رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر12%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 202762 / ڈاؤنلوڈ: 5565
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

حاتم کی بیٹی کے ساتھ اس سلوک کا یہ اثر ہوا کہ اپنے قبیلے میں واپس پہنچنے کے بعد اس نے اپنے بھائی '' عدی بن حاتم'' کو تیار کیا کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ایمان لے آئے، عدی اپنی بہن کے سمجھانے پرپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہونچا اور اسلام قبول کرلیا اور پھر صدر اسلام کے نمایاں مسلمانوں، حضرت علیعليه‌السلام کے جان نثاروں اور ان کے پیروکاروںمیں شامل ہوگیا(۱)

بافضیلت اسیر

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا کہ :پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کچھ اسیر لائے گئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک کے علاوہ سارے اسیروں کو قتل کرنے کا حکم دیدیا اس شخص نے کہا : کہ ان لوگوں میں سے صرف مجھ کو آپ نے کیوں آزاد کردیا ؟پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ : '' مجھ کو جبرئیل نے خدا کی طرف سے خبردی کہ تیرے اندر پانچ خصلتیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ جن کو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوست رکھتاہے ۱_ اپنی بیوی اور محرم عورتوں کے بارے میں تیرے اندر بہت زیادہ غیرت ہے ۲_ سخاوت ۳_ حسن اخلاق ۴_ راست گوئی ۵_ شجاعت '' یہ سنتے ہی وہ شخص مسلمان ہوگیا کیسا بہتر اسلام'' _(۲)

___________________

۱) سیرہ ابن ہشام ج۴ ص ۲۲۷_

۲) بحارالانوار ج۱۸ ص ۱۰۸_

۴۱

نیک اقدار کو زندہ کرنا اور وجود میں لانا

اسلام سے پہلے عرب کا معاشرہ قومی تعصب اور جاہلی افکار کا شکار تھا، مادی اقدار جیسے دولت،نسل ، زبان، ، رنگ ، قومیت یہ ساری چیزیں برتری کا معیار شمار کی جاتی رہیں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کی وجہ سے یہ قدریں بدل گئیں اور معنوی فضاءل کے احیاء کا زمانہ آگیا ، قرآن نے متعدد آیتوں میں تقوی، جہاد، شہاد، ہجرت اور علم کو معیار فضیلت قرار دیا ہے _

( الذین آمنوا و هاجروا و جاهدوا فی سبیل الله باموالهم و انفسهم اعظم درجة عندالله و اولءک هم الفائزون ) (۱)

جو لوگ ایمان لائے، وطن سے ہجرت کی اور راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کیا وہ خدا کے نزدیک بلند درجہ رکھتے ہیں اور وہی کامیاب ہیں_

( ان اکرمکم عند الله اتقیکم ) (۲)

تم میں جو سب سے زیادہ تقوی والا ہے وہی خدا کے نزدیک سب سے زیادہ معزز ہے_

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو کہ انسان ساز مکتب کے مبلغ ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امت اسلامی کے اسوہ کے عنوان سے ایسے اخلاقی فضاءل اور معنوی قدر و قیمت رکھنے والوں کی بہت عزت کرتے تھے اور جو لوگ ایمان ، ہجرت اور جہاد میں زیادہ سابقہ رکھتے تھے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک وہ مخصوص احترام کے مالک تھے_

___________________

۱) سورہ توبہ ۲۰_

۲) حجرات ۱۳_

۴۲

رخصت اور استقبال

مشرکین کی ایذاء رسانی کی بناپر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کچھ مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ مکہ سے ہجرت کر جائیں جب '' جعفر بن ابی طالب'' حبشہ کی طرف روانہ ہوئے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھوڑی دور تک ان کے ساتھ ساتھ گئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا فرمائی_ اور جب چند سال بعد وہ اس سرزمین سے واپس پلٹے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بارہ قدم تک ان کے استقبال کیلئے آگے بڑھے آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور چونکہ ان کی حبشہ سے واپسی فتح خیبر کے بعد ہوئی تھی اسلئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ' ' نہیں معلوم کہ میں فتح خیبر کیلئے خوشی مناوں یا جعفر کے واپس آجانے کی خوشی مناوں ''(۱)

انصار کی دلجوئی

فتح مکہ کے بعد کفار سے مسلمانوں کی ایک جنگ ہوئی جس کا نام'' حنین'' تھا اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ملی تھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ حنین کے بعد مال غنیمت تقسیم کرتے وقت مہاجر و انصار میں سے کچھ لوگوں کو کچھ کم حصہ دیا اور مؤلفة القلوبکوکہ جوا بھی نئے مسلمان تھے زیادہ حصہ دیا ، انصار میں سے بعض نوجوان ناراض ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچازاد بھائیوں اور اپنے عزیزوں کو زیادہ چاہتے ہیں اسلئے ان کو زیادہ مال دے رہے ہیں حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے مشرکین کا خون ٹپک رہاہے اور ہمارے ہاتھوں

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۲۳۹_

۴۳

سے سخت کام آسان ہورہے ہیں _ ایک روایت کے مطابق '' سعد بن عبادہ'' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور بولے جو بخشش و عنایت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قباءل عرب اور قریش پرکئے ہیں ، انصار کے اوپر وہ عنایت نہیں ہوئی ہیں اسلئے انصاراس بات پر ناراض ہیں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خیمہ لگانے کا حکم دیا ، خیمہ لگایا گیا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' فقط انصار خیمہ میںآئیں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود علیعليه‌السلام کے ساتھ تشریف فرماہوئے، جب انصار جمع ہوگئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' میں تم لوگوں سے کیا سن رہاہوں کیا یہ باتیں تمہارے لئے مناسب ہیں ؟ ان لوگوں نے کہا کہ یہ باتیں ناتجربہ کار نوجوانوں نے کہی ہیں انصار کے بزرگوں نے یہ باتیں نہیں کہی ہیں ، پھر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان نعمتوں کو شمار کرایا جو خداوند عالم نے حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وجود کے سایہ میں ان کو عطا کی تھیں اس پر انصار نے گریہ کیا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہا تھوں اور پیروں کو بوسہ دے کر کہا : ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کو دوست رکھتے ہیں مال کو دوست نہیں رکھتے ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دنیا سے چلے جانے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جدائی سے ڈرتے ہیں، نہ کہ کم سرمایہ سے،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''زمانہ جاہلیت سے ابھی قریش کا فاصلہ کم ہے ، مقتولین کی مصیبت برداشت کئے ہوئے ابھی تھوڑی دن گذرے ہیں میں نے چاہا کہ ان کی مصیبت ختم کردوں اور ان کے دلوں میں ایمان بھردوں اے انصار کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ اونٹ اور گوسفند لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اپنے گھر واپس جاو بیشک انصار ہمارے راز کے امین ہیں ، اگر تمام لوگ ایک راستے سے جائیں اور انصار دوسرے راستے سے گذریں تو میں اس راستے سے جاؤں گا جس سے انصار جارہے ہیں_ اسلئے کہ انصار

۴۴

ہمارے اندرونی اور ہمارے جسم سے لپٹے ہوئے لباس ہیں اور دوسرے افراد ظاہری لباس کی حیثیت رکھتے ہیں_(۱)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انصار کی عزت و تکریم کی اور چونکہ انہوں نے اسلام کیلئے گذشتہ زمانہ میں جد و جہد کی تھی اور اسلام کی نشر و اشاعت کے راستہ میں فداکاری کا ثبوت دیا تھا اس بناپر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو اپنے سے قریب سمجھا اور اس طرح ان کی دلجوئی کی_

جانبازوں کا بدرقہ اور استقبال

سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والی جنگ '' موتہ'' میں لشکر بھیجتے وقت رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشکر تیار کرلینے کے بعد لشکر کے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر بدرقہ کیلئے مدینہ سے ایک فرسخ تک تشریف لے گئے_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز ظہران کے ساتھ ادا کی اور لشکر کا سپہ سالار معین فرمایا، سپاہیوں کیلئے دعا کی اس کے بعد '' ثنیة الوداع'' نامی جگہ تک جو مکہ کے قریب ہے ان کے ساتھ ساتھ تشریف لے گئے اور ان کے لئے جنگی احکام صادر فرمائے _(۲)

سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والے غزہ '' ذات السلاسل'' کے بعد جب علیعليه‌السلام جانبازان اسلام کے ساتھ فتح پاکر واپس پلٹے تو اس موقع پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کو فتح

___________________

۱) ناسخ التواریخ ج۳ ص ۱۳۲ ، ۱۳۴_

۲) السیرة الحلی ج۳ ص ۶۸_

۴۵

کی خبر دی اور مدینہ والوں کے ساتھ مدینہ سے تین میل دور جاکر ان کا استقبال کیا ، جب علیعليه‌السلام نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو گھوڑے سے اتر پڑے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی گھوڑے سے اتر پڑے علیعليه‌السلام کی پیشانی کو بوسہ دیا ان کے چہرہ سے گردو غبار صاف کیا اور فرمایا: الحمدللہ یا علی الذین شد بک ازری و قوی بک ظہری ، اے علی خدا کی حمد ہے کہ اس نے تمہارے ذریعہ سے ہماری کمر مضبوط کی اور تمہارے وسیلہ سے اس نے دشمنوںپر ہمیں قوت بخشی اور مدد کی_(۱)

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فتح خیبر کی خبر دی گئی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت خوش ہوئے اور حضرت علی کے استقبال کو آگے بڑھے ان کو گلے سے لگایا پیشانی کا بوسہ دیا اور فرمایا'' خدا تم سے راضی ہے تمہاری کوشش اور جد و جہد کی خبریں ہم تک پہونچیں ، میں بھی تم سے راضی ہوں '' علیعليه‌السلام کی آنکھیں بھر آئیںپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' اے علی یہ خوشی کے آنسوں ہیں یا غم کے '' ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا خوشی کے اور میں کیوں نہ خوش ہوں کہ آپ مجھ سے راضی ہیں ؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' صرف میں ہی تم سے راضی نہیں ہوں بلکہ خدا، ملاءکہ ،جبرئیل اور میکائیل سب تم سے راضی ہیں_(۲)

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص ۳۵۷)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۲ ص ۲۸۹)_

۴۶

جہاد میں پیشقدمی کرنیوالوں کا اکرام

مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو پہلی جنگ ہوئی وہ ' جنگ بدر '' تھی جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس جنگ میں شرکت کی تھی وہ '' اہل بدر''کے عنوان سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صدر اسلام کے مسلمانوں کے نزدیک خصوصیت کے حامل تھے_

حضرت پیغمبر اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جمعہ کے دن '' صفہ'' پر بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کی کثرت کی وجہ سے جگہ کم تھی ( رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مہاجرین و انصار میں سے '' اہل بدر'' کی تکریم کررہے تھے) اسی حال میں اہل بدر میں سے کچھ لوگ منجملہ ان کے ثابت ابن قیس بزم میں وارد ہوئے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے روبرو کھڑے ہوکر فرمایا: السلام علیک ایہا النبی و رحمة اللہ و برکاتہ آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے سلام کا جواب دیا اس کے بعد ثابت نے مسلمانوں کو سلام کیا مسلمانوں نے بھی جواب سلام دیا وہ اسی طرح کھڑے رہے اور رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس جمع ہونے والی بھیڑ کی طرف دیکھتے رہے لیکن ان کو کسی نے جگہ نہیں دی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر یہ بات بہت گراں گذری آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے مہاجرین و انصار میں سے چند افراد سے کہ جو اہل بدر میں سے نہیں تھے کہا : فلاں فلاں تم اٹھو پھر اہل بدر میں سے جتنے لوگ وہاں موجود تھے اتنے ہی دوسرے افراد کو اٹھاکر اہل بدر'' کو بٹھایا یہ بات ان لوگوں کو بری لگی جن کوپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اٹھایا تھا ان کے چہرے پر ناراضگی کے آثار دکھائی دینے لگے ، منافقین میں سے کچھ لوگوں نے مسلمانوں سے کہا کہ کیا تم یہ

۴۷

تصور کرتے ہو کہ تمہارا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عدالت سے کام لیتاہے ، اگر ایسا ہے تو پھر اس جگہ انہوں نے عدالت سے کیوں نہیں کام لیا ؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو اپنی جگہ سے کیوں اٹھا دیا جو پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے اور یہ بھی چاہتے تھے کہ ہم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب رہیں ؟ اور ان افراد کو ان کی جگہ پر کیوں بٹھا دیا جو بعد میں آئے تھے؟ اس وقت آیہ کریمہ نازل ہوئی :

( یا ایها الذین آمنوا اذا قیل لکم تفسحوا فی المجالس فافسحوایفسح الله لکم و اذا قیل انشزوا فانشزوا ) (۱)

اے اہل ایمان جب تم سے کہا جائے کہ اپنی اپنی مجلس میں ایک دوسرے کیلئے جگہ کشادہ کردو تو خدا کا حکم سنو اور جگہ چھوڑ دو تا کہ خدا تہارے (مکان و منزلت) میں وسعت دے اور جب یہ کہا جائے کہ اپنی جگہ سے اٹھ جا و تب بھی حکم خدا کی اطاعت کرو(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اہل بدر کا احترام کرنا اسلامی معاشرہ میں بلند معنوی قدروں کی احیاء اور راہ خدا میں جہاد کے سلسلہ میں پیش قدمی کرنیوالوں کے بلند مقام کا پتہ دیتاہے اسی وجہ سے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کے مطابق صدر اسلام کے مسلمانوں کے درمیان '' اہل بدر'' خاص احترام اور امتیاز کے حامل تھے_

___________________

۱) (مجادلہ ۱۱)_

۲) ( بحار ج۱۷ ص ۲۴)_

۴۸

شہدا ء اور ان کے خاندان کا اکرام

سنہ ۸ ھ میں جنگ '' موتہ'' میں لشکر اسلام کی سپہ سالاری کرتے ہوئے '' جعفر ابن ابی طالب'' نے گھمسان کی جنگ میں اپنے دونوں ہاتھ راہ خدا میں دے دیئے اور زخموں سے چور ہوکر درجہ شہادت پر فائز ہوئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے بلند مرتبہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

''ان الله ابدل جعفرابیدیه جناحین یطیر بهما فی الجنة حیث شاء ''

خداوند عالم نے جعفر کو ان کے دونوںبازوں کے بدلے دو پر عنایت کئے ہیں وہ جنت میں جہاں چاہتے ہیں ان کے سہارے پرواز کرتے چلے جاتے ہیں _

اسی جنگ کے بعد جب لشکراسلام مدینہ واپس آیا تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کے ساتھ ان کے استقبال کو تشریف لے گئے ، ترانہ پڑھنے والے بچوں کا ایک گروہ بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ تھا، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مرکب پر سوار چلے جارہے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : بچوں کو بھی سوار کرلو اور جعفر کے بچوں کو مجھے دیدو پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ' ' عبداللہ بن جعفر '' کو جن کے باپ شہید ہوچکے تھے اپنی سواری پر اپنے آگے بٹھایا_

عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت نے مجھ سے فرمایا: اے عبداللہ میں تم کو تعزیت و مبارکباد پیش کرتاہوں کہ تمہارے والد ملاءکہ کے ساتھ آسمان میں پرواز کررہے ہیں _

___________________

۱) (السیرة الحلبیة ج۲ ص ۶۸)_

۴۹

امام جعفر صادقعليه‌السلام نقل کرتے ہیں کہ جعفر ابن ابی طالب کی شہادت کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے بیٹے اور بیوی '' اسماء بنت عمیس'' کے پاس پہونچے، اسماء بیان فرماتی ہیں کہ جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے گھر میں وارد ہوئے تو اسوقت میں آٹا گوندھ رہی تھی حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے پوچھا تمہارے بچے کہاں ہیں؟ میں اپنے تینوں بیٹوں'' عبداللہ'' ، ''محمد'' اور ''عون'' کو لے آئی ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا اور سینہ سے لگایا آپ ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے جاتے تھے اور آنکھوں سے آنسوں جاری تھے میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ہمارے ماں باپ فدا ہوجائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے بچوں کے ساتھ یتیموں کا سا سلوک کیوں کررہے ہیں کیا جعفر شہید ہوگئے ہیں ؟ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گریہ میں اضافہ ہوگیا ارشاد فرمایا: خدا جعفر پر اپنی رحمت نازل کرے یہ سنتے ہی صدائے نالہ وشیون بلند ہوئی بنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' فاطمہعليه‌السلام '' نے ہمارے رونے کی آواز سنی تو انہوں نے بھی گریہ فرمایا ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر سے باہر نکلے حالت یہ تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے آنسووں پر قابو نہیں پارہے تھے اور یہ فرمایا کہ :'' گریہ کرنے والے جعفر پر گریہ کریں''_

