مختار آل محمد

مختار آل محمد0%

مختار آل محمد مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ

مختار آل محمد

مؤلف: مولانا نجم الحسن کراروی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27418
ڈاؤنلوڈ: 3473

تبصرے:

مختار آل محمد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 26 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27418 / ڈاؤنلوڈ: 3473
سائز سائز سائز
مختار آل محمد

مختار آل محمد

مؤلف:
اردو

آٹھوں باب

واقعہ کربلا اور حضرت امام حسینعليه‌السلام کی زبان مبارک پر یوم عاشور ا خروج مختار کا حوالہ

یہ مسلم ہے کہ واقعہ کربلا صرف تاریخ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخ عالم کا نادراور عجیب و غریب واقعہ ہے ، دنیا میں یہی ایک واقعہ ایسا ہے جس سے عالم کی تمام چیزیں متاثر ہوئیں ۔ آسمان متاثر ہوا ، زمین متاثر ہوئی شمس و قمر متاثر ہوئے حتی کہ خود خداوندعالم متاثر ہوا اس کا تاثر شفق کی سرخی ہے جو واقعہ کربلا کے بعد سے افق آسمانی پر ظاہر ہونے لگی ۔ (صواعق محرقہ) یہ وہ غم انگیز اور الم آفرین واقعہ ہے جس نے جاندار اور بے جان کو خون کے آنسو رلایا ہے اس واقعہ کا پس منظر رسول اور اولاد رسول کی دشمنی ہے ۔ بدر و احد ، خندق و خیبر میں قتل ہونے والے کفار کی اولاد نے ظاہری طور پر اسلام قبول کرکے اپنے آباد واجداد کا بدلہ حضرت رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت امیرالمومنینعليه‌السلام کی اولاد سے بدلہ لینے کے جذبات اسلامی کافروں کے دلوں میں عہد رسول ہی سے کروٹیں لے رہے تھے۔لیکن عدم اقتدار کی وجہ سے کچھ بن نہ آتی تھی۔ رسول کے انتقال کے بعد جب ۳۸ ہجری میں امیرالمومنین برسراقتدار ائے تو ان لوگوں کو مقابلہ کا موقع ملا جو عنان حکومت کودانتوں سے تھام کر جگہ پکڑچکے تھے ، بالاخر وہ وقت آیا کہ یز ید ابن معاویہ خلیفہ بن گیا۔ حضرت علیعليه‌السلام اور حضرت امام حسنعليه‌السلام شہید کیے جاچکے تھے ۔

عہد یزید میں امام حسینعليه‌السلام سے بدلہ لینے کا موقع تھا ۔ یزید نے خلافت منصوبہ پر قبضہ مخالفانہ کرنے کے بعد امام حسینعليه‌السلام کے قتل کا منصوبہ تیار کیا اور ایسے حالات پیدا کردئیے کہ حضرت امام حسینعليه‌السلام کربلا میں آپہنچے یزید نے بروایت اسی ہزار فوج بھیجوا کر امام حسینعليه‌السلام کو اٹھارہ بنی ہاشم اور بہتر اصحاب سمیت چند گھنٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ حضرت امام حسینعليه‌السلام ۲۸ رجب ۶۰ کو مدینہ سے روانہ ہوکر ۱۰ محرم الحرام ۶۱ ھ کو رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے ۔ ظالموں نے ۷ محرم الحرام سے پانی بند کردیا اور دسویں محرم کو نہایت بیدردی سے تمام لوگوں کو قتل کرڈالا۔ کتاب چودہ ستارے ص ۱۷۶ میں ہے کہ اصحاب باوفا اور انصار ان باصفا کی شہادت کے بعد آپ کے اعزہ و اقربا یکے بعد دیگرے میدان کا رزار میں آکر شہید ہوئے ۔ بروایت سماوی بنی ہاشم میں سب سے پہلے جس نے شرف شہادت حاصل کیا وہ عبد اللہ ابن مسلم بن عقیل تھے۔ آپ حضرت علیعليه‌السلام کی بیٹی رقیہ بنت صہباء بنت عبادبن ربیعہ بن یحییٰعليه‌السلام بن عبداللہ ابن علقمہ ثعلبیہ کے فرزند تھے آپ میدان میں تشریف لائے اور ایسا شیرانہ حملہ کیا کہ روباہوں کی ہمتیں پست ہوگئیں ۔ آپ نے تین حملے فرمائے اور ۹۰ دشمنوں کو فی النار کیا ۔

