اساس الحكومۃ الاسلامیۃ

اساس الحكومۃ الاسلامیۃ0%

اساس الحكومۃ الاسلامیۃ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اساس الحكومۃ الاسلامیۃ

مؤلف: آیۃ اللہ سید كاظم حائری
زمرہ جات:

مشاہدے: 8011
ڈاؤنلوڈ: 2568

تبصرے:

اساس الحكومۃ الاسلامیۃ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 17 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8011 / ڈاؤنلوڈ: 2568
سائز سائز سائز
اساس الحكومۃ الاسلامیۃ

اساس الحكومۃ الاسلامیۃ

مؤلف:
اردو

باب دوّم: شوريٰ

بعض علماء اھل سنت نے ”شوريٰ” كي بنياد پر حكومت اسلامي كے قيام كي تصوير پيش كرنے كي كوشش كي ہے يعني ايك ايسي حكومت كہ جس حكومت اسلامي كي روح روان اور بنياد ”شوريٰ” ہو

ايك حيران كن سوال

ابتدائے امر ميں نظريہ (شوريٰ) كو ايك اہم سوال كا سامنا كرنا پڑتا ہے وہ سوال يہ ہے كہ جب اسلام نے شوري كو خشت اول اور ولايت وحكمراني كا سرچشمہ قرار ديتے ہوئے نظام حكومت كے خطوط ترسيم كئے تو فطري طور پر لازم تھا كہ اسلام وسيع سطح پر امت كو اس ثقافت (شوريٰ) كي تعليم ديتا اور امت كو اس اہم اساس كي حدود وقيود سے مكمل طور پرآگاہ كرتا اوراس كي مكمل تفصيلات جزء جزء كركے بيان كرتا كيونكہ موضوع كي اہميت اور غير معمولي ضرورت كا تقاضا يہي تھا ليكن ہميں كتاب و سنت ميں اس امر كي تعليم اور اسے وسيع سطح پر ايك ثقافت ميں تبديل كرنے كے كوئي آثار نہيں ملتے بنابراين اس نومولود نظر كي تفسير كيسے كي جائے؟

بعض اہل قلم اور بعض اہل سنت علماء اس سوال كا جواب دينے كے لئےآگے بڑھے ہيں ا ن جوابوں ميں سے بہترين جواب يہ ہے كہ اس بات كو مورد تاكيد قرار ديا جائے كہ اسلام نے جان بوجھ كر شوري كو مطلق چھوڑا ہے يعني اس كے لئے كوئي خاص قالب اور شكل و صورت معين نہيں فرمائي بلكہ اس كي شكل و صورت كي تعيين كا كام امت كے سپرد كيا ہے كيونكہ اسلام ميں ايك ايسي حقيقي صفت پائي جاتي ہے جو اسلامي شريعت كو دوسري شريعتوں سے ممتاز بناتي ہے اور وہ نرمي(۳۰) كي صفت ہے جس كي وجہ سے اسلامي نظام ہميشہ باقي رہےگا اور تمام زمانى، مكاني اور معاشرتي شرائط كے اختلاف كے باوجود اسلامي نظام تمام زمانوں اور تمام مكانوں ميں قابل تطبيق اور قابل نفاذ ہے۔واضح رہے كہ شوري كا مسئلہ معاشرتي حالات كے اختلاف سے مختلف ہوگا اور شوري كي شكل و صورت اور قالب كي تعيين ميں درج ذيل مختلف عوامل دخيل ہيں:

ملك و سلطنت كي وسعت، ابادى، شوريٰ كے موضوع كي اہميت اوراس كے علاوہ زمان و مكان كے اختلاف سے وجود ميں انے والے عارضي عناصر جو زمان و مكان كے اختلاف كے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہيں۔

بنابراين ابتدائے رسالت (صدراسلام) كےمعاشري ميں اس معاشري كے سادہ فطرت كے ساتھ سازگار وہماہنگ شوريٰ كي نوعيت كا فرض ممكن نہيں۔اور شكل و صورت كا ايسا فرض ممكن نہ تھا جو اس وقت كے معاشري كي سادگي كے ساتھ ہماہنگ ہوتا يہ نوعيت اور شكل و صورت تمام حالات اور تمام اقوام كے لئے تمام زمانوں ميں ممكن نہيں۔كيونكہ نظاموں كي صلاحيت اضافي حيثيت ركھتي ہے نسبي ہے(۳۱)

كبھي ايك نظام ايك قوم كے لئے مفيد ہے جبكہ وہي نظام دوسري قوم كے لئے مفيد نہيں ہوتا۔قحطان عبدالرحمن دوري اپني كتاب (الشوريٰ بين النظريه والتطبيق ) ميں كہتےہيں حكومت كي شكل وصورت كے باري ميں (مرونۃيعني نرمي) ايك نماياں خوبي ہے جس كے ذريعے اسلام دوسري نظاموں سے ممتاز ہے (اور ان پر برتري ركھتا ہے) يہي نرمي ہے جو اسے ہر زمان و مكان كے لئے اسے باصلاحيت اور قابل نفاذ بناتي ہے۔(۳۲)

ليكن حقيقت يہ ہے كہ يہ نرمي كہ جس كا دعوي كيا گيا ہے اور كہا گيا ہے كہ اسلام نے امت كے لئے نظام شوري كے كلي خطوط ترسيم كرديے ہيں اور امت كو بنيادي قواعد اور اہم بنياديں عطا كردي ہيں جب كہ ان قواعد كي تطبيق شرائط كے اختلاف كے ساتھ ساتھ مختلف ہوگي اوراسلام نے اس امر كو مورد تاكيد قرار ديا ہے كہ ہرفضا كے لئے اس نظام (شوريٰ) كي مناسب شكل وصورت موجود ہے اگرچہ يہ شكل و صورت تطبيق كے اعتبار سے دوسري ظروف (زمانى، مكاني شرائط) ميں تطبيق ہونے والي شكل و صورت سے متفاوت ہے ۔

جب ہر ظرف خاص كے لئے خاص شكل و صورت موجود ہے اورلوگ بھي تائيد كرتے ہيں كہ بے شك يہي شكل و صورت مطلوب شكل و صورت ہے تو (كہا جاسكتا ہے كہ) ہاں اگر مرونۃ و نرمي سے مراد يہي ہوتو اسے اسلام كے لئے برجستہ خوبي قرار ديا جاسكتا ہے كہ جس كي وجہ سے اسلام (قحطان عبدالرحمن الدوري كي تعبير كے مطابق) دوسري نظاموں پر برتري ركھتا ہے كيونكہ اسلامي نظام ہر زمانے اور ہر جگہ نفاذكے لئے صلاحيت ركھتا ہے۔ليكن حقيقت مكمل طور پر اس كے برعكس ہے: شوري كے لئے مختلف صورتيں اور مصاديق ہيں حتي ايك ہي زمانے ميں اور ايك ہي شرائط و ظروف ميں شوري كي كئي صورتيں قابل تصور ہيں۔

لہذا درجہ ذيل سوالات لاجواب باقي رہ جاتے ہيں:

۱) بطور مثال اگر مشورہ كرنے والے افراد دوگروپوں ميں تقسيم ہوجائيں اور ان ميں اختلاف نظر پيدا ہوجائے ايك طرف اكثريت ہو جبكہ دوسري طرف ايسي اقليت ہوجو صاحبان نظر باصلاحيت اور معاشرتي اعتبار سے مشہور افراد پر مشتمل ہو تو كونسي طرف كو ترجيح دي جائے گى؟ كيا يہاں كميت معيار ہوگي يا كيفيت؟

۲) دوسرا سوال يہ ہے كہ اگر دو طرف مقدار اور كيفيت دونوں اعتبار سے مساوي ہوں تو كس طرف كو ترجيح دي جائے گى؟

۳) كيا ايك ووٹ(۳۳) كے ذريعے ترجيح دي جائے گي يا نہيں؟

۴) كن لوگوں كا شوريٰ ميں شريك ہونا ضروري ہے؟ كيا ہر وہ شخص جو مشورہ دينے كي صلاحيت ركھتا ہو اسے شوريٰ ميں شريك ہونے كا حق حاصل ہے يا بعض (خاص افراد) پر اكتفاء كيا جائے گا؟

۵) ان خاص افراد كي مقدار كيا ہے؟ كہ جنہيں مشورہ كي صلاحيت ركھنے والے افراد ميں سے شوريٰ ميں شركت كے لئے انتخاب كيا جائے گا؟

۶) ہم ان سب امور كا شوريٰ كي نصوص سے كيسے استفادہ كرسكتے ہيں؟

اس سلسلے ميں بعض لوگوں نے يہ جواب ديا ہے كہ وہ تمام افراد شوريٰ ميں شريك ہوں گے جن كے لئے شوريٰ كا موضوع قابل اہميت ہوگا(۳۴) كيونكہ خداوندمتعال نے ارشاد فرمايا ہے( وامرهم شوريٰ بينهم ) اور آپس كے معاملات ميں مشورہ كرتے ہيں(۳۵) كيونكہ”امرھم”ميں موجود ضمير”ھم” اور ”بينھم”ميں موجود ضمير ”ھم” كا مرجع ايك ہي ہے لھذا اس سے سمجھا جاتا ہے كہ شوريٰ (مشورت كے كام) ميں وہ تمام لوگ شريك ہوں گے كہ مورد مشورہ امران سے تعلق ركھتا ہے۔

ليكن (سوال يہ ہے كہ) جس صورت ميں ايك موضوع ايك حد تك تمام لوگوں يعني جماعت سے مربوط ہو جبكہ اس جماعت كے خاص گروہ سے اس كا گہرا ربط ہو تو ايك اعتبار سے اس موضوع كو ايك خاص گروہ جبكہ عرف ايك اعتبار سے اس موضوع كو وسيع تر دائري كي طرف نسبت ديتا ہے كہ جو دائرہ اس خاص گروہ كو بھي شامل ہے اور اس كے علاوہ باقي گروہوں كو بھي شامل ہے (تو يہاں پر يہ امر موضوع پوري جماعت كا امر شمار ہوگا يا ايك خاص گروہ كا امر كہ جس سے اس امر كا گہرا ربط ہے؟)

اور ان ميں سے كون لوگ شوريٰ ميں شركت كريں گے پوري جماعت يا وہ گروہ خاص؟

يہاں پر بہت سي عملي مثاليں ہيں كہ جن پر يہ صورت صدق كرسكتي ہے مثلا اگر امت (اجمالي طور پر) حكومت چلانے كے لئے ملك يا علاقے كے فقھاء كے انتخاب پر اتفاق كر لے اور پھر لوگوں كي ايسي اكثريت (جس ميں فقہاء بھي شامل ہوں) كے درميان اور خود اكثريت فقہاء كے درميان امور كي تقسيم (مثلا كس فقيہ كو كونسي ذمہ داري دي جائے اور كونسا كام اس كے سپرد كيا جائے) پر اختلاف پيدا ہوجائے تو يہاں پر كس طرف كو ترجيح ديں گے جبكہ ہم قبول كرچكے ہيں كہ ترجيح كا معيار اكثريت ہے؟ ہم ايك جہت سے ملاحظہ كرتے ہيں كہ لوگوں كي اكثريت معتقد ہے اور متفق القول ہے كہ تمام امور فقہاء كے سپرد كئے جائيں اور ہم دوسري جہت سے يہ بھي ملاحظہ كرتے ہيں كہ يہي اكثريت معتقد ہے كہ فلاں معين شخص كو حكومت كا سربراہ ہونا چاہيئے يا يہ كہ فرد كي قيادت كے بجائے فقہا پر مشتمل كميٹي كو قيادت كي ذمہ داري سونپي جائے۔

