رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر18%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 202748 / ڈاؤنلوڈ: 5565
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

دوسرا سبق:

(لوگوں کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا برتاؤ)

رسول اکرم کے برتاؤ میں گرمجوشی کشش اور متانت موجودہ تھی چھوٹے،بڑے فقیر اور غنی ہر ایک سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ملنے جلنے میں وہ ادب نظر آتاہے جو آپ کی عظمت اور وسیع النظری کو اجاگر کرتاہے_

سلام

چھوٹے بڑے ہر ایک سے ملنے کا آغاز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلام سے کرتے اور سبقت فرماتے تھے _

قرآن کریم نے سلام کے جواب کے لئے جو آداب بیان کئے ہیں ان میں سے ایک چیز یہ ہے کہ سلام کا اچھے انداز سے جواب دیا جائے ارشاد ہے :

( و اذا حییتم بتحیة فحیوا باحسن منها او ردوها ) (۱)

اور جب کوئی شخص تمہیں سلام کرے تو تم بھی اس کے جواب میں بہتر طریقہ سے سلام کرو یا وہی لفظ جواب میں کہہ دو_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوسروں کے جواب میں اس قرآنی ادب کی ایک خاص قسم کی ظرافت سے رعایت فرماتے تھے_

جناب سلمان فارسی سے منقول ہے کہ ایک شخص رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور اس نے کہا : السلام علیک یا رسول اللہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا وعلیک و رحمة اللہ ، دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا : السلام علیک یا رسول اللہ و رحمة اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میںفرمایا : و علیک و رحمة اللہ و برکاتہ تیسرا شخص آیا اور اس نے کہا : السلام علیک و رحمة اللہ و برکاتہ آنحضرت نے فرمایا: و علیک اس شخص نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ فلاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے انہوںنے سلام کیا تو آپ نے ان کے جواب میں میرے جواب سے زیادہ کلمات ارشاد فرمائے ؟آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تم نے ہمارے واسطے کوئی چیز چھوڑی ہی نہیں ، خداوند نے فرمایا ہے :

___________________

۱)سورہ نساء ۸۶_

۲۱

( واذا حییتم بتحیة فحیوا باحسن منها او ردوها ) (۱)

اور جب کوئی شخص سلام کرے تو تم بھی اس کے جواب میں بہتر طریقہ سے سلام کیا کرو یا وہی لفظ جواب میں کہدیا کرو_

مصافحہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یادگار ایک اسلامی طریقہ مصافحہ کرنا بھی ہے _آپ کے مصافحہ کے آداب کو امیر المؤمنین بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ '' ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی سے مصافحہ کیا ہو اور اس شخص سے پہلے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہو''(۲)

امام جعفر صادق نے اس سلسلہ میں فرمایا'' جب لوگوں نے اس بات کو سمجھ لیا تو حضرت سے مصافحہ کرنے میں جلدی سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتے تھے''(۳)

رخصت کے وقت

مؤمنین کو رخصت کرتے وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے لئے دعائے خیر کیا کرتے تھے; ان کو خیر و نیکی کے مرکب پر بٹھاتے اور تقوی کا توشہ ان کےساتھ کرتے تھے_

___________________

۱) تفسیر در المنثور ج۲ ص ۱۸۸_

۲) مکارم الاخلاق ص ۲۳_

۳) سنن النبی ص ۴۸_

۲۲

ایک صحابی کو رخصت کرتے وقت فرمایا:

'' زودک الله التقوی و غفرذنبک و لقاک الخیر حیث کنت ' '(۱)

خداوند عالم خداوندعالم تمہارا توشہ سفر تقوی قرار دے، تمہارے گناہ معاف کردے اور تم جہاں کہیں بھی رہو تم تک خیر پہنچاتارہے_

پکارتے وقت

اصحاب کو پکارنے میں آپکا انداز نہایت محترمانہ ہوتا تھا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے احترام اور ان کے قلبی لگاؤ کیلئے ان کو کنیت سے پکارتے تھے اور اگر کسی کی کوئی کنیت نہیںہوتی تھی تو اس کیلئے معین کردیتے تھے پھر تو دوسرے لوگ بھی اسی کنیت سے ان کو پکارنے لگتے تھے اس طرح آپ صاحب اولاد اور بے اولاد عورتوں، یہاں تک کہ بچوں کیلئے کنیت معین فرماتے تھے اور اس طرح سب کا دل موہ لے لیتے تھے(۱) _

پکار کا جواب

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس طرح کسی کو پکارنے میں احترام ملحوظ نظر رکھتے تھے ویسے ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی کی آواز پر لبیک کہنے میں بھی کسر نفسی اور احترام کے جذبات ملے جلے ہوتے تھے_

___________________

۱)مکارم الاخلاق ص ۲۴۹_

۲)سنن النبی ص۵۳_

۲۳

روایت ہوئی ہے کہ :

''لا یدعوه احد من الصحابه و غیرهم الا قال لبیک'' (۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جب بھی ان کے اصحاب میں سے کسی نے یا کسی غیر نے پکارا تو آپ نے اس کے جواب میں لبیک کہا _

امیر المؤمنین سے روایت ہے کہ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی شخص کسی چیز کی خواہش کرتا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اسے انجام دینا چاہتے تھے تو فرماتے تھے کہ '' ہاں'' اور اگر اسکو انجام دینا نہیں چاہتے تھے تو خاموش رہ جاتے تھے اور ہرگز '' نہیں'' زبان پر جاری نہیں کرتے تھے(۲)

ظاہری آرائشے

کچھ لوگ مردوں کا فقط گھر کے باہر اور ناآشنا لوگوں سے ملاقات کرتے وقت آراستہ رہنا ضروری سمجھتے ہیں ان کے برخلاف رسو لخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر میں اور گھر کے باہر دونوں جگہ نہایت آراستہ رہتے تھے، نہ صرف اپنے خاندان والوں کیلئے بلکہ اپنے اصحاب کیلئے بھی اپنے کو آراستہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ : خدا اپنے اس بندہ کو دوست رکھتاہے جو اپنے بھائیوں سے ملاقات کیلئے گھر سے نکلتے وقت آمادگی اور آراستگی سے نکلے(۳)

___________________

۱)سنن النبی ص۵۳_

۲)سنن النبی ص ۷۰_

۳)سنن النبی ص۲۲_

۲۴

مہما نوازی کے کچھ آداب

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو کہ عالی مزاج اور آزاد منش تھے وہ اپنے مہمانوں کا نہایت احترام و اکرام کرتے تھے_

منقول ہے کہ '' جب کبھی کوئی آپ کے پاس آتا تھا تو جس تو شک پر آپ تشریف فرماہوتے تھے آنے والے شخص کو دے دیتے تھے اور اگر وہ مہمان اسے قبول نہیں کرتا تو آپ اصرار فرماتے تھے یہاں تک وہ قبول کرلے _(۱)

حضرت موسی بن جعفرعليه‌السلام نے فرمایا: '' جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یہاں کوئی مہمان آتا تھا تو آپ اس کے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور جب تک مہمان کھانے سے اپنا ہاتھ روک نہیں لیتا تھا آپ کھانے میں اس کے شریک رہتے تھے _(۲)

عیادت کے آداب

آپ اپنے اصحاب سے صحت و تندرستی ہی کے زمانہ میں ملاقات نہیں کرتے تھے بلکہ اگر کوئی مؤمن اتفاقاً بیمار پڑجانا تو آپ اسکی عیادت کرتے اور یہ عمل خاص آداب کے ساتھ انجام پاتا_

___________________

۱)سنن النبی ص ۵۳_

۲)سنن النبی ص ۶۷_

۲۵

عیادت کے آداب سے متعلق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بیان فرماتے ہیں :

''تمام عیادة المریض ان یضع احدکم یده علیه و یسأله کیف انت؟ کیف اصبحت؟ و کیف امسیت؟ و تمام تحیتکم المصافحه '' (۱)

کمال عیادت مریض یہ ہے کہ تم اس کے اوپر اپنا ہاتھ رکھو اس سے پوچھو کہ تم کیسے ہو؟ رات کیسے گذاری ؟ تمہارا دن کیسے گذرا؟ اور تمہارا مکمل سلام مصافحہ کرنا ہے _

مریض کی عیادت کے وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک دوسرا طریقہ یہ تھا کہ آپ اس کے لئے دعا فرماتے تھے _ روایت ہے کہ جب سلمان فارسی بیمار ہوئے اور آپ نے ان کی عیادت کی ، تو اٹھتے وقت فرمایا :

''یا سلمان کشف الله ضرک و غفرذنبک و حفظ فی دینک و بدنک الی منتهی اجلک''

اے سلمان اللہ تمہاری پریشانی کو دور کرے تمہارے گناہ کو بخش دے اور موت آنے تک تمہارے دین اور بدن کو صحیح و سالم رکھے(۲)

حاصل کلام

کلی طور پر جاودانی ، شایستگی اور خردمندی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برتاؤ کے آداب کی

___________________

۱)مکارم الاخلاق ۳۵۹_

۲)مکارم الاخلاق ص۳۶۱_

۲۶

خصوصیات میں سے تھیں_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک کا اثر آپکے زمانہ کے افراد پر ایسا گہرا تھا کہ بہت ہی کم مدت میں ان کی روح و فکر میں عظیم تبدیلی آگئی اور ان کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اخلاق اسلامی کے زیور سے آراستہ کردیا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو نمونہ عمل بنانافقط آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ کے افراد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جب تک دنیا قاءم ہے اور اسلام کا پرچم لہرارہاہے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لانیوالوں کو چاہئے کہ آپ کے اخلاقصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آداب اور سیرت کو آئیڈیل بنائیں_

کچھ اپنی ذات کے حوالے سے آداب

انفرادی اعمال کی انجام دہی میں آپکا طریقہ اس حد تک دلپذیر اور پسندیدہ تھا کہ لوگوں کیلئے ہمیشہ کیلئے نمونہ عمل بن گئے، آپ پر ایمان لانے والے آج سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سمجھ کر ان اعمال کو بجالاتے ہیںآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کی تاریخ میں کوئی ایسی چھوٹی سی بات بھی ناپسندیدہ نظر نہیں آتی ، صرف بڑے کاموں میں ہی آپ کی سیرت سبق آموز اور آئیڈیل نہیں ہے بلکہ آپ کی زندگی کے معمولی اور جزئی امور بھی اخلاق کے دقیق اور لطیف ترین درس دیتے نظر آتے ہیں _

