مختار آل محمد

مختار آل محمد0%

مختار آل محمد مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ

مختار آل محمد

مؤلف: مولانا نجم الحسن کراروی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27360
ڈاؤنلوڈ: 3428

تبصرے:

مختار آل محمد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 26 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27360 / ڈاؤنلوڈ: 3428
سائز سائز سائز
مختار آل محمد

مختار آل محمد

مؤلف:
اردو

نواں باب

حضرت مسلمعليه‌السلام کی کوفہ میں رسیدگی و شہادت اور حضرت مختار کی مواسات و ہمدردی اور گرفتاری

علماء کا بیان ہے کہ حضرت امام حسینعليه‌السلام ۲۸ رجب ۶۰ھ کو منگل کے دن مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کیلئے روانہ ہوئے۔ ابن حجر کا کہنا ہے کہ فقرجملة خوفا علی تقبہ۔ امام حسینعليه‌السلام خوف جان سے مکہ کو تشریف لے گئے۔ (صواعق محرقہ ص ۱۱۷) آپ کے ہمراہ مخدرات عصمت و طہارت اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے ۔ البتہ آپ کی ایک صاجزادی کا نام فاطمہ صغریٰ تھا اور جن کی عمر اس وقت سات سال تھی بوجہ علالت شدید ہمراہ نہ جاسکیں ۔ امام حسین نے آپ کی تیمارداری کیلئے حضرت عباس کی والدہ جناب امام البنین کو مدینہ میں ہی چھوڑ دیا تھا اور کچھ فریضہ خدمت ام المومنین جناب ام سلمہ کے سپرد کردیا تھا ۔ مدینہ سے روانہ ہوکر آپ ۳ شعبان ۶۰ ھ کو جمعہ کے دن مکہ معظمہ پہنچے ۔ آپ کے پہنچتے ہی والی مکہ سعید ابن عاص مکہ سے بھاگ کر مدینہ چلاگیا اور وہاں سے یزید کو مکہ کے تمام حالات سے باخبر کیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ امام حسینعليه‌السلام کی طرف لوگوں کا رحجان بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے والی مکہ کا خط پاتے ہی یزید نے عین مکہ میں قتل حسینعليه‌السلام کا منصوبہ تیار کیا۔ امام حسینعليه‌السلام مکہ معظمہ میں چار ماہ شعبان ، رمضان ، شوال ، ذی قعدہ مقیم رہے یزید جو ہر صورت امام حسینعليه‌السلام کو قتل کرنا چاہتا تھا اس نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ حسینعليه‌السلام اگر مدینہ سے بچ کر نکل آئے ہیں تو مکہ میں قتل ہوجائیں اور اگر مکہ سے بچ نکلیں تو کوفہ پہنچ کر شہادت پاجائیں یہ انتظام کیاکہ کوفہ سے بارہ ہزار خطوط دوران قیام مکہ میں بھیجوانے کیونکہ دشمنوں کو یہ یقین تھا۔ کہ حسینعليه‌السلام کوفہ میں آسانی کے ساتھ قتل کیے جا سکیں گے۔ نہ یہاں کے باشندوں میں عقیدہ کا سوال ہے اور نہ عقیدت کا یہ فوجی لوگ ہیں ان کی عقلیں بھی موٹی ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ شہادت حسینعليه‌السلام سے قبل جتنے افسر بھیجے گئے وہ محض اس غرض سے بھیجے جاتے رہے کہ حسینعليه‌السلام کو گرفتار کرکے کوفے لے جائیں۔ (کشف الغمہ ص ۶۸)

اور ایک عظیم لشکر مکہ میں شہید کیے جانے کیلئے روانہ کیا اور تیس خارجیوں کو حاجیوں کے لباس میں خاص طور سے بھجوایا جس کا قائد عمر بن سعد تھا (ناسخ التواریخ جل ۶ ص ۲۱۰ منتخب طریحی ، خلاصة المصائب ص ۱۵۰ ، ذکر العباس ص ۲۲ )

عبدالمجید خان ایڈیٹر مولوی دہلی لکھتے ہیں کہ اس کے علاوہ ایک سازش یہ بھی کی گئی کہ ایام حج میں تین سو شامیوں کو بھیج دیا گیا کہ وہ گروہ حجاج میں شامل ہوجائیں اور جہاں جس حال میں بھی حضرت امام حسینعليه‌السلام کو پائیں قتل کر ڈالیں ۔ (شہید اعظم ص ۷۱) خطوط جو کوفے سے آئے تھے ۔ انہیں شرعی رنگ دیا گیا تھا اور ایسے لوگوں کے نام سے بھیجے گئے تھے جن سے امام حسینعليه‌السلام متعارف تھے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا کہنا ہے کہ یہ خطوط من کل طائفة وجماعة ۔ ہر طائفہ اور جماعت کی طرف سے بھجوائے گئے تھے (سرالشہادتیں ص ۲۷) علامہ ابن حجر کا کہنا ہے کہ خطوط بھیجنے والے عام اہل کوفہ تھے ۔ (صواعق محرقہ ص ۱۱۷)

ابن جریر کا بیان ہے کہ اس زمانہ میں کوفہ میں ایک دو کے علاوہ کوئی شیعہ نہ تھا۔ (تاریخ طبری ص ۲۴۵)

حضرت امام حسینعليه‌السلام نے اپنی شرعی ذمہ داری سے عہدہ برآمدہونے کیلئے تفحص حالات کی خاطر جناب مسلم ابن عقیل کو کوفہ روانہ کردیا۔ حضرت مسلم بن عقیل حکم امامعليه‌السلام پاتے ہی رو براہ سفر ہوگئے ۔ شہر سے باہر نکلتے ہی آپ نے دیکھا کہ ایک صیاد نے ایک آہوشکار کیا اور اسے چھری سے ذبح کیا ، دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس واقعہ کو امام حسینعليه‌السلام سے بیان کردوں تو بہتر ہوگا ۔ امام حسین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ بتایا ۔ آپ نے دعائے کامیابی دی اور روانگی میں عجلت کی طرف اشارہ کیا ، جناب مسلم حضرت امام حسینعليه‌السلام کے ہاتھوں اور پیروں کا بوسہ دے کر باچشم گریاں مکہ سے روانہ ہوگئے۔ مسلم ابن عقیل کے دو بیٹے تھے محمد اور ابراہیم ایک کی عمر ۷ سال اور دوسرے کی عمر ۸ سال تھی۔ یہ دونوں بیٹے بروایت مدینہ منورہ میں تھے۔ حضرت مسلم مکہ سے روانہ ہوکر مدینہ پہنچے ۔ وہاں پہنچ کر روضہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں نماز ادا کی اور زیارت وغیرہ سے فراغت حاصل کرکے اپنے گھر وارد ہوئے ۔ رات گزری صبح کے وقت بچوں کو لے کر دو راہبر سمیت جنگل کے راستے سے کوفہ کیلئے روانہ ہوئے ۔ راستے میں شدت عطش کی وجہ سے دونوں راہبر انتقال کرگئے ۔ آپ بہزار وقت کوفہ پہنچے اور وہاں جناب مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کے مکان پر قیام پذیر ہوئے۔ مختار نے انہیں اپنے مکان میں بڑی خوشی کے ساتھ ٹھہرایا اور ان کی پوری خدمت کی ۔ (رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷۴ واعثم کوفی ص ۳۵۶ وابصارالعین ص ۶۲)

اور جب بیعت کا سوال ہوا تو آپ نے حضرت مسلم کی سب سے پہلے بیعت کی اور کہا اے مسلم خداکی قسم اگر امام حسینعليه‌السلام کی خدمت کا موقع مل جائے تو ان کی حمایت میں اس درجہ لڑنے کا حوصلہ رکھتا ہوں کہ تلوار کے گھاٹ اتر جاؤں۔ (رو ضۃ المجاہدین ص ۵ ذوب النضار ص ۴۰۶)

مختار کی بیعت کے بعد ۱۸ ہزار کوفیوں نے آپ کی بیعت کرلی ۔ پھر بیعت کنندگان کی تعداد ۳۰ ہزار تک ہوگئی ۔ اسی دوران میں یزید نے ابن زیاد کو بصرہ ایک خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ کوفہ میں امام حسینعليه‌السلام کا ایک بھائی مسلم نامی پہنچ گیا ہے تو جلد از جلد وہاں پہنچ کر نعمان بن بشیر سے حکومت کو فہ کا چارج لے لے ۔اور مسلم بن عقیل کا سرکاٹ کر میرے پاس بھیج دے ۔ حکم یزید پاتے ہی ابن زیاد اپنی پہلی فرصت میں کوفہ پہنچ گیا ۔ حضرت مسلم بن عقیل کو جب ابن زیاد کی رسیدگی کوفہ کی اطلاع ملی تو آپ خانہ مختار سے منتقل ہوکر ہانی بن عروہ کے مکان میں چلے گئے ۔ ابن زیادہ نے معقل نامی ایک غلام کے ذریعہ سے حضرت مسلم کی صحیح فرودگاہ کا پتہ لگا لیا۔ اسے جب یہ معلوم ہوا کہ مسلم بن عقیل ہانی کے مکان میں ہیں تو حضرت ہانی کو بلوایا بھیجا اور پوچھا کہ تم نے مسلم بن عقیل کی حمایت کا بیڑا اٹھایا اور وہ تمہارے گھر میں قیام پذیر ہیں۔ حضرت ہانی نے پہلے تو انکار کیا لیکن جب معقل جاسوس سامنے لایا گیا تو آپ نے فرمایا اے امیر بات دراصل یہ ہے کہ ہم مسلم کو اپنے گھر بلا کر نہیں لائے ۔ بلکہ وہ خود آگئے ہیں ابن زیاد نے کہا کہ خیر جو صورت بھی ہو تم مسلم کو ہمارے حوالے کردو جناب ہانی نے جواب دیا کہ یہ بالکل ناممکن ہے ہم اپنے مہمان عزیز کو ہرگز کسی کے حوالے نہیں کرسکتے۔ یہ سن کر ابن زیاد نے حکم دیا کہ ہانی کو قید کردیا جائے۔

چنانچہ حضرت ہانی بن عروہ قید کردئیے گئے ۔ پھر ان سے کہا گیا کہ مسلم بن عقیل کو حاضر کردو۔ ورنہ تم قتل کردئیے ے جاؤ گے چنانچہ ہانی نے فرمایا کہ میں ہر مصیبت برداشت کروں گا لیکن مہمان تمہارے سپرد ہرگز نہ کروں گا۔ مختصر یہ کہ جناب ہانی جن کی عمر نوے سال کی تھی ، کو کھمبے میں بندہوا کرپانچ سو کوڑے مارنے کا حکم دیا گیا۔ اس صدمہ عظیم سے جناب ہانی بے ہوش ہوگئے ۔ اس کے بعد ان کا سر مبارک کاٹ کردار پر لٹکا دیا گیا۔ مورخ اعثم کوفی تحریر فرماتے ہیں کہ کوفہ والوں نے سنا کہ امیرالمومنین حسینعليه‌السلام مکہ میں تشریف لائے ہیں۔ تو ان کے دوستوں میں سے کچھ لوگوں نیسلیمان بن صرد خزاعی ۱ کے گھر میں بیٹھ کر جلسہ کیا سلیمان نے کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا بیان کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درودبھیجا ۔ پھر حضرت علیعليه‌السلام کے کچھ مناقب بیان کیے اور دعائے خیر کے بعد کہا ۔ اے لوگو تم نے معاویہ کے مرنے کی خبر سن لی اور جان لیا ہے کہ اس کی جگہ یزید نے لے لی ہے اور جاہل لوگوں نے اس کی بیعت اختیار کی ہے۔ امام حسینعليه‌السلام نے اس کی بیعت سے انکار کیاہے انہوں نے آل ابی سفیان کی فرمانبرداری منظور نہیں فرمائی۔ اب مکہ میں تشریف لائے ہیں۔تم ان کے ہوا خواہ ہو اور اب سے پہلے ان کے باپ کے دوستدارتھے ۔ آج امام حسینعليه‌السلام کو تمہاری امداد کی ضرورت ہے۔

اگر تم مددگارہو اور ساتھ دو اور کچھ پس وپیش نہ ہو۔ تو ان کے نام خطوط روانہ کرکے اپنے ارادوں سے آگاہی دو۔ اور اگر ثم جانتے ہو کہ تم کو کاہلی اور سستی اور دل برداشتگی پیدا ہوگی۔ اپنے اقراروں کو پورا نہ کرسکو گے تو خاموش ہو رہو۔ کیونکہ ابھی اس مہم کاآغاز ہی ہے ۔ آنحضرت کو اپنے وعدوں اور امداد کا بھروسہ نہ دلاؤ ان سب لوگوں نے برضاورغبت جوابدیا کہ ہم نے تمہارا کہنا سنا اور منظور کرلیا ، ہاں ہم آنحضرت کی مدد کریں گے ان کی رضا مندی میں اگر ہماری جانیں بھی جاتی رہیں گی تو کچھ پر واہ کی بات نہیں سلیمان نے ان سے اس معاملہ کی نسبت مستحکم اقرار اور وعدے لیے اور حجت قائم کی کہ بے وفائی نہ کرنا اپنے قول سے نہ پھرنا جواب دیا کہ ہم بالکل ثابت قدم رہیں گے، امام حسینعليه‌السلام کی خوشنودی کیلئے اپنی جانیں تک دیں گے۔

اب سلیمان نے ان سے کہا کہ تم سب لوگ امام حسینعليه‌السلام کے نام ایک ایک خط بھیج کر اپنے دلی ارادے اور اعتقاد سے مطلع کرو اور درخواست کرو کہ آپ یہاں آجائیں ۔ انہوں نے کہا کہ تمہارا ہی کہنا کافی ہے ۔ اپنی طرف سے ایک خط لکھ کر ہم سب کے ارادوں سے انہیں مطلع کردو۔ سلیمانعليه‌السلام نے کہا کہ بہتر ہے کہ تم سب علیحدہ علیحدہ ایک ایک خط لکھ کر روانہ کرو غرضیکہ سب نے اس مضمون کا ایک ایک خط لکھا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ خط حسین بن علی امیرالمومنین کے نام سلیمان بن صرد، مسیب بن نخبہ ، حبیب ابن مظاہر ، رفاعہ بن شداد ، عبد اللہ ابن وال اور باقی اور تمام ہمدردان اور اسلام کی خیر اہوں کی طرف سے لکھا جاتا ہے ۔کہ ہم سب ٹھیک ہیں اور آپعليه‌السلام کے باپ کے مکار دشمن کی موت سے خوش ہیں ۔اور شکر الہٰی بجالاتے ہیں کہ اس کو ہلاک کر دیا۔جن حیلوں ،فریبوں اور مکاریوں سے اس نے خلافت پر قبضہ کیا تھا۔

ان بُری خصلتوں اور مذموم حالات کی تشریح نہیں ہو سکتی وہ مسلمانوں کی رضا مندی کے بغیر ان کے سروں پر حکومت کرتا تھا ۔اُمت کے اچھے اچھے لوگوں کوقتل کراتا ا ور بدترین اشخاص کو زندہ رکھتا تھا ۔انجام کار اللہ جل شانہ نے ظالموں میں تفرقہ ڈال دیا ۔خدا کا شکر ہے کہ وہ دنیا سے اٹھ گیا ۔اب سنا جاتا ہے کہ اس کا لعین بیٹا اس کی جگہ پر بیٹھ گیا ہے ہم ا سکی خلافت اور امارت سے رضا مند نہیں اور نہ کبھی پسند کریں گے ۔ہم پہلے آپعليه‌السلام کے باپ کو ہوا خواہ اور دوست تھے ۔اب آپ کے مددگار اور معاون ہیں۔ان خطوط کے مضمون سے مطلع ہوتے ہی حضورسعادت و برکت کے ساتھ تشریف لائیں ۔ہمارے پاس خوشی اور خرمی کے ساتھ آئیں۔ ہمارے سردار بنیں ،آپ ہمارے حاکم اور خلیفہ ہوں گے آج ہمارا نہ کوئی امیر ہے نہ پیشوا ۔جس کے پیچھے ہم نماز جمعہ اور دوسری نمازیں ادا کریں نعمان بن بشیر یزید کی طرف سے یہاں پر موجود ہے مگر اسے کوئی عزت یا درجہ یہاں پر حاصل نہیں ہے۔دن رات محل امارت میں پڑا رہتا ہے ۔نہ اسے کوئی خراج دیتا ہے ۔

نہ اس کے پاس جاتا ہے اگر وہ کسی کو طلب کرتا ہے تو کوئی اس کا کہنا نہیں مانتا ،بلکہ بالکل بے وقعت امیر ہے اگر آپ ہماری درخواست قبول فرما کر تشریف لے آئیں گے ۔تو ہم اسے یہاں سے نکال دیں گے ۔بخیر وعافیت آپ کے تشریف لاتے ہی لشکر فراہم کر دیں گے ۔اچھی خاصی قوت بہم پہنچ جائے گی ۔ پھر شام جا کر بدخواہ دشمن کو دور کریں گے ۔انشااللہ ء تعالیٰ خدا ہماری کاموں کو آپ کے وسیلہ سے درست کر دے گا۔

والسلام علیک ورحمة الله وبرکاته ،ولا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم ۔

پھر خط لپیٹ کر اور مہر لگا کر دوشخصوں عبد اللہ ابن سلیع اور عبد اللہ ابن سمع سکری کے حوالے کر دئیے کہ امیر المومنین حسینعليه‌السلام کی خدمت میں پہنچا دیں، انہوں نے مکہ پہنچ کر وہ خط حوالے ۱ کر دئیے۔امام حسینعليه‌السلام انہیں پڑھ کر اور حال دریافت کرکے خاموش ہو رہے ۔قاصدوں سے کچھ نہ فرمایا نہ خطوط کا جواب لکھا صرف ان کو خوش کرکے واپس بھیج دیا۔ انہوں نے کوفہ پہنچ کر تمام حال عرض کیا ۔اب کوفہ کے بڑے بڑے سردار قیس بن مہتر صدوا نی و عبداللہ ابن عبد ،الرحمن رجی وعامزبن وال تمیمی وغیرہ ڈیڑھ سو سے زیادہ مشہور و معروف اشخاص بجانب مکہ روانہ ہوئے اور امیر المومنین حسینعليه‌السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر ہر ایک نے کئی کئی خط ریئسان کوفہ کی طرف سے پیش کیے جن میں آپ کے بلانے کی درخواستیں شامل تھیں اور زبانی بھی کہا کہ آپ تشریف لے جائیں بلکہ ہمارے ہمراہ چلیں ۔امام حسینعليه‌السلام نے کوفہ جانے میں تامل فرمایا اور انہیں بھی کچھ جواب نہ دیا ۔اب دو قاصد اور آئے اور کوفیوں کے خط لائے یہ ٓاخری خط تھے جن میں امام کو بلایا تھا اور بانی بن ہانی ، سعد بن عبداللہ جعفی نے اس مضمون کے خطوط لکھے کہ امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے دوستوں کی طرف سے امیرالمومنین حسینعليه‌السلام کو معلوم ہو کہ تمام کوفہ والے آپ کی تشریف آوری کے منتظر ہیں ۔ سب کے سب آپ کی خلافت اور امارت پر متفق ہیں۔ اب ذرا بھی تامل نہ کرنا چاہیے بہت جلدی تشریف لائے یہاں پہنچے کا یہی وقت ہے صحرا سرسبز ہیں میوے پک رہے ہیں ۔ دیہات میں چارہ بکثرت ہے۔ فی الفور آنا چاہیے کسی قسم کا پس و پیش نہ ہونا چاہیے جس وقت آپ کوفہ میں داخل ہوجائیں گے ۔ وہ تمام فوجیں جو آپ کے لیے فراہم کی گئی ہیں آپ کے پاس حاضر ہو جائیں گی اور خدمت گزاریاور جان نثاری کیلئے کمر بستہ ہوں گی۔

