رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر18%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 202863 / ڈاؤنلوڈ: 5568
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ہونے کے باوجود باقی مباحث کلامی کی بہ نسبت مشکل اور پیچیدہ ہے لہٰذا قیامت کی مباحث میں بہت سے ایسے مسائل بھی ہیں کہ جن کی توضیح اور درک کرنا ہر عام و خاص کی بساط سے باہر ہے کہ انھیں میں سے ایک نامہئ اعمال ہے اگر چہ نامہئ اعمال کا مسئلہ اہم ترین مسئلہ بھی ہے کیونکہ بہت سی روایتیں اور آیات کی روشنی میں معلوم ہوتاہے کہ انسان کے تمام اعمال قیامت کے دن مجسم ہوکر حاضر ہوں گے نیز جن اعضاء و جوارح وہ اعمال انجام دئے گئے وہی اعضاء اسی پر گواہی دیتا ہے لہٰذا اس طرح کی باتیں نامہئ اعمال کے متعلق روایات اور آیات میں زیادہ ہیں اور اعمال کی حقیقت اور کیفیت کو درک کرنا انسان کی قدرت سے باہر ہے اگرچہ محقق ہی کیوں نہ ہو لہٰذا بوعلی سینا کا یہ قول ہے کہ میری تحقیقات معاد جسمانی کو ثابت کرنے سے قاصر رہی۔

لیکن میرا مولا امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے لہٰذا میں سر تسلیم خم کرتا ہوں۔اور نامہئ اعمال کی اتنی اہمیت ہے کہ جنت اور جہنم کا فیصلہ ہی نامہئ اعمال کا نتیجہ ہے گویا مباحث معاد میں نامہئ اعمال کو ہی مرکزیت حاصل ہے لیکن اس کی حقیقت اور ماہیت روشن کرنا اس کتاب کی گنجائش سے خارج ہے لہٰذا مختصر یہ ہے کہ قیامت کے دن نامہئ اعمال یا دائیں ہاتھ یا بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ نامہئ اعمال جس ہاتھ میں دیا جائے کیا فرق پڑتا ہے؟ اس سوال کا جواب محققین دے چکے ہیں لیکن پھر بھی ایک اشارہ لازم ہے کہ نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جنّتی ہے اور اس کے سارے اعمال قبول ہونے کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ ابدی زندگی آباد ہونے پر بھی دلیل ہے اسی طرح نامہئ اعمال بائیں ہاتھ میں دینے کا مطلب بھی واضح ہے کہ خدا کی نظر میں اعمال قابل قبول نہ ہونے کی علامت ہے اسی لئے آئمہ معصومین علہیم السلام سے منقول بہت سی دعاؤں میں اس طرح کے جملات مذکور ہیں۔ کہ پالنے والے! روز قیامت میرا نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں لینے کی توفیق دے لہٰذا قیامت کے دن جن لوگوں کا نامہئ اعمال جب دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ لوگ خوش اور ان کے چہرے نور سے منور ہونگے لیکن جن لوگوں کے نامہئ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائیگا وہ خدا سے التجاء کریں گے:

۱۲۱

اے خدا وند کاش میرے نامہئ اعمال پیش نہ کیا جاتا اے کاش آج میرے تمام گناہوں اور برائیوں کو اس طرح میدان میں آشکار نہ کیا جاتا لہٰذا ایسی بڑی مشکل میں مبتلاء ہونے کا سبب ہمارے برے اعمال ہیں چنانچہ اگر انسان روز قیامت ایسے شرمناک اور ہولناک حالات سے نجات کا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز شب انجام دے لہٰذا روایات میں وارد ہوا ہے اگر آپ نے نماز شب انجام دی تو خدا اس کے عوض میں ان کے نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں عطا فرمائے گانیز حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا اگر کوئی شخص رات کے آخری وقت میں خدا کی عبادت اور نماز شب پڑھنے میں مشغول رہے تو خدا اس کے بدلے میں روز قیامت اس کے نامہئ اعمال کو دائیں ہاتھ میں عطا فرمائے گا۔ اسی طرح دوسری روایات بھی آنحضرتؑ سے منقول ہے کہ آپؑ نے فرمایا: اگر کوئی شخص رات کے چوتھائی حصے عبادات اور نماز شب انجام دینے میں گزارے تو اﷲ تبارک و تعالیٰ اسے قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جوار میں جگہ عطا فرمانے کے علاوہ اس کے نامہئ اعمال کو دائیں ہاتھ میں دیگا۔(١)

لہٰذا خلاصہ یہ ہوا کہ نامہئ اعمال کے دائیں ہاتھ میں دئےے جانے، اعمال کے قبول ہونے خدا کی رضایت کے شامل حال ہونے اور جنت میں داخل کیا جانے جاودانی زندگی پانے اور تنگدست لوگوں کے امیر بننے کا سبب نماز شب ہے لہٰذا خدا سے ہماری دعا ہے کہ ہمیں نماز شب انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔

٤۔پل صراط سے بامیدی عبور کا سبب

روز قیامت سے مربوط نماز شب کے فوائد میں سے ایک اور فائدہ یہ ہے اگر کوئی شخص نماز شب جیسی بابرکت عبادت کو انجام دے تو قیامت کے دن پل صراط سے بآسانی گذرسکتا ہے لیکن پل صراط خود کیا ہے اور اس کی سختی کے بارے میں شاید قارئین کرام جانتے ہوں روایات سے صراط کی کیفیت اس طرح روشن ہوتی ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی تو قیامت کے دن رونما ہونے والی مشکلات

____________________

(١)ثواب الاعمال و عقابہاص١٠٠.

۱۲۲

میں سے ایک مشکل صراط کی صورت میں پیش آئے گی کیونکہ روایت میں صراط کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ بال سے زیادہ باریک ، تلوار سے زیادہ تیز، اور آگ سے زیادہ گرم ہوگا کہ جو خدا نے جہنم کے اوپر خلق کیا ہے تاکہ جنّت میں جانے سے پہلے اس سے عبور کرے کہ ایسے اوصاف کے حامل راستے کو عبور کرنا عام عادی انسانوں کے لئے یقینا بہت سخت اور مشکل امر ہے لیکن ایسے دشوار راہ سے اگر بہ آسانی گذرنا چاہے تو رات کے وقت خدا کی عبادت اور نماز شب انجام دے۔ کیونکہ نماز شب میں خدا نے ایسے فوائد مؤمنین کے لئے مخفی رکھا ہے کہ ہر مشکل امر کا راہ حل نماز شب ہے چنانچہ اس مسئلہ کو حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے اگر کوئی شخص رات کے تین حصے گذر جانے کے بعد نیند کی لذت چھوڑ کر اٹھے اور نماز شب انجام دے تو خداوند قیامت کے دن اس شخص کو مؤمنین کی پہلی صف میں قرار دے گا اور صراط سے عبور کے وقت آسانی، حساب و کتاب میں تخفیف اور کسی مشکل کے بغیر جنّت میں داخل کیا جائے گا۔(١)

پس نماز شب کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ کرنا شاید ہماری قدرت سے خارج ہو اسی لئے بہت سی روایات میں اشارہ کیا گیا ہے کہ نماز شب دنیا و قبر اور آخرت کے تمام مشکلات کے لئے راہ نجات ہے کہ اس طرح کی اہمیت اور ثواب اسلام میں شاید کسی اور عبادت اور کار خیر کو ذکر نہیں کیا ہے۔ تب ہی تو پورے انبیاء

____________________

(١)ثواب الاعمال ص١٠٠

۱۲۳

اور آئمہ ٪ اور دیگر مؤمنین کی سیرت طیبہ ہمیشہ یہی رہی ہیں کہ رات کے آخری وقت خدا سے راز و نیاز کیا کرتے تھے۔

