رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر18%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 202791 / ڈاؤنلوڈ: 5565
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

حاتم کی بیٹی کے ساتھ اس سلوک کا یہ اثر ہوا کہ اپنے قبیلے میں واپس پہنچنے کے بعد اس نے اپنے بھائی '' عدی بن حاتم'' کو تیار کیا کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ایمان لے آئے، عدی اپنی بہن کے سمجھانے پرپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہونچا اور اسلام قبول کرلیا اور پھر صدر اسلام کے نمایاں مسلمانوں، حضرت علیعليه‌السلام کے جان نثاروں اور ان کے پیروکاروںمیں شامل ہوگیا(۱)

بافضیلت اسیر

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا کہ :پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کچھ اسیر لائے گئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک کے علاوہ سارے اسیروں کو قتل کرنے کا حکم دیدیا اس شخص نے کہا : کہ ان لوگوں میں سے صرف مجھ کو آپ نے کیوں آزاد کردیا ؟پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ : '' مجھ کو جبرئیل نے خدا کی طرف سے خبردی کہ تیرے اندر پانچ خصلتیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ جن کو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوست رکھتاہے ۱_ اپنی بیوی اور محرم عورتوں کے بارے میں تیرے اندر بہت زیادہ غیرت ہے ۲_ سخاوت ۳_ حسن اخلاق ۴_ راست گوئی ۵_ شجاعت '' یہ سنتے ہی وہ شخص مسلمان ہوگیا کیسا بہتر اسلام'' _(۲)

___________________

۱) سیرہ ابن ہشام ج۴ ص ۲۲۷_

۲) بحارالانوار ج۱۸ ص ۱۰۸_

۴۱

نیک اقدار کو زندہ کرنا اور وجود میں لانا

اسلام سے پہلے عرب کا معاشرہ قومی تعصب اور جاہلی افکار کا شکار تھا، مادی اقدار جیسے دولت،نسل ، زبان، ، رنگ ، قومیت یہ ساری چیزیں برتری کا معیار شمار کی جاتی رہیں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کی وجہ سے یہ قدریں بدل گئیں اور معنوی فضاءل کے احیاء کا زمانہ آگیا ، قرآن نے متعدد آیتوں میں تقوی، جہاد، شہاد، ہجرت اور علم کو معیار فضیلت قرار دیا ہے _

( الذین آمنوا و هاجروا و جاهدوا فی سبیل الله باموالهم و انفسهم اعظم درجة عندالله و اولءک هم الفائزون ) (۱)

جو لوگ ایمان لائے، وطن سے ہجرت کی اور راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کیا وہ خدا کے نزدیک بلند درجہ رکھتے ہیں اور وہی کامیاب ہیں_

( ان اکرمکم عند الله اتقیکم ) (۲)

تم میں جو سب سے زیادہ تقوی والا ہے وہی خدا کے نزدیک سب سے زیادہ معزز ہے_

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو کہ انسان ساز مکتب کے مبلغ ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امت اسلامی کے اسوہ کے عنوان سے ایسے اخلاقی فضاءل اور معنوی قدر و قیمت رکھنے والوں کی بہت عزت کرتے تھے اور جو لوگ ایمان ، ہجرت اور جہاد میں زیادہ سابقہ رکھتے تھے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک وہ مخصوص احترام کے مالک تھے_

___________________

۱) سورہ توبہ ۲۰_

۲) حجرات ۱۳_

۴۲

رخصت اور استقبال

مشرکین کی ایذاء رسانی کی بناپر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کچھ مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ مکہ سے ہجرت کر جائیں جب '' جعفر بن ابی طالب'' حبشہ کی طرف روانہ ہوئے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھوڑی دور تک ان کے ساتھ ساتھ گئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا فرمائی_ اور جب چند سال بعد وہ اس سرزمین سے واپس پلٹے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بارہ قدم تک ان کے استقبال کیلئے آگے بڑھے آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور چونکہ ان کی حبشہ سے واپسی فتح خیبر کے بعد ہوئی تھی اسلئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ' ' نہیں معلوم کہ میں فتح خیبر کیلئے خوشی مناوں یا جعفر کے واپس آجانے کی خوشی مناوں ''(۱)

انصار کی دلجوئی

فتح مکہ کے بعد کفار سے مسلمانوں کی ایک جنگ ہوئی جس کا نام'' حنین'' تھا اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ملی تھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ حنین کے بعد مال غنیمت تقسیم کرتے وقت مہاجر و انصار میں سے کچھ لوگوں کو کچھ کم حصہ دیا اور مؤلفة القلوبکوکہ جوا بھی نئے مسلمان تھے زیادہ حصہ دیا ، انصار میں سے بعض نوجوان ناراض ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچازاد بھائیوں اور اپنے عزیزوں کو زیادہ چاہتے ہیں اسلئے ان کو زیادہ مال دے رہے ہیں حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے مشرکین کا خون ٹپک رہاہے اور ہمارے ہاتھوں

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۲۳۹_

۴۳

سے سخت کام آسان ہورہے ہیں _ ایک روایت کے مطابق '' سعد بن عبادہ'' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور بولے جو بخشش و عنایت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قباءل عرب اور قریش پرکئے ہیں ، انصار کے اوپر وہ عنایت نہیں ہوئی ہیں اسلئے انصاراس بات پر ناراض ہیں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خیمہ لگانے کا حکم دیا ، خیمہ لگایا گیا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' فقط انصار خیمہ میںآئیں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود علیعليه‌السلام کے ساتھ تشریف فرماہوئے، جب انصار جمع ہوگئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' میں تم لوگوں سے کیا سن رہاہوں کیا یہ باتیں تمہارے لئے مناسب ہیں ؟ ان لوگوں نے کہا کہ یہ باتیں ناتجربہ کار نوجوانوں نے کہی ہیں انصار کے بزرگوں نے یہ باتیں نہیں کہی ہیں ، پھر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان نعمتوں کو شمار کرایا جو خداوند عالم نے حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وجود کے سایہ میں ان کو عطا کی تھیں اس پر انصار نے گریہ کیا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہا تھوں اور پیروں کو بوسہ دے کر کہا : ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کو دوست رکھتے ہیں مال کو دوست نہیں رکھتے ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دنیا سے چلے جانے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جدائی سے ڈرتے ہیں، نہ کہ کم سرمایہ سے،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''زمانہ جاہلیت سے ابھی قریش کا فاصلہ کم ہے ، مقتولین کی مصیبت برداشت کئے ہوئے ابھی تھوڑی دن گذرے ہیں میں نے چاہا کہ ان کی مصیبت ختم کردوں اور ان کے دلوں میں ایمان بھردوں اے انصار کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ اونٹ اور گوسفند لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اپنے گھر واپس جاو بیشک انصار ہمارے راز کے امین ہیں ، اگر تمام لوگ ایک راستے سے جائیں اور انصار دوسرے راستے سے گذریں تو میں اس راستے سے جاؤں گا جس سے انصار جارہے ہیں_ اسلئے کہ انصار

۴۴

ہمارے اندرونی اور ہمارے جسم سے لپٹے ہوئے لباس ہیں اور دوسرے افراد ظاہری لباس کی حیثیت رکھتے ہیں_(۱)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انصار کی عزت و تکریم کی اور چونکہ انہوں نے اسلام کیلئے گذشتہ زمانہ میں جد و جہد کی تھی اور اسلام کی نشر و اشاعت کے راستہ میں فداکاری کا ثبوت دیا تھا اس بناپر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو اپنے سے قریب سمجھا اور اس طرح ان کی دلجوئی کی_

جانبازوں کا بدرقہ اور استقبال

سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والی جنگ '' موتہ'' میں لشکر بھیجتے وقت رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشکر تیار کرلینے کے بعد لشکر کے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر بدرقہ کیلئے مدینہ سے ایک فرسخ تک تشریف لے گئے_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز ظہران کے ساتھ ادا کی اور لشکر کا سپہ سالار معین فرمایا، سپاہیوں کیلئے دعا کی اس کے بعد '' ثنیة الوداع'' نامی جگہ تک جو مکہ کے قریب ہے ان کے ساتھ ساتھ تشریف لے گئے اور ان کے لئے جنگی احکام صادر فرمائے _(۲)

سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والے غزہ '' ذات السلاسل'' کے بعد جب علیعليه‌السلام جانبازان اسلام کے ساتھ فتح پاکر واپس پلٹے تو اس موقع پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کو فتح

___________________

۱) ناسخ التواریخ ج۳ ص ۱۳۲ ، ۱۳۴_

۲) السیرة الحلی ج۳ ص ۶۸_

۴۵

کی خبر دی اور مدینہ والوں کے ساتھ مدینہ سے تین میل دور جاکر ان کا استقبال کیا ، جب علیعليه‌السلام نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو گھوڑے سے اتر پڑے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی گھوڑے سے اتر پڑے علیعليه‌السلام کی پیشانی کو بوسہ دیا ان کے چہرہ سے گردو غبار صاف کیا اور فرمایا: الحمدللہ یا علی الذین شد بک ازری و قوی بک ظہری ، اے علی خدا کی حمد ہے کہ اس نے تمہارے ذریعہ سے ہماری کمر مضبوط کی اور تمہارے وسیلہ سے اس نے دشمنوںپر ہمیں قوت بخشی اور مدد کی_(۱)

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فتح خیبر کی خبر دی گئی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت خوش ہوئے اور حضرت علی کے استقبال کو آگے بڑھے ان کو گلے سے لگایا پیشانی کا بوسہ دیا اور فرمایا'' خدا تم سے راضی ہے تمہاری کوشش اور جد و جہد کی خبریں ہم تک پہونچیں ، میں بھی تم سے راضی ہوں '' علیعليه‌السلام کی آنکھیں بھر آئیںپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' اے علی یہ خوشی کے آنسوں ہیں یا غم کے '' ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا خوشی کے اور میں کیوں نہ خوش ہوں کہ آپ مجھ سے راضی ہیں ؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' صرف میں ہی تم سے راضی نہیں ہوں بلکہ خدا، ملاءکہ ،جبرئیل اور میکائیل سب تم سے راضی ہیں_(۲)

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص ۳۵۷)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۲ ص ۲۸۹)_

۴۶

جہاد میں پیشقدمی کرنیوالوں کا اکرام

مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو پہلی جنگ ہوئی وہ ' جنگ بدر '' تھی جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس جنگ میں شرکت کی تھی وہ '' اہل بدر''کے عنوان سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صدر اسلام کے مسلمانوں کے نزدیک خصوصیت کے حامل تھے_

حضرت پیغمبر اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جمعہ کے دن '' صفہ'' پر بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کی کثرت کی وجہ سے جگہ کم تھی ( رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مہاجرین و انصار میں سے '' اہل بدر'' کی تکریم کررہے تھے) اسی حال میں اہل بدر میں سے کچھ لوگ منجملہ ان کے ثابت ابن قیس بزم میں وارد ہوئے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے روبرو کھڑے ہوکر فرمایا: السلام علیک ایہا النبی و رحمة اللہ و برکاتہ آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے سلام کا جواب دیا اس کے بعد ثابت نے مسلمانوں کو سلام کیا مسلمانوں نے بھی جواب سلام دیا وہ اسی طرح کھڑے رہے اور رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس جمع ہونے والی بھیڑ کی طرف دیکھتے رہے لیکن ان کو کسی نے جگہ نہیں دی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر یہ بات بہت گراں گذری آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے مہاجرین و انصار میں سے چند افراد سے کہ جو اہل بدر میں سے نہیں تھے کہا : فلاں فلاں تم اٹھو پھر اہل بدر میں سے جتنے لوگ وہاں موجود تھے اتنے ہی دوسرے افراد کو اٹھاکر اہل بدر'' کو بٹھایا یہ بات ان لوگوں کو بری لگی جن کوپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اٹھایا تھا ان کے چہرے پر ناراضگی کے آثار دکھائی دینے لگے ، منافقین میں سے کچھ لوگوں نے مسلمانوں سے کہا کہ کیا تم یہ

۴۷

تصور کرتے ہو کہ تمہارا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عدالت سے کام لیتاہے ، اگر ایسا ہے تو پھر اس جگہ انہوں نے عدالت سے کیوں نہیں کام لیا ؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو اپنی جگہ سے کیوں اٹھا دیا جو پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے اور یہ بھی چاہتے تھے کہ ہم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب رہیں ؟ اور ان افراد کو ان کی جگہ پر کیوں بٹھا دیا جو بعد میں آئے تھے؟ اس وقت آیہ کریمہ نازل ہوئی :

( یا ایها الذین آمنوا اذا قیل لکم تفسحوا فی المجالس فافسحوایفسح الله لکم و اذا قیل انشزوا فانشزوا ) (۱)

اے اہل ایمان جب تم سے کہا جائے کہ اپنی اپنی مجلس میں ایک دوسرے کیلئے جگہ کشادہ کردو تو خدا کا حکم سنو اور جگہ چھوڑ دو تا کہ خدا تہارے (مکان و منزلت) میں وسعت دے اور جب یہ کہا جائے کہ اپنی جگہ سے اٹھ جا و تب بھی حکم خدا کی اطاعت کرو(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اہل بدر کا احترام کرنا اسلامی معاشرہ میں بلند معنوی قدروں کی احیاء اور راہ خدا میں جہاد کے سلسلہ میں پیش قدمی کرنیوالوں کے بلند مقام کا پتہ دیتاہے اسی وجہ سے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کے مطابق صدر اسلام کے مسلمانوں کے درمیان '' اہل بدر'' خاص احترام اور امتیاز کے حامل تھے_

___________________

۱) (مجادلہ ۱۱)_

۲) ( بحار ج۱۷ ص ۲۴)_

۴۸

شہدا ء اور ان کے خاندان کا اکرام

سنہ ۸ ھ میں جنگ '' موتہ'' میں لشکر اسلام کی سپہ سالاری کرتے ہوئے '' جعفر ابن ابی طالب'' نے گھمسان کی جنگ میں اپنے دونوں ہاتھ راہ خدا میں دے دیئے اور زخموں سے چور ہوکر درجہ شہادت پر فائز ہوئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے بلند مرتبہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

''ان الله ابدل جعفرابیدیه جناحین یطیر بهما فی الجنة حیث شاء ''

خداوند عالم نے جعفر کو ان کے دونوںبازوں کے بدلے دو پر عنایت کئے ہیں وہ جنت میں جہاں چاہتے ہیں ان کے سہارے پرواز کرتے چلے جاتے ہیں _

اسی جنگ کے بعد جب لشکراسلام مدینہ واپس آیا تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کے ساتھ ان کے استقبال کو تشریف لے گئے ، ترانہ پڑھنے والے بچوں کا ایک گروہ بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ تھا، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مرکب پر سوار چلے جارہے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : بچوں کو بھی سوار کرلو اور جعفر کے بچوں کو مجھے دیدو پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ' ' عبداللہ بن جعفر '' کو جن کے باپ شہید ہوچکے تھے اپنی سواری پر اپنے آگے بٹھایا_

عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت نے مجھ سے فرمایا: اے عبداللہ میں تم کو تعزیت و مبارکباد پیش کرتاہوں کہ تمہارے والد ملاءکہ کے ساتھ آسمان میں پرواز کررہے ہیں _

