رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر18%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 202760 / ڈاؤنلوڈ: 5565
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

ایک انسان کی شخصیت کا جاذب ہونابھی اس معنی میں ہے کہ ظاہری اور جسمانی خصوصیات کے علاوہ اس کے اندر اخلاقی اور روحانی صفات بھی موجو د ہوں جو کہ اس کی طرف دوسرے لوگوں کی رغبت اور کشش کا سبب بنیں ؛ جولوگ با ادب چال ڈھال رکھتے ہیں اورلوگوں سے خوش اخلاقی سے ، ہنستے ہوئے چہرے اور خلوص و محبت کے ساتھ ملتے ہیں وہ لوگوں کے دلوں میں بس جاتے ہیں اور سبھی لوگ ان کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ ملنا جلنا اور ان سے قریب رہنا چاہتے ہیں ؛ لیکن جو لوگ بے ادب ،برے اخلاق کے مالک اور خود خواہ ہوتے ہیں ایسے افراد گویا اپنے کو لوگوں سے دور رکھتے ہیں اور اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ لوگ ان سے دور رہیں ؛لیکن جس وقت جاذبہ اور دافعہ کی بات کسی انسان سے متعلق ہو تو اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ اس وقت یہ مسئلہ کلچر اورماحول کے تابع ہوتا ہے یعنی ممکن ہے کہ بعض خصوصیات کو کسی ایک سماج یا معاشرہ میں اچھی نظر سے دیکھاجاتاہولیکن وہی خصوصیات دوسرے معاشرہ میں کسی اہمیت کے حامل نہ ہوں بلکہ انھیں بری نظر سے دیکھاجاتاہے اب ظاہر ہے کہ جو شخص ان خصوصیات کا مالک ہوگا وہ پہلے معاشرہ کے نزدیک ایک جاذب وپر کشش شخصیت شمار کیا جائے گا نیزلوگوں کی نظروں میں پسندیدہ ہوگا اور لوگ اس کا احترام کریں گے لیکن وہی شخص دوسرے کلچر اور سماج میں معمولی انسان بلکہ قابل نفرت ہوگا ؛بہر حال میرے عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک انسان کی شخصیت میں جو جاذبہ یا دافعہ ہوتاہے وہ سماج کے ماحول اورتہذیب و ثقافت کے اعتبار سے فرق رکھتا ہے ۔بہر حالیہ مسئلہ ایک جدا گانہ اور مستقل بحث ہے جس کو اس وقت ہم بیان نہیں کریں گے ۔

۱۴۱

یہاں تک ہم نے جو توضیحات پیش کیںان سے جاذبہ اور دافعہ کا مفہوم کسی حد تک روشن ہوگیا ؛لیکن ہماری بحث کا موضوعاسلام میں جاذبہ اور دافعہ ہے'' لہذٰا ہماری مراداسلامسے جو کچھ بھی ہے اس کو واضح ہونا چاہئے، ہماری نظر میں عقائد اور قواعد و احکام کے مجموعہ کا نام اسلام ہے اس میں اعتقادی اور اخلاقی مسائل بھی اور فردی قوانین اور اجتماعی قوا نین بھی شامل ہیں ؛ جس وقت ہم کہتے ہیں کہ اسلام ایسا ہے اور اسلام ویسا ہے توہماری مراد اسلام سے یہی اعتقادات اور اس کے قواعد و احکام ہیں ؛ اس بحث میں جب ہم یہ کہتے ہیںاسلام میں جاذبہ اور دافعہ'' تو اس وقت ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ جاذبہ اور دافعہ جو کہ اسلام کے اعتقادی اور اخلاقی قواعد و اصول میں نیز اس کے تمام احکام قوانین میں پائے جاتے ہیں ۔ عقائد کے حصہ میں اسلام کا جاذبہ رکھنا اس معنی میں ہے کہ اسلامی عقائد انسان کی حقیقت پسند فطرت کے موافق ہیں یعنی وہ عقائد جو کہ حقائق ہستی کی بنیاد پر استوار ہیں چونکہ انسان کی فطرت حقیقت کو چاہتی ہے اور یہ عقائد انسانی فطرت کے مطابق ہیں لہذا یہ انسان کے لئے جاذبہ ہو سکتے ہیں ۔ بہر حال وہ جاذبہ اور دافعہ جو کہ اسلامی عقائد سے مربوط ہیں فی الحال ہماری بحث میں شامل نہیں ہیں یہاں پراس جاذبہ اور دافعہ کی بحث زیادہ اہم ہے جو کہ اسلامی احکام اور اخلاق سے مربوط ہیں خاص کر وہ جاذبہ اور دافعہ جو اسلام کے دستوری اور تکلیفی احکام سے مربوط ہیں ،اور ہم زیادہ تر اس بات کو دیکھیں گے کہ کیا تمام قواعد و احکام اسلامی انسان کے لئے جاذبہ رکھتے ہیں یا دافعہ؟

۱۴۲

کیا اسلام کے بارے میں دافعہ کا تصوّرممکن ہے ؟

ممکن ہے یہ سوال ذہن میں آئے کہ اگر تمام اسلامی معارف و احکام؛ انسانی فطرت اور طبیعت کے مطابق بنائے گئے ہیں لہذ اٰ طبعی طور پر اس کے لئے جاذبہ ہونا چاہئے پس اس کے لئے دافعہ فرض کرنا کیسے ممکن ہے ؟ !

اس کا جواب یہ ہے کہ انسان فطری طور پر حقیقت کا متلاشی اور بلندیوں کا خواہاں نیز اچھی چیزوں کا طالب ہے ؛لیکن اس کے علاوہ بہت سے شہوانی اور فطری امور بھی انسان میں پائے جاتے ہیں کہ بہت سے مقامات پر ان مختلف فطری اور شہوانی امور کے درمیان تزاحم اور اختلاف پیدا ہوتا ہے یاایک دوسرے کو دور کر دیتا ہے۔یااس بحث کے خلط اور اشتباہ سے بچنے کے لئے دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ انسان کی مادی اور حیوانی خواہشات کو جذبہ شہوت وخواہش کا نام اور اس کی دوسری تما م خواہشوں کو فطرت کا نام دیا گیا ہے ،بہت سے مقامات پرفطرت اور خواہشوں کے درمیان نا ہماہنگی پائی جاتی ہے، شہوت اور خواہش صرف اپنی تکمیل چاہتی ہے انصاف و عدالت کو نہیں دیکھتی ہے، بھوکا پیٹ آدمی صرف روٹی کھانا چاہتا ہے حلال و حرام ، اچھا ،برا ،اپنا مال ہے یا غیر کا ،اس سے اس کو مطلب نہیں ہے چاہے اس کو حلال و جائز روٹی دیں یا حرام و نا جائز اس کو پیٹ بھر نے سے مطلب ہے، انسان کی آرام پسند طبیعت پیسیے اور اپنی آرام دہ زندگی کی تکمیل کے پیچھے لگی رہتی ہے یہ پیسہ چاہے حلال طریقے سے حاصل ہو یا حرام ذریعہ سے اس کے لئے سب برابر ہے۔

۱۴۳

لیکن انسان کی فطرت انصاف کی طالب اور امانت و عدالت کے موافق ہے نیز حق کو غصب کرنے اور ظلم و خیانت سے بیزار ہے ،اس عدالت طلب اور ظلم سے گریزاں فطرت کے بر خلاف کبھی کبھی ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل اور مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے صرف خیانت اور ظلم و ستم کا سہارا لینا پڑتا ہے؛ یہی وہ مقام ہے جہاں پر انسان اگر حقیقی کمال کو چاہتا ہے تو اس کو مجبوراً ان خواہشات اور لذتوں سے اپنے کو بچانا ہوگا ؛بعض چیزوں کو نہ کھائے ،نہ پئے،نہ اوڑھے پہنے،نہ دیکھے اورنہ سنے ؛خلاصہ یہ کہ اپنے کو محدود و مقید رکھے ۔ اسلام بھی انسان کو حقیقی کمالات تک پہونچانا چاہتا ہے؛ لہذا ان جگہوں پر فطری پہلو کو اختیار کرتا ہے اور خواہشات نفسانی اور مادی ضروریات کو محدود کرتا ہے؛ ان مقامات پر جو لوگ اپنی خواہشات نفسانی پر کنٹرول نہیں رکھتے ہیں ؛یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ حیوانیت ان پر غالب رہتی ہے تو طبعی اور فطری بات ہے کہ بعض اسلامی احکام ان کے لئے جاذبہ نہیں رکھتے ہیں بلکہ دافعہ رکھتے ہیں ،اسلام نے ایک مکمل دستور دیا ہے جو کہ فطرت اور خواہش دونوں کے مطابق ہے اور اس مفہوم کی آیات اور روایات بہت کثرت سے پائی جاتی ہیں ، اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :

( کلوا من الطیبات ما رزقناکم'' ) ( ۱ ) یعنی جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو رزق میں دی ہیں ان میں سے کھائو پیونیزیہ بھہ ارشاد فرماتا ہے:( کلوا و اشربوا ) ( ۲ ) کھائو اور پیو ایسے احکام اور دستور انسان کے لئے مشکل نہیں رکھتے ہیں لیکن جس وقت اسلام کہتا ہے کہ شراب نہ پیوسور کا گوشت نہ کھائو وغیرہ تویہ دستور ہر ایک کے لئے جاذبہ نہیں رکھتے اور بہت سے ایسے ہیں جن کو یہ احکام اچھے نہیں لگتے۔

