مختار آل محمد

مختار آل محمد0%

مختار آل محمد مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ

مختار آل محمد

مؤلف: مولانا نجم الحسن کراروی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27146
ڈاؤنلوڈ: 3287

تبصرے:

مختار آل محمد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 26 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27146 / ڈاؤنلوڈ: 3287
سائز سائز سائز
مختار آل محمد

مختار آل محمد

مؤلف:
اردو

سولہ واں باب

حضرت مختار کا نعرہ انتقام

حضرت مختار کا نعرہ انتقام امیر مختار کے لیے پچاس معززین کوفہ کی تصدیق حضرت محمد حنفیہعليه‌السلام کے پاس جانا اور جناب محمد حنفیہعليه‌السلام کی حاضری خدمت حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام میں حضرت مختار ،عبد الملک ابن مروان کے خوانحوار جرنیل حجاج بن یوسف ثقفی کے دست تعدی سے بچ کر عراق سے کوفہ پہنچے ،یہاں پہنچ کر آپ نے اپنا نعرہ انتقام بلند فرمایا ۔اہل کوفہ چونکہ مکمل طور پر آپ کی تائید میں تھے۔ لہٰذا انہوں نے آپ کی تحریک کو کامیاب کرنے میں پور ا ساتھ دیا ۔ہر طرف سے تائیدات کی صدائیں بلند تھیں ۔ہر شخض آپ کی حمایت کے لیے بے چین تھا ۔کوفہ کی گلی کو چے میں آپ کا پروپیگنڈا جاری تھا ۔اور لوگ جوق در جوق بیعت کے لیے پھٹے پڑتے تھے ۔

آپ جس عہد کے مطابق بیعت لے رہے تھے ۔وہ یہ تھا کہ قرآن مجید اور رسول پر عمل کرنا ہوگا ۔امام حسینعليه‌السلام اور اہل بیت رسول کے خون بہا لینے میں مدد کرنی ہو گی ۔ اور ضعیف و کمزور شیعوں کی تکالیف کا مداویٰ کرنا ہوگا ۔(نور الابصار ص۸۲)

صاحب رو ضۃ الصفا کا بیا ن ہے کہ جس شخص کے دل میں محبت اہل بیت رسول ذرا سی بھی تھی اس نے مختار کی بیعت میں تاخیر نہیں کی ۔علامہ محسن الا مین کا بیان ہے کہ حضرت مختار کی آواز پر جن لوگوں نے سب سے پہلے لبیک کہا وہ اہل ہمدان تھے ۔اور اہل عجم کے وہ لوگ تھے ۔جو کوفہ میں آباد تھے جن کی تعداد بیس ہزار کے لگ بھگ تھی ۔(اصدق الاخبار ص ۳۸)

حضرت مختار اپنی پوری توجہ کے ساتھ فراہمی اسباب میں منہمک تھے اور لوگوں کو اپنی طرف برابر دعوت دے رہے تھے اور اسی دوران میں عبد اللہ بن زبیر نے اپنے دونوں والی عبد اللہ ابن یزید اور ابراہیم محمد بن طلحہ کو معزول کر دیا اور ان کی جگہ پر عبد اللہ ابن مطیع کو ریاست کوفہ کے لئے اور حارث بن عبد اللہ بن ابی ربیعہ کو حکومت بصرہ کے لیے بھیج دیا عبد اللہ ابن مطیع نے کوفہ میں داخل ہوتے ہی اپنا کام شروع کر دیا ۔کہ جامع مسجد میں تمام لوگ جمع ہوں جب لوگوں سے مسجد چھلکنے لگی تو اس نے منبر پر جا کر خطبہ دیا جس میں اس نے کہا مجھے حاکم وقت عبد اللہ ابن زبیر نے کوفہ کو گورنر بنا کر بھیجا ہے ۔

اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں شہر کو قابو میں رکھوں اور اخذاموال کا فریضہ ادا کروں لیکن میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تم پر بالکل اسی طرح حکومت کروں گا جس طرح عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان نے کی ہے اب تم تقویٰ اورپرہیز گاری اختیار کرو اور خاموشی سے زندگی بسر کرنے کی فکر کرو ۔شر اور فساد شورشرابا کا خیال بالکل ذہن سے نکال دو ۔اور تم میں جو احمق قسم کے لوگ ہیں ۔

انہیں اختلافات اور حکومت کی مخالفت سے باز رکھوں اور انہیں سمجھاؤ کہ اعمال صالحہ کریں ورنہ گرداب عمل میں گرفتار ہوں گے ۔ عبد اللہ بن مطیع ابھی منبر سے اترنے نہ پایا تھا کہ ایک دلیر شخص نے جس کا نام صائب بن مالک اشعری تھا مجمع میں کھڑا ہو گیا اور ابن مطیع کو مخاطب کرکے بولا اے امیر تو نے اپنی تقریر میں حضرت عمر اور حضرت عثمان کی سیرت پر عمل کرنے کا حوالہ دیا ہے اور تو چاہتا ہے کہ کوفہ میں ان دونوں کی سیرت کی روشنی میں حکومت کرے۔ ہم تجھ سے پوچھتے ہیں کہ تو نے حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب کی سیرت عمل کا حوالہ کیوں نہیں دیا ۔اور اپنے خطبہ میں ان کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ ابن مطیع نہ ہم حضرت عمر کی سیرت چاہتے ہیں نہ حضرت عثمان کی سیرت کے خواہاں ہیں ۔