___________________

۱) (السیرة الحلبیة ج۲ ص ۶۸)_

۴۹

امام جعفر صادقعليه‌السلام نقل کرتے ہیں کہ جعفر ابن ابی طالب کی شہادت کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے بیٹے اور بیوی '' اسماء بنت عمیس'' کے پاس پہونچے، اسماء بیان فرماتی ہیں کہ جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے گھر میں وارد ہوئے تو اسوقت میں آٹا گوندھ رہی تھی حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے پوچھا تمہارے بچے کہاں ہیں؟ میں اپنے تینوں بیٹوں'' عبداللہ'' ، ''محمد'' اور ''عون'' کو لے آئی ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا اور سینہ سے لگایا آپ ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے جاتے تھے اور آنکھوں سے آنسوں جاری تھے میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ہمارے ماں باپ فدا ہوجائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے بچوں کے ساتھ یتیموں کا سا سلوک کیوں کررہے ہیں کیا جعفر شہید ہوگئے ہیں ؟ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گریہ میں اضافہ ہوگیا ارشاد فرمایا: خدا جعفر پر اپنی رحمت نازل کرے یہ سنتے ہی صدائے نالہ وشیون بلند ہوئی بنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' فاطمہعليه‌السلام '' نے ہمارے رونے کی آواز سنی تو انہوں نے بھی گریہ فرمایا ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر سے باہر نکلے حالت یہ تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے آنسووں پر قابو نہیں پارہے تھے اور یہ فرمایا کہ :'' گریہ کرنے والے جعفر پر گریہ کریں''_

اس کے بعد جناب فاطمہ زہرا سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا: '' جعفر کے اہل و عیال کیلئے کھانا تیار کرو اور ان کے پاس لے جاؤ اسلئے کہ وہ لوگ آہ و فغان میں مشغول سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والے غزہ '' ذات السلاسل'' کے بعد جب علیعليه‌السلام جانبازان اسلام کے ساتھ فتح

___________________

۱) (تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۸۹) _

۵۰

بات سنت قرار پائی خود عبداللہ بن جعفر کے قول کے مطابق '' وہ لوگ تین دن تک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر مہمان رہے _

ہمارے معاشرہ میں آج جو رواج ہے وہ سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برعکس ہے ہم آج دیکھتے ہیں کہ مصیبت زدہ کنبہ کے اقرباء اور رشتہ دار چند دنوں تک عزادار کے گھر مہمان رہتے ہیں ، جبکہ سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زندہ کرنا کرنا ہمارا فریضہ ہے_

ایمان یا دولت

تاریخ میں ہمیشہ یہ دیکھا گیا ہے کہ پیغمبروں کی آواز پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے اور کان دھرنے والے زیادہ تر محروم اور مصیبت زدہ افراد ہی ہوتے تھے دولت مندوں اور مستکبرین نے خدا کے پیغمبروں سے ہمیشہ مقابلہ کیا اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کرتے رہے اگر انھوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ظاہراً ایمان قبول کرلیا تو اسی برتری کے جذبہ کی بناپر دوسروں سے زیادہ امتیاز کے طلبگار رہے اشراف و قباءل عرب کے رئیسوں کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان سے اورفقیر اور محروم مومنین سے مساوی سلوک کیا کرتے تھے بلکہ غلاموں اور ستائے ہوئے محروم افراد پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زیادہ توجہ فرماتے تھے اسلئے کہ ان کے پاس خالص ایمان تھا اور راہ اسلام میں دوسروں سے زیادہ یہ افراد فداکاری کا مظاہرہ کرتے تھے_

۵۱

ایک دن، سلمان، بلال، عمار اور غلاموں اور نادار مسلمانوں کی ایک جماعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھی بزرگان قریش اور نئے مسلمان ہونے والوں میں سے چند افراد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ : یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاش ناداورں اور غلاموں کی اس جماعت کو آپ الگ ہی رکھتے یا ان کو اور ہم لوگوں کو ایک ہی نشست میں جگہ نہ دیتے آخر اس میں حرج ہی کیا ہے جب ہم یہاں سے چلے جاتے تب یہ لوگ آتے ، اس لئے کہ دور و نزدیک کے اشراف عرب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آتے ہیں ہم یہ نہیں چاہتے کہ وہ ہم کو اور ان لوگوں کو ایک ہی نشست میں دیکھیں_

فرشتہ وحی ان کے جواب میں آیت لے کر نازل ہوا :

( و لا تطرد الذین یدعون ربهم بالغداوة و العشی یریدون وجهه ما علیک من حسابهم منشئ و مامن حسابک علیهم من شئ فتطردهم فتکون من الظالمین ) (۱)

جو لوگ صبح و شام خدا کو پکارتے ہیں اور جنکا مقصود خدا ہے ان کو اپنے پاس سے نہ ہٹاؤ اسلئے کہ نہ تو آپ کے ذمہ ان کا حساب اور نہ ان کے ذمہ آپ کا حساب ہے لہذا تم اگر ان خداپرستوں کو اپنے پاس سے بھگادو گے تو ظالمین میں سے ہوجاؤ گے(۲)

___________________

۱) (انعام ۲۵) _

۲) ( ناسخ التواریخ ج۴ ص ۸۳)_

۵۲

اسی آیت کے نازل ہونے کے بعد فقراء مؤمنین پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عنایت اور زیادہ ہوگئی _

ثروت مند شرفاء یا غریب مؤمن

سہل بن سعد سے منقول ہے کہ ایک شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے گذرا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے سوال کیا '' اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے '' لوگوں نے کہا کہ وہ شرفاء میں سے ہے کسی شاءستہ انسان کے یہاں یہ پیغام عقد دے تو لوگ اسکو لڑکی دے دیں گے ، اگر کسی کی سفارش کردے تو لوگ اسے قبول کریں گے ، اگر یہ کوئی بات کہے تو لوگ اسکو سنیں گے ، حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خاموش ہوگئے تھوڑی دیر بعد ایک غریب مسلمان کا ادھر سے گذرہوا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا '' اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے '' لوگوں نے کہا بہتر یہی ہے کہ اگر یہ لڑکی مانگے تو لوگ اسکو لڑکی نہ دیں ، اگر یہ کسی کی سفارش کرے تو اسکی سفارش نہیں سنی جائے، اگر یہ کوئی بات کہے تو اس پر کان نہیں دھرے جائیں گے _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' یہ اس مالدار شخص اور اسی جیسی بھری ہوئی دنیا سے تنہا بہتر ہے_(۱)

___________________

۱) (پیامبر رحمت صدر بلاغی ص ۶۱)_

۵۳

خلاصہ درس

۱)امت اسلام کی رہبری اور الہی پیغام پہونچانے کا منصب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سپرد تھا اس وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مختلف طبقات کے افراد و اقوام سے ملنا پڑتا تھا ان لوگوں کے ساتھ آپکا کردار ساز سلوک توحید کی طرف دعوت کا سبب تھا_

۲)صاحبان فضیلت و کرامت کے ساتھ چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں رسول اکرم اچھے اخلاق اور احترام سے پیش آتے تھے_

۳)جن لوگوں کو اسلام میں سبقت حاصل ہے اوراسلام کی نشرو اشاعت میں جاں نثاری اور کوشش کی ہے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں کا احترام کیا اور ان کو اپنے سے بہت نزدیک جانا_

۴) اسلامی معاشرہ میں معنویت کی اعلی قدروں کے احیاء کیلئے پیش قدمی کرنیوالوں اور راہ خدا میں جہاد کرنے والوں '' اہل بدر'' کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عزت سے پیش آتے اور ان لوگوں کیلئے خاص امتیاز و احترام کے قاءل رہے_

۵) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دولت مندوں سے زیادہ غریب مؤمنین پر لطف و عنایت کی اس لئے کہ یہ خالص ایمان کے حامل تھے اور اسلام کی راہ میں دوسروں کی بہ نسبت زیادہ جاں نثاری کا ثبوت دیتے تھے_

)مؤلفة القلوب ایک وسیع المعنی لفظ ہے جو کہ ضعیف الایمان مسلمانوں کیلئے بھی بولا جاتاہے اور ان کفار کیلئے بھی جن کو اسلام کی طرف بلانا مقصود ہو تا کہ انہیں مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کی ترغیب دی جائے _(۱)

