رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات 33%

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17062 / ڈاؤنلوڈ: 4444
سائز سائز سائز
رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

ہجرت پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم(۳۶)

مختلف قبائل قریش اور اشراف مکہ کا ایک گروہ جمع ہوا تاکہ وہ” دار الند وہ“ میں میٹنگ کریں اور انہیں رسول اللہ کی طرف سے درپیش خطرے پر غور وفکر کریں

(کہتے ہیں ) اثنائے راہ میں انہیں ایک خوش ظاہر بوڑھا شخص ملا جو در اصل شیطان تھا (یا کوئی انسان جو شیطانی روح وفکر کا حامل تھا)۔

انہوں نے اس سے پوچھا : تم کون ہو؟

کہنے لگا : اہل نجد کا ایک بڑا بوڑھا ہوں، مجھے تمھارے اراداے کی اطلاع ملی تو میں نے چاھا کہ تمھاری میٹنگ میں شرکت کروں اور اپنا نظریہ اور خیر خواھی کی رائے پیش کرنے میں دریغ نہ کروں ۔

کہنے لگے : بہت اچھا اندر آجایئے ۔

اس طرح وہ بھی” دارالندوة“میں داخل ہوگیا ۔

حاضرین میں سے ایک نے ان کی طرف رخ کیا اور ( پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) کھا : اس شخص کے بارے میں کوئی سوچ بچار کرو ، کیونکہ بخدا ڈر ہے کہ وہ تم پر کامیاب ہوجائے ( اور تمھارے دین اور تمھاری عظمت کو خاک میں ملادے گا )

ایک نے تجویز پیش کی : اسے قید کردو یہاں تک کے زندان ھی میں مرجائے۔

بوڑہے نجدی نے اس تجویز پراعتراض کیا اور کھا : اس میں خطرہ یہ ہے کہ اس کے طرف دار ٹوٹ پڑیں اور کسی مناسب وقت اسے قید خانے سے چھڑا کر اس سرزمین سے باہر لے جائیں لہٰذا کوئی اور بنیادی بات کرو ۔

ایک اورشخص نے کھا: اسے اپنے شہرسے نکال دو تاکہ تمہیں اس سے چھٹکارامل جائے کیونکہ جب وہ تمھارے درمیان سے چلا جائے گا تو پہر جو کچھ بھی کرتا پہرے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور پہر وہ دوسروں ھی سے سروکار رکہے گا ۔

اس بوڑہے نجدی نے کھا : واللہ یہ نظریہ بھی صحیح نہیں ہے ، کھا تم اس کی شیریں بیانی ،قدرت زبان اور لوگوں کے دلوں میں اس کے نفوذ نہیں دیکھتے؟ اگر ایسا کروگے تو وہ تمام دنیائے عرب کے پاس جائے گا اور وہ اس کے گرد جمع ہوجائیں گے اور پہر وہ ایک انبوہ کثیر کے ساتھ تمھاری طرف پلٹے گا اور تمہیں تمھارے شہروں سے نکال باہر کرے گا اور بڑوں کو قتل کردےگا ۔

مجمع نے کھا بخدا یہ سچ کہہ رھاہے کوئی اور تجویزسو چو۔

ابوجہل کی رائے

ابوجہل ابھی تک خاموش بیٹھا تھا ، اس نے گفتگو شروع کی اور کھا : میرا ایک نظریہ ہے اور اس کے علاوہ میں کسی رائے کو صحیح نہیں سمجھتا ۔

حاضرین کہنے لگے :وہ کیا ہے ؟

کہنے لگا : ہم ہر قبیلے سے ایک بھادر شمشیر زن کا انتخاب کریں اور ان میں سے ہر ایک ہاتھ میں ایک تیز تلوار دے دیدیں اور پہر وہ سب مل کر موقع پاتے ھی اس پر حملہ کریں جب وہ اس صورت میں قتل ہوگا تو اس کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گا اور میں نہیں سمجھتا کہ بنی ھاشم تمام قبائل قریش سے لڑسکیں گے لہٰذا مجبورا اس صورت میں خون بھا پر راضی ہوجائیں گے اور یوں ہم بھی اس کے آزار سے نجات پالیں گے۔

بوڑہے نجدی نے (خوش ہوکر ) کھا: بخدا : صحیح رائے یھی ہے جو اس جواں مرد نے پیش کی ہے میرا بھی اس کے علاوہ کوئی نظریہ نہیں ۔

اس طرح یہ تجویز اتفاق رائے سے پاس ہوگئی اور وہ یھی مصمم ارادہ لے کروھاںسے اٹہے ۔

حضرت علی علیہ السلام نے اپنی جان کو بیچ ڈالی

جبرئیل نازل ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم ملا کہ وہ رات کو اپنے بستر پر نہ سوئیں ،پیغمبر اکرم رات کو غار ثور کی طرف روانہ ہوگئے اور حکم دے گئے کہ علی آپ کے بستر پر سوجائیں (تاکہ جو لوگ دروازے کی درازسے بستر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نظر رکہے ہوئے ہیں انہیں بستر پر سویا ہوا سمجہیں اور آپ کو خطرے کے علاقہ سے دور نکل جانے کی مھلت مل جائے )۔

اہل سنت کے مشہور مفسر ثعلبی کہتے ہیں کہ جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہجرت کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا تو اپنے قرضوں کی ادائیگی اور موجود امانتوں کی واپسی کے لئے حضرت علی علیہ السلام کو اپنی جگہ مقرر کیا اور جس رات آپ غار ثور کی طرف جانا چاہتے تھے اس رات مشرکین آپ پر حملہ کرنے کے لئے آپ کے گہر کا چاروں طرف سے محاصرہ کئے ہوے تھے، آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ آپ کے بستر پر لیٹ جائیں ، اپنی مخصوص سبز رنگ کی چادر انہیں اوڑھنے کو دی ، اس وقت خدا وند عالم نے جبرائیل اور میکائیل پر وحی کی کہ میں نے تم دونوں کے درمیان بھائی چارہ اور اخوت قائم کی ہے اور تم میں سے ایک کی عمر کو زیادہ مقرر کیا ہے تم میں سے کون ہے جو ایثار کرتے ہوئے دوسرے کی زندگی کو اپنی حیات پر ترجیح دے ان میں سے کوئی بھی اس کے لئے تیار نہ ہوا تو ان پروحی ہوئی کہ اس وقت علی میرے پیغمبر کے بستر پر سویا ہوا ہے اور وہ تیار ہے کہ اپنی جان ان پر قربان کردے، زمین پرجاؤ اور اس کے محافظ ونگھبان بن جاؤ ،جب جبرئیل ،حضرت علی علیہ السلام کے سرھانے آئے اور میکائیل پاؤں کی طرف بیٹہے تو جبرئیل کہہ رہے تھے: سبحان اللہ، صدآفرین آپ پر اے علی علیہ السلام کہ خدا آپ کے ذریعے فرشتوں پر فخر ومباھات کررھاہے ،اس موقع پر آیت نازل ہوئی ”کچھ لوگ اپنی جان خدا کی خوشنودی کے بدلے بیچ دیتے ہیں اور خدا اپنے بندوں پر مہربان ہے“ اور اسی بناء پروہ تاریخی رات ” لیلة المبیت“(شب ہجرت) کے نام سے مشہور ہوگئی ۔

ابن عباس(رض) کہتے ہیں :جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مشرکین سے چھپ کر ابوبکر کے ساتھ غار کی طرف جارہے تھے یہ آیت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی جو اس وقت بستر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سوئے ہوئے تھے ۔

ابوجعفر اسکافی کہتے ہیں :جیسے ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ، جلد ۳ ص ۲۷۰ پر لکھا ہے :

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بستر پر حضرت علی علیہ السلام کے سونے کا واقعہ تو اتر سے ثابت ہے اور اس کا انکار غیر مسلموں اور کم ذہن لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں کرتا(۳۷)

جب صبح ہوئی تومشرکین گہر میں گھس آئے ۔ انہوں نے جستجو کی تو حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر کی جگہ پر دیکھا ۔ اس طرح سے خدا نے ان کی سازش کو نقش برآب کردیا ۔

وہ پکارے: محمد کھاں ہے ؟

آپ نے جواب دیا : میں نہیں جانتا ۔

وہ آپ کے پاؤں کے نشانوں پر چل پڑے یہاں تک کہ غار کے پاس پہنچ گئے لیکن (انہوں نے تعجب سے دیکھا کہ مکڑی نے غار کے سامنے جالاتن رکھاہے ایک نے دوسرے سے کھا کہ اگر وہ اس غار میں ہوتے تو غارکے دھانے پر مکڑی کا جالا نہ ہوتا ، اس طرح وہ واپس چلے گئے )

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تین دن تک غار کے اندر رہے ( اور جب دشمن مکہ کے تمام بیابانوں میں آپ کو تلاش کرچکے اور تھک ھار کرمایوس پلٹ گئے تو آپ مدینہ کی طرف چل پڑے )۔

قبلہ کی تبدیلی

بعثت کے بعد تیرہ سال تک مکہ میں اور چند ماہ تک مدینہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حکم خدا سے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے لیکن اس کے بعد قبلہ بدل گیا اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ مکہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑہیں ۔

مدینہ میں کتنے ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جاتی رھی؟ اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے، یہ مدت سات ماہ سے لے کر سترہ ماہ تک بیان کی گئی ہے لیکن یہ جتنا عرصہ بھی تھا اس دوران یہودی مسلمانوں کو طعنہ زنی کرتے رہے کیونکہ بیت المقدس دراصل یہودیوں کا قبلہ تھا وہ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ان کا اپنا کوئی قبلہ نہیں بلکہ ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں اور یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ہم حق پر ہیں ۔

یہ باتیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کے لئے ناگوار تہیں ایک طرف وہ فرمان الٰھی کے مطیع تھے اور دوسری طرف یہودیوں کے طعنے ختم نہ ہوتے تھے، اسی لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آسمان کی طرف دیکھتے تھے گویا وحی الٰھی کے منتظر تھے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خانہ کعبہ سے خاص لگاؤ

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خصوصیت سے چاہتے تھے کہ قبلہ، کعبہ کی طرف تبدیل ہوجائے اور آپ انتظار میں رہتے تھے کہ خدا کی طرف سے اس سلسلہ میں کوئی حکم نازل ہو، اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حضرت ابراھیم علیہ السلام اور ان کے آثار سے عشق تھا، علاوہ از ایں کعبہ توحید کا قدیم ترین مرکز تھا، آپ جانتے تھے کہ بیت المقدس تو وقتی قبلہ ہے لیکن آپ کی خواہش تھی کہ حقیقی و آخری قبلہ جلد معین ہوجائے۔

آپ چونکہ حکم خدا کے سامنے سر تسلیم خم تھے،پس آپ یہ تقاضا زبان تک نہ لاتے صرف منتظر نگاہیں آسمان کی طرف لگائے ہوئے تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کو کعبہ سے کس قدر عشق اور لگاؤ تھا۔

اس انتظار میں ایک عرصہ گذرگیا یہاں تک کہ قبلہ کی تبدیلی کا حکم صادر ہوا ایک روز مسجد ”بنی سالم“ میں پیغمبر نماز ظہر پڑھارہے تھے دورکعتیں پڑھ چکے تھے کہ جبرئیل کو حکم ہوا کہ پیغمبر کا بازو تھام کر ان کارخ انور کعبہ کی طرف پھیردیں۔

مسلمانوں نے بھی فوراً اپنی صفوں کا رخ بدل لیا،یہاں تک کہ ایک روایت میں منقول ہے کہ عورتوں نے اپنی جگہ مردوں کو دی اور مردوں نے اپنے جگہ عورتوں کو دیدی ،(توجہ رہے کہ بیت المقدس شمالی سمت میں تھا ،اور خانہ کعبہ جنوبی سمت میں تھا۔)

اس واقعے سے یہودی بہت پریشان ہوئے اور اپنے پرانے طریقہ کے مطابق، ڈھٹائی، بھانہ سازی اور طعنہ بازی کا مظاہرہ کرنے لگے پہلے تو کہتے تھے کہ ہم مسلمانوں سے بہتر ہیں کیونکہ ان کا کوئی اپنا قبلہ نہیں ، یہ ہمارے پیروکار ہیں لیکن جب خدا کی طرف سے قبلہ کی تبدیلی کا حکم نازل ہوا تو انہوں نے پہر زبان اعتراض درازکی چنانچہ قرآن کہتا ہے۔

”بہت جلد کم عقل لوک کہیں گے ان (مسلمانوں) کو کس چیز نے اس قبلہ سے پھیردیا جس پر وہ پہلے تھے“۔(۳۸)

مسلمانوںنے اس سے کیوں اعراض کیا ہے جو گذشتہ زمانہ میںانبیائے ماسلف کا قبلہ رھا ہے، اگر پہلا قبلہ صحیح تھا تو اس تبدیلی کا کیا مقصد،اور اگر دوسرا صحیح ہے تو پہرتیر ہ سال اور پندرہ ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے کیوں نماز پڑھتے رہے ہیں ۔؟!

