فلسفۂ انتظار

فلسفۂ انتظار0%

فلسفۂ انتظار مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

فلسفۂ انتظار

مؤلف: آیۃ اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 6506
ڈاؤنلوڈ: 2657

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 11 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6506 / ڈاؤنلوڈ: 2657
سائز سائز سائز
فلسفۂ انتظار

فلسفۂ انتظار

مؤلف:
اردو

انتظار کا مفھوم

انتظار اس حالت کو کہتے ہیں جب انسان اپنی موجودہ حالت سے کبیدہ خاطر ہو اور ایک تابناک مستقبل کی تلاش میں ہو، جیسے ایک مریض جو اپنے مرض سے عاجز آچکا ہو صحت و سلامتی کی امید میں رات دن کوشاں ہے، ایک تاجر جو کساد بازاری سے پریشان ہو اس کی ساری تجارت ٹھپ ہو کر رہ گئی ہو، وہ اس انتظار میں ہے کہ کس طرح یہ کساد بازاری ختم ہو اور اس کی تجارت کو فروغ حاصل ہو، اسی امید میں وہ ہم یشہ سعی و کو شش کرتا رہتا ہے۔

انتظار کے دو پہلو ہیں، اور دونوں پہلو غور طلب ہیں:

۱) منفی: انسان کا اپنی موجودہ حالت سے کبیدہ خا طر ہونا۔

۲) مثبت: تابناک مستقبل کے لئے کو شاں رہنا۔

جب تک انسان کی ذات میں یہ دونوں پہلو نہ پائے جاتے ہوں، اس وقت تک اسے یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ وہ کسی کا منتظر ہے۔ کیونکہ جو شخص موجودہ حالت پر راضی و خوشنود ہوگا اسے مستقبل کے بارے میں کیا فکر ہوسکتی ہے اور اگر وہ موجودہ حالت سے تو راضی نہیں ہے مگر اسے مستقبل کی بھی کوئی فکر نہیں ہے تو ایسی صورت میں یہ شخص کس چیز کا انتظار کرے گا۔

جس قدریہ دونوں پہلو انسانی وجود میں جڑ پکڑتے جائیں گے اسی اعتبار سے اس کی عملی زندگی میں فرق پڑتا جائے گا، کیونکہ جو بات دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے اعضاء و جوارح اپنے عمل سے اس کا اظھار ضرور کرتے ہیں۔

انتظار کے دونوں پہلو انسان کی زندگی کے لئے مفید ہیں جب انسان زمانے کی موجودہ حالت سے کبیدہ خاطر ہوگا تو اس بات کی کوشش کرے گا کہ اپنے کو ہر قسم کے گناہ سے دور رکھے، ظلم و فساد سے کنارہ کشی اختیار کرلے، جور و استبداد کے ختم کرنے کی ہر امکانی کوشش کرے۔ اسی کے ساتھ ساتھ نیکی کی طرف قدم بڑھا رہا ہو اپنے کو نیک صفات سے آراستہ کرنے کی فکر میں ہو۔

اب آپ خود ہی فیصلہ کرلیں انتظار کا یہ مفہوم انسان سے احساس ذمہ داری کو چھین لیتا ہے یا احساس ذمہ داری کو اور بڑھا دیتا ہے۔ اس بیان کی روشنی میں گذشتہ روایتوں میں ذکر شدہ باتیں کس قدر روشن ہوجاتی ہیں، انسان میں جس قدر آمادگی پائی جاتی ہے اور جس قدر وہ اپنے کو انقلاب عظیم کے لئے تیار کرچکا ہے اسی اعتبار سے وہ فضیلت کے مرتبہ پر فائز ہے آمادگی کے مراتب کو دیکھتے ہوئے روایتوں میں فضیلت و عظمت کو بیان کیا گیا ہے

جس طرح سے ایک جنگ میں شرکت کرنے والوں کے مراتب مختلف ہیں کوئی وہ ہے جو رسول خدا (ص) کے ساتھ ان کے خیمے میں ہے، کوئی جنگ کے لئے آمادہ ہورہا ہے۔ کوئی میدانِ جنگ میں کھڑا ہے، کوئی تلوار چلا رہا ہے کوئی دشمن سے برسر پیکار ہے اور کوئی جنگ کرتے کرتے شھید ہوچکا ہے۔ انھیں مراتب کے اختلاف کی بنا پر جنگ میں شرکت کرنے والوں کے ثواب اور مراتب میں بھی اختلاف ہے۔

ہی صورت ان لوگوں کی بھی ہے جو ایک عظیم مصلح کے انتظار میں زندگی کے شب و روز گذار رہے ہیں، ایک عالمی انقلاب کی امید لگائے ہوئے ہیں جس کے بعد دنیا امن و امان، سکون و اطمینان کا گہوارہ ہوجائے گی۔ ظلم و جور و استبداد کی تاریکی کافور ہوجائے گی اب جس میں جتنی آمادگی، جذبۂ فدا کاری، شوق شھادت اور عزم و استقلال پایا جاتا ہے اسی اعتبار سے روایتیں اس کے شاملِ حال ہوتی جائیں گی۔