ہمیں تو صرف سیرت امیر المومنین علیہ السلام چاہیئے ۔اگر تو کوفہ میں رہ کر ان کی سیرت پر عمل کرے گا تو ہم تیری رعایا اور تو ہمارا حاکم ۔

اور اگر تو نے ان کی سیرت نظر انداز کر دی تو یاد رکھ کہ ہمارے درمیان ایک پل بھی حکومت نہ کر سکے گا ۔ صائب ابن مالک کا یہ کہنا تھا کہ مجمع سے صدائے تحسین و آفرین بلند ہو گئی ۔اور سب کے سب صائب کی تائید میں بول اٹھے۔مسجد میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور ہر طرف سے صائب کے لیے تائیدی آوازیں بلند ہونے لگیں ۔

عبدا للہ ابن مطیع نے پکار کر خاموش رہنے کی ہدایت کی اور کہا کہ تم لوگ گھبراؤ مت میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے درمیان اسی طرح حکومت کروں گا۔ جس طرح تم لوگ خود چاہو گے ۔ اس ہنگامہ خیزی کے بعد عبد اللہ ابن مطیع مسجد سے برآمد ہوا اور سیدھا اپنے دار الا مارہ میں جادا خل ہوا ۔

اور مسجد کے لوگ بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے مسجد میں جو واقعہ گزرا ،اس سے ارکان دولت میں کھلبلی مچ گئی۔ اور سب نتائج پر غور کرنے لگے ۔بالآخر کو توال کوفہ ایاس بن مضارب عجلی ، عبد اللہ بن مطیع کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے امیر تجھے معلوم ہے کہ جس شخص نے دوران خطبہ میں اعتراض کیا تھا وہ کون ہے ۔عبد اللہ نے کہا کہ مجھے علم نہیں ۔ایاس نے جواب دیا کہ یہ مختار کے لوگوں کے سر براہوں میں سے ہے اے امیر کوفہ کے حالت روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں ۔(رو ضۃ الصفا جلد ۳ص۷۷)

حضرت مختار کی گرفتاری کا مشورہ

کوتوال کوفہ ایاس بن مضارب نے عبدا للہ ابن مطیع کے سامنے حالات حاضرہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کوفہ میں اچھا خاصاانتشار پیدا ہے اور اس انتشار کی تما م تر ذمہ داری کی مختار پر ہے اے امیر مجھے پتہ چلا ہے کہ مختار کی بیعت بڑی تیزی سے کی جارہی ہے ۔لوگ جوق در جوق بیعت کے لئے شب وروز چلے آتے ہیں ۔پتہ چلا ہے کہ ہزاروں افراد ان کے دائرہ بیعت میں داخل ہو چکے ہیں ۔اور میں نے یہ بھی سنا ہے کہ مختار عنقریب خروج کرنے والے ہیں ۔اے امیر یاد رکھ کہ اگر مختار میدان میں کھلم کھلا نکل آئے تو پھران کا سنبھالنا نہایت دشوار ہو گا ۔

عبد اللہ ابن مطیع نے کہا کہ تمہارے نزدیک اس کا انسداد کیونکر مناسب اور ممکن ہے ایاس بن مضارب نے کہا کہ اس کی صرف ایک ہی صورت ہے اوروہ یہ مختار کو جلد سے جلد گرفتار کر لیا جائے اور اس وقت تک نہ چھوڑ ا جائے جب تک تیری حکومت مستحکم نہ ہو جائے ۔ عبد اللہ ابن مطیع نے کوتوال کوفہ کی رائے پر غور کرنے کے بعد حکم دیا کہ مختار کو بلا یا جائے۔چنانچہ اس کام کے لئے زائد ہ بن قدامہ اور حسین بن عبد اللہ صمدانی کو طلب کیا گیااو ر ان سے جملہ حالات بتا کر انہیں ہدایت کر دی گئی کہ مختار میں مدد دینے کے لئے ان کو دربار میں لانے کے ارادے سے ردا نہ ہو ئے اور مختار تک جا پہنچے۔

ان دونوں نے حضرت مختار سے ملاقات کرنے کے بعد ان سے کہا کہ عبدا للہ ابن مطیع آپ کو ایک امر میں مشورہ کے لیے بلا رہا ہے۔ آپ تشریف لے چلئے ۔