۲۷

اس تحریر میں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کچھ ذاتی آداب کی طرف اشارہ کیا جارہاہے_ آداب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے متلاشی افراد کیلئے بہتر ہے کہ وہ ان کتابوں کا مطالعہ فرمائیں جو اس سلسلہ میں لکھی گئی ہیں_(۱)

آرائش

دنیاوی زروزیور کی نسبت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نظافت، صفائی اور پاکیزگی کو خاص اہمیت دیتے تھے اچھی خوشبو استعمال کرتے تھے، بالوں میں کنگھی کرتے تھے اور آپکا لباس ہمیشہ صاف ستھرا اورپاکیزہ رہتا تھا ، گھر سے نکلتے وقت آئینہ دیکھتے ، ہمیشہ با وضو رہتے اورمسواک کرتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لباس اور نعلین کا ایک رنگ ہوتا تھا جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سر پر عمامہ رکھتے تو اس وقت آپکا قد نمایاں ہوکر آپکے وقار میں اضافہ کردیتا تھا چونکہ اس موضوع پر مفصل گفتگو ہوگی اسلئے یہاں فقط اشارہ پر ہم اکتفا کررہے ہیں_

کھانے کے آداب

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مخصوص آداب سے کھانا تناول فرماتے تھے لیکن کوئی مخصوص غذا نہیں کھاتے تھے_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر طرح کی غذا نوش فرماتے تھے اور جس کھانے کو خدا نے حلال کیا ہے اسکو اپنے گھروالوں اور خدمتگاروںکے ساتھ کھاتے تھے، اسی طرح اگر کوئی شخص آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت

___________________

۱) (سنن النبی علامہ طباطبائی ، مکارم الاخلاق طبرسی، بحارالانوار مجلسی و ...)_

۲۸

کرتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زمین یا فرش پر بیٹھ جاتے اور جو کچھ پکاہوتا تھاتناول فرمالیتے تھے _

لیکن جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یہاں کوئی مہمان آجاتا تو آپ اس کے ساتھ غذا تناول فرماتے اور اس غذا کو بہترین تصور فرماتے تھے جس میںآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ زیادہ لوگ شریک ہوتے تھے_(۱)

کسی کھانے کی مذمت نہیں کرتے تھے ، پسند آتا تو کھالیتے اوراگر ناپسند ہوتا تو نہیں کھاتے تھے لیکن اسے دوسروں کیلئے حرام نہیں کرتے تھے _(۲)

کم خوری

دن بھر کی انتھک محنت اور ہمیشہ نماز شب کی ادائیگی کے باوجود کم غذا تناول فرماتے اور پرخوری سے پرہیز کرتے تھے_

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا : '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک اس سے زیادہ اور کوئی چیز محبوب نہ تھی کہ ہمیشہ بھوک رہے اور خوف خدادل میں رکھا جائے(۳) کم خوری کی بناپر آپکا جسم لاغر اور اعضاء کمزور ہے _

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۲۶_

۲) سنن النبی ص ۱۷۷_

۳) مکارم الاخلاق ص ۱۶۰_

۲۹

امیر المؤمنین علی بن ابی طالبعليه‌السلام فرماتے تھے:'' ساری دنیا سے شکم کے اعتبار سے آپ سب سے زیادہ لاغر اور کھانے کے اعتبار سے آپ سب سے زیادہ بھوک میں رہتے تھے بھوکے شکم کے ساتھ آپ دنیا سے تشریف لے گئے اور منزل آخرت میںصحیح و سالم پہنچے''(۱) _

ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے زیادہ کھانا کھاکر شکم پر کیا ہو(۲) چنانچہ کم خوری کے بارے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود ارشاد فرماتے تھے : '' ہم وہ ہیں کہ جو بھوک کے بغیر کھانا نہیں کھاتا اور جب کھاتے ہیں تو پیٹ بھر کر نہیں کھاتے ''(۳) کم خوری کی وجہ سے آپکا جسم صحیح و سالم تھا اور اسکی بنیاد مضبوط تھی_

آداب نشست

حضور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے مخلص بندے تھے حق تعالی کی بندگی کی رعایت ہر حال میں کرتے تھے _ امام محمد باقرعليه‌السلام سے روایت ہے : '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غلاموں کی طرح کھانا کھاتے تھے غلاموں کی طرح زمین پر بیٹھتے اور زمین ہی پر سوتے تھے''_(۴)

___________________

۱) نہج البلاغہ ص ۱۵۹_

۲) سنن النبی ص۱۸۲_

۳) سنن النبی ص ۱۸۱_

۴) سنن النبی ص ۱۶۳_

۳۰

امیر المؤمنینعليه‌السلام فرماتے ہیں : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب دسترخوان پر بیٹھتے تو غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے اور بائیں ران پر تکیہ کرتے تھے''(۱)

ہاتھ سے غذا کھانا

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کھانے کا طریقہ یہ تھا کہ آپ کھانا ہاتھ سے کھاتے تھے_ امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روایت ہے : '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غلاموں کی طرح بیٹھتے' ہاتھوں کو زمین پر رکھتے اور تین انگلیوں سے غذا نوش فرماتے تھے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے آپعليه‌السلام نے فرمایا: یہ تھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کھانا کھانے کا انداز اس طرح نہیں کھاتے تھے جیسے اہل نخوت کھانا کھاتے ہیں _(۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام اپنے والد امام محمد باقر سے نقل کرتے ہیں : '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب کھانے سے فارغ ہوتے تھے تو اپنی انگلیوں کو چوستے تھے _(۳)

کھانا کھانے کی مدت

تھوڑی سی غذا پر قناعت فرمانے کے باوجودجو افراد آپ کے ساتھ کھانا کھاتے تھے

___________________

۱) سنن النبی ص ۱۶۴_

۲) سنن النبی ص ۱۴۵_

۳) سنن النبی ص ۱۶۵_

۳۱

آپ شروع سے آخر تک انکا ساتھ دیتے تھے تا کہ وہ لوگ آپ کی خاطر کھانے سے ہاتھ نہ کھینچ لیں اور بھوکے ہی رہ جائیں_

صادق آل محمدعليه‌السلام فرماتے ہیں: رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب لوگوں کےساتھ کھانا کھانے کیلئے بیٹھتے تو سب سے پہلے شروع کرتے اور سارے لوگوں کے بعد کھانے سے ہاتھ روکتے تا کہ لوگ کھانے سے فارغ ہوجائیں _(۱)

ہر لقمہ کے ساتھ حمد خدا

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ کسی بھی لمحہ یاد خدا سے غافل نہیں رہتے تھے اسلئے کھانا کھاتے وقت بھی خدا کا شکر ادا کرتے رہتے تھے_

منقول ہے کہ '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر دو لقمہ کے درمیان حمد خدا کیا کرتے تھے''(۲)

پانی پینے کا انداز

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پانی پینے وقت بھی ایک خاص ادب کا خیال رکھتے تھے روایت میں ہے کہ '' جب پانی پیتے تو بسم اللہ کہتے پانی کو چوس کر پیتے اور ایک سانس میں نہیں پیتے

___________________

۱)سنن النبی ص ۱۶۴_

۲)سنن النبی ص ۱۶۸_

۳۲

تھے ، فرماتے تھے کہ ایک سانس میں پانی پینے سے تلی میں درد پیدا ہوتاہے(۱) روایت میں یہ بھی ہے ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پانی پیتے وقت پانی کے برتن ہی میں سانس نہیں لیتے تھے بلکہ سانس لینا چاہتے تو برتن کو منہ سے الگ کرلیتے تھے''(۲)

سفر کے آداب

جنگ اور جنگ کے علاوہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دونوں سفر مخصوص آداب کے ساتھ انجام پاتے تھے اور آپ تمام ضروری باتوں کا خیال رکھتے تھے_

زاد راہ

سفر کے موقع پر آپ ضروری سامان اپنے ساتھ لے لیتے تھے، زاد راہ سفر لینے کے بارے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں : یہ سنت ہے کہ جب کوئی سفر کیلئے نکلے تو اپنا خرچ اور اپنی غذا اپنے ساتھ رکھے اسلئے کہ یہ عمل پاکیزگی نفس اور اخلاق کے اچھے ہونے کا باعث ہے_

___________________

۱)سنن النبی ص ۱۶۹_

۲)سنن النبی ص ۱۷۰_

۳۳

ذاتی ضروریات کے سامان

زاد راہ کے علاوہ آپ اپنی ذاتی ضروریات کا سامان بھی اپنے ساتھ لے لیتے تھے_ روایت ہے کہ ''آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سفر میں چیزوں کو اپنے ساتھ رکھتے تھے اور وہ چند چیزیں یہ ہیں آئینہ ،جسم پر ملنے والا تیل ، سرمہ دانی، قینچی مسواک اور کنگھی _

دوسری حدیث میں ہے سوئی اور دھاگہ نعلین سینے والی سوئی اور پیوند لگانے کی چیزیں بھی آپ اپنے ساتھ رکھتے تا کہ لباس کو اپنے ہاتھوں سے سی لیں اور جوتے میں پیوند لگالیں''_(۱)

''آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفر کے آداب میں ایک دوسری چیز کا بھی ذکر آیاہے اور وہ یہ کہ آپ جس راستے سے جاتے تھے اس راستے سے واپس نہیںآتے تھے بلکہ دوسرا راستہ اختیار کرتے تھے''(۲)

'' قدم تیز اٹھاتے اور راستہ جلد طے کرتے اور جب وسیع و عریض بیابان میں پہنچتے تو اپنی رفتار مزید تیز کردیتے تھے''(۳)

آپ ہمیشہ سفر سے ظہر کے وقت واپس پلٹتے،(۴) جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سفر سے

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۶۳_

۲) سنن النبی ص ۱۱۰_

۳) سنن النبی ۴ ص ۱۱۴_

۴) سنن النبی ص ۱۱۷_

۳۴

واپس آتے تو پہلے مسجد جاتے دو رکعت نماز پڑھتے اس کے بعد گھر تشریف لے جاتے تھے(۱)