ہم تيسري جہت سے يہ بھي ملاحظہ كرتے ہيں كہ خود فقہاء كي اكثريت اس سلسلے ميں اكثريت امت كي راي كے مخالف ہے۔كيا يہاں پر لوگوں كي اكثريت كو معيار قرار ديا جائے گا كيونكہ امر لوگوں كا امر ہے يا اكثريت فقہاء كي راي كو معتبر جانا جائيگا كيونكہ امر ان كے دائر كار سے اور ان كے وظائف سے مربوط اور ان سے مخصوص ہے اور وظائف كي تقسيم كاركا طريقہ كار بھي خود فقہاء سے مخصوص ہے كيونكہ يہ بھي انہي امور ميں سے ہے كہ جن كي انجام دہي كي ذمہ داري لوگوں نے فقہاء كے سپرد كي ہے۔

يہ ايك مثال تھي يہاں ايك اور مثال بھي دي جاسكتي ہے: فرض كريں دو جماعتيں ہيں اور ہر ايك جماعت كي طرف سے ايك نمايندے كا انتخاب كرنا ہے جونمايندہ اپني جماعت كے مصالح و مفادات كي معرفت ميں مہارت ركھتا ہو تاكہ اس جماعت كي نمائندگي كرسكے اور يہ دونوں نمايندے مشتركہ كوشش كركے اجتماعي اور انفرادي مفادات ومصالح كے درميان ھماھنگي ايجاد كرسكيں جس كے نتيجے ميں تمام لوگوں كے مفادات و مصالح تحقق پذير ہوسكيں نہ يہ كہ ہر شخص فقط اس جماعت كے مفادات كا دفاع كرے كہ جس جماعت كا يہ نمائندہ ہے اس صورت ميں ان دو افراد كو منتخب كرنے كا حق كس نے ديا ہے؟ كيا دونوں جماعتوں كے مجموعے كو دو نمائندوں كے انتخاب كا حق ديا جائے؟ يا ہر نمائندے كے انتخاب كي ذمہ داري فقط اسي جماعت كو سونپي جائے كہ يہ نمائندہ جس جماعت كے مفادات و مصالح سےآگاہ ہو اور ان كے مفادات و مصالح كو اہميت ديتا ہے؟

جس طرح ممكن ہے كہ عرفي اعتبار سے موضوع كو خاص جماعت سے نسبت دي جائے اسي طرح يہ بھي ممكن ہے كہ دونوں جماعتوں كے مجموعے كي طرف اس موضوع كي نسبت دي جائے كيونكہ تمام لوگوں كامتعلقہ موضوع ہے ۔

تيسري مثال:

اگر ايسے قانون كے باري ميں مشورہ كرنا مقصود ہو جو قانون مردوں كي بہ نسبت خواتين سے زيادہ مربوط ہو توكيا فقط خواتين سے راي لي جائے گي كيونكہ امر خواتين كا امر ہے يا يہ كہ خواتين كے ساتھ ساتھ مردوں سے بھي راي لي جائے گي كيونكہ يہ امر تمام لوگوں كا امر ہے؟

اور اگر اختلاف پيداہوجائے تو كونسي اكثريت كو ترجيح دي جائے گي (مردوں كي اكثريت كو يا خواتين كي اكثريت كو؟) اس سب كچھ كے بعد اگر ان لوگوں ميں سے بعض لوگ شوريٰ ميں شركت نہ كريں كہ امر جن كا امر ہے توكيا شوريٰ باطل ہوجائے گي يا نہيں؟ كتنے لوگ كنارہ كشي كريں (شركت نہ كريں) تو شوريٰ باطل قرار دي جائے گي (اگر ہم بطلان كے قائل ہوجائيں)؟ كيا سابقہ حكمران جوماضي ميں حق حكمراني حاصل كرچكے ہيں ان افراد كو مشورہ (شوريٰ) ميں شركت كرنے پر مجبور كريں گے؟ منتخب كرنے والوں اور مشورى كي غرض سے شوريٰ ميں شريك ہونے والوں ميں بہت سے ايسے مستعضف اور پسماندہ لوگ موجود ہوتے ہيں كہ امت كے لئے بہترين اورحق سے زيادہ قريب تر راستے كے انتخاب ميں ان كي (شوريٰ) ميں شركت كا كوئي اثر اورعمل دخل نہيں ہوتا كيونكہ يہ لوگ (شوريٰ) كے موضوع كے متعلق صحيح و ھمہ گير اورجامع فكر كي صلاحيت نہيں ركھتے۔

جيسے عوامي اكثريت اور بعض معاشروں ميں جاہل و پسماندہ خواتين۔مستضعفين كي يہ جماعت (اكثر اوقات) امت كے بہت بڑے حصے كو تشكيل ديتي ہے ۔

كيا انہيں شوريٰ ميں شريك كيا جائے گا كيونكہ امر ان كا امر ہے اورفقط چھوٹے بچوں، ديوانوں اور كم خرد و نادان لوگوں كو استثناء كياجائےگا۔اور( امرهم شوريٰ بينهم ) كے اطلاق كے تقاضے كے مطابق باقي تمام لوگ شوريٰ ميں شريك ہوں گے اورانہيں مشورہ كے لئے دعوت دي جائے گي اگرچہ ان كي رضامندي اور ہمدردياں حاصل كرنے كي غرض سے ہي سہي۔يا يہ كہا جائے گا كہ كيونكہ شوريٰ كا ہدف و مقصد بہترين اور مفيد راستے كا انتخاب ہے لہذا اس ھدف كو مدنظر ركھتے ہوئے ”امرهم شوريٰ بينهم ”كي عبارت سے اطلاق نہيں سمجھا جاسكتا (يہ ہدف اس اطلاق سےمانع ہے) اور اگر اس فرض كو قبول كرلياجائے تو كيا معيار اور كيا قواعد و ضوابط ہيں كہ جن كي روشني ميں يہ معين كيا جائے كہ كس كو انتخاب (شوريٰ) ميں شركت كا حق حاصل ہے اور كس كو يہ حق حاصل نہيں ہے؟ يہ سوالات اور ان كے علاوہ اور دسيوں سوالات لاجواب باقي ہيں يہي وجہ ہے كہ معاشرہ حيران و سرگردان ہے كہ شوريٰ كي مختلف اقسام اور مختلف صورتوں ميں سے كون سي قسم اور كونسي صورت كا انتخاب كيا جائے جوان كے زمانے اور موجودہ شرائط ميں بہترين اور صحيح شكل و صورت ہو۔

يہيں سے يہ اشكال مزيد شديد ہوجاتا ہے كہ اسلامي مرونت و نرمي اس صورت ميں اسلام كے لئے ايك نماياں اور ممتاز صفت قرار پاسكتي ہے (البتہ اگر فرض كيا جائے كہ اسلام شوريٰ كا قائل ہے) كہ جب اسلام نے اس نظام كي حدود اوراس نظام كي بنيادوں كو اس طرح معين و مشخص طور پر بيان كيا ہو كہ جسكے ذريعے امت اس عجيب و غريب حيراني و سرگرداني سے نجات پاسكے ليكن ان امور كو ترك كرنے اورامت كو شوريٰ كے متعلق قواعد و ضوابط كي تعليم نہ دينے بلكہ ايك قراني آيہ مباركہ كے ذريعے (شوريٰ كي طرف) اشاري پر اكتفاء كرنے كو اور تو كوئي نام نہيں ديا جاسكتا بلكہ اسے فقط ايك واضح وآشكار خرابي كہا جاسكتا ہے جس كي نسبت اسلام، اسلام كے مبلغ اور اسلام كے موسس و جاعل كي طرف نہيں دي جاسكتي۔

يہ وہ حيران كن سوال ہے جونظام شوريٰ كے قائل اہل سنت كے نظريہ كے سامنے موجود ہے ہميں اس سوال كے ممكنہ جواب كي معرفت حاصل كرني چاہيے ۔

اور اس سلسلے ميں درج ذيل جوابات قابل تصور ہيں:

پہلاجواب:

يہ دعوي كيا جائے چونكہ قيادت و حكومت اور حكومت كي كيفيت دنياوي امر ہے لھذا اس ميں اسلامي شريعت كي دخالت متصور نہيں ہے بلكہ يہ بھي دوسري دنياوي امور ميں سے ايك ہے لھذا اگر اسلام اس موضوع كے باري اظہار نظر نہ كرے تو اسے نقص شمار نہيں كيا جاسكتا ليكن (باوجود اس كے كہ يہ ايك دنياوي امر ہے) اسلام نے پھر بھي اس موضوع كے باري اظہار نظر كيا ہے فطري طور پر اسلام نے شوريٰ كے كلي ڈھانچے كے بيان پر اكتفاء كيا ہے اور اس كي حدود و قيود كو بيان نہيں كيا تاكہ تمام زمانوں اور تمام مكانوں ميں اس كي تطبيق كي جاسكے لہذا شريعت نے ايك عام اور كلي مفہوم ديا ہے اور اس كي شكل و صورت اور مناسب خصوصيات كي تعين كا كام امت كے سپرد كيا ہے اسلام كو حق حاصل ہے كہ نظام شوريٰ كے انتخاب ميں بھي امت كو آزاد چھوڑے يا حتي نظام شوريٰ كو سري سے رد كردے اور اسے نقص بھي شمار نہ كيا جائے كيونكہ يہ امر دنياوي امور ميں سے ہے۔اس طرح يہ كہنا بھي ممكن ہے كہ شورائي نظام كي ايسي شكل و صورت تعين نہ كرنا جو مختلف شرائط كے ساتھ سازگار نہ ہو اسلام كي نماياں خوبي ہے۔

جواب:

يہ سوال درج ذيل امور كي وجہ سے بالكل باطل ہے:

۱) چونكہ مسئلہ حكومت و قيادت ان ضروريات ميں سے ہے كہ جن سے چشم پوشي ممكن نہيں خصوصا اس وجہ سے كہ اصل اسلام اور معاشري ميں اسلامي قوانين كا تحفظ اسي پر موقوف ہے جب اسلام اپني حفاظت اور اپني شريعت كي حفاظت كو بہت زيادہ اہميت ديتا ہے تو يہ قبول كرنا بھي ضروري ہے كہ مسئلہ حكومت كے باري ميں مثبت موقف اپنايا ہے (كيونكہ اس كے بغير اسلام اوراسلامي شريعت كي بقاء ممكن نہيں ہے) اگرچہ يہ موقف ايساقابل انعطاف نظام عطا كرنے كي صورت ميں ہو كہ جس كے قواعد و ضوابط انعطاف پذيرہوں اور مختلف شرائط زمان و مكان ميں منطبق ونافذ ہونے كي صلاحيت ركھتے ہوں اور اسلام نے اس مسئلہ كو ان انساني عقلوں كے سپرد نہيں كيا جوعقليں مختلف وجوہات سے ضعف و ناتواني كا شكار ہوتي ہيں جس كے نتيجے ميں آخر كار اصل شريعت كے پامال ہونے كا خدشہ ہوتا ہے۔

