رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر12%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 202708 / ڈاؤنلوڈ: 5564
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

معاہدہ کی پابندی کا دوسرا نمونہ '' حلف الفضول'' کا معاہدہ ہے ، یہ وہ معاہدہ ہے جو جاہلیت کے زمانے میں قریش کے کچھ جوانوں نے مظلومین کے حقوق سے دفاع کے لئے کیا تھا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس میں شامل تھے آپ نے صرف بعثت سے پہلے اس معاہدہ پر قاءم رہے بلکہ بعثت کے بعد بھی جب کبھی اسکو یاد کرلیتے تو فرماتے کہ میں اس عہد کو توڑنے پر تیار نہیں ہوں چاہے اس کے بدلے میرے سامنے بہت قیمتی چیز ہی کیوں نہ پیش کی جائے_(۱)

عمار یاسر فرماتے ہیں کہ میں اپنے گوسفند چرا رہا تھا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی گوسفند چرا رہے تھے ایک دن میں نے آپ سے کہا کہ میں نے مقام ''فج'' میں ایک عمدہ چراگاہ دیکھی ہے کیا آپ کل وہاں چلیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، جب میں صبح وہاں پہنچا تو دیکھا کہ آپ پہلے سے موجود ہیں لیکن گوسفند کو چرنے کے لئے چراگاہ میں داخل نہیں ہونے دیا ہے میں نے پوچھا آپ ایسے ہی کیوں کھڑے ہیں ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میں نے تم سے عہد کیا تھا کہ ہم دونوں ملکر گوسفند چرائیں گے _ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ خلاف وعدہ عمل کروں اور اپنے گوسفند کو تم سے پہلے ہی چرالوں _(۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک شخص سے وعدہ کیا کہ جب تک تم آؤگے اسی پتھر کے کنارے تمہارا منتظر رہوں گا_ گرمی بہت زیادہ تھی اصحاب نے

___________________

۱) (سیرہ حلبی ج۲ص ۱۳۱)_

۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص۲۲۴)_

۸۱

فرمایا: اے اللہ کے رسول آپ سایہ میں چلے جائیں اور وہاں اسکا انتظار کریں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں نے اس سے وعدہ کیا ہے میں یہیں رہو نگا اگر وہ نہیں آئیگا تو وعدہ کے خلاف عمل کرے گا _(۱)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس قسم کے سلوک سے اسلام میں وعدہ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے_

اجتماعی معاہدوں کی پابندی

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پہونچنے کے بعد اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایک نئے معاشرہ کی تشکیل کی وجہ سے سماجی معاہدوں کی ضرورت محسوس ہوئی اس لئے کہ قریش جو آپ کے بڑے دشمن تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چین سے رہنے نہیں دیتے تھے دوسری طرف مدینہ کے یہودی کہ جو صاحب کتاب تھے لیکن حق کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے وہ اپنی مخصوص ہٹ دھرمی کی وجہ سے کسی ایسے دین کو ماننے پر تیار نہ تھے جس کو غیر بنی اسرائیل کا کوئی شخص لایا ہو سب سے اہم بات یہ ہے کہحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے لائے ہوئے دین کو عالمی دین سمجھتے تھے اسی لئے صرف مدینہ میں رہنے والے محدود افراد پر اکتفاء نہیں کرسکتے تھے اور یہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ دوسروں سے کوئی سروکار نہ رکھیں ان پہلوؤں کے پیش نظر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عرب کے بعض

___________________

۱) (بحارالانوار ج۹۵/۷۵)_

۸۲

قباءل سے دفاعی معاہدہ کیا اس معاہدہ کی بنیاد پر اگر کوئی کسی پر زیادتی کرتا تو دوسرے کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اس سے اپنا دفاع کرے اور بعض لوگوں کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تھا کہ تم سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا یعنی طرفین میں کوئی بھی کسی پر نہ زیادتی کرے اور نہ اس کے خلاف کوئی اقدام کرے ان میں سے سب سے اہم معاہدے وہ تھے جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کفار قریش اور مدینہ کے یہودیوں سے کئے تھے_

مشرکین سے معاہدوں کی پابندی

سنہ ۶ ھ میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خواب میں دیکھا کہ مسلمانوں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد الحرام میں مناسک حج ادا کررہے ہیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس خواب کو اپنے اصحاب کے سامنے بیان کیا اصحاب نے اسکو نیک فال سمجھا لیکن بعض افراد کو اسکی صحت پر ابھی مکمل اطمینان حاصل نہیں ہوا تھا کہ خدا نے اپنے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خواب کی تعبیر میں آیت نازل کی:

( لقد صدق الله رسوله الروایا بالحق لتدخلن مسجد الحرام ان شاء الله آمنین محلقین رؤسکم مقصرین لا تخافون فعلم مالم تعلموا فجعل من دون ذلک فتحاً قریباً ) (۱)

___________________

۱) (فتح آیت ۲۷)_

۸۳

(بیشک خدا نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خواب کو آشکار کردیا تم لوگ انشاء اللہ بلاخوف و خطر اپنے سروں کے بال منڈواکر اور تقصیر کیے ہوئے مسجد الحرام میں داخل ہوگئے خداوہ جانتاہے جو تم نہیں جانتے اور خدا نے اس ( مکہ میں داخل ہونے ) سے پہلے بہت نزدیک کامیابی (صلح حدیبیہ) قرار دی)

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مسلمان مطمئن ہوگئے کہ وہ بہت جلد نہایت محافظ طریقہ سے خانہ خدا کی زیارت کے لئے جائیں گے _

ماہ ذیقعدہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمرہ کے قصد سے مکہ جانے کا ارادہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام مسلمانوں کو بھی اپنے ہمراہ مکہ چلنے کی دعوت دی چنانچہ ایک جماعت کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ کی جانب روانہ ہوئے راستہ میں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خبردی گئے کہ قریش آپ کی آمد سے واقف ہوگئے ہیں اورانہوں نے اپنے آپ کوجنگ کے لئے تیار کرلیاہے وہ لوگ مقام '' ذی طوی'' میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں اور انہوں نے قسمیں کھائی ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کو مکہ نہیںجانے دیں گے _

چونکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ کے لئے نہیں نکلے تھے بلکہ آپ عمرہ کے ارادہ سے تشریف لائے تھے اسلئے آپ نے ان سے مذاکرہ کیا آپ کے اور ان کے درمیان معاہدہ ہوا جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے اس معاہدہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند امور کو انجام دینے کی پابندی اپنے اوپر عاءد کی ان میں سے مجھ درج ذیل ہے_

۸۴

۱_ قریش میں سے اگر کوئی بھی شخص اپنے بزرگ کی اجازت کے بغیر مکہ سے فرار کرکے اسلام قبول کرلے اور مسلمانوں سے آکر مل جائے تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے قریش کو واپس کردیں گے لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی بھاگ کر قریش سے جاملے تو قریش اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ اسکو واپس کردیں '' جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قریش کے نمآئندہ کے ساتھ یہ معاہدہ کررہے تھے اسی وقت سہیل کا بیٹا '' ابوجندل'' جو مسلمان ہوگیا تھا لیکن اپنے مشرک باپ کی زنجیر میں جکڑا ہوا تھا مکہ سے فرار کرکے آیا اور مسلمانوں کے ساتھ مل گیا سہیل نے جب اسکو دیکھا تو کہا اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ معاہدہ کی پابندی کا پہلا موقع ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ صلح قاءم رہے تو اسکو واپس کردیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول کیا سہیل نے اپنے بیٹے کا گریبان پکڑا اور کھینچتے ہوئے مکہ لے گیا_