___________________

۱)جواہر الکلام ج۱ ص ۳۴۱ طبع_

۵۴

سوالات :

۱_ مقصد بعثت کے سلسلہ میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول پیش کیجئے؟

۲_ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک اور برتاو کا معاشرہ پر کیا اثر پڑا؟ ایک مثال کے ذریعہ اختصار سے لکھئے؟

۳_مجاہدین '' فی سبیل اللہ '' کے ساتھ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا ؟ اس کے دو نمونے پیش کیجئے؟

۴_ شہداء کے گھر والوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا سلوک کرتے تھے تحریر فرمایئےاور یہ بھی بیان کیجئے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کس عمل کو اپنی سنت قرا ردیا ہے ؟

۵_ امیروں کے مقابل غریبوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک کو بیان کرتے ہوئے ایک مثال پیش کیجئے_

۵۵

چوتھا سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہربانیاں)

محبت اور مہربانی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وہ اخلاقی اصول تھا جوآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاشرتی معاملات میں ظاہر ہوتا تھا_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رحم و عطوفت کا داءرہ اتنا وسیع تھا کہ تمام لوگوں کو اس سے فیض پہنچتارہتا تھا گھر کے نزدیک ترین افرادسے لے کر اصحاب باوفا تک نیز بچے' یتیم ' گناہگار' گمراہ اور دشمنوں کے قیدی افراد تک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحمت کے سایہ میں آجاتے تھے یہ رحمت الہی کا پرتو تھاجو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وجود مقدس میں تجلی کیے ہوئے تھا_

( فبما رحمة من الله لنت لهم ) (۱)

رحمت خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مہربان بنادیا _

گھر والوں سے محبت و مہربانی

جب گھر کا ماحول پیار و محبت اور لطف و عطوفت سے سرشار ہوتاہے تو وہ مستحکم ہوکر

___________________

۱) (آل عمران ۱۵۹/) _

۵۶

بافضیلت نسل کے ارتقاء کا مرکز بن جاتاہے_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر محبت و مہربانی کا خاص اہتمام فرماتے تھے ' گھر کے اندر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ہاتھوں سے کپڑے سیتے ' دروازہ کھولتے بھیڑ اور اونٹنی کا دودھ دوہتے جب کبھی آ پکا خادم تھک جاتا تو خودہی جو یاگیہوں سے آٹا تیار کرلیتے' رات کو سوتے وقت وضو کا پانی اپنے پاس رکھ کر سوتے' گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا کام خود انجام دیتے اور اپنے خاندان کی مشکلوں میں ان کی مدد کرتے(۱)

اسی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''خیر کم خیر کم لاهله و انا خیرکم لاهلی (۲) یا 'خیارکم ' خیر کم لنساءه و انا خیر لکم لنسائی'' (۳)

یعنی تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنے اہل کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور میں تم سے اپنے اہل کے ساتھ اچھا سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہوں یا یہ کہ تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کرے اور میں تم سے اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہوں_

خدمتکار کے ساتھ مہربانی

اپنے ماتحت افراد اور خدمتگاروں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا محبت آمیز سلوک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہربانی کا

___________________

۱) (سنن النبی ص ۷۳)_

۲) (مکارم الاخلاقی ص ۲۱۶)_

۳) (محجة البیضاء ج۳ ص۹۸)_

۵۷

ایک دوسرا رخ ہے ''انس بن مالک'' کہتے ہیں کہ : '' میںنے دس سال تک حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت کی لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے کلمہ '' اف'' تک نہیں فرمایا_ اور یہ بھی کبھی نہیں کہا کہ تم نے فلاں کام کیوں کیا یا فلاں کام کیوں نہیں کیا _ انس کہتے ہیں کہ :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک شربت سے افطار فرماتے تھے اور سحر میں دوسرا شربت نوش فرماتے تھے اور کبھی تو ایسا ہوتا کہ افطار اور سحر کیلئے ایک مشروب سے زیادہ اور کوئی چیز نہیں ہوتی تھی وہ مشروب یا تو دودھ ہوتا تھا یا پھرپانی میں بھیگی ہوئی روٹی ' ایک رات میں نے مشروب تیار کرلیا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے میں دیر ہوئی تو میں نے سوچا کہ اصحاب میں سے کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کردی ہوگی' یہ سوچ کر میں وہ مشروب پی گیا' تھوڑی دیر کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشریف لائے میں نے ایک صحابی سے پوچھا کہ :حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے افطار کرلیا؟کیا کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کی تھی ؟ انھوں نے کہا : نہیں ' اس رات میں صبح تک غم و اندوہ میں ایسا مبتلا رہا کہ خدا ہی جانتا ہے اسلئے کہ ہر آن میں مجھے یہ کھٹکا لگا رہا کہ کہیں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ مشروب مانگ نہ لیں اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مانگ لیں گے تو میں کہاں سے لاوں گا یہاں تک کہ صبح ہوگئی حضرت نے روزہ رکھ لیا لیکن اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مشروب کے بارے میں مجھ سے کبھی کچھ نہیں پوچھا اور اسکا کبھی کوئی ذکر نہیں فرمایا:(۱)

___________________

۱) (منتھی الامال ج ص۱۸ ،مطبوعہ کتابفروشی علمیہ اسلامیہ)_

۵۸

امام زین العابدینعليه‌السلام کا خادم

امام زین العابدینعليه‌السلام نے اپنے غلام کو دو مرتبہ آواز دی لیکن اس نے جواب نہیںدیا،تیسری بار امامعليه‌السلام نے فرمایا: کیا تم میری آواز نہیں سن رہے ہو؟اس نے کہا کیوں نہیں ، آپ نے فرمایا: پھر جواب کیوں نہیں دیتے؟ اس نے کہا کہ چوں کہ کوئی خوف نہیں تھا اسلئے میں نے اپنے کو محفوظ سمجھا، امام نے فرمایا: ''خدا کی حمد ہے کہ میرے غلام اور نوکر مجھ کو ایسا سمجھتے ہیں اور اپنے کو محفوظ محسوس کرتے ہیں اور اپنے دل میں میری طرف سے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے''(۱)

اصحاب سے محبت

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ملت اسلامیہ کے قاءد ہونے کے ناتے توحید پر ایمان لانے والوں اور رسالت کے پروانوں پر خلوص و محبت کی خاص بارش کیا کرتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیشہ اپنے اصحاب کے حالات معلوم کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے اور ان اگر تین دن گزرے میں کسی ایک صحابی کو نہ دیکھتے تو اسکے حالات معلوم کرتے اور اگر یہ خبر ملتی تھی کہ کوئی سفر میں گیا ہوا ہے تو اس کے لئے دعا کرتے تھے اور اگر وہ وطن میں ہوتو ان سے ملاقات کیلئے تشریف لے جاتے_ اگر وہ بیمار ہوتے تو ان کی عیادت کرتے تھے(۲)

___________________

۱) (بحارالانوار ج۴۶ ص ۵۶)_

۲) (سنن النبی ص ۵۱)_

۵۹

جابر پر مہربانی

جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ : میں انیس جنگوںمیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھا ، ایک جنگ میں جاتے وقت میرااونٹ تھک کر بیٹھ گیا،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام لوگوں کے پیچھے تھے، کمزور افراد کو قافلہ تک پہونچاتے اور ان کے لئے دعا فرماتے تھے،حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے نزدیک آئے اور پوچھا : تم کون ہو؟ میں نے کہا میں جابر ہوں میرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فدا ہوجائیں_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا: کیا ہوا؟ میں نے کہا میرا اونٹ تھک گیا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے پوچھا تمھارے پاس عصا ہے میں نے عرض کی جی ہاں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عصا لے کر اونٹ کی پیٹھ پر مارا اور اٹھاکر چلتا کردیا پھر مجھ سے فرمایا : سوار ہوجاؤ جب میں سوار ہوا تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعجاز سے میرا اونٹ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اونٹ سے آگے چل رہا تھا، اس رات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ۲۵ مرتبہ میرے لئے استغفار فرمایا(۱)