چنانچہ خدا وند عالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا:

”ان سے کہہ دو عالم کے مشرق ومغرب اللہ کے لئے ہیں وہ جسے چاہتا ہے سیدہے راستے کی ہدایت کرتا ہے“۔(۳۹)

تبدیلی قبلہ کا راز

بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی ان سب کے لئے اعتراض کا موجب بنی جن کا گمان تھا کہ ہر حکم کو مستقل رہنا چاہئے تھااگر ہمارے لئے ضروری تھا کہ کعبہ کی طرف نماز پڑہیں تو پہلے دن یہ حکم کیوں نہ دیا گیا اور اگر بیت المقدس مقدم ہے جو گذشتہ انبیاء کا بھی قبلہ شمار ہوتا ہے توپہراسے کیوں بدلاگیا۔؟

دشمنوں کے ہاتھ بھی طعنہ زنی کا موقع آگیا، شاید وہ کہتے تھے کہ پہلے تو انبیاء ماسبق کے قبلہ کی طرف نماز پڑھتا تھا لیکن کامیابیوں کے بعد اس پر قبیلہ پرستی نے غلبہ کرلیا ہے لہٰذا اپنی قوم اور قبیلے کے قبلہ کی طرف پلٹ گیا ہے یاکہتے تھے کہ اس نے دھوکا دینے اور یہودو نصاریٰ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لئے پہلے بیت المقدس کو قبول کرلیا اور جب یہ بات کار گرنہ ہوسکی تو اب کعبہ کی طرف رخ کرلیا ہے ۔

واضح ہے کہ ایسے وسوسے اور وہ بھی ایسے معاشرے میں جھاں ابھی نور علم نہ پھیلا ہو اور جھاں شرک وبت پرستی کی رسمیں موجود ہوں کیسا تذبذب واضطراب پیدا کردیتے ہیں اسی لئے قرآن صراحت سے کہتا ہے کہ” یہ مومنین اورمشرکین میں امتیاز پیدا کرنے والی ایک عظیم آزمائش تھی“۔(۴۰)

ممکن ہے کہ قبلہ کی تبدیلی کے اہم اسباب میں سے درج ذیل مسئلہ بھی ہو! خانہ کعبہ اس وقت مشرکین کے بتوں کامرکز بنا ہوا تھا لہٰذا حکم دیا گیا کہ مسلمان وقتی طور پر بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھ لیا کریں تاکہ اس طرح مشرکین سے اپنی صفیں الگ کرسکیں۔

لیکن جب مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد اسلامی حکومت وملت کی تشکیل ہوگئی اور مسلمانوں کی صفیں دوسروں سے مکمل طور پر ممتاز ہوگئیں تو اب یہ کیفیت برقرار رکھنا ضروری نہ رھا ،لہٰذا اس وقت کعبہ کی طرف رخ کرلیا گیا جو قدیم ترین مرکز توحید اور انبیاء کا بہت پرانا مرکز تھا ۔

ایسے میں ظاہر ہے کہ جو کعبہ کو اپنا خاندانی معنوی اور روحانی سرمایہ سمجھتے تھے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا ان کے لئے مشکل تھا اور اسی طرح بیت المقدس کے بعد کعبہ کی طرف پلٹنا، لہٰذا اس میں مسلمانوں کی سخت آزمائش تھی تاکہ شرک کے جتنے آثار ان میں باقی رہ گئے تھے اس کٹھالی میں پڑکر جل جائیں اور ان کے گذشتہ شرک آلود رشتے ناتے ٹوٹ جائیں۔

جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں اصولی طور پر تو خدا کے لئے مکان نہیں ہے قبلہ تو صرف وحدت اور صفوں میں اتحاد کا ایک رمزہے اور اس کی تبدیلی کسی چیز کود گرگوں نہیں کرسکتی ، اہم ترین امر تو خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے اور تعصب اورہٹ دہرمی کے بتوں کو توڑناہے ۔

جنگ بدر(۴۱)

جنگ بدرکی ابتداء یہاں سے ہوئی کہ مکہ والوں کا ایک اہم تجارتی قافلہ شام سے مکہ کی طرف واپس جآرہا تھا اس قافلے کو مدینہ کی طرف سے گزرنا تھا اہل مکہ کا سردار ابوسفیان قافلہ کا سالار تھا اس کے پاس ہزار دینار کا مال تجارت تھا پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب کو اس عظیم قافلے کی طرف تیزی سے کوچ کا حکم دیا کہ جس کے پاس دشمن کا ایک بڑا سرمایہ تھا تاکہ اس سرمائے کو ضبط کرکے دشمن کی اقتصادی قوت کو سخت ضرب لگائی جائے تاکہ اس کا نقصان دشمن کی فوج کو پہنچے ۔(۴۲)

بہرحال ایک طرف ابوسفیان کو مدینہ میں اس کے ذریعے اس امر کی اطلاع مل گئی اور دوسری طرف اس نے اہل مکہ کو صورت حال کی اطلاع کے لئے ایک تیز رفتار قاصد روانہ کردیا کیونکہ شام کی طرف جاتے ہوئے بھی اسے اس تجارتی قافلہ کی راہ میں رکاوٹ کا اندیشہ تھا ۔

قاصد ،ابوسفیان کی نصیحت کے مطابق اس حالت میں مکہ میں داخل ہوا کہ اس نے اپنے اونٹ کی ناک کوچیر دیا تھا اس کے کان کاٹ دیئے تھے ، خون ہیجان انگیز طریقہ سے اونٹ سے بہہ رھا تھا ،قاصد نے اپنی قمیض کو دونوں طرف سے پھاڑدیا تھا اونٹ کی پشت کی طرف منہ کرکے بیٹھا ہوا تھا تاکہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکے ، مکہ میں داخل ہوتے ھی اس نے چیخنا چلانا شروع کردیا :

اے کا میاب وکامران لوگو! اپنے قافلے کی خبر لو، اپنے کارواں کی مدد کرو ۔ لیکن مجھے امید نہیں کہ تم وقت پر پہنچ سکو ، محمد اور تمھارے دین سے نکل جانے والے افراد قافلے پر حملے کے لئے نکل چکے ہیں ۔

اس موقع پر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب کا ایک عجیب وغریب خواب تھا مکہ میں زبان زد خاص وعام تھا اور لوگوں کے ہیجان میں اضافہ کرھا تھا ۔ خواب کا ماجرایہ تھا کہ عاتکہ نے تین روزقبل خواب میں دیکھاکہ :

ایک شخص پکاررھا ہے کہ لوگو! اپنی قتل گاہ کی طرف جلدی چلو، اس کے بعد وہ منادی کوہ ابوقیس کی چوٹی پر چڑھ گیا اس نے پتہر کی ایک بڑی چٹان کو حرکت دی تو وہ چٹان ریزہ ریزہ ہوگئی اور اس کا ایک ایک ٹکڑا قریش کے ایک ایک گہرمیں جاپڑا اور مکہ کے درے سے خون کا سیلاب جاری ہوگیا ۔

عاتکہ وحشت زدہ ہوکر خواب سے بیدار ہوئی اور اپنے بھائی عباس کو سنایا ۔ اس طرح خواب لوگوں تک پہنچاتو وہ وحشت وپریشانی میں ڈوب گئے ۔ ابوجہل نے خواب سنا تو بولا : یہ عورت دوسرا پیغمبر ہے جو اولادعبدالمطلب میں ظاہر ہوا ہے لات وعزیٰ کی قسم ہم تین دن کی مھلت دیتے ہیں اگر اتنے عرصے میں اس خواب کی تعبیر ظاہر نہ ہوئی تو ہم آپس میں ایک تحریر لکھ کر اس پر دستخط کریں گے کہ بنی ھاشم قبائل عرب میں سے سب سے زیادہ جھوٹے ہیں تیسرا دن ہوا تو ابوسفیان کا قاصد آپہنچا ، اس کی پکار نے تمام اہل مکہ کو ہلاکو رکھ دیا۔

اور چونکہ تمام اہل مکہ کا اس قافلے میں حصہ تھا سب فوراً جمع ہوگئے ابوجہل کی کمان میں ایک لشکر تیار ہوا ، اس میں ۵۰ ۹ جنگجو تھے جن میں سے بعض انکے بڑے اور مشہور سردار اور بھادر تھے ۷۰۰ اونٹ تھے اور ۱۰۰ گھوڑے تھے لشکر مدینہ کی طرف روانہ ہوگیا ۔

دوسری طرف چونکہ ابو سفیان مسلمانوں سے بچ کر نکلنا چاہتاتھا ،لہٰذا اس نے راستہ بدل دیا اور مکہ کی طرف روانہ ہو گیا۔

۳۱۳ وفادار ساتھی

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ۳۱۳ افراد کے ساتھ جن میں تقریباً تمام مجاہدین اسلام تھے سرزمین بدرکے پاس پہنچ گئے تھے یہ مقام مکہ اور مدینہ کے راستے میں ہے یہاں آپ کو قریش کے لشکر کی روانگی کی خبر ملی اس وقت آپ نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ کیا ابوسفیان کے قافلہ کا تعاقب کیا جائے اور قافلہ کے مال پر قبضہ کیا جائے یا لشکر کے مقابلے کے لئے تیار ہواجائے؟ ایک گروہ نے دشمن کے لشکر کامقابلہ کرنے کو ترجیح دی جب کہ دوسرے گروہ نے اس تجویز کو ناپسند کیا اور قافلہ کے تعاقب کو ترجیح دی ،ان کی دلیل یہ تھی کہ ہم مدینہ سے مکہ کی فوج کا مقابلہ کرنے کے ارادہ سے نہیں نکلے تھے اور ہم نے اس لشکر کے مقابلے کے لئے جنگی تیاری نہیں کی تھی جب کہ وہ ہماری طرف پوری تیاری سے آرہا ہے ۔

اس اختلاف رائے اور تردد میں اس وقت اضافہ ہوگیا جب انہیں معلوم تھاکہ دشمن کی تعداد مسلمانوں سے تقریبا تین گنا ہے اور ان کا سازوسامان بھی مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ہے، ان تمام باتوں کے باوجود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے گروہ کے نظریے کو پسند فرمایا اور حکم دیا کہ دشمن کی فوج پر حملہ کی تیاری کی جائے ۔

جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تودشمن کو یقین نہ آیا کہ مسلمان اس قدر کم تعداد اور سازو سامان کے ساتھ میدان میں آئے ہوں گے ،ان کا خیال تھا کہ سپاہ اسلام کا اہم حصہ کسی مقام پر چھپاہوا ہے تاکہ وہ غفلت میں کسی وقت ان پر حملہ کردے لہٰذا انہوں نے ایک شخص کو تحقیقات کے لئے بھیجا، انہیں جلدی معلوم ہوگیا کہ مسلمانوں کی جمعیت یھی ہے جسے وہ دیکھ رہے ہیں ۔

دوسری طرف جیسا کہ ہم نے کھا ہے مسلمانوں کاایک گروہ وحشت وخوف میں غرق تھا اس کا اصرار تھا کہ اتنی بڑی فوج جس سے مسلمانوں کا کوئی موازنہ نہیں ، خلاف مصلحت ہے، لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدا کے وعدہ سے انہیں جوش دلایا اور انہیں جنگ پر اُبھارا، آپ نے فرمایا :کہ خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ دوگرو ہوں میں سے ایک پر تمہیں کا میابی حاصل ہوگی قریش کے قافلہ پر یا لشکر قریش پراور خداکے وعدہ کے خلاف نہیں ہوسکتا۔

خدا کی قسم ابوجہل اور کئی سرداران قریش کے لوگوں کی قتل گاہ کو گویا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رھا ہوں ۔

اس کے بعد آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ بدر کے کنوئیں کے قریب پڑاؤ ڈالیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے سے خواب میں اس جنگ کا منظر دیکھا تھا، آپ نے د یکھا کہ دشمن کی ایک قلیل سی تعداد مسلمانوں کے مقابلہ میں آئی ہے، یہ در اصل کامیابی کی ایک بشارت تھی آپ نے بعینہ یہ خواب مسلمانوں کے سامنے بیان کردیا، یہ بات مسلمانوں کے میدان بدر کی طرف پیش روی کے لئے ان کے جذبہ اور عزم کی تقویت کا باعث بنی۔

البتہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ خواب صحیح دیکھا تھا کیونکہ دشمن کی قوت اور تعداد اگرچہ ظاہراً بہت زیادہ تھی لیکن باطناً کم، ضعیف اور ناتواں تھی، ہم جانتے ہیں کہ خواب عام طور پر اشارے اور تعبیر کا پھلو رکھتے ہیں ، اور ایک صحیح خواب میں کسی مسئلے کا باطنی چہرہ آشکار ہوتا ہے۔