ابوجندل نے (نہایت ہی دردناک لہجہ میں ) فریاد کی کہ اے مسلمانو کیا تم اس بات کی اجازت دیتے ہو کہ مجھ کو مشرکین کے حوالہ کیا کردیا جائے اور میں دوبارہ ان کے چنگل میں پھنس جاؤں؟ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے ابوجندل صبر کرو خدا تمہارے اور تم جیسوں کے لئے کشادگی پیدا کریگا ہم نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور اب ہم اپنا عہد و پیمان نہیں توڑسکتے(۱)

___________________

۱) (سیرہ ابن ہشام ج۳ص۳۳۲ _ ۳۳۳)_

۸۵

یہ ایک ہی موقع نہیں تھا کہ جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلح نامہ کی اس شرط کی مطابق عمل کیا تھا کہ جو مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت تھی ، بلکہ جب کوئی مسلمان مشرکین کے چنگل سے چھوٹ کر مسلمانوں سے آملتا تھا اسی وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے ان کے حوالہ کردیتے تھے جیسا کہ ابوبصیر کا واقعہ گواہ ہے_

ابوابصیر ان مسلمانوں میں شامل ہے جو مکہ میں گھرے ہوئے تھے اور صلح حدیبیہ کے بعد وہاں سے فرار کرکے مدینہ آگئے تھے قریش کے نمایان افراد نے ایک خط پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام لکھا اور اس کو ایک شخص کے حوالہ کیا کہ وہ اپنے غلام کے ساتھ مدینہ جاکر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وہ خط پہنچا دے تا کہ قرار داد کے مطابق ابوبصیر کے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے واپس لیکر مکہ لوٹ آئے جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس وہ خط پہونچا تو آپ نے ابوبصیر کو بلایا اور کہا اے ابوبصیر تم کو معلوم ہے کہ ہم نے قریش سے عہد و پیمان کیا ہے اور اس معاہدہ کی مخالفت ہمارے لئے صحیح نہیں ہے خدا تمہارے لئے اور تم جیسوں کیلئے کشادگی پیدا کریگا ابوبصیر نے کہا : اے اللہ کے رسول کیا آپ ہم کو دشمن کے سپرد کردینگے تا کہ وہ ہم کو دین سے برگشتہ کردیں ؟آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے ابوبصیر پلٹ جاؤ خدا تمہارے لئے وسعت پیدا کریگا_

ابوبصیر ان دونوں کے ساتھ مکہ کی طرف چل دیئے جب مقام ''ذوالحلیفہ'' پر پہونچے تو ایک دیوار کے سایہ میں آرام کرنے لگے ابوبصیر نے اس آدمی کی طرف رخ کرکے کہا یہ

تمہاری تلوار بہت تیز ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں ابوبصیر نے کہا کیا میں اسکو دیکھ

۸۶

سکتاہوں اس آدمی نے جواب دیا اگر دیکھنا چاہتے ہو تو دیکھو ابوبصیر نے تلوار اپنے ہاتھ میں لیکر اچانک اس آدمی پر حملہ کرکے اسکو مار ڈالا مقتول کے غلام نے جب یہ ماجرا دیکھا تو ڈر کے مارے مدینہ کی طرف بھاگا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد کے دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ غلام داخل ہوا جب آپ کی نظر اس غلام پر پڑی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ اس نے بڑا ہولناک منظر دیکھا ہے اس کے بعد اس سے پوچھا کہ کیا خبر ہے غلام نے کہا کہ ابوبصیر نے اس آدمی کو قتل کردیا

ذرا دیر بعد ابوبصیر بھی خدمت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں پہونچے اور کہنے لگے یا رسول اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا عہد و پیمان پورا کیا اور مجھ کو ان کے حوالہ کردیا لیکن میں اپنے دین کے بارے میں ڈرگیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اگر اس شخص کے ساتھی موجود ہوتے تو آپ جنگ برپا کردیتے_

ابوبصیر نے دیکھا کہ اگر مدینہ میں رہ گئے تو لوگ پھر پہنچ جائیں گے اور واپسی کا مطالبہ کریں گے اسلئے وہ مدینہ سے نکل کر سواحل دریائے احمر پر پہنچ گئے وہ جگہ ایسی تھی جہاں سے شام جانے والے قریش کے کاروان تجارت گذرتے تھے_

دوسری طرف جب ابوبصیر کی داستان اور ان کی بارے میںرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول کا علم ان سارے مسلمانوں کو ہوا جو مکہ میں پھنسے ہوئے تھے تو وہ کسی طرح سے اپنے کو مشرکین کے چنگل سے چھڑا کر مکہ سے بھاگ کر ابوبصیر تک پہنچے یہاں تک کہ کچھ ہی دنوں میں ابوبصیر سے جاملنے والے مسلمانوں کی تعداد ستر (۷۰) ہوگئی اب وہ لوگ قریش کے قافلہ کیلئے

واقعی خطرہ بن گئے اگر قریش میں سے کوئی مل جاتا تھاتو یہ لوگ اس کو قتل کردیتے تھے اور اگر کوئی قافلہ ادھر سے گذرتا تھا تو اس کے راستہ میں رکاوٹ بنتے یہاں تک کہ قریش نے تھک کررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خط لکھا اور یہ گذارش کی کہ ان کو مدینہ بلالیں اور قریش کو ان کے ہاتھوں اطمینان حاصل ہوجائے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو بلایا اور سب لوگ مدینہ چلے آئے _

ابوجندل اور ابوبصیر کو واپس کردینے کے عمل سے پتہ چلتاہے کہ رسول خدا انسانی بلند قدروں کی اہمیت سمجھتے تھے_

___________________

۱) (سیرہ ابن ہشام ج۱ ص ۳۳۷ ، ۳۳۸)_

۸۷

خلاصہ درس

۱) قرآن کریم اسلام کی زندہ سند ہے وہ معاہدہ کی پابندی کو ضروری سمجھتاہے اور مؤمنین کو اسکی پابندی کی تلقین کرتاہے_

۲)پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدا کی طرف سے بہترین نمونہ کے عنوان سے تعارف کروایا گیاآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی زندگی کی اس بنیادی بات سے صرف نظر نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اسکی پابندی کی تلقین کی ہے_

۳) عہد و پیمان سے وفاداری اور معاہدہ کی پابندی کی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اہل بیت کے نزدیک اتنی اہمیت ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:لا دین لمن لاعهد له '' وہ شخص دین دار نہیں ہے جو معاہدہ کا پابند نہیں ہے _

۴) کلی طور پرا گرپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاہدوں کا جاءزہ لیا جائے تو دو طرح کے معاہدے نظر آتے ہیں_

الف: ذاتی معاہدہ

ب: سماجی معاہدے اور سیاسی قرار دادیں

۵ ) تاریخ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تحقیق سے یہ پتہ چلتاہے کہ آپ کے نزدیک دونوں ہی طرح کے معاہدے محترم تھے اور آپ نے اپنی طرف سے کبھی کوئی معاہدہ نہیں توڑا_

۸۸

سوالات :

۱_ عہدو پیمان کی پابندی کے سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت کے ذریعہ اسلام کا نظریہ بیان کیجئے؟

۲_ عہد و پیمان کی پابندی کی اہمیت کو ایک مثال کے ذریعہ بیان کیجئے؟

۳_پیغمبر اکرم کے کسی ذاتی معاہدہ کا ذکر کیجئے_

۴_ سیاسی معاہدوں میں سے ایک معاہدہ بیان کرتے ہوئے ان معاہدوں کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے طریقہ کو ایک مثال کے ذریعہ بیان کیجئے؟

۵ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کفار قریش کے ساتھ جو معاہدے کئے تھے وہ کس نوعیت کے حامل تھے؟

۸۹

چھٹا سبق:

(یہودیوں کیساتھآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاہدے)