حضرت مختار نے فرمایا کہ ابھی ابھی چلتا ہوں یہ کہہ کر فوراًلباس بدلا اور روانگی کے لئے تیار ہو کر وہ کھڑے ہو گئے ابھی باہر نہ نکلے تھے کہ زائدہ بن قدامہ میں جوان کو لے جانے والوں میں ایک تھا ۔یہ آیت پڑھی ۔ اذیمکر بک الذین کفر والیثبتوک ویخرجوک او یقتلوک۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار تمہارے ساتھ مکر کر رہے ہیں یا تمہیں یہاں سے نکال دیں گے ۔یا قتل کردیں گے ۔حضرت مختار نے جو نہی ا س آیت کو سنا وہ فوراً سمجھ گئے کہ میرا جانا خطرے سے خالی نہیں ۔

اگر میں گیا تو یقینا گرفتار کر لیا جاؤں گا ۔ یہ خیال کرتے ہی آپ نے اپنے غلام سے کہا کہ دیکھو اس وقت جبکہ میں یہاں سے روانہ ہو رہا ہوں مجھے سردی لگنے لگی ہے ۔اور دفعتہ بخار آگیا ہے ۔طبیعت بہت بے قابو ہے تو ہماری گلیم لا دے ۔غلام نے ضروری کپڑے اور سامان حاضر کر دیا ۔حضرت مختار نے اسے اور ڑھ لیا اور عبد اللہ ابن مطیع کے دونوں آدمیوں سے کہا کہ میری حالت تم دیکھ رہے ہو، مجھے دفعتاً بخار آگیا ہے۔ اس لئے اب میں تمہارے ساتھ اس وقت نہیں چل سکتا ۔تم جا کر عبد اللہ ابن مطیع سے وہ سارا واقعہ بیان کر جو تم نے دیکھا ہے ۔ یہ سن کر ابن قدامہ نے کہا کہ میرا تنہا کہنا کافی نہ ہوگا ۔میں تو اپنی طرف سے عرض احوالی میں بالکل کو تاہی نہ کروں گا ۔لیکن ضرورت ہے کہ حسین بن عبد اللہ بھی ہم خیال وہم زبان ہوں حضرت مختار نے حسین کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے حسینعليه‌السلام سن جو میں کہتا ہوں ۔

اسے کان دھر کے سن اور اس پر عمل کر ،یہ عمل تجھے ایک دن فائدہ پہنچائے گا ۔میرا کہنا یہ ہے کہ امیر کو میری جانب سے مطمئن کر دو ۔اور اسے یقین دلا دو ۔کہ میں مجبور اً اس وقت اس کی طلب پر اس کے پاس نہیں پہنچ سکا ۔ اس کے بعد حضرت مختار سے دونوں سفیر حکومت رخصت ہو کر واپس چلے گئے باہر نکلنے کے بعد حسین بن عبد اللہ ہمدانی نے اپنے ساتھی زائدہ ابن قدامہ سے کہا کہ میں سب کچھ سمجھتا ہوں کہ مختار آتے آتے کیسے رک گئے اور ان کے تمارض یعنی بیمار بننے کا سبب کیا ہے لیکن میں امیر کے سامنے اس کی وضاحت نہ کروں گا۔ کیوں کہ مجھے محسوس ہو رہا ہے ۔کہ مستقبل میں کوفہ مختار کے ہاتھ ہو گا ۔میں اس وقت راز کے چھپانے میں آئندہ کا فائدہ دیکھ رہا ہوں ۔الغرض عبد اللہ ابن مطیع کے دونوں فرستادے واپس آکر اس سے ملے۔زائد بن قدامہ نے بتایا کہ وہ آرہے تھے ۔دفعتہ بیمار ہو گئے ۔اس لئے حاضر نہ ہو سکے۔ حسین بن عبد اللہ نے زائدہ کی تائید کر دی اورابن مطیع خاموش ہو گیا ۔(رو ضۃ الصفا ء جلد۳ص۷۸ و تاریخ طبری جلد ۴ص۶۵۳)

حضرت مختار نے سعی خروج تیز کردی

عبد اللہ ابن مطیع کے دونوں سفیر تو واپس چلے گئے لیکن حضرت مختار کو یہ خیال پیدا ہو گیا کہ وہ اب ہماری گرفتاری میں کوشاں ہے لہٰذا انہوں نے سعی خروج تیز کردی مورخ ہروی کا بیا ن ہے کہ حضرت مختار نے یہ یقین کرنے کے بعد کہ ابن مطیع مجھے گرفتار کرے گا ۔اپنے اہل بیت کو جمع فرمایا اور ان سے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ میں خروج کروں ۔لہٰذا تم لوگ تیار ہو جاؤ اورمیدان کے لائق اسلحے وغیرہ فراہم کر لو ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ آپ کے حکم پر مر مٹنے کے لئے تیار ہیں ۔جب حکم ہو میدان میں نکل آئیں گے ۔ اور بروایت سعید ابن الجعفی لوگوں نے کہاکہ ہم اسباب خروج کی تیاری میں ہیں ہمیں اور چند دن کی مہلت ملنی چاہیے تاکہ مکمل تیاری کرلیں۔ (رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷۸)

