مختار آل محمد

مختار آل محمد0%

مختار آل محمد مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ

مختار آل محمد

مؤلف: مولانا نجم الحسن کراروی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27403
ڈاؤنلوڈ: 3466

تبصرے:

مختار آل محمد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 26 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27403 / ڈاؤنلوڈ: 3466
سائز سائز سائز
مختار آل محمد

مختار آل محمد

مؤلف:
اردو

چودہواں باب

حضرت مختار کی مکہ سے روانگی ، کوفہ میں رسیدگی اور گرفتاری

حضرت مختار ، عبداللہ ابن زبیر سے پوری طور پر بددل ہوہی چکے تھے ۔ وہ مکہ میں قیام کرنا بیکار خیال کرتے ہوئے بھی موقع کے انتطار میں وہاں ٹھہرے رہے جب انہیں معلوم ہوا کہ یزید کے بعد وہ تمام شیعیان علی جو ابن زیاد کی قید میں تھے برآمد ہوگئے ہیں اور انہوں نے کوفہ میں انتقامی مہم کی کافی چہل پہل پیدا کردی ہے تو وہ اپنی پہلی فرصت میں مکہ سے روانہ ہوگئے نہایت تیزی کے ساتھ طے منازل اور قطع مراحل کرتے ہوئے کوفہ کو جارہے تھے کہ راستے میں ہانی بن حیہ و داعی سے ملاقات ہوئی ۔ آپ نے پوچھا کہ کوفہ اور اہل کوفہ کس حال میں ہیں ہانی نے کہا کہ اس وقت اہل کوفہ کی حالت پر اگندہ بھیڑوں جیسی ہے اگر کوئی ان کا گلہ بان ہوجائے تو انہیں یک جاکر نا چاہیے تو بڑی آسانی اور نہایت خوبصورتی سے یہ یکجا ہوجائیں گے ۔

حضرت مختار نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں انہیں ضرور یکجا کروں گا اور دشمنان آل محمد خصوصا قاتلان امام حسینعليه‌السلام کو چن چن کر قتل کروں گا ۔ پھر حضرت مختار نے پوچھا کہ سلیمان بن صرد کا کیا ارادہ ہے اور وہ کیا کررہے ہیں ہانی نے کہا کہ وہ خروج کیلئے بالکل تیار ہیں لیکن اب تک برآمد نہیں ہوئے اسی قسم کی گفتگو سلمہ بن کرب سے بھی ہوئی یہ سن کر حضرت مختار آگے بڑھے یہاں تک کہ آپ کا ورودجمعہ کے دن نہر حیرہ پر ہوا۔

آپ نے غسل کیا لباس بدلا تلوار حمال کی اور آپ گھوڑے پر سوار ہوکر بارادہ کوفہ روانہ ہوئے۔ چلتے چلتے جب آپ کا وردوبمقام قادسیہ ہوا تو آپ نے اپنا راستہ بدل دیا اور آپ کربلا کی طرف مڑگئے کربلا پہنچ کر بروایت رو ضۃ الصفا ومناقب اخطب خوارزمی و مجالس المومنین آپ نے حضرت امام حسینعليه‌السلام کو سلام کیا اور ان کی قبر مبارک سے لپٹ کر بے پناہ گریہ کیا اور اسے بوسے دئیے اور ان کی بارگاہ میں بدل و جان قسم کھائی جس کے عیون الفاظ یہ ہیں:۔

یا سیدی البیت بجدک المصطفىٰ و ابیک المرتضیٰ وامک الزهراء واخیک الحسن المجتبیٰ ومن قتل معک من اهل بیتک وشیعتک فی کربلا لااکلت طیب الطعام ولاشربت لذید اشراب ولانمت علی ولی المهادولاخلعت هذه والابرار حتی انتقم محن قتل اواقتل کما قتلت قبح الله العبس بعدک (مناقب اخطب رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷۶ مجالس لمومنین ص ۳۵۸

