا داد قوت سے یہ کام انجام دے سکتا ہے اور تخت بلق یس کو اس کے آن ے س ے پ ہ ل ے م یرے سامنے حاضر کرسکتا ہے ؟ اس بات کا ثبوت ہے ک ہ مخلوق س ے مطلق حاج ت چاہ نا شرک ن ہیں ہے ۔ خدا ن ے دن یا کو عالم اسباب قرار دیا ہے ۔ شرک ب ھی ایک قلبی امر ہے اگر اس شخص کو جس س ے حاجت طلب کر رہ ا ہے خدا یا خدا کا شریک نہ سمج ھے تو اس س ے مدد ل ینے میں کبھی کوئی حرج نہیں جیسا کہ عام طور پر لوگو ں م یں رواج ہے ک ہ ہ م یشہ زید ،عمر وبکر کے درواز ے پر جاکر بغ یر خدا کا نام زبان پر جاری کئے ہ وئ ے امداد کا تقاضا کرت ے ہیں ۔

چنانچہ اگر کوئی مریض طبیب اورڈ اک ٹ ر ک ے درواز ے پر جاکر ک ہے ک ہ ڈ اک ٹ ر صاحب م یری فریاد کو پہ نچئ ے ،ب یماری مجھ کو مار ے ڈ الت ی ہے تو ک یا یہ مریض مشرک ہے ؟ ۔

اگر کوئی دریا میں ڈ وبن ے والا ہ و فر یاد کرے ک ہ لوگو م یری مدد کو پہ نچو اور مج ھ کو بچاؤ اور خدا کا نام ن ہ ل ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟ ۔

۸۵

اگر کسی ظالم نے کس ی بے گنا ہ مظلوم کا پ یچھ ا کیا اور اس نے وز یر اعظم کے در پر جا ک ے ک ہ ا جناب وز یر صاحب میری فریاد رسی کیجئے ۔ م یں آپ کا دامن نہ چ ھ و ڑ و ں گا ک یونکہ مجھ کو سوا آپ ک ے اور کس ی سے ام ید نہیں جو مجھ کو اس ظالم ک ے پنج ے س ے چ ھٹ کارا دلائ ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟ ۔

اگر کسی کے گ ھ ر کوئ ی چور جان یا مان یا عزت کے قصد س ے داخل ہ وا اور و ہ کو ٹھے پر چ ڑھ ک ے اپن ے پ ڑ وس یوں کو مدد کے لئ ے پکار ے اور رسما ک ہے ک ہ لوگو م یری مدد کو دوڑ و اور اس چور س ے بچاؤ ل یکن اس وقت خدا کا نا بالکل نہ ل ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟

قطعا جواب نفی میں ہ وگا اور کوئ ی عقلمند آدمی ایسے کو مشرک نہیں کہے گا بلک ہ جو لوگ مشرک ک ہیں وہ یا تو بیوقوف ہیں یا پھ ر ان ک ی کوئی غرض ہے ۔

محترم حضرات ! انصاف کیجئے اور غلط فہ م ی نہ پ ھیلائے ، بالعموم سارے ش یعہ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئ ی شخص آل محمد کو خدا سمجھے یا ان کو خدائی ذات وصفات او رافعال میں شریک جانے تو و ہ قطع ی مشرک ہے ۔ اور ہ م لوگ اس س ے ب ے ب یزاری اختیار کرتے ہیں ۔ اگر آ پ نے مص یبتوں میں شیعوں کو" یا علی ادرکنی " یا حسین ادرکنی" کہ ت ے ہ وئ ے سنا ہے تو اس ک ے معن ی یہ نہیں ہیں کہ " یا علی اللہ ادرکن ی" یا حسین اللہ ادرکن ی" بلکہ دن یا چونکہ دار اسباب ہے ک یونکہ "ابی الله ان یجری الامور الا باسبابها" یعنی اللہ ن ے امور کو ب غیر ان کے اسباب نافذ کرن ے س ے انکار ک یا ہے (مترجم)۔ ل ہ ذا ش یعہ اس خاندان جلیل کو وسیلہ اور اسباب نجات سمجھ ت ے ہیں اور انہیں حضرات کے ذر یعے سے خدا تک رسائ ی کی کوشش کرتے ہیں ۔

حافظ:- مستقل طور پر خدا ہی سے ک یوں حاجت طلب نہیں کرتے ک ہ وس یلہ اور واسطہ ک ے پ یچھے دوڑ ر ہے ہیں ؟

خیر طلب :-طلب حاجات اور رنج وغم کے دف یعہ میں ہ مار ی مستقل توجہ پروردگار ہی کی یکتاذات سے مخصوص ہے ل یکن قرآن مجید جو ایک محکم آسمانی کتاب ہے ہ م کو ہ دا یت کررہ ا ہے ک ہ خدا ک ی جلیل بارگاہ م یں وسیلے کے سات ھ حاضر ہ ونا چا ہ ئ یے چنا نچہ سور ہ نمبر 5 (مائد ہ )آ یت نمبر36 میں ارشاد ہ وتا ہے "یا ایهاالذین آمنوا اتقوالله وابتغوه الیه الوسیلة" (یعنی اے ا یمان والو خدا سےڈ رو اور اس ک ی بارگاہ م یں پہ نچن ے ک ے لئ ے (اول یائے حق کا) وسیلہ اختیار کرو (تاکہ مطلب برآئ ے ) ۔

آل محمد (ع)فیض الہی کے ذر یعے ہیں

ہ م شیعہ اہ ل ب یت طاہ ر ین علیھ م السلام کو امور کے حل وعقد م یں قادر مطلق نہیں سمجھ ت ے بلک ہ ان حضرات کو خط ک ے صالح بند ے اور ف یض خداوندی کاواسطہ جانت ے ہیں اور اس جلیل القدر خاندان کے سات ھ ہ مارا توسل رسول الل ہ

۸۶

ک ے حکم س ے ہے ۔

حافظ:- کس مقام پر رسول اکرم (ص) نے ان س ے توسل اخت یار کرنے کا حکم د یا ہے اور ک ہ ا ں س ے معلوم ہ و ا ک ہ واسط ے س ے مراد آل محمد (ص) ہیں ؟ ۔

خیرطلب :-بکثرت حدیثوں میں حکم دیا ہے ک ہ خطرات اور م ہ لکو ں س ے نجات حاصل کرن ے ک ے لئ ے م یری عزت اور اہ ل ب یت سے متوسل ہ و ۔

حافظ:- یا یہ ممکن ہے ؟ اگر ا یسی حدیثیں آپ کی نظر میں ہیں تو ہ مار ے سامن ے ب ھی بیان فرما دیجیئے۔

خیرطلب :-آپ نے جو یہ فرمایا کہ ک ہ ا ں س ے معلوم ہ و ا ک ہ وس یلے سے مراد عترت اور ا ہ ل ب یت پیغمبر (ع) ہیں ؟ تو آپ کے اکابر علماء ج یسے حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی "نزول القرآن فی علی " میں حافظ ابو بکر شیرازی "ما نزل من القرآن فی علی "میں اور امام احمد ثعلبی اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ آ یہ شریفہ میں وسیلہ سے مراد عترت و ا ہ ل ب یت رسول(ع)ہیں ۔ چنانچ ہ علماء م یں سے شرح ن ہ ج البلاغ ہ جلد چ ہ ارم صفح ہ 79 م یں حضرت صدیقہ کبری فاطمہ ز ہ را سلام الل ہ عل یھ ا کا وہ خطب ہ نقل ک یا ہے جو جناب معصوم ہ ن ے قض یہ فدک کے سلسل ے م یں مہ اجر ین انصار کے سامن ے ارشاد فرما یا تھ ا چنانچ ہ خطب ے ک ے شروع ہی میں ان مظلومہ ن ے مندرج ہ ذ یل عبارت کے سات ھ اس آ یت کے معن ی کی طرف اشارہ فرما یا ہے "واحمدالل ہ الذ ی بعظمتہ ونور ہ یبتغی من فی السموات والارض الیہ الوسیلۃ ونحن وسیلتہ فی خلقہ "( یعنی میں حمد کرتی ہ و ں اس خدا ک ی جس کی عظمت اور نور کی وجہ س ے آسمانو ں اور زم ینوں کے ر ہ ن ے وال ے اس ک ی طرف وسیلہ تلاش کر تے ہیں ، اور ہ م ہیں اس کا وسیلہ مخلوقات کے اندر ۔

حدیث ثقلین

عترت رسول اور اہ لب یت طاہ ر ین علیھ م السلام سے تمسک و توسل اور ان ک ی پیروی کے جواز پر مضبوط دل یلوں میں سے ا یک حدیث ثقلین بھی ہے جو فر یقین کے نزد یک صحیح اسناد کے سات ھ توا تر ک ی حد تک پہ نچ ی ہ وئ ی ہے ک ہ رسول الل ہ (ص) س ے ارشاد فرمایا "ان تمسکتم بهما لن تضلوا بعدی" (یعنی اگر ان کے سات ھ تمسک رک ھ و گ ے تو م یرے بعد ہ رگز گمرا ہ ن ہ ہ وگ ے ) ۔

حافظ:- میرا خیا ل ہے ک ہ آپ ن ے د ھ وکا ک ھ ا یا ہے جو اس حد یث کو صحیح الاسناد اور متواتر کہہ د یا ہے ۔ اس لئ ے ک ہ یہ مقصد ہ مار ے اکابر علماء ک ے نزد یک غیر معلوم ہے اور اس بات پر دل یل یہ ہے ک ہ ہ مار ے ش یخ بزرگ اور مذہ ب

۸۷

سنت وجماعت ک ے قبل ہ وکعب ہ محمد بن اسماع یل بخاری نے اپن ی معتبر صحیح میں جو قرآن کریم کے بعد تمام کتابو ں س ے ز یادہ صحیح ہے اس کا ذکر ن ہیں کیا ہے ۔

خیر طلب :-اول تو یہ کہ م یں نے د ھ وکا ن ہیں کھ ا یا ہے بلک ہ اس حد یث مبارک کا صحیح اور معتبر ہ و نا آپ ک ے علماء ک ے نزد یک مسلم ہے یہ ا ں تک کہ ابن حجر مک ی نے اتن ے سخت تعصب ک ے بعد اس ک ی صحت کا اعتراف کیا ہے ۔ ضرورت ہے ک ہ اپن ے ذ ہ ن کو روشن کرن ے ک ے لئ ے صواعق محرق ہ فصل دوم با ب 11 ذیل آیہ چہ ارم صفح ہ 89-90 ک ی طرف رجوع کیجئے جہ ا ں و ہ ترمذ ی ،امام احمد بن جنبل ،طبرانی ،اور مسلم سے روا یتیں نقل کرنے ک ے بعد ک ہ ت ے ہیں "اعلم ان لحدیث التمسک با الثقلین طرقا کثیرۃ و وردت من نیف و عشرین صحابیا "(یعنی جان لو کہ ثقل ین (عترت رسول اور قرآن مجید)سے تمسک کرن ے ک ی حدیث بہ ت طر یقوں سے مرو ی ہے یہ بیس سے ز یادہ اصحاب رسول (ص)سے نقل ہ وئ ی ہے ) ۔

پھ ر کہ ت ے ہیں کہ حد یث کے طرق م یں تھ و ڑ ا سا اختلاف ہے کس ی میں کہ ت ے ہیں کہ حج ۃ الوداع میں عرفات کے اندر ، کس ی میں مرض الموت کے عالم م یں مدینے کے اندر جب حجر ہ صحاب ہ س ے ب ھ را ہ وا ت ھ ا کس ی ،میں ملتا ہے غد یر خم کے اندر اور کس ی میں درج ہے ک ہ طائف س ے وا پسی کے بعد کا ذکر ہے اس ک ے بعد خود ہی تبصرہ کرت ے ہ وئ ے ک ہ ت ے ہیں کہ ان اختلافات م یں کوئی منافات نہیں ہے اور بلکل ممکن ہے ک ہ رسول اکرم (ص)نے قرآن کر یم اور عترت طاہ ر ہ ک ی عظمت وشان ثابت کرنے ک ے لئ ے ان سار ے مقامات پر بار بار اس حد یث کو ارشاد فرمایا ہ و ۔