٥۔جنت کے جس دروازے سے چاہیں داخل ہوجائیں

روایات اور آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ جنت کے متعدد دروازے ہیں کہ ہر ایک دروازے کا مقام و منزلت دوسروں سے مختلف ہے۔ لہٰذا جنت ایک ایسی جگہ ہے کہ جہاں کسی قسم کا آپس میں ٹکراؤ یا الجھاؤ نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ ہر جنّتی کے مراتب اور درجات مختلف ہیں لہٰذا اسی بناء پر ہر ایک طبقے کا جنّت میں داخل ہونے کا الگ دروازہ مخصوص کیا گیا ہے لیکن اس قانون سے ایک گروہ مستثنیٰ ہے کہ وہ طبقہ ایسا خوش نصیب طبقہ ہے جو دنیا میں نماز شب کو انجام دیتا رہا ہے ایسے افراد جنّت کے آٹھ دروازے سے چاہے گذر سکتا ہے کہ اس مطلب کو حضرت علی علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا ہے کہ ہر وہ شخص جو رات کے اوقات میں سے کوئی ایک وقت نماز میںگذاریں گے تو خداوند کریم اپنے محبوب ترین فرشتوں سے کہا کرتے ہیں میرے اس تہجد گذار بندے سے عام انسان کی طرح تم ملاقات نہ کرو بلکہ اس سے ایک خاص اہتمام اور شان و شوکت کے ساتھ پیش آئیں اور خدا کے ہاں ان کا مقام ومنزلت دیکھ کر فرشتے تعجب کریں گے اور فرشتے انہی افراد سے عر ض کریں گے کہ آپ جنت کے جس دروازے سے چاہیں گذر سکتے ہیں.

۱۲۴

٦۔آتش جہنم سے نجات کا باعث

قیامت کے مسائل میں سے سنگین ترین مسئلہ آتش جہنم ہے اور اسی حوالے سے قرآن و سنت اور انبیاء و آئمہ٪ کی تعلیمات سے یہ ملتا ہے کہ تم لوگ کسی ایسے جرم کا ارتکاب نہ کرو کہ جس کا نتیجہ آتش جہنم ہو لیکن جہنم کی آگ کی حقیقت دنیوی آگ کی مانند نہیں ہے اور جس طرح دنیوی آگ کی گرمائش اور جلن قابل تحمل نہیں تو جہنم کی آگ کیسے قابل تحمل ہوسکتی ہے جبکہ جہنم کی آگ کی تپش و جلن دنیوی آگ کی بہ نسبت نوگنا زیادہ ہوگی۔ لہٰذاآتش جہنم کی سختی کا اندازہ اور ان سے پیدا ہونے والے خوف و ہراس کا سبب یہی ہے پس اگر کوئی شخص ایسی آگ سے نجات چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز شب سے مدد مانگے چنانچہ اس مطلب کو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے یوں ذکر فرمایا ہے کہ ہر وہ شخص جو عبادت الٰہی میں شب بیداری کریں گے تو خداوند اس کو جہنم کی سختیوں سے نجات دیتا ہے اور عذاب الٰہی سے محفوظ رہے گا۔(١)

اسی طرح قرآن کریم میں جہنم کی آگ کے متعلق متعدد آیات نازل ہوئی ہیں۔ جیسے:

____________________

(١)ثواب الاعمال ص١٠٠.

۱۲۵

( فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِینَ ) (١)

پس تم اس آگ سے بچو کہ جس کے ایندھن انسان اور پتھر ہوں گی جو کافروں کے لئے خلق کیا ہے۔

نیز فرمایا:

( إِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنْ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِیرًا ) (٢)

بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوگا اور تم ان کی حمایت میں کوئی مددگار نہ پاؤگے۔

پس اگر کوئی انسان ایسی آگ سے نجات کا خواہاں ہے تو آج نماز شب انجام دینے کا عزم کریں۔

٧۔آخرت کی زادو راہ نماز شب

یہ امر طبیعی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ملک یا شہر سے دوسرے شہر یا ملک کی طرف سفر کرنا چاہتا ہے تو سفر کے تمام ضروریات کو سفر سے پہلے مہیا کرتا ہے

____________________

(١)سورہئ بقرۃ آیت ٢٤.

(٢)سورہئ نساء آیت ١٤٥

۱۲۶

تاکہ سفر کے دوران کسی مشکل سے دوچار نہ ہو لیکن یہ بڑی تعجب کی بات ہے کہ انسان اس دنیا میں معمولی سفر شروع کرنے سے پہلے کچھ زادوراہ آمادہ کرتاہے لیکن جب اخروی سفر اور ابدی عالم کی طرف جانے لگتا ہے تو سفر کے ضروریات اور لوازمات سے بالکل غافل ہے جبکہ وہ یہ جانتا بھی ہے کہ یہ سفر کس قدر طولانی ہے اور زادوراہ کس قدر زیادہ ہونا چاہیے پس اگر کوئی شخص عالم آخرت کے سفر کا تصور کرے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ سفر دنیوی سفر سے بہت زیادہ اور طولانی اورمشکل ہے لہٰذا اس سفر کے زادو راہ میں سے ایک نماز شب ہے۔

چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا وہ شخص خوش قسمت ہے جو سردی کے موسم میں رات کے اوقات میں سے کسی خاص وقت میں عالم آخرت کے زادو راہ مہیا کرنے میں گزارے اسی طرح دوسری روایت میں پیغمبر اکر م ؐنے فرمایا:''فان صلاة اللیل تدفع عن اهلها حرا النار لیوم القیامة'' (١)

بے شک روز قیامت نماز شب نمازی کو جہنم کے حرارت سے نجات دیتی ہے پس ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز شب آخرت کے لئے ایک ایسا زخیرہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا اتنی فضیلت اور اہمیت کے باوجود انجام نہ دینا ہماری غفلت وکوتا ہی کا نتیجہ ہے ۔

____________________

(١)کننرالعمال ج ٧.

۱۲۷

٨۔نماز شب آخرت کی خوشی کا باعث اگر انسان دنیا میںخوف خدا میں آنسوبہا ئے تو روزقیامت اس کو کسی چیز کے خوف سے رونا نہیں پڑے گا اسی لئے سکونی نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت کی ہے

''قال قال رسول الله (ص)کل عین باکیة یوم القیامه الا ثلاثة اعین عین بکت من خشة الله وعین غضت عن محارم الله وعین باتت ساهرة فی سبیل الله '' (١)

روز قیامت تین آنکھوںکے علاوہ باقی تمام آنکھیں اشک بارہونگی (١)وہ آنکھوں جو خوف خدا کی وجہ سے روتی رہی ہو(٢) وہ آنکھ جو حرام نگاہوں سے اجتناب کرتی رہی ہے (٣) وہ آنکھ جو راہ خدا میں شب بیداری کرتی رہی ہو اسی طرح دوسری روایت میں فرمایا:

روز قیامت تمام آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے مگر تین آنکھیں، (١) جو محرمات الٰہی سے پرہیز کرتی رہی دوسری وہ آنکھیں جو رات کی تاریکی میں خوف خدا کے نتیجے میں گریہ وزاری میں رہی ہے تیسری وہ آنکھیں جو اطاعت الہٰی کے خاطر اپنے آپ کو نیند سے محروم کرکے شب بیداری کرتی رہی ہو لہٰذا

____________________

(١) خصال صدوق ص ٩٨

۱۲۸

قرآن کریم میں بھی یوں فرمایا ہے :

( فلیضحکو اقلیلا والیبکواکثیرا )

یعنی زیادہ رویا کرو اور خوشحالی کم کرو۔

اسی طرح تمام انبیاء اور اوصیاء علیہم السلام کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ وہ آخرت کے خوف سے دنیا میں رویا کرتے تھے اور بہتیرین رونے کا وقت رات کی تاریکی ہے کہ جس وقت نماز شب انجام دیجاتی ہے پس دنیا میں جہنم کی آگ اور عذاب کے خوف میں رونا اور آنسو بہانا اخروی شرمندگی سے نجات کا باعث ہوگا۔

٩۔آخرت کی زینت نماز شب

ہر عالم میں کچھ چیزیں باعث زینت ہوا کرتی ہے لیکن ان کا آپس میں بہت بڑا فرق بھی ہے چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام جفرصادق علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا ہے :

''ان الله عزوجل قال المال والبنون زینة الحیاة الدنیا وان ثمان رکعات التی یصلیها العبد اخراللیل زینة الاخرة ۔''(١)