اے سیدوسردار ! میں نے آپ کے جدا مجد حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے والد ماجد حضرت علی مرتضیٰعليه‌السلام اور آپ کی والد ہ محترمہ حضرت فاطمہ زھراءعليه‌السلام اور آپ کے برادر مجتبیٰ حضرت حسنعليه‌السلام اور آپ کے ان اہلبیت اور شیعوں کی قسم کھائی ہے جو آپ کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے ہیں کہ میں جب تک آپ کا انتقام نہ لے لوں گا ۔ اس وقت تک نہ اچھے کھانے کھاؤں گا نہ آب خوشگوارپیئوں گا نہ نرم بستر پر سوؤں گا ۔ نہ یہ چادریں جواوڑھے ہوئے ہوں اتاروں گا اے مولا آپ کے بعد زندگی بہت بری زندگی ہے اب یا تو انتقام لوں گا ۔یا اسی طرح قتل ہوجاؤں گا جس طرح آپ شہید ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد آپ باچشم گریاں قبرامام حسینعليه‌السلام سے رخصت ہوکر کوفہ کی طرف روانہ ہوئے پھر قطع مراحل کرتے ہوئے آپ ماہ رمضان ۶۴ھء کو دن کے وقت داخل کوفہ ہوگے۔ (مجالس المومنین ص ۲۵۵)

حضرت مختار جس کی طرف سے گزرتے تھے وہی آپ کا استقبال کرتا تھا اور آپ کے آنے کی مبارکباد پیش کرتا تھا آپ لوگوں سے کہتے جاتے تھے کہ گھبراؤ نہیں میں انشاء اللہ ظالموں کا عنقریب قلمع وقمع کروں ا اور واقعہ کربلا کا ایسا بدلہ لوں گا کہ دنیا انگشت بدنداں ہوگی اس کے بعد آپ جامع مسجد میں تشریف لے گئے اور آپ نے نماز ادا کی ، پھر وہاں سے روانہ ہوکر اپنے گھر پہنچے جو خانہ سالم بن مسیب کے نام سے مشہور تھا۔ حضرت مختار نے اپنے گھر میں قیام کرنے کے بعد اعیان شیعہ سے ملنا شروع کیا اور ان پریہ وضاحت کی کہ وہ محمد بن حنفیہعليه‌السلام کا اجازت نامہ لائے ہیں کوفہ کی فضا چونکہ عبداللہ ابن زبیر کے اثرات سے متاثر تھی اس لیے شیعیان علی بن ابی طالب خاموشی کے ساتھ ہوشیاری سے اپنے منصوبہ کو کامیاب بنانے کی طرف متوجہ تھے۔ حضرت مختار کے کوفہ پہنچتے ہی دشمنان آل محمد میں ہل چل مچ گئی لوگوں پر مختار کی ہیت طاری تھی ۔

لہٰذا ان لوگوں نے جمع ہوکر ان کے معاملہ پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کی تبادلہ خیال کے بعد عمر بن سعد اور شیث ابن ربعی اور ابراہیم بن محمد اور عبداللہ بن یزید نے فیصلہ کیا کہ مختار کو گرفتار کرلینا چاہے کیونکہ یہ سلیمان بن صرد سے زیادہ نقصان رساں اور خطرناک ہیں سلیمان کا مقابلہ عام لوگوں سے ہے اور مختار صرف قاتلان حسینعليه‌السلام کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جن میں تمام اعیان کوفہ و شام شامل ہیں ، رائے قائم کرنے کے بعد ہزاروں افراد کو مختار کی گرفتاری کیلئے بھیج دیا گیا۔ ان لوگوں نے پہنچ کر حضرت مختار کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور انہیں گرفتار کرکے ایک خچر پر سوار کیا اور قید خانہ بھیج دیا ۔ حضرت مختار جب قید خانہ بھیجے جارہے تھے اس وقت ابراہیم ابن محمد نے عبداللہ ابن یزید والی کوفہ سے کہا ان کے جسم کو زنجیروں سے جکڑوادے اس نے جواب دیا ۔

