مختار آل محمد

مختار آل محمد0%

مختار آل محمد مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ

مختار آل محمد

مؤلف: مولانا نجم الحسن کراروی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27512
ڈاؤنلوڈ: 3516

تبصرے:

مختار آل محمد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 26 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27512 / ڈاؤنلوڈ: 3516
سائز سائز سائز
مختار آل محمد

مختار آل محمد

مؤلف:
اردو

پانچواں باب

جناب مختار کا جذبہ عقیدت

جناب مختار کا جذبہ عقیدت اور ان کے متعلق حضرات آئمہ طاہرینعليه‌السلام کے خیالات و تصورات کتب سیرو تواریخ اور احادیث واقوال آئمہ دیکھنے سے روز روشن کی طرح یہ امرواضح ہوجاتا ہے کہ حضرت مختار حضرات آلِ محمد سے پوری پوری محبت و الفت رکھتے تھے اور اہل بیتعليه‌السلام سے ان کا جذبہ عقیدت درجہ کمال پر فائز تھا وہ ان حضرات شراب محبت و مودت سے ہمہ وقت سرشار رہا کرتے تھے اور ان کے منہ سے جو الفاظ نکلتے تھے ان میں محبت کی بواور ان سے جو افعال سرزد ہوتے ان میں ان کی تاسی کی خو ہوتی تھی ۔ ولادت سے لے کر جوانی اور جوانی سے عہد شہادت تک کے واقعات پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے ۔ کہ انہوں نے کسی وقت بھی آل محمد کے خلاف کبھی کوئی نظریہ قائم نہیں کیا اور یہ عقیدہ اور مذہب کے لحاظ سے شیعہ کا مل تھے یہی وجہ ہے کہ کسی شیعہ عالم کو ان کی شیعیت میں کوئی شبہ نہیں ہوا تواریخ میں ہے کہ حضرت مختار حضرات آل محمد سے کمال محبت کی وجہ سے واقعہ کربلا کا بدلہ لینے کیلئے سر سے کفن باندھ کر اٹھے اور بفضلہ تعالیٰ اس میں پورے طور پر کامیاب ہوئے۔

علامہ محمد ابراہیم لکھنوی لکھتے ہیں کہ حضرت مختار کمال جذبہ عقیدت کے ساتھ اٹھے اور ایک بادشاہ پرشکوہ کی شان سے دشمنوں کے قلع و قمع کرنے کی طرف متوجہ ہوکر اس درجہ پر فائز ہوگئے جس پر عرب و عجم میں سے کوئی فائز نہیں ہوا ۔ مختار کے جذبہ عقیدت اور حسن عقیدہ پر ایک عظیم شاہد بھی ہے اور وہ حضرت ابراہیم ابن مالک اشتر کی ذات ستودہ صفات کی کار مختار میں شرکت ہے جس کی آل محمد سے عقیدت اور مذہب شیعہ میں پختگی مہر نیمر وز سے بھی زیادہ روشن ہے (نورالابصار ص ۱۲)

اور چونکہ مختار نے کمال جذبہ کے ساتھ نہایت بے جگری سے واقعہ کربلا کا بدلہ لیا تھا ۔

اسی لیے اہل کوفہ پریشان حال لوگوں کے لیے ضرب المثل کے طور پر کہتے تھے کہ ان کے گھر میں مختار داخل ہوگئے ہیں (مجالس المومنین ص ۳۵۶) اور چونکہ حضرت مختار نے دشمنان آل محمد کا قتل ابوعمرہ کیسان ، غلام حضرت امیرالمومنینعليه‌السلام کے ہاتھوں کرایا تھا اسی لیے جب کسی پر کوئی تباہی آتی تھی ۔ ضرب المثل کے طور پر اہل کوفہ کہا کرتے تھے دخل ابوعمرہ بیتہ اس کے گھر میں ابوعمرہ داخل ہوگیا ہے ۔ (دمعۃ ساکبہ ص ۴۰۱)

