شاہکار رسالت

شاہکار رسالت0%

شاہکار رسالت مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

شاہکار رسالت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیۃ اللہ شہید مطہّری(رہ)
زمرہ جات: مشاہدے: 6012
ڈاؤنلوڈ: 2742

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 10 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6012 / ڈاؤنلوڈ: 2742
سائز سائز سائز
شاہکار رسالت

شاہکار رسالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

انسانی ضروریات

کیا یہ درست ہے کہ انسان کی تمام ضروریات بدلتی رہتی ہے اور ضروریات کے تغیر کے ساتھہ ان سے متعلق قوانین و ضوابط میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے ؟ اس کا جواب یہ کہ نہ تمام انسانی ضروریات حالت تعغیر میں ہوتی ہیں اور نہ ضروریات کے تغیر کا لازمی نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ زندگی کے بنیادی اصول اور ضوابط ہی میں تبدیلی آجائے ۔

ضروریات کی پہلی قسم ضروریات دو طرح کی ہیں :بنیادی ضروریات اور ثانوی ضروریات، بنیادی ضروریات انسان کی جسمانی و روحانی ساخت اور اجتماعی زندگی کے مزاج کی گہرائیوں سے تعلق رکھتی ہیں جب تک انسان اس دنیا میں موجود ہے اور اجتماعی زندگی بسر کررہا ہے اس کی یہ ضروریات باقی رہیں گی ۔یہ ضروریات تین طرح کی ہیں "جسمانی "روحانی اور اجتماعی :

۔ جسمانی ضروریات کا تعلقات خوراک، پوشاک، مسکن اور رفیق حیات سے ہے ۔

۔ روحانی ضروریات کے ذیل میں علم، زیبایش، نیکی، پرستش، احترام و تربیت آتے ہیں اور

۔ معاشرت مبادلہ اشیاء، تعاون، عدالت، آزادی اور مساوات کا تعل قاجتماعی ضروریات سے ہے

ثانوی ضروریات وہ ضروریات ہیں جو بنیادی ضروریات سے پیدا ہوتی ہیں مختلف آلات اور وسائل زندگی کی ضروریات اسی نوع کی بنیادی ضروریات سے پیدا ہوتی ہیں جو زمانہ کے ساتھہ ساتھہ بدلتی ضرورت ہے تو خدا کے ساتھہ انسان کے رابطے یا فطرت کے ساتھہ رہتی ہیں ۔

یہ بنیادی ضروریات ہی جو انسان کو زندگی کی توسیع اور ترقی کی جانب قدم بڑھانے کے آمادہ کرتی ہیں ثانوی ضروریات زندگی کی توسیع و ترقی سے پیدا ہوتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ توسیع و ترقی کے لئے محرک ثابت ہوتی ہیں ۔

ضروریات میں تغیر اور ان کے نئے ہونے اور پرانے ہونے کا تعلق ثانوی ضروریات سے ہے بنیادی ضروریات نہ پرانی ہوتی ہیں اور نہ ختم ہوتی ہین وہ ہمیشہ زندہ اور نئی رہتی ہیں

ثانوی ضروریات کا ایک حصہ بھی ایسا ہی ہے قانون کی ضروریات ثانوی ضروریات کے اسی حصے سے تعلق رکھتی ہے ۔قانون کی ضروریات اجتماعی زندگی کی بنیادی ضرورت کا ایک لازمی لازمی نتیجہ ہے اور اسے بھی دوام اور ہمیشگی حاصل ہے ۔انسان کسی دور میں بھی قانون سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ۔

ضروریات کی دوسرے قسم یہ بات صحیح ہے کہ تمدن کے عوامل میں توسیع نئینئی ضروریات کو سامنے لاتی ہے اور وقتا فوقتا فرعی قوامین ضوابط و معاہدات کا ایک سلسلہ وجود میں آتا رہتا ہے مثلا حمل و نقل کے مشینی وسائل کی بنا پر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ شہروں کے درمیان آمد ورفت کے لئے اور مختلف ممالک کے درمیان سفر اور حمل و نقل کے لئے کچھہ قوانین و ضوابط وضع کئے جائین جبکہ ماضی میں اس طرح کے قوانین اور معاہدوں کی ضرورت نہیں تھی البتہ تمدن کے عوامل میں توسیع حقوقی، تعزیری اور شہری قوانین جن کا تعلق لین دین، وکالتوں، ناجائز قبضوں، ضمانتوں، وراثت، ازدواج اور ایسے ہی دوسرے امور سے ہوتا ہے ۔اگر وہ فی الواقع عدالت اور فطری حقوق پر مبنی ہوں تو انہیں تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔جب یہان سان کے رابطے سے متعلق قوانین کی تبدیلی کا سوال کیسے پیدا ہوگا۔