کہ مختار نے کوئی خطا نہیں کی ہم ان کے ساتھ سختی نہیں کرسکتے ۔ یحیٰ بن عیسیٰ کا بیان ہے کہ میں حمید بن مسلم کے ہمراہ ایک دن مختار سے ملا تو انہوں نے ایک عظیم مقفی عبارت میں کہا کہ میں عنقریب دشمنان آل رسول کے خون کا بدلالوں گا ۔ اورتمام سرکشاں کوفہ و شام کو خون آشام تلوار کا مزہ چکھاؤں گا ۔ (نورالابصار ص ۶۲، ذوب النضار ص ۴۰۵دمعۃ ساکبہ ۴۰۶)

مورخ طبری کا بیان ہے کہ حضرت مختار کوفہ پہنچے کے ساتویں دن گرفتار کرلیے گئے اور یہ واقعہ ۶۴ھ کا ہے (تاریخ طبری جلد ۴ ص ۶۵۰ طبع لکھنو) مورخ ہروی کا بیان ہے کہ مختار کی گرفتاری کے بعد شیعیان کوفہ کے چند نمایاں افراد ضمانت پر رہا کرانے کیلئے والی کوفہ کے پاس گئے اس نے صاف انکار کردیا یہ لوگ سخت رنجیدہ واپس چلے آئے۔ (رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷۶)

حضرت سلیمان بن صرد کا خواب

اور حضرت سلیمان بن صرد محو خواب ہوگئے سونے کے حالات میں انہوں نے خواب دیکھا کہ میں ایک سبزگلستان پر بہار میں ہوں ، اس میں نہر یں جاری ہیں ۔ عمدہ عمدہ درختو ں میں پھل لگے ہو ئے ہیں اس باغ کے درمیان میں ایک قبہ طلائی بنا ہو اہے اور اس پر پردہ پڑ اہواہے میں باغ میں سیر کرتا ہو ا اس قبہ طلا ئی کے پاس گیا میں نے دیکھاکہ اس میں سے ایک حسین وجمیل مخدرہ برآمد ہو ئیں۔ ان کے چہرہ مبارک پر سندس سبنرکا مقنع پڑا ہواہے جو نہی میں نے انہیں دیکھنے سے بدن میں تھر تھر ی پڑگی قر یب تھا کہ میرادل شگا فتہ ہو ا جائے جو نہی ا نہوں نے میری یہ حالت دیکھی بے ساختہ وہ ہنس پڑیں اور کہنے لگیں کہ اے سلیمان خدا تمہاری سعی کومشکور قرار دے اے سلیمان تم اور تمہارے ساتھی اور تمام وہ لوگ جو ہماری محبت میں شہید ہوں گے ہمارے ساتھ جنت میں ہوں گے۔

اسی طرح وہ لوگ ہمارے ساتھ جنت میں ہوں گے جن کی آنکھیں ہمارے غم میں پر اشک ہوں گی۔میں نے یہ سن کر ان کی خدمت میں عرض کی۔بی بی آپ کو ن ہیں ارشار فرمایا کہ میں تمہارے نبی کی رفیقہ حیات خدیجہعليه‌السلام ہوں اور یہ جو میرے پاس موجود ہیں ۔تمہارے نبی کی بیٹی فاطمہعليه‌السلام الزہرا ہیں ۔اس کے بعد میں نے جو باغ کے اطراف میں نظر کی تو دیکھا کہ سارا باغ پر انوار ہے اتنے میں حضرت خدیجہعليه‌السلام نے فرمایا کہ میری بیٹی فاطمہعليه‌السلام الزہرا تم کوسلام کہتی ہیں اورمیرے دونوں بیٹے حسنعليه‌السلام و حسینعليه‌السلام ارشاد کرتے ہیں کہ اے سلیمان !تمہیں بشارت ہو کہ تم کل بوقت زوال ہمارے پاس ہو گے ۔اس کے بعد انہوں نے پانی کا ایک جام عنایت فرمایا اور حکم دیا کہ اس کا پانی اپنے زخمی جسم پر چھڑ کو سلیمان کا بیان ہے کہ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی ۔تو میں نے دیکھا کہ میرے سرہانے پانی کا ایک کوزہ غائب رکھا ہو ا ہے ۔