۲) اسلام ايك كامل اور زندگي كے مختلف پہلوؤں اور شعبوں پر محيط نظام ہے اور اسلام انسان كي دنياوي زندگي كے تمام شعبوں كو منظم كرنے سے غافل نہيں رہا البتہ اس مقدار ميں كہ جس كي توقع شريعت اورحقيقي دين سے كي جاسكتي ہے جائے تواور اس فردي و اجتماعي رفتار كے متعلق اسلام كي طرف سے معين ہونے والے مختلف اسلوبوں اور روشوں اور اسي طرح خانداني امور وغيرہ كو منظم كرنے كے متعلق اسلام كے قوانين و احكام كو ملاحظہ كيا جائے تو يہ امر مزيدآشكار ہوجاتا ہے۔

بلكہ دنياوي امور ميں اسلام كي دخالت ضروريات اسلام يا (كم از كم) ضروريات فقہ ميں سے ہے كہ جس كا انكار فقط ضدي شخص ہي كرسكتا ہے (ان سب امور كے باوجود) كيسے تصور كيا جاسكتا ہے كہ اسلام مسئلہ حكومت سے غافل رہا ہے جب كہ حالت يہ ہے كہ جس معاشري كي بنياد اسلام نے ركھي ہے مسئلہ حكومت اسي معاشري كے اہم ترين حياتي مسائل ميں سے ايك ہے ۔

۳) قيادت اور حكومت كي تشكيل ميں ضمني طور پر (چنانچہ ہم وضاحت كرچكے ہيں) يہ بات پائي جاتي ہے كہ فرد (حكمران) يا افراد مختلف ميدانوں ميں اپنا اثر رسوخ استعمال كريں گے اور يہ ايسي چيز ہے جو لوگوں كے ابتدائي حقوق سے سازگار و ھماھنگ نہيں ہے۔

بنابرايں اگر حكومت اسلامي ايسي ولايت كي بنياد قائم نہ ہو جو ولايت خاص نظام كے ضمن ميں ايسے شخص كو عطا كي جاتي ہے جس ميں مطلوبہ شرائط موجود ہوں تو يہ تصور ممكن ہے كہ حكومت متعدد محرمات ميں غوطہ زن ہوجائے يہ ايسا امر ہے جو كسي بھي صحيح اسلامي حكومت كي تشكيل سےمانع ہے اور نتيجۃً دين دار معاشري كو شديد حيراني و سرگرداني ميں مبتلا كرسكتا ہے۔

دوسرا جواب:

يہ كہا جائے كہ شورائي نظام كي شكل و صورت اور بنيادي قوانين معين نہ كرنے كي وجہ يہ ہے كہ مختلف زمانوں اور مختلف مكانوں ميں مشترك عناصر موجود نہيں ہوتے جب تمام زمانوں اور مكانوں ميں مشترك عناصر نہيں پائے جاتے تو مشترك اور كلي قواعد وضع كركے مختلف مشكلات كو حل نہيں كيا جاسكتا اگرچہ يہ مشترك اور كلي قواعد تطبيق ونفاذ كے اعتبار سے مختلف ہي كيوں نہ ہوں يہي وجہ ہے كہ اسلام نے (حقائق و واقعات كے تقاضے كے مطابق) اس نظام كو مطلق چھوڑ ديا ہے اور اس كے لئے كوئي خاص شكل و صورت (اور قواعد) معين نہيں فرمائے۔

اشكالات: ہم اس سلسلے ميں درج ذيل اشكالات كريں گے:

الف: مندرجہ بالا جواب كا مقصد يہ نہيں كہ اسلام كو اس نقص وعيب سے پاك و مبرا قرار ديا جائے اور كہا جائے كہ اسلام نے زندگي كو منظم كرنے كي غرض سے زندگي كے مختلف شعبوں كے لئے جامع قانون سازي نہيں كي (اور اس جواب كا مقصد يہ بھي نہيں كہ يہ اسلامي قوانين كامل ہيں اور سعادت و خوشبختي كي ضمانت فراہم كرتے ہيں ليكن چونكہ مسلمانوں نے ان قوانين كو صحيح طريقے سے نافذ نہيں كيا لہذا يہ نقائص سامنےآرہے ہيں ۔

اس جواب كا مطلب صرف يہ ہے كہ اسلام ناقص ہے ليكن يہ نقص قابل تاويل ہے كيونكہ مختلف زمانوں اورمكانوں ميں مشترك عناصر نہيں پائے جاتے تاكہ ان مشترك عناصر كو مدنظر ركھتے ہوئے كلي قواعد وضع كئے جائيں لہذا يہ نقص اجتناب ناپذير ہے

اگر اس احتمال كا راستہ كھل جائے (يہ احتمال ديا جائے كہ نظام حكومت كے سلسلے ميں اسلام ميں نقص پايا جاتا ہے ليكن يہ نقص اجتناب ناپذير ہے) تو يہي احتمال اسلام كے دوسري شعبوں ميں بھي ديا جاسكتا ہے جيسے اقتصادي شعبہ، اجتماعي شعبہ، كيونكہ ان شعبوں كے متعلق كہا جاسكتا ہے كہ شايد اسلام زندگي كے مختلف شعبوں كو بخوبي منظم كرنے سے عاجز و ناتوان ہے لھذا اسلام نے بعض اوقات نظاموں كي بنيادوں كو ناقص چھوڑ ديا ہے (جيسا كہ شورائي نظام ميں كيا ہے) يا بعض اوقات ان نقائص اور خلاؤں كو اس طرح پر كيا ہے كہ يہ نظام فقط بعض شرائط ميں مفيد واقع ہوسكتا ہے۔

اسلام نے اسي (خاص نظام كا) دائرہ وسيع كيا ہے حتي اسے ان شرائط ميں بھي قرار ديا ہے كہ جن شرائط كے ساتھ يہ خاص نظام سازگار و ھماھنگ نہيں ہے۔اوريہ امر ناگزير تھا۔ ايسي علامات اور نشانياں معين كرنا ناممكن تھا كہ جنہيں لوگ سمجھ سكتے اوران كے ذريعے يہ تشخيص دے سكتے كہ يہ شرائط اس نظام كي تطبيق اور نفاذ كے لئے مناسب و سازگار ہيں اور فلاں شرائط اس نظام كے لئے مناسب نہيں ہيں جب كوئي امر دو چيزوں كے درميان دائر تھا كہ يا تو لوگوں كو كوئي نظام نہ ديا جاتا كہ جس كا نتيجہ يہ ہوتا كہ تمام زمانوں اور مكانوں كے لوگ حيران و سرگردان رہتے ياايك مطلق اور كلي نظام ديا جاتا كہ جس كي وجہ سے (كم ازكم) بعض زمانوں اور مكانوں كے لوگ سعادتمند ہوسكتے۔اسلام نے لوگوں كي مصلحت كو مدنظر ركھتے ہوئے دوسري صورت كو منتخب كيا بنابر اين اسے اسلام كے لئے عيب و نقص شمار نہيں كياجاسكتا اس نقص كا سرچشمہ يہ ہے كہ درحقيقت مناسب (اور قابل انعطاف اور مختلف زمانوں ميں قابل تطبيق ونفاذ) راہ حل موجود نہيں تھا۔ نہ يہ كہ راہ حل موجود تھا ليكن اسلام كي اس تك رسائي نہ ہوسكي كيا اس احتمال كو اس كے تمام تر خطرات و بري نتائج كے ساتھ اخذ كيا جاسكتا ہے؟ !

ہم نے اس احتمال كو وسعت دي ہے تاكہ نظام حكومت كے علاوہ باقي جوانب اور باقي شعبوں كو شامل ہوسكے ليكن ہمارا واحد ہدف و مقصد انساني ضمير و وجدان كو متوجہ و بيدار كرناتھا كہ يہ احتمال واضح طور پر ضروريات دين يا كم ازكم ضروريات فقہ كے خلاف ہے۔

ب: اس فرض شدہ نقص وعيب كے باري ميں تين احتمالات ممكن ہيں:

پہلا احتمال: ہم فرض كريں كہ شوريٰ كے لئے متعدد نظام اور مختلف صورتيں موجود ہيں اور يہ تمام نظام اور تمام صورتيں تمام ظروف اورتمام زمانوں ميں منطبق ونافذ ہونے كي صلاحيت ركھتے ہيں اسلام نے باقي صورتوں كو چھوڑ كرفقط كسي ايك صورت كو معين نہيں كيا كيونكہ يہ ترجيح بلا مرجح اور الزام بلاملزم(۳۶) ہے كيونكہ شورائي نظام اور دوسري نظاموں مثلا اجتماعي نظام اقتصادي نظام وغيرہ ميں (كہ جن ميں تخيير كا حكم كيا جاسكتا ہے) اہم فرق پايا جاتا ہے اور وہ بنيادي فرق يہ ہے كہ جب اسلام كو ايسي اجتماعي يا اقتصادي مشكل كا سامنا ہو كہ جس كے حل كے لئے دو مساوي اور كارآمد راہ حل اور اسلوب موجود ہوں اور ان دو راہ حل كے درميان تخير بھي ممكن ہو تو اسلام لوگوں كوآزاد چھوڑ ديتا ہے تا كہ ان دو ميں سے كسي ايك اسلوب اوركسي ايك راہ حل كو اختيار كريں اس طرح مذكورہ نقص برطرف ہوجاتا ہے ليكن حكومت، شوريٰ اور راي گيري كے شعبے ميں ممكن نہ تھا كہ مثلا دو معين نظاموں ميں سے كسي ايك كو اختيار كرنے كا حكم ديا جاتا كيونكہ فرض يہ ہے كہ دونوں نظام مشكل كو حل كرنے كي صلاحيت ركھتے تھے يہ اختيار نہ دينے كي وجہ يہ ہے كہ لوگ ان دو ميں سے كسي ايك كو اختيار كرنے ميں اختلاف كرسكتے ہيں جس كا نتيجہ يہ ہوگا كہ ہم ايسے بنيادي راہ حل تك نہيں پہنچ سكيں گے جسكے ذريعہ حكومت كے انحرافات كي اصلاح كي جاسكے يہي وجہ ہے كہ مثال كے طور پر اسلام نے (شورائي نظام كي) دوشكليں معين نہيں كيں تاكہ امت ان دوميں سے كسي ايك كو اختيار كرے بلكہ اسلام نے (شورائي نظام كو) شكل و صورت كے اعتبار سے مبہم ومجمل اور آزادچھوڑا ہے اوراس كي شكل و صورت اوراسكے قوانين كي تعين كا كام لوگوں كے سپرد كيا ہے ۔

ہم اس جواب كو رد كرنے كے لئے فقط اس وضاحت پر اكتفا كريں گے كہ اسلام كے لئے ممكن ہے كہ (مختلف نظاموں اور نظام كي مختلف شكلوں ميں سے) كسي ايك نظام كو معين كرے (اگرچہ ترجيح بلا مرجح كي بنياد پر ہي) اور يہ ايسا امر ہے جو افعال اختيار ي ميں جائز ہے پس خداوند متعال ان نظاموں (جو ساري نظام مشكلات كو حل كرنے كي صلاحيت ركھتے ہيں) ميں سے كسي ايك نظام كو بغير كسي ترجيح كے اختيار كرسكتا ہے تاكہ مندرجہ اشكال وارد نہ ہوسكے نہ يہ كہ اسلام ناقص ہے اور لوگوں كو واحد صحيح اسلوب كي طرف ہدايت نہيں كرسكتا جسكي وجہ سے امت مسلمہ بہتر اور باصلاحيت نظام كي تعيين كے سلسلے ميں اختلافات اور نزاع كا شكار ہوجاتي ہے(۳۷)

