رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات 0%

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات: مشاہدے: 15975
ڈاؤنلوڈ: 3700

تبصرے:

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15975 / ڈاؤنلوڈ: 3700
سائز سائز سائز
رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

آغازوحی

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوہ حرا پر گئے ہوئے تھے کہ جبرئیل آئے اور کھا : اے محمد پڑھ: پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں پڑھا ہوانہیں ہوں ۔ جبرئیل نے انہیں آغوش میں لے کردبایا اور پہر دوبارہ کھا : پڑھ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہر اسی جواب کو دہرایا۔ اس کے بعد جبرئیل نے پہر وھی کام کیا اور وھی جواب سنا ، اور تیسری بارکھا:( اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ) (۱)

جبرئیل (ع)یہ بات کہہ کر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظروں سے غائب ہوگئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو وحی کی پہلی شعاع کو حاصل کرنے کے بعد بہت تھکے ہوئے تھے خدیجہ کے پاس آئے اور فرمایا : ” زملونی ودثرونی “ مجھے اڑھادو اور کوئی کپڑا میرے اوپر ڈال دوتاکہ میں آرام کروں ۔

”علامہ طبرسی“ بھی مجمع البیان میں یہ نقل کرتے ہیں کہ رسو لخدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدیجہ سے فرمایا :

”جب میں تنھا ہوتا ہوں تو ایک آواز سن کر پریشان ہوجاتاہوں “ ۔ حضرت خدیجہ(ع) نے عرض کیا : خداآپ کے بارے میں خیر اور بھلائی کے سواکچھ نہیں کرے گا کیونکہ خدا کی قسم آپ امانت کو ادا کرتے ہیں اور صلہ رحم بجالاتے ہیں ‘اور جوبات کرتے ہیں اس میں سچ بولتے ہیں ۔

”خدیجہ“(ع) کہتی ہیں : اس واقعہ کے بعد ہم ورقہ بن نوفل کے پاس گئے (نوفل خدیجہ کا زاد بھائی اور عرب کے علماء میں سے تھا )رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو کچھ دیکھا تھا وہ“ ورقہ“ سے بیان کیا ” ورقہ “ نے کھا : جس وقت وہ پکارنے والا آپ کے پاس آئے تو غور سے سنو کہ وہ کیا کہتا ہے ؟ اس کے بعد مجھ سے بیان کرنا۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی خلوت گاہ میں سنا کہ وہ کہہ رھاہے :

اے محمد ! کہو :

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١﴾ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾

اور کہو ” لاالہ الااللہ“ اس کے بعد آپ ورقہ کے پاس آئے اور اس ماجرے کو بیان کیا ۔

” ورقہ “ نے کھا : آپ کو بشارت ہو ‘ پہر بھی آپ کو بشارت ہو ۔میں گواھی دیتا ہوں کہ آپ وھی ہیں جن کی عیسی بن مریم نے بشارت دی ہے‘ آپ موسی علیہ السلام کی طرح صاحب شریعت ہیں اور پیغمبر مرسل ہیں ۔ آج کے بعد بہت جلدھی جھاد کے لیے مامور ہوں گے اور اگر میں اس دن تک زندہ رھا تو آپ کے ساتھ مل کر جھاد کروں گا “ جب “ ور قہ دنیا سے رخصت ہو گیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”میں نے اس روحانی شخص کو بہشت (برزخی جنت ) میں دیکھا ہے کہ وہ جسم پر ریشمی لباس پہنے ہوئے تھا‘ کیونکہ وہ مجھ پر ایمان لایا تھا اور میری تصدیق کی تھی۔ “(۲)

پ ہ لا مسلمان(۳)

اس سوال کے جواب میں سب نے متفقہ طور پر کھا ہے کہ عورتوں میں سے جو خاتون سب سے پہلے مسلمان ہوئیں وہ جناب خدیجہ(ع) تہیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفاداراور فدا کار زوجہ تہیں باقی رھا مردوں میں سے تو تمام شیعہ علماء ومفسرین اور اہل سنت علماء کے ایک بہت بڑے گروہ نے کھا ہے کہ حضرت علی (ع) وہ پہلے شخض تھے جنہوںنے مردوں میں سے دعوت پیغمبر پر لبیک کھی علماء اہل سنت میں اس امرکی اتنی شہرت ہے کہ ا ن میں سے ایک جماعت نے اس پر اجماع واتفاق کا دعویٰ کیا ہے ان میں سے حاکم نیشاپوری(۴) نے کھا ہے :

مورخین میں اس امر پر کوئی اختلاف نہیں کہ علی ابن ابی طالب اسلام لانے والے پہلے شخص ہیں ۔ اختلاف اسلام قبول کرتے وقت انکے بلوغ کے بارے میں ہے ۔

جناب ابن عبدالبر(۵) لکھتے ہیں : اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ خدیجہ(ع) وہ پہلی خاتون ہیں جو خدا اور اس بات کا پختہ ارادہ کرلیا کہ خود کو پھاڑ سے گرادیں ‘ اور اسی قسم کے فضول اور بے ہودہ باتیں جو نہ تو نبوت کے بلند مقام کے ساتھ سازگار ہیں اور نہ ھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس عقل اور حد سے زیادہ دانش مندی ‘ مدبریت ‘ صبر وتحمل وشکیبائی ‘ نفس پر تسلط اور اس اعتماد کو ظاہر کرتی ہیں جو تاریخوں میں ثبت ہے ۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس قسم کی ضعیف ورکیک روایات دشمنان اسلام کی ساختہ وپرداختہ ہیں جن کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کو بھی مورد اعتراض قراردے دیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات گرامی کو بھی ۔

اس کے رسول پر ایمان لائیں اور جو کچھ وہ لائے تھے اسی کی تصدیق کی ۔ پہر حضرت علی نے ان کے بعد یھی کام انجام دیا ۔(۶)