میں نے فوراً اس سے غسل کیا ۔اس کے بعد اس کوز ے کو ایک طرف رکھ دیا ۔کوزہ غائب ہوگیا۔یہ دیکھ کر میں سخت متعجب ہوا اور میرے منہ سے بے ساختہ لااللہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ نکل گیا ۔جو نہی میرے منہ سے کلمہ کے الفاظ نکلے میرے لشکر والے جاگ اٹھے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا واقعہ گزرا میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔(نور الابصار ص ۸۲)

بروایت سلیمان نے یہ بھی بتایا کہ جب میں نے اس پانی سے غسل کیا تو جراحت کی تکلیف مجھ سے دور ہو گئی (قرة العین ص۱۴۲)

اس کے بعد حضرت سلیمان اور ان کے ساتھی رکوع اور سجود میں مشغول ہی تھے کہ صبح ہو گئی ۔صبح ہوتے ہی اذان ہو گئی اور حضرت سلیمان نے نماز جماعت پڑھائی ،نماز کے بعد حضرت سلیمان نے اپنے زخمی بہادروں کو حکم دیا کہ سلاخ جنگ سے آراستہ ہو کر نہر کو پار کرکے ابن زیا د کے لشکر پر حملہ آ ور ہوں ،چنانچہ یہ بہادر حملہ میں مشغول ہو گئے۔ (اخذ الثار و انتصار المختار ابی مخنف ص۴۸۲)۔

علامہ ابن نما کا بیا ن ہے کہ حسینی بہادر اپنی پوری طاقت کے ساتھ نبردآزما تھے۔اور ادھر سے بھی مکمل شدت کا حملہ ہو رہا تھا۔مگر بہادروں پر قابو نہیں پایا جا رہا تھا کہ حصین بن نمیر نے حکم دیا کہ تیروں کی بارش کر دی جائے،چنانچہ تیر برسنے لگے۔ فانت السھام کا لشرار النطائرة اور تیروں کی چنگاریاں اڑنے لگیں ۔

حضرت سلیمان بن صردکی شہادت

تیروں کی بارش ہو ر ہی تھی کہ دو پہر کا وقت آ گیا چا رو ں طر ف سے تیر بر سنے لگے فقتل سلیمان بن صرد اور حضرت سلمان بن صرددر جہ شہادت پر فائز ہو گئے۔ حضر ت سلما ن کی شہادت کے بعد علم اسلام مسیب ابن نخبہ نے لے لیا مسیب نہایت بہا در اور بے مثل جنگجو تھے ۔ انہوں نے علم سنبھا لتے ہی حملہ آور ی میں پوری شدت پید اکر دی ۔ (ذوب النضار ص ۴۰۶ و رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷۳)

حضرت مسیب بن نخبہ کی شہادت آپ پوری ہمت و جرات کے ساتھ جنگ کر رہے تھے آپ کے حملوں سے دشمن اس طرح بھاگ رہے تھے۔ جس طرح شیر کے حملہ سے دور بھاگتے ہیں۔ حملہ کے ساتھ ساتھ آپ رجز بھی پڑھتے تھے آپ کے حملوں میں تین حملے یاد گار ہوئے ہیں۔ مورخین کا بیان ہے کہ حضرت مسیب عظیم الشان حملوں میں مشغول ہی تھے کہ سارا لشکر سمٹ کر یکجا ہوگیا اور سب دشمنوں نے مل کر یکجا حملہ کردیا جس کی وجہ سے حضرت مسیب شہید ہوگئے۔ (ص ۴۰۶)

