رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات 0%

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات: مشاہدے: 15537
ڈاؤنلوڈ: 3112

تبصرے:

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15537 / ڈاؤنلوڈ: 3112
سائز سائز سائز
رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات

رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جنگ کا خطرناک مرحلہ

جنگ احد کے اختتام پر مشرکین کا فتحیاب لشکر بڑی تیزی کے ساتھ مکہ پلٹ گیا لیکن راستے میں انہیں یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ انہوں نے اپنی کامیابی کو ناقص کیوں چھوڑدیا ۔کیا ھی اچھا ہو کہ مدینہ کی طرف پلٹ جائیں اور اسے غارت و تاراج کردیں اور اگر محمد زندہ ہوں تو انہیں ختم کردیں تاکہ ہمیشہ کے لئے اسلام اور مسلمانوں کی فکر ختم ہوجائے ، اور اسی بنا پر انہیں واپس لوٹنے کا حکم دیا گیا اور درحقیقت جنگ احد کا یہ وہ خطر ناک مرحلہ تھا کیونکہ کافی مسلمان شھید اور زخمی ہوچکے تھے اور فطری طور پر وہ ازسر نو جنگ کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے ۔جبکہ اس کے برعکس اس مرتبہ دشمن پورے جذبہ کے ساتھ جنگ کرسکتا تھا۔

یہ اطلاع پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہنچی تو آپ نے فوراً حکم دیا کہ جنگ احد میں شریک ہونے والا لشکر دوسری جنگ کے لئے تیار ہوجائے ،آپ نے یہ حکم خصوصیت سے دیا کہ جنگ احد کے زخمی بھی لشکر میں شامل ہوں،(حضرت علی علیہ السلام نے جن کے بدن پر دشمنوں نے ۶۰ زخم لگائے تھے،لیکن آپ پہر دوبارہ دشمنوں کے مقابلہ میں آگئے) ایک صحابی کہتے ہیں :

میں بھی زخمیوں میں سے تھا لیکن میرے بھائی کے زخم مجھ سے زیادہ شدید تھے ، ہم نے ارادہ کرلیا کہ جو بھی حالت ہو ہم پیغمبر اسلام کی خدمت میں پہونچے گے، میری حالت چونکہ میرے بھائی سے کچھ بہتر تھی ، جھاں میرا بھائی نہ چل پاتا میں اسے اپنے کندہے پر اٹھالیتا، بڑی تکلیف سے ہم لشکر تک جا پہنچے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور لشکر اسلام ”حمراء الاسد“ کے مقام پر پہنچ گئے اور وھاں پر پڑاؤ ڈالا یہ جگہ مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر تھی۔

یہ خبر جب لشکر قریش تک پہنچی خصوصاً جب انھوں نے مقابلہ کے لئے ایسی آمادگی دیکھی کہ زخمی بھی میدان جنگ میں پہنچ گئے ہیں تو وہ پریشان ہوگئے اور ساتھ ھی انہیں یہ فکر بھی لاجق ہوئی کہ مدینہ سے تازہ دم فوج ان سے آملی ہے۔

اس موقع پر ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان کے دلوں کو اور کمزور کردیا اور ان میں مقابلہ کی ہمت نہ رھی ، واقعہ یہ ہوا کہ ایک مشرک جس کا نام ”معبد خزاعی“ تھا مدینہ سے مکہ کی طرف جآرہا تھا اس نے پیغمبر اکرم اور ان کے اصحاب کی کیفیت دیکھی تو انتھائی متاثر ہوا، اس کے انسانی جذبات میں حرکت پیدا ہوئی، اس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا: آپ کی یہ حالت و کیفیت ہمارے لئے بہت ھی ناگوار ہے آپ آرام کرتے تو ہمارے لئے بہتر ہوتا، یہ کہہ کر وہ وھاں سے چل پڑااور” روحاء“ کے مقام پر ابو سفیان کے لشکر سے ملا، ابو سفیان نے اس سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں سوال کیا تو اس نے جواب میں کھا: میں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ہے کہ وہ ایسا عظیم لشکر لئے ہوئے تمھارا تعاقب کرہے ہیں ایسا لشکر میں نے کبھی نہیں دیکھا او رتیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔

ابوسفیان نے اضطراب اور پریشانی کے عالم میں کھا : تم کیا کہہ رہے ہو؟ہم نے انہیں قتل کیا زخمی کیا اور منتشر کر کے ر کھ دیا تھا ،معبد خزاعی نے کھا: میں نہیں جانتا کہ تم نے پایا کیا ہے ،میں تو صرف یہ جانتا ہوںکہ ایک عظیم اور کثیر لشکر اس وقت تمھارا تعاقب کر رھا ہے ۔

ابو سفیان اور اسکے سا تھیوں نے قطعی فیصلہ کر لیا کہ وہ تیزی سے پیچہے کی طرف ہٹ جا ئیں اور مکہ کی طرف پلٹ جا ئیں اور اس مقصد کے لئے کہ مسلمان ان کا تعاقب نہ کریں اور انہیں پیچہے ہٹ جا نے کا کا فی مو قع مل جا ئے ، انہوں نے قبیلہ عبد القیس کی ایک جما عت سے خواہش کی کہ وہ پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلما نوں تک یہ خبر پہنجا دیں کہ ابو سفیان اور قریش کے بت پر ست با قی ماندہ اصحا ب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ختم کرنے کے لئے ایک عظیم لشکر کے ساتھ تیزی سے مدینہ کی طرف آ رہے ہیں ، یہ جما عت گندم خرید نے کے لئے مدینہ جا رھی تھی جب یہ اطلاع پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلما نوں تک پہنچی تو انہوں نے کھا :”حسبنا اللہ و نعم الو کیل“ (خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ ہمارا بہترین حامی اور مدافع ہے )۔

انہوں نے بہت انتظار کیا لیکن دشمن کے لشکر کی کو ئی خبر نہ ہو ئی ، لہٰذا تین روز توقف کے بعد ،وہ مدینہ کی طرف لوٹ گئے۔

کھوکھلی باتیں

جنگ بدر میں بعض مسلمانوں کی پر افتخا ر شھادت کے بعد بعض مسلمان جب باہم مل بیٹھتے تو ہمیشہ شھادت کی آرزو کرتے اور کہتے کاش یہ اعزاز میدان بدر میں ہمیں بھی نصیب ہوجا تا ،یقینا ان میں کچھ لوگ سچے بھی تھے لیکن ان میں ایک جھوٹا گروہ بھی تھا جس نے اپنے آپ کو سمجھنے میں غلطی کی ،بہر حال زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ جنگ احد کا وحشتناک معرکہ در پیش ہوا تو ان سچے مجا ہدین نے بھادری سے جنگ کی اور جام شھادت نوش کیا اور اپنی آرزوکو پا لیا لیکن جھوٹوں کے گروہ نے جب لشکر اسلام میں شکست کے آثار دیکہے تو وہ قتل ہونے کے ڈر سے بھاگ کھڑے ہوئے تو یہ قرآن انہیں سرزنش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ” تم ایسے لوگ تھے کہ جو دلوں میں آرزو اور تمنائے شھادت کے دعویدار تھے، پہرجب تم نے اپنے محبوب کو اپنی آنکھوںکے سامنے دیکھا تو کیوںبھاگ کھڑے ہوئے“۔(۴۴)

حضرت علی علیہ السلام کے زخم

امام باقر علیہ السلام سے اس طرح منقول ہے:حضرت علی علیہ السلام کو احد کے دن اکسٹھ زخم لگے تھے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ”ام سلیم“ اور ”ام عطیہ“ کو حکم دیا کہ ہ دونوںحضرت علی علیہ السلام کے زخموںکا علاج کریں،تھوڑی ھی دیر گذری تھی کہ وہ حالت پریشانی میں آنحضرتکی خدمت میںعرض کرنے لگے: کہ حضرت علی علیہ السلام کے بدن کی کیفیت یہ ہے کہ ہم جب ایک زخم باندھتے ہیں تو دوسرا کھل جا تاہے اور ان کے بدن کے زخم اس قدرزیادہ اور خطرناک ہیں کہ ہم ان کی زندگی کے بارے میں پریشان ہیں تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور کچھ دیگر مسلمان حضرت علی علیہ السلام کی عیادت کے لئے ان کے گہرآئے جب کہ ان کے بدن پر زخم ھی زخم تھے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دست مبارک ان کے جسم سے مس کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو شخص راہ خدا میں اس حالت کو دیکھ لے وہ اپنی ھی ذمہ داری کے آخری درجہ کو پہنچ چکا ہے اور جن جن زخموں پرآپ ہاتھ رکھتے تھے وہ فوراًمل جاتے تھے تواس وقت حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: الحمدا للہ کہ ان حالات میں جنگ سے نہیں بھا گا اوردشمن کو پشت نہیں دکھائی خدا نے ان کی کو شش کی قدر دانی کی۔

ہم نے شکست کیوں کھائی ؟

کا فی شھید دےکر اور بہت نقصان اٹھا کر جب مسلمان مدینہ کی طرف پلٹ آئے تو ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ کیا خدانے ہم سے فتح و کامیابی کا وعدہ نہیں کیا تھا،پہر اس جنگ میں ہمیں کیوں شکست ہوئی ؟اسی سے قرآن میں انہیں جواب دیا گیا اور شکست کے اسباب کی نشاندھی کی گئی۔(۴۵)

قرآن کہتا ہے کہ کامیابی کہ بارے میں خدا کا وعدہ درست تھا اور اس کی وجہ ھی سے تم ابتداء جنگ میں کامیاب ہوئے اور حکم خدا سے تم نے دشمن کو تتر بتر کر دیا ۔ کامیا بی کا یہ وعدہ اس وقت تک تھا جب تک تم استقامت اور پائیداری اور فرمان پیغمبری صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی سے دست بردار نہیں ہو ئے اور شکست کا دروازہ اس وقت کھلا جب سستی اور نا فرمائی نے تمہیں آگھیرا ،یعنی اگر تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ کا میابی کا وعدہ بلا شرط تھا تو تمھاری بڑ ی غلط فہمی ہے بلکہ کامیابی کے تمام وعدے فرمان خدا کی پیروی کے ساتھ مشروط ہیں ۔

عمومی معافی کا حکم

جو لوگ واقعہ احد کے دوران جنگ سے فرار ہوگئے تھے وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گرد جمع ہوگئے اور انہوں نے ندامت وپشیمانی کے عالم میںمعافی کی درخواست کی تو خدا ئے تعالیٰ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے انہیں عام معافی دینے کے لئے فرمایا لہٰذا حکم الٰھی نازل ہوتے ھی آپ نے فراخ دلی سے توبہ کرنے والے خطا کاروں کو معاف کردیا ۔

قرآن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک بہت بڑی اخلاقی خوبی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تم پروردگار کے لطف وکرم کے سبب ان پر مہربان ہوگئے اور اگر تم ان کے لئے سنگدل،سخت مزاج اور تند خو ہوتے اور عملا ًان پر لطف وعنایت نہ کرتے تو وہ تمھارے پاس سے بکہر جاتے ۔ اس کے بعد حکم دیا گیا کہ” ان کی کوتاھیوں سے درگزر فرمائیے اور انہیں اپنے دامن عفو میں جگہ دیجئے“۔(۴۶)

یعنی اس جنگ میں انہوں نے جو بے وفائیاں آپ سے کی ہیں اور جو تکا لیف اس جنگ میں آپ کو پہنچائی ہیں ، ان کے لئے ان کی مغفرت طلب کیجئے اور میں خود ان کے لئے تم سے سفارش کرتا ہوں کہ انہوں نے میری جو مخالفتیں کی ہیں ،مجھ سے ان کی مغفرت طلب کرو دوسرے لفظوں میں جو تم سے مربوط ہے اسے تم معاف کردو اورجو مجھ سے ربط رکھتا ہے اسے میں بخش دیتا ہوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمان خدا پر عمل کرتے ہوئے ان تمام خطا کاروں کو عام معافی دےدی ۔(۴۷)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شہداء سے مخاطب

ابن مسعود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں : خدا نے شہداء بدرواحد کی ارواح کو خطاب کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ تمھاری کیا آرزو ہے تو انہوں نے کھا : پروردگارا! ہم اس سے زیادہ کیا آرزو کرسکتے ہیں کہ ہم ہمیشہ کی نعمتوں میں غرق ہیں اور تیرے عرش کے سائے میں رہتے ہیں ، ہمارا تقاضا صرف یہ ہے کہ ہم دوبارہ دنیا کی طرف پلٹ جائیں اور پہر سے تیری راہ میں شھید ہوں، اس پر خدا نے فرمایا : میرااٹل فیصلہ ہے کہ کوئی شخص دوبارہ دنیا کی طرف نہیں پلٹے گا ۔

انہوں نے عرض کیا : جب ایسا ھی ہے تو ہماری تمنا ہے کہ ہمارے پیغمبر کو ہماراسلام کو پہنچادے ، ہماری حالت ہمارے پسما ندگان کوبتادے اور انہیں ہماری حالت کی بشارت دے تاکہ ہمارے بارے میں انہیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔

حنظلہ غسیل الملائلکہ

”حنظلہ بن ابی عیاش“ جس رات شادی کرنا چاہتے تھے اس سے اگلے دن جنگ احد برپاہوئی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اصحاب سے جنگ کے بارے میں مشورہ کررہے تھے کہ وہ آپ کے پاس آئے اور عرض کی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اجازت دےدیں تو یہ رات میں بیوی کے ساتھ گزرالوں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں اجازت دےدی ۔

صبح کے وقت انہیں جھاد میں شرکت کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ وہ غسل بھی نہ کرسکے اسی حالت میں معرکہ کارزار میں شریک ہوگئے اور بالآخر جام شھادت نوش کیا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا :میں نے فرشتوں کو دیکھا ہے کہ وہ آسمان وزمین کے درمیان حنظلہ کو غسل دے رہے ہیں ۔

اسی لئے انہیں حنظلہ کو:” غسیل الملائکہ“ کے نام سے یاد کیا جاتاہے ۔

قبیلہ بنی نضیر کی سازش

مدینہ میں یہودیوں کے تین قبیلے رہتے تھے ، بنی نظیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع، کھا جاتاہے کہ وہ اصلاً اہل حجازنہ تھے لیکن چونکہ اپنی مذھبی کتب میں انہوں نے پڑھا تھا کہ ایک پیغمبر مدینہ میں ظہور کرے گا لہٰذا انہوں نے اس سر زمین کی طرف کوچ کیا اور وہ اس عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے انتظار میں تھے۔

جس وقت رسول خدا نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ نے ان کے ساتھ عدم تعرض کا عہد باندھا لیکن ان کو جب بھی موقع ملا انہوں نے یہ عہد توڑا ۔

دوسری عہد شکنیوں کے علاوہ یہ کہ جنگ احد(جنگ احد ہجرت کے تیسرے سال واقع ہوئی ) کعب ابن اشرف چالیس سواروں کے ساتھ مکہ پہنچا وہ اور اس کے ساتھی سب قریش کے پاس اور ان سے عہد کیا کہ سب مل کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلاف جنگ کریں اس کے بعد ابوسفیان چالیس مکی افراد کے ساتھ اور کعب بن اشرف ان چالیس یہودیوں کے ساتھ مسجد الحرام میں وارد ہوئے اور انہوں نے خانہ کعبہ کے پاس اپنے عہددپیمان کو مستحکم کیا یہ خبر بذریعہ وحی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مل گئی۔

دوسرے یہ کہ ایک روز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے چند بزرگ اصحاب کے ساتھ قبیلہ بنی نضیر کے پاس آئے یہ لوگ مدینہ کے قریب رہتے تھے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے صحابہ کا حقیقی مقصدیہ تھا کہ آپ اس طرح بنی نظیر کے حالات قریب سے دیکھناچاہتے تھے اس لئے کہ کہیں ایسانہ ہو کہ مسلمان غفلت کا شکار ہوکر دشمنوں کے ہاتھوں مارے جائیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہود یوںکے قلعہ کے باہر تھے آپ نے کعب بن اشرف سے اس سلسلہ میں بات کی اسی دوران یہودیوں کے درمیان سازش ہونے لگی وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ایسا عمدہ موقع اس شخض کے سلسلہ میں دوبارہ ہاتھ نہیں آئے گا، اب جب کہ یہ تمھاری دیوار کے پاس بیٹھا ہے ایک آدمی چھت پر جائے اور ایک بہت بڑا پتہر اس پر پھینک دے اور ہمیں اس سے نجات دلادے ایک یہودی ،جس کا نام عمر بن حجاش تھا ،اس نے آمادگی ظاہر کی وہ چھت پر چلا گیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بذریعہ وحی باخبر ہوگئے اور وھاں سے اٹھ کر مدینہ آگئے آپ نے اپنے اصحاب سے کوئی بات نہیں کی ان کا خیال تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوٹ کر مدینہ جائیں گے ان کو معلوم ہوا کہ آپ مدینہ پہنچ گئے ہیں چنانچہ وہ بھی مدینہ پلٹ آئے یہ وہ منزل تھی کہ جھاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر یہودیوں کی پیما ن شکنی واضح وثابت ہوگئی تھی آپ نے مسلمانوں کو جنگ کے لئے تیار ہوجانے کا حکم دیا۔

بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ بنی نظیر کے ایک شاعر نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجومیں کچھ اشعار کہے اور آپ کے بارے میں بد گوئی بھی کی ان کی پیمان شکنی کی یہ ایک اور دلیل تھی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وجہ سے کہ ان پر پہلے سے ایک کاری ضرب لگائیں ، محمد بن مسلمہ کو جو کعب بن اشرف رئیس یہود سے آشنائی رکھتا تھا ،حکم دیا کہ وہ کعب کو قتل کردے اس نے کعب کو قتل کردیا، کعب بن اشرف کے قتل ہوجانے نے یہودیوں کو متزلزل کردیا،ا س کے ساتھ ھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ ہر مسلمان اس عہد شکن قوم سے جنگ کرنے کے لئے چل پڑے جس وقت وہ اس صورت حال سے باخبر ہوئے تو انہوں نے اپنے مضبوط ومستحکم قلعوں میں پناہ لے لی اور دروازے بند کرلئے ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ وہ چند کھجوروں کے درخت جو قلعوں کے قریب ہیں ، کاٹ دیے جائیں یا جلادئے جائیں۔

یہ کام غالبا ًاس مقصد کے پیش نظر ہوا کہ یہودی اپنے مال واسباب سے بہت محبت رکھتے تھے وہ اس نقصان کی وجہ سے قلعوں سے باہرنکل کر آمنے سامنے جنگ کریں گے مفسرین کی طرف سے یہ احتمال بھی تجویز کیا گیا ہے کہ کاٹے جانے والے کھجوروں کے یہ درخت مسلمانوں کی تیز نقل وحرکت میں رکاوٹ ڈالتے تھے لہٰذا انہیں کاٹ دیا جانا چاہئے تھا بہرحال اس پر یہودیوں نے فریاد کی انہوں نے کھا :”اے محمد ًآپ تو ہمیشہ اس قسم کے کاموں سے منع کرتے تھے یہ کیا سلسلہ ہے” تو اس وقت وحی نازل ہوئی(۴۸) اور انہیں جواب دیا کہ یہ ایک مخصوص حکم الٰھی تھا۔