غرضیکہ حضرت مختار کا جذبہ عقیدت ایسا ہے جس پر حرف نہیں رکھا جاسکتا ۔علامہ حافظ عطا ء الدین حسام الواعظ رقمطراز ہیں بد انکہ مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی ازجملہ مخلصان اہل بیت بودمعلوم ہونا چاہیئے ۔کہ حضرت مختار پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیتعليه‌السلام اطہار کے مخلصوں میں سے ایک اہم مخلص تھے ۔(رو ضۃ المجاہدین ص۳)

اس خلوص کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے جسے تاریخ میں واقعہ موصل سے یاد کیا جاتا ہے علامہ مجلسی رقمطراز ہیں کہ جب حضرت مختار نے حضرت ابرہیم ابن مالک اشتر کو قتل ابن زیاد کے لیے موصل کی طرف روانہ کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ روانہ ہوئے تو حضرت مختار ان کو رخصت کرنے کے لیے پیدل ان کے ساتھ ہوئے اور کافی دور تک گئے ۔حضرت ابراہیم نے راستہ میں حضرت مختار سے کہا ۔سوار شو خدا ترا رحمت کند مختار گفت مینحوا ہم ،ثواب من زیادہ با شد در مشایعت تو ومی خواہم کہ قد مہائے من گرد آلود شد در نصرت ویاری آلِ محمد کہ آپ پا پیادہ پیدل چل رہے ہیں بہتر ہے کہ آپ سوار ہو جائیں۔مختار نے جواب میں کہا کہ میں آپ کے ساتھ پیدل اس لیے چل رہا ہوں ۔تاکہ مجھے زیادہ ثواب مل سکے ۔اور میں یہ چاہتا ہوں کہ میری قدم نصرت آل محمد کے سلسلہ میں گرد آلود ہوں ۔(جلاء العیون ص۲۴۴وبحارالانوار جلد ۱۰ص۳۹۶)

چونکہ ان کا جذبہ محبت کامل تھا اسی لیے محمد وآل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوان پر پور ا پورا اعتماد تھا اور ان حضرات کے نظریات و تو جہات اور خیالات و تصورات ان کے بارے میں نہایت پاک اور پاکیزہ تھے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت رسول کریم (ص)نے ان کی ولادت کی بشارت دی (نورالابصارص۱۴)

حضرت علیعليه‌السلام نے انہیں اپنی آغوش میں کھلایا (رجال کشی ص ۸۴)

حضرت امام حسنعليه‌السلام نے شہاد ت حضرت علیعليه‌السلام کے موقعہ پر ان کی مواسات قبول فرمائی ۔حضرت اما م حسینعليه‌السلام نے جنگ کربلا میں ان کا حوالہ دیا ۔(اسرار الشہادت ص۵۷۱)حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام نے ان کو دعائیں دیں ۔(رجال کشی ص ۵۸)