خدا نے فرمایا کہ اولاد اور دولت دنیوی زندگی کی زینت ہے لیکن آٹھ

____________________

(١) بحار الانوار ج ٨٣

۱۲۹

رکعات نماز جو رات کے آخری وقت میںانجام دی جاتی ہے وہ آخرت کی زینت ہے پس اس روایت سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ عالم دنیا میں لوگوں کی نظر میں زینت کا ذریعہ اولاد اور دولت سمجھا جا تا ہے جب کہ عالم آخرت میں باعث زینت نماز شب اور دوسرے اعمال صالحہ ہوں گے چنانچہ خدا نے اسی مذکورہ آیہ شریفہ کے ذیل میں یوں اشارہ فرمایا والباقیات الصالحات لہٰذا نماز شب انجام دینے والے روز قیامت دوسروں سے مزین اور منور نظر آتا ہے

١٠۔جنت میں خصوصی مقام ملنے کا سبب

روایات کی روشنی میں یہ بات مسلم ہے کہ جنت میں ہر جنتی کا مقام ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہے کہ جس طرح دنیا میں ہر ایک کی جگہ اور منزل یکسان نہیں ہے اسی طرح جنت میں بھی سکونت کی جگہ اور دیگر سہولیات کے حوالے سے مختلف ہے لہٰذا اگر کوئی شخص دنیا میں نماز شب کا عادی اور نیک اعمال کے پابند ہوتو روز قیامت جنت میں اس کو ایسے خصوصی قصر دیا جائے گا کہ جو مختلف کمروں پر مشتمل ہونے کے علاوہ اس کی زینت فیروزہ یاقوت اور زبرجد جیسے قیمتی پھتروں سے کی گئی ہے چنانچہ اس مسئلہ کو پیغمبر اکرم)ص(نے یوں ارشاد فرمایا ہے :

''ان فی الجنة غرفا یری ظاهرها من باطنها وباطنها من ظاهر ها یسکنها من امتی من اطاب الکلام واطعم الطعام وافش السلام وادام الصیام وصلی بااللیل والناس ینام ۔''

بے شک جنت میں کچھ اسے قصر بھی تیار کیا گیا ہے کہ جن کے باہر کی زینت اندرسے اور اندر کی زینت باہر سے نظر آئے گی کہ ایسے کمروں میں میری امت میں سے ان لوگوں کی سکونت ہوگی کہ جن کا سلوک دنیاء میں لوگوں کے ساتھ اچھا رہا اور لوگوں کو کھنا کھلایا اور سرعام یعنی کھلم کھلا لوگوں کو سلام کرنے کے عادی رہے ہو اور ہمیشہ روزہ رکھنے کے علاوہ رات کے وقت نماز شب انجام دیتے رہیں جب کہ باقی افراد خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں ۔

۱۳۰

تحلیل وتفسیر:

اگر کوئی شخص دنیا میں نیک گفتاری کا مالک اور سلام کرنے کا عادی اور روزہ رکھنے پر پابند ہو تو خدا اس کے نیکی کا بدلہ روز قیامت ایسا گھر عطا فرمائے گا کہ جن کی خوبصورتی اور زینت کھلم کھلا نظر آئے گی اسی طرح نماز شب کی برکت سے جنت میں نماز شب انجام دینے والے ایسا گھر اور قصر کا مالک ہوگا نیز اگر دنیا میں نماز شب انجام دینے کی توفیق ہوئی ہو تو محشر کے میدان میں حساب وکتاب کے وقت نماز شب ایک بادل کی طرح اس شخص کی پیشانی پرسایہ کئے ہوئے نظر آئے گی چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( نے ارشاد فرمایا :

'' صلاةاللیل ظلا فوقه ''

یعنی نماز شب اس کے سرپر سایہ کی طرح نمودار ہوگی وتاجاًعلی راسہ یعنی نماز شب قیامت کے دن ایک تاج کی مانند ظاہر ہوگی نیز فرمایا ولباسا علی بدنہ نماز شب اس کے بدن پر لباس کی مانند ایک پردہ ہے ونورا سعی بین یدیہ اور نماز شب نور بن کر اس کے سامنے روشن ہوجائے گی وسترا بینہ وبین النار اور نماز شب نمازی اور جہنم کے درمیان ایک پردہ ہے وحجۃ بین یدی اللہ تعالی۔

خدا اور نمازی کے درمیان دلیل اور برہان ہوگی، وثقلا فی المیزان اور نامہ اعمال کے سنگین ہونے کا سبب ہے پس خلاصہ نماز شب حساب وکتاب میزان عمل حشرو نشر کے مو قع پر کام آنے والا واحد ذریعہ ہے لہٰذا فراموش نہ کیجئے ۔

۱۳۱

تیسری فصل :

نماز شب سے محروم ہونے کی علت

نماز شب کے اس قدر فضائل وفوائد کے باوجود اسے انجام نہ دینے کی وجہ کیا ہے ؟ کہ اس علت سے بھی آگاہ ہونا مؤمنین کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ جب کسی کام کا عملی جامہ پہنانا چاہتے تو اس کے دو پہلو کو مد نظر رکھنا چاہئیے تا کہ اس کام سے فائدہ اأٹھایا جاسکے وہ پہلو یہ ہے کہ جن شرائط پروہ کام موقوف ہے ان کو انجام دینا اور ان کے موانع اور رکاوٹوں کو برطرف کرنا کہ یہ دونوں مقدمے تمام افعال میں مسلم ہے اور عقل بھی اس کے انجام دینے کا حکم دیتی ہے اگر چہ ہر فعل کی شرائط اور موانع کی تعریف کے بارے میں علماء اور محققین کے درمیان اختلا ف آراء پائی جاتی ہے لیکن اس طرح کے اختلاف سے شرائط کی ضرورت اور موانع کی برطرفی کے لازم ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لہٰذا نماز شب کی شرائط اور موانع کو مدنظر رکھنا لازم ہے تاکہ نماز شب سے محروم نہ رہ سکے لیکن جو موانع روایات میں ذکر کیا گیا ہے وہ بہت ہی زیادہ ہے کہ جن کا تذکرہ کرنا اس کتابچہ کی گنجائش سے خارج ہے لہٰذا راقم الحروف صرف اشارہ پر اکتفاء کرتا ہے۔

۱۳۲

الف۔ گناہ :

کسی بھی نیک اور اہم کام سے محروم ہونے کے اسباب میں سے ایک گناہ ہے کہ جن کے مرتکب ہونے سے انسان نماز شب جیسے بابرکت کام کو انجام دینے سے محروم ہو جاتا ہے جیسا کہ اس مطلب کو متعدد روایات میں واضح اور روشن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے حضرت امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ جب کسی نے آپ سے دریافت کیا ۔

''لرجل قال له انی حرمت الصلاة بااللیل انت رجل قد قیدتک ذنوبک'' (١)

(یاعلی) میں نماز شب سے محروم ہوجاتا ہوں اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ تمہارے گناہوں نے تجھے جھکڑرکھا ہے اسی طرح دوسری روایت میں فرمایا:

''ان الرجل یکذب الکذب یحرم بها صلاة اللیل''

بے شک اگر کوئی شخص جھوٹ بولنے کا عادی ہو تو وہ اس جھوٹ کی وجہ سے نماز شب سے محروم رہے گا نیز اور ایک روایت میں فرمایا :

''ان الرجل یذنب الذنب فیحرم صلاة اللیل وان العمل

____________________

(١) اصول کافی ج ٣

۱۳۳

السیئی اسرع فی صاحبه من السکین فی اللحم ''

بے شک گناہ کرنے سے انسان نماز شب انجام دینے کی توفیق سے محروم ہوجاتا ہے اور برے کام میں مرتکب ہونے والے افراد میںاس طرح تیزی سے برائی کا اثر ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح چاقو گوشت کو ٹکرے ٹکرے کردیتاہے

تحلیل وتفسیر:

مذکورہ روایتوں سے دومطلب ثابت ہوجاتے ہیں:

١۔گناہ ہر نیک اور اچھے عمل سے محروم ہونے کا سبب ہے۔

٢۔ برے اعمال کا اثر ظاہر ہونے کا طریقہ۔

لہٰذا اگر نماز شب انجام دینے کی خواہش ہو تو گناہ سے اجتناب لازم ہے تاکہ اس کو انجام دینے کی توفیق سے محروم نہ رہے

ب۔نماز شب سے محروم ہونے کا دوسرا سبب

انسان اپنی روز مرہ زندگی میں خداوند کی عطا کردہ نیند جیسی عظیم نعمت سے بہرہ مند ہورہا ہے چاہے مسلمان ہو یا کافر مرد ہویا عورت، نوجوان ہو یا بچے، غریب ہو یا دولت مند جاہل ہو یا عالم ہر انسان اس نعمت سے بہرہ مندہے لیکن اب تک اکیسویں صدی کا انسان نیند کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہے اور محققین نیند کی حقیقت کے بارے میں پریشان ہے لہٰذا مختلف تعبیرات کا اظہار کیا جاتاہے اسی طرح نیند کی اہمیت بھی اس طرح بیان کئے ہیں کہ انسان ایک ہفتہ تک بغیر کھانے پینے کے زندہ رہ سکتا ہے لیکن ایک ہفتہ تک نہ سوئے تو زندہ رہنا ناممکن ہے اس روسے نیند کی حقیقت مبہم اور مجمل نظر آتی ہے لہٰذا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نیند کی دوقسمیں ہیں:١۔ کسی اصول وضوابط کے ساتھ سونا کہ جس کو انسانی خواب سے تعبیر کیا گیاہے۔٢۔ کسی اصول وضوابط کے بغیر سونا کہ جس کو حیوانی نیند سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۱۳۴

لہٰذا آیات اور روایات کی روسے مسلم ہے کہ نیند ایک نعمت ا لٰہی ہے اگر اس نعمت کو اصول وضوابط کے ساتھ استفادہ کرے تو صحت پر برے اثرات نہ پڑنے کے باوجود شریعت میں ایسی نیند کی مدح بھی کی گئی ہے لیکن اگر اس کے آداب کی رعایت نہ کرے تو صحت پر برا اثر پڑتا ہے اور شریعت میں اس کی مذمت ہے اسی حوالے سے آج کل کے محققین انسان کو ٹائم ٹیبل کے مطابق سونے اور اٹھنے کی سفارش کرتے ہیں تاکہ کثرت سے سونے والوں کو ان کے منفی اثرات سے بچایا جاسکے پس نماز شب سے محروم ہونے والے اسباب میں سے ایک کثرت سے سونا ہے چنانچہ پیغمبر اکرم )ص( کا ارشاد گرامی ہے :

''قالت ام سلمان ابن داود یابنی ایاک وکثرة النوم بااللیل فان کثرة النوم بااللیل تدفع الرجل فقرا یوم القیامه'' (١)

حضرت سلیمان ابن داود کی ماں نے کہا اے بیٹا رات کو زیادہ سونے سے

____________________

(١)بحار ج ٨٧

۱۳۵

اجتناب کرو کیونکہ رات کو زیادہ سونا قیامت کے دن فقرو فاقہ کاباعث بنتا ہے۔

پس اس روایت سے بخوبی روشن ہوتا ہے کہ زیادہ سونا نیک کاموں کے انجام دہی کےلئے رکاوٹ اور محرومیت اخروی کا سبب ہے

ج۔نماز شب سے محروم ہونے کاتیسرا سبب

جب انسان کسی نیک عمل کا موقع ضائع کردیتا ہے تو سب سے پہلے اس کی اپنی فطرت اس کی ملامت کرتی ہے لیکن انسان اتنا غافل ہے کہ اس ملامت فطری سے بچنے کی خاطر تو جیہات سے کام لیتا ہے تاکہ وہ اپنی ایسی عادت کو قائم رکھ سکیں لہٰذا اگر ہم کسی طالب علم سے نماز شب کے بارے میں سوال کرے کہ آپ کیوں اس عظیم نعمت سے استفادہ نہیں کرتے تو فورا جواب دیتا ہے کہ مجھے نیند آتی جس سے نماز شب نہیں پڑھ سکتا اور ایسی نیند صحت کے لئے ضروری بھی ہے لہٰذا ایسے بہانوں میں انسان غرق ہوجاتا ہے پس نماز شب سے محروم ہونے کی ایک علت بہانے اور توجیہات ہے جبکہ نماز شب ادا کرنے کے لئے بیس منٹ یا آدھ گھنٹہ سے زیادہ وقت کی ضرورت نہیں پڑتی اگر نماز شب کے انجام دینے کے وقت میں نہ سونے سے صحت پر برا اثر پڑتا تو خدا وند بھی اپنے بندوں کو رات کے اس مخصوص وقت میں نماز شب مستحب نہ فرماتے کیونکہ وہی انسان کے حقیقی مصالح اور مفاسد کا علم رکھتا ہے کہ نیند انسان کو صحت مند بنانے کے ضامن نہیں ہے بلکہ نماز شب ہے جو انسانی ترقی اور جسمانی صحت کا ضامن قرار پاتی ہے لہٰذا تحصیل علم اور دنیوی ترقی کے بہترین ذریعہ نماز شب ہے کہ جس کی برکت سے انبیاء اور ائمہ علیہم السلام اور مؤمنین کو قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے۔

۱۳۶

د۔ پر خوری

شاید اب تک کسی محقق نے اپنی تحقیقات میں شکم پوری اور زیادہ کھانے کے عمل کو اچھے کام سے تعبیر نہ ہو۔

لہٰذا اسلامی تعلیمات میں بھی جب اسی حوالہ سے مطالعہ کیا جائے تو پر خوری مذموم اور نامرغوب نظر آتا ہیں کیونکہ زیادہ کھانے سے انسانی معدہ مختلف قسم کے امراض کا شکار ہو جاتاہے اور اسی طرح پرخوری مادی اور معنوی امور کے لئے مانع بھی بن جاتا ہے لہٰذا پر خوری کا نتیجہ ہے انسان نماز شب جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے چنانچہ اس مطلب کو امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا ہے زیادہ غذا کھانے سے پرہیز کرو کیونکہ زیادہ کھانا کھانے سے نماز شب سے محروم اور جسم میں مختلف قسم کے امراض اور قلب میں قساوت جیسی بیماری پیدا ہوجاتی ہے۔(١)

ھ۔عجب اور تکبر

عجب اور تکبر دوایسی بیماری ہے جن کی وجہ سے انسان تمام معنویات الہٰی

____________________

(١) غررالحکم ص٨٠.

۱۳۷

سے محروم ہوجاتا ہے لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ چھ ہزار سال عبادت میں مشغول ہونے کے باوجود شیطان تکبر کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ نہ کرنے کے سبب ہمیشہ کے لئے لعنت خدا کا مستحق قرار پایا لہٰذا عجب اور تکبر نماز شب سے محروم ہونے کا ایک ذریعہ ہے چنانچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم )ص( نے یوں ارشاد فرمایا ہے :

''قال رسول الله قال الله عزوجل ان من عبادی المؤمنین لمن یجتهد فی عبادتی فیقوم.... ''(١)

(ترجمہ) پیغمبر اکرم )ص( نے فرمایا کہ خدا نے فرمایا ہے بے شک میرے مؤمن بندوں میں سے کچھ اس طرح میری عبادت کرنے میں مشغول ہیں نیند سے اٹھ کر اپنے آپ کو بستر کی نرمی اور گرمی کی لذتوں سے محروم کرکے میری عبادت کرنے کے خاطر زحمت میں ڈالتے ہیں لیکن میں اس کی آرام کی خاطر اپنی لطف اورمحبت کے ذریعے ان پر نیند کا غلبہ کرتا ہوں تاکہ ایک یادو راتیں نماز شب اور عباد ت سے محروم رہے کہ جس پر وہ پریشان اور اپنی مذمت کرنے لگتا ہے لیکن میں اگر اس طرح نہ کروں بلکہ اس کو اپنی حالت پر چھوڑدیتا تو وہ میری عبادت کرتے کرتے عجب کے مرض کا شکار ہوجاتا کہ عجب ایک ایسا مرض ہے کہ جس سے مؤمن کے اعمال کی ارزش ختم ہونے کے علاوہ اس کی نابودی کا باعث بھی بن جاتا