اس کے بعد جناب فاطمہ زہرا سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا: '' جعفر کے اہل و عیال کیلئے کھانا تیار کرو اور ان کے پاس لے جاؤ اسلئے کہ وہ لوگ آہ و فغان میں مشغول سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والے غزہ '' ذات السلاسل'' کے بعد جب علیعليه‌السلام جانبازان اسلام کے ساتھ فتح

___________________

۱) (تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۸۹) _

۵۰

بات سنت قرار پائی خود عبداللہ بن جعفر کے قول کے مطابق '' وہ لوگ تین دن تک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر مہمان رہے _

ہمارے معاشرہ میں آج جو رواج ہے وہ سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برعکس ہے ہم آج دیکھتے ہیں کہ مصیبت زدہ کنبہ کے اقرباء اور رشتہ دار چند دنوں تک عزادار کے گھر مہمان رہتے ہیں ، جبکہ سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زندہ کرنا کرنا ہمارا فریضہ ہے_

ایمان یا دولت

تاریخ میں ہمیشہ یہ دیکھا گیا ہے کہ پیغمبروں کی آواز پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے اور کان دھرنے والے زیادہ تر محروم اور مصیبت زدہ افراد ہی ہوتے تھے دولت مندوں اور مستکبرین نے خدا کے پیغمبروں سے ہمیشہ مقابلہ کیا اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کرتے رہے اگر انھوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ظاہراً ایمان قبول کرلیا تو اسی برتری کے جذبہ کی بناپر دوسروں سے زیادہ امتیاز کے طلبگار رہے اشراف و قباءل عرب کے رئیسوں کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان سے اورفقیر اور محروم مومنین سے مساوی سلوک کیا کرتے تھے بلکہ غلاموں اور ستائے ہوئے محروم افراد پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زیادہ توجہ فرماتے تھے اسلئے کہ ان کے پاس خالص ایمان تھا اور راہ اسلام میں دوسروں سے زیادہ یہ افراد فداکاری کا مظاہرہ کرتے تھے_

۵۱

ایک دن، سلمان، بلال، عمار اور غلاموں اور نادار مسلمانوں کی ایک جماعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھی بزرگان قریش اور نئے مسلمان ہونے والوں میں سے چند افراد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ : یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاش ناداورں اور غلاموں کی اس جماعت کو آپ الگ ہی رکھتے یا ان کو اور ہم لوگوں کو ایک ہی نشست میں جگہ نہ دیتے آخر اس میں حرج ہی کیا ہے جب ہم یہاں سے چلے جاتے تب یہ لوگ آتے ، اس لئے کہ دور و نزدیک کے اشراف عرب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آتے ہیں ہم یہ نہیں چاہتے کہ وہ ہم کو اور ان لوگوں کو ایک ہی نشست میں دیکھیں_

فرشتہ وحی ان کے جواب میں آیت لے کر نازل ہوا :

( و لا تطرد الذین یدعون ربهم بالغداوة و العشی یریدون وجهه ما علیک من حسابهم منشئ و مامن حسابک علیهم من شئ فتطردهم فتکون من الظالمین ) (۱)

جو لوگ صبح و شام خدا کو پکارتے ہیں اور جنکا مقصود خدا ہے ان کو اپنے پاس سے نہ ہٹاؤ اسلئے کہ نہ تو آپ کے ذمہ ان کا حساب اور نہ ان کے ذمہ آپ کا حساب ہے لہذا تم اگر ان خداپرستوں کو اپنے پاس سے بھگادو گے تو ظالمین میں سے ہوجاؤ گے(۲)

___________________

۱) (انعام ۲۵) _

۲) ( ناسخ التواریخ ج۴ ص ۸۳)_

۵۲

اسی آیت کے نازل ہونے کے بعد فقراء مؤمنین پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عنایت اور زیادہ ہوگئی _

ثروت مند شرفاء یا غریب مؤمن

سہل بن سعد سے منقول ہے کہ ایک شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے گذرا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے سوال کیا '' اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے '' لوگوں نے کہا کہ وہ شرفاء میں سے ہے کسی شاءستہ انسان کے یہاں یہ پیغام عقد دے تو لوگ اسکو لڑکی دے دیں گے ، اگر کسی کی سفارش کردے تو لوگ اسے قبول کریں گے ، اگر یہ کوئی بات کہے تو لوگ اسکو سنیں گے ، حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خاموش ہوگئے تھوڑی دیر بعد ایک غریب مسلمان کا ادھر سے گذرہوا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا '' اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے '' لوگوں نے کہا بہتر یہی ہے کہ اگر یہ لڑکی مانگے تو لوگ اسکو لڑکی نہ دیں ، اگر یہ کسی کی سفارش کرے تو اسکی سفارش نہیں سنی جائے، اگر یہ کوئی بات کہے تو اس پر کان نہیں دھرے جائیں گے _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' یہ اس مالدار شخص اور اسی جیسی بھری ہوئی دنیا سے تنہا بہتر ہے_(۱)

___________________

۱) (پیامبر رحمت صدر بلاغی ص ۶۱)_

۵۳

خلاصہ درس

۱)امت اسلام کی رہبری اور الہی پیغام پہونچانے کا منصب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سپرد تھا اس وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مختلف طبقات کے افراد و اقوام سے ملنا پڑتا تھا ان لوگوں کے ساتھ آپکا کردار ساز سلوک توحید کی طرف دعوت کا سبب تھا_

۲)صاحبان فضیلت و کرامت کے ساتھ چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں رسول اکرم اچھے اخلاق اور احترام سے پیش آتے تھے_

۳)جن لوگوں کو اسلام میں سبقت حاصل ہے اوراسلام کی نشرو اشاعت میں جاں نثاری اور کوشش کی ہے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں کا احترام کیا اور ان کو اپنے سے بہت نزدیک جانا_

۴) اسلامی معاشرہ میں معنویت کی اعلی قدروں کے احیاء کیلئے پیش قدمی کرنیوالوں اور راہ خدا میں جہاد کرنے والوں '' اہل بدر'' کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عزت سے پیش آتے اور ان لوگوں کیلئے خاص امتیاز و احترام کے قاءل رہے_

۵) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دولت مندوں سے زیادہ غریب مؤمنین پر لطف و عنایت کی اس لئے کہ یہ خالص ایمان کے حامل تھے اور اسلام کی راہ میں دوسروں کی بہ نسبت زیادہ جاں نثاری کا ثبوت دیتے تھے_

)مؤلفة القلوب ایک وسیع المعنی لفظ ہے جو کہ ضعیف الایمان مسلمانوں کیلئے بھی بولا جاتاہے اور ان کفار کیلئے بھی جن کو اسلام کی طرف بلانا مقصود ہو تا کہ انہیں مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کی ترغیب دی جائے _(۱)

___________________

۱)جواہر الکلام ج۱ ص ۳۴۱ طبع_

۵۴

سوالات :

۱_ مقصد بعثت کے سلسلہ میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول پیش کیجئے؟

۲_ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک اور برتاو کا معاشرہ پر کیا اثر پڑا؟ ایک مثال کے ذریعہ اختصار سے لکھئے؟

۳_مجاہدین '' فی سبیل اللہ '' کے ساتھ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا ؟ اس کے دو نمونے پیش کیجئے؟

۴_ شہداء کے گھر والوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا سلوک کرتے تھے تحریر فرمایئےاور یہ بھی بیان کیجئے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کس عمل کو اپنی سنت قرا ردیا ہے ؟

۵_ امیروں کے مقابل غریبوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک کو بیان کرتے ہوئے ایک مثال پیش کیجئے_