دوسرا احتمال: اگر اسلام كے لئے (امت كو) بعض ايسي علامتيں اور خصوصيات عطا كرنا ممكن ہوتاكہ جن خصوصيات اور علامتوں كے ذريعہ تشخيص دي جاسكتي كہ يہ ظرف خاص (شرائط زمان و مكان وغيرہ) فلان نظام كے لئے مناسب ہيں (اور امت ان علامتوں كے ذريعہ نظام كو معين كرتي) تو ايسا كرنا اسلام كے لئے ضروري تھا ورنہ فطري طور پر ہم يہ فرض كرسكتے ہيں كہ ہر ظرف كے لئے اور ہر زمانے (مختلف شرائط) كے لئے نئے رسول كاانا ضروري ہے تاكہ لوگوں كو ايسے دين كي طرف ہدايت كرسكے جو دين موجودہ ظرف (شرائط) كے مطابق ہو يا يہ فرض ممكن ہے كہ اسلام كے خاص وصي اور جانشين كا انتخاب كرے جو اس عظيم خلا پركرسكے ۔

تيسرا احتمال: يہ فرض كيا جائے كہ شوريٰ كے لئے قابل تصور تمام نظام اور تمام صورتيں انسان كو سعادت و خوشبختي سے ہمكنار كرنے سے عاجز و ناتوان ہيں ليكن چونكہ شوريٰ كو (حكومت كي) بنياد اور اساس قرار دينا ہرج و مرج اور شور و غل سے افضل تھا لہذا اسلام نے لفظ ”شوريٰ” كو مطلق چھوڑ ديا اور اس كے لئے كوئي ضابطہ و قاعدہ معين نہيں كيا۔

يہاں پر ہم كہيں گے حقيقت يہ ہے كہ شوريٰ كے تمام نظام (اور تمام صورتيں) بشريت كو حقيقي سعادت و خوشبختي سے ہمكنار كرنے سے عاجز ہيں ليكن اس كا مطلب يہ نہيں كہ اسلام كے پاس صورتحال ميں ايك مبھم اور غير منظم نظام عطا كرنے كے علاوہ كوئي اور راستہ نہيں تھا اسلام كے لئے ضروري تھا كہ نظام شوريٰ سے (اس نظام كي طرف عدول كرتا كہ جس ميں قائد و رہبر معين و منصوص)

خلاصہ كلام: اسلام ايسا نظام تشكيل دينے سے عاجز نہيں تھاكہ جس نظام كو صحيح نافذ كيا جائے تو انسانيت كي سعادت اور خوشبختي كا ضامن ہو اور نہ ہي اسلام نے اس كام ميں سستي و كاہلي كي ہے يقيني طور پر بشريت كي بدبختي و نامرادي كا واحد سبب اس نظام كي تطبيق ونفاذ ميں خود ان كي سستي اور ان كي كوتاہي ہے (اگر تطبيق ميں سستي نہ كرتے تو سعادت مند ہوتے) اور درج ذيل دوآيہ كريمہ اس مطلب كي طرف اشارہ كرتي ہيں: ارشاد رب العزت ہے:( ولو ان اهل القري آمنوا واتقوا لفتحنا علهيم بركات في السماء والارض ولكن كذبوا فاخذناهم بماكانوا يكسبون ) (۳۸)

ترجمہ آيت: اور اگر اہل قريہ ايمان لےآتے اور تقوي اختيار كرليتے تو ہم ان كے لئے زمين واسمان سے بركتوں كے دروازے كھول ديتے ليكن انہوں نے تكذيب كي تو ہم نے ان كو ان كے اعمال كي گرفت ميں لے ليا۔

ايك اور مقام پرخداوندمتعال ارشاد فرماتا ہے:

( وَلَوْ انَّهُمْ اقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَما انزِلَ إِلَيهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَاكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ ارْجُلِهِمْ مِنْهمْ امَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ وَكَثِيرٌ مِنْهمْ سَاءَما يعْمَلُونَ ) ۔(۳۹)

ترجمہ آيت: اور اگر يہ لوگ توريت و انجيل اور جو كچھ ان كي طرف پروردگار كي جانب سے نازل كيا گيا ہے سب كو قائم كرتے تو اپنے اوپر اور قدموں كے نيچے سے رزق خدا حاصل كرتے ان ميں سے ايك قوم ميانہ رو ہے اور زيادہ حصہ لوگ بدترين اعمال انجام دے رہے ہيں۔

تيسرا جواب:

يہ كہا جائے كہ اگرچہ (ابتدائي نظر ميں) نظام شوريٰ مبھم اور غير مشخص معلوم ہوتا ہے ليكن اگر بيشتر غور و خوض كياجائے تو اس نظام ميں پايا جانے والا ابہام برطرف ہوجاتا ہے۔درج ذيل امور كے ذريعہ شورائي نظام ميں پائے جانے والے ابہام كو برطرف كيا جاسكتا ہے:

۴) يہ كہا جائے كہ شوريٰ كي اصل دليل ميں اطلاق(۴۰) پايا جاتا ہے اور دليل ميں پايا جانے والا اطلاق اور عدم تعيين امت كو مكمل اختيار عطا كرتا ہے كہ امت ايك زمانے اور متحد ظروف (شرائط) ميں شورائي نظام كے لئے قابل تصور نظاموں اور مختلف شكلوں ميں سے كسي ايك نظام اور كسي ايك شكل و صورت كا انتخاب كرسكتي ہے۔

اشكال: اس اطلاق كا جواب يعني اس پر (اشكال) واضح ہے كيونكہ اگر امت نظام كو اختيار كرنے ميں اختلاف كرے (كچھ لوگ ايك نظام كو جبكہ كچھ اورلوگ دوسري نظام كو اختيار كريں) تو ہم كيا كريں گے؟ يہي اشكال اور يہي سوال موجب بنتا ہے كہ عرف اس دليل سے وہ اطلاق نہ سمجھے جس كا دعويٰ كيا گيا ہے۔

۵) يہ دعوي كيا جائے كہ شوريٰ كے ذريعہ شورائي نظام كو معين كرنا ممكن ہے۔

اس جواب پر وہي اشكال كيا جائے گا جو گزشتہ جواب پر كرچكے ہيں كيونكہ اگر امت نظام كي اس شكل و صورت كے تعين ميں اختلاف كرے اور آخر كار اس مشكل كے حل كے لئے كوئي راہ حل پيدا نہ كرسكے تو ايسي صورتحال ميں ہمارا موقف كيا ہوگا؟ فرض كريں امت نے اتفاق كرليا كہ (حكومت كے) امور كي باگ ڈور فقہاء كے سپرد كي جائے اور امت نے اسے افضل و بہتر تشخيص دياپھر امت كي اكثريت اور فقہاء كي اكثريت كے درميان امور كي تقسيم كار (فقہاء كے درميان) ميں اختلاف نظر پيدا ہوگيا تو ہم مسلسل امت سے سوال كريں گے كہ اگر ايك ايسا امر (موضوع) ہو كہ جو ايك اعتبار سے (امت كي وسيع تعداد اور وسيع دائري سے منسوب ہو) (اور ايك اعتبار سے يہي موضوع امت كے خاص طبقے اور خاص دائري كي طرف منسوب ہو) تو ايسي حالت ميں آخري فيصلے كے لئے كس مرجع كي طرف رجوع كيا جائے گا اور كس سے راي گيري كي جائے گي (كيا اس وسيع دائري ميں شامل افراد سے يا خاص دائري ميں شامل افراد سے راي لي جائے گى؟)

امت اس سوال كا جواب يہ دے گي كہ ہماري پاس كوئي قاعدہ كليہ اور جامع معيار و ميزان موجود نہيں ہے كہ تمام حوادث و واقعات ميں جس كي طرف رجوع كيا جائے بلكہ ہر مسئلے ميں راي گيري ضروري ہے اور كبھي وسيع دائري كي طرف رجوع كرنے (ان سے راي لينے) ميں بہتري ہوتي ہے جبكہ كبھي كبھار محدود و خاص دائري كي طرف رجوع كرنا بہتر ہوتا ہے (لہذا مسئلہ كي نوعيت كے مطابق راي گيري كي جائے) ہم مسلسل اس مسئلے (فقہاء كے درميان امور كي تقسيم) كے باري (امت سے) راي طلب كريں گے (يعني امت سے سوال كريں گے) كہ كيا اس مسئلے ميں فقط فقہاء سے راي گيري كي جائے؟ يا عمومي راي گيري كي جائے كہ جس كے دائري ميں فقہاء بھي شامل ہوں۔اب اگر امت كي اكثريت اور فقہاء كي اكثريت كے درميان اس مسئلے پر اختلاف نظر ہوجائے تو اس عظيم ہرج ومرج اور شور وغل ميں ہمارا موقف كياہوگا؟

(كيا اكثريت امت كي راي پر عمل كيا جائے يا اكثريت فقہاء كي راي پر؟) اگر امت كے سامنے يہ مشكل (ايك طرف كميت و مقدار كے لحاظ سے رجحان پايا جائے جبكہ دوسري طرف كيفيت كے اعتبار سے) پيش كي جائے كہ (جن دو گروہوں كے درميان اختلاف نظر وجود ميں كيا ہے ان ميں سے) ايك گروہ كے پاس امت كي اكثريت ہے يعني ان كے پاس كميت كے اعتبار سے رجحان اور برتري پائي جاتي ہے جبكہ دوسرا گروہ كيفيت كے اعتبار سے برتري ركھتا ہے اس صورتحال ميں كس كو مقدم كيا جائے؟ (كيا اس گروہ كو مقدم كيا جائے جو كيفيت كے اعتبار سے برتري ركھتا ہے يا اس گروہ كو مقدم كيا جائے جو كميت و مقدار كے اعتبار سے برتري ركھتا ہے) اس مشكل سے نجات حاصل كرنے كے لئے كونسا راستہ اپناياجائے اور اس مسئلے كا راہ حل كيا ہے؟ اسي طرح جب امت كے سامنے ان لوگوں كا مسئلہ پيش كيا جائے جنہوں نے شوريٰ اور راي گيري ميں شركت نہيں كي اور اسي طرح جب يہ مسئلہ مورد بحث قرار ديا جائے كہ ان كا شوريٰ اور راي گيري ميں شركت نہ كرنا كس حد تك نقصان دہ ہے اور امت سے اس مسئلہ پر راي گيري كي جائے ليكن خود اس راي گيري ميں امت كے بعض افراد سستي كرتے ہوئے شريك نہ ہوں تو اس صورتحال ميں كيا موقف اپنايا جائے؟

جب ہم امت سے اس مسئلہ (كيامردوں اور عورتوں ميں سے مستضعف و پسماندہ افراد راي گيري ميں شركت كرسكتے ہيں؟ ان ميں سے كون لوگ مستثنيٰ ہيں يا ملاك و معيار كيا ہے كہ جس كي بنياد پر كسي كو راي گيري ميں شامل كيا جائے جبكہ كسي اور كو راي گيري ميں شامل نہ كيا جائے) كے باري ميں فتويٰ (راي) طلب كرتے ہيں اور پوچھتے ہيں كہ كس سے يعني راي لي جائے؟ كيا ساري امت سے راي لي جائے يا مستضعفين كے علاوہ باقي امت سے؟ اور كسي كو راي گيري سے مستثني كرنے كي حدود و قيود اور ضابطہ كياہے؟

البتہ يہ جانتے ہوئے كہ اگر بعض (مستضعف وغيرہ) افراد كو راي گيري ميں شامل كيا جائے تو نتيجہ كچھ اور ہوگا جبكہ اگر ان كو شامل نہ كيا جائے تو نتيجہ كچھ اور ہوگا؟ !