والسلام

امام حسینعليه‌السلام نے ہانی اور سعید سے پوچھا کہ یہ خط کن شخصوں نے لکھے ہیں انہوں نے کہا: "اے رسول اللہ (ص)" کے فرزند شبث بن ربعی ، محاربن حجر ، یزید ابن حارث ، یزید بن برم ، عروہ بن قیس عمر بن حجاج ، عمر بن عمیرہ نے متفق ہوکر یہ خطوط لکھے ہیں۔ اب امام نے اٹھ کر وضو کیا اور رکن و مقام کے نیچے نماز ادا کی پھر نماز سے فارغ ہوکر دعا مانگی اور اس معاملہ کے خاتمہ کیلئے اللہ تعالیٰ سے مدد چاہی ۔ اس کے بعد کوفیوں کے خطوط کا جواب لکھا۔

بسم الله الرحمن الرحیم

حسین بن علیعليه‌السلام کی طرف مومنین کی جماعت کو واضح ہوکہ ہانی بن ہانی اور سعید بن عبداللہ نے حاضر ہوکر تمہارے خط پیش کیے احوال مندرجہ معلوم ہوئے ، تمہارے مطلب اور مدعا میں ذرا کمی نہ کی جائے گی اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل بن ابی طالبعليه‌السلام کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں کہ تمام حالات اور تمہارے بیانات کی سچائی کا اندازہ کرکے مجھے اطلاع دیں ۔ جب وہ تمہارے پاس پہنچیں۔ اپنے حالات سے انہیں باخبر کرو ۔ اگر تم اسی اقرار اور عہد پر قائم ہو جس کا ذکر خطوط میں درج ہے تو ان کی بیعت کرلو ۔ ہر طرح سے ان کی مدد کرو، ان کے ساتھ سے علیحدہ نہ ہو ۔ وہ امام جو اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرتا ہے اور صاحب علم و انصاف ہے اس امام سے جو ظالم اور فاسق ہے ، بہتر ہے اللہ تمہیں اور ہمیں راہ راست اور پرہیز گاری کی توفیق عطا کرے۔ وانہ سمیع الد عاوالقادر علی مایشاء والسلام علیکم۔ پھر خط کو تمام کرکے بند کردیا ۔ پھر مہر لگا کر مسلم بن عقیل کے حوالہ فرمایا اور کہا کہ میں تمہیں کوفہ بھیتجا ہوں وہاں جاکر دریافت کرنا کہ ان لوگوں کی زبانیں اپنی ان تحریروں کے مطابق ہیں یا نہیں وہاں پہنچنے کے بعد ایسے شخص کے گھر اترنا جو سب سے زیادہ اعتماد کے قابل اور ہماری دوستی میں پورا ثابت قدم معلوم ہو ۔ وہاں کے باشندوں کو میری بیعت اور فرمانبرداری کی ہدایت کرنا ان کے دلوں کو آل ابوسفیان کی طرف سے پھیر دینا ۔ اگر یہ بات معلوم ہوکہ ان کے اقرار سچے ہیں ، اور جو کچھ کہتے اورلکھتے ہیں اس کو پورا کریں گے تو مجھے لکھ بھیجنا اور جو امور مشاہدے سے گذریں ۔

انہیں مفصل درج کر دینا ، میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تمہیں اور مجھے شہادت کا درجہ عطا فرمائے گا ۔ اس کے بعد آپس میں بغل گیر ہوکر ملے اور روتے ہوئے ایک نے دوسرے کو رخصت کردیا مسلم نے کوفہ کا راستہ لیا پوشیدہ سفر کیا کہ بنی امیہ میں سے کسی کو اس حال کی خبر نہ ہوجائے۔ مبادایزید کو خط لکھ کر تمام حالات سے مطلع کردے جس وقت مسلم مدینہ میں داخل ہوئے تو مسجد رسول میں آکر انہوں نے دورکعت نماز پڑھی۔آدھی رات کے وقت اپنے عزیزوں اور دوستوں سے رخصت ہو کر سفر کوفہ اختیار کیا اور قیس بن غیلان کے قبیلہ کے دو رہبر ساتھ لیے کہ غیر معروف راستے سے کوفہ میں پہنچا دیں۔ کچھ دور چل کر دونوں راہبر راستہ بھول گئے ۔اور غلطی سے ایسے میدان میں جا پہنچے جہاں پانی کا نام و نشان نہ تھا ۔ انجام کار دونوں راہبر پیاس کی شدت سے مر گئے ۔ اب مسلم بہت ہراساں ہو کر ادھر ادھر ٍپانی کی تلاش میں دوڑے مگر کسی جگہ پانی نہ پایا ۔ آخر کار ایک گاؤں مضیق نام میں پہنچ کر پانی پیا۔ ساتھیوں اور مویشیوں اور گھوڑوں کو بھی پانی دیا ، پھر کچھ دیر آرام کرکے امام حسینعليه‌السلام کے نام خط لکھا اور تمام کیفیت درج کرکے یہ بھی تحریر کیا کہ مجھے یہ سفر مبارک نہیں ہوا فال بدمعلوم ہوتی ہے آپ مجھے اس سفر سے معاف رکھیں تو بہتر ہے۔والسلام

جس وقت مسلم کا یہ خط امام حسینعليه‌السلام کے پاس پہنچا آپ نے احوال سے واقفیت کے بعد یہ جواب تحریر فرمایا ۔

بسم الله الرحمن الرحیم

حسین بن علی امیرالمومنین کی طرف سے مسلم بن عقیل کو معلوم ہوکہ تمہارا خط آیا مضمون معلوم ہوا یہ لکھنا کہ مجھے اس سفر سے معاف رکھو ، بڑے تعجب کی بات ہے معلوم ہوتا ہے کہ سستی اور شکستہ دلی کی وجہ سے یہ خط لکھا گیا ہے ۔ تم اپنے دل کو مضبوط رکھو کسی امر کا خوف نہ کرو اور جس کام کا حکم ہے اسے انجام دو۔

والسلام علیک ورحمة الله وبرکاته

مسلم نے امام حسینعليه‌السلام کا یہ خط پڑھ کر کہا کہ امیرالمومنین نے تجھ پر یہ الزام قائم کیا ہے جس کا تجھے خیال تک نہیں مجھے کاہل اور شکستہ دل قرار دیا ہے۔ سبحان اللہ مجھے کس وقت اور کس جگہ ایسا پایا پھر وہاں سے سمت کوفہ روانہ ہوئے اثنا ء راہ میں ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے ایک ہرن کا شکار کیا ہے اور اسے گرا کر ذبح کرتا ہے مسلم نے اس مشاہدہ سے اچھی فال لی کہ انشاء اللہ ہم بھی اپنے دشمنوں کو قتل کریں گے پھر داخل کوفہ ہوکر مسلم بن مسیب کے گھر میں قیام کیا ۔ یہ مکان مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی کا بنایا ہوا تھا امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے دوست مطلع ہوکر آپ کے پاس حاضر ہوئے ۔ مسلم نے امام حسینعليه‌السلام کا خط پڑھ کر سنایا۔ جب انہوں نے امام حسینعليه‌السلام کا خط اور علی کا نام سنا خوب زور سے روئے اور واشوقاہ کے الفاظ اپنے زبان سے ادا کیے پھر ایک ہمدانی شخص عابد بن ابی سلیب نے مسلم کے پاس آکر کہا کہ میں اور لوگوں کے دلوں اور بھروسہ سے بے خبر ہوں۔ جو کچھ مجھے کہنا ہے اپنی طرف سے کہتا ہوں کہ میرا دل اور میری جان فرزند رسول کی دوستی کیلئے وقف ہیں ۔ خدا کی قسم یہی بات ہے میں تمہارے آگے کھڑے ہوکر شمشیر زنی کروں گا اور تمہارے دشمنوں کو ماردوں گا یہاں تک کہ میری تلوار کے ٹکٹرے ٹکٹرے ہوجائیں اور صرف قبضہ ہی قبضہ ہاتھ میں رہ جائے اور اس خدمت گزاری اور دوستی سے صرف خوشنودی خدائے تعالیٰ مطلوب ہوگی پھر حبیب بن مظاہر اسدی نے اٹھ کر کہا کہ خدا کی قسم میں بھی تمہاری دوستی میں ایسا ہی نکلوں گا جیسا عابس نے بیان کیا ہے اب لوگوں کی ٹولیاں آنی شروع ہوگئی۔ اور سب اسی قسم کی گفتگو کرتے تھے اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کی نسبت بڑے بڑے دعوے رکھتے تھے ۔

مسلم کیلئے ہر شخص طرح طرح کے تحفے پیش کرتا تھا مگر آپ نے کسی کا تحفہ قبول نہ کیااس وقت یزید کی طرف سے نعمان بن بشیر کوفہ کا حاکم تھا۔ اس نے مسلم کے آنے کی خبر سن کر اور جامع مسجد میں آکر لوگوں کو طلب کیا جب سب موجود ہوگئے تو اس نے منبر پر بیٹھ کر تقریر شروع کی اور کہا کہ اے کوفہ والو تم کب تک فتنہ و فساد برپا رکھو گے کب تک نفاق کا دم بھروگے ، تم خدا سے نہیں ڈرتے اور نہیں جانتے کہ فساد کرنے سے محض بربادی اور ابتری و خونریزی کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا فتنہ انگیزی سے جان اور مال دونوں برباد ہوجاتے ہیں خدا سے ڈرو اور اپنے حال پر رحم کرو فساد سے بچو اور یہ بھی یاد رکھو کہ میں اس شخص سے بجنگ پیش آؤں گا جو مجھ سے لڑنا چاہے گا ۔ ہاں میں سوتے ہوئے کو جگاتا نہیں اور نہ جاگتے ہوئے کو ڈراتا ہوں۔ نہ کسی شخص کو محض خیال ا ور تہمت کی بنا پر گرفتار کرتا ہوں مگر تم اپنی کرتوت مجھ پرظاہر کرتے اور عیب و نقصان کی راہ چلتے ہو یزید کی بیعت اور اطاعت سے نکلتے ہو اگر تم اس فساد سے باز آگئے اور فرمانبرداری سے رہے تو تم کو معاف کردوں گا ورنہ خدائے واحد کی قسم تلوار سے کام لوں گا اس قدر کشت و خون کروں گا کہ تلوار پرزے پرزے ہوجائے گی اگر میں تن تنہا بھی رہ جاؤں گا ۔ تب بھی اس معرکہ اور کوشش سے باز نہ رہوں گا۔ مسلم بن عبداللہ ابن سعید حصی نے کہا امیرکا بیان کمزور شخصوں کا سا ہے اور اس میں ذرا بھی زور نہیں پایا جاتا تو جو کچھ کہہ رہا ہے اسے عمل میں نہ لاسکے گا۔ نعمان نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں میرا کمزور ہونا اس سے بہتر ہے کہ گنہگاروں کے ساتھ گمراہوں میں شریک ہوجاؤں گا پھر یہ بات کہہ کرتا کید وتنبیہ کی اور منبر سے اتر کردارالامارة میں چلا آیا ۔

عبداللہ ابن مسلم نے جو یزید کا دوست تھا فوراً یزید کے نام اس مضمون کا خط روانہ کیا کہ میرے کوفی دوستوں اور خاص میرے طرف سے میرے امیریزید کو معلوم ہو کہ مسلم بن عقیل نے واروکوفہ ہو کر علی بن ابی طالب کے بہت سے دوستوں سے حسین بن علیعليه‌السلام کیلئے بیعت لی ہے اگرتجھے کوفہ کو اپنے قبضہ میں رکھنا ہے اور کسی دوسرے کے قبضہ میں دیناگوارا نہیں تو کسی سخت گیر شخص کو یہاں بھیج کہ تیرے احکام و فرامین کو حسب ایما جاری کرے اور دشمنوں کو تیری منشا کے مطابق نیست و نابود کردے کیونکہ نعمان بن بشیر کمزور آدمی ہے اگر کمزور بھی نہیں تو وہ لوگوں پر اپنے کو حقیر ظاہر کرتا ہے۔

والسلام

عمار بن ولید بن عقبہ اور عمر بن سعید نے بھی اسی مضمون کے خط روانہ کیے ۔ یزید ان خطوں کو پڑھ کر نہایت برافروختہ ہوا اپنے باپ کے ایک غلام سرجون نامی کو بلا کر کہا کہ مجھے ایک مہم پیش آگئی ہے کیا تدبیر کی جائے اس نے پوچھا وہ کیا ہے؟ یزید نے کہا کہ مسلم بن عقیل نے داخل کو فہ ہوکر علی کے دوستوں کی ایک جمعیت فراہم کرلی ہے اور ان سے حسین بن علی کے واسطے بیعت لی ہے اب کیا بندوبست کرنا چاہیے اور تیری کیا رائے ہے سرجون نے کہا کہ اگر میری بات مانو تو کچھ کہوں یزید نے کہا کہو اس نے جواب دیا کہ تو نے عبید اللہ ابن زیاد کو حاکم بصرہ مقرر کیا ہے کوفہ بھی اسی کے حوالے کردے پھر اس طرف سے اطمینان ہوجائے گا ۔ وہ یقینا تیرے دشمنوں کو منتشر کردے گا۔ یزید کو اس کی رائے بہت پسند آئی ۔ فوراً عبیداللہ ابن زیاد کے نام خط لکھا کہ : مجھے میرے بعض دوستوں نے کوفہ سے اطلاع دی ہے کہ مسلم بن عقیل نے کوفہ میں آکر بہت سے آدمیوں کو جمع کیا ہے اور وہ ان سے امام حسینعليه‌السلام کی بیعت لے رہے ہیں تو اس خط کے مضمون سے واقف ہوتے ہی فوراً کوفہ کو چلا جا اور اس فسادکی آگ کو بجھا کر اس مہم کو سرکر میں نے قبل ازیں تجھے بصرہ کی حکومت عطا کی تھی۔ اب کوفہ کی امارت بھی تجھے دیتا ہوں ۔

مسلم بن عقیل کو اس طرح تلاش کر جس طرح بخیل آدمی زمین پر گرے ہوئے پیسے کو تلاش کرتا ہے جس وقت اسے گرفتار کرلے تو قتل کرکے فورا ًاس کا سر میرے پاس بھیج دے خوب یاد رکھ کہ میں اس معاملہ کی نسبت تیرے کسی عذراور حیلہ کو نہ سنوں گا اس حکم کی تعمیل میں جلدی کر۔ والسلام پھر یہ خط مسلم بن عمر باہلی کو دے کر کہا کہ بہت جلد یہ لے کر بصرہ پہنچ اور عبداللہ بن زیاد کے حوالے کردے اور راستہ میں کسی جگہ قیام نہ کرنا بھاگم بھاگ چلاجا۔ اس حال سے پہلے حضرت حسینعليه‌السلام بصرہ کے نامور اشخاص احنف بن قیس مالک ابن مستمع منذررابن جارود ، قیس ابن محطم مسعود بن عمر اور عمر بن عبداللہ کے نام خط بھیج کر اپنی حمایت و اطاعت کی ہدایت کی تھی

اور انہوں نے آپ کے خطوط کو ظاہر نہ ہونے دیا تھا۔مگر منذربن جارود کی لڑکی عبیداللہ ابن زیاد کے نکاح میں تھی منذر اس سے بہت ڈرتا تھا اپنے نام کا خط جو امام حسینعليه‌السلام کا بھیجا ہوا تھا۔ عبیداللہ ابن زیاد کو دے دیا وہ خط دیکھ کر بہت غضبناک ہوا اور ڈھنڈو راپٹوا دیا۔ پھر مندز سے پوچھا یہ خط کون لایا ہے اس نے جواب دیا حسین بن علیعليه‌السلام کا ایک ہوا خواہ سلیمان نامی لایا ہے عبیداللہ نے کہا جاکر اسے بلالا۔

اس وقت سلیمان ایک شیعہ علی کے گھر میں پوشیدہ تھا ۔ مندزاسے بلالایا۔ عبداللہ نے اس سے کچھ نہ پوچھا اور اسے فوراً قتل کرادیا۔ اور سولی پر لٹکا دیا جب سلیمان قتل ہوگیا تو خود منبر پر بیٹھ کر خدا کی حمدوثنا کے بعد کہا اے بصرے والو آج یزید کا ایک فرمان آیا ہے اس نے ولایت کوفہ بھی مجھے عطا کردی ہے میں کل کوفہ کو جاؤں گا اپنے بھائی عثمان کو تمہارا امیر مقرر کرتا ہوں لازم ہے کہ تم سب اس کی پوری اطاعت کرنا اور اس کی عزت و توقیر میں کمی نہ کرنا خدائے واحدکی قسم اگر میں نے سنا کہ تم میں سے کسی نے خلاف ورزی کی۔ اور فرمانبرداری سے منہ پھیرا تو اسے معہ اس شخص کے جو اس کا شریک حال ہوگا قتل کرڈالوں گا اور جب تک انتظام ٹھیک نہ ہوگا دشمن کو دوست کے عوض گرفتار کروں گا اب میں نے سمجھا دیا ہے ہرگز ہرگز مخالفت کے قریب نہ جانا ورنہ تم مجھے جانتے ہی ہو کہ زیاد کا بیٹا ہوں میرے چچا اور ماموں بھی میری مخالفت سے پہلو بچاتے ہیں۔ اس کے بعد منبر سے اتر کر دوسرے دن سمت کوفہ روانہ ہوا اور بصرہ کے ناموراشخاص مسلم بن عمر باہلی، منذر ابن جارود عبدی اور شریک بن عبداللہ اعورہمدانی کو اپنے ہمراہ لے لیا کوفہ کے قریب پہنچ کر ایک جگہ ٹھہرگیا اور اتنی دیر انتظار کیاکہ آفتاب غروب ہوگیااور دو گھنٹے رات گذر گئی اس کے بعد سر پر سیاہ عمامہ باندھا ، تلوار کمر میں لگا کر کمان کندھے پر لٹکائی ، ترکش لگا کر گرزہاتھ میں لیا اور خنگ گھوڑے پر سوار ہوکر معہ خدم و حشم بیابان کی راہ سے داخل کوفہ ہونے کیلئے کوچ کیا اب چاند پوری روشنی ڈال رہا تھا۔