جناب مختار کی تقریر چند یوم مہلت دینے کے بعد حضرت امیرمختار نے ایک جلسہ طلب کیا جب کثیر اصحاب جمع ہوگئے تو آپ نے ایک زبردست تقریر فرمائی جس میں آپ نے اپنے منصوبہ انتقام پر روشنی ڈالی اور کہا کہ واقعہ کربلا کا بدلہ لینے کیلئے اب ہمیں خروج کرنا ضروی ہے آپ کی تقریر کے بعد بہت سے لوگوں نے آپ سے کہا کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ کوفہ کے کافی افراد عبداللہ ابن مطیع سے ملے ہوئے ہیں اور وہ سب آپ سے مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم جناب ابراہیم ابن مالک اشتر کو بھی ہمنوابنالیں۔

حئی جاء معنا ابراهیم ابن ال اشتر خرجنا باذن اللّٰه تعالیٰ القوة علی عدونا فله ا لعشیرة الخ ۔

اگر ہمارے ساتھ مالک اشتر کے چشم و چراغ حضرت ابراہیم بھی ہوجائیں تو بڑی قوت پیدا ہوجائے گی اور ہم دشمنوں پر آسانی سے قابو حاصل کرسکیں گے کیونکہ وہ اپنی قوم کے سردار ہیں اور ان کے ساتھ بہت بڑا گروہ ہے حضرت مختار نے فرمایا کہ اچھا انہیں ہمنوابنانے کی سعی کرو اور اب ان تک میری آواز پہنچاؤ ۔ انہیں بتادوکہ ہم ذمہ داران اسلام سے اجازت نامہ لے کر آئے ہیں اور واقعہ کربلا کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ اگر وہ تمہارے کہنے سے ساتھ دینے پر آمادہ ہوگئے۔ تو فھو المراد اور اگر انہوں نے کچھ بھی تردد کیا تو میں خود ان کے مکان پر جاکر ان سے مدد کی درخواست کروں گا۔ حضرت مختار کے کہنے کے مطابق کچھ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ فلم یجب فانصرفوا۔ اور ان لوگوں نے حضرت مختار کا پیغام ان تک پہنچایا ۔

ابراہیم بن مالک اشتر نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور یہ لوگ واپس پلٹ آئے۔ (دمعۃ ساکبہ ص ۴۰۸ )

حضرت مختار جناب ابراہیم کے مکان پر

مورخ ہروی رقم طراز ہیں کہ حضرت مختا رکی خواہش کے مطابق عقلا کا ایک گروہ جن میں ابوعثمان المہندی اور عامر الشعبی بھی تھے۔ حضرت ابراہیم کی خدمت میں حاضرہوا۔ ابراہیم نے ان لوگوں کی بڑی عزت و توقیر کی اور فرمایا کہ اپنے آنے کا سبب بیان کرو ۔ تاکہ میں ان کی تعمیل وتکمیل پر غور کرسکوں۔ ان لوگوں میں سے یزید ابن انس نخعی جو فصاحت و بلاغت میں ممتاز تھے اور تیز زبان کے مالک تھے بولے کہ اے ابونعمان اہم اس مقصد کے لیے آئے ہیں کہ آپ کی خدمت میں ایک خاص بات اور ایک اہم امر کی د رخواست کریں ابراہیم نے فرمایا کہ مقصد بتاؤ تاکہ میں غور کرسکوں یزید ابن انس نے کہا کہ ہم لوگ کتاب خدا اور سنت رسول کی اتباع اور طلب خون حسینعليه‌السلام کے لیے کھڑے ہوئے ہیں اور لوگوں کو اسی امر کی دعوت دے رہے ہیں ۔

خدا کا شکر ہے کہ کوفہ کا بہت بڑا گروہ ہمارے ساتھ ہوگیا ہے اسی قسم کی بات احمد بن شمیط بجلی نے بھی کہی حضرت ابراہیم نے ان کے کہنے پر غور و فکر کیا اور سرداری کا حوالہ دیا ان لوگوں نے حضرت مختار کی بیعت کرلینے کا تذکرہ کرکے ان سے حمایت کی درخواست کی حضرت ابراہیم خاموش ہوگئے اور یہ لوگ وہاں سے واپس چلے آئے۔ ان لوگوں میں حضرت مختار کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا حضرت مختار نے تین دن خاموش رہنے کے بعد اپنے معتمد لوگوں کو طلب کیا اور انہیں ہمراہ لے کر حضرت ابراہیم کے مکان پر پہنچنا ضروری سمجھا۔ معززین کوفہ کاگروہ حضرت مختار کے ہمراہ حضرت ابراہیم کے مکان پر جاپہنچا ان لوگوں نے دربانوں سے اجازت دخول حاصل کی ۔ اور یہ لوگ اندر داخل ہوگے ۔