حضرت امام محمد باقرعليه‌السلام نے ان کی برائی کرنے سے روکا ۔حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام نے آپ پر نزول رحمت کی دعا فرمائی ۔(مجالس المومنین ص۳۵۶)ان اشارات کی مختصر لفظوں میں تفصیل ملاحظہ ہو ۔ حضرت رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مختار کے متعلق بشارت تحریر کی جاچکی ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام کا مختار کو گود میں لے کر پیار کرنا اور ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر حوصلہ افزا کلمات اپنی زبان پر جاری فرمانا مرقوم ہو چکا۔حضرت امام حسنعليه‌السلام عليه‌السلام کے ساتھ جناب مختار نے جو مواسات کی اسے تاریخ کی روشنی میں ملاحظہ کیجئے۔کتاب چودہ ستارے سے ص۲۰۱میں ہے کہ صفین کے سازشی فیصلہ حکمین کے بعد حضرت علیعليه‌السلام اس نتیجہ پر پہنچے کہ اب ایک فیصلہ کن حملہ کرنا چاہیئے ۔چنانچہ آپ نے تیار ی شروع فرمادی اور صفین ونہروان کے بعد ہی سے آپ اس کی طرف متوجہ ہو گئے ۔یہاں تک کہ حملہ کی تیاریاں مکمل ہو گئیں۔دس ہزار افسر امام حسینعليه‌السلام کو اور دس ہزار فوج کا سردار قیس ابن سعد کو اور دس ہزارکا ابو ایوب انصاری کو مقرر کیا۔ ابن خلدون کا بیان ہے کہ فوج کی جو مکمل فہرست تیار ہوئی اس میں چالیس ہزار آزمودہ کار سترہ ہزار رنگروٹ اور آٹھ ہزار مزودر پیشہ شامل تھے لیکن کوچ کا دن آنے سے پہلے ابن ملجم نے کام تمام کردیا ۔ مقدمہ نہج البلاغہ عبدالرزاق جلد ۲ ص ۷۰۴ میں ہے کہ فیصلہ تو ڈھونگ ہی تھا مگر صفین کی جنگ ختم ہوگئی اور معاویہ حتمی تبا ہی سے بچ گیا۔ اب امیرالمومنین نے کوفہ کا رخ کیا اور معاویہ پر آخری ضرب لگانے کی تیاریاں کرنے لگے ، ساٹھ ہزار فوج آراستہ ہوچکی تھی اور یلغار شروع ہی ہونے والی تھی کہ ایک خارجی عبدالرحمن بن ملجم نے دغا بازی سے حملہ کردیا ۔ حضرت امیرالمومنین شہید ہوگئے۔ ابن ملجم کی تلوار نے حضرت علیعليه‌السلام کا کام تمام نہیں کیا بلکہ پوری امت مسلمہ کو قتل کرڈالا تاریخ کا دھار ہی بدل ڈالا ابن ملجم کی تلوار نہ ہوتی تو خلافت منہاج نبوت پر استوار رہتی بہرحال امیرالمومنین ۲۱ رمضان ۴۰ ھ کو مسجد کوفہ میں شہید ہوگئے۔ حضرت امام حسینعليه‌السلام وغیرہ نے فرائض غسل و کفن سے سبکدوش حاصل کی ۔ حضرت مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کا بیان ہے کہ دفن و کفن سے فراغت کے بعد حضرت امام حسنعليه‌السلام غریب خانہ پر تشریف لائے میں نے ان کے قدموں کو بوسہ دیا اور ان کی پوری خدمت کی اس کے بعد سے ان کی تاحیات خدمت کرتا رہا اور ان کے بعد سے حضرت امام حسین کی خدمت گزاری کو فریضہ جانتا رہا۔ حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام ، حضرت امام محمد باقرعليه‌السلام ، حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام کے وہ ارشادات جوجناب مختار سے متعلق ہیں۔

انہیں علامہ ابوعمر و محمد بن عبدالعزیز الکشی کی کتاب الرجال میں ملاحظہ فرمائیے حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام کی خدمت میں جناب مختار نے سرابن زیاد اور عمر سعد بھیجا تو آپ نے سجدہ شکر ادا کیا اور کہا خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمارے دشمنوں سے بدلا لیا۔وجزی الله المختار خیرا ً ۔

