رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر12%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 202799 / ڈاؤنلوڈ: 5565
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روایت ہے کہ امیرالمؤمنینعليه‌السلام اصحاب کے قریب سے کسی سواری پر سوار ہو کر گذر رہے تھے کچھ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیچھے پیچھے پیدل چلنے لگے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا کہ کیا تمہاری کوئی حاجت ہے ؟ لوگوں نے کہا نہیں لیکن ہمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیسا تھ چلنا اچھا لگتا ہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا واپس جاو اس لئے کہ سوار کیساتھ پیدل چلنے سے سوار کے اندر تکبر پیدا ہوتا ہے اور پیدل چلنے والے کیلئے یہ ذلت کا باعث ہے_(۱)

اصحاب کے ساتھ تواضع

جو اصحاب کسی پوشیدہ خزانہ کی طرح انجانی جگہوں پر پڑے ہوئے تھے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تواضع سے وہ شمع نبوت کے پروانے بن گئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو جاودانہ معنویت کی دولت سے مالا مال کردیا _ غریبوں ، غلاموں اور ستم رسیدہ افراد کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسا مومن بنادیا جو راہ اسلام میں اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہادینے کیلئے تیار تھے _ وہ اپنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدا کا بندہ کہتے تھے اور اس پر فخر و مباہات کرتے تھے اسی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غلاموں کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے_

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ایک بد زبان عورت کاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب سے گذر ہوا جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کچھ غلاموں کے ساتھ بیٹھے کھانا تناول فرما رہے تھے ، عورت نے کہا

___________________

۱) (بحار الانوار ج ۴۱ص ۵۵)_

۲۶۱

اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ غلاموں کی طرح کھانا کھاتے ہیں اور غلاموں کی طرح بیٹھے ہیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : وائے ہو تجھ پر کون سا غلام مجھ سے بڑا غلام ہے ؟ اس عورت نے کہا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے کھانے میں سے ایک لقمہ مجھ کو دیں ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک لقمہ اسے دیا اس عورت نے کہا نہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا جھوٹا مجھ کو عنایت فرمائیں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا جھوٹا ایک لقمہ اسے دیدیا ، اس عورت نے لقمہ کھالیا امامعليه‌السلام فرماتے ہیں کہ جب تک وہ عورت زندہ ہی کبھی مرض میں مبتلا نہیں ہوئی_(۱)

اصحاب کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نشست کے بارے میں منقول ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے درمیان جب بیٹھے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان ہی میں سے ایک ہیں اگر کوئی انجان آدمی آجاتا تو وہ پوچھے بغیر نہیں سمجھ سکتا تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں ،اصحاب نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے ایک ایسی جگہ کا بندو بست کرنا چاہا کہ آنے والے انجان افراد اس کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہچان لیں پھر ان لوگوں نے مٹی کی ایک اونچی جگہ بنائی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس پر بیٹھنے لگے_(۲)

یہی مٹی کا چھوٹا سا چبو ترہ تھا جس نے محل میں بیٹھنے والے بادشاہوں کو ہلادیا اور یہ متواضعانہ اور سادہ بزم تھی جس نے ایک دن دنیا کی تصویر بدل دی _

___________________

۱) (مکارم الاخلاق ص ۱۶)_

۲) ( محجة البیضاء ج ۶ ص ۱۵۱)_

۲۶۲

اصحاب کیساتھ گفتگو کا انداز :

اصحاب کے ساتھ بات کرتے وقت ان کو بھی گفتگو کرنے اور اظہار نظر کی اجازت دیتے تھے_ اگر کبھی بزم میں ان میں سے کوئی بات چھیڑتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلسلہ کو منقطع نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا ساتھ دیتے تھے_

اصحاب کا دل رکھنے اور ان کی تواضع کے لئے اگر کسی نشست میں آخرت کا ذکر ہوتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس میں شرکت فرماتے اور اگر کھانے پینے کا ذکر چھٹر جاتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس میں بھی شریک ہوجاتے تھے ، اگردنیا کا ذکر ہوتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بحث میں بھی شامل ہوجاتے _ کبھی اصحاب زمانہ جاہلیت کا شعر پڑھتے اور کسی چیز کو یاد کرکے ہنستے ، تو آپ بھی تبسم فرماتے اور لوگوں کو حرام باتوں کے علاوہ کسی چیزسے منع نہیں کرتے تھے_(۱)

فروتنی کے ساتھ ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ شفقت و محبت بھی فرماتے تھے ، جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے پاس پہنچتے تو جس طرح معمول کے مطابق شفقت و محبت کی جاتی ہے اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انکے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آتے تھے_

___________________

۱) (محجة البیضاء ج ۴ ص ۱۵۲)_

۲۶۳

بچوں کے ساتھ تواضع کے ساتھ برتاو

بچے مستقبل کے معاشرہ کے معمار ہوتے ہیں لیکن عام طور پر اپنی کم سنی کی وجہ سے بزرگوں کی نظروں سے دور رہتے ہیں ، یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ان پر حقارت کی نظر ڈالے ، لیکن رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرف یہ کہے ان کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے بلکہ ان کے ساتھ تواضع کا برتاوکرتے ،ان کو اھمیت دیتے اور ان کا احترام کرتے تھے_

روایت ہے کہ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصار کے بچوں کو دیکھتے تو ان کے سرپردست شفقت پھیرتے انہیں سلام کرتے او رانکے لئے دعا فرماتے تھے _(۱)

ایک دن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کچھ بچوں کے پاس گئے ان کو سلام کیا اور ان کے در میان غذائیں تقسیم کیں_(۲)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں یہ طریقہ تھا کہ جب مسافر لوٹ کروطن آتے تھے تو اس وقت ان کے استقبال کو بچے آتے تھے ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان بچوں کے ساتھ بہت تواضع سے ملتے اور ان پر مہربانی فرمایا کرتے تھے _

جب رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سفر سے واپس لوٹتے اور بچے آپکا استقبال کرنے کیلئے آتے ،تو آپ فرماتے کہ ان کو سوارکر لوکچھ بچوں کو چوپائے کے اگلے حصہ پر او رکچھ کو پچھلے حصہ پر

___________________

۱) (شرف النبی ص ۶۵)_

۲) (مکارم الاخلاق ص ۱۶)_

۲۶۴

سوار کرلیتے اور کچھ بچوں کیلئے اپنے اصحاب سے فرماتے کہ تم ان کو سوار کر لو اس کے بعد بچے ایکدوسرے پر فخر کرتے تھے بعض بچے کہتے تھے کہ مجھ کو رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سوار کیا تھا اور تم کو اصحاب نے سوار کیا تھا _(۱)