بچوں اور یتیموں پر مہربانی

بچہ پاک فطرت اور شفاف دل کا مالک ہوتاہے اس کے دل میں ہر طرح کے بیج کے پھولنے پھلنے کی صلاحیت ہوتی ہے بچہ پر لطف و مہربانی اور اسکی صحیح تربیت اس کے اخلاقی نمو اوراندرونی استعداد کے پھلنے پھولنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے یہ بات ان یتیموں

___________________

۱) (حیواة القلوب ج۲ ص ۱۲۷)

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سوالات :

۱ _ اصحاب نے جب کفار کے بارے میں لعن اور نفرین کی بات کہی تو اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا جواب دیا؟

۲ _ عفو کیونکر انسان کے کمالات کی زمین ہموار کرتاہے؟

۳ _ سب سے بلند اور سب سے بہترین معافی کون سی معافی تھی ؟

۴ _ فتح مکہ کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد بن عبادہ سے کیا فرمایا تھا؟

۵ _ فتح مکہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو عفو اور درگذر کے نمونے پیش کئے ان میں سے ایک نمونہ بیان فرمایئے؟

۱۴۱

دسواں سبق:

(بدزبانی کرنے والوں سے درگزر)

عفو،درگذر، معافی اور چشم پوشی کے حوالے سے رسول اکرم، اور ائمہ اطہار علیہم السلام کا سبق آموز برتاؤ وہاں بھی نظر آتاہے جہاں ان ہستیوں نے ان لوگوں کو معاف فرمادیا کہ جو ان عظیم و کریم ہستیوں کے حضور توہین، جسارت اور بدزبانی کے مرتکب ہوئے تھے، یہ وہ افراد تھے جو ان گستاخوں کو معاف کرکے ان کو شرمندہ کردیتے تھے اور اس طرح ہدایت کا راستہ فراہم ہوجایا کرتا تھا_

اعرابی کا واقعہ

ایک دن ایک اعرابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہونچا اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی چیز مانگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو وہ چیز دینے کے بعد فرمایا کہ : کیا میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا نہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہرگز مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے _ اصحاب کو غصہ

۱۴۲

آگیا وہ آگے بڑھے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو منع کیا ، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور واپس آکر کچھ اور بھی عطا فرمایا اور اس سے پوچھا کہ کیا اب میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احسان کیا ہے خدا آپ کو جزائے خیر دے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : تم نے جو بات میرے اصحاب کہ سامنے کہی تھی ہوسکتاہے کہ اس سے ان کے دل میں تمہاری طرف سے بدگمانی پیدا ہوگئی ہو لہذا اگر تم پسند کرو تو ان کے سامنے چل کر اپنی رضامندی کا اظہار کردو تا کہ ان کے دل میں کوئی بات باقی نہ رہ جائے، وہ اصحاب کے پاس آیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ شخص مجھ سے راضی ہوگیا ہے،کیا ایسا ہی ہے ؟ اس شخص نے کہا جی ہاں خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کو جزائے خیردے، پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میری اور اس شخص کی مثال اس آدمی جیسی ہے جسکی اونٹنی کھل کر بھاگ گئی ہو لوگ اس کا پیچھا کررہے ہوں اور وہ بھاگی جارہی ہو،اونٹنی کا مالک کہے کہ تم لوگ ہٹ جاو مجھے معلوم ہے کہ اس کو کیسے رام کیا جاتا ہے پھر مالک آگے بڑھے اور اس کے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرے اس کے جسم اور چہرہ سے گرد و غبار صاف کرے اور اسکی رسی پکڑلے، اگر کل میں تم کو چھوڑ دیتا تو تم بد زبانی کی بناپر اس کو قتل کردیتے اور یہ جہنم میں چلاجاتا_

___________________

۱)(سفینةا لبحار ج۱ ص۴۱۶)_

۱۴۳

امام حسن مجتبی اورشامی شخص

ایک دن حسن مجتبیعليه‌السلام مدینہ میں چلے جارہے تھے ایک مرد شامی سے ملاقات ہوئی اس نے آپعليه‌السلام کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کیونکہ حاکم شام کے زہریلے پروپیگنڈہ کی بناپر شام کے رہنے والے علیعليه‌السلام اور فرزندان علیعليه‌السلام کے دشمن تھے، اس شخص نے یہ چاہا کہ اپنے دل کے بھڑ اس نکال لے، امامعليه‌السلام خاموش رہے ، وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگیا تو آپعليه‌السلام نے مسکراتے ہوئے کہا '' اے شخص میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور تم میرے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہو ( یعنی تو دشمنوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہے ) لہذا اگر تو مجھ سے میری رضامندے حاصل کرنا چاہے تو میں تجھ سے راضی ہوجاونگا ، اگر کچھ سوال کروگے تو ہم عطا کریں گے ، اگر رہنمائی اور ہدایت کا طالب ہے تو ہم تیری رہنمایی کریں گے _ اگر کسی خدمتگار کی تجھ کو ضرورت ہے تو ہم تیرے لئے اس کا بھی انتظام کریں گے _ اگر تو بھوکا ہوگا تو ہم تجھے سیر کریں گے محتاج لباس ہوگا تو ہم تجھے لباس دیں گے_ محتاج ہوگا تو ہم تجھے بے نیاز کریں گے _ پناہ چاہتے ہو تو ہم پناہ دیں گے _ اگر تیری کوئی بھی حاجت ہو تو ہم تیری حاجت روائی کریں گے _ اگر تو میرے گھر مہمان بننا چاہتاہے تو میں راضی ہوں یہ تیرے لئے بہت ہی اچھا ہوگا اس لئے کہ میرا گھر بہت وسیع ہے اور میرے پاس عزت و دولت سبھی کچھ موجود ہے _

جب اس شامی نے یہ باتیں سنیں تو رونے لگا اور اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ

۱۴۴

آپعليه‌السلام زمیں پر خلیفة اللہ ہیں ، خدا ہی بہتر جانتا ہے اپنی رسالت اور خلافت کو کہاں قرار دے گا _ اس ملاقات سے پہلے آپعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے پدر بزرگوار میرے نزدیک بہت بڑے دشمن تھے اب سب سے زیادہ محبوب آپ ہی حضرات ہیں _

پھروہ امام کے گھر گیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ ہی کا مہمان رہا پھر آپ کے دوستوں اور اہلبیت (علیہم السلام )کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا _(۱)

امام سجادعليه‌السلام اور آپ کا ایک دشمن

منقول ہے کہ ایک شخص نے امام زین العابدینعليه‌السلام کو برا بھلا کہا آپ کو اس نے دشنام دی آپعليه‌السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ، پھر آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے پلٹ کر کہا: آپ لوگوں نے اس شخص کی باتیں سنں ؟ اب آپ ہمارے ساتھ آئیں تا کہ ہمارا بھی جواب سن لیں وہ لوگ آپ کے ساتھ چل دیئے اور جواب کے منتظر رہے _ لیکن انہوں نے دیکھا کہ امامعليه‌السلام راستے میں مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کر رہے ہیں _

( و الکاظمین الغیظ و العافین عن الناس و الله یحب المحسنین ) (۲)

وہ لوگ جو اپنے غصہ کوپی جاتے ہیں; لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے _

___________________

۱) ( منتہی الامال ج ۱ ص ۱۶۲)_

۲) (آل عمران۱۳۴)_

۱۴۵

ان لوگوں نے سمجھا کہ امامعليه‌السلام اس شخص کو معاف کردینا چاہتے ہیں جب اس شخص کے دروازہ پر پہونچے او حضرتعليه‌السلام نے فرمایا : تم اس کو جاکر بتادو علی بن الحسینعليه‌السلام آئے ہیں ، وہ شخص ڈراگیا اور اس نے سمجھا کہ آپعليه‌السلام ان باتوں کا بدلہ لینے آئے ہیں جو باتیں وہ پہلے کہہ کے آیا تھا ، لیکن امامعليه‌السلام نے فرمایا: میرے بھائی تیرے منہ میں جو کچھ ۱آیا تو کہہ کے چلا آیا تو نے جو کچھ کہا تھا اگر وہ باتیں میرے اندر موجود ہیں تو میں خدا سے مغفرت کا طالب ہوں اور اگر نہیں ہیں تو خدا تجھے معاف کرے ، اس شخص نے حضرت کی پیشانی کا بوسہ دیا اور کہا میں نے جو کچھ کہا تھا وہ باتیں آپ میں نہیں ہیں وہ باتیں خود میرے اندر پائی جاتی ہیں _(۱)

ائمہ معصومین (علیہم السلام ) صرف پسندیدہ صفات اور اخلاق کریمہ کی بلندیوں کے مالک نہ تھے بلکہ ان کے مکتب کے پروردہ افراد بھی شرح صدر اور وسعت قلب اور مہربانیوں کا مجسمہ تھے نیز نا واقف اور خود غرض افراد کو معاف کردیا کرتے تھے _

مالک اشتر کی مہربانی اور عفو

جناب مالک اشتر مکتب اسلام کے شاگرد اور حضرت امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے تربیت کردہ تھے اور حضرت علیعليه‌السلام کے لشکر کے سپہ سالار بھی تھے آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ عرب اور عجم میں علیعليه‌السلام کے علاوہ مالک اشتر

___________________

۱) (بحارالانوار ج ۴۶ ص ۵۵) _

۱۴۶

سے بڑھ کر کوئی شجاع نہیں ہے تو اس کی قسم صحیح ہوگی حضرت علیعليه‌السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا : مالک اشتر میرے لئے اس طرح تھا جیسے میں رسول خدا کے لئے تھا _ نیز آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کاش تمہارے در میان مالک اشتر جیسے دو افراد ہوتے بلکہ ان کے جیسا کوئی ایک ہوتا _ایسی بلند شخصیت اور شجاعت کے مالک ہونے کے با وجود آپ کا دل رحم و مروت سے لبریز تھا ایک دن آپ بازار کوفہ سے گذر رہے تھے ، ایک معمولی لباس آپ نے زیب تن کر رکھا تھا اور اسی لباس کی جنس کا ایک ٹکڑا سر پر بندھا ہوا تہا ، بازار کی کسی دو کان پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، جب اس نے مالک کو دیکھا کہ وہ اس حالت میں چلے جارہے ہیں تو اس نے مالک کو بہت ذلیل سمجھا اور بے عزتی کرنے کی غرض سے آپ کی طرف سبزی کا ایک ٹکڑا اچھال دیا، لیکن آپ نے کوئی توجہ نہیں کی اور وہاں سے گزر گئے ایک اور شخص یہ منظر دیکھ رہاتھا وہ مالک کو پہچانتا تھا، اس نے آدمی سے پوچھا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کی توہین کی ہے؟ اس نے کہا نہیں ، اس شخص نے کہا کہ وہ علیعليه‌السلام کے صحابی مالک اشتر ہیں وہ شخص کانپ اٹھا اور تیزی سے مالک کی طرف دوڑا تا کہ آپ تک پہنچ کر معذرت کرے، مالک مسجد میں داخل ہو چکے تھے اور نماز میں مشغول ہوگئے تھے، اس شخص نے مالک کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو اس نے پہلے سلام کیا پھر قدموں کے بوسے لینے لگا، مالک نے اس کا شانہ پکڑ کر اٹھایا اور کہا یہ کیا کررہے ہوا؟ اس شخص نے کہا کہ جو گناہ مجھ سے سرزد ہوچکاہے میں اس کے

۱۴۷

لئے معذرت کررہاہوں، اس لئے کہ میں اب آپ کو پہچان گیا ہوں، مالک نے کہا کوئی بات نہیں تو گناہ گار نہیں ہے اس لئے کہ میں مسجد میں تیری بخشش کی دعا کرنے آیا تھا_(۱)

ظالم سے درگذر

خدا نے ابتدائے خلقت سے انسان میں غیظ و غضب کا مادہ قرار دیا ہے ، جب کوئی دشمن اس پر حملہ کرتاہے یا اس کا کوئی حق ضاءع ہوتاہے یا اس پر ظلم ہوتاہے یا اس کی توہین کی جاتی ہے تو یہ اندرونی طاقت اس کو شخصیت مفاد اور حقوق سے دفاع پر آمادہ کرتی ہے اور یہی قوت خطروں کو برطرف کرتی ہے _

قرآن کا ارشاد ہے :

( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا بمثل ما عتدی علیکم ) (۲)

جو تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس پر اتنی زیادتی کرسکتے ہو جتنی اس نے کی ہے _

قرآن مجید میں قانون قصاص کو بھی انسان اور معاشرہ کی حیات کا ذریعہ قرار دیا گیاہے اور یہ واقعیت پر مبنی ہے _

( و لکم فی القصاص حیوة یا اولی الالباب ) (۳)

اے عقل والو قصاص تمہاری زندگی کی حفاظت کیلئے ہے_

___________________

۱) (منتہی الامال ص ۱۵۵)_

۲) (بقرہ ۱۹۴)_

۳) (بقرہ ۱۷۹) _

۱۴۸

لیکن بلند نگاہیوں اور ہمتوں کے مالکوںکی نظر میں مقابلہ بالمثل اور قصاص سے بڑھ کر جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ آتش غضب کو آپ رحمت سے بجھا دیناہے _

( و ان تعفوااقرب للتقوی ) (۱)

اگر تم معاف کردو تو یہ تقوی سے قریب ہے_

عفو اور درگذر ہر حال میں تقوی سے نزدیک ہے اسلئے کہ جو شخص اپنے مسلم حق سے ہاتھ اٹھالے تو اس کا مرتبہ محرمات سے پرہیز کرنے والوں سے زیادہ بلند ہے(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ان کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار کا ہم کو کچھ اور ہی سلوک نظر آتاہے جن لوگوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں حقوق کو پامال کیا اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا جب وہی افراد ذلیل و رسوا ہوکر نظر لطف و عنایت کے محتاج بن گئے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار نے ان کو معاف کردیا_

امام زین العابدینعليه‌السلام اور ہشام

بیس سال تک ظلم و استبداد کے ساتھ حکومت کرنے کے بعد سنہ ۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان دنیا سے رخصت ہوگیا اس کے بعد اس کا بیٹا ولید تخت خلافت پر بیٹھا اس نے

___________________

۱) (بقرہ ۲۳۷)_

۲) (المیزان ج۲ ص ۲۵۸)_

۱۴۹

لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور عمومی مخالفت کا زور کم کرنے کے لئے حکومت کے اندر کچھ تبدیلی کی ان تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی یہ تھی کہ اس نے مدینہ کے گورنر ہشام بن اسماعیل کو معزول کردیا کہ جس نے اہلبیت (علیہم السلام) پر بڑا ظلم کیا تھا جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ کا حاکم بنا تو اس نے حکم دیا کہ ہشام کو مروان حکم کے گھر کے سامنے لاکر کھڑا کیاجائے تا کہ جو اس کے مظالم کا شکا رہوئے ہیں وہ آئیں اور ان کے مظالم کی تلافی ہوجائے_لوگ گروہ در گروہ آتے اورہشام پر نفرین کرتے تھے اور اسے گالیاں دیتے تھے، ہشام علی بن الحسینعليه‌السلام سے بہت خوفزدہ تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے چونکہ ان کے باپ پر لعن کیا ہے لہذا اسکی سزا قتل سے کم نہیں ہوگی ، لیکن امامعليه‌السلام نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ : یہ شخص اب ضعیف اور کمزور ہوچکاہے اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیفوں کی مدد کرنی چاہئے، امامعليه‌السلام ہشام کے قریب آئے اور آپعليه‌السلام نے اس کو سلام کیا ، مصافحہ فرمایا اور کہا کہ اگر ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم تیار ہیں ، آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ : تم اس کے پاس زیادہ نہ جاو اس لئے کہ تمہیں دیکھ کر اس کو شرم آئے گی ایک روایت کے مطابق امامعليه‌السلام نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس کو آزاد کردو اور ہشام کو چند دنوں کے بعد آزاد کردیا گیا_(۱)