خداوندعالم اس عمل کی مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کو جزائے خیر دے ۔ (ص ۸۵) حضرت امام محمد باقرعليه‌السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ کسی زن ہاشمیہ نے اپنے بالوں میں کنگھی نہیں کی اور نہ خضاب لگایا ہے جب تک مختار نے امام حسین کے قاتلوں کے سر نہیں بھیجے ۔ (۸۴) علامہ سید نوراللہ شوشتری تحریر فرماتے ہیں کہ (لوگوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر ) بعض لوگ حضرت مختار کی مذمت کرنے لگے تو چونکہ وہ زمانہ حضرت امام محمد باقرعليه‌السلام کا تھا اور آپ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ نے اس ارتکاب سے منع فرمایا اور کہا کہ ایسا مت کرو کیونکہ کہ مختار نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا ہمارے شیعوں کی بیواؤں کی تزویج کرائی اور بیت المال سے جوان کے دست تصرف میں تھا ۔ کافی مال بھیج کہ امداد کی منقول است کہ حضرت امام جعفر صادق برادر رحمت فرستاد ،مروی ہے کہ حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام نے مختار کے کارناموں سے تاثر کی وجہ سے ان کے لیے رحمت کی دعا کی ہے۔ (مجالس المومنین ص ۳۵۶) حضرت آقائے دربندی تحریر فرماتے ہیں کہ مرزبانی نے حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روایت کی ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد سے پانچ حج ایسے گزر گئے تھے کہ بنی ہاشم کے گھروں میں دہواں نہیں اٹھا تھا اور نہ کسی عورت نے غم کے کپڑے اتارے تھے جب مختار نے عمر سعد اور ابن زیاد کا سر بھیجا تب گھر میں آگ بھی جلائی گئی اور غم کے کپڑے بھی اتارے گئے فاطمہ بنت علی کا بیان ہے کہ جب تک مختار نے زیاد اور ابن سعد کا سر ہمارے پاس نہیں بھیجا ۔ ہم نے سرمہ نہیں لگایا اور سر میں تیل نہیں ڈالا ۔ (اسرارالشہادت ص ۵۶۸طبع ایران ۱۲۸۶ھ)

واضح ہوکہ رجال کشی اور بعض دیگر کتب میں بعض ایسی روایات بھی مندرج ہوگئی ہیں جن سے حضرت مختار کی مخالفت ظاہر ہوتی ہے یہ روایات ضعیف ہیں علامہ دربندی ارشاد فرماتے ہیں کہ ایسی روایات یا توتقیہ پر محمول ہیں یا ضعیف راویوں کی وجہ سے ناقابل قبول ہیں اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسی چیزیں عامہ کے پروپیگنڈے سے بالکل اختراع کے طور پر آگئی ہیں یہ ہرگز قابل تسلیم نہیں ہیں (اسرار الشہادت ص ۵۶۸)

حجۃ الاسلام علامہ محمد ابراہیم مجتہد لکھنوی تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مختار کے بارے میں ایسی جملہ عبارات و تحریرات اور روایات دشمنان آل محمد کی وجہ سے شہرت پاگئی ہیں ۔ مختار کا زمانہ بنی امیہ کے بادشاہوں کا عہد حکومت تھا جو محمد وآل محمد کے شیعوں کیلئے انتہائی خطرناک تھا مختار نے چونکہ بے شمار بنی امیہ اور ان کے حواریوں کو قتل کیا تھا اس لیے بنی امیہ کے ہواخواہوں نے ان کے خلاف ایسی چیزیں مشہور کردیں جو ان کے وثاقت اور ان کے وقار کو پامال کردیں اور ان سے یہ چیزیں بعید نہ تھیں کیوں کہ ان لوگوں نے ایسی حرکتیں امیرالمومنین جیسی شخصیت کے خلاف بھی کی ہیں ۔ (اور امام حسنعليه‌السلام کو بدنام کرنے کی ناکام سعی کی ہے) اور وہ روایات جو امام تک صحیح راستوں سے منتہی ہوتی ہیں وہ قطعی طور تقیہ پر محمول ہیں کیونکہ بنی امیہ سے ان حضرات کے خطرات ظاہر ہیں ایک روایت جو اس قسم کی ہے کہ حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام نے ۲۰ ہزار کا مرسلہ ہدیہ قبول فرمالیا۔پھر جب ایک لاکھ کا ہدیہ ارسال کیا تو آپ نے اسے پسند نہ فرمایا بلکہ مختار کے رسل و رسائل سے بھی اجتناب کیا یہ واضح کرتی ہے کہ امامعليه‌السلام نے حالات کی روشنی میں ایسا کیا تھا۔ (نورالابصار ص ۷)

میں کہتا ہوں کہ اگر ان کی نگاہ میں عمل مختار صحیح نہ ہوتا تو وہ پہلے ہی واپس فرما دیتے ، انہوں نے پہلے تسلیم کرلیا اور اس سے غربا کے پرورش کی ان کے مکانات کی مرمت کرائی اور اسے بیواؤں پر صرف کیا ، جیسا کہ حضرت امام محمد باقرعليه‌السلام کے ارشاد سے واضح ہے لیکن جب انہیں خطرہ محسوس ہوا تو وہ اس کے استعمال سے مجتنب ہوگئے۔ (رجال کشی ص ۸۳)