وہ شخص جو پیغمبر اسلام (ص) کے ہم راہ خیمے میں موجود ہے وہ کبھی بھی حالات سے غافل نہیں رہ سکتا، وہ ہم یشہ حالات پر نگاہ رکھے گا، ماحول کو باقاعدہ نظر میں رکھے گا، کیوں کہ وہ ایسی جگہ پر ہے جہاں غفلت اور لاپروائی سے دامن چھڑا کر یہاں آیا ہے۔ اسے اس بات کا احساس ہے کہ اس کی غفلت سے کیا نتائج برآمد ہوں گے، اس کی معمولی سی چوک کس قدر تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔

وہ شخص جو میدان جنگ میں برسرِ پیکار ہے اسے کس قدر ہوشیار ہونا چاہئے، معمولی سے معمولی چیز سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے، ہر لمحہ کو غنیمت شمار کرنا چاہئے۔ فتح حاصل کرنے کے لئے ہر امکانی کوشش کرنی چاہیئے، اگر یہی شخص غافل ہوجائے، فرصت سے استفادہ نہ کرے، لمحات کو غنیمت نہ شمار کرے اس کا لازمی نتیجہ ہزیمت اور شکست ہوگی۔

ہی صورت ان لوگوں کی ہے جو "انتظار" میں زندگی بسر کررہے ہیں اور منتظر کو مجاھد کا جو درجہ دیا گیا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ منتظر کو مجاھد کی طرح ہم یشہ ہوشیار رہنا چاہیئے۔ ماحول پر فتح حاصل کرنے کے لئے ہر امکانی کوشش کرنا چاہئے۔ فساد کی بساط تہ کرنے کے لئے ہم یشہ کوشاں رہنا چاہیئے۔ تاکہ انقلاب عظیم کے مقدمات فراہم ہوسکیں۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ انسان اسی وقت میدان جنگ میں ایک بہادر اور دلیر ثابت ہوگا جب باطنی اور روحی طور پر بھی اس میں شجاعت اور دلیری پائی جاتی ہو ورنہ اگر دل ہی بُزدل ہے تو تیغ بُراں بھی بیکار ہے، حقیقی انتظار کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے کو باطنی طور پر اس قدر آمادہ کرلے کہ وقتِ انقلاب اس کا شمار مجاھدین میں ہو۔

اس بیان کی روشنی میں "ہر سچّا منتظر" روایات میں اپنی جگہ ڈھونڈھ لے گا۔

قارئین خود ہی فیصلہ کرلیں کہ انتظار کا یہ مفہوم انسانی زندگی کے لئے ضروری ہے یا نہیں، اس کے ضمیر کی آواز ہے کہ نہیں۔؟

انتظار، یا آمادگی

اگر میں خود ہی ظالم اور ستم گر ہوں تو کیونکر ایسے انقلاب کا متمنی ہوسکتا ہوں جس میں ظالم اور ستم گر پہلے ہی حملے میں نیست و نابود ہوجائیں گے۔

اگر میں خود ہی گناھگار، بدکار اور بداخلاق ہوں تو کیونکر ایسے انقلاب کی آرزو

کرسکتا ہوں جس میں گناھگاروں کے لئے کوئی خاص گنجائش نہ ہو۔

وہ فوج جو آمادۂ جنگ ہے کیونکر اس کے سپاہی غافل اور بے پروا ہوسکتے ہیں، فوج ہم یشہ اس فکر میں رھتی ہے کہ معمولی سے معمولی کمزوری کو جلد از جلد دور کیا جائے اور ہم اری فوج میں کوئی بھی ضعف باقی نہ رہے اور جو ضعف ہیں ان کی فوراً اصلاح کرلی جائے۔

انسان کو جس چیز کا انتظار ہوتا ہے اسی اعتبار سے وہ خود کو آمادۂ استقبال کرتا ہے۔

اگر کسی مسافر کے آنے کا انتظار ہے تو ایک قسم کی تیاری ہوگی، اگر بہت ہی قریبی، اور جگری دوست آرہا ہے تو دوسرے قسم کی تیاریاں ہوں گی۔ اور اگر کسی طالب علم کو اپنے امتحان کا انتظار ہے تو اب اس کی تیاریاں ایک خاص قسم کی ہوں گی، اگر صحیح معنوں میں اسے امتحان کا انتظار ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے جسے امتحان کا انتظار ہو وہ گھر کی صفائی اور اس کے نظم و ضبط میں منہمک ہو اور جسے ایک مسافر کا انتظار ہو وہ اپنی کاپی، کتاب کی اصلاح اور ترتیب میں مصروف و مشغول ہو، اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس کا انتظار کر رہے ہیں اور کس انقلاب کی آس لگائے ہیں۔

انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو زمین کے کسی خطے سے مخصوص نہیں۔

انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں جغرافیائی حدود کی کوئی قید و شرط نہیں۔

انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو زندگی کے خاص شعبے میں محدود نہیں۔

انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اتنا عظیم انقلاب جس کی مثال تاریخ بشریت کے دامن میں نہ ہو۔

انقلاب۔ اور اتنا انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو سیاست کو ایک نیا رخ دے، جو علم و ھنر میں ایک تازہ روح پھونک دے۔

انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اقتصادی الجھنوں کو دور کردے

انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اخلاقی قدروں کو سرفراز کردے

اب دیکھنا یہ ہے کہ ایسے انقلاب کے انتظار میں زندگی گزارنے کے اثرات کیا ہیں۔ یہ بات پہلے ذکر کی جاچکی ہے کہ انتظار کے دو پہلو ہیں (۱) منفی (۲) مثبت

