مختار آل محمد

مختار آل محمد0%

مختار آل محمد مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ

مختار آل محمد

مؤلف: مولانا نجم الحسن کراروی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27407
ڈاؤنلوڈ: 3466

تبصرے:

مختار آل محمد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 26 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27407 / ڈاؤنلوڈ: 3466
سائز سائز سائز
مختار آل محمد

مختار آل محمد

مؤلف:
اردو

پندرہواں باب

حضرت مختار کی قید سے رہائی

حضرت مختار کی قید سے رہائی عبدالملک ابن مروان کی حکومت اور قتل مختار ثقفی سے حجاج ثقفی کی عاجزی مورخین کا بیان ہے کہ حضرت سلیمان بن صردخزاعی اور ان کے ساتھیوں کا حشر انگیر قتل اور ان کی شاندار قربانی اختتام پذیر ہوگئی اور سب کے سب کمال جرأت و ہمت اور عظیم بہادری کے ساتھ حضرت امام حسینعليه‌السلام پر نثار ہوگئے اور حضرت مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی بدستور جیل خانہ کی شدت سے دوچار رہے ۔(تاریخ طبری جلد ۴ ص ۶۵۱)

حضرت مختار کی یہ دلی خواہش تھی کہ ہم سلیمان بن صرد کے ساتھ مل جل کر میدان مقاتلہ میں کام کریں اور واقعہ کربلا کا اس طرح بدلا لیں کہ دنیا انگشت بدنداں ہوجائے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں کوفہ پہنچنے کے بعد حضرت سلیمان سے ملاقات بھی کی تھی لیکن پہلی ملاقات میں باہمی سمجھوتہ نہیں ہوسکاتھا کیونکہ سلیمان اپنے خروج کی تاریخ مقرر کرچکے تھے ۔ وہ اس کا انتظار کررہے تھے اور تیاری میں مشغول تھے اور حضرت مختار کا یہ کہنا تھا کہ تاریخ کا انتظار نہ کیجئے بلکہ موقع کا لحاظ کیجئے ، اس وقت یزید کی موت سے ملک میں انتشار ہے ۔ خروج کا بہترین موقع ہے ابھی اسی قسم کی گفتگو جاری تھی اور یہ لوگ آخری فیصلہ پر نہیں پہنچے تھے کہ حضرت مختار گرفتار کرلیے گئے ان کی گرفتاری کے بعد زعماء شیعہ نے بڑی کوشش کی کہ ان کی ضمانت پر رہائی ہوجائے۔ لیکن اس کا امکان نہ پیدا ہوسکا ۔ بالاخر ابن زیاد کی حکومت شام کی طرف سے پیش قدمی کے سبب سلیمان کو اپنی معینہ تاریخ سے قبل ہی خروج کرنا پڑا جس کے نتیجہ میں یہ سب کے سب قتل کردئیے گئے یقین ہے کہ اگر مختار قید نہ ہوتے اور دونوں مل جل کر ایک ساتھ میدان میں آجاتے تو سلیمان وغیرہ کی شہادت جلدی عمل میں نہ آسکتی۔

شہادت حضرت سلیمان کا اثر

حضرت مختار قید کی سختیاں جھیل رہے تھے کہ انہیں حضرت سلیمان اور ان کے جملہ ساتھیوں کے قتل و شہید ہونے کی اطلاع ملی وہ قید خانے میں بے چین ہوگئے اور انہیں اس واقعہ عظیم سے نہایت ہی صدمہ پہنچا۔ انہوں نے اپنے کمال تاثر کی وجہ سے حضرت سلیمان بن صرد کے باقی ماندہ لوگوں کو قید خانہ سے ایک خط لکھا۔ (دمعۃ ساکبہ ص ۴۰۷)

حضرت مختار کا خط اہل کوفہ کے نام

علماء کا بیان ہے کہ حضرت مختار نے قید خانہ سے حضرت سلیمان کے باقی ماندہ لوگوں کے نام ایک خط تحریر کیا اس خط میں لکھا کہ خداوندعالم تمہیں اس مصیبت عظمیٰ پر صبر عطا کرے اور اجر عظیم عنایت فرمائے اور اپنے نامحدود رحمت و برکت سے محضور کرے اور تم نے جو تکالیف برداشت کی ہیں اور ظالموں سے جو صدمات اٹھائے ہیں اس کے عوض میں تم پر اپنی کرامت انگیز نظر فرمائے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ راہ خدا میں تم نے جتنے قدم اٹھائے ہیں ۔ خداوندعالم ان کے عوض حسنات بے شمار عطا فرمائے گا ۔ میرے دوستو ! میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ جس وقت میں قید سے رہا ہوکر باہر نکلوں گا حکم خدا سے تمام دشمنان محمد وآل محمدعليه‌السلام سے ایسا بدلا لوں گا کہ دنیا حیران رہے گی میں ان کے چھوٹے بڑے ایک کو بھی تہ تیغ کیے بغیر نہ چھوڑوں گا۔ یاد رہے !کہ خدا کی جس کو ہدایت ہوگی وہ میرے عمل و کردار اور میری سعی و کوشش سے بہرہ مند ہوگا اور جو انکار کرے گا وہ لعنت ابدی میں گرفتار ہوگا تم گھبراؤ نہیں وقت رہائی قریب ہے۔

فقط والسلام علی اهل الهُدیٰ

حضرت مختار کے اس خط کے پہنچتے ہی کوفہ کے اہل ایمان خوش ہوگئے اور انہوں نے حضرت مختار کو جواباً لکھا کہ ہم نے تمہارا خط بڑے غور سے پڑھا ۔ ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ ہم سب تمہارے ساتھ ہیں اور تمہاری مدد کے اوقات کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں اگر آپ ہمیں کہیں تو ہم اکر آپ کو قید خانہ سے رہا کرانے کی کوشش کریں۔ حضرت مختار کو جونہی روسائے کوفہ کا خط ملا بے حد مسرور ہوئے اور وہ اس امر سے مطمئن ہوگئے کہ شیعیان کوفہ میرے ساتھ ہیں انہوں نے قید خانہ سے کہا بھیجا کہ میری رہائی کی سعی تم لوگ نہ کرو ، میں نے اس کے راستے نکال لئے ہیں اور عنقریب میں رہا ہوجاؤں گا اور رہائی کے بعد اپنے مقصد کے انصرام و انتظام میں پوری پوری سعی کروں گا۔ (نورالابصار ص ۷۸)