دوران جنگ میں عمر بن صبیح صیداوی نے آپ کی پیشانی پر تیر مارا آپ نے فطرت کے تقاضے پر تیر پہنچنے سے پہلے اپنا ہاتھ پیشانی مبارک پر رکھ لیا۔ آپ کا ہاتھ پیشانی سے اس طرح پیوست ہوگیا کہ پھر جدانہ ہوا اس کے بعد اس نے دوسرا تیر مارا جو آپ کے دل پر لگا اور آپ زمین پر تشریف لائے۔ (نورالعین ترجمہ ابصارالعین)

آپ کو خاک و خون میں غلطان دیکھ کر آپ کے بھائی محمد بن مسلم آگے بڑھے اور انہوں نے بھی زبردست جنگ کی ۔ بالاخر ابوجرہم ازدی اور لقیط و ابن ایاس جہمی نے اپ کو شہید کردیا ۔ (بحار الانوار ص ۳۰۲ جلد ۱) ان کے بعد جعفر بن عقیل ابن ابی طالب میدان میں تشریف لائے آپ نے پندرہ دشمنوں کو فنا کے گھاٹ اتارا ، اخر میں بشر بن خوط نے آپ کو شہید کردیا ۔ (کشف الغمہ ص ۸۲)

ان کے بعد جناب عبدالرحمان ابن عقیل میدان میں تشریف لائے ، آپ نے نہایت بے جگری سے جنگ کی۔ آخرکار دشمنوں نے گھیر لیا اور آپ عثمان بن خالد ملعون کی ضرب شدید سے راہی جنت ہوئے ان کے بعد عبداللہ اکبر بن عقیل میدان میں آئے اور زبردست مقاتلہ کے بعد عثمان بن خالد کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

ابومخنف کے کہنے کے مطابق عبداللہ اکبر کے بعد موسیٰ بن عقیل نے میدان لیا اور ۷۰ آدمیوں کو قتل کرکے شہید ہوئے ان کے بعد عون بن عقیل اور علی بن عقیل درجہ شہادت پر فائز ہوئے ان کے بعد محمد بن سعید بن عقیل اور جعفر بن محمد بن عقیل یکے بعد دیگرے میدان میں تشریف لائے اور کار ہائے نمایاں کر کے درجہ شہادت حاصل کیا ان کے بعد محمد بن عبداللہ بن جعفر میدان میں آئے اور دس دشمنوں کو قتل کر کے بدست عامر بن نہشل شہید ہوئے ان کے بعد عون بن عبداللہ بن جعفر میدان میں آئے اور ۳۰ سو ار ۸ پیادوں کو قتل کرنے کے بعد عبداللہ ابن بطہ کے ہاتھوں شہید ہوئے آپ کے بعد جناب حسن مثنیٰ میدان میں تشریف لائے ۔ آپ نے زبردست جنگ کی اور اس درجہ زخمی ہوگے کہ جانبر ہونے کا کوئی امکان نہ تھا ۔

بالاخر مقتولین میں ڈال دئیے گئے نیتجہ پر ان کا ایک رشتہ کا ماموں اسما بن خارجہ المکنی بہ ابی الحسان انہیں اٹھا کر لے گیا ۔

اس کے بعد ناب قاسم بن الحسن میدان میں تشریف لائے اگرچہ آپ کی عمر ابھی نابالغی کی حد سے متجاوز نہ ہوئی تھی لیکن آپ نے ایسی جنگ کی کہ دشمنوں کی ہمتیں پست ہوگئیں۔ آپ کے مقابلہ میں ازرق شامی آیا آپ نے اسے پچھاڑ دیا اس کے بعد چاروں طرف سے حملے شروع ہوگئے آپ نے اس عظیم کا رزار میں ۷۰ دشمنوں کو قتل کیا ۔

آخر کار عمر بن معد بن عروہ ابن نفیل ازدی کی تیغ سے شہید ہوئے ۔ مورخین کا بیان ہے کہ آپ کا جسم مبارک زندگی ہی میں پامال سم اسپاں ہوگیا ۔ ان کے بعد عبداللہ ابن حسن میدان میں تشریف لائے اور زبردست جنگ کی آپ نے ۱۴ دشمنوں کو تہ تیغ کیا ۔ آپ کو ہانی بن شبیث خضرمی نے شہید کیا ان کے بعد ابوبکر ابن حسن میدان میں آئے ۔ آپ نے میمنہ اور میسرہ کو تباہ کردیا۔ آپ ۸۰ دشمنوں کو قتل کرکے شہید ہوگئے ۔ آپ کو بقول علامہ سماوی عبداللہ بن عقبہ غنوی نے شہید کیا ۔ ان کے بعد احمد بن حسن میدان میں آئے۔ اگرچہ آپ کی عمر ۱۸ سال سے کم تھی لیکن آپ نے یاد گار جنگ کی اور ۶۰ سواروں کو قتل کرکے آپ نے درجہ شہادت حاصل کیا ۔