انتظار کی طرح انقلاب کے بھی دو پہلو ہیں: (۱) منفی (۲) مثبت

۱) منفی: موجودہ حالت کو ختم کرنا، فساد و تباہی کو ان کی آخری حد تک پہونچانا۔

۲) مثبت: ایک جدید اور زندگی بخش نظام کو پرانے اور فرسودہ نظام کا جانشین قرار دینا۔

اب جو لوگ واقعاً منتظر ہیں اور صحیح معنوں میں ایک "عالمی انقلاب" کی اُمّید لگائے ہوئے ہیں، صرف زبانی اور خیالی جمع خرچ میں مبتلا نہیں ہیں، تو ان لوگوں میں کچھ صفات ضرور پائے جائیں گے ان میں سے چند صفتیں نذر قارئین ہیں۔

۱) انفرادی اصلاح ۔ اِصلاحِ نفس

اس عظیم انقلاب کے لئے ایسے افراد کی ضرورت ہے جن کا ذہن عالمی اصلاحات کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ضرورت ہے ایسے افراد کی جو میدان علم کے شھسوار ہوں، افکار میں گہرائی ہو، دل میں وسعت ہو کہ دشمن کو بھی جگہ مل سکے، ضمیر زندہ اور بیدار ہو، اخلاق و مروت کے پرستار ہوں، ایسے افراد کی ضرورت ہے، جو تنگ نظر نہ ہوں، کج فکر اور کج خلق نہ ہوں، کینہ و حسد سے دور ہوں، اختلاف کی خانماں سوز آگ کو صلح و صفا و اخوت کے پانی سے بُجھا چکے ہوں۔

کیوں ۔۔۔ اس لئے کہ اگر کوتاہ فکر ہوں گے تو عالمی اصلاحات کو قبول کرنے سے انکار کردیں گے یا پھر اسے ایک دشوار گذار مرحلہ تصوّر کریں گے، اگر دل میں وسعت اور قلب میں محبّت نہ ہوگی، تو اپنے علاوہ دوسرے کے فائدے کو پسند نہیں کریں گے اگر آپس میں نفاق اور اختلاف ہوگا تو ایک عالمی حکومت سے تعاون نہیں کریں گے، اور دنیا میں افراتفری پھیلائیں گے۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ انتظار کرنے والے کی حیثیت صرف ایک تماشہ دیکھنے والے کی حیثیت ہو، اور اس کو انقلاب سے کوئی سروکار نہ ہو، یا تو وہ اس عالمی انقلاب کا موافق ہوگا یا پھر مخالف۔ کسی تیسری صورت کی گنجائش نہیں ہے۔

بیدار ضمیر اور روشن فکر شخص جب کبھی اس انقلاب کے بارے میں فکر کرے گا اور اس کے نتائج پر نظر رکھے گا تو کبھی وہ مخالفین کی صف میں نہ ہوگا، کیونکہ اس انقلاب کے اصول اس قدر فطرت اور ضمیر کے نزدیک ہیں کہ ہر وہ شخص جس کے پہلو میں انسان کا دل ہے وہ ان اصولوں کو ضرور قبول کرے گا۔ مخالفت صرف وہی کریں گے جو ظلم و فساد کے دلدادہ ہوں، یا مظالم ڈھاتے ڈھاتے ظلم کرنا ان کی فطرت ثانیہ بن گئی ہو۔

جب انسان اس "عالمی انقلاب" کے طرفداروں میں ہوگا اور ہر انصاف پسند طرفدار ہوگا، ان لوگوں کے لئے ناگزیر ہے کہ انفرادی طور پر اپنی اصلاح کرلیں اور نیک اعمال بجالانے کے خوگر بنیں، عمل سے زیادہ نیت میں پاکیزگی ہو، تقویٰ دل کی گہرائیوں میں جاگزیں ہو علم و دانش سے سرشار ہو۔

اگر ہم خود فکری یا عملی طور پر ناپاک ہیں تو کیونکر ایسے انقلاب کے متمنی ہیں جس کی پہلی ہی لپیٹ ایسے لوگوں کو نگل جائے گی۔ اگر ہم خود ظالم اور ستم گر ہیں تو کیونکر ایسے انقلاب کا انتظار کررہے ہیں جس میں ظالم اور ستم گر کے لئے کوئی جگہ نہ ہوگی۔

اگر ہم خود مفسد ہیں اور فساد پھیلانے میں لگے رھتے ہیں تو کیوں ایسے انقلاب کی امید میں زندگی کے شب و روز گذار رہے ہیں جس میں مفسد اور فساد پھیلانے والے نیست و نابود ہوجائیں گے۔

خود فیصلہ کرلیجئے کیا اس عالمی انقلاب کا انتظار انسان کو باعمل اور باکردار بنا دینے کے لئے کافی نہیں ہے۔؟ یہ انتظار کی مدّت کیا اس بات کی مہلت نہیں ہے کہ انسان آمد انقلاب سے پہلے خود اپنی اصلاح کرلے اور خود کو انقلاب کے لئے آمادہ کرلے۔