ابوجعفر الکافی معتزلی لکھتا ہے : تمام لوگوں نے یھی نقل کیا ہے کہ سبقت اسلام کا افتخار علی سے مخصوص ہے ۔(۷) قطع نظر اس کے کہ پیغمبر اکرم سے،خود حضرت علی (ع)سے اور صحابہ سے اس بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جو حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں ،ذیل میں چند روایات ہم نمونے کے طور پر نقل کرتے ہیں : پیغمبر اکر منے فرمایا :

۱ ۔پہلا شخص جو حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچے گا وہ شخص ہے جو سب سے پہلے اسلام لایا اور وہ علی بن ابی طالب ہے۔(۸)

۲ ۔ علماء اہل سنت کے ایک گروہ نے پیغمبر اکرم سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے حضرت علی (ع)کا ہاتھ پکڑکر فرمایا :

یہ پہلا شخص ہے جو مجھ پر ایمان لایا اور پہلا شخص ہے جو قیامت میں مجھ سے مصافحہ کرے گا اور یہ ”صدیق اکبر“ ہے ۔(۹)

۳ ۔ابو سعید خدری رسول اکرم سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت نے حضرت علی علیہ السلام کے دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ مارکر فرمایا :”اے علی (ع) : تم سات ممتاز صفات کے حامل ہو کہ جن کے بارے میں روز قیامت کوئی تم سے حجت بازی نہیں کرسکتا ۔ تم وہ پہلے شخص ہو جو خدا پر ایمان لائے اور خدائی پیمانوں کے زیادہ وفادار ہو اور فرمان خداکی اطاعت میں تم زیادہ قیام کرنیوالے ہو ۔۔۔“(۱۰)

تحریف تاریخ

یہ امر لائق توجہ ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی جوایمان اوراسلام میں حضرت علی کی سبقت کا سیدہے طریقے سے تو انکار نہیں کرسکے لیکن کچھ واضح البطلان علل کی بنیاد پر ایک اور طریقے سے انکار کی کوشش کی ہے یا اسے کم اہم بنا کر پیش کیا ہے بعض نے کو شش کی ہے ان کی جگہ حضرت ابوبکر کو پہلا مسلمان قرار دیں یہ لوگ کبھی کہتے ہیں کہ علی اس وقت دس سال کے تھے لہٰذا طبعاًنا با لغ تھے اس بناء پر ان کا اسلام ایک بچے کے اسلام کی حیثیت سے دشمن کے مقابلے میں مسلمانوں کے محاذ کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔(۱۱)

یہ بات واقعاً عجیب ہے اور حقیقت میں خود پیغمبر خدا پر اعتراض ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ یوم الدار(دعوت ذی العشیرہ کے موقع پر )رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسلام اپنے قبیلے کے سامنے پیش کیا اور کسی نے حضرت علی(ع) کے سوا اسے قبول نہ کیا اس وقت حضرت علی کھڑے ہوگئے اور اسلام کا اعلان کیا تو آپ نے ان کے اسلام کو قبول کیا بلکہ یہاں تک اعلان کیا کہ تو میرے بھائی ،میرا وصی اور میرا خلیفہ ہے ۔

یہ وہ حدیث ہے جو شیعہ سنی حافظان حدیث نے کتب صحاح اور مسانید میںنقل کی ہے، اسی طرح کئی مورخین اسلام نے اسے نقل کیا ہے یہ نشاندھی کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی (ع)کی اس کم سنی میں نہ صرف ان کا اسلام قبول کیا ہے بلکہ ان کا اپنے بھائی ، وصی اور جانشین کی حیثیت سے تعارف بھی کروایا ہے ۔(۱۲)

کبھی کہتے ہیں کہ عورتوں میں پہلی مسلمان خدیجہ تہیں ، مردوں میں پہلے مسلمان ابوبکر تھے اور بچوں میں پہلے مسلمان علی تھے یوں دراصل وہ اس امر کی اہمیت کم کرنا چاہتے ہیں(۱۳)

حالانکہ اول تو جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں حضرت علی علیہ السلام کی اہمیت اس وقت کی سن سے اس امر کی اہمیت کم نہیں ہوسکتی خصوصاً جب کہ قرآن حضرت یحٰیی(ع) کے بارے میں کہتا ہے : ”ہم نے اسے بچپن کے عالم میں حکم دیا“۔(۱۴)

حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں بھی ہے کہ وہ بچپن کے عالم میں بھی بول اٹہے اور افراد ان کے بارے میں شک کرتے تھے ان سے کھا : ”میں اللہ کا بندہ ہوں مجھے اس نے آسمانی کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ہے “۔(۱۵)

ایسی آیات کو اگر ہم مذکورہ حدیث سے ملاکردیکہیں کہ جس میں آپ نے حضرت علی (ع)کو اپنا وصی، خلیفہ اور جانشین قرار دیا ہے توواضح ہوجاتاہے کہ صاحب المنار کی متعصبانہ گفتگو کچھ حیثیت نہیں رکھتی ۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ امرتاریخی لحاظ سے مسلم نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر اسلام لانے والے تیسرے شخص تھے بلکہ تاریخ وحدیث کی بہت سی کتب میں ان سے پہلے بہت سے افراد کے اسلام قبول کرنے ذکر ہے ۔ یہ بحث ہم اس نکتے پر ختم کرتے ہیں کہ حضرت علی (ع)نے خود اپنے ارشادات میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میں پہلا مومن ، پہلا مسلمان اور سول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پہلا نماز گذارہوں اور اس سے آپ نے اپنے مقام وحیثیت کو واضح کیا ہے یہ بات آپ سے بہت سی کتب میں منقول ہے۔