لوگوں کو خیال تھا کہ امام حسینعليه‌السلام تشریف لائیں گے عبیداللہ کے تزک و احتشام کو دیکھ کر خیال کیا کہ امام حسینعليه‌السلام تشریف لائے ہیں گروہ درگروہ لوگ آنے شروع ہوگئے اور عبیداللہ کو سلام کرتے اور کہتے تھے اے فرزند رسول مبارک ہو مبارک ہو عبیدہ اللہ ان کے سلام کا جواب دیتا تھا ۔ آخر کار مسلم بن عمر باہلی نے ایک شخص سے کہا کہ عبیداللہ ابن زیاد ہے حسین بن علیعليه‌السلام نہیں ہیں ، تم کو محض دھوکا ہوا ہے کوفہ والے اس حال سے مطلع ہوکر بھاگے اور منتسر ہوگئے عبیداللہ نے وارالامارة میں قیام کیا وہ زخمی سور کی طرح جھلاتا اور سانپ کی طرح پیچ و تاب کھاتا تھا اس شب کو تو کچھ نہ بولا ، نہ کسی شخص کو بلایا ۔ مگر دوسرے دن ڈھندوراپٹو ایا کہ سب لوگ جامع مسجد میں حاضر ہوں جب سب آگئے اور بے شمار خلقت کا ہجوم ہوگیا تو عبیداللہ بھی داخل مسجد ہوا شمشیر لٹکائے ہوئے تھا۔ سیاہ عمامہ سرپر باندھے ہوئے تھا منبر پر چڑھ کر حمد و ثنا کے بعد کہا کہ اے اہل کوفہ تمہارے امیر یزید نے مجھے حاکم کوفہ مقر کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ عدل وانصاف سے پیش آؤں مظلوم کی فریاد سنوں ظالموں سے بدلالوں ۔ درویشوں سے اچھا سلوک کروں دوستوں اور فرما نبردارں پر مہربانی اور بخشش کرتا رہوں ،میں نے امیر کے حکم کی تعمیل کی اور بصرہ ے یہاں آیاکہ اس کا فرمان بجالاؤں ۔

اب میں تمام ممانعتوں اور احکام کو جاری کروں گا یہ کہہ کر منبر سے اترا اور دارالامارہ میں پہنچا ۔ دوسرے دن وہاں سے نکل کر منبر پر چڑھا۔ آج پہلے دن والے لباس اور وضع قطع میں نہ تھا حمد خدا کے بعد کہا کہ حکومت کیلئے سختی بھی ضروری امر ہے میری عادت ہے کہ گناہگاروں کے سبب سے بے گناہوں کو پکڑلیتا ہوں اور غائب ہوجانے والوں کے واسطے موجودہ اشخاص کو تکلیف دیتا ہوں ۔ دوست کے بدلے دوست سے باز پرس کرتا ہوں اسد بن عبداللہ نے اٹھ کر کہا اے امیرخدا فرماتا ہے ۔ لاتزر وزارة وزرا اخری۔ کہ کوئی کسی کا بارنہ اٹھائے گا ، امیر مرو کو وقت پر آزماتے ہیں تلوار کو ہنر کے ساتھ اور گھوڑے کو دوڑانے سے ہمارا یہ کام ہے کہ جو کچھ تو کہے گا اسے بجالائیں گے امیر کا احکام کو بسروچشم پورا کریں گے میری رائے ہے کہ شروع میں احسانات کے سوا برار طریقہ جاری نہ کر عبیداللہ ان باتوں کو سن کر خاموش ہورہا منبر سے اتر کر دار الامارة میں چلا آیا ۔

حضرت مسلم بن عقیل عبیداللہ ابن زیاد کے آنے کی خبر سن کر گھبرائے ۔

آدھی رات کو اپنے قیامگاہ کی جگہ سے ہانی بن عروہ مدحجی کے گھر تشریف لائے ہانی انہیں دیکھ کر کھڑے ہوگئے پوچھا کہ اپ کی یہ کیا حالت ہے اور ایسا کون سا معاملہ پیش آیا کہ آپ آدھی رات کو یہاں تشریف لائے ہیں۔ مسلم نے عبیداللہ کے آنے کا حوالہ دیا ہانی نے کہا تشریف رکھئے عبیداللہ نے آدمی مقرر کیے کہ مسلم کو ڈھونڈلائیں مگر کسی شخص نے آپ کا کچھ پتہ نہ بتلایا ، لوگ پوشیدہ طور پر مسلم کے پاس حاضر ہوتے اور ازسرنو بیعت کرتے تھے ۔ مسلم ان پر حجت قائم کرتے تھے کہ تم اپنی اقراروں پر ثابت قدم رہنا ۔ بے وفائی نہ کرنا وہ قسمیں کھاتے تھے اور عہد و پیمان کرتے تھے یہاں تک کہ بیس ہزار سے زیادہ آدمی حلقہ بیعت میں آگئے ۔ اب مسلم نے ارادہ کیا کہ ان لوگوں کو لے کر نکلیں اور وارالا مارة پر حملہ کرکے عبیداللہ کو پکڑ لیں ۔ ہانی نے مناسب نہ سمجھا اور کہا کہ آپ جلدی نہ کریں کیونکہ جلد بازی شیطان کا کام ہے۔

ادھر عبیداللہ نے اپنے خیرخواہوں میں سے ایک شخص کو جس کا نام "معقل " تھا۔ ایک ہزار درہم دے کر کہا کہ جا کر شہر میں مسلم کو تلاش کرے۔ علیعليه‌السلام کے گروہ کے آدمیوں سے کہنا کہ میں علیعليه‌السلام اور ان کے خاندان کا خیر خواہ ہوں ۔ جب تجھے مسلم کے سامنے لے جائیں تو ان کی خیر خواہی جتا کر کہنا کہ میں ایک ہزار درہم لایا ہوں آپ وہ روپیہ اپنے کاموں میں صرف کریں وہ روپیہ پاکر تجھے اپنا ہوا خواہ سمجھنے لگیں گے ۔

اپنا دوست جان کر تجھ پر بھروسہ کریں گے پھر تو میرے پاس اکر جو کچھ حالات دیکھے اورسنے مجھ سے بیان کردینا معقل عبیداللہ کی ہدایت کے مطابق روپیہ لے کر کوفہ کی جامع مسجد میں آیا۔ حسب اتفاق امیرالمومنینعليه‌السلام کے گروہ کے ایک شخص مسلم بن عوسجہ اسدی کو دیکھا ان کے پاس بیٹھ کر کہنے لگا کہ میں شام کا باشندہ ہوں ۔ ایک ہزار درہم میرے پاس ہیں سنا ہے کہ خاندان نبوت میں سے کوئی شخص یہاں آیا ہوا ہے ۔ فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واسطے لوگوں سے بیعت لے رہا ہے اگر تو مہربانی کرکے مجھے اس کے پاس پہنچادے اور میں اس کی زیارت سے مشرف ہوجاؤں تو انہیں یہ مال دے دوں کہ وہ اپنے خرچ میں لائیں اور میں تیرا بہت ہی احسان مند ہوں گا ۔ اگرتو چاہے تو میں اس شخص کے پاس جانے سے پہلے تجھ سے بیعت کرلوں۔ مسلم ابن عوسجہ نے جانا کہ وہ سچ بولتا ہے سخت قول و قسم لے کر اور مضبوط عہد و پیمان لے کر کہا تو اب چلا جا کل میرے پاس آنا ، میں تجھے ان کے پاس پہنچادوں گا۔ معقل وہاں سے چلا آیا اور عبیداللہ سے سب حال کہہ سنایا اس نے کہا کہ دیکھ مردوں کی طرح اس کام کو انجام دینا ، پھر لوگوں سے شریک ابن عبدالاعور ہمدانی کا حال پوچھا جو بصرہ سے اس کے ساتھ آیا تھا اور کوفہ پہنچ کر سخت بیمار ہوگیا تھا گھر ے باہر نہ آسکتا تھا انہوں نے کہا وہ بہت ہی ناتواں ہوگیا ہے عبیداللہ نے کہا ہم کل اس کی عیادت کیلئے جائیں گے ۔

شریک کو مسلم کا حال معلوم تھا ۔ اس نے کہا اے مسلم کل عبیداللہ میری عیادت کیلئے آئے گا ۔ اسے میں باتوں میں مشغول کرلوں گا اور تم اندر سے نکل کر اسے بضرب شمشیر ہلاک کردینا پھر شہر کوفہ آپ کے قبضے میں آجائے گا اگر میں جیتا رہا تو بصرہ کو بھی تیرے تصرف میں لاؤں گا۔ دوسرے دن عبیداللہ سوار ہوکر ہانی کے دروازہ پر آیا اور شریک کی عیادت کیلئے گھوڑے سے اتر کر اس کے پاس جابیٹھا شریک اس سے گفتگو کرنے لگا اور جس امر کو وہ پوچھتا اور بتاتا رہا اور چاہا کہ مسلم نکل کر اس کا کام تمام کردیں ادھر مسلم نے تلوار میان سے باہر نکال کر چاہا کہ اندر سے نکل کر عبیداللہ کا کام تمام کردیں ، ہانی نے کہا کہ خدا کے واسطے ایسا کام نہ کریں گھر میں بہت سے بچے اور عورتیں ہیں ، قتل کے واقعہ سے بہت خوف کھائیں گے ۔ مسلم بن عقیل نے ناراض ہوکر تلوار ہاتھ سے ڈال دی ۔ شریک اب بھی عبیداللہ کو باتوں میں مشغول رکھنے کی کوشش کرتا رہا اور کچھ کچھ باتیں دریافت کرتا رہا کہ اب بھی مسلم بن عقیل آکر اسے قتل کر دیں آخر عبیداللہ کو بھی کچھ شبہ سا ہوگیا۔

دل میں ڈرا اور وہاں سے اٹھ کر چلا آیا ۔ عبیداللہ ابن زیاد کے جانے کے بعد مسلم اور ہانی باہر آئے ۔ شریک نے کہا کہ تم نے اچھا موقع کھودیا ،

آخر کیوں باہر آکر اسے ہلاک نہ کردیا ۔مسلم نے کہا کہ مجھے ہانی نے اس امر سے روک دیا کہ میری عورتیں اور بچے اس قتل سے خوف کھائیں گے ۔ شریک نے دونوں کو ملامت کی اور کہا کہ اس بداعتقاد فاسق کو آسانی سے پکڑسکتے تھے۔تم نے بڑی غلطی کی،پھر ایسا موقع ہاتھ نہ آئے گا۔ شریک تین دن اور زندہ رہا۔ پھر رحمت حق کے شامل حال ہو گیا۔ یہ شخص بصرہ کے بزرگوں اور اراکین میں سے تھا۔ امیر المومنین علی علیہ السلام کا مداح شاعر تھا ، اپنے کلام کو پوشیدہ رکھتا، معتمد اشخاس کے سوا کسی غیر کو نہ سناتا تھا۔عبیداللہ ابن زیاد نے دارالامارہ سے نکل کر اس کے جنازے کی نماز پڑھی پھر اپنے گھر پر چلا گیا۔ دوسرے دن ً معقل ًنے مسلم بن عوسجہ کے پاس آکر کہا کہ تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ مکہ سے آئے ہوئے شخص کے پاس لے چلوں گا ۔ تاکہ میں زیارت کر لوں اور یہ مال دے دوں ۔ تو شایدتو اپنے وعدہ سے پھر گیا ہے ، برائے مہربانی اپنے اقرار کو پورا کر ۔مسلم بن عوسجہ نے کہا۔میں اپنا اقرار پورا کروں گا۔ شریک کی وفات کے سبب فرصت نہ ہوئی تھی کیوں کہ وہ بڑا نیک اور امیرالمومنین علی علیہ السلام کے خیر خواہ شخصوں میں سے تھا ، معقل نے کہا کیا وہ شخص جو مکہ سے آیا ہوا ہے ۔ہانی کے گھر میں موجود ہے ۔ مسلم نے کہا ًہاں پھر اسے اپنے ہمراہ مسلم بن عقیل کی خدمت میں حاضر کیا۔مسلم نے کہا "مرحبا " اور اپنے قریب بیٹھا کر اس سے بیعت لی ۔ معقل نے روپیہ پیش کیا جسے مسلم نے قبول کر لیا،

معقل تمام دن آپ کے پاس رہا اور طرح طرح کی باتیں اور دوستی کے وعدے کر تا رہا ۔ جب رات ہو گئی وہاں سے رخصت ہو کر عبید اللہ ابن زیاد کے پاس آیا اور مسلم کا تمام حال کہہ سنایا ۔ اس نے کہا کہ مسلم بن عقیل کے پاس برابر آتا جاتا اور خدمت گزاری میں سعی کرتا رہا۔کیوں کہ اگر تو اس کے پاس سے ہٹ جائے گا اور نہ جائے گا تو تیری طرف سے شک پیدا ہو جائے گا، اور مسلم اس گھر سے نکل کر کسی دوسرے گھر میں جا رہے گا۔ اس کے بعد عبیداللہ نے آدمی بھیج کر محمد بن اشعث ،اسماء ابن خارجہ فرماری اور عمر و بن حجاج زیدی کو بلایا اور کہا ، ہانی ایک مرتبہ میرے پاس نہیں آیا نہ میرا حال دریافت کیا ۔کیا تمہیں اس کا کچھ حال معلوم ہے ؟ کہ وہ کس سبب سے نہیں آیا اس نے کہا کہ وہ بہت ناتواں اور کمزور ہو رہا ہے ۔ اس لیے امیر کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکتا اس نے کہا ہاں پہلے تو علیل تھا اور اب تندرست ہے ، کسی قسم کی شکایت باقی نہیں رہی پھر کیوں خانہ نشین ہے اور میرے پاس نہیں آتا ۔ کل تم اس کے پاس جاؤ اور اس کو علیحدہ رہنے پر ملامت کر و مجھ سے ملنے کے لیے آئے ، جو خدمت و اطاعت اس پر واجب ہے بجا لائے میں ہمیشہ اس پر مہربان رہا ہوں ۔ اور اب زیادہ اچھا سلوک کروں گا۔ انہوں نے کہا ۔ "بسرو چشم " ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ عبیداللہ کا ایک خدمت گار مالک بن یربوع ترمیمی آیا اور کہا اللہ تعالیٰ امیر کو محفوظ رکھے ۔

ایک اور خوفناک حادثہ کی خبر ہے ۔ اس نے کہا بیان کر مالک نے کہا کہ میں سیر کے ارادے سے شہر کے باہر گیا ہوا تھا۔اور اس کے گرد پھر رہا تھا کہ ایک شخص کو دیکھا کہ کوگہ سے نکل کر نہایت تیزرفتاریسے مدینہ کی طرف جا رہا ہے ۔ میں نے اس کے پیچھے گھوڑا ڈالا۔

اور اسے جا لیا، پوچھا تو کون شخص ہے اور کہا ں جاتا ہے ۔اس نے کہا کہ میں مدینہ کا رہنے والا ہوں ، میں نے پھر گھوڑے سے اتر کر دریافت کیا کہ تیرے پاس کوئی خط ہے اس نے اقرار نہ کیا تو میں نے اس کپڑوں کی تلاشی لی، تو ایک سر بند خط پایا ، وہ خط یہ ہے ۔ اور اس شخص کو امیر کے دروازے پر پہرے کے اندر دے دیا ۔ عبیداللہ نے خط لے کر کھولا ، مضمون یہ تھا:۔ مسلم بن عقیل کی طرف سے حسین بن علی بن ابی طالب کو معلوم ہو کہ میں کوفہ میں پہنچا ۔ تمام لوگوں سے ملا ، ان سے آپ کے لیے بیعت لی ۔ بیس ہزار شخصوں نے دلی رضاو رغبت سے آپ کی بیعت اختیار کر لی ہے ، میں نے ان کے نام لکھ لیے ہیں ۔ آپ اس خط کے مضمون سے مطلع ہوتے ہی فوراً چلے آئیں۔ کسی وجہ سے دیر نہ کر یں ۔ کیونکہ کوفہ والے دل سے آپ کے خیر خواہ اور دوست ہیں ، اور یزید سے متنفر ۔

والسلام۔

عبید اللہ نے کہا کہ جس شخص کے پاس سے یہ خط ملا ہے ۔ اسے میرے سامنے لاؤ ۔ مالک جا کر لے آیا ۔عبید اللہ نے پوچھا تو کون ہے اس نے جواب دیا کہ میں بنی ہاشم کا خیر خواہ ہوں پھر پوچھا تیرا نام کیا ہے ۔ اس نے کہا عبداللہ یقطین، پھر پوچھا یہ خط تجھے کس نے دیا تھا کہ حسین کے پاس لے جا ئے تو اس نے جواب دیا کہ ایک بوڑھی عورت نے دیا تھا۔ کہا تو اس کہ نام جانتاہے اس نے کہا : میں نام سے واقف نہیں ہوں ۔ عبیداللہ نے کہا تو دوباتوں میں سے ایک بات اختیار کر یا تو اس کا نام بتا دے جس نے تجھے یہ خط دیا تھا کہ تو میرے ہاتھ سے بچ جائے ورنہ میں تجھے قتل کروا دوں گا ۔ اس نے کہا میں ہر گز نام نہ بتلاؤں گا۔ اگر میری جان جاتی رہی تو کچھ پرواہ نہیں۔ عبیداللہ نے حکم دے کر اسے قتل کروا دیا ۔ پھر محمد بن اشعث ،عمر بن حجاج، اسماء بن خارجہ کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ جاؤ ہانی سے کہو کہ میرے پاس آتاہے ، وہ وہاں سے اٹھ کر ہانی کے گھر آئے اور دیکھا کہ ہانے گھر میں موجود ہیں ۔ انہیں سلام کیا اور پوچھا کہ تم امیر کے پاس کس لیے نہیں جاتے ، اس نے تمہیں کئی مرتبہ یاد کیا ہے ، وہ تمہارے حاضر نہ ہونے سے آزردہ خاطر ہے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ بیماری کی وجہ سے نہیں جا سکا ۔ پھر نے چلنے کی طاقت ابھی تک نہیں آئی ، انہوں نے کہا کہ ہم نے تمہاری طرف سے یہی عذر پیش کیا تھا لیکن اس نے قبول نہ کیا اور کہا کہ میں سنتا ہوں کہ وہ تندرست ہو گئے ہیں، باہر نکلتے اور اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھتے ہیں۔ اور آدمی ان کے پاس جمع ہوجاتے ہیں ۔ اب مناسب ہے کہ تم ان کے پاس جاؤ کیونکہ وہ صاحب قوت ہے ، ایسے شخص سے ملنا جلنا اچھا ہے ۔ مبادا وہ کسی سختی اور ظلم کا خیال کرے خاص کر نا مور اشخاص کی طرف سے ، اور تم آج اپنے قبیلے کے سردار ہو ۔ ہم تمہیں قسم دلاتے ہیں کہ تم اپنے حال پر رحم کرو۔ اور ہمارے ساتھ امیر کے پاس چلو۔ ہانی نے کہا بہت اچھا میں چلوں گا اس کے بعد اپنے پوشاک منگوا کر پہنی اور گھوڑے پر سوار ہو کر ان لوگوں کے ہمراہ دار الا مارة میں پہنچے ۔ اب ان کا دل گھبرایا اور بدی و شرارت کا برتاؤ کرنے کا خیال گزرا۔