مدینہ وہ شہر تھا کہ جہاں بمدت عرصہ قبلی یہود کے کچھ قباءل نے ہجرت کی اور وہ اس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آمد کے منتظر تھے کہ جسکی توریت نے بشارت دی تھی چونکہ انہوں نے یہ دیکھا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قوم بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں اسلئے ان کی رسالت کو قبول کرنا ان کےلئے مشکل ہوگیا تھا_ لیکن چوں کہ مدینہ میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے باہمی قدیمی اخلاف کو ختم کرکے ایک امت بنادیا تھا اسلئے وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرسکتے تھے لیکن مسلمانوں کے ممکن الوقوع خطرہ سے محفوظ رہنے کیلئے ان میں سے چند سربرآوردہ اشخاص پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے:

اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم آپ کے پاس معاہدہ کرنے کیلئے آئے ہیں اور وہ معاہدہ یہ ہے کہ ہم آپ کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے، آپ کے اصحاب پر حملہ نہیں کریں گے اور آپ کے خلاف کسی بھی گروہ کی مدد نہیں کریں گے _ اسی طرح آپ بھی ہم سے کوئے سروکار نہ

۹۰

رکھیں گے بعد میں دیکھا جائے گا کہ کیا ہوتاہے_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول فرمایا اور جو معاہدہ نامہ لکھا گیا اسمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اضافہ فرمایا کہ اگر یہودیوں نے اس قرار داد کے خلاف عمل کیا تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کا خون بہانے، ان کے مال کو ضبط کرلینے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کرنے میں آزاد ہوں گے _

اس معاہدہ پر تین بزرگ قبیلوں، بنی نضیر، بنی قریظہ اور بنی قینقاع نے دستخط کئے _(۱)

البتہ یہ صرف ایک معاہدہ نہیں تھا جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور یہودیوں کے درمیان ہوا بلکہ دوسرے مواقع پر بھی اس طرح سیاسی اور سماجی معاہدے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور یہودیوں کے درمیان ہوئے ہیں ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان تمام معاہدوں پر ثابت قدم رہے اور یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ آپ نے ایک بار بھی کسی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہو_

معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا برتاو

جس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معاہدوں کے پابند تھے اور اس کو اہمیت دیتے تھے اسی طرح پیمان شکنی سے بیزار بھی تھے اور اس کو ایک ناشاءستہ عمل جانتے تھے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر میں پیمان شکنی کرنیوالا گنہگار اور سزا کا مستحق تھا_

انفرادی معاہدہ میں اگر کسی نے معاہدہ کرکے توڑ دیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بزرگی اور عظمت کے

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۹ ص ۱۱۰ ، ۱۱۱)_

۹۱

خلاف یہ بات تھی کہ آپ اس سے سوال کرتے_ لیکن اجتماعی اور سیاسی معاہدوں میں جس کا تعلق نظام اسلام سے ہوتا تھا ، ان سے کسی طرح کی چشم پوشی کو آپ روا نہیں رکھتے تھے اور اس سے نہایت سختی کا برتاو کرتے تھے اسکا ایک نمونہ وہ رد عمل ہے جس کا اظہار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ کے یہودیوں کے معاہدہ توڑدینے پر فرمایا تھا_

مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کے جو قباءل آباد تھے ان کیلئے تقریبا ہر ایک نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تعرض نہ کرے اور مشترک دفاع کا معاہدہ کیا تھا لیکن ان میں سے ہر گروہ نے بڑے نازک موقع پر اپنا معاہدہ توڑا اور اسلام سے اپنے بغض اور عناد کا مظاہرہ کیا تھا _ ذیل میں ایسی چند مثالوں اور ان عہدشکنی کرنیوالوں کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جو برتاؤ تھا اس کی طرف اشارہ کیا جائیگا_

بنی قینقاع کے یہودیوں کی پیمان شکنی

''بنی قینقاع '' یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جنگ و جدال سے پرہیز کا معاہدہ کیا تھا لیکن ابھی کچھ دن نہ گذرے تھے کہ اسلام کو سرعت کے ساتھ ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے اپنا معاہدہ توڑڈالا ، اس گروہ نے افواہیں پھیلانا اور اسلام کے خلاف غلط قسم کے نعرے لگانا شروع کردیئے _

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی قینقاع کے بازار میں تقریر کی اور انہیں بہت سختی سے خبردار کیا_

۹۲

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلمات سے نصیحت حاصل کرنے کے بجائے بنی قنیقاع کے یہودی جواب دینے پر اتر آئے اور کہنے لگے آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہم کمزور و ناتواں ہیں اور قریش کی طرح جنگ کے رموز سے نا واقف ہیں ؟ آپ اس گروہ سے الجھ پڑے تھے جو جنگ کے اصولوں اور ٹیکنیک سے واقف نہیں تھا لیکن بنی قنیقاع والوں کی طاقت کا آپ کو اس وقت اندازہ ہو گا جب آپ میدان جنگ میں ان سے مقابلہ کیلئے اتریں گے _

ان تیزو تند باتوں نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے حوصلوں کو پست نہیں کیا بلکہ مسلمان تیار ہوگئے کہ کسی مناسب موقعہ پر ان کی رجز خوانی کا جواب دیں ،ایک دن ایک عرب عورت بنی قنیقاع کے بازار میں ایک یہودی سنا رکی دکان پر کچھ سامان بیچ رہی تھی اور اس حوالے سے محتاط تھی کہ کوئی اسکا چہرہ نہ دیکھے مگر بنی قینقاع کے کچھ یہودیوں کو اس کا چہرہ دیکھنے پر اصرار تھا لیکن چونکہ عورت اپنا چہرہ دکھانے پر تیار نہیں تھی اس لئے یہودی سنار نے اس عورت کے دامن کو اس کی پشت پر سی دیا _

تھوڑی دیر کے بعد وہ عورت اٹھی تو اس کے جسم کا کچھ حصہ نمایاں ہوگیا یہ دیکھ کر بنی قنیقاع کے کچھ جوانوں نے اس عورت کا مذاق اڑایا _

بنی قینقاع کا یہ عمل اعلانیہ طور پر پیغمبر سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو توڑ رہا تھا اس عورت کی حالت دیکھ کر ایک مسلمان کو طیش آگیا اس نے فورا اہتھیار نکالا اور اس یہودی سنا ر کو قتل کر ڈالا ، وہاں جو یہودی موجود تھے انہوں نے مل کر اس مسلمان کو بہت بری طرح قتل کیا _

۹۳

ایک مسلمان کے سننے خیز قتل کی خبر دوسرے مسلمانوں کے کان تک پہونچی ، بنی قنیقاع نے جب بگڑی ہوئی حالت دیکھی تو اپنے ان گھروں میں جاچھپے جو مضبوط قلعوں کے در میان بنے ہوئے تھے_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ دشمن کا محاصرہ کیا جائے مسلمانوں نے پندرہ روز تک قلعوں کا محاصرہ کیا اور کسی طرح کی امداد وہاں تک نہ پہونچنے دی _ قلعہ کے یہودی محاصرہ کی بناپر تنگ آگئے اور انہوں نے اپنے کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالہ کردیا_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارادہ تو یہ تھا کہ ان لوگوں کو سخت تنبیہہ کی جائے لکن '' عبداللہ ابی '' کے اصرار پر جو مدینہ کا ایک منافق تھا مگر ظاہرمیں اسلام کا اظہار کیا کرتا تھا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سختی نہیں کی اور یہ طئے پایا کہ یہ لوگ اپنا اسلحہ اوراپنی دولت دیکر جتنی جلدی ہوسکے مدینہ کو ترک کردیں(۱)

۲_ بنی نضیر کے یہودیوں کی پیمان شکنی

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کئے ہوئے معاہدہ کو توڑنے والے '' بنی نضیر'' کے یہودی بھی تھے_

ایک دن ایک مسلمان نے قبیلہ بنی عامر کے ایسے دو آدمیوں کو جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معاہدہ کئے ہوئے تھے قتل کرڈالا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان لوگوں کا خون بہاء ادا کرنے