حضرت ابراہیم نے حضرت مختار کا بڑا احترام کیا ، اور تشریف آوری کا سبب پوچھا ۔ حضرت مختار نے فرمایا کہ میں نے واقعہ کربلا کے بدلا لینے کا فیصلہ کیا ہے اور شاید آپ کو علم ہوگا کہ میں اس سلسلہ میں کسی کے مکان پر آپ کے مکان کے سوا نہیں گیا آپ سید و سردار ہیں مجھے آپ کی امداد کی اس سلسلے میں شدید ضرورت ہے میں آپ کیلئے حضرت محمد حنیفہ کا ایک خط بھی لایا ہوں اس کے رو سے آپ کی امداد کا خواہش مند ہوں، حضرت ابراہیم نے خط طلب کیا حضرت مختار نے حضرت محمد حنفیہعليه‌السلام کا خط ان کے حوالہ کیا انہوں نے جب اس خط کو کھولا تو اس میں یہ لکھا دیکھا کہ میں نے مختار کو واقعہ کربلا کا بدلہ لینے کیلئے اپنا مختار اور ولی منتخب و مقرر کیا ہے، آپ ان کی مدد کریں اور ان کی اطاعت قبول کرلیں ۔

میں اس امر کا وعدہ کرتا ہوں کہ کوفہ سے اقصاء شام تک جتنے علاقے اس مہم کے سلسلہ میں زیر نگیں ہوں گے ان کی حکومت آپ کے حوالے کی جائے گی میں تمہاری اس عنایت کا شکر گزاررہوں گا اور دیکھو اگر تم نے اس امر میں کوتاہی کی تویاد رکھو کہ دنیا و آخر ت میں تمہیں گھاٹا ہوگا۔ حضرت ابراہیم نے خط پڑھنے کے بعد فرمایا کہ اے ابو اسحاق حضرت محمد حنیفہ کے خط کا جو انداز ہوتا تھا وہ اس خط میں نہیں ہے میں کیوں کر یقین کرلوں کہ یہ خط انہیں کا ہے حضرت مختار نے فرمایا کہ وہ زمانہ اور تھا اور یہ زمانہ اور ہے ۔ اصل خط انہیں کا ہے انداز چاہیے جو ہو اگر آپ اس امر کی تصدیق کے لیے گواہ چاہتے ہوں کہ یہ خط انہیں کا ہے تو میں گواہ پیش کرسکتا ہوں۔ (رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷۹)

مورخ طبری کا بیان ہے کہ اس خط میں صاف صاف لکھا تھا کہ مختار رابکوفہ فرستادم باادبیعت کیند و پدرت اوراز شیعیان مابودوتونیز ہمچناں باش میں نے مختار کو کوفہ بھیجا ہے ۔ تم ان کی بیعت کرو تمہارے والد مالک اشتر ہمارے مخلص اور شیعہ تھے تم ان کی پیروی کرو ۔ (تاریخ طبری جلد ۴ ص ۶۵۴)

حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ وہ کون لوگ ہیں۔ جو اس کی شہادت دیتے ہیں کہ یہ خط حضرت محمد حنفیہعليه‌السلام ہی کا ہے یہ سن کردہ پندرہ آدمی جو حضرت مختار کے ہمراہ تھے جن میں یزید بن انس احمر بن سعید اور عبداللہ ابن کامل تھے گواہی دی اور کہا ۔ نحن نعلم و نشھدانہ کتاب محمد الیک ۔ کہ ہم جانتے ہیں اور اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ خط حضرت محمد بن الخیفہ ہی کا ہے ۔ یہ سن کر حضرت ابراہیم اپنے مقام سے اٹھے اور انہوں نے حضرت مختار کی بیعت کی اور انہیں اپنے مقام پر بٹھایا اور خود نیچے اترکر بیٹھ گئے۔ (تاریخ طبری جلد ۴ ص ۴۵۶ و ذوب النضار ص ۱۰۸ اخذ الثار ابی مخنف ص ۴۸۸ ، دمعۃ ساکبہ ص ۴۰۸)