حضرت عبداللہ ابن سعد بن ثقیل کی شہادت مسیب کی شہادت کے بعد عبداللہ ابن سعد نے علم جنگ سنبھالا اور آپ نے رجز پڑھتے ہوئے کمال جرأت و ہمت سے حملہ کیا ۔ کافی دیر لڑنے کے بعد آپ نے بھی شہادت پائی۔ آپ کی شہادت کے بعد آپ کے بھائی خالد ابن سعد نے علم جنگ سنبھال لیا۔ خالد نے نہایت زبردست جنگ کی اور حیران کردینے والے حملوں سے لشکر شام کو تہ وبالا کردیا ۔ بالآخر درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ (ص ۴۰۶)

حضرت عبداللہ ابن وال کی شہادت

خالد کی شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن وال نے علم جنگ سنبھال لیا۔ آپ نے کمال جرأت وبہادری سے اپنے حملوں کو فروغ دیا اور فلک ہلادینے والے حملوں سے دشمنوں کے دانت کھٹے کردئیے ۔ آپ مشغول جنگ ہی تھے ، کہ آپ کا بایاں ہاتھ کٹ گیا آپ نے اپنے ساتھیوں کو آواز دی اور ایسی ہی حالت میں کہ کٹے ہوئے ہاتھ سے خون جاری تھا ایک زبردست حملہ کیا آپ اپنی پوری طاقت سے حملہ کررہے تھے کہ ناگاہ بقیادت مثنی ابن محرمہ عبدی بصرہ سے اور کثیر بن عمر الخنفی مدائن سے مختصر سی کمک پہنچ گئی ۔

اب کیا تھا سلیمانیوں کی ہمت بلند ہوگئی اور حسینی بہادر اور بے جگری سے لڑنے لگے ۔ بالآخر حضرت عبداللہ نے شہادت پائی۔ (ص ۴۰۶) ان کی شہادت کے بعد علم جنگ رفاعہ ابن شداد نے سنبھالا ، اور یہ لوگ بڑی بے جگری سے جنگ میں مصروف ہوگئے اور بہت کافی دیر تک مشعول جنگ رہے یہاں تک کہ رات آگئی اب ان اسلامی بہادروں کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ ان کا سانس تک لینا دشوار ہوگیا کوئی اپنے عالم میں نہ تھا ہوش و ہواس بجانہ تھے ۔ زخموں سے چور ہوچکے تھے۔ تعداد بھی اختتام پذیر تھی۔ (ذوب النضار ص ۴۰۶)

مورخ ہروی لکھتے ہیں کہ رفاعہ ابن شداد علم جنگ لینے کے بعد چند قدم پیچھے کو سرکے یہ وہ وقت تھا آفتاب غروب ہورہا تھا۔ آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اب ہم صرف چند افراد رہ گئے ہیں۔ اگر اس مقام پر رہتے اور جنگ جاری رکھتے ہیں تو اس کے سوا اور کچھ نہ ہوگا کہ این مذہب ازجہاں برافتدیہ مذہب دنیا سے ناپید ہوجائے۔ اور ہماری ملت کا نام و نشا ن بھی باقی نہ رہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب ہم چند نفرجورہ گئے ہیں کوفہ کو واپس چلے جائیں اس رائے کو تقریباً سب زخمیوں نے پسند کیا۔ عبداللہ ابن عوف نے کہا کہ اگر تم اسی وقت یہاں سے روانہ ہوگئے تو دشمن تمہارا پیچھا کرکے تم سب کو قتل کردیں گے ۔ مناسب یہ ہے کہ قدرے صبر کرو کہ رات بالکل تاریک ہوجائے۔ اور پردہ شب میں خاموشی کے ساتھ یہاں سے روانہ ہو، رفاعہ نے ابن عوف کے صوابدید کے مطابق جنگ سے ہاتھ اٹھا کر اپنے لشکر گاہ میں حسب دستور سابق واپس آئے اور اہل شام اپنے لشکر گاہ میں رات گزارنے کیلئے چلے گئے۔