علاوہ ازیں ابن ابی الحدید مشہور عالم ابو جعفر اسکافی معتزلی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابوبکر اسلام میں سبقت رکھتے تھے اگر یہ امر صحیح ہے تو پہر خود انھوں نے اس سے کسی مقام پر اپنی فضیلت کے لیے استدلال کیوں نہیں کیا اور نہ ھی ان کے حامی کسی صحابی نے ایسا دعوی کیا ہے۔(۱۶)

دعوت ذوالعشیرة

تاریخ اسلام کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بعثت کے تیسرے سال اس دعوت کا حکم ہوا کیونکہ اب تک آپ کی دعوت مخفی طورپرجاری تھی اور اس مدت میں بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا ،لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی ( وانذر عشیرتک الا قربین ) ۔(۱۷)

اور یہ آیت بھی ( فاصدع بما تومرواعرض عن المشرکین ) ۔(۱۸) تو آپ کھلم کھلا دعوت دینے پر مامور ہوگئے اس کی ابتداء اپنے قریبی رشتہ داروں سے کرنے کا حکم ہوا ۔

اس دعوت اور تبلیغ کی اجمالی کیفیت کچھ اس طرح سے ہے : آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو جناب ابوطالب کے گہر میں دعوت دی اس میں تقریباً چالیس افراد شریک ہوئے آپ کے چچاؤں میں سے ابوطالب، حمزہ اور ابولھب نے بھی شرکت کی ۔

کھانا کھالینے کے بعد جب آنحضرت نے اپنا فریضہ ادا کرنے کا ارادہ فرمایا تو ابولھب نے بڑھ کر کچھ ایسی باتیں کیں جس سے سارا مجمع منتشر ہوگیالہٰذا آپ نے انہیں کل کے کھانے کی دعوت دے دی ۔

دوسرے دن کھانا کھانے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا : ” اے عبد المطلب کے بیٹو: پورے عرب میں مجھے کوئی ایسا شخص دکھائی نہیں دیتا جو اپنی قوم کے لیے مجھ سے بہتر چیز لایا ہو ، میں تمھارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں اور خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس دین کی دعوت دوں ، تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میرا ہاتھ بٹائے تاکہ وہ میرا بھائی ، میرا وصی اور میرا جانشین ہو“ ؟ سب لوگ خاموش رہے سوائے علی بن ابی طالب کے جو سب سے کم سن تھے، علی اٹہے اور عرض کی : ”اے اللہ کے رسول! اس راہ میں میں آپ کا یاروومددگار ہوں گا“ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ہاتھ علی (ع)کی گردن پر رکھا اور فرمایا :”ان هذا اخی ووصی وخلیفتی فیکم فاسمعواله واطیعوه “ ۔ یہ (علی (ع)) تمھارے درمیان میرا بھائی ، میرا وصی اور میرا جانشین ہے اس کی باتوں کو سنو اور اس کے فرمان کی اطاعت کرو ۔ یہ سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور تمسخر آمیز مسکراہٹ ان کے لبوں پر تھی ، ابوطالب (ع)سے سے کہنے لگے، ”اب تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنا کرو اور اس کے فرمان پر عمل کیا کرنا“۔(۱۹)

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دنوں کس حدتک تنھا تھے اور لوگ آپ کی دعوت کے جواب میں کیسے کیسے تمسخرآمیزجملے کھا کرتے تھے اور علی علیہ السلام ان ابتدائی ایام میں جب کہ آپ بالکل تنھا تھے کیونکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدافع بن کر آپ کے شانہ بشانہ چل رہے تھے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وقت قریش کے ہر قبیلے کا نام لے لے کر انہیں بلایا اور انہیں جہنم کے عذاب سے ڈرایا، کبھی فرماتے:” یابنی کعب انقذواانفسکم من النار “ ۔

اے بنی کعب : خود کو جہنم سے بچاؤ، کبھی فرماتے : ”یا بنی عبد الشمس“ ۔۔ کبھی فرماتے :” یابنی عبدمناف“ ۔کبھی فرماتے : ”یابنی ھاشم “۔کبھی فرماتے :”یابنی عبد المطلب انقذ وانفسکم النار “ ۔ تم خودھی اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ ، ورنہ کفر کی صورت میں میں تمھارا دفاع نہیں کرسکوں گا ۔

ابن ابی جریر، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ، ابونعیم ، بیہقی ، ثعلبی اور طبری مورخ ابن اثیر نے یہ واقعہ اپنی کتاب ” کامل “ میں اور ” ابوالفداء “ نے اپنی تاریخ میں اور دوسرے بہت سے مورخین نے اپنی اپنی کتابوں میں اسے درج کیا ہے مزید آگاھی کے لئے کتاب” المرجعات “ص ۱۳۰ کے بعد سے اور کتاب ”احقاق الحق“ ج ۲ ، ص ۶۲ ملاحظہ فرمائیں۔

ایمان ابوطالب

تمام علمائے شیعہ اور اہل سنت کے بعض بزرگ علماء مثلاً ”ابن ابی الحدید“شارح نہج البلاغہ نے اور”قسطلانی“ نے ارشاد الساری میں اور” زینی دحلان“ نے سیرةحلبی کے حاشیہ میں حضرت ابوطالب کو مومنین اہل اسلام میں سے بیان کیا ہے۔اسلام کی بنیادی کتابوں کے منابع میں بھی ہمیںاس موضوع کے بہت سے شواہد ملتے ہیں کہ جن کے مطالعہ کے بعد ہم گہرے تعجب اور حیرت میں پڑجاتے ہیں کہ حضرت ابوطالب پرایک گروہ کی طرف سے اس قسم کی بے جا تہمتیں کیوں لگائی گئیں ؟