قانون ضروریات کی تکمیل کا شریفانہ اور عادلانہ طریقہ مقرر کرتا ہے وسائل و آلات ضرورت کی تبدیلی ان کے حصول و استفادہ اور ان کے عادلانہ تبادلے کے طریقے کو تبدیل کرنے کا سبب نہیں بنتی ۔مگر یہ فرض کرلیا جائے کہ زندگی کے اسباب وسائل اور آلات میں تبدیلی آتی ہے اور وہ ترقی و کمال کی صورت اختیار کرتے ہیں تو حق "انصاف اور اخلاق کا مفہوم بھی بدل جاتا ہے ۔دوسرے الفاظ میں ہم کو یہ فرض کرنا پڑے گا کہ حق، عدالت اور اخلاق کے مفاہیم اضافی ہیں ۔ایک چیز اگر کسی زمانے میں حق عدالت اور اخلاق کے ذیل میں آتی ہے تو دوسرے زمانے میں وہ حق، عدالت اور اخلاق کے خلاف مسجھی جاتی ہے ۔

ہمارے دور میں اس مفروضے کا بڑا چرچا ہے لیکن اس سلسلہ بیان مین اس مسئلہ پر بحث کی زیادہ گنجائش نہیں ہے یہاں ہم صرف یہ کہیں گے کہ اس مفروضے کا سبب حق، عدالت اور اخلاق کے حقیقی مفہوم سے ناواقیفیت ہے ۔حق عدالت اور اخلاق کے ذیل میں جو چیز تغیر پذیر ہے وہ ان کا نفاذ اور ان کی عملی صورت ہے نہ کہ ان کی حقیقت و ماہیت ۔اگرکوئی آئیں و دستور حقوق اور فطرت کی بنیادس پر بنایا گیا ہو تو وہ ایک زندہ انقلابی قوت سے بہرہمند ہوگا وہ زندگی کی اس شکل و سورت سے بحث کرنے کی بجائے جس کا تعلق بظاہر تمدن سے ہے، زندگی کے لئے اصلی اور حقیقی خطاط کھیچے گا ۔وہ نہ صرف زندگی کے تغیرات سے ہم آہنگ ہوگا بلکہ ان کی رہنمائی کرے گا۔نئی نئی ضروریات اور قوانین کے درمیان تضاد اس وقت پیدا ہوتا ہے جبکہ قانون حرکت و عمل کی راہ متعین کرنے کے بجائے زندگی کی ظاہری شکل و صورت پر توجہ دے مثلا مخصوص آلات اور وسائل کو جن کا تعلق سارے کا سارا تہذیب و تمدن کے مراحل سے ہوتا ہے انہیں ہمیشہ ایک ہی صورت میں رکھنا چاہئے ۔

اگر قانون یہ چاہے کہ ہمیشہ تحریری کام ہاتھ ہی سے کیا جائے گھوڑے اور خچر ہی سواری کاکام لیا جائے اور روشنی کے لئے مٹی کے تیل کی قندیل ہی استعمال کی جائے اور صرف وہی کپڑا پہنا جائے جو ہاتھہ سے بنایاجاتا ہے ۔اس طرح کا قانون علم و تمدن کی توسیع اور اس سے پیدا ہونے والی احتیاجات سے جنگ کرتا ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جبر تاریخ، اس قانون کو بدل کر رکھ دے گا ۔

قانون جس قدر جزئی اور مادی ہوگا یعنی مخصوص مواد و رنگ اور مخصوص صورتوں کا حامل ہوگا، اس کے بقاء و دوام کے امکانات کم ہی ہوں گے ۔اس کے بر عکس قانون جس قدر کلی اور معنوی ہوگا اور اشیاء کی ظاہری صورتوں پر توجہ دینے کی بجائے اشیاء کے درمیان یا اشخاص کے مابین روابط پر توجہ دے گا اس کے بقاء و دوام کے امکانات زیادہ ہوں گے ۔