قریش کا ایک ہزار کا لشکر

اس ہنگامے میں ابوسفیان اپنا قافلہ خطرے کے علاقے سے نکال لے گیا ۔اصل راستے سے ہٹ کردریائے احمر کے ساحل کی طرف سے وہ تیزی سے مکہ پہنچ گیا ۔ اس کے ایک قاصدکے ذریعے لشکر کو پیغام بھیجا:

خدانے تمھارا قافلہ بچالیا ہے میرا خیال ہے کہ ان حالات میں محمد کامقابلہ کرنا ضروری نہیں کیونکہ اس کے اتنے دشمن ہیں جو اس کا حساب چکالیں گے ۔

لشکر کے کمانڈرابوجہل نے اس تجویز کو قبول نہ کیا ، اس نے اپنے بتوں لات اور عزیٰ کی قسم کھائی کہ نہ صرف ان کا مقابلہ کریں گے بلکہ مدینہ کے اندر تک ان کا تعاقب کریں گے یا انہیں قیدکرلیں گے اور مکہ میں لے آئیں گے تاکہ اس کامیابی کا شہرہ تمام قبائل عرب کے کانوں تک پہنچ جائے ۔ آخر کارلشکر قریش بھی مقام بدر تک آپہنچا، انہوں نے اپنے غلام کوپانی لانے کے لئے کنویں کی طرف بھیجے ،اصحاب پیغمبر نے انہیں پکڑلیا اور ان سے حالات معلوم کرنے کے لئے انہیں خدمت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں لے آئے حضرت نے ان سے پوچھا تم کون ہو ؟ انہوں نے کھا : ہم قریش کے غلام ہیں ، فرمایا: لشکر کی تعداد کیا ہے ؟ انہوں نے کھا : ہمیں اس کا پتہ نہیں ، فرمایا : ہرروز کتنے اونٹ کھانے کے لئے نحرکرتے ہیں ؟ انہوں نے کھا : نو سے دس تک، فرمایا: ان کی تعداد ۹ سوسے لے کر ایک ہزار تک ہے (ایک اونٹ ایک سو فوجی جوانوںکی خواراک ہے ) ۔

ماحول پُر ھیبت اور وحشت ناک تھا لشکر قریش کے پاس فراواں جنگی سازوسامان تھا ۔ یہاں تک کہ حوصلہ بڑھانے کے لئے وہ گانے بجانے والی عورتوں کو بھی ساتھ لائے تھے ۔ اپنے سامنے ایسے حریف کو دیکھ رہے تھے کہ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ ان حالات میں وہ میدان جنگ میں قدم رکہے گا۔

مسلمانو! فرشتے تمھاری مدد کریں گے

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دیکھ رہے تھے کہ ممکن ہے آپ کے اصحاب خوف ووحشت کی وجہ سے رات میں آرام سے سونہ سکیں اور پہر کل دن کو تھکے ہوئے جسم اور روح کے ساتھ دشمن کے مقابل ہوں لہٰذا خدا کے وعدے کے مطابق ان سے فرمایا:

تمھاری تعداد کم ہوتو اس کا غم نہ کر، آسمانی فرشتوں کی ایک عظیم جماعت تمھاری مدد کے لئے آئے گی، آپ نے انہیں خدائی وعدے کے مطابق اگلے روز فتح کی پوری تسلی دے کر مطمئن کردیا اور وہ رات آرام سے سوگئے۔

دوسری مشکل جس سے مجاہدین کو پریشانی تھی وہ میدان بدر کی کیفیت تھی ،ان کی طرف زمین نرم تھی اور اس میں پاؤں دھنس جاتے تھے اسی رات یہ ہوا کہ خوب بارش ہوئی ،اس کے پانی سے مجاہدین نے وضو کیا ، غسل کیا اور تازہ دم ہوگئے ان کے نیچے کی زمین بھی اس سے سخت ہوگئی ،تعجب کی بات یہ ہے کہ دشمن کی طرف اتنی زیادہ بارش ہوئی کہ وہ پریشان ہوگئے ۔

دشمن کے لشکر گاہ سے مسلمان جاسوسوں کی طرف سے ایک نئی خبر موصول ہوئی اور جلد ھی مسلمانوں میں پھیل گئی ، خبریہ تھی کہ فوج قریش اپنے ان تمام وسائل کے باوجود خو فزدہ ہے گویا وحشت کا ایک لشکر خدا نے ان کے دلوں کی سرزمین پر اتار دیا تھا ،اگلے روز چھوٹا سا اسلامی لشکر بڑے ولولے کے ساتھ دشمن کے سامنے صف آراء ہوا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے انہیں صلح کی تجویز پیش کی تاکہ عذر اور بھانہ باقی نہ رہے، آپ نے ایک نمائندے کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ میں نہیں چاہتا کہ تم وہ پہلا گروہ بن جاؤ کہ جس پر ہم حملہ آور ہوں ، بعض سردار ان قریش چاہتے تھے یہ صلح کا ہاتھ جوان کی طرف بڑھایا گیا ہے اسے تھام لیں اور صلح کرلیں، لیکن پہر ابوجہل مانع ہوا۔

ستر قتل ستر اسیر

آخرکار جنگ شروع ہوئی ،اس زمانے کے طریقے کے مطابق پہلے ایک کے مقابلے میں ایک نکلا ،ادہر لشکر اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا حمزہ اور حضرت علی علیہ السلام جوجو ان ترین افراد تھے میدان میں نکلے، مجاہدین اسلام میں سے چند اور بھادر بھی اس جنگ میں شریک ہوئے ،ان جوانوں نے اپنے حریفوں کے پیکر پر سخت ضربیں لگائیں اور کاری وار کئے اور ان کے قدم اکھاڑدیئے ،دشمن کا جذبہ اور کمزور پڑگیا ،یہ دیکھا تو ابوجہل نے عمومی حملے کا حکم دے دیا ۔

ابوجہل پہلے ھی حکم دے چکا تھا کہ اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سے جو اہل مدینہ میں سے ہیں انہیں قتل کردو ، مہاجرین مکہ کو اسیر کرلو مقصدیہ تھا کہ ایک طرح کے پر وپیگنڈا کے لئے انہیں مکہ لے جائیں ۔

یہ لمحات بڑے حساس تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جمعیت کی کثرت پر نظر نہ کریں اور صرف اپنے مد مقابل پر نگاہ رکہیں دانتوں کو ایک دوسرے پررکھ کر پیسیں ، باتیں کم کریں ، خدا سے مدد طلب کریں ، حکم پیغمبر سے کہیں رتی بہر سرتابی نہ کریں اور مکمل کامیابی کی امید رکہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دست دعا آسمان کی طرف بلند کئے اور عرض کیا : ”پالنے والے! اگر یہ لوگ قتل ہوگئے تو پہر تیری عبادت کوئی نہیں کرے گا“۔

دشمن کے لشکر کی سمت میں سخت ہوا چل رھی تھی اور مسلمان ہوا کی طرف پشت کرکے ان پر حملے کررہے تھے ۔ ان کی استقامت ، پامردی اور دلاوری نے قریش کا ناطقہ بندکردیا ابوجہل سمیت دشمن کے ستر آدمی قتل ہوگئے ان کی لاشیں خاک وخون میں غلطاں پڑی تہیں سترا فراد مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوگئے مسلمانوں کے بہت کم افراد شھید ہوئے ۔

اس طرح مسلمانوں کی پہلی مسلح جنگ طاقتور دشمن کے خلاف غیر متوقع کامیابی کے ساتھ اختتام پذیزر ہوئی ۔

جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی، ان میں ۷۷ مھاجر تھے اور دوسو چھتیس ( ۲۳۶) انصار، مہاجرین کا پرچم حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ میں تھا، اور انصار کا پرچم بردار” سعد بن عبادہ“ تھے، اس عظیم معرکہ کے لئے ان کے پاس صرف ۷۰ اونٹ دو گھوڑے، ۶ زرہیں اور آٹھ تلواریں تہیں ، دوسری طرف دشمن کی فوج ہزار افراد سے متجاوز تھی، اس کے پاس کافی ووافی اسلحہ تھا اور ایک سو گھوڑے تھے، اس جنگ ۲۲ مسلمان شھید ہوئے ان میں چودہ مھاجر او ر ۸ انصار تھے، دشمن کے ستر( ۷۰) افراد مارے گئے اور ستر ھی قیدی ہوئے، اس طرح مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور یوں مکمل کامرانی کے ساتھ وہ مدینہ کی طرف پلٹ گئے۔

واقعاً یہ عجیب و غریب بات تھی کہ تواریخ کے مطابق مسلمانوں کے چھوٹے سے لشکر کے مقابلہ میں قریش کی طاقتور فوج نفسیاتی طور پر اس قدر شکست خودرہ ہوچکی تھی کہ ان میں سے ایک گروہ مسلمانوں سے جنگ کرنے سے ڈرتا تھا، بعض اوقات وہ دل میں سوچتے کہ یہ عام انسان نہیں ہیں ، بعض کہتے ہیں کہ یہ موت کو اپنے اونٹوں پر لادکر مدینہ سے تمھارے لئے سوغات لائے ہیں ۔

”سعدبن معاذانصاری “نمائندہ کے طور پر خدمت پیغمبر میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے :

میرے ماں پاپ آپ پر قربان اے اللہ کے رسول ! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے آپ کی نبوت کی گواھی دی ہے کہ جو کچھ آپ کہتے ہیں خدا کی طرف سے ہے، آپ جو بھی حکم دینا چاہیں دیجئے اور ہمارے مال میں سے جو کچھ آپ چاہیں لے لیں، خدا کی قسم اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ اس دریا ( دریائے احمر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ،جووھاں سے قریب تھا ) میںکود پڑو تو ہم کو د پڑیں گے ہماری یہ آرزو ہے کہ خدا ہمیں توفیق دے کہ ایسی خدمت کریں جو آپ کی آنکھ کی روشنی کا باعث ہو۔

روز بدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

زمین سے مٹی اور سنگریزوں کی ایک مٹھی بہر کے مجھے دیدو۔

حضرت علی علیہ السلام نے ایسا ھی کیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے مشرکین کی طرف پھینک دیا اور فرمایا:

”شاہت الوجوہ“(تمھارے منھ قبیح اور سیاہ ہوجائیں)

لکھا ہے کہ معجزانہ طور پر گرد و غبار اور سنگریزے دشمن کی آنکھوں میں جا پڑے اور سب وحشت زدہ ہوگئے۔

مجاہدین کی تشویق

ابن عباس(رض) سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنگ بدر کے روز مجاہدین اسلام کی تشویق کے لئے کچھ انعامات مقررکیے مثلاً فرمایا کہ جو فلاں دشمن کو قید کر کے میرے پاس لائے گا اُسے یہ انعام دوں گا ان میں پہلے ھی روح ایمان وجھاد موجود تھی اوپر سے یہ تشویق بھی، نتیجہ یہ ہو اکہ جوان سپاھی بڑے افتخار سے مقابلہ کے لئے آگے بڑہے اور اپنے مقصد کی طرف لپکے بوڑہے سن رسیدہ افراد جھنڈوں تلے موجودرہے جب جنگ ختم ہوئی تو نوجوان اپنے پر افتخار انعامات کے لئے بارگاہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف بڑہے، بوڑہے ان سے کہنے لگے کہ اس میں ہمارا بھی حصہ ہے کیونکہ ہم تمھارے لئے پناہ اور سھارے کاکام کررہے تھے اور تمھارے لئے جوش وخروش کا باعث تھے اگر تمھارا معاملہ سخت ہوجاتاہے تو تمہیں پیچہے ہٹنا پڑتا تو یقیناً تم ہماری طرف آتے اس موقع پر دو انصاریوں میں تو تو میں میں بھی ہوگئی اور انہوں نے جنگی غنائم کے بارے میں بحث کی ۔

اس اثناء میں سورہ انفال کی پہلی آیت نازل ہوئی جس میں صراحت کے ساتھ بتایا گیا کہ غنائم کا تعلق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہے وہ جیسے چاہیں انہیں تقسیم فرمائیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی مساوی طور پر سب سپاھیوں میں غنائم تقسیم کردیئے اور برادران دینی میں صلح ومصالحت کا حکم دیا ۔

جنگ کا خاتمہ اور اسیروں کا واقعہ

جنگ بدر کے خاتمہ پر جب جنگی قیدی بنالئے گئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ حکم دیاکہ قیدیوں میں سے دو خطر ناک افراد عقبہ اور نضر کو قتل کردیاجائے تو اس پر انصار گھبراگئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ حکم تمام قیدیوں کے متعلق جاری ہوجائے اور وہ فدیہ لینے سے محروم ہوجائیں ) لہٰذا انہوں نے رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا : ہم نے سترآدمیوں کو قتل کیا ہے اور سترھی کو قیدی بنایا ہے اور یہ آپ کے قبیلے میں سے آپ ھی کے قیدی ہیں ،یہ ہمیں بخش دیجئے تاکہ ہم ان کی آزادی کے بدلے فدیہ لے سکیں ۔