حضرت مختار کی قید خانہ میں بیعت مورخ طبری کا بیان ہے کہ حضرت مختار نے قید خانہ سے یہ بھی لکھا تھا کہ میں انشاء اللہ رہا ہونے کے بعد شرکائے کربلا کو اس انداز سے قتل کروں گا کہ لوگوں کو بخت نصر کا قتل یاد آجائے گا یعنی جس طرح بخت نصر نے قتل یحییٰ بن زکریا کی وجہ سے بے شمار قتل کیا اسی طرح میں قتل حسینعليه‌السلام کی وجہ سے لاتعداد قتل کروں گا یہ معلوم کر کے روسائے کوفہ بہت خوش ہوئے اور آپس میں کہنے لگے کہ شکر ہے ابھی ہمارا ایک مدد گار باقی ہے ، اس کے بعد رفاعہ چارنمایاں افراد کو ہمراہ لے کر قید خانہ میں گئے اور مختار سے مل کر ان کی بیعت کرلی اور انہیں بالمواجہ اپنی حمایت کا یقین دلایا اور یہ بھی کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم کافی افراد سمیت قید خانہ پر دھاوابول کر آپ کو رہا کرالیں ، حضرت مختار نے فرمایا کہ ایسا مت کرو میں نے رہائی کی سبیل خود پیدا کرلی ہے۔ (تاریخ طبری جلد ۴ ص ۶۵۳)

حضرت مختار کا خط عبداللہ بن عمر کے نام

علماء مورخین کا بیان ہے کہ حضرت مختار نے عبداللہ بن عمر کو جوان کے بہنوئی تھے اور پہلے بھی انہیں قید ابن زیاد سے رہا کراچکے تھے قید خانہ سے ایک خط لکھا جس کے عیون الفاظ یہ ہیں۔ امابعد فی حبست مظلوماً وظن بی الولاہ ظنونا کاذبة فاکتب فی رحمک اللہ الی ھذین الظالمین وھما عبداللہ بن یزید وابراھیم ابن محمد کتاباعیسیٰ اللّٰہ ان یخلصنی من ایدیھما الطفک ومنک والسلام علیک۔(ذوب النضار ابن نماص ۴۰۷ طبع ایران) (ترجمہ)حمد و صلوٰة کے بعد اے عبداللہ ابن عمر آپ کو معلوم ہو کہ میں بے جرم و خطا محض ظلم کی وجہ سے قید کرلیا گیا ہوں میری قید کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے والیوں کو میرے متعلق کچھ شبہ ہوگیا ہے آپ برائے مہربانی میری شفارش میں ان دونوں ظالموں کے پاس جن کے نام عبداللہ ابن یزید اور ابراہیم بن محمد ہیں ایک خط لکھ بھیجئے شاید خداوندعالم آپ کی مہربانی سے مجھے رہائی عطا کردے۔

یہ خط لکھنے کے بعد حضرت مختار نے اسے اپنے غلام خیر نامی کے ذریعہ سے جو بروایت یہ خبر لے کر مختار کے پاس گیا تھا۔ کہ والی کوفہ نے تمہارا سارا مال واسباب لٹوالیا ہے مدینہ بھجوادیا ، عبداللہ ابن عمر بن خطاب کو جو نہی یہ خط ملا ، وہ سخت پریشان ہوئے اور انہوں نے فوراً ایک خط عبداللہ بن یزید اور ابراہیم بن محمد کے نام اس مضمون کا ارسال کیا کہ تمہیں معلوم ہے کہ مختار میرا سالا ہے اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ میں تم لوگوں کو کس قدر عزیز رکھتا ہوں ۔ میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ جونہی میرا یہ خط تم لوگوں کو ملے فوراً مختار کو رہا کردو۔ ورنہ مجھے سخت رنج ہوگا۔

والسلام

(دمعۃ ساکبہ ص ۴۰۷)

مورخین کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عمر کا جونہی یہ خط ان دونوں کو ملا ۔ انہوں نے حضرت مختار کو رہا کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ لیکن وہ اس تردد میں رہے کہ اگر رہائی کے بعد مختار نے ہمارے ہی خلاف خروج کیا پھر کیا بنے گا۔ بالآخر وہ لوگ اس نتیجے پر پہنچے کہ مختار سے اس امر کی ضمانت لینی چاہیے کہ وہ ہم پر خروج نہ کریں ۔ اس کے لیے انہوں نے مختار سے گفتگو کی اور ان کی صوابدید کے مطابق کوفہ کو ضمانت کیلئے طلب کیا اور ان سے یہ خواہش کی کہ وہ ان کے عدم خروج کی ضمانت دیں۔ (دمعۃ ساکبہ ص ۴۰۷)

حضرت مختار کی رہائی

حضرت مختار کی ضمانت کا سوال پیدا ہونا تھا کہ تمام روسائے کوفہ اس کے لیے تیار ہو گئے بالاخر دس معززین ضمانت کیلئے حکومت کی طرف سے منظور کیے گئے جب دس معززین دربار میں داخل ہوئے۔ تو حضرت مختار قید خانے سے دربار میں لائے گئے اور ان سے کہا گیا کہ تم اس بات کی قسم کھاؤ کہ رہائی کے بعد خروج نہ کرو گے اور اگر تم نے ایسا کیا تو ایک ہزار اونٹ یا گائے خانہ کعبہ میں قربانی دو گے اور تمہارے پاس جتنے غلام ہوں گے ۔ سب راہ خدا میں آزاد ہوجائیں گے۔ حضرت مختار نے وعدہ کیا اور دس معززین نے بطور ضمانت اس کی تصدیق کی ، آخر کار حضرت مختار رہا کردئیے ے گئے اور وہاں سے روانہ ہوکر اپنے ماننے والوں کے جھرمٹ میں اپنے گھر پہنچے حمید بن مسلم کہتے ہیں کہ رہائی کے بعد حضرت مختار نے کہا کہ یہ لوگ کتنے احمق ہیں جو مجھ سے ہدی اور بدنہ کی قربانی اور آزادی غلام کی قسم لیتے ہیں۔

بھلا خانہ کعبہ میں قربانی میرے لیے کیا مشکل ہے ۔ اب رہ گیا آزادی غلام کاسوال تو میں حضرت امام حسینعليه‌السلام کے خون بہا کے بعد خود ہی سب کو آزاد کردوں گا۔ میرا مقصد قاتلان حسینعليه‌السلام کو ان کے کیے کا بدلا دینا ہے اور بس اس کے بعد تو میں اپنی زندگی کا بھی خواہش مند نہیں ہوں۔ (نورالابصار ص ۸۸ ، ذوب النضار ابن نما ص ۴۰۷، ضمیمہ بحار جلد ۱۰ ، دمعۃ ساکبہ ص ۴۰۷)

