اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں

اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں50%

اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 69

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 69 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23500 / ڈاؤنلوڈ: 4584
سائز سائز سائز
اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں

اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں

مؤلف :

حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری

اردو ترجمہ :

قبلہ السید ذیشان حیدر جوادی صاحب

۲

پیش لفظ

عرض تنظیم

عظمت اہلبیت (ع) عالم اسلام کا ایک مسلم مسئلہ ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ عالم اسلام کی اکثریت آج تک اہلبیت (ع) کی صحیح حیثیت اور ان کے واقعی مقام سے ناآشنا ہے ورنہ نہ اس طرح کی مہمل اختلافات ہوتے جن میں بلاوجہ مسلمانوں کی جانیں ضائع ہورہی ہیں اور ان کی اجتماعی طاقت برباد ہورہی ہے اور نہ اس طرح کے بیجا سوالات اٹھتے کہ اہلبیت (ع) اور اصحاب میں افضل کون ہے؟ اور اہلبیت (ع) کا ماننا ضروری بھی ہے یا نہیں ؟

یہ سارے سوالات عالم اسلام کی جہالت اور ناواقفیت کی علامت ہیں، ورنہ اہلبیت(ع) عظمت و جلالت کی اس منزل پر فائز ہیں جہاں انسان ان سے آشنا ہونے کے بعد کسی بھی قیمت پر ان سے الگ نہیں رہ سکتاہے، تاریخ کے جس دور میں بھی اور جس موڑ پر بھی کسی شخص نے ان کی معرفت حاصل کرلی ہے ان کا کلمہ پڑھے بغیر نہیں رہ سکاہے۔

حجر اسود سے لیکر سرزمین حل و حرم تک سب ان کی عظمت و جلالت سے باخبر ہیں اور اس کے معترف رہے ہیں، محروم و معرفت رہا ہے تو صرف نادان انسان جس نے سیاسی مفادات کے لئے دین و مذہب کو بھی قربان کردیا ہے اور عیش و عشرت کی خاطر ضمیر کے تقاضوں کو بھی پامال کردیا ہے۔

۳

اہلبیت (ع) کی عظمت و جلالت کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ہر دور میں لکھا گیا ہے، لیکن اس طرح کا کام کبھی منظر عام پر نہیں آسکاہے جس طرح کا کام سرکار حجة الاسلام والمسلمین محمدی الری شہری نے انجام دیا ہے اور یہ آپ کا کمال توفیق ہے کہ قضاوت کے سب سے بڑے عہد ہ پر فائز ہونے کے باوجوداپنی مصروفیات سے اتنا وقت نکال لیا کہ ” میزان الحکمہ“ جیسی مفصل کتاب تیار کردی اور پھر اس تسلسل میں تعارف اہلبیت (ع) کے حوالہ سے زیر نظر کتاب کو مرتب کردیا۔

اس کتاب میں عظمت اہلبیت (ع) سے متعلق ہزار سے زیادہ اقوال و ارشادات کا ذکر کیا گیا ہے اور نہایت ہی سلیقہ سے کیا گیا ہے کہ انسان زندگی کے جس شعبہ میں بھی ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہے نہایت آسانی سے حاصل کرسکتاہے اور اس معرفت کے درجہ پر فائز ہوسکتاہے جس کے بغیر سرکار دو عالم کے الفاظ میں انسان کی موت جاہلیت کی موت بن جاتی ہے۔

کتاب کی تبویت و تصنیف بے مثال ولا جواب ہے اور اس سے مولف کے کمال فن کا بھی اندازہ کیا جاسکتاہے۔

سیکڑوں کتابوں کا خلاصہ ایک کتاب میں جمع کردیا ہے اور بیشمار دریاؤں کو ایک کوزہ میں بند کردیا ہے۔

کتاب واقعاً اس بات کی حقدار تھی کہ اردو دال طبقہ اس کے معلومات سے بے خبر نہ رہے لیکن افسوس کہ ”ماہریں ترجمہ“ کو نہ کتاب کی ہوا لگی اور نہ ان کے توفیقات نے ساتھ دیا اور یہ شرف بھی بالآخر سرکار علامہ جوادی دام ظلہ ہی کے حصہ میں آیا اور آپ نے ایام عزا کی بے پنا ہ مصروفیات کے باوجود جہاں امریکہ جیسے ملک میں ایک ایک دن میں متعدد مجالس سے خطاب کرنا ہوتاہے، امریکہ و یورپ کے قیام کے دوران ایام عزا میں اس کا ترجمہ مکمل کرلیا اور ملک واپس آنے سے پہلے اس کی فہرست بھی مکمل کرلی کہ ”بقول سرکار موصوف لندن سے واپسی پر جہاز سے اس وقت تک ایرپورٹ پر نہیں اترے جب تک کہ کتاب کی آخری سطر مکمل نہیں کرلی، اگر چہ سارے مسافر اترچکے تھے اور عملہ کا اصرار اترنے کے لئے جاری تھا، اس لئے کہ آپ نے فرمائش کرنے والوں سے یہ وعدہ کرلیا تھا کہ انشاء اللہ یہ کام دوران سفر امریکہ و یورپ مکمل کردیا جائے گا۔

۴

بہر حال اب دو ماہ کی یہ کاوش آپ حضرات کے سامنے ہے۔ ادارہ اس کی اشاعت کے سلسلہ میں اپنے قدیم کرم فرما ڈاکٹر حسن رضوی (ڈیڑائٹ) کا شکر گذار ہے کہ انھوں نے گذشتہ برسوں کی طرح امسال بھی ایک کتاب کی اشاعت کا ذمہ لے لیا اور اپنے مخصوص تعاون سے اسے مرحلہ اشاعت تک پہنچا دیا جس کا ثواب جناب ریاض حسین مرحوم، محترمہ طیبہ خاتون اور جناب عشرت حسین مرحوم کے لئے ہدیہ کیا جارہاہے۔

آخر میں ہماری دعا ہے کہ پروردگار علامہ جوادی( دام ظلہ) کے سایہ کو برقرار رکھے اور ہم کو ان کے ہدایات سے مستفید ہونے کی توفیق کرامت فرماتارہے۔

ذاتی طور پر میں اپنے محترم بزرگ حضرت پیام اعظمی اور اپنے فعال ساتھی ضیغم زیدی کے بارے میں بھی دست بدعاہوں کہ اول الذکر کی رہنمائی اور ثانی الذکر کی دوڑ دھوپ ہی میرے لئے طباعت و اشاعت کے سارے مراحل کو آسان بنادیتی ہے۔

والسلام

سید صفی حیدر

۵

حرف آغاز

دنیا کا کونسا باشعور مسلمان ہے جو لفظ اہلبیت(ع) یا اس کے مصادیق کی عظمت سے باخبر نہ ہو، قرآن مجید نے اس لفظ کو متعدد بار استعمال کیا ہے اور ہر مرتبہ کسی نہ کسی عظمت و جلالت کے اظہار ہی کے لئے استعمال کیا ہے۔

جناب ابراہیم (ع) کے تذکرہ میں یہ لفظ آیاہے تو رحمت و برکت کا پیغام لے کر آیاہے اور جناب موسیٰ (ع) کے حالات کے ذیل میں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے تو اسے محافظ حیات نبوت و رسالت کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔

اس کے بعد یہ لفظ سرکاردو عالم کے مخصوص اہل خاندان کے بارے میں استعمال ہوا ہے جس کا مقصد اعلان تطہیر و طہارت ہے اس کے باوجود اس میں جملہ خصوصیات و امتیازات جمع کردیئے گئے ہیں۔ اہلبیت (ع) مرکز تطہیر و طہارت بھی ہیں اور محافظ حیات رسالت و نبوت بھی اہلبیت(ع) کی زندگی میں رحمت و برکت بھی ہے اور انہیں مالک کائنات نے مستحق صلوات بھی قرار دیا ہے۔

عصمت و عظمت کا ہر عنوان لفظ اہلبیت (ع) کے اندر پایا جاتاہے اور پروردگار نے کسی بھی غلط اور ناقص انسان کو اس عظیم لقب سے نہیں نوازا ہے اور جب کسی انسان کے کردار پر تنقید کی ہے تو اسے اس کے گھر کا قرار دیا ہے نہ اپنے بیت کا اہل قرار دیا ہے اور نہ پیغمبر کے اہلبیت (ع) میں شامل کیا ہے۔

بیت کی عظمت خود اس بات کا اشارہ ہے کہ اہلبیت (ع) کن افراد کو ہونا چاہیئے اور انہیں کن فضائل و کمالات کا مالک ہونا چاہئے۔ لیکن اس کے بعد بھی مالک کائنات نے آیت تطہیر کے ذریعہ ان کی عظمت و طہارت کا اعلان کردیا تا کہ ہر کس و ناکس کو اس بیت کے حدود میں قدم رکھنے کی ہمت نہ ہو اور ہر ایک کو یہ محسوس ہوجائے کہ اس میں قدم رکھنے کے لئے ہر طرح کے رجس سے دور رہنا پڑے گا اور گناہ و معصیت کے ساتھ شک و ریب کی کثافت سے بھی پاک و پاکیزہ رہنا پڑے گا اور اس کے بعد اس منزل طہارت پر رہنا ہوگا جسے حق طہارت سے تعبیر کیا جاتاہے اور جس سے بالاتر کسی منزل طہارت کا امکان نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ لفظ تطہیر قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے اور دوبارہ اس کے استعمال کی نوبت نہیں آئی ہے کہ نبوت کے اہلبیت (ع) کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جسے حق طہارت کی منزل پر فائز کیا جاسکے اور یہ ان کی بلندی کردار اور انفرادیت حیات کی بہترین علامت ہے

۶

جس میں خدائے وحدہ لا شریک نے کسی کو بھی شریک نہیں بنایا ہے اور رسول اکرم نے بھی شرکت کی خواہش کرنے والوں کی خواہش کو صفات لفظیوں میں مسترد کردیا ہے اور گوشہ چادر کو بھی کھینچ لیا ہے، اگر چہ جناب ام سلمہ کو انجام بخیر ہونے کی سند بھی دیدی ہے لیکن ضمناً اس حقیقت کا بھی اعلان کردیا ہے کہ جب انجام بخیر ہونے کی سند بھی دیدی ہے لیکن ضمناً اس حقیقت کا بھی اعلان کردیا ہے کہ جب انجام بخیر رکھنے والی خاتون اس منزل طہارت میں قدم نہیں رکھ سکتی ہے تو دوسری کسی عورت یا دوسرے کسی مرد کا کیا امکان رہ جاتاہے۔

یہ عالم اسلام کی بد ذوقی کی انتہا ء ہے کہ منزل تطہیر میں ان افراد کو بھی رکھنا چاہتے ہیں جن کا سابقہ عالم کفر سے رہ چکاہے اور جن کی زندگی کا ایک حصہ کفر کے عالم میں گذرچکاہے ، کیا ایسا کوئی انسان اس ارادہ الہی کا مقصود ہوسکتاہے جس میں ہر رجس کو دور رکھنا بھی شامل ہے اور کمالِ طہارت و عصمت بھی شامل ہے۔

اہلبیت(ع) رسالت سے مراد صرف پنجتن پاک اور ان کی اولاد ہے جن کی عظمت عالم اسلام میں مسلم ہے اور ان کے عہدہ و منصب کا انکار کرنے والوں نے بھی ان کی عظمت و جلالت اور ان کی عصمت و طہارت کا انکار نہیں کیا ہے اور انھیں ہر دور میں خمسہ نجباء یا پنچتن پاک کے نام سے یاد کیا گیاہے اور اسی بنیاد پر بعض اہل نظر کا عقیدہ ہے کہ اہلبیت(ع) رسالت کے منصب کا انکار کرنے والا تو مسلمان رہ سکتاہے کہ یہ عالم اسلام کا ایک اختلافی مسئلہ بن گیا ہے لیکن ان کی عظمت و جلالت کا انکار کرنے والا مسلمان بھی نہیں رہ سکتاہے کہ یہ قرآن و حدیث کا مسلمہ ہے اور اس پر عالم اسلام کے تمام باشعور اور باضمیر افراد کا ہر دور میں اتفاق رہاہے۔