___________________

۱) ( مغازی واقدی ج۱ ص ۱۷۶ و ۱۷۸)_

۹۴

کے سلسلہ میں بنی نضیر کے یہودیوں سے مدد لینے اپنے چند اصحاب کے ساتھ ان کے یہاں گئے _ انہوں نے ظاہر بظاہر بڑی گرم جوشی سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا استقبال کیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک گھر کی دیوار کے سہارے کھڑے تھے اسی اثنا میں کھانا تناول فرمانے کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بلالیا اسی حال میں '' حی ابن خطب'' جو قبیلہ بنی نضیر کا سردار تھا جس نے بنی نضیر کے یہودیوں کی طرف سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہونے والے معاہدہ پر دستخط کئے تھے، خفیہ طور پر اس نے یہودیوں سے کہا کہ یہ بڑا اچھا موقع ہے آج ان سے چھٹکارا حاصل کرلینا چاہیئے _ آج جتنے کم افراد ان کے ساتھ ہیںاتنے کم افراد تو ان کے ساتھ کبھی بھی نہیں رہے ، ایک آدمی کوٹھے پر چڑھ گیا تا کہ سرپر ایک پتھر گرا کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کام تمام کردے خدا نے یہودیوں کی سازش سے پردہ اٹھادیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کے برے ارادہ سے مطلع کردیا_

اصحاب نے دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی کام سے ایک طرف چلے گئے، اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واپس آنے کے منتظر رہے وہ لوگ بیٹھے رہے مگر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واپس نہیں آئے، وہ لوگ اٹھے کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھونڈھا جائے،اتنے میں ایک شخص وارد ہوا لوگوں نے اس سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں پوچھا اس نے کہا کہ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مدینہ میں دیکھا ہے اصحاب مدینہ پہونچے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چلے آنے کا سبب پوچھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: خدا نے مجھ کو اس سازش سے آگاہ کردیا تھا جو یہودیوں نے میرے خلاف کی تھی اسلئے میں وہاں سے چلا آیا_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ کےلئے نکلنے کا حکم دیا لشکر اسلام نے چھ روز تک بنی نضیر کے گھروں کا محاصرہ کیا چھ روز کے بعد خوف کی وجہ سے ان لوگوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور کہا ہم یہاں

۹۵

سے چلے جانے کے لئے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ہم ہتھیار کے علاوہ اپنے تمام منقولہ سامان اپنے ساتھ لے جائینگے ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی شرط مان لی وہ اپنا تمام سامان حتی کہ دروازہ بھی اکھاڑ کر اونٹوںپر لاد کرلے گئے_(۱)

۳_بنی قریظہ کے یہودیوں کی عہد شکنی

پیمان شکن یہودیوں کے ساتھ رد عمل کے طور پر پیغمبر کا جو برتاؤ ہو تا اس میں شدید ترین برتاو بنی قریظہ کے عہد شکن یہودیوں کے ساتھ روا رکھا _ انہوں نے اس نازک زمانہ میں اپنا معاہدہ توڑا جس زمانہ میں مشرکین قریش نے تمام اسلام مخالف گروہوں سے مل کر بنے ہوئے ایک بڑے لشکر کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کاکام تمام کردینے کے ارادہ سے مدینہ پر حملہ کیا تھا بنی قریظہ کے لوگوں نے مشرکین مکہ کو پیغام بھیج کر دو ہزار کا لشکرمانگا تا کہ مدینہ کو نیست و نابود کردیں اور اندر سے مسلمانوں کو کھوکھلا کردیں_ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان خندق کی حفاظت کررہے تھے ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو افسر اور پانچ سو سپاہیوں کو معین کیا تا کہ شہر کے اندر گشت لگاکر پہرہ دیتے رہیں اور نعرہ تکبیر کی آواز بلند کرکے بنی قریظہ کے حملوں کو روکیں اس طرح صدائے تکبیر کو سن کر عورتوں اور بچوں کی ڈھارس بندھی رہے گی(۲)

___________________

۱) ( سیرہ ابن ہشام ج۳ ص ۱۹۹ _۲۰۰)_

۲) (مغازی واقدی ج۲ ص ۴۶۰)_

۹۶

جب مشرکین احزاب مسلمانوں سے ہارگئے اور بڑی بے عزتی سے میدان چھوڑ کر بھاگے تو پھر بنی قریظہ کے یہودیوں کی بار ی آئی_

ابھی جنگ احزاب کی تھکن اترنے بھی نہ پائی تھی کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی قریظہ کے یہودیوں سے لڑنے کی آواز بلند کی اور لشکر اسلام نے فورا ان کے قلعے کا محاصرہ کرلیا_

بنی قریظہ کے یہودیوں نے جب اپنے کو خطرہ میں گھرا ہوا محسوس کیا تو انہوں نے پہلے تو یہ درخواست کی کہ تمام یہودیوں کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے وہی ان کے ساتھ بھی ہو تا کہ وہ لوگ بھی اپنے قابل انتقال سامان کو لیکر مدینہ سے چلے جائیں لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول نہیں فرمایا اس کے بعد وہ اس بات پر تیار ہوئے کہ ان کے ہم پیمان '' سعد ابن معاذ'' جو فیصلہ کریں گے وہ بلاچون و چرا اس کو قبول کرلینگے پیغمبر نے بھی اس بات کو قبول کرلیا_

سعد ابن معاذ کہ جو تیر لگنے کی وجہ سے زخمی تھے، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب لایا گیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد سے کہا : کہ بنی قریظہ کے یہویوں کے بارے میں فیصلہ کرو_

۹۷

سعد ، جنہوں نے بنی قریظہ کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ عہد و پیمان دیکھا تھا اورجن کے پیش نظر جنگ احزاب میں یہودیوں کی عہد شکنی اور خیانت بھی تھی ، انہوں نے حکم دیا :

۱_ ان کے جنگ کرنے والے مردوں کو قتل کردیا جائے_

۲_ ان کے مال و اسباب کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے_

۳_ ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالیا جائے _(۱)

معاہدہ توڑنا وہ بھی ایسے موقع پر جب فریق مقابل کیلئے وہ معاہدہ زندگی کا مسئلہ ہو اس کی سزا یہی ہوسکتی ہے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس عمل سے بتایا کہ جب کوئی شخص یا کوئی گروہ کسی عہد و پیمان کو نظر انداز کردے تو پھر اس کاکوئی احترام نہیں رہ جاتا اور نہ اس کی کوئی قدر و قیمت باقی رہتی ہے _

___________________

۱) (مغازی واقدی ج ۲ ص ۵۰۲)_

۹۸

خلاصہ درس

۱) مدینہ میں بسنے والے یہودیوں نے ممکنہ خطرہ سے محفوظ رہنے کیلئے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کسی بھی قسم کی چھیڑ خانی نہ کرنے کا معاہدہ کیا _

۲) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جتنے معاہدے کئے ان سب میں ثابت قدم رہے _ کسی بھی معاہدہ کی مخالفت کرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہیں دیکھا گیا _

۳) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سماجی اور سیاسی معاہدہ توڑے جانے کی صورت میں کسی طرح کی چشم پوشی سے کام نہیں لیا اور معاہدہ توڑنے والوں کے ساتھ نہایت سخت برتاو کیا _

۴) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی قینقاع اور بنی نضیر کے ان یہودیوں کو مدینہ سے نکال دیا جنہوں نے امن کے مانہ میں معاہدہ توڑا تھا لیکن بنی قریظہ کے یہودیوں کیساتھ جنہوں نے اسلام کے دشمنوں کی مددکی تھی سخت رویہ اختیار کیا اور سعد بن معاذ کے فیصلہ کے مطابق جنگ کرنے والے مردوں کو قتل کرڈالا ان کے مال کو ضبط کرلیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالایا_