(رسول اللہ اس کے لئے وحی آسمانی کے منتظر تھے ) اس موقع پروحی الٰھی نازل ہوئی اورقیدیوں کی آزادی کے بدلے فدیہ لینے کی اجازت دیدی گئی ۔

اسیروں کی آزادی کے لئے زیادہ سے زیادہ چار ہزار درہم اور کم سے کم ایک ہزار درہم معین کی گئی، یہ بات قریش کے کانوں تک پہونچی تو انھوں نے ایک ایک کے بدلے معین شدہ رقم بھیج کرا سیروں کو آزاد کرالیا۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا داماد ابوالعاص بھی ان قیدیوں میں تھا ،رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹی یعنی زینب جو ابولعاص کی بیوی تھی نے وہ گلو بند جو جناب خدیجہ نے ان کی شاد ی کے وقت انہیں دیا تھا فدیہ کے طور پررسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیجا،جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نگاہ گلو بند پر پڑی تو جناب خدیجہ(رض) جیسی فداکار اور مجاہدہ خاتون کی یاد یں ان کی آنکھوں کے سامنے مجسم ہوگئیں ،آپ نے فرمایا:خدا کی رحمت ہو خدیجہ پر ،یہ وہ گلو بند ہے جو اس نے میری بیٹی زینب کو جھیز میں دیا تھا(اور بعض دوسری روایات کے مطابق جناب خدیجہ کے احترام میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گلو بند قبول کرنے سے احرازکیا اور حقوق مسلمین کو پیش نظر کرتے ہوئے اس میںان کی موافقت حاصل کی)۔

اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابوالعاص کو اس شرط پر آزاد کردیا کہ وہ زینب کو (جو اسلام سے پہلے ابوالعاص کی زوجیت میں تہیں )مدینہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیج دے ، اس نے بھی اس شرط کو قبول کرلیا او ربعد میں اسے پورا بھی کیا۔

آنحضرت کے چچا عباس کا اسلام قبول کرنا

انصار کے کچھ آدمیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اجازت چاھی کہ آپ کے چچا عباس جو قیدیوں میں تھے ان سے آپ کے احترام میں فدیہ نہ لیا جائے لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”خداکی قسم اس کے ایک درہم سے بھی صرف نظر نہ کرو“( اگر فدیہ لینا خدائی قانون ہے تو اسے سب پر جاری ہونا چاہئے ،یہاں تک کہ میرے چچا پر بھی اس کے اور دوسروں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عباس(رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اپنی طرف سے او راپنے بھتیجے ( عقیل بن ابی طالب) کی طرف سے آپ کو فدیہ ادا کرنا چاہئے۔

عباس(رض) ( جو مال سے بڑا لگاؤ رکھتے تھے ) کہنے لگے: اے محمد! کیا تم چاہتے ہو کہ مجھے ایسا فقیر او رمحتاج کردو کہ میں اہل قریش کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلاؤں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اس مال میںسے فدیہ ادا کریں جو آپ نے اپنی بیوی ام الفضل کے پاس رکھا تھا اور اس سے کھا تھا کہ اگر میں میدان جنگ میں مارا جاؤں تو اس مال کو اپنے اور اپنی اولاد کے مصارف کے لئے سمجھنا۔

عباس یہ بات سن کر بہت متعجب ہوئے اور کہنے لگے: آپ کو یہ بات کس نے بتائی ( حالانکہ یہ تو بالکل محرمانہ تھی )؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : جبرئیل نے، خدا کی طرف سے۔

عباس(رض) بولے : اس کی قسم کہ جس کی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قسم کھاتا ہے کہ میرے اور میری بیوی کے علاوہ اس راز سے کوئی آگاہ نہ تھا۔

اس کے بعد وہ پکار اٹہے:”اشهد انک رسول الله“

( یعنی میں گواھی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں )

اور یوں وہ مسلمان ہوگئے۔

آزادی کے بعد بدر کے تمام قیدی مکہ لوٹ گئے لیکن عباس، عقیل اور نوفل مدینہ ھی میں رہ گئے کیونکہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔

عباس(رض) کے اسلام لانے کے بارے میں بعض تواریخ میں ہے کہ اسلام قبول کرلینے کے بعد وہ مکہ کی طرف پلٹ گئے تھے اور خط کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سازش سے باخبر کیا کرتے تھے ، پہر ۸ سے پہلے فتح مکہ کے سال مدینہ کی طرف ہجرت کر آئے۔

دوسرا حصّہ:

درخواست و طلب:(اسئلك )

دعا کے اس فراز میں دعا کرنے والے اپنی حاجتوں کو بیان کرنے کے لئے دوبارہ اسماء و صفات الہی کو بیان کرتا ہے اور یہ تکرار کلمہاسئلك کے بعد دو حصوں میں بیان ہواہے اور یہ اس لئے کہ دعا کرنے والا اسماء اور صفات الہی کو اپنی حاجت کے مطابق ذکر کرے ان کا تکرار بھی لطف سے خالی نہیں ہے ۔ امام علی علیہ السلام کبھی لوگوں کی ذہنیت کے مطابق ان الفاظ کو تکرار کرتے تھے جیسے اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے تھے ۔

(اللَّهَ اللَّهَ فِي الْأَيْتَامِ )وَ (اللَّهَ اللَّهَ فِي جِيرَانِكُمْ )(وَ اللَّهَ اللَّهَ فِي الْقُرْآنِ )وَ (اللَّهَ‏ اللَّهَ‏ فِي‏ الصَّلَاة )(۳۶)

یہاں پر لفظ اللہ تکرار ہوا ہے اور ہر روز پانچ وقت کی نماز کا تکرار ہونا بھی اسی لئے ہے کہ انسان جتنا ہوسکے خدا سے نزدیک تر ہو جائے ۔ انسان ہر بار نماز اور ذکر و تلاوت قرآن کے ذریعے سے قدم بہ قدم خدا کے نزدیک ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ پیغمبر اکرم کے بارے میں فرماتے ہے کہ "

( ثمُ‏َّ دَنَا فَتَدَلىَ‏ فَكاَنَ قَابَ قَوْسَينْ‏ِ أَوْ أَدْنى ) . پھر وہ قریب آئے پھر مزید قریب آئے، یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کم (فاصلہ) رہ گیا(۳۷) ۔

اسی طرح ہر ہفتے میں نماز جمعہ کے دونوں خطبوں میں تقوا کے متعلق تاکید ہونا بھی لوگوں کی دینی تربیت میں تکرار کی افادیت کو بیان کرتی ہے ۔ اصولا انسان کی زندگی بھی تکرار تنفس پر موقوف ہے اور کمالات بھی تکرار سے حاصل ہوتی ہیں ایک بار صدقہ دینے اور شجاعت کے جوہر دکھانے سے سخاوت اور شجاعت کی عادت نہیں ہوتی ہے جس طرح انسان کے اندر برے اوصاف ان کے برے اعمال کی تکرار کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔

اس حصے میں دس مطالب ہیں : کہ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ۔ (اللّٰهُمَّ انىْ اسْئَلُكَ )

۱-بِوَجْهِكَ الْكَريْمِ :

اے خداآپ کے بزرگی و بخشندگی کا واسطہ :

خداوند عالم کے لئے کوئی جسم نہیں ہے کہ چہرہ رکھتا ہو ؟ بلکہ ان کلمات کا ظاہری معنی مراد نہیں ہے جیسے سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۵ میں پڑھتے ہیں کہ "( وَ لِلَّهِ المْشْرِقُ وَ المْغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيم ) ۔ اور مشرق ہو یامغرب، دونوں اللہ ہی کے ہیں، پس جدھر بھی رخ کرو ادھر اللہ کا چہرہ ہے، بے شک اللہ (سب چیزوں کا) احاطہ رکھنے والا، بڑا علم والا ہے ۔

اسی طرح سورہ قصص کی آخری آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ "( كلُ‏ُّ شىَ‏ْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ) (۳۸) ۔ ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کے چہرے کے ۔

لہذا اولا : وجہ اللہ ہمیشہ اور ہر جگہ ہے صرف اسی کو حاجت روا جاننا چاہیے اور اگر اولیاء الہی کو ہم واسطہ قرار دیتے ہیںتو بھی اسی لئے ہیں کہ وہ حضرات بھی فیض و رحمت الہی کو ہم تک پہنچا تے ہیں ۔

ثانیا: خداکریم ہے چونکہ قرآن مجید میں صفات الہی میں سے ایک صفت کریم ذکر ہوا ہے جیسا کہ سورہ انفطار آیت ۶ میں فرمایا "( يَأَيهُّا الْانسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيم ) ۔ اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے کریم پروردگار کے بارے میں دھوکے میں رکھا۔

کریم یعنی بہت زیادہ کرم کرنے والا اور زیادہ بخشنے والا لیکن یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانے میں وجہ کریم کا کامل ترین مصداق امام زمانہ علیہ السلام کی ذات اقدس ہے ۔

امام رضا علیہ السلام کا فرمان ہے کہ وجہ اللہ سے مراد پیغمبر اکرم اور ان کے جانشین ہیں اور انہی کے ذریعے سے دین اور خدا کی معرفت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں(۳۹)

اور دعاے ندبہ میں بھی امام زمانہ کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ "أيْنَ‏ وَجْهُ‏ اللَّهِ‏ الَّذِي إِلَيْهِ یَتَوَجَّهُ الْأَوْلِيَاء ۔

۲-وَبِنُورِ وَجْهِکَ الْمُنِیرِ :

تیری روشن ذات کے نور کے واسطے سے ۔

امام حسین علیہ السلام دعاے عرفہ میں خداوند متعال کو اس طرح سے پکارتے ہیں "أَسْأَلُكَ بِنُورِ وَجْهِكَ‏ الَّذِي‏ أَشْرَقَتْ‏ لَهُ‏ السَّمَاوَاتُ وَ الْأَرْض (۴۰)

خدایا آپ کی اس پر نور جمال کا واسطہ کہ جس کی وجہ سے زمین و آسمان نورانی ہوتا ہے درخواست کرتا ہوں ۔

نور اور پچھلے جملے میں بیان شدہ نور( وجہ) کے درمیان فرق ہے چونکہ خداوند عالم نور بھی ہے اور تمام عالم کو نورانی کرنے والا بھی ہے کائنات میں موجود سارے نور اس کے نور کی ایک جہلک ہے اور نورصرف خدا ہے وہ جسے چاہے نور دیتا ہے پس ہر شخص جتنا خدا کامقرب اور نزدیک ہوگا اتنا ہی نورانی ہو جائے گا لہذا قرآن مجید نے پیغمبر اکرم کو منیر کہا ہے جیسا کہ سورہ احزاب کی آیت /۴۵-۴۶ میں آیا ہے کہ فرمایا "

( يَأَيهُّا النَّبىِ‏ُّ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ شَهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَ نَذِيرًا وَ دَاعِيًا إِلىَ اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَ سِرَاجًا مُّنِيرًا ) ۔ اے نبی! ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ،اور اس کے اذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے ۔

ان دو آیتوں میں پیغمبر اکرم کی سیرت کوبیان کیاہے کہ آپ معاشرے میں چراغ ہدایت ہے کہ جس کے نور کی وجہ سے رشد و حرکت اور حق و باطل کی پہچان انجام پاتا ہے ۔

اور اس زمانے میں تمام مخلوقات خدا میں صرف امام زمانہ کی ذات ہے جو خداوند متعال سے نور کو کشف کرتاہے اور دوسروں کو بھی نور دیتا ہے اور پیغمبر اکرم کا آخری وارث ہے ۔

۳-وَمُلْکِکَ الْقَدِیمِ :

اور تیری قدیم بادشاہی کے واسطے سے ۔

خداوند متعال تمام جہان کا مالک ہے جیسا کہ ہم پڑھتے ہیں کہ "( لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ مَا فِيهِنَّ وَ هُوَ عَلىَ‏ كلُ‏ِّ شىَ‏ْءٍ قَدِيرُ ) (۴۱) ۔ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

لفظ ملک لغت میں حاکم کے معنی میں ہے آیات اور روایات میں ملتا ہےکہ یہ لفظ خداوند عالم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیساکہ سورہ توحید کی اس آیت( لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُولَد ) میں اشارہ ہوا ہے کہ۔ نہ اس نے کسی کوجنااورنہ وہ جنا گیا بلکہ وہ ازلی ہے یعنی قدیم ہے حادث نہیں ہے ۔اور اسی طرح سے سورہ حدید میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہوا ہے "( لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ يحُىِ وَ يُمِيتُ وَ هُوَ عَلىَ‏ كلُ‏ِّ شىَ‏ْءٍ قَدِير ) (۴۲) آسمانوں اور زمین کی سلطنت اسی کی ہے، وہی زندگی اور وہی موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے ۔

۴-یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ :

اے زندہ اے پائندہ۔

آیت الکرسی میں ہم پڑھتے ہیں کہ( اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوم ) ۔ خدا وہ ہے کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو سب کا نگہبان ہے ۔