ان کے بعد عبداللہ اصغر میدان میں آئے ۔ آپ حضرت علیعليه‌السلام کے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ لیلیٰ بنت مسعود تمیمی تھیں۔ آپ نے زبردست جنگ کی ۔ اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔آپ نے زبردست جنگ کی اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔ آپ ۲۱ دشمنوں کو قتل کرکے بدست عبداللہ ابن عقبہ غنوی شہید ہوئے۔ بعض اقوال کی بنا پر ان کے بعد عمر بن علی میدان میں آئے اور شہید ہوئے ۔ طبری کا بیان ہے کہ یہ کربلا میں شہید ہوئے۔ اکثر مورخین کا کہنا ہے کہ عبداللہ اصغر کے بعد عبداللہ ابن علی میدان میں تشریف لائے۔ یہ حضرت عباسعليه‌السلام کے حقیقی بھائی تھے ۔ ان کی عمربوقت شہادت ۲۵ سال تھی۔آپ کو ہانی بن ثبیت خضرمی نے شہید کیا۔ ان کے بعد حضرت عباس کے دوسرے حقیقی بھائی عثما ن بن علی میدان میں آئے ۔

آپنے رجز پڑھی اور زبردست جنگ کی دوران قتال میں خولی بن یزید اصبحی نے پیشانی مبارک پر ایک تیر مارا جس کی وجہ سے آپ زمین پر آرہے ۔ پھر ایک شخص نے جو قبیلہ ابان بن وارم کا تھا آپ کا سرکاٹ لیا۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر ۲۳ سال تھی ۔ ان کے بعد حصرت عباس کے تیسرے حقیقی بھائی میدان میں تشریف لائے اور بقول ابوالفرج بدست خولی ابن یزید اور بروایت ابی مخنف بضرب ہانی بن ثبیت خضرمی شہید ہوئے شہادت کے وقت آپ کی عمر ۲۱ سال تھی۔ ان کے بعد فضل بن عباس بن علی میدان میں تشریف لائے اور مشغول کار زار ہوئے آپ نے ۲۵۰ دشمنوں کو قتل کیا بالاخر چاروں طرف سے حملہ کرکے آپ کو شہید کردیا گیا ۔ان کے بعد حضرت عباسعليه‌السلام کے دوسرے بیٹے قاسم بن عباس میدان میں تشریف لائے آپ کی عمر بقول امام اسفر ائنی ۱۹ سال کی تھی ۔ آپ نے ۸۰۰ دشمنوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیا ، اس کے بعد امام حسینعليه‌السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر پانی مانگا پانی نہ ملنے پر آپ پھرواپس گئے اور ۲۰ سواروں کو قتل کرکے شہید ہوگئے ان کے بعد حضرت عباس علمدارنے درجہ شہادت حاصل کیا ۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ذکرالعباس مولفہ حقیر)

پھر حضرت علی اکبرعليه‌السلام نے درجہ شہادت حاصل کیاآخر میں حضرت علی اصغر امام حسینعليه‌السلام کے ہاتھوں پر شہیدہوئے۔ جملہ اصحاب واعزاواقربا ء کی شہادت کے بعد حضرت امام حسینعليه‌السلام نے اپنی قربانی راہ اسلام میں پیش فرما دی ، آپ کی شہادت کے بعد آپ کے اہل حرم کے خیموں میں آگ لگا دی گئی پھر وہ گرفتار کرکے دربار کوفہ میں پہنچائے گئے وہاں سے شام بھیج دئیے گئے ۔ ایک سال قید شام میں گزارنے کے بعد مدینہ منورہ واپس ہوئے ۔ اسی واقعہ کو واقعہ کربلا کہتے ہیں جس کے تفصیلات ملاحظہ کرنے سے انسان کا دل گریہ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ واقعہ ۱۰ محرم الحرام ۶۱ھ وقوع پذیر ہوا، اسی ۱۰ محرم ۶۱ھ کی صبح کو حضرت امام حسینعليه‌السلام نے بروایت میدان میں نکل کر دشمنوں سے کہا کہ مجھے چھوڑ دو میں یہاں سے ہند یا کسی اور طرف چلا جاؤں ۔ مگر انہوں نے ایک نہ سنی ، پھر آپ نے فرمایامجھے یابتاؤ کہ مجھے کس جرم کی بنا پر قتل کرنا چاہتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا ۔ نقتلک بغضالابیک۔ ہم تمہیں تمہارے باپ کی دشمنی میں قتل کرنا چاہتے ہیں۔ (ینا بیع المودة ص ۲۴۶ )