۹۹

سوالات :

۱_ یہودیوں کے قبیلوں نے کس وجہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی _

۲_ یہودیوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کس طرح کا معاہدہ کیا ؟

۳_ یہودیوں کے سربرآوردہ افراد نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جو معاہدہ کیا تھا اسکی شرطیں کیا تھیں ؟

۴_ بنی قینقاع کے یہودیوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا سلوک تھا ؟ اجمالی طور پر بیان کیجئے؟

۵_ بنی قریظہ کے یہودیوں نے دشمنان اسلام میں سے کس سے تعاون کیا ؟ ان کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا مختصر طور پر بیان کیجئے؟

۱۰۰

ساتواں سبق:

(صبرو استقامت)

صبر و استقامت کامیابی کا سرچشمہ اور مشکلات پر غلبہ کاراز ہیں _یہ خدا کے بے شمارو بے حساب اجر کے آب زلال کے چشمہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور ایسی طاقت ہے جس سے تنگ راستوں کو عبور کرنا سہل اور مصیبتوں کا مقابلہ کرنا آسان ہوجاتاہے_

لغت میں صبر کے معنی شکیبائی ، بردباری اور بلا و مصیبت پر شکایات کو ترک کرنے کے ہیں اسی طرح ٹھہرجانے اور ثابت قدم رہنے کا نام استقامت ہے(۱)

صبر کے اصطلاحی معنی :

''ضد الجذع الصبر''و هوثبات النفس و عدم اضطرابها فی الشداءد والمصاءب ،بان تقاوم معهابحیث لاتخرجها عن سعة الصدروماکانت

___________________

۱) (فرہنگ معین مادہ صبر واستقامت)_

۱۰۱

علیه قبل ذلک عن السرور و الطمانینة '' (۱)

صبرگبھراہت کی ضد ہے در اصل صبریعنی مصاءب و شداءد میں نفس کے مطمئن رہنے اور ان کے مقابلہ میں اسطرح ڈٹے رہناہے کہ پیشانی پرشکن تک نہ آنے پائے_

استقامت کے اصطلاحی معنی اس طرح بیان کئے گئے ہیں''و هی الوفاء بالعهود کلها و ملازمه الصراط المستقیم برعایة حدالتوسط فی کل الامور من الطعام والشراب واللباس و فی کل امر دینی و دنیوی'' (۲) تمام معاہدوں سے وفاداری اور ہمیشہ صراط مستقیم کو اس طرح سے اپنائے رہنا کہ کھانے، پینے لباس اور تمام دینی و دنیوی امور میں میانہ روی ہو اس کا نام صبر و استقامت ہے_

خداوند عالم نے صبر کے نتاءج اور اس کی قدر و قیمت بتادینے کے بعد اپنےپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس بات کی خواہش کی ہے کہ وہ بھی دوسرے نبیوں کی طرح صبر اختیار کریں_ ارشاد ہے :

( فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل ) (۳)

آپ بھی اس طرح صبر کریں جس طرح اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا _

( فاصبر ان وعد الله حق ولا یستخفنک الذین لا یوقنون ) (۴)

آپ صبر کریں، بے شک خدا کا وعدہ حق ہے اور وہ لوگ جو یقین کرنے والے نہیں

___________________

۱) (جامع السعادت ج۳ص۲۸۰)_

۲) (تعریفات جرجانی منقول از لغت نامہ دہخدا مادہ صبر)_

۳) (احقاف ۳۵)_

۴) روم ۶۰_

۱۰۲

ہیں وہ آپ کو کمزور متزلزل نہیں کرسکتے_

( واصبر لحکم ربک فانک باعیننا ) (۱)

آپ خدا کے حکم کے مطابق صبر کریں، بے شک آپ ہمارے منظور نظر ہیں_

( فاصبر صبراجمیلاً ) (۲)

آپ صبر جمیل کریں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوسرے اولوالعزم پیغمبروں ہی کی طرح صبر کا حکم ہے اس لئے کہ نبوت کا دشوار گذار راستہ بغیر صبر کے طے کرنا ممکن نہیں ہے _ جیسا کہ دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کہ صبر نصرت خدا ہے اور دشمنوں کی طرف سے جو رسول خدا کو کمزور اور متزلزل قرار دیا جارہے ہے اسکا کوئی اثر نہیں لینا چاہیئے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی تمام مصیبتوں، رسالت کی مشکلوں اور حادثات زندگی میں صبر سے کام لیا اور صراطمستقیم پر ثابت قدمی کے ساتھ آپ نے پیغام الہی کی تبلیغ کے راستہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو ہٹاکر اپنے لئے عبادت اور اطاعت کے پر مشقت راستوں کو ہموار کرکے بشریت کی ہدایت کا راستہ کھول دیا_

___________________

۱) طور ۴۸_

۲) معارج ۵_

۱۰۳

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صابر اور کامیاب

حادثات روزگار کی تیز ہوا ، جانکاہ مصاءب کے گرداب اور سیاہ دل مخالفوں کی تکذیب کے مقابل تمام پیغمبروں کا جو طریقہ تھا اسی کا نام صبر ہے _

( و لقد کذبت رسل من قبلک فصبروا علی ماکذبوا و اوذوا حتی آتاهم نصرنا ) (۱)

بیشک آپ سے پہلے(پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ) جو رسول بھیجے گئے ان کو جھٹلایا گیا ان لوگوں نے جھٹلائے جانے اور اذیت پہونچائے جانے کے بعد صبر کیا یہاں تک کہ ہماری نصرت ان تک پہونچی_

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی تمام پیغمبروںکی طرح اپنی رسالت کی تبلیغ کے لئے پروردگار کی طرف سے صبر پر مامور تھے_

( فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل ) (۲)

صبر کیجئے جیسا کہ اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا _

اس راستہ میں دوسرے تمام پیغمبروں سے زیادہ تکلیفیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اٹھانی پڑیں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود فرماتے ہیں:

( ما اوذی نبی مثل ما اوذیت فی الله ) (۳)

___________________

۱) انعام ۳۴_

۲) احقاف ۳۵_

۳) میزان الحکم ج۱ ص۸۸_

۱۰۴

راہ خدا میں کسی پیغمبر کو اتنی اذیت نہیں پہونچی جتنی اذیت مجھے پہونچنی _

آخر کار آیہ کریمہ( ان مع العسر یسرا ) (۱) (ہر سختی کے بعد آسانی ) کے مطابق رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مکہ کے دن اپنے صبر کے نتاءج و آثار دیکھ لئے وہ دن جس کو قرآن اپنے لفظوں میں اس طرح یاد کرتاہے( اذا جاء نصر الله والفتح و رایت الناس یدخلون فی دین الله افواجا فسبح بحمد ربک و استغفره انه کان توابا ) (۲)

جس دن خدا کی مدد پہونچی اور کامیابی حاصل ہوئی اور آپ نے دیکھا کہ لوگ گروہ در گروہ دین خدامیںداخل ہوئے چلے جارہے ہیں پس آپ حمدکے ساتھ اپنے پروردگار کی تسبیح کیجئے اور اسکی درگاہ میں استغفار کیجئے، بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے _

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صبر کے سایہ میں کامیابی کی منزل تک پہنچے' کعبہ بتوں کی نجاست سے پاک ہوگیا، بت پرستی ختم ہوئی اور پرچم توحید لہرایا، یہ کامیابیاں اس صبر کا نتیجہ تھیں جو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے راہ خدا میں اختیار کیا تھا_