جب عالم پرپردہ تاریک شب چھاگئی تو رفاعہ اپنے بچے ہوئے زخمیوں کو لیے ہوئے وہاں سے روانہ ہوگئے ۔ یہ لوگ جس پل سے نہرفرات پار ہوئے تھے ۔ اسے شکستہ کر دیا تاکہ دشمن اگر تعاقب کریں تو جلدی سے پار نہ ہوسکیں۔ یہ لوگ راتوں رات کافی دُور نکل گئے ، جب صبح ہوئی تو حصین ابن نمیر نے ان کا پیجھا کیا لیکن یہ لوگ دستیاب نہ ہوئے ۔(رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷۳ )

علامہ ابن نما لکھتے ہیں کہ یہ بہادر لڑتے لڑتے خشکی کے ذریعہ سے قرسیسا تک پہنچ کر پردہ شب میں منتشر ہوگئے۔ (ذوب النضار ص ۴۰۷) مورخ طبری کا بیان ہے کہ جب یہ لوگ قرسیسا پہنچے تو زفربن حارث نے انہیں تین یوم مہمان رکھا۔ اس کے بعد کوفہ کو روانہ کردیا یہ لوگ بوقت شب داخل کوفہ ہوئے ۔ (تاریخ طبری جلد ۴ ص ۶۵۱)

مورخ کامل لکھتے ہیں کہ جب عبداللہ ابن وال بھی قتل ہوگئے تو رفاعہ بن شداد البجلی نے علم اُٹھالیا اور خوب لڑے۔ اہل شام کا ارادہ تھا کہ ان کو رات ہونے سے پہلے ہی ہلاک کردیں لیکن اہل حق کی شدت مقابلہ کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہوسکے ۔ عبداللہ ابن عزیز الکنانی آگے بڑھ کر اہل شام سے لڑنے لگے۔ ان کا صغیر سن بچہ مسمّی محمد ان کے ہمراہ تھا انہوں نے اہل شام میں بنوکنانہ کو آواز دی اور اپنے بیٹے کو ان کے سپرد کردیا ۔ اہل شام نے ان کو امان دینی چاہی لیکن انہوں نے انکار کردیا اور وہ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے ۔ شام کے وقت کرب ابن یزید الحمیری ایک صدآدمی نے کراہل شام پر حملہ آور ہوئے اہل شام نے ان کو اور ان کے اصحاب کو امان پیش کی ، انہوں نے جواب دیا کہ دنیا میں تو ہم امان ہی میں ہیں اب تو ہم صرف آخرت کی امان کی تلاش میں ہیں۔ غرضیکہ وہ سب اہل شام سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے اس کے بعد صخربن ہلال المزنی اپنے تیس آدمی لے کر آگے بڑھے اور شامیوں سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ جب رات ہوگئی تو اہل شام اپنی چھاؤنی کی طرف چلے گئے اورفاعہ ابن شداد اپنے باقی ماندہ آدمیوں کو لے کر اسی رات وہاں سے روانہ ہوگئے۔

صبح کو حصین بن نمیر ان کے مقابلہ کو نکلا لیکن میدان خالی دیکھ کر وا پس ہوگیا۔ اہل کوفہ قرسیسا آئے زفر نے ان کو تین دن مہمان ٹھہرایا اور انہیں زادِراہ بھی دیا۔ پھر وہ لوگ کوفہ کو روانہ ہوگئے۔ سعد بن حذیہ یمان اپنے سو سواروں کے ساتھ اور مثنیٰ اہل بصرہ کے ساتھ آئے لیکن یہاں پر آکر ان کو اہل کوفہ کی شکست کی خبر معلوم ہوئی۔ رفاعہ کے آنے تک وہیں ٹھہرے رہے جب وہ آئے تو ان کا استقبال کیا۔ ایک دن ایک رات وہاں رہے اور پھر اپنے اپنے مقام کو چلے۔ یہ بھی جنگ عین الورد جو ۲۶ جمادی الاولیٰ سے شروع ہوکر آخر مہینہ تک رہی ۔ سلیمان بن صرد اور ان کے اصحاب کی سیاسی دانش مندی اور خلوص نیت کا ثبوت ان کے اس انکار سے ملتا ہے جو انہوں نے عبداللہ بن یزید والی کوفہ اور زفربن الحارث والی قرسیسا کو ان دونوں کو درخواست امداد پر دیا ۔ یہ دونوں عبداللہ ابن زبیر کے آدمی تھے اور سلیمان بن صرد سے مل کر اپنا مطلب نکالنا جاہتے تھے ان کو مطقاً سلیمان کے مقصد سے کام نہ تھا اور نہ یہ خون حسینعليه‌السلام کی طلب میں اٹھے تھے۔