بغیر تعصّب کے بار یک بینی سعادت کا سبب ہے

دوسرے آپ نے یہ فرمایا ہے ک ہ بخار ی کا اپنی صحیح میں نقل نہ کرنا اس حد یث کے صح یح نہ ہ ون ے ک ی دلیل ہے تو آپ کا یہ بیان بہ ت س ی وجہ و ں س ے قابل رد اور علماء ک ے نزد یک لائق نفرت ہے ک یونکہ یہ حدیث مبارک اگرچہ بخار ی نے اپن ی صحیح میں درج نہیں کی ہے ،ل یکن آپ کے اکابر علماءن ے بالعموم اس کو نقل ک یا ہے یہ ا ں تک کہ بخار ی کے ہ مسر مسلم بن حجاج اور سار ے ارباب صحاح ست ہ نس اپن ی معتبر کتابوں م یں تفصیل کے سات ھ ذکر ک یا ہے ۔

یا تو آپ حضرات کوچاہیئے کہ تمام صحاح اور اپن ے علماء ک ی معتبر کتابوں کو د ھ و کر دور پ ھینک دیجیئے اور اپنے سار ے عقائد کو صرف بخار ی تک محدود رکھیئے یا اگر دوسرے علماء ک ی عدالت اور علم ودانش کے معترف م یں جواپنے دور ا ہ ل سنت ک ے درم یان علم وفہ م او ر تقو ی میں ممتاز ت ھے خصوصا صحاح ست ہ ک ے مؤلف ین تو آپ کا فرض ہ وگا ک ہ اگر کس ی خبر کو اپنی مصلحتوں ک ی بنا پر بخاری نے ن ہیں لکھ ا ہے اور دوسرو ں ن ے نقل ک یا ہے تو اس کو قبول فرمائ یے ۔

۸۸

حافظ:- مصلحت کوئی بھی نہیں تھی صرف امام بخاری محتاط بہ ت ز یادہ تھے اور نقل اخبار م یں بہ ت جانچ پ ڑ تال کرت ے ت ھے چنانچ ہ جس روا یت کو سند یا عبارت کے لحاظ س ے مشکوک اور عقل ک یخلاف پایا اس کو نقل نہیں کیا ۔

خیر طلب :- قاعدہ "حب الشیء یعمی ویصم"(یعنی کسی چیز کی محبت آدمی کو اندھ ا اور ب ہ را بناد یتی ہے )ک ے مطابق اس مقام پر حضرات ا ہ ل سنت کو غلط ف ہ م ی ہ وئ ی ہے ک یوں کہ آپ ان ک ے بار ے م یں غلو رکھ ت ے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ امام بخار ی بہ ت بار یک بین تھے او ر جو روا یت انہ و ں ن ے اپن ی صحیح میں درج کی ہے و ہ انت ہ ائ ی معتبر اور وحی کی منزل کے مانند ہے حالانک ہ ا یسا ہے ن ہیں ، بخاری کے سلسل ہ اسناد م یں بکثرت مردود ،منفور کذاب اور جعال اشخاص موجو د ہیں۔

حافظ:- آپ کایہ بیان مردود ومنفور ہے اس لئ ے ک ہ آپ ن ے بخار ی کے مرتب ہ علم ودانش ک ی توہین کی ہے ( یعنی سارے ا ہ ل سنت وجماعت ک ی اہ انت ک ی ہے )-

خیرطلب :-اگر علمی تنقید اہ انت ہے تو آپ ک ے تمام ب ڑے ب ڑے علماء جن ہ و ں ن ے روا یات کی گہ ر ی تحقیق کی ہے اور آپ ک ی معتبر صحاح کی بلکہ مخصوص طور پر صح یح بخاری اور صحیح مسلم کی بہ ت س ی روایتوں کو ان کے سلسل ہ اسناد م یں مردود ،کذاب اور جعال شخص کے موجو د ہ ون ے ک ی وجہ س ے رد کرد یا ہے ، سب س ے مرتب ہ علم ودانش ک ی تو ہین کرنے وال ے اور مردود ت ھے۔

بہ تر ہ وگا آپ حضرات کتب اخبار م یں ذرا دقت نظر سے کام ل یں اور مطالعے ک ے وقت غلو ک ی نگاہ س ے ن ہ د یکھیں کہ چ ونکہ یہ بخاری یا مسلم ہیں لہ ذا جو کچ ھ نقل کرد یا ہے ہ ر ح یثیت سے صح یح اور یقینی ہے ۔

ضروری ہے ک ہ آپ ک ے و ہ علماء جو صحاح ست ہ اور بالخصوص صح یح بخاری اور صحیح مسلم کے بار ے م یں غلو کا عقیدہ رکھ ت ے ہیں پہ ل ے ان کتابو ں ک ی طرف رجوع فرما ئیں جو اخبار کی جرح وتعدیل میں لکھی گئی ہیں تا کہ امام بخار ی کی قدر منزلت اور نقل احادیث میں ان کی گہ ر ی تحقیق کی حقیقت معلوم ہ وجائ ے ۔ اگر آپ "اللئا ل ی المصنوعۃ فی احادیث الموضوعۃ" ،سیوطی "میزان الاعتدال" تلخیص المستدرک ذہ ب ی" تذکرۃ الموضوعات ابن جوزی " تاریخ بغدادمؤلفہ ابو بکر احمد ابن عل ی خطیب بغداد اور علم رجال میں اپنے دوسر ے بزرگ علماء ک ی ساری کتابیں پ ڑھیں تو پھ ر مج ھ پر اعتراض ن ہ کر یں اور یہ فرمائیں کہ تم ن ے حضرت بخار ی کی اہ انت ک ی ہے

۸۹

بخاری اور مسلم نے مردود اور جعل سازرجال س ے روا یتیں نقل کی ہیں

آخر میں نے کون س ی بات عرض کی کہ آپ اس قدر غ ھہ م یں بھ ر گئ ے ؟م یری گذارش تو صرف یہی تھی کہ آپ ک ی صحاح یہ ا ں تک کہ صح یحین ،بخاری ومسلم میں بھی مردود اور کذاب رجال سے ب ھی روایات اور احادیث مروی ہیں۔ اگر آپ کتب رجال کو پ یش نظر رکھ ت ے ہ وئ ے صح یح بخاری کی روایتوں کا غور سے مطالع ہ فرمائ یں تو نظر آجائے گا ک ہ ان ہ و ں ن ے بکثرت جعّال ،وضّاع اور مردود رجال س ے خبر یں نقل کی ہیں جیسے ابو ہ ر یرہ کذّاب ،عکرمہ خارج ی،محمد بن عبد سمر قندی محمد بن بیان ، ابراہیم بن مہ د ی ابلی بنوس بن احمد واسطی ،محمد بن خالد حنبلی،محمد بن محمد یمانی،عبد اللہ بن واقد حرّان ی ابوداؤد سلیمان بن عمر کذّاب ،عمران بن حطّان اور ان کے علاو ہ دوسر ے مردود راو ی جن کی پوری فہ رست پ یش کرنے کا ن ہ وقت ہے ن ہ سب م یرے حافظہ م یں محفوظ ہے اگر آپ رجال ک ی کتابیں ملاحظہ فرمائ یں تو حقیقت امر ظاہ ر ہ وجائ ے گ ی کہ حضرت بخار ی ویسے نہیں ہیں جیسے آپ کی نگاہ و ں م یں پھ ر ر ہے ہیں ،یعنی غیر معمولی طور پر تحقیق اور احتیاط سے کام ن ہیں لیتے تھے بلک ہ نقل اخبار م یں اشخاص کے صرف ظا ہ ر ی حالات پر توجہ رک ھ ت ے ت ھے ۔ہ مار ی اصطلاح میں اپنی جگہ پر ب ہ ت خوش ف ہ م اور خوش عق یدہ تھے اور جس شخص سے ب ھی کوئی ایسی روایت سن لی جو بظاہ ر ٹھیک ہ و اس ک ی درج کر لیا۔

اس مطلب پر خود آپ کے علماء ک ی کتب رجالیہ گواہ ہیں جن میں سے بعض ک ی طرف میں اشارہ کرچکا ہ و ں ک ہ ان ہ و ں ن ے موضوع اور مردود روا یات کی چھ ان ٹ ک ے الگ کرد یا ہے اور بخار ی و مسلم کے سلسلہ روا یات میں محققانہ وقت نظر س ے کام ل یتے ہ وئ ے ان م یں سے ب ہ تو ں کا پرد ہ فاش کردیا ہے تاک ہ ہ مار ی اور آپ کی توجہ مبذول ہ و اور ان کتابو ں پر نظر رک ھ ت ے ہ وئ ے آج رات کو یہ نہ فرمائ یے کہ حد یث ثقلین اور عترت طاہ ر ہ ہے تمسک کو بخار ی نے اپن ی احتیاط کی وجہ س ے نقل ن ہیں کیا ۔ آ یا عقل باور کرتی ہے ک ہ ا یک محقق اور محتاط عالم غیرمؤثق ،کذّاب او ر وضّاع روایوں سے ا یسی فرضی روایتیں نقل کرے جو ا ہ ل علم اور ارباب عقل ودانش ک ے نزد یک مضحکہ بن ک ے ر ہ جائ یں کیاکلیم اللہ کا ملک الموت ک ے من ہ پر طمانچ ہ مارک ے ان کو اندھ ا بنا د ینا یا آپ کا پا برہ ن ہ بغ یر ساتر عورتین کے بن ی اسرائیل کے درم یان دوڑ نا جس ک ا تذکرہ م یں نے پ ہ ل ے کرچکا ہ و ں ،خرافات اور مو ہ ومات م یں سے ن ہیں ہے ؟

کیا قیامت کے روز خدا ک ی رویت یا اس کے زخم ی پاؤں یا اپنی پنڈ ل ی کھ ولن ے ک ی حدیثیں جو انہ و ں ن ے صح یح کے اندر نقل ک ی ہیں اور ان میں سے بعض ک ی طرف میں اشارہ ب ھی کر چکا ہ و ں کفر یات میں سے ن ہیں ہیں۔ ؟

۹۰

صحیحین بخاری ومسلم میں مضحک روایت اور رسو ل(ص)کی اہ انت

کیا یہ بخاری کی سخت علمی اور عملی احتیاط ہی کا نتیجہ ہے ک ہ اپن ی صحیح جلد دوم "باب اللہ و با الحراب "صفحہ 120 م یں اسی طرح مسلم جلد اول "باب الرخصۃ فی اللعب الذی ما معصیۃ فیہ فی ایام السعید" میں ابو ہ ر یرہ سے نقل کرت ے ہیں کہ ا یک مرتبہ ع ید کے روز کچ ھ حبش ی سیّاح مسجد رسول (ص) میں جمع ہ وئ ے ت ھے اور ناچ کود ک ے فن س ے لوگو ں کو خوش کر ر ہے ت ھے رسو ل الل ہ (ص) ن ے عائش ہ س ے فرما یا کیا تم بھی دیکھ نا چاہ ت ی ہ و؟ ان ہ و ں ن ے عرض ک یا ہ ا ں یا رسول اللہ (ص) ۔ حضرت ن ے ان کو اپن ی پیٹھ پر اس طریقہ سے سوال ک یا کہ ان ہ و ں ن ے اپنا سر آن حضرت (ص)کے کاند ھے ک ے اوپ ر سے نکالا اور چ ہ ر ہ آپ ک ے چ ہ ر ہ مبارک پر رک ھ ل یا۔ آنحضرت(ص) عائش ہ کو محفوظ کرن ے ک ے لئ ے ان لوگو ں کو ترغ یب دے ر ہے ت ھے ک ہ اس س ے ب ہ تر نا چ دک ھ ائ یں ،یہ ا ں تک عائشہ ت ھ ک گئ یں تو ان کو زمین پر اتار دیا ۔