زندگی کے تمام امور میں فروتنی

سادہ بے داغ صداقت پر مبنی ، ظاہر داری سے پاک ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی ایک آزاد او رمتواضع انسان کی زندگی تھی ،گھر او رگھر سے باہر معاشرہ کے مختلف طبقوں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زاہدانہ اور تکلف سے پاک زندگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انکسار او رفروتنی کی داستان بیان کرتی ہے _

امیرالمومنین فرماتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عبابستر کا کام او رتکیہ کی جگہ ایک کپڑے میںخرمے کی چھال بھری ہوتی تھی، ایک رات لوگوں نے اس بستر کو دہرا کردیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : کہ کل رات کی بستر نماز شب کیلئے اٹھنے سے مانع تھا ، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ ایک بستر سے زیادہ بستر نہ بچھایا جائے_(۲)

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کھال کا ایک بستر تھا جس میں خرمہ کی چھال بھری ہوئی تھی ، ایک عبا تھی

___________________

۱) (شرف النبی ص ۸۵)_

۲) (مکارم الاخلاق ص ۳۸)_

۲۶۵

جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہیں دوسری جگہ جاتے تو عبا دوہری کرکے بچھالیتے ، بیٹھنے کیلئے بھی خرمہ کی جھال سے بھری ہوٹی ایک کھال پہچادی جاتی اسی پر بیٹھتے تھے اور ایک فدک کی چادر تھی اسی کو اپنے جسم پر لپیٹ لیتے تھے ایک تولیہ نما مصری چادر او ربالوں سے بنا ہوا ایک فرش بھی تھا جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بیٹھتے اور کبھی کبھی اسی پر نماز بھی بڑھتے تھے _(۱)

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک زوجہ فرماتی ہیں کہ سماجی کاموں سے فرصت پانے کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا کپڑا سیتے،اپنی جوتیاں ٹانکتے اور جو کام گٹروں میں مرد کیا کرتے ہیں وہ سارے کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتے تھے نیز فرماتی ہیں کہ ہر کام سے زیادہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خیاطی پسند تھی_(۲)

ذاتی کاموں میں مدد نہ لینا

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنے ذاتی کاموں کو انجام دینا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی متواضع شخصیت کے کمال کی علامت ہے ذاتی کاموں کے انجام دینے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوسروں سے ممتاز نہ سمجھنا بذات خود آپکی ذات کو خصوصی امتیاز دیتا ہے _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے کپڑے میں اپنے ہاتھ سے پیوند لگا تے' جوتے ٹانکتے ،گھر کا دروازہ

___________________

۱) (مکارم الاخلاق ص ۳۸ )_

۲) (مکارم الاخلاق ص ۱۷)_

۲۶۶

کھولتے بھیٹروں او راونٹ کا دودھ دوہتے'اونٹ کو اپنے ہاتھ سے باندھتے 'خادم جب آٹا پیستے ہوئے تھک جاتا تواس مدد کرتے ' نماز شب کیلئے وضو کرنے کی غرض سے خود پانی لاتے ،گھر کے کاموں میں بیوی کی مدد کرتے اور گوشت کے ٹکڑے کاٹتے _(۱)

اپنے کاموں کو اپنے ہاتھوںسے اس طرح انجام دیتے تھے کہ اصحاب اگر مدد کرنے کی بھی کوشش کرتے تو منع دیتے تھے_

ایک سفر میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز کیلئے اپنی سواری سے ا ترے ، نماز کی جگہ پر کھڑے ہونے کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پھر پلٹ گئے اصحاب نے وجہ پوچھی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے اونٹ کے پیر نہیں باندھے تھے میں نے چاہا کہ اس کے پیر باندھ دوں اصحاب نے کہا کہ یہ کام ہم کئے دیتے ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : یہ اچھی بات نہیں ہے کہ کوئی اپنا ذاتی کام دوسروں سے کرائے ، چاہے دہ مسواک کیلئے ایک لکڑی ہی لانے کا کام کیوں نہ ہو_(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی انکساری کے دوسرے نمونے

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اندر تواضع کی صفت بدرجہ اتم موجود تھی اس وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے تمام شعبوں میں فروتنی کا مظاہرہ نظر آتا ہے _

___________________

۱)(بحارالانوارج ۱۶ص۲۲۷)_

۲) (شرف النبی ص ۷۵ عبارت میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ )_

۲۶۷

لباس کے بارے میں منقول ہے :

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لمبا لباس ( شملہ ) پہنتے تھے ، ایک ہی کپڑے سے قمیص اور شلوار بناتے تھے _ یہ کپڑا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جسم پر بہت زیب دیتا تھا اور کبھی وہی لمبا لباس ( شملہ ) پہن کر لوگوں کے ساتھ نماز پڑھتے تھے_(۱)

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معنوی قد و قامت کیلئے مہنگا اور طرح طرح کے رنگ برنگ کپڑے زیبانہ تھے اس لئے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دنیا کی رنگینوں کی حقیقت سے واقف تھے اور اسے ٹھکرا چکے تھے_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تواضع اور انکسار میں یہ بات بھی داخل تھی کہ : آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مریض کی عیادت کیلئے جاتے ، تشییع جنازہ میں شرکت کرتے ، غلاموں کی دعوت کو قبول کرتے اور گدھے پر سوار ہوتے_(۲)

تاریخ گواہ ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انکسار اور تواضع کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہیبت اور شان و شوکت میں کوئی کمی نہیں واقع ہوئی بلکہ یہی انکساری سربلندی اور عزت کا ذریعہ بن گئی ، تھوڑی ہی مدت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شہرت دنیا میں پھیل گئی اور آج گلدستہ اذان سے وحدانیت کی شہاوت کے ساتھ ساتھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کا اعلان بھی دنیا میں گونج رہا ہے _

___________________

۱) (ترجمہ مکارم اخلاق ص ۶۹ مطبوعہ بیروت)_

۲) (مکارم اخلاق ص ۱۵) _

۲۶۸

تواضع کے بارے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کے ایک قول پر میں اپنی گفتگو تمام کرتے ہیں _

طوبی لمن تواضع فی غیر مسکنة و انفق مالا جمعه من غیر معصیة و رحم اهل الذل و المسکنه و خالط اهل الفقه و الحکه (۱)

بڑا خوش نصیب ہے وہ شخص جو فقر اور بیچارگی کے علاوہ تواضع کرے اور اس مال کو خرچ کرے جس کو گناہوں سے جمع نہیں کیا ہے اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں پر رحم کرے اور اہل حکمت و دانش کے ساتھ زندگی گزارے_

___________________

۱) (جامع السعادات ج ۱ ص ۳۹۵ طبع بیروت ) _

۲۶۹

خلاصہ درس

۱) لغت میں تواضع کے معنی فروتنی اور انکسار کے ہیں اور علمائے اخلاق کی اصطلاح میں تکبر کی مخالف ایک صفت ہے اور ایسی کسر نفسی کہ جس میںانسان دوسروں پر اپنی فضیلت و فوقیت نہ جتائے _