____________________

(١) اصول کافی

۱۳۸

ہے لہٰذا کئے ہوئے اعمال پر ناز کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ میں تمام عبادت گزار حضرات سے بالاتر اور افضل ہوں جبکہ اس نے میری عبادت کرنے میں افراط وتفریط سے کام لیا ہے پس وہ مجھ سے دور ہے لیکن وہ گمان کرتا ہے کہ ہم خدا کے مقرب بندوں میں سے ہیں ۔

اس روایت میں پیغمبر اکرم )ص( نے کئی مطالب کی طرف اشارہ فرمایا ہے :

١) خدا کی عبادت کر نے میں افراط وتفریط مضرہے۔

٢) اپنی عبادت پر ناز کرنا بربادی ونابودی کا سبب ہے۔

٣) اصول وضوابط کے بغیر عبادت فائدہ مند نہیں ہے۔

لہٰذا تمام عبادات میں اخلاص شرط ہے پس اگر ہم نماز شب اخلاص کے بغیر انجام دے تووہ صحیح تہجد گزار نہیں بن سکتا

۱۳۹

چوتھی فصل:

جاگنے کے عزم پر سونے کا ثواب

گذشتہ بحث میں نیند کے اقسام اور ان کے فوائد کا مختصر ذکر کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ سونے کی دوقسمیں ہیں :

١) انسانی طریقہ پر سونا۔

٢) حیوانی طریقہ پر سونا اور انسانی طریقہ کی نیند خودتین قسموں میں تقسیم ہوتی ہے:

١)اصول وضوابط اور نماز شب کو انجام دینے کے عزم کے بغیر سونا کہ ایسی نیند کو محققین نے صحت بدن کے لئے بھی مضر قراردیا ہے اور اسلام کی نظر میں ایسی نیند پر کوئی ثواب نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اکرم )ص(کی روایت ہے کہ انما الاعمال باالنیۃ تما م کاموں کے دارومدار نیت پر ہے اور مؤمن کی نیت ان کے اعمال سے بہتر ہے۔

٢) دوسری قسم نیند وہ ہے جس میں اصول وضوابط کے ساتھ ساتھ نماز شب کے انجام دینے کی نیت بھی ہوئی ہے جبکہ اس پر نیند کا غلبہ ہونے کی وجہ سے وہ نماز شب ادا نہیں کر سکتا ایسی نیند پر صحت بدن کے لئے مفید ہونے کے علاوہ ثواب بھی دیا جاتاہے چنانچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم )ص( نے یوں ارشاد فرمایا ہے :

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

سترہواں سبق:

(حسن کلام)

حکمت آمیز باتیں، مواعظ ، دنیاوی اور دینی اوامر کے سلسلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حقائق پر مبنی گفتگو نیز پیام الہی کے ابلاغ اور جد و جہد سے بھر پور زندگی دیکھنے کی بعد یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلام میں کوئی ہنسی مزاق نہیں پایا جاتا،حالانکہ آپ کے اقوال خوش اخلاقی اور برادران دینی کو خوش کرنے والی باتوں پر مبنی ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اخلاق ایسا تھا کہ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ کشادہ روئی اور چہرہ پر تبسم لیے ہوئے ملتے تھے_

روایات سے پتہ چلتاہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام حشو و زاءد سے پاک تھا بعض موارد کو چھوڑ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہنسی ، مسکراہٹ سے آگے نہیں بڑھتی تھی ، سکوت بھی طولانی اور فکر انگیز ہوتا تھا، اپنے اصحاب کو بھی آپ اکثر ان باتوں کی طرف متوجہ کرتے تھے_

''قال رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم من علامات الفقه، الحلم و العلم و الصمت ان الصمت باب من ابواب الحکمة ان الصمت یکسب المحبة انه دلیل

۲۴۱

علی کل خیر '' (۱)

دانا کی علامات میں سے بردباری ، علم اور سکوت ہے سکوت حکمت کے ابواب میں سے ایک باب ہے بلاشبہ سکوت محبت پیدا کرتاہے اور وہ ہر خیر کی طرف راہنمائی کرتاہے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندگی کو بہت بیش قیمت شےء سمجھتے تھے اسے خواہ مخواہ ہنسی مزاق کی باتوں میں گنوادینا صحیح نہیں جانتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر میں کمالات معنوی تک پہنچنے کی راہ میں زندگی کے کسی لمحہ کو بھی برباد کرنا جاءز نہ تھا_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیادہ تر کوشش یہ تھی کہ عمر کا زیادہ حصہ خدا کی عبادت میں گذرے اس کے باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں سے خندہ پیشانی اور مسکراہٹ کے ساتھ ملتے تھے، ہاں کچھ استثنائی مواقع ایسے تھے جہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لبوں پر مسکراہٹ نہیں آتی تھی مثلاً جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منکر یعنی بری باتوں کو دیکھتے تھے تو ایسے موقع پر ناراض ہوجاتے تھے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ کے لوگوں نے اس سیرت کا مطالعہ کیا اور جو باتیں نقل ہوکر ہمارے لئے یادگار بن گئیں وہ ان سے مذکورہ بالا حقیقت کی عکاسی کرتی ہیں_

امام محمد باقر سے روایت ہے :

''اتی رسول الله رجل فقال یا رسول الله اوصنی فکان فیما اوصاه أن

___________________

۱) (کافی ج۳ ص ۱۷۴)_

۲۴۲

قال الق اخاک بوجه منبسط '' (۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھے کچھ تعلیم فرمائیں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملا کرو_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بہت سی روایتوں میں مؤمنین کو مسرورکرنے کی تعلیم موجود ہے آپس میں مومنین کو مسرور کرنے کی بہت سے ذراءع ہیں مثلاً تحفہ دینا، ان کے ساتھ تعظیم و تکریم سے پیش آنا خندہ پیشانی اور مزاح_

''قال رسول الله من سر مومناً فقد سرنی و من سرنی فقد سر الله '' (۲)

جو کسی مومن کو مسرور کرے اس نے مجھ کو خوش کیا اور جس نے مجھ کو خوش کیا اس نے اللہ کو خوش کیا_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلام کی شیرینی اور اعلی اخلاق کے بارے میں قرآن کہتاہے:

''فبما رحمة من الله لنت لهم و لو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک'' (۳)

خدا کی رحمت کے سبب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کے ساتھ نرمی اختیار کی اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کرخت مزاج اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس تتربتر ہوگئے ہوتے_

___________________

۱) (کافی ج۳ ج ۱۶۱)_

۲) (کافی ج۲ ص ۲۷۱)_

۳) (آل عمران ۱۵۹)_

۲۴۳

امید ہے کہ آنحضرت کی سیرت مؤمنین کیلئے نمونہ بنے گی اور برادران مومن آپس میں طنز آمیز گفتگو اور مخرب اخلاق لطیفوں سے گریز کریں گے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلام کا حسن اور جذابیت

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تخلیقی طور پر خوبصورت اور اخلاقی طور پر خوش گفتار تھے یہ اوصاف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اندر اس درجہ تک موجود تھے کہ کمال کے متلاشی دیدہ و دل آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف کھینچنے لگتے تھے یہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شکل میں کوئی عیب تھا اور نہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اخلاق میں کوئی کرختگی تھی ،کم ہنسی بھلائی کے لئے کھلے ہاتھ، خندہ پیشانی سے ملنے والے، بہت غور و فکر کرنے والے، چہرہ پر مسکراہٹ، زباں پر اچھی اچھی باتیں، سخاوت کے ساتھ ، دیر میں غصہ کرنے الے، خوش خو، لطیف طبع اور تمام بری صفات سے مبرا تھے(۱)

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گفتگو فصیح و بلیغ ہوا کرتی تھی جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مزاح کی بات میں تبسم کے ساتھ باتیں کرتے تو انداز بہت ہی خوبصورت اور دل نشیں ہوجاتا تھا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کلام کی صفت میں لکھا گیا ہے :