۵۵

چوتھا سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہربانیاں)

محبت اور مہربانی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وہ اخلاقی اصول تھا جوآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاشرتی معاملات میں ظاہر ہوتا تھا_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رحم و عطوفت کا داءرہ اتنا وسیع تھا کہ تمام لوگوں کو اس سے فیض پہنچتارہتا تھا گھر کے نزدیک ترین افرادسے لے کر اصحاب باوفا تک نیز بچے' یتیم ' گناہگار' گمراہ اور دشمنوں کے قیدی افراد تک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحمت کے سایہ میں آجاتے تھے یہ رحمت الہی کا پرتو تھاجو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وجود مقدس میں تجلی کیے ہوئے تھا_

( فبما رحمة من الله لنت لهم ) (۱)

رحمت خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مہربان بنادیا _

گھر والوں سے محبت و مہربانی

جب گھر کا ماحول پیار و محبت اور لطف و عطوفت سے سرشار ہوتاہے تو وہ مستحکم ہوکر

___________________

۱) (آل عمران ۱۵۹/) _

۵۶

بافضیلت نسل کے ارتقاء کا مرکز بن جاتاہے_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر محبت و مہربانی کا خاص اہتمام فرماتے تھے ' گھر کے اندر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ہاتھوں سے کپڑے سیتے ' دروازہ کھولتے بھیڑ اور اونٹنی کا دودھ دوہتے جب کبھی آ پکا خادم تھک جاتا تو خودہی جو یاگیہوں سے آٹا تیار کرلیتے' رات کو سوتے وقت وضو کا پانی اپنے پاس رکھ کر سوتے' گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا کام خود انجام دیتے اور اپنے خاندان کی مشکلوں میں ان کی مدد کرتے(۱)

اسی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''خیر کم خیر کم لاهله و انا خیرکم لاهلی (۲) یا 'خیارکم ' خیر کم لنساءه و انا خیر لکم لنسائی'' (۳)

یعنی تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنے اہل کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور میں تم سے اپنے اہل کے ساتھ اچھا سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہوں یا یہ کہ تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کرے اور میں تم سے اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہوں_

خدمتکار کے ساتھ مہربانی

اپنے ماتحت افراد اور خدمتگاروں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا محبت آمیز سلوک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہربانی کا

___________________

۱) (سنن النبی ص ۷۳)_

۲) (مکارم الاخلاقی ص ۲۱۶)_

۳) (محجة البیضاء ج۳ ص۹۸)_

۵۷

ایک دوسرا رخ ہے ''انس بن مالک'' کہتے ہیں کہ : '' میںنے دس سال تک حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت کی لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے کلمہ '' اف'' تک نہیں فرمایا_ اور یہ بھی کبھی نہیں کہا کہ تم نے فلاں کام کیوں کیا یا فلاں کام کیوں نہیں کیا _ انس کہتے ہیں کہ :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک شربت سے افطار فرماتے تھے اور سحر میں دوسرا شربت نوش فرماتے تھے اور کبھی تو ایسا ہوتا کہ افطار اور سحر کیلئے ایک مشروب سے زیادہ اور کوئی چیز نہیں ہوتی تھی وہ مشروب یا تو دودھ ہوتا تھا یا پھرپانی میں بھیگی ہوئی روٹی ' ایک رات میں نے مشروب تیار کرلیا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے میں دیر ہوئی تو میں نے سوچا کہ اصحاب میں سے کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کردی ہوگی' یہ سوچ کر میں وہ مشروب پی گیا' تھوڑی دیر کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشریف لائے میں نے ایک صحابی سے پوچھا کہ :حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے افطار کرلیا؟کیا کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کی تھی ؟ انھوں نے کہا : نہیں ' اس رات میں صبح تک غم و اندوہ میں ایسا مبتلا رہا کہ خدا ہی جانتا ہے اسلئے کہ ہر آن میں مجھے یہ کھٹکا لگا رہا کہ کہیں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ مشروب مانگ نہ لیں اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مانگ لیں گے تو میں کہاں سے لاوں گا یہاں تک کہ صبح ہوگئی حضرت نے روزہ رکھ لیا لیکن اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مشروب کے بارے میں مجھ سے کبھی کچھ نہیں پوچھا اور اسکا کبھی کوئی ذکر نہیں فرمایا:(۱)

___________________

۱) (منتھی الامال ج ص۱۸ ،مطبوعہ کتابفروشی علمیہ اسلامیہ)_

۵۸

امام زین العابدینعليه‌السلام کا خادم

امام زین العابدینعليه‌السلام نے اپنے غلام کو دو مرتبہ آواز دی لیکن اس نے جواب نہیںدیا،تیسری بار امامعليه‌السلام نے فرمایا: کیا تم میری آواز نہیں سن رہے ہو؟اس نے کہا کیوں نہیں ، آپ نے فرمایا: پھر جواب کیوں نہیں دیتے؟ اس نے کہا کہ چوں کہ کوئی خوف نہیں تھا اسلئے میں نے اپنے کو محفوظ سمجھا، امام نے فرمایا: ''خدا کی حمد ہے کہ میرے غلام اور نوکر مجھ کو ایسا سمجھتے ہیں اور اپنے کو محفوظ محسوس کرتے ہیں اور اپنے دل میں میری طرف سے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے''(۱)

اصحاب سے محبت

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ملت اسلامیہ کے قاءد ہونے کے ناتے توحید پر ایمان لانے والوں اور رسالت کے پروانوں پر خلوص و محبت کی خاص بارش کیا کرتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیشہ اپنے اصحاب کے حالات معلوم کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے اور ان اگر تین دن گزرے میں کسی ایک صحابی کو نہ دیکھتے تو اسکے حالات معلوم کرتے اور اگر یہ خبر ملتی تھی کہ کوئی سفر میں گیا ہوا ہے تو اس کے لئے دعا کرتے تھے اور اگر وہ وطن میں ہوتو ان سے ملاقات کیلئے تشریف لے جاتے_ اگر وہ بیمار ہوتے تو ان کی عیادت کرتے تھے(۲)

___________________

۱) (بحارالانوار ج۴۶ ص ۵۶)_

۲) (سنن النبی ص ۵۱)_

۵۹

جابر پر مہربانی

جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ : میں انیس جنگوںمیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھا ، ایک جنگ میں جاتے وقت میرااونٹ تھک کر بیٹھ گیا،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام لوگوں کے پیچھے تھے، کمزور افراد کو قافلہ تک پہونچاتے اور ان کے لئے دعا فرماتے تھے،حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے نزدیک آئے اور پوچھا : تم کون ہو؟ میں نے کہا میں جابر ہوں میرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فدا ہوجائیں_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا: کیا ہوا؟ میں نے کہا میرا اونٹ تھک گیا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے پوچھا تمھارے پاس عصا ہے میں نے عرض کی جی ہاں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عصا لے کر اونٹ کی پیٹھ پر مارا اور اٹھاکر چلتا کردیا پھر مجھ سے فرمایا : سوار ہوجاؤ جب میں سوار ہوا تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعجاز سے میرا اونٹ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اونٹ سے آگے چل رہا تھا، اس رات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ۲۵ مرتبہ میرے لئے استغفار فرمایا(۱)

بچوں اور یتیموں پر مہربانی

بچہ پاک فطرت اور شفاف دل کا مالک ہوتاہے اس کے دل میں ہر طرح کے بیج کے پھولنے پھلنے کی صلاحیت ہوتی ہے بچہ پر لطف و مہربانی اور اسکی صحیح تربیت اس کے اخلاقی نمو اوراندرونی استعداد کے پھلنے پھولنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے یہ بات ان یتیموں

___________________

۱) (حیواة القلوب ج۲ ص ۱۲۷)

۶۰

کیلئے اور بھی زیادہ موثر ہے جو بہت زیادہ محبت اور عطوفت کے محتاج ہیں اور یہ چیز اندرونی پیچیدگیوں کے سلجھانے کیلئے اور احساس کمتری کو دور کرنے میں بہت مہم اثر رکھتی ہے_

رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں رحمت نے اتنی وسعت حاصل کی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت کی گرمی نے تمام افسردہ اور بے مہری کی ٹھنڈک میں ٹھٹھری والوں کو اپنے دامن میں چھپالیا تھا بچوں اور یتیموں سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سلوک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کا درخشان پہلو ہے_

رسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس لوگ بچوں کو لاتے تھے تا کہ آپ ان کے لئے دعا کریں اور انکا نام رکھدیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بچے کو اپنی گود میں بٹھاتے تھے کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کے بچہ گود نجس کردیتا تھا، جو لوگ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس ہوتے تھے وہ یہ دیکھ کر چلانے لگتے تھے لیکن نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے تھے کہ بچے کو ڈانٹ کر پیشاب کرنے سے نہ روکواسے پیشاب کرنے دو تا کہ وہ پیشاب کرلے جب دعا اور نام رکھنے کا کام ختم ہوجاتا تھا تو بچے کے وارث نہایت خوشی کے ساتھ بچے کو لے لیتے تھے ایسے موقع پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ پر کبھی ناراضگی نہیں نظرآتی تھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے بعد اپنا لباس پاک کرلیتے تھے_(۱)

___________________

۱) (سنن النبی ص ۵۰)_

۶۱

امامعليه‌السلام یتیموں کے باپ

حبیب ابن ثابت سے منقول ہے کہ کچھ انجیر اور شہد ہمدان و حلوان سے حضرت علیعليه‌السلام کیلئے لائے گئے (ہمدان و حلوان میں انجیر کے درخت بہت ہیں اور وہاںکا انجیرمشہوربھی ہے)امیر المؤمنین نے لوگوںسے کہا کہ یتیم بچوں کو بلایا جائے بچے آگئے تو آپ نے ان کو اس بات کی اجازت دی کہ خود بڑھ کر شہد کے مشک سے شہد لیکر کھالیں اور اپنی انگلیوں سے چاٹ لیںلیکن دوسرے افراد کو آپ نے برتن میںرکھ کر اپنے ہاتھوں سے بانٹا، لوگوں نے حضرت پر اعتراض کیا کہ آپ نے یتیموں کو کیوں اجازت دے دی کہ وہ اپنی انگلیوں سے مشک میں سے چاٹ لیں اور خود کھائیں؟آپ نے فرمایا: امام یتیموں کا باپ ہوتاہے اسے چاہیئے کہ اپنے بچوںکی طرح ان کو بھی اجازت دے تا کہ وہ احساس یتیمی نہ کریں(۱)

گناہگاروں پر مہربانی

حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم باوجودی کہ ایک اہم فریضہ اور رسالت کی بڑی ذمہ داری کے حامل تھے مگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے گنہگاروں کے ساتھ کبھی کسی متکبرانہ جابروں جیسا برتاو نہیں کیا بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیشہ ان کے ساتھ لطف و رحمت کا ہی سلوک کیا ، ان کی گمراہی پر ایک شفیق باپ

___________________

۱)(بحارالانوار ج/۴۱ص۱۲۳)_

۶۲

کی طرح رنجیدہ رہے اور ان کی نجات کیلئے آخری حد تک کوشش کرتے رہے اکثر ایسا ہوتا کہ گناہگارآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آتے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے تھے لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کوشش یہی رہتی کہ لوگ اعتراف کرنے سے باز آجائیں تا کہ حضور ان پر حد الہی جاری کرنے کیلئے مجبور نہ ہوں اور انکا کام خدا کی وسیع رحمت کے حوالہ ہو جائے ( صدر بلاغی کی کتاب پیامبر رحمت ص ۵۵ ،۵۱ سے مستفادہ ہے)_

سنہ ۸ ھ میں قبیلہ غامد کی ایک عورت جسکا نام '' سبیعہ '' تھا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئی اس نے کہا کہ : اے اللہ کے رسول میں نے زنا کیا ہے آپ مجھ پر حد جاری کریں تا کہ میں پاک ہوجاںآپ نے فرمایا : جاو توبہ کرو اور خدا سے معانی مانگ لو اس نے کہا کہ : کیا آپ مجھ کو '' ماعز ابن مالک'' (ماعز بن مالک وہ شخص تھا جو زنا کے اقرار کیلئے چند مرتبہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اسے ہر دفعہ لوٹا دیا کہ وہ اقرار سے ہاتھ کھینچ لے _(۱) ) کی طرح واپس کردینا چاہتے ہیں ؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کیا زنا سے حمل بھی ہے ؟ اس نے کہا ہاں ہے آپ نے فرمایا: وضع حمل ہوجانے دو پھر اسکو انصار میں سے ایک شخص کے سپرد کیا تا کہ وہ اسکی سرپرستی کرے جب بچہ پیدا ہوگیا تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تیرے بچہ کو دودھ کو ن پلائیگا؟ تو جا اور جاکر اسے دودھ پلاکچھ مدت کے بعد جب اسکی دودھ بڑھائی ہوگئی تو وہ عورت اس بچہ کو گود میں لئے ہوئے پھر آئی بچہ کے ہاتھ میں

___________________

۱) فروغ کافی ج۷ ص ۱۸۵_

۶۳

روٹی تھی اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پھر حد جاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بچہ اس سے لیکر ایک مسلمان کے حوالہ کیا اور پھر حکم دیا اسکو سنگسار کردیا جائے ، لوگ ابھی پتھر مارہی رہے تھے کہ خالد ابن ولید نے آگے بڑھ کر اس عورت کے سرپر ایک پتھر مارا پتھر کا لگنا تھا کہ خون اچھل کر خالد کے منہ پر پڑا_ خالد نے غصہ کے عالم میں اس عورت کو برا بھلا کہا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ : اے خالد تم اسکو برے الفاظ سے یاد نہ کرو خدا کی قسم کہ جسکے قبضہ قدرت میں میری جان ہے سبیعہ نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر '' عشار'' ایسے توبہ کرے تو خدا اس کے جرم کو بھی معاف کردے_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے لوگ اس عورت کا جسم باہر لائے اور نماز کے بعد اس کو سپرد لحد کردیا گیا(۱)

رسول خدا کی عنایت اور مہربانی کا ایک یہ بھی نمونہ ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شروع میں اس عورت کو اقرار کرنے سے روکا اسلئے کہ چار مرتبہ اقرار کرنا اجراء حد کا موجب بنتاہے اور آخر میں حد جاری کرتے وقت اس گنہ کار مجرم کو برا بھلا کہنے سے روکا_

اسیروں پر مہربانی

اسیر ایک شکست خوردہ دشمن ہے جس کے دل کو محبت کے ذریعہ رام کیا جاسکتاہے فتح مند رقیب کیلئے اس کے دل میں جو احساس انتقام ہے اسکو ختم کرکے اسکی ہدایت کیلئے زمین

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۳ ص ۱۷۹)_

۶۴

ہموار کی جاسکتی ہے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لطف و مہربانی کاایک مظہر اسیروں کے ساتھ حسن سلوک ہے _

ثمامہ ابن اثال کی اسیری

امام محمد باقرعليه‌السلام سے منقول ہے کہ کسی سریہ میں ثمامہ ابن اثال کو گرفتار کرکے حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس لایاگیا ثمامہ اہل یمامہ کے رئیس تھے کہتے ہیں کہ ان کا فیصلہ اہل طئی اور یمن والوں کے درمیان میں بھی مانا جاتا تھا ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپکوپہچان لیا اور ان کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم دیاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم روزانہ اپنے گھر سے ان کے لئے کھانا بھیجتے ، خود ان کے پاس جاتے اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے، ایک دن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا میں تم کو تین چیزوں کے منتخب کرنے کا اختیار دیتاہوں، پہلی بات تو یہ ہے کہ تم کو قتل کردوں، ثمامہ نے کہا کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ ایک بہت بڑی شخصیت کو قتل کرڈالیں گے_حضرت نے فرمایادوسری بات یہ ہے کہ اپنے بدلے کچھ مال فدیہ کے طور پر تم ادا کردو اور آزاد ہوجاؤ_ ثمامہ نے کہا اگر ایسا ہوگا تو میرے لئے بہت زیادہ مال ادا کرنا پڑیگااور میری قیمت بہت زیادہ ہوگی (یعنی میری قوم کو میری آزادی کیلئے بہت مال دینا پڑیگا) کیونکہ میں ایک بڑی شخصیت کا مالک ہوں، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تیسری