محاصرہ نے کچھ دن طول کھینچا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خوں ریزی سے پرھیز کرتے ہوئے ان سے کھا کہ وہ مدینہ کو خیر باد کہہ دیں اور کہیں دوسری جگہ چلے جائیں انہوں نے اس بات کو قبول کرلیا کچھ سامان اپنا لے لیا اور کچھ چھوڑدیا ایک جماعت” اذرعات “ شام کی طرف اور ایک مختصر سی تعداد خیبر کی طرف چلی گئی ایک گروہ” حیرہ“ کی طرف چلا گیا ان کے چھوڑے ہوئے اموال،زمینیں،باغات اور گہر مسلمانوں کے ہاتھ لگے، چلتے وقت جتنا ان سے ہوسکا انہوں نے اپنے گہر توڑپھوڑدئےے یہ واقعہ جنگ احد کے چھ ماہ بعد اور ایک گروہ کی نظرکے مطابق جنگ بدر کے چھ ماہ بعد ہوا(۴۹)

جنگ احزاب

تاریخ اسلام کے اہم حادثوںمیں سے ایک جنگ احزاب بھی ہے یہ ایک ایسی جنگ جو تاریخ اسلام میں ایک اہم تاریخی موڑ ثابت ہوئی اور اسلام وکفر کے درمیان طاقت کے موازنہ کے پلڑے کو مسلمانوں کے حق میں جھکادیا اور اس کی کامیابی آئندہ کی عظیم کامیابیوں کے لئے کلیدی حیثیت اختیارکر گئی اور حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں دشمنوں کی کمر ٹوٹ گئی اور اس کے بعد وہ کوئی خاص قابل ذکر کار نامہ انجام دینے کے قابل نہ رہ سکے ۔

” یہ جنگ احزاب“ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے تمام اسلام دشمن طاقتوں اور ان مختلف گرو ہوں کی طرف سے ہر طرح کا مقابلہ تھا کہ اس دین کی پیش رفت سے ان لوگوں کے ناجائز مفادات خطرے میں پڑگئے تھے ۔ جنگ کی آگ کی چنگاری”نبی نضیر“ یہودیوں کے اس گروہ کی طرف سے بھڑکی جو مکہ میں آئے اور قبیلہ ”قریش“ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لڑنے پر اکسایا اور ان سے وعدہ کیا کہ آخری دم تک ان کا ساتھ دیں گے پہر قبیلہ ”غطفان “ کے پاس گئے اور انہیں بھی کارزار کے لئے آمادہ کیا ۔

ان قبائل نے اپنے ہم پیمان اور حلیفوں مثلاً قبیلہ ” بنی اسد “ اور” بنی سلیم “ کو بھی دعوت دی اور چونکہ یہ سب قبائل خطرہ محسوس کئے ہوئے تھے، لہٰذا اسلام کا کام ہمیشہ کے لئے تمام کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دےدیا تاکہ وہ اس طرح سے پیغمبر کو شھید ، مسلمانوں کو سر کوب ، مدینہ کو غارت اور اسلام کا چراغ ہمیشہ کے لئے گل کردیں ۔

کل ایمان کل کفر کے مقابلہ میں

جنگ احزاب کفر کی آخری کوشش ،ان کے ترکش کا آخری تیراور شرک کی قوت کا آخری مظاہرہ تھا اسی بنا پر جب دشمن کا سب سے بڑا پھلو ان عمروبن عبدودعالم اسلام کے دلیر مجاہد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے مقابلہ میں آیا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :”سارے کا سارا ایمان سارے کے سارے (کفر اور ) شرک کے مقابلہ میں آگیا ہے “۔

کیونکہ ان میں سے کسی ایک کی دوسرے پر فتح کفر کی ایمان پر یا ایمان کی کفر پر مکمل کا میابی تھی دوسرے لفظوں میں یہ فیصلہ کن معرکہ تھا جو اسلام اور کفر کے مستقبل کا تعین کررھا تھا اسی بناء پر دشمن کی اس عظیم جنگ اور کار زار میں کمر ٹوٹ گئی اور اس کے بعد ہمیشہ مسلمانوں کاپلہ بھاری رھا ۔

دشمن کا ستارہ اقبال غروب ہوگیا اور اس کی طاقت کے ستون ٹوٹ گئے اسی لئے ایک حدیث میں ہے کہ حضرت رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنگ احزاب کے خاتمہ پر فرمایا :

”اب ہم ان سے جنگ کریں گے اور ان میں ہم سے جنگ کی سکت نہیں ہے“ ۔

لشکر کی تعداد

بعض مورخین نے لشکر کفار کی تعداد دس ہزار سے زیادہ لکھی ہے ۔مقریزی اپنی کتاب ”الا متاع “ میں لکھتے ہیں :”صرف قریش نے چارہزار جنگ جوؤں ، تین سو گھوڑوں اور پندرہ سواونٹوں کے ساتھ خندق کے کنارے پڑاؤ ڈالا تھا ،قبیلہ” بنی سلیم “سات سو افراد کے ساتھ ”مرالظہران “ کے علاقہ میں ان سے آملا، قبیلہ ”بنی فرازہ“ ہزار افراد کے ساتھ ، ”بنی اشجع“ اور” بنی مرہ“ کے قبائل میں سے ہر ایک چار چار سو افراد کے ساتھ پہنچ گیا ۔ اور دوسرے قبائل نے بھی اپنے آدمی یہ بھیجے جن کی مجموعی تعداد دس ہزار سے بھی زیادہ بنتی ہے “

جبکہ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہ تھی انہوں نے (مدینہ کے قریب )” سلع “ نامی پھاڑی کے دامن کو جو ایک بلند جگہ تھی وھاںپر لشکر کفر نے مسلمانوں کا ہر طرف سے محاصرہ کرلیا اور ایک روایت کے مطابق بیس دن دوسری روایت کے مطابق پچیس دن اور بعض روایات کے مطابق ایک ماہ تک محاصرہ جاری رھا ۔

باوجودیکہ دشمن مسلمانوں کی نسبت مختلف پھلوؤں سے برتری رکھتا تھا لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ،آخر کار ناکام ہو کر واپس پلٹ گیا۔

خندق کی کھدائی

خندق کے کھودنے کا سلسلہ حضرت سلمان فارسی (رض)کے مشورہ سے وقوع پذیر ہوا خندق کے اس زمانے میں ملک ایران میں دفاع کا موثر ذریعہ تھا اور جزیرة العرب میں اس وقت تک اس کی مثال نہیں تھی اور عرب میں اس کا شمار نئی ایجادات میں ہوتا تھا اطراف مدینہ میں اس کا کھود نا فوجی لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل تھا یہ خندق دشمن کے حوصلوں کو پست کرنے اور مسلمانوں کے لئے روحانی تقویت کا بھی ایک موثر ذریعہ تھی ۔

خندق کے کو ائف اور جزئیات کے بارے میں صحیح طور پر معلومات تک رسائی تو نہیں ہے البتہ مورخین نے اتنا ضرور لکھا ہے کہ اس کا عرض اتنا تھاکہ دشمن کے سوار جست لگا کر بھی اس کو عبور نہیں کرسکتے تھے اس کی گہرائی یقینا اتنی تھی کہ اگر کو ئی شخص اس میں داخل ہوجاتاہے تو آسانی کے ساتھ دوسری طرف باہر نہیں نکل سکتا تھا ،علاوہ ازیں مسلمان تیر اندازوں کا خندق والے علاقے پر اتنا تسلط تھا کہ اگر کوئی شخص خندق کو عبور کرنے کا ارداہ کرتا تھا تو ان کے لئے ممکن تھا کہ اسے خندق کے اندرھی تیر کا نشانہ بنالیتے ۔

رھی اس کی لمبائی تو مشہور روایت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دس ،دس افراد کو چالیس ہاتھ (تقریباً ۲۰ میڑ) خندق کھودنے پر مامور کیا تھا،اور مشہور قول کے پیش نظر لشکر اسلام کی تعداد تین ہزار تھی تو مجموعی طورپر اس کی لمبائی اندازاً بارہ ہزار ہاتھ (چھ ہزار میڑ) ہوگی۔

اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ اس زمانے میںنھایت ھی ابتدائی وسائل کے ساتھ اس قسم کی خندق کھودنا بہت ھی طاقت فرسا کام تھا خصوصاً جب کہ مسلمان خوراک اور دوسرے وسائل کے لحاظ سے بھی سخت تنگی میں تھے ۔

یقینا خندق کھودی بھی نھایت کم مدت میں گئی یہ امر اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ لشکر اسلام پوری ہوشیاری کے ساتھ دشمن کے حملہ آور ہونے سے پہلے ضروری پیش بندی کرچکا تھا اور وہ بھی اس طرح سے کہ لشکر کفر کے مدینہ پہنچنے سے تین دن پہلے خندق کی کھدائی کا کام مکمل ہوچکا تھا۔

عمرو بن عبدود دسے حضرت علی (ع)کی تاریخی جنگ

اس جنگ کا ایک اہم واقعہ حضرت علی علیہ السلام کا دشمن کے لشکر کے نامی گرامی پھلو ان عمروبن عبددد کے ساتھ مقابلہ تھا تاریخ میں آیا ہے کہ لشکر احزاب نے جن دلاوران عرب میں سے بہت طاقت ور افراد کو اس جنگ میں اپنی امداد کے لئے دعوت دے رکھی تھی، ان میں سے پانچ افراد زیادہ مشہور تھے، عمروبن عبدود ، عکرمہ بن ابی جھل ،ھبیرہ ، نوفل اور ضرار یہ لوگ دوران محاصرہ ایک دن دست بدست لڑائی کے لئے تیار ہوئے ، لباس جنگ بدن پر سجایا اور خندق کے ایک کم چوڑے حصے سے ، جو مجاہدین اسلام کے تیروں کی پہنچ سے کسی قدر دور تھا ، اپنے گھوڑوں کے ساتھ دوسری طرف جست لگائی اور لشکر اسلام کے سامنے آکھڑے ہوئے ان میں سے عمروبن عبدود زیادہ مشہور اور نامور تھا اس کی”کوئی ہے بھادر “کی آواز میدان احزاب میں گونجی اور چونکہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس کے مقابلہ کے لئے تیار نہ ہوا لہٰذا وہ زیادہ گستاخ ہوگیا اور مسلمانوں کے عقاید اورنظریات کا مذاق اڑا نے لگا اور کہنے لگا :

”تم تویہ کہتے ہو کہ تمھارے مقتول جنت میں ہیں اور ہمارے مقتول جہنم میں توکیاتم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے میں بہشت میں بھیجوں یا وہ مجھے جہنم کی طرف روانہ کرے ؟“

اس موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ کوئی شخص کھڑا ہواور اس کے شر کو مسلمانوں کے سرسے کم کردے لیکن حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سوا کوئی بھی اس کے ساتھ جنگ کے لئے آمادہ نہ ہوا تو آنحضرت نے علی ابن اطالب علیہ السلام سے فرمایا : یہ عمر وبن عبدود ہے “ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی حضور : میں بالکل تیار ہوں خواہ عمروھی کیوں نہ ہو، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا ” میرے قریب آؤ : چنانچہ علی علیہ السلام آپ کے قریب گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے سر پر عمامہ باندھا اور اپنی مخصوص تلوار ذوالفقار انہیں عطا فرمائی اور ان الفاظ میں انہیں دعا دی :

خدایا ،علی کے سامنے سے ، پیچہے سے ، دائیں اور بائیں سے اور اوپر اور نیچے سے حفاظت فرما ۔

حضرت علی علیہ السلام بڑی تیزی سے عمرو کے مقابلہ کےلئے میدان میں پہنچ گئے ۔

یھی وہ موقع تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ مشہور جملہ ارشاد فرمایا :

”کل ایمان کل کفر کے مقابلہ میں جآرہا ہے “۔

ضربت علی (ع) ثقلین کی عبادت پر بھاری

امیر المو منین علی علیہ السلام نے پہلے تو اسے اسلام کی دعوت دی جسے اس نے قبول نہ کیا پہر میدان چھوڑکر چلے جانے کو کھا اس پر بھی اس نے انکار کیا اور اپنے لئے باعث ننگ وعار سمجھا آپ کی تیسری پیشکش یہ تھی کہ گھوڑے سے اتر آئے اور پیادہ ہوکر دست بدست لڑائی کرے ۔

عمرو آگ بگولہ ہوگیا اور کھا کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ عرب میں سے کوئی بھی شخص مجھے ایسی تجویزدے گا گھوڑے سے اتر آیا اور علی علیہ السلام پر اپنی تلوار کا وار کیا لیکن امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنی مخصوص مھارت سے اس وار کو اپنی سپرکے ذریعے روکا ،مگر تلوار نے سپر کو کاٹ کرآپ کے سرمبارک کو زخمی کردیا اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے ایک خاص حکمت عملی سے کام لیا عمر وبن عبدود سے فرمایا :تو عرب کا زبردست پھلو ان ہے ، جب کہ میں تجھ سے تن تنھا لڑرھا ہوں لیکن تو نے اپنے پیچہے کن لوگوں کو جمع کررکھا ہے اس پر عمر ونے جیسے ھی پیچہے مڑکر دیکھا ۔

حضرت علی علیہ السلام نے عمرو کی پنڈلی پر تلوار کا وار کیا ، جس سے وہ سروقد زمین پر لوٹنے لگا شدید گردوغبار نے میدان کی فضا کو گھیررکھا تھا کچھ منافقین یہ سوچ رہے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام ، عمرو کے ہاتھوں شھید ہوگئے ہیں لیکن جب انھوں نے تکبیر کی آواز سنی تو علی کی کامیابی ان پر واضح ہوگئی اچانک لوگوں نے دیکھا کہ آپ کے سرمبارک سے خون بہہ رھا تھا اور لشکر گاہ اسلام کی طرف خراماں خراماں واپس آرہے تھے جبکہ فتح کی مسکراہٹ آپ کے لبوں پر کھیل رھی تھی اور عمر و کا پیکر بے سر میدان کے کنارے ایک طرف پڑا ہوا تھا ۔

عرب کے مشہور پھلوان کے مارے جانے سے لشکر احزاب اور ان کی آرزوؤں پر ضرب کاری لگی ان کے حوصلے پست اور دل انتھائی کمزور ہوگئے اس ضرب نے ان کی فتح کی آرزووں پر پانی پھیردیا اسی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کامیابی کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام سے ارشاد فرمایا :

”اگر تمھارے آج کے عمل کو ساری امت محمد کے اعمال سے موازنہ کریں تو وہ ان پر بھاری ہوگا، کیونکہ عمرو کے مارے جانے سے مشرکین کا کوئی ایسا گہر باقی نہیں رھا جس میں ذلت وخواری داخل نہ ہوئی ہو اور مسلمانوں کا کوئی بھی گہر ایسا نہیں ہے جس میں عمرو کے قتل ہوجانے کی وجہ سے عزت داخل نہ ہوئی ہو“ ۔

اہل سنت کے مشہور عالم ، حاکم نیشاپوری نے اس گفتگو کو نقل کیا ہے البتہ مختلف الفاظ کے ساتھ اور وہ یہ ہے :

” لمبارزة علی بن ابیطالب لعمروبن عبدود یوم الخندق افضل من اعمال امتی الی یوم القیامة “

” یعنی علی بن ابی طالب کی خندق کے دن عمروبن عبدود سے جنگ میری امت کے قیامت تک کے اعمال سے ا فضل ہے “

آپ کے اس ارشاد کا فلسفہ واضح ہے ، کیونکہ اس دن اسلام اور قرآن ظاہراً نابودی کے کنارے پر پہنچ چکے تھے، ان کے لئے زبردست بحرانی لمحات تھے،جس شخص نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فداکاری کے بعد اس میدان میں سب سے زیادہ ایثار اور قربانی کا ثبوت دیا،اسلام کو خطرے سے محفوظ رکھا، قیامت تک اس کے دوام کی ضمانت دی،اس کی فداکاری سے اسلام کی جڑیں مضبوط ہوگئیں اور پہر اسلام عالمین پر پھیل گیا لہٰذا سب لوگوں کی عبادتیں اسکی مرہون منت قرار پا گئیں۔

بعض مورخین نے لکھا ہے کہ مشرکین نے کسی آدمی کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ عمر و بن عبدود کے لاشہ کو دس ہزار درہم میں خرید لائے (شاید ان کا خیال یہ تھا کہ مسلمان عمرو کے بدن کے ساتھ وھی سلوک کریں گے جو سنگدل ظالموںنے حمزہکے بدن کےساتھ جنگ میں کیاتھا)لیکن رسول اکرم نے فرمایا: اس کا لاشہ تمھا ری ملکیت ہے ہم مردوں کی قیمت نہیں لیا کرتے۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ جس وقت عمرو کی بہن اپنے بھائی کے لاشہ پر پہنچی اوراس کی قیمتی زرہ کو دیکھا کہ حضرت علی علیہ السلام نے اس کے بدن سے نہیں اتاری تو اس نے کھا:

”میں اعتراف کرتی ہوں کہ اس کا قاتل کریم اور بزرگوارشخص ھی تھا“

نعیم بن مسعود کی داستان اور دشمن کے لشکر میں پھوٹ

نعیم جو تازہ مسلمان تھے اور ان کے قبیلہ”غطفان “کو لشکر اسلام کی خبر نہیں تھی،وہ پیغمبر اکرم کی خدمت میں آئے اور عرض کی کہ آپمجھے جو حکم بھی دیں گے ،میں حتمی کامیابی کے لئے اس پر کار بند رہوں گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

”تمھارے جیسا شخص ہمارے درمیان اور کوئی نہیں ہے ۔اگر تم دشمن کے لشکر کے درمیان پھوٹ ڈال سکتے ہو تو ڈ الو! ۔کیونکہ جنگ پوشیدہ تدابیر کا مجموعہ ہے “۔

نعیم بن مسعود نے ایک عمدہ تدبیر سوچی اور وہ یہ کہ وہ بنی قریظہ کے یہودیوںکے پاس گیا ،جن سے زمانہ جاہلیت میں ان کی دوستی تھی ان سے کھا اے بنی قریظہ !تم جانتے ہوکہ مجھے تمھارے ساتھ محبت ہے۔

انھوں نے کھا آپ سچ کہتے ہیں :ہم آپ پراس بارے میں ہر گز کوئی الزام نہیں لگاتے ۔

نعیم بن مسعود نے کھا :قبیلہ قریش اور عظفان تمھاری طرح نہیں ہیں ، یہ تمھارا اپنا شہر ہے، تمھارا مال اولاد اور عورتیں یہاں پر ہیں اور تم ہر گز یہ نہیں کر سکتے کہ یہاں سے کو چ کر جا ؤ۔

قریش اور قبیلہ عظفان محمد اور ان کے اصحاب کے ساتھ جنگ کرنے کے لے آئے ہوئے ہیں اور تم نے ان کی حمایت کی ہے جبکہ ان کا شہر کہیں او رہے اور ان کے مال او رعورتیں بھی دوسری جگہ پر ہیں ، اگر انہیں موقع ملے تو لوٹ مار اور غارت گری کر کے اپنے ساتھ لے جائیں گے، اگر کوئی مشکل پیش آجا ئے تو اپنے شہر کو لوٹ جائیں گے، لیکن تم کو اور محمدکو تو اسی شہر میں رہنا ہے او ریقیناتم اکیلے ان سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ،تم اس وقت تک اسلحہ نہ اٹھاؤجب تک قریش سے کوئی معاہدہ نہ کر لو او رو ہ اس طرح کہ وہ چندسرداروں اور بزرگوں کو تمھارے پاس گروی رکھ دیں تاکہ وہ جنگ میں کو تاھی نہ کریں۔

بنی قریظہ کے یہودیوں نے اس نظریہ کوبہت سراھا۔

پہر نعیم مخفی طور پر قریش کے پاس گیا اور ابو سفیان اور قریش کے چندسرداروں سے کھا کہ تم اپنے ساتھ میری دوستی کی کیفیت سے اچھی طرح آگاہ ہو، ایک بات میرے کانوںتک پہنچی ہے، جسے تم تک پہنچا نا میں اپنا فریضہ سمجھتا ہوں تا کہ خیر خواھی کا حق اداکر سکوں لیکن میری خواہش یہ ہے کہ یہ بات کسی او رکو معلو م نہ ہونے پائے ۔