___________________

۱)(بحارالانوار ج۴۶ ص ۹۴)_

۱۵۰

امام رضاعليه‌السلام اور جلودی

جلودی وہ شخص تھا جس کو محمد بن جعفر بن محمد کے قیام کے زمانہ میں مدینہ میں ہارون الرشد کی طرف سے اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ علویوں کی سرکوبی کرے ان کو جہاں دیکھے قتل کردے ، اولاد علیعليه‌السلام کے تمام گھروں کو تاراج کردے اور بنی ہاشم کی عورتوں کے زیورات چھین لے ، اس نے یہ کام انجام بھی دیا جب وہ امام رضاعليه‌السلام کے گھر پہونچا تو اس نے آپعليه‌السلام کے گھر پر حملہ کردیاامامعليه‌السلام نے عورتوں اور بچوں کو گھر میں چھپادیا اور خود دروازہ پر کھڑے ہوگئے، اس نے کہاکہ مجھ کو خلیفہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ عورتوںکے تمام زیورات لے لوں، امام نے فرمایا: میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ میں خود ہی تم کو سب لاکردے دونگا کوئی بھی چیز باقی نہیں رہے گی لیکن جلودی نے امامعليه‌السلام کی بات ماننے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ امامعليه‌السلام نے کئی مرتبہ قسم کھاکر اس سے کہا تو وہ راضی ہوگیا اور وہیں ٹھہرگیا، امامعليه‌السلام گھر کے اندر تشریف لے گئے، آپعليه‌السلام نے سب کچھ یہانتک کہ عورتوں اور بچوں کے لباس نیز جو اثاثہ بھی گھر میں تھا اٹھالائے اور اس کے حوالہ کردیا _

جب مامون نے اپنی خلافت کے زمانہ میں امام رضاعليه‌السلام کو اپنا ولی عہد بنایا تو جلودی مخالفت کرنے والوں میں تھا اور مامون کے حکم سے قید میں ڈال دیا گیا ، ایک دن قیدخانہ سے نکال کر اسکو ایسی بزم میں لایا گیا جہاں امام رضاعليه‌السلام بھی موجود تھے، مامون جلودی کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن امامعليه‌السلام نے کہا : اس کو معاف کردیا جائے، مامون نے کہا : اس نے آپعليه‌السلام پر

۱۵۱

بڑا ظلم کیا ہے _ آپعليه‌السلام نے فرمایا اس کی باوجود اس کو معاف کردیا جائے_

جلودی نے دیکھا کہ امام مامون سے کچھ باتیں کررہے ہیں اس نے سمجھا کہ میرے خلاف کچھ باتیں ہورہی ہیں اور شاید مجھے سزا دینے کی بات ہورہی ہے اس نے مامون کو قسم دیکر کہا کہ امامعليه‌السلام کی بات نہ قبول کی جائے ، مامون نے حکم دیا کہ جلودی کی قسم اور اس کی درخواست کے مطابق اسکو قتل کردیا جائے_(۱)

سازش کرنے والے کی معافی

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ(علیہم السلام) نے ان افراد کو بھی معاف کردیا جنہوں نے آپعليه‌السلام حضرات کے خلاف سازشیں کیں اور آپعليه‌السلام کے قتل کی سازش کی شقی اور سنگدل انسان اپنی غلط فکر کی بدولت اتنا مرجاتاہے کہ وہ حجت خدا کو قتل کرنے کی سازش کرتاہے لیکن جو افراد حقیقی ایمان کے مالک اور لطف و عنایت کے مظہر اعلی ہیں وہ ایسے لوگوں کی منحوس سازشوں کے خبر رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ عفو و بخشش سے پیش آتے ہیں اور قتل سے پہلے قصاص نہیں لیتے البتہ ذہنوں میں اس نکتہ کا رہنا بہت ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہنے ایک طرف تو اپنے ذاتی حقوق کے پیش نظر ان کو معاف کردیا دوسری طرف انہوں نے اپنے علم غیب پر عمل نہیں کیا، ا س لئے کہ علم غیب پر عمل کرنا ان کا فریضہ نہ تھا وہ ظاہر کے

___________________

۱) ( بحارالانوار ج۹ ص ۱۶۷ ، ۱۶۶)_

۱۵۲

مطابق عمل کرنے پر مامور تھے_ لہذا جو لوگ نظام اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں انکا جرم ثابت ہوجانے کے بعد ممکن ہے کہ ان کو معاف نہ کیا جائے یہ چیز اسلامی معاشرہ کی عمومی مصلحت و مفسدہ کی تشخیص پر مبنی ہے اس سلسلہ میں رہبر کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتاہے_

ایک اعرابی کا واقعہ

جنگ خندق سے واپسی کے بعد سنہ ۵ ھ میں ابوسفیان نے ایک دن قریش کے مجمع میں کہا کہ مدینہ جاکر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کون قتل کرسکتاہے؟ کیونکہ وہ مدینہ کے بازاروں میں اکیلے ہی گھومتے رہتے ہیں ، ایک اعرابی نے کہا کہ اگر تم مجھے تیار کردو تو میں اس کام کیلئے حاضر ہوں، ابوسفیان نے اس کو سواری اور اسلحہ دیکر آدھی رات خاموشی کے ساتھ مدینہ روانہ کردیا،اعرابی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھنڈھتاہوا مسجد میں پہنچاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اسکو دیکھا تو کہا کہ یہ مکار شخص اپنے دل میں برا ارادہ رکھتاہے، وہ شخص جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آیا تو اس نے پوچھاکہ تم میں سے فرزند عبدالمطلب کون ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں ہوں، اعرابی آگے بڑھ گیا اسید بن خضیر کھڑے ہوئے اسے پکڑلیا اور اس سے کہا : تم جیسا گستاخ آگے نہیں جاسکتا، جب اسکی تلاشی لی تو اس کے پاس خنجر نکلاوہ اعرابی فریاد کرنے لگا پھر اس نے اسید کے پیروں کا بوسہ دیا _

۱۵۳

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سچ سچ بتادو کہ تم کہاں سے اور کیوں آئے تھے؟ اعرابی نے پہلے امان چاہی پھر سارا ماجرا بیان کردیا،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کے مطابق اسید نے اسکو قید کردیا ، کچھ دنوں بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسکو بلاکر کہا تم جہاں بھی جانا چاہتے ہو چلے جاو لیکن اسلام قبول کرلو تو (تمہارے لئے) بہتر ہے اعرابی ایمان لایا اور اس نے کہا میں تلوار سے نہیں ڈرا لیکن جب میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو مجھ پر ضعف اور خوف طاری ہوگیا، آپ تو میرے ضمیر و ارادہ سے آگاہ ہوگئے حالانکہ ابوسفیان اور میرے علاوہ کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی، کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت حاصل کی اور مکہ واپس چلا گیا _(۱)

اس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو اور درگذر کی بناپر ایک جانی دشمن کیلئے ہدایت کا راستہ پیدا ہوگیا اور وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شامل ہوگیا_

یہودیہ عورت کی مسموم غذا

امام محمد باقرعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ایک یہودی عورت نے ایک گوسفند کی ران کو زہرآلود کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے پیش کیا ، لیکن پیغمبر نے جب کھانا چاہا تو گوسفند نے کلام کی اور کہا اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مسموم ہوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ کھائیں _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے دل میں یہ سوچا تھا کہ