۲) فروتنی کے زیور سے تمام انبیاء آراستہ تھے _ ان کے تواضع سے پیش آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے جلال و جبروت اور عظیم مقام سے خوف کی بنا پر لوگ ایمان نہ لائیں بلکہ خدا کی خاطر ایمان قبول کریں _

۳)فروتنی ، اور انکسار ی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وہ نمایاں صفت تھی جو زندگی کے مختلف حالات میں اور معاشرہ کے دوسرے مختلف طبقات سے میل جول کے وقت لوگوں کے سامنے ظاہر ہوجاتی تھی_

۴) غریبوں ، غلاموں اور مظلوموں کیساتھ رہ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی ایسی تربیت کی کہ وہ اسلام کے راستہ میں اپنے خون کا آخری قطرہ تک پیش کردینے پر تیار تھے_

۵) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بچوں کے ساتھ بھی تواضع سے پیش آتے تھے ان کو اہمیت دیتے اور انکا احترام کرتے تھے _

۶) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سادہ ، پاکیزہ ، سچی اور ظاہر داری سے مبرا زندگی آپ کے آزاد اور منکسر رویہ کی زندہ دلیل ہے _

۲۷۰

سوالات :

۱_ تواضع کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کیجئے ؟

۲_ انبیائے خدا کیوں تواضع فرماتے تھے ؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تواضع کو امیرالمومنین کی روایت کی روشنی میں بیان کیجئے ؟

۴_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تواضع کی ایک مثال پیش کیجئے ؟

۵_ بچوں کے ساتھ حضور کا کیا سلوک تھا؟

۲۷۱

انیسواں سبق:

(پاکیزگی اور آرائش)

اسلامی تہذیب میں جسم کو آلودگی سے پاک و پاکیزہ رکھنا ، روح کو پلیدگی سے بچانے اور نفس کو آب توبہ سے دھونے کے برابر اہمیت حاصل ہے _

( ان الله یحب التوابین و یحب المتطهرین ) (۱)

بیشک خدا بہت زیادہ توبہ کرنیوالوں اور پاک و پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے_

چونکہ متطہرین سے مراد طہارت معنوی اور ظاہری دونوں طہارتوں کے حامل افراد ہیں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ علیہم السلام سے بہت سی روایتوں میں صفائی ، اپنے کو آراستہ کرنے اور ان باتوں کو روح کی شادابی اور جسم کی سلامتی سے مربوط قرار دیا گیا ہے ، اس

___________________

۱) بقرہ ۲۲۲_

۲۷۲

سے اسلام کی نظر میں طہارت کی اہمیت اور قدر و قیمت ظاہر ہوتی ہے نیز یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ طہارت کا انسانی زندگی کو سنوار نے میں کیا اثر ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس حوالے سے چند فرامین کا انتخاب کیا گیا ہے :

''قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان الاسلام نظیف فتنظفوا فانه لا یدخل الجنة الا نظیف'' (۱)

بے شک اسلام خود پاکیزہ ہے لہذا تم بھی پاک و پاکیزہ رہو جو پاک و پاکیزہ نہیں ہے وہ جنت میں نہیں جائیگا _ بس پاکیزہ افراد ہی جنت میں داخل ہوں گے_

''ان الله تعالی طیب یحب الطیب ، نظیف یحب النظافة '' (۲)

بے شک خدا طیب ہے اور وہ خوشبو کو دوست رکھتا ہے وہ پاک ہے اور پاکیزگی کو دوست رکھتا ہے_

''ان الله جمیل و یحب الجمال الله''

جمیل ہے وہ خوبصورتی کو دوست رکھتا ہے _

''قال النبی : لا نس یا انس اکثر من الطهور یزد الله فی عمرک فان استطعت ان تکون للیل و النهار علی طهارة فافعل فانک تکون اذا مت علی طهارة مت شهیدا''

___________________

۱) ( نہج الفصاحہ ص ۱۲۲ح ۶۱۱)_

۲) (نہج الفصاحہ ص ۱۴۲، ح ۷۰۳)_

۲۷۳

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انس سے فرمایا کہ بہت زیادہ باطہارت رہا کرو تاکہ خدا تمہاری عمر میں اضافہ کرے اور اگر ہوسکے تو شب و روز باطہارت رہو اگر طہارت کی حالت میں مرو گے تو شہید مروگے(۱)

''قال علی عليه‌السلام تنظفوا بالماء من الراءحة المنتنة فان الله تعالی یبغض من عباده القاذورة '' (۲)

بوئے بد کو پانی سے دھو ڈالواس لئے کہ کثیف بندوں سے اللہ ناراض رہتا ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اقوال میں نظافت اور پاکیزگی کی بڑی تاکید کی ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بھی ظاہری طور پر آراستہ ، معطر اور پاک و پاکیزہ رہتے تھے دیکھنے میں دیدہ زیب نظر آتے تھے_

امید ہے کہ اس سلسلہ میں یہ کتاب چند نمونہ پیش کر کے اس سنت کو زندہ رکھنے میں ولو مختصر لیکن موثر ثابت ہوگی _

ظاہری و باطنی طہارت :

قرآنی نص کے مطابق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومینعليه‌السلام ذاتی طہارت کے مالک ہیں _

___________________

۱) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج ۱ ص ۷۸) _

۲) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج ۱ ص ۷۸)_

۲۷۴

( انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا ) (۱)

اے اہل بیت خدا کا یہ ارادہ ہے کہ وہ تم سے نجاست کو دور رکھے اور تم کو پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے _

اسی طرح آغاز بعثت میں خدا نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا :( و ثیابک فطهر و الرجز فاهجر ) آپ اپنے کپڑے پاک رکھیں اور گناہوں سے الگ رہیں _(۲)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ خدا کے برگزیدہ ہیں اس لئے اس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہر نجاست سے پاک بنایا اور وحی کے مبلغ کو ہر آلایش سے دور ہونا چاہیے اور اس نے حکم دیا کہ آپ ہمیشہ پاک و پاکیزہ رہیں تا کہ آپ کا ظاہر دیکھ کر لوگ متنفر نہ ہوں _

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لباس

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قیمتی اور فاخرہ لباس نہیں پہنتے تھے ، نہایت سادہ اورکم قیمت والا وہ لباس جو عام لوگ پہنا کرتے تھے وہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی زیب تن فرماتے تھے ، لیکن اس کے باوجود لباس کے رنگ اورکپڑے کی ساخت میں اپنے حسن انتخاب کی بدولت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت خوبصورت نظر آتے تھے_