وہ فوج جو ایک قوم اور ملّت بلکہ ایک ملک کو ظلم و ستم سے آزادی دلانا چاھتی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہم یشہ مستعد رہے، اپنے اسلحوں کو پرکھ لے، اگر کوئی اسلحہ خراب ہوگیا ہے یا زنگ آلود ہوگیا ہے تو اس کی فوراً اصلاح کرلے، حفاظتی اقدام میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھے، اپنی چوکیوں کو مضبوط کرلے، اور جو مضبوط ہیں انھیں مضبوط تر بنالے سپاہیوں کا شمار کرلے، ان کی قوت آزمالے، ان کے جذبات کا جائزہ لے لے، جن کی ہم تیں پست ہوں ان میں ایک تازہ روح پھونکی جائے۔ ہر ایک کو اس کی ہم ت اور جذبہ کے مطابق کام سونپا جائے۔ اگر فوج ان خصوصیات کی حامل ہے تب تو اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگی، ورنہ اس کے تمام دعوے جھوٹے اور تمام منصوبے محض خواب و خیال ہوں گے۔

اسی طرح وہ لوگ جو اپنے کو حضرت امام زمانہ علیہ السلام کا منتظر کہتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں کہ ایک امام غائب کے انتظار میں زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے کو اس عالمی انقلاب کے لئے آمادہ کریں۔ اپنے نفوس کا خود امتحان لے لیں، اپنے جذبات کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھ لیں، کیونکہ الخ

ایک قوم جو ہم یشہ اپنی اصلاح میں منہمک ہو، نہایت شوق و ولولے کے ساتھ نیک اعمال بجا لارہی ہو، سچے جذبات اور خلوص نیت کے ساتھ کردار کے اعلیٰ مراتب طے کر رہی ہو وہ قوم اور سماج کس قدر عالی اور بلند ہوگا، وہ ماحول کس قدر روح افزا اور وہ فضا کس قدر انسانیت ساز ہوگی، وہ صبح کس قدر تابناک ہوگی جس میں ایک ایسی عظیم قوم جنم لے گی۔ وہ قوم کوئی اور نہیں ہوگی بلکہ ہم اور آپ ہی ہوں گے بشرطیکہ متوجہ ہوجائیں اور اصلاحات میں لگ جائیں۔

یہ ہیں اس انتظار کے معنی جس کے بارے میں روایتیں وارد ہوئی ہیں، اور یہ ہے وہ "سچّا منتظر" جس کو روایت میں "مجاھد" اور "شھید" کا درجہ دیا گیا ہے۔

ضرورت ہے ایسے افراد کی جن کے ارادے کے سامنے مصائب کا طوفان خود چکر میں آجائے، جن کے عزم کے سامنے پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں، جن کی امید کے سامنے مایوسی کی چٹانیں پاش پاش ہوجائیں۔ فکر اس قدر وسیع ہوکہ آسمان اور زمین کی وسعتیں کم ہوں، اخلاق اس قدر بلند ہوکہ دشمن بھی کلمہ پڑھیں۔ کردار اتنا مستحکم ہوکہ ملائک بھی سجدہ ریز ہوں۔

۲) سماج کی اصلاح

سچّا منتظر وہ ہے جو صرف اپنی اصلاح پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسروں کی بھی اصلاح کی فکر کرے۔

کیونکہ جس انقلاب کا انتظار ہم کررہے ہیں، اس میں صرف جزوی اصلاحات نہیں ہوں گی بلکہ سماج کے سبھی افراد اس میں برابر کے شریک ہوں گے، لھذا سب مل کر کوشش کریں، ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ رہیں، ایک دوسرے کے شریک رہیں اور شانے سے شانہ ملاتے ہوئے انقلاب کی راہ پر گامزن رہیں۔

جب کام سب مل کر انجام دے رہے ہوں تو اس میں کوئی ایک دوسرے سے غافل نہیں رہ سکتا۔ بلکہ ہر ایک کا فریضہ ہے کہ دوسروں کا بھی خیال رکھے۔ اطراف و جوانب کا بھی علم رکھتا ہو، جہاں پر کوئی معمولی سی کمزوری نظر آئے، فوراً اس کی اصلاح کرے۔ کوئی کمی ہوتو فوراً اس کو پورا کیا جائے۔

اسی بناء پر جہاں ہر انتظار کرنے والے کا یہ فریضہ ہے کہ خود کی اصلاح کرے، کردار کے جوھر سے آراستہ ہو وھاں اس کا یہ بھی فریضہ ہے کہ دوسروں کی بھی اصلاح کرے، سماج میں اخلاقی قدروں کو اجاگر کرے۔

صحیح انتظار کرنے کا یہ دوسرا فلسفہ ہے، ان باتوں کو پیش نظر رکھ کر روایات کا مطالعہ کیا جائے تو معنی کس قدر صاف اور روشن ہوجاتے ہیں۔ منتظر کو کہیں مجاھد کا درجہ، کہیں راہ خدا میں شمشیر بکف کا درجہ، اور کہیں پر فائز بہ شھادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ بدیہی بات ہے اپنی اصلاح یا دوسروں کی اصلاح، انفرادی زندگی کے ساتھ حیات اجتماعی کو بھی سنوارنا کس قدر دشوار گذار مرحلہ ہے۔ ان مراحل میں وہی ثابت قدم رہ سکتا ہے جو عزم و عمل کا شاھکار ہو، جس کے قدم ثبات و استقلال کی آپ اپنی مثال ہوں۔