خدا کے لئ ے انصاف ک یجئے کہ اگر آپ حضرات م یں سے کس ی کی طرف ایسی بات منسوب کی جائے تو ک یا آپ ناراض نہ ہ و ں گ ے اور اس کو اپن ی توہین نہ سمج ھیں گے ؟ اگر کوئ ی جناب حافظ صاحب سے ک ہے ک ہ مج ھ س ے ا یک راوی نے ب یان کیا ہے ک ہ کل شب م یں جب حافظ صاحب کے مکان ک ی پشت پر بازی گروں کا ا یک دستہ سازندگ ی او ربازیگری میں مشغول تھ ا تو میں نے د یکھ ا جلیل القدر عالم جناب حافظ صاحب اپنی بیوی کو پیٹھ پر اٹھ ائ ے تماش ہ د یکھ ار ہے تھے بلک ہ باز یگروں سے یہ بھی کہہ ر ہے ت ھے ک ہ خوب ناچ ے جاؤ تاک ہ م یری بیوی اور لطف اندوز ہ و ۔ تو للل ہ سچ ک ہ ئ یے گا کہ یہ بات سن کر حافظ صاحب متاثر اور شرمندہ تو ن ہ ہ و ں گ ے ؟ اور اس کو ا یک مخلص خادم ہ ون ے ک ے بعد اگر کس ی شخص سے ا یسی خبر سنوں چا ہے و ہ بظا ہ ر معتبر ہی ہ و تو ک یا میرے لئے اس کونقل کرنا مناسب ہے ؟ اور اگر م یں بیان کردوں تو عقلمند لوگ یہ نہ سمج ھیں گے ک ہ فلاں جاہ ل ن ے ا یک بات کہ د ی تو آپ نے ہ وش یار ہ وکر ک یوں اس کو نقل کیا؟۔

اب ذرا بخاری کی روایتوں پر فیصلہ دیجئے کہ اگر و ہ واقع ی محقق اور اخبار کی چھ ان ب ین کرنے وال ے ت ھے تو فرض ک یجئے ایسی روایت انہ و ں سن ی تھی تو کیا مناسب تھ ا ک ہ اس کو اپن ی کتاب میں نقل بھی کریں اور پھ ر مولو ی صاحبان اس کتاب کو "اصح الکتب بعد القرآن "بتائیں ؟

لیکن حدیث ثقلین کو جس میں رسول اللہ (ص) اپن ی امت کو حکم دے ر ہے ہیں کہ م یرے بعد قرآن مجید اور میرے اہ ل ب یت طاہ ر ین علیھ م السلام سے تمسک کرو، نقل ن ہ کر یں (کیونکہ عترت کا نام بیچ میں ہے ) البتہ فرض ی گھڑی ہ وئ ی روایتیں جن کی پو ری تفصیل کا وقت نہیں اپنی کتابوں ک ے ابواب م یں درج کریں۔

۹۱

ہ ا ں ایک پہ لو س ے م یں ضرور آپ کی تصدیق کرتا ہ و ں ک ہ علماء ا ہ ل سنت ک ے درم یان بخاری صاحب یقینا اس حیثیت سے ب ہ ت محتاط ت ھے ک ہ جس روا یت میں یہ نظر آیا کہ عنوان امامت و ولا یت کے لحاظ س ے ولا یت علی ابن ابی طالب علیھ ما السلام او ر حرمت اہ لب یت طاہ ر ین علیھ م السلام کے ثبوت م یں کوئی راہ نکل ر ہی ہے تو احت یاطا اس کو نقل نہیں کیا کہ ا یسا نہ ہ و کس ی روز عقلمندوں ک ے ہ ات ھ کا حرب ہ بن جائ ے اور و ہ حق و حق یقت کو ظاہ ر کرد یں ۔ چنانچ ہ جب ہ م صحاح ک ی جلدوں کا صح یح بخاری سے مقابل ہ کرت ے ہیں تو اس نتیجے تک پہ نچت ے ہیں ۔ کہ اس روشن موضوع پر کوئی روایت چاہے و ہ متواتر ،ضرور ی اور قرآن وآیات الہی کی تائید سے مضبوط ہی ہ و ان ہ و ں ن ے نقل ن ہیں کی ہے ج یسے آیات مبارکہ "یا ایها الرّسول بلغ ما انزل الیک من ربّک " ، "انما ولیکم الله و رسو له و الذین آمنو الذین یقیمون الصلواة و یوتون الزکا ة و هم راکعون"،"و انذر عشیرتک الاقربین" وغ یرہ کی شان میں بکثرت حدیثیں ،حدیث ولایت یوم الغدیر ، حدیث انذار ، حدیث مواخات ، حدیث، حدیث سفینہ ،حدیث با ب الحطہ اور دوسر ی حدیثیں جو اہ لب یت طہ ارت عل یھ م السلام کی حرمت وولایت کے اثبات س ے نسب ت رکھ ت ی تھیں انہ و ں ن ے احت یاطا نقل نہیں کیں ۔ ل یکن ہ ر و ہ حد یث جو انبیاء کرام او ر با لخصوص حضرت خاتم الا نبیاء (ص) کے وجود اقدس اور آنحضرت (ص) ک ی عترت طاہ ر ہ ک ے مقامات ومدارج عال یہ کی اہ انت کا کوئ ی پہ لو رک ھ ت ی تھی وہ (چا ہے کس ی جعّال ،کذّاب اور وضّاع ہی سے م نقول ہ و)بغ یر احتیاط کے نقل کرد ی جن میں بعض کی طرف اشارہ ہ و چکا ہے ۔

حدیث ثقلین کے اسناد

اب میں مجبور ہ و ں ک ہ آپ ک ی بعض کتابوں ک ی طرف اشارہ کرو ں تاک ہ آپ ب ھی جان لیں کہ حد یث مبارکہ ثقل ین کو اگر بخاری صاحب نے درج ن ہیں کیا ہے تو آپ ک ے دوسر ے اکابر وموثق ین علماء یہ ا ں تک کہ بخار ی کے ہ م پل ہ (ج یسا کہ آپ ب ھی مانتے ہیں )مسلم بن حجاج نے ب ھی نقل کیا ہے ۔

مسلم بن حجاج نے "صح یح مسلم"جلد ہ فتم صفح ہ 122 م یں ،ترمذی نے " صح یح " میں ، ابو داؤد نے "سنن "جزء دوم صفح ہ 207 م یں نسائی نے " خصائص "صفح ہ 30 م یں ، امام احمد بن جنبل نے "مسند "جلد سوم صفح ہ 14-17 وجلد پنجم صفح ہ 182-189 م یں ،حاکم نے مستدرک"جلد سوم صفح ہ 109 -148 میں ،حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی نے "حل یۃ الاولیا " جلد اول صفحہ 355 م یں ،سبط ابن جوزی نے تذکر ۃ صفحہ 186 م یں ، ابن اثیر جوزی نے اسد الغاب ہ جلد دوم صفح ہ 12 وجلد سوم صفح ہ 147 م یں حمیدی نے جمع ب ین الصحیصین میں ، رزین نس "جمع بین الصحاح الستہ "م یں ، طبرانی نے "کبیر" میں ،ذہ ب ی نے " تلخیص مستدرک" میں ، ابن عبد ربہ ن ے "عقد الفر ید" میں محمد ابن طلحہ شافع ی نے "مطالب السئول" م یں ، خطیب خوارزمی نے " مناقب" م یں سلیمان بلخی

۹۲

حنفی نے " ینابیع المودۃ"باب 4 میں ، میر سید علی ہ مدان ی نے "مود ۃ القربی " کی مودۃ دوم میں ، ابن ابی الحدید نے " شرح ن ہ ج البلاغ ۃ " میں ، شبلنجی نے " نور الابصار" صفح ہ 99 م یں ،نورالدین بن صباغ مالکی نے " فصول الم ہ م ہ "صفح ہ 25م یں ، حموینی نے فرائد السبط ین میں ،امام ثعلبی نے "مناقب "م یں ، محمد بن یوسف کنجی شافعی نے "کفا یت الطالب"باب اول بیان صحت خطبہ غد یر خم وضمن باب 62صفحہ 130 م یں ، محمد بن سعد کاتب نے " طبقات" جلد چ ہ ارم صفح ہ 8 م یں ، فخر الدین رازی نے " تفس یر کبیر "جلد سوم ضمن آیہ اعتصام صفحہ 18 م یں ابن کثیر دمشقی نے " تفس یر" جلد چہ ارم ضمن آ یہ مودت صفحہ 113 م یں ،ابن عبد ربہ ن ے "عقد الفر ید" جلد دوم صفحہ 158 ،346 میں ، ابن ابی الحدید نے " شرح ن ہ ج البلا غ ہ " جزء ششم صفح ہ 130 ،سل یمان حنفی نے ینابیع المودۃ صفحات115،95،34،32،31،30،29،25،18، 230،199،126، میں مختلف عبارتوں ک ے سات ھ ،ابن حجر مک ی نے صواعق محرق ہ صفحات 136،99،90،87،75، م یں مختلف عبارتوں ک ے سات ھ اور آپ کے دوسرے اکابر علماء ن ے جن ک ے سار ے اقوال کرنا اس مختصر جلس ہ م یں دشوار ہے الفاظ وعبارات ک ے مختصر اختلاف ک ے سات ھ اس حد یث مبارک کو جو نقل اقوال خاصہ وعام ہ ہے تواتر ک ی حد تک پہ نچ ی ہ وئ ی ہے رسول اکرم(ص) س ے نقل ک یا ہے ک ہ آپ(ص) ن ے فرما یا "انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی اهلبیتی لن یفترقا حتی یردا علی الحوض من توسل(تمسک) بهما فقد نجی ومن تخلف عنها فقد هلک ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا ابدا " ( یعنی بہ تحق یق میں تمہ ار ے درم یان دو گرانقدر چیزیں چھ و ڑ ر ہ ا ہ و ں ،الل ہ ک ی کتاب(قرآن مجید) اور میری عترت و اہ ل بیت یہ دونوں آپس م یں ایک دوسرے س ے جدا ن ہ ہ و ں گ ے یہ ا ں تک کہ حوض کوثر ک ے کنار ے م یرے پاس پہ نچ جائ یں جو شخص ان دونوں س ے توسل وتمسک رک ھے گا و ہ یقینا نجات یافتہ ہے اور جو شخص ان دونو ں س ے من ہ مو ڑے گا تو و ہ یقینا ہ لاک شد ہ ہے جب تک ان دونو ں س ے تمسک کروگ ے ہ رگز کبھی گمراہ ن ہ ہ و ں گ ے ) ۔

یہ ہ مار ی ایک محکم دلیل ہے ک ہ ہ م رسو ل (ص)ک ے حکم س ے قرآن کر یم اور اہ ل ب یت طاہ ر ین(ص) سے تمسک وتوسل رک ھ ن ے پر مجبور ہیں۔

شیخ:- اس حدیث کو صالح بن موسی بن عبداللہ بن اسحق بن طلح ہ بن عبدالل ہ القرش ی التیمی،الطلحی نے اپن ی سند کے سات ھ ابو ہ ر یرہ سے اس طرح نقل ک یا ہے ک ہ ۔ "انی قد خلفت فیکم ثنتین کتاب الله و سنتی الی آخر"

خیر طلب :- آپ نے پ ھ ر ا یک طرفہ ا یک بدکار ،متروک ، ضعیف اور ارباب جرح وتعدیل ، جیسے ذہ ب ی ،یحیی ،امام نسائی ،بخاری ،اور ابن عبد ربہ وغ یرہ کے نزد یک مردود فرد سے حد یث نقل کرکے وقت ضائع ک یا ۔

جناب من!