علامہ مذکور تحریر فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مختار کے دشمنوں نے ایسے ناپسندیدہ مطاعن اور مثالب سے انہیں مطعون کیا جو نظر مومنین سے انہیں گرادیں اور یہ بالکل ویسے کیا جیسے حضرت امیرالمومنین کے ساتھ کرچکے تھے ۔

جس کے نتیجہ میں بہت سے لوگ راہ راست سے بھٹک گئے اور انہوں نے اپنے کو ورطہ تباہی میں ڈال دیا ۔ (نورالابصار ص ۱۳)

علامہ شیخ جعفر بن محمد بن نما علیہ الرحمة تحریر فرماتے ہیں کہ معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے علما کو الفاظ کے سمجھنے کی توفیق نہیں ہوئی نہ وہ روایات کو نقل کرتے ہوئے غفلت کی نیند سے بیدار ہوئے ہیں لیکن اگر وہ مدح مختار میں اقوال آئمہ علیہم السلام پر غور کرتے تو انہیں یہ معلوم ہوجاتا کہ یہ ان سبقت کرنے والے مجاہدین میں داخل ہیں جن کی مدح خداوندعالم نے کتاب مبین میں کی ہے اور مختار کیلئے امام زین العابدینعليه‌السلام کی دعا دلیل ظاہر و روشن ہے کہ وہ حضرت کے نزدیک منتخب و نیکو کا ر افراد میں داخل تھے

اگر مختار درست وصحیح راستے پر نہ ہوتے اور امام کے علم میں ہوتا کہ وہ اعتقادات میں حضرت کے مخالف میں تو ہرگز ایسی دعا نہ کرتے جوباب اجابت سے ٹکرائے نہ ایسی بات کہتے جو اچھی نہ سمجھی جائے اور حضرت کی دعاعبث و بیکار ہوجاتی حالانکہ یہ محقق ہے کہ امام کا دامن عبث کام سے پاکیزہ و پاک ہے ہم نے اس کتاب کے اثنا میں متعدد مقامات پر ایسے اقوال لکھے ہیں جن سے ان کی مدح ہوتی ہے اور برابھلا کہنے کی ممانعت پائی جاتی ہے وہ مدح و ثنا اور ممانعت ارباب علم و بصیرت کیلئے کافی و وافی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اعداء جناب مختار نے اس طرح کی حدیثیں صرف اس لیے گڑھی ہیں تاکہ شیعوں کے دل اس سے متنفرہوجائیں ۔

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ حضرت امیرالمومنین کے دشمنوں نے بہت سی برائیاں حضرت کی جانب منسوب کی ہیں جن کے سبب سے بہت سے لوگ ہلاکت کے گڑھے میں گر گئے ۔اور ان کی محبت و الفت سے کنارہ کش ہوگئے لیکن جو لوگ حضرت کے سچے دوست تھے ان کی حالت وہمی چیزوں نے نہیں بدلی نہ وہ ان خواب پریشان سے گمراہ ہوئے جناب مختار کے ساتھ بھی دشمنوں نے وہی برتاؤ کیا جو برتاؤ ابوالائمہ حضرت امیرالمومنینعليه‌السلام سے کیا تھا ۔ (ذوب النضار شرح الثار ص ۴۱۵ و دمعۃ ساکبہ ص ۴۰۳ )