انھوں نے کھا کہ تم بالکل مطمئن رہو ۔

نعیم کہنے لگے : تمہیں معلوم ہو نا چاہئیے کہ یہودی محمد کے بارے میںتمھارے طرز عمل سے اپنی برائت کا فیصلہ کر چکے ہیں ،یہودیوں نے محمد کے پاس قاصد بھیجا ہے او رکھلوایا ہے کہ ہم اپنے کئے پر پشیمان ہیں اور کیا یہ کافی ہو گا کہ ہم قبیلہ قریش او رغطفان کے چندسردار آپکے لئے یرغمال بنالیں اور ان کو بندہے ہاتھوں آپ کے سپرد کردیں تاکہ آپ ان کی گردن اڑادیں، اس کے بعد ہم آپ کے ساتھ مل کر ان کی بیخ کنی کریں گے ؟محمد نے بھی ان کی پیش کش کوقبول کرلیا ہے، اس بنا ء پر اگر یہودی تمھارے پاس کسی کو بھیجیں او رگروی رکھنے کا مطالبہ کریں تو ایک آدمی بھی ان کے سپرد نہ کر نا کیونکہ خطرہ یقینی ہے ۔

پہر وہ اپنے قبیلہ غطفان کے پاس آئے اور کھا :تم میرے اصل اور نسب کو اچھی طرح جانتے ہو۔ میں تمھاراعاشق او رفریفتہ ہوں او رمیں سوچ بھی نہیں سکتا کہ تمہیں میرے خلوص نیت میںتھوڑا سابھی شک اور شبہ ہو ۔

انھوںنے کھا :تم سچ کہتے ہو ،یقینا ایسا ھی ہے ۔

نعیم نے کھا : میںتم سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں لیکن ایسا ہو کہ گو یا تم نے مجھ سے بات نہیں سنی ۔

انھوں نے کھا :مطمئن رہویقینا ایسا ھی ہو گا ،وہ بات کیا ہے ؟

نعیم نے وھی بات جو قریش سے کھی تھی یہودیوں کے پشیمان ہونے او ریر غمال بنانے کے ارادے کے بارے میں حرف بحرف ان سے بھی کہہ دیا او رانہیں اس کام کے انجام سے ڈرایا ۔

اتفاق سے وہ ( ماہ شوال سن ۵ ہجری کے ) جمعہ او رہفتہ کی درمیانی رات تھی ۔ ابو سفیان او رغطفان کے سرداروں نے ایک گروہ بنی قریظہ کے یہودیوںکے پاس بھیجا او رکھا : ہمارے جانور یہاں تلف ہو رہے ہیں اور یہاں ہمارے لئے ٹھہر نے کی کو ئی جگہ نہیں ۔ کل صبح ہمیں حملہ شروع کرنا چاہئیے تاکہ کام کو کسی نتیجے تک پہنچائیں ۔

یہودیوں نے جواب میں کھا :کل ہفتہ کا دن ہے او رہم اس دن کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتے ،علاوہ ازیں ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ اگر جنگ نے تم پر دباؤ ڈالا تو تم اپنے شہروں کی طرف پلٹ جاؤ گے او رہمیں یہاں تنھاچھوڑدوگے ۔ ہمارے تعاون او رساتھ دینے کی شرط یہ ہے کہ ایک گروہ گروی کے طور پر ہمارے حوالے کردو، جب یہ خبر قبیلہ قریش او رغطفان تک پہنچی تو انھوں نے کھا :خداکی قسم نعیم بن مسعود سچ کہتا تھا،دال میں کالا ضرو رہے ۔

لہٰذا انھوںنے اپنے قاصد یہودیوں کے پاس بھیجے اور کھا : بخدا ہم تو ایک آدمی بھی تمھارے سپرد نہیں کریں گے او راگر جنگ میں شریک ہو تو ٹھیک ہے شروع کرو ۔

بنی قریظہ جب اس سے با خبر ہوئے تو انھوں نے کھا :واقعا نعیم بن مسعود نے حق بات کھی تھی !یہ جنگ نہیں کرنا چاہتے بلکہ کوئی چکر چلا رہے ہیں ، یہ چا ہتے ہیں کہ لوٹ مار کر کے اپنے شہروں کو لوٹ جائیں او رہمیں محمد کے مقابلہ میں اکیلا چھوڑجا ئیں پہر انہوں نے پیغام بھیجا کہ اصل بات وھی ہے جو ہم کہہ چکے ہیں ،بخدا جب تک کچھ افرادگروی کے طور پر ہمارے سپرد نہیں کروگے ،ہم بھی جنگ نہیں کریں گے ،قریش اورغطفان نے بھی اپنی بات پراصرار کیا، لہٰذا ان کے درمیان بھی اختلاف پڑ گیا ۔ اور یہ وھی موقع تھا کہ رات کو اس قدر زبردست سرد طوفانی ہوا چلی کہ ان کے خیمے اکھڑگئے اور دیگیں چو لہوں سے زمین پر آپڑیں ۔

یہ سب عوامل مل ملاکر اس بات کا سبب بن گئے کہ دشمن کو سر پر پاؤں رکھ کر بھا گنا پڑا اور فرار کو قرار پر ترجیح دینی پڑی ۔ یہاں تک کہ میدان میں انکا ایک آدمی بھی نہ رھا۔

حذیفہ کا واقعہ

بہت سی تواریخ میں آیا ہے ،کہ حذیفہ یمانی کہتے ہیں کہ ہم جنگ خندق میں بھوک او رتھکن ،وحشت اوراضطراب اس قدر دو چار تھے کہ خدا ھی بہتر جانتا ہے ،ایک رات (لشکر احزاب میں اختلاف پڑ جانے کے بعد )پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو چھپ چھپا کر دشمن کی لشکر گاہ میں جائے اور ان کے حالات معلوم کر لائے تا کہ وہ جیت میں میرا رفیق اور ساتھی ہو۔

حذیفہ کہتے ہیں : خدا کی قسم کوئی شخض بھی شدت وحشت ، تھکن اور بھوک کے مارے اپنی جگہ سے نہ اٹھا ۔

جس وقت آنحضرتنے یہ حالت دیکھی تو مجھے آوازدی، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایاجاؤ اور میرے پاس ان لوگوں کی خبر لے آؤ ۔ لیکن وھاںکوئی اور کام انجام نہ دینا یہاں تک کہ میرے پاس آجاؤ ۔

میںایسی حالت میں وھاںپہنچا جب کہ سخت آندھی چل رھی تھی اور طوفان برپا تھا اور خدا کا یہ لشکر انہیں تہس نہس کررھا تھا ۔ خیمے تیز آندھی کے سبب ہوا میںاڑ رہے تھے ۔ آگ بیابان میں پھیل چکی تھی۔ کھانے کے برتن الٹ پلٹ گئے تھے اچانک میںنے ابو سفیان کا سایہ محسوس کیاکہ وہ اس تاریکی میں بلند آواز سے کہہ رھا تھا: اے قریش ! تم میں سے ہر ایک اپنے پھلو میں بیٹہے ہوئے کو اچھی طرح سے پہچان لے تا کہ یہاں کوئی بے گانہ نہ ہو ، میںنے پھل کر کے فوراًھی اپنے پاس بیٹھنے والے شخص سے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ اس نے کھا ، فلاں ہوں ، میں نے کھابہت اچھا ۔

پہر ابو سفیان نے کھا:خدا کی قسم !یہ ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے، ہمارے اونٹ گھوڑے ضائع ہو چکے ہیں اور بنی قریظہ نے اپنا پیمان توڑ ڈالا ہے اور اس طوفان نے ہمارے لئے کچھ نہیں چھوڑا ۔

پہر وہ بڑی تیزی سے اپنے اونٹ کی طرف بڑھا اور سوار ہو نے کے لئے اسے زمین سے اٹھا یا، اور اس قدر جلدی میں تھا کہ اونٹ کے پاؤںمیں بندھی ہوئی رسی کھولنا بھول گیا ،لہٰذا اونٹ تین پاؤں پر کھڑا ہو گیا، میں نے سوچا ایک ھی تیرسے اسکا کام تمام کردوں،ابھی تیر چلہ کمان میں جوڑا ھی تھا کہ فوراًآنحضرت کا فرمان یادآگیا کہ جس میں آپ نے فرمایا تھا کچھ کاروائی کے بغیر واپس آجا نا،تمھارا کام صرف وھاں کے حالات ہمارے پاس لانا ہے، لہٰذا میں واپس پلٹ گیا اور جا کر تمام حا لات عرض کئے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بارگاہ ایزدی میں عرض کیا :

”خداوندا ! تو کتاب کو نازل کرنے والا او رسریع الحساب ہے ، توخود ھی احزاب کو نیست و نا بو دفرما !خدایا ! انہیں تباہ کردے اور ان کے پاؤں نہ جمنے دے “۔

جنگ احزاب قرآن کی روشنی میں

قرآن اس ماجرا تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: ”اے وہ لوگ! جو ایمان لائے ہو، اپنے اوپر خدا کی عظیم نعمت کو یاد کرو،اس موقع پر جب کہ عظیم لشکر تمھاری طرف آئے “۔(۵۰)

”لیکن ہم نے ان پر آندھی اور طوفان بھیجے اور ایسے لشکر جنہیں تم نہیں دیکھتے رہے تھے اور اس ذریعہ سے ہم نے ان کی سرکوبی کی اور انہیں تتر بتر کردیا “۔(۵۱)

” نہ دکھنے والے لشکر “ سے مراد جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نصرت کے لئے آئے تھے ، وھی فرشتے تھے جن کا مومنین کی جنگ بدر میں مدد کرنا بھی صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں آیا ہے لیکن جیسا (کہ سورہ انفال کی آیہ ۹ کے ذیل میں) ہم بیان کرچکے ہیں ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ نظر نہ آنے والا فرشتوں کا خدائی لشکر باقاعدہ طور پر میدان میں داخل ہوا اور وہ جنگ میں بھی مصروف ہوا ہو بلکہ ایسے قرائن موجود ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ وہ صرف مومنین کے حوصلے بلند کرنے اور ان کا دل بڑھانے کے لئے نازل ہوئے تھے ۔

بعد والی آیت جو جنگ احزاب کی بحرانی کیفیت ، دشمنوں کی عظیم طاقت اور بہت سے مسلمانوں کی شدید پریشانی کی تصویر کشی کرتے ہوئے یوں کہتی ہے !” اس وقت کو یاد کرو جب وہ تمھارے شہر کے اوپر اور نیچے سے داخل ہوگئے ،اور مدینہ کو اپنے محاصرہ میں لے لیا) اور اس وقت کو جب آنکہیں شدت وحشت سے پتہرا گئی تہیں اور جاںبلب ہوگئے تھے اور خدا کے بارے میں طرح طرح کی بدگمانیان کرتے تھے “۔(۵۲)

اس کیفیت سے مسلمانوں کی ایک جماعت کے لئے غلط قسم کے گمان پیدا ہوگئے تھے کیونکہ وہ ابھی تک ایمانی قوت کے لحاظ سے کمال کے مرحلہ تک نہیں پہنچ پائے تھے یہ وھی لوگ ہیں جن کے بارے میں بعد والی آیت میں کہتا ہے کہ وہ شدت سے متزلزل ہوئے ۔

شایدان میں سے کچھ لوگ گمان کرتے تھے کہ آخر کار ہم شکست کھا جائیں گے اور اس قوت و طاقت کے ساتھ دشمن کا لشکر کامیاب ہوجائے گا، اسلام کے ز ندگی کے آخر ی دن آپہنچے ہیں اور پیغمبر کا کا میابی کا وعدہ بھی پورا ہوتا دکھا ئی نہیں دیتا ۔

ٰٰالبتہ یہ افکار اور نظریات ایک عقیدہ کی صورت میں نہیں بلکہ ایک وسوسہ کی شکل میں بعض لوگوںکے دل کی گہرائیوں میں پیدا ہو گئے تھے بالکل ویسے ھی جیسے جنگ احد کے سلسلہ میں قرآن مجید ان کا ذکر کرتے ہو ئے کہتا ہے :”یعنی تم میں سے ایک گروہ جنگ کے ان بحرانی لمحات میںصرف اپنی جان کی فکر میں تھا اور دورجا ھلیت کے گمانوں کی مانند خدا کے بارے میں بدگمانی کررہے تھے “۔

یھی وہ منزل تھی کہ خدائی امتحان کا تنور سخت گرم ہوا جیسا کہ بعد والی آیت کہتی ہے کہ ”وھاں مومنین کو آزمایا گیا اور وہ سخت دھل گئے تھے۔(۵۳)

فطری امر ہے کہ جب انسان فکری طوفانوںمیںگہر جاتا ہے تو اس کا جسم بھی ان طوفانوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتا ،بلکہ وہ بھی اضطراب اور تزلزل کے سمندر میں ڈوبنے لگتا ہے ،ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ جب لوگ ذہنی طور پر پریشان ہوتے ہیں تو وہ جھاں بھی بیٹھتے ہیں اکثر بے چین رہتے ہیں ، ہاتھ ملتے کاپنتے رہتے ہیں اور اپنے اضطراب اور پریشانیوںکو اپنی حرکات سے ظاہر کرتے رہتے ہیں ۔

اس شدید پریشانی کے شواہد میں سے ایک یہ بھی تھا جسے مورخین نے بھی نقل کیا ہے کہ عرب کے پانچ مشہور جنگجو پھلوان جن کا سردار عمرو بن عبدود تھا ،جنگ کا لباس پہن کر اورمخصوص غرور اور تکبر کے ساتھ میدان میں آئے اور ”ھل من مبارز“( ہے کو ئی مقابلہ کرنے والا )کی آواز لگانے لگے ، خاص کر عمرو بن عبدود رجز پڑھ کر جنت اور آخرت کا مذاق اڑا رھا تھا ،وہ کہہ رھا تھا کہ ”کیا تم یہ نہیں کہتے ہوکہ تمھارے مقتول جنت میں جائیں گے ؟تو کیا تم میں سے کوئی بھی جنت کے دیدار کا شوقین نہیں ہے ؟لیکن اس کے ان نعروں کے برخلاف لشکر اسلام پر بُری طرح کی خاموشی طاری تھی اور کوئی بھی مقابلہ کی جر ائت نہیں رکھتا تھا سوائے علی بن ابی طالب علیہ السلام کے جو مقابلہ کے لئے کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کو عظیم کامیابی سے ہم کنار کردیا ۔اس کی تفصیل نکات کی بحث میںآئےگی۔

جی ھاں جس طرح فولاد کو گرم بھٹی میں ڈالتے ہیں تا کہ وہ نکہر جائے اسی طرح اوائل کے مسلمان بھی جنگ احزاب جیسے معرکوں کی بھٹی میں سے گزریں تا کہ کندن بن کر نکلیںاو رحوادثات کے مقابل میں جراءت اور پا مردی کا مظاہرہ کر سکیں ۔

منا فقین او رضعیف الایمان جنگ احزاب میں

ہم کہہ چکے ہیں کہ امتحان کی بھٹی جنگ احزاب میں گرم ہوئی او رسب کے سب اس عظیم امتحان میں گہر گئے۔ واضح رہے کہ اس قسم کے بحرانی دور میں جولوگ عام حالات میں ظاہراًایک ھی صف میں قرارپاتے ہیں ،کئی صفوںمیںبٹ جاتے ہیں ،یہاں پربھی مسلمان مختلف گروہوںمیں بٹ گئے تھے، ایک جماعت سچے مومنین کی تھی ،ایک گروہ ہٹ دہرم اور سخت قسم کے منافقین کا تھا اور ایک گروہ اپنے گہر بار ،زندگی اور بھاگ کھڑے ہونے کی فکر میں تھا ،اور کچھ لوگوں کی یہ کوشش تھی کہ دوسرے لوگوں کو جھاد سے روکیں ۔ اور ایک گروہ اس کوشش میں مصروف تھا کہ منافقین کے ساتھ اپنے رشتہ کو محکم کریں ۔

خلاصہ یہ کہ ہر شخص نے اپنے باطنی اسراراس عجیب ”عرصہ محشر“اور ”یوم البروز“میں آشکار کردیئے۔

میں نے ایران، روم اور مصرکے محلوں کو دیکھا ہے

خندق کھودنے کے دوران میں جب ہر ایک مسلمان خندق کے ایک حصہ کے کھودنے میں مصروف تھا تو ایک مرتبہ پتہر کے ایک سخت اوربڑے ٹکڑے سے ان کا سامنا ہوا کہ جس پر کوئی ہتھوڑا کار گر ثابت نہیں ہورھا تھا ،حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر دی گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بنفس نفیس خندق میں تشریف لے گئے او راس پتہر کے پاس کھڑے ہو کراورہتھوڑا لے کر پہلی مرتبہ ھی اس کے دل پر ایسی مضبوط چوٹ لگائی کہ اس کا کچھ حصہ ریزہ ریزہ ہو گیا اور اس سے ایک چمک نکلی جس پر آپ نے فتح وکامرانی کی تکبیر بلند کی۔ آپ کے ساتھ دوسرے مسلمانوںنے بھی تکبیرکھی۔

آپ نے ایک اورسخت چوٹ لگائی تو اس کا کچھ حصہ او رٹوٹا اوراس سے بھی چمک نکلی۔اس پر بھی سرورکونین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیرکھی اور مسلمانوں نے بھی آپ کے ساتھ تکبیرکھی آخر کاآپ نے تیسری چوٹھی لگائی جس سے بجلی کوند ی اورباقی ماندہ پتہر بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ،حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہر تکبیر کھی او رمسلمانوںنے بھی ایسا ھی کیا، اس موقع پر جناب سلمان فارسی(رض) نے اس ماجرا کے بارے میں دریافت کیا تو سرکاررسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :”پہلی چمک میں میںنے ”حیرہ“کی سرزمین او رایران کے بادشاہوں کے قصر ومحلات دیکہے ہیں او رجبرئیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ میری امت ان پر کامیابی حاصل کرے گی،دوسری چمک میں ”شام او رروم“کے سرخ رنگ کے محلات نمایاں ہوئے او رجبرئیل نے پہر بشارت دی کہ میری امت ان پرفتح یاب ہوگی، تیسری چمک میں مجھے ”صنعا و یمن “کے قصور ومحلات دکھائی دئیے اورجبرئیل نے نوید دی کہ میری امت ان پربھی کامیابی حاصل کرے گی، اے مسلمانو!تمہیں خوشخبری ہو!!