کیا آپ ہی کے اکابر علماء س ے اس قدر معتبر روا یتوں کا نقل کرنا آپ کے لئ ے کاف ی نہیں ہ وا جو آپ اپن ے نقاد

۹۳

علماء ک ے نزد یک ایسی ناقابل قبول حدیث کا سہ ارا ڈھ ون ڈھ ا ؟ حالانک ہ فر یقین (سنی ،شیعہ)کا اس پر اتفاق ہے ک ہ رسول اکرم ن ے کتاب الل ہ و عترت ی فرمایا ہے ن ہ کہ سنت ی کیونکہ کتاب وسنت دونوں اپن ے لئ ے شارح چا ہ ت ی ہیں۔ اور جب سنت خود شارح ک ی محتاج ہے تو قرآن ک ی پوری شارح نہیں بن سکتی لہ ذا عد یل قرآن ،عترت اور اہ ل ب یت ہیں جو قرآن کی تفسیر کرنے وال ے بھی ہیں اور سنت رسول(ص)ظاہ ر کرن ے وال ے ب ھی ۔

حدیث سفینہ

اہ ل بیت رسول (ص) کے توسل پر ہ مار ی دلیلوں میں سے معتبر حد یث سفینہ بھی ہے جس کو آپ ک ے ب ہ ت ب ڑے ب ڑے علماء ن ے تقر یبا تواتر کی حد تک نقل کیا ہے ۔ جس قدر م یرے پیش نظر ہے آپ ک ے سو100 نفر س ے ز یادہ اکابر علماء نے اپن ی کتابوں م یں درج کیا ہے ،مثلا مسلم بن حجاج نے اپن ی "صحیح "میں ، امام احمد بن حنبل نے "مسند" م یں ،حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی نے "حل یۃ الاولیاء" میں ، ابن عبد البر نے " است یعاب" میں ، ابو بکر خطیب بغدادی نے " تار یخ بغداد" میں ، محمد ابن طلحہ شافع ی نے " مطالب السئول" م یں ، ابن اثیر نے "ن ہ ا یہ" میں ، سبط ابن جوزی نے " تذکر ہ "م یں ، ابن صباغ مالکی نے "فصول الم ہ م ہ " م یں ،علامہ نورالد ین سمہ ود ی نے "تار یخ المدینہ" میں ، سید مومن شبلنجی نے "نور الابصار"م یں ، امام فخر الدین رازی نے "تفس یر مفا تیح الغیب"میں ، جلال الدین سیوطی نے "در المنثور "م یں امام ثعلبی نے "تفس یر کشف البیان" میں ، طبرانی نے "اوسط"م یں ،حاکم نے " مستدرک " م یں جلد سوم صفحہ 151 م یں ،سلیمان بلخی حنفی نے " ینابیع المودۃ" باب 4 میں ،میر سید علی ہ مدان ی نے "مودت القرب ی " مودت دوم میں ، ابن حجر مکی نے " صواعق محرق ہ " ذ یل آیت ہ شتم م یں ۔ طبر ی نے اپن ی "تفسیر اور تاریخ"میں ، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے "کفا یت المطالب "باب 233 اور آپ کے دوسر ے ب ڑے ب ڑے علماء ن ے نقل ک یا ہے ک ہ حضرت خاتم الانب یاء نے فرما یا " انما مثل اہ لب یتی کمثل سفینۃ نوح من رکب نجی ومن تخلف عنھ ا ھ لک"( یعنی سوا اس کے ن ہیں ہے ک ہ تم ہ ار ے درم یان میرے اہ ل ب یت کی مثال کشتی نوح کے مثل ہے ک ہ جو شخص پر سوار ہ و ا اس ن ے نجات پائ ی ۔ اور جس شخص ن ے اس س ے روگردان ی کی ہ لاک ہ وگ یا)۔

نیز امام محمد بن ادریس شافعی نے اپن ے اشعار م یں اس حدیث کی صحت کی طرف اشارہ ک یا ہے ۔ چنانچ ہ علام ہ فاضل عج یلی نے "ذخ یرۃ المال میں ان کو اسطرح سے نقل ک یا ہے ۔

ولمّا رایت النّاس قد ذهبت بهم ------ مذاهب هم فی ابحر الغیّ والجهل

رکبت علی اسم الله فی سفن النجاة ------ وهم اهل بیت المصطفی خاتم الرّسل

وامسکت حبل الله وهو ولاؤهم ------ کما قد امرنا بالتمسک بالحبل

اذا افترقت فی الدین سبعون فرقة ------ وینفا علی ما جاء فی اصح النقل

ولم یک ناج منهم غیر فرقة ------ فقل لی بها یا ذا الرجائة ولعقل

۹۴

انی الفرقة الهلاک آل محمد ------ ام الفرقة اللاتی نجت منهم لی قل

فان قلت فی النّاجین فالقول واحد ------ وان قلت فی الهلاک حفت عن العدل

اذا کان مولی القوم منهم فاننی ------ رضیت بهم لا زال فی ظلّهم ظلّ

رضیت علیا لی اماما و نسله ------ وانت من الباقین فی اوسع الحل (1)

اگر آپ ان کھ ل ے ہ و ئ ے اور و ہ ب ھی اہ ل سنت و جماعت ک ے پ یشوائے بزرگ امام شافعی کے اشعار پر پور ی توجہ فرمائ یں تو دیکھیں گے ک ہ و ہ ک یونک کر اس کا اقرار کر رہے ہیں کہ اس س ے سف ینے کی سواری اور اس پاک خاندان سے تمسک اور تو سل ذر یعہ نجات ہے ک یونکہ امت مرحومہ ک ے ب ہ تر فرقو ں م یں سے ناج ی فرقہ صرف و ہی ہے جو آل محمد (ع) ک ے دامن س ے متمسک اور متوسل ہے اور ادربس چنانچ ہ ش یعہ خود رسول اللہ (ص) ک ے حسب الحکم خدا کی طرف اسی خاندان جلیل کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں ایک بات اور یاد آگئی کہ اگر آپ کے قول کے مطابق انسان واسط ے اور وس یلے کا محتاج نہیں ہے اور بارگا ہ خداوند ی میں اگر وسیلے کے سات ھ فر یاد و استغاثہ بلند کر ے تو گن ہ گار اور مشرک ہ وگا ۔ تو پ ھ ر خل یفہ عمر الخطاب کس لئے احت یاج اور اضطرار کے موقع پر واسط ے ک ے سات ھ خدا ک ی طرف رجوع کرتے ت ھے ا ور اس طرح استغاثہ کر ک ے کام یابی حاصل کرتے ت ھے ؟

حافظ:- ہ رگز خل یفہ عمر رضی اللہ عن ہ ن ے واسط ے ک ے سات ھ کوئ ی عمل انجام نہیں دیا اور یہ پہ لا موقع ہے جب م یں ایسے الفاظ سن رہ ا ہ و ں گزارش ہے ک ہ اس کا مجمل ب یان فرمائیے ۔

خیرطلب:- خلیفہ احتیاج کے مواقع پر بار بار ا ہ ل ب یت رسالت (ع) اور آنحضرت کی عترت طاہ ر ہ کا وس یلہ ڈھ ون ڈ ھ ت ے ر ہ ت ے ت ھے اور ان ہیں کے توسل س ے خدا ک ی طرف رجوع کرکے مطلب حاصل کرت ے ت ھے وقت کا لحاظ رکھ ت ے ہ وئ ے صرف دو موقع ے نمون ے ک ے طور پر پ یش کرتا ہ و ں ۔

(پہ لا)ابن حجر مک ی ،صواعق محرقہ م یں آیۃ نمبر14 کے بعد تار یخ دمشق سے نقل کرت ے ہیں کہ سن ہ 17 ہ جر ی میں دعائے بارش ک ے لئ ے لوگ کئ ی مرتبہ نکل ے ل یکن کوئی نتیجہ نہیں ہ و ا سب ب ہ ت متاثر اور پر یشان ہ وئ ے تو عمر ابن الخطاب ن ے ک ہ ا ک ہ اب م یں کل ضرور بالضرور اس شخص کے وس یلے سے طلب باران کرو ں گا جس ک ے واسط ے س ے حتم ی

--------------

(1):- (جب میں نے لوگوں کو جہل گمراہی کے دریا میں غرق دیکھا تو خدا کے نام پر نجات کی کشتیوں میں بیٹھا جو خاتم الانبیاءحضرت محمد مصطفی کے اہل بیت ہیں ۔میں نے جہل خدا سے تمسک کیا جو اسی خاندان کی دوستی ہے جیسا کہ ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ اس حبل سے متمسک رہیں ۔جس وقت دین کے اندر ستر سے زیادہ فرقے پیدا ہوگئے جیسا کہ حدیث میں واضح طور پر آیا ہے اور ان میں سواایک کے کوئی ناجی نہیں ہے تو مجھے سے کہو کہ اے صاحب عقل ودانش ! کہ آیا خاندان رسالت اور آل محمد علیھم السلام کسی فرقہ میں سے ہیں؟یا نجات کی پانے والے حق فرقے کے افراد ہیں؟اگر یہ کہو کہ فرقہ ناجیہ میں ہیں تو ہمارا اور تمہارا قول ایک ہے اور اگر کہو کہ باطل ہونے والے فرقوں کے ساتھ ہیں تو تم صراط مستقیم سے منحرف ہو گئے ۔ اگر قوم کا سردار ان حضرات(ع) میں سے ہو تو میں بخوشی ان کی اطاعت کے لئے آمادہ ہو رہا ہوں ۔ان کا سایہ ہمیشہ سروں پر قائم ہے ۔میں علی اور ان کی اولاد علیھم السلام کی امامت پر راضی ہوں ۔ جو حق پر ہے اور تم باطل فرقوں میں رہو اس روز تک جب حقیقت ظاہر ہو جائے )

۹۵

طور پر خدا ہ م کو پان ی دے گا ۔ دوسر ے دن صبح کو خل یفہ عمر آن حضرت صلعم کے چچا عباس ک ے پاس گئ ے اور ک ہ ا "اخرج بنا حت ی نستسقی اللہ بک " (ہ مار ے سات ھ با ہ ر چلو تا ک ہ ہ م بارگا ہ ال ہی میں تمہ ار ے وس یلے سے پان ی طلب کریں۔

جناب عباس نے فرما یا تھ و ڑی دیر بیٹھ جاؤ تاکہ م یں وسیلہ مہیا کر لوں ،پ ھ ر کس ی کو بھیج کر بنی ہ اشم کو اطلاع د ی کہ اور پاک لباس پ ہ ن ک ے خوشبو لگا ک ے اس صورت س ے با ہ ر آئ ے ک ہ عل ی علیہ السلام عباس کے آگ ے امام حسن عل یہ السلام داہ ن ی طرف، امام حسین علیہ السلام بائیں طرف اور دوسرے بن ی ہ اشم پ یچھے پیچھے تھے اس وقت فرما یا کہ ا ے عمر کس ی اور شخص کو ہ مار ے سات ھ شامل ن ہ کر ۔ چنانچ ہ اس ی حالت سے مصل ے تک پ ہ نچ ے اور جناب عباس ن ے مناجات ک ے لئ ے ہ ات ھ کو بلند کر ک ے عرض ک یا ۔ پروردگار ا ! تو ن ے ہ م کم خلق فرما یا اور جو کچھ ہ م عمل کرت ے ہیں تو اس سے واقف ہے پ ھ ر عرض ک یا کہ "الل ھ م کما تفضلت عل ینا فی اولہ فتفضل عل ینا فی آخرہ " ( یعنی پر وردگار جس طرح تو نے ابتدا م یں ہ م پر فضل ک یا ہے اس ی طرح آخر میں ہ مار ے اوپر تفضل فرما)جابر ک ہ ت ے ہیں ان کی دعا تمام نہ ہ وئ ی تھی کہ بادل آنا شروع ہ وئ ے اور پان ی برسنے لگا ۔ اب ھی ہ م لوگ گ ھ رو ں تک ن ہیں پہ نچ ے ت ھے ک ہ بارش س ے ب ھیگ گئے ۔