ابن نما علیہ رحمة نے جو کچھ فرمایا ہے نہایت مضبوط اور درست ہے اس لیے کہ جس شخص نے کوفہ میں دشمنان اہل بیت کو چن چن کر قتل کیا ہو ۔قاتلان امام حسینعليه‌السلام کو تہ تیغ کیا ہو ۔ان کے گھر کھدوادے ہوں ان کی لیے دسعت زمین کو تنگ کیا ۔بنی امیہ اور عبداللہ ابن زبیر کی حکومت کے ارکان متزلزل کر دئیے ہوں۔ ظاہر ہے کہ ایسے شخص کے بدنام کرنے کی انہوں نے ہر امکانی سعی و کوشش کی ہو گی ۔اس لیے احادیث مذمت کسی طرح قابل اعتماد و وثوق نہیں ہو سکتے ۔ہمارے فرقے کے محققین و علما ء نے زبردست الفاظ میں ان کے مدح و ثنا کی ہے ۔جس سے ان کی عظمت وجلالت پر اچھی طرح روشنی پڑتی ہے ہم یہاں پر ان میں بعض اقوال کو نقل کرتے ہیں ۔ علامہ کبیر حضرت محقق اردبیلی حدیقہ الشیعہ میں فرماتے ہیں کہ جناب مختار کے حسن عقیدہ میں کلام کی گنجائش نہیں ہے ۔جناب علامہ حلی علیہ الرحمہ نے ان کو مقبول لوگوں میں شمار کیا ہے ۔امام محمد باقرعليه‌السلام نے ان کے لیے دعائے خیر کی ہے ۔

جناب مختار کے موثق و معتبر ہونے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ جب حضرت سید الشہداء کی شان یہ ہے کہ لوگ صرف آپ کے غم میں گریہ وزاری کے سبب سے داخل جنت ہوں گے اور جہنم سے آزاد ہوں گے ۔اسی طرح وہ بھی جنتی ہوگا جو یہ تمنا کرے کہ کاش میں حضرت اور حضرت کے اصحاب کے ساتھ روز عاشور اہوتا اور شرف شہادت حاصل کرتا تو یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ مختار کے مانند انسان جہنم میں داخل ہو جنت ان پرحرام ہو ۔حالانکہ انہوں نے عمر سعد ،شمر بن ذی الجوشن، خولی اصبحی ،قیس ابن اشعث (ابن زیاد)اور ان کے مثل اعداء سید الشہداءعليه‌السلام کو قتل کیا ہے اس کے بعد علامہ ارد بیلی ختم و جزم ویقین کے ساتھ فرماتے ہیں کہ جناب مختار اور ان کے امثال پیش پرودگار درجات رفیعہ اور مراتب عالیہ کے مالک ہیں ۔علامہ احمد اردبیلی نے اپنی تحریر میں جو واقعہ کربلا میں شریک ہونے کی تمنا کرنے سے نجات پانے کی طرف ارشاد فرمایا ہے اس کے ذیل میں ایک اہم واقعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ : ایک روز بادشاہ عمر بن لیث اپنے لشکر کا جائزہ لے رہا تھا اور اس نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ جس افسر کی فوج میں ایک ہزار چیدہ جوان ہو ں گے اس کو ایک سونے کا گرز عطا کروں گا ۔جب وہ جائزہ سے فارغ ہوا اور حساب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس نے ایک سو بیس طلائی گرز عطا کیے ہیں جب اس نے ایک سو بیس گرز کا لفظ سنا جس سے ایک لاکھ بیس ہزار فوج کے جوان ہوتے تھے ۔تو خود ازاسپ بزیر انداخت و سر بسجدہ نہاد اپنے کو گھوڑے سے گرا دیا اور سر کو سجدہ میں رکھ کر رونا شروع کیا اور اپنے منہ پر خاک ملنے لگا ۔اور اسی عالم میں اتنی دیر تک روتا رہا کہ بیہوش ہو گیا۔بالآخر جب ہوش آیا تو اس کے ایک مصاحب نے پوچھا جان پناہ میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں۔حضور یہ تو خوشی کا موقعہ تھا اس وقت گریہ وزاری کیسی ؟بادشاہ نے کہا کہ جب میں نے یہ سنا کہ میری فوج میں ایک لاکھ بیس ہزار جوان ہیں ۔