۷

اور یہ انداز فکر بھی معصومہ عالم جناب فاطمہ زہرا (ع) کی ایک مزید عظمت کا اشارہ ہے کہ باقی افراد ہیں تو جہتِ اختلاف موجود بھی ہے کہ وہ صاحبان منصب ہیں اور منصب کا انکار ممکن ہوسکتاہے، لیکن جناب فاطمہ(ع) کو مالک کائنات نے منصب و عہدہ سے بھی الگ رکھاہے اور اس طرح آپ سے اختلاف کرنے کے ہر راستہ کو بند کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مباہلہ میں رسالت کو گواہی کی ضرورت پیش آئی تو آپ کو مکمل حجاب کے ساتھ میدان میں لے آئی اور خلافت میں امامت کو ضرورت پڑی تو آپ کو فدک کا مدعی بناکر پیش کردیا گیا تا کہ آپ کے بیان کو مسترد کردینے والا اور آپ کی عصمت و طہارت کا انکار کرنے والا خود اپنے اسلام و ایمان کے بارے میں فیصلہ کرے۔

اسلامی روایات میں عظمت اہلبیت(ع) کے حوالہ سے بے شمار اقوال و ارشادات پائے جاتے ہیں، لیکن ان کی حیثیت بڑی حد تک منتشر تھی اور اہلبیت(ع) کے مکمل کردار اور ہمہ جہت کمالات کا اندازہ کرنے والے کو متعدد کتابوں کے مطالعہ کی ضرورت پڑتی تھی۔

خدا کا شکر ہے کہ سرکار حجة الاسلام والمسلمین محمدی الری شہری (دام ظلہ) کو یہ توفیق حاصل ہوئی اور انھوں نے اس سلسلہ کی ہزاروں احادیث و روایات اور اس موضوع سے متعلق سینکڑوں بیانات و اعترافات کو ایک مرکز پر جمع کردیا اور اب قرآن و سنت سے اہلبیت(ع) کی عظمت کے پہچاننے والے کو طویل مشقت کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے، اور صرف ایک کتاب ہی اس ضرورت کو پورا کرسکتی ہے۔

رب کریم سرکار موصوف کے توفیقات میں اضافہ فرمائے اور حقیر کو بھی ان خدمات کو اپنے ہمزبانوں کے سامنے پیش کرنے کی سعادت عطا فرماتارہے۔ و آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

جوادی

۱۳ / جمادی الاولیٰ ۱۴۱۸ء ھ روز وفات معصومہ عالم (ع)

۸

مقدّمہ

ساری تعریف خدائے رب العالمین کے لئے اور صلوات و سلام اس کے بندہ منتخب حضرت محمد مصطفیٰ اور ان کی آل طاہرین (ع) اور ان کے نیک کردار اصحاب کرام کے لئے۔

اما بعد، یہ کتاب جو آپ حضرات کے سامنے ہے، یہ سیکڑوں کتابوں اور ہزاروں حدیثوں کا خلاصہ اور نچوڑ ہے جسے ایک نئے انداز سے عالم حدیث اور دنیائے معارف اسلامیہ کے سامنے پیش کیا جارہاہے۔

یہ کتاب در حقیقت برسہا برس کی تحقیق ، تلاش اور جستجو کا نتیجہ ہے جو ” میزان الحکمة“ سے الگ مستقل شکل میں پیش کی جارہی ہے، اس کے مآخذ کی فہرست پر اجمالی نظر ڈالنے والا بھی یہ اندازہ کرسکتاہے کہ اس کی تالیف میں کس قدر زحمت برداشت کی گئی ہے اور کتنی عرقریزی سے کام لیا گیا ہے۔

ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ ۳۶۶ء۱ ہجری شمسی میں ” میزان الحکمة“ کی مقبولیت نے بھی یہ خیال پیدا کردیا تھا کہ اس انداز کی ایک جامع پیشکش عالم اسلام کے سامنے پیش کی جائے اور اس کام کے لئے مختلف فضلاء حوزہ علمیہ قم کی امداد سے ۱۳۷۴ء ھ میں ایک ” مؤسسہ دار الحدیث“ قائم بھی ہوگیا تھا جس کے ذریعہ اس مفصل کتاب کا ایک بڑا حصہ منظر عام پر آچکاہے اور امید ہے کہ فضل و کرم خداوندی سے بہت جلد یہ سلسلہ مکمل ہوجائے گا۔

اس وقت چونکہ عالم اسلام کو اس جامع کتاب کے بہت سے موضوعات کی شدیدترین ضرورت ہے اور ان کی مستقل اشاعت ضروری ہے اس لئے ہم نے مناسب خیال کیا کہ تدریجی طور پر ان موضوعات کو مستقل کتابوں کی شکل میں بھی پیش کردیا جائے۔

۹

چنانچہ اس سلسلہ کی پہلی کتاب ” دارالحدیث“ کی طرف سے معرفت اہلبیت(ع) کے عنوان سے پیش کی جارہی ہے اور اس حقیر ہدیہ کو معصومہ عالم جناب فاطمہ(ع) کی بارگاہ میں پیش کیا جارہاہے تا کہ ان کی دعاؤں کی برکت سے یہ ہدیہ بارگاہ الہی میں قابل قبول ہوجائے اور بعد موت کے منازل اور آخرت کے مراحل کیلئے ذخیرہ بن جائے اور دنیا میں بھی اس کے اثرات اہلبیت(ع) کے تعارف اور امت اسلامیہ کے اتحاد کے سلسلہ میں ہماری توقعات سے زیادہ ہوں۔

آخر کلام میں ہمارا فرض ہے کہ ان تمام عزیزوں کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے اس کتاب کی تالیف میں ہماری امداد کی ہے ، خصوصیت کے ساتھ فاضل عزیز السید رسول الموسوی جنھوں نے اس میدان میں اپنی تمام کوششیں صرف کردی ہیں اور بیحد مشقت برداشت کی ہے۔

رب کریم انھیں اہلبیت (ع) طاہرین علیہم السلام کی طرف سے دنیا و آخرت میں بہترین جزا عنایت فرمائے۔

محمدی الری شہری

شعبان المظعم ۱۴۱۷ء ھ

۱۰

اِنَّمَا یُرِیدُ اللِ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَهلَ بَیتِ وَ یُطَهَّرَکُم تَطهِیرَا (احزاب ۲۳)

کچھ آیت تطہیر سے متعلق

یہ آیت کریمہ سرکار دو عالم (ع) کے آخر دور حیات میں اس دقت نازل ہوئی ہے جب آپ جناب ام سلمہ کے گھر میں تھے اور اس کے بعد آپ نے علی (ع) و فاطمہ (ع)و حسن (ع) و حسین (ع) کو جمع کرکے ایک خیبری چادر اوڑھادی اور بارگاہ احدیت میں عرض کی، خدایا یہی میرے اہلبیت (ع) ہیں، تو ام سلمہ نے گذارش کی کہ حضو ر میری جگہ کہاں ہے؟ فرمایا تم منزل خیر پر ہو یا تمہارا انجام بخیر ہے۔

دوسری روایت کے مطابق ام سلمہ نے عرض کی کہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں؟

تو فرمایا کہ تم خیر پر ہو۔

ایک دوسری روایت کی بناپر ام سلمہ نے گوشہ چادراٹھاکر داخل ہونا چاہا تو حضور نے اسے کھینچ لیا اور فرمایا کہ تم خیر پر ہو۔

مسلمان محدثین اورمورخین نے اس تاریخی عظیم الشان واقع کو اپنی کتابوں میں محفوظ کیا ہے اور بقول علامہ طباطبائی طاب ثراہ اس سلسلہ کی احادیث ستر سے زیادہ ہیں، جن میں سے اہلسنت کی حدیثیں شیعوں کی حدیثوں کے مقابلہ میں اکثریت میں ہیں ان حضرات نے حضرت ام سلمہ ، عائشہ ، ابوسعید خدری، واثلہ بن الاسقع، ابوالحمراء ، ابن عباس، ثوبان ( غلام پیغمبرِ اکرم) عبداللہ بن جعفر، حسن بن علی (ع) سے تقریباً چالیس طریقوں سے نقل کی ہے جبکہ شیعہ حضرات نے امام علی (ع) ، امام سجاد (ع) ، امام باقر (ع) ، امام صادق (ع) ، امام رضا (ع) ، ام سلمہ ، ابوذر، ابولیلیٰ ، ابواسود دئلی ، عمر ابن میمون اور دی اور سعد بن ابی وقاص سے تیس سے کچھ زیادہ طریقوں سے نقل کیا ہے۔ ( المیزان فی تفسیر القرآن ۱۶ / ۳۱۱)

۱۱

مؤلف، عنقریب آپ دیکھیں گے کہ ان تمام احادیث کو فریقین نے امام علی (ع) ، امام حسن (ع) ، امام زین العابدین (ع) ، حضرت ام سلمہ ، عائشہ، ابوسعید خدری ابولیلیٰ انصاری، جابر بن عبداللہ انصاری، سعد بن ابی وقاص، عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے اور اس کے بعد خصوصیت کے ساتھ اہلسنت(ع) نے امام حسین (ع) ابوبرندہ، ابوالحمراء، انس بن مالک ، براء بن عازب، ثوبان ، زینب بنت ابی سلمہ ، صبیح، عبداللہ بن جعفر، عمر بن ابی سلمہ اور واثلہ بن الامسقع سے نقل کیا ہے جس طرح کہ اہل تشیع سے امام باقر (ع) امام صادق (ع)، امام رضا (ع)سے نقل کیا ہے اور ان روایات کو بھی نقل کیا ہے جن سے اہلبیت (ع) کے مفہوم کی وضاحت ہوجاتی ہے چاہے آیت تطہیر کے نزول کا ذکر ہو۔

مختصر یہ ہے کہ یہ واقعہ سند کے اعتبار سے یقینی ہے اور دلالت کے اعتبار سے بالکل واضح بالخصوص اسلام نے اہلبیت(ع) کے موارد کی تعیین بھی کردی ہے کہ اب اس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے اور نہ عنوان اہلبیت (ع) میں کوئی زوجہ داخل ہوسکتی ہے اور نہ اسے مشکوک بنایا جاسکتاہے۔

اس واقعہ کے بعد سرکار دو عالم (ع) مسلسل مختلف مواقع اور مناسبات پر لفظ اہلبیت (ع) کو انھیں قرابتداروں کے لئے استعمال کرتے رہے جن کا کوئی خاص دخل ہدایت امت میں تھا اور اس کی تفصیل آئندہ صفحات میں نظر آئیں گی۔

اس کے علاوہ سورہ احزاب کی آیت ۳۳ کا مضمون بھی ان تمام روایات کی تائید کرتاہے جو شان نزول کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اور ان سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ اہلبیت (ع) کے مصداق کے بارے میں شک و شبہہ کسی طرح کی علمی قدر و قیمت کے مالک نہیں ہے۔

۱۲

رمز عظمت مسلمین

زیر نظر کتاب میں اہلبیت (ع) کی معرفت، ان کے خصائص و امتیازات، ان کے علوم وحقوق اور ان کی محبت و عداوت سے متعلق جن احادیث کا ذکر کیا گیاہے ان سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ رسول اکرم نے انتہائی واضح اور بلیغ انداز سے اپنے بعض قرابتدار حضرات کو امت کا سیاسی ،علمی اور اخلاقی قائد بنادیا ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ حقیقی اسلام سے وابستہ رہنے اور ہر طرح کے انحراف و ضلال سے بچنے کے لئے انھیں اہلبیت (ع) سے وابستہ رہیں تا کہ واقعی توحید کی حکومت قائم کی جاسکے اور اپنی عزت و عظمت کو حاصل کیا جاسکے کہ اس عظیم منزل و منزلت تک پہنچنا قرآن و اہلبیت (ع) سے تمسک کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