سونے کے آداب

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے حکم کے مطابق راتوں کو بیدار اور دعاو عبادت میں مصروف رہتے تھے، فقط تھوڑی دید سوتے وہ بھی مخصوص آداب کے ساتھ_

امام محمد باقرعليه‌السلام فرماتے ہیں : '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب بھی خواب سے بیدار ہوتے تو اسی وقت زمین پر خدا کا سجدہ بجالاتے تھے''(۲)

بیچے بچھانے کیلئے ایک عبا اور ایک کھال کا تکیہ تھا کہ جس میں خرمہ کی چھال بھری ہوئی تھی _ ایک رات اسی بستر کو دہرا کرکے لوگوں نے بچھادیا جب آپ صبح کو بیدار ہوئے تو فرمایا کہ یہ بستر نماز شب سے روکتا ہے اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ اس کو اکہرا بچھایا جائے _

___________________

۱) سنن النبی ص ۱۱۹_

۲)سنن النبی ص ۱۴۰

(۳) سنن النبی ص ۱۵۴_

۳۵

خلاصہ درس

۱ ) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انتہائی پرکشش، قاطع اور بھر پور متانت کے حامل تھے انکا وہ ادب جو کہ انکے بزرگ منش ہونے اور وسعت نظر رکھنے کی عکاسی کرتا تھا ہر چھوٹے ، بڑے، فقیر اور غنی اور تمام لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے میں نظر آتاہے_

الف: آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلام کرنے میں پہل کیا کرتے تھے_

ب: مصافحہ کرنے والے سے پہلے اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے تھے_

ج: اپنے اصحاب کو نہایت محترمانہ انداز میں پکارتے تھے_

د: ہر ایک کی پکار کا نہایت ہی احترام و ادب سے جواب دیتے تھے_

ھ :اپنے مہمانوں کیلئے آپ نہایت ادب و احترام کا مظاہرہ فرماتے تھے_

۲ ) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کا ان کے زمانہ کے افراد پر ایسا گہرا اثر پڑا کہ تھوڑے ہی دنوں میں ان کی روح میں عظیم تبدیلی پیدا ہوگئی اور اس سیرت نے ان کو زیور اسلامی سے آراستہ کردیا_

۳ )ذاتی اعمال میں آپکا انداز ایسا دل پذیرتھا کہ آپ نے ان اعمال کو جاودانی عطا کردی تھی اور آج آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لانیوالے ان کو سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سمجھ کر بجالاتے ہیں _

۴) رسول اکرم کا سفر چاہے وہ جنگی ہو یا غیر جنگی مخصوص آداب کا حامل ہوتا تھا اور اسمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ضرورت کی ان تمام چیزوں کو اپنے ساتھ رکھتے تھے جن کی سفر میں ضرورت ہوتی ہے_

۳۶

سوالات :

۱_ لوگوںسے ملنے جلنے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کیا سیرت تھی اختصار کے ساتھ بیان فرمایئے

۲ _ مریض کی عیادت کے سلسلہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کیا آداب تھی ؟

۳ _ لوگوں کے درمیان آپ کی سیرت کا کیا اثرتھا؟

۴ _ ذاتی حالات مثلاً اپنے کو آراستہ کرنے، کھانے پینے میں آپ کے کیا آداب تھے؟ ان میں سے کچھ بیان فرمایئے

۵ _ سفر کے وقت آپ کا کیا طریقہ ہوتا تھا ، تحریر فرمایئے

۳۷

تیسرا سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طرز معاشرت)

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ملت اسلامیہ کے رہبر اور خدا کا پیغام پہنچانے پر مامور تھے اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مختلف طبقات کے افراداور اقوام سے ملنا پڑتا تھا ان کو توحید کی طرف مائل کرنے کا سب سے بڑا سبب ان کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نیک برتاو تھا_

لوگوں کے ساتھ معاشرت اور ملنے جلنے کی کیفیت کے بارے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں لیکن سب سے زیادہ جو چیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی معنوی عظمت کی طرف انسان کی راہنمائی کرتی ہے وہ لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے میں نیک اخلاق اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پاکیزہ سیرت ہے _

وہ سیرت جس کا سرچشمہ وحی اور رحمت الہی ہے جو کہ حقیقت تلاش کرنے والے افراد کی روح کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے وہ سیرت جو ''اخلاق کے مسلم اخلاقی اصولوں''(۱) کے ایک سلسلہ سے ابھرتی ہے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روح میں راسخ تھی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ساری

___________________

۱)سیرت نبوی، استاد مطہری ۳۴ ، ۲۲_

۳۸

زندگی میں منظر عام پر آتی رہی_

اس مختصرسی بحث میں جو بیان کیا جائے گا وہ عام لوگوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک کی طرف اشارہ ہوگا امید ہے کہ ''لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة(۱) تمھارے لئے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اندر اسوہ حسنہ موجود ہے'' کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کریمانہ اخلاق ہمارے لئے نمونہ بنیں گے _

صاحبان فضیلت کا اکرام

بعثت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک مقصد انسانی فضاءل اور اخلاق کی قدروں کو زندہ کرناہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سلسلہ میں فرمایا:

''انما بعثت لاتمم مکارم اخلاق '' (۲)

یعنی ہماری بعثت کا مقصد انسانی معاشرہ کو معنوی کمالات اور مکارم اخلاق کی بلندی کی طرف لے جاناہے _

اسی وجہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صاحبان فضیلت سے اگر چہ وہ مسلمان نہ بھی ہوں ، اچھے اخلاق سے ملتے اور ان کی عزت و احترام کرتے تھے'' (یکرم اهل الفضل فی اخلاقهم و یتالف اهل الشرف بالبرلهم )(۳) نیک اخلاق کی بناپر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اہل فضل

___________________

۱) احزاب ،۲۱_

۲) میزان الحکمہ ج۳ ص۱۴۹_

۳) محجة البیضاء ج۴ ص ۱۲۶_

۳۹

کی عزت کرتے اور اہل شرف کی نیکی کی وجہ سے ان پر مہربانی فرماتے تھے، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک کے ایسے بہت سارے نمونے تاریخ میں موجود ہیں ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

حاتم کی بیٹی

حضرت علیعليه‌السلام فرماتے ہیں '' جب قبیلہ طئی کے اسیروں کو لایا گیا تو ان اسیروں میں سے ایک عورت نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا کہ آپ لوگوں سے کہدیں کہ وہ ہم کو پریشان نہ کریں اور ہمارے ساتھ نیک سلوک کریں اسلئے کہ میں اپنے قبیلے کے سردار کی بیٹی ہوں اور میرا باپ وہ ہے جو عہد و پیمان میں وفاداری سے کام لیتاہے اسیروںکو آزاد اور بھوکوں کو سیر کرتاہے سلام میں پہل کرتاہے اور کسی ضرورتمند کو اپنے دروازے سے کبھی واپس نہیں کرتا ہیں '' حاتم طائی'' کی بیٹی ہوں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ صفات جو تم نے بیان کئے ہیں یہ حقیقی مؤمن کی نشانی ہیں اگر تمہارا باپ مسلمان ہو تا تو میں اس کے لئے دعائے رحمت کرتا، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اسکو چھوڑ دیا جائے اور کوئی اسکو پریشان نہ کرے اسلئے کہ اسکا باپ وہ شخص تھا جو مکارم الاخلاق کا دلدادہ تھا اور خدا مکارم الاخلاق کو پسند کرتاہے_(۱)

___________________

۱)محجة البیضاء ج۴ ص۱۳۲_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

حاطب بن ابی بلتعہ کا تھا،اس میں اس نے سرکار دو عالم ؐ کے کچھ امور کے بارے میں مشرکین مکہ کو جاسوسی کی تھی،سرکار ؐ نے حاطب سے پوچھا کہ اے حاطب یہ کیا ہے؟حاطب بولا،سرکار ؐ میرے خلاف فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں،میں قریش کے قریب رہتا تھا اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کے کچھ اعزا ہیں جو مکہ میں ہیں جن کی قرابت کی وجہ سے ان کے اہل و عیال کی حمایت ہوتی ہے،چونکہ میرا کوئی نسبی لگاؤ ان سے نہیں ہے،اس لئے میں نے ان کے لئے جاسوسی کی کہ وہ اسی کا خیال کرکے میرے عزیزوں کی حمایت کریں گے ۔

میں نے کفر کی وجہ سے یہ حرکت نہیں کی اور نہ میں دیں سے مرتد ہوا ہوں،اور نہ اسلام کے بعد کفر کو پسند کیا ہے حضرت نے فرمایا یہ سچ کہہ رہا ہے،عمر نے کہا یا رسول اللہ ؐ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس گردن اڑادوں،آپ نے فرمایا نہیں یہ غازیان بدر میں سے ہے،اور خداوند عالم اہل بدر کے حال سے واقف ہے،اس نے فرما دیا ہے:جو چاہو کرو میں نے تمھیں معاف کردیا ہے،پس اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:(اے ایمان لانےوالو!میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ)(1)

مذکورہ حدیث کا پس منظر

میں عرض کرتا ہوں کہ:

1 ۔ آپ نے دیکھا کہ اس حدیث میں عمر کو اس لئے نہیں ڈ انٹا گیا کہ وہ حاطب پر لعن کررہے تھے،یا ان کے عمل کو برا کہہ رہے تھے،حالانکہ موضوع بحث یہی بات ہے(یعنی سابقون اوّلون پر طعن کا جواز یا عدم جواز)عمر صرف اس لئے ڈ انٹے گئے کہ وہ حاطب پر نفاق کا الزام لگا رہے تھے اور ان کو قتل کرنے کی کوشش کررہے تھے،جب کہ نبی ؐ نے حاطب کا عذر قبول کرلیا تھا اور حاطب نے خود کے بارے میں جو نفاق کی نفی کی تھی اس کی تصدیق کردی تھی،حدیث مذکورہ اسی بات کی تصریح کرتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صحیح مسلم ج: 4 ص: 1941 کتاب فضائل،اہل بدر اور حاطب بن ابی بلتعہ کی داستان

۸۱

قرآن مجید حاطب کے فعل کو غلط ثابت کرتا ہے

اس موقعہ پر خداوند عالم نے حاطب کے اس فعل کو غلط قرار دیا،قرآن مجید میں اس موقعہ پر ارشاد ہوتا ہے:(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْأَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِيتُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْوَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ..قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ.. لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَوَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ) (1)