واقعہ کربلا بخاطر رسید مجھے واقعہ کربلا یاد آگیا اور اس کا نقشہ آنکھوں میں پھر گیا اور یہ حسرت پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی اس روز لشکر سمیت کربلا میں موجود ہوتا اور یا تو کفار مسلمین کو تہس نہس کر دیتا اور اپنے آقا ومولا امام حسین پر قربان ہو جاتا۔جب بادشاہ کا انتقال ہو ا تو لوگوں نے اسے ایسی حالت میں خواب میں دیکھا۔کہ اس کے سر پر تاج مرصع ہے اور بر میں لباس فاخرہ اور حورو غلمان اس کے آگے پیچھے چکر لگا رہے ہیں کسی نے کہا اے بادشاہ مرنے کے بعدتجھ پر کیا گزری اس نے عالم خواب ہی میں جواب دیا کہ خداوند عالم نے میری اس تمنا کے عوض جو میں جائزہ لشکر کے دن کی تھی میرے سارے گناہان صغیرہ وکبیرہ بخش دیئے وہرگاہ بمجرد نیتی کہ بجہت نصرت امام شہید درد دل شخصے گذرد ونجات حاصل گردد نصرت سید الشہدا کی وجہ سے نجات ہو سکتی ہے تو مختار اور انہی کے مثل لوگوں کے نجات کیونکر نہ ہوگی یقین ہے کہ ایسے لوگوں کو بلند درجے اور عظیم مراتب حاصل ہوں گے ۔ (نورالابصار ص۱۱طبع لکھنوء)

غرضیکہ حضرت مختار کی جلالت قدر کسی قسم کا شبہ نہیں وہ خدا اور رسول اور آئمہ طاہرین کی نظر میں ممدوح تھے۔یہی وجہ ہے کہ علما اہل تشیع میں سے ان کی کسی نے مخالفت نہیں کہ بلکہ تقریبا ً تمام کے تمام علماء ان کو اچھی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔حضرت علامہ مجلسی کا بیان ہے کہ یہ علما ء کی نگاہ میں مشکورین میں سے تھے۔(بحارالانوارص۳۹۸ج۱)

آقائے دربندی کا بیان ہے کہ اکثر اصحابنا علی انہ مشکور روزائرہ ماجور۔کہ اکثر اصحاب کے نزدیک یہ مسلم ہے کہ حضرت مختار قابل تشکر ہیں اور ان کی زیارت کرنے والا ، اجر وثواب پائے گا آپ کا یہ بھی بیان ہے کہان المختار ابن ابی عبیده لا الثقفی مشکور عنه الله وعزوجل وعند حججه المعصومین عليه‌السلام ممدوح کہ حضرت مختار خدا وند عالم اور آئمہ معصومینعليه‌السلام کے نزدیک مشکور و ممدوح ہیں (اسرار الشہادت ص۵۲۷)

مختصر یہ کہ حضرت مختار کے خلاف جو بھی مشہور ہے وہ بنی امیہ کے پروپینگنڈے کا نتیجہ ہے (تنقیح المقال علامہ مامقانی )اور یہ عجیب بات ہے کہ جو پروپیگنڈا بنی امیہ نے کیا تھا ۔ان کے ماننے والے اسے اب بھی جلا دے رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اموی پر ستاروں میں سے کسی ایک نے بھی حضرت مختار کی مدح نہیں کی اور اب یا اس عہد سے پہلے جتنے علما گذرے ہیں انہوں نے حضرت مختار کے خلاف ہی لکھا ہے۔ مثال کے لیے ملاحظہ ہو مولانا محمد ابو الحسن محدث مصنف فیض الباری شرح صحیح بخاری اپنی کتاب خیر المآل فی السما ء الرجال المسمیٰ بہ ترجمة الاکمال میں لکھتے ہیں کہ ۱مختار بڑا ہی جھوٹا اتھا ، ۲اس کے دل میں ہوس حکومت تھی ۔لیکن وہ امام حسین کے خون بہا کا ڈھونگ رچاتا تھا ،۳اس سے بہت سے مخالف دین باتیں ظاہر ہوئیں ۔ محدث دہلوی شیخ عبد الحق لکھتے ہیں کہ مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کذاب تھا ۔(مشکوٰة شریف ص۵۴۳طبع دہلی ۱۲۷۳ءء)