واضح رہے کہ آیت تطہیر کے اہلبیت (ع) کی شان میں نازل ہونے اور اس سلسلہ میں اٹھائے جانے والے والے شکوک و شبہات کی تفصیل جناب سید جعفر مرتضیٰ عاملی کی کتاب ” اہل البیت (ع) کی آیہ تطہیر“ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے کہ انھوں نے اپنی مذکورہ کتاب میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث درج کردی ہے۔

غالیوں سے برائت

واضح رہے کہ حقیقی شیعہ کسی دور میں بھی اہلبیت (ع) کے بارے میں غلو کا شکار نہیں رہے ہیں اور انھوں نے ہر دور میں غالیوں سے برائت اور بیزاری کا اعلان کیا ہے۔

اہلبیت (ع) علیہم السلام کی تقدیس و تمجید اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں ان کا عمل تمامتر آیات قرآنی اور معتبر احادیث کی بنیاد پر رہاہے جس کے بارے میں ایک مستقل باب اس کتاب میں بھی درج کیا گیاہے۔

۱۳

داستان مصائب اہلبیت (ع)

عالم اسلام کا سب سے زیادہ المناک باب یہ ہے کہ قرآن مجید کے ارشادات اور سرکار دو عالم (ع) کے مسلسل تاکیدات کے باوجود اہلبیت علیہم السلام ہر دور میں ایسے ظلم و ستم کا نشانہ رہے ہیں جن کے بیان سے زبان عاجز اور جن کے تحریر کرنے سے قلم درماندہ ہیں بلکہ بجا طور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ اگر سرکار دو عالم نے انھیں اذیت دینے کا حکم دیا ہوتا تو امت اس سے زیادہ ظلم نہیں کرسکتی تھی اور مختصر منظوم میں یہ کہا جاسکتاہے کہ اگر غم و الم ، رنج و اندوہ کو مجسم کردیا جائے تو اہلبیت علیہم السلام کی زندگی کا مرقع دیکھا جاسکتاہے۔

یہ مصائب اس قابل ہیں کہ ان پر خون کے انسو بہائے جائیں اور اگر ان کی مکمل وضاحت کردی جائے تو صاف طور پر واضح ہوجائے گا کہ قرآن مجید کو نظر انداز کردینے کا نتیجہ اور مسلمانوں کے انحطاط کا سبب اور راز کیا ہے۔

اور حقیقت امریہ ہے کہ یہ داستان مصائب اہلبیت (ع) کی داستان نہیں ہے بلکہ ترک قرآن کی داستان ہے اور دستور اسلامی کو نظر انداز کردینے کی حکایت ہے۔

امت اسلامیہ کی بیدارمغزی

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دور حاضر میں امت اسلامیہ کے تمام گذشتہ ادوار سے زیادہ بڑھتے ہوئے اسلامی شعور اور اسلامی انقلاب کے زیر اثر اسلامیات سے بڑھتی ہوئی دلچسپی نے وہ موقع فراہم کردیا ہے کہ امت علوم اہلبیت علیہم السلام کے چشموں سے سیراب ہو اور مسلمان کتاب و سنت اور تمسک بالثقلین کے زیر سایہ اپنے کلمہ کو متحد بنالیں۔

قرآن و اہلبیت (ع) کے نظر انداز کرنے کی داستان تمام ہو اور امت رنج و الم، غم و اندوہ کے بجائے سکون و اطمینان کی طرف قدم آگے بڑھائے جس کے لئے زیر نظر کتاب ایک پہلا قدم ہے، اس کے بعد باقی ذمہ داری امت اسلامیہ اور اسلامیہ اور اس کے علماء و زعماء کرام پر ہے!۔

۱۴

حکومت اہلبیت (ع)

بشارات حکومت اہلبیت (ع)

” ہم چاہتے ہیں کہ اپنے ان بندوں پر احسان کریں جنھیں اس زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے اورانھیں قائد و امام بناکر زمین کا وارث بنادیں“ ۔( سورہ قصص آیت ۵)۔

” اس پروردگار نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب بنادے چاہے یہ بات مشرکین کو کتنی ہی ناگوار کیون نہ ہو“ ( سورہ صف آیت ۹)۔

” پروردگار نے تم میں سے ایمان و کردار والوں سے وعدہ کیاہے کہ انھیں روئے زمین پر اسی طرح اپنا جانشین بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنادے گا جسے ان کیلئے پسندیدہ قرار دیاہے اور ان کے خوف کو امن میں تبدیل کردے گا اور یہ سب ہماری عبادت کریں گے اور کسی شے کو ہمارا شریک نہ قرار دیں گے اور اگر کوطی شخص اس کے بعد بھی انکار کرے تو اس کا شمار فاسقین میں ہوگا“۔( سورہ نور نمبر ۵۵)۔

۱۵

۱۱۶۹۔ رسول اکرم ! قیامت اس وقت تک برپا نہ ہوگی جب تک میرے اہلبیت (ع) میں سے ایک شخص حاکم نہ ہوجائے جس کا نام میرا نام ہوگا ۔( مسندابن حنبل ۲ ص ۱۰ / ۳۵۷۱ از عبداللہ بن مسعود)۔

۱۱۷۰۔ رسول اکرم ! یہ دنیا اس وقت تک فنانہ ہوگی جب تک عرب کا حاکم میرے اہلبیت (ع) میں سے وہ شخص نہ ہوجائے جس کا نام میرا نام ہوگا ۔( سنن ترمذی ۴ ص ۵۰۵ / ۲۲۳۰ ، سنن ابی داؤد ۳ ص ۱۰۷ / ۴۲۸۲ ، مسند ابن حنبل ۲ ص ۱۱ / ۳۵۷۳ ، المعجم الکبیر ۱۰ ص ۱۳۱ /۱۰۲۰۸ ، الملاحم والفتن نمبر ۱۴۸ ، بشارة المصطفیٰ ص ۲۸۱)۔

۱۱۷۱۔ ابولیلیٰ ! رسول اکرم نے علی (ع) سے فرمایا کہ تم میرے ساتھ جنّت میں ہوگے اور سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں میں ، تم ، حسن (ع) حسین (ع) اور فاطمہ (ع) ہوں گے۔

یا علی (ع) ! ان کینوں سے ہوشیار رہنا جو لوگوں کے دلوں میں چھپے ہوئے ہیں اور ان کا اظہار میری موت کے بعد ہوگا، یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی بھی لعنت ہے اور تمام لعنت کرنے والوں کی بھی لعنت ہے۔

یہ کہہ کر آپ نے گریہ فرمایا اور فرمایا کہ جبریل نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ لوگ علی (ع) پر ظلم کریں گے اور یہ سلسلہ ظلم قیام قائم (ع) تک جاری رہیگا اس کے بعد ان کا کلمہ بلند ہوگا اور لوگ ان کی محبت پر جمع ہوجائیں گے اور دشمن بہت کم رہ جائیں گے اور انھیں برا سمجھنے والے ذلیل ہوجائیں گے اور ان کی مدح کرنے والوں کی کثرت ہوگی اور یہ سب اس وقت ہوگا جب زمانہ کے حالات بالکل بدل جائیں گے، بندگان خدا کمزور ہوجائیں گے لوگ راحت و آرام سے مایوس ہوجائیں گے اور پھر ہمارا قائم مہدی قیام کرے گا ایک ایسی قوم کے ساتھ جن کے ذریعہ پروردگار حق کو غالب بنادے گا ، باطل کی آگ کوان کی تلوار کے پانی سے بجھادے گا اور لوگ رغبت یا خوف سے بہر حال ان کا اتباع کرنے لگیں گے۔

۱۶

اس کے بعد فرمایا، ایہا الناس ! کشائش حال کی خوشخبری مبارک ہو کہ اللہ کا وعدہ بہر حال سچاہے، وہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتاہے اور اس کا فیصلہ رد نہیں ہوسکتاہے، وہ حکیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے اور خدا کی فتح بہت جلد آنے والی ہے۔

خدایا یہ سب میرے اہل ہیں ، ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں پاک و پاکیزہ رکھنا، خدایا ان کی حفاظت و رعایت فرمانا اور تو ان کا ہوجانا اور ان کی مدد کرنا، انھیں عزت دینا اورذلت سے دوچار نہ ہونے دینا اور مجھے انھیں کے ذریعہ باقی رکھنا کہ تو ہر شے پر قادر ہے۔ (ینابیع المودہ ۳ ص ۲۷۹ / ۷۲ ، مناقب خوارزمی ۶۲ / ۳۱ ، امالی طوسی (ر) ۳۵۱ / ۷۲۶)۔

۱۱۷۲۔ رسول اکرم ! لوگو مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو، میری امت کی مثال اس بارش کے جیسی ہے جس کے بار ے میں نہیں معلوم ہے کہ اس کی ابتدا زیادہ بہتر ہے یا انتہا۔

میری امت کی مثال اس باغ جیسی ہے جس سے اس سال ایک جما عت کو سیر کیا جائے اور دوسرے سال دوسری جماعت کو سیر کیا جائے اور شائد آخر میں وہ جماعت ہو جو وسعت میں سمندر، طول میں عمیق تر اور محبت میں حسین تر اہواور بھلا وہ امت کس طرح تباہ ہوسکتی ہے جس کی ابتدا میں میں ہوں اور میرے بعد بارہ صاحبان بخت اور ارباب عقل ہوں اور مسیح عیسی بن مریم بھی ہوں ، ہاں ان کے درمیان وہ افراد ہلاک ہوجائیں گے جو ہرح و مرج کی پیداوار ہوں گے کہ نہ وہ مجھ سے ہوں گے اور نہ میں ان سے ہوں گا۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۱/۵۲ / ۱۸ ، خصال ۴۷۶ / ۳۹ ، کمال الدین ۲۶۹ / ۱۴ روایت حسین بن زید، کفایتہ الاثر ص ۲۳۱ ، روایت یحییٰ بن جعدہ بن ہبیرہ ، العمدة ۴۳۲ / ۹۰۶ روایت مسعدہ عن الصادق (ع))۔

۱۱۷۳۔ حذیفہ ! میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اس امت کے لئے باعث افسوس ہے کہ اس کے حکام جابر و ظالم ہوں گے اور لوگوں کو قتل کریں گے ، اطاعت گذاروں کو خوفزدہ کریں گے علاوہ اس کے کہ کوئی انھیں کی اطاعت کا اظہار کردے ، نتیجہ یہ ہوگا کہ مومن متقی بھی زبان سے ان کے ساتھ دے گا اور آل سے دور بھاگے گا ، اس کے بعد جب پروردگار چاہے گا کہ اسلام کو دوبارہ عزت عنایت کرے تو تمام جابروں کی کمر توڑ دے گا کہ وہ جو بھی چاہے کرسکتاہے اور کسی بھی امت کو تباہی کے بعد اس کی اصلاح کرسکتاہے۔

۱۷

اس کے بعد فرمایا ۔ حذیفہ ! اگر اس دنیا میں صرف ایک دن باقی رہ جائے گا تو پروردگار اس دن کو طول د ے گا یہاں تک کہ میرے اہلبیت (ع) میں سے وہ شخص حاکم ہو جس کے ہاتھوں میں زمام اقتدار ہو اور وہ اسلام کو غالب بنادے کہ خدا اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتاہے اور وہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔( عقد الدرر ص ۶۲ ، کشف الغمہ ۳ ص ۲۶۲ ، حلیة الابرار ۲ ص ۷۰۴ ، ینابیع المودہ ۳ ص ۲۹۸ / ۱۰)۔