ترجمہ آیت:(اے ایمان دارو!اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری خوشنودی کی تمنا میں(گھر سے)نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ،تم ان کے پاس دوستی کا پیغام بھیجتے ہو اور جو دین حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے وہ لوگ انکار کرتے ہیں،وہ لوگ رسول کو اور تم کو اس بات پر(گھر سے)نکالتے ہیں کہ تم اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہو(اور)تم ہو کہ ان کے پاس چھپ چھپ کے دوستی کا پیغام بھیجتے ہو،حالانکہ تم کچھ بھی چھپا کر یا بالاعلان کرتے ہو میں اس سے خوب واقف ہوں،اور تم میں سے ایسا جو شخص کرے تو وہ سیدھی راہ سے یقیناً بھٹک گیا ہے مسلمانو!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ ممتحنہ آیت 6،4،1

۸۲

(تمہارے واسطے)تو ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کے(قول و فعل کا اچھا نمونہ موجود ہے)کہ انھوں نے جب اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور ان(بتوں)سے جنہیں تم خدا کے سوا پوجتے ہو بیزار ہیں ہم تو تمہارے(دین کے)منکر ہیں اور جب تک تم مکمل یکتا خدا پر ایمان نہ لاؤ ہمارے تمہارے درمیان کھلم کھلا عداوت اور دشمنی قائم رہےگی ۔ (مسلمانو)ان لوگوں کے(افعال)کا تمہارے واسطے جو خدا اور روز آخرت کی امید رکھتا ہے اچھا نمونہ ہے اور جو(اس)سے منھ موڑے تو خدا بھی یقیناً بےپرواہ(اور)سزاوار حمد ہے)

آپ دیکھ رہے ہیں کہ خداوند عالم اس قرآن میں جس کی تلاوت صبح و شام کی جاتی ہے علانیہ اس صحابی کو ڈ انٹ رہا ہے اور اس کو برا کہہ رہا ہے!کہ وہ خدا جو کھلے ہوئے قرآن میں کسی کو خود ڈ انٹ رہا ہے اور اس کو برا کہہ رہا ہے تو مسلمانوں کا ڈ انٹنا اور انکار کیوں پسند نہیں کرےگا اور کیوں اس کو برا کہنےوالے سے ناراض ہوگا مگر یہ کہ وہ خود توبہ کرلے تو یہ دوسری بات ہے جو ہماری بحث سے خارج ہے ۔

2 ۔ نبی ؐ جو عمر کو روکا تو برا کہنے سے نہیں روکا تھا،بلکہ عمر اس کو جان سے مارنے کی کوشش کر رہے تھے اور سرکار ؐ کی رائے میں حاطب قتل کا مستحق بہرحال نہیں تھا یا یہ کہ حضور ؐ نے اس کو معاف کردیا تھا نہ یہ کہ اہل بدر کو غلطی کرنے پر انہیں دنیا میں سزا نہیں دی جائےگی،اس بات کا تو کسی نے التزام نہیں کیا ہے ۔

اس کے علاوہ حضور ؐ نے خود ہی مسطح بن اثاثہ پر اِفک کے معاملے میں حد جاری کی ہے(1)

روایتوں میں یہ بات ملتی ہے(مسطح بن اثاثہ حالانکہ اہل بدر میں تھا)دوسرا ثبوت ابھی آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) مسند ابی یعلی،ج: 8 ص: 338 ،السنن الکبریٰ،للبیھقی،ج: 8 ص: 250 ،کتاب المرتد،باب شوہردار عورتوں کو زنا سے متہم کرنے کی حد سے متعلق،سبل الاسلام،ج: 4 ص: 15 ،کتاب الحدود حد القذف کے باب میں،تفسیر القرطبی،ج: 12 ص: 201 ۔ 202 ،تفسیر ابن کثیر،ج: 3 ص: 272 ،فتح الباری،ج: 3 ص: 272 ،فتح الباری،ج: 13 ص: 342 ،تحفۃ المحتاج،ج: 2 ص: 480 ،تاریخ الطبری،ج: 2 ص: 114 ،حدیث الافک۔

۸۳

کے دوسرے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے کہ عمربن خطاب نے قدامہ بن مظعون پر حد قائم کی حالانکہ یہ دونوں حضرات اصحاب بدر میں تھے ۔ ( 1)

حدیث،اہل بدر کی قطعی سلامتی اور نجات کی ضمانت نہیں لیتی

3 ۔ حضور کا یہ کہنا ہے:((اللہ اہل بدر کے حالات سے مطلع ہے اس نے کہہ دیا کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں معاف کردیا ہے،اس سے قطعی سلامتی کے بجائے صرف سلامتی اور نجات کی امید پیدا ہوتی ہے اور صرف امید اس بات کی مانع نہیں کہ ان کے اعمال کے نتیجے میں ان پر طعن نہ کی جائے،جبکہ ان کے اعمال قابل طعن ہوں،اس لئے کہ اگر کوئی آدمی علانیہ فاسق ہو تو اس پر طعن کے جائز ہونے میں کوئی اشکال نہیں جب کہ اس کی ہلاکت قطعی نہیں ہے،اس لئے کہ خدا کی رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے اور وہ بخشنےوالا اور رحم کرنے والا ہے ۔

4 ۔ حدیث کا قطعی نجات پر محمول کرنا ایک تکلف ہے،جو بے بنیاد اور بے دلیل بات ہے،اس کا کوئی دعویٰ بھی نہیں کرتا ہے،اہل سنت کی بات دوسری ہے وہ تو تسلیم کرچکے ہیں کہ سارے صحابہ کو استقامت حاصل تھی اور سارے صحابہ جہنم سے محفوظ ہیں اور ہمارا موضوع بحث بھی یہی ہے اس لئے کہ دعویٰ کبھی دلیل نہیں بن سکتا یہاں پر مقام احتجاج میں اس نظریہ کو پیش کیا جاسکتا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) تفسیر القرطبی،ج: 6 ص: 297 ،المستدرک علی صحیحن،ج: 3 ص: 466 ،کتاب معرفۃ الصحابۃ قدامہ بن مظعون بن حبیب وہب جمحی سے متعلق بحث میں،المعجم الکبیر،ج: 19 ص: 37 ،جس کا نام قدامہ تھا یعنی قدامہ بن مظعون جمحی بدری،فتح الباری،ج: 7 ص: 306 ،سیر اعلام النبلاءج: 1 ص: 161 ،قدامہ بن مظعون کی سوانح میں،الطبقات الکبریٰ،ج: 3 ص: 401 ،قدامۃ بن مظعون کے سوانح حیات میں،الاصابۃ،ج: 5 ص: 423 ،قدامہ بن مظعون کی سوانح میں،تہذیب الاسماء،ج: 2 ص: 371 ،قدامہ بن مظعون کے سوانح حیات میں،الاستیعاب،ج: 4 ص: 1472 ،مسطح بن اثاثہ کے سوانح حیات میں،المتقنیٰ فی سردالکنی،ج: 1 ص: 340 ،ابی عباد مسطح بن اثاثہ کی سوانح حیات میں،سیر اعلام النبلاء،ج: 1 ص: 187 ،مسطح بن اثاثہ کے سوانح حیات میں،مشاہیر علماء الامصار،ص: 12 ،مسطح بن اثاثہ کے سوانح حیات میں الثقات،ج: 3 ص: 383 ،مسطح بن اثاثہ کے سوانح حیات میں نیز اس کے علاوہ منابع،

۸۴

اہل بدر کی قطعی سلامتی کا اعلان انھیں گناہ پر ابھارےگا

اولاً ۔ اس نظریہ سے برائی کی چھوٹ ملتی ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ سابقون اوّلون والی آیت کی تفسیر میں جو حدیث لائی گئی اس میں اہل بدر کو کس طرح برائی کے لئے آزادی دی جارہی ہے ۔

مزید وضاحت کے لئے بخاری شریف کی مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ ہو ۔ ((بخاری فلاں سے روایت کرتے ہیں کہ ابوعبدالرحمن اور حبان بن عطیہ میں جھگڑا ہوا ابوعبدالرحمٰن نے حبان بن عطبہ سے کہا تمہیں معلوم ہے تمہارے صاحب یعنی علی ؑ کی ہمت خون بہانے میں کیوں بڑھی ہوئی ہے،حبان نے کہا تیرا باپ نہ ہو کیوں؟کہا اس کی وجہ ایک بات ہے جو میں نےن کو کہتے ہوئے سنا ہے،پوچھا گیا بات ہے؟کہا ہو کہہ رہے تھے کہ ہمیں زبیر کو اور ابومرثد کو سرکار نے کسی کام سے بھیجا ہم سب گھوڑوں پر سوار تھے....عمر نے کہا یا رسول اللہ ؐ اس نے خدا اور خدا کے رسول اور مومنین سے خیانت کی ہے،مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن ماردوں،سرکار ؑ نے کہا سچ کہہ رہے ہو لیکن اس کے بارے میں سوائے خیر کے کچھ مت بولا کرو،پھر عمر نے اعادہ کیا اور کہا اے رسول ؐ اس نے خدا سے خدا کے رسول اور مومنین سے خیانت کی ہے آپ اجازت دیں کہ میں اس کی گردن ماردوں،آپ نے فرمایا کیا وہ بدر والوں میں نہیں ہے؟اور کیا تمہیں معلوم نہیں،اللہ اہل بدر کے حال سے اچھی طرح واقف ہے،تم جو چاہو کرو،میں نے تم پر جنت واجب کردی ہے،یہ سن کے عمر رونے لگے اور ان کی آنکھیں دب ڈ با گئیں،پھر کہا اللہ اور اللہ کے رسول ؐ بہتر جانتے ہیں(1)

ملاحظہ ہو اگر چہ ہم شیعہ اس بات کے قائل ہیں بلکہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امیرالمومنین ؑ کبھی خون ناحق نہیں بہاسکتے اور صفین و نہروان کی جنگ میں شریک ہونا آپ کے اوپر واجب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بخاری ج:6ص:2542،کتاب استتابۃ المرتدین...باب ما جاء فی المتادلین حدیث:6540

۸۵

تھا،جیسا کہ بہت سے علماء نے تصریح کی ہے(1)