____________________

(۱) سورہ اعراف : آیہ ۱۶۰ ۔

(۲) سورہ اعراف :آیہ ۳۱۔

۱۴۴

اسلامی احکام میں دافعہ کا ایک تاریخی نمونہ

یہاں پر مناسب ہوگا کہ تاریخ اسلام کے ایک واقعہ کی جانب اشارہ کرتا چلوں؛ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ رسول اکرم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں نجران کے عیسائی رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس توحیدی عقائد سے متعلق بحث و مناظرہ کے لئے آئے؛ لیکن علمی بحث میں ان لوگوں کوشکست ہوئی، اس کے بعدبھی ان لوگوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں کو مباہلہ کی دعوت دی ؛ان لوگوں نے اس مباہلہ کو قبول کیا ؛جس وقت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے محبوب اور سب سے خاص لوگوں یعنی امام علی ، حضرت فاطمہ اور امام حسن و امام حسین کو ساتھ لیکر مباہلہ کے لئے گئے اور نصاریٰ کے علماء کی نگاہ ان پانچ نورانی چہروں پر پڑی ؛تو ان لوگوں نے کہا کہ جو کوئی بھی ان حضرات سے مباہلہ کرے گا اس کے حصّہ میں دنیا و آخرت کی رسوائی اور ذلت ہوگی؛ لہذٰا وہ لوگ پیچھے ہٹ گئے اور مباہلہ نہیں کیا ؛ان عیسائیوں نے علمی گفتگو میں بھی شکست کھائی اور مباہلہ بھی نہیں کیا لیکن پھربھی مسلمان ہونے کو تیار نہیں ہوئے اور کہا کہ ہم جزیہ (ٹیکس ) دیں گے لیکن عیسائی رہیں گے ۔

جب اصحاب نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھا کہ آخر وہ لوگ اسلام قبول کرنے پر تیار کیوں نہیں ہوئے؟ تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :کہ جو عادت اور چاہت ان کو سور کے گوشت کھانے اور شراب پینے کی تھی ،ان چیزوں نے اس سے ان کو مانع رکھا،چونکہ اسلام نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے لہذٰا ان لوگوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا

۱۴۵

یہ ایک تاریخی نمونہ ہے کہ اسلام کی حقانیت ایک گروہ اور جماعت کے لئے ثابت اور واضح تھی لیکن بعض اسلامی احکام ان کے لئےدافعہ''رکھتے تھے جو اس بات سے مانع ہوا کہ وہ لوگ اسلام کو قبول کریں ؛یعنی ان کی انسانی فطرت ، حیوانی خواہشات سے مقابلہ کیا ،اس تعارض و ٹکرائو میں انھوں نے نفسانی خواہشات کو مقدم کیا ۔یہ مسئلہ صرف نجران کے عیسائیوں سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ ان تمام لوگوں سے متعلق ہے جنھوں نے الٰہی اور خدائی تربیت سے اپنے کو مزین اور آراستہ نہیں کیا ہے ،یا جو لوگ جسمانی اور حیوانی خواہشوں سے مغلوب ہیں ۔ وہ احکام اور دستورات جو کہ انسان کے مادی خواہشات کو محدود کرتے ہیں وہ ہی لوگوں کے لئےدافعہ'' ہیں اور جیسا کہ اشارہ ہوا اسلام میں ایسے بہت سے قوانین پائے جاتے ہیں قانوں اسلامی جو یہ کہتا ہے کہ ۴۰ درجہ گرمی میں ۱۶ گھنٹے اپنے کو کھانے پینے سے روکے رکھو؛اور روزہ رکھو یہ انسانی خواہشات سے میل نہیں کھاتا، ان کے لئے یہ کام مشکل ہے خاص طور سے نان وائیوں کے لئے( جو کہ روٹیاں وغیرہ پکاتے ہیں ) اس لئے کہ وہ مجبوراًآگ کے قریب رہتے ہیں ، پھر بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کہ چلچلاتی دھوپ یا شعلہ ور آگ کے قریب رہ کر بھی ان احکام پر خوشی سے عمل کرتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں ،لیکن ایسے تربیت شدہ بہت کم نظر آئیں گے۔یا مثلاًخمس ہی کا قانون ممکن ہے ہمارے اور آپ جیسے لوگوں کے لئے کہ شاید سال میں ہزارروپیہ سے زیادہ نہ ہو اس ہزارروپئے کے نکالنے میں کوئی مشکل اورپریشانی نہیں ہے ،ہو لیکن جن لوگوں کے ذمہ لاکھوں روپئے خمس نکالنا ہو ان کے لئے بہت ہی مشکل کام ہے، اسلام کے اوائل میں بہت سے لوگوں نے صرف اسی حکم زکواة کی وجہ سے اسلام کو چھوڑ دیا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف ہو گئے؛ اور جس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایلچی ان کے پاس زکواة لینے کے لئے جاتاتھا تو ان لوگوں نے کہا کہ رسول بھی ٹیکس لیتے ہیں ؛ ہم کسی کو بھی خراج اور ٹیکس نہیں دیں گے ؛یہ قانون ان کے لئے دافعہ تھا اور یہی سبب بنا کہ ان لوگوں نے اسلام سے دوری اختیار کر لی یہاں تک کہ اس کی وجہ سے وہ لوگ خلیفہ مسلمین سے جنگ کرنے کو تیار ہو گئے ۔

۱۴۶

یا مثلاً اسلام جنگ و جہاد کا حکم دیتا ہے یہ فطری بات ہے کہ جنگ میں حلوا، روٹی کھانے کو نہیں ملتی بلکہ مارے جانے ، قید ہونے ،اندھے ہونے،ہاتھ پیر کٹنے اور دوسرے بہت سارے خطروں کا امکان رہتا ہے، بہت سے لوگ ان خطروں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور حکم جنگ یا میدان جنگ میں جانے کے مخالف ہیں ؛اس کے بر خلاف بہت سے مجاہد (سپاہی ) ایسے بھی ہیں جو میدان جنگ میں جانے کے لئے ہر طرح سے آمادہ دکھائی دیتے ہیں اور بہت ہی شوق سے ان خطرات کو قبول کرتے ہیں ؛پھر بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ حکم بہت سے لوگوں کے لئے جنھوں نے اپنے کو ایسا نہیں بنایا ہے کوئی جاذبہ نہیں رکھتا ہے؛ اور کسی بھی بہانے سے اپنی جان چراتے ہیں اور اس کام سے فرار اختیار کرتے ہیں ۔

لہذا اس سوال کا جواب کہ اسلام کے احکام و قوانین جاذبہ رکھتے ہیں یا دافعہ؟ یہ ہے کہ عام لوگوںکے لئے بعض اسلامی دستورات جاذبہ رکھتے ہیں اور بعض احکام دافعہ رکھتے ہیں ۔

۱۴۷

عملی میدان میں جاذبہ اور دافعہ کے سلسلے میں اسلامی حکم

اب یہ سوال کہ مسلمانوں کا برتائو اور ان کا طور طریقہ آپس میں ایک دوسرے کے متعلق بلکہ غیر مسلمانوں کے ساتھ کیسا ہوناچاہئے؟اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد جاذبہ پر ہے او ر اسلام یہ چاہتا ہے کہ لوگوں اوراسلامی معاشرہ کو سعادت اور کمال تک پہونچائے لہذٰ ااسلامی معاشرہ کا برتائو ایسا ہونا چاہئے کہ دوسرے افراد جو لوگ اس ماحول اور سماج سے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں ان کی جانب متوجہ ہوں اور اسلام ان کے لئے واضح ہوجائے اور وہ لوگ راہ راست پر آجائیں۔ اگر لوگ اسلامی ماحول اور اسلامی مرکزسے دور رہیں گے تو ان تک اسلام نہیں پہونچایا جا سکتا اور وہ لوگ ہدایت نہیں پا سکتے۔ لہذٰا اہم اور اصل یہ ہے کہ مسلمان ایسی زندگی بسر کریں کہ وہ آپس میں بھی ایک دوسرے سے جاذبہ رکھتے ہوں اور روز بروز ان کے درمیان اپنائیت اور یکجہتی بڑھتی رہے اور غیرمسلم جو کہ اس ماحول سے الگ اور جدا ہوں ان کے متعلق بھی جاذبہ رکھنا چاہئے تا کہ ان کی بھی ہدایت ہو سکے اگر چہ اسلام کی اصل جاذبہ کی ایجادپر ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم ہر حالت میں ایک ہی رفتار رکھیں ؛بلکہ بعض مواقع پر دافعہ کی چاشنی اور مٹھاس سے بھی فائدہ حاصل کرنا چاہئے۔ اس بات کی وضاحت کے لئے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے اس جلسہ میں جو وقت باقی رہ گیا ہے اسی اعتبار سے کچھ باتوں کو پیش کررہا ہوں اور بقیہ باتوں کو بعد میں عرض کروں گا، ا ن شاء للہ ۔