۱۱۷۴۔ رسول اکرم ! قیامت اس وقت تک بر پا نہ ہوگی جب تک ہمارا قائم حق کے ساتھ قیام نہ کرے اور یہ اس وقت ہوگا جب خدا اسے اجازت دے دے گا اس کے بعد جو اس کا اتباع کرے گا نجات پائے گا اور جو اس سے الگ ہوجائے گا وہ ہلاک ہوجائے گا ، بندگان خدا، اللہ کو یاد رکھنا اور اس کی بارگاہ میں پہنچ جانا، چاہے برف پر چلنا پڑے کہ وہ خدائے عزوجل کا اور میرا جانشین ہوگا۔( عیون اخبار الرضا (ع) ص ۵۹ / ۲۳۰ ، دلائل الامامة ص ۴۵۲ / ۴۲۸ روایت حسن بن عبداللہ بن محمد الرازی ، کفایتہ الاثر ص ۱۰۶ روایت ابوامامہ)۔

۱۱۷۵۔ سلمان ! جب رسول اکرم پر مرض کا غلبہ ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ باہر جاؤ میں گھر والوں کے ساتھ تخلیہ چاہتاہوں، سب لوگ باہر نکل گئے ، میں نے بھی جانا چاہا تو فرمایا کہ تم میرے اہلبیت(ع) میں ہو۔

اس کے بعد حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا ، دیکھو میری عترت اور میرے اہلبیت(ع) کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا کہ دنیا نہ پہلے کسی کے لئے باقی رہی ہے، نہ بعد میں رہے گی اور نہ ہمارے لئے رہنے والی ہے۔

۱۸

اس کے بعد علی (ع) سے فرمایا کہ سب سے اچھی حکومت حق کی حکومت ہے اور دیکھو تم لوگ ان لوگوں کے بعد حکومت ہے اوردیکھو تم لوگ ان لوگوں کے بعد حکومت کرو گے ایک دن کے بدلے دو دن، ایک مہینہ کے بدلے دو مہینے اور ایک سال کے بدلے دو سال، (مناقب امیر المومنین (ع) کوفی ۲ ص ۱۷۱ / ۲۵۰)۔

۱۱۷۶۔ امام علی (ع)! آل محمد ہی کے ذریعہ حق اپنے مرکز پر واپس آنے والا ہے اور باطل اپنی جگہ سے زائل ہونے والا ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۹)۔

۱۱۷۷۔ امام علی (ع) ! میں بار بار حملہ کرنے والا اور صاحب حکومت حق ہوں ، میرے پاس عصا بھی ہے اور مہر بھی ہے، میں وہ زمین پر چلنے والا ہوں جو لوگوں سے روز محشر کلام کروں گا۔( کافی ۱ ص ۱۹۸ / ۳ روایت ابوالصامت الحلوانی عن الباقر (ع))۔

۱۱۷۸۔ امام علی (ع) !نرید ان نمّن علی الذین استضعفوا کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آل محمد ہیں جن کے مہدی کو پروردگار سامنے لائے گا، اور اس کے ذریعہ انھیں عزت اور دشمنوں کو ذلت نصب فرمائے گا۔( الغیبتہ الطوسی (ر) ص ۱۸۴ / ۱۴۳ روایت محمد بن الحسین )۔

۱۱۷۹۔ امام صادق (ع) ! امیر المومنین (ع) نے فرمایا ہے کہ یہ دنیا بیزاری کے بعد ہم پر ویسے ہی مہربان ہوگی جیسے کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچہ پر مہربان ہوتی ہے اور اس کے ذیل میں آپ نے آیت” نرید ان نمنّ“ کی تلاوت فرمائی ہے ۔( خصائص الائمہ ذیل میں آپ نے آیت ”نرید ان نمنّ“ کی تلاوت فرمائی ہے۔( خصائص الائمہ ص ۷۰ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص ۴۰۷ ، شواہد التنزیل ۱ص ۵۵۶ / ۵۹۰ روایات ربیعہ بن ناجذ، نہج البلاغہ حکمت نمبر ۲۰۹ ، تفسیر فرات کوفی ۳۱۴ / ۴۲۰)۔

۱۹

۱۱۸۰۔ امام علی (ع)! ” نرید ان نمن“ کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آل محمد ہیں جن کے مہدی کو پروردگار مشقتوں کے بعد اقتدار دے گا اور وہ آل محمد کی عزت اور دشمنوں کی ذلت کا سامان فراہم کرے گا، ( الغیبتہ الطوسی (ر) ۱۸۴ / ۱۴۳ روایت محمد بن الحسین بن علی )۔

نوٹ! یہ روایت بعینہ نمبر۱۱۷۸ میں بیان ہوچکی ہے، اس مقام پر مولف محترم سے اعداد و شمار میں اشتباہ ہوگیا ہے، جوادی

۱۱۸۱۔ محمد بن سیرین ! میں نے بصرہ کے متعدد شیوخ سے یہ بات سنی ہے کہ حضرت علی (ع) بن ابی طالب (ع) جنگ جمل کے بعد بیمار ہوگئے اور جمعہ کا دن آگیا تو آپ نے اپنے فرزند حسن (ع) سے کہا کہ تم جاکر نماز جمعہ پڑھادو۔

وہ مسجد میں آئے اور منبر پر جاکر حمد و ثنائے پروردگار اور شہادت و صلوات کے بعد فرمایا۔

ایہا الناس ! پروردگار نے ہمیں نبوت کے ساتھ منتخب کیا ہے اور تمام مخلوقات میں مصطفیٰ قرار دیاہے، ہمارے گھر میں کتاب اور وحی نازل کی ہے اور خدا گواہ ہے کہ جو شخص بھی ہمارے حق میں ذرا کمی کرے گا پروردگار اس کی دنیا و آخرت دونوں کم کردے گا اور ہمارے سر پر جو حکومت چاہے قائم ہوجائے، آخر کا ہماری ہی حکومت ہوگی ” اور یہ بات تمھیں ایک عرصہ کے بعد معلوم ہوجائے گی “ ۔ سورہ ص آیت ۸۸)۔

اس کے بعد نماز پڑھائی اور اس واقعہ کی خبر حضرت علی (ع) تک پہنچا دی گئی ، نماز کے بعد جب حضرت حسن (ع) باپ کے پاس پہنچے تو حضرت دیکھ کر بیساختہ رونے لگے اور فرزند کو کلیجہ سے لگار کر پیشانی کا بوسہ دیا، فرمایا ” یہ ایک ذریت ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ملا ہواہے اور پروردگار بہت سننے والا اور جاننے والا ہے۔“ آل عمران آیت ۳۴ ( امالی طوسی (ر) ۸۲ /۱۲۱ / ۱۰۴ / ۱۵۹ ، بشارة المصطفیٰ ص ۲۶۳ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۱)۔

۲۰

1182۔ امام حسن (ع) نے سفیان ابی لیلیٰ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا سفیان مبارک ہو، یہ دنیا نیک و بد سب کیلئے یونہی رہے گی یہاں تک کہ پروردگار آل محمد کے امام برحق کو منظر عام پر لے آئے۔( شرح نہح البلاغہ معتزلی 16 / 45 روایت سفیان بن ابی لیلیٰ ، مقاتل الطالبیین ص 76 ، الملاحم والفتن ص 99)۔

1183۔ امام حسن (ع) نے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ پروردگار نے جب بھی کسی نبی کو بھیجا ہے تو اس کے لئے نقیب ، قبلہ اور گھر کا بھی انتخاب کیا ہے، قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت محمد کو نبی برحق بنایاہے، جو شخص بھی ہم اہلبیت (ع) کے حق میں کمی کرے گا خدا اس کے اعمال میں کمی کردے گا اور ہم پر جو بھی حکومت گذرجائے، آخر کا رِ حکومت ہماری ہی ہوگی اور یہ بات تھوڑے عرصہ کے بعد معلوم ہوجائے گی ۔ (مروج الذہب 3 ص 9 ، نثر الدر 1 ص 328)۔

1184۔ امام باقر (ع) ! میں نے کتاب علی (ع) میں دیکھاہے کہ” ان الارض الله ( سورہ اعراف آیت 128 ) سے مراد ہیں اور میرے اہلبیت(ع) ہیں کہ پروردگار نے ہمیں اس زمین کا وارث بنایاہے اور ہمیں وہ متقی ہیں جن کے لئے انجام کار ہے، یہ ساری زمین ہمارے لئے ہے لہذا جو بھی کسی زمین کو زندہ کرے گا اس کا فرض ہے کہ اسے آباد رکھے اور اس کا خراج امام اہلبیت (ع) کو ادا کرتا رہے اور باقی خود استعمال کرے لیکن اگر زمین کو بیکار چھوڑ دیا اسے خراب کردیا اور دوسرے مسلمان نے لے کرآباد کرلیا اور زندہ کرلیا تو وہ چھوڑ دینے والے سے زیادہ صاحبِ اختیار ہے اور اسے امام اہلبیت (ع) کو اس کا خراج ادا کرنا پڑے گا اور باقی اس کے لئے حلال رہے گی یہاں تک کہ ہمارے قائم کا ظہور ہوجائے اور وہ تلوار اٹھاکر ساری زمینوں پر قبضہ کرلے اور انھیں اغیار کے قبضہ سے نکال لے تو صرف جس قدر زمین ہمارے شیعوں کے قبضہ میں ہوگی اسے انھیں دیدیا جائے گا اور باقی امام کے قبضہ میں ہوگی۔( کافی 1 ص 407 /1 روایت ابوخالد کابلی)۔

۲۱

1185۔ ابوبکر الحضرمی ! جب حضرت ابوجعفر باقر (ع) کو شام سے عبدالملک بن ہشام کے پاس لایا گیا اور دروازہ پر لاکر روک دیا گیا تو ہشام نے درباریوں سے کہا کہ جب تم لوگ دیکھو کہ میں محمد (ع) بن علی (ع) کو برا بھلا کہہ رہاہوں تو سب کے سب انھیں برا بھلا کہنا اور اس کے بعد آپ کو دربار میں طلب کیا گیا ، آپ نے داخل ہوکر تما م لوگوں کو سلام کیا اور بیٹھ گئے، ہشام کو یہ بات سخت ناگوار گذری کہ نہ حاکم کو خصوصی سلام کیا اور نہ بیٹھنے کی اجازت طلب کی چنانچہ اس نے سرزنش شروع کردی اور کہا کہ تم لوگ ہمیشہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرتے ہو اور لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے کر جہالت اور نادانی کی بناپر امام بننا چاہتے ہو؟

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوا تو درباریوں نے وہی کام شروع کردیا، جب سب خاموش ہوئے تو حضرت نے فرمایا کہ لوگو! تم کدھر جارہے ہو اور تمھیں کہاں گمراہ کیا جارہاہے، ہمارے ہی اول کے ذریعہ تمھیں ہدایت دی گئی ہے اور ہمارے ہی آخر پر تمھارا خاتمہ ہونے والا ہے ، اگر تمھارے پاس دنیا کی حکومت ہے تو آخری اقتدا ر ہمارے ہی ہاتھوں میں ہے جس کے بعد کوئی ملک نہیں ہے کہ عاقبت صرف صاحبان تقویٰ کے لئے ہے۔( کافی 1 ص 471 /5)۔

1186۔ امام باقر (ع) ! یاد رکھو کہ بنئ امیہ کے واسطے بھی ایک ملک ہے جسے کوئی روک نہیں سکتاہے اور اہل حق کو بھی ایک دولت ہے جسے پروردگار ہم اہلبیت(ع) میں سے جسے چاہے گا عطا کردے گا لہذا جو اس وقت تک باقی رہ گیا ، وہ بلندترین منزل پر ہوگا اور اگر اس سے پہلے مرگیا تو خدا اسی میں خیر قرار دے گا ۔ (الغیبتہ النعمانی ص 195 / 2 ، روایت ابوالجارود )۔