جو شخص اپنے تمام وجود کے ساتھ پیغمبر اسلام کا دفاع کیا کرتا تھا اور بار ھا خوداپنے فرزند کو پیغمبراسلام کے وجود مقدس کو بچانے کے لئے خطرات کے مواقع پر ڈھال بنادیا کرتا تھا!!یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس پر ایسی تہمت لگائی جائے۔

یھی سبب ہے کہ دقت نظر کے ساتھ تحقیق کرنے والوں نے یہ سمجھا ہے کہ حضرت ابوطالب کے خلاف، مخالفت کی لہر ایک سیاسی ضرورت کی وجہ سے ہے جو ” شجرہ خبیثہ بنی امیّہ“ کی حضرت علی علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کی مخالفت سے پیداہوئی ہے۔

کیونکہ یہ صرف حضرت ابوطالب کی ذات ھی نہیں تھی کہ جو حضرت علی علیہ السلام کے قرب کی وجہ سے ایسے حملے کی زد میں آئی ہو ،بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو تاریخ اسلام میں کسی طرح سے بھی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے قربت رکھتا ہے ایسے ناجو انمردانہ حملوں سے نہیں بچ سکا، حقیقت میں حضرت ابوطالب کا کوئی گناہ نہیں تھا سوائے اس کے وہ حضرت علی علیہ السلام جیسے عظیم پیشوائے اسلام کے باپ تھے۔

ایمان ابو طالب پر سات دلیل

ہم یہاں پر ان بہت سے دلائل میں سے جو واضح طور پر ایمان ابوطالب کی گواھی دیتے ہیں کچھ دلائل مختصر طور پر فہرست وار بیان کرتے ہیں تفصیلات کے لئے ان کتابوں کی طرف رجوع کریں جو اسی موضوع پر لکھی گئی ہیں ۔

۱ ۔ حضرت ابوطالب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے پہلے خوب اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ان کا بھتیجا مقام نبوت تک پہنچے گا کیونکہ مورخین نے لکھا ہے کہ جس سفر میں حضرت ابوطالب قریش کے قافلے کے ساتھ شام گئے تھے تو اپنے بارہ سالہ بھتجے محمد کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ اس سفر میں انہوں نے آپ سے بہت سی کرامات مشاہدہ کیں۔

ان میں ایک واقعہ یہ ہے کہ جو نہیں قافلہ ”بحیرا“نامی راھب کے قریب سے گزرا جو قدیم عرصے سے ایک گرجے میں مشغول عبادت تھا اور کتب عہدین کا عالم تھا ،تجارتی قافلے اپنے سفر کے دوران اس کی زیارت کے لئے جاتے تھے، توراھب کی نظریں قافلہ والوں میں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جم کررہ گئیں، جن کی عمراس وقت بارہ سال سے زیادہ نہ تھی ۔

بحیرانے تھوڑی دیر کے لئے حیران وششدر رہنے اور گہری اور پُرمعنی نظروں سے دیکھنے کے بعد کھا:یہ بچہ تم میں سے کس سے تعلق رکھتا ہے؟لوگوں نے ابوطالب کی طرف اشارہ کیا، انہوں نے بتایا کہ یہ میرا بھتیجا ہے۔

” بحیرا“ نے کھا : اس بچہ کا مستقبل بہت درخشاں ہے، یہ وھی پیغمبر ہے کہ جس کی نبوت ورسالت کی آسمانی کتابوں نے خبردی ہے اور میں نے اسکی تمام خصوصیات کتابوں میں پڑھی ہیں ۔

ابوطالب اس واقعہ اور اس جیسے دوسرے واقعات سے پہلے دوسرے قرائن سے بھی پیغمبر اکرم کی نبوت اور معنویت کو سمجھ چکے تھے ۔

اہل سنت کے عالم شہرستانی (صاحب ملل ونحل) اور دوسرے علماء کی نقل کے مطابق: ”ایک سال آسمان مکہ نے اپنی برکت اہل مکہ سے روک لی اور سخت قسم کی قحط سالی نے لوگوں کوگھیر لیاتو ابوطالب نے حکم دیا کہ ان کے بھتیجے محمد کو جو ابھی شیر خوارھی تھے لایاجائے، جب بچے کو اس حال میں کہ وہ ابھی کپڑے میں لپیٹا ہوا تھا انہیں دیا گیا تو وہ اسے لینے کے بعد خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور تضرع وزاری کے ساتھ اس طفل شیر خوار کو تین مرتبہ اوپر کی طرف بلند کیا اور ہر مرتبہ کہتے تھے، پروردگارا، اس بچہ کے حق کا واسطہ ہم پر برکت والی بارش نازل فرما ۔

کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ افق کے کنارے سے بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا اور مکہ کے آسمان پر چھا گیا اور بارش سے ایسا سیلاب آیا کہ یہ خوف پیدا ہونے لگا کہ کہیں مسجد الحرام ھی ویران نہ ہوجائے “۔

اس کے بعد شہرستانی لکھتا ہے کہ یھی واقعہ جوابوطالب کی اپنے بھتیجے کے بچپن سے اس کی نبوت ورسالت سے آگاہ ہونے پر دلالت کرتا ہے ان کے پیغمبر پر ایمان رکھنے کا ثبوت بھی ہے اور ابوطالب نے بعد میں اشعار ذیل اسی واقعہ کی مناسبت سے کہے تھے :

و ابیض یستسقی الغمام بوج

ثمال الیتامی عصمة الارامل

” وہ ایسا روشن چہرے والا ہے کہ بادل اس کی خاطر سے بارش برساتے ہیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ہیں “

یلوذ ب اللاک من آل اشم

فم عند فی نعمة و فواضل

” بنی ھاشم میں سے جوچل بسے ہیں وہ اسی سے پناہ لیتے ہیں اور اسی کے صدقے میں نعمتوں اور احسانات سے بہرہ مند ہوتے ہیں ،،