___________________

۱) (احزاب ۳۳)_

۲) (مدثر ۴،۵)_

۲۷۵

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مختلف قسم کے لباس زیب تن فرماتے تھے جیسے '' ازار'' وہ کپڑا جو کمر کے نچلے حصہ کو ڈھکتا ہے _ '' رداء '' پائے پیراہن اور '' جبہ'' و غیرہ ، سبز رنگ کالباس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پسندیدہ لباس تھا اور زیادہ تر سفید لباس پہنتے تھے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے تھے : زندگی میں سفید لباس پہنو اور اپنے مردوں کو اس کا کفن دو اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لباس ٹخنوں کے اوپر تک ہوتا تھا اور ازار پنڈلی تک ہوتی تھی ، تکمے ہمیشہ بند رہتے تھے کبھی نماز و غیرہ میں انھیں کھول بھی دیتے تھے_(۱)

جمعہ کی اہمیت کے پیش نظر روزانہ پہنے جانے والے لباس کے علاوہ جمعہ کیلئے دو مخصوص لباس بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس موجود تھے_(۲)

لباس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف جسم کے چھپانے کا کام نہیں لیتے تھے بلکہ کبھی خشوع اور خدا کے نزدیک فروتنی ظاہر کرنے کیلئے موٹا اورکھرورا بھی پہنتے تھے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیوند دار لباس پہننے میں بھی کسی طرح کی ذلت محسوس نہیں کرتے تھے_

اکثر اون کا بنا لباس پہنتے تھے اس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس نہیں پہنتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اون کا ایک پیوند دار لباس تھا جس کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زیب تن فرماتے اور فرماتے تھے :

''انما انا عبد البس کما یلبس العبد '' (۳)

___________________

۱) ( محجة البیضاء ج ۴ ص ۱۴۱)_

۲) (محجة البیضاء ج ۴ ص ۱۴۲)_

۳) ( ترجمہ احیاء العلوم الدین ج ۲ص ۱۰۶۳) _

۲۷۶

بیشک میں ایک بندہ ہوں اور بندوں جیسا لباس پہنتا ہوں _

جناب ابوذر سے آپ نے فخر اور تکبر کو ختم کرنے کیلئے کھر درے لباس کی تاثیر بیان کرتے ہوئے فرمایا :

''اباذر انی البس الغلیظ و اجلس علی الارض و العق اصابعی و ارکب الحمار بغیر سرج و اردف خلفی، فمن رغب عن سنتی فلیس منی ، یا اباذر البس الخشن من اللباس و الصفیق من الثیاب لئلا یجد الفخر فیک سلکا ''

میں کھر درے کپڑے پہنتا ہوں ، زمین پر بیٹھتا ہوں ، کھانا کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹتا ہوں ، گدھے کی ننگی پیٹھ پر سواری کرتا ہوں اور اپنی سواری پر دوسروں کو بھی سوار کر لیتا ہوں ( یہ سب تواضع اور انکساری اور میری سنت کی علامتیں ہیں ) جو میری سنت سے روگردانی کرے وہ مجھ سے نہیں ہے اے ابوذر کھردرا اور موٹا لباس پہنو تا کہ فخر اور تکبر تم تک نہ آنے پائے _(۲)

کھردرا اور سیاہ رنگ کا لباس تھا جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بدن مبارک پر برا نہیں معلوم ہوتا تھا ، آپ کے پاس ایک سیاہ رنگ کا لباس تھا جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی کو دیدیا تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جناب ام اسلمہ نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں وہ سیاہ رنگ والا لباس کہاں ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میں نے کسی کو دیدیا ، ام سلمہ نے کہا: آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گورے رنگ پر اس

___________________

۱) ( ترجمہ مکارم الاخلاق ص ۲۱۷) _

۲۷۷

سیاہ کپڑے سے زیادہ دیدہ زیب کوئی دوسرا کپڑا میں نے نہیں دیکھا _(۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی خاص قسم کا جوتا پہننے کے پابند نہیں تھے ، حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جوتوں کی خوبصورتی بہت نمایاں ہوتی تھی _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جوتوں کے دو بند ہوا کرتے تھے اور وہ انگلیوں کے درمیان رہتے تھے، پنجوں کی طرف نعلین کا منہ پتلا ہوتا مگر نوکیلا نہیں ہوتا تھا ، اکثر دباغت شدہ کھال کے جوتے پہنتے تھے ، جوتے پہنتے وقت پہلے داہنے پیرکا جوتا پہنتے اور اتار تے وقت پہلے بائیں پیر کا جوتا اتارتے تھے اور یہ حکم دیتے تھے کہ : یا تو دونوں پیروں میں جوتے پہنو یا پھر کسی پیر میں نہ پہنو ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ ہرگز پسند نہ تھا کہ کوئی ایک پیر میں جوتے پہنے اور ایک پیر بغیر جوتے کے چھوڑ دے _(۲)

خوشبو کا استعمال

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت زیادہ خوشبو استعمال کرتے تھے اور اصحاب سے خوشبو لگانے کی فضیلت بھی بیان کرتے تھے امام جعفر صادق فرماتے ہیں :

''کان رسول الله ینفق علی الطیب اکثر مما ینفق علی الطعام '' (۳)

___________________

۱) (مجمع البیضاء ج ۴ ص ۱۴۲) _

۲) ( ترجمہ مکارم الاخلاق ج ۱ص ۷۳) _

۳) (ترجمہ مکارم الاخلاق ص ۶۶) _

۲۷۸

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خوشبو پر کھانے پینے سے زیادہ پیسے خرچ کر تے تھے _

امام باقر فرماتے ہیں :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس راستے سے گزرتے تھے اس راستہ سے دو تین دن بعد گذرنے والا یہ محسوس کرلیا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس جگہ سے گذرے ہیں ، اس لئے کہ وہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کس خوشبو سے فضا معطر رہتی تھی ، جب بھی کسی قم کا عطر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس لایا جاتا تھا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کو لگاتے اور فرماتے تھے اس عطر کی خوشبو دل پسند ، اچھی اور قابل برداشت ہے _

مسواک کرنا

حفظان صحت کیلئے دانتوں کی صفائی اور دانتوں کا تحفظ بڑی اہمیت کا حامل ہے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صفائی کے ساتھ مسواک کرنے کی بھی تاکید کی ہے اور اس کے مفید اثرات کی طرف بھی متوجہ کیا ہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہر مومن سے ہر وقت باوضو رہنے کی بڑی تاکید کی ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر وضو کے ساتھ مسواک بھی کریں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس پر خود بھی عمل پیرا تھے_

''لم یر رسول الله قط خارجا من الغائط الاتوضئا و یتبدی بالسواک'' (۱)

رفع حاجت کے بعد رسول خدا ہمیشہ وضو کرتے تھے اور وضو کی شروعات مسواک سے

کرتے تھے _

___________________

۱) ( مجمہ البیضاء ج ۱ص ۲۹۴) _

۲۷۹

موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ابتدا میں ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند اقوال پیش کریں گے پھر اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت پر بحث کریں گے _

''قال رسول الله لو لا ان اشق علی امتی لامرتهم بالسواک مع کل صلوة '' (۱)