اسماء بن خارجہ کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ اے بھائی! مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے ساتھ بد سلوکی وقوع میں آئے گی ۔

اسماء نے کہا ، سبحان اللہ ! یہ کیا بات ہے اے چچا ، تمہارے یہ خیالات بالکل غلط ہیں اپنے دل سے یہ تشویش دور کر دو اور ہر طرح سے مطمئن رہو۔ بھلائی کے سوا اور کوئی امر ظاہر نہ ہو گا۔ غرض عبیداللہ ابن زیاد کے پاس آئے ۔ اس وقت قاضی شریح سے مخاطب ہوکر کہا۔ اریدحیاتہ ویرید قتلی ۔ ہانی یہ بیت سن کر گھبرائے اور کہا اے امیر یا کیا مثل مشہور ہے جو تو نے زبان سے نکالی اس نے کہا خدا کی قسم اے ہانی تو نے مسلم بن عقیل کو اپنے گھر میں لاکر رکھ چھوڑا ہے۔ کہ میں ان باتوں سے بے خبر ہوں یقین کر کہ تیری کرتوت مجھے معلوم ہے ہانی نے کہا کہ مجھے ان امور کی کچھ خبر نہیں ۔ عبیداللہ نے کہا کہ میرا کہنا بالکل سچ ہی پھر معقل کو بلا کر ہانی سے کہا تو اسے جانتا ہے ؟ اب ہانی سمجھ گئے کہ یہ کیا بات ہے اور معقل عبیداللہ کا جاسوس تھا۔ فرزند رسول کا دوست نہ تھا۔ عبید اللہ کو اس سے سب حالات معلوم ہوگئے ہیں ۔ اب ہانی نے اقرارکرلیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ امیر کو محفوظ رکھے، مجھے اس بات سے شرم آئی کہ اسے پناہ نہ دوں اور تنہا چھوڑ دوں ۔اس لیے اس کو پناہ دی اب تجھے اس کا حال معلوم ہوگیا ہے اب اجازت دے کر واپس جاکر اس سے عذر کروں کہ کہیں اور چلا جائے اور میں عہد کرتا ہوں کہ جب اس شخص کو اپنے گھر سے روانہ کردوں گا تو تیرے پاس حاضر ہوجاؤں گا۔ اس نے کہا کہ جب تک تو اسے یہاں حاضر نہ کرے گا میرے پاس سے نہ جاسکے گا ۔ ہانی نے کہا کہ میں کبھی ایسی بات نہ کروں گا ۔ کیونکہ ازروئے شرع و مروت جائز نہیں کہ پناہ دئیے ہوئے شخص کو دشمن کے حوالے کردوں اہل عرب کی عادت اور خصلت ایسی نہیں ہے تو مجھے ایسے فعل کیلئے تکلیف نہ دے میں ہرگز اسے تیرے سامنے نہ لاؤں گا اور اپنے واسطے اس عیب دعارکو گوارانہ کروں گا ۔

مسلم بن عمر باہلی نے کہا کہ اے امیر ذرا سی دیر کی مہلت دے کہ میں ہانی سے دو دو باتیں کرلوں ، عبیداللہ ابن زیاد نے کہا کہ اسی مکان میں جو کہنا ہوکہہ لے۔ مسلم بن عمر نے ہانی کا ہاتھ پکڑا اور ایک کونے میں لے جا کر سمجھایا کہ تو اپنی زندگی سے کیوں بیزار ہوا ہے اپنے بچوں اور کنبے والوں کے حال پر رحم کر مسلم بن عقیل کے واسطے اپنے آپ کو ہلاک نہ کر ۔ اگر ہم جنسوں میں سے کوئی برابر والا طلب کرتا اور تودے دنیا توعیب کی بات تھی مگر جب ایک زبردست شخص جس کے پنجے میں تو گرفتار ہے مانگتا ہے تو حوالہ کردینا کوئی عیب اور شرم کی بات نہیں ہانی نے کہ اخدا کی قسم ہزارعیب سے بڑھ کر یہ بات ہے میں اس شرم کو کبھی گوارانہ کروں گا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیٹے کے قاصد اور اپنے مہمان اوراپناہ دیئے ہوئے کو ہرگز دشمن کے سامنے پیش نہیں کروں گا جب تک زندہ رہوں اور میرے ہاتھ پاؤں چلتے اور دوست وآشنا ، عزیز و اقرباء میرے ہمراہ ہیں ایسا ہونا ممکن نہیں بلکہ خدا کی قسم اگر میں تنہا بھی رہ جاؤں گا اور میرا کوئی مدد گار اور یاروغم خوار بھی نہ رہے گا ۔ تب بھی یہ عارنہ اٹھاؤں گا مسلم بن عمر اسے عبیداللہ ابن زیاد کے پاس واپس لے آیا اور کہا اسے کوئی نصیحت کارگرنہ ہوگی اور وہ مسلم بن عقیل کو ہمارے حوالے نہ کرے گا عبیداللہ زیادہ غضب ناک ہوکر بولا۔ خدا کی قسم اگر تو اسے میرے پاس نہ لائے گا تو تیرا سراڑا دوں گا ۔

ہانی نے کہا کس کی مجال ہے جو میرے ساتھ اس طرح پیش آسکے اگر تو ایسا خیال بھی دل میں لاسکے تو جماعت کثیر میرے خون کے بدلے کے واسطے اٹھ کر تیرے گھر کو گھیرلے گی۔

عبیداللہ نے کہا کہ تو مجھے دشمنوں اور اپنے عزیزوں سے ڈراتا ہے یہ کہہ کر ایک آہنی لکڑی جو سامنے رکھے ہوئی تھی ،

اٹھائی اور ہانی کے منہ پر ماری جس سے ایک بھنوں اور ناک پھٹ کر خون بہ نکلا قریب ہی عبیداللہ کا ایک سپاہی تلوار ہاتھ میں لیے کھڑا تھا ۔ ہانی نے اس کے قبضے پر ہاتھ ڈال کر چاہا کہ تلوار سونت لیں مگر ایک اور سپاہی نے ہاتھ پکڑ لیا اور عبیداللہ ابن زیاد ملعون نے چیخ کر کہا کہ اسے گرفتار کرکے اسی مکان کی ایک کوٹھڑی میں بند کردو اسامہ بن خارجہ نے کھڑے ہو کر کہا اے امیر تو نے ہم سے کہا تھا اور ہم تیرے پا س آے لائے تھے اس کے آنے سے پہلے تو نے اس کے واسطے اچھے اچھے وعدے کیے تھے اب وہ آیا تو غیظ وغضب سے پیش آیا ، اور ناک توڑ دی اور اس کے چہرے اور ڈاڑھی کو خون سے رنگین کردیا پھر اسے قید خانے میں ڈال دیا ۔ تیری رحم دلی سے یہ بات بہت ہی بعید ہے اور ان سب باتوں ے بڑھ کر تو اسے قتل کرنا چاہتا ہے تجھے کوئی اچھا برتاؤ کرنا چاہیے تھا۔ عبیداللہ نے اسی غصے کی حالت میں حکم دیا کہ اسے اس قدر مارو کہ مردہ ہوجائے جب اس کے زندہ رہنے کی امید نہ رہی تو اسامہ نے کہا(انا لله وانا الیه راجعون)

اے ہانی ہم تجھے موت کا پیغام سنا تے ہیں اور اب یہ معاملہ ہاتھ سے نکل چکا ہے ، ہانی کے رشتہ دار بنی ندحج والے سوار ہوکر وارالامارة پر آئے اور ہجوم کرکے بلندآوازوں سے بولتے تھے۔

عبیداللہ نے پوچھا یہ کیسا شوروغل ہے لوگوں نے کہاہانی کے عزیزوں کو خبر لگ گئی ہے کہ امیر نے اسے ہلاک کردیا ہے

اس لیے وہ مجتمع ہوکر دروازے پر آپہنچے ہیں عبیداللہ نے قاضی شریح سے کہا اٹھ کر ذرا ہانی کو دیکھ ،

پھر مکان سے نکل کر اس کے رشتہ داروں کو سمجھا دے کہ ہانی صحیح سلامت ہے کس لیے تم فریاد کرتے اور فتنہ اٹھاتے ہو جس کسی نے تم سے ایسا کہا ہے کہ امیر نے ہانی کو مروا دیا ہے وہ جھوٹا ہے شریح نے مکان سے نکل کر اس کے عزیزوں کو یہی بات سنا دی وہ سب واپس چلے گئے۔ عبیداللہ پھر محل سے نکل کر جامع مسجد میں آیا اور منبر پر چڑھ کر حمدوثنا کے بعد دائیں بائیں جانب دیکھا کہ اس کے سپاہی ہر طرف شمشیریں اور گرز کاندھے پر رکھے کھڑے ہیں کہا اے کوفہ والو اللہ جل شانہ کی عبادت اختیار کرو محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت پر چلو اور خلفاکی روش سے نہ ہٹو صاحب حکومت کی اطاعت اور فرمانبرداری سے سرنہ پھیرو ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے فتنہ وفساد سے بچو نہیں تو پچھتاؤ گے اور میں تم پر حجت تمام کیے دیتا ہوں اور یزید کی طرف سے خوف دلاتا ہوں اسی اثنا میں اس نے شور و غل سنا اور پوچھا کہ یہ کیسا غل ہے ، لوگوں نے کہا اے امیر بچ بچ کیونکہ مسلم بن عقیل نے جماعت کثیر کے ساتھ جنہوں نے حسینعليه‌السلام بن علیعليه‌السلام کی بیعت اختیار کرلی ہے ، چڑھائی کردی ہے اور وہ تیرے مارنے کے ارادے سے آتا ہے عبیداللہ فورا منبر سے اتر کر دارالامارة میں چلا گیا اور اس نے دروازے بند کرالیے۔ مسلم بن عقیل کے پاس بہت خاصہ مسلح اور آراستہ لشکر جمع ہوگیا لوگ جھنڈے لے کر آپ کے پاس آتے تھے یہاں تک کہ ۱۸ ہزارآدمی آپ کے ہمراہ تھے اب دارالامارہ کے دروازے پر پہنچے ۔ عبیداللہ اور اس کے باپ کو سخت گالیاں دیتے تھے ادھر سے عبیداللہ کا لشکر بھی فراہم ہوگیا اور مسلم کی فوج کے مقابلہ پر آکر جنگ کرنے لگا ۔

بڑی سخت جنگ ہوئی ، عبیداللہ اور اس کے اراکین اور سرداران کوفہ چھتوں پر سے یہ حال دیکھ رہے تھے

اور عبیداللہ کا ایک دوست کثیر بن شہاب کوٹھے پر کھڑے ہوا کہہ رہاتھا اے لوگو اور اے حسینعليه‌السلام کے دوستو اور اے مسلم بن عقیل اپنی جانوں پر رحم کرو اور اپنے اہل و عیال کے دشمن نہ بنو کیونکہ شامی فوجیں داخل ہونا چاہتی ہیں اور امیر عبیداللہ نے قسم کھائی ہے کہ اگر تم شام تک اسی طرح جنگ کرتے رہے اور مقابلہ سے باز نہ آئے تو تمہاری جاگیریں ضبط کرلی جائیں گی اور تمام جنگ کرنے والوں کو اس شہر سے نکال کر دربدر کردوں گا اور مجرموں کے عوض بے گناہوں کو قتل کروں گا۔ اور بھاگ جانے والوں کے موجودہ اشخا ص کوسزا دوں گا۔ یہ سن کر جن لوگوں نے مسلم سے بیعت کی تھی ، خوف زدہ ہوگئے ۔ دس دس بیس بیس تیس تیس کا گروہ ۱ ہوکر کھسکنے لگے اور کہتے تھے کہ ہم اس فساد میں کس لیے شریک ہوں ۔

اپنے گھر چل کرکیوں نہ بیٹھیں اور دیکھیں کہ کیا انجام ہوتا ہے ابھی آفتاب غروب نہ ہونے پایا تھا کہ وہ اٹھارہ ہزار مسلح آدمی جو مسلم بن عقیل کے ساتھ تھے سب کے سب چلے گئے۔ مسلم نے اپنے آپ کو بالکل تنہا اور بے یارومدد گار پاکر کہالاحول ولاقوة الا بالله سب کے سب کیا ہوئے اور کہاں چلے گئے ۔ پھر گھوڑے پر سوار ہوکر کوفہ کے گلی کوچوں کا رخ کیا ایک محلہ سے دوسرے محلہ میں جاتے تھے ۔ یہاں تک کہ ایک بوڑھی عورت طوعہ کے دروازے پر پہنچے ۔ یہ عورت اشعث بن قیس کندی کی زوجہ تھی جس نے اس شوہر کے بعد حضر موت کے ایک جوان سے نکاح پڑھا لیا تھا اور اس کے ایک بیٹا تھا اس وقت یہ عورت اپنے دروازہ پر موجود تھی مسلم نے سلام کیا اس نے جواب سلام کے بعد پوچھا تیرا کیا مطلب ہے مسلم نے کہا مجھے پینے کیلئے پانی دو میں بہت ہی پیاسا ہوں ۔ عورت گھر میں سے پانی کا آبخورہ بھرلائی مسلم نے گھوڑے سے اتر کر اور اس کے دروازے پر بیٹھ کر پانی پیا پھر اس عورت نے پوچھا اب تو کہاں جائے گا اور تیرا کیا حال ہے مسلم نے کہا اس شہر میں میرا کوئی گھر نہیں جہاں امن سے بیٹھ رہوں میں مسافر ہوں اور میرے جس قدر دوست اور ہماری ہمراہی تھے سب علیحدہ ہوگے اور مجھے تنہا چھوڑ دیا میں ایک بہت بزرگ خاندان کا شخص ہوں ۔

اگر تو مجھ سے اچھا سلوک کرے گی اور اپنے گھر میں پناہ دے گی تو اس کی جزا دونوں جہان میں خداورسول سے پائے گی ۔ اس نے پوچھا تو کون شخص ہے مسلم نے کہا اے عورت یہ نہ پوچھ اس نے جواب دیا تو مجھ سے اپنا حال نہ چھپا اور جب تک مجھے نہ معلوم ہوجائے گا کہ تو کون ہے اس وقت تک میں تجھے اپنے گھر میں جگہ نہ دوں گی ، کیونکہ شہر میں فساد عظیم پھیلا ہوا ہے اور عبیداللہ ابن زیاد بصرہ سے یہاں آیا ہے مسلم نے کہا اے عورت تو مجھے پہچان لے گی تو یقین ہے کہ بڑی مہربانی سے پیش آئے گی اور مجھے اپنے گھر میں پنا ہ دے گی۔ میں مسلم بن عقیل بن ابی طالب ہوں۔ میرے ساتھیوں نے آج مجھے تنہا چھوڑ دیااور سب منتشر ہوگئے میں تن تنہا رہ گیا تو یہاں آیا اس عورت نے کہا مرحبا مرحبا آئیے ، میرے گھر میں تشریف لے چلیے مسلم اس کے گھر میں تشریف لے گئے اور اس نے آپ کو کوٹھڑی میں بٹھا کر چرآغ روشن کردیا

اور کھا ناسامنے لا رکھا۔ مسلم نے کچھ نہ کھایا ، اسی وقت اس کا بیٹا آیا اور ماں کو دیکھا کہ روتی ہوئی کبھی اندر جاتی ہے اور کبھی باہر آتی ہے پوچھا یہ تیرا کیا حال ہے ، اس نے جواب دیا بیٹا ابھی مسلم بن عقیل نے ہمارے گھر میں آکر پناہ لی ہے وہ گھر میں موجود ہیں اور میں ان کی خدمت گزاری میں مصروف ہوں کہ اللہ تعالیٰ ثواب عطا کرے اس کا بیٹا سن کر خاموش ہورہا پھر کچھ دیر بعد بولا کل عبیداللہ نے منادی کرا کر تمام لوگوں کی جامع مسجد میں جمع کیاور خود منبر پر بیٹھ کر حمد و ثنا کے بعد کہا تھا کہ مسلم نے اس شہر میں آکر فتنہ و فساد برپا کیا اور جب کوئی مطلب حاصل نہ کرسکا تو بھاگ گیا چنانچہ تم سب اچھی طرح واقف ہواور مجھے بھی یقین ہے کہ وہ شہر سے باہر نہیں گیا کسی کے گھر میں پوشیدہ ہے اس لیے آگاہ رہو کہ جس گھر میں مسلم پایا جائے گا اس گھر والوں کو قتل کردیا جائے گا اور تمام مال و اسباب کو برباد کردیا جائے گا اور جو شخص مسلم کو میرے پا س پکڑ کر لائے گا یا اس کی خبر لائے گا۔میں اس کے ساتھ بے شمار انعام واکرام سے پیش آؤں گا اے کوفہ والو، خدا سے ڈرواور مخالفت کے پاس نہ جاؤ اس کے بعد پھر کہا کہ جو شخص مسلم کو میرے پاس لائے گا اسے دس ہزار درہم دوں گا اور یزید اس کی بڑی قدر و منزلت کرے گا اور میں بھی اس کی خواہشوں کو پوری کروں گا ۔ اس کے بعد عبیداللہ نے حصین بن نمیر کو بلا یا اور کہا کہ جاتمام مکانوں کی تلاشی لے کر مسلم کو پکڑلاحصین بن نمیر نے کہا بہت اچھا،اس وقت محمد بن اشعث بھی عبید اللہ کے پاس آ گیا۔

عبیداللہ نے کہا خوب آیا ،تجھ سے ایک صلاح لینی تھی ۔ اس نے کہا ، اے امیر فرمائیے وہ کیا مشورہ ہے ۔ جو کچھ میرا خیال ہو گا عرض کر دوں گا۔ عبیداللہ نے کہا کہ مسلم اسی شہر میں ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ باہر نہیں گیا۔ اب اسے کس حیلہ سے پکڑ سکتے ہیں ۔ محمد بن اشعث عبید اللہ کے پاس بیٹھ کر اس معاملہ کی باتیں کرنے لگا ۔ اتنے میں اس عورت کے بیٹے نے جس کے گھر میں مسلم چھپے ہوئے تھے ۔ عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کو اس حال کی خبر کی ،اور عبدالرحمن نے اپنے باپ محمد کے کان میں آپھونکی ۔ عبیداللہ نے کہا کہ تیرے بیٹے نے تجھے کان میں کیاکہا، محمد نے کہا کہ اللہ تعالیٰ امیر کو عظمت بخشے بڑی خوشخبری کی بات ہے ۔عبیداللہ نے کہا، میں ہمیشہ تیری زبان سے خوشخبری کی باتیں سنتا رہتا ہوں ۔ اس نے کہا میرا بیٹا کہتا ہے کہ مسلم ایک عورت ً طوعہ ً کے گھر میں پوشیدہ ہے ،