1187۔ امام باقر (ع) ! ” قل جاء الحق و زہق الباطل کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ جب قائم آل محمد قیام کریں گے تو باطل کا اقتدار ختم ہوجائے گا۔ ( کافی 8 ص 287 / 432 روایت ابوحمزہ)۔

۲۲

1188۔ امام صادق (ع)! ہمارے بھی دن ہیں اور ہماری بھی حکومت ہے خدا جب چاہے گا اسے بھی لے آئے گا ۔( امالی مفید 28 / 9 روایت حبیب بن نزار بن حیان)۔

1189۔ امام صادق (ع)! بلاؤں کا آغاز ہم سے ہوگا پھر تمھاری نوبت آئے گی اور اسی طرح سہولتوں کی ابتدا ہم سے ہوگی پھر تمھیں وسیلہ بنایا جائے گا اور قسم ہے ذات پروردگار کی کہ پروردگار تمھارے ذریعہ ویسے ہی انتقام لے گا جیسے پتھر کے ذریعہ سزا دی ہے۔( امالی مفید 301 / 2 ، امالی طوسی (ر) 74 / 109 روایت سفیان بن ابراہیم الغادمی القاضی )۔

1190۔ امام صادق (ع) ! میرے والد بزرگوار سے دریافت کیا گیا کہقاتلوا لامشرکین کافةً توبہ نمبر 36 اور” حتی لا تکون فتنه“ ۔ سورہ انفال 39 کا مفہوم کیا ہے؟

تو فرمایا کہ اس کی ایک تاویل ہے جس کا وقت ابھی نہیں آیاہے اور جب ہمارے قائم کا قیام ہوگا تو جو زندہ رہے گا وہ اس تاویل کو دیکھ لے گا جب دین پیغمبر وہاں تک پہنچ جائے گا جہاں تک رات کی رسائی ہوگی اور اس کے بعد روئے زمین پر کوئی مشرک نہ رہ جائے گا۔ (تفسیر عیاشی 2 ص 56 / 48 روایت زرارہ ، مجمع البیان روایت زرارہ 4 ص 83 ، ینابیع المودة 3 ص 239 / 13)۔

1191۔ امام صادق (ع) نے” وعد الله الذین امنوا منکم و عملوا الصالحات سورہ نور آیت 55 کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ آیت حضرت قائم اور ان کے اصحاب کے بارے میں ہے۔( الغیبتہ للنعمانی 240 / 35 از ابوبصیر، تاویل الآیات الظاہرہ ص 365 ، ینابیع المودہ 3 ص 345 / 32 ، از امام باقر (ع))۔

1192۔ دعائے ندبہ آل محمد کے بارے میں پروردگار کا فیصلہ اسی طرح جاری ہوا ہے جسمیں بہترین ثواب کی امیدیں ہیں اور زمین اللہ کی ہے جسے چاہتاہے اس کا وارث بنادیتاہے اور انجام کا بہر حال متقین کے لئے ہے اور ہمارا پروردگار پاک و پاکیزہ ہے اور اس کا وعدہ سچا اور برحق ہے اور وہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرسکتاہے کہ وہ صاحب عزت و غلبہ بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے۔( بحار الانوار 102 / 106 از مصباح الزائر از محمد بن علی بن ابی قرہ از کتاب محمد بن الحسین بن سفیان البزوفری)۔

۲۳

تمہید حکومت اہلبیت (ع)

1193۔ رسول اکرم ! کچھ لوگ مشرق سے برآمد ہوں گے جو مہدی کے لئے زمین ہموار کریں گے۔(سنن ابن ماجہ 2 ص1368 / 4088 ، المعجم الاوسط 1 ص 94 / 285 ، مجمع الزوائد 7 ص 617 / 12414 ، عقق الدرر ص 125 ، کشف الغمہ 3 ص 267 روایت عبداللہ بن الحارث بن جزوالزبیدی)۔

1194۔ عبداللہ ! ہم لوگ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنئ ہاشم کے کچھ نوجوان آگئے، آپ نے انھیں دیکھا تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے میں نے عرض کیا کہ حضور آپ کے چہرہ پر افسردگی کے آثار دیکھ رہاہوں ؟ فرمایا ہم اہلبیت (ع) وہ ہیں جن کے پروردگار نے آخرت کو دنیا پر مقدم رکھاہے اور میرے اہلبیت (ع) عنقریب میرے بعد بلاء ، آوارہ وطنی اور دربدری کی مصیبت میں مبتلا ہوں گے یہاں تک کہ ایک قوم سیاہ پرچم لئے مشرق سے قیام کرے گی اور وہ لوگ خیر کا مطالبہ کریں گے لیکن انھیں نہ دیا جائے گا تو قتال کریں گے اور کامیاب ہوں گے اور مطلوبہ اشیاء مل جائیں گے مگر خود قبول نہ کریں گے بلکہ میرے اہلبیت(ع) میں سے ایک شخص کے حوالہ کردیں گے جو زمین کو عدل و انصاف سے ویسے ہی بھر دے گا جیسے ظلم و جور سے بھری ہوگی ، دیکھو تم سے جو بھی اس وقت تک باقی رہ جائے اس کا فرض ہے کہ ان تک پہنچ جائے چاہے برف پر چل کر جانا پڑے ۔( سنن ابن ماجہ 2 ص 1366 / 4082 ، الملاحم والفتن ص 47 ، المصنف ابن ابی شیبہ 8 ص 697 / 74 ، دلائل الامامہ ص 242 / 414 ، مناقب کوفی 2 ص 110 / 599 روایت عبداللہ بن مسعود، کشف الغمہ 3 ص 262 روایت عبداللہ بن عمر، مستدرک حاکم 1 ص 511 / 8434 ، العدد القویہ 91 / 157 ، ذخائر العقبئٰ ص 17)۔

1195۔ رسول اکرم ! مشرق کی طرف سے سیاہ پرچم والے آئیں گے جن میں دل لوہے کی چٹانوں جیسے مضبوط ہوں گے لہذا جو ان کے بارے میں سن لے اس کا فرض ہے کہ ان سے ملحق ہوجائے چاہے برف کے اوپر چل کر جائے۔ ( عقد الدرر ص 129 روایت ثوبان)۔

۲۴

1196۔ امام باقر ! میں ایک قوم کو دیکھ رہاہوں جو مشرق سے برآمد ہوئی ہے اور حق طلب کررہی ہے لیکن اسے نہیں جارہاہے اور پھر بار بار ایسا ہی ہورہاہے یہاں تک کہ وہ لوگ کاندھے پر تلوار اٹھالیں گے اور پھر جو چاہیں گے سب مل جائے گا لیکن اسے قبول نہ کریں گے بلکہ تمھارے صاحب کے حوالہ کردیں گے اور ان کے مقتولین شہداء کے درجہ میں ہوں گے، اگر میں اس وقت تک باقی رہتا تواپنی جان کو بھی صاحب الامر کے لئے باقی رکھتا ۔( الغیبتہ النعمانی ص 273 / 50 روایت ابوخالد)۔

1197۔ امام علی (ع)! اے طالقان ! اللہ کے تیرے یہاں خزانہ ہیں جو سونے چاندی کے نہیں ہیں بلکہ ان صاحبان ایمان کے ہیں جو مکمل معرفت رکھنے والے ہوں گے اور آخر زمانہ میں مہدی کے انصار میں ہوں گے۔ ( الفتوح 2 ص 320 ، کفایة الطالب ص 491 روایت اعثم کوفی ینابیع المودہ 3 ص 298 / 12)۔

1198۔ امام حسن (ع)! رسول اکرم نے اہلبیت (ع) پر وارد ہونے والی بلاؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کے بعد خدا مشرق سے ایک پرچم بھیجے گا اور جو اس کی مدد کرے گا خدا اس کی مدد کرے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا خدا اسے چھوڑ دے گا یہاں تک کہ وہ لوگ اس شخص تک پہنچ جائیں جس کا نام میرا نام ہوگا اور سارے امور حکومت اس کے حوالہ کردیں اور اللہ اس کی تائید اور نصرت کردے ۔( عقد الدرر 1 ص 130 ، الملاحم و الفتن ص 49 روایت علاء بن عتبہ )۔

1199۔ محمد بن الحنفیہ ! ہم حضرت علی (ع) کی خدمت میں حاضر تھے جب ایک شخص نے مہدی (ع) کے بارے میں سوال کرلیا تو آپ نے فرمایا افسوس اس کے بعد اپنے ہاتھ سے سات گر ہیں باندھیں اور پھر فرمایا کہ وہ آخر زمانے میں خروج کرے گا جب حال یہ ہوگا کہ اگر کوئی شخص خدا کا نام لے گا تو قتل کردیا جائے گا۔ پھر خدا اس کے پاس ایک قوم کو جمع کردے گا جو ابر کے ٹکڑوں کی طرح جمع ہوجائیں گے اور ان کے دلوں میں محبت ہوگی کوئی دوسرے سے گھبرائے گا نہیں اور وہ کسی کے آنے سے خوش بھی نہیں ہوں گے، ان کی تعداد اصحاب بدر جیسی ہوگی ، نہ اولین ان سے آگے جاسکتے ہیں اور نہ بعد والے انھیں پاسکتے ہیں، اصحاب طالوت کے عدد کے برابر، جنھوں نے نہر کو پار کرلیا تھا ۔( مستدرک حاکم 4 ص 597 / 8659 ، عقد الدرر 1 ص 131)۔

۲۵

1200۔ عفان البصری راوی ہیں کہ امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا کہ تمھیں معلوم ہے کہ قم کانام قم کیوں ہے؟ میں نے عرض کی خدا ، رسول اور آپ بہتر جانتے ہیں ! فرمایا اس کا نام قم اس لئے ہے کہ یہاں والے قائم آل محمد کے ساتھ قیام کریں گے اور اس پر استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قائم کی مدد کریں گے( بحار الانوار 60 ص 218 / 38 نقل از کتاب تاریخ قم )۔ 1201۔ امام صادق (ع) ۔ قم کی خاک مقدس ہے اور اس کے باشندے ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں، کوئی ظالم اس سرزمین کا ارادہ نہیں کرے گا مگر یہ کہ خدا فوراً اسے سزا دے گا جب تک کہ خود وہاں والے خیانت نہ کریں گے ورنہ اگر ایسا کریں گے تو خدا ان پر ظالم حکام کو مسلط کر دے گا۔

اہل قم ہمارے قائم کے انصار ہیں اور ہمارے حق کے طلبگار ، یہ کہہ کر آپ نے آسمان کی طرف رخ کیا اور دعا کی خدایا، انھیں ہر فتنہ سے محفوظ رکھنا اور ہر ہلاکت سے نجات دینا ۔( بحار الانوار 60 ص 218 / 49)۔

1202۔ امام صادق (ع) ۔ عنقریب کوفہ اہل ایمان سے خالی ہوجائے گا اور علم اس میں مخفی ہوجائے گا جس طرح کہ سانپ اپنے سوراخ میں چھپ جاتاہے اور پھر علم ایک قم نامی شہر میں ظاہر ہوگا جو علم و فضل کا معدن ہوگا اور پھر زمین پر کوئی دینی اعتبار سے مستضعف اور کمزور نہ رہ جائے گا، یہاں تک کہ پردہ دار خواتین بھی صاحب علم و فضل ہوجائیں گی اور یہ سب ہمارے قائم کے ظہور کے قریب ہوگا جب تک خدا قم اور اہل قم کو حجت کا قائم مقام قرار دیدے گا کہ ایسا نہ ہوتا تو زمین اہل زمین کو لے کر دھنس جاتی اور زمین میں کوئی حجت خدا نہ رہ جاتی، پھر تم سے تمام مشرق و مغرب تک علم کا سلسلہ پہنچے گا اور اللہ کی حجت مخلوقات پر تمام ہوجائے گی اور کوئی شخص ایسا باقی نہ رہ جائیگا جس تک علم اور دین نہ پہنچ جائے اور اس کے بعد قائم کا قیام ہوگا۔ ( بحار الانورا 60 ص 213 / 23 نقل از تاریخ قم )۔