منافقین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا او رکھا: کیسی عجیب و غریب باتیںکر رہے ہیں اور کیا ھی باطل اور بے بنیاد پروپیگنڈاہے ؟مدینہ سے حیرہ او رمدائن کسریٰ کو تو دیکھ کر تمہیں ان کے فتح ہونے کی خبردیتا ہے حالانکہ اس وقت تم چند عربوں کے چنگل میں گرفتا رہو (او رخو ددفاعی پوزیشن اختیار کئے ہوئے ہو )تم تو” بیت الحذر“(خوف کی جگہ ) تک نہیں جا سکتے ( کیا ھی خیال خام او رگمان باطل ہے ۔

الٰھی وحی نازل ہوئی او رکھا:

”یہ منا فق او ردل کے مریض کہتے ہیں کہ خدا او راس کے رسو ل نے سوائے دھوکہ و فریب کے ہمیں کوئی وعدہ نہیں دیا، (وہ پر و ردگارکی بے انتھا قدرت سے بے خبر ہیں “۔)(۵۴)

اس وقت اس قسم کی بشارت او رخوشخبری سوائے آگاہ او ربا خبر مومنین کی نظر کے علاوہ ( باقی لوگوں کے لئے )دھوکا او ر فریب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھی لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ملکوتی آنکہیں ان آتشیں چنگاریوں کے درمیان سے جو کدالوں او رہتھوڑوں کے خندق کھودنے کے لئے زمین پرلگنے سے نکلتی تہیں ، ایران روم او ریمن کے بادشاہوں کے قصرو محلات کے دروازوں کے کھلنے کو دیکھ سکتے تھے او رآئندہ کے اسرارو رموز سے پردے بھی اٹھاسکتے تھے۔

منافقانہ عذر

جنگ احزاب کے واقعہ کے سلسلے میں قرآن مجیدمنافقین او ردل کے بیمارلوگوں میں سے ایک خطرناک گروہ کے حالات تفصیل سے بیان کرتا ہے جو دوسروں کی نسبت زیادہ خبیث او رآلودہ گناہ ہیں ، چنانچہ کہتا ہے: ”او راس وقت کو بھی یا دکرو، جب ان میں سے ایک گروہ نے کھا: اے یثرب (مدینہ )کے رہنے والو!یہاں تمھارے رہنے کی جگہ نہیں ہے ،اپنے گہروںکی طرف لوٹ جاؤ“(۵۵)

خلاصہ یہ کہ دشمنوںکے اس انبوہ کے مقابلہ میں کچھ نہیں ہو سکتا، اپنے آپ کو معرکہ کار زار سے نکال کرلے جاؤ او راپنے آپ کو ہلاکت کے اور بیوی بچوں کو قید کے حوالے نہ کرو۔ اس طرح سے وہ چاہتے تھے کہ ایک طرف سے تو وہ انصار کے گروہ کو لشکر اسلام سے جدا کرلیں اوردوسری طرف ”انہیں منافقین کا ٹولہ جن کے گہر مدینہ میں تھے ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اجازت مانگ رہے تھے کہ وہ واپس چلے جا ئیں او راپنی اس واپسی کے لئے حیلے بھانے پیش کررہے تھے ، وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ہمارے گہردل کے درودیوارٹھیک نہیں ہیں حالانکہ ایسا نہیں تھا ،اس طرح سے وہ میدان کو خالی چھوڑکر فرارکرنا چاہتے تھے“۔(۵۶)

منافقین اس قسم کا عذر پیش کرکے یہ چاہتے تھے کہ وہ میدان جنگ چھوڑکر اپنے گہروں میں جاکرپناہ لیں ۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ قبیلہ ”بنی حارثہ “نے کسی شخص کو حضور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بھیجااو رکھا کہ ہمارے گہر غیر محفوظ ہیں اور انصار میں سے کسی کا گہر بھی ہمارے گہروں کی طرح نہیں اور ہمارے او رقبیلہ ”غطفان “کے درمیان کوئی رکا وٹ نہیں ہے جو مدینہ کی مشرقی جانب سے حملہ آور ہو رہے ہیں ، لہٰذا اجا زت دیجئے تا کہ ہم اپنے گہروں کو پلٹ جا ئیں او راپنے بیوی بچوں کا دفاع کریں تو سرکار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں اجازت عطا فرمادی ۔

جب یہ بات انصار کے سردار ”معد بن معاذ “کے گوش گذارہوئی توانھوںنے پیغمبراسلام کی خدمت میں عرض کیا ”سرکا ر!انہیں اجازت نہ دیجئے ،بخدا آج تک جب بھی کوئی مشکل درپیش آئی تو ان لوگوں نے یھی بھانہ تراشا،یہ جھوٹ بولتے ہیں “۔(۵۷)

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ واپس آجائیں ۔(۵۸)

قرآن میں خداوندعالم اس گروہ کے ایمان کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: ”وہ اسلام کے اظھار میں اس قدر ضعیف اور ناتواں ہیں کہ اگر دشمن مدینہ کے اطراف و جوانب سے اس شہر میں داخل ہوجائیں اور مدینہ کو فوجی کنٹرول میں لے کر انہیں پیش کش کریں کہ کفر و شرک کی طرف پلٹ جائیں توجلدی سے اس کو قبول کرلیں گے اور اس راہ کے انتخاب کرنے میں ذراسا بھی توقف نہیں کریں گے“۔(۵۹)

ظاہر ہے کہ جو لوگ اس قدرت ضعیف، کمزور اور غیر مستقل مزاج ہوں کہ نہ تو دشمن سے جنگ کرنے چند ایک روایات میں آیاہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ”اس شہر کو یثرب نہ کھا کرو شاید اسکی وجہ یہ ہو کہ یثرب اصل میں ”ثرب“(بروزن حرب)کے مادہ سے ملامت کرنے کے معنی میں ہے اور آپ اس قسم کے نام کو اس بابرکت شہر کے لئے پسند نہیں فرماتے تھے۔

بہرحال منافقین نے اہل مدینہ کو ”یااہل یثرب“کے عنوان سے جو خطاب کیا ہے وہ بلاوجہ نہیں ہے او رشاید اس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس نام سے نفرت ہے ،یا چاہتے تھے کہ اسلام او ر”مدینةالرسول“کے نام کو تسلیم نہ کرنے کااعلان کریں ۔یالوگوںکو زمانہ جاہلیت کی یادتازہ کرائیں ۔

کے لئے تیار ہوں اور نہ ھی راہ خدا میں شھادت قبول کرنے کے لئے، ایسے لوگ بہت جلد ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور اپنی راہ فوراً بدل دیتے ہیں ۔

پہر قرآن اس منافق ٹولے کو عدالت کے کٹہرے میں لاکر کہتا ہے: ”انھوں نے پہلے سے خدا کے ساتھ عہد و پیمان باندھا ہوا تھا کہ دشمن کی طرف پشت نہیں کریں گے اور اپنے عہد و پیمان پر قائم رہتے ہوئے توحید، اسلام اور پیغمبر کے لئے دفاع میں کھڑے ہوں گے، کیا وہ جانتے نہیں کہ خدا سے کئے گئے عہد و پیمان کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔(۶۰)

جب خدا نے منافقین کی نیت کو فاش کردیا کہ ان کا مقصد گہروں کی حفاظت کرنا نہیں ، بلکہ میدان جنگ سے فرار کرنا ہے تو انہیں دود لیلوں کے ساتھ جواب دیتا ہے۔

پہلے تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرماتا ہے: ”کہہ دیجئے کہ اگر موت یا قتل ہونے سے فرار کرتے ہو تو یہ فرار تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہونچائے گااور تم دنیاوی زندگی کے چند دن سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھاپاؤ گے“۔(۶۱)

دوسرا یہ کہ کیا تم جانتے ہوکہ تمھارا سارا انجام خدا کے ہاتھ میں ہے اور تم اس کی قدرت و مشیت کے دائرہ اختیار سے ہرگز بھاگ نہیں سکتے۔

”اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! ان سے کہہ دیجئے : کون شخص خدا کے ارادہ کے مقابلہ میں تمھاری حفاظت کرسکتا ہے، اگر وہ تمھارے لئے مصیبت یا رحمت چاہتا ہے“۔(۶۲)

روکنے والا ٹولہ

اس کے بعد قرآن مجید منافقین کے اس گروہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو جنگ احزاب کے میدان سے خودکنارہ کش ہوا اور دوسروں کو بھی کنار کشی کی دعوت دیتا ہو فرماتا ہے: ” خدا تم میں سے اس گروہ کو جانتا ہے جو کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کو جنگ سے منحرف کردیں ،اور اسی طرح سے ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو اپنے بھائیوں سے کہتے تھے کہ ہماری طرف آؤ“ اور اس خطرناک جنگ سے دستبردار ہوجاؤ ۔

وھی لوگ جواہل جنگ نہیں ہیں اور سوائے کم مقدار کے اور وہ بھی بطور جبر واکراہ یاد کھاوے کے؛ جنگ کے لئے نہیں جاتے۔(۶۳)

ہم ایک روایت میں پڑھتے ہیں کہ ایک صحابی رسول کسی ضرورت کے تحت میدان” احزاب “ سے شہر میں آیا ہوا تھا اس نے اپنے بھائی کو دیکھا کہ اس نے اپنے سامنے روٹی ، بھنا ہوا گوشت اور شراب رکہے ہوئے تھے ، تو صحابی نے کھا تم تو یہاں عیش وعشرت میں مشغول ہواور رسول خدا نیزوں اور تلواروں کے درمیان مصروف پیکار ہیں اس نے جواب میں کھا ، اے بے وقوف : تم بھی ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ اور مزے اڑاؤ اس نے کھا:اس خدا کی قسم جس کی محمد کھاتا ہے وہ اس میدان سے ہرگز پلٹ کر واپس نہیں آئے گا اور یہ عظیم لشکر جو جمع ہوچکا ہے اسے اور اس کے ساتھیوں کو زندہ نہیں چھوڑے گا ۔

یہ سن کر وہ صحابی کہنے لگے :تو بکتا ہے،خدا کی قسم میں ابھی رسول اللہ کے پاس جاکر تمھاری اس گفتگو سے باخبر کرتا ہوں، چنانچہ انھوں نے بارگاہ رسالت میں پہنچ کر تمام ماجرا بیان کیا ۔

وہ ہرگز ایمان نہیں لائے

قرآن فرماتاہے :” ان تمام رکاوٹوں کا باعث یہ ہے کہ وہ تمھاری بابت تمام چیزوں میں بخیل ہیں “۔(۶۴)

نہ صرف میدان جنگ میں جان قربان کرنے میں بلکہ وسائل جنگ مھیا کرنے کے لئے مالی امداد اور خندق کھودنے کے لئے جسمانی امداد حتی کہ فکری امداد مھیا کرنے میں بھی بخل سے کام لیتے ہیں ، ایسا بخل جو حرص کے ساتھ ہوتا ہے اور ایسا حرص جس میں روز بروز اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔

ان کے بخل اور ہر قسم کے ایثارسے دریغ کرنے کے بیان کے بعد ان کے ان دوسرے اوصاف کو جو ہر عہد اور ہر دور کے تمام منافقین کے لئے تقریباً عمو میت کا درجہ رکھتے ہیں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :” جس وقت خوفناک اور بحرانی لمحات آتے ہیں تو وہ اس قدر بزدل اور ڈرپوک ہیں کہ آپ دیکہیں گے کہ وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں حالانکہ ان کی آنکھوں میں ڈھیلے بے اختیار گردش کررہے ہیں ، اس شخص کی طرح جو جاں کنی میں مبتلا ہو “(۶۵)

چونکہ وہ صحیح ایمان کے مالک نہیں ہیں اور نہ ھی زندگی میں ان کا کوئی مستحکم سھارا ہے ، جس وقت کسی سخت حادثہ سے دوچار ہوتے ہیں تو وہ لوگ بالکل اپنا توازن کھوبیٹھتے ہیں جیسے ان کی روح قبض ھی ہوجائے گی۔

پہر مزید کہتا ہے: ” لیکن یھی لوگ جس وقت طوفان رک جاتاہے اور حالات معمول پر آجاتے ہیں تو تمھارے پاس یہ توقع لے کر آتے ہیں کہ گویا جنگ کے اصلی فاتح یھی ہیں اور قرض خواہوں کی طرح پکار پکار کر سخت اور درشت الفاظ کے ساتھ مال غنیمت سے اپنے حصہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس میں سخت گیر، بخیل اور حریص ہیں “۔(۶۶)

آخر میں ان کی آخری صفت کی طرف جو درحقیقت میں ان کی تمام بد بختیوں کی جڑ اور بنیاد ہے ، اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے ” وہ ہر گز ایمان نہیں لائے۔اور اسی بناپر خدانے ان کے اعمال نیست ونابود کردئیے ہیں کیونکہ ان کے اعمال خدا کے لئے نہیں ہیں اور ان میں اخلاص نہیں پایا جاتا۔(۶۷)

”وہ اس قدر وحشت زدہ ہو چکے ہیں کہ احزاب اور دشمن کے لشکروں کے پر اگندہ ہوجانے کے بعد بھی یہ تصور کرتے ہیں کہ ابھی وہ نہیں گئے“۔(۶۸)

وحشتناک اور بھیانک تصور نے ان کی فکر پر سایہ کر رکھا ہے گویا کفر کی افواج پے درپے ان کی آنکھوں کے سامنے قطاردر قطار چلی جارھی ہیں ، ننگی تلواریں اور نیزے تانے ان پر حملہ کررھی ہیں ۔

یہ بزدل جھگڑالو ، ڈرپوک منافق اپنے سائے سے بھی ڈرتے ہیں ، جب کسی گھوڑے کے ہنہنانے یا کسی اونٹ کے بلبلانے کی آواز سنتے ہیں تو مارے خوف کے لرزنے لگتے ہیں کہ شاید احزاب کے لشکر واپس آرہے ہیں ۔

اس کے بعدکہتا ہے ” اگر احزاب دوبارہ پلٹ کر آجائے تو وہ اس بات پر تیار ہیں کہ بیابان کا رخ کرلیں اور بادیہ نشین بدووںکے درمیان منتشر ہو کر پنھاں ہو جائیں ھاں، ھاں وہ چلے جائیں اور وھاں جاکر رہیں ” اور ہمیشہ تمھاری خبروں کے جویا رہیں “۔(۶۹)

ہر مسافر سے تمھاری ہر ہر پل کی خبر کے جویا رہیں ایسا نہ ہوکہ کہیں احزاب ان کی جگہ قریب آجائیں اور ان کا سایہ ان کے گہر کی دیواروں پر آپڑے اور تم پر یہ احسان جتلائیں کہ وہ ہمشہ تمھاری حالت اور کیفیت کے بارے میں فکر مند تھے ۔

اور آخری جملہ میں کہتا ہے:

”بالفرض وہ فراربھی نہ کرتے اور تمھارے درمیان ھی رہتے ، پہر بھی سوائے تھوڑی سی جنگ کے وہ کچھ نہ کرپاتے“۔(۷۰)

نہ ان کے جانے سے تم پریشان ہونا اور نہ ھی ان کے موجود رہنے سے خوشی منانا، کیونکہ نہ تو ان کی قدر وقیمت ہے اور نہ ھی کوئی خاص حیثیت، بلکہ ان کا نہ ہونا ان کے ہونے سے بہتر ہے ۔

ان کی یھی تھوڑی سی جنگ بھی خدا کےلئے نہیں بلکہ لوگوں کی سرزنش اور ملامت کے خوف اور ظاہرداری یاریاکاری کےلئے ہے کیونکہ اگر خدا کے لئے ہوتی تو اس کی کوئی حدو انتھا نہ ہوتی اور جب تک جان میں جان ہوتی وہ اس میدان میں ڈٹے رہتے ۔

جنگ احزاب میں سچے مومنین کا کردار

اب تک مختلف گر وہوںاور ان کے جنگ احزاب میں کارناموں کے بارے میں گفتگو ہورھی تھی جن میں ضعیف الایمان مسلمان ، منافق، کفر ونفاق کے سرغنے اور جہد سے روکنے والے شامل ہیں ۔

قرآن مجید اس گفتگو کے آخر میں ” سچے مئومنین “ ان کے بلند حوصلوں ، پامردیوں ، جرائتوں اور اس عظیم جھاد میں ان کی دیگر خصوصیات کے بارے میں گفتگو کرتا ہے ۔

اس بحث کی تمھید کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات سے شروع کرتا ہے جو مسلمانوں کے پیشوا ، سرداراور اسوہ کامل تھے، خدا کہتا ہے: ” تمھارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی اور (میدان احزاب میں ) ان کا کردار ایک اچھا نمونہ اوراسوہ ہے ، ان لوگوں کے لئے جورحمت خدا اور روز قیامت کی امید رکھتے ہیں اور خدا کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں ۔“(۷۱)

تمھارے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ ،نہ صرف اس میدان میں بلکہ ساری زندگی پیغمبراسلام کی ذات والا صفات ہے آپ کے بلند حوصلے، صبرو استقامت ،پائمردی ،زیر کی ، دانائی ، خلوص ، خدا کی طرف تو جہ، حادثات پر کنڑول، مشکلات اور مصائب کے آگے سر تسلیم خم نہ کرنا ، غرضکہ ان میں سے ہر ایک چیز مسلمانوں کے لئے نمونہ کامل اور اسوہ حسنہ ہے ۔

وہ ایسا عظیم نا خدا ہے کہ جب اس کی کشتی سخت ترین طوفانوں میں گہر جاتی ہے تو ذرہ برابر بھی کمزوری،گھبراہٹ اور سراسیمگی کا مظاہرہ نہیں کرتا وہ کشتی کانا خدا بھی ہے اور اس کا قابل اطمینان لنگر اور چراغ ہدایت بھی وہ اس میں بیٹھنے والوں کے لئے آرام وسکون کا باعث بھی ہے اور ان کے لئے راحت جان بھی ۔

وہ دوسرے مئومنین کے ساتھ مل کر کدال ہاتھ میں لیتا ہے اور خندق کھودتا ہے،بلیچے کے ساتھ پتہر اکھاڑکرکے خندق سے باہر ڈال آتا ہے اپنے اصحاب کے حوصلے بڑھانے اور ٹھنڈے دل سے سوچنے کے لئے ان سے مزاح بھی کرتا ہے ان کے قلب و روح کو گرمانے کے حربی اور جوش وجذبہ دلانے والے اشعار پڑھ کر انہیں ترغیب بھی دلاتاہے، ذکر خدا کرنے پرمسلسل اصرار کرتا ہے اور انہیں درخشاں مستقبل اور عظیم فتوحات کی خوشخبری دیتاہے انہیں منافقوں کی سازشوں سے متنبہ کرتا ہے اور ان سے ہمیشہ خبردار رہنے کا حکم دیتا ہے ۔

صحیح حربی طریقوں اور بہترین فوجی چالوں کو انتخاب کرنے سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں رہتا اس کے باوجود مختلف طریقوں سے دشمن کی صفوں میںشگاف ڈالنے سے بھی نہیں چوکتا ۔

جی ھاں: وہ مومنین کا بہترین مقتدا ہے اور ان کے لئے اسوہ حسنہ ہے اس میدان میں بھی اور دوسرے تمام میدانوں میں بھی۔

مومنین کے صفات

اس مقام پر مومنین کے ایک خاص گروہ کی طرف اشارہ ہے:

” جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں سب سے زیادہ پیش قدمی کرتے تھے وہ خدا سے کئے ہوئے اپنے اس عہدو پیمان پرقائم تھے کہ وہ آخری سانس اور آخری قطرہ خون تک فداکاری اور قربانی کے لئے تیار ہیں فرمایا گیا ہے مومنین میں ایسے بھی ہیں جواس عہدوپیمان پر قائم ہیں جو انھوںنے خدا سے باندھا ہے ان میں سے کچھ نے تو میدان جھاد میں شربت شھادت نوش کرلیا ہے اوربعض انتظار میں ہیں ۔ور انھوں نے اپنے عہدوپیمان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی “ ۔(۷۲)

اور نہ ھی ان کے قدموں میں لغزش پیدا ہوئی ہے۔

مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کہ یہ آیت کن افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

اہل سنت کے مشہور عالم ، حاکم ابوالقاسم جسکانی سند کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :

آیہ ”رجال صدقوا ما عاھدوا اللّٰہ علیہ “ ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے اور بخدا میں ھی وہ شخص ہوں جو(شھادت کا) انتظار کررھاہوں(اور قبل از ایں ہم میں حمزہ سید الشہداء جیسے لوگ شھادت نوش کرچکے ہیں )اور میں نے ہرگز اپنی روش اور اپنے طریقہ کار میں تبدیلی نہیں کی اور اپنے کیئے ہوے عہدوپیمان پر قائم ہوں ۔