پھر آپ نے قرآن مجید کو حکم قرار دیا لیکن انہوں نے ایک نہ مانی ۔

(ناسخ التواریخ جلد ۶ ص ۲۵۰)

علامہ کنتوری تحریر فرماتے ہیں کہ پھر حضرت امام حسینعليه‌السلام نے ایک نہایت فصیح وبلیغ خطبہ پڑھا جس کے چند فقرات یہ ہیں۔ الاثم لاتلبسون بعدھا الاکریث مایرکب الفراس۔ اے گروہ کوفہ و شام آگاہ ہوجاؤ کہ تم ان بدعتوں کے بعد جو مجھ پر کر رہے ہو دنیا میں بس اتنی ہی دیر رہو گے جتنی دیرانسان گھوڑے پر سوار رہتا ہے یعنی بہت جلد تباہ ہوجاؤ گے ۔ وہ دن دور نہیں کہ تمہارے سروں کو آسمان کی گردش اسی طرح پیس دے گی جس طرح چکی میں دانہ پستا ہے ۔ (دیکھو میرا یہ کہنا وہ ہے جو میرے باپ دادانے مجھ سے بتایا ہے ۔ اب میں تم سے کہتا ہوں کہ تم اپنی ساری قوت و طاقت بہم پہنچا لو ۔اور جس قدر ظلم کرنا چاہتے ہو کر ڈالو ۔ میں نے خدا پر بھروسہ کیا ہے۔ جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے ۔ اسی کے دست قدرت میں تمام جانداروں کی پیشانیاں ہیں۔ میرا پروردگار صراط مستقیم پر ہے ، دیکہواب میں تمہارے کردار سے مایوس ہوکر بارگاہ خداوندی میں عرض کرتا ہوں۔ اللّٰھُمَّ احبس عنھم قطر السما ء وابعث علیھم منین کسنی یوسف۔خدایا ان سے باران رحمت روک دے اور ان پر سات سال اسی طرح قحط ڈال دے ۔ جس طرح عہد یوسف میں مصر میں پڑا تھا ۔ حضر ت کی مراد یہ تھی کہ آدمی کو آدمی کھاجائے اور سب ہلاک ہوجائیں۔ وسلط علیھم غلام ثقیف یسقیھم کاماً۔ مبصرہ اور ان اشقیا پر اس شخص کو مسلط کر دے جو دلیر اور جوان ہے اور مختار ثقفی کے نام سے مشہور ہے ۔ وہی ان کو کاسہائے مرگ تلخ اور ناگوار پلائے۔

ولاید ع فیهم احدا الاقتلة بقتلة وضربة بضربة ۔

اور اس مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کو ان پر ایسا مسلط کردے کہ وہ ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑے جس نے کسی کو قتل کیا ہے ۔ اس کو وہ قتل کرے اور جس شقی نے ان میں سے کسی کو چوٹ کاآزاردیا ہے یعنی تازیانہ یاطمانچہ لگایا ہے۔ اس کو اسی طریقے کی سزا دے ۔ ینتقم لی ولاولیائی واھلبیتی واشیا عی منھم یہ سب باتیں مختار اس غرض سے کرے کہ میرا اور میرے دوستوں کا اور میرے اہل بیتعليه‌السلام ا ور میرے پیرو مومنین پر جو ظلم ان اشقیانے کیے ہیں۔ اس کا انتقام لےفانهم غرونا وکذبونا وخذلونا وانت ربنا علیک توکلنا والیک ابنتا والیک المصیر ۔

خدایا ان مکاروں نے ہم کو فریب دیا اور یہ ہم سے جھوٹ بولے ہماری تکذیب کی ، ہم کو چھوڑ دیا۔ ہماری نصرت سے کنارہ کشی اختیار کی ہمارے حقوق کا انکار کیا ۔ خدایا اب یہ تیرے عذاب کے مستحق ہیں۔ خدایا ہم تجھ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ تیری طرف ہمارا رجوع قلب ہے اور تیری ہی جانب ہماری بازگشت ہے۔ پھر فرمایا عمر بن سعد کدھر ہے اسے بلاؤ وہ بلایا گیا مگر آنے سے وہ کترا رہا تھا۔ جب وہ آیا تو آپ نے فرمایااے عمر بن سعد تو مجھے قتل کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ مجھے قتل کرکے یزید ملعون سے جائز ہ اور ملک رے وجرجان کی حکومت حاصل کرے گا۔ اے عمر خدا کی قسم تیری حسرت دل میں ہی رہے گی اور تیرا یہ خوابِ حکومت ہرگز شرمندہ تعبیر نہ ہو گا اچھا اب تو ہمارے ساتھ جو کچھ کرنا چاہے کر لے یاد رکھ کہ مجھے قتل کرکے تو دنیا و آخرت میں خوش نہ ہوسکے گا ، تو میری یہ بات کان دھرکر سن لے کہ میں گویا دیکھ رہا ہوں کہ تیرا سرکوفہ میں ایک نیزہ پر بلند ہے ، اور بچے اس پر پتھر ماررہے ہیں اور اس پر نشانہ لگا رہے ہیں ۔ یہ سن کر عمر بن سعد سخت غیظ وغضب میں آگیا۔ ثم انضرف بوجھہ عنہ ، پھر آپ کی طرف سے منہ پھیر کر چل دیا۔