۲۶

1203۔ امام صادق (ع) ! پروردگار نے کوفہ کے ذریعہ تمام شہروں پر حجت تمام کی اور مومنین کے ذریعہ تمام غیر مومنین پر اور پھر قم کے ذریعہ تمام شہروں پر اور اہل قم کے ذریعہ تمام اہل مشرق و مغرب کے جن و انس پر ، خدا قم اور اہل قم کو کمزور نہ رہنے دے گا بلکہ انھیں توفیق دے گا اور ایک زمانہ آئے گا جب قم اور اہل قم تمام مخلوقات کے لئے حجت بن جائیں گے اور یہ سلسلہ ہمارے قائم کی غیبت کے زمانہ میں ظہور تک رہے گا کہ اگر ایسا نہ ہوگا تو زمین اہل سمیت دھنس جاتی ، ملائکہ قم اور اہل قم سے بلاؤں کو دفع کرتے ہیں اور کوئی ظالم اسکی برائی کا ارادہ نہیں کرتاہے کہ پروردگار اس کی کمر توڑ دیتاہے۔( بحار الانوار 60 ص 212 / 22)۔

1204۔ امام صادق (ع) ” آیت شریفہ” بعثنا علیکم عباد النا“ سورہ اسراء آیت 5 کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ یہ ایک قوم ہے جسے پروردگار خروج قائم سے پہلے پیدا کرے گا اور یہ آل محمد کے ہر خون کا بدلہ لے لیں گے ۔( کافی 8 ص 206 / 250 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 272 روایت عبداللہ بن القاسم البطل، تفسیر عیاشی 2 ص 281 / 20 روایت صالح بن سہل)۔ 1205۔ امام کاظم (ع)! اہل قم میں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی دعوت دے گا اور اس کے ساتھ ایک قوم لوہے کی چٹانوں کی طرح جمع ہوجائے گی جسے تیز و تند آندھیاں بھی نہ ہلاسکیں گی ، یہ لوگ جنگ سے خستہ حال نہ ہوں گے اور بزدلی کا بھی اظہار نہ کریں گے بلکہ خدا پر بھروسہ کریں گے اور انجام کا ر بہر حال صاحبان تقویٰ کے لئے ہے۔( بحار الانوار 60ص 216 /37 نقل از تاریخ قم روایت ایوب بن یحییٰ الجندل)۔

۲۷

آخری حکومت

1206۔ امام باقر (ع)! ہماری حکومت آخری حکومت ہوگی اور دنیا کاکوئی خاندان نہ ہوگا جو ہم سے پہلے حکومت نہ کرچکا ہو اور ہماری حکومت اس لئے آخری ہوگی کہ کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں موقع ملتا تو ہم بھی یہی طریقہ اختیار کرتے اور اس نکتہ کی طرف پرودگار نے اشارہ کیا ہے کہ عاقبت صاحبان تقویٰ کے لئے ہے۔( الغیبتة الطوسی (ر) 472 / 493 روایت کسیان بن کلیب ، روضة الواعظین ص 291)۔

1207۔ امام صادق (ع)! ہر قوم کی ایک حکومت ہے جس کا وہ انتظار کررہی ہے لیکن ہماری حکومت بالکل آخر زمانہ میں ظاہر ہوگی ۔ (امالی صدوق (ر) 396 / 3 ، روضة الواعظین ص 234)۔

1208۔ امام صادق (ع) ! یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا یہاں تک کہ کوئی صنف باقی نہ رہ جائے جس نے حکومت نہ کرلی ہو اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ رہ جائے کہ اگر ہمیں حکومت مل جاتی تو ہم انصاف سے کام لیتے ، اس کے بعد ہمارا قائم حق و عدل کے ساتھ قیام کرے گا۔(الغیبتہ النعمانی ص 274 / 53 روایت ہشام بن سالم )۔

۲۸

انتظار حکومت

1209۔ اسماعیل الجعفی ! ایک شخص امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کے پاس ایک صحیفہ تھا جس کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ یہ مخاصم کا صحیفہ ہے جس میں اس دین کے بارے میں سوال کیا گیا ہے جس میں عمل قبول ہوجاتاہے اس نے کہا خدا آپ پر رحمت نازل کرے میں بھی یہی چاہتا تھا؟

فرمایالا اله الا الله وحده لاشریک له و ان محمداً عبده و رسوله کی شہادت اور تمام احکام الہیہ اور ہم اہلبیت(ع) کی ولایت کا اقرار اور ہمارے دشمنوں سے برائت اور ہمارے احکام کے آگے سر تسلیم خم کردینا اور احتیاط و تواضع اور ہمارے قائم کا انتظار یہی وہ دین ہے جس کے ذریعہ سے اعمال قبول ہوتے ہیں اور یہ انتظار اس لئے ضروری ہے کہ ہماری بھی ایک حکومت ہے اور پروردگار جب چاہے گا اسے منظر عام پر لے آئے گا۔( کافی 2 ص 22 / 13 ، امالی طوسی (ر) 179 / 299)۔

1210۔ امام علی (ع)! ہمارے امر کا انتظار کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے کوئی راہ خدا میں اپنے خون میں لوٹ رہاہو۔( خصال 625 / 10 ، کمال الدین 645 / 6 روایت محمد بن مسلم عن الصادق (ع) ، تحف العقول ص 115)۔

1211۔ زید بن صوحان نے امیرالمومنین (ع) سے دریافت کیا کہ سب سے زیادہ محبوب پروردگار کونسا عمل ہے؟ فرمایا انتظار کشائش حال۔ ( الفقیہ 4 / 383 / 5833 روایت عبداللہ بن بکر المرادی)۔

1212۔ اما م باقر (ع)! تم میں جو شخص اس امر کی معرفت رکھتاہے اور اس کا انتظار کررہاہے اور اس میں خیر سمجھتاہے وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے راہ خدا میں قائم آل محمد کے ساتھ تلوار لے کر جہاد کررہاہو۔(مجمع البیان 9 ص 359 روایت حارث بن المغیرہ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 640)۔

۲۹

1213۔ امام باقر (ع)! تمھارے مضبوط کو چاہئے کہ کمزور کو طاقتور بنائے اور تمھارے غنی کا فرض ہے کہ فقیر پر توجہ دے اور خبردار ہمارے راز کو فا ش نہ کرنا اور ہمارے امر کا اظہار نہ کرنا اور جب ہماری طرف سے کوئی حدیث آئے تو اگر کتاب خدا میں ایک یا دو شاہد مل جائیں تو اسے قبول کرلینا ورنہ توقف کرنا اور اسے ہماری طرف پلٹا دینا تا کہ ہم اس کی وضاحت کرسکیں اور یاد رکھو کہ اس امر کا ا نتظار کرنے والا نماز گذار اور روزہ دار کا ثواب رکھتاہے اور جو ہمارے قائم کا ادراک کرلے اور ان کے ساتھ خروج کرکے ہمارے دشمن کو قتل کردے اسے بیس شہیدوں کا اجر ملے گا اور جو ہمارے قائم کے ساتھ قتل ہوجائے گا اسے 25 شہیدوں کے اجر سے نوازا جائے گا ۔ (کافی 2 ص 222/ 4 روایت عبداللہ بن بکیر ، امالی طوسی (ر) 232 / 410 ، بشارة المصطفیٰ ص 113 روایت جابر )۔

1214۔ امام باقر (ع)! اگر کوئی شخص ہمارے امر کے انتظار میں مرجائے تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہے جبکہ اس نے امام مہدی (ع) کے خیمہ اور آپ کے لشکر کے ساتھ موت نہیں پائی ہے۔( کافی 1 ص 372 / 6 روایت ہاشم )۔

1215۔ امام صادق (ع)! جو ہمارے امر کا منتظر ہے اور اس را ہ میں اذیت و خوف کو برداشت کررہاہے وہ کل ہمارے زمرہ میں ہوگا۔( کافی 8 ص 37 / 7 روایت حمران )۔ 1216۔ امام صادق (ع) ! ہمارے بارھویں کا انتظار کرنے والا رسول اکرم کے سامنے تلوار لے کر جہاد کرنے والے کے جیسا ہے جبکہ وہ رسول اکرم سے دفاع بھی کررہاہو۔( کمال الدین 335/ 5 ، الغیبتہ النعمانی 91 / 21 ، اعلام الوریٰ ص 404 روایت ابراہیم کوفی)۔

1217۔ امام صادق (ع)! جو اس امر کے انتظار میں مرجائے وہ ویسا ہی ہے جیسے قائم کے ساتھ ان کے خیمہ میں رہاہو بلکہ ایسا ہے جیسے رسول اکرم کے سامنے تلوار لے کر جہاد کیاہو۔( کمال الدین 338 / 11 روایت مفضل بن عمر)۔

۳۰

1218۔ امام صادق (ع) ! جو شخص یہ چاہتاہے کہ اس کا شمال حضرت قائم (ع) کے اصحاب میں ہو اس کا فرض ہے کہ انتظار کرے اور تقویٰ اور حسن اخلاق کے ساتھ عمل کرے کہ اس حالت میں اگر مر بھی جائے اور قائم کا قیام اس کے بعد ہو تو اس کو وہی اجر ملے گا جو حضرت کے ساتھ رہنے والوں کا ہوگا لہذا تیاری کرو اور انتظار کرو تمھیں مبارک ہو اے وہ گروہ جس پر خدا نے رحم کیا ہے۔( الغیبتہ للنعمانی 200 / 16 روایت ابوبصیر)۔

1219۔ امام جواد (ع) ! خدایا اپنے اولیاء کو اقتدار دلوادے ان ظالموں کے ہاتھ سے جنھوں نے میرے مال کو اپنا مال بنالیا ہے اور تیرے بندوں کو اپنا غلام بنالیاہے تیری زمین کے عالم کو گونگے، اندھے، تاریک ، اندھیرے میں چھوڑدیاہے جہاں آنکھ کھلی ہوئی ہے لیکن دل اندھے ہوگئے ہیں اور ان کے لئے تیرے سامنے کوئی حجت نہیں ہے، خدایا تو نے انھیں اپنے عذاب سے ڈرایا، اپنی سزا سے آگاہ کیا، اطاعت گذاروں سے نیکی کا وعدہ کیا ، برائیوں پر ڈرایا دھمکایا تو ایک گروہ ایمان لے آیا، خدایا اب اپنے صاحبان ایمان کو دشمنوں پر غلبہ عنایت فرما کہ وہ سب ظاہل ہوگئے ہیں اور حق کی دعوت دے رہے ہیں اور امام منتظر قائم بالقسط کا اتباع کررہے ہیں ۔( نہج البلاغہ)۔

1220۔ امام ہادی (ع)! زیارت جامعہ ، میں خدا کو اور آپ حضرات کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ میں آپ کی واپس کا ایمان رکھتاہوں، آپ کی رجعت کی تصدیق کرتا ہوں اور آپ کے امر کا انتظار کررہاہوں اور آپ کے حکومت کی آس لگائے بیٹھاہوں۔( تہذیب 6 ص 98 / 177)۔

۳۱

دعاء حکومت

1221۔ امام زین العابدین (ع)! پروردگار ! اہلبیت (ع) پیغمبر کے پاکیزہ کردار افراد پر رحمت نازل فرما جنھیں تو نے اپنے امر کے لئے منتخب کیا ہے۔ اور اپنے علم کا مخزن ، اپنے دین کا محافظ ، اپنی زمین میں اپنا خلیفہ اور اپنے بندوں پر اپنی حجت قرار دیاہے، انھیں اپنے ارادہ سے ہر رجس سے پاکیزہ بنایاہے اور اپنی ہستی کا وسیلہ اور اپنی جنت کا راستہ قرار دیاہے۔