مورخ طبری کا بیان ہے کہ والی کوفہ نے اس کی بھی قسم دے دی تھی کہ تم اپنے گھر سے باہر نہ نکلنا چنانچہ حضرت مختار اپنے گھر میں مقیم رہ کر اپنے مقصد کی تکمیل و تعمیل میں سرگرم رہے ۔ (تاریخ طبری جلد ۴ ص ۶۵۳) حضرت مختار قاتلان امام حسینعليه‌السلام کے قتل کا منصوبہ بنائے ہوئے اس کے اسباب کی فراہمی میں لگے ہوئے تھے۔ لیکن وہ لوگ جو اس منصوبہ سے متفق نہ تھے ان کی سعی پیہم یہ تھی کہ مختار اپنے ارادے سے باز آئیں۔ اس سلسلہ میں لوگوں نے حتی المقدور کا میابی کی سعی کی حجاج بن یوسف جو عبدالملک بن مروان کا منہ چڑھا جرنیل تھا۔ اسے یہ ہر وقت فکر تھی کہ کسی طرح مختار کے وجود سے زمین خالی کردی جائے۔ قتل حضرت مختار کیلئے حجاج بن یوسف ثقفی کی سعی بلیغ مورخین کا بیان ہے کہ مروان بن حکم ۳ رمضان المبارک ۶۵ھ میں فوت ہوا اور اس کی جگہ پر اسی تاریخ عبدالملک بن مروان خلیفہ وقت بنایا گیا ۔ اس کی حکومت شام اور مصر میں قائم ہوئی۔ (تاریخ ابوالفدا جلد ۲ ص ۱۴۸)

یہ کوفہ پر حکومت کرنے کیلئے بے چین تھا۔ اس نے جس وقت خلافت سنبھالی ہے۔ اس وقت ممالک اسلامیہ میں بڑا انتشار تھا، عبداللہ ابن زبیر حجاز پر حکومت کرتا تھا۔ عراق میں بھی اس کی بیعت کرلی گئی تھی ۔

لیکن اس میں اس کو پورا اقتدار حاصل نہیں ہواتھا ایک گروہ شیعوں کا آل محمد کیلئے پرچار کرتا تھا۔ مروان نے زیر قیادت عبیداللہ ابن زیاد ایک لشکر زفربن حارث سے مقابلہ کیلئے بھیج دیا تھا جس کے سپرد سلیمان بن صرد سے مقابلہ بھی تھا ۔ عبدالملک نے عنان خلافت سنبھالنے کے بعد ابن زیاد کو لکھ دیا تھا کہ تو بدستور کام کرتا رہے۔ (تاریخ الخضری جلد ۲ ص ۲۱۳ طبع مصر)

چنانچہ حضرت سلیمان بن صرد کی مہم کے بعد جب ابن زیاد شام واپس پہنچا تو مروان مرچکا تھا اور عبدالملک ابن مروان تخت نشین خلافت تھا۔ (تاریخ طبری جلد ۴، ص ۶۵۲)

عبدالملک ابن مروان نہایت سفاک اور خونریز بادشاہ گزرا ہے۔ اس کے پاس چند ایسے جرنیل تھے جو خونریزی میں اپنے بادشاہ کی مثال تھے جن میں حجاج بن یوسف ثقفی کو بڑا مقام حاصل تھا ، اس نے اپنے عہد حیات میں اس کثرت سے مسلمانوں کو قتل کیا ہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ مورخین لکھتے ہیں کہ جب عبدالملک ابن مروان بادشاہ ہوا تو اس نے قرآن کریم کو جو اس کی گود میں تھا بند کرکے کہا۔ ھذاخیرالعھدبک۔یہ تجھ سے آخری ملاقات ہے یا بقول ندوی ، اب تجھ میں اور مجھ میں جدائی پڑگئی۔ (تہذیب وتمدن اسلامی ص ۶۳ ، ۶۵)

یہ پہلا شخص ہے جس نے اسلام میں غدر کیا۔ خلفاء کے سامنے لوگوں کو بات کرنے سے روکا، نیکیوں کا حکم دینے سے باز رہا۔

اللہ کی کتاب سے کھیلا۔ اسی کے حکم سے حجاج مدینہ گیا اور باقی ماندہ اصحابِ رسول کو ذلیل کیا اور نشان ذلت کے طور پر حضرت انس بن مالک ، جابر بن عبداللہ انصاری اور سھل بن سعد ساعدی جیسے عظیم الشان اصحاب کی گردنوں اور ان کے ہاتھوں پر نشان لگائے ۔(تاریخ الخلفاء ص ۱۴۶` ۱۴۸)۔

اسی نے عبداللہ ابن زبیر کی سرکوبی کے لیے حجاج کو مکہ بھیجا جہاں بہت سے حاجی حج کیلئے جمع تھے اور چونکہ یہ خود فتنہ و فساد کا خوگر تھا اسی لیے بروایت طبری جب کہ مکہ جاکر کوئی بھی خونریزی کیلئے تیار نہ تھا ۔ حجاج تیار ہوکر رہ گیااس نے مکہ کا محاصرہ کیا ، آٹھ ماہ جنگ کرتا رہا۔ ہر روز کعبہ پر منجنیق سے پتھر پھنیکتا رہا ، لوگ حج سے بھی محروم رہے خوراک نہ پانے کی وجہ سے بہت سے لوگ ابن زبیر سے پھر کر اس کی پناہ میں چلے گئے اور یہ حالت ہوگئی کہ ابن زبیر کے پاس دو آدمیوں کے سوا کوئی باقی نہ رہا۔ (طبری تاریخ جلد ۴ ، ص ۶۶۶)

اور حد ہوگئی کہ خود اس کے بیٹے حمزہ اور حبیب حجاج کی پناہ میں جاپہنچے ۔ آخر کار ابن زبیر اپنی ماں اسما بنت ابی بکر کے مشورے سے تنہا باہر نکل آئے اور قتل ہوگئے اور حجاج نے اس کا سر کاٹ کر مدینہ بھجوادیا اور جسم کو دار پر لٹکوادیا پھر حجاج نے تعریضا ابن زبیر کی ماں کے ساتھ نکاح کا پیغام بھیجا۔ (تاریخ طبری جلد ۴ ص ۶۶۶ )

حجاج بن یوسف ،عبداللہ ابن زبیر کا کام تمام کرنے کے بعد مدینہ پہنچا اور اس نے وہاں ان اصحاب کو ستانا شروع کیا جو بلند حیثیت کے مالک تھے اس نے ان پر الزام یہ لگایا کہ وہ سب قتل عثمان میں شریک تھے۔ (تاریخ اسلام ص ۳۰۷)