حیات کے معنی میں پروردگار عالم اور دوسرے لوگوں کے درمیان فرق ہے باقی دوسرے صفات الہی کی طرح کیونکہ صفات کا ذات الہی سے جدا ہوناممکن نہیں ہیں اور فناء و نابودی و عدم ذات الہی میں تصور نہیں ہے جیسا کہ فرمایا "( وَ تَوَكَّلْ عَلىَ الْحَىّ‏ِ الَّذِى لَا يَمُوت ) (۴۳) ۔ اور (اے رسول) اس اللہ پر توکل کیجیے جو زندہ ہے اور اس کے لیے کوئی موت نہیں ہے ۔

اور وہ اپنی حیات کے لئے تغذیہ تولید مثل اور جاذبہ و دافعہ میں سے کسی کی طرف محتاج نہیں ہے جیسا کہ دعاے جوشن کبیر میں آیا ہے "يَا حَيُ‏ الَّذِي‏ لَيْسَ‏ كَمِثْلِهِ شَي ۔ اس اسم کے بارے میں آئندہ وضاحت دیں گے ۔

اور لفظ قیوم" قیام سے لیا ہے جس کامعنی جو جوشخص اپنے پاؤں پر کھڑا ہو اور دوسرے اس سے وابستہ ہوں(۴۴)

اور قرآن کریم میں یہ لفظ تین بار استعمال ہوا ہے اور ہر بار کلمہ حی کے ساتھ آیا ہے ۔ پس خدا کا قیام ہونا خود اس کی ذات سے ہیں اور باقی تمام موجودات کا قیام اس کے وجود کی طرف سے ہیں ۔

اور قیومیت پروردگار سے مراد اپنے مخلوقات کی حفاظت اور تدبیر پر کامل تسلط رکھنا ہے ۔ پس خداوند عالم کا قیام ابدی و اذلی اور ہمیشہ رہنے والا ہے وہی پیدا کرتا ہے اور روزی دیتا ہے اور موت دیتا ہے اور وہ کبھی کسی ایک لحظہ کے لئے بھی غافل نہیں رہتا ہے ۔

اور اسی طرح سے ہر زندہ موجود اپنے زندگی کو ادامہ دینے کے لئے اس منبع فیض الہی کی طرف محتاج ہے جسطرح سے بجلی کا بلپ روشن ہونے کے لئے اس کا مر کز سے متصل ہونا ضروری ہے اسی طرح ہر موجود اپنی حیات اور بقاء کے لئے خدا وند عالم کی طرف محتاج ہیں ۔

جیسا کہ امیر المؤمنین فرماتے ہیں "كلّ‏ شئ‏ خاضع‏ له كلّ‏ شئ‏ قائم به (۴۵)

تمام چیزیں خدا کے سامنے تسلیم ہیں اور تمام چیزیں اسی سے وابستہ ہیں ۔

علماء نقل کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں پیغمبر اکرم بار بار سجدے میں جاتے تھے اور یا حی یا قیوم کا ورد کرتے تھے۔

۵-أسئلُکَ بِاسْمِکَ الَّذِی أشْرَقَتْ به السَّمٰوَاتُ وَالْاَرَضُونَ :

تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے جس سے چمک رہے ہیں سارے آسمان اور ساری زمینیں۔

دعا کے اس جملے کی طرح روز قیامت کے روشن ہونے پر قرآن کریم میں بھی ایک آیت ہے سورہ زمر میں فرمایا ہے "

( وَ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبهِّا وَ وُضِعَ الْكِتَابُ وَ جِاْى‏ءَ بِالنَّبِيِّنَ وَ الشهُّدَاءِ وَ قُضىِ‏َ بَيْنهَم بِالْحَقّ‏ِ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُون ) (۴۶) ۔ اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک جائے گی اور (اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی اور پیغمبروں اور گواہوں کو حاضر کیا جائے گا اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

تفسیر اطیب البیان میں اس آیت کی ذیل میں ہے کہ قیامت کے دن سورج اور چاند سے انکی روشنی واپس لینگے اور اس دن خدا کے نور روشن ہوگا تو اس سے مراد وہ نورہے جو مؤمنین سے نکلے گا ۔ اس کے بعد اس آیت کو گواہی کے طور پر ذکر کرتا ہے "( يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى‏ نُورُهُم بَينْ‏َ أَيْدِيهِم ) (۴۷) قیامت کے دن آپ مومنین اور مومنات کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کی دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا ۔

اس آیت کی اس تفسیر سے ہم یہ نتیجہ لے سکتے ہیں کہ وہ نو رجو قیامت کے دن روشن ہوگا وہ معصومیں علیہم السلام کا نور ہوگا کہ جن کا نور نور خدا سے ہے لہذاپیغمبر اکرم اور اہل بیت علیہم السلام دنیا اور آخرت دونوں میں خدا کا نور ہیں اسی لئے زیارت جامعہ کبیرہ میں اسی نور کی طرف اشارہ ہوا ہے جیساکہ فرمایا "وَ أَشْرَقَتِ‏ الْأَرْضُ‏ بِنُورِكُم ۔اور اسی طرح بہت ساری دعائیں موجود ہے کہ جن میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے لیکن شیعوں کے اعتقاد کی بنیاد پر اہل بیت علیہم السلام نور الہی کے بہترین تجلی ہیں اور انکا نور نور خدا سے ہیں جو منور اور ہدایت گر ہے ۔اور اسی کی ذیل میں پیغمبر اکرم سے ایک حدیث نقل ہوئی ہیں فرمایا کہ "ثُمَ‏ أَظْلَمَتِ‏ الْمَشَارِقُ‏ وَ الْمَغَارِبُ فَشَكَتِ الْمَلَائِكَةُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى أَنْ يَكْشِفَ عَنْهُمْ تِلْكَ الظُّلْمَةَ فَتَكَلَّمَ اللَّهُ جَلَّ جَلَالُهُ كَلِمَةً فَخَلَقَ مِنْهَا رُوحاً ثُمَّ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ فَخَلَقَ مِنْ تِلْكَ الْكَلِمَةِ نُوراً فَأَضَافَ النُّورَ إِلَى تِلْكَ الرُّوحِ وَ أَقَامَهَا مَقَامَ الْعَرْشِ فَزَهَرَتِ الْمَشَارِقُ وَ الْمَغَارِبُ فَهِيَ فَاطِمَةُ الزَّهْرَاءُ وَ لِذَلِكَ سُمِّيَتِ الزَّهْرَاءَ لِأَنَّ نُورَهَا زَهَرَتْ بِهِ السَّمَاوَات (۴۸) ۔

جب ہر جگہ تاریکی اور اندھیرا چھا گیا تو خداوند عالم سے فرشتوں نے شکایت کی کہ خدایا اس تاریکی کو ہم سے برطرف فرما !تو خداوند عالم نے ایک کلمہ ارشاد فرمایا اور اسی کلمہ سے ایک روح خلق ہوا اس کے بعد ایک اور کلمہ ارشاد فرمایا اس سے ایک نور خلق ہوا اور اس نور سے روشنی دی اور اس روشنی اورروح کو خدا نے عرش پر رکھا اس سے تمام عالم روشن ہوا اور وہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نور ہے اسی لئے آپ کو زہرا کہا اور آپ کے نور سے تمام آسمان روشن ہوا ۔

ایک اور روایت میں امام مہدی علیہ السلام کو زمین کو روشن کرنے والا کہا ہے ۔ مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا " رب الارض جوکہأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبهِّا والی آیت میں آیا ہے اس سے مراد امام الارض ہے یعنی امام زمانہ مراد ہے -(۴۹)

البتہ روایات میں قیام حضرت امام مہدی علیہ السلام کو اس آیت کی تفسیر و تاویل میں بیان کیا ہے اور حقیقت میں یہ ایک تاکید و تشبیہ ہے روز قیامت کے ساتھ کیونکہ یہ قیامت کا ایک نمونہ ہے چونکہ امام زمانہ کا عدل و انصاف تمام عالم میں حاکم ہوگا ۔

امام زمانہ کے ظہور کے بارے میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ" إِنَّ قَائِمَنَا إِذَا قَامَ‏ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّها وَ اسْتَغْنَى الْعِبَادُ عَنْ ضَوْءِ الشَّمْس (۵۰) ۔ جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو زمین نور پرور دگار سے روشن ہوگا اور لوگ سورج کی روشنی سے بے نیاز ہونگے ۔

۶-وَبِاسْمِکَ الَّذِی یَصْلَحُ بِه الْاَوَّلُونَ وَالْاَخِرُونَ :

تیرے نام کے واسطے سے جس سے اولین وآخرین نے بھلائی پائی۔

ان کلمات کے ساتھ دعا دوسری دعاوں میں بھی موجود ہے جیسا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے خداوندعالم کی بارگاہ میں اس طرح سے دعا کی ہے فرمایا "

فَأَسْأَلُكَ بِنُورِ وَجْهِكَ الَّذِي أَشْرَقَتْ‏ لَهُ‏ الْأَرْضُ‏ وَ السَّمَاوَاتُ وَ انْكَشَفَتْ بِهِ الظُّلُمَاتُ وَ صَلَحَ عَلَيْهِ أَمْرُ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِين (۵۱)

بعید نہیں ہے اس سے پہلے والے فراز میں اسم الہی کہ جس سے تمام مخلوقات اولین و آخرین اصلاح پاتے ہیں سے مراد وہ وہی انسان کامل اور خلیفہ الہی ہو ۔ کیونکہ خدا وند عالم نے حجت خدا کو مخلوقات سے پہلے خلق کیا ہے اور حجت خدا ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوتا ہے اور ابھی اس زمانے میں ہر صالح انسان کی زندگی میں جو مؤثر ذات ہے اور گمراہی اور فساد سے نجات دیتی ہے وہ حجت خدا امام زمانہ کی ذات اقدس ہے ۔ اور آپ کی ذات ہی معاشرے کی تربیت اور انسانوں کی ہدایت کا محور ہے اور آج کے اس دور میں انسان کی نجات کا واحد وسیلہ امام سے منسلک ہونا ہی ہے اور انسان جتنا بھی اپنے کردار سے امام سے نزدیک ہو جائے گا اتنا ہی وہ خوش نصیب ہوگا۔

ان جملات کے پڑھتے وقت منتظر اس نکتے کی طرف متوجہ ہے کہ انسان کو چاہیے اپنی زندگی کو ایسا بنائے کہ جس سے امام راضی ہو جائے کیونکہ حجت خدا کا انسان کے زندگی میں مؤثر ہونے سے مراد یہی ہے کہ وہ انسان کو فساد سے نجات دے اور اسکی ہدایت کرکے کامیابی کا راستہ دیکھا دے ۔ اسی طرح زیارت جامعہ کبیرہ میں ہم پڑھتے ہیں "بِمُوَالاتِكُمْ عَلَّمَنَا اللَّهُ مَعَالِمَ دِينِنَا وَ أَصْلَحَ‏ مَا كَانَ‏ فَسَدَ مِنْ دُنْيَانَا ۔(۵۲)

خداوندمتعال نے آپ کی اس ولایت کے واسطے سے ہماری وہ زندگی جو خراب اوربے ثمر تھا اس کا اصلاح کیا ۔

پس ہر وہ شخص جو اپنی زندگی میں کامیاب تھے اور کامیابی تک پہنچے ہیں وہ اپنے زمانے کے حجت خدا کے وسیلہ سے کامیابی تک پہنچے ہیں ۔

۷-یَا حَیّاً قَبْلَ کُلِّ حَیٍّ :

اے زندہ ہر زندہ سے پہلے۔

۸-وَیَا حَیّاً بَعْدَ کُلِّ حَیٍّ :

اور اے زندہ ہر زندہ کے بعد۔

۹-وَیَا حَیّاً حِینَ لاَ حَیَّ :

اور اے زندہ جب کوئی زندہ نہ تھا اے مردوں کو زندہ کرنے والے۔

اس دعامیں خاص طور پر خداوند متعال کے ( حَیٍّ ) یعنی زندہ ہونے پر تاکید ہوئی ہے اور یہ بحث دعاے جوشن کبیر کی سترویں فراز میں اس طرح سے آئی ہے ۔"يَا حَيّاً قَبْلَ كُلِّ حَيٍّ يَا حَيّاً بَعْدَ كُلِّ حَيٍّ يَا حَيُّ الَّذِي لَيْسَ كَمِثْلِهِ حَيٌّ يَا حَيُّ الَّذِي لَا يُشَارِكُهُ حَيٌّ يَا حَيُّ الَّذِي لَا يَحْتَاجُ إِلَى حَيٍّ (۵۳) ۔

ہاں خداوند عالم تمام موجودات سے پہلے اور بعد میں زندہ ہے اور زندہ رہنے میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے اور نہ ہی زندہ ہونے میں وہ کسی کا محتاج ہے بلکہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ زندہ و قائم ہے