اگر میری امت کیلئے یہ امر دشواری کا باعث نہ ہوتا تو میں ہر نماز کیلئے مسواک کرنے کا حکم دیتا _

حضرت امیرالمومنین سے فرمایا:

''یا علی ثلاث یزدن الحفظ و یذهبن السقم '' اللبان '' و السواک و قراءة القرآن'' (۲)

تین چیزویں حافظہ کو بڑھاتی اور بیماریوں کو دور کرتی ہیں اگربتی، مسواک اور قرآن کی تلاوت _

مسواک کے اچھے اثرات کے بارے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

''مطهرة للفم ، مرضاة للرب، یضاعف الحسنات سبعین ضعفا ، و هو

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۳ ص ۱۲۶) _

۲) (بحار الانواز ج ۷۳ص ۱۲۷)_

۲۸۰

من السنة ، و یذهب بالحفر و یبیض الاسنان و یشد اللثةص و یقطع البلغم و یذهب بغشاوة البصر و یشهی الطعام '' (۱)

مسواک منہ کو صاف کرتی ہے ، خدا کو خوش کرتی ہے ، نیکیوں کو سترگنا بڑھا دیتی ہے یہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت ہے ، اس سے دانتوں کی زردی ختم ہوتی ہے ، انھیں سفید بناتی ہے مسوڑھوں کو مضبوط کرتی ہے ، بلغم کو ختم کرتی ہے ، آنکھوں سے پردہ ہٹاتی ہے اور کھانے کی خواہش بڑھاتی ہے _

منہ کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کیلئے مسواک کے بارے میںآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کچھ اقوال یہ ہیں :

''قال رسول الله مازال جبرئیل یوصینی بالسواک حتی خشیت ان ادرداو احفی ''(۲)

جبرئیل نے مجھ کو مسواک کرنے کی اتنی بار تاکید کی کہ میں سوچنے لگا کہ کہیں میرے دانت گرنہ پڑیں یا گھس نہ جائیں _

جو اصحاب اس سنت پر توجہ نہیں دیتے تھے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان پر بڑا تعجب ہوتا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی مذمت مذمت کرتے تھے _

___________________

۱) ( بحارالانوار ج ۷۳ ص ۱۲۷) _

۲) ( بحارالانوار ج ۷۳ ص۲) _

۲۸۱

''قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مالی اراکم تدخلون علی قلحا مرغا؟ مالکم لا تستاکون؟ '' (۱)

کیا ہوا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میرے پاس زردی مائل اور گندے دانت لیکر آتے ہو ایسا لگتا ہے کہ کوئی حیوان گھاس چر کر میرے پاس آرہا ہے تم کو کیا ہوگیا ہے ؟ آخر تم مسواک کیوں نہیں کرتے ؟

ان دو روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسواک کو بڑی اہمیت دیتے تھے_

مسواک رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسواک کرنے کے بہت زیادہ پابند تھے اگر چہ یہ واجب نہیں تھی منقول ہے کہ آپ رات میں تین بار مسواک کرتے تھے; ایک بار سونے سے پہلے دوسری بار نماز شب کیلئے اٹھنے کے بعد اور تیسرے دفعہ نماز صبح کیلئے مسجد جانے سے پہلے ، جبرئیل کے کہنے کے مطابق اراک کی لکڑی (حجاز میں ایک لکڑی ہوتی ہے جس کو آج بھی مسواک کے طور پر استعمال کیا جاتاہے ) سے مسواک کرتے تھے_(۲)

ائمہ نے بھی مسواک کرنے کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت بتایا ہے_

___________________

۱) (بحارالانوار ج ۷۳ص ۱۳۱) _

۲) (بحارالانوار ج۷۳ ص ۱۳۵)_

۲۸۲

قال علیعليه‌السلام :

'' لسواک مرضات الله و سنة النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و مطهرة للفم '' (۱)

مسواک کرنے میں خدا کی خوشنودی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت اور منہ کی صفائی ہے _

ذیل کی روایت سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قوموں میں منہ کی پاکیزگی کو انکے لیے امتیاز اور فضیلت شمار کرتے تھے_

''قال الصادق عليه‌السلام ; لما دخل الناس فی الدین افواجا قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اتتهم الازد ارقها قلوبا و اعذبها افواها فقیل: یا رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم هذا ارقها قلوبا عرفناه صارت اعذبها افواها ؟ قال انها کانت تستاک فی الجاهلیة'' (۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایاکہ جب گروہ در گروہ لوگ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے تو رسول خدا نے فرمایا: قبیلہ '' ازد'' کے لوگ اس حالت میں ائے کے وہ دوسروںسے زیادہ نرم دل تھے اوران کے منہ صاف تھے، لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ہم نے ان کی نرم دل تو جان لی مگر ان کے منہ کیسے صاف ہوئے؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ قوم وہ ہے جو جاہلیت کے زمانہ میں بھی مسواک کرتی تھی_

___________________

۱) (بحارالانوار ج۷۳ ص ۱۳۳)_

۲) (بحارالانوار ج۷۳ ص ۱۳۷)_

۲۸۳

خلاصہ درس

۱ ) اسلامی تہذیب میں گندگی سے جسم کو صاف کرنے اور اسے آراستہ رکھنے کو گناہ کی گندگی سے روح کے پاکیزہ رکھنے اور آب توبہ سے دھونے کے مرادف قرار دیا گیا ہے _

۲ ) رسو لخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' اسوہ حسنہ'' کے عنوان سے اپنے بہت سے اقوال میں نظافت اور صفائی کی تاکید فرمائی ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بھی صاف ستھرے ، معطر اور دیکھنے میں خوبصورت نظر آئے تھے_

۳ ) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا گر چہ کم قیمت والا ایسا سادہ لباس پہنتے تھے جو عام افراد استعمال کرتے ہیں اس کے باوجود رنگ لباس اور اسکی ساخت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حسن انتخاب ایسا تھا کہ وہ لباس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جسم پر خاص زیبائی دیتا تھا_

۴) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت زیادہ خوشبو استعمال فرماتے تھے اور اس کی خوبیاں اصحاب کی سامنے بیان کرتے تھے_

۵ ) صفائی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسواک کی بھی تعلیم دیتے تھے اور اس کے اچھے اثرات سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہے تھے_

۶ ) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رات کو تین بار مسواک کرتے تھے ، سونے سے پہلے نماز شب کیلئے بیدارہونے کے بعد اور مسجد میں نماز صبح کیلئے جانے سے پہلے_

۲۸۴

سوالات :

۱ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روایت سے صفائی کی اہمیت بیان کیجئے؟

۲ _ لباس اور جوتے کے پہننے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا رویہ تھا؟ اجمالی طور پر لکھیں؟