۶) يہ دعويٰ كيا جائے كہ اگرچہ شورائي نظام خداوندمتعال كے نزديك مبھم و ناقص ہے ليكن ہر زمانے اور ہر مكان ميں مجتہد كو حق حاصل ہے كہ (فقہ اہل سنت كے مشہور مباني)

استحسان، و مصالح مرسلہ(۴۱) كے مطابق اجتہاد كے اس نقصان اور خلا كو پر كرسكے ليكن اگر ايك ہي وقت اور ايك ہي ظرف (شرائط) ميں زندگي گزارنے والے فقہاء كے درميان اختلاف نظر پيدا ہوجائے تو اس صورت ميں ہمارا وظيفہ كيا ہوگا؟ اور اس نظام حكومت كے متعلق كيا موقف اپنائيں گے كہ جس نظام كے بانيوں كے درميان اختلاف پايا جاتا ہے؟ كبھي كبھار اس مشكل كے جواب ميں يہ كہا جاتا ہے كہ ان (اختلاف نظر كرنے والے) تمام فقہاء كي ايك كميٹي بنائي جائے گي اور انہيں كہا جائے گا كہ شورائي نظام (باہمي مشورى) كے ذريعے كسي ايك اجتہاد (نظرئے) پر اتفاق كرليں۔ ليكن مسئلہ يہ ہے كہ ہم دوبارہ اس شوريٰ كي طرف رجوع كررہے ہيں جو خود ابھي تك مبہم و غير معين ہے اور اس كے بنيادي قوانين اور حدود و قيود بھي مشخص نہيں ہيں!! پس اس طرح واضح ہوگيا كہ شوريٰ، راي گيري اور انتخاب كو حكومت كي بنياد و اساس كے طور پر قبول كرنے والوں كي تمام دليلوں پر اعتراض و اشكال وارد ہيں۔

كيونكہ اگر واقعا ًرسول خدا اپنے بعد امت كو اپنے امور چلانے كے لئے شوريٰ كے ذريعہ حكومت كے انتخاب كي طرف اشارہ و ہدايت كرنا چاہتے توانحضرت پر لازم تھا كہ (حكومت كي) اس بنياد و اساس كي مختلف شقوں اور اس كے مختلف نظاموں كي تفصيلات بيان فرماتے اگر واقعاًائمہ معصومين عليہ السلام كاہدف يہ تھا كہ زمانہ غيبت ميں شيعوں كو شوريٰ اور انتخاب كي طرف رہنمائي كريں تو ان پر ضروري تھا كہ شيعوں كے لئے شوريٰ كے مختلف نظاموں اور شوريٰ كے مختلف بندوں كي تشريح كرتے اور تفصيلات و جزئيات بيان كرتے۔

(ان سب اعتراضات كے باوجود) ہم شوريٰ كي اہم دليلوں كو ذكر كرتے ہيں تاكہ ديكھا جاسكے كہ كيا يہ دليليں اشكال و اعتراض سے سالم و محفوظ ہيں يا نہيں؟ اگر ہم گزشتہ عمومي اشكالات سے چشم پوشي كرليں؟

كتاب وسنّت سے شوريٰ كے دلائل

جب وادي تشيع ميں شوريٰ كے متعلق بحث كي جاتي ہے (تو چونكہ حكومت كي شكل و صورت كے بارے ميں بحث زمانہ غيبت ميں ہے) تو ہم ابتداء ہي سے روايات شوريٰ سے ان بعض روايات كو مستثنيٰ كرديتے ہيں جن سے ظاہر ہوتا ہے كہ حتي ائمہ معصومين عليہ السلام كے زمانہ حضور ميں بھي امامت يا قيادت و رہبري كي تعيين انتخاب اور شوري كي بنيادپر ہے گويا حضرت علي عليہ السلام كي امامت كي تكميل بھي شوريٰ اور انتخاب كے ذريعہ ہوئي بطور نمونہ حضر ت علي عليہ السلام كا وہ قول ہے جو نہج البلاغہ ميں حضرت كي طرف سے معاويہ كے نام خط ميں كيا ہے:

(جن لوگوں نے ابوبكر، عمر، اور عثمان كي بيعت كي تھي انہوں نے ميري ہاتھ پر اسي اصول كے مطابق بيعت كي جس اصو ل پر وہ ان كي بيعت كرچكے تھے اوراس كي بنا پر جو حاضر ہے اسے پھر نظر ثاني كا حق نہيں اور جو بروقت موجود نہ ہو اسے رد كرنے كا اختيار نہيں اور شوريٰ كا حق صرف مہاجرين و انصار كو ہے وہ اگر كسي پر ايكا كريں اوراسے خليفہ سمجھ ليں تو اسي ميں اللہ كي رضا و خوشنودي سمجھي جائے گي)) ۔(۴۲)

نصربن مزاحم نےحضرت علي عليہ السلام كي يہي عبارت اپني كتاب (وقعۃ صفين)(۴۳) ميں ان الفاظ كے اضافے كے ساتھ نقل كي ہے (اما بعد فان بيعتي لزمتك و انت بالشام، لانه بايعني القوم الذين بايعو ابابكر و عمر و عثمان )

(امابعد (اے معاويہ) با وجوديہ كہ تم شام ميں ہو ميري بيعت تم پر بھي لازم ہے كيونكہ انہي لوگوں نے ميري بيعت كي جنہوں نے ابوبكر وعمر و وعثمان كي بيعت كي تھي)

نصر بن مزاحم كي كتاب ميں معاويہ كے نام حضرت علي عليہ السلام كے خط ميں كيا ہے۔

(اما قولك ان اهل الشام هم الحكام علي اهل الحجاز فهات رجلا من قريش الشام يقبل في الشوريٰ او تحل له الخلافة فان زعمت ذلك كدبك المهاجرون والانصار )(۴۴)

(تمہارا يہ كہنا كہ اہل شام حجاز پر حكمران ہيں تو (اس كا جواب يہ ہے كہ) قريش شام ميں سے كوئي ايسا فرد لاؤ جسے شوريٰ قبول كرلے يا اس كے لئے خلافت حلال ہو اگر تمہارا اپنا يہ گمان ہے تو تمہيں مہاجرين و انصار نے جھٹلاديا ہے۔۔۔)

نہج البلاغہ ميں امير المومنين كا ارشاد ہے: (ايها الناس ان احق الناس بهذا الامر اقواهم عليه و اعلمهم بامر الله فيه فان شغب شاغب استعتب فان ابي قوتل و لعمري لئن كانت الامامة لاتنعقد حتي يحضرها عامة الناس فما الي ذلك سبيل ولكن اهلها يحكمون علي من غاب عنها ثم ليس للشاهد ان يرجع ولاللغائب ان يختار )(۴۵)

اے لوگو! تمام لوگوں ميں اس خلافت كازيادہ اہل وہ ہےجواس (كے نظم و نسق كو برقرار ركھنے) كي سب سے زيادہ قوت ركھتا ہو اور اسكے باري ميں اللہ كے احكام كو سب سے زيادہ جانتا ہو اس صورت ميں اگر كوئي فتنہ پرداز فتنہ كھڑا كرے تو (پہلے) اسے توبہ و بازگشت كےلئے كہا جائے گا اگر وہ انكار كرے تو اس سے جنگ و جدال كيا جائےگا۔اپني جان كي قسم! اگر خلافت كا انعقاد تمام افراد امت كے ايك جگہ اكھٹا ہونے سے ہوتو اسكي كوئي سبيل ہي نہيں بلكہ اسكي صورت تو انہوں نے يہ ركھي تھي كہ اسكے كرتا دھرتا لوگ اپنے فيصلہ كا ان لوگوں كو بھي پابند بنائيں گے جو بيعت كے وقت موجود نہ ہوں گے پھر موجود كو يہ اختيار نہ ہوگا كہ وہ (بيعت سے) انحراف كرے اور نہ غير موجود كو يہ حق ہوگا كہ وہ كسي اور كو منتخب كرے۔

مولف:

اس قسم كي روايا(۴۶) (حتي اگر سند كے اعتبار سے ان كي حالت سے چشم پوشي كرلي جائے) اس بحث ميں شامل نہيں ہوں گي جو شيعہ زمانہ غيبت ميں نظام حكومت كے متعلق كرتے ہيں كيونكہ شيعہ پہلے ہي روايات اور قطعي دلائل كے ذريعہ ثابت كرچكے ہيں كہ امام معصوم كے حضور كے زمانے ميں امامت و حكومت كي سربراہي نص صريح كے ذريعہ معين انسان كے لئے ثابت ہوچكي ہے اور وہ معين انسان امام معصوم عليہ السلام ہے ۔

مكتب شيعہ ميں فقط حكومت كي شكل و صورت اور اس امر كے باري ميں بحث كي جاتي ہے كہ زمانہ غيبت ميں (حكومت كا سربراہ) كس كا نائب ہوتا ہےكيا وہ زمانہ غيبت ميں حكومت كے حقيقي سربراہ يعني امامعليہ السلام معصوم كا نمائندہ ہوتا ہے۔

البتہ ان روايات كو دو ميدانوں ميں بحث كرتے وقت پيش كيا جاسكتا ہے:

۱) نظام حكومت كے متعلق اہل سنت كي بحث كے ميدان ميں۔

۲) رسول خدا كي وفات كے بعد امامت كے سلسلے ميں شيعہ و سني بحث كے ميدان ميں كہ كيا (رسول خدا كے بعد) امامت نص كے ذريعہ سے ثابت يا انتخاب كے ذريعے؟ ہم نے يہ كتاب رسول خدا كے زمانے كے بعدكے لئے نہيں لكھي كہ بلافاصلہ رسول خدا كے زمانے كے بعد حكومت كي بنياد كيا ہے يہ ايك تفصيلي بحث ہے كہ جس كے متعلق كتابيں لكھي جاچكي ہيں اور بحث و گفتگو كي جاچكي ہے۔ليكن يہاں پر ہم يادآوري كرائيں گے كہ يہ روايات ان عمومي اشكالات سے محفوظ نہيں ہيں جن كے متعلق ہم تفصيلي وضاحت كرچكے ہيں۔اگر رسول خدا نے اپني وفات كے بعد امت كے مستقبل ميں مثبت دخالت كي ہوتي توفطري طور پر ہم ديكھتے كہ حضرت نے امت كے لئے اس نظام (شورائي نظام) كے قواعد و ضوابط اور راہنما اصول تفصيل كے ساتھ بيان كئے ہيں ليكن اس سلسلے ميں انحضرت كےسكوت اختيار كرنے كا مطلب يہ ہے كہ انحضرت امت كے مستقبل اوردين حنيف كے مستقبل كے لئے كسي قسم كي اہميت كےقائل نہيں تھےاور يہ ايسي چيز ہے كہ مسلمان انحضرت كے متعلق اس كا احتمال بھي نہيں دے سكتا۔