ایک اعتراض

دنیا کے بارے میں ہم اری معلومات محدود ہیں، اور نہ ہم یں موجودہ حکم فرما نظام کی حقیقت معلوم ہے اور نہ ہم اس کے نتائج سے باخبر ہیں، اس بناء پر ہم خیال کرتے ہیں کہ ظلم و فساد میں ابھی کچھ کمی ہے۔ اگر صحیح طور سے دیکھا جائے تو آج بھی دنیا فساد سے بھری ہوئی ہے آج بھی دنیا ظلم و ستم کی آما جگاہ بنی ہوئی ہے"۔

دنیا میں کچھ ایسے بھی موجودہ ہیں جو ہم یشہ اس فکر میں رھتے ہیں کہ کس طرح ایک اصلاحی بات سے بھی فساد کا پہلو نکالا جائے۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہر چیز میں اس کا منفی پہلو اُبھارا جائے، اصلاح کو بھی فساد کا جامہ پہنا دیا جائے، تاکہ ان کی دُکان ٹھپ نہ ہونے پائے۔ زیر بحث مسئلہ بھی ان لوگوں کی سازش سے محفوظ نہ رہ سکا۔

ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت مھدی علیہ السلام کے ظھور میں شرط یہ ہے کہ آپ اس وقت ظھور فرمائیں گے جب دنیا ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی، دور دور تک کہیں اچّھائیوں کا نام تک نہ ہوگا، نیکی کی شمع کوسوں دور بھی نظر نہ آتی ہوگی۔

اگر ہم لوگ اصلاح کے راستے پر قدم بڑھائیں گے، ظلم و جور کو مٹانے کی کوشش میں لگے رہیں گے تو حضرت کے ظھور میں خواہ مخواہ تاخیر ہوگی، لھذا کیوں نہ ہم لوگ مل کر فساد کی آگ کو اور بھڑکادیں، ظلم و ستم کے شعلوں کی لپک کو اور تیز کردیں، استبداد کی بھٹی کو کیوں نہ اور گرم کردیں، جو کچھ تھوڑی بہت کسر رہ گئی ہے، اسے جلد از جلد پورا کریں تاکہ حضرت کا ظھور جلد ہوسکے۔

اسی اعتراض کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے:

وہ حضرات جو ظھور حضرت مھدی علیہ السلام کے انتظار میں زندگی بسر کر رہے ہیں، انھیں یہ انتظار کوئی تقویت نہیں پہونچاتا بلکہ رہی سہی قوت ارادی کو بھی چھین لیتا ہے گنے چُنے جو نیک لوگ ہیں انھیں بھی یہ انتظار نیک باقی نہیں رھنے دیتا۔ فقر و فاقہ کی زندگی میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے، کیونکہ جو لوگ کم مایہ اور فقیر ہیں وہ اس امید میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کہ جب حضرت کا ظہور ہوگا، اس وقت ہم اری حالت "خود بخود" بدل جائے گی، فقر و فاقہ دور ہوجائے گا، زندگی کا ایک حصہ تو گذر چکا ہے بقیہ بھی اسی امید میں گذر جائے گا۔ سرمایہ داروں کو تو چاندی ہوجائے گی۔ وہ اسی بہانے اپنی تجوریاں بھرتے چلے جائیں گے، لوگوں کو اپنا دست نگر بنانے میں کامیاب ہوتے رہیں گے۔ یہ عقیدہ انسانی زندگی کے لئے آبِ حیات ہے یا صحیح معنوں میں زھر ھلاہل۔؟

یہ ہے وہ اعتراض جسے مخالفین کافی آب و تاب سے بیان کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے

خود دل سے اس اعتراض کو قبول نہ کرتے ہوں، مگر اپنے ناپاک مقاصد کے لئے، اپنی شخصیت کو چھپانے کے لئے اس اعتراض کو "بطور نقاب" استعمال کرتے ہوں۔

جو بھی صورت حال ہو، اس اعتراض کے جواب کے لئے ان باتوں کی طرف توجہ فرمایئے:

۱۔ صف بندی اور تشخیص

اس عالمی انقلاب میں یا تو لوگ موافقین کی فہرست میں ملیں گے یا پھر مخالفین کی فہرست میں، تماشائی کی حیثیت کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آتے ہیں سب کی صورت حال یہی ہے۔ کیونکہ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے ہیں وہ دو صورتوں سے خالی نہیں ہیں۔ انقلاب سماج کے لئے فائدہ مند ہوگا یا فائدہ مند نہیں ہوگا اگر انقلاب سماج کے لئے فائدہ مند ہے تو ہر آدمی کا فریضہ ہے کہ اس میں شرکت کرے، اگر یہ انقلاب سماج کے لئے نقصان کا باعث ہے تو سب کا فریضہ ہے کہ مل کر اس کی مخالفت کریں اور اس کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ یہ بات دور از عقل ہے کہ انقلاب تو آئے لیکن سماج کے لئے نہ فائدہ مند ہو نہ باعثِ نقصان۔

جب یہ بات تو ہم یں چاہیئے کہ ہم ابھی سے یہ طے کرلیں کہ ہم یں کس صف میں رہنا ہے ہم اپنے کو خود آزمالیں کہ ہم یں کس کا ساتھ دینا ہے۔