ایک دفعہ انس بن مالک صحابی رسول سے کہا کہ بوڑھے تو نے گمراہیوں میں عمر کاٹی ۔ کبھی تو نے ابوتراب کی پیروی کی کبھی ابن زبیر کے ساتھ لگا۔ انس نے عبدالملک کو سارا واقعہ لکھا تو اس نے حجاج کو تہدیدی خط لکھا جس کے بعد اس نے ان سے معافی مانگ لی۔ (رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۹۸)

ایک دن اس نے گیارہ ہزار مسلمانوں کو قتل کرادیا اسی نے کمیل ابن زیاد کو قتل کرایا۔ بطام اور ان کے چار ہزار ساتھی تہ تیغ ہوئے۔ (تاریخ الخلفا ء ص ۱۵۰)

کوفہ کے دوران قیام حجاج کا لشکر لوگوں کے گھروں میں رہتا تھا بصرہ میں اس نے جاکر کشت و خون کیا ، جب بصرہ کے لوگ اسے مبارکباد دے کر باہر آئے تو حضرت خواجہ حسن بصری نے لوگوں سے کہا کہ آج میں نے ایسے سب سے بڑے فاسق و فاجر کو دیکھا ہے جسے اہل آسمان دشمن رکھتے ہیں ۔ حجاج کو جب اس کی خبر ملی تو اس نے خواجہ کو قتل کرانے کیلئے جلاد کو اپنے پاس بلا کر خواجہ صاحب کو بلا بھیجا۔ جب وہ آئے تو ان کی ظاہری تعظیم کی اور ان سے پوجھا کہ آپ عثمان اور علیعليه‌السلام کے حق میں کیا کہتے ہیں حسن بصری نے کہا کہ میں وہی کہتا ہوں جومجھ سے اور تجھ سے بہتر شخصیت کہتی تھی اس کے بعد جب آپ باہر برآمد ہوئے تو دربان نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ حضرت علیعليه‌السلام کو دشمن سمجھتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ حضرت علیعليه‌السلام ایک تیر تھے جو اللہ کی کمان سے دشمنان اسلام کی طرف چلتا تھا وہ رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا کے بھائی اور اس امت میں سب سے زیادہ بزرگ تھے۔ انہوں نے نہ خدائی عبادت میں کمی کی اور نہ اس کے مال میں تصرف بیجا کیا ،

تواریخ شاہد ہیں کہ حجاج کو سادات سے خصوصی دشمنی تھی ۔ ایک زمانہ میں محمد بن الحنفیہعليه‌السلام کے تدبر کی وجہ سے اس نے ذرا سکوت اختیار کر لیا تھا۔ (تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۴۱ )

ابن خلکان کہتا ہے کہ عبدالملک بن مروان بڑا ظالم اور سفاک تھا اور ایسے ہی اس کے گورنر حجاج عراق میں ، مہلب خراسان میں ، حسام بن اسمعیل حجاز اور مغربی عرب میں اور اس کا بیٹا عبداللہ مصر میں حسان بن نعمان مغرب میں حجاج کا بھائی محمد بن یوسف یمن میں ، محمد بن مروان جزیرہ میں ، یہ سب کے سب بڑے ظالم اور جبار تھے ۔

مسعودی لکھتا ہے کہ بے پروائی سے خون بہانے میں عبدالملک کے عامل اس کے نقش قدم پر چلتے تھے۔ مورخ ذاکر حسینعليه‌السلام لکھتے ہیں کہ حجاج نے اپنی گورنر ی کے زمانہ میں مدینہ کے لوگوں میں جن میں اصحاب رسول بھی تھے ۔ بڑے بڑے ظلم کیے عراق میں اپنی بیس برس کی طوفانی گورنری کے دوران میں اس نے تقریبا ڈیڑھ لاکھ بندگان خدا کا خون بہا یا جن میں سے بہتوں پر جھوٹے الزام اور بہتان لگائے گئے اس کی وفات کے وقت پچاس ہزار مردوزن زنداں میں پڑے ہوئے اس کی جان کو رو رہے تھے مہمل اور بے سقف قید خانہ اسی کی ایجاد ہے ۔ (تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۴۱)

ان ڈیڑھ لاکھ مرنے والوں میں ایک لاکھ بیس ہزار صرف وہ تھے جو کسی لڑائی کے بغیر مارے گئے تھے۔ (مشکوة شریف ص ۵۴۳) علامہ جلال الدین سیوطی بحوالہ ذہبی لکھتے ہیں کہ ماہ صفر ۶۴ھ میں یزید کی طرف سے جولشکر واقعہ حرہ میں مدینہ کو تباہ کرچکا تھا۔ وہی مکہ میں جاپہنچا اور اس نے ابن زبیر کا محاصرہ کرکے منجنیق سے خانہ کعبہ پر گولہ باری کی ۔ ربیع الاول ۶۴ھ میں یزید کا انتقال ہوگیا اور ابن زبیر حجاز کا خلیفہ بن گیااور شام کا بادشاہ مروان قرار پایا۔ ۶۵ھ میں مروان کے بعد عبدالملک ابن مروان بادشاہ ہوا۔ (تاریخ الخلفا ص ۱۴۶ ، ۱۴۸ )

عبدالملک شام اور مصر کا بادشاہ تھا ہی کہ اس نے ابن زبیر کو بیدخل کرکے ۶۵ھ ہی میں عراق پر بھی قبضہ کرلیا۔ اخذہ من ابن الزبیر اور عراق کو ابن زبیر سے چھین لیا۔ (تاریخ الخلفاء ص ۱۵۰ و تاریخ خضری جلد ۲ ص ۲۱۳ طبع مصر)