جنگ بنی قریظہ

مدینہ میں یہودیوں کے تین مشہور قبائل رہتے تھے : بنی قریظہ، بنی النضیر اور بنی قینقاع۔

تینوں گروہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معاہدہ کر رکھا تھا کہ آپ کے دشمنوں کا ساتھ نہیں دیں گے، ان کے لئے جاسوسی نہیں کریں گے، اور مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر امن و آشتی کی زندگی گزاریں گے، لیکن قبیلہ بنی قینقاع نے ہجرت کے دوسرے سال اور قبیلہ بنی نضیر نے ہجرت کے چوتھے سال مختلف حیلوں بھانوں سے اپنا معاہدہ توڑ ڈالا، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مقابلہ کے لئے تیار ہوگئے آخر کار ان کی مزاحمت اور مقابلہ کی سکت ختم ہوگئی اور وہ مدینہ سے باہر نکل گئے۔

بنی قینقاع” اذر عات“ شام کی طرف چلے گئے اور بنی نضیر کے کچھ لوگ تو خیبر کی طرف اور کچھ شام کی طرف چلے گئے ۔

اسی بناء پر ہجرت کے پانچویں سال جب کہ جنگ احزاب پیش آئی تو صرف قبیلہ بنی قریظہ مدینہ میں باقی رہ گیا تھا ، وہ بھی اس میدان میں اپنے معاہدہ کو توڑکر مشرکین عرب کے ساتھ مل گئے اور مسلمانوں کے مقابلہ میں تلواریں سونت لیں ۔

جب جنگ احزا ب ختم ہوگئی اور قریش، بنی غطفان اور دیگر قبائل عرب بھی رسوا کن شکست کے بعد مدینہ سے پلٹ گئے تو اسلامی روایات کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے گہر لوٹ آئے اور جنگی لباس اتارکر نھانے دھونے میں مشغول ہوگئے تو اس موقع پر جبرئیل حکم خدا سے آپ پر نازل ہوئے اور کھا : کیوں آپ نے ہتھیار اتار دیئے ہیں جبکہ فرشتے ابھی تک آمادہ پیکار ہیں آپ فوراً بنی قریظہ کی طرف جائیں اور ان کا کام تمام کردیں ۔

واقعاً بنی قریظہ کا حساب چکانے کے لئے اس سے بہتر کوئی اور موقع نہیں تھا مسلمان اپنی کامیابی پر خوش خرم تھے، بنی قریظہ شکست کی شدید وحشت میں گرفتار تھے اور قبائل عرب میں سے ان کے دوست اور حلیف تھکے ماندے اور بہت ھی پست حوصلوں کے ساتھ شکست خوردہ حالت میں اپنے اپنے شہروںاور علاقوں میں جاچکے تھے اور کوئی نہیں تھا جوان کی حمایت کرے ۔

بہرحال منادی نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے ندادی کہ نماز عصر پڑھنے سے پہلے بنی قریظہ کی طرف چل پڑو مسلمان بڑی تیزی کے ساتھ ھی بنی قریظہ کے محکم ومضبوط قلعوںکو مسلمانوں نے اپنے محاصرے میں لے لیا ۔

پچیس دن تک محاصرہ جاری رھا چنانچہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے بنی قریظہ کے قلعوں پر حملہ کرنے کے لئے اتنی جلدی کی کہ بعض مسلمان نماز عصر سے غافل ہوگئے کہ مجبوراً بعد میں قضا کی،خداوند عالم نے ان کے دلوں میں سخت رطب و دبدبہ طاری ہوگیا۔

تین تجاویز

”کعب بن اسد“ کا شمار یہودیوں کے سرداروں میں ہوتا تھا اس نے اپنی قوم سے کھا : مجھے یقین ہے کہ محمد ہمیں اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک ہم جنگ نہ کریں لہٰذا میری تین تجاویز ہیں ، ان میں سے کسی ایک کو قبول کرلو ،پہلی تجویز تویہ ہے کہ اس شخص کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس پر ایمان لے آو اور اس کی پیروی اختیار کرلو کیونکہ تم پر ثابت ہوچکا ہے کہ وہ خدا کا پیغمبر ہے اوراس کی نشانیاں تمھاری کتابوں میں پائی جاتی ہیں تو اس صورت میں تمھارے مال ، جان، اولاد اور عورتیں محفوظ ہوجائیں گی۔

وہ کہنے لگے کہ ہم ہرگز حکم توریت سے دست بردار نہیں ہوں گے اور نہ ھی اس کا متبادل اختیار کریں گے ۔

اس نے کھا : اگر یہ تجویز قبول نہیں کرتے تو پہر آؤ اور اپنے بچوں اور عورتوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرڈالو تاکہ ان کی طرف سے آسودہ خاطر ہوکر میدان جنگ میں کود پڑیں اور پہر دیکہیں کہ خدا کیا چاہتا ہے ؟ اگر ہم مارے گئے تو اہل وعیال کی جانب سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی اور اگر کامیاب ہوگئے تو پہر عورتیں بھی بہت بچے بھی بہت ۔!!

وہ کہنے لگے کہ ہم ان بے چاروں کو اپنے ھی ہاتھوں سے قتل کردیں ؟ان کے بعد ہمارے لئے زندگی کی قدرو قیمت کیارہ جائے گی ؟

کعب بن اسد نے کھا : اگر یہ بھی تم نے قبول نہیں کیا تو آج چونکہ ہفتہ کی رات ہے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اس کے ساتھی یہ خیال کریں گے کہ ہم آج رات حملہ نہیں کریں گے انہیں اس غفلت میں ڈال کر ان پر حملہ کردیں شاید کامیابی حاصل ہوجائے ۔

وہ کہنے لگے کہ یہ کام بھی ہم نہیں کریں گے کیونکہ ہم کسی بھی صورت میںہفتہ کا احترام پامال نہیں کریں گے ۔

کعب کہنے لگا : پیدائش سے لے کر آج تک تمھارے اندر عقل نہیں آسکی ۔

اس کے بعد انھوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بات کی کہ” ابولبابہ“ کو ان کے پاس بھیجا جائے تاکہ وہ ان سے صلاح مشورہ کرلیں ۔

ابولبابہ کی خیانت

جس وقت ابولبابہ ان کے پاس آئے تو یہودیوں کی عورتیں اور بچے ان کے سامنے گریہ وزاری کرنے لگے اس بات کا ان کے دل پر بہت اثر ہوا اس وقت لوگوں نے کھا کہ آپ ہمیں مشورہ دیتے ہیں کہ ہم محمد کے آگے ہتھیار ڈال دیں ؟ ابولبابہ نے کھا ھاں اور ساتھ ھی اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا یعنی تم سب کو قتل کردیں گے ۔!

ابولبابہ کہتے ہیں ، جیسے ھی میں وھاں سے چلا تو مجھے اپنی خیانت کا شدید احساس ہوا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس نہ گیا بلکہ سیدھا مسجد کی طرف چلا اور اپنے آپ کو مسجد کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کھا اپنی جگہ سے اس وقت تک حرکت نہیں کروں گا جب تک خدا میری توبہ قبول نہ کرلے ۔

سات دن تک اس نے نہ کھانا کھایا نہ پانی پیا اور یونھی بے ہوش پڑا رھا یہاں تک کہ خدا نے اس کی توبہ قبول کر لی،جب یہ خبر بعض مومنین کے ذریعہ اس تک پہنچی شتو اس ننے قسم کھائی میں خود رہنے کو اس ستون سے نہیں کھولوں گا یہاں تک کہ پیغمبر آکر کھولیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آئے اور اس کو کھولا ابولبابہ نے کھا کہ اونی توبہ کو کامل ہونے کے لئے اپنا سارا مال راہ خدا میں دیتا ہوں۔اس وقت پیغمبر نے کھا:ایک سوم مال کافی ہے،”آخرکار خدانے اس کا یہ گناہ اس کی صداقت کی بنا ء پربخش دیا(۷۳)

لیکن آخر کار بنی قریظہ کے یہودیوں نے مجبور ہوکر غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیئے۔

جناب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سعد بن معاذ تمھارے بارے میں جو فیصلہ کردیں کیا وہ تمہیں قبول ہے ؟وہ راضی ہوگئے ۔

سعدبن معاذ نے کھا کہ اب وہ موقع آن پہنچا ہے کہ سعد کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو نظر میں رکہے بغیر حکم خدا بیان کرے ۔

سعد نے جس وقت یہودیوں سے دوبارہ یھی اقرار لے لیا تو آنکہیں بند کرلیں اور جس طرف پیغمبر کھڑے ہوئے تھے ادہر رخ کرکے عرض کیا : آپ بھی میرا فیصلہ قبول کریں گے ؟ آنحضرت نے فرمایا ضرور: تو سعد نے کھا : میں کہتا ہوں کہ جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے پر آمادہ تھے (بنی قریظہ کے مرد ) انہیں قتل کردینا چاہئے ، ان کی عورتیں اور بچے قید اور ان کے اموال تقسیم کردیئے جائیں البتہ ان میں سے ایک گروہ اسلام قبول کرنے کے بعد قتل ہونے سے بچ گیا ۔

قرآن اس ماجرا کی طرف مختصر اور بلیغ اشارہ کرتا ہے اور اس ماجراکا تذکرہ خداکی ایک عظیم نعمت او رعنایت کے طور پر ہوا ہے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے:”خدا نے اہل کتاب میں سے ایک گروہ کو جنہوںنے مشرکین عرب کی حمایت کی تھی ،ان کے محکم و مضبوط قلعوں سے نیچے کھینچا ۔(۷۴)

یہاں سے واضح ہو جا تا ہے کہ یہو دیوں نے اپنے قلعے مدینہ کے پاس بلند او راونچی جگہ پربنا رکہے تھے او ران کے بلند برجوں سے اپنا دفاع کرتے تھے ”انزل “(نیچے لے آیا ) کی تعبیر اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : ”خدا نے ان کے دلوں میں خوف او ررعب ڈال دیا “:

آخر کار ان کا مقابلہ یہاں تک پہنچ گیا کہ ”تم ان میں سے ایک گروہ کو قتل کررہے تھے او ردوسرے کو اسیر بنا رہے تھے ۔”او ران کی زمینیں گہر اور مال و متاع تمھارے اختیارمیں دے دیا “۔(۷۵)

یہ چند جملے جنگ بنی قریظہ کے عام نتائج کا خلاصہ ہیں ۔ ان خیانت کاروںمیں سے کچھ مسلمانوںکے ہاتھوںقتل ہو گئے،کچھ قید ہوگئے اوربہت زیادہ مال غنیمت جس میں ان کی زمینیں ،گہر ،مکا نات او رمال و متاع شامل تھا ،مسلمانوں کو ملا ۔

صلح حدیبیہ

چھٹی ہجری کے ماہ ذی قعدہ میں پیغمبر اکرم عمرہ کے قصد سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے ،مسلمانوں کو رسول اکرم کے خواب کی اطلاع مل چکی تھی کہ رسول اکرمنے اپنے تمام اصحاب کے ساتھ ”مسجد الحرام“میں وارد ہونے کو خواب میں دیکھا ہے ،او رتمام مسلمانوں کو اس سفرمیں شرکت کا شوق دلایا،اگر چہ ایک گروہ کنارہ کش ہو گیا ،مگر مہاجرین و انصار او ربادیہ نشین اعراب کی ایک کثیر جماعت آپ کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہو گئی ۔

یہ جمعیت جو تقریباًایک ہزار چار سوافراد پر مشتمل تھی ،سب کے سب نے لباس احرام پہنا ہوا تھا ،او رتلوار کے علاوہ جو مسافروں کا اسلحہ شمار ہو تی تھی ،کوئی جنگی ہتھیار ساتھ نہ لیا تھا ۔

جب مسلمان ”ذی الحلیفہ“ مدینہ کے نزدیک پہونچے،اور بہت اونٹوں کو قربانی کے لئے لے لیا۔

پیغمبر (اور آپ (ع)کے اصحاب کا)طرز عمل بتآرہا تھا کہ عبادت کے علاوہ کوئی دوسرا قصد نہیں تھا۔جب پیغمبر مکہ کے نزدیکی مقام آپ کو اطلاع ملی کہ قریش نے یہ پختہ ارادہ کرلیا ہے کہ آپ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے ،یہاں تک کہ پیغمبرمقام” حدیبیہ“میں پہنچ گئے ( حدیبیہ مکہ سے بیس کلو مٹر کے فاصلہ پر ایک بستی ہے ،جو ایک کنویں یا درخت کی مناسبت سے اس نام سے مو سوم تھی )حضرت نے فرمایا: کہ تم سب اسی جگہ پر رک جاؤ،لوگوں نے عرض کی کہ یہاں تو کوئی پانی نہیں ہے پیغمبر نے معجزانہ طور پر اس کنویںسے جو وھاںتھا ،اپنے اصحاب کے لئے پانی فراہم کیا ۔

اسی مقام پر قریش او رپیغمبر کے درمیان سفراء آتے جاتے رہے تاکہ کسی طرح سے مشکل حل ہو جائے ، آخرکا ر”عروہ ابن مسعودثقفی“جو ایک ہوشیا ر آدمی تھا ،قریش کی طرف سے پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوا ،پیغمبر نے فرمایا میں جنگ کے ارادے سے نہیں آیا او رمیرا مقصد صرف خانہ خدا کی زیارت ہے ،ضمناًعروہ نے اس ملاقات میں پیغمبر کے وضو کرنے کا منظربھی دیکھا،کہ صحابہ آپ کے وضو کے پانی کا ایک قطرہ بھی زمین پرگرنے نہیں دیتے تھے ،جب وہ واپس لوٹا تو اس نے قریش سے کھا :میں قیصر وکسریٰ او رنجاشی کے دربارمیں گیا ہوں ۔میں نے کسی سربراہ مملکت کو اس کی قوم کے درمیان اتنا با عظمت نہیں دیکھا ،جتنا محمدکی عظمت کو ان کے اصحاب کے درمیان دیکھا ہے ۔ اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ محمدکو چھوڑ جائیںگے تویہ بہت بڑی غلطی ہو گی ،دیکھ لو تمھارا مقابلہ ایسے ایثار کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔یہ تمھارے لئے غور و فکر کا مقام ہے ۔

بیعت رضوان

اسی دوران پیغمبر نے عمر سے فرمایا: کہ وہ مکہ جائیں ، او ر اشراف قریش کو اس سفرکے مقصد سے آگاہ کریں ،عمر نے کھاقریش مجھ سے شدید دشمنی رکھتے ہیں ،لہٰذامجھے ان سے خطرہ ہے ، بہتر یہ ہے کہ عثمان کو اس کام کے لئے بھیجا جائے ،عثمان مکہ کی طرف آئے ،تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ مسلمانوں کے ورمیان یہ افواہ پھیل گئی کہ ان کو قتل کر دیاہے ۔ اس مو قع پرپیغمبرنے شدت عمل کا ارادہ کیا او رایک درخت کے نیچے جو وھاں پرموجودتھا ،اپنے اصحاب سے بیعت لی جو ”بیعت رضوان“ کے نام سے مشہو رہوئی ،او ران کے ساتھ عہد وپیمان کیا کہ آخری سانس تک ڈٹیں گے،لیکن تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ عثمان صحیح و سالم واپس لوٹ آئے او رانکے پیچہے پیچہے قریش نے”سھیل بن عمر“کو مصالحت کے لئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بھیجا ،لیکن تاکید کی کہ اس سال کسی طرح بھی آپکا مکہ میںورود ممکن نہیں ہے ۔

بہت زیادہ بحث و گفتگو کے بعد صلح کا عہد و پیمان ہوا،جس کی ایک شق یہ تھی کہ مسلمان اس سال عمرہ سے باز رہیں او ر آئندہ سال مکہ میں آئیں،اس شرط کے ساتھ کہ تین دن سے زیادہ مکہ میں نہ رہیں ،او رمسافرت کے عام ہتھیارکے علاوہ او رکوئی اسلحہ اپنے ساتھ نہ لائیں۔اورمتعددمواد جن کا دارومداران مسلمانوںکی جان و مال کی امنیت پر تھا،جو مدینہ سے مکہ میں واردہوں،او راسی طرح مسلمانوں اورمشرکین کے درمیان دس سال جنگ نہ کرنے او رمکہ میں رہنے والے مسلمانوںکے لئے مذھبی فرائض کی انجام دھی بھی شامل کی گئی تھی۔

یہ پیمان حقیقت میں ہر جہت سے ایک عدم تعرض کا عہد و پیمان تھا ،جس نے مسلمانوںاو رمشرکین کے درمیان مسلسل اوربار با رکی جنگوں کو وقتی طور پر ختم کردیا ۔

صلح نامہ کی تحریر

”صلح کے عہدو پیمان کا متن “اس طرح تھاکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کوحکم دیا کہ لکھو:

”بسم اللہ الرحمن الرحیم“:سھیل بن عمرنے،جو مشرکین کانمائندہ تھا ،کھا :میںاس قسم کے جملہ سے آشنا نہیں ہو ں،لہٰذا”بسمک اللہم“ لکھو:پیغمبر نے فرمایا لکھو :”بسمک اللهم“

اس کے بعد فرمایا: لکھویہ وہ چیز ہے جس پر محمدرسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سھیل بن عمرو سے مصالحت کی ، سھیل نے کھا : ہم اگر آپ کو رسول اللہ سمجھتے تو آپ سے جنگ نہ کرتے ،صرف اپنا او راپنے والد کا نام لکھئے،پیغمبرنے فرمایا کو ئی حرج نہیں لکھو :”یہ وہ چیز ہے جس پرمحمد بن عبد اللہ نے سھیل بن عمرو سے صلح کی ،کہ دس سال تک دو نو ں طرف سے جنگ مترو ک رہے گی تاکہ لو گوں کو امن و امان کی صورت دوبارہ میسرآئے۔

علاوہ ازایں جو شخص قریش میں سے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر محمد کے پاس آئے (او رمسلمان ہو جائے )اسے واپس کردیں اورجو شخص ان افراد میں سے جو محمد کے پاس ہیں ،قریش کی طرف پلٹ جائے تو ان کو واپس لوٹانا ضروری نہیں ہے ۔

تمام لوگ آزاد ہیں جو چاہے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد و پیمان میں داخل ہو او رجو چاہے قریش کے عہد و پیمان میں داخل ہو،طرفین اس بات کے پابندہیں کہ ایک دوسرے سے خیانت نہ کرےں،او رایک دوسرے کی جان و مال کو محترم شمار کریں ۔

اس کے علاوہ محمد اس سال واپس چلے جائیں او رمکہ میں داخل نہ ہوں،لیکن آئندہ سال ہم تین دن کے لئے مکہ سے باہر چلے جائیں گے او ران کے اصحاب آجائیں ،لیکن تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں ، (اور مراسم عمرہ کے انجام دے کر واپس چلے جائیں )اس شرط کے ساتھ کہ سواے مسافرکے ہتھیار یعنی تلوار کے،وہ بھی غلاف میں کو ئی ہتھیار ساتھ نہ لائیں ۔

اس پیمان پر مسلمانوں او رمشرکین کے ایک گروہ نے گواھی دی او راس عہد نامہ کے کاتب علی (ع)ابن ابی طالب علیہ السلام تھے ۔

مرحو م علامہ مجلسی نے بحار الانوارمیں کچھ او رامور بھی نقل کئے ہیں ،منجملہ ان کے یہ کہ :

”اسلام مکہ میں آشکارا ہوگا اورکسی کو کسی مذھب کے انتخاب کرنے پر مجبورنہیں کریں گے ،اورمسلمان کو اذیت و آزارنہیں پہنچائیںگے“۔