___________________

۱) ( سیرت رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رفیع الدین الحق ابن محمد ہمدانی ج۲ ص۱۰۹۲)_

۶۵

صورت یہ ہے میں تجھ پر احسان کروں اور تجھے آزاد کردوں ، ثمامہ نے کہا اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسا کریں گے تو مجھے شکرگزار پائیں گے پھر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے ثمامہ کو آزاد کردیا گیا _ ثمامہ نے ایمان لانے کے بعد کہا : خدا کی قسم جب میں نے آپکو دیکھاتھا تو سمجھ تھا کہ آپ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں اور اسوقت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ کسی کو دشمن نہیں رکھتا تھا اور اب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں _

دوسروں کے حقوق کا احترام

کسی بھی معاشرہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ حقوق کی رعایت کی جائے اور ان کو پامال ہونے سے بچایا جائے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق و عدالت قاءم کرنے کیلئے اس دنیا میں تشریف لائے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سماجی کردار میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوسروں کے حقوق کا حدو درجہ احترام کیا کرتے تھے_

حضرت موسی بن جعفرعليه‌السلام سے منقول ہے کہرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایک یہودی کے چند دینار قرض تھے، ایک دن اس نے اپنے قرض کا مطالبہ کیا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: پیسے نہیں ہیں لیکن اس نے یہ عذر قبول نہیں کیا ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ہم یہیں بیٹھ جاتے ہیں ، پھر یہودی بھی وہیں بیٹھ گیا ، یہاں تک کہ ظہر ، عصر ، مغرب، عشاء اور صبح کی نماز وہیں ادا کی اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہودی کو ڈانٹا کہ تو نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کیوں بٹھارکھاہے ؟ لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منع کیا اور

۶۶

فرمایا : کہ خدا نے ہمیں اسلئے مبعوث کیا ہے کہ جو امن و امان میں ہے اس پر یا اس کے علاوہ اور کسی پر ستم کیا جائے، جب صبح ہوئی اور سورج ذرا بلند ہوا تو یہودی نے کہا :اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمدا عبده و رسوله پھر اس نے اپنا آدھا مال راہ خدا میں دےدیا اور کہا میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ پیغمبر آخر الزمانصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے جو صفتیں بیان ہوئی ہیں وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ہیں یا نہیں ہیں ، توریت میں بیان ہوا ہے کہ ان کی جائے پیدائشے مکہ، محل ہجرت مدینہ ہے ، وہ تندخو نہیں ہوں گے بلند آواز سے اور چیخ کرباتیںنہیں کریں گے اپنی زبان پر فحش باتیں جاری نہیں کریں گے _ میں نے دیکھا کہ یہ اوصاف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں موجود ہیں اور اب یہ آدھا مال آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اختیار میں ہے_(۱)

بیت المال کی حفاظت

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حاکم اسلام ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کے بیت المال کی حفاظت کی عظیم ذمہ داری کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے اسلئے کہ بیت المال معاشرہ کے تمام افراد کے حقوق سے متعلق ہے _ غیر مناسب مصرف سے روکنا لازمی ہے اس سلسلہ میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا رویہ بھی بڑا سبق آموز ہے _

سنہ ۹ ھ میں '' ابن اللیثہ'' نامی ایک شخص مسلمانوں کی ایک جماعت میں زکوة وصول

___________________

۱) (حیوة القلوب ج۲ ص ۱۱۷)_

۶۷

کرنے کیلئے بھیجا گیا وہ زکوة وصول کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اس نے کہا : یہ زکواة ہے اور یہ ہدیہ جو مجھ کو دیا گیا ہے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور حمد خدا کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ہم نے کچھ لوگوں کو اس کام کے انجام دینے کیلئے بھیجا جس کام کا خدا نے مجھ کو حاکم بنایا ہے ، ان میں سے ایک شخص میرے پاس آکر کہتاہے یہ زکوة ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے _ میں پوچھتاہوں وہ اپنے گھر ہی میں کیوں نہیں بیٹھا رہتا تا کہ دیکھ لے کہ اس کیلئے کوئی ہدیہ آرہا ہے یا نہیں ؟ اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر کوئی شخص زکوة کا مال لیگا تو وہ قیامت کے دن اس کی گردن میں ڈال دیا جائیگا_ وہ مال اگر اونٹ ہے تو اسکی گردن میں اونٹ ہوگا اور اگر گائے یا گوسفند ہے تو یہی اسکی گردن میں ہوں گے پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو مرتبہ فرمایا خدایا میںنے پیغام پہنچادیا(۱)

حضرت علیعليه‌السلام اور بیت المال

جو حضرات عمومی اموال کو خرچ کرنے میں اسلامی اصولوں کی رعایت نہیں کرتے تھے ان کے ساتھ علی کا وہی برتاؤ تھا جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تھا اس سلسلہ کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے _عبداللہ( یا عبیداللہ) ابن عباس کو ایک خط میں حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ '' خدا سے ڈرو اور لوگوں کے اس مال کو جو تم نے لے لیا ہے واپس کردو اگر تم یہ کام نہیں کروگے تو خدا

___________________

۱) ( ناسخ التواریخ ج۲ ص ۱۵۹)_

۶۸

مجھ کو تم پر قوی بنائیگا اور میں تم پر دسترسی حاصل کرکے تم کو تمہارے کیفر کردار تک پہونچانے میں خدا کے نزدیک معذور ہونگا اور تم کو اس تلوار سے قتل کردوں گا جس سے میں نے جسکو بھی قتل کیا ہے وہ جہنم میں داخل ہواہے خدا کی قسم اگر حسن و حسین (علیہما السلام) بھی ایسا کام کرتے جیسا تم نے کیا ہے تو ان سے بھی صلح و موافقت نہیں کرسکتا تھا اور وہ میرے ذریعہ اپنی خواہش تک نہیں پہونچ سکتے تھا یہاں تک کہ میں ان سے حق لے لوں اور جو باطل ان کے ستم سے واقع ہوا ہو اسکو دور کردوں ''(۱)

بے نیازی کا جذبہ پیدا کرنا

ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنا اور ان کی مشکلات حل کرنا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عملی منصوبوں کا جزء اور اخلاقی خصوصیات کا حصہ تھا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی ساءل کے سوال کو رد نہیں کیا(۲) لیکن خاص موقع پر افراد کی عمومی مصلحت کے مطابق یا کبھی معاشرہ کی عمومی مصلحت کے تقاضہ کی بناپر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے ایسا رویہ اسلئے اختیار کیا تا لوگوں کے اندر '' بے نیازی کا حوصلہ '' پیدا ہوجائے_

___________________

۱) (نہج البلاغہ فیض مکتوب نمبر ۴۱ / ص ۹۵۸)_

۲) (سنن النبی ص ۸۴)_

۶۹

مدد کی درخواست

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی فقر و فاقہ سے عاجز آچکے تھے اپنی بیوی کی تجویز پرحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے تا کہ مدد کی درخواست کریں ابھی وہ اپنی ضرورت کو بیان بھی نہیں کرپائے تھے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اگر کوئی مجھ سے مدد مانگے تو میں اسکی مدد کروں گا لیکن اگر کوئی بے نیازی کا ثبوت دے تو خدا اسکو بے نیاز بنادیگا، اس صحابی نے اپنے دل میں کہا کہ یہ اشارہ میری ہی طرف ہے لہذا وہ واپس گھر لوٹ گئے اور اپنی بیوی سے ماجرا بیان کیا _ دوسرے دن پھر غربت کی شدت کی بناپررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں وہی مدعا لے کر حاضر ہوئے مگر دوسرے دن بھی وہی جملہ سنا اور گھر لوٹ آئے،جب تیسری بار رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پھر وہی جملہ سنا تواپنی مشکل کو حل کرنے کا راستہ پاگئے، انہوں نے صحرا میں جاکر لکڑیاں جمع کرنے کا ارادہ کیا تا کہ اسکو بیچ کر رزق حاصل کریں کسی سے عاریت ایک کلہاڑی مانگ لائے ، پہاڑ پر چلے گئے اور وہاں سے کچھ لکڑیاں کاٹ کر فروخت کردیں پھر روزانہ کا یہی معمول بن گیا ، رفتہ رفتہ وہ ا پنے لئے کلہاڑی ، باربردار جانور اور سارے ضروری سامان خرید لائے پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ دولت مند بن گئے بہت سے غلام خرید لئے، چنانچہ ایک روز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اپنا سارا واقعہ بیان کیا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ جو مجھ سے مانگے کا میں اسکی مدد کرونگا لیکن اگر بے نیازی اختیار کریگا تو خدا اسکو بے نیاز کردیگا _(۱)