علما کا بیان ہے کہ اسی ۶۵ھ میں جب حجاج بن یوسف ثقفی کو بحوالہ حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام یہ خبر پہنچی کہ حضرت امیرالمومنینعليه‌السلام نے یہ روایت فرمائی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ امام حسن و امام حسین شہید کردئیے جائیں گے ۔ اور ان کے ساتھ جو واقعہ گزرے گا اس کے عوض خداوندعالم بدست مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی دنیا میں عذاب نازل کرے گا اور وہ ظالموں کو قتل کریں گے تو کہنے لگا کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تو کہا ہی نہیں اور ابن ابی طالبعليه‌السلام نے جو خبریں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے بیان کی ہیں۔ مجھے ان میں شک ہے اور علیعليه‌السلام بن الحسینعليه‌السلام ایک مغرور لڑکا ہے وہ جھوٹی باتیں بنایا کرتا ہے ۔ اور اس کے پیروان باتوں پر فریفة ہوجاتے ہیں۔ تم جاکر مختا رکو میرے پاس لاؤ۔ جب وہ حسب الطلب گرفتار ہوکر سامنے آیا تو حکم دیا کہ اس کو فرش چرمی (نطع) پر لے جاکر قتل کرڈالو آخر کار اس ملعون کے حکم سے فرش قتل بچھا کر مختار کو اس پر بٹھایا گیا ۔ مگر غلام ادھر ادھر پھرتے تھے اور تلوار نہیں لاتے تھے ، حجاج نے پوچھا کہ تاخیر کیوں ہورہی ہے جواب دیا کہ کنجی گم ہوگئی ہے ۔ بالاخر حضرت مختار کو حجاج قتل نہ کرسکا ۔

اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ علامہ مجلسی نے جلا ء العیون کے ۲۴۷پراور بحارالانوار جلد ۱ کے ص ۳۹۸ پر اور آقائے دربندی نے اسرار الشہادة ص ۵۲۹ پر حجۃ الاسلام محمد ابراہیم نے نورالابصار کے ص ۱۴،۱۷ پر اور علامہ محمد باقر نے دمعۃ ساکبہ کے ص ۴۰۳ پر حضرت امام حسن عسکریعليه‌السلام کی تفسیر کے حوالہ سے تحریر فرمایا ہے میں ان حضرات کی عبارات کے ترجمے سے قطع نظر کرکے خود اصل تفسیر کے ترجمے سے اس کی تفصیل تحریر کرتا ہوں۔ حضرت امام حسن عسکریعليه‌السلام (المتوفی ۲۳۲ ) بذیل آیہفانزلنا علی الذین ظلموا رجزا من السماء بما کانوایفسقون (بقرہ ) ہم نے ان لوگوں پر جنہوں نے ظلم کیا تھا ان کی حرکتوں کی وجہ سے عذاب نازل کردیا ۔

نزول عذاب کی وجہ سے ایک لاکھ بیس ہزار افراد ہلاک ہوگئے پھر دوبارہ ان کو اس عذاب طاعون نے آگھیرا تو پھر ایک لاکھ بیس ہزار افراد ہلاک ہوئے انہوں نے یہ خلاف ورزی کی تھی کہ جب وہ شہر کے دروازے پر پہنچے تو دیکھا کہ دروازہ بہت بلند ہے تب وہ کہنے لگے کہ ہم کو اس میں داخل ہوتے وقت رکوع کی ضرورت نہیں ہے یعنی ہم سے جو یہ کہا گیاتھا کہ جب دروازے کے اندر سے داخل ہوتو کہو(حطة ) ہم تو یہ سمجھے تھے کہ دروازہ بہت چھوٹا ہوگا ۔ اس لیے ہم کو وہاں رکوع کرنا ضروری ہوگا یہ دروازہ تو بہت بلند ہے اور حضرت موسیٰ اوریوشع بن نون کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ لوگ ہم سے کب تک مسخراپن کرتے رہیں گے اور مہمل باتوں پر ہم سے سجدہ کراتے رہیں گے ۔ یہ کہہ کر اپنی پیٹھ سب نے دروازہ کی طرف کرلی اور حطة کہنے کی بجائے جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا۔ حطا سمقانا کہا جس کے معنی گندم سرخ کے ہیں۔

امیرالمومنینعليه‌السلام نے فرمایا ہے کہ ان بنی اسرائیل کیلئے باب حطہ نصب کیا گیا تھا اے امت محمدی تمہارا باب حطہ اہلبیت محمد ہیں اور تم کو حکم دیا گیا ہے کہ ان کی ہدایت کی متابعت کرو اور ان کے طریق کو اپنے اوپر لازم کرلو ۔ تاکہ اس عمل سے تمہاری خطائیں اور گناہ معاف کیے جائیں اور نیکوں کی نیکی میں زیادتی ہواور تمہارا باب حطہ بنی اسرائیل کے باب حطہ سے افضل ہے کیونکہ وہ لکڑی کا دروازہ تھا اور ہم ناطق اور صادق اور قائم ہونے والے اور ہدایت کرنے والے اور صاحبان فضیلت ہیں چنانچہ رسول خدا نے ارشا دفرمایا ہے کہ آسمان کے ستارے غرق ہونے سے نجات پانے کا ذریعہ ہیں اور میرے اہلبیتعليه‌السلام میری امت کیلئے دین کی گمراہ ہونے سے بچنے کا باعث ہیں وہ زمین میں کبھی ہلاک نہ ہوں گے ۔

جب تک ان کے درمیان میرے اہل بیت میں سے کوئی شخص موجود رہے گا ۔ جس کی ہدایت اور طریقوں کی وہ لوگ پیروی کریں گے اور سنو ، آنحضرت نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص چاہے کہ اس کی زندگی میری دنیاوی زندگی کی مانند ہو اور اس کی موت مثل میری موت کے ہوا اور جنت میں ساکن ہو جس کا پروردگار نے وعدہ فرمایا ہے اس درخت سے فائدہ اٹھائے جس کو حق تعالیٰ نے اپنے دست قدرت سے لگایا ہے اور لفظ کن سے اسے پیدا کیا ہے اس کو چاہیے کہ علی بن ابی طالبعليه‌السلام کی ولایت کو اختیار کرے اور اس کی امامت کا اقرار کرے اور اس کے دوست کو دوست رکھے اور اس کے دشمن کو دشمن رکھے۔ اور اس کے بعد اس کے فرزندوں (ذرّیت) کی جو صاحبان فضیلت اور مطیعان پردردگار ہیں۔