___________________

۱) انشراح ۶_

۲) سورہ النصر_

۱۰۵

مختلف قسم کی بہت سی مخالفتیں اور اذیتیں

کفار و مشرکین نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آزار پہنچانے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے، کبھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ساحرکاذب اور کاہن کہا گیا_زبان کے ذریعہ زخم پہونچاکر آپ کے دل کو تکلیف پہونچائی گئی، کبھی جنگ برپا کرنے، دہشت گردی کے ذریعہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ختم کردینے کیلئے میدان میں لوگ اتر آئے لیکن صابر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی بنائی ہوئی سازش کو نقش بر آپ کردیا اور کامیابی کے ساتھ اپنے الہی فریضہ کو پورا کرتے رہے_

زبانوں کے زخم

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعلیمات کی روشنی مدہم کرنے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت پہچا نے کے لئے مشرکین نے جو شیطانی حربے اختیار کئے ان میں سے ایک حربہ زبان کے ذریعہ زخم لگانا بھی تھا_

قرآن کریم نے مخالفین رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آزار پہچانے والی بعض باتوں کو نقل کیا ہے ارشاد ہے:

( و قال الذین کفروا هل ندلکم علی رجل ینبءکم اذا مزقتم کل ممزق انکم لفی خلق جدید افتری علی الله کذبا ام به جنة ) (۱)

اور کافروں نے (مزاق اڑاتے ہوئے) کہا : کیا تم کو ہم ایسے شخص کا پتہ بنائیں جو یہ

___________________

۱) (سورہ صبا ۸،۷)

۱۰۶

کہتاہے کہ تمہارے مرنے اور جسم کے ذرات کے بکھرجانے کے بعد تم کو زندہ کیا جائیگا کیا یہ شخص جان بوجھ کر خدا پر جھوٹا الزام لگاتاہے یا جنون اسکو اس بات پر مجبور کرتاہے_

( و یقولون اءنا لتارکوا آلهتنا لشاعر مجنون ) (۱)

وہ لوگ کہتے ہیں کہ کیا ہم اپنے خداؤں کو ایک دیوانہ شاعر کے کہنے کی بنا پر چھوڑ دیں_

( فذکر فما انت بنعمت ربک بکاهن و لا مجنون ام یقولون شاعر نتربص به ریب المنون ) (۲)

بس تم یاد کرو کہ تم خدا کے فضل و نعمت سے نہ کاہن ہو اور نہ دیوانہ ہو _یا جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ شاعر ہے تو ہم ان کی موت کے انتظار میں ہیں_

رسول اکرم کے پاس آکر چند مشرکین کے زبان سے ایذاء پہچا نے کے واقعہ کو امیرالمومنینعليه‌السلام نہج البلاغہ میں بیان فرماتے ہیں :

'' اس دن جس دن قریش کا ایک وفد حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا تو میں آپ کے پاس موجود تھا میں نے ان کی گفتگو سنی انہوں نے کہا : اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ ایسی چیز کا دعوی کرتے ہیں جس کا دعوی نہ آپ کے آباء و اجداد نے کیا تھا اور نہ آپ کے خاندان نے اب جو ہم

___________________

۱) (صافات ۳۶)

۲) (طور ۲۹_۳۱)

۱۰۷

کہتے ہیں وہ آپ کر دکھایئےاگر آپ نے وہ کردیا اور ہم نے دیکھ لیا تو ہم سمجھ جائیں گے کہ آپ سچ مچ پیغمبر اور خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور اگر آپ اس کو نہ کرسکے تو ہم یہ سمجھ لیں گے کہ آپ جادوگر اور جھوٹے ہیں _

رسول خدا نے فرمایا : کہو کیا کرنا ہے ؟ انہوں نے کہا ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس درخت کو آپ اپنے پاس بلالیں اور یہ درخت جڑ سے اگھڑ کر آپ کے پاس آجائے حضرت نے فرمایا : خدا ہر کام کی قدرت رکھتا ہے لیکن اگر میں تمہاری یہ خواہش پوری کردوں تو کیا تم ایمان لے آؤگے اور حق کی گواہی دوگے ؟ سب نے کہا ''ہاں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اب تم نے جو کہاہے وہ میں کردکھاتاہوں لیکن مجھ کو اس بات کا اطمینان ہے کہ تم اس کے باوجود اسلام اور سچے قانون کو نہیں قبول کروگے_

ان لوگوں نے جس چیز کی فرمائشے کی تھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ کردکھائی لیکن انہوں نے اپنے کئے ہوئے وعدہ کے خلاف کہا نہیں یہ جادوگر اور چھوٹا ہے ، جادوگری میں یہ کتنا ہوشیار اور تیز ہے (معاذ اللہ)_

ان تکلیف دہ باتوں سے اگر چہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قبلی طور پر رنج ہوا مگر حکم خدا پر عمل کرتے ہوئے صبر کیا اور مخالفین کی غلط باتوں کے جواب میں سوائے حق کے زبان پر کچھ نہ لائے_

___________________

۱) (نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۴)_

۱۰۸

خلاصہ درس

۱) صبر اور استقامت کامیابی کا سرمایہ اور مشکلات پر غلبہ کا راز ہے _

۲) لغت میں صبر کے معنی شکیبائی ، بردباری ، بلا اور شداءد پر شکایت نہ کرنے کے ہیں_ ا ور استقامت کے معنی ثبات قدم کے ہیں _

۳ ) صبر کے اصطلاحی معنی ہیں ، مصیبتوں اور نامناسب حالات میں ثبات نفس، شجاعت اور انکے مقابل یوں ڈٹ جانا کہ سعہ صدر ختم نہ ہو اور سابقہ وقار و خوش حالی زاءل نہ ہو_

۴)پیغمبر اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دوسرے اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبر پر مامور ہونا اس بات کا ظاہر کرتاہے کہ نبوت کا دشوار گذار راستہ بغیر صبر کے ناممکن ہے _

۵ ) دوسرے پیغمبروں کی طرح پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی تبلیغ رسالت میں خدا کی طرف سے صبر پر مامور تھے_ اور اس راستہ میں دوسرے تمام پیغمبروں سے زیادہحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی بھی پیغمبر کو خدا کے راستہ میں میرے جتنی تکلیف نہیں دی گئی _

۶) مشکرین نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت پہونچانے اور ان کی تعلیمات کی اساس کو متزلزل کرنے کیلئے جو حربے استعمال کئے ان میں سے زبان کا زخم بھی تھا_ناروا گفتگواگر چہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دل کو تکلیف پہونچاتی تھی لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے حکم سے صبر کرتے اور مخالفین کی بدزبانی کے جواب میں سوائے حق کے اور کچھ نہیں کہتے تھے_

۱۰۹

سوالات

۱_ صبر کے لغوی اور اصطلاحی معنی تحریر کیجئے؟

۲_ صبر اور استقامت کا رابط بیان کیجئے؟

۳_ استقامت کے لغوی اور اصطلاحی معنی تحریر کیجئے؟

۴_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو صبر کا حکم کیوں دیا گیا تھا؟

۵_ مشرکین کی بدزبانی کے سلسلہ کی ایک آیت کو بیان کرتے ہوئے ان کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برتاؤ کو بیان کیجئے_

۱۱۰

آٹھواں سبق:

(جسمانی اذیت)

زبان کا زخم لگانے کے علاوہ کفار و مشرکین آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کو بہت سی جسمانی اذیتیں پہنچا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو راہ حق سے ہٹا دینا چاہتے تھے ، منقول ہے کہ مشرکین قریش نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بہت ستایا ان میں سب سے بڑا ظالم آپکا چچا ابولہب تھا ایک دن جب پیغمبر حجرے میں تشریف فرماتھے اسوقت مشرکین نے ایک گوسفند کے رحم کو ، جس سے بچہ نکالا جاچکا تھا، چند اوباشوں کے ذریعہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سرپر ڈلو دیا_(۱)

ابولہب نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اتنی اذیت پہنچا کہ خدا کی لعنت اور نفرین کا مستحق قرار دیا سورہ تبت اسکے اور اسکی بیوی (حمالة الحطب _ ام جمیلہ) کے بارے میں نازل ہوا :