ساتھ امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوا ہے كہ آپنے فرمايا: جس نے مسلمانوں كي جماعت سے جدائي اختيار كي اور امام كي بيعت كو توڑ ڈالا قيامت كے دن خدا كي بارگاہ ميں جزام كي بيماري ميں مبتلا حاضر ہوگااصول كافي جلد۱ ص ۴ ۰ ۵بحارالانوار جلد ۲۷ص ۷۲ اس طرح كي روايات كو تقيہ پر حمل كيا جائے گكيا صدور كے اعتبار سے تقيہ يا بہ اين معني كہ جماعت كے ساتھ نبھا كرنے كا حكم تقيہً صادر ہواہے ۔

(اس چيز كا انحضرت كے حق ميں احتمال دينا كسي مسلمان كے لئے سزاوار و شايستہ نہيں ہے) اس بناپر مذكورہ روايات (اگر سند كے اعتبارسے بھي صحيح ہوں) توانھيں ہماري نزديك اس معني پر حمل كيا جائے گا كہ اميرالمومنين عليہ السلام اپنے مخالفين سے مخاطب تھے اور ان كے سامنے ان كے مورد قبول معياروں كے مطابق احتجاج كررہے تھے اور انہيں اس چيز كا م پابند بنا رہے تھے جس چيز كے وہ خود ملتزم اور پابند تھے۔

اور انہيں ان چيزوں كے ذريعے ملتزم بنا رہے تھے جنكے وہ خود ملتزم تھے اميرالمومنين عليہ السلام (امت كي مصلحت كي خاطر) نيچےآئے جب وہ لوگ نيچےآئے اور اوپر گئے جب وہ لوگ اوپر گئے جيسا كہ مشہور ومعروف خطبہ شقشقيہ ميں اميرالمومنين عليہ السلام كاقول ہے

فيالله وللشوريٰ حتي اعترض الريب في مع الاول منهم حتي صرت اقرن الي هذه النظائر لكني اسففت اذا اسفوا و طرت اذ طاروا ۔

(اے اللہ مجھے اس شوريٰ سے كيا لگاؤ؟ ان ميں سے سب سے پہلے كے مقابلے ہي ميں ميري استحقاق و فضيلت ميں كب شك تھا جواب ان لوگوں ميں ميں بھي شامل كرليا گيا ہوں مگر ميں نے يہ طريقہ اختيار كيا تھا كہ جب وہ لوگ زمين كے نزديك پرواز كرنے لگيں تو ميں بھي ايسا ہي كرنے لگوں اور جب وہ اوپر ہوكر اڑنے لگيں تو ميں بھي اسي طرح پرواز كروں يعني حتي الامكان كسي نہ كسي صورت سے نباہ كرتا رہوں)(۴۷)

شوريٰ كے لئے بہترين دليل دوآيات كريمہ ہيں:

پہلي آيت:

( فَبِما رَحْمَةٍ مِنْ اللهِ لِنْتَ لَهمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاستَغْفِرْلَهُمْ وَشَاورهُمْ فِي الْامْرِ فَاِذَاعَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللهِ ان اللهَ يحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ ) ۔(۴۸)

پيغمبريہ اللہ كي مہرباني ہے كہ تم ان لوگوں كے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو يہ تمہاري پاس سے بھاگ كھڑے ہوتے لہذا اب انہيں معاف كردو ان كے لئے استغفار كرو اور ان سے امر ميں مشورہ كرو اورجب ارادہ كر لو تو اللہ پر بھروسہ كروكہ وہ بھروسہ كرنے والوں كو دوست ركھتا ہے۔

دوسري آيت:

( فَما اوتِيتُمْ مِنْ شَيءٍ فَمَتَاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا وَما عِنْدَ اللهِ خَيرٌ وَابْقَي لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَي رَبِّهِمْ يتَوَكَّلُونَ وَالَّذِينَ يجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَاِذَاما غَضِبُوا هُمْ يغْفِرُونَ وَالَّذِينَ استَجَابوا لِرَبِّهِمْ وَاقَامُواالصَّلاَةَوَامْرُهُمْ شُورَي بَينَهمْ وَمِمارَزَقْنَاهُمْ ينْفِقُونَ وَالَّذِينَ اِذَااصَابهُمْ الْبَغْي هُمْ ينْتَصِرُونَ ) (۴۹)

(پس تم كو جو كچھ بھي ديا گيا ہے وہ زندگاني دنيا كا چين ہے اور بس جو كچھ اللہ كي بارگاہ ميں ہے وہ خير اور باقي رہنے والا ہے ان لوگوں كے لئے جو ايمان ركھتے ہيں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ كرتے ہيں اور بڑے بڑے گناہوں اور فحش باتوں سے پرہيز كرتے ہيں اور جب غصہ آجاتا ہے تو معاف كرديتے ہيں اور جو اپنے رب كي بات كو قبول كرتے ہيں اور نماز قائم كرتے ہيں اور آپس كے معاملات ميں مشورہ كرتے ہيں اور ہماري رزق ميں سے ہماري راہ ميں خرچ كرتے ہيں اور جب ان پر كوئي ظلم ہوتاہے تو اس كا بدلہ لے ليتے ہيں)

متعدد روايات بھي موجود ہيں جو شوريٰ كي ترغيب دلاتي ہيں ان روايات كي غالب اكثريت يا تمام كي تمام روايات اگرچہ سند كے اعتبارسے ضعيف ہيں ليكن تواتراور استفاضہ(۵۰) كي حد تك پہنچي ہوئي ہيں ان روايات كي كثير تعداد كتاب (وسائل الشيعہ) كے (ابواب احكام العشرۃ)(۵۱) ميں موجود ہے ان ميں سے كچھ روايات درج ذيل ہيں:

۱)عن ابي هريره قال: سمعت ابا القاسم يقول: استرشد واالعاقل ولا تعصوه فتندموا ۔(۵۱) ابوھريرہ نقل كرتے ہيں كہ ميں نے اباالقاسم (رسول خدا) صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے سنا كہ آپ فرمارہے تھے”عاقل سے رہنمائي حاصل كرواوراسكي مخالفت نہ كرو ورنہ پشيماني كا سامنا كرنا پڑے گا”

۲)عن ابن القداح عن جعفر بن محمد عن ابيه عليه السلام قال قيل يا رسول الله ماالحزم؟ قال مشاورة ذوي الراي و اتباعهم (۵۳)

ابن قداح سے انہوں نے جعفر بن محمد سے انہوں نے اپنے والد گرامي (امام باقر عليہ السلام) سے نقل كيا ہے كہ آپنے فرمايا: ”پوچھاگيا يا رسو ل اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پائيداري و استحكام (دورانديشي) كيا ہے؟ آپنے فرمايا: صاحبان نظر اورصاحبان راي سے مشورہ كرنا اور (ان كے مشورى كي) پيروي كرنا۔”

۳)عن السري بن خالد عن ابي عبدالله عليه السلام قال: فيما اوصي به رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم عليا عليه السلام قال: لامظاهره اوثق من المشاورة ولاعقل كالتدبير (۵۴)

سري ابن خالد سے اورانہوں نے امام صادق عليہ السلام سے نقل كيا ہے كہ آپنے فرمايا: ”جن چيزوں كے باري ميں رسول خدا نے علي عليہ السلام كو نصيحت و سفارش فرمائي (ان ميں سے ايك يہ ہے كہ) آپنے فرمايا مشورى سے بڑھ كر كوئي چيز پشت كو مضبوط نہيں بناتي اور كوئي عقل و خرد تدبير كي مانند نہيں”

۴)عن ابي الجارود عن ابي جعفر عليه السلام قال: في التوراة اربعة اسطر من لا يستشريندم، والفقر الموت الاكبر، كما تدين تدان ومن ملك استاثر

ابي الجارود سے اورانہوں نے امام باقرعليہ السلام سے نقل كيا ہے كہ آپنے فرمايا: (تورات ميں چار سطريں موجود ہيں۔۔جو مشورہ نہيں كرے گا وہ پشيمان ہوگا فقر و تنگدستي بڑي موت ہے جيسا كرو گے ويسا بھرو گے جومالك بنا اس نے اپنے لئے جمع كيا)(۵۵)

۵)عن سماعة بن مهران عن ابي عبدالله عليه السلام قال: قال لن يهلك امرء عن مشورة (۵۶)

سماعۃ بن مھران سے اور انہوں نے امام صادق عليہ السلام سے نقل كيا ہے كہ آپنے فرمايا ” مشورہ كي وجہ سے كوئي شخص ہلاك نہيں ہوگا”

۶)عن معمر بن خالد قال: هلك مولي لابي الحسن الرضا يقال له سعد فقال له: اشر علي برجل له فضل و امانة فقلت: انا اشير عليك! فقال شبه المغضب: ان رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم كان ليستشير اصحابه ثم يعزم علي مايريد (۵۷)

معمر بن خالد سے نقل ہوا ہے وہ كہتے ہيں امام رضا عليہ السلام كا غلام ہلاك ہوا جسے سعد كہا جاتا تھا حضرت نے اسے فرمايا: ”ايسے شخص كي نشاندہي كرو جو بافضيلت اورامانت دار ہو ميں نے كہا: ميں آپ عليہ السلام كے لئے نشاندہي كروں؟ ! آپنے غصے كي حالت ميں فرمايا: رسول خدا اپنے اصحاب سے مشورہ كيا كرتے تھے اور پھر جو چاہتے تھے اس كو انجام دينے كا فيصلہ كرتے تھے”

۷)عن نهج البلاغه عن اميرالمومنين انه قال لعبدالله بن عباس و قد اشار في شي لم يوافق رايه: عليك ان تشير علي فاذا خالفتك فاطعني (۵۸)

نہج البلاغہ ميں امير المومنين عليہ السلام سے نقل ہوا ہے جب ابن عباس نے كسي چيز كے متعلق آپكو مشورہ ديا ليكن آپ ابن عباس كي راي (مشورى) سے موافق نہ تھےآپنے عبداللہ ابن عباس كو فرمايا: تمہارا كام يہ ہے مجھے مشورہ دو اور اگر ميں تمہاري مخالفت كروں (اس مشورى ميں) تو تم ميري اطاعت كرو۔

۸)عن علي بن مهزيار قال: كتب الي ابوجعفر ان سل فلانا ان يشير علي و يتخير لنفسه فهو اعلم بما يجوز في بلده و كيف يعامل السلاطين فان المشورة مباركة قال الله لنبيه في محكم كتابه) و شاور هم في الامر فاذا عرفت فتوكل علي الله) فان كانمايقول مما يجوز كتبت اصوب رايه و ان كان غير ذلك رجوت ان اضعه علي الطريق الواضح انشاء الله وشاور هم في الامرقال يعني الاستخاره ۔(۵۹)