اس موقع پرپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ قربانی کے وہ اونٹ جووہ اپنے ہمراہ لائے تھے ،اسی جگہ قربان کردیںاور اپنے سروں کو منڈوائیں اور احرام سے باہرنکل آئیں ،لیکن یہ بات کچھ مسلمانوں کو سخت ناگوار معلوم ہوئی ،کیونکہ عمرہ کے مناسک کی انجام دھی کے بغیر ان کی نظرمیں احرام سے باہر نکل آنا ممکن نہیں تھا ،لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ذاتی طور پرخودپیش قدمی کی او رقربانی کے اونٹوںکو نحر کیا او راحرام سے باہرنکل آئے اورمسلمانوںکو سمجھایاکہ یہ احرام اور قربانی کے قانون میں استثناء ہے جو خداکی طرف سے قراردیا گیا ہے ۔

مسلمانوں نے جب یہ دیکھا تو سر تسلیم خم کردیا ،او رپیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حکم کامل طورسے مان لیا،اوروہیں سے مدینہ کی راہ لی،لیکن غم واندوہ کا ایک پھاڑ ان کے دلوںپر بوجھ ڈال رھا تھا ،کیونکہ ظاہر میں یہ سارے کا ساراسفرایک نا کامی اور شکست تھی ،لیکن اسی وقت سورہ فتح نازل ہوئی اورپیغمبرگرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فتح کی بشارت ملی ۔

صلح حدیبیه ک سیاسی ،اجتماعی اور مذهبی نتائج

ہجرت کے چھٹے سال (صلح حدیبیہ کے وقت )مسلمانوں کی حالت میں او ردو سال بعد کی حالت میںفرق نمایاں تھا ،جب وہ دس ہزار کے لشکر کے ساتھ فتح مکہ کے لئے چلے تاکہ مشرکین کو پیمان شکنی کا دندان شکن جواب دیا جائے،جنانچہ انھوںنے فوجوں کو معمولی سی جھڑپ کے بغیرھی مکہ کوفتح کرلیا ،اس وقت قریش اپنے اندر مقابلہ کرنے کی معمولی سی قدرت بھی نہیں رکھتے تھے ۔ایک اجمالی موازنہ اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ ”صلح حدیبیہ“ کا عکس العمل کس قدر وسیع تھا ۔

خلاصہ کے طور پر مسلمانوں نے ا س صلح سے چند امتیاز او راہم کامیابیاںحاصل کیں ،جنکی تفصیل حسب ذیل ہے ۔

۱) عملی طور پر مکہ کہ فریب خوردہ لوگوں کو یہ بتا دیا کہ وہ جنگ و جدال کا ارادہ نہیں رکھتے ،او رمکہ کے مقدس شہر اور خانہ خداکے لئے بہت زیادہ احترام کے قائل ہیں ،یھی بات ایک کثیرجماعت کے دلوںکے لئے اسلام کی طرف کشش کا سبب بن گئی ۔

۲) قریش نے پہلی مرتبہ اسلام او رمسلمانوں کی رسموں کو تسلیم کیا ،یھی وہ چیز تھی جو جزیرةالعرب میں مسلمانوں کی حیثیت کو ثابت کرنے کی دلیل بنی ۔

۳) صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان سکون واطمنان سے ہر جگہ آجا سکتے تھے او رانکا جان و مال محفوظ ہوگیا تھا ،او رعملی طورپرمشرکین کے ساتھ قریبی تعلق اورمیل جول پیدا ہوا،ایسے تعلقات جس کے نتیجہ میں مشرکین کو اسلام کی زیادہ سے زیادہ پہچان کے ساتھ ان کی توجہ اسلام کی طرف مائل ہو ئی ۔

۴) صلح حدیبیہ کے بعد اسلام کی نشر واشاعت کے لئے سارے جزیرةالعرب میں راستہ کھل گیا ،او رپیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صلح طلبی کی شرط نے مختلف اقوام کو،جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات او راسلام کے متعلق غلط نظریہ رکھتے تھے ،تجدید نظر پر آمادہ کیا ،او رتبلیغاتی نقطہ نظرسے بہت سے وسیع امکانات ووسائل مسلمانوںکے ہاتھ آئے ۔

۵) صلح حدیبیہ نے خیبر کو فتح کرنے او ریہودیوں کے اس سرطانی غدہ کو نکال پھینکنے کے لئے،جوبالفعل اوربالقوہ اسلام او رمسلمانوں کے لئے ایک اہم خطرہ تھا ،راستہ ہموار کردیا۔

۶) اصولی طو رپر پیغمبرکی ایک ہزار چار سو افراد کی فوج سے ٹکرلینے سے قریش کی وحشت جن کے پاس کسی قسم کے اہم جنگی ہتھیاربھی نہیں تھے، او رشرائط صلح کو قبول کرلینا اسلام کے طرفداروں کے دلوں کی تقویت ،او رمخالفین کی شکست کے لئے ،جنہوں نے مسلمانوں کو ستایاتھا خود ایک اہم عامل تھا۔

۷) واقعہ حدیبیہ کے بعد پیغمبر نے بڑے بڑے ملکو ں،ایران وروم وحبشہ کے سربراہوں ،او ردنیا کے بڑے بڑے بادشاہوںکو متعددخطوط لکہے او رانہیں اسلام کی طرف دعوت دی او ریہ چیزاچھی طرح سے اس بات کی نشاندھی کرتی ہے کہ صلح حدیبیہ نے مسلمانوں میں کس قدر خود اعتمادی پیداکردی تھی،کہ نہ صرف جزیرہ عرب میں بلکہ اس زمانہ کی بڑی دنیا میں ان کی راہ کو کھول دیا۔

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے ،اس سے یہ بخوبی معلوم کیا جا سکتا ہے، کہ واقعاً صلح حدیبیہ مسلمانوں کے لئے ایک عظیم فتح او رکامیابی تھی ،اور تعجب کی بات نہیں ہے کہ قرآن مجیدا سے فتح مبین کے عنوان سے یاد کرتا ہے :

صلح حدیبیہ یا عظیم الشان فتح

جس و قت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حدیبیہ سے واپس لوٹے (او رسورہ فتح نازل ہوئی )تو ایک صحابی نے عرض کیا :”یہ کیا فتح ہے کہ ہمیں خانہ خدا کی زیارت سے بھی رو ک دیا ہے او رہماری قربانی میں بھی رکاوٹ ڈال دی“؟!

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:”تو نے بہت بری بات کھی ہے ،بلکہ یہ تو ہماری عظیم ترین فتح ہے کہ مشرکین اس بات پر راضی ہوگئے ہیں کہ تمہیں خشونت آمیز طریقہ سے ٹکر لئے بغیر اپنی سرزمین سے دور کریں، اور تمھارے سامنے صلح کی پیش کش کریں اوران تمام تکالیف او ررنج وغم کے باو جود جو تمھاری طرف سے انھوں نے اٹھائے ہیں ،ترک تعرض کے لئے تمھاری طرف مائل ہوئے ہیں ۔

اس کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ تکالیف جو انھوں نے بدر واحزاب میں جھیلی تہیں انہیں یاد دلائیں، تو مسلمانوں نے تصدیق کی کہ یہ سب سے بڑی فتح تھی او رانھوں نے لا علمی کی بناء پر یہ فیصلہ کیا تھا ۔

”زہری “جو ایک مشہور تابعی ہے، کہتا ہے:کوئی بھی فتح صلح حدیبیہ سے زیادہ عظیم نہیں تھی ،کیونکہ مشرکین نے مسلمانوں کے ساتھ ارتباط اور تعلق پیدا کیا او راسلام ان کے دلوں میں جاں گزیں ہوا ،او رتین ھی سال کے عرصہ میں ایک عظیم گروہ اسلام لے آیا او رمسلمانوں میں ان کی وجہ سے اضافہ ہوا“۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سچا خواب

جیسا کہ ہم نے شروع میں عرض کیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ میں ایک خواب دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کے لئے مناسک ادا کرنے کے لئے مکہ میں داخل ہورہے ہیں اور اس خواب کو صحابہ کے سامنے بیان کردیا ، وہ سب کے سب شاد و خوش حال ہوئے لیکن چونکہ ایک جماعت یہ خیال کرتی تھی کہ اس خواب کی تعبیر اسی سال پوری ہوگی، تو جس وقت قریش نے مکہ میں ان کے دخیل ہونے کا راستہ حدیبیہ میں ان کے آگے بند کردیا تو وہ شک و تردید میں مبتلا ہوگئے، کہ کیا پیغمبر کا خواب غلط بھی ہوسکتا ہے، کیا اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہم خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہوں؟ پس اس وعدہ کا کیا ہوا؟ اور وہ رحمانی خواب کھاں چلا گیا؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سوال کے جواب میں فرمایا:کیا میں نے تمہیں یہ کھا تھا کہ یہ خواب اسی سال پورا ہوگا؟ اسی بارے میں مدینہ کی طرف بازگشت کی راہ میں وحی الٰھی نازل ہوئی اور تاکید کی کہ یہ خواب سچا تھا او رایسا مسئلہ حتمی و قطعی اور انجام پانے والا ہے۔

ارشاد خدا وندعالم ہوتا ہے:”خد نے اپنے پیغمبر کو جو کچھ دکھلایا تھا وہ سچ اور حق تھا“۔(۷۶)

اس کے بعد مزید کہتا ہے: ”انشاء اللہ تم سب کے سب قطعی طور پر انتھائی امن وامان کے ساتھ اس حالت میں کہ تم اپنے سروں کو منڈوائے ہوئے ہوں گے، یا اپنے ناخنوں کو کٹوائے ہوئے ہوں گے مسجد الحرام میں داخل ہوں گے اور کسی شخص سے تمہیں کوئی خوف ووحشت نہ ہوگی“۔(۷۷)

مومنین کے دلوں پرنزول سکینہ

یہاںگذشتہ میں جو کچھ بیا ن ہوا ہے،وہ اتنی عظیم نعمتیں تہیں جو خدا نے فتح مبین و (صلح حدیبیہ) کے سائے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عطا فرمائی تہیں لیکن یہاں پراس عظیم نعمت کے بارے میں بحث کی جارھی ہے جو اس نے تمام مئومنین کو مرحمت فرمائی ہے ، فرماتاہے : وھی تو ہے ، جس نے مومنین کے دلوں میں سکون واطمینان نازل کیا، تاکہ ان کے ایمان میںمزید ایمان کا اضافہ کر“

اور سکون واطمینان ان کے دلوں پر نازل کیوں نہ ہو” در آنحالیکہ آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا کےلئے ہیں اور وہ دا ناو حکیم ہے “(۷۸)

یہ سکینہ کیا تھا ؟

ضروری ہے کہ ہم پہر”صلح حدیبیہ“ کی داستان کی طرف لوٹیں اور اپنے آپ کو” صلح حدیبیہ “ کی فضا میں اور اس فضاء میں جو صلح کے بعد پیدا ہوئی ، تصور کریں تاکہ آیت کے مفہوم کی گہرائی سے آشنا ہوسکیں ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خواب دیکھا تھا (ایک رؤیائے الٰھی ورحمانی) کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مسجد الحرام میں داخل ہورہے ہیں اور اس کے بعد خانہ خدا کی زیارت کے عزم کے ساتھ چل پڑے زیادہ تر صحابہ یھی خیال کرتے تھے کہ اس خواب اورر ویائے صالحہ کی تعبیر اسی سفر میں واقع ہوگی، حالانکہ مقدر میں ایک دوسری چیز تھی یہ ایک بات۔

دوسری طرف مسلمانوں نے احرام باندھا ہوا تھا، لیکن ان کی توقع کے بر خلاف خانہ خدا کی زیارت کی سعادت تک نصیب نہ ہوئی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دے دیا کہ مقام حدیبیہ میں ھی قربانی کے اونٹوں کو نحرکہ دیں ،کیونکہ ان کے آداب وسنن کا بھی اور اسلامی احکام ودستور کا بھی یھی تقاضا تھا کہ جب تک مناسک عمرہ کو انجام نہ دے لیں احرام سے باہر نہ نکلیں ۔

تیسری طرف حدیبیہ کے صلح نامہ میں کچھ ایسے امور تھے جن کے مطالب کو قبول کرنا بہت ھی دشوار تھا،منجملہ ان کے یہ کہ اگر قریش میں سے کوئی شخص مسلمان ہوجائے اور مدینہ میں پناہ لے لے تو مسلمان اسے اس کے گہروالوں کے سپرد کردیں گے،لیکن اس کے برعکس لازم نہیں تھا ۔

چوتھی طرف صلح نامہ کی تحریر کے موقع پر قریش اس بات پر تیار نہ ہوئے کہ لفظ ” رسول اللہ” محمد“ کے نام کے ساتھ لکھا جائے، اور قریش کے نمائندہ ” سھیل “ نے اصرار کرکے اسے حذف کرایا ، یہاں تک کہ ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ کے لکھنے کی بھی موافقت نہ کی ،اور وہ یھی اصرار کرتا رھا کہ اس کے بجائے ”بسمک اللہم“لکھاجائے ، جو اہل مکہ کی عادت اور طریقہ کے مطابق تھاواضح رہے، کہ ان امور میں سے ہر ایک علیحدہ علیحدہ ایک ناگوار امرتھا۔

چہ جائیکہ وہ سب کے سب مجموعی طور سے وھاں جاتے رہے، اسی لئے ضعیف الایمان ،لوگوں کے دل ڈگمگا گئے ،یہاںتک کہ جب سورہ فتح نازل ہوئی تو بعض نے تعجب کے ساتھ پوچھا :کونسی فتح ؟

یھی وہ موقع ہے جب نصرت الٰھی کو مسلمانوں کے شامل حال ہونا چاہئے تھا اور سکون واطمینان ان کے دلوں میں داخل ہوتا تھا نہ یہ کہ کوئی فتور اورکمزوری ان میں پیداہوتی تھی۔

بلکہ” لیزدادوا ایمانا مع ایمانهم“ ۔ کے مصداق کی قوت ایمانی میں اضافہ ہونا چاہئے تھا اوپر والی آیت ایسے حالات میں نازل ہوئی ۔

ممکن ہے اس سکون میں اعتقادی پھلو ہو اور وہ اعتقاد میں ڈگمگا نے سے بچائے ، یا اس میں عملی پھلو ہواس طرح سے کہ وہ انسان کو ثبات قدم ، مقاومت اور صبر و شکیبائی بخشے ۔

پیچھے رہ جانے والوں کی عذر تراشی

گذشتہ صفحات میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ہزار چار سو مسلمانوں کے ساتھ مدینہ سے عمرہ کے ارادہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔

پیغمبر کی طرف سے بادیہ نشین قبائل میں اعلان ہوا کہ وہ بھی سب کے سب کے ساتھ چلیں لیکن ضعیف الایمان لوگوں کے ایک گروہ نے اس حکم سے رو گردانی کرلی،اور ان کا تجزیہ تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان اس سفر سے صحیح وسالم بچ کر نکل آئیں ، حالانکہ کفار قریش پہلے ھی ہیجان واشتعال میں تھے ، اور انھوں نے احدواحزاب کی جنگیں مدینہ کے قریب مسلمانوں پر تھوپ دی تہیں اب جبکہ یہ چھوٹا ساگروہ بغیر ہتھیاروں کے اپنے پاؤں سے چل کر مکہ کی طرف جآرہا ہے ، گویا بھڑوں کے چھتہ کے پاس خود ھی پہنچ رھا ہے ، تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اپنے گہروں کی طرف واپس لوٹ آئیں گے ؟

لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ مسلمان کا میابی کے ساتھ اور قابل ملا حظہ امتیازات کے ہمراہ جو انھوں نے صلح حدیبیہ کے عہد وپیمان سے حاصل کئے تھے ، صحیح وسالم مدینہ کی طرف پلٹ آئے ہیں اور کسی کے نکسیر تک بھی نہیں چھوٹی ، تو انہوں نے اپنی عظیم غلطی کا احساس کیا اور پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ کسی طرح کی عذر خواھی کرکے اپنے فعل کی توجیہ کریں ، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے استغفار کا تقاضا کریں ۔

لیکن وحی نازل ہوئی اور ان کے اعمال سے پردہ اٹھادیا اور انہیں رسوا کیا ۔

اس طرح سے منافقین اور مشرکین کی سرنوشت کا ذکر کر نے کے بعد، یہاں پیچہے رہ جانے والے ضعیف الایمان لوگوں کی کیفیت کا بیان ہورھا ہے تاکہ اس بحث کی کڑیاں مکمل ہوجائیں ۔

فرماتاہے ” عنقریب بادیہ نشین اعراب میں سے پیچہے رہ جانے والے عذر تراشی کرتے ہوئے کہیں گے: ہمارے مال ومتاع اور وھاںپر بچوں کی حفاظت نے ہمیں اپنی طرف مائل کرلیاتھا، اور ہم اس پرُبرکت سفر میں آپ کی خدمت میں نہ رہ سکے، رسالتماب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے عذر کو قبول کرتے ہوئے ہمارے لئے طلب بخشش کیجئے ،وہ اپنی زبان سے ایسی چیز کہہ رہے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہے “۔(۷۹)

وہ تو اپنی توبہ تک میں بھی مخلص، نہیں ہیں ۔

لیکن ان سے کہہ دیجئے : ”خدا کے مقابلہ میں اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ وہ تمھارا دفاع کرسکے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو کس میں طاقت ہے، کہ اسے روک سکے “۔(۸۰)

خدا کے لئے یہ بات کسی طرح بھی مشکل نہیں ہے ، کہ تمہیں تمھارے امن وامان کے گہروں میں ، بیوی بچوں اور مال ومنال کے پاس ،انواع واقسام کی بلاؤں اور مصائب میں گرفتار کردے ،اور اس کےلئے یہ بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ دشمنوں کے مرکز میں اور مخالفین کے گڑھ میں تمہیں ہر قسم کے گزندسے محفوظ رکہے، یہ تمھاری قدرت خدا کے بارے میںجھالت اور بے خبری ہے جو تمھاری نظر میں اس قسم کے انکار کو جگہ دیتی ہے ۔

ھاں، خدا ان تمام اعمال سے جنہیں تم انجام دیتے ہو باخبر اور آگاہ ہے “(۸۱)

بلکہ وہ تو تمھارے سینوں کے اندر کے اسرار اور تمھاری نیتوں سے بھی اچھی طرح باخبر ہے ، وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ عذر اور بھانے واقعیت اور حقیقت نہیں رکھتے اور جو اصل حقیقت اور واقعیت ہے وہ تمھاری شک و ترید، خوف وخطر اور ضعف ایمان ہے ، اور یہ عذر تراشیاں خدا سے مخفی نہیں رہتیں، اور یہ ہرگز تمھاری سزا کو نہیں روکیں گی ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن کے لب ولہجہ سے بھی اور تواریخ سے بھی یھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ وحی الٰھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدینہ کی طرف بازگشت کے دوران نازل ہوئی، یعنی اس سے پہلے کہ پیچہے رہ جانے والے آئیں اورعذر تراشی کریں ، ان کے کام سے پردہ اٹھادیا گیا اور انہیں رسوا کردیا۔

قرآن اس کے بعد مزید وضاحت کے لئے مکمل طور پر پردے ہٹاکر مزید کہتا ہے :”بلکہ تم نے تو یہ

گمان کرلیا تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مومنین ہرگز اپنے گہروالوں کی طرف پلٹ کرنہیں آئیں گے“ ۔(۸۲)