۳ _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خوشبو کی بڑی اہمیت دیتے تھے اس سلسلہ میں امام جعفر صادقعليه‌السلام کی روایت بیان فرمائیں ؟

۴ _ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک روایت کی ذریعہ مسواک کرنے کی اہمیت بیان کیجئے؟

۵_ جو لوگ مسواک نہیں کرتے تھے ان کے ساتھ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا سلوک تھا؟

۲۸۵

بیسواں سبق:

(کنگھی کرنا اور دیگر امور)

شروع ہی سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سر کے بال تو صاف رکھنے پر بہت توجہ دیتے تھے اور اسے بیری کے پتوں سے صاف کیا کرتے تھے_

''کان اذا غسل رأسه و لحیته غسلها بالسدر''

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے سر اور ڈاڑھی کو سدر (بیری کے پتوں) سے دھوتے تھے_

بالوں کو صاف کرنے کے بعد ان کو سنوارنے اور ترتیب سے رکھنے کی تاکید فرماتے تھے_

''قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : من کانت له شعرة فلیکرمها'' (۱)

جس کے بال موجود ہوں اسے چاہے کہ انکا احترام کرے_

___________________

۱) (محجة البیضاء ج۱ ص ۲۰۹)_

۲۸۶

''من اتخذ شعراً فلیحسن و لایته او لیجذه'' (۱)

جو بال رکھے اس پر لازم ہے کہ وہ ان کی خوب نگہداشت بھی کرے ورنہ ان کو کٹوا دے_

اچھے اور خوبصورت بالوں کی تعریف کرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''الشعر الحسن من کسوة الله فاکرموه'' (۲)

خوبصورت بال خدا کی عنایت ہیں ان کا احترام کرو _

( یعنی ان کو سنوار کررکھو) آپ اپنے بالوں کو صاف کرتے اور اس میں تیل لگاتے تھے نیز دوسروں کو اس تعلیم دیتے تھے_

''کان رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یدهن الشعر و یرجله غباء و تامره به و یقول : اومنو غباء'' (۳)

رسول خدا ایک دن ناغہ کرکے سر میں تیل لگاتے اور کنگھی کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ : ایک دن چھوڑ کر بالوں میں تیل لگاو_

جب آپ اصحاب سے ملاقات کرنے کے لئے نکلتے تو اس وقت بالوں میں کنگھی کرکے اور ظاہری آرائشے کے ساتھ نکلتے تھے_(۴)

___________________

۱) (محجة البیضاء ج۱ ص ۲۱۰)_

۲) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۲ ص ۱۳۴)_

۳) (محجة البیضاء ج۱ص ۳۰۹)_

۴) (محجة البیضاء ج۱ ص ۳۰۹)_

۲۸۷

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئینہ دیکھ کر بالوں کو صاف کرتے اور کنگھی کرتے ، کبھی پانی میں دیکھ کر بالوں کو صاف کرلیا کرتے تھے، آپ فرماتے تھے کہ : جب کوئی شخص اپنے دوستوں کے پاس جائے تو اپنے کو آراستہ کرے یہ بات خدا کو پسند ہے_(۱)

الجھے ہوئے بالوں اور نامناسب وضع و قطع سے آپ نفرت فرماتے تھے_ ایک شخص آپ نے فرمایا کیا اس کو تیل نہیں ملا تھا جو اپنے بالوں کو سنوار لیتا _ اس کے بعد آپ نے فرمایا : تم میں سے بعض افراد میرے پاس شیطان کی ہیءت بناکر آتے ہیں _

سرکے بالوں کی لمبائی

آپ کے سرکے بالوں کے بارے میں روایت ہے کہ :

آپ کے سر کے بال بڑی ہوکر کان کی نچلی سطح تک پہنچ جاتے تھے_(۲)

اس روایت سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کے سر کے بال چھوٹے تھے_ امام جعفر صادقعليه‌السلام کے زمانہ میں یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ آپ کے سر کے بال بھی بڑے ہوا کرتے تھے اور آپ درمیان سے مانگ نکالتے تھے، امام نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا: '' لوگ مانگ نکالنا رسول کی سنت سمجھ رہے ہیں حالانکہ یہ سنت نہیں ہے _

___________________

۱) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص۶۷)_

۲) (محجة البیضاء ج۱ ص ۳۰۹)_

۲۸۸

اس شخص نے کہا کہ لوگ تو یہ سمجھتے ہیںکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مانگ نکالتے تھے امام نے فرمایا :پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مانگ نہیں نکالتے تھے(اصولی طور پر ) انبیاء کرام بڑے بال نہیں رکھتے تھے_(۱)

بالوں میں خضاب لگانا

روایات کے مضمون سے پتہ چلتاہے کہ سر کے بال اگر سفید ہوجائیں تو اسلام کی نظر میں انھیں نورانیت ہوتی ہے اس کے باوجود پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقوال سے پتہ چلتاہے کہ سیاہ اور حنائی بال جوانی کی یاد کو زندہ رکھتے ہیں اور مرد کونشاط و ہیبت عطا کرتے رہتے ہیں ، اسی وجہ سے خضاب کی تاکید کی گئی ہے_

امام جعفرعليه‌السلام سے منقول ہے کہ : ایک شخص رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آیا، آپ نے اس کی داڑھی کے سفید بال ملاحظہ فرمائے اور فرمایا نورانی ہے وہ جن کے بال اسلام میں سفید ہوجائیں، اس کے لیے یہ سفیدی قیامت میں نورانیت کا سبب ہے ، دوسری بار وہ حنا کا خضاب لگاکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : یہ نورانی بھی ہے اور مسلمان ہونے کی علامت بھی ، وہ شخص پھر ایک دن آپ کی خدمت میں پہنچا اور اس دن اس نے بالوں میں سیاہ خضاب لگا رکھا تھا، آپ نے فرمایا نورانی بھی ہے اور عورتوں کی محبت اور دشمنوں

___________________

۱) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج ۱ ص ۱۳۵)_

۲۸۹

کے خوف کا سبب ہے_(۱)

خضاب کے سب سے اچھے رنگ کے بارے میں آپ نے فرمایا :

''احب خضابکم الی الله الحالک'' (۲)

خداکے نزدیک تمہارا سب سے زیادہ محبوب خضاب سیاہ رنگ کا خضاب ہے_

انگوٹھی

آرائشے کی چیزوں میں حضور رسول اکرم صرف انگوٹھی پہنتے تھے، اسی انگوٹھی سے مہر بھی لگاتے تھے تاریخ میں انگوٹھی کے علاوہ آرائشے کی اور کوئی چیز درج نہیں ہے _ آپ کی انگوٹھی خصوصاً اس کے نگینہ کے بارے میں البتہ مختلف روایتیں ہیں_

مجموعی طور پر آنحضرت اور ائمہ کے اقوال میں : عقیق اور یاقوت کی چاندی کی انگوٹھی تاکید ملتی ہے _

''قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : تختموا بخواتیم العقیق فانه لا یصیب احدکم غم مادام علیه'' (۳)

عقیق کی انگوٹھی ، پہنو جب تک تمہارے ہاتھوں میں یہ انگوٹھی رہے گی تم کو کوئی غم نہیں پہنچے گا_

___________________

۱) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص ۱۵۰)_

۲) (ترجمہ مکارم الاخلاق'' ج۱ ص ۱۴۹)_

۳) ( مکارم الاخلاق مترجم ص ۱۶۴)_

۲۹۰

''قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ; التحتم بالیاقوت ینفی الفقر و من تختم بالعقیق یوشک ان یقضی له بالحسنی '' (۱)

یاقوت کی انگوٹھی پہننے سے فقر دور ہوجاتاہے، جو شخص عقیق کی انگوٹھی پہنتاہے امید کی جاتی ہے خوبیاں اس کے لئے مقدر ہوگئی ہیں _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مختلف قسم کی انگوٹھیوں کے بارے میں لکھا ہے _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چاندی کی انگوٹھی پہنا کرتے تھے جس کا نگینہ حبشہ سے آیا تھا_ معاذ بن جبل نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو لوہے کی چاندی جیسی ایک انگوٹھی دی تھی اس پر '' محمد رسول اللہ'' نقش تھا وفات کے وقت جو سب سے آخری انگوٹھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں میں تھی وہ چاندی کی انگوٹھی تھی جس کا نگینہ بھی چاندی ہی کا تھا یہ ویسی ہی انگوٹھی تھی جیسی لوگ پہنا کرتے ہیں، اس پر بھی '' محمدرسول اللہ'' لکھا ہوا تھا_ روایت میں ہے کہ انتقال کے وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے داہنے ہاتھ میں وہ انگوٹھی وجود تھی ، انگوٹھی ہی سے مہر کا کام بھی لیتے اور فرماتے تھے مہر لگاہوا خط تہمت سے بری ہوتاہے _(۲)

جسم کی صفائی

رسول خدا ہر ہفتہ ناخن کاٹتے جسم کے زاءد بال صاف کرتے اور مونچھوں کے بال

___________________

۱) (مکارم الاخلاق مترجم ص ۱۶۵)_

۲) (مکارم الاخلاق مترجم ج۱ ص۷۲)_

۲۹۱

چھوٹے کرتے ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کے اقوال سے ناخن کاٹنے مونچھوں کے بال چھوٹے کرنے کے طبی اور نفسیاتی فواءد ظاہر ہوتے ہیں ، نیز اس کے ایسے مفید نتاءج کا پتہ چلتاہے جو دنیا اور آخرت کی بھلائی کا سبب ہیں ، ان میں سے کچھ اقوال یہاں نقل کئے جارہے ہیں :

''عن النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال: من قلم اظفاره یوم الجمعة أخرج الله من أنامله داء و ادخل فیه شفا'' (۱)

جو شخص جمعہ کے دن اپنے ناخن تراشے خدا اس کو انگلیوں کے درد سے نجات دیتاہے اور اس میں شفا ڈالتاہے_

''قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : من قلم اضفاره یوم السبت و یوم الخمیس و اخذ من شار به عوفی من وجع الاضراس و وجع العینین'' (۲)

جو شخص ہفتہ اور جمعرات کے دن اپنے ناخن تراشے اور مونچھوں کے بالوں کو چھوٹا کرے وہ دانتوں اور آنکھوں کے درد سے محفوظ رہے گا _

امام جعفر صادقعليه‌السلام عليه‌السلام سے منقول ہے کہ : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وحی منقطع ہوگئی تو لوگوں نے پوچھا کہ وحی کیوں منقطع ہوگئی ؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہ منقطع ہو حالت یہ کہ تم اپنے ناخن نہیں تراشتے اپنے جسم سے بدبو دور نہیں کرتے_

___________________

۱) ( ترجمہ مکارم الاخلاق ج ۱ ص ۱۲۳ ، ۱۲۴)_

۲) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ )_

۲۹۲

''عن الصادق عليه‌السلام : قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لا یطولن احدکم شار به فان الشیطان یتخذه مخباء یستتر به '' (۱)

تم میں سے کوئی اپنی مونچھیں لمبی نہ کرے، اس لئے کہ شیطان اس کو اپنی پناہ گا ہ بناکر اس میں چھپ جاتاہے_

منقول ہے کہ : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی کہ جن کی داڑھی بڑھی ہوئی اور بے ترتیب تھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اگر یہ شخص اپنی داڑھی درست کرلیتا تو کیا حرج تھا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا فرمان سننے کے بعد اس نے داڑھی کی اصلاح کرلی اور پھر آنحضرت کے پا س آیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ہاں اسی طرح اصلاح کیا کرو_(۲)

بدن کے زاءد بالوں کو صاف کرنے کی بھی تاکید فرماتے تھے چنانچہ ارشاد ہے:

اگر کوئی شخص اپنی بغل کے بالوں کو بڑھا ہوا چھوڑ دے تو شیطان اس میں اپنی جگہ بنالیتاہے_(۳)

تم میں سے مردو عورت ہر ایک اپنے زیر ناف کے بالوں کو صاف کرے _(۴)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس پر خود بھی عمل کرتے تھے اور ہر جمعہ کو اپنے جسم کے زاءد بالوں کو صاف

___________________

۱) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص ۱۴۵)_

۲) ( ترجمہ مکارم الاخلاق ج ۱ ص ۱۲۸)_

۳) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص ۱۲۸)_

۴) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص ۱۱۵)_

۵) (محجة البیضاء ج۱ ص ۳۲۷)_

۲۹۳

کرتے تھے_(۱)

تیل کی مالش

صفائی اورآرائشے کی خاطرآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے جسم پر تیل کی مالش کیا کرتے تھے ، حفظان صحت اور جلد کی صفائی کے بارے میں ڈاکٹروں کے درمیان تیل کی مالش کے فواءد کا ذکر کررہتاہے_

رسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جس چیز پر عمل کیا اور جن کو مسلمانوں کے لیے سنت بنا کر یادگار کے طور پر چھوڑا ہے اسکی تایید اس سلسلہ میں بیان کئے جانے والے دانشوروں کے اقوال سے ہوجاتی ہے_(۲)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سر اور داڑھی کے بال کی آرائشے کے لیے مناسب روغن استعمال فرماتے تھے اور حمام لینے کے بعد بھی جسم پر تیل ملنے کی تعلیم فرماتے تھے اور اس پر خود بھی عمل پیرا تھے_

'' جسم پر تیل ملنے کو اچھا سمجھتے تھے الجھے ہوئے بال آپ کو بہت ناپسند تھے، آپ فرماتے تھے ، تیل سے درد ختم ہوجاتاہے ، آپ جسم پر مختلف قسم کے تیل کی مالش کرتے