۱۴۸

جاذبہ رکھنے والے اسلامی کرداروں کے بعض نمونے

مذہب اسلام میں عدل و انصاف،احسان ، لوگوں کے ساتھ بہتر سلوک اور لوگوں کو خوش رکھنے کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے ؛اسلام کی بڑی عبادات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک انسان دوسرے کو خوش کرے اور اگر دوسرا غمگین و رنجیدہ ہو تو اس کے رنج وغم کوکسی نہ کسی طرح دور کرے ۔بعض روایتوں میں ایک مومن کو خوش رکھنے اور اس سے رنج و غم کو دور رکھنے کا ثواب سالوںکی عبادت سے بہتر ہے یہاں تک کہ اگر یہ کام صرف اتنا ہو کہ اس کے ساتھ محبت آمیز برتائو کرے یا ایسی بات کہے جس سے اس کو امید ہوجائے اور اس کو سکون دل پیدا ہو جائے مثلاً مومن کو دیکھ کر مسکرانا ،اس سے ہاتھ ملانا اور اس کو گلے لگانا ، بیماری کے وقت اس کی عیادت کرنا ، اس کے کاموں میں اس کی مدد کرنا جو کہ مسلمانوں کے درمیان ہماہنگی دوستی اور جاذبہ کا سبب ہیں ان سارے کاموں کا ثواب اسلامی ر و ا یات میں بہت کثرت کے ساتھذکر کیا گیا ہے؛ اسلام صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس کے علاوہ ان میں سے بہت سارے احکام اور دستورات کو غیر مسلموں سے متعلق بھی بتاتاہے اور اس کے متعلق بہت ہی تاکید کرتا ہے ؛اسلام کہتا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم تمھارا پڑوسی ہے یا تم اس کے ساتھ سفر کر رہے ہو تووہ تم پرحق پیدا کر لیتا ہے کہ اگر بیچ راستے سے کسی مقام پر وہ تم سے الگ ہو رہا ہے

۱۴۹

تو جب وہ اپنے راستے پر جانے لگے تو خدا حافظی کے لئے چند قدم اس کے ساتھ جا ئو اور اس کے بعد رخصت کر کے اس سے جدا ہوئواور اپنا راستہ اپنائو،اسلام عدل و انصاف کی ہر ایک کے ساتھ تاکید کرتا ہے حتیّٰ کافروں کے ساتھ بھی ؛نیز کافر وں پر ظلم و ستم کو ناجائز سمجھتا ہے ،اگر کوئی کافر ہے تب بھی تم اس پر ظلم و ستم کا حق نہیں رکھتے ہیں :''( ولایجرمنکم شنٰان قوم علیٰ الاّ تعدلوااعدلواهواقرب للتقویٰ ) ( ۱ ) اور خبر دار کسی قوم کی عداوت تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف کو ترک کر دو انصاف کرو کہ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے حتیّٰ کفّار کے متعلق صرف عدل و انصاف ہی کرنا کافی نہیں ہے بلکہ احسان (اچھا سلوک ) جس کا مرتبہ عدل سے بڑھ کر ہے اس کے متعلق بھی خدا کا حکم ہے کہ اس کوبھی کرنا چاہئے ، ارشاد ہوتا ہے( لا ینهاکم الله عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبرّوهم و تقسطوا الیهم ) ( ۲ ) اللہ ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں وطن سے نہیں نکالا ہے اس بات سے تم کو نہیں روکتا ہے کہ تم ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرو، بعض موقعوں پر اس سے بڑھ کر حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ مسلمان

____________________

(۱) سورہ مائدہ آیہ ۸.

(۲) سورہ ممتحنہ آیہ ۸.

۱۵۰

اسلامی حکومت میں جوٹیکس دیتے ہیں تو اس ٹیکس میں سے کچھ ان کفار کودو جو کہ اسلامی حکومت کی سرحداور اس کے پڑوس میں زندگی بسر کرتے ہوں تا کہ وہ لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہوں اور اسلام میں گھل مل جائیں(۱) بلکہ ان کو تھوڑا بہت صرف اس لئے دو تاکہ ان کا دل مسلمانوں کے حوالے سے نرم ہو اور وہ لوگ مسلمانوں پر مہر بان ہوں اور ان کے دلوں میں مسلمانوںاور اسلام کی محبت پیدا ہو؛ ایسا سلوک کرنے سے دھیرے دھیرے ایسا ماحول بن جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تم سے قریب ہوں اور وہ تم سے مانوس ہو جائیں؛ پھر وہ تمھاری زندگی کا قریب سے جائزہ لیںگے اور تمھاری باتوں کو سنیںگے؛ ممکن ہے کہ وہ متاثرہو کر مسلمان ہو جائیں ؛ایسی مثالیں تاریخ میں کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ کفّار مسلمانوں سے رابطہ رکھنے ، اسلام کی منطقی باتیں سننے اور پیروان اسلام کی رفتارو گفتار اور ان کی سیرت و اخلاق کا مشاہدہ کرنے کی وجہ سے اسلام کو قبول کر لیابہر حال یہ چند نمونے تھے جنکو اسلام نے جاذبہ کے لئے اپنے دستورات اور احکام میں جگہ دی ہے ۔

____________________

(۱) مفہوم سورہ توبہ : آیہ ۶۰۔

۱۵۱

کیا اسلام کردار میں ہمیشہ جاذبہ کی تاکید کرتا ہے؟

جس بات کی جانب توجہ دینا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اسلام جس جاذبہ کی سیاست کو اپنانے کا حکم دیتا ہے چاہے وہ مسلمانوں سے متعلق ہو یا کفار سے یہ حکم کلیت نہیں رکھتا ہے؛ بلکہ کبھی کبھی یہی دافعہ کا بھی حکم رکھتا ہے اور اس کو اپنانے کا حکم دیتا ہے؛ کبھی کبھی محبت و احسان، روحی رشد و تکامل اور ہدایت کا سبب نہیں بنتے اس کے بر خلاف اس کے مقابل میں ایک دیوار کھڑی کر دیتے کبھی کبھی حیوانی خواہشات اور مادی شہوات کے اثر سے اور دوسرے اجتماعی عوامل یا گھریلو تربیت اور اس جیسے اثرات کی وجہ سے انسان کے اندر ستم گری آوارگی اور درندگی کی عادت پیدا ہو جاتی ہے؛ اور اس حال میں اگر اس کو نہ روکا جائے تو وہ اس بات کا سبب بنتا ہے کہ وہ دھیرے دھیرے اور دن بہ دن برائیوں اور بد بختیوں کی دلدل میں دھنستا جاتا ہے اور اپنی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کر دیتا ہے اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی تکلیف و اذیت اور ان کے حقوق کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔

ایسی جگہوں پر خود اپنی اورمعاشرہ کی اصلاح کے لئے اس کو متنبہ کرنا چاہئے تا کہ وہ برائیوں سے باز آ کر اچھائی اور نیکی کے راستے پر وا پس آجائے یعنی اس تنبیہ کے اندر رحمت بھی ہے اور یہ تنبیہ خود اس کو زیادہ گمراہ ہونے سے بھی روکتی ہے او ردوسروں تک اس کی برائی پہونچنے سے ھی مانع ہوتی ہے۔ البتہ ظاہری تنبیہ چاہے مالی اعتبار سے جرمانہ کی شکل میں ہو، چاہے کوڑے کی سزا ہویا قتل یا قیدیا دوسری اور سزائیں ،بہر حال یہ سب انسان کے لئے تکلیف اور زحمت کا سبب ہوتا ہے اور فطری طور پر کوئی بھی اس سے خوش نہیں ہوتا ہے بہر حال اسلام کہتا ہے کہ خاص حالات میں تمھاراسلوک خشونت اور سختی کے ساتھ ہونا چاہئے اور دافعہ رکھنا چاہئے ،کیونکہ ہر جگہ پر جاذبہ مطلوب اور پسندیدہ نہیں ہے ۔

۱۵۲

پچھلی بحث کا خلاصہ

یہاں تک کی گفتگو کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہوا کہ سب سے پہلے ہم نے اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کی تعریف بیان کی ؛جیسا کہ ہم نے کہا کہ اسلام میں جاذبہ اور دافعہ ممکن ہے کسی چیز یا انسان یا پھر عقیدہ و فکر سے مربوط ہو، اسلام کے متعلق ہم نے بیان کیا کہ وہ عقیدے اور احکام اور اخلاق کے مجموعہ کا نام ہے جاذبہ اور دافعہ، اسلام میں ان تینوں میں کسی سے بھی مربوط ہو سکتا ہے اس کے بعد اسلام کے احکام وقوانین سے مربوط جاذبہ اور دافعہ کے متعلق بحث کی اس بحث کے ذیل میں ہم نے عرض کیا کہ اسلام میں کچھ احکام ہیں جو کہ لوگوں کو پسند ہیں اور اکثر لوگ اس کی طرف رجحان رکھتے ہیں اور بہت سے ایسے احکام بھی ہیں جو لوگوں کو پسند نہیں ہیں اور اس کی جانب رجحان نہیں رکھتے ہیں اور وہ ان کے لئے دافعہ ہیں عطر لگانا ،مسواک کرنا،صاف ستھرے رہنا ،اچھا اخلاق ، سچّائی، امانت داری، انصاف اور احسان یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ اسلام ان کا حکم دیتا ہے اور یہ سب لوگوں کے لئے جاذبہ رکھتی ہیں ۔روزہ رکھنا ، جہاد کرنا ،میدان میں جانا ،مالیات جیسے خمس و زکواة کا ادا کرنا یہ سب ایسے احکام ہیں جو کہ اسلامی قوانین کے زمرہ میں آتے ہیں لیکن اکثر لوگوں کو یہ سب اچھا نہیں لگتا ہے، اور ان کے لئے دافعہ رکھتا ہے؛ اس کے بعد اصل موضوع کو پیش کیا کہ اسلام کا دستور مسلمانوں کے لئے دوسروں کے ساتھ برتائو کے سلسلے میں کیا ہے ؟