زمانے کے تقاضے

زمانے کے تقاضے، یعنی ماحول معاشرے اور زندگی کے تقاضے، انسان عقل، ایجاد و اختیار کی قوت سے لیس ہے اور بہتر زندگی کی خواہش رکھتا ہے، اس لیے وہ اپنی اقتصادی، اجتماعی، اور معنوی ضروریات رفع کرنے کے لیے بہتر سے بہتر افکار و نظریات اور عوامل و وسائل کو کار زار حیات میں لانے کی کوشش کرتا ہے، بہتر اور کامل تر وسائل و عوامل کی زندگی میں آمد خود بخود پرانے اور ناقص تر عوامل کو اپنی جگہ خالی کر دینے پر مجبور کرتی ہے، اس طرح انسان جدید عوامل اور ان کی مخصوص ضروریات سے وابستگی پیدا کرلیتا ہے، انسان کی مادی اور معنوی احتیاجات کے ایک سلسلے سے وابسگتی اور ان احتیاجات کو رفع کرنے والے عوامل و وسائل کا دائمی تغیر اور ان وسائل کا ہمیشہ بہتر ہوتے چلے جانا اور ایک مرحلہ پر خود ان کا نئی نئی احتیاجات کے ایک سلسلے کو وجود میں لا نا ہر دور اور زمانے میں ماحول اجتماع اور زندگی کے تقاضوں میں تغیر کا سبب بنتا رہتا ہے اور انسان کو لازمی طور پر جدید تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا کرنے پر آمادہ کرتا رہتا ہے، اس طرح کے تقاضوں سے جنگ نہیں کرنی چاہیے اور نہ جنگ کی جاسکتی ہے۔

لیکن افسوس کہ کسی عہد کے دوران پیدا ہونے والے نئے مظاہر بہترافکار و نظریات اور کامل تر وسائل و عوامل کے اعتبار س زندگی کے لیے زیادہ سعادت بخش نہیں ہوتے۔یہ انسان ہی ہے جو اپنے زمانے، ماحول اور معاشرہ کو تشکیل دیتا ہے، اور انسان غلطی سے محفوظ نہیں ہے، اس اعتبار سے انسان کی صرف یہی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ وقر کے دہارے پر بہلتا چلا جائے اور اپنے دور کے افکار و نظریات، عادات و اطوار اور پسند و ناپسند کو اپنا تا چلا جائے اس کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے وقت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے اور زمانے کی اصلاح کرے اگر انسان خود کو صدفی صد زمانے کے مطابق بنا تا رہے گا تو پھر وہ زمانے کو کس چیز سے ہم آہنگ کرے گا؟

افلاس فکر رکھنے والے افراد کے لیے زمانے کے تقاضے یعنی"آج کی پسنداور سلیقہ"اور یہ جملہ"آج کی دنیا پسند نہین کرتے"ہر نظری، عملی، صوری، مادی، قیاسی، تجربی، اور استقرائی منطق کی رو سے ان کی شخصیت کو متاثر کرنے اور ان کے غیر مشروط طور پر سر تسلیم خم کر دینے کے لیے بہت کافی ہے، ان لوگون کے طرز فکر کی رو سے خصوصا دنیا نے مگرب میں کسی چیز کا فیشن اور سلیقہ قرار پانا یہ کہنے کے لیے کافی ہے کہ زمانے کے تقاضے بدل گئے ہین، ان کے نزدیک یہ جبر تاریخ ہے اس سے بچنا ممکن نہیں بلندی و ترقی کے لیے اسے اختیار کرنا لازم ہے، حالانکہ یہ انسان ہی ہے جو اپنے زمانے، ماحول اور اجتماعی عوامل کو تشکیل دیا ہے، یہ چیزین عالم قدس سے نازل نہیں ہوریں، انسان خود وہ مغرب کا رہنے والا ہی کیون نہ ہو غلطی غلطی کا سزاوار ہے۔

انسان عقل اور علم سے آراستہ ہونے کے ساتھ شہوت اور خواہش نفس بھی رکھتا ہے، مصلحت اور زندگی کی طرف وہ اچھے قدم اٹھا تا ہے تو کبھی کبھی اس کے قدم غلط سمت پر بھی اٹھ جاتے ہیں، اس اعتبار سے زمانہ جہان راہ راست پر پیش قدمی کر سکتا ہے وہاں وہ راہ انحراف بھی اختیار کر سکتا ہے، اس لیے جہاں زمانے کی ایسی پیش قدمیوں کا ساتھ دنیا چاہے وہاں اس کے انحرافات کی مزاحمت بھی کرنی چاہیے۔