عبیداللہ بہت خوش ہوا اور کہا کہ تجھے بہت بڑا انعام اور خلعت دیا جائے گا ۔ جا اسے پکڑ لا۔ عمر بن حریص مخزومی کو جو اس کا نائب تھا ۔

حکم دیا کہ تین سونامور بہادر فوج میں سے چھانٹ کر محمد بن اشعث کے حوالے کر دے اور انہیں ہمراہ لے جائے اور مسلم کو گرفتار کر کے لائے ۔ محمد تین سو سواروں کو ہمراہ لے کر اس گھر کے قریب پہنچا ۔ مسلم نے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سن کر جان لیا کہ میری گرفتاری کے لئے آئے ہیں۔ اٹھ کر اپنی زرہ پہنی اب وہ لوگ بھی دروازہ پر آ پہنچے تھے اور انہوں نے گھر میں آگ لگا دی تھی ۔ مسلم نے یہ حال دیکھ کر تبسم کیا اور کہااے نفس ،مرنے کے لیے مستعد ہو جا ۔ آدمعليه‌السلام کی اولاد کا انجام یہی ہے پھر طوعہ سے کہا ۔ خدا تجھ کو بخشے اور ثواب عظیم عطا فرمائے ۔ تیرا بیٹا اس ظالم اور ناخدا ترس قوم کو مجھ پر چڑھا لایا ہے۔ گھر کا دروازہ کھول دے اس عورت نے دروازہ کھولا اور مسلم غضب ناک شیر کی طرح جھپٹ کر گھر سے باہر نکلے اور ایک ہی حملہ میں کئی شخصوں کو مار گرایا۔ لوگوں نے عبیداللہ سے جا کر کہا کہ مسلم مقابلہ سے پیش آیا اور کئی شخص مار ڈالے ۔ اس نے محمد سے کہلا بھیجا کہ مجھے صرف ایک شخص کی گرفتاری کے لیے تین سو جرارسوار کر دئیے تھے کہ اسے میرے پاس پکڑ لائے تو نے کیوں اسے جنگ کرنے اور کئی شخصوں کے ہلاک کرنے کا موقع دیا ،

یہ کیسی کمزوری اور عاجزی کی بات ہے ۔ مسلم اگرچہ بہادر شخص ہے مگر ایک آدمی سے تو زیادہ نہیں ۔محمد نے جواب کہلا بھیجا کہ کیا تو خیال کرتا ہے کہ مجھے کسی بنئے کے مقابلہ پر بھیجا ہے خدا کی قسم وہ ایک ہزار بہادر نوجوانوں کے ہم پلہ ہیں۔ اور اگر ایسے شخص کا کوئی ساتھ دینے اور مدد کرنے والا ہوتا تو دنیا کو ہماری نگاہوں میں تاریک کر دیتا ۔ مسلم آسانی سے گرفتار نہیں ہو سکتا کوئی اور تدبیر کرنی چاہئیے ۔ عبیداللہ نے کہلا بھیجا کہ اسے پنا ہ دی تاکہ آسانی سے قبضے میں آجائے کیوں کہ پناہ دیئے بغیر وہ گرفتار نہیں ہو سکتا۔ محمد نے آواز دے کر کہا۔ اے مسلم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈال تجھے پناہ دیتا ہوں ۔ اب ہاتھ سے تلوار ڈال دے اور میرے پاس چلا آ۔ مسلم نے کہا اے فاسق وفاجر گروہ تجھ پر اور تیری پناہ پر لعنت ہو ۔

اس نے کہایہ بات نہ کر اوراپنی جان پر ظلم نہ کر ، میری بات پر بھروسہ کر کے امن وامان سے میرے پاس چلا آ ۔ مسلم نے کہا خدا کی قسم ہرگز ایسا نہ ہو گا تمہارا قول و قرار کوئی چیز نہیں ۔ تم میں نہ وفا ہے نہ دین نہ آئین ۔ اگرایسا ہوتا تو تم مجھ پر اس طرح پتھر کیوں پھینکتے جس طرح کافروں پر پھینکتے ہیں۔ کیا تم واقف نہیں کہ میں اہلبیت رسالت اور محمدکے خاندان میں سے ہوں ۔ اگر تم میں ذرا سی بھی مسلمانوں کی بو ہوتی تو میرے ساتھ اس طرح پیش نہ آتے ۔ غرض مسلم نے زخموں کی کثرت کے سبب تاتواں ہو کر پھر حملہ کیا اور کئی شخصوں کو مار کر پلٹ آئے اور دروازے سے کمر لگا لے ۔ محمد نے کہا ذرا لڑائی کو بند رکھو میں مسلم سے چند باتیں کر لوں ۔ پھر قریب آ کر کہا اے مسلم افسوس ہے تو اپنے آپ کو ہلاک نہ کر، تجھے امان دے دی گئی ہے میں اقرار کرتا ہوں کہ تجھے تکلیف نہ پہنچے گی اور میں اپنے حفاظت میں رکھوں گا ۔ مسلم بن عقیل نے کہا: اے اشعث کے بیٹے کیا تو یہ جانتا ہے کہ جب تک میں سانس لے سکتا ہوں اپنا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دے دوں گا ۔

خدا کی قسم ہرگز ایسا نہ ہو گا ۔ پھر اس پا حملہ کیا محمد پیچھے ہٹ گیا اور آپ بھی واپس آ کر اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے اور کہتے تھے اے کوفہ والو میں پیاس سے بے جان ہوا جاتا ہوں مجھے ایک پیالہ پانی پلادو ۔ ایک شخص کو بھی آپ پر رحم نہ آتا تھا کہ ایک جام آب پلاتا۔ اب محمد نے اپنے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا ، بڑے شرم کی بات ہے کہ ہم اس قدر جماعت کیثر ہو کر ایک تن تنہا شخص کو گرفتار نہ کر سکیں ۔ سب مل کر ایک دفع ہی اس پر ٹوٹ پڑو،اور پکڑلو ۔ غرض اب نے متفق ہو کر حملہ کیا قور مسلم نے سب کو نیزہ مار مار کر ہٹا دیا ۔ انجام کا ر ایک کوفی بکر بن حمران نے آگے بڑھ کر تلوار ماری جو مسلم کے نیچے کے لب پر لگی اور مسلم نے بھی اس کے جواب میں ایک ایسا ہاتھ مرا کہ تلوار پیٹ کو چاک کرتی ہوئی کمر کی طرف نکل آئی ۔ بکر بن حمران فوراً زمین پر گر کر دوزخ میں پہنچ گیا۔ اب ایک اور آدمی نے پیٹھ کے پیچھے سے آکر نیزہ مارا جس کے صدمہ سی مسلم منہ کے بل گر پڑے اور لوگوں نے دوڑ کر آپ کو پکڑ لیا ، آپ کے اسلحے اور گھوڑے چھین لیے گئے اور بنی سلم کے ایک آدمی عبداللہ ابن عباس نے آپ کا عمامہ اتار لیا ۔ مسلم بن عقیل ایک گھونٹ پانی مانگتے تھے ۔

مسلم بن باہلی نے کہا تو پانی کے بدلے موت کا مزہ چکھے گا مسلم نے کہا تجھ پر تف ہے یہ کیسی نازیبابات کہی اور تو بڑاہی سنگدل شخص ہے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اگر تجھے قریشی کہیں تو بڑی غلطی ہے تو کسی قریشی باپ کی اولاد نہ سمجھا جائے گا۔ مسلم بن عمر باہلی نے کہا ۔ مجھے بتا تو کون ہے مسلم بن عقیل نے کہا کہ میں وہ شخص ہوں جس نے اس وقت خدا کو مانا جب کہ تو منکر تھا اور میں نے اس وقت اپنے امام کی پیروی کی جب کہ تو گناہگار ہوا۔میں مسلم بن عقیل بن ابی طالب ہو ں ۔ اب تو بتلا کہ تو کون ہے ؟ اور تیرا کیا نام ہے ؟ اس نے کہا کہ میں مسلم بن عمر باہلی ہوں

مسلم بن عقیل نے کہا کہ اے باہلہ کے بیٹے تو آتش دوزخ اور جہنم کے گرم پانی کا زیادہ مستحق ہے ۔ پھر کہا اے کوفہ والو ! مجھے کچھ پانی پلاؤ ۔ عمر بن حریث مخزومی آگے بڑھ کر پانی کا کوزہ لایا اور ایک آبخورہ بھر حاضر کیا ۔ مسلم جو نہی وہ پیالہ منہ کے قریب لے گئے اس میں آپ کے دو دانٹ ٹوٹ کر گر پڑے اور وہ پیالہ خون سے لبریز ہو گیا ، آپ وہ پانی نہ پی سکے اور باز رہے ۔ پھر آپ کو عبیداللہ ابن زیاد کے سامنے حاضر کیا۔ کسی نے کہا امیر کو سلام کر مسلم نے کہا پناہ بخدا وہ امیر کہاں سے آیا ہے میں اسے سلام نہیں کر سکتا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت کا سلام مجھے کیا فائدہ دے سکتا ہے ۔ اگر وہ مجھے چھوڑ دے گا تو میں سلام کر لوں گا ۔ عبیداللہ نے یہ گفتگو سن کر کہا اس کا سلام کرنا آسان بات ہے اگر سلام نہ کرے گا تو مارا جائے گا ۔

مسلم نے جواب دیا کہ مجھے قتل کرے گا تو کیا ہو گا ۔ پیشتر ازیں تجھ سے بھی بدتر شخصوں نے مجھ سے بہتر اشخاص کو قتل کر دیا ہے عبیداللہ نے کہا اے شخص تو نے امام وقت پر خروج کیا امامت اور مسلمانوں کی اجتماع میں اختلاف ڑالا اور فتنہ بر پا کیا۔ مسلم نے کہا کہ تو جھوٹ بولتا ہے ای پسر زیاد ۔ معاویہ امت کے اجماع سے مسلمانوں کا خلیفہ نہیں ہوا ۔ بلکہ دغا بازی اور تغلب سے وصی پیغمبر کے خلاف ہو کر خلافت چھین لی اور یزید کی بھی یہی کیفیت تھی اور فتنہ تو نے برپا کیا اور تجھ سے پہلے تیرے باپ نے فساد کیا تھا ۔ امید ہے کہ مجھے اللہ بدترین شخص کے ہاتھ سے شہادت عطا کرے گا۔ خدا کی قسم میں راہ راست پر ہوں۔ میری نیت اور اعتقاد میں ذرا بھی تبدیلی اور تغیر نہیں آیا ۔ میں حسینعليه‌السلام بن علیعليه‌السلام کی فرمانبرداری میں جوامیرالمومنینعليه‌السلام اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خلیفہ اور جانشین اور مسلمانوں کا امام اور پیشوا ہے ۔ ثابت قدم ہوں یزید اور معاویہ کو فاسق اور فاجر جانتا ہوں ، عبیداللہ نے کہا تو معاویہ کو فاسق کہتا ہے حالانکہ تو خود مدینہ میں شراب پیتا تھا۔

مسلم نے کہا اے کذاب بن کذاب شراب تو اس شخص نے پی ہے جو ناحق مسلمانوں کا خون بہاتا ہے اور اسے گناہ نہیں سمجھتا اور خونریزی سے اپنا دل خوش کرتا ہے گویا کچھ گناہ ہی نہیں ہے عبیداللہ نے کہا اے فاسق تو نے یہ سمجھ کر مہم اختیار کی تھی کہ کام بن جائے گا مگر تو اس عہدہ کے لائق نہ تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے تجھے کامیاب نہ ہونے دیا اور اس شخص کو نصیب کیا جسے اس کے لائق پایا مسلم نے کہا کہ الحمد للہ ہمارا تمہارا فیصلہ قیامت کے دن خداتعالیٰ کے سامنے ہوگا۔ عبیداللہ نے پوچھا کیاتو سمجھتا تھا کہ حسینعليه‌السلام کو خلافت مل جائے گی مسلم نے کہا جو کچھ میں سمجھے ہوئے تھا

وہ محض خیال ہی نہ تھا بلکہ یقینی امر تھا عبیداللہ نے کہا اگر میں تجھے قتل نہ کروں تو خدا مجھے مار ڈالے

مسلم نے جواب دیا تجھ جیسے خبیث چلن اور شریر طینت والے شخص کے ہاتھ سے ناحق خونریزی کا ہونا کچھ مشکل بات نہیں ہے خدا کی قسم اگر میرے ساتھ کچھ آدمی ہوتے اور ذرا سا پانی مل جاتا تو تجھے اس قصر میں مزا چکھا دیتا ۔ فی الحقیقت جس شخص نے اس مکان کی بنیاد ڈالی ہے وہ ملعون تھا اگر تو مجھے مصمم مار ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہے تو قریش میں سے کسی شخص کو میرے پاس بھیج کر اس سے کچھ وصیتیں کروں۔ عبیداللہ نے عمر بن سعد بن وقاص کو آپ کے پاس بھیجا کہ جو کچھ وصیت کرنی ہے اس سے کہہ دی جائے عمر سعد نے مسلم کے پاس آکر کہا جو وصیت کرنی ہے مجھ سے کر میں اسے بجا لاؤں گا مسلم نے کہا تو میری اور اپنی قرابت کو جانتا ہے آج مجھے تیری ضرورت ہے اور وصیت کرنا چاہتاہوں واجب ہے کہ میری باتوں کو غور سے سنے اور میری خواہش کو بجالائے ۔

عمر سعد نے کہا کہ توسچ کہتا ہے اور مجھ پر فرض ہوگیا کہ تیری وصیت کو پوری کروں تو نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے مگر تو تو میرے چچا کا بیٹا ہے جو کچھ کہتا ہے بیان کر مسلم نے کہا میں اس شہر میں آ کر سات سو درہم کا قرض دار ہوں میرے مارے جانے کے بعد میرے گھوڑے اور زرہ اور اسلحہ کو بیچ کر قرضہ ادا کردینا پھر حسینعليه‌السلام بن علیعليه‌السلام کو خط بھیج کر میرے حال سے مطلع کردینا اور میری طرف سے لکھ دینا کہ ہرگز ہرگز عراق کی طرف تشریف نہ لانا ورنہ جو میرا حال ہوا ہے وہی تمھارے ساتھ سلوک ہوگا۔ عمر سعد نے عبیداللہ سے وصیت کا ذکر کیا۔ اس نے کہا کہ گھوڑے اور اسلحہ سے قرضہ کی ادائیگی کو ہم سے کچھ تعلق نہیں۔ نہ کوئی ممانعت کرسکتا ہے ۔ مگر مسلم کی لاش پر بعد قتل بھی ہمارا ہی اختیار رہے گا جو کچھ ہم چاہیں گے کریں گے اور حسینعليه‌السلام بن علیعليه‌السلام کی نسبت یہ بات ہے کہ اگر وہ ہم پر حملہ نہ کرے گا تو ہم بھی اس پر حملہ آور نہ ہوں گے اور اگر ہمیں ایذا دے گا اور خلافت حاصل کرنے کے واسطے ہم سے لڑے گا تو ہم بھی خاموش نہ رہیں گے اے مسلم بن عقیل تو اس شہر میں کس لیے آیا تھا حالانکہ اس کی حالت اور حاکم سب عمدہ حالت میں تھے تو نے آکر پریشانی ڈالی مسلم نے کہا میں اس شہر کے لوگوں کو متفرق اور پریشان کرنے کی غرض سے نہ آیا تھا مگر چونکہ تم نے بڑے بڑے قاعدے جاری کر دیئے ہیں مصرو روم کے بادشاہوں اور ایران کے حاکموں جیسے قوانین کا برتاؤ کررکھا ہے خلق خدا کے خلاف عملدر آمد ہوتا ہے اور امربالمعروف بالکل جاتا رہا کوئی شخص بدی سے نہیں روکتا اس لیے امیرالمومنین حسینعليه‌السلام نے مجھے اس جگہ بھیجا کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے طریق کو جاری کروں خلق خدا کو اللہ تعالیٰ کے احکام اور محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت پر چلاؤں کیونکہ امیرالمومنین علیعليه‌السلام کی وفات کے بعد خلافت ہمارا حق تھا اور تم بھی اس بات سے خوب واقف ہو خواہ اسے مانو یا نہ مانو امیرالمومنین علی بن ابی طالب پر جو امام برحق اور خلیفہ مطلق تھے سب سے پہلے تم نے خروج کیا اور ہماری تمہاری وہی کیفیت ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ۔

عبیداللہ ابن زیاد نے یہ کلام سن کر بے حیائی کی زبان دراز کی ،

اور خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ذرا پاس نہ کیا اور حضرت علیعليه‌السلام و امام حسین و مسلم بن عقیل کی نسبت نالائق الفاظ منہ سے نکالے۔ مسلم نے کہا تیرے اور تیرے باپ کے اور اس شخص کے منہ میں خاک ہو جس نے تجھے امیر بنایا ،

اے دشمن خدا ان کلمات کے تم خود سزاوار ہو تیرے باپ زیاد کا کوئی باپ ہی معلوم نہ تھا ہم اہل بیت نبوت میں سے ہیں ہمیشہ ہم پر مصائب نازل رہے ہیں ہم راضی برضا ہیں۔الخبیثاث للخبیثین کا مضمون تمہاری طرف ہی صادق آتا ہے اب تو جو چاہے کہہ اور کر۔ عبیداللہ نے کہا ، اسے مکان کی چھت پر لے جا کر قتل کرو مسلم نے کہا اگر تو قریشی ہوتا اور ہم سے تیری رشتہ داری ہوتی تو تو مجھے اس طرح قتل نہ کرتا اور اگر تو اپنے باپ کا بیٹا ہوتا تو خاندان نبوت کے ساتھ ایسی عداوت سے پیش نہ آتا ۔ عبیداللہ نے ان باتوں سے زیادہ غضب ناک ہوکر ایک زخمی شامی کو جس کے سر پر اثناء جنگ میں مسلم نے تلوار ماری تھی بلا کر کہا کہ مسلم کو چھت پر لے جاکر اپنے ہاتھ سے قتل کرکے اپنا بدلالے۔