کیا اسلام یہ کہتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ ایک دوسرے کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھیں اور مسکرا کر بولیں اور صرف جاذبہ سے استفادہ کریں یا بعض جگہوں پر خشونت وسختی اور دافعہ کا بھی حکم دیتا ہے ؟ جو وضاحت ہم نے پیش کی اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیمات میں دونوں کا حکم ہے اگر چہ ایسے موارد بہت کم ہیں کہ جن میں دوسروں کے ساتھ مسلمانوں کا برتائوخشونت آمیز ہو۔لیکن پھر بھی ایسے مواقع پائے جاتے ہیں ان کے نمونے ان شاء للہ آ ئندہ جلسوں میں پیش کئے جائیں گے ۔

۱۵۳

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود (۲ )

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے بارے میں تین طرح کے سوالات

پچھلے جلسے کے مطالب کے ذیل میں اگر ہم جاذبہ اور دافعہ کے حدود کے بارے میں اسلام کے مطابق گفتگو کرنا چاہیں جو کہ تمام جہتوں کو شامل ہو تو اس بارے میں کم سے کم تین طرح سے گفتگو ہو سکتی ہے۔

گفتگو کا پہلا عنوان اور محور یہ ہے کہ ہم بحث اس طریقے سے کریں کہ اصولی طور پر اسلام کے تمام معارف چاہے وہ عقیدہ سے متعلق ہوں یا اخلاق و احکام سے خواہ وہ ایک انسان سے مربوط ہوں یا ُپورے معاشرے سے عبادتی ہوں یا حقوقی یا سیاسی ہے یا....،یہ مسائل اس بات کا سبب ہوتے ہیں کہ انسان بعض امور کو اپنے اندر جذب کرے اور بعض امور کو دفع کرے وہ امور مادی ہوں یا معنوی؛ اس صورت میں جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام جاذبہ رکھتا ہے ؛یعنی اس کے معارف اور احکام اس طرح ہیں کہ وہ انسان کو اس بات پر ابھارتے ہیں کہ وہ ان چیزوں کو اپنے اندر جذب کرے ،اور اسلام کے دافعہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں وہ ان چیزوں سے پرہیز کرے اور ان کو اپنے سے دور رکھے ؛یہ دافعہ اور جاذبہ کے پہلے معنی ہیں کہ جس کا اسلام میں تصّورہے؛او ر اسی کی بنیاد پر سوال پیش کیا جا سکتا ہے، اس کا مختصر جواب بھی یہ ہے کہ ہم چار فرض تصور کریں :

(۱) اسلام صرف جاذبہ رکھتا ہے

(۲)اسلام صرف دافعہ رکھتا ہے

(۳) اسلام نہ جاذبہ رکھتا ہے اور نہ ہی دافعہ

(۴) اسلام جاذبہ اور دافعہ دونوں رکھتا ہے ،کہ ان چاروں میں سیچوتھا فرض صحیح ہے۔

۱۵۴

دوسرا معنی جو اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے لئے لیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ ہم اس بات کے قائل ہوں کہ اسلام کے معارف اور احکام اس طرح ہیں کہ بعض افراد کے لئے جاذبہ رکھتے ہیں اور بعض افراد کے لئے دافعہ رکھتے ہیں ،جاذبہ یعنی وہ لوگوںکو اپنی طرف کھیچنتے ہیں اور دافعہ یعنی وہ ان کے لئے اسلام سے دوری کا سبب بنتے ہیں یا تمام اسلامی معارف میں بعض عناصر ایسے ہوتے ہیں اور وہ ان کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور بعض عناصر ایسے بھی ہیں جن کو بعض افراد پسند نہیں کرتے ہیں اور ان کے لئے دفع اور دوری کا سبب بنتے ہیں تیسرے معنی یہ ہیں کہ ہم اس بات کو دیکھیں کہ اسلام غیر مسلموں کو اسلام کی طرف بلانے میں یا وہ لوگ جو کہ مسلمان ہیں انکی تربیت اور رشد و کمال کے لئے کس طریقے کو اپناتا ہے اور کون سے عمل انجام دینے کو کہتا ہے؟ کیا صرف جاذبہ کے طریقے کو اپناتا ہے یا دافعہ کے طریقے کو اختیار کرتا ہے یا دونوں طریقوںکو استعمال کرتا ہے ؟

انسان کاتکامل جاذبہ اور دافعہ کارہین منّت ہے

اس سے قبل کہ ہم ان تینوں معانی پر تفصیلی گفتگو اور بحث کریں اس سوال کو پیش کریں گے کہ انسانکے لئے ایک متحرک مخلوق کے عنوان سے جو کہ اپنے تکامل کے راستے میں ایک مقصد کو نظر میں رکھتا ہے اور اس تک پہونچنے کی کوشش کرتا ہے کیا اصلاً کوئی قوت جاذبہ ہے جو زیادہ سے زیادہ اور بہتر طریقے سے اس راستے میں اس کی مدد کرتی ہے یا کوئی قوت دافعہ ہے یا دونوں قوتیں پائی جاتی ہیں ؟

۱۵۵

اس سوال کا جواب زیادہ مشکل نہیں ہے تھوڑے سے غور و فکر اور دقت کر کے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اگر زندہ رہنے والی چیزیںجو کہ دنیا میں پائی جاتی ہیں ان کو دیکھا جائے؛ چاہے وہ حیوان ہوں یا انسان؛ پیڑ پود ے ہوں یا کچھ اور؛سب کے سب جاذبہ اور دافعہ دونوں کے محتاج ہیں ؛ہر زندہ رہنے والی چیز کے لئے سب سے اہم اور پہلی چیز جو اس کے لئے خصوصیت رکھتی ہے، وہ غذا ہے۔ تمام زندہ موجودات اپنے نشو نما نیز اپنی زندگی کو باقی رکھنے کے لئے کھانے اور غذا کی احتیاج رکھتے ہیں غذا اور کھانا بغیر جاذبہ کے نہیں ہو سکتا ؛یعنی غذا حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے باہر سے کوئی چیز جسم کے اندر داخل ہوکر جذب ہو جائے اسی طرح ہر چیز کا جذب تمام زندہ موجودات کے لئے فائدہ مند نہیں ہے بلکہ بعض چیزوں کا جذب،زندہ شے کی نشوو نما اور اس کے تحرک میں خلل پیدا ہونے کا باعث ،اس کے متوقف ہونے،یہاں تک کی اس کی موت کا باعث ہوجاتا ہے لہذٰا ضروری ہے کہ ان چیزوں کی نسبت دافعہ بھی رکھتا ہو تاکہ ان کو اہنے بدن سے دور رکھے۔ لہذٰا تمام زندہ موجودات اپنے وجود کے باقی رکھنے کے لئے اور اپنے رشد وکمال کے لئے جاذبہ اور دافعہ دونوں کے محتاج ہیں ۔ اس جگہ پر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بعض چیزوں کو جذب کرے اور بعض چیزوں کو دفع کرے تو جو بات سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ مادی جذب و دفع ہوتی ہے یعنی ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ تمام جگہوں پر جو کچھ جذب یا دفع ہے ایک مادی اور محسوس ہونے والی چیز ہے ؛ لیکن ہم کو اس بات کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ اسلامی معارف کے اعتبار سے انسان کی زندگی صرف اسی بیو لوجک اور مادی زندگی تک محدود نہیں ہے ؛بلکہ انسان ایک معنوی زندگی بھی رکھتا ہے جو کہ روح سے مربوط ہے یعنیایک وہ زندگی،نشو و نما اور تکامل ہے جو کہ انسان کے جسم سے مربوط ہے اورایک وہ زندگی،نشو و نما اور تکامل ہے جو انسان کی روح سے مربوط ہے۔ خدا وند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:( یا ایهاالذین آمنوا استجیبوا لله وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم ) ( ۱ ) اے وہ لوگو !جو ایمان لائے ہو جب خدا و رسول تم