نیز بخاری سے نقل کرت ے ہیں کہ ا یک مرتبہ قحط ک ے زمان ہ م یں عمر ابن خطاب عباس ابن عبد المطلب کے وس یلے سے بارگا ہ خداوند ی میں پانی کے لئ ے دعا کر ر ہے ت ھے اور ک ہ ت ے ت ھے "الل ھ م انا نتوسل ال یک بعم نبینا فاسقنا فیسقون" یعنی خداوندا ہ م ت یری طرف عم رسول (ص) کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں ہ م کو سیراب کردے ،چنانچ ہ ان لوگو ں پر نزول بارا ں ہ وا )

(دوسرا)ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہ ج البلاغ ہ (مطبوع ہ مصر) جلد دوم صفح ہ 256 م یں نقل کرتے ہیں کہ خل یفہ عمر جناب عباس عم رسول(ص) کے ہ مرا ہ استسقاء ک ے لئ ے گئ ے اور اس طرح دعا ک ی "اللھ م انا نتقرب ال یک بعم نبیک وبقیۃ آبا ئہ وکبر رجال ہ فاحفظ الل ھ م نب یک فی عمہ فقد ولونا ب ہ ال یک مستشفعین ومستغفرین "(یعنی خداندا ! ہ م ت یری طرف وسیلہ ڈھ ون ڈ ت ے ہیں تیرے پیغمبر کے چچا اور ان ک ے آباء اور بزرگ مردو ں م یں سے باق ی ماندہ ک ے ذر یعے سے ، پس اپن ے پ یغمبر کی منزل ان کے چچا ک ے بار ے م یں محفوظ رکھ ک یونکہ ہ م ن ے ان ک ی وجہ سے تیری طرف ہ دا یت پائی تاکہ شفاعت طلب کر یں اور اسغفار کریں۔

۹۶

حضرات اہ ل سنت اور پ یروان خلیفہ عمر کے حالات تو اس مش ہ ور مثل ک ے مطابق ہیں کہ "کاس ہ گرم تر از آش " " یعنی شوربے س ے ز یادہ پیالہ گرم " کیونکہ خلیفہ عمر دعا اور احتیاج واضطرار کے وقت عترت و ا ہ ل ب یت رسول(ص) کو اپنا شفیع قرار دیتے ہیں اور ان کے وس یلے سے بارگاہ ال ہی میں طلب حاجت کرتے ت ھے تو ان پر کوئ ی اعتراض نہیں ۔ ل یکن جس وقت ہ م ش یعہ اس برگزیدہ خاندان کو شفیع بناتے اور ان کا توسل اخت یار کرتے ہیں تو ہ م کو سخت اعتراض ک ے سات ھ کافر ومشرک ک ہ ا جاتا ہے ۔ اگر آل محمد (ص)اور عترت طا ہ ر ہ کو خدا ک ی طرف شفیع قرار دینا شرک ہے تو آپ ہی کے علماء ک ی روایتوں کے مطابق خل یفہ عمر ابن خطاب قطعا سب سے پ ہ ل ے مشرک ٹھہ رت ے ہیں اور اگر خلیفہ کا وہ عمل شرک ن ہیں تھ ا بلک ہ ب ہ تر ین کام تھ ا ۔ (ک یونکہ خلیفہ نے اس کاانتخاب ک یا تھ ا)تو یقینا شیعوں کے اعمال اور آل محمد عل یھ م السلام سے ان کا توسل ہ رگز شرک ن ہیں ہ و سکتا ۔

لہ ذا آپ حضرات کو چاہیے کہ قطع ی طور پر اپنی یہ باتیں چھ و ڑیں بلکہ استغفار کر یں (کیونکہ بے لوث اور موحد ش یعوں کی طرف ایسی غلط نسبت دی ہے )تاک ہ غضب ال ہی کے مستحق ن ہ بن یں اس لئے ک ہ جب خل یفہ عمربزرگان صحابہ ک ی ہ مرا ہی میں بھی چا ہے جس قدر دعا کر یں لیکن بغیر اہ ل ب یت رسول کے وس یلے کے کوئ ی نتیجہ برآمد نہ ہ وا تو آپ ک یونکر امید رکھ ت ے ہیں کہ ہ م بغ یر واسطے اور س ہ ار ے ک ے دعا کرک ے کام یاب ہ و جائ یں گے ۔

پس آل محمد سلام اللہ عل یھ م اجمعین عہ د رسول (ص) س ے ل ے کر ہ مار ے موجود ہ زمان ے تک ہ ر دور م یں خدا کی طرف بندوں ک ے وس یلے تھے اور ہیں اور ہ م لوگ ب ھی حاجت روائی میں ان کی خود مختاری کے قائل ن ہیں ہیں لیکن یہ ضرور ہے ک ہ ان کو خدا ک ے صالح بند ے برحق امام او ر درگاہ خدا م یں مقرب سمجھ ت ے ہیں لہ ذا اپن ے اور خدا ک ے درم یان واسطہ قرار د یتے ہیں۔

اس مقصد پر سب سے ب ڑی دلیل ہ مار ی دعاوؤں ک ی کتابیں ہیں کیونکہ ائمہ معصوم ین علیھم السلام سے تمام ماثور ہ اور دعاوؤ ں م یں ہ م جو کچ ھ م یں نے عرض ک یا ہے اس ک ے علاو ہ کوئ ی اور ہ دا یت ہی نہیں دی گئی ہے اور ہ م ن ے ب ھی اس طریقے کے خلاف ن ہ کوئ ی عمل کیا ہے ا ور نہ کر یں گے ۔

حافظ :- آپ کے یہ بیانات ہ مار ی سنی ہ و ی باتوں ک ے خلاف ہیں ۔

خیر طلب :- اپنی سنی ہ وئ ی باتوں کو چ ھ و ڑیئے اور مشاہ دات کا ذکر ک یجیئے ۔ ک یا آپ نے ہ مار ے ب ڑے علماء ک ی کچھ معتبر کتب ادع یہ کا مطالعہ ک یا ہے ؟

حافظ :- نہیں مجھ کو موقع ن ہیں ملا ۔

خیر طلب:-مناسب یہ تھ ا ک ہ پ ہ ل ے آپ اس قسم ک ی کتابیں ملاحظہ فرما ل یتے اس کے بعد اعتراض فرماتے اس وقت دعا وز یارت کی دو کتابیں میرے ہ مرا ہ ہیں ۔ ا یک علامہ مجلس ی علیہ الرحمہ ک ی تالیف ، زاد المعاد ،اور

۹۷

دوسری "ہ د یۃ الزائرین " مؤلفہ فاضل محدّث وعال م متبحر آقائی حاج شیخ عباس قمی دامت برکاتہ یہ مطالعے ک ے لئ ے حاضر ہیں (میں نے دونو ں جلد یں مولوی صاحبان کی خدمت میں پیش کریں ۔ اور ان ہ و ں ن ے د یکھ نا شروع کیا ،ادعیہ توسل کو پڑھ ا اور غور ک یا لیکن کسی مقام پر خاندان رسالت کے لئ ے خود مختار ی کا ذکر نہیں کیا بلکہ ہ ر جگ ہ ان کو واسط ہ ک ہ ا گ یا ہے اس وقت مولو ی سید عبد الحیی نے دعائ ے تو سل کو جو علام ہ مجلس ی علیہ الرحمہ ن ے بسلسل ہ محمد ابن بابو یہ قمی علیہ الرحمہ ائم ہ طا ہ ر ین سلام اللہ عل یھ م اجمعین نے نقل ک ی ہے نمون ے ک ے طور پر آخر تک پ ڑھی جس کا شروع یہ ہے ۔

دعائے توسل

اللهم انّی اسئلک و اتوجه الیک بنبیک نبی الرحمة محمد صلی الله علیه وآله یا ابا القاسم یا رسول الله یا امام الرحمة یا سیدنا ومولانا انّا توجهنا و استشفعنا وتوسلنا بک الی الله وقد مناک بین یدی حاجاتنا یا وجیها عند الله اشفع لنا عند الله ٭ یا ابا الحسن یا امیر المومنین یا علی ابن ابی طالب یا حجة الله علی خلقه یا سیدنا و مولانا انّا توجهنا واستشفعنا و توسلنا بک الی الله وقدمناک بین یدی حاجاتنا یا وجیها عندالله اشفع لنا عند الله

جس نوعیت سے ام یر المومنین علیہ السلام کو خطاب کیا گیا ہے اس ک ے بعد اس ی طرح سے کل ائم ہ معصوم ین علیھ م السلام کے لئ ے ب ھی ہے اور خطاب م یں ان کو یا حجۃ اللہ عل ی خلقہ ک ہ ا جاتا ہے یعنی اے حجت خدا خلق خدا پر ۔۔۔۔ آخر دعا تک ائم ہ طا ہ ر ین میں سے ا یک ایک کا نام لے کر توسل اخت یار کیا گیا ہے اور اس طر یقے سے مخاطب ک یا گیا ہے ک ہ ا ے ہ مار ے س ید مولا ہ م آپ ک ے وس یلے سے خدا ک ی طرف توجہ وتوسل اور طلب شفاعت کرت ے ہیں ،اے خدائ ے تعال ی کے نزد یک صاحب عزت بارگاہ ال ہی میں ہ مار ی سفارش فرمائیے ۔یہ ا ں تک کہ آخر دع امیں سارے خاندان رسالت کو مخاطب کرک ے ک ہ ا ہے ۔

"یا ساداتی وموالی انی توجهت بکم ائمتی وعدتی لیوم فقری وحاجتی الی الله وتوسلت بکم الی الله واستشفعت بکم الی الله فاشفعوا لی عندالله و استنقذونی من ذنوبی عند الله فانّکم وسیلتی الی الله وبحبکم وبقربکم ارجو نجاة من الله فکونوا عند الله رجائی یا ساداتی یا اولیاء الله"

جس وقت وہ حضرات یہ دعائیں پڑھ ر ہے ت ھے بعض م ہ ذب اور محترم سن ی حضرات ہ ات ھ مارت ے ت ھے

۹۸

اور باربار ک ہ ت ے ت ھے "لا ال ہ الا الل ہ سبحان الل ہ " کس طرح س ے غلط ف ہ م ی پھیلاتے ہیں۔

(میں نے ک ہ ا)م یں آپ حضرات سے انصاف چا ہ تا ہ و ں ۔ ان دعاو ؤ ں ک ی عبارتوں م یں کس مقام پر شرک کے آثار پائ ے جات ے ہیں ؟کیاہ ر جگہ خدائ ے تعال ی کامقدس نام موجود نہیں ہے ؟ ہ م ن ے دعا ک ی کون سی عبارت میں ان حضرات کو باری تعالی کا شریک قراردیا ہے ؟ آخر کس ل ئے آپ ہ م لوگو ں پر ت ہ مت لگات ے ہیں کس وجہ س ے موحد مسلمانو ں کو غال ی اور مشرک کہ ت ے ہیں ؟ کس غرض سے مسلمانو ں ک ے دلو ں م یں بغض وعداوت کا بیج بوتے ہیں ؟کس مقصد سے ناواقف لوگو ں ک ی نظر میں حقیقت کو مشتبہ بنات ے ہیں ؟تاکہ و ہ اپن ے د ینی ایمانی بھ ا یئوں کو کافر سمجھیں ۔ آپ ک ے کتن ے ناواقف اور متعصب عوام ب یچارے شیعوں کو اسی خیال سے قتل کرت ے ہیں کہ ہ م ا یک کافر کو قتل کیا لہ ذا جتن ی ہ وگئ ے ا یسے امور کا مظلمہ آپ ہی جیسے علماء کی گردنوں پر ہے ۔