ولایت کو اختیار کرے کیوں کہ وہ میری طینت سے پیداہوئے ہیں۔ اور خدا نے میرا علم و فہم ان کو عطا کیا ہے۔ وائے ہو میری امت کے ان لوگوں پر جوان کی فضیلت کی تکذیب کریں اور میرے پیوند کو ان سے قطع کریں اور ان کی نافرمانی کریں ۔ خدا میری شفاعت ان کو نصیب نہ کرے۔ اور جناب امیرعلیہ السلام نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جس طرح بعض بنی اسرائیل اطاعت کرنے کے سبب سے معزز و مکرم ہوئے اور بعض نافرمانی کرنے کی وجہ سے عذاب میں گرفتار ہوئے ۔اسی طرح تمہارا حال بھی ہو گا ۔اصحاب نے عرض کی کہ یا امیر المومنین علیہ السلام نافرما نبردار کون لوگ ہیں ۔آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم اہلبیتعليه‌السلام کی تعظیم کرنے اور ہمارے حقو ق کو بزرگ جاننے کا حکم ہو ا۔اور انہوں نے اس کے خلاف کیا ۔اور نافرمانی کی اور ہمارے حق کا انکار کیا اور اس کو خفیف او ر سبک سمجھا ۔اور اولاد رسول کی جن کی تعظیم کرنے اور ان سے محبت کرنے کا حکم دیا گیا تھا قتل کیا ہو گا صحابہ نے عرض کیا یا امیرالمومنین ! کیا ایسا بھی عالم و قوع میں آئے گا ؟فرمایاہاں یہ خبر بالکل سچ اور صحیح ہے ۔عنقریب یہ لوگ میرے فرزندوں حسن اور حسین کو قتل کریں گے ۔

بعد ازاں فرمایا کہ ان ظالموں میں سے اکثروں کو بہت جلد دنیا ہی میں اس شخص کی تلواروں کا عذاب لاحق ہو گا ۔جس کو اللہ تعالیٰ ان کے فسق و فجور کا انتقام لینے کے لئے ان پر مسلط کرے گا ۔جیسا کہ بنی اسرائیل پر دنیا میں عذاب نازل ہوا تھا ۔اصحاب نے عرض کی کہ مولا ! وہ کون شخص ہوگا ۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ بنی ثقیف کا چشم و چراغ (مختار ابن ابی عبیدہ )ہو گا ۔

حضرت اما م زین العابدین علیہ السلام کا ارشا د ہے کہ یہ واقعہ جناب امیر کی خبر دینے کے کچھ عرصہ کے بعد وقوع میں آیا ۔کسی شخص نے جناب امام زین العابدین علیہ السلام کی زبانی حجاج بن یوسف ثقفی کو یہ خبر پہنچائی تو وہ بولا کہ رسول خدا نے تو یہ کہا ہی نہیں اور علی ابن ابی طالب نے جو خبریں رسول کی طرف سے بیان کی ہیں۔ مجھے ان میں شک ہے اور علی بن الحسین ایک مغرور لڑکا ہے وہ جھوٹی باتیں بنایا کرتا ہے ۔

اور اس کے پیروان باتوں پر فریفة ہو جاتے ہیں ۔یہ کہہ کر انہوں نے سپاہوں کو حکم دیا کہ تم جا کر مختار کو میرے پاس پکڑ کر لاؤ۔ (میں ابھی اسے قتل کیے دیتا ہوں اور اس کے قتل ہو جانے سے علیعليه‌السلام کے بیان کی حقیقت وا ضح ہو جائے گی جب حضرت مختار حسب الطلب گرفتار کرکے سامنے پیش کیے گئے تو حجاج نے حکم دیا کہ انہیں (نطع )فرش چرمی پر بیٹھا کر قتل کر دو ، اس کے حکم کے مطابق جلاد اور غلام نے حضرت مختارکو اس چمڑے پر کردیا جس پر بٹھا کر لوگ قتل کیے جاتے تھے ۔بٹھانے کے بعد جلاد ادھر ادھر گھومنے لگے اور کوئی تلوار لے کر نہ آیا ۔حجاج نے ان سے کہا کہ تم کو کیا ہوگیا ہے قتل کیوں نہیں کرتے ۔وہ بولے خزانہ کی کنجی گم ہو گئی ہے ۔اور تلوار خزانہ میں رکھی ہے ۔مختار نے آواز دی ۔

اے حجاج تو مجھے قتل نہیں کر سکتا اور رسول خدا کا قول ہر گزجھوٹا نہ ہوگا اور سن اگر تو مجھے قتل بھی کر دے گا تو خداوند عالم مجھے پھر زندہ کرے گا تاکہ میں تم سے تین لاکھ تراسی ہزار آدمیوں کو قتل کروں تب حجاج نے اپنے ایک دربان کو حکم دیا کہ اپنی تلوار جلاد کو دے دے ۔تاکہ وہ اس سے مختار کو قتل کرے۔ الغرض جلاد اس دربان کی تلوار لے کر مختار کو قتل کرنے کے ارادے سے آگے بڑھا ۔حجاج اس دوران میں باربار پکار کہ کہہ رہا تھا تا خیرمت کر فوراً قتل کردے ۔وہ مختار کو قتل کرنا ہی چاہتا تھااور اس کے قریب پہنچا ہی تھا کہ خدا نے اس پر نیند مسلط کر دی اور اونگھ کر زمین پر گر پڑا اور اس کی تلوار اس کے اپنے شکم میں در آئی ۔ خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا تلوار کے لگتے ہی وہ ہلاک ہو گیا ۔

اس کے بعد حجاج نے ایک دوسرے جلاد کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ بلاتا خیر مختار کو قتل کر دے وہ حکم سے تلوار لیے ہوئے آگے بڑھا اور تلوار علم کرکے چاہا کہ مختار کی زندگی کا فیصلہ کر دے۔ابھی تلوار کا وار سر نہ ہونے پایا تھا کہ ایک بچھو نے اسے ڈنگ مار دیا وہ زمین پر گر کر لوٹنے لگا اور چند منٹوں میں ہلاک ہو گیا ۔حضرت مختار نے پھر پکار کر کہا کہ اے حجاج تو مجھے قتل نہیں کر سکتا ارے تیرے پیش نظر کیا نزاربن سعد بن عدنان کا قول نہیں ہے اور تو اس سے عبرت حاصل کرنا نہیں چاہتا ۔جو اس نے اس وقت جبکہ شاہ پور ذوالاکتاف عرب کو قتل کرتا تھا اور ان کی بیخ کنی کرتا تھا تجھے یا د ہو گا کہ نزار نے جب عرب کی حد سے زیادہ خونریزی دیکھی تو اس سے برداشت نہ ہو سکا ۔اور اس نے اپنے لوگوں سے کہا کہ مجھے ایک زنبیل میں ڈال کر شاہ پور کے راستے میں رکھ دو ۔چنانچہ لوگوں نے اسے اٹھا کر اس راستے میں رکھ دیا ۔جس سے شاہ پور بادشاہ گزرنے والا تھا ۔جب شاہ پور ادھر سے گزرا اور اس کی نظر نزاربن سعد پر پڑی تو پوچھا کہ تو کون ہے اور یہاں کیوں آیا ہے تو نزارنے نے جواب دیا کہ میں ایک مرد عرب ہوں تجھ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ تو عرب کو بے قصور کیوں قتل کر رہا ہے ۔