یہ تو عبیداللہ ابن زیاد کو واحد دشمن خیال کرکے سلیمان سے ملنا چاہتے تھے ۔ اگر فتح ہوتی تو عبداللہ ابن زبیر کی ہوتی اگر شکست ہوتی تو یہ عبیداللہ ابن زبیر کے پاس چلے جاتے اور وہاں سے کمک لاتے اور پھر لڑتے لیکن اتنے عرصہ میں شیعیان کوفہ مع مختار ابن ابی عبیدہ کے مارے جاتے نزلہ برعضو ضعیف می ریزد۔ ان ہی سے دل کھول کر بدلہ لیا جاتا اور پھر مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کی بھی تحریک مرجاتی ۔ عبداللہ ابن زبیر دشمن علی تھا۔ سلیمان بن صرد ایک دشمن علیعليه‌السلام کو کیوں مدد پہنچاتے علاوہ اس کے ان سے ملنے سے یہ خالص مذہبی جنگ نہ رہتی بلکہ سیاسی جنگ ہوجاتی اور پھر خلوص نہ رہتا ۔ سلیمان اور ان کے اصحاب کا جومدعا تھا وہ فوت ہوجاتا۔ دونوں جگہوں کی مدد کو قبول نہ کرنا ان کی سیاسی ذکاوت اور مذہبی خلوص کا ثبوت ہے ۔ (تاریخ کامل جلد ۱ ص۲۹۶ ، نورالمشرقین ص ۹۱) شہدائے عین الورد کے سرکاٹ لیے گئے مقام عین الورد میں قیام خیر جنگ کے سلسلہ میں حسینی خون بہالینے والے جتنے بہادر شہید ہوئے تھے ان کے سرکاٹ لیے گئے اور ان سروں کو مروان بن حکم کے پاس عبیداللہ ابن زیاد نے نیزوں پر بلند کرکے بھیج دیا ۔ (قرة العین ص ۱۴۲)

اس کے بعد عبیداللہ ابن زیاد بقیہ لشکر سمیت واردشام ہوا۔ (تاریخ طبری جلد ۴ ص ۶۵۱) اس وقت شام میں عبدالملک بن مروان کی حکومت قائم ہوچکی تھی اور مروان بن حکم صرف ۹ ماہ حکومت کرکے اپنی بیوی یعنی خالد بن یزید کی ماں کے ہاتھوں مر چکا تھا اس نے اسے تکیے سے دبا کر قتل کردیا تھا۔ (رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷۳) شہادت سلیمان بن صرد پر شام میں مسرت حضرت سلیمان بن صرد اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی جب اطلاع شام میں پہنچی تو شامیوں نے خوشی کا اظہار کیا اور عبدالملک ابن مروان نے مسجد جامع میں ایک عظیم اجتماع طلب کر کے ایک تقریر کی جس میں کہا کہ خداوندعالم نے بہت بڑے فتنے کے سرداروں کو قتل کردیا ہے۔ سلیمان بن صرد مسیب بن نخبہ ،عبداللہ ابن سعد ، عبداللہ ا بن وال وغیر ہم یہ عظیم فتنے تھے ۔ شکر ہے کہ خدا نے انہیں تباہ و برباد کردیا ۔ (تاریخ خضری جلد ۲ ص ۲۱۳ طبع مصر)