اس دعا میں اس اسم الہی کو چہار بار کیوں ذکر کیا ہے اور بعد میں بھی زندگی اور موت کی طرف اشارہ کیا ہے آیاممکن ہے کہ یہ بحث رجعت کے ساتھ مربوط ہو ؟ جوکہ اس دعا کے بارے میں معروف ہے تو ظاہرا ایسا لگتا ہے کہ اس (حی ) پر تاکید کرنا رجعت کے مسالہ سے غیر مربوط نہ ہو۔

۱۰-یَا مُحْیِیَ الْمَوْتیٰ :

اے مردوں کو زندہ کرنے والے ۔

وہ خدا کہ جو پہلے خلق کیا ہے وہی دوبارہ بھی خلق کرسکتا ہے جیسا کہ سورہ نجم میں آیا ہے کہ "( وَ أَنَّهُ هُوَ أَمَاتَ وَ أَحْيَا ) (۵۴) ۔

اور یہ کہ وہی مارتا اور وہی جلاتا ہے ۔

پس وہ ایسی ذات ہے کہ جو تمام عالم پر اور ہر چیز کی زندگی اور موت پر قدرت و اختیار رکھتا ہے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے "( إِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ يُحْيي‏ وَ يُميتُ وَ ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَ لا نَصيرٍ ) (۵۵)

آسمانوں اور زمین کی سلطنت یقینا اللہ ہی کے لیے ہے، زندگی بھی وہی دیتا ہے اور موت بھی ۔

اسی قسم کی بہت ساری آیات موجود ہیں جیسا کہ سورہ عنکبوت میں فرمایا "

( أَ وَ لَمْ يَرَوْاْ كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ إِنَّ ذَالِكَ عَلىَ اللَّهِ يَسِير ) (۵۶) ۔

کیا انہوں نے (کبھی) غور نہیں کیا کہ اللہ خلقت کی ابتدا کیسے کرتا ہے پھر اس کا اعادہ کرتا ہے، یقینا اللہ کے لیے یہ (زیادہ )آسان ہے ۔

نتیجہ :

۱ ۔ آفرینش جہان خدا وند عالم کی قدرت نمائی کا مظہر ہے اور موت و زندگی اسی کا ایک حصہ ہے ۔

۲۔ موت و زندگی دینا اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جانا خدا وند عالم کا ہمیشہ کا کام ہے ۔( إِنَّهُ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعيدُه ) ۔ فعل مضارع ہے جو استمرار اوردوام پر دلالت کرتاہے ۔

۳۔ پہلی دفعہ خلق کرنا اور موت دینا اور پھر زندہ کرنا خدا کے لئے آسان ہے صرف ارادہ چاہیے ۔( إِنَّ ذَالِكَ عَلىَ اللَّهِ يَسِير ) ۔

۱۱-وَمُمِیتَ الْاَحْیاء :

اے زندوں کو موت دینے والے ۔

قرآن مجید میں ہم پڑھتے ہیں کہ موت و حیات خدا وند عالم کی ربوبیت کا ایک جلوہ ہے ۔( وَ أَن إِلى‏ رَبِّكَ الْمُنْتَهى‏ ) ۔ ھوآفات و احیاء) اور اسی طرح سے سورہ یونس میں ملتا ہے ۔( هُوَ يُحْىِ وَ يُمِيتُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُون ) (۵۷) ۔

وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جاؤ گے۔

اور سورہ روم میں آیا ہے( اللَّهُ الَّذِى خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يحُيِيكُمْ هَلْ مِن شُرَكاَئكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَالِكُم مِّن شىَ‏ْءٍ سُبْحَنَهُ وَ تَعَلىَ‏ عَمَّا يُشْرِكُون ) (۵۸) اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا وہی تمہیں موت دیتا ہے پھروہی تمہیں زندہ کرے گا، کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو ان میں سے کوئی کام کر سکے؟ پاک ہے اور بالاتر ہے وہ ذات اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔

اس آیت میں خداوند عالم کے چار اوصاف کی طرف اشارہ ہوا ہے اگر ان میں سے ایک بھی انسان میں ہو تو یہ اس کے لئے کافی ہے ۔

الف) انسان کی خلقت ہی بندگی لازم ہونے پر ایک دلیل ہے جیسا کہ فرمایا "

( اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذي خَلَقَكُمْ ) (۵۹) ۔ عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے والے لوگوں کو پیداکیا۔

ب) اللہ تعالی کا ہمیں رزق و روزی دینا بندگی ضروری ہونے پر ایک اور دلیل ہے ۔ فرمایا "( فَلْيَعْبُدُواْ رَبَّ هَاذَا الْبَيْتِ الَّذِى أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَ ءَامَنَهُم مِّنْ خَوْفِ ) (۶۰) ۔( چاہیے تھا کہ وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں، جس نے انہیں بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف سے انہیں امن دیا۔

اور اسی طرح سے موت و زندگی بھی اللہ تعالی کی عبادت و بندگی ضروری ہونے پر الگ الگ دلیلیں ہیں فرمایا "

( اللَّهُ الَّذي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُميتُكُمْ ثُمَّ يُحْييكُمْ ) (۶۱) ۔ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا وہی تمہیں موت دیتا ہے پھروہی تمہیں زندہ کرے گا،

اور اسی طرح سے سورہ غافر میں ہم پڑھتے ہیں کہ فرمایا "

( هُوَ الَّذِى يُحْىِ وَ يُمِيتُ فَإِذَا قَضىَ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُون ) (۶۲) ۔ وہی تو ہے جو زندگی دیتا ہے اور وہی موت بھی دیتا ہے پھر جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے صرف یہ کہتا ہے: ہو جا! پس وہ ہوجاتا ہے ۔

نتیجہ :

۱۔ موت اور زندگی فقط خداکے ہاتھ میں ہے ۔( هُوَ الَّذِى يُحْىِ وَ يُمِيتُ ) ۔

۲۔ اللہ کے لئے زندگی دینا اور موت دینا برابر ہے ۔( يُحْىِ وَ يُمِيتُ ) ۔

۱۲-یَا حَیُّ لاَ إله إلاَّ أنْتَ :

اے وہ زندہ کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں.

اس سے پہلے خداوند عالم کے حَیّ ہونے کے بارے میں توضیح دی ہے اور اس حصے میں خداوند عالم کی وحدانیت کو ذکر کیا ہے لہذا اس کے بارے میں تھوڑا سا توضیح دینگے ۔

قرآن مجید میں بہت ساری مقامات پر وحدانیت کا ذکر ہوا ہے جیسا کہ فرمایا "( لَا إِلَه إِلَّا الله ) (سورہ صافات /۳۵() لَا إِلَه إِلَّا الله هو ) ۔ (سورہ بقرہ / )۱۶۳ ) اور( لَا إِلَه إِلَّا الله انت ) ۔ (سورہ انبیاء /۸۷ )۔( لَا إِلَه إِلَّا الله انا ) ۔ (سورہ نحل / ۲)۔

مسلمانوں کی شناختی علامت یہی ۔لَا إِلَه إِلَّا الله ہے اور اسی طرح سے پیغمبر اکرم کے تبلیغ دین کا سب سے پہلا کلمہ بھی یہی تھا جیسا کہ فرمایا "قولوا لا اله الا الله تفلحوا ۔(۶۳)

اور اسی طرح سے فرمایا "مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُخْلِصاً دَخَلَ الْجَنَّةَ وَ إِخْلَاصُهُ أَنْ تَحْجُزَهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَمَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَل ۔(۶۴) ۔ جو کوئی خلوص کے ساتہ کلمہ توحید پڑھے گا تو وہ بہشت میں داخل ہوگا اورخلوص کی علامت یہ ہے کہ اس کلمہ کو پڑھنے کے بعد وہ حرام الہی سے دور رہے ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہقَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ثَمَنُ‏ الْجَنَّة (۶۵) ۔ یعنی اس کا پڑھنا جنت کی قیمت ہے۔ اور اسی طرح سے حضرت امام رضا علیہ السلام سے بھی نقل ہوا ہے کہ "لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ‏ حِصْنِي (۶۶)

یقینا خداکی وحدانیت خدا کا مضبوط قلعہ ہے خدا کی وحدانیت پر اقرار اور اعتراف کرنا بہت ساری دعاؤں میں موجود ہیں جیسا کہ آداب دعا میں سے ایک اہم حصہ یہی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین علیہ السلام دعاے کمیل میں فرماتے ہیں "لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ‏ سُبْحَانَكَ‏ وَ بِحَمْدِكَ‏ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَ تَجَرَّأْتُ بِجَهْلِي ۔(۶۷)

اور قرآن میں بھی اسی طرح سے آیا ہے فرمایا "( أَن لَّا إِلَاهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنىّ‏ِ كُنتُ مِنَ الظَّلِمِين ) ۔(۶۸)

دوسرا حصّہ:

درخواست و طلب:(اسئلك )

دعا کے اس فراز میں دعا کرنے والے اپنی حاجتوں کو بیان کرنے کے لئے دوبارہ اسماء و صفات الہی کو بیان کرتا ہے اور یہ تکرار کلمہاسئلك کے بعد دو حصوں میں بیان ہواہے اور یہ اس لئے کہ دعا کرنے والا اسماء اور صفات الہی کو اپنی حاجت کے مطابق ذکر کرے ان کا تکرار بھی لطف سے خالی نہیں ہے ۔ امام علی علیہ السلام کبھی لوگوں کی ذہنیت کے مطابق ان الفاظ کو تکرار کرتے تھے جیسے اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے تھے ۔

(اللَّهَ اللَّهَ فِي الْأَيْتَامِ )وَ (اللَّهَ اللَّهَ فِي جِيرَانِكُمْ )(وَ اللَّهَ اللَّهَ فِي الْقُرْآنِ )وَ (اللَّهَ‏ اللَّهَ‏ فِي‏ الصَّلَاة )(۳۶)

یہاں پر لفظ اللہ تکرار ہوا ہے اور ہر روز پانچ وقت کی نماز کا تکرار ہونا بھی اسی لئے ہے کہ انسان جتنا ہوسکے خدا سے نزدیک تر ہو جائے ۔ انسان ہر بار نماز اور ذکر و تلاوت قرآن کے ذریعے سے قدم بہ قدم خدا کے نزدیک ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ پیغمبر اکرم کے بارے میں فرماتے ہے کہ "

( ثمُ‏َّ دَنَا فَتَدَلىَ‏ فَكاَنَ قَابَ قَوْسَينْ‏ِ أَوْ أَدْنى ) . پھر وہ قریب آئے پھر مزید قریب آئے، یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کم (فاصلہ) رہ گیا(۳۷) ۔

اسی طرح ہر ہفتے میں نماز جمعہ کے دونوں خطبوں میں تقوا کے متعلق تاکید ہونا بھی لوگوں کی دینی تربیت میں تکرار کی افادیت کو بیان کرتی ہے ۔ اصولا انسان کی زندگی بھی تکرار تنفس پر موقوف ہے اور کمالات بھی تکرار سے حاصل ہوتی ہیں ایک بار صدقہ دینے اور شجاعت کے جوہر دکھانے سے سخاوت اور شجاعت کی عادت نہیں ہوتی ہے جس طرح انسان کے اندر برے اوصاف ان کے برے اعمال کی تکرار کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔

اس حصے میں دس مطالب ہیں : کہ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ۔ (اللّٰهُمَّ انىْ اسْئَلُكَ )

۱-بِوَجْهِكَ الْكَريْمِ :

اے خداآپ کے بزرگی و بخشندگی کا واسطہ :

خداوند عالم کے لئے کوئی جسم نہیں ہے کہ چہرہ رکھتا ہو ؟ بلکہ ان کلمات کا ظاہری معنی مراد نہیں ہے جیسے سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۵ میں پڑھتے ہیں کہ "( وَ لِلَّهِ المْشْرِقُ وَ المْغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيم ) ۔ اور مشرق ہو یامغرب، دونوں اللہ ہی کے ہیں، پس جدھر بھی رخ کرو ادھر اللہ کا چہرہ ہے، بے شک اللہ (سب چیزوں کا) احاطہ رکھنے والا، بڑا علم والا ہے ۔

اسی طرح سورہ قصص کی آخری آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ "( كلُ‏ُّ شىَ‏ْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ) (۳۸) ۔ ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کے چہرے کے ۔

لہذا اولا : وجہ اللہ ہمیشہ اور ہر جگہ ہے صرف اسی کو حاجت روا جاننا چاہیے اور اگر اولیاء الہی کو ہم واسطہ قرار دیتے ہیںتو بھی اسی لئے ہیں کہ وہ حضرات بھی فیض و رحمت الہی کو ہم تک پہنچا تے ہیں ۔

ثانیا: خداکریم ہے چونکہ قرآن مجید میں صفات الہی میں سے ایک صفت کریم ذکر ہوا ہے جیسا کہ سورہ انفطار آیت ۶ میں فرمایا "( يَأَيهُّا الْانسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيم ) ۔ اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے کریم پروردگار کے بارے میں دھوکے میں رکھا۔