لفظ "آزادی" کی طرح "زمانے کے تقاضے"ان کلمات میں سے ایک ہے جن کا مشرق کی سرزمین پر بڑا برا حشر ہوا ہے اور آج یہ کلمہ استعمار کا ایک ایسا مکلم ہتھیار ہے جس سے وہ مشرق کی اصل تہذیب پر ضرب لگائے اور اس پر مغربی روح مسلط کرنے کا کام لیتا ہے کتنے فریب ہیں جو اس عنوان سے دئے جاتے ہیں اور کتنی بد بختیاں ہیں جو اس خوبصورت کتبہ کے ساتھ ہم پر مسلط کی جاتی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ زمانہ علم ہے، بلا شبہ یہ بات درست ہے لیکن کیا اس سرچشمہ علم کے علاوہ دوسرے تمام سرچشمے انسان کے لیے خشک ہو چکے ہیں اور آج جو کچھ پیش کیا جا تا ہے وہ صحیح و خالص علم کی حیثیت رکھتا ہے؟ آخر کس دور مین ہمارے اس عہد کی مانند علم و دانش کو اس قدر قوت و قدرت اور وسعت حاصل رہی ہے اور کس زمانے میں اس دور کی طرضح علم و دانش اپنی آزادی سے محروم ہو کر شہرت کے عفریت کی غلام اور خود غرضی، جاہ طلبی، زر پر ستی و استحصال کے اژدہون کا شکار رہے ہیں؟

جو لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ زمانے کے تغیر پذیر تقاضے کسی قانون کو ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہے دیتے انہیں چاہیے متذکرہ بالا دو موضوعات کو ایک دوسرے سے الگ کریں تا کہ انہیں معلوم ہو کہ اسلام میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے، جو بہتر زندگی کی جانب پیش قدمی کی مخالف ہو۔

ہمارے اس دور کی مشکل یہ ہے کہ آج کے انسانکو ان دونون باتوں کو الگ کر کے غور کرنے کی بہت کم توفیق ہوتی ہے، وہ قدیم کے ساتھ رشتہ جوڑ کر جمود اختیار کر لیتا ہے اور جو کچھ نیا ہو اس سے لڑنے لگتا ہے یا پھر اس قدر جہلات پر اتر آتا ہے کہ ہر نئی ظاہر ہونے والی چیز کو "زمانے کے تقاضوں" کے نام پر ضروری سمجھنے لگتا ہے۔

حرکت ولچک بعض مسائل جبر تاریخ، ضروریات زندگی میں تغیر زمانے کے تقاضے یہ تینوں باتیں ہمارے لیے سرف یہ جاننے کے لیے مفید ہیں کہ ہم ان بوتوں کو بہانی بنا کر اور آنکھیں بن کر کے کسی قانون کو ہدف نہیں بنا سکتے اور اس کی ابدیت کے مفکر نہیں ہو سکتے۔

واضع ہے کہ صرف ان مسائل پر بحث، قانون کی ابدیت کے مسئلے کی شکل حل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے، اس لیے کہ یقیناً اگر کوئٰ ابدی قانونزندگی کی تمام متغیر صورتوں کا اھاطہ کرنا چاہے اور تمام مشکلات کے حل کرنے کی راہ دکھا ئے اور ہر مشکل کع بہتر طریقے پر رفع کر دے تو اسے قوت و حرکت کے ساتھ ایک لچک سے بھی بہرہ مند ہونا چاہیے وہ خشک، جامد اور بے لچک نہ ہو، ابن ہم یہ دیکھین گے کہ اسلام اپنی اس اصل کی حفاظت کرتے ہوئے "حلال محمد حلال الی یوم القیامۃ و حرام محمد حرام الی یوم القیامۃ" زندگی کے مختلف مسائل کے حل کی راہ کسی طرح دکھا تا ہے۔

قیناً اسلام کے قانون سازی کے نظام میں کوئی راز اور رمز چھپا ہوا ہےجو اس بڑی مشکل پر قابو پا لیتا ہے اسلام کی منطقی روح کے تمام بھیدون اور رازوں کا سرچشمہ اس انسان کی فطرت و طبعیت، اجتماعیت اور پورے عالم کے ساتھ کامل وابستگی ہے۔

اسلام نے اپنے قوانین و ضوابط کے وضع کرنے میں فطرت کے احترام اور فطری قوانین کے ساتھ اپنی وابستگی کا با قاعدہ طور پر اعلان کیا ہے، اسلام کی یہی وہ جہت ہے جس نے قوانین اسلام کے ابدی ہونے کا املان پیدا کر دیا ہے۔

فطرت کے ساتھ اسلام کی وابستگی اور ربط کو مندرجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے۔