بات یہ ہے ک ہ ش یعہ علماء او رمبلغین زہ ر ن ہیں پھیلاتے ۔ ش یعہ اور سنی کے درم یان عداوت کا بیج نہیں بوتے اور قتل نفس کو گنا ہ عظ یم سمجھ ت ے ہیں ،ہ م ش یعہ اور سنی کے درم یان ما بہ اختلاف مسائل کو علم ومنطق ک ی روشنی مین بیان کرکے ان کو حق یقت مذہ ب س ے با خبر کرتے ہیں لیکن گفتگو کے ضمن م یں ان کو یہ بھی سمجھ ا د یتے ہین کہ سن ی ہ مار ے مسلمان ب ھ ائ ی ہیں لہ ذا ش یعہ جماعت کو ان کی طرف کینے اوردشمنی کی نظر سے ن ہ د یکھ نا چاہیئے بلکہ برادران ہ طر یقے سے آپس م یں متحد رہ نا چا ہیئے تاکہ ہ م سب مل کر لا الہ الا الل ہ کاپرچم بلند کر یں۔

لیکن اس کے برعکس متعصب سنّ ی علماء کے طرز عمل س ے ہ م کو افسوس ہ وتا ہے ک ہ ابو حن یفہ ،مالک ابن انس، محمد ابن ادریس شافعی اور احمد ابن حنبل کے پ یروؤں کو باوجود یکہ ان کے درم یان کثیر اصولی اور فروعی اختلافات ہیں ہ ر مقام پر آزاد ی دیتے ہیں اور مسلمان بھ ائ ی کہ ت ے ہیں لیکن علی ابن ابی طالب اور امام صادق آل محمد علیھ ما السلام جو عترت و اہ ل ب یت رسالت ہیں ،ان کے پ یروؤں کو غالی ،مشرک اور کافر نامزد کرتے ہیں اور ان کی آزادی سلب کرتے ہیں تاکہ سن ی ممالک کے اندر ان ک ی جان ومال محفوظ نہ ر ہے ،کتن ے ز یادہ ہیں کہ ا یسے صاحبان علم وتقوی شیعہ جو سنی علماء کے فتو ے س ے ش ہید کئے گئ ے ل یکن اس کے برعکس ا یسا عمل شیعہ علماء کی طرف سے ک یا بلکہ عوام ش یعہ کی جانب سے ب ھی جن سے اس کا انجام پانا ز یادہ سہ ل ہے کس ی جاہ ل سن ی کے لئ ے ب ھی صادر نہیں ہ وا ہے آپ ک ے علماء بالعموم ش یعوں پر لعنت کرتے ہیں لیکن شیعہ علماء کی کسی کتاب میں یہ نہیں دیکھ ا گیا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ا ہ ل تسنن لعن ھ م الل ہ لک ھ ا ہ و ۔

حافظ:- آپ زیادتی کر رہے ہیں ،کون سا صاحب علم وتقوی شیعہ ہ مار ے علماء ک ے فتو ے س ے قتل ہ وا ہے ک ہ

۹۹

آپ بلا وج ہ جو ش دلا ر ہے ہیں ؟اور کس نے ہ مار ے علماء م یں سے ش یعوں پر لعنت کی ہے ۔

خیرطلب :- اگر آپ کے علماء اور عوام کے حرکات تفص یل سے ب یان کرنا چاہ و ں تو ا یک نشست نہیں بلکہ کئ ی مہینے درکار ہ و ں گ ے ل یکن نمونے اور اثبات ک ے لئ ے ان ک ے بعض اعمال اور اطوار ک ی طرف جو تاریخ کے صفات پر نقش ہیں کئے د یتا ہ و ں تاک ہ آپ کو معلوم ہ وجائ ے ک ہ جوش نہیں دلاتا ہ و ں بلک ہ حق یقت پیش کرتا ہ و ں ۔

اگر آپ بڑے ب ڑے متعصب علماء ک ی کتابیں غور سے مطالع ہ ک یجئے تو لعنت کے مواقع خود ہی نظر آجائیں گے نمون ے ک ے طور پر تفس یر امام فخر الدین رازی کی جلدیں ملاحظہ فرمائ یے کہ جس جگ ہ ان کو موقع ہ ات ھ آ یا ہے ج یسے" آیت ولایت و اکمال الدین" وغیرہ کے ذ یل میں مکرر ومکرر لکھ ت ے ہیں۔

"و اما الرافضة لعنهم الله هؤلاء الرافضة لعنهم ----اما قول الروافض لعنهم الله " ل یکن کسی شیعہ عالم کے قلم س ے عام بردران ا ہ ل سنت ک ے لئ ے بلک ہ خاص صورت م یں بھی ان کے لئ ے ا یسی عبارتیں نہیں نکلی ہیں۔

اس جماعت کے فتو ے س ے ش ہید اول کی شہ ادت

شیعہ ارباب علم کے سات ھ آپ ک ے علماء ک ی دردناک بدسلوکیوں میں سے ا یک وہ عج یب وغریب فتوی ہے جو ا یک بہ ت ب ڑے ش یعہ فقیہ کے واسط ے شام ک ے دوب ڑے قاض یوں (برہ ان الد ین مالکی و عباد بن الجماعۃ الشافعی) کی طرف سے صادر ہ وا ت ھ ا و ہ بزرگ فق یہ جو زہ د وورع ،تقوی اور علم وتفقہ م یں سارے ا ہ ل زمان ہ ک ے سردار ت ھے ۔ ابواب فق ہ پر احاط ہ رک ھ ن ے م یں اپنے دور ک ے اندر جواب ن ہیں رکھ ت ے ت ھے ان ک ی فقہی مہ ارت کا ا یک نمونہ کتاب لمع ہ ہے جو (بغ یر اس کے ک ہ سوا "مختصر نافع" ک ے اور کوئ ی فقہی کتاب آپ کے پاس موجود ر ہی ہ و) صر ف سات روز کے اندر تصنیف فرمائی اور حنفی ، مالکی ،شافعی اور جنبلی چاروں مذ ہ ب ک ے علماء ان ک ے حلق ہ تلامذ ہ م یں داخل ہ و کر ف یض علم سے س یراب ہ وت ے ت ھے جناب ابو عبدالل ہ محمد بن جمال الد ین مکو عاملی رحمۃ اللہ عل یہ تھے۔

باوجودیکہ سنیوں کی سخت گیری کی وجہ س ے آپ ز یادہ تر تقیہ میں رہ ت ے ت ھے ۔ اور با الاعلان تش یع کا اظہ ار ن ہیں فرماتے ت ھے ل یکن پھ ر ب ھی شام کے ب ڑے قاض ی "عباد بن الجماعۃ" نے ا یسے عالم ربانی سے حسد کابرتاؤ کرت ے ہ وئ ے وال ی شام (بید مر) کے پاس ان ک ی چغلی کھ ا ئی اور رفض و تشیع کا الزام لگا کر اس فقیہ عالم کوگرفتارکروایا ۔ ا یک سال تک قید خانہ م یں سخت تکلیفیں دینے کے بعد 9 یا 19 جمادی الاولی سنہ 786 م یں انہیں دو بڑے سن ی قاضیوں (ابن الجماعۃ وبرہ ان الد ین )کے فتو ے س ے پ ہ ل ے آپ کو تلوار س ے قتل ک یا پھ ر آپ کا جسم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کمال سخاوت یا ایثار

جود و سخاوت میں ایثار کا سب سے بلند مرتبہ ہے مال کو احتیاج کے باوجود خرچ کردینے کا نام ایثار ہے اسی وجہ سے اس کی تعریف قرآن مجید میں آئی ہے :

''و یوثرون علی انفسهم و لو کا ن بهم خصاصه ''' (۱)

وہ خود چاہے کتنے ہی ضرورت مند کیوں نہ ہوں دوسروں کو اپنے اوپر مقدم کرتے ہیں_

بے بضاعتی کے عالم میں سخاوت کرنا ایثار سے بہت قریب ہوتا ہے اسی وجہ سے غنی کے حالت میں بخشش و عطا کرنے سے زیادہ اس کی فضیلت ہے ، امام جعفر صادق سے پوچھا گیا کہ کون سا صدقہ زیادہ بہتر ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :

''جهد المقل اما سمعت قول الله عزوجل و یوثرون علی انفسهم ولو کان بهم خصاصة'' (۲)

وہ صدقہ جو تنگ دست انسان دیتا ہے وہ سب سے بہتر ہے کیا تم نے خدا کا یہ قول( ویوثرون علی ) نہیں سنا کہ لوگ خود نیازمند ہونے کے باوجود دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازدواج میں سے ایک بیوی نے بتایا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آخر وقت تک کبھی بھی مسلسل

___________________

۱) (سورہ حشر ۹)_

۲) (جامع السعادات ج ۲ص ۱۲۳ مطبوعہ بیروت) _

۲۰۱

تین دن تک سیر ہوکر کھانا نہیں کھایا اگر ہم چاہتے تو بھوکے نہ رہتے مگر ہم نے ایثار سے کام لیا(۱) منقول ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس ایک صحابی آئے ان کی شادی ہوچکی تھی اور ضرورت مند تھے انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کچھ طلب کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عایشہ کے گھر میں تشریف لے گئے اور پوچھا کہ گھر میں کچھ ہے کہ اس دوست کی کچھ مدد کریں عائشہ نے کہا میرے گھر میں ایک زنبیل میں کچھ آٹا رکھا ہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ زنبیل مع آٹے کے اس صحابی کے حوالہ کردی پھر اس کے بعد گھر میں کچھ بھی نہ رہا(۲)

دو طرح کے مسائل

الف _ ساءل کے سوال کا جواب

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بے پناہ سخاوت اور بخشش اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی ساءل کو خالی ہاتھ واپس کردیں _'' ماسئل رسول الله شئا قط فقال لا'' (۳) رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی ساءل کے جواب میں انکار نہیں کیا اور یہ صفت آپ میں اسقدر راسخ تھی کہ اگرگھر میں کچھ نہیں ہوتا تھا تب بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتے تھے _

___________________

۱) (جامع السعادات ج ۲ص ۱۲۲) _

۲) (شرف النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ص ۷۰) _

۳) (الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ص ۴۴۱)_

۲۰۲

عمر نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے آپ سے کچھ طلب کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میرے پاس کچھ نہیں ہے تم جاو خرید لو اور حساب میرے نام لکھوا دو ، جب میرے پاس ہوگا تو میں ادا کرونگا ، عمر نے کہا اے اللہ کے رسول جس چیز پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قادر نہیں ہیں اللہ نے اس کی تکلیف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہیں دی ہے عمر کہتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات سے ناراض ہوگئے _

اس شخص نے کہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عطا فرمائیں اور خدا کی طرف سے کم دیئےانے پر رنج نہ کریں حضرت مسکرائے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ پر خوشی کے آثار نمودار ہوگئے(۱)

ب_ کام کرنے کی ترغیب

دوسری طرفرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم سستی ، کاہلی کو ختم کرنے اور سوال کرنے کی عادت چھڑانے کیلئے سوال کرنے والوں کو خود محنت کر کے رزق حاصل کرنے کی تعلیم دیتے تھے _

ایک صحابی کا بیان ہے کہ جب میں تنگ دست ہوگیا میری بیوی نے کہا کاش آپ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس جا کر ان سے کچھ لے آتے وہ صحابی حضور کے پاس آئے جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو دیکھا تو فرمایا کہ جو مجھ سے کچھ مانگے گا میں اس کو عطا کروں گا لیکن اگر بے نیازی کا ثبوت دیگا تو خدا اس کو بے نیاز کردیگا ، صحابی نے اپنے دل میں کہا کہ حضور میرے ہی بارے میں باتیں کررہے ہیں ، اس نے واپس لوٹ کر بیوی سے پورا واقعہ بیان