کریم یعنی بہت زیادہ کرم کرنے والا اور زیادہ بخشنے والا لیکن یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانے میں وجہ کریم کا کامل ترین مصداق امام زمانہ علیہ السلام کی ذات اقدس ہے ۔

امام رضا علیہ السلام کا فرمان ہے کہ وجہ اللہ سے مراد پیغمبر اکرم اور ان کے جانشین ہیں اور انہی کے ذریعے سے دین اور خدا کی معرفت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں(۳۹)

اور دعاے ندبہ میں بھی امام زمانہ کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ "أيْنَ‏ وَجْهُ‏ اللَّهِ‏ الَّذِي إِلَيْهِ یَتَوَجَّهُ الْأَوْلِيَاء ۔

۲-وَبِنُورِ وَجْهِکَ الْمُنِیرِ :

تیری روشن ذات کے نور کے واسطے سے ۔

امام حسین علیہ السلام دعاے عرفہ میں خداوند متعال کو اس طرح سے پکارتے ہیں "أَسْأَلُكَ بِنُورِ وَجْهِكَ‏ الَّذِي‏ أَشْرَقَتْ‏ لَهُ‏ السَّمَاوَاتُ وَ الْأَرْض (۴۰)

خدایا آپ کی اس پر نور جمال کا واسطہ کہ جس کی وجہ سے زمین و آسمان نورانی ہوتا ہے درخواست کرتا ہوں ۔

نور اور پچھلے جملے میں بیان شدہ نور( وجہ) کے درمیان فرق ہے چونکہ خداوند عالم نور بھی ہے اور تمام عالم کو نورانی کرنے والا بھی ہے کائنات میں موجود سارے نور اس کے نور کی ایک جہلک ہے اور نورصرف خدا ہے وہ جسے چاہے نور دیتا ہے پس ہر شخص جتنا خدا کامقرب اور نزدیک ہوگا اتنا ہی نورانی ہو جائے گا لہذا قرآن مجید نے پیغمبر اکرم کو منیر کہا ہے جیسا کہ سورہ احزاب کی آیت /۴۵-۴۶ میں آیا ہے کہ فرمایا "

( يَأَيهُّا النَّبىِ‏ُّ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ شَهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَ نَذِيرًا وَ دَاعِيًا إِلىَ اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَ سِرَاجًا مُّنِيرًا ) ۔ اے نبی! ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ،اور اس کے اذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے ۔

ان دو آیتوں میں پیغمبر اکرم کی سیرت کوبیان کیاہے کہ آپ معاشرے میں چراغ ہدایت ہے کہ جس کے نور کی وجہ سے رشد و حرکت اور حق و باطل کی پہچان انجام پاتا ہے ۔

اور اس زمانے میں تمام مخلوقات خدا میں صرف امام زمانہ کی ذات ہے جو خداوند متعال سے نور کو کشف کرتاہے اور دوسروں کو بھی نور دیتا ہے اور پیغمبر اکرم کا آخری وارث ہے ۔

۳-وَمُلْکِکَ الْقَدِیمِ :

اور تیری قدیم بادشاہی کے واسطے سے ۔

خداوند متعال تمام جہان کا مالک ہے جیسا کہ ہم پڑھتے ہیں کہ "( لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ مَا فِيهِنَّ وَ هُوَ عَلىَ‏ كلُ‏ِّ شىَ‏ْءٍ قَدِيرُ ) (۴۱) ۔ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

لفظ ملک لغت میں حاکم کے معنی میں ہے آیات اور روایات میں ملتا ہےکہ یہ لفظ خداوند عالم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیساکہ سورہ توحید کی اس آیت( لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُولَد ) میں اشارہ ہوا ہے کہ۔ نہ اس نے کسی کوجنااورنہ وہ جنا گیا بلکہ وہ ازلی ہے یعنی قدیم ہے حادث نہیں ہے ۔اور اسی طرح سے سورہ حدید میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہوا ہے "( لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ يحُىِ وَ يُمِيتُ وَ هُوَ عَلىَ‏ كلُ‏ِّ شىَ‏ْءٍ قَدِير ) (۴۲) آسمانوں اور زمین کی سلطنت اسی کی ہے، وہی زندگی اور وہی موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے ۔

۴-یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ :

اے زندہ اے پائندہ۔

آیت الکرسی میں ہم پڑھتے ہیں کہ( اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوم ) ۔ خدا وہ ہے کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو سب کا نگہبان ہے ۔

حیات کے معنی میں پروردگار عالم اور دوسرے لوگوں کے درمیان فرق ہے باقی دوسرے صفات الہی کی طرح کیونکہ صفات کا ذات الہی سے جدا ہوناممکن نہیں ہیں اور فناء و نابودی و عدم ذات الہی میں تصور نہیں ہے جیسا کہ فرمایا "( وَ تَوَكَّلْ عَلىَ الْحَىّ‏ِ الَّذِى لَا يَمُوت ) (۴۳) ۔ اور (اے رسول) اس اللہ پر توکل کیجیے جو زندہ ہے اور اس کے لیے کوئی موت نہیں ہے ۔

اور وہ اپنی حیات کے لئے تغذیہ تولید مثل اور جاذبہ و دافعہ میں سے کسی کی طرف محتاج نہیں ہے جیسا کہ دعاے جوشن کبیر میں آیا ہے "يَا حَيُ‏ الَّذِي‏ لَيْسَ‏ كَمِثْلِهِ شَي ۔ اس اسم کے بارے میں آئندہ وضاحت دیں گے ۔

اور لفظ قیوم" قیام سے لیا ہے جس کامعنی جو جوشخص اپنے پاؤں پر کھڑا ہو اور دوسرے اس سے وابستہ ہوں(۴۴)

اور قرآن کریم میں یہ لفظ تین بار استعمال ہوا ہے اور ہر بار کلمہ حی کے ساتھ آیا ہے ۔ پس خدا کا قیام ہونا خود اس کی ذات سے ہیں اور باقی تمام موجودات کا قیام اس کے وجود کی طرف سے ہیں ۔

اور قیومیت پروردگار سے مراد اپنے مخلوقات کی حفاظت اور تدبیر پر کامل تسلط رکھنا ہے ۔ پس خداوند عالم کا قیام ابدی و اذلی اور ہمیشہ رہنے والا ہے وہی پیدا کرتا ہے اور روزی دیتا ہے اور موت دیتا ہے اور وہ کبھی کسی ایک لحظہ کے لئے بھی غافل نہیں رہتا ہے ۔

اور اسی طرح سے ہر زندہ موجود اپنے زندگی کو ادامہ دینے کے لئے اس منبع فیض الہی کی طرف محتاج ہے جسطرح سے بجلی کا بلپ روشن ہونے کے لئے اس کا مر کز سے متصل ہونا ضروری ہے اسی طرح ہر موجود اپنی حیات اور بقاء کے لئے خدا وند عالم کی طرف محتاج ہیں ۔

جیسا کہ امیر المؤمنین فرماتے ہیں "كلّ‏ شئ‏ خاضع‏ له كلّ‏ شئ‏ قائم به (۴۵)

تمام چیزیں خدا کے سامنے تسلیم ہیں اور تمام چیزیں اسی سے وابستہ ہیں ۔

علماء نقل کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں پیغمبر اکرم بار بار سجدے میں جاتے تھے اور یا حی یا قیوم کا ورد کرتے تھے۔

۵-أسئلُکَ بِاسْمِکَ الَّذِی أشْرَقَتْ به السَّمٰوَاتُ وَالْاَرَضُونَ :

تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے جس سے چمک رہے ہیں سارے آسمان اور ساری زمینیں۔

دعا کے اس جملے کی طرح روز قیامت کے روشن ہونے پر قرآن کریم میں بھی ایک آیت ہے سورہ زمر میں فرمایا ہے "

( وَ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبهِّا وَ وُضِعَ الْكِتَابُ وَ جِاْى‏ءَ بِالنَّبِيِّنَ وَ الشهُّدَاءِ وَ قُضىِ‏َ بَيْنهَم بِالْحَقّ‏ِ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُون ) (۴۶) ۔ اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک جائے گی اور (اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی اور پیغمبروں اور گواہوں کو حاضر کیا جائے گا اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

تفسیر اطیب البیان میں اس آیت کی ذیل میں ہے کہ قیامت کے دن سورج اور چاند سے انکی روشنی واپس لینگے اور اس دن خدا کے نور روشن ہوگا تو اس سے مراد وہ نورہے جو مؤمنین سے نکلے گا ۔ اس کے بعد اس آیت کو گواہی کے طور پر ذکر کرتا ہے "( يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى‏ نُورُهُم بَينْ‏َ أَيْدِيهِم ) (۴۷) قیامت کے دن آپ مومنین اور مومنات کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کی دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا ۔

اس آیت کی اس تفسیر سے ہم یہ نتیجہ لے سکتے ہیں کہ وہ نو رجو قیامت کے دن روشن ہوگا وہ معصومیں علیہم السلام کا نور ہوگا کہ جن کا نور نور خدا سے ہے لہذاپیغمبر اکرم اور اہل بیت علیہم السلام دنیا اور آخرت دونوں میں خدا کا نور ہیں اسی لئے زیارت جامعہ کبیرہ میں اسی نور کی طرف اشارہ ہوا ہے جیساکہ فرمایا "وَ أَشْرَقَتِ‏ الْأَرْضُ‏ بِنُورِكُم ۔اور اسی طرح بہت ساری دعائیں موجود ہے کہ جن میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے لیکن شیعوں کے اعتقاد کی بنیاد پر اہل بیت علیہم السلام نور الہی کے بہترین تجلی ہیں اور انکا نور نور خدا سے ہیں جو منور اور ہدایت گر ہے ۔اور اسی کی ذیل میں پیغمبر اکرم سے ایک حدیث نقل ہوئی ہیں فرمایا کہ "ثُمَ‏ أَظْلَمَتِ‏ الْمَشَارِقُ‏ وَ الْمَغَارِبُ فَشَكَتِ الْمَلَائِكَةُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى أَنْ يَكْشِفَ عَنْهُمْ تِلْكَ الظُّلْمَةَ فَتَكَلَّمَ اللَّهُ جَلَّ جَلَالُهُ كَلِمَةً فَخَلَقَ مِنْهَا رُوحاً ثُمَّ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ فَخَلَقَ مِنْ تِلْكَ الْكَلِمَةِ نُوراً فَأَضَافَ النُّورَ إِلَى تِلْكَ الرُّوحِ وَ أَقَامَهَا مَقَامَ الْعَرْشِ فَزَهَرَتِ الْمَشَارِقُ وَ الْمَغَارِبُ فَهِيَ فَاطِمَةُ الزَّهْرَاءُ وَ لِذَلِكَ سُمِّيَتِ الزَّهْرَاءَ لِأَنَّ نُورَهَا زَهَرَتْ بِهِ السَّمَاوَات (۴۸) ۔

جب ہر جگہ تاریکی اور اندھیرا چھا گیا تو خداوند عالم سے فرشتوں نے شکایت کی کہ خدایا اس تاریکی کو ہم سے برطرف فرما !تو خداوند عالم نے ایک کلمہ ارشاد فرمایا اور اسی کلمہ سے ایک روح خلق ہوا اس کے بعد ایک اور کلمہ ارشاد فرمایا اس سے ایک نور خلق ہوا اور اس نور سے روشنی دی اور اس روشنی اورروح کو خدا نے عرش پر رکھا اس سے تمام عالم روشن ہوا اور وہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نور ہے اسی لئے آپ کو زہرا کہا اور آپ کے نور سے تمام آسمان روشن ہوا ۔

ایک اور روایت میں امام مہدی علیہ السلام کو زمین کو روشن کرنے والا کہا ہے ۔ مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا " رب الارض جوکہأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبهِّا والی آیت میں آیا ہے اس سے مراد امام الارض ہے یعنی امام زمانہ مراد ہے -(۴۹)

البتہ روایات میں قیام حضرت امام مہدی علیہ السلام کو اس آیت کی تفسیر و تاویل میں بیان کیا ہے اور حقیقت میں یہ ایک تاکید و تشبیہ ہے روز قیامت کے ساتھ کیونکہ یہ قیامت کا ایک نمونہ ہے چونکہ امام زمانہ کا عدل و انصاف تمام عالم میں حاکم ہوگا ۔

امام زمانہ کے ظہور کے بارے میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ" إِنَّ قَائِمَنَا إِذَا قَامَ‏ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّها وَ اسْتَغْنَى الْعِبَادُ عَنْ ضَوْءِ الشَّمْس (۵۰) ۔ جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو زمین نور پرور دگار سے روشن ہوگا اور لوگ سورج کی روشنی سے بے نیاز ہونگے ۔

۶-وَبِاسْمِکَ الَّذِی یَصْلَحُ بِه الْاَوَّلُونَ وَالْاَخِرُونَ :

تیرے نام کے واسطے سے جس سے اولین وآخرین نے بھلائی پائی۔

ان کلمات کے ساتھ دعا دوسری دعاوں میں بھی موجود ہے جیسا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے خداوندعالم کی بارگاہ میں اس طرح سے دعا کی ہے فرمایا "