جو لوگ سرکش تھے اور تیری سلطنت میں فساد برپا کرتے تھے ان کو تو تو پہلے ہی قتل کر چکا ہے ۔اب اس ناحق خونریزی کا کیا باعث ہے ۔شاہ پور نے جواب دیا کہ میں گزشتہ کتابوں میں پڑھا ہے کہ عرب میں ایک شخص محمد نامی پیدا ہو گا جو نبوت کا دعویٰ کرے گا اور سلاطین عجم کی سلطنت اس کے ہاتھوں تباہ و برباد ہو گی اس لئے میں ان کو قتل کرتا ہوں تاکہ وہ شخص پیدا ہی نہ ہونے پائے۔ نزار نے کہا کہ اگر یہ بات تو نے جھوٹوں کی کتاب میں پڑھی ہے اور اس میں لکھی ہوئی دیکھی ہے تو جھوٹے لوگوں کے کہنے اور لکھنے سے بے خطا لوگوں کو کیوں قتل کرتا ہے اور اگر یہ سچی لوگوں کا قول ہے تو اللہ تعالیٰ ضروراس اصل کی حفاظت کرے گا جس سے وہ شخص پیدا ہوگا ۔اور تو ہرگز اس کے باطل ہونے پر قادر نہیں ہو سکے گا اور اس کا حکم ضرو ر جاری ہوگا ۔اور وہی ہو کر رہے گا اگرچہ عرب میں ایک شخص باقی رہ جائے نزار کی یہ لاجواب تقریر سن کر شاہ پور نے کہا کہ اے نزار (بمعنی لاغر )تو نے سچ کہا ۔اس کے بعد اس نے اپنے لشکر والوں سے کہا کہ عرب کے قتل سے ہاتھ اٹھالو ۔جو ہونے والا ہے ہوکے رہے گا ۔ہماری کوشش سے کچھ نہیں ہوتا ۔

یہ سن کر عرب کے قتل سے شاہ پور باز رہا ۔ اس کے بعد حضرت مختار نے کہاکہ اے حجاج اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے کہ میں تم میں سے تین لاکھ تراسی ہزار آدمی قتل کروں۔اب تیر ا جی چاہے میری قتل کا ارادہ کراور چاہے نہ کر ۔میں کہتا ہوں کہ یا تو اللہ تعالیٰ تجھے میرے قتل سے باز رکھے گا ۔ یا مجھے قتل کے بعد پھر زندہ کرے گا۔کیونکہ رسول خدا کا قول سچا ہے ،اس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ یہ سننے کے بعد حجاج کو اور زیادہ غصہ آگیا ۔اور جھنجلا کر کہنے لگا کہ میں تجھے اسی وقت قتل کروں گا اور زندہ نہ چھوڑوں گا۔چاہے کچھ ہو جائے ۔یہ کہہ کر اس نے پھر جلاد کو حکم دیا کہ مختار کو فوراً قتل کر دے ۔

مختار نے پکار کر کہا کہ اے حجاج ہوش کی کر میں پھر تجھ سے کہتا ہوں کہ تو مجھے ہر گز قتل نہ کر سکے گا ۔اے حجاج بہتر یہ ہو گا کہ تو جلاد کو حکم دینے کی بجائے خود مجھے قتل کرتا کہ خداوند عالم جس طرح تیرے ایک جلاد پر بچھو مسلط کر چکا ہے تجھ پر سانپ مسلط کرے اور وہ تجھے ڈس لے حجاج کو غصہ اور تیز ہوگیا ۔اس نے جلاد کو ڈانٹ کر کہا کہ کیا دیکھتا ہے فوراً مختار کا کام تمام کر دے اور اب میں ایک منٹ بھی اس کا زندہ رکھنا نہیں چاہتا ۔یہ سن کر جلاد نے تلوار اٹھائی اور چاہتا ہی تھا کہ گردن پر لگائے کہ اتنے میں عبد الملک بن مروان کا ایک خاص نامہ بر داخل دربار ہو کر جلاد کو چیخ کر پکارا ۔

ٹھہرنا مختار کی گردن پر تلوار نہ لگنے پائے ۔یہ کہہ کر اس نے حجاج کے ہاتھ میں ایک خصوصی خط دیا جو عبد الملک بن مروان کا لکھا ہوا تھا اس میں مرقو م تھا ۔

بسم الله الرحمن الرحیم

اما بعد اے حجاج بن یوسف میرے پاس ایک نامہ برپرندہ ایک چٹھی لایا ہے اس میں لکھا ہے تو نے مختار کو گرفتار کیا ہے اور اس خیال سے تو اس کو قتل کرنا چاہتا ہے کہ تو نے سنا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا ہے وہ بنی امیہ کے اعوان و انصار میں تین لاکھ تراسی ہزار آدمیوں کو قتل کرے گا ۔جب میری چٹھی تیرے پاس پہنچے اسی وقت اس کو چھوڑ دے اور نیکی کے سوا اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کر کیونکہ وہ میرے بیٹے ولید کی دایہ کا شوہر ہے اور جو روایت کہ تو نے سنی ہے اگرچہ وہ جھوٹی ہے تو جھوٹی خبر سے ایک مسلمان کا قتل کرنا کیا معنی اور اگر سچ ہے تو رسول خدا کا قول کو ہر گز نہ جھٹلا سکے گا ۔

والسلام

اس خط کو پاتے ہی حجاج کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور سر بگر یباں ہو کر سوچنے لگا ۔کہ اب میں کیا کروں اور کس طرح مختار کو تلوار کے گھاٹ اتاروں ۔بالآخر حجاج نے حضرت مختار کو چھوڑ دیا اور ان کے قتل سے باز آیا ۔

حضرت مختار جب وہاں سے باہر نکلے تو کہنے لگے کہ حجاج میرے قتل کو غلط ارادہ کرتا تھا میں تو ابھی اس وقت تک زندہ رہوں گا ۔جب تک بنی امیہ کا خاتمہ نہ کروں۔میرے خروج کا زمانہ قریب ہے اور انشاء اللہ خروج کرتے ہی بنی امیہ کے لیے زمین خدا تنگ کردوں گا ۔اور ان کے خون سے چہرہ ارضی کو لالہ زار بنا دوں گا۔ جب حجاج کو حضرت مختار کے ارشاد کی خبر پہنچی تو اس نے پھر انہیں گرفتار کر الیا اور اپنے دربار میں بلا کر کہا کہ تم اپنے دعویٰ سے باز آجاؤ ۔ورنہ میں تمہیں ضرور قتل کردوں گا ۔