وناوی باصحابہ ماتنظرون بہ اور اس نے اپنوں کو للکار کر کہا کیا دیکھتے ہو سب مل کر ان پر حملہ کردو، یہ لوگ تمہارے ایک لقمہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ (مائتین فی مقتل الحسین من کتب الفریقین جلد ۱ ص ۳۴۴ ۔ باب ۴۳ طبع لکھنو و جلاء العیون علامہ مجلسی ص ۲۰۳ طبع ایران )

علامہ سید محسن الامین العاملی تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسینعليه‌السلام نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اے عمر سعد خدا تم لوگوں پر غلام ثقیف ، مختار ابن ابی عبیدہ کو مسلط کرے اور خدا تم لوگوں کی نسل منقطع فرمائے اور تم پر ایسے شخص (مختار) کو مسلط کرے جو خصوصیت کے ساتھ تجھے گھر میں بستر پر قتل کردے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اے خدا انہیں گن گن کر موت کے گھاٹ اتار ، اور انہیں اس طرح قتل فرما کہ یہ چھٹکارہ نہ پاسکیں ۔

اور کسی ایک کو بھی فنا کیے بغیر نہ چھوڑ ۔ (اصدق الاخبار فی الاخذ مالثار ص ۳ طبع دمشق ۳۵۴ ھ)

حضرت آقائے دربندی رقمطراز ہیں کہ حضرت امام حسینعليه‌السلام نے کربلا میں کئی مرتبہ غلام ثقفی کے تسلط کا ذکر فرمایا ہے۔ اور خداوندعالم سے دعا فرمائی ہے کہ ان پر غلام ثقفی مختار ابن ابی عبیدہ کو مسلط فرما۔ یہاں تک لکھنے کے بعد آپ تحریر فرماتے ہیں کہ مختار کے تسلط کی دعا صرف حضرت امام حسینعليه‌السلام ہی نے نہیں کی ۔ بل ھذا الدعاقدصدرعن جمیع اصحاب الکساء صلوات اللہ علیھم اجمعین فی مواضع کثیر ہ ۔ بلکہ یہ دعا پنجتن پاک نے مختلف مواقع پر فرمائی ہے اور اصحاب کساء کے تمام افراد نے موقع موقع سے حضرت مختار کے خروج اور ان کے بدلہ لینے کا ذکر فرمایا ہے ۔ (اسرار الشہادت ص ۵۷ طبع ایران ۱۲۸۴ ھ)

میں کہتا ہوں کہ امام حسینعليه‌السلام بلکہ پنج تن پاک کی دعا مختار کے حق میں رائیگاں جانہیں سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مختار عذاب الہٰی بن کر ابھرے اور انہوں نے بڑے بڑے سرکشوں کا بھٹہ بٹھادیا اور اس طرح واقعہ کربلا کا بدلہ لیا کہ دنیا آج تک حیران ہے کیا خوب محترم سید شبیہ الحسنین صاحب امروہوی نے کہا ہے۔ نام سے اس کے لرزتے تھے جفا کے پیکر خولی و شمر وانس ابن نمیر خود سر ابن مرجانہ کی سطوت پہ لگائی ٹھوکر پسر سعد تھا اور خاک مذلت سر پر نام کو قاتل شبیر نہ چھوڑا اس نے کون سا تھا بت سرکش کہ نہ توڑا اس نے کربلا میں کیے شبیر پہ جو جو روستم اس کی پاداش بھگتنے لگا اک اک ظلم نگ لاکر رہی مظلومی سلطان امم سرپہ ہر ایک کے مختار کی تھی تیغ ودوم قہر قہار نے گھیرا تھا ستمگاروں کو لاشوں سے پاٹ دیا کوفہ کے بازاروں کو