اگر آج ہم فساد کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں تو کل کیونکر اصلاح کرنے والوں کی صف میں آجائیں گے اور فساد کو آگ بجھا رہے ہوں۔؟ اگر آج ہم ارا دامن ظلم و جور سے آلودہ ہوگا تو کل یقیناً ہم ارا شمار مخالفین کی فہرست میں ہوگا۔ کیونکہ یہ بات تو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مھدی علیہ السلام کے ظھور کے بعد جو انقلاب آئے گا اس میں ظلم و جور کا نشان تک باقی نہ رہے گا۔ ہم کو ان ظالموں کی صف میں اپنے کو شمار کرنا چاہئے جن کی گردنوں کا بوسہ عدل و انصاف کی شمشیر لے گی۔ فساد پھیلانا تو بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم ایک ایسی آگ بھڑکائیں جس کا پہلا شعلہ ہم یں ہی خاکستر کردے۔

اگر اس اعتراض کو قبول بھی کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم جس قدر اپنے اعمال بد کے ذریعہ حضرت مھدی علیہ السلام کے ظھور کو نزدیک کریں گے اتنا ہی ہم اپنی نابودی اور فنا سے بھی قریب تر ہوجائیں گے، اپنے ہی ہاتھوں اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لیں گے۔

اگر ہم باقی رہنا چاھتے ہیں اور اس عالمی انقلاب کے نتائج سے لطف اندوز اور بہرہ مند ہونا چاھتے ہیں تو اپنے دامن کو آلودگیوں سے دور رکھیں، ظلم و جور سے تمام رشتوں کو توڑدیں، ضلالت و گمراہی کے سمندر سے نکل کر ہدایت کے ساحل پر آجائیں۔

۲۔ مقصد آمادگی ہے، فساد نہیں

جو چیز حضرت مھدی علیہ السلام کے ظھور کو کسی حد تک نزدیک کرسکتی ہے وہ ہے وہ ظلم وجور و فساد نہیں ہے بلکہ ہم اری آمادگی ہے، ہم ارا اشتیاق ہے۔ کیا ہم یں حضرت کا اسی طرح انتظار ہے جس طرح سے ایک پیاسے کو پانی کا۔

ھاں یہ اور بات ہے، جس قدر ظلم و جور، فساد اور بربادی میں اضافہ ہوتا جائے گا اتنا ہی لوگ موجودہ نظام اور ضابطۂ حیات سے عاجز ہوتے جائیں گے۔ رفتہ رفتہ لوگوں کو اس بات کا یقین ہوتا جائے گا کہ موجودہ ضابطۂ حیات میں سے کوئی ایک بھی ہم اری مشکلات کا حل پیش نہیں کرسکتا بلکہ جتنے بھی نظام رائج ہیں وہ سب کے سب ہم اری مشکلات میں اضافہ تو کرسکتے ہیں مگر کمی نہیں کرسکتے۔ یہی یقین اس بات کا سبب ہوگا کہ لوگ ایک ایسے نظام کے منتظر ہوں گے جو واقعاً ان کی مشکلات کا حل پیش کرسکتا ہے جس قدر یہ یقین مستحکم ہوتا جائے گا، اتنا ہی انسان کا اشتیاق بڑھتا جائے گا۔

دھیرے دھیرے یہ بات بھی روشن ہوتی جائے گی اور لوگوں کو یقین ہوتا جائے گا کہ دنیا کی جغرافیائی تقسیم مشکلات کا سر چشمہ ہے۔ یہی جغرافیائی تقسیم ہے جس کی بنا پر بے پناہ سرمایہ اسلحہ سازی میں خرچ ہورہا ہے، انسان کی گاڑھی کمائی کے پیسے سے خود اس کی تباہی کے اسباب فراہم کئے جارہے ہیں۔ جغرافیائی تقسیم اور حد بندی کا نتیجہ ہے جس کی بنا پر ہر قوی اور طاقت ور ملک ضعیف اور فقیر ملک کو اپنے قبضہ میں کرلیتا ہے۔ ان کے پاس جو خدا داد نعمتیں ہیں ان کو ہتھیانے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ یہ جغرافیائی تقسیم اور حد بندی کا نتیجہ ہے جس کی بنا پر ملکوں میں آپس میں ایک حسد اور تعصب پایا جاتا ہے۔ یہی وہ باتیں ہیں جو انسانی مشکلات کا سرچشمہ ہیں، جس قدر یہ حققیت انسانی ذہن میں اترتی جائے گی اتنا ہی انسان ایک ایسی حکومت کی فکر میں ہوگا، جس میں یہ قصّہ ہی نہ ہو، جہاں پر کوئی حد بندی نہ ہو۔ اگر حد بندی ہو تو صرف انسانیت اور آدمیت کی۔ جب ایک عالمی حکومت کا قیام ہوگا تو وہ بے پناہ سرمایہ جو اسلحہ کے اوپر خرچ ہورہا ہے، وہ انسان کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ ہوگا، اب نہ حسد کا سوال ہوگا اور نہ رقابت کا، بلکہ سب مل کر شانے سے شانہ ملاکر ہاتھ میں ہاتھ دے کر، عدل و انصاف، صدق و صفا، برادری، اخلاص و ایثار، اخلاق و کردار، مروت و شرافت کی بنیاد پر قصر آدمیت و انسانیت کو تعمیر کریں گے۔

۳۔ تاریکی کا عُروج

دنیا تو مدت ہوئی ظلم و جور سے بھر چکی ہے۔ یہ جنگیں یہ قتل و غارت، لوٹ مار خوں ریزیاں اس بات کی نشانی نہیں ہیں کہ دنیا ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے۔ یہ کینہ و حسد ایک دوسرے کو تباہ و برباد کرنے کے لئے ایک سے ایک اسلحہ بنانا، طاقت کے گہم نڈ میں غریبوں اور کمزوروں کو کچل کے رکھ دینا، دنیا سے اخلاقی قدروں کو مٹ جانا جہاں کردار کی بھیک مانگے سے نہ ملتی ہو، جہاں شرم و حیا نام کی کوئی چیز نہ ہو تو اب بھی ظلم و جور میں کوئی کمی باقی رہ جاتی ہے۔؟