( تبت یدا ابی لهب و تب ما اغنی عنه ماله و ما کسب سیصلی نارا ذات لهب و امراءته حمالة الحطب فی جیدها حبل من

___________________

۱) (زندگانی چہاردہ معصوم ترجمہ اعلام الوری ص ۶۴)_

۱۱۱

مسد ) (۱)

ابولہب ( جو ہمیشہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت پہونچا تا تھا ) اسکا ستیاناس ہوا اس کے دونوں ہاتھ قطع ہوگئے اس نے جو مال و اسباب ( اسلام کو مٹانے کیلئے) جمع کیا تھا اس نے ابولہب کو ہلاکت سے نہیں بچایا، وہ جلد ہی جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں پہنچ جائیگا اور اسکی بیوی (ام جمیلہ) دوزخ کا ایندھن بنے گی اس حالت میں کہ (نہایت ذلت کے ساتھ) لیف خرما کی بٹی ہوئے رسیاں اس کی گردن میں ہوں گے _

ابولہب کی بیوی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بہت اذیت پہنچا تی تھی قرآن نے اس کو'' حمالة الحطب'' کے نام سے یاد کیا ہے _

ابن عباس نے قرآن مجید کے بیان کئے ہوئے اس نام کی دلیل میں فرمایا '' وہ لوگوں کے درمیان چغلی کیا کرتی تھی اور دشمنی پیدا کردیتی تھی اس طرح آتش جنگ بھڑک اٹھتی تھی جیسے کہ ایندھن کی آگ بھڑکائی اور جلائی جاتی ہے لہذا اس نمامی ( چغلی) کی صفت کو ایندھن کا نام دے دیا گیا(۲) _

منقول ہے کہ وہ ملعونہ خس و خاشاک اور خاردار جھاڑیاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے راستہ میں ڈال دیتی تھی تا کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز کیلئے نکلیں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیروں سے وہ الجھ جائیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیر زخمی ہوجائیں(۳)

___________________

۱) (سورہ تبت)_

۲) ( مجمع البیان ج ۲۷)_

۳) (مجمع البیان ۲۷)_

۱۱۲

مشرکین کے ستانے اور اذیت پہچانے کے واقعات میں سے ایک واقعہ طاءف میں قبیلہ '' بنی ثقیف'' کا بھی ہے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی سے منقول ہے کہ میں نے عبدیالنیل ، حبیب اور مسعود بن عمران تینوں بھائیوں سے مقالات کی کہ جو قبیلہ بنی ثقیف کے بزرگان میں سے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت دی ان میں سے ایک نے کہا کہ اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ہیں تو میں نے گویا کعبہ کو چرایا ، دوسرے نے کہا کہ کیا خدا عاجز تھا کہ اس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھیج دیا ، اس کو ایسے کو بھیجنا چاہئے تھا جس کے پاس طاقت اور قدرت ہو تیسرے نے کہاخدا کی قسم میں اس کے بعد اب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بات نہیں کروں گا اور پھر اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مذاق اڑایا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو اسلام کی دعوت دی تھی اسے لوگوں میں پھیلا دیا_

۱۱۳

جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم طاءف سے نکلنے لگے تو وہاں کے ذلیل اور اوباش افراد ان تینوں کے بھڑکانے سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے راستے کے دونوں طرف کھڑے ہوگئے اور انہوںنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر پتھر برسائے جسکی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پائے مبارک مجروح ہوگئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حال میں وہاں سے نکلے کر آپ کے پاؤں سے خون جاری تھا_(۱)

مندرجہ ذیل واقعہ بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کمال صبر کا بہترین نمونہ ہے '' منیب ابن مدرک'' نے اپنے جد سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا '' جاہلیت کے زمانے میں '' میں نے رسول خدا کو دیکھا کہ آپ'' یا ایها الناس قولوا لا اله الا الله تفلحوا'' (اے لوگو تم یہ کہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تا کہ تم نجات پاجاؤ) کی تبلیغ کررہے تھے کہ ایک ملعون کافر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ اقدس پر ایک طمانچہ مارا، کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سر اور چہرہ پر خاک ڈالی، کسی نے آپ کو دشنام دیا میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹی بچی ایک پانی کا ظرف لیکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف بڑھی آپ نے اپنا ہاتھ اور چہرہ دھویا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : صبر کرو اور اگر کوئی تمہارے باپ رسول خدا کو رسوا کرے یاستائے تو تم غمگین نہ ہونا _(۲)

میدان جنگ میں صبر کا مظاہرہ

جن جگہوں پر صبر کا بڑا گہرا اثر پڑتاہے ان میں سے ایک میدان جنگ و کارزار بھی ہے _ صدر اسلام کی بہت سی جنگوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس لشکر اور اسلحہ کفار سے کم تھا لیکن خدا کی مدد اور رسول خدا کی فکر سلیم کی بناپر صبر و شکیبائی کے سایہ میں اکثر جنگیں فتح و کامرانی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئیں _ مسلسل پیش آنے والی جنگو ں میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شرکت کی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوصلوں میں کبھی بھی شکست کے آثار نظر نہیں آئے_

جنگ احد ابتدائے اسلام کی صبر آزما اور سخت جنگ تھی جب یہ جنگ اپنے عروج پر تھی اسوقت اصحاب نے فرار کیا کچھ درجہ شہادت پر فائز ہوگئے_چنانچہ چند افراد کے علاوہ اور

___________________

۱) ( حلیة الابرار ج۱ ص ۱۷۷)_

۲) ( میزان الحکمہ ج۹ ص ۶۷۱)_

۱۱۴

کوئی دفاع کرنیوالا نہیں تھا لیکن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صبر و استقامت اور علیعليه‌السلام کی شجاعت نے دشمن کو جنگ سے روک دیا اس جنگ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ اور دہن مبارک سے خون جاری تھا، ابن قمیءہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک تیر مارا جو آپکے ہاتھ پر آکر لگا اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی ، عتبہ ابن ابی وقاص نے ایک ایسی ضربت لگائی جس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دہن اقدس سے خون بہنے لگا عبداللہ ابن ابی شہاب نے زمین سے ایک پتھراٹھاکر آپ کے فرق اطہر پر مارا(۱) حضرت امیر المؤمنینعليه‌السلام پیغمبر کی شجاعت اور صبر کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

جب جنگ اپنے شباب پر ہوتی تھی اوردونوں طرف سے گھمسان کارن پڑتا تھا تو ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پناہ ڈھونڈھتے ہوئے پہنچتے تھے دشمنوں سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جتنا قریب ہوتے تھے اتنا قریب کوئی بھی نہیں ہوتا تھا _(۱)

میدان جنگ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صبر کی بناپر نصرت الہی سایہ فگن رہتی تھی_قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے:

'' ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا ماتین'' (۱)

اگر تم میں سے بیس افراد ایسے ہوں جو صبر کے زیور سے آراستہ ہوں تو دو سو افراد پر غالب آسکتے ہیں _

___________________

۱) ( زندگانی چہاردہ معصوم ص ۱۱۹)_

۲) ( میزان الحکم ج ۹ ص ۶۶۲)_

۳) (انفال۶۵) _

۱۱۵

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی استقامت

استقامت اور پائیداری پسندیدہ صفات ہیں پیغمبر ختمی مرتبت، میں یہ صفتیں بدرجہ اتم موجود تھیں اپنی سخت ذمہ داریوں کو پورا کرنے (شرک او ر کفر کا خاتمہ) اور معاشرہ میں آئین توحید کو راءج کرنے کے سلسلہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدا کی طرف سے ثابت قدم رہنے کا حکم دیا گیا تھا_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ثابت قدم اور اس حکم کی پابندی کا یہ حال تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اندر بڑھاپے کے آثار بہت جلد نظر آنے لگے جب کسی نے آپ سے سوال کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اتنی جلدی کیسے بوڑھے ہوگئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''شیبتنی هود والواقعه ...''