____________________

(۱) سورہ انفال آیہ ۲۴

۱۵۶

کو کسی چیز کی طرف بلائیں جو کہ تم کو زندگی بخشنے والی ہو تو تم اس پر لبےّک کہو ؛یہ بات مسلم ہے کہ اس آیہ کریمہ میں خدا نے جن لوگوں کو مخاطب کیا ہے؛ وہ صاحبان ایمان ہیں اور حیوانی زندگی رکھتے ہیں ؛ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتوں کو سنتے ہیں ، تو خدا اور رسول کیوں ان لوگوں کو اس چیز کی طرف بلارہے ہیں جو ان کو زندگی بخشتی ہو؛ یقیناً یہ حیات جسمانی اور مادی زندگی نہیں ہے بلکہ اس سے دوسری زندگی مراد ہے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے( و ما علمّناه الشعر وما ینبغی له ان هو الّاذکر و قرآن مبین لینذر من کان حيّاً ) ( ۱ ) ہم نے اس (رسول )کوشعر نہیں سکھایا اور نہ ان کے لئے یہ مناسب ہے یہ صرف نصیحت اور روشن قرآن کے علاوہ کچھ نہیں ہے تا کہ جو زندہ ہوں ان کو ڈرائیں۔ اب یہ کہ قرآن اس شخص کی ہدایت کرتا ہے جو زندہ ہے اس کا مطلب کیا یہی جسمانی اور مادی زندگی ہے ؟ اگر مراد یہی مادی زندگی ہے تو ایسی زندگی تو سارے انسان رکھتے ہیں ؛ لہذٰا قرآن کو سب کی ہدایت کرنی چاہئے لیکن ہم دیکھتے اور جانتے ہیں کہ قرآن نے ابولہب ،ابو جہل جیسوں کی اگر چہ یہ لوگ ظاہری اور جسمانی زندگی رکھتے تھے، کوئی ہدایت نہیں کی اور قران ایسے لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا ،تو معلوم ہوا کہ اس حیات سے مراد قران میں کوئی دوسری حیات ہے حیات یعنی زندہ دلی ،روحی زندگی جو کہ انسان کو'' سننے والا کاندیتی ہے تاکہ خدا کے

____________________

(۱) سوررہ ےٰسین : آیہ ۶۹ اور ۷۰ ۔

۱۵۷

کلام کو سن کر ہدایت حاصل کر سکے( فانّک لا تُسمع الموتی'' ) ( ۱ ) اے رسول آپ مردوں کو نہیں سناسکتے ،اس آیہ میں مردوں سے مرادمردہ دل افرادہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جن کے جسم تو زندہ ہیں لیکن ان کی روحیں مردہ ہیں روح اور دل کی زندگی کی کیا نشانی ہے ؟ اس کی علامت اور نشانی ،خشیت و خوف الٰہی ہے( انما تنذرالذین یخشون ربّهم بالغیب'' ) ( ۲ ) اے رسول ! تم صرف انھیں لوگوں کو ڈرا سکتے ہو جواز غیب خدا سے ڈرتے ہیں ؛ دل کے زندگی کی نشانی یہ ہے کہ جب ان کو متوجہ کریں اور بتائیںکہ تمھارا ایک خالق ہے اس کا تم پر حق ہے اور اس نے تم کو کسی مقصد کے تحت خلق کیا ہے اور تمھارے اوپراس نے کچھ ذمہ داری قراردی ہے تو اسکا دل کانپ اٹھتا ہے اور پھر کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہو تا ہے،دل میں خوف خدا اور ایمان آنے کا نتیجہ یہ ہے کہ'( 'یئوتکم کفلین من رحمته ویجعل لکم نوراًتمشون به ) ( ۳ ) یعنی خدا وند عالم اپنی رحمت سے تم کودوہرے حصے عطا فرماتا ہے اور ایسا نور قرار دیتا ہے کہ اس کے سبب اور اس کی برکت سے تم چل سکتے ہو؛ یہ نور، مادی اور محسوس کرنے والا نور نہیں ہے ،بلکہ وہی نور ہے جو کہ روح اور دل کی زندگی سے مربوط ہے، ایسی زندگی جس کی طرف خداوند عالم نے قران مجید میں مختلف مقامات پراشارہ

____________________

(۱)سورہ روم :آیہ۵۲۔

(۲) سورہ فاطر: آیہ ۱۸۔

(۳) سورہ حدید: آیہ ۲۸۔

۱۵۸

کیا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے( فا نها لا تعمی الابصار و لٰکن تعمی القلوب التیّ فی الصدور'' ) ( ۱ )

حقیقت میں آنکھیں اندھی نہیں ہیں بلکہ وہ دل جو کہ سینے میں ہیں وہ اندھے ہیں ،مادی اور جسمانی آنکھ زندہ ہے اور دیکھتی ہے، لیکن روحانی اور باطنی آنکھ نہیں رکھتے ہیں ،وہ صنوبری دل جو کہ سینے کے اندر دھڑکتا ہے اور زندہ ہے لیکن ایک دوسرا جو دل بھی ہے کہ عیب ونقص اسی میں ہے( ثمّ قست قلوبکم من بعدذالک فهی کالحجارة او اشدّ قسوة ) ( ۲ ) پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے پتھر کی، طرح بلکہ اس بھی زیادہ سخت وہ دل پتھر جیسا بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے کہ کوئی چیز اس میں اثر نہیں کر سکتی ؛بلکہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو چکا ہے( وانّ من الحجارة لما یتفجّرمنه الانهار وانّ منها لما یشقّق فیخرج منه المائ'' ) ( ۳ ) اور بعض پتھروں سے نہریںنکلتی ہیں اور بعض شگافتہ ہوتے ہیں تو اس سے پانی نکلتا ہے بہر حال قران مجید میں ایسی بہت سی آیتیں پائی جاتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن اس جسمانی آنکھ، کان اوردل کے علاوہ حیاتی آنکھ،کان،دل کا قائل ہے، اور جس طرح سے جسم کی زندگی،نشو ونما اس کے تکامل کے لئے جذب و دفع کی ضرورت ہے ویسے ہی روحی حیات کو بھی جذب و دفع کی احتیاج ہے۔ جس طرح سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کہ جسمانی زندگی پر اثر ڈالتی ہیں اور اس جسم کے لئے مفید یا مضر ہیں ایسے ہی بہت سے عوامل ایسے بھی پائے

____________________

(۱)سورہ حج؛آیہ ۴۶۔

(۲)اور (۳)سورہ بقرةآیة۷۴.

۱۵۹

جاتے ہیں جو کہ اس روحانی زندگی کے لئے فائدہ مند یا نقصان دہ ہیں ۔جس طرح جسمانی زندگی کئی مرتبے اوردرجے رکھتی ہے اور اس میں نقص و کمال ، اور شدت وضعف پایا جاتا ہے، روحانی زندگی بھی اسی طرح کئی درجے اور مرتبے رکھتی ہے ؛روحانی زندگی کا سب سے پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان انبیاء کی پہلی دعوت جو ایمان اور توحید سے متعلق ہے اس کو قبول کرے اور اس کو جذب کرسکے ۔ البتہ انبیاء کی اس ہدایت کے اثر اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کے بعد انسان دھیرے دھیرے روحانی زندگی کے بلند مرتبہ کو حاصل کر سکتا ہے؛ اسی جگہ پرتزکیہ و تہذیب نفس کی بحث آتی ہے۔

تزکیہ نفس یعنی روح کے کمال کے لئے لازمی جذب اور دفع

نفس کو پاک و صاف کرنے (تزکیہ نفس )کی بحث اصل میں وہیروح سے مربوط جذب و دفعبحث ہے۔ ایک درخت کے لئے جب یہ چاہیں کہ وہ خوب تناور اورپھولے پھلے توضروری ہے کہ وہ مٹی اور ہوا سے مواد کو جذب کرے اور اس کی چھٹائی کی جائے اور مضر نباتی زہروں اور آفتوں کو او سے دور رکھا جائے۔اور یہ دونوں چیزیں یعنی جذب و دفع ضروری ہے ؛انسان کے لئے بھی یہ چیزیں ضروری ہیں یعنی وہ ایسا کام کرے کہ اس کی روح صیقل ہو۔اس کا مقدمہ یہ ہے کہ وہ چیزیں جو انسان کی روح اور زندگی کے لئے ضروری اور مفید ہو ںان کو جذب کرے اور وہ چیزیں جو انسان کی روح کے لئے مضر اور نقصان دہ ہیں اس کو اپنے سے دور کرے ، لہذٰا سب سے پہلاقدم یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کو پہچانے اور ان کی معرفت حاصل کرے اور غفلت و جہالت سے باہر آئے؛ انسان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی روح ایسی ہے کہ( بذکر الله تطمئنّ القلوب ) (۱) خدا وند عالم کے ذکر سے دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے، روح کی غذا خدا کا ذکر اور اس کی یاد ہے، دل کی زندگی اور خدا کی یاد کے درمیان ربط پایا جاتا ہے؛ یہی دل ایسا ہے کہ اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے،

____________________

(۱) سورہ رعد: آیہ ۲۸۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روایت ہے کہ امیرالمؤمنینعليه‌السلام اصحاب کے قریب سے کسی سواری پر سوار ہو کر گذر رہے تھے کچھ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیچھے پیچھے پیدل چلنے لگے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا کہ کیا تمہاری کوئی حاجت ہے ؟ لوگوں نے کہا نہیں لیکن ہمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیسا تھ چلنا اچھا لگتا ہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا واپس جاو اس لئے کہ سوار کیساتھ پیدل چلنے سے سوار کے اندر تکبر پیدا ہوتا ہے اور پیدل چلنے والے کیلئے یہ ذلت کا باعث ہے_(۱)