ومیزان عدله یخیس شعیرة

ووزان صدق وزنه غیر هائل

” وہ ایک ایسی میزان عدالت ہے کہ جو ایک جَوبرابر بھی ادہرادہر نہیں کرتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ہے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک وشبہ کا خوف نہیں ہے “

قحط سالی کے وقت قریش کا ابوطالب کی طرف متوجہ ہونا اور ابوطالب کا خدا کو آنحضرت کے حق کا واسطہ دینا شہرستانی کے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظیم مورخین نے بھی نقل کیا ہے ۔“(۲۰)

اشعار ابوطالب زندہ گواہ

۲ ۔اس کے علاوہ مشہور اسلامی کتابوں میں ابوطالب کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جو ہماری دسترس میں ہیں ان میں سے کچھ اشعار ہم ذیل میں پیش کررہے ہیں :

والله ان یصلوالیک بجمعهم

حتی اوسدفی التراب دفینا

”اے میرے بھتیجے خدا کی قسم جب تک ابوطالب مٹی میںنہ سوجائے اور لحد کو اپنا بستر نہ بنالے دشمن ہرگز ہرگز تجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے“

فاصدع بامرک ماعلیک غضاضته

وابشربذاک وقرمنک عیونا

”لہٰذا کسی چیز سے نہ ڈراور اپنی ذمہ داری اور ماموریت کا ابلاع کر، بشارت دے اور آنکھوں کو ٹھنڈا کر“۔

ودعوتنی وعلمت انک ناصحی

ولقد دعوت وکنت ثم امینا

”تونے مجھے اپنے مکتب کی دعوت دی اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تیرا ہدف ومقصد صرف پندو نصیحت کرنا اور بیدار کرنا ہے، تو اپنی دعوت میں امین اور صحیح ہے“

ولقد علمت ان دین محمد(ص)

من خیر ادیان البریة دیناً

” میں یہ بھی جانتا ہوں کہ محمد کا دین ومکتب تمام دینوں اور مکتبوں میں سب سے بہتردین ہے“۔

اور یہ اشعار بھی انہوں نے ھی ارشاد فرمائے ہیں :

الم تعلمواانا وجدنا محمد اً

رسولا کموسیٰ خط فی اول الکتب

” اے قریش ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) موسیٰ (علیہ السلام) کی مثل ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کے مانند خدا کے پیغمبر اور رسول ہیں جن کے آنے کی پیشین گوئی پہلی آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اور ہم نے اسے پالیاہے“۔

وان علیه فی العباد محبة

ولاحیف فی من خصه الله فی الحب

” خدا کے بندے اس سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں اور جسے خدا وندمتعال نے اپنی محبت کے لئے مخصوص کرلیا ہو اس شخص سے یہ لگاؤبے موقع نہیں ہے۔“

ابن ابی الحدید نے جناب ابوطالب کے کافی اشعار نقل کرنے کے بعد (کہ جن کے مجموعہ کو ابن شہر آشوب نے ” متشابھات القرآن“ میں تین ہزار اشعار کھا ہے) کہتا ہے : ”ان تمام اشعار کے مطالعہ سے ہمارے لئے کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ ابوطالب اپنے بھتیجے کے دین پر ایمان رکھتے تھے“۔

۳ ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت سی ایسی احادیث بھی نقل ہوئی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ان کے فدا کار چچا ابوطالب کے ایمان پر گواھی دیتی ہیں منجملہ ان کے کتاب ” ابوطالب مومن قریش“ کے مولف کی نقل کے مطابق ایک یہ ہے کہ جب ابوطالب کی وفات ہوگئی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی تشیع جنازہ کے بعد اس سوگواری کے ضمن میں جو اپنے چچا کی وفات کی مصیبت میں آپ کررہے تھے آپ یہ بھی کہتے تھے:

”ھائے میرے بابا! ھائے ابوطالب ! میں آپ کی وفات سے کس قدر غمگین ہوں کس طرح آپ کی مصیبت کو میں بھول جاؤں ، اے وہ شخص جس نے بچپن میں میری پرورش اور تربیت کی اور بڑے ہونے پر میری دعوت پر لبیک کھی ، میں آپ کے نزدیک اس طرح تھا جیسے آنکھ خانہ چشم میں اور روح بدن میں“۔

نیز آپ ہمیشہ یہ کیا کرتے تھے :” مانالت منی قریش شیئًااکرهه حتی مات ابوطالب “

”اہل قریش اس وقت تک کبھی میرے خلاف ناپسندیدہ اقدام نہ کرسکے جب تک ابوطالب کی وفات نہ ہوگئی“۔

۴ ۔ ایک طرف سے یہ بات مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ابوطالب کی وفات سے کئی سال پہلے یہ حکم مل چکا تھا کہ وہ مشرکین کے ساتھ کسی قسم کا دوستانہ رابطہ نہ رکہیں ،اس کے باوجود ابوطالب کے ساتھ اس قسم کے تعلق اور مہرو محبت کا اظھار اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انہیں مکتب توحید کا معتقد جانتے تھے، ورنہ یہ بات کس طرح ممکن ہوسکتی تھی کہ دوسروں کو تو مشرکین کی دوستی سے منع کریں اور خود ابوطالب سے عشق کی حدتک مہرومحبت رکہیں ۔

۵ ۔ان احادیث میں بھی کہ جو اہل بیت پیغمبر کے ذریعہ سے ہم تک پہنچی ہیں حضرت ابوطالب کے ایمان واخلاص کے بڑی کثرت سے مدارک نظر آتے ہیں ، جن کا یہاں نقل کرنا طول کا باعث ہوگا، یہ احادیث منطقی استدلالات کی حامل ہیں ان میں سے ایک حدیث چوتھے امام علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے اس میں امام علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ابوطالب مومن تھے؟ جواب دینے کے بعد ارشاد فرمایا:

”ان هنا قوماً یزعمون انه کافر“ ، اس کے بعد فرمایاکہ: ” تعجب کی بات ہے کہ بعض لوگ یہ کیوں خیال کرتے ہیں کہ ابوطالب کا فرتھے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ اس عقیدہ کے ساتھ پیغمبر اور ابوطالب پر طعن کرتے ہیں کیا ایسا نہیں ہے کہ قرآن کی کئی آیات میں اس بات سے منع کیا گیا ہے (اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ ) مومن عورت ایمان لانے کے بعد کافر کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور یہ بات مسلم ہے کہ فاطمہ بنت اسدرضی اللہ عنھا سابق ایمان لانے والوں میں سے ہیں اور وہ ابوطالب کی زوجیت میں ابوطالب کی وفات تک رہیں ۔“

ابوطالب تین سال تک شعب میں

۶ ۔ان تمام باتوں کو چھوڑتے ہوئے اگرانسان ہر چیز میں ھی شک کریں تو کم از کم اس حقیقت میں تو کوئی شک نہیں کرسکتا کہ ابوطالب اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درجہ اول کے حامی ومددگار تھے ، ان کی اسلام اور پیغمبر کی حمایت اس درجہ تک پہنچی ہوئی تھی کہ جسے کسی طرح بھی رشتہ داری اور قبائلی تعصبات سے منسلک نہیں کیا جاسکتا ۔

اس کا زندہ نمونہ شعب ابوطالب کی داستان ہے۔ تمام مورخین نے لکھا ہے کہ جب قریش نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کا ایک شدید اقتصادی، سماجی اور سیاسی بائیکاٹ کرلیا اور اپنے ہر قسم کے روابط ان سے منقطع کرلئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واحد حامی اور مدافع، ابوطالب نے اپنے تمام کاموں سے ہاتھ کھینچ لیا اور برابر تین سال تک ہاتھ کھینچے رکھا اور بنی ھاشم کو ایک درہ کی طرف لے گئے جو مکہ کے پھاڑوں کے درمیان تھا اور ”شعب ابوطالب“ کے نام سے مشہور تھا اور وھاں پر سکونت اختیار کر لی۔

ان کی فدا کاری اس مقام تک جا پہنچی کہ قریش کے حملوں سے بچانے کےلئے کئی ایک مخصوص قسم کے برج تعمیرکرنے کے علاوہ ہر رات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور دوسری جگہ ان کے آرام کے لئے مھیا کرتے اور اپنے فرزند دلبند علی کو ان کی جگہ پر سلادیتے اور جب حضرت علی کہتے: ”بابا جان! میں تو اسی حالت میں قتل ہوجاؤں گا “ تو ابوطالب جواب میں کہتے :میرے پیارے بچے! بردباری اور صبر ہاتھ سے نہ چھوڑو، ہر زندہ موت کی طرف رواںدواں ہے، میں نے تجہے فرزند عبد اللہ کا فدیہ قرار دیا ہے ۔

یہ بات اور بھی طالب توجہ ہے کہ جو حضرت علی علیہ السلام باپ کے جواب میں کہتے ہیں کہ بابا جان میرا یہ کلام اس بناپر نہیں تھا کہ میں راہ محمد میں قتل ہونے سے ڈرتاہوں، بلکہ میرا یہ کلام اس بنا پر تھا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ میں کس طرح سے آپ کا اطاعت گزار اور احمد مجتبیٰ کی نصرت ومدد کے لئے آمادہ و تیار ہوں۔

قارئین کرام ! ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص بھی تعصب کو ایک طرف رکھ کر غیر جانبداری کے ساتھ ابوطالب کے بارے میں تاریخ کی سنہری سطروں کو پڑہے گا تو وہ ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ کا ہمصدا ہوکر کہے گا :

ولولا ابوطالب وابنه

لما مثل الدین شخصا وقاما

فذاک بمکة آوی وحامی

وهذا بیثرب جس الحماما

” اگر ابوطالب اور ان کا بیٹا نہ ہوتے تو ہرگزمکتب اسلام باقی نہ رہتا اور اپنا قدسیدھا نہ کرتا ،ابوطالب تو مکہ میں پیغمبر کی مدد کےلئے آگے بڑہے اور علی یثرب (مدینہ) میں حمایت اسلام کی راہ میں گرداب موت میں ڈوب گئے“

ابوطالب کا سال وفات ”عام الحزن“

۷ ۔”ابوطالب کی تایخ زندگی، جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ان کی عظیم قربانیاں اور رسول اللہ اور مسلمانوں کی ان سے شدید محبت کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے ۔ ہم یہاں تک دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوطالب کی موت کے سال کا نام ”عام الحزن“ رکھا یہ سب باتیں اس امر کی دلیل ہیں کہ حضرت ابوطالب کو اسلام سے عشق تھا اور وہ جو پیغمبر اسلام کی اس قدر مدافعت کرتے تھے وہ محض رشتہ داری کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس دفاع میں آپ کی حیثیت ایک مخلص، ایک جاں نثار اور ایسے فدا کار کی تھی جو اپنے رھبر اور پیشوا کا تحفظ کررھا ہو۔“

ابولھب کی دشمنی

اس کانام ” عبدالعزی“ (عزی بت کا بندہ ) اور اس کی کنیت ”ابولھب“ تھی۔ اس کے لیے اس کنیت کا انتخاب شاید اس وجہ سے تھا کہ اس کا چہرہ سرخ اور بھڑکتا ہوا تھا، چونکہ لغت میں لھب آگ کے شعلہ کے معنی میں ہے ۔