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص۱۵۱)_

۱۵۴

اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ہیں ، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زہر نقصان نہیں کریگا اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر نہیں ہیں تو لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھٹکارا مل جائیگا، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو معاف کردیا _(۱)

علیعليه‌السلام اور ابن ملجم

حضرت علیعليه‌السلام اگرچہ ابن ملجم کے برے ارادہ سے واقف تھے لیکن آپعليه‌السلام نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا اصحاب امیر المؤمنینعليه‌السلام کو اس کی سازش سے کھٹکا تھا انہوں نے عرض کی کہ آپعليه‌السلام ابن ملجم کو پہچانتے ہیں اور آپعليه‌السلام نے ہم کو یہ بتایا بھی ہے کہ وہ آپ کا قاتل ہے پھر اس کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ آپعليه‌السلام نے فرمایا: ابھی اس نے کچھ نہیں کیا ہے میں اسکو کیسے قتل کردوں ؟ ماہ رمضان میں ایک دن علیعليه‌السلام نے منبر سے اسی مہینہ میں اپنے شہید ہوجانے کی خبر دی ابن ملجم بھی اس میں موجود تھا، آپعليه‌السلام کی تقریر ختم ہونے کے بعد آپعليه‌السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے دائیں بائیں ہاتھ میرے پاس ہیں آپعليه‌السلام حکم دےدیجئے کہ میرے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں یا میری گردن اڑادی جائے _

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا: تجھ کو کیسے قتل کردوں حالانکہ ابھی تک تجھ سے کوئی جرم نہیں سرزد ہوا ہے_(۲)

___________________

۱) (حیات القلوب ج۲ ص ۱۲۱)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۱ ص ۲۷۱ ، ۲۶۸)_

۱۵۵

جب ابن ملجم نے آپعليه‌السلام کے سرپر ضربت لگائی تو اسکو گرفتار کرکے آپعليه‌السلام کے پاس لایا گیا آپعليه‌السلام نے فرمایا: میں نے یہ جانتے ہوئے تیرے ساتھ نیکی کہ تو میرا قاتل ہے ، میں چاہتا تھا کہ خدا کی حجت تیرے اوپر تمام ہوجائے پھر اس کے بعد بھی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا_(۱)

سختی

اب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ (علیہم السلام)کے دشمن پر عفو و مہربانی کے نمونے پیش کئے گئے ہیں اور یہ مہربانیاں ایسے موقع پر ہوتی ہیں جب ذاتی حق کو پامال کیا جائے یا ان کی توہین کی جائے اور ان کی شان میں گستاخی کی جائے، مثلا ً فتح مکہ میں کفار قریش کو معاف کردیا گیا حالانکہ انہوں نے مسلمانوں پر بڑا ظلم ڈھایا تھا لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ مومنین کے ولی ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق حاصل ہے ، اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی معاشرہ کی مصلحت کے پیش نظر بہت سے مشرکین کو معاف فرمادیا تو بعض مشرکین کو قتل بھی کیا ، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ معاف کردینے اور درگذر کرنے کی بات ہر مقام پر نہیں ہے اس لئے کہ جہاں احکام الہی کی بات ہو اور حدود الہی سامنے آجائیں اور کوئی شخص اسلامی قوانین کو پامال کرکے مفاسد اور منکرات کا مرتکب ہوجائے یا سماجی حقوق اور مسلمانوں

___________________

۱) (اقتباس از ترجمہ ارشاد مفید رسول محلاتی ص ۱۱)

۱۵۶

کے بیت المال پر حملہ کرنا چاہے کہ جس میں سب کا حق ہے تو وہ معاف کردینے کی جگہ نہیں ہے وہاں تو حق یہ ہے کہ تمام افراد پر قانون کا اجرا ہوجائے چاہے وہ اونچی سطح کے لوگ ہوں یا نیچی سطح کے ، شریف ہوں یا رذیل_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ( والحافظون لحدود الله ) (۱) (حدود و قوانین الہی کے جاری کرنے والے اور انکی محافظت کرنے والے) کے مکمل مصداق ہیں_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی اور حضرت علیعليه‌السلام کے دور حکومت میں ایسے بہت سے نمونے مل جاتے ہیں جن میں آپ حضرات نے احکام الہی کو جاری کرنے میں سختی سے کام لیا ہے معمولی سی ہی چشم پوشی نہیں کی _

مخزومیہ عورت

جناب عائشہ سے منقول ہے کہ ایک مخزومی عورت کسی جرم کی مرتکب ہوئی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اسکا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر ہوا ، اس کے قبیلہ والوں نے اس حد کے جاری ہونے میں اپنی بے عزتی محسوس کی تو انہوں نے اسامہ کو واسطہ بنایا تا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کردہ ان کی سفارش کریں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اسامہ، حدود خدا کے بارے میں تم کو ئی بات نہ کرنا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ میں فرمایا: خدا کی قسم تم سے پہلے کی امتیں اس لئے ہلاک

___________________

۱) (سورہ توبہ ۱۱۲) _

۱۵۷

ہوگئیں کہ ان میں اہل شرف اور بڑے افراد چوری کیا کرتے تھے ان کو چھوڑدیا جاتا تھا اگر کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر حکم خدا کے مطابق حد جاری کرتے تھے ، خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس جرم کی مرکتب ہو تو بھی میرا یہی فیصلہ ہوگا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمائی(۱)

آخرمیں خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ وہ ہم کو رحمة للعالمین کے سچے پیروکاروں میں شامل کرے اور یہ توفیق دے کہ ہم( والذین معه اشداء علی الکفار و رحماء بینهم ) کے مصداق بن جائیں، دشمن کے ساتھ سختی کرنیوالے اور آپس میں مہر و محبت سے پیش آنیوالے قرار پائیں _

___________________

۱) (میزان الحکمہ ج۲ ص ۳۰۸)_

۱۵۸

خلاصہ درس

۱) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کاایک تربیتی درس یہ بھی ہے کہ بدزبانی کے بدلے عفو اور چشم پوشی سے کام لیا جائے_

۲ ) نہ صرف یہ کہ ائمہ معصومین ہی پسندیدہ صفات کی بلندیوں پر فائز تھے بلکہ آپعليه‌السلام کے مکتب اخلاق و معرفت کے تربیت یافتہ افراد بھی شرح صدر اور مہربان دل کے مالک تھے، کہ ناواقف اور خودغرض افراد کے ساتھ مہربانی اور رحم و مروت کا سلوک کیا کرتے تھے_

۳) جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کے اوپر ظلم کیا ان کو بھی ان بزرگ شخصیتوں نے معاف کردیا ، یہ معافی اور درگزر کی بڑی مثال ہے _

۴ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کے عفو کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپ حضرات نے ان لوگوں کو بھی معاف کردیا جن لوگوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تھی_

۵ ) قابل توجہ بات یہ ہے کہ معافی ہر جگہ نہیں ہے اس لئے کہ جب احکام الہی کی بات ہو تو اور حقوق الہی پامال ہونے کی بات ہو اور جو لوگ قوانین الہی کو پامال کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے معافی کو کوئی گنجائشے نہیں ہے بلکہ عدالت یہ ہے کہ تمام افراد کے ساتھ قانون الہی جاری کرنے میں برابر کا سلوک کیا جائے_

۱۵۹

سوالات

۱ _ وہ اعرابی جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ طلب کررہا تھا اس کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا تفصیل سے تحریر کیجئے؟

۲_ امام زین العابدینعليه‌السلام کی جس شخص نے امانت کی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو کب معاف فرمایا؟

۴ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین ( علیہم السلا م) جب سازشوں سے واقف تھے تو انہوں نے سازش کرنیوالوں کو تنبیہ کاکوئی اقدام کیوں نہیں کیا ، مثال کے ذریعہ واضح کیجئے؟

۵ _ جن جگہوں پر قوانین الہی پامال ہورہے ہوں کیاوہاں معاف کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟ مثال کے ذریعہ سمجھایئے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311