___________________

۱)( اصول کافی ج۲ ص ۱۱۲ باب القناع)_

۷۰

بے نیاز اور ہٹے کٹے آدمی کیلئے صدقہ حلال نہیں

ایک شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اس نے کہا '' دو دن ہوگئے ہیں میں نے کھانا نہیں کھایا'' حضرت نے فرمایا: بازار جاو اور اپنے لئے روزی تلاش کرو دوسرے دن وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا کل میں بازار گیا تھا مگر وہاں کچھ نہیں ملاکل رات بھوکا ہی سوگیا _ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : '' علیک بالسوق'' بازار جاؤ تیسرے دن بھی جب اس نے یہی جواب سنا تو اٹھ کر بازار کی طرف گیا ، وہاں ایک قافلہ آیا ہوا تھا اس شخص نے سامان فروخت کرنے میں ان کی مدد کی آخر میں انہوں نے نفع میں سے کچھ حصہ اسکو دیدیا دوسری بار وہ پھر رسول اکرم کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ بازار میں مجھے کچھ بھی نہیں ملا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : فلان قافلہ سے تجھ کچھ نہیں ملا ؟ اس نے کہا نہیں حضرت نے فرمایا: کیوں تم کو ان لوگوں نے کچھ نہیں دیا ؟ اس شخص نے کہا ہاں دیا ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا پھر تو نے کیوں جھوٹ بولا؟ اس شخص نے کہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سچ فرماتے ہیں میں دیکھنا چاہتا تھاکہ آپ لوگوں کے اعمال سے باخبرہیں یا نہیں ؟ اور میں یہ چاہتا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بھی کچھ حاصل ہوجائے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تو نے ٹھیک کہا، جو شخص بے نیازی سے کام لیگا خدا اسکو بے نیاز کردیگا اور جو اپنے اوپر سوال کا ایک دروازہ کھولیگا خدا فقر کے ستر (۷۰) دروازے اس کے لئے کھول دیگا ایسے دروازے جو پھر بند ہونے کے قابل نہ ہوں گے ، اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جو بے نیاز ہے اسکو صدقہ دینا حلال نہیں ہے اور اسے بھی

۷۱

صدقہ نہیں دینا چاہئے جو صحیح و سالم اعضاء کا مالک ہو اور اپنی ضرورت پوری کرسکتاہے(۱)

ایک دوسرے کی مدد کرنا

حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک ایسے رہبر تھے جو خود انسان تھے، انہیں کے درمیان پیدا ہوئے تھے، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امت سے جدا نہیں تھے کہ اپنے پیروکاروں کو رنج و الم میں چھوڑ دیں اور خود آرام و آسائشے کی زندگی گزاریں بلکہ ہمیشہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر میدان میں خود آگے رہے خوشی اور غم میں سب کے شریک اور سعی و کشش میں دوسروں کے دوش بدوش رہتے اور دشواریوں میں جان کی بازی لگادیتے تھے_ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بستر علالت پر تھے، حضرت بلال کو بلایا، پھر مسجد میں تشریف لے گئے اور حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا: اے میرے اصحاب میں تمہارے واسطے کیسا پیغمبر تھا؟ کیا میں نے تمہارے ساتھ جہاد نہیں کیا ؟ کیا میرے دانت نہیں ٹوٹے ؟ کیا میرا چہرہ غبار آلود نہیں ہوا؟ کیا میرا چہرہ لہولہان نہیں ہوا یہاں تک کہ میری داڑی خون سے رنگین ہوگئی ؟ کیا میں نے اپنی قوم کے نادانوں کے ساتھ حد درجہ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ نہیں کیا ؟ کیا میں نے اپنے پیٹ پر پتھر نہیں باندھے؟ اصحاب نے کہا : بے شک یا

رسول اللہ آپ بڑے صابر رہے اور برے کاموں سے منع کرتے رہے لہذا خدا آپ کو

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۸ ص ۱۱۵ ط بیروت)_

۷۲

بہترین جزادے ، حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: خدا تم کو بھی جزائے خیر عنایت فرمائے(۱)

حضرت علیعليه‌السلام سے منقول ہے : میں خندق کھودنے میںآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھا حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کچھ روٹیاں لیکر آئیں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ جناب فاطمہ نے عرض کیا کچھ روٹیاں میں نے حسن و حسین کیلئے پکائی تھیں ان میں سے کچھ آپ کیلئے لائی ہوں _ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تین دن سے تیرے باپ نے کچھ نہیں کھایا ہے تین دن کے بعد آج پہلی بار میں کھانا کھارہاہوں_

خندق کھودنے میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہیں اور انہیں کی طرح بھوک کی سختی بھی برداشت کررہے ہیں _

دشمنوں کے ساتھ آپکا برتاو

جنگ کے وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عملی سیرت اور سپاہیوں کو جنگ کیلئے روانہ کرتے وقت اور دشمن سے مقابلہ کے وقت کی ساری باتیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بلندی روح اور وحی الہی سے ماخوذ ہونے کا پتہ دیتی تھیںنیز وہ باتیں بڑی سبق آموز ہیں_

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب چاہتے تھے کہ لشکر کو روانہ فرمائیں تو سپاہیوں کو اپنے پاس بلاکر نصیحت کرتے اور فرماتے تھے: خدا کا نام لیکر روانہ ہو

___________________

۱) (بحارالانوار ج۲۲ / ص۵۰۸)_

۲) ( حیات القلوب ج ۲ ص ۱۱۹)_

۷۳

اور اس سے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو اللہ کیلئے جہاد کرو اے لوگو امت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مکر نہ کرنا، مال غنیمت میں چوری نہ کرنا ، کفار کو مثلہ نہ کرنا ، (ا ن کو قتل کرنے کے بعد ان کے کان ناک اور دوسرے اعضاء کو نہ کاٹنا) بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا ، جب راہب اپنے غاروں یا عبادتگاہوں میں ہیں ان کو قتل نہ کرنا، درختوں کو جڑ سے نہ اکھاڑنا، مگر مجبوری کی حالت میں ، نخلستانوں کو آگ نہ لگادینا، یا انہیں پانی میں عرق نہ کرنا، میوہ دار درختوں کو نہ توڑنا، کھیتوں کو نہ جلانا، اسلئے کہ ممکن ہے تم کو ان کی ضرورت پڑجائے ، حلال جانوروں کو نابود نہ کردینا، مگر یہ کہ تمہاری غذا کیلئے ان کو ذبح کرنا ضروری ہو جائے ، ہرگز ہرگز مشرکوں کے پانی کو خراب نہ کرنا حیلہ اور خیانت سے کام نہ لینا دشمن پر شبیخون نہ مرنا_

مسلمانوں میں سے چھوٹا یا بڑا کوئی بھی اگر مشرکین کو پناہ دیدے تو اسکو پناہ حاصل ہے، یہاں تک کہ وہ کلام خدا کو سنے اور تم اس کے سامنے اسلام پیش کرو اگر اس نے قبول کیا تو وہ تمہارا دینی بھائی ہے اور اگر اس نے قبول نہیں کیا تو اسکو اس کے ہرامن ٹھکانے تک پہونچادو_

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۹ ص۱۷۹ ، ۱۷۸،۱۷۷)_

۷۴

خلاصہ درس

۱) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سماجی برتاو میں جو اخلاقی اصول نظر آتے ہیں وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت اور مہربانی کا مظہر ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہرومحبت کا سایہ اس قدر وسیع تھا کہ گنہگاروں کے سروں پر بھی تھا_