اصحاب کے ساتھ تواضع

جو اصحاب کسی پوشیدہ خزانہ کی طرح انجانی جگہوں پر پڑے ہوئے تھے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تواضع سے وہ شمع نبوت کے پروانے بن گئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو جاودانہ معنویت کی دولت سے مالا مال کردیا _ غریبوں ، غلاموں اور ستم رسیدہ افراد کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسا مومن بنادیا جو راہ اسلام میں اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہادینے کیلئے تیار تھے _ وہ اپنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدا کا بندہ کہتے تھے اور اس پر فخر و مباہات کرتے تھے اسی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غلاموں کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے_

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ایک بد زبان عورت کاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب سے گذر ہوا جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کچھ غلاموں کے ساتھ بیٹھے کھانا تناول فرما رہے تھے ، عورت نے کہا

___________________

۱) (بحار الانوار ج ۴۱ص ۵۵)_

۲۶۱

اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ غلاموں کی طرح کھانا کھاتے ہیں اور غلاموں کی طرح بیٹھے ہیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : وائے ہو تجھ پر کون سا غلام مجھ سے بڑا غلام ہے ؟ اس عورت نے کہا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے کھانے میں سے ایک لقمہ مجھ کو دیں ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک لقمہ اسے دیا اس عورت نے کہا نہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا جھوٹا مجھ کو عنایت فرمائیں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا جھوٹا ایک لقمہ اسے دیدیا ، اس عورت نے لقمہ کھالیا امامعليه‌السلام فرماتے ہیں کہ جب تک وہ عورت زندہ ہی کبھی مرض میں مبتلا نہیں ہوئی_(۱)

اصحاب کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نشست کے بارے میں منقول ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے درمیان جب بیٹھے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان ہی میں سے ایک ہیں اگر کوئی انجان آدمی آجاتا تو وہ پوچھے بغیر نہیں سمجھ سکتا تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں ،اصحاب نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے ایک ایسی جگہ کا بندو بست کرنا چاہا کہ آنے والے انجان افراد اس کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہچان لیں پھر ان لوگوں نے مٹی کی ایک اونچی جگہ بنائی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس پر بیٹھنے لگے_(۲)

یہی مٹی کا چھوٹا سا چبو ترہ تھا جس نے محل میں بیٹھنے والے بادشاہوں کو ہلادیا اور یہ متواضعانہ اور سادہ بزم تھی جس نے ایک دن دنیا کی تصویر بدل دی _

___________________

۱) (مکارم الاخلاق ص ۱۶)_

۲) ( محجة البیضاء ج ۶ ص ۱۵۱)_

۲۶۲

اصحاب کیساتھ گفتگو کا انداز :

اصحاب کے ساتھ بات کرتے وقت ان کو بھی گفتگو کرنے اور اظہار نظر کی اجازت دیتے تھے_ اگر کبھی بزم میں ان میں سے کوئی بات چھیڑتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلسلہ کو منقطع نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا ساتھ دیتے تھے_

اصحاب کا دل رکھنے اور ان کی تواضع کے لئے اگر کسی نشست میں آخرت کا ذکر ہوتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس میں شرکت فرماتے اور اگر کھانے پینے کا ذکر چھٹر جاتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس میں بھی شریک ہوجاتے تھے ، اگردنیا کا ذکر ہوتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بحث میں بھی شامل ہوجاتے _ کبھی اصحاب زمانہ جاہلیت کا شعر پڑھتے اور کسی چیز کو یاد کرکے ہنستے ، تو آپ بھی تبسم فرماتے اور لوگوں کو حرام باتوں کے علاوہ کسی چیزسے منع نہیں کرتے تھے_(۱)

فروتنی کے ساتھ ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ شفقت و محبت بھی فرماتے تھے ، جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے پاس پہنچتے تو جس طرح معمول کے مطابق شفقت و محبت کی جاتی ہے اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انکے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آتے تھے_

___________________

۱) (محجة البیضاء ج ۴ ص ۱۵۲)_

۲۶۳

بچوں کے ساتھ تواضع کے ساتھ برتاو

بچے مستقبل کے معاشرہ کے معمار ہوتے ہیں لیکن عام طور پر اپنی کم سنی کی وجہ سے بزرگوں کی نظروں سے دور رہتے ہیں ، یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ان پر حقارت کی نظر ڈالے ، لیکن رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرف یہ کہے ان کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے بلکہ ان کے ساتھ تواضع کا برتاوکرتے ،ان کو اھمیت دیتے اور ان کا احترام کرتے تھے_

روایت ہے کہ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصار کے بچوں کو دیکھتے تو ان کے سرپردست شفقت پھیرتے انہیں سلام کرتے او رانکے لئے دعا فرماتے تھے _(۱)

ایک دن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کچھ بچوں کے پاس گئے ان کو سلام کیا اور ان کے در میان غذائیں تقسیم کیں_(۲)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں یہ طریقہ تھا کہ جب مسافر لوٹ کروطن آتے تھے تو اس وقت ان کے استقبال کو بچے آتے تھے ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان بچوں کے ساتھ بہت تواضع سے ملتے اور ان پر مہربانی فرمایا کرتے تھے _

جب رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سفر سے واپس لوٹتے اور بچے آپکا استقبال کرنے کیلئے آتے ،تو آپ فرماتے کہ ان کو سوارکر لوکچھ بچوں کو چوپائے کے اگلے حصہ پر او رکچھ کو پچھلے حصہ پر

___________________

۱) (شرف النبی ص ۶۵)_

۲) (مکارم الاخلاق ص ۱۶)_

۲۶۴

سوار کرلیتے اور کچھ بچوں کیلئے اپنے اصحاب سے فرماتے کہ تم ان کو سوار کر لو اس کے بعد بچے ایکدوسرے پر فخر کرتے تھے بعض بچے کہتے تھے کہ مجھ کو رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سوار کیا تھا اور تم کو اصحاب نے سوار کیا تھا _(۱)

زندگی کے تمام امور میں فروتنی

سادہ بے داغ صداقت پر مبنی ، ظاہر داری سے پاک ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی ایک آزاد او رمتواضع انسان کی زندگی تھی ،گھر او رگھر سے باہر معاشرہ کے مختلف طبقوں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زاہدانہ اور تکلف سے پاک زندگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انکسار او رفروتنی کی داستان بیان کرتی ہے _

امیرالمومنین فرماتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عبابستر کا کام او رتکیہ کی جگہ ایک کپڑے میںخرمے کی چھال بھری ہوتی تھی، ایک رات لوگوں نے اس بستر کو دہرا کردیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : کہ کل رات کی بستر نماز شب کیلئے اٹھنے سے مانع تھا ، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ ایک بستر سے زیادہ بستر نہ بچھایا جائے_(۲)

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کھال کا ایک بستر تھا جس میں خرمہ کی چھال بھری ہوئی تھی ، ایک عبا تھی

___________________

۱) (شرف النبی ص ۸۵)_

۲) (مکارم الاخلاق ص ۳۸)_

۲۶۵

جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہیں دوسری جگہ جاتے تو عبا دوہری کرکے بچھالیتے ، بیٹھنے کیلئے بھی خرمہ کی جھال سے بھری ہوٹی ایک کھال پہچادی جاتی اسی پر بیٹھتے تھے اور ایک فدک کی چادر تھی اسی کو اپنے جسم پر لپیٹ لیتے تھے ایک تولیہ نما مصری چادر او ربالوں سے بنا ہوا ایک فرش بھی تھا جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بیٹھتے اور کبھی کبھی اسی پر نماز بھی بڑھتے تھے _(۱)

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک زوجہ فرماتی ہیں کہ سماجی کاموں سے فرصت پانے کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا کپڑا سیتے،اپنی جوتیاں ٹانکتے اور جو کام گٹروں میں مرد کیا کرتے ہیں وہ سارے کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتے تھے نیز فرماتی ہیں کہ ہر کام سے زیادہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خیاطی پسند تھی_(۲)

ذاتی کاموں میں مدد نہ لینا

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنے ذاتی کاموں کو انجام دینا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی متواضع شخصیت کے کمال کی علامت ہے ذاتی کاموں کے انجام دینے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوسروں سے ممتاز نہ سمجھنا بذات خود آپکی ذات کو خصوصی امتیاز دیتا ہے _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے کپڑے میں اپنے ہاتھ سے پیوند لگا تے' جوتے ٹانکتے ،گھر کا دروازہ

___________________

۱) (مکارم الاخلاق ص ۳۸ )_

۲) (مکارم الاخلاق ص ۱۷)_

۲۶۶

کھولتے بھیٹروں او راونٹ کا دودھ دوہتے'اونٹ کو اپنے ہاتھ سے باندھتے 'خادم جب آٹا پیستے ہوئے تھک جاتا تواس مدد کرتے ' نماز شب کیلئے وضو کرنے کی غرض سے خود پانی لاتے ،گھر کے کاموں میں بیوی کی مدد کرتے اور گوشت کے ٹکڑے کاٹتے _(۱)