شیخ اسلام امام بن تیمیہ لکھتے ہیں کہ مختار شیعی کذاب تھا ۔یزید بہت سے دوسرے حکمرانوں سے اچھا تھا وہ عراق کے امیر مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی سے کہیں اچھا تھا ۔

جس نے حضرت حسینعليه‌السلام کی حمایت کا علم بلند کیا اور ان کے قاتلوں سے انتقام لیا مگر ساتھ ہی ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا کہ جبریل اس کے پاس آتے ہیں ۔(ترجمہ منہاج السنۃ حسین ویزید ص۳۴طبع ہند پریس کلکۃ)

مولوی عبد الشکور لکھنوی لکھتے ہیں ابن سبا کے بعد مختار نے بھی مشرکانہ تعلیم کے رواج دینے میں اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں بہت کام کیا اس نے پہلے نبوت کا پھر خدائی کا دعوے ٰ کیا۔ خاندانی تفرقہ کا فتنہ پیدا کرکے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کرایا ۔اس نے واقعہ کربلا کو آلہ کار بنایا تھا ۔ (فتنہ ابن سبا ص۶۷طبع ملتان)

مولوی اکبر شادی نجیب آبادی زیر عنوان ملت اسلامیہ میں فتنوں کی ابتدا لکھتے ہیں کہ عبد اللہ ابن سبا کے بروز ثانی مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کی مشرکا نہ تعلیم اور کفر یہ دعاوی کو بھی جزو ایمان سمجھ لیاسلیمان بن صرد خزاعی ہاشمیوں اور شیعیان علی کو فراہم کرکے جنگ عین الورد میں ہزار ہامسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کر ا چکا تھا کہ مختار مذکور نے محمد بن حنیفہ برادر امام حسین اور عبد اللہ ابن عمر کو دھوکا دے کر کوفہ میں اپنی قبولیت اور رسوخ کے لیے راہ نکال لی ۔اور حضرت امام حسینعليه‌السلام کی شہادت اور حادثہ کربلا کے دلگداز واقعات وحسرت ناک تذکرہ کو آلہ کا ر بنا کر عبد اللہ بن سبا والے فتنہ خفة کو بیدار کرکے خاندانی امیتازات اور قبائلی عصبیتوں میں جان ڈال دی۔(رسالہ تجدید عہد ربوبیت نمبر ص۹لاہور اپریل ۱۹۵۵ءء)

علامہ شیخ محمد الخضری نے حضرت مختار کو فتنہ کبریٰ تحریر کیا ہے ۔(تاریخ الامم الاسلامیہ جلد ۲ص۲۱۳طبع مصر )علامہ جلال الدین سیوطی نے حضرت مختار کو المختار الکذاب اب لعنة اللہ تحریر کیا ہے (تاریخ الخلفاء ص۱۴۹) علامہ سپھر کا شانی ا س کی تصدیق میں لکھتے ہیں کہ اہلسنت حضرت مختار کے کارنامہ عظیم کا طلب حکومت کا ذریعہ قرار دیتے ہیں (ناسخ التوریخ جلد ۲ص۶۶۶)

گر قلم درست غدار ے بود لا جرم منصور بردارے بود اس مشتے نمونہ ازخردار ے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اموی بادشاہوں اور ان کے پرستاروں نے حضرت مختار کو بد نام کیا ہے ۔

ورنہ جیسا کہ ہم نے اوپر تحریر کیا حضرت مختار خدااور رسول اور آئمہ طاہرین کے منظور نظر اور ان کی نگاہ میں مشکور د ممدوح تھے ۔

یہ بالکل درست اور قطعی طور پر اٹل ہے مجھے افسوس ہے کہ ہمارے بعض علما بھی اس پروپیگنڈا سے متاثر ہو گئے ہیں۔

میرے نزدیک ان لوگوں کے اقوال نظر انداز کر دیئے کہ قابل ہیں اور انہیں بقول علامہ ابن نما معذور سمجھنا چاہیئے ۔