۲) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مظہر حق و عدالت تھے، دوسروں کے حقوق کا حد درجہ احترام فرماتے تھے چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاشرتی روابط و برتا اور اصول اخلاق میں سے ایک چیز یہی تھی_

۳)رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حاکم اسلام تھے اور مسلمانوں کے بیت المال کی حفاظت کی بڑی ذمہ داری بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی پر عاءد ہوتی تھی کیونکہ بیت المال میں معاشرہ کے تمام افراد شریک ہیں اسکو بے جا خرچ ہونے سے بچانا لازمی ہے اس سلسلہ میںآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا رویہ بڑا سبق آموز ہے _

۴ ) حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنا ان کے مشکلات کو حل کرنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت اور اخلاقی خصوصیات کا جزء تھا پھر بھی خاص موقع پر افراد یا معاشرہ کی عمومی مصلحتوں کے تقاضہ کی بناپر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں میں بے نیازی کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے تھے_

۵)پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر میدان میں سب سے آگے تھے لوگوں کی خوشی اور غم میں شریک تھے دوسروں کے ساتھ کوشش میں شامل رہتے اور مشکلات نیز سختیوں کو اپنی جان پر

جھیل جاتے تھے_

۶) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگ میں حاضر ہوتے وقت کی سیرت عملی یا لشکر کو روانہ کرتے وقت کے احکام اور دشمنوں کے ساتھ سلوک کا جو حکم صادر فرماتے تھے ان کو دیکھنے سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بلند روح کا اندازہ ہوتاہے اور یہ پتہ چلتاہے کہ ان تمام باتوں کا تعلق وحی الہی سے ہے _ نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے سبق آموز رویہ کا بھی اسی سے اندازہ ہوجاتاہے_

۷۵

سوالات :

۱_ اپنے اہل و عیال اور خاندان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے بارے میں حضرت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول بیان فرمایئے

۲_ اپنے ماتحتوں کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا سلوک تھا اسکا ایک نمونہ پیش کیجئے؟

۳_ اسیروں اور گناہ گاروں کےساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا سلوک تھا؟ اختصار سے بیان فرمایئے

۴ _ بیت المال کے سلسلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا رویہ تھا؟

۵ _ حاجت مندوں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا سلوک تھا تفصیل کے ساتھ تحریر فرمایئے

۶ _جنگوں (غزوات و سرایا) میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کیا سیرت رہی ہے ؟ تفصیل کے ساتھ بیان کیجئے؟

۷۶

پانچواں سبق:

(عہد کا پورا کرنا)

انسان کی زندگی سماجی زندگی ہے اور سماجی زندگی اپنی نوع کے افراد سے روابطہ رکھنے پر مجبور کرتی ہے _ سماجی زندگی عہد و پیمان کا سرچشمہ ہے اور عہد وپیمان کی رعایت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اس کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ بغیر اس کے سماجی امن و امان ختم ہوجاتاہے اور صلح وصفائی کی جگہ جنگ و جدال لے لیتے ہیں _

اسلام، جس میں بہت بنیادی اور مضبوط سماجی قوانین موجود ہیں اس نے اس اہم اور زندگی ساز اصول کو فراموش نہیں کیا ہے بلکہ اس نے مختلف اوقات میں الگ الگ عنوانات کے ساتھ مسلمانوں کو اس کی رعایت اور تحفظ کی تلقین کی ہے _

قرآن کریم جو کہ اسلام کی زندہ سند ہے وہ عہد و پیمان کے ساتھ وفاداری کو لازم سمجھتاہے اور مؤمنین کو اس رعایت کرنے کی تلقین کرتاہے_

ارشاد ہوتاہے:

۷۷

( یا ایها الذین آمنوا اوفوا بالعقود )

(اے مؤمنین تم نے جو پیمان باندھا ہو اس کے وفادار رہو )(۱)

دوسری جگہ انسانوں کو قرار داد کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ارشاد ہوتاہے:

( واوفوا بالعهد ان العهد کان مسؤلا ) (۲)

اپنے عہد و پیمان کو پورا کرو بیشک عہد و پیمان کے بارے میں سوال کیا جائیگا_

خداکی طرف سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تعارف بہترین نمونہ کے طور پر کرایا گیاہے انہوں نے زندگی کی اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا ہے عہد کو پورا کرنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایمان کا جزء سمجھتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب اور پیروکاروں سے عہد و پیمان کی رعایت کرنے کے سلسلہ میں فرمایا:

اقربکم منی غدا فی الموقف اوفاکم بالعهد (۳)

کل قیامت میں تم میں سے وہ مجھ سے زیادہ قریب ہوگا جو اپنی عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ باوفا ہو_

عہد و پیمان کو پورا کرنے کی اہمیت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک اتنی تھی کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''لا دین لمن لا عهد له'' (۴)

___________________

۱) (سورہ ماءدہ آیت ۱)_

۲) ( سورہ الاسراء آیت ۳۴)_

۳) (بحارالانوار ج۷۷ ص ۱۵۲)_

۴) (بحارالانوارج۷۵ ص ۹۲ حدیث ۲۰)_

۷۸

جو عہد و پیمان کی وفاداری نہ کرے وہ دیندار نہیں ہے_

دوسری جگہ فرمایا:

''من کان یوم بالله والیوم الاخرفلیف اذا وعد'' (۲)

جو خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتاہے اسے وعدہ وفا کرنا چاہیئے_

حضرت امیر المؤمنین علیعليه‌السلام نے بھی مالک اشتر کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: '' ایسا نہ ہو کہ کبھی کسی سے وعدہ کرو اور اس کے خلاف عمل کرو بیشک وعدہ کی خلاف ورزی انسان کو خدا اور بندوں کے نزدیک رسوا کرتی ہے _(۳)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عہد و پیمان

وعدہ پورا کرنے میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بڑا بلند مقام و مرتبہ تھا چاہے وہ بعثت سے پہلے کا زمانہ ہو یا بعثت کے بعد کا ، چاہے وہ زمانہ ہو جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب اور اپنے پیروکاروں کے ساتھ عہد کیا ہو یا وہ وقت جب آپ نے کفار اور دشمنان اسلام کے ساتھ کسی قرار داد کو قبول فرمایا ہو ، تمام جگہوں پر آپ اس وقت تک اس عہد و پیمان پر ڈٹے رہتے تھے جب تک مد مقابل نے پیمان شکنی نہ کی ہاں اگر در مقابل عہد شکنی کرتا تو اس صورت عہد پھر دونوں طرف سے ٹوٹ جاتا_ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عہد و پیمان دو قسم کے تھے:

___________________

۱) (اصول کافی ج۴ ص ۶۹)_

۲) (بحارالانوار ج۷۵ ص ۹۶)_

۷۹

۱) آپکے ذاتی اور شخصی عہد و پیمان کہ جنکا صرف آپکی ذات سے تعلق تھا مسلمانوں کے معاشرہ سے اسکا کوئی تعلق نہ تھا _

۲) آپکے اجتماعی معاہدے اور سیاسی قرار دادیں کہ ایک طرف آپ اسلام کے رہبر کے عنوان سے تھے اور دوسری طرف مسلمان یا مکہ کے مشرکین یا مدینہ کفار اور یہودی تھے_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذاتی عہد ویمان

آپکیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندگی میں معمولی اسی دقت بھی آپکے پسندیدہ اخلاق اور شاءستہ رفتار سے آشنا کروانے کیلئے کافی ہے_

عبداللہ ابن ابی الحمساء کہتے تھے کہ رسالت پر مبعوث ہونے سے پہلے میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معاملہ کیا تھا، میں ذرا قرضدار ہوگیا تھا_ میں نے آپ سے وعدہ کیا کہ آپ اسی جگہ ٹھہریں میں آجاؤںگا لیکن اس دن اور اسکے دوسرے دن میں بھول گیا تیسرے دن جب میں وہاں پہنچا تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اسی جگہ منتظر پایا میں نے کہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابھی تک اسی جگہ ہیں آپ نے فرمایا جس وقت سے میں نے تم سے وعدہ کیا ہے میں اسی جگہ تمہارا انتظار کررہاہوں_(۱)

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۷ ص ۲۵۱)_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311