بات کرنے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح اور شیریں کلام تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود فرماتے ہیں :

___________________

۱) (اقتباس از شرف النبی ص ۶۴)_

۲۴۴

میں عرب کا فصیح ترین انسان ہوں، اہل بہشت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان میں باتیں کرتے ہیں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کم سخن اور نرم گفتار تھے جب بات کرتے تھے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زیادہ نہیں بولتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتیں ایسی تھیں جیسے ایک رشتہ میں پروئے ہوئے موتی(۱)

کہا جاتاہے کہ : سب سے کم لفظوں میں باتیں کرنے والے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی تھے یہ انداز جبرئیل آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر لیکر نازل ہوئے تھے، بہت ہی کم لفظوں میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ساری باتیں کہہ جاتے تھے، افراط و تفریط سے مبرا بہت ہی جامع کلمات آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دہن مبارک سے نکلتے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دو باتوں کے درمیان رک جاتے تھے تا کہ سننے والے اسے یاد کرلیں آواز بلند تھی اس میں بہترین نغماہٹ شامل تھی ، زیادہ تر خاموش رہتے تھے، ضرورت کے علاوہ باتیں نہیں کرتے تھے ، کبھی زبان پر کوئی نازیبا بات نہیںآتی تھی ، اور رضامندی اور ناراضگی دونوں ہی صورتوں میں حق کے علاوہ زبان پر کوئی لفظ نہیں آتا تھا_

اگر کوئی برا کہے تو اس کی طرف سے منہ پھیرلیتے اگر باتوں میں مجبوراً کوئی ایسی بات کہنی پڑتی جس کا بیان آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پسند نہیں ہوتا تو اسے کنایہ میں کہہ ڈالتے تھے اور جب خاموش ہوتے تو انکے پاس بیٹھے ہوئے لوگ باتیں کرنے لگتے تو اس وقت اصحاب کے سامنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ پر دوسرے افراد سے زیادہ تبسم ہوتا ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے ساتھ بہترین معاشرت رکھتے ، کبھی اتنا ہنستے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جھوٹے دانٹ ظاہر ہوجاتے اور آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اقتدا و تعظیم میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب تبسم فرماتے تھے(۲)

___________________

۱) (ترجمہ احیاء العلوم ج۲ ص ۱۰۵)_

۲) (ترجمہ احیاء العلوم ج۲ص ۱۰۵۷)_

۲۴۵

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مزاح

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صفت خندہ پیشانی تھی مزاح کی ساتھ اس میں اور بھی اضافہ ہوجاتا تھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حد تک مزاح فرماتے کہ کلام معیوب نہ ہوجائے ، جب گفتگو میں عیب جوئی ، غیبت ، تہمت اور دوسری آفتیں بھی ہوں تو وہ گفتگو ناپسندیدہ اور عیب بن جاتی لیکن حضور کی ذات گرامی ان تمام عیوب سے پاک تھی_

مزاح مگر حق

اسلامی تعلیم کے مطابق اگر مزاح میں تمسخر اور تحقیر ہو تو یہ ناپسندیدہ طریقہ ہے لیکن اگر کھیل تماشا ہو بلکہ حق کے قالب میں برادران دینی کو خوش کرنے کیلئے بات کہی جائے تو یہ پسندیدہ طریقہ ہے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مزاح کی جو باتیں منقول ہیں وہ حقیقت سے خالی نہیں ہیں_

''قال رسول الله; انی لا مزح و لا اقول الا حقا'' (۱)

میں مزاح کرتاہوں مگر حق کے علاوہ کچھ نہیں کہتا_

''قال علی علیه السلام : کان رسو ل اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لیسرا الرجل من اصحابه اذا راه مغموماً بالمداعبة و کان یقول ان الله یبغض المعبس

___________________

۱) (مکارم الاخلاق ص۲۱)_

۲۴۶

فی وجه اخیه'' (۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب میں سے جب کسی کو غم زدہ پاتے تو اس کو مزاح کی ذریعہ خوش کردیتے اور فرماتے تھے خدا کسی ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو اپنے بھائی سے ترش روئی سے پیش آئے_

شہید ثانی کی کتاب '' کشف الریبہ'' میں ہے کہ حسین بن زید کہتے ہیں کہ امام جعفر صادقعليه‌السلام سے ہم نے پوچھا کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مزاح کرتے تھے تو آپعليه‌السلام نے فرمایا:

''وصفه الله بخلق عظیم و ان الله بعث انبیاءه فکانت فیهم کزازة (انقباض ) و بعث محمد بالترافة والرحمة و کا ن من رافته لامته مداعبته لهم لکیلا یبلغ باحد منهم التعظیم حتی لا ینظر الیه '' (۲)

خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خلق عظیم پر فائز کیا ، خدا نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا حالانکہ ان کے اخلاق میں سنجیدگی تھی اور محمد کو اللہ نے مہربانی اور رحمت کے ساتھ مبعوث کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہربانی میں سے اپنی امت کے ساتھ مزاح بھی تھا کہ ایسا نہ ہوکر ان کیلئے عظمت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حد تک پہنچ جائے کہ وہ انکی طرف نگاہ بھی نہ کرسکتے ہوں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ائمہ معصومین علیہم السلام بھی اپنے اصحاب کو مزاح کرنے اور اپنے دینی بھائیوں کو مسرور کرنے کی تعلیم دیتے تھے_

___________________

۱) (سنن النبی ص ۶۰)_

۲) (سنن النبی ص ۶۱)_

۲۴۷

''عن یونس الشیبانی قال: قال لی ابوعبدالله کیف مداعبة بعضکم بعضا؟ قلت : قلیلاً : قال : فلا تفعلوا فان المداعبة من حسن الخلق و انک لتدخل بها السرور علی اخیک ، و لقد کان النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یداعب الرجل یدیه به ان یسره '' (۱)

یونس شیبانی نے بتایا کہ امام جعفر صادقعليه‌السلام نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم لوگ آپس میں ایک دوسرے سے مزاح کرتے ہو؟ میں نے کہا بہت کم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کم کیوں ؟ مزاح تو حسن اخلاق ہے کہ جس کے ذریعہ تم اپنے بھائی کو مسرور کرسکتے ہو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی مسرور کرنے کیلئے مزاح فرماتے تھے_

مومنین کو مسرور کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جب وہ غمگین ہوں تو ان سے مزاح کیا جائے روایات میں اس بات کی نصیحت وجود ہے کہ اپنے مومن بھائیوں کو خوش کرو _

امام محمد باقرعليه‌السلام نے فرمایاہے :

''تبسم الرجل فی وجه اخیه حسنة و صرف القذی عنه حسنة و ما عبد ''الله بشئ احب الی الله من ادخال السرور علی المؤمن'' (۲)

برادر مومن سے مسکرا کر ملنا نیکی ہے اور اس کے سامنے خس و خاشاک ہٹا دینا بھی نیکی ہے ، خداوند عالم کے نزدیک جو چیز سب سے زیادہ محبوب ہے وہ مومن کو مسرور کرنا ہے_

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۸)_

۲) (اصول کافی ج۳ ص ۲۷۱)_

۲۴۸

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مزاح کے نمونے

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی لطیف مزاح اور خوبصورت تشبیہ کے ذریعہ لوگوں کو مسرور کردیا کرتے تھے مندرجہ ذیل واقعات اصحاب کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مزاح اور پیغمبر کے ساتھ اصحاب کے مزاح پر مشتمل ہیں _

۱_ابخشہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خادم تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ کے اونٹ کیلئے حدی خونی کرتے تھے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا : '' اے ابخشہ آبگینوں کا خیال رکھو''(۱)

(حدی خونی سے اونٹ صحرا میں تیزی سے دوڑنے لگتے ہیں اس جملہ میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ عورتیں نازک اور کمزور ہوتی ہیں اونٹ کی تیز رفتاری سے ممکن ہے ڈرکرعورتیں اونٹوں سے گر پڑیں اور آبگینون کی طرح ٹوٹ جائیں یہ تشبیہ اپنی جگہ پر بڑا ہی لطیف مزاح ہے )_