اس کے علاوہ آپ نے نبی کے ہمرکاب ہو کر جنگ کا ایک عہد کیا تھا ۔ اور نبی نے آپ کو ناکثین قاسطین اور مارقین(2) سے لڑنے کا حکم دیا تھا لیکن حدیث مذکور عام ذہنوں کا بہرحال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)بہت مناسب ہے کہ ہم یہاں پر وہ عبارت تحریر کریں جسے نصر بن مزاحم نے وقعۃ الصفین میں جنگ کے شعلوں کے بھڑک جانے کے بعد طرفین کی یلغار کے سلسلہ میں روایت کی ہے:وہ کہتے ہیں کہ:شامیوں میں سے ایک شخص باہر آیا جو پکار پکار کے کہہ رہا تھا کہ اے ابوالحسن اے علی کہاں ہو آؤ مجھ سے جنگ کرو حضرت علیؑ وارد میدان ہوئے دونوں صفوں کے درمیان ان کے گھوڑوں کی گردنیں ایک دوسرے سے ٹکرئیں،اس شامی نے آپ سے کہاں کہ:اے علی!آپ نے ہجرت کی کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میں ؤپ کے سامنے ایک تجویز رکھوں جس میں ان سارے خون خرابے سے بچاؤ اور اس طرح کی جگ و خونریزی سے بچنے کی سبیل مضہر ہے،پھر اس کے بعد آپ کو اختیار ہے،امام نے فرمایا:وہ تجویز کیا ہے؟اس نے کہا آپ عراق واپس چلے جائیں ہم آپ کے لئے عراق کا علاقہ چھوڑ دیتے ہیں اور ہم شام چلے جاتے ہیں اور شام ہمارے قبضہ میں رہے آپ اس سے تعرض نہ کریں،امام نے فرمایا:تم نے شفقت بھری نصیحت کی ہے میں اس کی قدر کرتا ہوں مجھے بھی جنگ و جدال کا شوق نہیں ہے بلکہ اس فکر نے میری راتوں کی نیند چھین لی ہے میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ((لم اجد الا القتال او الکفر بما انزل اللہ علی محمد))یا میں ان سے جنگ کروں یا پھر دین محمدی کا منکر ہوجاؤں،اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء سے راضی نہیں ہے کہ روئے زمین پر اس کی معصیت ہو اور چپ بیٹھے رہیں امربالمعروف نہ کریں اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا نہ کریں،بھائی!میں ان سے جگ کو اپنے حق میں کہیں بہتر سمجھتا ہوں اس سے کہ جہنم میں آگ کی زنجیروں میں جکڑدیا جاؤں،وقعۃ الصفین،ص:474،شرح نہج البلاغہ،ج:2ص:208،207،اخبار الطّوال،ص:187۔188،ینابیع المودہ ج:2ص:8۔9،اسد الغابۃ ج:2ص:63،

(2)المستدرک علی صحیحین،ج:3ص:150،کتاب صحابہ کی معرفت اور حضرت امیرالمومنینؑ کے اسلام کا ذکر،مجمع الزوائدج:5ص:186،کتاب الخلافۃ خلفاء اربعہ کے باب میں،ج:7ص:238،کتاب الفتن،جو دو گروہ کے درمیان صفین میں رونما ہوا ہے اس کے باب میں،مسند ابی یعلی،ج:1ص:379،مسند علی ابن ابی طالبؑ کے بیان میں،مسند البراز،ج:2ص:215،جو علقمہ بن قیس نے علی سے متعلق روایت کی ہے کہ بیان میں،ج:3ص:27،جو علی بن ربیعہ اسدی نے علی بن ابی طالب سے متعلق روایت کی ہے،مسندالشاشی،ج:2ص:342،اس روایت کے ذیل میں جو علقمہ بن قیس نے عبداللہ بن مسعود کے بارے میں کی ہے،المعجم الکبیر،ج:10ص:91،اس روایت کے ذیل میں جو علقمہ بن قیس نے عبداللہ بن مسعود کے بارے میں کی ہے۔

۸۶

انکشاف کرتی ہے،آپ دیکھیں کہ اس حدیث میں صرف یہ امید کی گئی ہے کہ اہل بدر نجات یافتہ ہیں مگر محض اس امید کی بنیاد پر حضرت علی ؑ نے(امام بخاری کے نظریہ کے مطابق یا ابوعبدالرحمٰن کے نظریہ کے مطابق)امت میں کتنا خون بہایا،امیر المومنین ؑ تو ہمارے عقیدہ کے مطابق معصوم ہیں اور آپ اس طرح کی غلطیوں سے اپنی عصمت کی بنا پر بالکل پاک ہیں لیکن آپ دیکھیں کہ اس حدیث کی بنیاد پر عام ذہن کیا سونچ رہا ہے اور اس حدیث کا عام آدمی پر کیا اثر پڑےگا اس لئے کہ عام آدمی بشری کمزوریوں اور انسانی جذبات سے محفوظ تو نہیں ہے خصوصاً جب ان کا نفس یہ کہہ کے انھیں گناہ پر ابھارے کہ تم گناہ و ثواب کی فکر کیوں کرتے ہو؟حضور ؐ نے تو تمہاری سلامتی کی نص وارد کردی ہے ۔

ثانیاً ۔ بعض واقعات کو دیکھیں تو خود اہل بدر کا نظریہ آپ کے نظریہ سےمیل نہیں کھاتا نہ قرآن مجید اس ی تائید کرتا ہے قرآن نے بعض سابقون کے بارے میں دوسرے سابقون کے نظریہ پر اعتراض کیا ہے یہ سب باتیں آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کی جاچکی ہیں جہاں میں نے بتایا تھا کہ قرآن مجید کا صحابہ کے بارےمیں کیا موقف ہے ۔

ثالثاً ۔ مزید بر آں آپ کے اہل بدر والے اس نظریہ سے خود دوسرے صحابہ سے متفق نہیں ہیں آپ تاریخ تو پڑھیں،میں دوسرے سوال کے جواب میں یہ باتیں بھی پیش کرچکا ہوں ۔

اس طرح کی حدیثوں میں گناہ کبیرہ سے بچنے کی قید لگانا ضروری ہے

5 ۔ اگر یہ مان لیا بھی جائے کہ مذکورہ حدیث سے اصحاب بدر کی نجات یقینی ہے تب بھی اس میں گناہان کبیرہ سے بچنے کی قید لگانا ضروری ہے یعنی اسیے گناہ جو مہلک ہیں مثلاً ارتداد،نفاق،حکم خدا کی تردید اور دین میں بدعت و غیرہ،اس لئے کہ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ مندرجہ بالا گناہ کرنے کے باوجود اہل بدر بخش دئے جائیں گے میرا خیال ہے کہ سابقون اوّلون کی بخشش کا یقین اہل سنت کو یا تو اس لئے ہے کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سابقون سے مذکورہ گناہ صادر ہی نہیں ہوئے یا اس لئے کہ اگر انہوں نے ایسے گناہ کئے بھی تو توبہ کرلی لیکن حدیث میں ان دونوں ہی باتوں پر کوئی دلالت موجود نہیں

۸۷

ہے کہ جب انہوں نے گناہ کیا تھا اس وقت بخش دئے گئے تھے یا اس سے قبل کے گناہ بخش دئے گئے ہیں اور جب حدیث کو مہلک گناہوں سے مقید کردیں گے یعنی ذنوب مہلکہ کا غفران اس مغفرت میں شامل نہیں ہے تو پھر یہ دعویٰ کہ ان سے اس طرح کے گناہ ہوئے ہی نہیں یا یہ کہ گناہاں کبیرہ کئے لیکن توبہ کرلی،ان دونوں باتوں کے لئے الگ سے دلیل لانی پڑےگی ۔

قرآن مجید حاطب کی جس طرح تہدید کرتا ہے اس سے سلامت قطعی نہیں سمجھی جاسکتی

6 ۔ خداوند عالم کا یہ کہنا ہے کہ:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (1)

ترجمہ آیت:(جو خدا اور آخرت سے امیدوار ہے اس کی سیرت میں تمہارے لئے قابل پیروی باتیں ہیں اور جو منھ موڑ لیتا ہے تو اللہ بےنیاز اور سزاوار احمد ہے ۔ )

یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حاطب اس وقت تک معرض ہلاکت میں ہے جب تک توبہ نہ کرلے،یہ ثابت کرنےکے لئے کہ وہ اللہ اور آخرت کا امیدوار ہے،اسے اسوہ ابراہیمی اور اصحاب ابراہیم ؑ کی پیروی کرنا ضروری ہے اور اس پیروی کا اظہار اس طرح ہوگا کہ وہ کافروں سے اظہار برائت کرے اور ان سے دور رہے،اگر وہ اس سیرت ابراہیمی کی پیروی نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کو خدا سے کوئی امید ہے نہ آخرت سے،اس منزل پاس میں جو بھی پہنچ جائے اس کی ہلاکت میں کسی کو اشکال نہٰں ہے بلکہ ارشاد ہوتا ہے(جو منھ موڑےتو اللہ بےنیاز ہے اور سزاوار حمد ہے)اور اس ٹکڑے میں اتنی سخت دھمکی ہے کہ جو کسی پر مخفی نہیں ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ ممتحنہ آیت:6

۸۸

جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

لَن تَنفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ(1)

ترجمہ آیت:(تمہاری رشتہ داریاں اور تمہاری اولاد تم کو قیامت کے دن کوئی فائدہ نہیں پہنچائےگی،اس دن تو وہی تمہارے درمیان فیصلہ کرےگا اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے ۔ )

اس آیت میں حاطب کی تردید اور اس کے قبول عذر سے رفض ظاہر ہورہا ہے،حاطب کا شدت سے انکار کیا جارہا ہے اور تہدید کی جارہی ہے پھر کیسے ممکن ہے کہ اس تہدید و انکار کے بعد بھی اللہ اس کو معاف کرکے اس کی سلامتی کو قطعی قرار دےگا،اس آیت سے امید بھی ظاہر نہیں ہورہی ہے جو معنائے حدیث میں شامل ہے کہ:اگر گناہاں کبیرہ اس سے صادر ہوئے ہیں تو حدیث سے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے بخشے جانے کی امید ہے،جب کہ آیت کا اس کا انکار کرتی ہے ۔