وہ شخص مسلم کا ہاتھ پکڑ کر کوٹھے پر لے گیا۔ اثناء راہ میں مسلم تسبیح اور استغفار میں مشغول تھے کہتے جاتے تھے ۔ اللھم احکم بیننا وبین قومنا خذلونا۔ غرض شامی نے بٹھا کر جسم مبارک سے سراطہر الگ کردیا۔ مسلم پر خدا کی رحمت ہو پھر وہ شخص دیوانہ وار کوٹھے سے اتر کر عبیداللہ کے پا س آیا اس نے اسے پریشان حال دیکھ کر پوچھا تجھے کیا ہوا مسلم کو قتل کیا یا نہیں اس نے جواب دیا ہاں مسلم کو تو قتل کیا مگر مجھے عجیب معاملہ پیش آیا اس کا سر کاٹنے کے بعد ایک سیاہ فام بدصورت شخص نظر آیا وہ دانتوں سے ہونٹ چباتا ہوا نہایت غصے سے میری طرف دیکھتا اور انگلی سے میری طرف اشارہ کرتا تھا میں اس قدر ڈرا کہ عمر بھر کسی شے سے ایسا نہ ڈرا تھا عبیداللہ نے سن کر کہا کہ تو نے پہلے کبھی ایسا کام نہ کیا تھا اس سبب سے تیری طبیعت درہم برہم ہوگی کوئی بات نہیں اندیشہ نہ کر ، پھر حکم دیا کہ ہانی کو قید خانہ سے نکال کر مسلم کے پاس پہنچا دے محمد بن اشعث نے کہا اللہ تعالیٰ امیر کو تندرست رکھے۔

ہانی بہت بڑا نامور اور بزرگ شخص ہے بصرہ میں تو بھی اس کے عالی مرتبہ اور بلند درجہ سے آگاہ تھا اس کے عزیزوں اور رشتہ داروں کا جتھا بہت زیادہ ہے اس کی تمام قوم کو معلوم ہے کہ میں اور ابن خارجہ اسے تیرے پاس لے گئے ہیں اس لیے یہ امر ہمیں سخت ناگوار ہے تجھے قسم دیتا ہوں کہ اس کی خطا بخش دے اس کی قوم کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کر۔ عبیداللہ نے ایک ڈانت پلائی اور کہا چپ رہ کب تک ایسی بیہودہ گوئی کرتا رہے گا ۔غرض اس کے حکم سے لوگوں نے ہانی کو قید خانہ سے نکالا بازار میں سے گزار کر قصابوں کے محلہ میں لے گئے جہاں بکریاں فروخت ہوتی ہیں ہانی سمجھ گیاکہ مجھے قتل کریں گے غل و شور مچایا۔

اے مدحج و الو اور میرے رشتہ دار و دوڑو اب عبیداللہ کے ملازموں نے اس کے ہاتھ کھول دئیے تھے پھر چیخا اور کہا ارے مجھے کوئی ہتھیار ہی دے دو کہ میں اس بلا کے ہاتھ سے اپنے آپ کو بچالوں۔ یہ سنتے ہی جلادوں نے پھر ہاتھ باندھ دیئے اور کہا گردن اونچی کر ، ہانی نے کہا سبحان اللہ کیا اچھی بات کہتے ہو میں اپنے قتل کے واسطے خود کوشش نہ کروں گا۔ اتنے میں ابن زیاد کے ایک غلام رشید ملعون نے اس کی گردن پر تلوار ماری مگر وار پورانہ بیٹھا اور ہانی نے کہا ۔

الی الله النقلب والمعاد اللهم الی رحمتک ورضوانک اجعل هذا الیوم کفارة لذنوبی ۔

اب دوسرے وار میں ہانی کی گردن قطع کردی اور بحکم ابن زیاد ، ہانی اور مسلم کی لاشیں سولی پر الٹی لٹکا دیں اور دونوں کے سر ایک خط کے ساتھ یزید کے پاس بھیج دئیے ۔ مضمون خط یہ تھا۔

بسم الله الرحمن الرحیم

عبیداللہ ابن زیادہ کی طرف سے ، یزید بن معاویہ کو خدا کی حمد وثنا کے بعد واضح ہوکہ اللہ تعالیٰ نے امیرکا بدلا دشمنوں سے لے لیااور ان کی طرف سے مطمئن کر دیا ۔

اطلاع دیتا ہوں کہ مسلم نے کوفہ میں آکر ہانی کے گھر میں پناہ لی تھی اورحسینعليه‌السلام کے واسطے خلقت سے بیعت لیتا تھا۔

میں نے جاسوس مقرر کر کے بڑی تدبیر وں سے پتہ نکالا۔ جنگ و جدل کے بعد دونوں کو گرفتار کیا اب قتل کر کے ان کے سر ہمراہ نامہ روانہ کرتا ہوں ۔

ہانی بن جردارعی اور زبیربن ارحواح یہ دونوں قاصد امیر کے فرمانبردار اور خدمت گزار ہیں ۔ ان سے اچھا سلوک کیا جائے۔ والسلام اب ان دونوں شخصوں نے شہیدوں کے سر اور خط یزید کے حوالے کیے تو اس نے خط کا مطالعہ کر کے حکم دیا کہ یہ سرد مشق کے دروازے پر لٹکا دیئے جائیں اور خود جواب میں لکھا : تیرا خط آیا مسلم اور ہانی کے سر پہنچے ، میں بہت خوش ہوا۔ تو مجھے بہت عزیز ہے ۔

جیسا میں چاہتا تھا تو ویسا ہی نکلا۔ میں تجھ سے اس امر کی باز پرس نہیں کرتا جو کچھ تو نے کیا خوب کیا۔

قاصدوں کی نسبت جو لکھا تھا ۔ ہر ایک کو دس دس ہزار درہم عطا کر کے شاداں و فرحاں واپس بھیجتا ہوں ۔

والسلام

ہاں یہ بھی سنتا ہوں کہ حسین بن علی مکہ سے نکل کر عراق کا ارادہ رکھتے ہیں ۔

تجھے بہت ہی احتیاط رکھنی لازم ہے ۔ خبر داری کے ساتھ راستوں کو اپنی نگرانی اور حفاظت میں لے لینا چاہیے اورجس شخص کو فسادی سمجھے خواہ قتل کر یا قید میں ڈال ۔تجھے اختیار ہے کہ حسین کی جو خبریں تجھے معلوم ہوتی رہیں ۔ وقتاً فوقتاً مجھے اس سے مفصل اطلاع دیتا رہ (ترجمہ فتوحات محمد بن علی بن اعثم کوفی ۲۰۴ھہ صہ۳۵۴تاصہ۳۶۴طبع دہلی )

واضح ہو کہ اعثم کوفی نے بعض واقعات ایسے لکھ دیے ہیں جو ہمارے مسلمات کے خلاف ہیں اور واقعات میں الٹ پھیر بھی کیا ہے لیکن چونکہ ان کا بیان کثیر معلومات پر مشتمل ہے اس لئے ہم نے نقل کر دیا ہے۔ حضرت مختار حوالی کو فہ میں حضرت ہانی کا جس وقت واقعہ درپیش ہوا ۔ حضرت مختار کوفہ میں موجود نہ تھے ۔ مورخین کا بیان ہے کہ حضرت مسلم جب حضرت ہانیء کے مکان میں منتقل ہو گئے تھے ۔تو حضر ت مختار اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کے لیے کوفے کے دیہاتوں کی طرف چلے گئے تھی ۔ ان کو یقین تھا کہ حکومت کے مقابلہ کے لیے اہل کوفہ کی امداد کافی نہ ہو گی ۔ حضرت مختار کا خیال تھا کہ ہم اپنے ہو خواہوں کو کثیر تعداد میں جمع کر کے ابن زیاد کی حکومت کا تختہ الٹ دیں گے۔ (روضۃ الصفاء جلد ۳صہ۷۴ذوب النصارابن نما صہ۴۰۲۔ روضۃ المجاہدین صہ ۶، مجالس المومنین ص۳۵۶)

غر ضیکہ حضرت مختار کے شہر سے باہر جانے کے بعد حضرت ہانی بن عروہ شہید کر دئیے گئے ۔ حضرت ہانی کے اہل قبیلہ بھی تھے ۔ بالآخر رات ہو گئی ۔ جناب محمددکثیر نے حضرت مسلم کو اپنے مکان میں رات گزارنے کے لیے ٹھہرالیا۔ جب صبح ہوئی تو ابن زیاد نے محمد دکثیر کو دربار میں طلب کیا اور انہیں ناسزا الفاظ سے یاد کیا چونکہ ان کے ہواخواہ وہاں موجود تھے ۔ لہذا اچھی خاصی جنگ ہو گئی۔ بالآخر دونوں باپ بیٹے درجہ شہادت پر فائز ہو گئے ۔ حضرت مسلم نے جب محمد دکثیر کے دربار میں شہید کیے جانے کی خبر سنی تو بالکل بے آس ہو گئے ، اسی مایوسی کی حالت میں ایک گلی سے گزرتے ہوئے پیاس کی حالت میں آپ نگاہ ایک ضعیفہ پر پڑی ۔ آپ اس کے قریب تشریف لائے ۔ اور آپ نے پانی مانگا ۔ اس نے پانی دے کر ان سے درخواست کی کہ اپنی راہ لگے ۔ کیوں کہ یہاں کی فضا بہت مکدر ہے آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تیرا نام کیا ہے ؟ اس نے عرض کی مجھے ً طوعہ ً کہتے ہیں ۔ آپ نے ارشاد فرمایااے طوعہ جس کے کوئی گھر نہ ہو وہ کہاں جائے اور کیا کرے اس نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علی مرتضیٰ کا بھتیجا اور حضرت امام حسین علیہ کا چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل ہوں طوعہ نے دروازہ خانہ کھولا، اپنے گھر میں جگہ دی آپ نے رات تو بسر کی لیکن صبح ہوتے ہی دشمن کا لشکر آپہنچا۔ کیونکہ پسر طوعہ نے ماں سے پوشیدہ ابن زیادسے چغل خوری کر دی تھی لشکر کا سردار محمدبن اشعث تھا جو امام حسن علیہ السلام کی قاتلہ جعدہ بنت اشعث کا حقیقی بھائی تھا ۔

حضرت مسلم نے جب تین ہزار گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنی تو تلوار لے کر گھر باہر نکل پڑے اور سینکڑوں دشمنوں کو تہ تیغ کر دیا ۔ بالآخر ابن اشعث نے اور فوج مانگی ۔ ابن زیاد نے کہلا بھیجا کہ ایک شخص کے لیے تین ہزار کی فوج کیسے نا کافی ہے اس نے جواب دیا کہ شاید تو نے یہ سمجھا ہے کہ مجھے کسی بنیاوبقال سے لڑنے پر مامور کیا ہے ارے یہ محمدکا برادر زادہ اور علی جیسے شجاع کا بھتیجا ہے ۔ غرضیکہ جب مسلم پر کسی طرح قابو نہ پایا جا سکا تو ایک خس پوش گڑھے میں آپ کو گرا دیا گیا ، پھر گرفتار کر کے ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا ۔ حضرت مسلم دربار میں خاموش داخل ہو گئے اور آپ نے ابن زیاد کو سلام نہیں کیا ۔

کہا گیا کہ مسلم تم نے امیر کو سلام کیوں نہیں کیا ۔ آپ نے فرمایا۔مالی امیر سوی الحسین فرزند رسول حضرت امام حسینعليه‌السلام کے علاوہ دنیا میں ہمارا کوئی امیر نہیں ہے ، ابن زیاد جو آگ کھاے بیٹھا تھا اس نے حکم دیا کہ مسلم کو کو ٹھے پر سے گرا کر قتل کر دیا جائے اور ان کا سر کاٹ کر دمشق بھیج دیا جائے اور بدن بر سر عام لٹکا دیا جائے ۔ آپ کوٹھے پر لے جائے گئے آپ نے چند وصیتیں کیں اور کوٹھے سے گرتے ہوئے السلام علیک یا اباعبداللہ زبان پر جاری کیا اور آپ نیچے تشریف لائے ۔ آپ کا سر مبارک کا ٹ لیا گیا ۔ یہ واقعہ۹ ذی الحجہ ۶۰ ھ کا ہے۔ علماء کا بیان ہے کہ ہانی بن عروہ کا سر کاٹ کر یزید کے پاس بھیج دیا گیا اور بدن مبارک بازار قصابان میں دار پر لٹکا دیا گیا۔ایک روایت میں ہے کہ دونوں کے پیروں میں رسی باندھ کر لاشوں کو بازاروں میں گھسیٹا جا رہا تھا کہ قبیلہ مد حج کو جو ش آ گیا نوجوان میدان میں نکل آئے اور انہوں نے حکومت کی فوج سے دانت کھٹا کر دینے والا مقابلہ کیا۔ بالآخر لاشوں کو چھین لیا اور انہیں احترام کے ساتھ سپر د خاک کر دیا ۔ (روضۃ الشہد اء ص۲۶۰ وکشف الغمہ ص۶۸ ،خلاصتہ المصائب ص۴۶ و کتاب چودہ ستارے ص ۱۶۰طبع لاہور)

حضرت مختار کی حمایت مسلم کے لیے دیہات سے لشکر سمیت واپسی

تاریخ شاہد ہے کہ حضرت ہانی، حضرت محمدوکثیر کی شہادت کے بعد حضرت مسلم نے میدان کا ر زار میں آ کر نہایت دلیری اور بہادری سے اپنی جان روح اسلام اور فرمان امام پر قربان کردی ، حضرت مختار جو جمع لشکر کے لیے کوفہ کے دیہات میں گئے ہوئے تھے ، انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ حضرت مسلم میدان میں نکل آئے ہیں ۔اور دشمنوں سے نبرد آزما ہیں تو اپنے دل میں کہنے لگے کہ جس صورت سے ہو سکے ، اب مجھے شہر کوفہ پہنچ کر حضرت مسلم کی امداد کرنی ہے ۔ اور ان کے قدموں میں جان دینی ہے اسی تصور کے ماتحت آپ نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ سلاح جنگ سے آراستہ ہو جائیں۔ آپ کے حسب الحکم تمام لوگ مسلح ہو گئے ۔ آپ نے بھی سلاح جنگ سے اپنے کو سنوار لیا پھر دروازے سے باہر آ کر میدان میں جمع ہونے کا حکم دیا ۔ جب تمام لوگ مجتمع ہو گئے آپ نے تر تیب قائم کی ۔ اور کوفہ کی طرف روانگی کاحکم دے دیا ۔

حضرت مختار نہایت تیزی کے ساتھ کوفہ کی طرف جارہے تھے ۔ راستے میں ایک شخص کو راستہ کے کنارے بیٹھا ہو ا دیکھ کر اس سے پوچھا کہ کہاں سے آرہا ہے ، اور تجھے حضرت مسلم بن عقیل کے حالات کی کچھ خبر ہے یا نہیں ؟ اس شخص نے حضرت مختار کو کوئی جواب نہ دیا ۔ مختار وہاں سے روانہ ہو کر کچھ دور چلے تھے کہ آپ کو اس کا جواب نہ دینا بہت زیادہ محسوس ہوا آپ پھرواپس آئے ۔ اور آپ نے اس سے فرمایا کہ اے شخص تو کس قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے اور تو نے میرے سوال کا کوئی جواب کیوں نہیں دیا؟اس نے کہا کہ میں کوفہ سے آرہا ہوں اور میں امیر ابن زیاد کا غلام ہوں ، آپ نے پوچھا کہ ادھر آنے والے لشکرابن زیاد کو کس مقام پر دیکھا ہے اس نے کہا کہ میں نے کسی شخص کو بھی نہیں دیکھا۔

حضرت مختار وہاں سے روانہ ہو کر آگے بڑھے ۔ آپ پوری سرعت کے ساتھ قطع مراحل کر رہے تھے کہ راستہ میں ایک دوسرا شخص نظر پڑا جو اندھا اور لنگڑا تھا حضرت مختار نے اس سے پوچھا کہ کہاں سے آ رہا ہے اور کس قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس نے کہا کہ میں کوفہ سے آرہا ہوں آپ نے پوخھا کہ ً از مسلم چہ خبرداری ً حضرت مسلم کے متعلق تجھے کیا اطلاع ہے اور وہ کوفہ میں کس حال میں ہیں ۔ نا بینا نے کہا کہ میں نے تو کچھ نہیں دیکھا کیونکہ نابینا ہوں لیکن وہاں لوگ کہتے ہیں کہ مسلم اور ابن زیاد میں سخت جنگ ہورہی ہے۔ حضرت مختار نے جب اس نابینا سے یہ سنا کہ جنگ جاری ہے تو آپ نے اپنے لوگوں سے کہا بھائیو نہایت تیزی سے چلو تاکہ ہم کوفہ پہنچ کر حضرت مسلم کی مدد کر کے بار گاہ رسول کریم میں سرخرو ہو سکیں یہ کہہ کر آپ نے اپنے ساتھیوں سمیت نہایت سرعت سے ساتھ مسافت قطع کرنا شروع کر دیا ۔اور جلد سے جلد کوفہ پہنچنے کے لئے آپ بے چین ہو گئے ۔ حضرت مختار نہایت تیزی کے ساتھ جا رہے تھے کہ راستہ میں ایک بڑے لشکر سے مڈبھیڑہو گئی ۔

وہ لشکر مختار کو نہیں پہچانتا تھا اور حضرت مختار بھی ان سے ناواقف تھے ان لوگوں نے حضرت مختار سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو اور یہ لشکر کہاں لیے جارہے ہو ۔ اور مسلم وابن زیاد میں سے کس کے طرف دار ہو حضرت مختار نے فرمایا کہ میں مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی ہوں ۔ اور حضرت مسلم بن عقیل کے حمایت کے لیے جا رہا ہوں ۔

میں نے تہیہ کیا ہے کہ حضرت مسلم کے دشمنوں کو فضائے کوفہ میں سانس نہ لینے دوں گا ۔ اور زمین کوفہ کو مسلم کے دشمنوں سے پاک کر دوں گا ۔ یہ سننا تھا کہ اس لشکر نے حضرت مختار کے لشکر پر حملہ کر دیا ، حضرت مختار جوشجاعت اور فن سپہ گری میں اپنے مثال نہ رکھتے تھے جھپٹ کر لشکر مخالف کے سردار ( قدامہ) پر حملہ آور ہوئے اور اس کے سر پر آپ نے ایسے ضرب لگائی کہ سینہ تک شگافتہ ہو گیا ۔ اس کے مرنے سے لشکریوں کے ہمت پست ہو گئی اور سب میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ پھر حضرت مختار آگے بڑھے ،ابھی تھوڑا ہی راستہ طے کیا تھا کہ حضرت مختار کے غلام نے راستہ کے ایک کنارے پر پانچ آدمیوں کو بیٹھا دیکھ کر امیر مختار کو ان کی طرف متوجہ کیا۔ حضرت مختار نے سنا کہ وہ اشعار پڑھ رہے ہیں، ان لوگوں نے جب مختار کو اپنے طرف آتے دیکھا اشعار پڑھنا بند کر دیا،