خدایا اپنے ولی کو اپنی نعمتوں کے شکریہ کی توفیق کرامت فرما اور ہمیں بھی ایسی ہی توفیق دے، انھیں اپنی طرف سے سلطنت و نصرت عطا فرما اور بآسانی فتح مبین عطا فرما، اپنے محکم رکن کے ذریعہ ان کی امداد فرما، ان کی کمر کو مضبوط اور ان کے بازو کو قوی بنا، اپنی نگاہوں سے ان کی نگرانی اور اپنی حفاظت سے ان کی حمایت فرما، اپنے ملائکہ سے ان کی نصرت اور اپنے غالب لشکر سے امداد فرما، ان کے ذریعہ کتاب و حد و شریعت و سنن رسول کو قائم فرما اور جن آثار دین کو ظالمین نے مردہ بنادیاہے انھیں زندہ بنادے، اپنے راستہ سے ظلم کی کثافت کو دور کردے اور اپنے طریق سے نقصانات کو جدا کردے راہ حق سے منحرف لوگوں کو زائل کردے اور کجی کے طلبگاروں کو محو کردے، ان کے مزاج کو چاہنے والوں کے لئے نرم کردے اور ہاتھوں کو دشمنوں پر غلبہ عنایت فرما ہمیں ان کی رافت ، رحمت ، مہربانی اور محبت عطا فرما اور ان کا اطاعت گذار اور خدمت شعار بنادے کہ ہم ان کی رضا کی سعی کریں، ان کی امداد اور ان سے دفاع کے لئے ان کے گرد رہیں اور اس عمل کے ذریعہ تیرا اور تیرے رسول کا قرب حاصل کرسکیں۔ (صحیفہ سجادیہ دعاء نمبر 47 ص 190 ۔191 ، اقبال الاعمال 2 ص 91)۔

1222۔ امام باقر (ع) ! نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ کی تعلیم دیتے ہوئے، پروردگار ! ہم تجھ سے باعزت حکومت کے طلبگار ہیں جس کے ذریعہ اسلام اور اہل اسلام کو عزت نصیب ہو اور نفاق و اہل نفاق ذلیل ہوں، ہمیں اپنی اطاعت کا داعی اور اپنے راستہ کے قائدین میں قرار دیدے اور اسی حکومت کے ذریعہ دنیا و آخرت کی کرامت عطا فرما۔( کافی 3 ص 424 / 6 روایت محمد بن مسلم)۔

۳۲

1223۔ امام صادق (ع)! خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور امام مسلمین پر رحمت نازل فرما اورانھیں سامنے ، پیچھے، داہنے، بائیں ، اوپر ، نیچے ہر طرف سے محفوظ رکھ انھیں آسان فتح عنایت فرما اور باعزت نصرت عطا فرما، ان کے لئے سلطنت و نصرت قرار دیدے ، خدایا آل محمد کے سکون و آرام میں عجلت فرما اور جن و انس میں ان کے دشمنوں کو ہلاک کردے۔ ( مصباح المتہجد ص 392 ، جمال الاسبوع ص 293)۔

1224۔ امام کاظم (ع)! سجدہ شکر کا ذکر کرتے ہوئے۔

خدایا میں واسطہ دیتاہوں اس وعدہ کا جو تو نے اپنے اولیاء سے کیا ہے کہ انھیں اپنے اور ان کے دشمنوں پر فتح عنایت فرمائے گا کہ محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور آل محمد کے محافظین دین پر رحمت نازل فرما ۔ خدایا میں ہر تنگی کے بعد سہولت کا طلب گار ہوں ۔( کافی 3 ص 225 / 17 روایت عبداللہ بن جندب)۔

1225۔ امام رضا (ع) ! امام زمانہ (ع) کے حق میں دعا کی تعلیم دیتے ہوئے۔

خدایا اپنے ولی ، خلیفہ، مخلوقات پر اپنی حجت، اپنے حکم کے ساتھ بولنے والے اور اپنے مقاصد کی تعبیر کرنے والی زبان، اپنے اذن سے دیکھنے والی آنکھ ، اپنے بندوں پر اپنے شاہد، سردارمجاہد، اپنی پناہ میں رہنے والے اور اپنی عبادت کرنے والے سے دفاع فرما، اسے تمام مخلوقات کے شر سے اپنی پناہ میں رکھنا اور سامنے، پیچھے، داہنے، بائیں، اوپر نیچے سے اس کی ایسی حفاظت فرما جس کے بعد بربادی کا اندیشہ نہ رہے اور اس کے ذریعہ اپنے رسول اور اس کے آباء و اجداد کا تحفظ فرما جو سب تیرے امام اور تیرے دین کے ستون تھے، اسے اپنی امانت میں قرار دیدے جہاں بربادی نہیں اور اپنے ہمسایہ میں قرار دیدے جہاں تباہی نہیں اور اپنی پناہ میں قرار دیدے جہاں ذلت نہیں اور اپنی امان میں لے لے جہاں رسوائی کا خطرہ نہیں، اپنے زیر سایہ قرار دیدے جہاں کسی اذیت کا امکان نہیں، اپنی غالب نصرت کے ذریعہ اس کی امداد فرما اور اپنے قوی لشکر کے ذریعہ اس کی تائید فرما، اپنی قوت سے اسے قوی بنادے اور اپنے ملائکہ کو اس کے ساتھ کردے، اس کے دوستوں سے محبت فرما اور اس کے دشمنوں سے دشمنی کر، اسے اپنی محفوظ زرہ پہنادے اور ملائکہ کے حلقہ میں رکھ دے۔

۳۳

اس کے ذریعہ انتشار کو دور کردے، شگاف کو پر کردے، ظلم کو موت دیدے، عدل کو غالب بنادے، اس کے طول بقاء سے زمین کو موت دیدے، عدل کو غالب بنادے، اس کے طول بقاء سے زمین کو زینت دیدے اور اپنی نصرت سے اس کی تائید فرما ، اپنے رعب سے اس کی امداد فرما، اس کے مددگاروں کو قوی بنادے، اس سے الگ رہنے والوں کو رسوا کردے، جو دشمنی کرے اسے تباہ کردے اور جو خیانت کرے اسے برباد کردے، اس کے ذریعہ کا فروجابر حکام، ان کے ستون و ارکان سب کو قتل کردے اور گمراہوں کی کمر توڑ دے جو بدعت ایجاد کرنے والے، سنت کو مردہ بنادینے والے اور باطل کو تقویت دینے والے ہیں، اس کے ہاتھوں جابروں کو ذلیل، کافروں اور ملحدوں کو تباہ و برباد کردے وہ شرق و غرب میں ہوں یا برو بحر میں یا صحرا و بیابان میں ، یہاں تک کہ نہ ان کا کوئی باشندہ رہ جانے اور نہ ان کے کہیں آثار باقی رہ جائیں۔

خدایا ان ظالموں سے اپنے شہروں کو پاک کردے اور اپنے نیک بندوں کو انتقام عطا فرما، مومنین کو عزت دے اور مرسلین کی سنت کو زندہ بنادے انبیاء کے بوسیدہ ہوجانے والے احکام کی تجدید فرما اور دین کے جو احکام محو ہوگئے ہیں یا بدل دیئے گئے ہیں انھیں تازہ بنادے تا کہ اس کے ہاتھوں دیں تازہ و زندہ خالص اور صریح ہوکر سامنے آئے نہ کسی طرح کی کجی ہو اور نہ بدعت اور اس کے عدل سے ظلم کی تاریکیوں میں روشنی پیدا ہوجائے اور کفر کی آگ بجھ جائے اور حق و عدل کے عقدے کھل جائیں کہ وہ تیرا ایسا بندہ ہے جسے تو نے اپنے بندوں میں مصطفی قرار دیاہے، گناہوں سے محفوظ اور عیب سے بری رکھاہے اور ہر رجس اور گندگی سے پاک و سالم قرار دیاہے۔

۳۴

خدایا ہم اس کے لئے روز قیامت گواہی دیں گے کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے اور کسی برائی کا ارتکاب نہیں کیا ہے، کسی اطاعت کو نظر انداز نہیں کیا ہے اور کسی حرمت کو برباد نہیں کیاہے، کسی فریضہ کو بدلا نہیں ہے اور کسی شریعت میں تغیر نہیں پیدا کیاہے، وہ ہدایت یافتہ ، ہادی ، طاہر ، متقی ، پاکیزہ، پسندیدہ اور طیب و طاہر انسان ہے۔

خدایا اسے اس کی ذات، اس کے اہل و اولاد، ذریت و امت اور تمام رعایا میں خنکی چشم، سرور نفس عنایت فرما، تمام مملکتوں کو جمع کردے قریب ہوں یا دور ، عزیز ہوں یا ذلیل، تا کہ اس کا حکم ہر حکم پر جاری ہوجائے اور اس کا حق ہر باطل پر غالب آجائے۔

خدایا ہمیں اس کے ہاتھوں ہدایت کے راستہ اور دین کی شاہراہ اعظم اور اس کی معتدل راہوں پر چلادے جہاں ہر غالی پلٹ کر آتاہے اور ہر پیچھے رہ جانے والا اس سے ملحق ہوجاتاہے، ہمیں اس کی اطاعت کی وقت اور اس کی پیروی کا ثبات عطا فرما، اس کی متابعت کا کرم فرما اور اس کے گروہ میں شامل کردے جو اس کے امر سے قیام کرنے والے۔ اس کے ساتھ صبر کرنے والے اور اس کی رضا کے مخلص طلب گار ہیں ٹا کہ ہمیں روز قیامت اس کے انصار و اعوان اور اس کی حکومت کے ارکان میں محشور کرے۔

خدایا ہمارے لئے اس مرتبہ کو ہر شک و شبہ سے خالص اور ہر ریاء و سمعہ سے پاکیزہ قرار دیدے تا کہ ہم تیرے غیر پر اعتماد نہ کریں اور تیری رضا کے علاوہ کسی شے کے طلبگار نہ ہوں، ان کی منزل میں ساکن ہوں اور انکے ساتھ جنت میں داخل ہوں ۔

ہمیں ہر طرح کی کسلمندی ، کاہلی ، سستی سے پناہ دے اور ان لوگوں میں قرار دیدے جن سے دین کا کام لیا جاتاہے اور اپنے ولی کی نصرت کا انتظام کیا جاتاہے اور ہماری جگہ پر ہمارے غیر کو نہ رکھ دینا کہ یہ کام تیرے لئے آسان ہے اور ہمارے لئے بہت سخت ہے۔

۳۵

خدایا اپنے اولیاء عہد اور اس کے بعد کے پیشواؤں پر بھی رحمت نازل فرما اور انھیں ان کی امیدوں تک پہنچا دینا، انھیں طول عمر عطافرما اور ان کی امداد فرما، جو امر ان کے حوالہ کیا ہے اسے مکمل کردے اور ان کے ستونوں کو ثابت بنادے، ہمیں ان کے اعوان اور ان کے دین کے انصار میں قرار دے دے کہ وہ سب تیرے کلمات کے معدن، تیرے علم کے مخزن تیری توحید کے ارکان اور تیرے دین کے ستون اور تیرے اولیاء امر ہیں۔

بندوں میں تیرے خالص بندے اور مخلوقات میں تیرے منتخب اولیاء اور تیرے اولیاء کی اولاد اور اولاد پیغمبر کے منتخب افراد ہیں، میرا سلام پیغمبر پر اور ان کی تمام اولاد پر اور صلوات و برکات و رحمت ۔

( مصباح المتہجد ص 409 ، مصباح کفعمی ص 548 ، جمائل الاسبوع ص 307 روایات یونس بن عبدالرحمان)۔