معززین کوفہ کے پچاس افراد محمد حنیفہعليه‌السلام کی خدمت میں

حضرت مختار کی واپسی کے بعد بقول امام اہلسنت علامہ عبداللہ ابن محمد حضرت ابراہیم نے یہ ضروری سمجھا کہ مزید اطمینان کے واسطے آپس میں تبادلہ خیالات کرلیا جائے چنانچہ انہوں نے دوسرے دن نماز صبح کے بعد اپنے اعزہ و اقربا سے واقعہ مختار پر تبصرہ کیا اور ان لوگوں سے بیعت کی خواہش کی ان لوگوں نے جواب دیاکہ معاملہ بہت اہم ہے۔ اس لیے ہمارے واسطے یہ امر ضروری ہے کہ ہم مختار کے متعلق حضرت محمد حنیفہ سے مزید اطمینان حاصل کریں اور اس کی صورت یہ ہے کہ ہمارے پچاس آدمی تصدیق امر مختار کے لیے حضرت محمد حنیفہ کی خدمت میں جائیں اور تصدیق کرکے واپس آئیں اگر انہوں نے تصدیق کردی تو ہم دل و جان سے لڑیں گے اور اپنی جائیں دیں گے اور اپنے جسم کا آخری قطرہ خون بہادیں گے اور اگر انہوں نے تصدیق نہ کی تو ہم خاموش ہوکر اپنے گھروں میں بیٹھ رہیں گے ۔ (قرة العین فی اخذالثارالحسین ص ۱۴۳ طبع بمئبی )

علامہ ہروی کا بیان ہے کہ حضرت محمد بن حنیفہ کے پاس پچاس افراد کے جانے کا فیصلہ سراے عبدالرحمن بن شریح ہمدانی میں ہوا تھا اس فیصلہ کے بعد پچاس افراد حضرت محمد بن حنیفہ سے تصدیق امر مختار کے لیے روانہ ہوگئے۔ منزلیں طے کرنے کے بعد جب ان کی خدمت میں پہنچے اور آستان بوس ہوئے اور ان کی خدمت میں پیش ہوئے تو انہوں نے پوچھا کہ آج کل تو حج کا زمانہ بھی نہیں ہے ۔ آخر تم لوگ کس لیے یہاں آئے ہو عبداللہ ابن شریح ہمدانی نے کہا کہ خداوندعالم نے آپ کو خاندانی عزت و بزرگی سے سرفراز فرمایا ہے۔ جو شخص آپ کی اطاعت نہ کرے وہ دنیا و آخرت میں نقصان اٹھائے گا۔ اس زمانہ میں خاندان رسالت بلکہ تمام اہل عرفان و معرفت غم امام حسینعليه‌السلام سے رنجیدہ ہیں حضرت مختار ہمارے وطن کوفہ میں آئے ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہم حضرت محمد حنیفہ کی طرف سے یہاں آئے ہیں اور ان کے خطوط کے حوالہ سے تم لوگوں سے بیعت چاہتے ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم حضرت امام حسینعليه‌السلام کے خون کا بدلہ لیں حضور ہم لوگوں نے کافی تعداد میں اس بنا پر ان کی بیعت کرلی ہے کہ وہ آپ کے خطوط دکھلا رہے ہیں تو عرض یہ ہے کہ اگر وہ آپ کی طرف مامور ہوں تو ہم تکمیل بیعت کریں اور ان کی پوری پوری امداد سے سرخرد ہوں ورنہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں۔

حضرت محمد حنیفہ نے فرمایا کہ جہاں تک ہماری عزت و حرمت کا تعلق ہے یہ خدا کا عطیہ ہے اور وہ جسے چاہتا ہے عزت عنایت فرماتا ہے اور حضرت امام حسینعليه‌السلام کا قتل دلدوز اور دلسوز ہے مختار کے بدلہ لینے کے متعلق یہ ہے کہبالله الذی لااله الا هو کہ من دوست می دارم کہ حضرت ذوالجلال بسعی ہر کس از بندگان کہ خواہدمارا بدشمنان ظفر و نصرت وہدتابانتقام ظلمی کہ برقبیلہ وعشیرت مارفتہ ازایشان کشیدہ شود ۔ (رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص۷۸ )

اس خدا کی قسم کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ اس چیز کو دوست رکھتا ہوں کہ وہ جس کسی کو بھی اپنے بندوں میں سے طاقت دے دے اوردشمنوں پر فتح نصیب کردے۔ کہ وہ اس واقعہ کا بدلہ لے جو ہم پر گزرا ہے تو یہی ہمارا عین مقصود ہے۔ مورخ طبری کا بیان ہے کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ خون حسینعليه‌السلام برہمہ واجب است ۔ امام حسین کے خون کا بدلہ لینا تمام اہل عرفان پر واجب ہے۔

(تاریخ طبری جلد ۴ ص ۶۵۴)

مورخ ابن ایثر جزری کا بیان ہے کہ حضرت محمد بن حنیفہ نے خدائے تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد کہا کہ تم لوگ جس شخص کا ذکر کرتے ہو وہ تم کو ہم لوگوں کے خونوں کا بدلا لینے کے یے دعوت دیتا ہے اس کے متعلق میں یہ کہتا ہوں کہ میں خود یہ چاہتا ہوں کہ اگر خدا کو منظور ہو تو وہ اپنی مخلوق میں جس شخص کے ذریعہ چاہے ہم کو ہمارے عدو کے خلاف مدد دے اور اگر میں نہ چاہتا تو کہہ دیتا کہ ایسا نہ کرو۔ (ترجمہ تاریخ کامل جلد ۱ ص ۳۶۰)