7 ۔ چونکہ مذکورہ آیتیں نبی ؐ کی حدیث مذکور کے بعد نازل ہوئیں ہیں لہذا دو میں سے کوئی ایک بات ماننی پڑےگی یا تو نبی کریم ؐ اس گناہ کی اہمیت سے ہی ناواقف تھے جو حاطب کرچکا تھا،جب کہ ایسا ناممکن ہے بہرحال مان لیں کہ نبی ؐ اس گناہ کی اہمیت سے ناواقف تھے اور اللہ نے نبی کریم ؐ کے وہم کو دور کردیا اس آیت کو نازل کرکے یا یہ کہ نبی ؐ عمر کی منھ زوری کو لگام دینا چاہتے تھے اور ان کو روکنا چاہتے تھے،آپ اس کو معاملات نبوت میں مداخلت سے باز رکھنا چاہتے تھے اس لئے کہ اس سے آگے چل کے بہت سے نقصانات دین کو پہنچ سکتے ہیں اس لئے حضور ؐ نے ان کو ڈ انٹا،یعنی حضور ؐ حاطب کے گناہ کی اہمیت سے واقف تھے اور اس کو معرض خطر میں سمجھ رہے تھے اب دو میں سے جو بات آپ کے دل کو لگتی ہو مان لیں ۔

رہا شیعوں کا سوال تو ہم لوگ تو آیات مذکورہ کی صراحت کے بعد ابھی اس حدیث ہی کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ ممتحنہ آیت: 3

۸۹

مشکوک سمجھ رہے ہیں ہمیں متن حدیث ہی میں شک ہے دلالت اور سند حدیث میں تو شک و شبہ ہے ہی،کیونکہ اس میں جان بوجھ کے تحریف ہوئی یا غیرارادی طور پر تحریف ہوئی ۔

تھوڑی سی گفتگو حدیث حاطب جیسی حدیثوں کے بارے میں

8 ۔ اس طرح کی دوسری حدیث حاضر کررہا ہوں اس سے بھی اسی حالت کا اظہار ہوتا ہے،ابوہریرہ کہتے ہیں(پھر انصار میں سے ایک آدمی اندھا ہوگیا تو اس نے حضور ؐ کو بلا بھیجا کہ اس کے گھر میں ایک مسجد بنادیں تا کہ وہ وہیں نماز پڑھا کرے،سرکار ؐ اس کے گھر آئے اور اس کی قوم اس کے پاس جمع ہوئی لیکن ان کا ایک آدمی نہیں آیا،جب حضور ؐ نے پوچھا وہ کہاں ہے لوگوں نے اس سوال کے جواب سے چشم پوشی کی لیکن ایک آدمی بولا وہ تو(ایسا ویسا ہوگیا)آپ نے فرمایا کیا وہ اہل بدر میں سے نہیں ہے؟کہاں ہاں اے خدا کے رسول ؐ لیکن وہ اسی ویسی حرکتیں کرتا ہے فرمایا،اللہ بدروالوں کے حال سے بہتر واقف ہے تم کو جو سمجھ میں آئے کرو بیشک میں نے تم کو بخش دیا ہے)(1) مندرجہ بالا حدیث کی سند میں اگر چہ ہلکاپن ہے،لیکن یہ بھی اہل بدر کی قطعی سلامتی پر دلالت نہیں کرتی ۔ جس طرح آیہ کریمہ کے معنی سے اس کو کوئی مناسبت نہیں ہے ممکن ہے کہ یہ حدیث اس آیت کے قبل صادر ہوئی ہو تو بھی اس پر سابقہ اصول جاری ہوں گے ۔

9 ۔ اسی طرح کی ایک حدیث جابر سے ہے،کہتے ہیں کہ حاطب کا ایک غلام تھا وہ حضور ؐ کی خدمت میں حاطب کی شکایت لے کے آیا،کہنے لگا خدا کے رسول ؐ حاطب ضرور جہنم میں جائےگا،آپ نے فرمایا ہرگز نہیں جھوٹا ہے،وہ جہنم میں نہیں جاسکتا،وہ بدری مجاہدوں میں ہے اور حدیبیہ میں شریک تھا ۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صحیح حبّان،ج: 11 ص: 123 ،حدیث شمارہ 4798 ،غزوہ بدر میں جہاد کے وجوب کے باب سے متعلق ایسی خبر کا ذکر کرنا جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو اہل بدر نے بدر کے دن کرتوت کئے ہیں خداوند عالم نے اسے بخش دیا اور طلحہ اور زبیر بھی انہیں میں سے ہیں۔

( 2) صحیح ابن حبان ج: 11 ص: 122 حدیث: 4799 باب فرض جہاد:جنگ بدر:جنگ بدر اور صلح حدیبیہ میں شریک افراد کے داخل جہنم ہونے کے بارے میں انکار کا تذکرہ

۹۰

چونکہ بدر اور حدیبیہ کی فضیلت تمام گناہوں سے بخشش کی سند نہیں دےسکتی،گناہان کبیرہ کی تو بات ہی الگ ہے اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ نبی ؐ برحق اس غفران کو قطعی قرار دیں،اس لئے کہ اس سے اعمال قبیحہ کی طرف ترغیب لازم آئےگی پس ضروری ہے کہ اس حدیث کو اس معنی پر محمول کیا جائے کہ آپ نے حاطب کے غلام کے اس نظریہ کی تردید کی تھی کہ حاطب کا جہنم میں جانا یقینی ہے جب کہ وہ بدر اور حدیبیہ کا شاہد ہے،یہ بھی ممکن ہے کہ غلام نے جن گناہوں کی شکایت کی تھی وہ قابل بخشش ہوں اور ان کی وجہ سے اس کا جہنمی ہونا یقینی نہ ہو ۔

حکمت اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ حدیث حاطب کی تاویل کی جائے

ممکن ہے کہ اس طرح کی حدیثون کی اگر سند و متن محکم ہوں تو ایسی تاویل کی جائے جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہو،ساتھ ہی کتاب اور سنت میں اسی معنی کا ظہور ہو جیسے یاد دہانی پر تاکید،عذرتراشی سے پرہیز اور خواہ مخواہ دوسروں کو سرزنش کرنے سے روکنا تا کہ نفس کے بہکنے اور نجات کی امید و غیرہ پر ایسا اعتماد نہ ہوجائے کہ جس کی وجہ سے انسان محارم کا مرتکب ہو،حدود الہی کو توڑ دےاور آخرت میں منکر الہی سے بالکل محفوظ دل میں ڈ الی دے یا اسی طرح کے دوسرے گناہوں پہ ابھارے جس سے بچنے کی اللہ نے تاکید کی ہے ۔ ان تاویلوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضور ؐ بدر میں جہاد کی اہمیت اور اس کی عظیم فضیلت بیان کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ بدر میں جہاد کی وجہ سےہل بدر کے سابقہ گناہ بخشے جاسکتے ہیں،اس لئے کہ:

إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ(1)

(ترجمہ آیت:(اچھائیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں) ۔

یا یہ کہ حضور ؐ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عمل جاری رکھو چاہے وہ خیر ہو یا شر،تمہارا گذشتہ کردار یعنی جنگ بدر میں شرکت تمہاری سابقہ خطاؤں کی بخشش کے لئے کافی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ ہود آیت 114 ،

۹۱

اب اس کے بعد(گناہ چاہے ثواب)جو عمل بھی اختیار کرو تمہارے اختیار میں ہے جیسے حاجیوں کے بارے میں حدیث وارد ہوئی ہے(کہ عمل کرتے رہو تمہیں بخش دیا گیا ہے)(1) ابوہریرہ حضور ؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو خدا کے لئے حج کرے پس وہ فحش نہ بکے اور فاسق نہ ہو تو وہ گناہوں سے یونہی پاک ہوجاتا ہے جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے نکلا ہو ۔(2)

اس بیان سے مقصد یہ ہے کہ ایسی فضیلتوں والا اس بات کا مستحق ہے کہ نبی ؐ اس کی اس طرح کی غلطیوں کو معاف کردیں جس سے مقصد اس کی اصلاح ہے یا یہ بتانا کہ اللہ نے اس کے گناہوں کو بخش دیا ہے نہ کہ اس کی قطعی سلامتی کا اعلان کیا ہے ۔

عمداً یا سہواً حدیثوں سے مغالطے ہوتے ہیں

اصل میں یا تو انسان ان مرتبوں سے لاعلم ہوتا ہے جن کے ماحول میں حدیث صادر ہوئی یا جان بوجھ کے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے،بہرحال جو ہو حدیثوں سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے مثال کے طور پر محمد بن مارد کی حدیث ملاحظہ فرمائیں،اس نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ جب تمہیں معرفت امام حاصل ہوجائے تو پھر جو چاہے کرو،آپ نے فرمایا ہاں میں نے یہ کہا ہے میں نے عرض کیا اس کا مطلب ہے کہ امام کو پہچان لینے کے بعد اس کو اجازت ہے چاہے وہ زنا کرے چاہے چوری کرے یا شراب پیئے،آپ نے فرمایا:(انّا لله و انّا الیه راجعون) خدا کی قسم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)وسائل الشیعہ ج:8باب:38شرائط واجبات حج)

(2)صحیح بخاری ج:2ص:553،کتاب الحج،حج مبرور(مقبول)کی فضیلت کے باب میں انھیں الفاظ میں صحیح مسلم،ج:2ص:984،کتاب حج،حج عمرہ اور روز عرفہ کی فضیلت کے باب میں،صحیح بن خزیمۃ،ج:4ص:131،کتاب المناسک حج کی فضیلت کے بیان میں جس میں جنگ و جدال،فسق و فجور اور گناہوں اور خطاؤں کے کفارہ کے باب میں،صحیح بن حبان،ج:9ص:7،کتاب حج،حج و عمرہ کی فضیلت کے باب میں،اللہ کی بخشش گذشتہ گناہوں سے متعلق جو کوئی ایسا حج کرے جس میں جنگ و جدال اور فسق و فجور نہ ہو،مسند ابی الجعد،ص:141شعبہ بن منصور کی باقی حدیث کے ضمن میں نیز اس کے علاوہ بہت سارے مصادر میں۔

۹۲

لوگوں نے ہمارے ساتھ انصاف نہٰں کیا یہ ممکن ہے کہ ہم تو عمل کی وجہ سے پکڑے جائیں اور ہمارے شیعوں پر سے اعمال ساقط ہوجائیں میرے کہنے کا مطلب تو یہ تھا کہ جب تم امام کو پہچان لیتے ہو تو اچھا کام چاہے زیادہ کرو چاہے کم،اللہ اسے قبول کرےگا ۔(1)