ابن مھزيار نقل كرتےہيں كہ مجھے امام باقر عليہ السلام نے خط لكھا اور فرمايا: فلاں شخص سے كہو مجھے مشورہ دے اور اپنے لئے اختيار كرے كيونكہ وہ اپنے ملك كے حالات سے (دوسروں كي نسبت) زيادہ آگاہ اور باخبر ہے اور وہ بہتر جانتا ہے كہ حكمرانوں كے ساتھ كيا رويہ اور كيا سلوك اپنانا چاہيئے مشورہ ايك بابركت چيز ہے خداوندمتعال نے اپني محكم كتاب قران مجيد ميں اپنے نبي سے فرمايا: ”اور ان سے امر ميں مشورہ كرو اور جب ارادہ كرلو تو پھر اللہ پربھروسہ كرو۔اور جو كچھ وہ كہے گا اگر جائز ہوا تو ميں خط لكھ كراسكي تائيد كروں گا اور اگر اس نے ناجائز امر كا مشورہ ديا تو مجھے اميد ہے كہ انشاء اللہ اسے واضح راستے پرگامزن كروں گا۔اور شاورھم في الامريعني ان سے امر ميں مشورہ كرو (كے باري) ميں فرمايااسكا مطلب ہے طلب خير۔

۹)عن سليمان بن خالدقال سمعت ابا عبدالله يقول: استشر العاقل من الرجال الورع فانه لكيامر الا بخير و كياك والخلاف فان مخالفة الورع العاقل مفسدة في الدين والدنيا ۔(۶۰)

سليمان بن خالد سے نقل ہوا ہے كہ ميں نےامام صادق عليہ السلام سے سنا: باتقوي لوگوں ميں سے عقلمند شخص سے مشورہ كرو وہ فقط نيكي اور خير ہي كا حكم ديتا ہے خبردار اس كي مخالفت نہ كرنا كيونكہ باتقوي اورعاقل كي مخالفت ميں دين و دنيا كي خرابي اور فساد ہے۔

۱۰)عن منصور بن حازم عن ابي عبدالله قال: قال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم مشاورة العاقل الناصح رشدو يمن و توفيق من الله فاذا اشاره عليك الناصح والعاقل فكياك والخلاف فان في ذلك العلب ۔(۶۱)

منصور ابن حازم نے امام صادق عليہ السلام سے نقل كيا ہے كہ آپنے فرمايا: رسول خدا نے فرمايا"عاقل و ناصح (خيرخواہ) سے مشورہ كرنے ميں رشد و ہدايت اور خير و بركت ہے اس سے توفيق خداوندي حاصل ہوتي ہے جب عاقل و خير خواہ كوئي مشورہ دے تو خبردار اس كي مخالفت نہ كرنا كيونكہ اس (مخالفت) ميں خرابي اور فساد ہے"

۱۱)عن الصدوق باسناده عن اميرالمومنين في وصية لمحمد بن حنفيه قال: اضمم آراء الرجال بعضها الي بعض ثم اختر اقربها من الصواب و ابعدها من الارتياب (الي ان قال) قد خاطر بنفسه من استغنيٰ برايه و من استقبل الاوجوه آراء عرف مواضع الخطاء (۶۲)

شيخ صدوق نے اپني سن كے ساتھ نقل كيا ہے كہ حضرت علي عليہ السلام نے محمد ابن حنفيہ كے نام اپني وصيت ميں فرمايا: مختلف آراء كوايك دوسري كےساتھ ضميمہ كروپھران ميں سےايسي راي كا انتخاب كروجو شك و ريب سے زيادہ دور اورحقيقت سے زيادہ قريب ہو جس نے اپني راي پہ اكتفاء كيا اس نے اپنےآپكو خطري ميں ڈالا اور جس نے مختلف آراء كي طرف رجوع كيا اس نے خطا و لغز ش كے موارد كو پہچان ليا"يہاں پراہل سنت كي نبوي روايات كے كچھ نمونے ذكر كرنا نامناسب نہيں ہيں۔اورميں اس سلسلے ميں انہي روايات پراكتفاء كروں گاجن كي جمع آوري قحطان عبدالرحمن الدوري نے اپني كتاب (الشوريٰ بين النظريہ والتطبيق) ميں كي ہے(۶۳)

روايات اہل سنت

۱)المستشار مؤتمن جس سے مشورہ طلب كيا جاتا ہےوہ قابل اعتماد اورقابل اطمينان ہے۔

۲)المستشار مؤتمن فاذا استشير فليشر بما هو صانع لنفسه جس سے مشورہ كيا جاتا ہے وہ قابل اطمينان ہے پس جب اس سے مشورہ كيا جائے تو اسے ايسا مشورہ دينا چاہيے جسے اپنے لئے مفيد اور سود بخش سمجھتا ہو۔

۳)اذا كان امراء كم خياركم و اغنيائكم سمحائكم و اموركم شوريٰ بينكم فظهر الارض خير لكم من بطنها، واذا كان امراء كم اشراركم و اغنيائكم بخلاء كم و اموركم الي نسائكم فبطن الارض خيرلكم من ظهرها ۔ جب تمہارے حكمران تمہارے نيك وصالح افراد ہوں تمہارے مالدار و ثروتمند افراد تمہارے سخاوت مند افراد ہوں اور تمہارے امور شورے (مشورہ) كے ذريعہ انجام پائيں تو تمہارے لئے زمين كي پشت زمين كے بطن سے بہتر ہے(۶۴) ليكن اگر تمہارے حكمران تمہارے برے افراد ہوں، مالدار بخيل لوگ ہوں، اور تمہارے امور عورتوں كے مشورہ سے انجام پائيں تو تمہارے لئے زمين كا بطن زمين كي پشت سے بہتر ہے۔

۴)اذا استشار احدكم اخاه فليشر عليه جب تم ميں سے كوئي شخص اپنے (مسلمان) بھائي سے مشورہ طلب كرے تو اسے مشورہ دينا چاہيئے۔

۵)قال الزهرى: قال ابوهريره: ما رايت احدا اكثر مشورة لاصحابه من رسول الله، و في المبسوط للسرخسى: حتي انه كان ليستشير هم في قوت اهله و ادامهم

زھري كہتا ہے ابوہريرہ نے كہا ميں نے كسي شخص كو رسول خدا سے زيادہ اپنے اصحاب كے ساتھ مشورہ كرنے والا نہيں پايا سرخسي كي كتاب المبسوط ميں ہے يہاں تك كہ رسول خدا اپنے اہل و عيال كے كھانے پينے كي اشياء كے باري ميں بھي اصحاب سے مشورہ كيا كرتے تھے۔

۶)ماخاب من استخار ولا ندم من استشار، ولاعال من اقتصد

جس نے استخارہ (طلب خير) كيا وہ پشيمان نہيں ہوگا جس نے مشورہ كيا وہ نادم و شرمندہ نہيں ہوگا اورجس نے ميانہ روي اپنائي وہ فقير و تنگدست نہيں ہوگا۔

۷)من استشاره اخوه فاشار عليه بغير رشده فقد خانه

اگر كسي سے اس كے بھائي نے مشورہ كيا اوراس نے درست مشورہ نہيں ديا تو اس نے اپنے بھائي سے خيانت كي۔

۸)مايستغنيٰ رجل عن مشوره ۔۔۔كوئي شخص بھي مشورى سے بے نياز نہيں ہے۔

۹)من اراد امرا فشاور فيه و قضيٰ هدي لارشد الامور

جس نے كسي كام كا ارادہ كيا (اور اسے انجام دينے سے پہلے) مشورہ كيا اور (مشورى كے بعداس كام كو) انجام دينے كا فيصلہ كيا تو اسے درست ترين امر كي طرف ہدايت ملي۔

۱۰)لمانزلت وشاورهم في الامر”قال رسول الله: اما ان الله و رسوله لغنيان عنها ولكن جعلها الله تعالي رحمة لامتى، فمن استشار منهم لم يعدم رشدا و من تركها لم يعدم غيا ۔

جب آيہ مباركہ ”وشاور هم في الامر " نازل ہوئي تو رسول خدا نے فرمايا: خدا و رسول مشورہ سے بے نياز ہيں ليكن خداوندمتعال نے امت پر لطف و كرم كرتے ہوئے مشورہ قرار ديا ہے (اسكا حكم ديا ہے) پس امت ميں سے جو لوگ مشورہ كريں گے وہ رشد و ہدايت پائيں گے اور امت ميں سے جو لوگ مشورہ كو ترك كريں گے وہ گمراہ ہوں گے ۔

درحقيقت حكومت اسلامي كا قيام ايك ناگزير حقيقت ہے اور (جيسا كہ ہم اشارہ كر چكے ہيں) حكومت اسلامي كا قيام ممكن نہيں مگر وسيع ولايت (حق حاكميت) كے ذريعہ جو خداوندمتعال حكمران كميٹي يا شخص حاكم كو عطا فرماتا ہے اور اس ولايت كا دائرہ ان تمام اقدامات اور تصرفات كو شامل ہے جن كے بغير حكومت كا قيام ممكن نہ ہو مثلا:

(۱) قاصر كي ملكيت ميں تصرف(۶۵)

(۲) گناہكاروں (نافرمانوں) كو تنبيہ كرنا ۔

(۳) مختلف پروگراموں اور منصوبوں كا نفاذ، شرعي قوانين كا نفاذ (اگرچہ يہ كام ان افراد كو مجبور كرنے كے ذريعہ انجام پائے جو اختياري صورت ميں ان قوانين كو قبول نہيں كرتے)

(۴) شككيات كا فيصلہ۔

(۵) جہاں پر متفقہ (قومي) موقف كي ضرورت ہووہاں پر متفقہ (قومي) موقف اپنانا جيسے جہاد وغيرہ (كہ جس كے لئے قومي اتفاق راي كي ضرورت ہوتي ہے)

(۶) بہت سے موارد ميں بعض ايسے امور كو لازمي قرار دياجاتا ہے جو ابتدائي طور پر يعني عنوان اولي(۶۶) كے تحت ضروري نہيں ہوتے يعني وہ امور ذاتا اور حكومتي احكام سے قطع نظر لازمي و ضروري نہيں تھے اور اسي طرح اس ولايت (حق حكمراني)(۶۷) كے نتيجے ميں بعض امور جائز قرار پاتے ہيں جبكہ عنوان تحت اولي كے تحت وہ امور ناجائز تھے۔(۶۸)

شوريٰ كوحكومت كي بنياد و اساس قرار دينے كے متعلق بحث كو اس نكتے پر مركوز ہونا چاہيے كہ كيا شوريٰ كے دلائل سے يہ بات ثابت كي جاسكتي ہے كہ شوريٰ اس وسيع و عريض (حق حكمراني) كا سرچشمہ اور بنياد بن سكتي ہے يا نہيں؟

ہم كہيں گے ابتدائي طور پر مسئلہ شوري كے متعلق تين احتمالات ديے جاسكتے ہيں:

پہلا احتمال

يہ دعوي كيا جائے كہ شوريٰ (حاكم كو) شرعي تسلط اور ولايت عطا كرتي ہے اگر شوريٰ كے ذريعہ كسي فرد واحد ياچند افراد پر مشتمل كميٹي كو ولي بنايا جائے تو اس فرد يا كميٹي كے لئے اس حد تك ولايت ثابت ہوجائے گي جس حد كو شوريٰ مقرركرے گي۔ اگر كسي حكم پر شوريٰ قائم ہوجائے ۔اور اكثريت اس كي تائيد كردے تو يہ حكم نافذ ہوجائے گا حتي ان موارد ميں بھي (يہ حكم نافذ ہوگا) جہاں پر شخص كے نزديك ثابت شدہ حكم، واجب لازمي ظاہري كے مفاد كے خلاف ہو (اس حكم سے قطع نظر فرد كے نزديك اس حكم كا واجب لازمي ظاہري ہونا ثابت ہو)(۶۹)