___________________

۱) (مکارم اخلاق ص ۱۸) _

۲۰۳

کیا تو بیوی نے کہا وہ باتیں تمہارے بارے میں نہیں تھیں تم جاکرپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنی حالت تو بیان کرو وہ صحابی دوبارہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پاس پہونچے ، اس مرتبہ بھی ان کو دیکھ کرحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہی جملہ دہرایا اس طرح تین دفعہ یہ واقعہ پیش آیا تیسری دفعہ کے بعد اس شخص نے کسی سے ایک کلہاڑی مانگی اور لکڑی کاٹنے کیلئے نکل کھڑا ہوا لکڑیاں شہر لاتا اور ان کو بیچ ڈالتا تھا آہستہ آہستہ وہ صاحب ثروت بن گیا پھر تو اس کے پاس بوجھ ڈھونے اور لکڑی اٹھانے والے جانور بھی ہوگے ، بڑی خوشحالی آگئی ایک دن وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پھر پہنچے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سارا واقعہ بیان کردیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ جو مجھ سے مانگے گا میں عطا کرونگا لیکن اگر کوئی بے نیازی و خود داری سے کام لیگا تو خدا اسکو بے نیاز کردیگا(۱)

دوسری روایت میں ہے :

''و کان صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اذا نظر الی رجل فاعجبه قال هل له حرفة ; فان قیل لا قال: سقط من عینی ، قیل ، کیف ذلک یا رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : لان المومن اذ لم یکن له حرفة یعیش بدینه'' (۲)

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی کی طرف دیکھتے تو اس سے سوال کرتے کہ اس کے پاس کوئی کام ہے وہ کوئی فن و ہنر جانتا ہے ؟ اگر کہا جاتا کہ نہیں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے کہ

___________________

۱) ( اصول کافی ج۲ ص ۱۱۲باب القناعہ مطبع اسلامیہ عربی ) _

۲) (بحار ج ۱۰۳ ص ۹) _

۲۰۴

یہ میری نظروں سے گر گیا ، لوگ سوال کرتے کہ اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسا کیوں ہے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے تھے کہ اگر مومن کے پاس کوئی فن اور ہنر نہ ہو تو وہ اپنے دین کو ذریعہ معاش بنالیتا ہے_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بخشش کے نمونے

لباس کا عطیہ

ایک دن ایک عورت نے اپنے بیٹے سے کہاکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس جاؤ ان کی خدمت میں سلام عرض کرنا اور کہنا کہ کوئی کرتا دیدیں تا کہ میں اس سے قمیص بنالوں ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میرے پاس کرتا تو نہیں ہے شاید کہیں سے آجائے ( تو میں دیدونگا ) لڑکے نے کہا میری ماں نے کہا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی ردا دے دیجئے میں اس کا پیراہن بنالوں گی ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا مجھے اتنی مہلت دو کہ میں حجرہ میں جا کر دیکھ لوں ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجرہ میں تشریف لے گئے اور اپنی ردا لاکر اس لڑکے کے حوالہ کردی ، وہ لڑکا ردا لیکر اپنے گھر چلاگیا _(۱)

ایک دن کچھ ایسے افراد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے جن کے جسم پر لباس نہیں تھا اور انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لباس کا مطالبہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر میں تشریف لے گئے وہاں کچھ بھی نہیں تھا

___________________

۱) (شرف النبی ص ۷۸) _

۲۰۵

جناب فاطمہ کے پاس صرف ایک پردہ تھا جس سے کوئی سامان ڈھکا ہوا تھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا بیٹی کیا تم یہ چاہتی ہو کہ اس پردہ کے ذریعہ دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کرو؟ فاطمہ(س) نے جواب دیا ، جی ہاں ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس پردہ کے کئی ٹکڑے کر کے غریبوں میں تقسیم کردیا تا کہ وہ اپنا جسم چھپالیں(۱)

ایک با برکت درہم

ایک دن آٹھ درہم لیکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم بازار تشریف لے گئے راستہ میں آپ نے دیکھا کہ ایک کنیز کھڑی رو رہی ہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رونے کا سبب پوچھا اس نے بتایا کہ میرے آقا نے مجھے دو درہم دیکر کچھ خریدنے کیلئے بھیجا تھا وہ دونوں درہم کھو گئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو درہم اس عورت کو دے دیئے اور خود چھ در ہم لیکر بازار کی طرف چلے گئے ، چار درہم کا ایک پیراہن خرید کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہن لیاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم راستہ میں ایک نحیف و لاغر انسان نظر آیا جس کا جسم برہنہ تھا اور وہ آواز لگا رہا تھا کن ہے جو مجھ کو ایک کرتا پہنا دے خدا اس کو بہشت میں جنت کے حلے عطا کریگا ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ لباس جسم سے اتار کر اسکو پہنا دیا دوبارہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بازار تشریف لے گئے اس مرتبہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو درہم کا ایک لباس خریدا _

___________________

۱) (شرف النبی ص ۷۵) _

۲۰۶

واپسی پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دوبارہ اسی کنیز کو راستے میں روتے ہوئے دیکھا ، سوال کرنے پر اس نے بتایا کہ جو خریدنا تھا وہ تو میں خرید چکی لیکن اب گھر جانے میں مجھے دیر ہوگئی ہے مجھے خوف ہے کہ دیر سے گھر پہونچنے پر کہیں میرا آقا مجھے سزا نہ دے _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا مجھ کو اپنے گھر لے چل جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس انصاری کے گھر پہونچے تو وہاں مرد موجود نہ تھے صرف عورتیں تھیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو سلام کیا انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آواز پہچان لی مگرجواب نہیں آیا ، یہاں تک کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو تین بار سلام کیا سب نے مل کر جواب دیا : علیکم السلام ورحمة اللہ و برکاتہ اور کہا اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فدا ہوجائیں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: کیا تم نے میری آواز نہیں سنی تھی؟ عورتوں نے جواب دیا کیوں نہیں ، مگر ہم چاہتے تھے کہ ہم پر اور ہمارے خاندان پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زیادہ سلام ہوجائے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تمہاری کنیز کو پہنچے میں دیر ہوگئی ہے وہ تم ڈر رہی ہے اس کی سزا معاف کردو ، سب نے ایک ساتھ کہا ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سفارش قبول کی اس کی سزا معاف ہوئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مبارک قدم اس گھر تک آنے کی وجہ سے ہم نے اس کو آزاد کیا _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا واپس ہوگئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا اس سے زیادہ پر برکت میں نے دوسرے آٹھ درہم نہیں دیکھے ایک خو فزدہ کنیز کے خوف کو اس نے دور کیا اس کو آزاد کیا اور دو افراد کی ستر پوشی ہوگئی(۱)

___________________

۱) ( شرف النبی ص ۷۰) _

۲۰۷

سخاوت مندانہ معاملہ

منقول ہے کہ ایک دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جناب جابر کے ساتھ ان کے اونٹ پر بیٹھ کر کہیں چلے جار ہے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جابر نے فرمایا اس اونٹ کو میرے ہاتھ فروخت کردو جابر نے کہا میرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فدا ہوجائیں اے اللہ کے رسول ، یہ اونٹ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کا ہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا نہیں میرے ہاتھوں فروخت کرو ، جابر نے کہا میں نے فروخت کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بلال سے کہا کہ اس کی قیمت ادا کردو جابر نے پوچھا اونٹ کس کے حوالہ کروں ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا اونٹ اور اس کی قیمت دونوں تم اپنے ہی پاس رکھو خدا تمہارے لئے اس کو مبارک قرار دے(۱)

___________________

۱) (شرف النبی ص ۶۹_ ۶۸)_

۲۰۸

خلاصہ درس

۱) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ خدا نے میری تربیت کی ہے اور میں نے علی کی تربیت کی ہے خدا نے مجھے سخاوت اور نیکی کا حکم دیا بخل اور جفا کاری سے روکا خدا کے نزدیک بخل اور بد اخلاقی سے زیادہ بد کوئی چیز نہیں ہے برے اخلاق عمل کو اس طرح فاسد کردیتے ہیں جس طرح سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے _

۲) اخلاق کے سلسلہ میں جس بات پر زیادہ دھیاں دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ بخشش و عطا کرنے والا اس کو اپنی نظر میں بہت بڑا کارنامہ نہ سمجھ بیٹھے _

۳) جود و سخاوت کا سب سے بلند درجہ ایثار ہے اور احتیاج کے باوجو دمال کو خرچ کردینے کا نام ایثار ہے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود تھی _

۴) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے دوطرح کے مسائل تھے

الف_ ساءل کے سوال کا جواب

ب_ لوگوں کو کام کرنے کی ترغیب دلانا

۲۰۹

سوالات :

۱_ صدقہ کو اگر چھوٹا سمجھا جائے تو صدقہ دینے والے پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے ؟

۲_ امام جعفر صادق نیک کام کیلئے تین خصلتوں کو شرط جانتے ہیں وہ تین خصلتیں کون کون سی ہیں ؟

۳_ ایثار کے کیا معنی ہیں ؟

۴_ ساءل کے ساتھ رسول خدا کی کیا سیرت تھی تفصیل سے بیان فرمایئے

۵_ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بخشش و عطا کے دو نمونے بیان فرمایئے

۲۱۰

پندرہواں سبق:

(دعا )

( وقل رب ادخلنی مدخل صدق و اخرجنی مخرج صدق و اجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا ) (۱)

ای رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ دعا مانگا کریں کہ اے میرے پروردگار مجھے (جہاں) پہونچا اچھی طرح پہونچا اور مجھے (جہاں سے ) نکال اچھی طرح نکال اور مجھے ایسی روشن حجت و بصیرت عطا فرما جو میری مدد گار ہو _

اس حصہ میں آپ کے سامنے پیغمبر اکرم حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا کے وہ نمونے ہیں جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دعاوں سے انس و محبت کا پتہ دیتے ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیرو کاروں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دعا سیکھنے کا سلیقہ عطا کرتے ہیں _

دعا کیا ہے :

___________________

۱) ( اسراء ۸۰) _

۲۱۱

لفظ '' دعا '' یدعو کا مصدر ہے اور لغت کے اعتبار سے پکارنے ، بلانے اور دعوی کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس کی جمع ادعیہ ہے (فرہنگ جدید عربی بہ فارسی ص ۱۵۷) لفظ دعا استغاثہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے(۱)

جس کے ذریعہ خدا کو حاجتیں پوری کرنے کیلئے پکارا جائے اصطلاح میں اس کو دعا کہتے ہیں _ فرہنگ جدید عربی _ فارسی ص ۱۵۷ خدا کی بارگاہ میں تضرع و زاری کے معنی میں لفظ دعا استعمال کیا جاتا ہے(۲) جو چیز خدا کے پاس ہے اس کو تضرع و زاری کے ذریعہ طلب کرنے کو بھی دعا کہتے ہیں_(۳) دعا کے دوسرے معنی بھی بیان کئے گئے ہیں

دعا کی اہمیت اور اس کا اثر :

آیا ت و روایات میں جس طرح علم ، فکر سعی اور کوشش کی تاکید کی گئی ہے ویسے ہی دعا کی بھی تاکید بھی کی گئی ہے_

قرآن مجید میں مومن کو خدا کی بارگاہ میں دعا درخواست اور توسل کی طرف دعوت دینے کے ساتھ ساتھ(۴) معصومینعليه‌السلام سے مروی معتبر روایتوں میں بھی دعا کے مقام کو

___________________

۱) ( فرہنگ جدید عربی _ فارسی ص ۱۵۷) _

۲) (لسان العرب ج ۱۴ ص ۲۵۷)_

۳) (تاج العروس ج ۱۰ ص ۱۲۶)_

۴) ( بقرہ آیہ ۲۵۰_ ۲۸۶، ۱۸۶، یونس ۸۸، غافر۶۰)_

۲۱۲

بیان کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مقام اللہ تعالی کے نزدیک بلاء و آفات کے دور ہونے اور قضا و قدر کے تبدیل ہونے تک بلند ہے _ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :

''ادفعوا ابواب البلاء بالدعاء '' (۱)

دعا کے ذریعہ بلا و مصیبت کا دروازہ اپنے اوپر بند کرلو_

امام جعفر صادقعليه‌السلام فرماتے ہیں :