اس کے بعد آپ نے فرمایا۔ قوموابنا الی امامی وامامکم علی بن الحسینی۔ کہ اٹھو ہم لوگ اپنے اور تمہارے امام زمانہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس چلیں۔ جب یہ لوگ روانہ ہوکر ان کی خدمت بابرکت میں پہنچے اور ان کی خدمت میں عرضداشت پیش کی تو انہوں نے فرمایا:۔یاعم لوان عبدازنجیا تعصب لنااهل اهلبیت لوجب علی الناس موازرقه ولقد ولیتک هذا الامرفاصنع ما شِئت (ذوب النضار فی شرح الثار ص ۴۰۱ ، ودمعۃ ساکبہ ص ۴۰۸ ، نورالابصار ص ۹۲ و اصدق الاخبار ص ۳۹)

(ترجمہ)اے چچا جان اگر غلام حبشی ہم اہل بیتعليه‌السلام کی مدد گاری اور جانبداری کیلئے کھڑا ہوجائے تو اس کی سنو رفاقت اور اس کی شراکت ہر مسلمان پر واجب ہے میں نے اس امر میں آپ کو اپنا وکیل بنا دیا ہے اب آپ جو مناسب سمجھیں کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد وہ لوگ نہایت خوش و مسرور حضرت محمد حنیفہ سمیت حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس سے واپس آئے اور حضرت محمد بن الحنیفہ سے درخواست کی کہ ہمیں اپنا نوشتہ دے دیجئے چنانچہ انہوں نے خط لکھ دئیے اور یہ لوگ ان سے رخصت ہوکر روانہ کوفہ ہوگئے ۔ (نورالابصار ص ۹۱)

وہاں سے نکلنے کے بعد جب یہ لوگ اپنوں سے ملے تو انہوں نے کہا کہ ہمیں حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام اور حضرت محمد بن الحنیفہ نے اجازت دے دی ہے ۔ (دمعۃ ساکبہ ص ۴۰۸ ، و ذوب النضار ابن نما ص ۴۰۷)

حجۃ الاسلام علامہ محمد ابراہیم لکھتے ہیں کہ حضرت مختار کو ان لوگوں کے جانے کی خبر نہ تھی جب انہیں معلوم ہواکہ پچاس آدمی حضرت محمد حنیفہ کے پاس گئے تھے اور وہ واپس آکر قادسیہ میں مقیم ہیں تو اپنے غلام سیطح کو طلب فرمایا اور اس سے کہا کہ تو قادسیہ جاکر حالات معلوم کراور سن اگر تو یہ خبر لایا کہ ان لوگوں کو میری بیعت کی اجازت لی گئی ہے تو میں تجھے آزاد کردوں گا۔ غلام دوڑا ہوا قادسیہ پہنچا اور اس نے وہاں دیکھا کہ لوگ حضرت مختار کے نام کی بیعت لے رہے ہیں ۔ وہ یہ دیکھ کر بھاگا ہوا حضرت مختار کے پا س پہنچا اور اس نے انہیں خبر مسرت سنائی ۔ حضرت مختار نے حسب گفتہ خود اپنے غلام کو آزاد کردیا۔ (نورالابصار ص ۹۱ و اخذالثار ابی مخنف ص ۴۸۹)

مورخ ہروی کا بیان ہے کہ اہل کوفہ جب وہاں سے لوٹ کر کوفہ پہنچے اور ان لوگوں کی حضرت مختار سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ تم لوگ کیا جواب لائے ۔ لوگوں نے کہا کہ حضرت نے آپ کی بیعت اور آپ کی امداد کا حکم دے دیا ہے حضرت مختار نے کمال مسرت کی حالت میں فرمایاکہ میں انشاء اللہ دشمنوں کو تہ تیغ کردوں گا ۔ چوں خبردر کوفہ شائع شد ہر کس کہ محبت اہل بیتعليه‌السلام نصیبے داشت بخدمت مختار مبادرت نمودہ بااوبیعت کردند، جب یہ خبراجازت کوفہ میں مشہور ہو گئی تو وہ تمام لوگ جنہیں خدا کی طرف سے محبت اہل بیتعليه‌السلام کا کچھ حصہ بھی نصیب ہوا تھا بیعت مختار کیلئے دوڑ پڑے۔ اورسب نے بیعت کرلی ۔ (رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷۸)