اپنے کاموں کو اپنے ہاتھوںسے اس طرح انجام دیتے تھے کہ اصحاب اگر مدد کرنے کی بھی کوشش کرتے تو منع دیتے تھے_

ایک سفر میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز کیلئے اپنی سواری سے ا ترے ، نماز کی جگہ پر کھڑے ہونے کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پھر پلٹ گئے اصحاب نے وجہ پوچھی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے اونٹ کے پیر نہیں باندھے تھے میں نے چاہا کہ اس کے پیر باندھ دوں اصحاب نے کہا کہ یہ کام ہم کئے دیتے ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : یہ اچھی بات نہیں ہے کہ کوئی اپنا ذاتی کام دوسروں سے کرائے ، چاہے دہ مسواک کیلئے ایک لکڑی ہی لانے کا کام کیوں نہ ہو_(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی انکساری کے دوسرے نمونے

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اندر تواضع کی صفت بدرجہ اتم موجود تھی اس وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے تمام شعبوں میں فروتنی کا مظاہرہ نظر آتا ہے _

___________________

۱)(بحارالانوارج ۱۶ص۲۲۷)_

۲) (شرف النبی ص ۷۵ عبارت میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ )_

۲۶۷

لباس کے بارے میں منقول ہے :

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لمبا لباس ( شملہ ) پہنتے تھے ، ایک ہی کپڑے سے قمیص اور شلوار بناتے تھے _ یہ کپڑا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جسم پر بہت زیب دیتا تھا اور کبھی وہی لمبا لباس ( شملہ ) پہن کر لوگوں کے ساتھ نماز پڑھتے تھے_(۱)

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معنوی قد و قامت کیلئے مہنگا اور طرح طرح کے رنگ برنگ کپڑے زیبانہ تھے اس لئے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دنیا کی رنگینوں کی حقیقت سے واقف تھے اور اسے ٹھکرا چکے تھے_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تواضع اور انکسار میں یہ بات بھی داخل تھی کہ : آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مریض کی عیادت کیلئے جاتے ، تشییع جنازہ میں شرکت کرتے ، غلاموں کی دعوت کو قبول کرتے اور گدھے پر سوار ہوتے_(۲)

تاریخ گواہ ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انکسار اور تواضع کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہیبت اور شان و شوکت میں کوئی کمی نہیں واقع ہوئی بلکہ یہی انکساری سربلندی اور عزت کا ذریعہ بن گئی ، تھوڑی ہی مدت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شہرت دنیا میں پھیل گئی اور آج گلدستہ اذان سے وحدانیت کی شہاوت کے ساتھ ساتھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کا اعلان بھی دنیا میں گونج رہا ہے _

___________________

۱) (ترجمہ مکارم اخلاق ص ۶۹ مطبوعہ بیروت)_

۲) (مکارم اخلاق ص ۱۵) _

۲۶۸

تواضع کے بارے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کے ایک قول پر میں اپنی گفتگو تمام کرتے ہیں _

طوبی لمن تواضع فی غیر مسکنة و انفق مالا جمعه من غیر معصیة و رحم اهل الذل و المسکنه و خالط اهل الفقه و الحکه (۱)

بڑا خوش نصیب ہے وہ شخص جو فقر اور بیچارگی کے علاوہ تواضع کرے اور اس مال کو خرچ کرے جس کو گناہوں سے جمع نہیں کیا ہے اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں پر رحم کرے اور اہل حکمت و دانش کے ساتھ زندگی گزارے_

___________________

۱) (جامع السعادات ج ۱ ص ۳۹۵ طبع بیروت ) _

۲۶۹

خلاصہ درس

۱) لغت میں تواضع کے معنی فروتنی اور انکسار کے ہیں اور علمائے اخلاق کی اصطلاح میں تکبر کی مخالف ایک صفت ہے اور ایسی کسر نفسی کہ جس میںانسان دوسروں پر اپنی فضیلت و فوقیت نہ جتائے _

۲) فروتنی کے زیور سے تمام انبیاء آراستہ تھے _ ان کے تواضع سے پیش آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے جلال و جبروت اور عظیم مقام سے خوف کی بنا پر لوگ ایمان نہ لائیں بلکہ خدا کی خاطر ایمان قبول کریں _

۳)فروتنی ، اور انکسار ی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وہ نمایاں صفت تھی جو زندگی کے مختلف حالات میں اور معاشرہ کے دوسرے مختلف طبقات سے میل جول کے وقت لوگوں کے سامنے ظاہر ہوجاتی تھی_

۴) غریبوں ، غلاموں اور مظلوموں کیساتھ رہ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی ایسی تربیت کی کہ وہ اسلام کے راستہ میں اپنے خون کا آخری قطرہ تک پیش کردینے پر تیار تھے_

۵) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بچوں کے ساتھ بھی تواضع سے پیش آتے تھے ان کو اہمیت دیتے اور انکا احترام کرتے تھے _

۶) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سادہ ، پاکیزہ ، سچی اور ظاہر داری سے مبرا زندگی آپ کے آزاد اور منکسر رویہ کی زندہ دلیل ہے _

۲۷۰

سوالات :

۱_ تواضع کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کیجئے ؟

۲_ انبیائے خدا کیوں تواضع فرماتے تھے ؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تواضع کو امیرالمومنین کی روایت کی روشنی میں بیان کیجئے ؟

۴_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تواضع کی ایک مثال پیش کیجئے ؟

۵_ بچوں کے ساتھ حضور کا کیا سلوک تھا؟

۲۷۱

انیسواں سبق:

(پاکیزگی اور آرائش)

اسلامی تہذیب میں جسم کو آلودگی سے پاک و پاکیزہ رکھنا ، روح کو پلیدگی سے بچانے اور نفس کو آب توبہ سے دھونے کے برابر اہمیت حاصل ہے _

( ان الله یحب التوابین و یحب المتطهرین ) (۱)

بیشک خدا بہت زیادہ توبہ کرنیوالوں اور پاک و پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے_

چونکہ متطہرین سے مراد طہارت معنوی اور ظاہری دونوں طہارتوں کے حامل افراد ہیں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ علیہم السلام سے بہت سی روایتوں میں صفائی ، اپنے کو آراستہ کرنے اور ان باتوں کو روح کی شادابی اور جسم کی سلامتی سے مربوط قرار دیا گیا ہے ، اس

___________________

۱) بقرہ ۲۲۲_

۲۷۲

سے اسلام کی نظر میں طہارت کی اہمیت اور قدر و قیمت ظاہر ہوتی ہے نیز یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ طہارت کا انسانی زندگی کو سنوار نے میں کیا اثر ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس حوالے سے چند فرامین کا انتخاب کیا گیا ہے :

''قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان الاسلام نظیف فتنظفوا فانه لا یدخل الجنة الا نظیف'' (۱)

بے شک اسلام خود پاکیزہ ہے لہذا تم بھی پاک و پاکیزہ رہو جو پاک و پاکیزہ نہیں ہے وہ جنت میں نہیں جائیگا _ بس پاکیزہ افراد ہی جنت میں داخل ہوں گے_

''ان الله تعالی طیب یحب الطیب ، نظیف یحب النظافة '' (۲)

بے شک خدا طیب ہے اور وہ خوشبو کو دوست رکھتا ہے وہ پاک ہے اور پاکیزگی کو دوست رکھتا ہے_

''ان الله جمیل و یحب الجمال الله''

جمیل ہے وہ خوبصورتی کو دوست رکھتا ہے _

''قال النبی : لا نس یا انس اکثر من الطهور یزد الله فی عمرک فان استطعت ان تکون للیل و النهار علی طهارة فافعل فانک تکون اذا مت علی طهارة مت شهیدا''

___________________

۱) ( نہج الفصاحہ ص ۱۲۲ح ۶۱۱)_

۲) (نہج الفصاحہ ص ۱۴۲، ح ۷۰۳)_

۲۷۳

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انس سے فرمایا کہ بہت زیادہ باطہارت رہا کرو تاکہ خدا تمہاری عمر میں اضافہ کرے اور اگر ہوسکے تو شب و روز باطہارت رہو اگر طہارت کی حالت میں مرو گے تو شہید مروگے(۱)

''قال علی عليه‌السلام تنظفوا بالماء من الراءحة المنتنة فان الله تعالی یبغض من عباده القاذورة '' (۲)

بوئے بد کو پانی سے دھو ڈالواس لئے کہ کثیف بندوں سے اللہ ناراض رہتا ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اقوال میں نظافت اور پاکیزگی کی بڑی تاکید کی ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بھی ظاہری طور پر آراستہ ، معطر اور پاک و پاکیزہ رہتے تھے دیکھنے میں دیدہ زیب نظر آتے تھے_

امید ہے کہ اس سلسلہ میں یہ کتاب چند نمونہ پیش کر کے اس سنت کو زندہ رکھنے میں ولو مختصر لیکن موثر ثابت ہوگی _

ظاہری و باطنی طہارت :

قرآنی نص کے مطابق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومینعليه‌السلام ذاتی طہارت کے مالک ہیں _

___________________

۱) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج ۱ ص ۷۸) _

۲) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج ۱ ص ۷۸)_

۲۷۴

( انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا ) (۱)