''الدعا یرد القضاء بعد ما ابرم ابراما '' (۲)

قضا کے یقینی ہوجانے کے بعد بھی دعا قضا کو پھیر دیتی ہے_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی چند چھوٹی چھوٹی حدیثیں ملاحظہ ہوں :

''الدعا هو العباد ه'' (۳)

دعا عبادت ہے _

''ما من شیی اکرم علی الله تعالی من الدعا'' (۴)

خدا کے نزدیک دعا سے زیادہ کوئی شئے مکرم نہیں ہے _

''الدعا مخ العبادة و لا یهلک مع الدعاء احد '' (۵)

حقیقت عبادت دعا ہے جو شخص دعا کرتا ہو وہ ہلاک نہیں ہوتا _

___________________

۱) ( بحار ج ۹۳ ص ۲۸۸)_

۲) ( اصول کافی ج ۲ ص ۴۷ ) _

۳) ( لسان العرب ج ۱۴ ص ۲۵۷)_

۴) ( میزان الحکمہ ج ۳ ص ۲۴۶)_

۵) ( بحار الانوار ج ۹۳ ص ۳۰۰) _

۲۱۳

ایک دن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

''الا ید لکم علی سلاح ینجیکم من اعداءکم ''

کیا میں تم کو ایسے ہتھیارکا پتہ بتاوں جو تم کو دشمن کے شر سے نجات دے؟

اصحاب نے کہا کیوں نہیں ، اے اللہ کے نبی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

'' تدعون ربکم باللیل و النهار فان سلاح المومن الدعاء'' (۱)

اپنے خدا کو شب و روز پکارتے رہو اسلئے کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے_

دعا کی اہمیت کے سلسلہ میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انسان دعا کے ذریعہ مبدا ہستی ''خدا''سے ہم کلام ہوتا ہے خدا کی لازوال قدرت پر بھروسہ اور اس سے ارتباط مشکلات پر غلبہ حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے ، اس لئے کہ خدا پر بھروسہ کرنے کے بعد انسان دوسری قوتوں سے بے نیاز ہوجاتا ہے _

مصاءب سے مقابلہ کرنے کے لئے دعا کرنے والے میں دعا استقامت اور روحی تقویت کا باعث بنتی ہے دعا کرنے والے انسان کے دل میں امید کی کرن ہمیشہ جگمگاتی رہتی ہے اور وہ آئندہ کے لئے لولگائے رہتا ہے_

ان تمام باتوں زیادہ اہم یہ ہے کہ معبود سے راز و نیاز کرتے ہوئے جو دعا کی جاتی ہے وہ روح انسانی کے کمال میں موثر ہوتی ہے ، خدا سے محبت کے ساتھ راز و نیاز اور عشق کے ساتھ گفتگو کے موتی کی قدر و قیمت دنیا اوردنیا کی ساری چیزوں سے زیادہ ہے_

___________________

۱) ( اصول کافی ج ۲ ص ۴۶۸) _

۲۱۴

دعا کے وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کیفیت :

آداب دعا کی رعایت سے قبولیت کا راستہ ہموار ہوتا ہے بارگاہ خداوندی میں دعا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان تضرع و زاری سے دعا کرے حضور نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا کے وقت کی کیفیت میں لکھا گیا ہے کہ :

''کان صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یرفع یدیه ، اذا ابتهل و دعا کما یستطعم المسکین '' (۱)

آپ دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو بلند فرماتے تھے اور رو رو کر کسی مسکین کی طرح خدا سے حاجت طلب کرتے تھے_

عبادت کے اوقات میں دعا

اذان کے وقت کی دعا :

مسلمانوں کو جن چیزوں کی تاکید کی گئی ہے ان میں سے ایک چیز اذان ہے ، اس کی اہمیت کے لئے بس اتنا جاننا کافی ہے کہ مسلمان دن رات میں کئی بار گلدستہ اذان سے آواز اذان سنتا ہے ، جو کہ نماز اور شرعی اوقات کیلئے ایک اعلان کی حیثیت رکھتی ہے ، اسی وجہ سے صدر اسلام میں موذن کا بڑا بلند مرتبہ تھا ، پہلے موذن کی حیثیت سے حضرت بلال کا نام آج

___________________

۱) ( سنن النبی مرحوم علامہ طباطبائی ص ۳۱۵)_

۲۱۵

بھی تاریخ کی پیشانی پر جگمگا رہا ہے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب موذن کی آواز سنتے تو اذان کے کلمات کو دہرا تے جاتے تھے( اذان کے جملوں کو دہرانے کا عمل '' حکایت اذان'' کہلاتا ہے اور یہ مستحب ہے) اور جب موذن حی علی الصلوة ، حی علی الفلاح ، حی علی خیر العمل کہتا ہے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لا حول و لا قوة الا باللہ فرماتے تھے ، جب اقامت ختم ہوجاتی تو آپ فرماتے : _

''اللهم رب هذه الدعوه التامة و الصلوة القائمه،اعط محمدا سوله یوم القیمة وبلغه الدرجة الوسیلة من الجنة وتقبل شفاعة فی امته'' (۱)

اے وہ خدا جو اس دعوت تام اور قاءم ہونے والی نماز کا پروردگار ہے قیامت کے دن محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خواہشوں کو پورا فرما اور اس درجہ تک پہونچا جو وسیلہ جنت ہے اور امت کی شفاعت کو ان سے قبول فرما _

نماز صبح کے بعد :

نماز صبح کے بعد طلوع آفتاب تک آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداکی بارگاہ میں راز و نیاز اور دعا میں مشغول رہتے تھے، امیرالمؤمنین علیعليه‌السلام لوگوں کی حاجتوں اور ضرورتوں کے بارے میں سننے کیلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیچھے لوگوں کی طرف رخ کر کے بیٹھ جاتے تھے اور لوگ اپنی ضرورتیں آپعليه‌السلام کیسا منے پیش کرتے تھے _(۲)

___________________

۱) ( سنن النبی ص ۳۲۹ منقول از دعاءم الاسلام ج ۱ ص ۱۴۶)_

۲) (سنن النبی ص ۳۳۶)_

۲۱۶

نماز ظہر کے بعد :

حضرت علیعليه‌السلام سے مروی ہے کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز ظہر تمام کر لیتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے:

'' لا اله الا الله العظیم الحلیم ، لا اله الا الله رب العرش العظیم والحمدلله رب العالمین ، اللهم انی اسئلک موجبات رحمتک و عزاءم مغفرتک و الغنیمة من کل خیر و السلامة من کل اثم ، اللهم لا تدع لی ذنبا الا غفرته و لا هما الا فرجته و لا کربا الا کشفته و لا سقما الا شفیته و لا عیبا الا سترته و لا رزقا الا بسطته و لا خوفا الا آمنته و لا سوء الا صرفته و لا حاجة هی لک رضا ولی فیها صلاح الا قضیتها یا ارحم الراحمین آمین رب العالمین '' (۱)

سوائے بزرگ اور حلیم خدا کے کوئی خدا نہیں ہے ، عرش عظیم کے پیدا کرنے والے خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ، حمد و سپاس اسی خدا سے مخصوص ہے جو عالمین کا پیدا کرنے والا ہے میرے مالک میں تجھ سے وہ چیز مانگ رہا ہوں جو تیری رحمت و مغفرت کا باعث ہو ، پالنے والے مجھے تمام نیکیوں سے بہرہ مند کردے اور ہر گناہ سے مجھ کو بچالے پالنے والے تو میرے تمام گناہوں کو بخش دے ، میرے غم و اندوہ کو ختم کردے ، سختیوں کو میرے لئے آسانی کردے میرے سارے رکھ درد کو شفا عطا کر ، عیوب کو

___________________

۱) ( سنن النبی ص ۲۳۶و ۲۳۷)_

۲۱۷

چھپالے رزق کو کشادہ کردے خوف کو امن (بے خوفی) میں تبدیل کردے ، میری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے ، میں یہ چاہتا ہوں کہ تو میری ہراس خواہش کو پورا فرما جس میں تیری رضامندی اور میری بھلائی ہو ، اے مہربانی کرنے والوں میں سب سے زیادہ مہربان _ آمین یا رب العالمین _

سجدے میں دعا :

امام جعفر صادقعليه‌السلام فرماتے ہیں کہ سجدہ میںآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے تھے:

''اللهم ان مغفرتک اوسع من ذنوبی و رحمتک ارجی عندی من عملی فاغفرلی ذنوبی یا حیا لا یموت '' (۱)

خدایا تیری بخشش میرے گناہوں سے زیادہ وسیع ہے اور تیری رحمت میرے نزدیک میرے عمل سے زیادہ امید بخش ہے پس میرے گناہوں کو معاف کردے اے ایسے زندہ رہنے والے خدا ، موت جس تک نہیں پہنچ سکتی _

دعا اور روزمرہ کے امور

صبح و شام :

خدا کی بارگاہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیشہ اپنے کو نیازمند سمجھا اور کبھی بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے غافل

___________________

۱) ( سنن النبی ص ۳۳۷)_

۲۱۸

نہیں ہوئے ، رات کے وقت خاک پر اپنا چہرہ رکھ کر فرماتے تھے :

''الهی لا تکلنی الی نفسی طرفة عین ابدا ''

خدا ایک پلک چھپکنے کی مدت کیلئے بھی مجھ کو میرے نفس کے حوالہ نہ کرنا _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صبح کا آغاز دعا سے کرتے اور شام کو دعا پڑھ کر بستر پر آرام کرنے کیلئے لیٹتے تھے، صبح کو فرماتے :

'' اللهم بک اصبحنا و بک امسینا بک نحیا و بک نموت و الیک المصیر'' (۱)

خدایا میں نے تیری مدد سے صبح کی اور تیری مدد سے میں نے رات گزاری تیری وجہ سے میںزندہ ہوں اور جب تو چاہے گا تب میں مروں گا اور ہر شئی کی بازگشت تیری طرف ہے_

کھانے کے وقت کی دعا :

جب دستر خوان بچھایا جاتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے :

''سبحانک اللهم ما احسن ما تبتلینا سبحانک ما اکثر ما تعطینا سبحانک ما اکثر ما تعافینا اللهم اوسع علینا و علی فقراء المومنین والمومنات و المسلمین و المسلمات '' (۲)

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۵۷۴)_

۲) ( سنن النبی ص ۳۲۳) _

۲۱۹

اے میرے اللہ تو پاک و پاکیزہ ہے وہ کتنی اچھی بات ہے جس کے ذریعے تو نے ہم کو آزمایا ، تونے جو ہم کو عطا کیا ہے وہ کتنا زیادہے ، جو عافیت تو نے ہم کو دی ہے دہ کتنی زیادہ ہے ، خدا ہمارے اور اہل ایمان اور اہل اسلام کے فقراء کی روزی میں کشادگی عطا فرما _

جب کھانا سامنے آتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے :

'' بسم الله ، اللهم اجعلها نعمة مشکورة تصل بها نعمة الجنة'' (۱)

شروع کرتاہوں میں اللہ کے نام سے ، خدایا اس کھانے کو نعمت مشکور قرار دے اور بہشت کی نعمت سے متصل کردے_

جب کھانے کی طرف ہاتھ بڑھاتے تو فرماتے :

''بسم الله بارک لنا فیما رزقتنا و علیک خلفه '' (۲)

شروع کرتا ہوں میں خدا کے نام سے ، پالنے والے جو روزی تونے ہم کو دی ہے اس میں برکت دے اور مزید روزی عنایت فرما _

جب کھانے کا برتن اٹھاتے تو فرماتے :

''اللهم اکثرت و اطبت و بارکت فاشبعت و ارویت الحمد الله الذی یطعم و لا یطعم '' (۳)

___________________

۱) ( سنن النبی ص ۳۲۳)_

۲) ( سنن النبی ص ۳۲۳) _

۳) ( سنن النبی ۳۲۴) _

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311