ھاں جس چیز کی کمی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک موجودہ نظام ھائے حکومت کی حقیقتوں سے واقف نہیں ہوئے ہیں، ابھی ہم ان ضابطۂ حیات کے نتائج سے باقاعدہ آگاہ نہیں ہوئے۔ ابھی تک یہ بات بالکل روشن نہیں ہوئی ہے کہ واقعاً ہم اری مشکلات کا سرچشمہ کیا ہے، جس کی بناء پر ہم اپنے وجود میں اس جذبے کا احساس نہیں کرتے جو ایک پیاسے کو پانی کا ہوتا ہے، ایک مریض کو شفا کی آرزو۔

جس قدر ہم ارے جذبات میں اضافہ ہوتا جائے گا، جتنا ہم میں آمادگی پیدا ہوتی جائے گی، جس قدر حضرت (ع) کے ظھور کی ضرورت اور عالمی انقلاب کا احساس ہوتا جائے گا، اتنا ہی حضرت کا ظھور نزدیک ہوتا جائے گا۔

۴۔ سچّا منتظر کون۔؟

انتظار کے اثرات و فوائد میں سے دو کا ذکر کیا جاچکا ہے۔ ۱ انفرادی اصلاح یا اصلاح نفس ۲ سماج کی اصلاح۔

انتظار کے اثرات صرف انھیں دو میں منحصر ہیں بلکہ اور بھی ہیں، ان میں سے ایک اور قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔

جس وقت فساد وباکی طرح عام ہوجائے گا، ہر طرف فساد ہی فساد نظر آئے، اکثریت کا دامن فساد سے آلودہ ہو، ایسے ماحول میں اپنے دامن کو فساد سے محفوظ رکھا ایک سچّے اور حقیقی منتظر کا کام ہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جس وقت نیک اور پاک سیرت افراد روحی کش مکش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کبھی بھی یہ خیال ذہنوں میں کروٹیں لینے لگتا ہے کہ اب اصلاح کی کوئی امید نہیں ہے۔ یہ مایوسی کردار کے لئے ایک مہلک زھر ثابت ہوسکتی ہے۔ انسان یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ اب اصلاح کی کوئی امید نہیں ہے، اب حالات سدھرنے والے نہیں ہیں، اب کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، بلکہ حالات بد سے بدتر ہوجائیں گے، ایسی صورت میں اگر ہم اپنے دامن کردار کو بچائے بھی رکھیں تو اس کا کیا فائدہ جب کہ اکثریت کا دامن کردار گناھوں سے آلودہ ہے۔ اب تو زمانہ ایسا آگیا کہ بس "خواہی نشوید رسوا ہم رنگ جماعت باش"۔۔ اگر رسوائی اور بدنامی سے بچنا چاھتے ہو تو جماعت کے ہم رنگ ہوجاؤ۔

ھاں! اگر کوئی چیز ان لوگوں کو آلودہ ہونے سے محفوظ رکھ سکتی ہے اور ان کے دامن کردار کی حفاظت کرسکتی ہے تو وہ صرف یہی عقیدہ کہ ایک دن آئے گا جب حضرت مھدی سلام اللہ علیہ کا ظھور ہوگا اور دنیا کی اصلاح ہوگی جیسا کہ رسول گرامی (ص) کا ارشاد ہے: "اگر آنے میں صرف ایک ہی دن باقی رہ جائے گا تو خداوند عالم اس دن کو اس قدر طولانی کردے گا کہ حضرت مھدی سلام اللہ علیہ کا ظھور ہوجائے"۔(۱۱) جب ایک دن اصلاح ہوگی اور ضرور ہوگی تو کیوں نہ ہم اپنے دامن کردار کو محفوظ رکھیں، دوسروں کی اصلاح کی فکر کیوں نہ کریں۔ اس سعی و کوشش کی بنا پر ہم اس لائق ہوسکیں گے کہ وقت انقلاب موافقین کی صف میں ہوں اور ہم ارا بھی شمار حضرت کے اعوان و انصار میں ہو۔

تعلیماتِ اسلامی میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ سب سے عظیم گناہ اگر کوئی چیز ہے تو وہ "رحمت الٰہی سے مایوسی ہے"۔ اس کی وجہ بھی صاف واضح ہے۔ جب انسان رحمتِ الٰہی سے مایوسی ہوجائے گا تو کبھی بھی اصلاح کی فکر نہیں کرے گا۔ وہ یہی خیال کرے گا کہ جب کافی عمر گناہ کرتے گزری تو اب چند دنوں کے لئے گناہ سے کنارہ کشی اختیار کرنے سے کیا فائدہ۔ جب ہم گناھوں کے بوجھ سے دبے ہوئے ہیں تو کیا ایک اور کیا دس۔ اب تو پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے، ساری دنیا میں بدنامی ہوچکی، اب کاھے کی پرواہ، اپنے اعمال کے ذریعہ دوزخ خرید چکا ہوں۔ جب آتش جہنم میں جلنا ہے تو باقاعدہ جلیں گے اب ڈر کس بات کا۔