حضرت مختار نے ان سے پوچھا کہ تم کیا شعر پڑھ رہے تھے۔ان لوگوں نے چند اشعار کا حوالہ دیا ۔ پوچھا یہ اشعار کس کے ہیں ؟ کہا عبداللہ صالح کے آپ نے پوچھا کہ ان اشعار کا مطلب کیا تھا جنہیں تم پڑھ رہے تھے ان لوگوں نے کہا کہ ان اشعار کا خلاصہ یہ ہے کہ بکشتند کسے را کہ صالح بود ، وبادی غدر کروند کہ اس شخص کو قتل کردیا جو نیک اور صالح تھا اور اس کے ساتھ پوری غداری کی یہ سننا تھا کہ حضرت مختار روپڑے اور کہنے لگے کہ میرا دل ڈر رہا ہے ، مجھے اندیشہ ہے کہ حضرت مسلم قتل نہ ہوگئے ہوں اس کے بعد حضرت مختار پھر آگے بڑھے ابھی چند ہی قدم چلے تھے کہ ایک شخص کو آتے دیکھا جو قبیلہ بنی اسد کا تھا اس نے حضرت مختار کو پہچان کر باواز بلند پکار اسیدی بکجا می روی اے میرے سردار مختار آپ کہاں جارہے ہیں حضرت مختار نے کہا حضرت مسلم بن عقیل کی امداد کیلئے کوفہ جارہا ہوں۔

حضرت مختار کی امیدوں پر پانی پھر گیا

اس نے باچشم گریاں کہا خدا آپ کو صبر دے حضرت مسلم کو زیادیوں نے شہید کر ڈالا ہے اور ان کا سرکاٹ کر دمشق بھیج دیا ہے اور ان کے تن اطہر کو بازار قصاباں میں دار پر لٹکا دیا ہے یہ سننا تھا کہ حضرت مختار نے اپنے کو گھوڑے سے گرادیا اپنا گریبان پھاڑ ڈالا اور چیخ مار کر رونا شروع کردیا حضرت مختار کمال بیقراری کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے ۔

چوں ہوش آمد درخاک مغلطید جب ہوش آئے تو خاک میں لوٹنے لگے۔ یہ حال دیکھ کر مرداسدی نے حضرت مختار سے صبر کی درخواست کی اور کہا کہ اے میرے آقا اب مصلحت یہی ہے کہ حضور والا اپنے کو ابن زیاد کے شر سے بچانے کی طرف توجہ فرمائیں۔

حضرت مختار کی حکمت عملی

حضرت مختار نے موجودہ صورت حال پر غور کرنے کے بعد اپنے آدمیوں کو اپنی ہمراہی سے رخصت کردیا اور کہا کہ خداوندعالم حضرت مسلم کے بارے میں تمہیں بھی صبر عطا کرے ہم تمہارے شکرگزار ہیں کہ تم ہماری خواہش پر امداد مسلم کے لیے آگئے تھے اب جب کہ وہ ہی نہ رہے تمہارا کوفہ جانا بالکل بے سود ہے تم واپس جاؤ اور دشمن کی نگاہوں سے اپنے کو محفوظ رکھو۔ حضرت مختار نے اپنے مددگاروں کو رخصت کرنے کے بعد اپنے سلاح جنگ کو اپنے سے دور کردیا اور تن تنہا کوفہ میں داخل ہوئے ۔ کوفہ میں ایک مقام پر آپ نے دیکھا کہ سیاہ علم نصب ہے اور خیمے لگے ہوئے ہیں اور ایک خیمہ میں ابن الحارث بیٹھا ہوا ہے اور منادی پے در پے مذاکر رہا ہے کہ۔ہرکہ درزہرعلم حاضر شوداور از ینہا راست و جان و مال او ایمن است۔جو شخص اس علم زیادی کے سایہ میں آجائے گا اس کا جان و مال محفوظ ہوجائے گا اور جو اس سے کترائے گا قتل کردیا جائے گا حضرت مختار نے جو نہی یہ منادی سنی فورا آپ جھنڈے تلے آگئے مخبر نے عمر بن الحارث کو اطلاع دی کہ بنی ثقیف کا ایک بزرگ شخص ملنے کیلئے آیا ہے ۔

عمر بن حارث نے اجازت دی ۔ حضرت مختار اس کے پاس پہنچے ، ابن حارث نے مختار کو دیکھ کر پہچان لیا کیونکہ وہ ایک مرد بزرگ اور مشہور تھے ۔ حضرت مختار نے ابن حارث سے کہا کہ اے ابوحفص مسلم کی شہادت مومن کیلئے ایک مصیبت ہے لیکن میں شکر کرتا ہوں کہ تمہارے پاس اگیا ہوں اب اس سے یہ ہوگا کہ دشمنوں کی زبان بندی ہوجائے گی اور لوگ میرے خلاف ابن زیاد کو ورغلائیں گے نہیں ابن حارث نے کہا اے مختار تم نے ٹھیک رائے قائم کی ہے اور بہت اچھا ہوگیا کہ تم میرے پاس آکر زیر علم ہوگئے

اور اے مختار تم نے یہ بہت اچھا کیا کہ مسلم کی مدد کیلئے نہیں نکلے اگر تم ان کی مدد کیلئے آجاتے تو یقینا قتل ہوتے کیونکہ فیصلہ یہ تھا کہ مسلم کی مدد کیلئے جو بھی آئے اسے قتل کردیا جائے چاہے وہ حکومت کا خاص ترین آدمی ہی کیوں نہ ہو اب ایسا ہوگیا ہے کہ کوئی شخص تمہارے خلاف زبان نہیں کھول سکتا ۔

مختار تم مطمئن رہو اب جس قدر بھی تمہاری امداد ممکن ہوگی میں کروں گا۔ مختار کو اطمینان دلانے کے بعد عمر بن حارث ابن زیاد سے ملنے کیلئے گیا اور باتوں باتوں میں اس سے کہنے لگا کہ اے امیر تو مختار سے بہت بدظن تھا حالانکہ وہ ہمارے ساتھ ہے اول کسے کہ درزیر علم آمد مختار بود میں نے جب منادی امن کرائی تھی تو سب سے پہلے جھنڈے کے تلے مختار ہی آئے تھے اور وہ اب تک ہمارے پاس موجود ہیں ابن زیاد نے کہا کہ اچھا مختار کو میرے پاس لاؤ ، ابن الحارث نے مختار کو اطلاع دی اور وہ دربار ابن زیاد میں تشریف لائے۔

مختار کے دربار میں پہنچتے ہی دربان نعمان نے ابن زیاد سے چپکے سے کہہ دیا کہ مختار بہت خطرناک شخص ہے اس سے آپ ہوشیار رہیں اور اس کے معاملہ میں غفلت نہ برتیں۔ حضرت مختار دربار ابن زیاد میں حضرت مختار اور عمر بن الحارث وابن زیاد کی طلب پر داخل دربار ہوئے دربار میں داخل ہوکر مختار نے سلام کیا ابن زیاد نے جواب نہ دیا

حضرت مختار کو ابن زیاد کی اس حرکت سے بڑی شرمندگی محسوس ہوئی۔ آپ خاموش ایک طرف بیٹھ گئے ابن زیاد نے آپ کو برا بھلا کہنا شروع کیا اور کہا کہ اے مختار کیا تم سے میں غافل ہوسکتا ہوں تم ہی وہ ہو جس نے مسلم کی سب سے پہلے بیعت کی اور اب جب کہ ان کا چراغ حیات گل ہوگیا ہے تو میرے علم کے نیچے آگئے ہو میں تمہارے مکروفریب کو جانتا ہوں تم نے دربار میں داخل ہوکر اپنے تکبر کی وجہ سے بلا اجازت بیٹھنے کا جرم کیا ہے ۔ نعمان یا (ابن حارث) نے جب دیکھا کہ ابن زیاد مختار کے خلاف ہی بولتا جارہا ہے تو دربار میں اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اے امیرمختار کو برا بھلا نہ کہیے یہی وہ ہیں جو سب سے پہلے تیرے زیر علم آئے ہیں۔ اور تیرے بہت زیادہ طرفدار ہیں یہ سن کر ابن زیاد مختار سے مطمئن ہوگیا اور حکم دیاکہ انہیں اچھی جگہ بٹھایا جائے اور ان کو خلعت شاہی دی جائے ۔ ابھی مختار کا معاملہ دربار میں زیر بحث ہی تھا کہ دربار کے ایک گوشہ سے رونے پیٹنے کی آواز آنے لگی ابن زیاد نے کہا کہ دیکھو کون رو رہا ہے اور کیوں رو رہا ہے لوگوں نے معلوم کرکے کہا کہ رونے والے نوفل کی بیوی اور اس کا فرزند ہیں وہ کہتے ہیں کہ مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی نے قدامہ کو بیس آدمیوں سمیت قتل کردیا ہے۔

یہ سننا تھا کہ ابن زیاد آگ بگولا ہوگیااور اس نے فورا نعمان کو طلب کرکے کہا کہ اب بتاؤ تمہیں کیا سزا دی جائے ۔ تم نے دشمن کی سفارش کی ہے اس کے بعد ابن زیاد حضرت مختار کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا بعض ہوااداران مراکشی و دعوائی دوستداری میکنیہ اے مختار تمہارا مکر یہیں ظاہر ہوگیا تم نے ہمارے بعض ہمدردان کو قتل کیا ہے اور ہماری دوستی کا دم بھرتے ہو حضرت مختار نے کہا اے ابن زیاد اس کے قتل ہونے میں میری کوئی خطا نہیں ہے

اس معاملہ میں وہی خطا پر تھا سن قدامہ اور اس کے ساتھیوں نے مجھ پر زیادتی کی تھی اور مجھے کوفہ میں داخل ہونے سے روکا تھا میں نے راستہ بنانے کیلئے ان کو قتل کیا ہے ورنہ باہمدگردشمنی نہ تھی۔ حضرت مختار اور ابن زیاد میں باہمدگرسخت کلامی ابن زیاد نے کہا کہ اے ملعون تو نے بیس ادمیوں کو مار دیا اگر مارنا تھا تو ایک کو مارا ہوتا جس نے مزاحمت کی تھی حضرت مختار نے جو نہی ابن زیاد کی زبان سے اپنے کو ملعون سناطیش میں آگئے اور انہوں نے ابن زیاد کے جواب میں کہا ، اے ملعون کتے تو نے مجھے ملعون کیوں کہا یہ سن کر ابن زیاد سخت غیظ و غضب میں آگیا اور قابو سے باہر ہوکر اس نے وہ دوات اٹھا کر مختار کو مارا جو قلمدان حکومت میں رکھی ہوئی تھی ۔ دوات لگنے سے مختار کو چوٹ آگئی۔

حضرت مختار اس کے رد عمل میں ایک شخص سے تلوار چھین کر ابن زیاد پر حملہ کرنے کیلئے بڑھے ابن زیاد ملعون تلوار کے خوف سے اٹھ کر بھاگا یہ دیکھ کر عامر بن طفیل اور دیگر درباریوں نے دوڑ کر مختار کو پکڑ لیا۔ حضرت مختار کو ابن زیاد نے جودوات پھینک کر مضروب کیا تھا (یا بروایت چہرے پر چھری ماری بروایت مورخ ہردی ابن زیاد جو عبداللہ بن عفیف کو اس سے قبل جمعہ کے دن مسجد میں ابن زیاد کے امام حسینعليه‌السلام کے خلاف بولنے پر ٹوکنے کی وجہ سے قتل کراچکا تھا ، حضرت مختار سے کہنے لگا کہ خداکا شکر ہے کہ اس نے یزید اور اس کے لشکر کو کامیابی عطا کی اور حسینعليه‌السلام اور ان کے لوگوں کو قتل کی وجہ سے ذلیل وخوار کیا ، اس پر مختار بولے۔

کذبت یاعدوالله اے دشمن خدا تو جھوٹا ہے خدا کا شکر ہے کہ اس نے حضرت امام حسینعليه‌السلام اور ان کے ساتھیوں کو جنت و مغفرت کی وجہ سے عزت بخشی اور تجھے اور تیرے یزید ملعون کو جہنمی ہونے کی وجہ سے ذلیل و خوار ملعون و رسوا کیا ، یہ سن کر ابن زیاد نے لوہے کی وہ چھڑی جو اس کے ہاتھ میں تھی حضرت مختار کو گھسیٹ ماری جس سے حضرت مختار کی پیشانی زخمی ہوگئی اور اس سے خون جاری ہوگیا، ابن زیاد نے چاہا کہ ان کو قتل کرادے درباریوں نے قتل سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ (رو ضۃ الصفا جلد ۳ ص ۷۲ واصدق الاخبار ۲۲۳)

حضرت مختار قید خانہ ابن زیاد میں اس کے بعد ابن زیاد ملعون نے حکم دیا کہ مختار قید خانہ میں مقید کردیا جائے چنانچہ آپ گرفتار ہوکر قید خانہ میں پہنچ گئے اور وہاں کی بے پناہ سختیاں جھیلنے لگے۔ ادھر حضرت مختار قید خانہ کوفہ میں پہنچائے گئے اور ادھر حضرت امام حسینعليه‌السلام مکہ سے بار ادہ کوفہ روانہ ہوگئے امام حسینعليه‌السلام کواس وقت تک نہ حضرت مسلم کی شہادت کی خبر تھی اور نہ حضرت مختار کی گرفتاری اور قید کی اطلاع تھی۔

حضرت امام حسینعليه‌السلام کیلئے جناب مختار کی تمنا

حضرت مختار کو یہ تو معلوم ہی تھا کہ حضرت امام حسینعليه‌السلام مکہ میں تشریف لائے ہوئے ہیں اور عنقریب کوفہ کیلئے روانہ ہوں گے آپ یہ تمنا کررہے تھے کہ کاش کوئی ایسا شخص پیدا ہو جائے کہ حضرت امام حسینعليه‌السلام کو کوفہ پہنچا دے اور وہ یہاں پہنچ کر ابن زیاد کو قتل کردیں تاکہ قید و بند سے آزاد ہوجاؤں اور یزید کو اس کی جبروتیت کا مزہ چکھادوں۔ حضرت مختار تو حضرت امام حسینعليه‌السلام کے حالات سے بے خبر تھے لیکن ابن زیاد کو ان کی ہر نقل و حرکت کی اطلاع تھی ۔

ابن زیاد نے یہ معلوم کرنے کے بعد کہ حضرت امام حسینعليه‌السلام روانہ ہوچکے ہیں۔ حر کی سرکردگی میں ایک ہزار کا لشکر بھیج کر عمر سعد کو جنگ حسینی کا کمانڈر انچیف بنادیا اور اسے حکم دیا کہ امام حسینعليه‌السلام کو کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی قتل کردے ۔ چنانچہ وہ اسی ہزار کی فوج سے ان کا کام تمام کرنے پر تل گیا حضرت مختار کو اس کی اطلاع نہ تھی کہ عمر سعد کی سرکردگی میں حضرت امام حسینعليه‌السلام سے مقابلہ کیلئے فوجیں بھیجی جارہی ہیں کچھ دنوں کے بعد انہیں اس انتظام کا پتہ چلا تو آپ سخت حیران و پریشان بارگاہ احدیت میں دعا کرنے لگے ۔ خدایا امام حسینعليه‌السلام کی خیر کرنا آپ کا حال یہ تھا کہ کبھی روتے اور کبھی سینہ وسرپیٹتے تھے اور کبھی انتہائی مایوس انداز میں کہتے تھے افسوس میں دشمنوں میں مقید ہوں اور اپنے مولا کی مدد کیلئے نہیں پہنچ سکتا زاید قدامہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت مختار کو بار بار یہ کہتے سنا ہے کہ کاش میں اس وقت مقید نہ ہوتا اور امام کی خدمت میں حاضر ہوکر ان پر دولت صرف کرتا اور ان کی حمایت سے سعادت ابدی حاصل کرنے میں سرتن کی بازی لگا دیتا ۔ (رو ضۃ المجاہدین علامہ عطاء الدین ص ۱۰ طبع جدید تہران وروضہ الصفا جلد ۳ ص ۷۴ ذوب النضار ص ۴۰۲ و مجالس المومنین ص ۳۵۶ ، نور الابصار ص ۲۴)

کربلا میں خیام اہل بیتعليه‌السلام کی تاراجی

حضرت زینب(س) کا خولی کو بددعا دینا اور حضرت مختار کے ہاتھوں اس کی تعمیل ادھر تو حضرت مختار قید خانہ کوفہ میں قید کی سختیاں جھیل رہے ہیں ادھر واقعہ کربلا عالم وقوع میں آگیا اور حضرت امام حسینعليه‌السلام اپنے اصحاب ، اعزا ، اقربا اور فرزند ان سمیت شہید کردئیے گئے۔ شہادت امام حسینعليه‌السلام کے بعد دشمنان اسلام اور قاتلان امام حسینعليه‌السلام نے مخدرات عصمت و طہارت کے خیام کی طرف رخ کیا اور اس سلسلہ میں اس بہمیت کا ثبوت دیا جس کی مثال تاریخ عالم میں نظر نہیں آتی۔ علامہ محمدباقر نجفی تحریر فرماتے ہیں کہ قتل حسین کے بعد دشمنان خیام اہلبیت پر ٹوٹ پڑے اور انہیں لوٹنا شروع کر دیا ۔سب سے پہلے ان کی چادریں سروں سے اتار لیں ۔

یہ ہنگامہ دیکھ کر عمر سعد کے گروہ کی ایک عورت تلوار لے کر اپنوں پر حملہ آور ہوئی اور اس نے چلا کر کہا کہ ہائے غضب رسول کی بیٹیاں بے پردہ کی جارہی ہیں یہ دیکھ کر اس کے شوہر نے اسے پکڑ لیا اور اپنے خیمہ کی طرف لے گیا ۔حضرت فاطمہ بنت الحسین کا بیان ہے کہ ایک شخص نے ہمارے پاؤں سے چھاگل اتارنا شروع کی مگر وہ رو رہا تھا میں نے کہا کہ ظلم بھی کرتا ہے اور روتا بھی ہے اس نے جواب دیا کہ روتا تو اس لیے ہوں کہ بنت رسول کے پاؤں سے زیور اتار رہا ہوں اور اتارتا اس لیے ہوں کہ یہ اندھا دھند لوٹ ہے میں نہ لوں گا تو کوئی اور لے لے گا ۔ ایک روایت میں ہے کہ شمر کی معیت میں ساری قوم خیموں پر ٹوٹ پڑی اور سب کچھ لوٹ لیااور خیموں میں آگ لگا دی ۔اور حضرت ام کلثوم کے کانوں میں دو بندے تھے انہیں اس طرح گھسیٹ لیا کہ لویں پھٹ گئیں اور خون جاری ہو گیا ۔

حمید بن مسلم کا بیان ہے کہ گروہ جفاکار نے عورتوں کی چادریں اتا لیے اور امام زین العابدینعليه‌السلام کی طرف بڑھنے کا ارادہ کیا اورچاہا کہ انہیں قتل کر دیں ۔میں نے بڑھ کر کہا کہ اتنے شدید مریض کو ہرگز قتل مت کرو۔ ایک روایت میں ہے کہ جو نہی امام زین العابدینعليه‌السلام کو قتل کرنا چاہا۔ حضرت زینب وام کلثوم ان سے لپٹ گئیں اور انہوں نے کہا ہمیں قتل کر دے پھر انہیں قتل کرو کتاب منتخب طریحی میں ہے کہ حضرت فاطمہ صغریٰ فرماتی ہیں کہ ہم درخیمہ پر کھڑے ہوئے دیکھ رہے تھے کہ ہمارے بابا جان اور انکے دیگر مدد گاروں کے سرکاٹے جارہے ہیں ۔پھر دیکھا کہ ان کی لاشوں پر گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں ۔میں دل میں سوچ رہی تھی کہ اب دیکھیں ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے ۔اتنے میں خیمے لٹنے لگے ۔