۲_کسی سفر میں ایک سیاہ فام حبشی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھا، جو تھک جاتا تھا وہ اپنا تھوڑا بوجھ اس کے کاندے پر رکھ دیتا تھا غلام کے کاندھوں پر زیادہ بوجھ ہوگیا رسول خدا کا اسکے پاس سے گذراہوا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تم کشتی بن گئے ہو پھر اسے آزاد کردیا_(۲)

۳_ ایک بچے سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' اے دوکانوں والے فراموش نہ کرنا ''(۳)

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۴)_

۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۴)_

۳) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۴)

۲۴۹

۴ _ روایت ہے کہ ایک دن ایک عورت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئی اور اس نے اپنے شوہر کانام لیا _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تیرا شوہر وہی تو ہے جس کی دونوں آنکھوں میں سفیدہ ہے اس عورت نے کہا نہیں ان کی آنکھوں میں سفیدہ نہیں ہے ،وہ عورت جب گھر لوٹی تو اس نے اپنے شوہر کو یہ واقعہ سنایا مرد نے کہ کہا تم نے نہیں دیکھا کہ میری آنکھوں کا سفیدہ سیاہی سے زیادہ ہے(۱)

۵ _ انصار کی ایک بوڑھی عورت نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ عرض کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میری جنتی ہونے کی دعا فرمادیں_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی، وہ عورت رونے لگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہنس کر فرمایا کہ کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں سنا _

( انا انشانا هن انشاء فجعلنا هن ابکارا ) (۲)

ہم نے انکو پیدا کیا اور ہم نے ان عورتوں کوباکرہ بنایا ہے _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مطلب یہ تھا کہ بوڑھی عورتیں جو ان بن کر بہشت میں داخل ہوں گی _

۶_ قبیلہ اشجع کی ایک بوڑھی عورت سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۴)

۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۵)

۲۵۰

جائیں گی، بلال نے اس عورت کو روتے ہوئے دیکھا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بیان کیا ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا سیاہ فام بھی نہیں جائیگا بلال بھی رونے لگے ، ادھر سے پیغمبر کے چچا جناب عباس کا گذرا ہوا، انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کے رونے کا ماجرا بیان کیا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا بوڑھا جنت میں نہیں جائیگا، پھرآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی دلجوئی کیلئے ان کو قریب بلاکر کہا بوڑھی عورت اور بوڑھے مرد کو جو ان اور سیاہ فام کو نورانی شکل والا بناکر جنت میں داخل کیا جائیگا(۱)

اصحاب کا مزاح

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کی بناپر اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے مزاح کرتے تھے لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی میں بیجا اور ناپسندیدہ مزاح سے پرہیز کرتے تھے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی ان کے کلام کی شیرینی سے اصحاب ہنسنے لگتے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی تبسم فرماتے تھے_

۱ _ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اصحاب کے ساتھ بیٹھے خرما تناول فرمارہے تھے اتنے میں جناب صہیب تشریف لائے صہیب کی آنکھیں دکھ رہی تھی اس لئے انہوں نے ان کو کسی چیز سے ڈھک رکھا تھا، صہیب بھی خرما کھانے لگے، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ; صہیب تمہاری آنکھیں دکھ رہی ہیں پھر بھی تم میٹھا کھارہے ہو؟ صہیب نے کہا اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں

___________________

۱) ( بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۵)_

۲۵۱

اس طرف سے کھارہاہوں جدھر درد نہیں ہے(۱)

۲ _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اعراب (دیہاتیوں) سے مزاح کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے ایک دفعہ ابوہریرہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نعلین مبارک کو گرو رکھ کر خرمے لے لئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سامنے بیٹھ کر اس خرمے کو کھانے لگا، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا ابوہریرہ تم کیا کھارہے ہو ؟ ا س نے عرض کی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جوتا(۲)

۳ _ نعمان بہت ہی بذلہ سنج تھے ایک دن نعمان نے دیکھا کہ ایک عرب شہد کا چھتہ بیچ رہا ہے نعمان نے اس کو خرید لیا اور عائشہ کے گھر لیکر پہنچے اس وقت عائشہ کی باری تھی رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سمجھا کہ نعمان تحفہ لائے ہیں_

نعمان شہد دیکر چلے گئے اور وہ اعرابی دروازہ پر کھڑا انتظار کرتا رہا ، جب بہت دیر ہوگئی تو اس نے آوازدیدی کہ اے گھر والو اگر پیسے نہ ہوں تو میرا شہد واپس کردو رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سمجھ گئے اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہد کی قیمت ادا کردی ، پھر نعمان سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نے دیکھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شہد بہت مرغوب ہے اور اعرابی کے پاس شہد بھی موجود ہے اسلئے میں نے شہد لے لیا آنحضرت ہنسنے لگے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کچھ نہیں کہا(۳)

___________________

۱) (شرف النبی ص ۸۴)_

۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص۲۹۶)_

۳) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۶)_

۲۵۲

۴ _ ایک دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت امیر المؤمنینعليه‌السلام ساتھ بیٹھے ہوئے خرمہ کھا رہے تھے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خرمہ کھالیتے اور اس کی گٹھلی آرام سے حضرت علی کے آگے رکھ دیے تھے جب خرمہ ختم ہوا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جس کے سامنے گٹھلیاں زیادہ ہیں اس نے زیادہ خرمہ کھایاہے ، حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا جو خرمہ مع گھٹی کے کھاگیا اس نے زیادہ کھایاہے علیعليه‌السلام کی بات کو سن کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسکرانے لگے اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی کو ہزاردرہم انعام دینے کا حکم دیا(۱)

مذکورہ مزاح کے نحوتوں سے معلوم ہوتاہے کہ :

_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مزاح کے دامن میں عزت کلام محفوظ رہتی ہے _

_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گفتگو سے نہ کسی کا استہزاء ہوتا اور نہ کسی کی تحقیر_

_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہنسی بہت کم مواقع کو چھوڑ کر تبسم کی حد سے آگے نہیں بڑھتی تھی_

_ مؤمنین کو مسرور کرنے کیلئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مزاح فرماتے تھے_

غرضیکہ مومنین کو مسرور کرنے کی کوشش ، خندہ پیشانی ، تبسم اور مزاح سیرت رسول ہے لیکن اس بات کا دھیان رہے کہ اس میں نہ کسی کا مذاق اڑایا جائے اور نہ کسی کی تذلیل و تحقیر کی جائے_

___________________

۱) (کتاب الخزاءن ص ۳۲۵ احمد نراقی)_

۲۵۳

خلاصہ درس

۱)آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقوال میں خوش اخلاقی ، خندہ پیشانی، مؤمنین کو مسرور کرنے نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اخلاق میں متبسم چہرہ کی جھلکیاں صاف نظر آتی ہیں _

۲ ) قرآن کریم اخلاق پیغمبر کی خبر دیتے ہوئے بیان کرتاہے کہ '' خدا کی رحمت سے آپ نے مؤمنین کے ساتھ نرمی اختیار کی اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کرخت مزاج اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے بھا گ کھڑے ہوتے_

۳ )آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام بہت ہی فصیح بلیغ ہوتا تھا اور جب مزاح کے قالب میں تبسم کیساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گفتگو فرماتے تو کلام اور بھی زیادہ خوبصورت ہوجاتا تھا_

۴ )رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مزاح فرماتے تھے لیکن اس بات کی رعایت رکھتے تھے کہ گفتگو معیوب اور حقیقت سے عاری نہ ہوجائے_

۵ ) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ائمہ معصومین علیہم السلام بھی اپنے اصحاب کو مزاح اور بذلہ سنجی کی ذریعہ اپنے دینی بھائیوں کو مسرور کرنے کی ترغیب دلاتے رہتے تھے_

۲۵۴

سوالات

۱ _ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پسندیدہ اخلاق کے بارے میں قرآن کیا کہتاہے ؟

۲ _ لوگوں سے ملتے اور باتیں کرتے وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا انداز ہوتاتھا؟