۱۔ حریم دین میں عقل کو جگہ دینا

دنیا کے کسی دین نے اسلام کی طرح عقل کے ساتھ اس قدر قریبی رشتہ نہں رکھتا ہے اور اس کے"حق"کو تسلیم نہیں کیا ہے، کسی دین کا نام لیا جا سکتا ہے کہ جس نے عقل کو اپنے احکام کے سرچشموں میں سے ایک سرچشمہ قرار دیا ہو، فقہاء اسلام نے احکام کے چار سر چشمے اور ذریعہ قرار دیئے ہیں، کتاب، سنت، اجتماعاور عقل، فقہائے اسلام عقل اور شرع کے درمیان نا قابل شکست رشتے کے قائل ہیں اور اسے ایک لازمی اصول قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں:

"کل ما حکم به العقل حکم ب ه الشرع و کل ما حکم ب ه الشرع حکم ب ه العقل"

"جو کچھ عقل سلیم حکم کرتے ہے شرع بھی اسی کے مطابق حکم کرتے ہے اور جس چیز کا شرع حکم دیتی ہے عقل بھی اس کا حکم کرتے ہے۔"

فقہ اسلامی میں خود عقل کسی قانون کو منکشف کرنے والی ہو سکتے ہے اور وہ کسی قانون میں قیود و حدود وضع کر سکتے ہے یا اس قانون میں عمومیت پیدا کر سکتے ہے اور تمام سرچشموں اور ذرائع سے استنباط کرنے میں بڑی اچھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

عقل کی دخل اندازی کا حق اس طرح پیدا ہوا ہے کہ اسلامی قوانین زندگی کی حقیقت سے سروکار رکھتے ہیں اسلام اپنی تعلیمات مین ایسی مجہول پر اسراریت اور رمزیت کا قائل نہیں ہے، جسے حل نہ کیا جا سکتا ہو۔

۲۔ جامعیت اور خود قرآن کی تعبیر کے مطابق وسطیت

کسی قانون کا مکتب قانون کا یکطرفہ ہونا خود اپنے اندر اپنی تنسیخ کی دلیل رکھتا ہے، انسان کی زندگی پر غلبہ رکھنے والے اور اثر انداز ہونے والے عوامل بہت زیادہ ہیں، ان میں سے کسی ایک سے بھی صرف نظر کرنا خود عدم تعادل پیدا کرتا ہے، قوانین کے ابدی ہونے کا سب سے اہم عنصر ان کا تمام مادی، روحانی، انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں پر محیط ہونا ہے، تعلیمات اسلام کی جامعیت اور ہمہ جہتی کی صفت ہی اسلام سے شنا سا ہونے والوں کے درمیان اس کی مقبولیت کا سبب ہے، اس نکتہ پر تفصیلی بحث ہماری اس گفتگو کے دائرے سے باہر ہے۔

۳۔ اسلام نے کبھی زندگی کی ظاہری شکل و صورت سے بحث نہیں کی

تمام اسلامی تعلیمات نے روح اور معانی پر اور اس طریقے پر توجہ دی ہے جو انسان کو ان مقاصد و معانی تک پہنچا تا ہے، اسلام نے مقاصد و معانی اور ان تک پہنچنے کے طریقے کی طرف رہنمائی اپنے ذمے لینے کے بعد انسان کو اس کے علاوہ دوسرے امور میں آزاد چھوڑدیا ہے، اس طرح اس نے تہذیب و تمدن کے توسیعی عمل کے ساتھ تصادم سے پرہیز کیا ہے۔

اسلام میں کوئی مادی وسیلہ اور کوئی ظاہری شکل نہیں ملے گی، جسے تقدس حاصل ہو اور مسلمان کی یہ ذمہ داری ہو کہ وہ اس شکل اور ظاہر کی حفاظت کرے، اس اعتبار سے علم و تمدن کے توسیعی مظاہر کے ساتھ تصادم سے پرہیز اسلام کی ایک ایسی جہت ہے کہ اس نے زمانے کے تقاضوں پر دین کو منطبق کرنے کا کام آسان کر دیا ہے اور اپنی ابدیت کی راہ میں حائل ہونے والی ایک بڑی رکاوٹ کو دور کردیا ہے۔