حضرت مختار نے فرمایا کہ اے حجاج میں پہلے بھی تجھ سے کہہ چکا ہوں اور اب پھر کہتا ہوں کہ تو میرے قتل کا حوصلہ نہ کر تو مجھے ہر گز قتل نہیں کر سکتا ۔دیکھ خداوندعالم کے حکم میں مداخلت نہ کر اس کی مشیت میں گذر چکا ہے ۔کہ میں قاتلان حسین کو ضرور قتل کروں گا۔ خدا کے منشاء میں فرق نہیں آسکتا ۔تو اس کی ترد یدمت کر یہ سن کر حجاج کو پھر غصہ آگیا ۔اور اس نے حضرت مختار کے قتل کا سامان فراہم کیا۔ ابھی حضرت مختار کو جلاد قتل کے لیے نہ لے جا سکے تھے کہ ناگاہ ایک نامہ بر ۱ کبوتر نے عبد الملک ابن مروان کا خط حجاج تک پہنچایا ،اس میں مثل سابق لکھا تھا :۔

بسم الله الرحمن الرحیم

اما بعد اے حجاج مختار سے کچھ تعرض نہ کر کیونکہ و ہ میر ے بیٹے ولید کی انّا کا شوہر ہے اور اگر وہ سچا ہے تو اس کے قتل کرنے سے روکا جائے گا ۔جیسے دانیال کو بخت نصر کے قتل سے روکا گیا جس کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے قتل کرنے کے مقرر کیا تھا۔والسلام الغرض حجاج نے بادل نخواستہ حضرت مختار کو چھوڑ دیا ۔اور چھوڑتے وقت ان کو بہت ڈرایا دھمکایا اور ہدایت کی کہ اب میں کبھی تمہاری زبان سے ایسی بات نہ سنو ں ۔حضرت مختار اس کے پاس سے نکل کر اسی قسم کی باتیں پھر کرنے لگے ۔اور ان کی گفتگو نے کافی شہرت حاصل کرلی حجاج کو جب اس کی پھر اطلاع ملی تو اس نے سپاہی بھیج کر حضرت مختار کو گرفتار کرانا چاہا مگر حضرت مختار اس مرتبہ دستیاب نہ ہو سکے ۔ایک مدت تک سپاہی محو تلاش رہے ۔

بالآخر ایک دن وہ گرفتار ہو ہی گئے ۔اب کی مرتبہ حجاج نے عزم با بحزم کر لیا تھا اور طے کر چکا تھا کہ اس دفعہ ضرور قتل کروں گا حضرت مختار کی گرفتاری کے فوراً بعد اس نے جلاد کو حکم دیا کہ انہیں جلد از جلد قتل کر دے جلاد حضرت مختار کو قتل کرنے کے لئے جا رہاتھا کہ ناگاہ مثل سابق پھر عبد الملک بن مروان کی چٹھی پہنچی۔تب اس نے مختار کو قید کر دیا اور عبدا لملک کو ایک عرضی لکھی جس کا مضمون یہ تھا کہ تو ایسے کھلم کھلا دشمن کو کیونکر اپنا سمجھتا ہے جو یہ خیال رکھتا ہے کہ میں بنی امیہ کے اعوان و انصار میں سے اس قدر آدمیوں کو قتل کروں گا جس کی کوئی انتہا نہ ہو گی ۔ عبد الملک بن مروان نے اس جواب میں کہلا بھیجا کہ اے حجاج تو کیسا جاہل ہے اگریہ خبر جھوٹی ہے تو ہم اس کی زوجہ کے حق کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔جس نے ہماری بڑی خدمت کی ہے۔ اس کی رعایت ضروری ہے اور اگریہ بات سچ ہے تو ہم عنقریب دیکھیں گے کہ وہ ہم پر مسلط ہو گا۔ جس طرح فرعون نے موسیٰ کی پرورش کی اور وہی اس پر مسلط ہوا ۔

اس پیغام کے سننے کے بعد حجاج نے مختار کو قتل تو نہ کیا لیکن انہیں عبد الملک ابن مروان کے پاس بھیج دیا عبدالملک نے انہیں آزاد کر دیا ۔اور مختار خدا کے منشا کے مطابق وقت مقررہ پر میدان میں آکر اپنے منصوبہ میں کامیاب ہوئے ۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے اصحاب نے آپ کی خدمت میں عرض کی ۔اے مولا ! حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے مختار کے معاملہ کا ذکر تو فرمایا کہ یہ واقعہ کب ظہور میں آئے گا ۔اور مختار کس کس کو قتل کریں گے ۔حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت امیر المومنین نے سچ فرمایا ہے اور کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں اس واقعہ کے وقت وقوع سے مطلع کروں ۔اصحاب نے عرض کی مولا ضرور ارشاد فرمائیے ۔

آپ نے فرمایا کہ یہ واقعہ تیسرے سال ہوگا ۔اور اس کے اختتام تک عبید اللہ ابن زیاد وغیرہ کے سر ہمارے پاس پہنچیں گے اور جس وقت یہ سر پہنچیں گے ہم ناشتہ کرتے ہوں گے اور ان کے سروں کو خوشی کے ساتھ دیکھیں گے ........اس کے بعد حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے قول کی طرف رجوع کی کہ آپ نے فرمایا کہ جو عذاب کا فروں اور فاسقوں کے لیے مہیا کیا گیا ہے وہ بہت بڑا اور زیادہ دیر پا ہے ۔اس کے بعد جناب امیر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ہم اپنے فرمانبرداروں کے لئے خدا سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور وہ ان کی نیکیوں کو زیادہ کرتا ہے ۔اصحاب نے عرض کی کہ یا امیر المومنین علیہ السلام آپ کے مطیع اور فرمانبردا ر کون لوگ ہیں ،فرمایا کہ وہ لوگ جو اپنے پروردگار کو واحد جانتے ہیں اور ان صفات سے اس کو موصوف کرتے ہیں ۔جو اس کے لائق ہیں اور اس کے پیغمبر حضرت محمد مصطفے ٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کے فرائض کے ادا کرنے اور محرمات کے ترک میں خدا کی اطاعت کرتے ہیں ۔اور اپنے وقتوں کو ذکر خدا کرنے اور محمد وآل محمد پر درود میں صرف کرتے ہیں اورا پنے نفسوں سے حرص و بخل کو دور رکھتے ہیں اور زکوٰة جو ان پر فرض کی گئی ہے۔ اسے ادا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ (آثار حیدری ترجمہ تفسیر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ص۴۸۰تا۴۸۶طبع لاہور)