۳ _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کس طرح کا مزاح کرتے تھے؟

۴ _ مزاح کی اہمیت بیان کیجئے؟

۵ _ اصحاب کیسا تھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مزاح کا ایک نمونہ بیان کیجئے؟

۲۵۵

اٹھارہواں سبق:

(تواضع )

لغت میں تواضع کے معنی فروتنی اورکسر نفسی کے ہیں_(۱)

علمائے اخلاق کے نزدیک تکبر کی ضد اور ایسی کسر نفسی( منکر المزاجی )کو تواضع کہتے ہیں جس کی بنا پر انسان دوسروں پر فوقیت اور خصوصیت کا اظہار نہیں کرتا _

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری زندگی گواہ ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکمل طور فروتنی او ر تواضع کے زیور سے آراستہ تھے ، خدا کی بھیجے ہوئے انبیاء کی تواضع کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے جلال و جبروت کو دیکھ کر لوگ ان سے وحشت محسوس نہ کریں بلکہ خدا کی خاطر ان پر ایمان لائیں_

اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت امیر المؤمنینعليه‌السلام فرماتے ہیں : اگر انبیاء کے پاس بہت زیادہ قوت و طاقت اور شان و شوکت اور حکومت ہوتی تو ان کے سامنے لوگوں کے سرجھک جاتے ان کے دیدار کیلئے لوگ دور ودراز سے سفر کرکے ان کے پاس

___________________

۱) (فرہنگ دہخدا مادہ تواضع )_

۲۵۶

آتے ، یہ بات پیغام کی قبولیت کیلئے بڑی آسانی فراہم کرتی در ان میں خود پسندی ختم ہو جاتی ، خوف کی وجہ سے لوگ ان پر ایمان لاتے یا دولت و ثروت کی لالچ میں ان کی طرف متوجہ ہوتے لیکن ، خدا نے چاہا کہ پیغمبروں کی پیروی ان کی کتاب پر یقین ، ان کے فرمان کا اجراء اور ان کی اطاعت خود انہیں سے مخصوص ہو اور اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ ہو _(۱)

انبیاء کرام کے درمیان رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مرتبہ سب سے بلند تھا اور ایک زمانہ میں حکومت الہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس تھی کہ جیسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود تشکیل دیا تھا اس کے باوجود تواضع اور انکساری کا یہ عالم تھا کہ کہیں سے کبر و غرور کا شاءبہ بھی نظر نہیں آتا تھا_

حضرت امیر المؤمنین حضور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تواضع اور انکساری کو بیان فرماتے ہیں : پیغمبر اکرم زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے اپنے ہاتھوں سے اپنے جوتے ٹانکتے اور کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے ، جوپائے کی ننگی پیٹھ پر سواری کرتے اور اپنے ساتھ سواری پر دوسروں کو بھی سوار کرتے تھے_(۲)

اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کا مطالعہ ہم کو اپنا کردار سنوارنے میں مدد دیتا ہے ، امید ہے کہ یہ تحریر اس راستہ میں ایک اچھا قدم ثابت ہوگی _

یہ بھی یاد دینا ضروریکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تواضع اور انکسار کے سلسلے میں اس باب میں جو کچھ نقل کیا

___________________

۱) ( نہج البلاغہ 'فیض' خ۲۳۴ فراز ۲۶) _

۲) (نہج البلاغہ ' فیض 'خ ۱۵۹ فراز ۲۲) _

۲۵۷

گیا ہے وہ ایک بڑے ذخیرہ کا بہت تھوڑا حصہ ہے ، ورنہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری زندگی انکساری اور فروتنی کا اعلی نمونہ ہے_

بادشاہ نہیں ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک بہت ہی واضح صفت انکساری اور فروتنی کی صفت ہے ، مختلف حالات میں معاشرہ کے مختلف طبقہ کے افراد کیسا تھ اس صفت کا مظاہرہ نظر آتا ہے شروع میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اصحاب کو یہ درس دیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ حاکموں اور فرمان رواؤں جیسا برتاو نہ کریں ، جیسا کہ اس شخص سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آکر سہما ہوا تھا:

''هون علیک فلست بملک اتما انا بن امراة تاکل القدید '' (۱)

ذرا سنبھل جاو ( ڈرو نہیں ) میں بادشاہ نہیں ہوں میں اس عورت کا بیٹا ہوں جو خشک کیا ہو گوشت کھاتی تھی _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بہت دوست رکھتے تھے اس کا باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تربیت کے زیر اثر وہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھتے تھے تو ( اگر بیٹھے ہوتے تو ) کھڑے نہیں ہوتے تھے اسلئے کہ وہ جانتے تھے کہ اس عمل سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خوش نہیں ہوتے _(۲)

___________________

۱) (محجہ البیضاء ج ۶ص ۲۷۶)_

۲) (مکارم الاخلاق ص ۱۶ طبع بیروت )_

۲۵۸

جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو ابو ایوب کا مکان دو منزلہ تھا ابو ایوب نے احتراما یہ چاہا کہ آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوپر والے طبقہ میں قیام فرمائیں لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول نہیں کیا اور ارشاد فرمایا : جو مجھ سے یہاں ملنے آئیگا ان کیلئے نیچے کا طبقہ زیاہ بہتر رہے گا_(۱)

اس طرح کے سلوک کا یہ اثر ہوا کہ لوگ اپنی تمام مشکلات کے حل کیلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہنچنے کی کوشش کرتے تھے یہاں تک کہ زندگی کے عام معاملات میں بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشورہ کیا جاتا تھا_

ایک دیہاتی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور اس نے کہا اسے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں چند اونٹ لایا ہوں ان کو بیچنا چاہتا ہوں ، لیکن بازار کا بھاو نہیں معلوم اس لئے ڈر لگتا ہے کہ لوگ کہیں دھو کہ نہ دیدیں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : کہ تم اپنے اونٹوں کو میرے پاس لاکر ایک ایک اونٹ کو دکھاو ، اس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اونٹوں کو دیکھ کر ہر ایک کی قیمت بتادی ، اعرابی نے بازار جاکراسی قیمت پر اونٹ فروخت کردئے پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اس نے کہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میری رہنمائی کی ، نتیجہ میں جتنا چاہتا تھا اس سے بھی زیادہ فائدہ حاصل ہوا_(۲)

___________________

۱) (بحار الانوار ج ۱۹ ص ۱۰۹)_

۲) ( شرف النبی ص ۷۵)_

۲۵۹

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انکسار اور تواضع نے لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اتنا نزدیک کردیا تھا کہ اصحاب اپنے بچوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں لیکر آتے اور کہتے کہ ان کے لئے دعا فرمادیں یا انکا نام رکھدیں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بچوں کو ان کے گھر والوں کے احترام میں اپنی گود میں بٹھا لیتے کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بچہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دامت تر کردیاتا لوگ متوجہ ہونے کے بعد زور سے چلانے لگتے ، لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے کہ بچے کو نہ ڈراؤ ، دعا کردینے یا نام رکھ دینے کے بعد بچہ کے عزیز و اقربا اس بات پر خوش ہوجاتے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا : جب وہ لوگ چلے جاتے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا پیراہن دھوڈالتے _(۱)

بشریت کی نگاہوں نے تواضع کا ایسا نمونہ کبھی نہیں دیکھا اگر یہ منظر کہیں نظر آیا تو وہ انبیاء یا جانشینان انبیاءعليه‌السلام ہی کے یہاں ، ان مقدس ہستیوں نے اپنے اصحاب کو تواضع کا صحیح سلیقہ سکھایا اور ذلت میں ڈالنے والی باتوں سے منع فرمایا :

منقول ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب کبھی سواری پر سوار ہوتے تو کسی کو پیدل چلنے کی اجازت نہ دیتے اس کو اپنی سواری پر سوار کر لیتے ، اگر کوئی شخص سوار نہیں ہوتا تو فرماتے : تم آگے جاو پھر جہاں چاہنا مجھ سے آکر مل جانا _(۲)

___________________

۱) (مکارم الاخلاق ص ۲۵)_

۲) (مکارم الاخلاق ص ۲۲)_

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311