مجھے سورہ ہود اور واقعہ نے بوڑھا کردیا _

ابن عباس بیان فرماتے ہیں( فاستقم کما امرت ) (۱) سے زیادہ سخت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر کسی آیت کا نزول نہیں تھا _

جو سختیاں تبلیغ کی راہ میں انبیاء کرام برداشت کرتے رہے ہیں سورہ ہود کے کچھ مضامین میں ان سختیوں کو بیان کیا گیا ہے اور سورہ واقعہ میں مرنے کے بعد کی دشواریوں کا ذکر ہے اسی لیے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان دونوں سوروں کے مضامین پر بہت زیادہ غور فرمایا کرتے تھے_

___________________

۱) (المیزان ج ۱۱ ص ۶۶)_

۱۱۶

کفار و مشرکین کی سازش، دھمکی اور لالچ کے سامنے جس ثبات قدم کا آپ نے مظاہرہ فرمایا، مندرہ ذیل سطروں میں اس کو بیان کیا جارہاہے_

کفار و مشرکین سے عدم موافقت

مکہ کے کفار و مشرکین نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے موافقت کی بہت کوشش کی لیکن ان کی انتھک کوشش کے باوجود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی ایسا عمل نہیں انجام دیا جس سے آپ کی کمزوری ثابت ہو، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عقاءد کا برملا اظہار کیا اور بتوں یا بت پرستوں کے خلاف جنگ سے کبھی بھی منہ نہیں موڑا_قرآن کریم نے کفار و مشرکین کے نظریہ کو پیش کرتے ہوئے اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :

( فلا تطع المکذبین و ذوالوتدهن فیدهنون ) (۱)

آپ جھٹلانے والوں کا کہنا نہ مانیں وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اگر آپ نرم پڑجائیں تو یہ بھی نرم ہوجائیں_

مشرکین کی ساز باز اور موافقت کی کوشش کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعہ سے لگایا جاسکتاہے_

___________________

۱) (القلم ۸ _ ۹)_

۱۱۷

قبیلہ '' ثقیف'' کا ایک گروہ معاہدہ کرنے کیلئے مدینہ سے مکہ آیا ان لوگوں نے اسلام قبول کرنے کی جو شراءط رکھیں تو اس میں ایک بات یہ بھی تھی کہ ان سے نماز معاف کردی جائے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی اس خواہش کو رد کردیا اور فرمایا'' جس دین میں نماز نہ ہو وہ بیکار ہے'' نیز انہوں نے یہ کہا کہ ان کا بتخانہ تین سال تک برقرار رکھا جائے اور انکے اس بڑے بت کی پرستش کی چھوٹ دی جائے جسکا نام (لات) ہے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ درخواست رد کردی ،آخر میںانہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہم کو خود ہمارے ہی ہاتھوں سے بتوں کے توڑنے کا حکم نہ دیا جائےپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ شرط منظور کرلی اور کچھ لوگوں کو حکم دیا کہ تم ان بتوں کو توڑ دو _(۱)

دھمکی اور لالچ

دھمکی اور لالچ یہ ایسے خوفناک اور ہوس انگیزہتھیار تھے جسے کفار نے انبیاء کرام خصوصاً پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو روکنے کیلئے استعمال کئے_مشرکین مکہ نے جب یہ دیکھ لیا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے عقاءد پر ثابت قدم رہیں گے اور اس کے برملا اظہار سے باز نہیں آئیں گے تو ان لوگوں نے آپ کو ڈرانے اور لالچ دینے کی پلاننگ تیار کی اس غرض سے وہ ایک وفد کی صورت میں جناب ابوطالبعليه‌السلام کی خدمت میں پہنچے اور کہا '' آپ کا بھتیجا،ہمارے

___________________

۱) ( فروغ ابدیت ج۲ ص ۷۹۷ ،۷۹۹)_

۱۱۸

خداؤں کو برا کہتاہے ہمارے قانون کی برائی کرتاہے ہمارے افکار و عقاءد کا مذاق اڑاتا اور ہمارے آباء اور اجداد کو گمراہ سمجھتاہے لہذا تو آپ ان کو اس کام سے روک دیجئے یا انھیں ہمارے سپرد کردیجئے اور ان کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیجئے_(۱)

بعض تاریخوں میں یہ بھی لکھاہے کہ اگر ان کو مال چاہیئے تو ہم مال دینگے اگر کوئی خوبصورت عورت چاہئے تو ہم اس کے لئے حاضر ہیں_ جب ابوطالب نے یہ پیغام رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہنچا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

'' والله لو وضعوا الشمس فی یمینی والقمر فی یساری علی ان اترک هذاالامر حتی یظهره الله او اهلک فیه ، ما ترکته'' (۲)

اگر وہ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لاکر رکھدیں اور کہیں کہ اس کام سے باز آجاوں تو خدا کی قسم میں اس سے باز نہیں آؤنگا، یہاں تک کہ خدا اس دین کو غالب کردے یا میں اس راہ میں قتل کردیا جاؤں_

ابوجہل کی دھمکی

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شدیدترین دشمنوں میں سے ایک ابوجہل بھی تھا اس نے ایک خط کے ذریعہ دھمکی دیتے ہوئے کہا '' تمہارے خیالات نے تمہارے لیے سرزمین مکہ کو تنگ

___________________

۱) (فروغ ابدیت ص ۷۹۷، ۷۹۹)_

۲) (سیرہ ابن ہشام ج۱ از ص ۲۸۳ تا ۲۸۵)_

۱۱۹

کردیا اور تم دربدر ہو کر مدینہ پہنچے جب تک تمہارے ذہن و دماغ میں ایسے خیالات پرورش پاتے رہیں گے اس وقت تک تم اسی طرح دربدر رہوگے اور یہ خیالات تمہیں غلط کاموں پر آمادہ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ تم مدینہ والوں کو بھی فاسد کرڈالوگے اور اس آگ میں مدینہ والے بھی جل جائیں گے جس کے شعلے تم نے بھڑکارکھے ہیں ، میری آنکھوں کے سامنے تمہارا بس یہ نتیجہ ہے کہ قریش تمہارے برپا کئے ہوئے فتنوں کو دبانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے اس کے علاوہ یہ بھی ہوگا کہ کفار مدینہ اور وہ لوگ ان کی مدد کریں گے جن کے دل تمہاری دشمنی سے لبریز ہونگے اگر چہ آج وہ تم سے ڈرکر تمہاری مدد اور پشت پناہی کررہے ہیں لیکن جب وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیںگے کہ تمہارے ہلاک ہونے سے وہ بھی ہلا ک ہوجائیں گے اورا نکے بال بچے تمہارے فقر اور مجبوری سے لاچار اور فقیر ہوجائیں گے تو وہ تمہاری مدد سے ہاتھ اٹھالیں گے_ وہ لوگ یہ جانتے ہیں کہ دشمن تم پر فتحیاب ہونے کے بعد زبردستی ان کی سرزمین میں گھس آئیں گے اور پھر وہ دشمن ، تمہارے دوست اور دشمن میں کوئی امتیاز نہیں کریں گے اور ان سب کو تباہ و برباد کرڈالیں گے ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالیںگے _ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس نے تم کو یہ دھمکی دی ہے وہ حملہ بھی کرسکتاہے اور جس نے بات بڑے واضح انداز میں کہی ہے اس نے پیغام پہچا نے میں کوتاہی نہیں کی (معاذاللہ)

یہ خط آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب پاس اس وقت پہونچا جب بنی اسرائیل کے یہودی مدینہ کے باہر جمع تھے، اس لئے کہ ابوجہل نے اپنے قاصد کو یہ حکم دیا تھا کہ یہ خط

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311