اگر انسان کی ساری عمر گناہ کرتے گزری ہو، اور اسے اس بات کا یقین ہو کہ میرے گناہ یقیناً بہت زیادہ ہیں، لیکن رحمتِ الٰہی اس سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ میرے لاکھ گناہ سھی مگر اس کی رحمت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، اس کی ذات سے ہر وقت امید ہے، اگر میں سدھر جاؤں تو وہ آج بھی مجھے بخش سکتا ہے۔ اگر میں اپنے کئے پر نادم ہوجاؤں تو اس کی رحمت شامل حال ہوسکتی ہے۔ یہی وہ تصور اور عقیدہ ہے جو انسان کی زندگی میں ایک نمایاں فرق پیدا کرسکتا ہے، ایک گناھگار کو پاک و پاکیزہ بنا سکتا ہے۔

اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ امید انسانی زندگی کے لئے بہت ضروری چیز ہے۔ امید کردار سازی میں ایک مخصوص درجہ رکھتی ہے۔ اصلاح کی امید فساد کے سمندر میں غرق ہونے سے بچا لیتی ہے، اصلاح کی امید انسانی کردار کے لئے ایک مستحکم سپر ہے۔

جس قدر دنیا فاسد ہوتی جائے گی اسی اعتبار سے حضرت کے ظھور کی امید میں اضافہ ہوتا جائے گا، جس قدر یہ امید بڑھتی جائے گی اسی اعتبار سے انفرادی اور اجتماعی اصلاح ہوتی جائے گی۔ ایک صالح اور با کردار اقلیت کبھی بھی فسادی اکثریت کے سمندر میں غرق نہیں ہوگی۔

یہ ہے انتظار کا وہ فائدہ جو کردار کو فاسد ہونے سے محفوظ رکھتا ہے، ایک سچّے اور با کردار منتظر کا دامنِ عفت گناھوں سے آلودہ نہیں ہوگا۔

مختصر یہ کہ

اگر انتظار کو صحیح معنوں میں پیش کیا جائے تو انتظار انسان کی زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اخلاقی قدروں کو اجاگر رکھنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ انتظار بے حس انسان کو ذمہ دار بنا دیتا ہے۔ بے ارادہ انسانوں کو پہاڑوں جیسا عزم و استقلال عطا کرتا ہے۔

ھاں اگر انتظار کے مفھوم کو بدل دیا جائے، اس کی غلط تفسیر کی جائے تو اس صورت میں انتظار ضرور ایک بے فائدہ چیز ہوگی۔

انتظار کبھی بھی انسان کو بے عمل نہیں بناتا۔ اور نہ بد اعمالی کی دعوت دیتا ہے، اس بات کی زندہ دلیل وہ روایت ہے جو اس آیتہ کریمہ کے ذیل میں وارد ہوئی ہے:وَعدَ اللهُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوۡا الصّٰلِحٰتِ لِیَسۡتَخۡلِفَنَّهُمۡ فی الارض "وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور عمل صالح بجالاتے ہیں ان سے خدا کا یہ وعدہ ہے کہ خدا ان کو روئے زمین پر حکومت عطا کرے گا۔" امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اس آیت سے مرادالقائم واصحابه (۱۱) اس سے مراد حضرت مھدی (ع) اور ان کے اصحاب ہیں۔

ایک دوسری روایت میں ہےنزلت فی المهدی (۱۲) یہ آیتہ کریمہ حضرت مھدی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ اس آیتہ کریمہ میں جو حضرت کے اصحاب کی صفت بیان کی گئی ہے ان میں ایک ایمان ہے اور دوسرا عمل صالح يقیناً اس عالمی انقلاب کے لئے ایسے افراد کی ضرورت ہے جن کے ایمان پختہ ہوں، عقائد مستحکم ہوں، عقیدے کی ہر منزل کامل ہو، عمل کے میدان میں مرد میداں ہوں۔ جو لوگ ابھی انتظار کی گھڑیاں گذار رہے ہیں، ان میں گزشتہ باتوں کا پایا جانا ضروری ہے اور جن میں یہ صفات موجود ہوں گے وہی سچّے منتظر ہوں گے۔

وہ لوگ جن کے ایمان کامل نہیں ہیں یا عمل صالح میں کورے ہیں تو وہ ظھور سے پہلے اپنی اصلاح کرلیں ورنہ بغیر اصلاح کئے ہوئے اگر کسی چیز کا انتظار کر رہے ہیں تو وہ بس اپنی ہی فنا اور نابودی ہے۔

انتظار کا حق اسے ہے جس کا دل ایمان سے لبریز ہو، جو عزم و استقلال کا مالک ہو۔ وہ کیا انتظار کرے گا جو ہم یشہ اونگھا کرتا ہے۔

سچا منتظر وہ ہے جو ہم یشہ اپنی اصلاح میں لگا رہتا ہے اور اسی کے ساتھ سماجی اصلاح کی فکر میں غرق رہتا ہے اجتماع کی فلاح و بہبود میں ہم یشہ کوشاں رہتا ہے۔

ھاں یہ ہے سچا منتظر اور یہ ہیں انتظار کے حقیقی معنی۔

____________________

۱۰. بحار الانوار، جلد۵۱ ص۷۴ طبع جدید

۱۱. بحار الانوار ج۵۱، ص۵۸ طبع جدید