ایک شخص نیزہ لیے ہوئے آگے بڑھا اور اس نے اپنے گھوڑے پر سواری کی حالت میں اپنے نیزے سے ہم لوگوں کی طرف حملہ کر دیا تھا اور ہم سب ایک دوسرے کے پیچھے چھپنے اور جان بچانے کی کوشش کرتے تھے اور حضرت محمد مصطفےٰ ، علی مرتضیٰعليه‌السلام امام حسین غرضیکہ سب کو پکار کر چلاتے اور روتے تھے ۔اور کوئی مددگار نظر نہ آتا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ اسی ہنگامے میں حضرت فاطمہ بنت الحسین کی طرف ایک شخص نیزہ لیے ہوئے بڑھا اور اس نے چاہا کہ حضرت فاطمہ پر حملہ کر دے۔ یہ مخدرہ ایک طرف کو بھاگی ۔اس نے ان کی پشت میں نیزہ چبھودیا ۔وہ گر کر بیہوش ہو گئیں ۔جب لوٹ مار کی آگ تھی توحضرت ام کلثوم ان کی تلاش کے لیے نکلیں ۔دیکھا کہ زمین پر بے ہوش پڑی ہیں ۔حضرت ام کلثوم انہیں نہ جانے کس طرح ہوش میں لائیں ہوش میں آتے ہی انہوں نے چادر مانگی ۔حضرت ام کلثوم نے فرمایا ۔بیٹی ہم سب کی چادریں چھین لی گئی ہیں ۔راوی کا بیان ہے کہ اس ظالم نے پشت میں نیزہ کی انی چبھو کر ان کے کان سے درچھین لیے تھے اور کان کی لویں شگافتہ ہو گئی تھیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت سکینہ دوڑ کر اپنے پدربزرگوار کی لاش سے لپٹ گئیں اور بیہوش ہو گئیں ۔ان کا بیان ہے کہ میں نے بے ہوش کی حالت میں سنا ۔

شیعتی ما ان شربتم ماء عذب فاذکرونی اوسمعتم بغریب اوشهید فاندبونی لیتکم فی یوم عاشوراء جمیعاً تنظر ونی کیف استسقی لطفلی فابواان یرحمونی

( ۱) اے میرے شیعو جب ٹھنڈا پانی پینا تو میری پیاس کو یا د کر لینا ،اور جب کسی غریب اور بے کس شہید کے مرنے کو سنتا تو دو آنسو بہالینا۔

( ۲) میں رسول خدا کا نواسہ ہوں ۔مجھے دشمنوں نے بلا جرم وخطا قتل کر ڈالا اور قتل کے بعد مجھے گھوڑوں کے ٹاپوں سے پامال کر دیا ۔

( ۳) کاش تم عاشورا کے دن کربلا میں موجود ہوتے کہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ میں کس طرح اپنے بچے کے لیے پانی مانگتا تھا اور وہ کس دلیری سے پانی دینے کے منکر تھے۔

( ۴) انہوں نے پانی کے عوض تیرسہ شعبہ سے میرے بچے کو نشانہ بنا دیا اور انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی اور مصیبت پر مصیبت ڈالتے چلے گئے۔

( ۵) ویل اور پھٹکار ہو ان لوگوں پر کہ انہوں نے مجھے ستا کر رسول کریم کے قلب کو مجروح کر دیا۔ شیعو ان پر جتنا تم سے ہو سکے لعنت کرو ۔ الغرض شہادت امام حسین کے بعد اہل حرم سخت ترین مصائب میں مبتلا ہو گئے اور انہیں ہنگامی حالات میں بروایت ابو مخنف عمر سعد نے آواز دی کہ اے لوگو کیا دیکھتے ہو ۔خیموں میں آگ لگا دو اور انہیں جلا ڈالو یہ سن کر انہیں میں سے ایک شخص بولا کہ اے ابن سعد : اما کفاک قتل الحسین و اہلبیتہ و انصارہ کیا امام حسینعليه‌السلام اور ان کے اہل بیت اور انصار کا قتل کرنا تیرے نزدیک کافی نہیں ہے کہ اب ان کے بچوں کو جلا رہا ہے ۔ ارے اب یہ چاہتا ہے کہ ہم لوگوں کے لئے زمین دھنس اور ہم سب ہلاک ہو جائیں۔اس کے بعد تمام لوگ خیموں کو لوٹنے لگے اورہنگامہ عظیم برپا کر دیا انہوں نے حضرت زینب وام کلثوم(س)کے سروں سے نہایت بے دردی کے ساتھ چادریں چھین لیں ۔حضرت زینب(س) ارشاد فرماتی ہیں کہ میں خیمہ میں کھڑی تھی ناگاہ ایک کبود چشم شخص خیمہ میں داخل ہو گیا ۔

اور جو کچھ خیمہ میں تھا سب کچھ لوٹ لیا۔پھر امام زین العابدینعليه‌السلام کی طرف بڑھا جو سخت علیل تھے ان کے نیچے سے وہ چمڑا گھسیٹ لیا۔جس پر وہ لیٹے ہوئے تھے ۔اور انہیں زمیں پر ڈال دیا ۔پھر وہ میری طرف بڑھا اور اس نے میرے سر سے چادر چھین لی۔پھر میرے گوشواروں کو اتارنے لگا ۔اور ساتھ روتا بھی تھا۔جب گوشوار اتار چکا تو میں نے کہا ظلم بھی کرتا ہے اور روتا بھی ہے ۔اس نے کہا کہ میں تمہاری بے بسی پر روتا ہوں ۔

قلت له قطع الله یدیک ورجلیک واحرقک الله بنارالد نیا قبل نارالاخر ة

میں نے کہا خداوند عالم تیرے ہاتھ اور پاؤں قطع کرے اور تجھے آخرت کی آگ سے پہلے دنیا کی آگ میں جلائے ۔

یہ ظاہر ہے کہ حضرت زنیب کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ رائگان نہیں جاسکتے تھے ۔بالآخر وہ وقت آگیا کہ اس کے ہاتھ پاؤں بھی کاٹے گئے اور وہ آگ میں بھی جلایا گیا ۔مورخ ابو مخنف لکھتے ہیں کہ حضرت زینب کے اس فرماتے کو ابھی چند ہی یوم گزرے تھے کہ حضرت مختار ابی عبیدہ ثقفی نے کوفہ میں خروج کیا اور دیگر ملعونوں کی طرح یہ شخص بھی جس کا نام خولی ابن یزید اصبحی تھا ۔حضرت مختار کے ہاتھ آ گیا ۔آپ نے اس سے پوچھا کہ ما صنعت یوم کربلا تو نے کربلا میں کون کونسی حرکتیں کی ہیں اس نے کہا میں نے امام زین العابدینعليه‌السلام کے نیچے سے کھال کا بستر کھنچا تھا اور حضرت زینب کی چادر اتاری تھی ۔اور انکے کانوں سے گوشوارے لیے تھے ۔فبکی المختار یہ سن کر حضرت مختار زارو قطار رونے لگے ۔جب گریہ کم ہوا تو فرمایا کہ اچھایہ بتا کہ انہوں نے اس وقت کیا فرمایاتھا اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ خدا تیرے ہاتھ پاؤں قطع کرے اور تجھے آخرت سے پہلے دنیا میں نذرآتش کرے ۔ یہ سن کر حضرت مختار نے فرمایا ۔خداکی قسم حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی دہن مبارک کے نکلے ہوئے الفاظ کی میں تعمیل وتکمیل کروں گا ۔اس کے بعد آپ نے اس کے ہاتھ پاؤں کٹوا دئیے اور اسے آگ میں جلوادیا۔(دمعۃ ساکبہ ص۳۴۸،ص۳۵۰

اہلبیت رسول کا دربار ابن زیاد میں داخلہ اورحضرت مختار کی پیشی

۔لیکن اس واقعہ کے بعد جو رات آئی جسے آج کل( شام غریباں ) سے یاد کیا جاتا ہے ۔وہ بھی کچھ کم تکلیف دہ نہ تھی ۔تمام اعزا کا شہید ہو جانا دشمنوں کا زبر دست گھیرا کسی وارث مرد کا موجود نہ ہونا ۔

جنگل کا واسطہ خیام تک کا نہ ہونا مخدرات عصمت کے لیے ناقابل اندازہ مصیبت کا پتہ دیتا ہے ۔خدا خدا کر رات گزری ،صبح کا ہنگام آیا ، شمر ملعون حضرت امام زین العابدین کے پاس آپہنچا اور کہنے لگا کہ حکم امیر ہے کہ تم پھو پھیوں ، اپنی عورتوں اور اپنے بچوں سمیت شتران بے کجاوہ پر بیٹھا کر دربار ابن زیاد میں چلو حالات ایسے پیدا ہو چکے تھے ۔کہ ان کا کوئی محل ہی نہ تھا تاہم حضرت زینب کو غیظ آگیا اور فرمانے لگیں یہ کبھی نہیں ہو سکتا مگر معاً حضر ت امام حسین کا ارشاد سامنے آگیا بہن اسلام کے لیے مصیبت کا خندہ پیشانی سے استقبال کرنا ۔حضرت زینب تیار ہو گئیں ۔شتران بے کجادہ اور بے مجمل پر بیٹھ کر بہزار دقت و دشواری اور بہزار تکلیف و مصیبت جا بجا تقریریں فرماتی ہوئیں اور خطبہ کہتی ہوئیں ابن زیاد کے دربار میں داخل ہو ئیں چھوٹے چھوٹے بچے بیمار بھیجتا اور دیگر بنات رسول خدا ساتھ ہیں ۔

مورخین کا بیان ہے کہ جس وقت سرہائے شہداء اور بنات رسول خدا داخل دربار ہوئے تو ابن زیاد بساط شطرنج پر تھا اور وہ محونا شتہ وشراب تھا سروں کے دربار میں پہنچے کے بعد ابن زیاد نے سر امام حسین علیہ السلام کو طشت طلا میں پیش کرکے زیر تخت رکہوا دیا تھا ۔اہلبیت رسول رسن بستہ دربار کے ایک گوشہ میں کھڑے ہوئے تھے کہ ابن زیاد نے حکم دیا کہ قید خانہ سے مختار کو ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں حاضر دربار کیا جائے لوگوں نے حکم ابن زیاد کے مطابق حضرت مختار علیہ الرحمہ کوزنجیروں میں جکڑا ہوا دربار لاحاضر کیا ۔علما لکھتے ہیں کہ ابن زیاد نے مختار سے کہا اے مختار تم ابن ابو تراب حسین کا بڑا دم بھرتے تھے ۔لو یہ دیکھو کہ ان کا سر یہاں آیا ہوا ہے ۔حضرت مختار کی نگاہ جونہی سر امام حسین پر پڑی بے اختیار ہو گئے آپ نے کہا کہ اے ابن زیاد تو نے جو کچھ کیا سب برا کیا اگر خدا نے چاہا توبہت جلد اس کا نتیجہ دیکھ لے گا ۔

اس کے علاوہ آپ نے کچھ منہ سے نہ کہا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت مختار نے جونہی سر حسین پر نگاہ کی جوش میں آکر زنجیروں میں بند ھے ہوئے ہونے کی حالت میں ہی ابن زیاد پر حملہ کر دیا اور ایک روایت کی بنا پر انہوں نے اپنے ہاتھوں کی زنجیر توڑ ڈالی اور جھپٹ کر حملہ کرنا چاہا لیکن لوگوں نے پکڑ لیا ۔ اس کے بعد فرمانے لگے ایک ہزار مرتبہ موت آنے سے زیادہ مجھے اس وقت سرحسین دیکھ کر تکلیف پہنچی ہے ۔حضرت مختار ابھی دربار ہی میں تھے کہ اہل بیت رسول خدا کے رونے کی صد ا بلند ہوئی واجداہ واحسینا ہ اے نانا رسول اور اے حسین غریب ،حضرت مختار یہ منظر دیکھ کر خون کی آنسو رونے لگے ۔ ابن زیاد نے حکم دیا کہ مختار کی زنجیریں اور کس دی جائیں اور انہیں قید خانہ میں لے جاکر ڈال دیا جائے ۔ چنانچہ لوگوں نے زنجیریں اور کس دیں اور انہیں لے جا کر قید خانہ ڈال دیا۔ (رو ضۃ المجاہدین علامہ عطا الدین حسام الواعظ ص۱۰طبع ایران ۔و۔ ریاض القد س جلد ص۱۳۶طبع ایران)

اہل حرم کی شام کی طرف روانگی

اہل حرم کی شام کی طرف روانگی اور دمشق کارنامہ مختار کے جرنیل ابراہیم ابن مالک اشتر کی بہن کا نعرہ انتقام حضرت مختار کو قید میں ڈالو دیا گیا اور انہیں سات سال کی مزید سزا کا حکم دے دیا گیا ۔اور اہل حرم کو یزید کے سامنے پیش کیے جانے کے لیے شام کی طرف روانہ کر دیا گیا اس خبر سے اہل بیت حسین دمشق میں پہنچ رہے ہیں سارے شہر میں جشن عام کا اعلان ہو گیا ۔خواجہ حسن نظامی دہلوی لکھتے ہیں کہ دمشق میں دھوم دھام تھی کربلا میں حضرت امام حسینعليه‌السلام اور ان کے لڑکے اور خاندان نبوت کے طرف داروں کے یہاں قیامت آگئی ۔وہ زبان سے اف نہ کر سکتے تھے مگر اس خبر نے ان کے کلیجے پاش پاش کر دئیے ے تھے اور وہ گھروں کے اندر زاروقطار رو رہے تھے اس دن انہوں نے اور ان کے بچوں نے کھانا کھایا نہ پانی پیا۔ ہر ایک ایک دوسرے کو دیکھتا تھا اور آنسو بہاتا تھا ۔یزید اور بنی امیہ کے خوف سے کسی کی ہمت نہ تھی کہ آواز نکالتا یا ماتم کی صدا بلند کرتا خاوند بیوی کو دیکھ کر کلیجہ تھام لیتا اور آنکھوں سے آنسوؤں کا منہ برساتا اور بیوی خاوند کو دیکھتی اور سر پکڑ کر بیٹھ جاتی اور پھوٹ پھوٹ کر روتی ۔بچے اپنے ماں باپ کو دیکھ کر سہمے ہوئے کھڑے تھے اور انہیں جانتے تھے کہ کیوں وہ اس قدر بے چین ہیں ۔

ایک بچے نے اپنی ماں سے کہا کہ اماں ہمیں بھوک لگی ہے اس کی ماں نے رو کر جواب دیا ۔بیٹا تمہیں خبر بھی ہے

کہ جن کا کلمہ ہم سب پڑھتے ہیں ان کے نواسے بھوکے پیاسے ذبح کر ڈالے گئے اور اب ان کے بچے رسیوں سے بندھے ہو ئے دمشق میں آنے والے ہیں جن کو خبر نہیں کھانا پانی میسر ہو گا یا نہیں۔تم کس منہ سے روٹی مانگتے ہو ۔آج کا دن روٹی کھانے کا نہیں ہے ۔وہ بچہ یہ سن کر چپ ہو گیا اور کچھ دیر کے بعد وہ پھر رونے لگا ۔

دوسری طرف بنی امیہ کی عورتوں نے عید کی طرح بناؤ سنگار کیا ۔اور بالاخانوں پر سیر دیکھنے بیٹھیں۔ عذرہ،دروہ،خضرا،فرحہ وریحانہ کے پاس آئیں کہ ان کو تماشہ کے لیے لے چلیں مگر انہوں نے دیکھا کہ رو رہی ہیں اور روتے روتے ان کا عجب حال ہو گیا ہے ۔ خضرا نے کہا ہائیں فاطمہ آج کا دن خوشی کا ہے خدانے بنی امیہ کے سب سے بڑے دشمن کا کٹا ہوا سر دکھایا۔تم روتی کیوں ہو؟فرحہ نے کہا کہ میرے شوہر کے مرنے کی خبر آئی ہے مجھے تو اس کا غم ہے کہ ہائے میں اب کہاں جاؤں کون میری خبر لے گا ۔عذرہ اور دروہ نے کہا افسوس ہے ہم کو تمہارے صدمہ سے دلی ہمدردی ہے ۔مگر تقدیر پر کچھ علاج نہیں ۔خضرا نے کہا دیکھو کہ تم لوگوں کا خدا کیسا ظالم ہے اس نے بیچاری عورتوں پر ذرا رحم نہ کیا اور ان کے وارث کو مار ڈالا۔ فرحہ بولی خضراء میرا دل نہ دکھاؤ خدا ظالم نہیں ہے ۔وہ ملک الموت کو بھی ایک دن موت دے گا ۔

اور میں دعویٰ کرتی ہوں کہ میرے ہاتھ سے دے گا ۔عذراء نے کہا کہ بے چاری فاطمہ کا دل غم سے قابومیں نہیں ہے بھلا موت کے فرشتے کو بھی آئی آدمی ہلاک کر سکتا ہے ۔ریحانہ عرف امینہ نے کہا ہاں ہم اس کوہلاک کر سکتے ہیں اور کریں گے ۔عذرا ودروہ وغیرہ اس فقرے پر مسکرانے لگیں اور انہوں نے کہا کہ اچھا تم موت کو ضرور سزا دینا چلو اب تو ہمارے ساتھ چلو اور قیدیوں کو سیر دیکھو فرحہ نے کہا بس بیویومجھے معاف کرو میں اپنے حال میں مبتلا ہوں مجھے تماشہ کی ضرورت نہیں ۔ یہ سن کر سب لڑکیاں فرحہ کے پاس چلی آئیں اور اس گھر میں پھر وہی شور ماتم بپا ہو گیا جب قیدی بازار میں سے گذر رہے تھے ۔فرحہ نے اپنے جھروکے سے دیکھا کہ امام زین العابدین اونٹ پر بیٹھے ہیں ۔چہرہ زرد ہے ۔

رسی سے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔قیدیوں کا نیلا کرتا گلے میں ہے اونٹ جھروکہ کے پاس آیا تو فرحہ نے کہا:السلام علیکم یابن رسول اللہ ۔ امام نے جواب دیا علیک السلام یا امة اللہفرحہ نے آہستہ سے رو کر کہا۔ میں مالک بن اشتر کی بیٹی ہوں ۔اور آپ کا انتقام لوں گی۔ امام کا اونٹ ذرا آگے بڑھ گیا تھا مگر انہوں نے یہ فقرہ سنا اور مڑکر فرحہ کو دیکھا اور بے اختیار رونے لگے فرحہ بھی روتے روتے بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ (طمانچہ بر رخسار یزید ۹۳باب۱۷طبع دہلی۱۹۴۰ءء)