اے اہل بیت خدا کا یہ ارادہ ہے کہ وہ تم سے نجاست کو دور رکھے اور تم کو پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے _

اسی طرح آغاز بعثت میں خدا نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا :( و ثیابک فطهر و الرجز فاهجر ) آپ اپنے کپڑے پاک رکھیں اور گناہوں سے الگ رہیں _(۲)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ خدا کے برگزیدہ ہیں اس لئے اس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہر نجاست سے پاک بنایا اور وحی کے مبلغ کو ہر آلایش سے دور ہونا چاہیے اور اس نے حکم دیا کہ آپ ہمیشہ پاک و پاکیزہ رہیں تا کہ آپ کا ظاہر دیکھ کر لوگ متنفر نہ ہوں _

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لباس

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قیمتی اور فاخرہ لباس نہیں پہنتے تھے ، نہایت سادہ اورکم قیمت والا وہ لباس جو عام لوگ پہنا کرتے تھے وہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی زیب تن فرماتے تھے ، لیکن اس کے باوجود لباس کے رنگ اورکپڑے کی ساخت میں اپنے حسن انتخاب کی بدولت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت خوبصورت نظر آتے تھے_

___________________

۱) (احزاب ۳۳)_

۲) (مدثر ۴،۵)_

۲۷۵

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مختلف قسم کے لباس زیب تن فرماتے تھے جیسے '' ازار'' وہ کپڑا جو کمر کے نچلے حصہ کو ڈھکتا ہے _ '' رداء '' پائے پیراہن اور '' جبہ'' و غیرہ ، سبز رنگ کالباس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پسندیدہ لباس تھا اور زیادہ تر سفید لباس پہنتے تھے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے تھے : زندگی میں سفید لباس پہنو اور اپنے مردوں کو اس کا کفن دو اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لباس ٹخنوں کے اوپر تک ہوتا تھا اور ازار پنڈلی تک ہوتی تھی ، تکمے ہمیشہ بند رہتے تھے کبھی نماز و غیرہ میں انھیں کھول بھی دیتے تھے_(۱)

جمعہ کی اہمیت کے پیش نظر روزانہ پہنے جانے والے لباس کے علاوہ جمعہ کیلئے دو مخصوص لباس بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس موجود تھے_(۲)

لباس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف جسم کے چھپانے کا کام نہیں لیتے تھے بلکہ کبھی خشوع اور خدا کے نزدیک فروتنی ظاہر کرنے کیلئے موٹا اورکھرورا بھی پہنتے تھے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیوند دار لباس پہننے میں بھی کسی طرح کی ذلت محسوس نہیں کرتے تھے_

اکثر اون کا بنا لباس پہنتے تھے اس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس نہیں پہنتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اون کا ایک پیوند دار لباس تھا جس کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زیب تن فرماتے اور فرماتے تھے :

''انما انا عبد البس کما یلبس العبد '' (۳)

___________________

۱) ( محجة البیضاء ج ۴ ص ۱۴۱)_

۲) (محجة البیضاء ج ۴ ص ۱۴۲)_

۳) ( ترجمہ احیاء العلوم الدین ج ۲ص ۱۰۶۳) _

۲۷۶

بیشک میں ایک بندہ ہوں اور بندوں جیسا لباس پہنتا ہوں _

جناب ابوذر سے آپ نے فخر اور تکبر کو ختم کرنے کیلئے کھر درے لباس کی تاثیر بیان کرتے ہوئے فرمایا :

''اباذر انی البس الغلیظ و اجلس علی الارض و العق اصابعی و ارکب الحمار بغیر سرج و اردف خلفی، فمن رغب عن سنتی فلیس منی ، یا اباذر البس الخشن من اللباس و الصفیق من الثیاب لئلا یجد الفخر فیک سلکا ''

میں کھر درے کپڑے پہنتا ہوں ، زمین پر بیٹھتا ہوں ، کھانا کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹتا ہوں ، گدھے کی ننگی پیٹھ پر سواری کرتا ہوں اور اپنی سواری پر دوسروں کو بھی سوار کر لیتا ہوں ( یہ سب تواضع اور انکساری اور میری سنت کی علامتیں ہیں ) جو میری سنت سے روگردانی کرے وہ مجھ سے نہیں ہے اے ابوذر کھردرا اور موٹا لباس پہنو تا کہ فخر اور تکبر تم تک نہ آنے پائے _(۲)

کھردرا اور سیاہ رنگ کا لباس تھا جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بدن مبارک پر برا نہیں معلوم ہوتا تھا ، آپ کے پاس ایک سیاہ رنگ کا لباس تھا جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی کو دیدیا تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جناب ام اسلمہ نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں وہ سیاہ رنگ والا لباس کہاں ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میں نے کسی کو دیدیا ، ام سلمہ نے کہا: آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گورے رنگ پر اس

___________________

۱) ( ترجمہ مکارم الاخلاق ص ۲۱۷) _

۲۷۷

سیاہ کپڑے سے زیادہ دیدہ زیب کوئی دوسرا کپڑا میں نے نہیں دیکھا _(۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی خاص قسم کا جوتا پہننے کے پابند نہیں تھے ، حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جوتوں کی خوبصورتی بہت نمایاں ہوتی تھی _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جوتوں کے دو بند ہوا کرتے تھے اور وہ انگلیوں کے درمیان رہتے تھے، پنجوں کی طرف نعلین کا منہ پتلا ہوتا مگر نوکیلا نہیں ہوتا تھا ، اکثر دباغت شدہ کھال کے جوتے پہنتے تھے ، جوتے پہنتے وقت پہلے داہنے پیرکا جوتا پہنتے اور اتار تے وقت پہلے بائیں پیر کا جوتا اتارتے تھے اور یہ حکم دیتے تھے کہ : یا تو دونوں پیروں میں جوتے پہنو یا پھر کسی پیر میں نہ پہنو ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ ہرگز پسند نہ تھا کہ کوئی ایک پیر میں جوتے پہنے اور ایک پیر بغیر جوتے کے چھوڑ دے _(۲)

خوشبو کا استعمال

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت زیادہ خوشبو استعمال کرتے تھے اور اصحاب سے خوشبو لگانے کی فضیلت بھی بیان کرتے تھے امام جعفر صادق فرماتے ہیں :

''کان رسول الله ینفق علی الطیب اکثر مما ینفق علی الطعام '' (۳)

___________________

۱) (مجمع البیضاء ج ۴ ص ۱۴۲) _

۲) ( ترجمہ مکارم الاخلاق ج ۱ص ۷۳) _

۳) (ترجمہ مکارم الاخلاق ص ۶۶) _

۲۷۸

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خوشبو پر کھانے پینے سے زیادہ پیسے خرچ کر تے تھے _

امام باقر فرماتے ہیں :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس راستے سے گزرتے تھے اس راستہ سے دو تین دن بعد گذرنے والا یہ محسوس کرلیا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس جگہ سے گذرے ہیں ، اس لئے کہ وہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کس خوشبو سے فضا معطر رہتی تھی ، جب بھی کسی قم کا عطر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس لایا جاتا تھا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کو لگاتے اور فرماتے تھے اس عطر کی خوشبو دل پسند ، اچھی اور قابل برداشت ہے _

مسواک کرنا

حفظان صحت کیلئے دانتوں کی صفائی اور دانتوں کا تحفظ بڑی اہمیت کا حامل ہے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صفائی کے ساتھ مسواک کرنے کی بھی تاکید کی ہے اور اس کے مفید اثرات کی طرف بھی متوجہ کیا ہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہر مومن سے ہر وقت باوضو رہنے کی بڑی تاکید کی ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر وضو کے ساتھ مسواک بھی کریں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس پر خود بھی عمل پیرا تھے_

''لم یر رسول الله قط خارجا من الغائط الاتوضئا و یتبدی بالسواک'' (۱)

رفع حاجت کے بعد رسول خدا ہمیشہ وضو کرتے تھے اور وضو کی شروعات مسواک سے

کرتے تھے _

___________________

۱) ( مجمہ البیضاء ج ۱ص ۲۹۴) _

۲۷۹

موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ابتدا میں ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند اقوال پیش کریں گے پھر اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت پر بحث کریں گے _

''قال رسول الله لو لا ان اشق علی امتی لامرتهم بالسواک مع کل صلوة '' (۱)

اگر میری امت کیلئے یہ امر دشواری کا باعث نہ ہوتا تو میں ہر نماز کیلئے مسواک کرنے کا حکم دیتا _

حضرت امیرالمومنین سے فرمایا:

''یا علی ثلاث یزدن الحفظ و یذهبن السقم '' اللبان '' و السواک و قراءة القرآن'' (۲)

تین چیزویں حافظہ کو بڑھاتی اور بیماریوں کو دور کرتی ہیں اگربتی، مسواک اور قرآن کی تلاوت _

مسواک کے اچھے اثرات کے بارے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

''مطهرة للفم ، مرضاة للرب، یضاعف الحسنات سبعین ضعفا ، و هو

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۳ ص ۱۲۶) _

۲) (بحار الانواز ج ۷۳ص ۱۲۷)_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311