واقعہ بدر کے علاوہ بھی ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں سلامت قطعی وارد ہوئی ہے

10 ۔ بہت سے اعمال خیر اور عقائد حقہ ہیں جن کے بارے میں سلمات قطعی وارد ہوئی ہے،ملاحظہ ہو ابوذر غفاری کی حدیث آپ کہتے ہیں حضور ؐ نے فرمایا:کوئی بندہ ایسا نہیں ہے کہ لا الہ الا اللہ کہے اور اسی کلمہ پر مرجائے مگر یہ کہ وہ جنت میں داخل ہوگا میں نے کہا چاہے وہ زنا کرے چاہے چوری فرمایا چاہے زنا کرے یا چوری،میں نے کہا چاہے زنا کرے یا چوری فرمایا چاہے زنا کرے یا چوری میں نے پھر پوچھا چاہے زنا کرے یا چوری فرمایا چاہے وہ زنا کرے یا چوری ابوذر کی چاہت کے خلاف(2) اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)وسائل الشیعہ ج:1ص:87باب:28باب مقدمہ عبادت حدیث:2

(2)صحیح بخاری ج:5ص:2193کتاب اللباس:باب ثیاب البیض

(3)صحیح بخاری ج:1ص:417،باب اور کتاب دونوں ہی جنازوں سے متعلق ہے،ج:5ص:2312،کتاب الاستیذان،جس نے لبیک اور سعدیک جیسے کلموں کے ذریعہ جواب دیا،ص:2366،کتاب الرقاق(بندگی)سے متعلق،جو اسے پیش کیا گیا وہ اس کا مال ہے کے باب میں،صحیح مسلم،ج:1ص:95۔94،کتاب الایمان اس امت کے افتراق سے متعلق باب الزکاۃ،صدقہ کی ترغیب کے باب میں،سنن الترمذی،ج:5ص:27،کتاب الایمان اس امت کے افتراق سے متعلق باب میں،السنن الکبریٰ،نسائی،ج:6ص:144،ابوذر غفاری کی حدیث میں،مسند ابی عوانہ،ج:1ص:28،کتاب الایمان،ان اعمال اور فرائض کے بیان میں جن میں قول و فعل کے ذریعہ انجام دیا ہے اور اس کی وجہ سے جنت میں داخل ہوا،نیز اس دلیل کے سلسلے میں صرف اقرار کافی نہیں ہے جب تک دل سے یقین نہ کرے اور خدا کی رضا کا طالب نہ ہو جو چیز حرام کردیتی ہے اور اس کے علاوہ مصادر۔

۹۳

عمر کہتے ہیں کہ سرکار ؑ نے فرمایا،تم میں سے جو بھی وضو کرے اوراشهد ان لا اله الله و اشهد ان محمد عبده و رسوله کہے اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جائیں گے جنت میں چاہے جس دروازے سے داخل ہو ۔(1)

عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے پیغمبر کو یہ کہتے سنا اللہ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں جو بہترین وضو کرکے ان کو ان کے وقت پر ادا کرے اور کامل رکوع و سجود اور خشوع کے ساتھ ادا کرے،اللہ پر عہد ہے کہ وہ اس بندہ کو بخشےگا اور جو ایسا نہیں کرے اس کا اللہ پر کوئی عہد نہیں چاہے بخشے چاہے سزادے.(2) اسی طرح کی دوسری حدیثیں ملاحظہ ہوں ۔(3)

ابوہریرہ کہتے ہیں ایک عرب حضور ؐ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا مجھے ایسا عمل بتائیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) السنن الکبریٰ،بیھقی،ج: 1 ص: 78 ،کتاب الطہارۃ،وضو کے مستحبات اور واجبات کے بیان میں،باب وضو سے فارغ ہونے کے بعد کیا کہےگا انھیں الفاظ میں صحیح بخاری،ج: 3 ص: 1267 ،کتاب الانبیاء باب قول خداوند(یا اهل الکتاب لا تفعلو فی دینکم و لاتقولوا علی الله الا الحق انّما المسیح بن مریم رسول الله و کلمة القاها الی مریم و روح منه فٰامنوا بالله و رسوله و لاتقولوا ثلاثة...) صحیح مسلم ج: 1 ص: 209 کتاب الطہارۃ وضو کے بعد مستحب ذکر کے باب میں،صحیح ابن خزیمہ،ج 1 ص: 110 ،کتاب الوضو،بغیر ایجاب کے تطہیر اور استحباب کے ابواب میں،باب تحلیل اور نبی کی رسالت کی گواہی کی فضیلت اور عبودیت کے بیان میں نیز وہ چیزیں نہ کہی جاتیں جو نصاریٰ عیسٰ بن مریم کے بارے میں کہتے ہیں،نیز اس کے علاوہ دیگر منابع و ماخذ

( 2) السنن الکبریٰ،بیھقی،ج: 3 ص: 366 ،تارک الصلواۃ کے باب میں،جس کے ذریعہ اس بات پر استدلال کیا جاتا ہے کہ اس کفر سے مراد وہ کفر ہے جس سے اس کا خون مباح ہوتا ہے نہ یہ کہ اللہ،رسول پر ایمان سے خارج ہوجاتا ہے اگر وجوؓ صلاۃ کا منکر نہیں ہے

( 3) سنن ابی داؤدج: 1 ص: 115 ،باب اوقات نماز کی پابندی،مسند احمدج: 5 ص: 317 ،عبادۃ بن صامت کی حدیث،الاحادیث المختارۃ،ج: 8 ص: 320 ،جس کا نام عبدالرحمٰن بن عسیلۃ الصنابحی،المعجم الاوسط ج: 9 ص: 126 ،باب الھاء،ہاشم کے اسم کے بارے میں،الترغیب و الترھیب،ج: 1 ص: 148 ۔ 157 ۔ 155 ،تعظیم قدر الصلاۃ ج: 2 ص: 953 ،وغیرہ مصادر

۹۴

جس کو کر کے میں جنت میں داخل ہوجاؤں،آپ نے فرمایا اللہ کی عبادت کرو اور اس کی ذات میں کسی کو شریک نہ بنا،واجب نمازیں پڑھتا رہ،فرض زکٰوۃ ادا کرتا رہ،رمضان میں روزے رکھتا رہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے زیادہ میں کچھ نہ کہوں گا ۔(1)

دوسری حدیث ابوہریرہ ہی سے ہے کہ ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے اور مستحب حج کی جزا سوائے جنت کے کچھ نہیں ۔(2)

حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا جو حج یا عمرہ کے لئے سفر میں ہو اور مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے درمیان چاند دیکھے اس کے گذشتہ اور آئندہ گناہ بخش دئے جاتے ہیں اور اس پر جنت واجب ہوجاتی ہے ۔(3)

ظاہر ہے کہ ان حدیثوں کو ہم ظاہر پر حمل نہیں کرسکتے ورنہ اعمال کی دنیا میں اندھیرا ہوجائےگا اس لئے کہ باقی محرمات و واجبات پر جو دلیلیں اور کتاب و سنت میں جو وعید وارد ہوئی ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صحیح بخاری ج: 2 ص: 506 ،کتاب الزکاۃ،باب زکوۃ کا وجوب اسی لفظ میں صحیح مسلم ج: 1 ص: 44 ،کتاب الایمان،اس ایمان کے باب میں جس کی وجہ سے جنت میں داخل ہوتا ہے نیز مامور بہ سے جو متمسک ہوجائے وہ جنت کا حقدار ہے مسند احمد،ج: 2 ص: 342 ،مسند ابی ہریرہ،جامع العلوم و الحکم،ص: 207 ،الایمان لابن مندۃ،ج: 1 ص: 269 ،اس بات کے ذکر میں نبی کی اصحاب نے بیعت کی اس طرح سے کہ اشہد ان لا الہ الّا اللہ و ان محمداً رسول اللہ کی گواہی دے،الترغیب و الترھیب،ج: 1 ص: 302

( 2) صحیح بخاری ج: 2 ص: 629 ،باب عمرہ،وجوب عمرہ اور اس کی فضیلت کے باب میں اور اسی لفظ میں صحیح مسلم ج: 2 ص: 983 ،کتاب حج،حج و عمرہ اور روز عرفہ کی فضیلت کے باب میں،صحیح ابن خزیمۃ ج: 4 ص: 131 ،کتاب المناسک،حج و عمرہ کے درمیان فرق کے باب میں،السنن الکبری،بیھقی ج: 5 ص: 261 ،کتاب حج،حج و عمرہ کی فضیلت کے باب میں،سنن ابن ماجۃ ج: 2 ص: 964 ،باب فضیلت حج و عمرہ،موطا مالک،ج: 1 ص: 364 ،کتاب حج،جو عمرہ کے لئے آئے اس کے باب میں،مسند احمدج: 3 ص: 447 ،حدیث عامر بن ربیعۃ،

( 3) سنن الدار قطنی،ج: 2 ص: 283 ،کتاب الحج،انھیں الفاظ میں السنن الکبری،بیھقی ج: 5 ص: 30 ،کتاب الحج،جو مسجد اقصی اور مسجدالحرام کے جوار میں اس کی فضیلت کے باب میں،سنن ابی داؤد،ج: 2 ص: 143 ،کتاب مناسک کی ابتداء میں اوقات کے باب میں،المعجم الاوسط ج: 6 ص: 319 ،الترغیب و الترھیب،ج: 2 ص: 121 ،وغیرہ

۹۵

ان حدیثوں سے مطابقت نہٰں کرتیں،ظاہر ہے کہ ان حدیثوں کی تاویل،کرنی پڑےگی اور استقامت اور حسن خاتمہ کی قید لگانی پڑےگی،اس لئے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نجات اور ابدی نعمتوں کے لئے یہ دونوں چیزیں شرط ہیں،تو آپ جیسی بھی ان حدیثوں کی تاویل کریں حدیث بدر کی بھی وہی تاویل کرلیں،(یعنی استقامت اور حسن خاتمہ کو حدیث میں قطعی نجات کے لئے شرط قرار دیں)