وہ اور اس کی بیوی ”ام جمیل“جو ابوسفیان کی بہن تھی ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نھایت بدزبان اور سخت ترین دشمنوں میں سے تھے ۔

”طارق محارق “ نامی ایک شخص کہتاہے : میں “ ذی المجاز “ کے بازار میں تھا ۔(۲۱)

اچانک میں نے ایک جوان کو دیکھا جو پکار پکار کر کہہ رھا تھا: اے لوگو: لاالہ الا اللہ کا اقرار کر لو تو نجات پاجاؤگے ۔ اور اس کے پیچہے پیچہے میں نے ایک شخص کو دیکھا جو اس کے پاؤں کے پچھلے حصہ پرپتہر مارتاجاتاہے جس کی وجہ سے اس کے پاؤں سے خون جاری تھا اوروہ چلا چلا کر کہہ رہاتھا ۔اے لوگو! یہ جھوٹاہے اس کی بات نہ ماننا “۔

میں نے پوچھا کہ یہ جوان کون ہے ؟ تو لوگوں نے بتایا :” یہ محمد، ، صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے جس کا گمان یہ ہے کہ وہ پیغمبر ہے اور یہ بوڑھا اس کا چچا ابولھب ہے جو جو اس کو جھوٹا سمجھتا ہے ۔

”ربیع بن عباد“ کہتا ہے : میں اپنے باپ کے ساتھ تھا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھاکہ وہ قبائل عرب کے پاس جاتے اور ہر ایک کو پکار کر کہتے : میں تمھاری طرف خدا کا بھیجا ہوا رسول ہوں : تم خدائے یگانہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ ۔

جب وہ اپنی بات سے فارغ ہوجاتاتو ایک خوبرو بھینگا آدمی جو ان کے پیچہے پیچہے تھا، پکارکرکہتا : اے فلاں قبیلے : یہ شخص یہ چاہتاہے کہ تم لات وعزی بت اور اپنے ہم پیمان جنوں کو چھوڑدو اور اس کی بدعت وضلالت کی پیروی کرنے لگ جاؤاس کی نہ سننا، اور اس کی پیروی نہ کرنا “۔

میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ ” اس کا چچا ابولھب ہے “۔

ابولھب پیغمبر کا پیچھا کرتارہا

جب مکہ سے باہر کے لوگوں کا کوئی گروہ اس شہر میں داخل ہوتا تھا تو وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کی رشتہ داری اور سن وسال کے لحاظ سے بڑاہونے کی بناپر ابولھب کے پاس جاتاتھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں تحقیق کرتا تھا وہ جواب دیتا تھا: محمد ایک جادوگر ہے ،وہ بھی پیغمبر سے ملاقات کئے بغیر ھی لوٹ جاتے اسی اثناء میں ایک ایسا گروہ آیا جنہوں نے یہ کھا کہ ہم تو اسے دیکہے بغیر واپس نہیں جائیں گے ابولھب نے کھا : ”ہم مسلسل اس کے جنون کا علاج کررہے ہیں : وہ ہلاک ہوجائے “۔

وہ اکثر مواقع پر سایہ کی طرح پیغمبر کے پیچہے لگارہتا تھا اور کسی خرابی سے فروگذاشت نہ کرتا تھا خصوصاً اس کی زبان بہت ھی گندی اور آلودہ ہوتی تھی اور وہ رکیک اورچبھنے والی باتیں کیا کرتا تھا اور شاید اسی وجہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سب دشمنوں کا سرغنہ شمار ہوتا تھا اسی بناء پر قرآن کریم اس پر اور اس کی بیوی ام جمیل پر ایسی صراحت اور سختی کے ساتھ تنقید کررھاہے وھی ایک اکیلا ایسا شخص تھا جس نے پیغمبر اکرم سے بنی ھاشم کی حمایت کے عہد وپیمان پر دستخط نہیں کئے تھے اور اس نے آپ کے دشمنوں کی صف میں رہتے ہوئے دشمنوں کے عہد وپیمان میں شرکت کی تھی۔

ابو لھب کے ہاتھ کٹ جائیں

”ابن عباس “سے نقل ہوا ہے کہ جس وقت آیہ”ونذر عشیرتک الاقربین“۔نازل ہوئی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے قریبی رشتہ داروں کو انذار کرنے اور اسلام کی دعوت دینے پر مامور ہوئے،تو پیغمبرکوہ صفا پرآئے اور پکار کر کھا”یا صباحاہ“(یہ جملہ عرب اس وقت کہتے تھے جب ان پر دشمن کی طرف سے غفلت کی حالت میں حملہ ہو جاتا تھاتا کہ سب کو با خبر کردیں اور وہ مقابلہ کے لیے کھڑے ہو جائیں،لہٰذا کوئی شخص”یا صباحاہ“کہہ کر آواز دیتا تھا”صباح“کے لفظ کا انتخاب اس وجہ سے کیا جاتا تھا کہ عام طور پر غفلت کی حالت میں حملے صبح کے دقت کیے جاتے تھے۔

مکہ کے لوگوں نے جب یہ صدا سنی تو انہوں نے کھا کہ یہ کون ہے جو فریاد کررھا ہے۔

کھا گیا کہ یہ”محمد“ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں ۔ کچھ لوگ آپ کے پاس پہنچے تو آپ نے قبائل عرب کو ان کے نام کے ساتھ پکارا۔ آپ کی آواز پر سب کے سب جمع ہوگئے تو آپ نے ان سے فرما یا:

”مجھے بتلاؤ! اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ دشمن کے سوار اس پھاڑ کے پیچہے سے حملہ کرنے والے ہیں ،تو کیا تم میری بات کی تصدیق کروگے“۔

انہوں نے جواب دیا:”ہم نے آپ سے کبھی بھی جھوٹ نہیں سنا“۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”انی نذیر لکم بین یدی عذاب شدید“ ۔