1226۔ امام ہادی (ع) زیارت امام مہدی (ع) میں فرماتے ہیں، پروردگار جس طرح تو نے اپنے پیغمبر پر ایمان لانے اور ان کی دعوت کی تصدیق کرنے کی توفیق دی اور یہ احسان کیا کہ میں ان کی اطاعت کروں اور ان کی ملت کا اتباع کروں اور پھر ان کی معرفت اور ان کی ذریت کے ائمہ کی معرفت کی ہدایت دی اور ان کی معرفت سے ایمان کو کامل بنایا اور ان کی ولایت کے طفیل اعمال کو قبول کیا اور ان پر صلوات کو وسیلہ عبادت قرار دیدیا اور دعا کی کلی اور قبولیت کا سبب بنادیا، اب ان سب پر رحمت نازل فرما اور ان کے طفیل مجھے اپنی بارگاہ میں دنیا و آخرت میں سرخرو فرما اور بندہ مقرب بنادے

خدایا ان کے وعدہ کو پورا فرما، ان کے قائم کی تلوارسے زمین کی تطہیر فرما، اس کے ذریعہ اپنے معطل حدود اور تبدیل شدہ احکام کے قیام کا انتظار فرما، مردہ دلوں کو زندہ کردے اور متفرق خواہشات کو یکجا بنادے راہ حق سے ظلم کی کثافت کو دور کردے تا کہ اس کے ہاتھوں پرحق بہترین صورت میں جلوہ نما ہوا ور باطل و اہل باطل ہلاک ہوجائیں اور حق کی کوئی بات باطل کے خوف سے پوشیدہ نہ رہ جائے ۔( بحار 102 ص 182 از مصباح الزائر)۔

۳۶

1227۔ امام عسکری (ع) ، ولی امر امام (ع) منتظر پر صلوات کی تعلیم دیتے ہوئے۔

خدایا اپنے ولی ، فرزند اولیاء پر رحمت نازل فرما جن کی اطاعت تو نے فرض کی ہے اور ان کا حق لازم قرار دیاہے اور ان سے رجس کو دور کرکے انھیں طیب و طاہر قرار دیاہے۔

خدایا اس کے ذریعہ اپنے دین کو غلبہ عطا فرما، اپنے اور اس کے دوستوں، شیعوں اور مددگاروں کی امداد فرما اور ہمیں انھیں میں سے قرار دیدے، خدایا اسے ہر باغی، طاغی اور شریر کے شر سے اپنی پناہ میں رکھنا اور سامنے، پیچھے ، داہنے بائیں ہر طرف سے محفوظ رہنا، اسے ہر برائی کی پہنچ سے دور رکھنا اور اس کے ذریعہ رسول اور آل رسول کی حفاظت فرمانا ، اس کے وسیلہ سے عدل کو ظاہر فرما، اپنی مدد سے اس کی تائید فرما، اس کے ناصروں کی امداد فرما، اس سے الگ ہوجانے والوں کو بے سہارا بنادے اس کے ذریعہ کا فر جابروں کی کمر توڑ دے اور کفار و منافقین و ملحدوں کو فنا کردے چاہے مشرق میں ہوں یا مغرب میں ، بر میں ہوں یا بحر میں، زمین کو عدل سے معمور کردے اور اپنے دین کو غلبہ عنایت فرما، ہمیں ان کے انصار و اعوان، اتباع و شیعیان میں سے قرار دیدے اور آل محمد کے سلسلہ میں وہ سب دکھلا دے جس کی انھیں خواہش ہے اور دشمنوں کے بارے میں وہ سب دکھلا دے جس سے وہ لوگ ڈر رہے ہیں، خدایا آمین، ( مصباح المتہجد ص 405 ، جمال الاسبوع ص 300 روایت ابومحمد عبداللہ بن محمد العابد)۔

1228۔ ابوعلی ابن ہمام، کا بیان ہے کہ حضرت کے نائب خاص شیخ عمری نے اس دعا کو ملاء کرایاہے اور اس کے پڑھنے کی تاکید کی ہے، جو دور غیبت امام قائم کی بہترین دعا ہے۔

خدایا مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کہ اپنی معرفت نہ دے گا تو میں رسول کو بھی نہ پہچان سکوں گا اور پھر اپنے رسول کی معرفت عطا فرما کہ اگر ان کی معرفت نہ دے گا تو میں تیری حجت کو بھی نہ پہچان سکوں گا اور پھر اپنی حجت کی معرفت بھی عطا فرما کہ اگر اسے نہ پہچان سکا تو دین سے بہک جاؤ گا۔

۳۷

خدایا مجھے جاہلیت کی موت نہ دینا اور نہ ہدایت کے بعد میرے دل کو منحرف ہونے دینا۔

خدایا جس طرح تو نے ان لوگوں کی ہدایت دی جن کی اطاعت کو واجب قرار دیاہے اور جو تیرے رسول کے بعد تیرے اولیاء امر ہیں اور میں نے تیرے تمام اولیاء امیر المومنین (ع) ، حسن (ع) ، حسین (ع) ، علی (ع) ، محمد ، جعفر (ع) ، موسیٰ (ع) ، علی (ع) ، محمد (ع) ، علی (ع) ، حسن (ع) حجت قائم مہدی (عج) سے محبت اختیار کی ہے۔

خدایا اب حضرت قائم (ع) کے ظہور میں تعجیل فرما، اپنی مدد سے ان کی تائید فرما، ان کے مددگاروں کی امداد فرما، ان سے الگ رہنے والوں کو ذلیل فرما، ان سے عداوت کرنے والوں کو تباہ و برباد کردے، حق کا اظہار فرما، باطل کو مردہ بنادے، بندگان مومنین کو ذلت سے نجات دیدے شہروں کو زندگی عطا فرمادے، کفر کے جباروں کو تہ تیغ کردے، ضلالت کے سر براہوں کی کمر توڑدے، جابروں اور کافروں کو ذلیل کردے، منافقوں عہد شکنوں اور شرق و غرب کے ملحدوں، مخالفوں کو ہلاک و برباد کردے چاہے وہ خشکی میں ہوں یا دریاؤں میں، بیابانوں میں ہوں یا پہاڑوں پر ۔ تا کہ ان کی کوئی آبادی نہ رہ جائے اور ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے، زمین کو ان کے وجود سے پاک کردے اور اپنے بندوں کے دلوں کو سکون عطا فرما، جو دین مٹ گیا ہے اس کی تجدید فرما اور جو احکام بدل دیے گئے ہیں ان کی اصلاح فرما، جو سنت بدل گئی ہے اسے ٹھیک کردے تا کہ دین دوبارہ اس کے ہاتھوں ترو تازہ ہوکر سامنے آئے نہ کوئی کجی ہو نہ بدعت نہ انحراف کفر کی آگ بجھ جائے اور ضلالت کا شعلہ خاموش ہوجائے کہ وہ تیرا وہ بندہ ہے کہ جسے تو نے اپنا بنایاہے، اور اسے دین کی نصرت کے لئے منتخب کیا ہے اور اپنے علم سے چنا ہے اور گناہوں سے محفوظ رکھاہے اور عیوب سے پاک رکھاہے، غیب کا علم دیا ہے اور نعمتوں سے نوازاہے، رجس سے دور رکھاہے اور پاک و پاکیزہ بنایاہے۔

خدایا ہم اس بات کے فریادی ہیں کہ تیرے نبی جاچکے ہیں، تیرا ولی بھی پردہ غیب میں ہے، زمانہ مخالف ہوگیاہے ، فتنے سر اٹھارہے ہیں، دشمنوں نے ہجوم کر رکھاہے اور ان کی کثرت ہے اور اپنی قلت ہے۔

۳۸

خدایا ان حالات کی اصلاح فرما فوری فتح کے ذریعہ، اور اپنی نصرت کے ذریعہ، اور امام عادل کے ظہور کے ذریعہ، خدائے برحق اس دعا کو قبول کرلے۔

خدایا اپنے ولی کے ذریعہ قرآن کو زندہ کردے اور اس کے نور سرمدی کی زیارت کرادے جس میں کوئی ظلمت نہیں ہے، مردہ دلوں کو زندہ بنادے اور سینوں کی اصلاح کردے، خواہشات کو ایک نقطہ پر جمع کردے معطل حدوداور متروک احکام کو قائم کرادے تا کہ ہر حق منظر پر آجائے اور ہر عدل چمک اٹھے، خدایا ہمیں ان کے مددگاروں اور حکومت کو تقویت دینے والوں میں قرار دیدے کہ ہم ان کے احکام پر عمل کریں، اور ان کے عمل سے راضی رہیں، ان کے احکام کے لئے سراپا تسلیم رہیں اور پھر تقیہ کی کوئی ضرورت نہ رہ جائے۔

خدایا تو ہی برائیوں کو دور کرنے والا ، مضطر افراد کی دعاؤں کا قبول کرنے والا اور کرب و رنج سے نجات دینے والا ہے لہذا اپنے ولی کے ہر رنج و غم کو دور کردے اور اسے حسب وعدہ زمین میں اپنا جانشین بنادے۔

خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور مجھے ان کے طفیل دنیا و آخرت میں کامیابی اور تقرب عنایت فرما ۔( کمال الدین 512 / 43 ، مصباح المتہجد ص 411 ، جمال الاسبوع ص 315)۔

1229۔ دعائے افتتاح۔ خدایا ہم ایسی باعزت حکومت کے خواہشمند ہیں جس سے اسلام و اہل اسلام کو عزت اور نفاق و اہل نفاق کو ذلت نصیب ہو ہمیں اپنی اطاعت کے داعیوں اور اپنے راستہ کے قائدوں میں قرار دیدے اور پھر دنیا و آخرت کی کرامت عطا فرما۔

۳۹

خدایا جو حق ہم نے پہچان لیا ہے اسے اٹھانے کی طاقت دے اور جسے نہیں پہچان سکے ہیں اس تک پہنچا دے۔

خدایا اس کے ذریعہ ہماری پراگندگی کو جمع کردے، ہمارے درمیان شگاف کو پڑ کردے، ہمارے انتشار کو جمع کردے ۔ہماری قلت کو کثرت اور ہماری ذلت کو عزت میں تبدیل کردے، ہماری غربت کو دولت میں بدل دے اور ہمارے قرض کو ادا کردے، ہمارے فقر کا علاج فرما اورہماری حاجتوں کو پورا فرما۔

ہماری زحمت کو آسان کردے اور ہمارے چہروں کو نورانی بنادے، ہمیں قید سے رہائی عطا فرما اور ہمارے مطالب کو پورا فرما، ہمارے وعدوں کو مکمل فرما اور ہماری دعاؤں کو قبول کرلے، ہمیں تمام امیدیں عطا فرما اور ہماری خواہش سے زیادہ عطا فرما۔

اے بہترین مسئول اور وسیع ترین عطا کرنے والے ، ہمارے دلوں کو سکون عطا فرما اور ہمارے رنج و غم کا علاج فرما، جہاں جہاں حق کے بارے میں اختلاف ہے ہمیں ہدایت فرما کہ تو جسے چاہے صراط مستقیم کی ہدایت دے سکتاہے، اپنے اور ہمارے دشمنوں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما اور اے خدائے برحق ! ہماری اس دعا کو قبول کرلے۔

خدایا ہماری فریاد یہ ہے کہ تیرے نبی جاچکے، تیر اولی غیب میں ہے، دشمنوں کی کثرت ہے، فتنوں کی شدت ہے ، زمانہ کا ہجوم ہے، اب تو محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور ان حالات میں ہماری فوری فتح کے ذریعہ امداد فرما تا کہ رنج و غم دور ہوجائیں، باعزت امداد دے اور حکومت حق کو ظاہر فرما، رحمت کی کرامت عطا فرما اور عافیت کا لباس عنایت فرما دے اپنی رحمت کے سہارے اے بہترین رحمت دینے والے۔( اقبال الاعمال 1ص 142 روایت محمد بن ابی قرّہ)۔

واضح رہے کہ یہ دعا امام زمانہ عج کی طرف سے ہے جسے نائب دوم محمد بن عثمان بن سعید العمری کے بھتیجہ نے ان کی کتاب سے نقل کیاہے اور یہ ماہ رمضان کی شبوں میں پڑھی جاتی ہے۔!

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69