حدیث مذکورہ اہل بدر سے مخصوص ہے نہ کی باقی سابقون اوّلون سے

اختتام کلام میں عرض ہے کہ(اگر ہم حدیث مذکورہ کی بنار پر اہل بدر کو مغفور و مامون مان بھی لیں تو)یہ حدیث تو صرف اہل بدر سے مخصوص ہے ان کے لئے جو واقعہ بدر میں نبی ؐ برحق کے ساتھ تھے تو پھر سابقون اوّلون جن کو اہل سنت سابقون اوّلون کہتے ہیں ان کی قطعی نجات اور یقینی سلامت پر یہ دلیل کیسے بن سکتی ہے؟جبکہ سابقون اوّلون کی ایسی حد بندی بھی نہیں کی گئی ہے جو زیادتی اورک می کو قبول نہ کرے،میرا خیال ہے کہ ہماری گفتگو آپ کے سوال کا کافی جواب ہوگی،ہم اللہ سے استمداد،توفیق و تسدید مانگتے ہیں اور وہی سیدھے راستے کا رہبر ہے ۔

۹۶

سوال نمبر ۔ 2

ہم اس بات کے منکر نہیں ہیں کہ صحابہ کبھی ذاتی بغض کی وجہ سے مجبور ہوجاتے تھے،کبھی کسی مصلحت سے مجبور ہوجاتے تھے اور کبھی ایک دوسرے پر غبطہ کرنے لگتے تھےہ معاملات اس قول کو محال قرار دیتے ہیں کہ صحابہ بشری کمزوریوں سے منزہ تھے اس کہ باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام غلطیوں کے ہوتے ہوئے بھی اللہ ان سے راضی ہے اور یہ رضا صرف زمانہ نبوت تک محدود نہیں ہے بلکہ رضا مطلقاً وارد ہوئی ہے اور اس سے کوئی صحابی مستثنیٰ نہیں ہے مگر یہ کہ شریعت اس کے لئے کوئی خاص نص پیش کرے ۔

پھر شیعہ حضرات خلافت عمر و ابوبکر و عثمان کے حق میں وہ بھی حضرت علی ؑ ہی کی زندگی میں خلافت پر قبضہ جمانے کے لئے یہ تاویل کیوں نہیں کرتے کہ حضرت علی ؑ کے پہلےوالے خلفا کی حرکتیں بشری تقاضوں اور ان کی ذاتی کمزوریوں کا نتیجہ تھیں جن کا شرعی مواخذہ نہیں کیا جاتا یا یہ کہ مولائے کائنات ؑ اور دوسرے خیلفہ آپس میں مل بیٹھ کے راضی ہوگئے تھے کہ خلافت کس کس کو دی جائےگی،حالانکہ شیعوں کے خیال کے مطابق مستحق ترین فرد مولا علی ؑ تھے ۔

جواب ۔ اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل باتیں حاضر ہیں

امر اول ۔ خداوند عالم نے خاص صحابہ کے لئے دو جگہ اپنی رضا کا اظہار کیا ہے،یہ دو آیتوں سے رضا ظاہر ہوتی ہے ۔

۹۷

پہلی آیت تو سابقون اوّلین والی آیت ہے اور وہ لوگ جو ان کے احسان کے ساتھ پیروی کرتے ہیں،اس پر کافی گفتگو ہوچکی ہے اور ہم اعادہ نہیں کریں گے ۔

بیعت رضوان کے بارے میں گفتگو

رضوان الہی کے بارےمیں دوسری آیت حاضر ہے،ارشاد ہوتا ہے:((بیشک اللہ راضی ہوگیا مومنین سے جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے،ان کے دل کے حالات سے اللہ واقف ہوا اور ان پر سکینہ نازل کیا اور فتح قریب سے سرفراز کیا بہت سا مال غنیمت بھی دے دیا اور اللہ عزیز اور حکمت والا ہے))(1) پہلی آیت کے ذیل میں یہ عرض کیا جاچکا ہے کہ اپنی رضا کی خبر اللہ دے تو رہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ رضا ہمیشہ باقی رہےگی،یہاں اللہ نے درخت کے نیچے بیعت کرنےوالوں کو اپنے رضا کی خبر دی ہے،لیکن اس کے بعد وہ جو اعمال بھی انجام دیں گےاسی کے حساب سےجزا اور سزا کے مستحق ہوں گے،اس بات کو دو امر کچھ اور مضبوط کرتے ہیں۔

آیہ کریمہ رضا کو مطلق نہیں کرتے بلکہ رضا کا سبب بیان کرتی ہے

پہلی بات تو یہ ہے کہ رضا ان کے لئے مطلقاً وارد نہیں ہوئی ہے بلکہ رضا کا سبب اور اس کا منشا بیان کیا جارہا ہے،سبب رضا ہے درخت کے نیچے بیعت کرنا اور وہ اس لئے کہ انہوں نے نبیؐ کے طلب بیعت پر لبیک کہی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر وہ نبیؐ کی نافرمانی کریں گےتو ان پر غضب نازل نہیں ہوگا،پھر اس آیت سے رضا کی تائید کیسے سمجھی جائے؟

بعض آیتیں بتاتی ہیں کہ اس بیعت کے عہد کو پورا کرنا سلامتی کی شرط ہے

خداوند عالم نےاسی سورہ میں یہ صراحت کردی ہے کہ وہ بیعت جو رضائے الہی کا سبب ہے،نجات کے لئے کافی نہیں ہے جب تک وفا بعہد کی بیعت نہ کی جائے ملاحظہ ہو:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ فتح آیت: 19،18

۹۸

(إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا)(1)

ترجمہ آیت:((بیشک وہ لوگ جو آپ سے بیعت کررہے تھے اصل میں اللہ سے بیعت کررہے تھے،اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر تھا،اس کے بعد بھی اگر کوئی بیعت توڑتا ہے تو خود گھاٹا اٹھائےگاور جو اس عہد بیعت کو وفا کرےگا تو عنقریب اللہ اسے اجر عظیم عنایت فرمائےگا)) ۔

یہ بات صریحی ہے کہ رضا و غضب کی چکی ان کے اعمال کے مدار پر گھوم رہی ہے،اللہ راضی بھی ہوگا،ثواب بھی دےگا،غضب ناک بھی ہوگا اور سزا بھی دےگا معیار اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی ہے اگر وہ وفا کریں گے کامیاب ہوں گے اور اگر کجروی اختیار کریں گےاور بیعت توڑدیں گے تو گھاٹا اٹھائیں گے اور خود کو نقصان پہنچائیں گےٹھیک یہی بات شیعہ بھی صحابہ کے بارے میں کہتے ہیں ۔

لظف یہ ہے کہ اہل حدیث اور مورخین کا کہنا ہے کہ اس دن حضور نے ان سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ مشرکین سے قتال کریں گے اور جہاد سےبھاگیں گے نہیں(2) ظاہر ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ فتح آیت:10)

(2)صحیح مسلم،ج:3ص:1484۔1485،کتاب الامارۃ(علامت)قتال کے موقع پر لشکر امام کی بیعت کے استحباب کے باب میں نیز بیعت الرضوان درخت کے نیچے،صحیح ابن حبّان ج:10ص:415،حدیث:4551،بیعت ائمہ کے باب میں اور جوان کے لئے مستحب ہے،نیز اس بیعت کے بیان میں جو امام کی آزاد لوگوں کی طرف سے ہو نہ غلاموں کی طرف سے،ج:11ص:231،حدیث4875،باب المواعدۃ(وعدہ کرنا)والمھادنۃ(سکون و وقار کے باب میں نیز اس تعداد کے وصف کے بیان میں جو رسول خداؐ کے ساتھ حدیبیہ کے دن تھے،مسند ابی عوانی،ج:4ص:427۔430،ایسی اخبار کے باب میں اس امیر کی اطاعت کے بیان میں جس کی طاعت کا امام حکم دیتا ہے اور جس نے اس کی اطاعت کی اس نے امام کی اطاعت کی امام کی صفت کے بیان میں،سنن ترمذی،ج:3ص:355،جابر کی مسند میں تفسیر طبری،ج:26ص:86،تفسیر ابن کثیرج:4ص:178،ابن عبدالبراج کی التمھید،ج:12ص:149،السیرۃ النبویۃ،ابن ہشام،ج:4ص:383،(بیعۃ الرضوان)کے بارے میں نیز اس کے علاوہ مصادر۔

۹۹

کہ اس(لایفروا)سے مراد ہے کہ تمام جنگوں میں نہیں بھاگیں گے نہ کہ صرف صلح حدیبیہ میں،اس لئے خداوند عالم نےآیہ کریمہ میں وفا کی شرط رکھدی ہے،صلح حدیبیہ میں تو جنگ بھی نہیں ہوئی تھی پھر ٹھہرنے اور بھاگنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے،یہ آیتیں اورہ فتح کی ہیں اور سورہ فتح صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوا ہے اور اسی وجہ سے غزوہ حنین میں سرکار دو عالم ؐ نے انھیں ان کے فرار پر بیعت رضواں یاد دلائی نبی ؐ لوگوں کو پکار رہے تھے اےسورہ بقرہ والو!اے بیعت شجرہ والو!(1) ظاہر ہے کہ فرار واقع ہوا اور رضا ختم ہوئی،غزوہ خیبر میں ایک جماعت کا فرار ہونا اور غزوہ حنین میں اکثر صحابہ کا فرار بتا رہا ہے کہ انھوں نے بیعت توڑدی اور جب بیعت توڑدی تو رضا بقی نہیں رہی ۔

خدا کی رضا صرف بیعت رضوان والوں سے مخصوص نہیں ہے

اب ایک بات رہ جاتی ہے وہ یہ کہ یہ مان لیا جائے کہ رضا استمرار کے لئے وارد ہوئی ہے اور ہمیشہ باقی رہےگی،جیسا کہ آپ فرماتے ہیں اور میں نے جو عرض کیا اس سے چشم پوشی کی جائے تو پھر میں عرض کروں گا کہ رضا کے لئے خاص اصحاب ہی مخصوص نہیں ہیں بلکہ قرآن مجید میں تو عمومی رضا واقع ہوئی ہے خدا ان تمام لوگوں سے اپنی رضا کا اعلان کرتا ہے جو ایمان کی دولت سے مالامال اور اعمال صالحہ سے مزین ہیں ۔

ملاحظہ ہوا ارشاد ہوتا ہے: (لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَٰئِكَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مصنف ابی شیبہ ج:7ص:417جنگ حنین

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311