ھاں ، اس تاریخی سفر میں تمھارے شریک نہ ہونے کا سبب ، اموال اور بیوی بچوں کا مسئلہ نہیں تھا، بلکہ اس کا اصلی عامل وہ سوء ظن تھا جو تم خدا کے بارے میں رکھتے تھے، اور اپنے غلط اندازوں کی وجہ سے یہ سوچتے تھے کہ یہ سفر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ختم ہونے کا سفر ہے اور کیونکہ شیطانی وسوسہ تمھارے دلوں میں زینت پاچکے تھے ،اور یہ تم نے برا گمان کیا“۔(۸۳) کیونکہ تم یہ سوچ رہے تھے کہ خدا نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس سفر میں بھیج کر انہیں دشمن کے چنگل میں دےدیا ہے ، اور ان کی حمایت نہیں کرے گا ،” اور انجام کار تم ہلاک ہوگئے “۔(۸۴) اس سے بدتر ہلاکت اور کیا ہوگی کہ تم اس تاریخی سفر میں شرکت ، بیعت رضوان، اور دوسرے افتخارات واعزازات سے محروم رہ گئے، اور اس کے پیچہے عظیم رسوائی تھی اور آئندہ کے لئے آخرت کادردناک عذاب ہے ، ھاں تمھارے دل مردہ تھے اس لئے تم اس قسم کی صورت حال میں گرفتار ہوئے۔

اگر حدیبیہ میں جنگ ہوجاتی

قرآن اسی طرح سے ” حدیبیہ“ کے عظیم ماجرے کے کچھ دوسرے پھلووں کو بیان کرتے ہوئے، اور اس سلسلہ میں دو اہم نکتوں کی طرف اشارہ کررھا ہے۔

پہلا یہ کہ یہ خیال نہ کرو کہ سرزمین ” حدیبیہ “ میں تمھارے اور مشرکین مکہ کے درمیان جنگ چھڑجاتی تو مشرکین جنگ میں بازی لے جاتے، ایسا نہیں ہے، اکثر کفار تمھارے ساتھ وھاں جنگ کرتے تو بہت جلدی پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے، اور پہر کوئی ولی ویاورنہ پاتے “۔(۸۵)

اور یہ بات صرف تم تک ھی منحصر نہیں ہے ، ” یہ تو ایک سنت الٰھی ہے ،جو پہلے بھی یھی تھی اور تم سنت الٰھی میں ہرگز تغیرو تبدیلی نہ پاؤ گے۔(۸۶)

وہ اہم نکتہ جو قرآن خاص طور پر بیان کررھاہے، یہ ہے کہ کہیں قریش بیٹھ کر یہ نہ کہنے لگیں ، کہ افسوس ہم نے جنگ کیوں نہ کی اوراس چھوٹے سے گروہ کی سرکوبی کیوں نہ کی، افسوس کہ شکارہمارے گہر میں آیا، اور اس سے ہم نے غفلت برتی ، افسوس ، افسوس ۔

ہرگز ایسا نہیں ہے اگر چہ مسلمان ان کی نسبت تھوڑے تھے، اور وطن اور امن کی جگہ سے بھی دور تھے، اسلحہ بھی ان کے پاس کافی مقدار میں نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود اگر جنگ چھڑجاتی تو پہر بھی قوت ایمانی اور نصرت الٰھی کی برکت سے کامیابی انہیں ھی حاصل ہوتی، کیا جنگ ”بدر “ اور” احزاب “ میں ان کی تعداد بہت کم اور دشمن کا سازو سامان اور لشکر زیادہ نہ تھا؟ ان دونوں مواقع پر دشمن کو کیسے شکست ہوگئی ۔

بہرحال اس حقیقت کا بیان مومنین کے دل کی تقویت اور دشمن کے دل کی کمزوری اور منافقین کے ” اگر “ اور ” مگر “ کے ختم ہونے کا سبب بن گئی اور اس نے اس بات کی نشاندھی کردی کہ ظاہری طور پر حالات کے برابر نہ ہونے کے باوجود اگر جنگ چھڑجائے تو کامیابی مخلص مومنین ھی کو نصیب ہوتی ہے ۔

دوسرا نکتہ جو قرآن میں بیان ہوا ہے یہ ہے کہ فرماتاہے ”وھی تو ہے جس نے کفار کے ہاتھ کو مکہ میں تم سے باز رکھا اور تمھارے ہاتھ کو ان سے،یہ اس وقت ہوا جبکہ تمہیں ان پر کامیابی حاصل ہوگئی تھی، اور خدا وہ سب کچھ جو تم انجام دے رہے ہو دیکھ رھاہے “۔(۸۷)

مفسرین کی ایک جماعت نے اس آیت کےلئے ایک ” شان نزول“ بیان کی ہے اور وہ یہ ہے کہ: مشرکین مکہ نے ”حدیبیہ “کے واقعہ میں چالیس افراد کو مسلمانوں پرضرب لگانے کےلئے مخفی طور پر حملہ کے لئے تیار کیا، لیکن ان کی یہ سازش مسلمانوں کی ہوشیاری سے نقش برآب ہوگئی اور مسلمان ان سب کو گرفتار کرکے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے آئے ، اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں رھا کردیا ۔ بعض نے یہ بھی کھا ہے کہ جس وقت پیغمبر درخت کے سائے میں بیٹہے ہوئے تھے تاکہ قریش کے نمائندہ کے ساتھ صلح کے معاہدہ کو ترتیب دیں ، اور علی علیہ السلام لکھنے میں مصروف تھے، تو جوانان مکہ میں سے ۳۰ افراد اسلحہ کے ساتھ آپ پر حملہ آور ہوئے،اور معجزا نہ طورپر ان کی یہ سازش بے کار ہوگئی اور وہ سب کے سب گرفتار ہوگئے اور حضرت نے انہیں آزاد کردیا ۔

عمرة القضاء

”عمرة القضاء“وھی عمرہ ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حدیبیہ سے ایک سال بعد یعنی ہجرت کے ساتویں سال کے ماہ ذی القعدہ میں اسے( ٹھیک ایک سال بعد جب مشرکین نے آپ کو مسجد الحرام میں داخل ہونے سے روکا تھا) اپنے اصحاب کے ساتھ انجام دیا اوراس کا یہ نام اس وجہ سے ہے ، چونکہ یہ حقیقت میں گزشتہ سال کی قضاء شمار ہوتا تھا۔ اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ : قرار داد حدیبیہ کی شقوں میں سے ایک شق کے مطابق پروگرام یہ تھا کہ مسلمان آئندہ سال مراسم عمرہ اور خانہ خدا کی زیارت کو آزادانہ طور پر انجام دیں، لیکن تین دن سے زیادہ مکہ میں توقف نہ کریں اور اس مدت میں قریش کے سردار اور مشرکین کے جانے پہچانے افراد شہرسے باہر چلے جائیں گے تاکہ ایک تو احتمالی ٹکراؤ سے بچ جائیں اور کنبہ پروری اور تعصب کی وجہ سے جو لوگ مسلمانوں کی عبادت توحیدی کے منظر کو دیکھنے کا یارا اور قدرت نہیں رکھتے، وہ بھی اسے نہ دیکہیں )

بعض تواریخ میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ احرام باندھا اور قربانی کے اونٹ لے کر چل پڑے اور ” ظہران“کے قریب پہنچ گئے اس موقع پر پیغمبر نے اپنے ایک صحابی کو جس کا نام “ محمد بن مسلمہ“ تھا، عمدہ سواری کے گھوڑوں اور اسلحہ کے ساتھ اپنے آگے بھیج دیا، جب مشرکین نے اس پر وگرام کو دیکھا تو وہ سخت خوف زدہ ہوئے اور انھوں نے یہ گمان کرلیا کہ حضرت ان سے جنگ کرنا اور اپنی دس سالہ صلح کی قرار داد کو توڑنا چاہتے ہیں ، لوگوں نے یہ خبر اہل مکہ تک پہنچادی لیکن جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ کے قریب پہنچے تو آپ نے حکم دیا کہ تمام تیر اور نیزے اور دوسرے سارے ہتھاراس سرزمین میں جس کا نام ”یاجج“ ہے منتقل کردیں، اور آپ خود اور آپ کے صحابہ صرف نیام میں رکھی ہوئی تلواروں کے ساتھ مکہ میں دارد ہوئے ۔ اہل مکہ نے جب یہ عمل دیکھا تو بہت خوش ہوئے کہ وعدہ پورا ہوگیا، (گویا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ اقدام مشرکین کے لئے ایک تنبیہ تھا،کہ اگر وہ نقض عہد کرنا چاہیں اور مسلمانوں کے خلاف سازش کریں،تو ان کے مقابلہ کی قدرت رکھتے ہیں )

رؤ سائے مکہ، مکہ سے باہر چلے گئے، تاکہ ان مناظر کو جوان کےلئے دل خراش تھے نہ دیکہیں لیکن باقی اہل مکہ مرد ، عورتیں اور بچے سب ھی راستوں میں ، چھتوں کے اوپر ، اور خانہ خدا کے اطراف میں جمع ہوگئے تھے ، تاکہ مسلمانوں اور ان کے مراسم عمرہ کو دیکہیں ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاص رُعب اور دبدبہ کے ساتھ مکہ میں وارد ہوئے اور قربانی کے بہت سے اونٹ آپ کے ساتھ تھے، اورآپ نے انتھائی محبت اور ادب کے ساتھ مکہ والوں سے سلوک کیا،اور یہ حکم دیا کہ مسلمان طواف کرتے وقت تیزی کے ساتھ چلیں ، اور احرام کو ذراسا جسم سے ہٹالیں تاکہ ان کے قوی اور طاقتور اور موٹے تازے شانے آشکار ہوں ، اور یہ منظر مکہ کے لوگوں کی روح اور فکر میں ، مسلمانوں کی قدرت وطاقت کی زندہ دلیل کے طور پر اثراندز ہو ۔

مجموعی طور سے ” عمرة القضاء“ عبادت بھی تھا اور قدرت کی نمائش بھی ،یہ کہنا چاہئے کہ ” فتح مکہ “ جو بعد والے سال میں حاصل ہوئی ، اس کا بیج انہیں دنوں میں بویا گیا ، اوراسلام کے مقابلہ میں اہل مکہ کے سرتسلیم خم کرنے کے سلسلے میں مکمل طور پر زمین ہموار کردی ۔ یہ وضع وکیفیت قریش کے سرداروں کے لئے اس قدر ناگوار تھی کہ تین دن گزرنے کے بعد کسی کو پیغمبر کی خدمت میں بھیجا کہ قرادداد کے مطابق جتنا جلدی ہو سکے مکہ کو چھوڑدیجئے ۔ قابل توجہ بات یہ ہے ، کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ کی عورتوں میں سے ایک بیوہ عورت کو،جو قریش کے بعض سرداروں کی رشتہ دار تھی، اپنی زوجیت میں لے لیا، تاکہ عربوں کی رسم کے مطابق ،اپنے تعلق اور رشتے کو ان سے مستحکم کرکے ان کی عداوت اور مخالفت میں کمی کریں ۔

جس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ سے باہر نکل جانے کی تجویز سنی تو آپ نے فرمایا : میں اس ازدواج کے مراسم کے لئے کھانا کھلانا چاہتا ہوں اور تمھاری بھی دعوت کرنا چاہتاہوں ،یہ دعوت رسمی طور پررد کردی گئی ۔

فتح خیبر

جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حدیبیہ سے واپس لوٹے تو تمام ماہ ذی الحجہ اور ہجرت کے ساتویں سال کے محرم کا کچھ حصہ مدینہ میں توقف کیا، اس کے بعد اپنے اصحاب میں سے ان ایک ہزار چار سوافراد کو جنہوں نے حدیبیہ میں شرکت کی تھی ساتھ لے کر خیبر کی طرف روانہ ہوئے ،(جو اسلام کے برخلاف تحریکوں کا مرکز تھا، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی مناسب فرصت کے لئے گن گن کردن گزار رہے تھے کہ اس مرکز فساد کو ختم کریں۔

روایات کے مطابق جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ”حدیبیہ“ سے پلٹ رہے تھے توحکم خدا سے آپ نے حدیبیہ میں شرکت کرنے والے مسلمانوں کو ” فتح خیبر“ کی بشارت دی ، اور تصریح فرمائی کہ اس جنگ میں صرف وھی شرکت کریں گے ، اور جنگ میں حاصل شدہ مال غنیمت بھی انہیں کے ساتھ مخصوص ہوگا تخلف کرنے والوں کو ان غنائم میں سے کچھ نہ ملے گا ۔

لیکن جو نھی ان ڈر پوک دنیا پرستوں نے قرائن سے یہ سمجھ لیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جنگ میں جو انہیں درپیش ہے یقینی طور پر کامیاب ہوں گے اور سپاہ اسلام کو بہت سامال غنیمت ہاتھ آئے گا، تو وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میدان خیبر میں شرکت کی اجازت چاھی اور شاید اس عذر کو بھی ساتھ لیا کہ ہم گزشتہ غلطی کی تلافی کرنے ، اپنی ذمہ داری کے بوجھ کو ھلکا کرنے ، گناہ سے توبہ کرنے اور اسلام وقرآن کی مخلصانہ خدمت کرنے کے لئے یہ چاہتے ہیں کہ ہم میدان جھاد میں آپ کے ساتھ شرکت کریں ، وہ اس بات سے غافل تھے کہ وحی الٰھی پہلے ھی نازل ہوچکی تہیں اور ان کے راز کو فاش کرچکی تہیں ، جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے ۔

” جس وقت تم کچھ غنیمت حاصل کرنے کے لئے چلو گے تو اس وقت پیچہے رہ جانے والے کہیں گے : ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیں اور اس جھاد میں شرکت کرنے کا شرف بخشیں “۔(۸۸)

بہرحال قرآن اس منفعت اور فرصت طلب گروہ کے جواب میں کہتا ہے :”وہ یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے کلام کو بدل دیں “۔(۸۹)

اس کے بعد مزید کہتا ہے :”ان سے کہہ و : تم ہرگز ہمارے پیچہے نہ آنا“ تمہیں اس میدان میں شرکت کرنے کا حق نہیں ہے ،یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو میں اپنی طرف سے کہہ رھاہوں ” یہ تو وہ بات ہے جو خدا نے پہلے سے ھی کہہ دی ہے “ ۔(۹۰) اور ہمیں تمھارے مستقبل (کے بارے میں ) باخبر کردیا ہے ۔

خدا نے حکم دیا ہے کہ ” غنائم خیبر“،”اہل حدیبیہ “ کے لئے مخصوص ہیں اور اس چیز میں کوئی بھی ان کے ساتھ شرکت نہ کرے ، لیکن یہ بے شرم اور پرا دعا پیچہے رہ جانے والے پہر بھی میدان سے نہیں ہٹتے اور تمہیں حسد کے ساتھ متہم کرتے ، اور عنقریب وہ یہ کہیں گے : کہ معاملہ اس طرح نہیں ہے بلکہ تم ہم سے حسد کررہے ہو ۔(۹۱)

اور اس طرح وہ ضمنی طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تکذیب بھی کرتے تھے یھی لوگ”جنگ خیبر“میں انہیں شرکت سے منع کرنے کی اصل حسد کو شمار کرتے ہیں ۔

دعائے پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

”غطفان“کے قبیلہ نے شروع میں تو خیبر کے یہودیوں کی حمایت کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن بعد میں ڈرگئے اور اس سے رک گئے ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت”خیبر“ کے قلعوں کے نزدیک پہنچے تو آپ نے اپنے صحابہ کو رکنے کا حکم دیا، اس کے بعد آسمان کی طرف سربلند کیا اور یہ دعا پڑھی:

”خداوندا ! اے آسمانوں کے پروردگار اور جن پر انھوں نے سایہ ڈالا ہے، اور اے زمینوں کے پروردگار اور جن چیزوں کو انھوں نے اٹھارکھا ہے میں تجھ سے اس آبادی اور اس کے اہل میں جو خیر ہے اس کا طلب گارہوں، اور تجھ سے اس کے شراور اس میں رہنے والوں کے شر اور جو کچھ اس میں ہے اس شرسے پناہ مانگتاہوں“ ۔اس کے بعد فرمایا:” بسم اللہ “آگے بڑھو: اور اس طرح سے رات کے وقت ”خیبر“ کے پاس جاپہنچے‘ اور صبح کے وقت جب ا”ھل خیبر“ اس ماجرا سے باخبر ہوئے تو خود کو لشکر اسلام کے محاصرہ میں دیکھا، اس کے بعد پیغمبر نے یکے بعد دیگرے ان قلعوں کو فتح کیا،یہاں تک کہ آخری قلعہ تک ، جو سب سے زیادہ مضبوط اور طاقتور تھا، اور مشہور یہودی کمانڈر”مرحب“ اس میں رہتا تھا، پہنچ گئے ۔

انہیں دنوں میں ایک سخت قسم کا دردسر، جو کبھی کبھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عارض ہوا کرتا تھا، آپ کو عارض ہوگیا ، اس طرح سے کہ ایک دو دن آپ اپنے خیمہ سے باہر نہ آسکے تو اس موقع پر (مشہور اسلامی تواریخ کے مطابق ) حضرت ابوبکر، نے علم سنبھالا اور مسلمانوں کو ساتھ لے کر یہودیوں کے لشکر پر حملہ آور ہوئے ، لیکن کوئی نتیجہ حاصل کیے بغیر واپس پلٹ آئے دوسری دفعہ ” حضرت عمر“ نے علم اٹھایا، اور مسلمان پہلے دن کی نسبت زیادہ شدت سے لڑے،لیکن بغیر کسی نتیجہ کے واپس پلٹ آئے ۔

فاتح خیبر علی علیہ السلام

یہ خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا:”خدا کی قسم کل یہ علم ایسے مرد کو دوں گا جو خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے، اور خدا اور پیغمبر اس کو دوست رکھتے ہیں ،اور وہ اس سے قلعہ کو طاقت کے زورسے فتح کرے گا “۔ ہرطرف سے گردنیں اٹھنے لیگیں کہ اس سے مرادکون شخص ہے؟ کچھ لوگوں کا اندازہ تھا کہ پیغمبر کی مراد علی علیہ السلام ہیں لیکن علی علیہ السلام ابھی وھاں موجود نہیں تھے،کیونکہ شدید آشوب چشم انہیں لشکر میں حاضر ہونے سے مانع تھا، لیکن صبح کے وقت علی علیہ السلام اونٹ پر سوار ہوکر وارد ہوئے، اور پیغمبر اکرم کے خیمہ کے پاس اترے درحالیکہ آپ کی آنکہیں شدت کے ساتھ درد کررھی تہیں ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :میرے نزدیک آؤ،آپ قریب گئے توآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دہن مبارک کا لعاب علی علیہ السلام کی آنکھوں پر ملا اور اس معجزہ کی برکت سے آپ کی آنکہیں بالکل ٹھیک ہوگئیں اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علم ان کے ہاتھ میں دیا۔

علی علیہ السلام لشکر اسلام کو ساتھ لے کر خیبر کے سب سے بڑے قلعہ کی طرف بڑہے تو یہودیوں میں سے ایک شخص نے قلعہ کے اوپر سے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ” میں علی بن ابی طالب“ ہوں، اس یہودی نے پکار کر کھا : اے یہودیو! اب تمھاری شکست کا وقت آن پہنچا ہے ، اس وقت اس قلعہ کا کمانڈر مرحب یہودی ، علی علیہ السلام سے مقابلہ کے لئے نکلا، اور کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ایک ھی کاری ضرب سے زمین پر گرپڑا ۔

مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان شدید جنگ شروع ہوگئی، علی علیہ السلام قلعہ کے دروازے کے قریب آئے ، اور ایک قوی اورپُر قدرت حرکت کے ساتھ دروازے کو اکھاڑا اور ایک طرف پھینک دیا، اور اس زور سے قلعہ کھل گیا اور مسلمان اس میں داخل ہوگئے اور اسے فتح کرلیا ،یہودیوں نے اطاعت قبول کرلی، اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی کہ اس اطاعت کے عوض ان کی جان بخشی کی جائے، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی درخواست کو قبول کرلیا، منقول غنائم اسلامی لشکر کے ہاتھ آئے اور وھاں کی زمینیں اور باغات آپ نے یہودیوں کو اس شرط کے ساتھ سپرد کردئیے کہ اس کی آمدنی کا آدھا حصہ وہ مسلمانوں کو دیا کریں گے ۔

آخرکار پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تواریخ کی نقل کے مطابق غنائم خیبرصرف اہل حدیبیہ پر تقسیم کئے، یہاں تک کہ ان لوگوں کے لئے بھی جو حدیبیہ میں موجود تھے اور کسی وجہ سے جنگ خیبر میں شریک نہ ہوسکے ان کے لئے بھی ایک حصہ قراردیا ، البتہ ایسا آدمی صرف ایک ھی تھا، اور وہ ” جابربن عبداللہ(رض)تھا ۔

فتح مکہ

فتح مکہ نے؛ تاریخ اسلام میں ایک نئی فصل کا اضافہ کیاہے اور تقریباً بیس سال کے بعد دشمن کی مقاومتوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا، حقیقت میں فتح مکہ سے جزیرة العرب سے شرک و بت پر ستی کی بساط لپیٹ دی گئی ،اور اسلام دنیاکے دوسرے ممالک کی طرف حرکت کے لئے آمادہ ہوا۔

اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ عہد وپیمان اور صلح کے بعد کفار نے عہد شکنی کی اور اس صلح نامہ کونظر انداز کردیا، اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعض حلیفوں کے ساتھ زیادتی کی، آپ کے حلیفوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکایت کی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے حلیفوںکی مددکرنے کا ارادہ کرلیا،اور دوسری طرف مکہ میں بت پرستی شرک اور نفاق کا جو مرکز قائم تھا اس کے ختم ہونے کے تمام حالات فراہم ہوگئے تھے اور یہ ایک ایسا کام تھا جسے ہر حالت میں انجام دینا ضروری تھا،اس لئے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم سے مکہ کی طرف جانے کے لئے آمادہ ہوگئے ،فتح مکہ تین مراحل میںانجام پائی ۔

پہلا مرحلہ مقدماتی تھا، یعنی ضروری قوااور توانائیوں کو فراہم کرنا، زمانہ کے موافق حالات کا انتخاب اور دشمن کی جسمانی و روحانی قوت و توانائی کی مقدار وکیفیت کی حیثیت کے بارے میں کافی اطلاعات حاصل کرنا تھا۔

دوسرا مرحلہ، فتح کے مرحلہ کوبہت ھی ماہرانہ اور ضائعات و تلفات یعنی نقصان کے بغیر انجام دینا تھا۔ اور آخری مرحلہ، جو اصلی مرحلہ تھا، وہ اس کے آثار و نتائج کا مرحلہ تھا۔

یہ مرحلہ انتھائی دقت، باریک بینی اور لطافت کے ساتھ انجام پایا ، خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ و مدینہ کی شاہراہ کو اس طرح سے سے قرق کرلیا تھا کہ اس عظیم آمادگی کی خبر کسی طرح سے بھی اہل مکہ کو نہ پہنچ سکی۔ اس لئے انہوں نے کسی قسم کی تیار ی نہ کی ،وہ مکمل طور پر غفلت میں پڑے رہے اور اسی وجہ سے اس مقد س سرزمین میںاس عظیم حملہ اور بہت بڑی فتح میں تقریباً کوئی خون نہیں بھا۔

یہاں تک کہ وہ خط بھی،جو ایک ضعیف الایمان مسلمان ”حاطب بن ابی بلتعہ“نے قریش کو لکھا تھا اور قبیلہ ”مزینہ“ کی ایک عورت ”کفود“یا ”سارہ“نامی کے ہاتھ مکہ کی طرف روانہ کیا تھا،اعجاز آمیز طریقہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے آشکار ہوگیا، علی علیہ االسلام کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ بڑی تیزی سے اس کے پیچہے روانہ ہوئے، انہوںنے اس عورت کو مکہ و مدینہ کی ایک درمیانی منزل میںجالیا اور اس سے وہ خط لے کر،خود اسے بھی مدینہ واپس لے آئے۔

مکہ کی طرف روانگی

بہر حال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ میں اپنا ایک قائم مقام مقرر کر کے ہجرت کے آٹھویں سال ماہ رمضان کی دس تاریخ کو مکہ کی طرف چل پڑے ، اور دس دن کے بعد مکہ پہنچ گئے ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے راستے کے وسط میں اپنے چچا عباس کو دیکھا کہ وہ مکہ سے ہجرت کرکے آپ کی طرف آرہے ہیں ۔ حضرت نے ان سے فرمایا کہ اپنا سامان مدینہ بھیج دیجئے اور خود ہمارے ساتھ چلیں، اور آپ آخری مھاجر ہیں ۔

آخر کار مسلمان مکہ کی طرف پہنچ گئے اور شہر کے باہر،اطراف کے بیابانوں میں اس مقام پر جسے ”مرالظہران“کھا جاتا تھا اور جو مکہ سے چند کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ پر نہ تھا،پڑاؤ ڈال دیا۔ اور رات کے وقت کھانا پکانے کے لئے (یا شاید اپنی وسیع پیمانہ پر موجودگی کو ثابت کرنے کے لئے) وھاں آگ روشن کردی، اہل مکہ کا ایک گروہ اس منظر کو دیکھ کر حیرت میں ڈوب گیا۔

ابھی تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور لشکر اسلام کے اس طرف آنے کی خبریں قریش سے پنھاں تہیں ۔ اس رات اہل مکہ کا سرغنہ ابو سفیان اور مشرکین کے بعض دوسرے سرغنہ خبریںمعلوم کرنے کے لئے مکہ سے باہر نکلے،اس موقع پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا عباس نے سوچا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قہرآلود طریقہ پر مکہ میںوارد ہوئے تو قریش میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا، انہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اجازت لئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر سوار ہوکر کھا میں جاتاہوں ،شاید کوئی مل جائے تو اس سے کہوں کہ اہل مکہ کو اس ماجرے سے آگاہ کردے تا کہ وہ آکر امان حاصل کرلیں۔

عباس(رض) وھاںروانہ ہوکر بہت قریب پہنچ گئے۔ اتفاقاً اس موقع پر انہوں نے ”ابو سفیان“کی آواز سنی جواپنے ایک دوست ”بدیل“ سے کہہ رھا تھا کہ ہم نے کبھی بھی اس سے زیادہ آگ نہیں دیکھی، ”بدیل“ نے کھا میرا خیال ہے کہ یہ آگ قبیلہ”خزاعہ“نے جلائی ہوئی ہے، ابوسفیان نے کھا قبیلہ خزاعہ اس سے کہیں زیادہ ذلیل وخوار ہیں کہ وہ اتنی آگ روشن کریں،اس موقع پر عباس نے ابوسفیان کو پکارا، ابوسفیان نے بھی عباس کو پہچان لیا اور کھا سچ سچ بتاؤ کیا بات ہے؟

عباس(رض) نے جواب دیا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں جو دس ہزار مجاہدین اسلام کے ساتھ تمھاری طرف آرہے ہیں ، ابو سفیان سخت پریشان ہوا اور کھا آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ۔

عباس(رض) نے کھا:میرے ساتھ آؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے امان لے لو ورنہ قتل کردیے جاؤگے۔

اس طرح سے عباس نے”ابوسفیان“کو اپنے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر ھی سوار کرلیا اور تیزی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پلٹ آئے ۔ وہ جس گروہ اور جس آگ کے قریب سے گزرتے وہ یھی کہتے کہ یہ تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر سوار ہیں ،کوئی غیر آدمی ہے، یہاںتک کہ وہ اس مقام پر آئے، جھاں عمر ابن خطاب تھے ،جب عمر بن خطاب کی نگاہ ابو سفیان پر پڑی تو کھا خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے تجھ ( ابوسفیان) پر مسلط کیا ہے، اب تیرے لئے کوئی امان نہیں ہے اور فوراً ھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میںآکرآپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ابوسفیان کی گردن اڑانے کی اجازت مانگی ۔

لیکن اتنے میں عباس(رض) بھی پہنچ گئے اور کھا: کہ اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے اسے پنا ہ دے دی ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: میں بھی سر دست اسے امان دیتا ہوں، کل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے میرے پاس لے آئیں اگلے دن جب عباس(رض) اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا:”اے ابوسفیان! وائے ہو تجھ پر، کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ تو خدائے یگانہ پر ایمان لے آئے“۔

اس نے عرض کیا: ھاں! ےا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ،میں گواھی دیتاہوں کہ خدا یگانہ ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے،اگر بتوں سے کچھ ہو سکتا تو میں یہ دن نہ دیکھتا۔

آنحضرت نے فرمایا:”کیا وہ موقع نہیں آیا کہ تو جان لے کہ میں اللہ کا رسو ل ہوں“۔

اس نے عرض کی:میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو ںابھی اس بارے میں میرے دل میں کچھ شک و شبہ موجود ہے لیکن آخر کار ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں میں سے دو آدمی مسلمان ہوگئے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عباس(رض) سے فرمایا:

”ابوسفیان کو اس درہ میں جو مکہ کی گزرگاہ ہے، لے جاؤ تاکہ خدا کا لشکر وھاں سے گزرے اور یہ دیکھ لے“۔

عباس(رض) نے عرض کیا:”ابوسفیان ایک جاہ طلب آدمی ہے،اسکو کوئی امتیازی حیثیت دے دیجئے“پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:”جو شخص ابوسفیان کے گہر میں داخل ہوجائے وہ امان میں ہے،جوشخص مسجد الحرام میں پناہ لے لے وہ امان میں ہے،جو شخص اپنے گہر کے اندر ہے اور دروازہ بند کرلے وہ بھی امان میں ہے“۔

بہر حال جب ابوسفیان نے اس لشکر عظیم کو دیکھا تو اسے یقین ہوگیا کہ مقابلہ کرنے کی کوئی راہ باقی نہیں رھی او راس نے عباس کی طرف رخ کرکے کھا:آپ کے بھتیجے کی سلطنت بہت بڑی ہوگئی ہے،عباس(رض) نے کھا: وائے ہو تجھ پر یہ سلطنت نہیں نبوت ہے۔

اس کے بعدعباس نے اس سے کھا کہ اب تو تیزی کے ساتھ مکہ والوں کے پاس جاکر انہیں لشکر اسلام کا مقابلہ کرنے سے ڈرا۔

ابوسفیان؛ لوگوں کو تسلیم ہونے کی دعوت کرتاہے

ابوسفیان نے مسجدالحرام میں جاکر پکار کر کھا:

”اے جمعیت قریش! محمد ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ تمھاری طرف آیا ہے،تم میں اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے، اس کے بعد اس نے کھا: جو شخص میرے گہر میں داخل ہوجائے وہ امان میںہے،جو شخص مسجد الحرام میں چلا جائے وہ بھی امان میں ہے اور جو شخص اپنے گہر میں رہتے ہوئے گہر کا دروازہ بندکرے وہ بھی امان میں ہے“۔

اس کے بعد اس نے چیخ کر کھا: اے جمعیت قریش! اسلام قبول کرلو تا کہ سالم رہو اور بچ جاؤ، اس کی بیوی”ہندہ“نے اس کی داڑھی پکڑلی اور چیخ کر کھا:اس بڈہے احمق کو قتل کردو۔

ابوسفیان نے کھا: میری داڑھی چھوڑدے۔ خدا کی قسم اگر تو اسلام نہ لائی تو تو بھی قتل ہو جائے گی،جاکر گہر میں بیٹھ جا۔

علی علیہ السلام کے قدم دوش رسول پر

اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لشکر اسلام کے ساتھ روانہ ہوئے اور ”ذوی طوی“کے مقام تک پہنچ گئے،وھی بلند مقام جھاں سے مکہ کے مکانات صاف نظرآتے ہیں ،پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وہ دن یاد آگیا جب آپ مجبور ہوکر مخفی طور پر مکہ سے باہر نکلے تھے، لیکن آج دیکھ رہے ہیں کہ اس عظمت کے ساتھ داخل ہورہے ہیں ،تو آپ نے اپنی پیشانی مبارک اونٹ کے کجاوے کے اوپر رکھ دی او رسجدہ شکر بجا لائے،اس کے بعد پیغمبر اکرم ”حجون“ میں (مکہ کے بلند مقامات میں سے وہ جگہ جھاں خدیجہ(ع) کی قبر ہے) اترے، غسل کر کے اسلحہ اور لباس جنگ پہن کر اپنی سوار ی پر سوار ہوئے،سورہ فتح کی قرائت کرتے ہوئے مسجدالحرام میں داخل ہوئے اور آواز تکبیر بلند کی، لشکر اسلام نے بھی نعرہ تکبیر بلندکیا تو اس سے سارے دشت و کوہ گونج اٹہے۔ اس کے بعد آپ اپنے اونٹ سے نیچے اترے اور بتوں کو توڑنے کے لئے خانہ کعبہ کے قریب آئے، آپ یکے بعد دیگرے بتوں کو سرنگوںکرتے جاتے تھے اور فرماتے جاتھے:

( جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل کان زهوقاً )

”حق آگیا اور باطل ہٹ گیا،اور باطل ہے ھی ہٹنے والا“۔

کچھ بڑے بڑے بت کعبہ کے اوپر نصب تھے، جن تک پیغمبر کا ہاتھ نہیں پہنچتاتھا،آپ نے امیرالمومنین علی علیہ السلام کو حکم دیا وہ میرے دوش پر پاؤں رکھ کر اوپر چڑھ جائیں اور بتوں کو زمین پر گرا کر توڑڈالیں، علی علیہ السلام نے آپ کے حکم کی اطاعت کی۔

اس کے بعد آپ نے خانہ کعبہ کی کلید لے کر دروازہ کھولا اور انبیاء کی ان تصویروں کو جو خانہ کعبہ کے اندر درودیوار پر بنی ہوئی تہیں ، محو کردیا۔ اس سریع اور شاندا رکامیابی کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانہ کعبہ کے دروازے کے حلقہ میں ہاتھ ڈالا اور وھاں پر موجود اہل مکہ کی طرف رخ کرکے فرمایا:

”اب بتلاؤ تم کیا کہتے ہو؟ اور تمھارا کیا خیال ہے کہ میںتمھارے بارے میں کیا حکم دوں گا؟ انہوں نے عرض کیا: ہم آپ سے نیکی اور بھلائی کے سواراور کوئی توقع نہیں رکھتے!آپ ہمارے بزرگواربھائی اور ہمارے بزرگوار بھائی کے فرزند ہیں ،آج آپ بر سر اقتدار آگئے ہیں ، ہیں بخش دیجئے ،پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبانے لگے اورمکہ کے لوگ بھی بلند آواز کے ساتھ رونے لگے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”میں تمھارے بارے میں وھی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے کی تھی کہ آج تمھارے اوپر کسی قسم کی کوئی سرزنش اور ملامت نہیں ہے، خدا تمہےں بخش دے گا،وہ الرحم الراحمین ہے“۔(۹۲)

اور اس طرح سے آپ نے ان سب کو معاف کردیا اور فرمایا: ”تم سب آزاد ہو،جھاں چاہو جاسکتے ہو“۔

آج کا دن روز رحمت ہے

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ حکم دیاتھا کہ آپ کے لشکری کسی سے نہ الجہیں اور بالکل کوئی خون نہ بھایا جائے۔ ایک روایت کے مطابق صرف چھ افراد کو مستثنیٰ کیا گیا جو بہت ھی بد زبان اور خطرناک لوگ تھے۔

یہاں تک کہ جب آپ نے یہ سنا کہ لشکر اسلام کے علمدار”سعد بن عبادہ نے انتقام کا نعرہ بلند کیا ہے اور وہ یہ کہہ رھا ہے کہ:” آج انتقام کا دن ہے“ تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا، ”جلدی سے جاکر اس سے علم لے کر یہ نعرہ لگاؤ کہ:

” آج عفو وبخشش اور رحمت کا دن ہے“۔!

اور اس طرح مکہ کسی خونریزی کے بغیر فتح ہوگیا،عفوورحمت اسلام کی اس کشش نے،جس کی انہیں بالکل توقع نہیں تھی،دلوں پر ایسا اثر کیا کہ لوگ گروہ در گروہ آکر مسلمان ہوگئے،اس عظیم فتح کی صدا تمام جزائر عربستان میں جاپہنچی،اسلام کی شہرت ہر جگہ پھیل گئی اور مسلمانوں اور اسلام کی ہر جہت سے دھاک بیٹھ گئی ۔

جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانہ کعبہ کے دروازے کے سامنے کھڑے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا:

”خداکے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے،وہ یکتا اور یگانہ ہے،اس نے آخر کار اپنے وعدہ کو پورا کردیا، اور اپنے بندہ کی مددکی،اور اس نے خود اکیلے ھی تمام گروہوں کو شکست دےدی، ان لوگوں کا ہر مال ،ہر امتیاز ،اورہر وہ خون جس کاتعلق ماضی اور زمانہ جاہلیت سے ہے،سب کے سب میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہیں “۔

(یعنی زمانہ جاہلیت میں ہوئے خون خرابہ کو بھول جاو ،غارت شدہ اموال کی بات نہ کرو اور زمانہ جاہلیت کے تمام امتیازات کو ختم کر ڈالو، خلاصہ گذشتہ فائلوں کو بند کر دیا جائے ۔)

یہ ایک بہت ھی اہم اور عجیب قسم کی پیش نھاد تھی جس میں عمومی معافی کے فرمان سے حجاز کے لوگوں کو ان کے تاریک اور پُر ماجرا ماضی سے کاٹ کر رکھ دیا اور انہیں اسلام کے سائے میں ایک نئی زندگی بخشی جو ماضی سے مربوط کشمکشوں اور جنجالوں سے مکمل طور پر خالی تھی۔

اس کام نے اسلام کی پیش رفت کے سلسلہ میں بہت زیادہ مد دکی اور یہ ہمارے آج اور آنے والے کل کے لئے ایک دستو رالعمل ہے۔

عورتوں کی بیعت کے شرائط

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوہ صفا پر قیام فرمایا،او رمردوں سے بیعت لی،بعدہ مکہ کی عورتیں جو ایمان لے آئی تہیں بیعت کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تووحی الٰھی نازل ہوئی اور ان کی بیعت کی تفصیل بیان کی ۔

روئے سخن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف کرتے ہوئے فرماتا ہے :

”اے پیغمبر !جب مومن عورتیں تیرے پاس آئیں او ران شرائط پر تجھ سے بیعت کرلیں کہ وہ کسی چیز کو خداکا شریک قرار نہیں دیں گی، چوری نہیں کریں گی ،زنا سے آلودہ نہیں ہوںگی،اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی،اپنے ہاتھوں اورپاؤں کے آگے کوئی افتراء اور بہتان نہیں باندہیں گی اور کسی شائستہ حکم میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی تو تم ان سے بیعت لے لو اوران کے لئے بخشش طلب کرو،بیشک خدا بخشنے ،والا اورمہربان ہے۔ “(۹۳)

اس کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے بیعت لی۔

بیعت کی کیفیت کے بارے میں بعض مورخین نے لکھا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی کاایک برتن لانے کا حکم دیا او راپنا ہاتھ پانی کے اس برتن میں رکھ دیا،عورتیں اپنے ہاتھ برتن کے دوسری طرف رکھ دیتی تہیں ،جب کہ بعض نے کھا ہے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لباس کے اوپر سے بیعت لیتے تھے ۔