فَأَسْأَلُكَ بِنُورِ وَجْهِكَ الَّذِي أَشْرَقَتْ‏ لَهُ‏ الْأَرْضُ‏ وَ السَّمَاوَاتُ وَ انْكَشَفَتْ بِهِ الظُّلُمَاتُ وَ صَلَحَ عَلَيْهِ أَمْرُ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِين (۵۱)

بعید نہیں ہے اس سے پہلے والے فراز میں اسم الہی کہ جس سے تمام مخلوقات اولین و آخرین اصلاح پاتے ہیں سے مراد وہ وہی انسان کامل اور خلیفہ الہی ہو ۔ کیونکہ خدا وند عالم نے حجت خدا کو مخلوقات سے پہلے خلق کیا ہے اور حجت خدا ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوتا ہے اور ابھی اس زمانے میں ہر صالح انسان کی زندگی میں جو مؤثر ذات ہے اور گمراہی اور فساد سے نجات دیتی ہے وہ حجت خدا امام زمانہ کی ذات اقدس ہے ۔ اور آپ کی ذات ہی معاشرے کی تربیت اور انسانوں کی ہدایت کا محور ہے اور آج کے اس دور میں انسان کی نجات کا واحد وسیلہ امام سے منسلک ہونا ہی ہے اور انسان جتنا بھی اپنے کردار سے امام سے نزدیک ہو جائے گا اتنا ہی وہ خوش نصیب ہوگا۔

ان جملات کے پڑھتے وقت منتظر اس نکتے کی طرف متوجہ ہے کہ انسان کو چاہیے اپنی زندگی کو ایسا بنائے کہ جس سے امام راضی ہو جائے کیونکہ حجت خدا کا انسان کے زندگی میں مؤثر ہونے سے مراد یہی ہے کہ وہ انسان کو فساد سے نجات دے اور اسکی ہدایت کرکے کامیابی کا راستہ دیکھا دے ۔ اسی طرح زیارت جامعہ کبیرہ میں ہم پڑھتے ہیں "بِمُوَالاتِكُمْ عَلَّمَنَا اللَّهُ مَعَالِمَ دِينِنَا وَ أَصْلَحَ‏ مَا كَانَ‏ فَسَدَ مِنْ دُنْيَانَا ۔(۵۲)

خداوندمتعال نے آپ کی اس ولایت کے واسطے سے ہماری وہ زندگی جو خراب اوربے ثمر تھا اس کا اصلاح کیا ۔

پس ہر وہ شخص جو اپنی زندگی میں کامیاب تھے اور کامیابی تک پہنچے ہیں وہ اپنے زمانے کے حجت خدا کے وسیلہ سے کامیابی تک پہنچے ہیں ۔

۷-یَا حَیّاً قَبْلَ کُلِّ حَیٍّ :

اے زندہ ہر زندہ سے پہلے۔

۸-وَیَا حَیّاً بَعْدَ کُلِّ حَیٍّ :

اور اے زندہ ہر زندہ کے بعد۔

۹-وَیَا حَیّاً حِینَ لاَ حَیَّ :

اور اے زندہ جب کوئی زندہ نہ تھا اے مردوں کو زندہ کرنے والے۔

اس دعامیں خاص طور پر خداوند متعال کے ( حَیٍّ ) یعنی زندہ ہونے پر تاکید ہوئی ہے اور یہ بحث دعاے جوشن کبیر کی سترویں فراز میں اس طرح سے آئی ہے ۔"يَا حَيّاً قَبْلَ كُلِّ حَيٍّ يَا حَيّاً بَعْدَ كُلِّ حَيٍّ يَا حَيُّ الَّذِي لَيْسَ كَمِثْلِهِ حَيٌّ يَا حَيُّ الَّذِي لَا يُشَارِكُهُ حَيٌّ يَا حَيُّ الَّذِي لَا يَحْتَاجُ إِلَى حَيٍّ (۵۳) ۔

ہاں خداوند عالم تمام موجودات سے پہلے اور بعد میں زندہ ہے اور زندہ رہنے میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے اور نہ ہی زندہ ہونے میں وہ کسی کا محتاج ہے بلکہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ زندہ و قائم ہے

اس دعا میں اس اسم الہی کو چہار بار کیوں ذکر کیا ہے اور بعد میں بھی زندگی اور موت کی طرف اشارہ کیا ہے آیاممکن ہے کہ یہ بحث رجعت کے ساتھ مربوط ہو ؟ جوکہ اس دعا کے بارے میں معروف ہے تو ظاہرا ایسا لگتا ہے کہ اس (حی ) پر تاکید کرنا رجعت کے مسالہ سے غیر مربوط نہ ہو۔

۱۰-یَا مُحْیِیَ الْمَوْتیٰ :

اے مردوں کو زندہ کرنے والے ۔

وہ خدا کہ جو پہلے خلق کیا ہے وہی دوبارہ بھی خلق کرسکتا ہے جیسا کہ سورہ نجم میں آیا ہے کہ "( وَ أَنَّهُ هُوَ أَمَاتَ وَ أَحْيَا ) (۵۴) ۔

اور یہ کہ وہی مارتا اور وہی جلاتا ہے ۔

پس وہ ایسی ذات ہے کہ جو تمام عالم پر اور ہر چیز کی زندگی اور موت پر قدرت و اختیار رکھتا ہے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے "( إِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ يُحْيي‏ وَ يُميتُ وَ ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَ لا نَصيرٍ ) (۵۵)

آسمانوں اور زمین کی سلطنت یقینا اللہ ہی کے لیے ہے، زندگی بھی وہی دیتا ہے اور موت بھی ۔

اسی قسم کی بہت ساری آیات موجود ہیں جیسا کہ سورہ عنکبوت میں فرمایا "

( أَ وَ لَمْ يَرَوْاْ كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ إِنَّ ذَالِكَ عَلىَ اللَّهِ يَسِير ) (۵۶) ۔

کیا انہوں نے (کبھی) غور نہیں کیا کہ اللہ خلقت کی ابتدا کیسے کرتا ہے پھر اس کا اعادہ کرتا ہے، یقینا اللہ کے لیے یہ (زیادہ )آسان ہے ۔

نتیجہ :

۱ ۔ آفرینش جہان خدا وند عالم کی قدرت نمائی کا مظہر ہے اور موت و زندگی اسی کا ایک حصہ ہے ۔

۲۔ موت و زندگی دینا اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جانا خدا وند عالم کا ہمیشہ کا کام ہے ۔( إِنَّهُ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعيدُه ) ۔ فعل مضارع ہے جو استمرار اوردوام پر دلالت کرتاہے ۔

۳۔ پہلی دفعہ خلق کرنا اور موت دینا اور پھر زندہ کرنا خدا کے لئے آسان ہے صرف ارادہ چاہیے ۔( إِنَّ ذَالِكَ عَلىَ اللَّهِ يَسِير ) ۔

۱۱-وَمُمِیتَ الْاَحْیاء :

اے زندوں کو موت دینے والے ۔

قرآن مجید میں ہم پڑھتے ہیں کہ موت و حیات خدا وند عالم کی ربوبیت کا ایک جلوہ ہے ۔( وَ أَن إِلى‏ رَبِّكَ الْمُنْتَهى‏ ) ۔ ھوآفات و احیاء) اور اسی طرح سے سورہ یونس میں ملتا ہے ۔( هُوَ يُحْىِ وَ يُمِيتُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُون ) (۵۷) ۔

وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جاؤ گے۔

اور سورہ روم میں آیا ہے( اللَّهُ الَّذِى خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يحُيِيكُمْ هَلْ مِن شُرَكاَئكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَالِكُم مِّن شىَ‏ْءٍ سُبْحَنَهُ وَ تَعَلىَ‏ عَمَّا يُشْرِكُون ) (۵۸) اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا وہی تمہیں موت دیتا ہے پھروہی تمہیں زندہ کرے گا، کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو ان میں سے کوئی کام کر سکے؟ پاک ہے اور بالاتر ہے وہ ذات اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔

اس آیت میں خداوند عالم کے چار اوصاف کی طرف اشارہ ہوا ہے اگر ان میں سے ایک بھی انسان میں ہو تو یہ اس کے لئے کافی ہے ۔

الف) انسان کی خلقت ہی بندگی لازم ہونے پر ایک دلیل ہے جیسا کہ فرمایا "

( اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذي خَلَقَكُمْ ) (۵۹) ۔ عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے والے لوگوں کو پیداکیا۔

ب) اللہ تعالی کا ہمیں رزق و روزی دینا بندگی ضروری ہونے پر ایک اور دلیل ہے ۔ فرمایا "( فَلْيَعْبُدُواْ رَبَّ هَاذَا الْبَيْتِ الَّذِى أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَ ءَامَنَهُم مِّنْ خَوْفِ ) (۶۰) ۔( چاہیے تھا کہ وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں، جس نے انہیں بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف سے انہیں امن دیا۔

اور اسی طرح سے موت و زندگی بھی اللہ تعالی کی عبادت و بندگی ضروری ہونے پر الگ الگ دلیلیں ہیں فرمایا "

( اللَّهُ الَّذي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُميتُكُمْ ثُمَّ يُحْييكُمْ ) (۶۱) ۔ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا وہی تمہیں موت دیتا ہے پھروہی تمہیں زندہ کرے گا،

اور اسی طرح سے سورہ غافر میں ہم پڑھتے ہیں کہ فرمایا "

( هُوَ الَّذِى يُحْىِ وَ يُمِيتُ فَإِذَا قَضىَ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُون ) (۶۲) ۔ وہی تو ہے جو زندگی دیتا ہے اور وہی موت بھی دیتا ہے پھر جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے صرف یہ کہتا ہے: ہو جا! پس وہ ہوجاتا ہے ۔

نتیجہ :

۱۔ موت اور زندگی فقط خداکے ہاتھ میں ہے ۔( هُوَ الَّذِى يُحْىِ وَ يُمِيتُ ) ۔

۲۔ اللہ کے لئے زندگی دینا اور موت دینا برابر ہے ۔( يُحْىِ وَ يُمِيتُ ) ۔

۱۲-یَا حَیُّ لاَ إله إلاَّ أنْتَ :

اے وہ زندہ کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں.

اس سے پہلے خداوند عالم کے حَیّ ہونے کے بارے میں توضیح دی ہے اور اس حصے میں خداوند عالم کی وحدانیت کو ذکر کیا ہے لہذا اس کے بارے میں تھوڑا سا توضیح دینگے ۔

قرآن مجید میں بہت ساری مقامات پر وحدانیت کا ذکر ہوا ہے جیسا کہ فرمایا "( لَا إِلَه إِلَّا الله ) (سورہ صافات /۳۵() لَا إِلَه إِلَّا الله هو ) ۔ (سورہ بقرہ / )۱۶۳ ) اور( لَا إِلَه إِلَّا الله انت ) ۔ (سورہ انبیاء /۸۷ )۔( لَا إِلَه إِلَّا الله انا ) ۔ (سورہ نحل / ۲)۔

مسلمانوں کی شناختی علامت یہی ۔لَا إِلَه إِلَّا الله ہے اور اسی طرح سے پیغمبر اکرم کے تبلیغ دین کا سب سے پہلا کلمہ بھی یہی تھا جیسا کہ فرمایا "قولوا لا اله الا الله تفلحوا ۔(۶۳)

اور اسی طرح سے فرمایا "مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُخْلِصاً دَخَلَ الْجَنَّةَ وَ إِخْلَاصُهُ أَنْ تَحْجُزَهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَمَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَل ۔(۶۴) ۔ جو کوئی خلوص کے ساتہ کلمہ توحید پڑھے گا تو وہ بہشت میں داخل ہوگا اورخلوص کی علامت یہ ہے کہ اس کلمہ کو پڑھنے کے بعد وہ حرام الہی سے دور رہے ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہقَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ثَمَنُ‏ الْجَنَّة (۶۵) ۔ یعنی اس کا پڑھنا جنت کی قیمت ہے۔ اور اسی طرح سے حضرت امام رضا علیہ السلام سے بھی نقل ہوا ہے کہ "لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ‏ حِصْنِي (۶۶)

یقینا خداکی وحدانیت خدا کا مضبوط قلعہ ہے خدا کی وحدانیت پر اقرار اور اعتراف کرنا بہت ساری دعاؤں میں موجود ہیں جیسا کہ آداب دعا میں سے ایک اہم حصہ یہی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین علیہ السلام دعاے کمیل میں فرماتے ہیں "لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ‏ سُبْحَانَكَ‏ وَ بِحَمْدِكَ‏ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَ تَجَرَّأْتُ بِجَهْلِي ۔(۶۷)

اور قرآن میں بھی اسی طرح سے آیا ہے فرمایا "( أَن لَّا إِلَاهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنىّ‏ِ كُنتُ مِنَ الظَّلِمِين ) ۔(۶۸)


6

7

8

9