۴۔ اس دین کی خاتمیت اور ابدیت

اس دین کی خاتمیت اور ابدیت کا ایک دوسرا زمر یہ ہے کہ قوانین فطرت کے ساتھ ہم آہنگی سے قوت حاصل کرت اہے اس نے انسان کی مستقل اور دائمی ضروریات کے لییے مستقل اور غیر متبدل قوانین بنائے ہیں اور تغیر پذیر حالات اور صورتوں کے لیے اس نے قابل تغیر وضع قانون کی پیش بینی کی ہے،

سطور بالا میں ہم کہہ چکے ہیں کہ بعض انسان ضروریات خواہ ان کا تعلق انفرادی شعبوں سے ہو یا اجتماعی شعبوں سے اپنی مستقل صورت رکھتے ہیں اور وہ تمام انسانوں میں یکساں ہوری ہیں، اسنان اپنی جبلتوں اور عادتوں کے لیے جو نظام وضع کرتا ہے وہ اخلاق کہلاتا ہے اور اجتماعی زندگی کے لیے جو نظام تشکیل دیتا ہے اس عدالت، کا نام دیا جاتا ہے اور وہ اپنے خالق سے جو رابطہ قائم کرتا ہے اور اپنے ایمان کی تجدید و تکمیل کرتا ہے اسے عبادت کہتے ہیں، ان تینوں کا تعلق ان مستقل قسم کی ضروریات سے ہے۔

انسان کی بعض دوسرے ضروریات تغیر پذیر ہوتی ہیں، جو قانون کے لحاظ سے ایسے قانون سازی کو لازم کرتے ہیں جس میں تبدیلی ہو سکتی ہے، اسلام نے ایسی تغیر پذیر احتیاجات کے لیے وضع قانون کی لچکدار صورت اختیار کی ہے اس طرح اس نے قابل تغیر حالات کے لیے قانون سازی کو مستقل اور غیر متبدل اصولوں کے ساتھ مربوط کر دیا ہے اور وہ اصول ہر تغیر پذیر نئی صورت حال میں خاص متناسب فرعی قانون کو وجود میں لاتے ہیں۔

ہم صرف دو مچالون پر اکتفا کرتے ہیں۔

اسلام میں ایک اجتماعی اصول یہ ہے:

( و اعدوا لهم ما استطعتم من قوة ) (۱۶)

عنی آخری امکانی حد تک دشمن کے مقابل قوت فراہم کرو اور طاقتور بن کر رہو، کتاب یعنی قرآن ہمیں اس اصول کی تعلیم دیتا ہے، دوسری طرف سنت سے ہمیں ہدایات کا ایک سلسلہ ملتا ہے کہ فہ میں یہ ہدایات "سبق و رمایتہ"کے عنوان سے معروف ہیں، ہدایت کی گئی ہے مسلمان اور ان کے فرزند گھوڑے سواری اور تیر اندازی میں کامل مہارت حاصل کرین، گھوڑے سواری اور تیر اندازی اس دور کے فنون حرب کے ایک اہم جز تھے اور دشمن کے مقابل قور کی فراہمی اور طاقتور بننے کا بہترین ذریعہ تھے، "سبق درمایہ"کے قانون کی اصل تو قرآنکا یہ حکم ہے:"و اعدو لہم ما استطعتم من قوہ"یعنی اسلام کے نقطہ نظر سے تیر، تلوار اور نیزہ اور گھوڑا اصلیت نہیں رکھتے، یہ اسلامی مقاصد کا جز نہیں ہیں، جو بات اصلیت رکھتی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر دور اور زمانے میں دشمن کے مقابل اپنے فوجی اور دفاعی وسائل کو آخری حد امکان تک مضبوط طاقتور بنا نا چاہیے۔

در حقیقت تیر اندازی اور گھوڑا دوڑانے میں مہارت ایک لباس ہے جو دشمن کے مقابل طاقت کے جسم کو پہنایا گیا ہے، دوسرے الفاظ میں تیر اندازی میں مہارت اس زمانے میں طاقتور بننے کی ایک عملی صورت تھی دشمن کے مقابل طاقتور بننے کا لزوم ایک مستقل قانون کی حیثیت رکھتا ہے، جو ایک دائمی اور مستقل ضرورت سے قوت حاصل کرنا ہے لیکن تیر اندازی اور اسب دوانی ایک وقتی ضرورت کا مظہر ہیں اور زمانے کے تقاضوں اور تہذیبی عوامل کی توسیع کے ساتھ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے اور دوسری چیزیں جیسے آج کے جدید اسلحہ کے استعمال میں مہارت کا حصول ان کی جگہ لے لیتی ہیں۔

دوسری مثال، پیغمبراکرم (ص) نے فرمایا ہے:

"علم و دانش کا حصول ہر مسلمان پر واجب ہے۔"

حکماء اسلام نے یہ ثابت کیا ہے کہ علم و دانش کا حصول اسلامی نقطہ نظر سے دو صوتوں میں واجب ہے:ایک اس صورت میں جبکہ ایمان کا حصول علم و دانش سے وابستہ ہو، دوسرے اس وقت جب کسی ذمہ داری کا پورا کرنا علم و دانش کے حصول پر منحصر ہو۔

دوسری صورت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ طلب دانش کا واجب ہونا تیاری کے لیے ہے کہ انسان کسی ذمہ داری کے ادا کرنے کی قابلیت پیدا کرے۔

اس لیے علوم کا حصول کا واجب ہونا یا نہ ہونا زمانے کے تقاضوں کے مطابق مختلف ہو جاتا ہے، پچھلے بعض ادوار میں اسلامی فرائض کی ادائیگی حتی اجتماعی فرائض جیسے تجارت، صنعت و سیاست کے لیے دانش کا حصول زیادہ ضروری نہیں تھا، اس کے لیے عام تجربات کافی تھے، ہمارے زمانے کی طرح بعض دوسرے زمانوں میں ان فرائض کی ادائیگی اس قدر دشار و پیچیدہ رہی ہے کہ اس کے لیے برسون تعلیم اور خصوصی تربیت لازمی قرار پائی تا کہ اسلامی اجتماعی فرائض (واجبات کفائی) انجام پا سکیں، یہی وجہ ہے کہ سیاسی، اقتصادی اور فنی علوم کی تحصیل جو ایک دور میں واجب نہیں تھی، دوسرے دور میں واجب ہو جاتی ہے، ایسا کیوں ؟ اسلامی معاشرہ کے استقلال، عزت اور حیثیت کے تحفظ کے لازمی اصول پر عمل کرنا ایک مستقل اور دائمی اسا کی حیثیت رکھتا ہے اور موجودہ دور کے حالات میں تحصیل و تکمیل دانش کے بغیر اس اصول پر پوری طرح عمل نہیں کیا جا سکتا، اس فرض کی ادائگی مختلف زمانوں اور مختلف حالات میں یکساں شکل مین نہیں رہی ہے، اس سلسلے میں بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

۵۔ اسلامی تعلیمات کی فطرت اور طبیعت کے ساتھ ہم آہنگی

ایک دوسرا پہلو جو فطرت اور طبیعت کے ساتھ اسلام تعلیمات کی ہم آہنگی کی علامت ہے جس کی وجہ سے السامی قوانین کی ابدیت کا امکان پیدا ہوتا ہے وہ حقیقی مصالح اور مفاسد کے ساتھ احکام السامی کا علت و معلول کا رابطہ اور اس رو سے احکام کی درجہ بندی ہے۔

اسلام نے یہ واضح کیا ہے کہ احکام حقیقی مصالح و مفاسد کے ایک سلسلے کے تابع ہیں اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ یہ مصالح و مفاسد ایک ہی درجے میں نہیں رکھے جاتے۔

اسی وجہ سے فقہ اسلامی میں ایک مخصوص باب باب"تراجم"یا "اہم و مہم"رکھا گیا ہے تا ک فقہا اور اسلامی کارکنوں کے لیے مختلف مصالح و مفاسد کے یکجا ہونے اور ان سے واسطہ پڑنے کی صورت میں آسانی حاصل ہو، اسلام نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اس طرح کے مواقع پر علمائے امت مصلحتوں کی اہمیت کے درجوں کا خود اسلام کی رہنمائی میں پوری توجہ کے ساتھ یقین کریں اور زیادہ اہم مصالح کو کم اہمیت والے مصالح ترجیح دیں اور تعطل کی حالت سے باہر نکل آئیں، رسول اکرم (ص) سے روایت ہے۔

"اذا اجتمعت حرمتان طرحت الصغریٰ للکبریٰ"

"جہاں دو امور واجب الاحترام جمع ہوجائیں تو بڑے امر کی خاطر چھوٹے امر سے صرف نظر کرنا چاہیے۔"

ابن کثیر"النہایہ"میں اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں"

"اگر کوئی ایسا معامہ ہو جس میں جماعت کا فائدہ اور فرد کا نقسان ہو رہا ہو تو جماعت کا مفاد فرد کے نقصان پر مقدم ہے۔"