___________________

۱) ( محجة البیضاء ج۱ ص ۳۲۷)_

۲) (ملاحظہ ہو کتاب اولین دانشگاہ و آخرین پیامبر)_

۲۹۴

تھے، مالش کرنے میں سر اور داڑھی سے شروع کرتے اور فرماتے تھے کہ سر کو داڑھی پر مقدم کرنا چاہیئے، روغن بنفشہ بھی لگاتے تھے اور کہتے تھے کہ ; روغن بنفشہ بہت اچھا تیل ہے ، روغن ملنے میں ابرو پہلے مالش کرتے تھے، مونچھوں پر تیل لگاتے تھے، پھر ناک سے سونگھتے تھے، پھر سر کو روغن سے آراستہ کرتے تھے، دردسر رفع کرنے کے لئے ابروپرتیل لگاتے تھے_(۱)

سرمہ لگانا

سرمہ لگانے سے آنکھوں کی حفاظت ہوتی ہے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بھی سرمہ لگاتے تھے نیز آپ نے سرمہ لگانے کے آداب بھی بیان کئے ہیں منقول ہے کہ :

آنحضرت داہنی آنکھ میں تین سلائی اور بائیں آنکھ میں دو سلائی سرمہ لگاتے تھے اورفرماتے تھے کہ : جو تین سلائی سرمہ لگانا چاہے وہ لگاسکتاہے، اگر اس سے کم یا زیادہ لگانا چاہے تو کوئی حرج نہیں ہے ، کبھی حالت روزہ میں بھی سرمہ لگا لیتے تھے_ آپ کے پاس ایک سرمہ دانی تھی جس سے رات کے وقت سرمہ لگاتے تھے آپ جو سرمہ لگاتے تھے وہ سنگ سرمہ تھا_(۲)

___________________

۱) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص ۶۴)_

۲) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص۶۷)_

۲۹۵

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روایت ہے کہ ایک صحرائی عرب جن کا نام '' قلیب رطب العینین'' تھا (قلیب کے معنی تر آنکھیں ہیں درد کی وجہ سے اس کی آنکھیں مرطوب رہتی تھیں ) پیغمبر کی خدمت میں پہنچا آپ نے فرمایا کہ : اے قلیب تہاری آنکھیں تر نظر آرہی ہیں تم سرمہ کیوں نہیں لگاتے ، سرمہ آنکھوں کا نور ہے _

ائمہ سے بھی اس بے بیش قیمت ہوتی (آنکھ) کے تحفظ کے لئے ارشادات موجود ہیں_

امام محمد باقرعليه‌السلام نے فرمایا کہ : اگر سنگ سرمہ کا سرمہ لگایا جائے تو اس سے پلکیں آگ آتی ہیں ، بینائی تیز ہوجاتی ہے اور شب زندہ داری میں معاون ہوتی ہے _(۱)

امام رضاعليه‌السلام سے مروی ہے کہ جن کی آنکھیں کمزور ہوں وہ سوتے وقت سات سلائی سرمہ لگائے، چار سلائی داہنی آنکھ میں اور تین سلائی بائیں آنکھ میں ، اس سے پلکیں آگ آتی ہیں ، آنکھوں کو جلا ہوتی ہے خداوند عالم سرمہ میں تیس سال کا فائدہ عطا کرتاہے_(۲)

___________________

۱) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص ۸۸)_

۲) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص۸۸)_

۲۹۶

خلاصہ درس

۱) نظافت آرائشے اور سرکے بالوں کو سنوارنے کے بارے میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تاکید فرماتے تھے_

۲) اصحاب سے ملاقات کے وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بالوں میں کنگھی کرتے او ر ظاہری طور پر آراستہ ہوکر تشریف لے جاتے تھے_

۳ ) روایت سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسر کے بال چھوٹے تھے_

۴ ) آرائشے کی چیزوں میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف اپنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے اور اسی سے خطوط پر مہر لگانے کا بھی کام لیتے تھے_

۵ ) ہر ہفتہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ناخن کا ٹتے ، جسم کے زاءد بالوں کو صاف کرتے اور مونچھوں کو کوتا ہ فرماتے تھے_

۶ ) صفائی اور آرائشے کے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جسم پر تیل بھی لگاتے تھے_

۷) آنکھوں میں سرمہ لگانے سے آنکھوں کی حفاظت ہوتی ہے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بھی سرمہ لگاتے تھے نیز سرمہ لگانے کے آداب بھی آپ نے بیان فرمائے ہیں _

۲۹۷

سوالات :

۱_ بالوں کو سنوارنے اور صاف رکھنے کے لئے رسول خدا نے کیا فرمایا ہے ؟

۲ _ سرکے کتنے بڑے بال رسول خدا کی سنت شمار کئے جائیں گے _

۳ _ سر کے بالوں کے لئے رسول خدا کے نزدیک کس رنگ کا خضاب سب سے بہتر ہے؟

۴ _ رسول خدا اپنے ہاتھوں کی آرائشے کے لئے کون سی چیز استعمال کرتے تھے، اس سلسلہ کی ایک روایت بھی بیان فرمائیں ؟

۵ _ حفظان صحت کے لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر ہفتہ کون سے اعمال انجام دیتے تھے؟

۲۹۸

فہرست

پہلا سبق: ۴

(ادب و سنت ) ۴

پہلا نکتہ : ۵

دوسرا نکتہ : ۵

ادب اور اخلاق میں فرق ۷

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ادب کی خصوصیت ۸

الف: حسن وزیبائی ب: نرمی و لطافت ج: وقار و متانت ۸

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آداب ۹

خدا کے حضور میں ۹

وقت نماز ۹

دعا کے وقت تسبیح و تقدیس ۱۲

بارگاہ الہی میں تضرع اور نیازمندی کا اظہار ۱۳

لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت ۱۴

گفتگو ۱۵

مزاح ۱۵

کلام کی تکرار ۱۶

انس و محبت ۱۷

خلاصہ درس ۱۹

سوالات : ۲۰

دوسرا سبق: ۲۱

۲۹۹

(لوگوں کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا برتاؤ) ۲۱

سلام ۲۱

مصافحہ ۲۲

رخصت کے وقت ۲۲

پکارتے وقت ۲۳

پکار کا جواب ۲۳

ظاہری آرائشے ۲۴

مہما نوازی کے کچھ آداب ۲۵

عیادت کے آداب ۲۵

حاصل کلام ۲۶

کچھ اپنی ذات کے حوالے سے آداب ۲۷

آرائش ۲۸

کھانے کے آداب ۲۸

کم خوری ۲۹

آداب نشست ۳۰

ہاتھ سے غذا کھانا ۳۱

کھانا کھانے کی مدت ۳۱

ہر لقمہ کے ساتھ حمد خدا ۳۲

پانی پینے کا انداز ۳۲

سفر کے آداب ۳۳

زاد راہ ۳۳

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311