”میں تمہیں خدا کے شدید عذاب سے ڈراتا ہوں“۔

(”میں تمہیں توحیدکا اقرار کرنے او ربتوں کو ترک کرنے کی دعوت دیتا ہوں“)جب ابو لھب نے یہ بات سنی تو اس نے کھا:

”تبالک!اٴما جمعتنا الا لهذا؟!“ ۔

تو ہلاک ہو جائے! کیا تو نے ہمیں صرف اس بات کے لیے جمع کیا ہے“؟

اس مو قع پر یہ سورہ نازل ہوا :

( تبت یداا بی لهب وتب ) (۲۲)

اے ابو لھب! تو ھی ہلاک ہو اور تیرے ہاتھ ٹوٹیں،تو ھی زیاں کار اور ہلاک ہونے والاہے،اس کے مال وثروت نے اور جو کچھ اس نے کمایا ہے اس نے، اسے ہر گز کوئی فائدہ نہیں دیا اور وہ اسے عذاب الٰھی سے نہیں بچائے گا“۔

اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک دولت مند مغرور شخص تھا جواپنی اسلام دشمن کوششوں کے لئے اپنے مال ودولت پر بہروسہ کرتاتھا۔

بعدمیں قرآن مزیے کہتا ہے،”وہ جلدی ھی اس آگ میں داخل ہوگا جس کے شعلے بھڑکنے والے ہیں “۔(۲۳)

اگر اس کا نام ”ابو لھب“ہے تو اس کے لئے عذاب بھی”بو لھب“ہے یعنی اس کے لئے بھڑگتے ہوئے آگ کے شعلہ ہیں ۔

ایندھن اٹھائے ہوئے

قرآن کریم نے اس کے بعد اس کی بیوی ”ام جمیل “ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایاہے :”اس کی بیوی بھی جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگی ، جو اپنے د وش پر ایندھن اٹھاتی ہے“۔(۲۴)

”اور اس کی گردن میں خرماکی چھال کی رسی یا گردن بند ہے “۔(۲۵)

( فی جیدها حبل من مسد )

”مسد“ (بروزن حسد) اس رسی کے معنی میں ہے جو کھجور کے پتوں سے بنائی جاتی ہے ۔ بعض نے یہ کھا ہے کہ ”مسد“ وہ رسی ہے جو جہنم میں اس کی گردن میں ڈالیںگے جس میں کھجور کے پتوں جیسی سختی ہوگی اور اس میں آگ کی حرارت اور لوہے کی سنگینی ہوگی ۔

بعض نے یہ بھی کھا ہے کہ چونکہ بڑے لوگوں کی عورتیں اپنی شخصیت کو آلات وزیورات خصوصا ًگردن کے قیمتی زیورات سے زینت دینے میں خاص بات سمجھتی ہیں ،لہٰذا خدا قیامت میں اس مضراوروخود پسند عورت کی تحقیر کے لیے لیف خرما کا ایک گردن بند اس کی گردن میں ڈال دے گایا یہ اصلا اس کی تحقیر سے کنایہ ہے ۔

بعض نے یہ بھی کھا ہے کہ اس تعبیر کے بیان کرنے کا سبب یہ ہے کہ ” ام جمیل “ کے پاس جواہرات کا ایک بہت ھی قیمتی گردن بند تھااور اس نے یہ قسم کھائی تھی کہ وہ اسے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دشمنی میں خرچ کرے گی لہٰذا اس کے اس کام کے بدلے میں خدا نے بھی اس کے لئے ایسا عذاب مقرر کردیا ہے ۔

ابولھب کاعبرت ناک انجام

روایات میں آیا ہے کہ جنگ”بدر“اور سخت شکست کے بعد ،جو مشرکین قریش کو اٹھانی پڑی تھی ، ابولھب نے جوخود میدان جنگ میں شریک نہیں ہوا تھا ،ابوسفیان کے واپس آنے پر اس ماجرے کے بارے میںسوال کیا،ابو سفیان کے قریش کے لشکر کی شکست اور سرکوبی کی کیفیت بیان کی، اس کے بعد اس نے مزید کھا :خدا کی قسم ہم نے اس جنگ میں آسمان وزمین کے درمیان ایسے سوار دیکہے ہیں جو محمد کی مدد کے لیے آئے تھے ۔

اس موقع پر” عباس “ کے ایک غلام ”ابورافع “نے کھا :میں وھاں بیٹھاہوا تھا ،میں نے اپنے ہاتھ بلند کیے اور کھا کہ وہ آسمانی فرشتے تھے ۔

اس سے ابولھب بھڑک اٹھا اور اس نے ایک زوردار تھپڑمیرے منہ پر دے مارا ، مجھے اٹھاکر زمین پر پٹخ دیا اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے مجھے پیٹے چلے جآرہا تھا وھاں عباس کی بیوی”ام الفضل“ بھی موجود تھی اس نے ایک چھڑی اٹھائی اور ابولھب کے سرپر دے ماری اور کھا :”کیا تونے اس کمزور آدمی کو اکیلاسمجھا ہے ؟“

ابولھب کا سرپھٹ گیا اور اس سے خون بہنے لگا سات دن کے بعد اس کے بدن میں بدبو پیدا ہوگئی ، اس کی جلد میں طاعون کی شکل کے دانے نکل آئے اور وہ اسی بیماری سے واصل جہنم ہوگیا ۔

اس کے بدن سے اتنی بدبو آرھی تھی کہ لوگ اس کے نزدیک جانے کی جرات نہیں کرتے تھے وہ اسے مکہ سے باہر لے گئے اور دور سے اس پر پانی ڈالا اور اس کے بعد اس کے اوپر پتہر پھینکے یہاں تک کہ اس کا بدن پتہروں اور مٹی کے نیچے چھپ گیا ۔