جو کچھ ابن کثیر نے کہا ہے وہ زیادہ اہم مصلحت کو کم اہمیت والی مصلحت پر مقدم رکھنے کے ایک موقع سے متعلق ہے، حدیث کا فائدہ اسی ایک موقع تک محدود نہیں ہے، مردہ جسم کے اعضاء کی تشریح ( Anatomy ) کے علم کو ہمارے دور میں علم کی ترقی کے لیے ضروری سمجھا گیا ہے، اس کا تعلق باب"تزاحم"سے ہے، جیسا کہ ہمیں معلوم ہے اسلام نے مسلمان کے بدن کے احترام اور مراسم تجہیزیں عجلت کو لازم قرار دیا ہے جبکہ ہمارے زمانے مین طب کی تعلیم و تحقیق کے ایک حصے کا انحصار تشریح پر ہے، اس طرح دو مصلحتیں ایک دوسرے کے مقابل آگئی ہیں، ظاہر ہے کہ طبی تعلیم و تحقیق کی مصلحت میت کی جلد تجہیز اور اس کے بدن کے احترام کی مصلحت پر مقدم ہے اس احتیاط کے ساتھ کہ غیر مسلم کی لاشوں کے کافی نہ ہونے کی صورت میں مسلمان کی لاش پر انحصار کیا جائے اور پہچانی جانے والی لاس کو چھوڑ کرنہ پہچانی جانے والی لا استعمال کی جائے اسی طرح دوسرے باتوں کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے، اس طرح "اہم ومہم"کے قاعدہ کے تحت مسلمان لاش کے اعضاء کی تشریح کی ممانعت ختم ہو جاتی ہے، اس قاعدہ کے تحت بھی بہت سی مثالیں ہیں۔

۶۔ اسلامی قوانین کو لچکدار بنانے والے قواعد کا وجود

ایک دوسری چیز جس نے اسلامی ضوابط کو لچک، حرکت اور تطبیق کی خاصیت عطا کی ہے اور ان کی ہمیشگی کو بر قرار رکھا ہے، بعض کنٹرول کرنے والے قواعد کے سلسلے کی موجودگی ہے جسے اسلامی قوانین کے متن میں شامل کیا ہے، فقہاء نے ان قواعد کا بڑا انچھا نام ہے اور انہیں"حاکمہ"کہتے ہیں یعنی وہ قواعد جو تمام اسلامی احکام و ضوابط پر بالادستی رکھتے ہیں اور ان سب پر حکومت کرتے ہیں، یہ قواعد اعلیٰ مناسب رکھنے والے انسپکٹروں کی تمام احکام و ضوابط کی نگرانی کرتے ہیں اور انہیں کنٹرول کرتے ہیں، قاعدہ"حرج"اور قاعدہ"لاضرر"ان ہی نگران قواعد (حاکمہ) سے تعلق رکھتے ہیں، در حقیقت اسلام نے ان نگران قواعد کو ویٹو کیا حق دیا ہے ان قواعد کی داستان بڑی دلچسب اور مفصل ہے۔

۷۔ اسلام کا اسلامی حکومت کو بعض مخصوص اختیارات دینا

کچھ دوسرے اختیارات میں جو اسلام نے حکومت اسلام کو اور دوسرے الفاظ میں اجتماع اسلامی کو دئیے ہیں یہ اختیارات ابتدائی درجہ میں خود پیغمبر (ص) کی حکومت سے تعلق رکھتے ہیں، اس کے بعد امام کی حکومت سے ان کا تعلق ہے پھر ہر شرعی حکومت کو یہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں، قرآن کریم کا ارشاد ہے:( النبی اولی بالمومنین من انفسهم )

"پیغمبر خود مومنین سے زیادہ ان کے نفوس پر تسلط کا حق رکھتا ہے۔

یہ اختیارات ایک وسیع دائرہ رکھتے ہیں، اسلامی حکومت جدید حالات اور جدید ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلام کے اساسی اصول و مبانی پر توجہ کر کے ضوابط کا ایک سلسلہ وضع کر سکتی ہے کہ ماضی میں موضوعا موجود نہیں رہے ہیں!(۱۷)

حکومت اسلامی کی قوت کے لیے ان اختیارات کو وجود لامی شر ہے تا کہ وہ آسمانی قوانین کا بہتر طریقہ پر اجرا ۴ اور انہیں بہتر انداز مین زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکے اور ہر دور کے مخصوص لائحہ عمل کو بہتر طور پر مرتب و منظم کر سکے یہ اختیارات کچھ حدود اور شرائط رکھتے ہیں کہ یہان ان کے بارے میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں ہے۔