حضرت مختار کی بیعت بصرہ میں

مورخ طبری کا بیان ہے کہ جب حضرت مختار کی بیعت کوفہ میں عام طور سے ہونے لگی ۔ تو اسی دوران میں بنی مثنیٰ نامی ایک شخص بصرہ سے کوفہ آیا اوراس نے بھی حضرت مختار کی بیعت کی حضرت مختار نے مثنیٰ سے فرمایا کہ تم ابھی بصرہ میں مقیم ہو اور پوشیدہ طریقے سے میری بیعت لیتے رہو ۔اور اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رکھو۔ جب تک میں خروج نہ کروں جب میں کوفہ میں خروج کروں ۔تو تم بصرہ میں ہنگامہ برپا کر دو۔اگر خد ا نے چاہا اور اس نے میری مدد کی اور میں کامیاب ہو گیا تو بصرہ کی حکومت تمہارے سپرد کردوں گا ۔مثنیٰ نے کہا کہ بہت خوب آپ کا جو حکم ہو میں اس کی تعمیل کروں گا ۔چنانچہ مثنیٰ بصرہ واپس آگئے اور انہوں نے سرائے ازارقہ میں قیام کرکے کام شروع کر دیا ۔یہ سرائے بہت سے دیہاتوں کا مجوعہ تھی اور اب بھی محلول کی صورت میں موجود ہے اس سرائے کا ایک بہت بڑا دروازہ آہنی تھا۔ جب رات ہوتی تھی تو اس کا دروازہ بند کر دیا جاتا تھا مثنیٰ نے اسی سرائے میں پوشیدہ کا م جاری رکھا ۔ یہاں تک کہ حضرت مختا ر نے کوفہ میں خروج کر دیا ۔خروج کرنے کے بعد حضرت مختار نے مثنیٰ کو بصرہ میں ایک خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ تم بصرہ سے کوفہ آجاؤ ۔مثنیٰ نے بصرہ سے روانگی کی تیاری شروع کر دی ۔ابھی روانہ نہ ہونے پائے کہ والی بصرہ قعقاع کو ان کے ارادے کی خبر ہو گئی۔

اس نے فوراً کوتوال شہر کو حکم دیا کہ مثنیٰ کو گرفتار کر لاؤ ۔کوتوال پولیس کا ایک دستہ لے کر اس کے مقام پر پہنچ گیا اور اس نے سارے محلہ کو گھیرے میں لے لیا ۔اس ہنگامی حالت کے رونما ہونے کے بعد اہل محلہ میں جوش وخروش پیدا ہوگیا اور پولیس و اہل محلہ میں سخت جھڑپ ہو گئی ۔چالیس افراد اہل محلہ کی قتل ہوگئے ۔مگر ان لوگوں نے اتنی دلیری کی کہ پولیس کہ محلہ کے اندر گھسنے نہیں دیا ۔اسی دوران میں مثنیٰ کو پیغام پہنچا کہ کوفہ کے لیے روانہ ہو جاؤ ۔چنانچہ مثنیٰ اپنے ہمدردوں کو لے کر کوفہ کے لئے روانہ ہو گئے ۔اور وہاں پہنچ کر حضرت مختار کے ساتھ ہو گئے ۔(تاریخ طبری جلد ۴ص۶۵۴طبع لکھنوء )

حضرت محمد حنفیہعليه‌السلام کا خط اہل کوفہ کے نام اور حمایت مختار کے لئے اعلان عام ابو مخنف کا بیان ہے کہ اہل کوفہ کی واپسی کے تین دن بعد مشائخ کوفہ حضرت مختار کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور انہوں نے حضرت محمد بن حنفیہعليه‌السلام کا خط جو اہل کوفہ کے نام تھا ۔حضرت مختار کو دیا ۔اس کے بعد ایک منادی کے ذریعہ سے اعلان عام کرادیا گیا ۔کہ سب لوگ حضرت مختار کی بیعت کرنے میں عجلت سے کام لیں اور کوئی ایسا شخص باقی نہ رہے جو بیعت نہ کرے ۔

اس اعلان کے بعد تقریباً تما م اہل معرفت نے حضرت مختار کی بیعت کر لی اور ان کی نصرت و حمایت پر کمر عزم و استقلال باندھ لیا ۔

(اخذ الثار د انتصار المختار علی الطغا ة الفجار ص۴۸۹،نور الابصار ص۹۲طبع لکھنوء )

مورخ ابو الفداء لکھتا ہے کہ حضرت مختار نے تمام لوگوں سے کتاب خدا سنت رسول اور طلب انتقام خون اہلیتعليه‌السلام پر بیعت لی۔مختار کی جنگ صرف قاتلان حسینیعليه‌السلام سے تھی ، اس جنگ میں مختار نے پوری پوری کا میابی حاصل کی اور تقریباً سب ہی کو قتل کر ڈالا ۔(تاریخ الفدا ء جلد ۲ص ۱۴۸)

ابو مخنف کا بیان ہے کہ واقعہ کربلا میں چار اشخاص نمایاں حیثیت رکھتے تھے ۔

(۱)ابن زیاد (۲)عمرسعد (۳)سنان بن انس (۴)شیث ابن ربعی ۔

یہ لوگ گمراہوں کے لشکر کے سربراہ تھے ۔ (کنز الانساب ص۱۴طبع بمبئی )