شوريٰ كے ذريعے تعيين شدہ ولي سزا و جزا سے متعلق قوانين اور ان كے علاوہ دوسري ايسے قوانين كے نفاذ پر قادر ہوتا ہے جن كا نفاذ فقط ولي پر واجب ہے دوسروں پر واجب نہيں جس طرح ولي كے لئے يہ بھي ممكن ہے كہ ان اجتماعي امور (زندگي كے مختلف شعبے) پر نظارت كرے كيونكہ ان امور كے نقائص كو فقط ولايت (ولي فقيہ) ہي كے ذريعے برطرف كيا جاسكتا ہے۔

المختصرشوريٰ كے لئے ممكن ہے كہ ولي كے لئے ولايت مطلقہ كے تمام شعبوں (تمام جہات) كو ثابت كرے۔

دوسرا احتمال

يہ دعوي كيا جائے كہ جب شوريٰ ايك خاص راستے پر حركت كرنے كو لازمي قرار دے تو يہ حكم سب كے لئے لازم الاجراء ہے (حتي اس شخص كے لئے بھي لازم ہے جس كي شخصي راي كے مخالف ہو اور اگر شوريٰ نہ ہوتي تو وہ شخص اس حكم كو اپنے لئے لازمي نہ سمجھتا) اس طرح شوريٰ كا نتيجہ يہ ہوگا كہ جواز، وجوب ميں بدل جائے گا جبكہ شوريٰ قادر نہيں كہ ولي كے لئے اتني وسيع حد تك ولايت مطلقہ كي تمام جہات كو ثابت كرے ۔ اس كي وضاحت يوں ممكن ہے: شوريٰ كي دليل سے يہ نہيں سمجھا جاتا كہ شوريٰ اتني وسيع حد تك (ولي كو) ولايت عطا كرنے كا حق ركھتي ہے بلكہ شوريٰ كي دليل كا لب و لہجہ وہي ہے جو نذر، عہد، يمين، شرط اورعقد كو لازم الوفاء قرار دينے والي دليل كا لب ولہجہ اور انداز ہے ۔ مندرجہ بالا امور (نذر، عہد) جواز كے دائري ميں واجب الوفاء ہيں(۷۰)

جب يہ امور جائز ہوں گے تو الزام متصور نہيں ہوگا (لہذا مندرجہ بالا امور (نذرو عہدو۔۔) كے ذريعہ ضروري قرار پائيں گے) جبكہ شورائي احكام اس قانون كے خلاف ہيں يعني شوريٰ كے احكام كا دائرہ جائز امور تك محدود نہيں بلكہ الزامي امور كو بھي شامل ہوتا ہے (اگرچہ حكم ظاہري كے طور پر) يہ دعويٰ (اگر صحيح ہو) تو ہميں اسلامي حكومت كي تاسيس كے ميدان ميں بے نياز نہيں كرتا ايسي اسلامي حكومت جو تمام اجتماعي خلاؤں كو پر كرتي ہے ۔ اسلامي حكومت (چنانچہ ہم كہہ چكے ہيں) كا قيام اس وسيع ولايت كے ثبوت پر موقوف ہے جس كي طرف ہم اشارہ كرچكے ہيں اور اتني محدود ولايت اسلامي حكومت كي تاسيس كے لئے بنياد و اساس قرار نہيں پاسكتي جس كے ذريعے فقط جواز كو وجوب ميں تبديل كيا جاسكے۔

تيسرا احتمال

شوريٰ فقط ايك روش ہے جس كے ذريعے دوسروں كي آراء وافكار، تجربات اور نظريات سے استفادہ كيا جاتا ہے، شوريٰ (كے فيصلوں) ميں ولايت، تسلط اور كسي كام پر التزام نہيں پايا جاتا (شوريٰ كسي امر كو لازم قرار نہيں ديتي) (يعني شوريٰ كے نتيجے ميں وسيع و عريض ولايت حاصل نہيں ہوتي)

چنانچہ پہلے احتمال كے مطابق شوريٰ كے احكام لازمي طور پر واجب ہوتے ہيں يہاں تك كہ شوريٰ كے ذريعے يہ ولايت بھي حاصل نہيں ہوتي كہ جس كے ذريعہ جواز كو وجوب تبديل كرديا جائے جب كہ دوسري احتمال ميں (شوريٰ كے ذريعہ) اس حد تك ولايت حاصل ہوتي ہے۔

اس طرح كي چيز (اس طرح كي شوريٰ) كے لئے كسي صورت ميں بھي حكومت اسلامي كي اساس و بنياد تشكيل نہيں دے سكتي خصوصا اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے جس كي وضاحت گزر چكي ہے كہ سب سے پہلے حكومت ولايت كي محتاج ہے اور فرض يہ ہے كہ يہ شوريٰ (اس معني كے ساتھ) حكومت كو ولايت عطا نہيں كرسكتي پس اس طرح واضح ہوگيا كہ شوريٰ فقط اس صورت ميں حكومت اسلامي كي بنياد و اساس تشكيل دے سكتي ہے جب ہم سہ گانہ احتمالات ميں سے پہلے احتمال كو معين كرسكيں اور اس احتمال كو دلائل كے ذريعہ ثابت كرسكيں۔

(اگر) شوريٰ كے دلائل كامل ہوں تو ولايت فقيہ كے دلائل سے ان كا رابطہ اور ان كي نسبت ہميں معلوم ہے كيونكہ ايسے دلائل موجود ہيں جو تصريح كرتے ہيں كہ ولايت مطلقہ فقط خداوند متعال كے لئے خدا كے بعد رسول خدا كے لئے (اور شيعہ عقيدے كے مطابق) رسول كے بعد امام معصوم عليہ السلام كے لئے ہے اور امام كي غيبت كے زمانے ميں بعض شرائط كے حامل فقيہ كے لئے يہ ولايت ثابت ہے چنانچہ اس سلسلے ميں گفتگو كي جائے گي لہذا ہماري لئے سزاوار ہے كہ ولايت فقيہ اور شوريٰ كے دلائل كے درميان موجود رابطے و نسبت كا ملاحظہ كريں بشرطيكہ شوريٰ كے دلائل كي دلالت پہلے احتمال كے مطابق (جو گذر چكا ہے) كامل اور اشكال سے خالي ہو كيونكہ كبھي يہ كہا جاتا ہے كہ جب ولايت فقيہ كے دلائل موجود ہوں تو شوريٰ كے دلائل (حتي اگر وسيع و عريض ولايت عامہ پر دلالت كريں جو كہ پہلا احتمال ہے) تب بھي شوريٰ اور راي گيري كو تمام امت كے ہاتھ ميں دينے كے ميدان ميں نفع بخش اور مفيد نہيں ہيں اس كي وجہ يہ ہے كہ شوريٰ فقط اس دائري اور ان حدود ميں فرض كي جاتي ہے جنہيں شريعت نے ترك كرديا ہو(۷۱) اور وہاں پر خداو رسول نے كوئي حكم نہ ديا ہو۔

ارشاد رب العزت ہے: وَما كَان لِمُؤْمِنٍ وَلاَمُؤْمِنَة اِذَا قَضَي اللهُ وَرَسُولُهُ امْرًا انْ يكُونَ لَههمْ الْخِيرةُ مِنْ امْرِهِمْ وَمَنْ يعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا ۔(۷۲)

ترجمہ آيت: اوركسي مومن مرد يا عورت كو اختيار نہيں ہے كہ جب خدا و رسول كسي امر كے باري ميں فيصلہ كرديں تو وہ بھي اپنے امر كے باري ميں صاحب اختيار بن جائے اور جو بھي خدا اور رسول كي نافرماني كرے گا وہ بڑي كھلي ہوئي گمراہي ميں مبتلا ہوگا۔

جب قائد و رہبر خدا كي طرف سے معين ہوچكا ہو چنانچہ رسول خدا كے دور ميں تھا (رسول خدا خدا كي طرف سے معين ہوئے تھے) تو خدا كا فيصلہ ہے كہ وہي (معين رہبر) حكومت اسلامي كا سربراہ ہے لہذا يہ مورد شوريٰ كا مورد نہيں ہےاور ائمہ معصومين عليہ السلام كے زمانے ميں بھي صورتحال يہي ہے (شيعہ عقيدے كے مطابق) اورائمہ معصومين عليہ السلام كي امامت نصّ (دلائل مثلا روايات واضح) كے ذريعے ثابت ہے۔اوريہي صورتحال اس وقت بھي ہوگي جب ولايت فقيہ كے دلائل كامل ہوں اور يہ دلائل ثابت كريں كہ ولي فقيہ معاشري كا قائد و رہبر ہے، امام معصوم عليہ السلام كي غيبت كے زمانے ميں لہذا مسئلہ شوريٰ كو يہاں پيش كرنا بے معني ہے يعني شوريٰ كے مطابق امت كي قيادت اور تمام امت كے ذريعے اسكا انتخاب بے معني ہے۔

پس شوريٰ كي دليل (اگر احتمال اول كے مطابق كامل ہو) تو قائد و رہبر كي تعيين ميں اس كا كوئي عمل دخل نہيں ہوگا۔ہاں اگر دو دليلوں (ولايت فقيہ كے دلائل اور شوريٰ كے دلائل) كے درميان جمع كي جائے تو ہم جان ليں گے كہ واجب ہے شوريٰ اور راي گيري خود فقہاء كے درميان كامل ہوگي (انجام پائے گي)

اس طرح اس اعتراض كي كوشش ہے كہ شوريٰ كے ذريعے حكومت اسلامي كے نظام كے قيام ميں پوري امت سے بنيادي كردار كو سلب كر ليا جائے۔

حتي اگر اس فرض كو بھي قبول كرليا جائے كہ شوريٰ كے دلائل ولايت عامہ پر دلالت كرتے ہيں بعض اوقات يہ دعوي كيا جاتا ہے كہ دلائل ميں تعارض پايا جاتا ہے شوريٰ كے لئے پوري امت ميں ميدان كھلا ركھا جائے (يعني شوريٰ ميں پوري امت شركت كرے) ليكن اس كي تاثير قانون نافذ كرنے والے قائد و رہبر كي تعيين كے مورد كے علاوہ باقي موارد ميں ہو (رہبر كے تعيين ميں اسكا كوئي عمل دخل نہ ہو) اور ان موارد سے مراد وہ حدود ہيں جہاں شريعت نے كوئي حكم نہ ديا ہو۔ (يعني حكم شرعي سے خالي حدود) ۔ اس دعوي كي وضاحت يوں ممكن ہے كہ جب قانون نافذ كرنے والي بلند مرتبہ صاحب قدرت (حاكم و رہبر) خدا كي طرف سے تعيين شدہ ہو غيبت كے زمانے ميں فقيہ كي شكل ميں سامنےآتي ہے تو امامت كے ذريعہ قائم ہونے والي شوريٰ اور راي گيري كي كوئي گنجائش نہيں اور اس امر ميں اس كا كوئي كردار نہيں۔ (جب خدا كي طرف سے معين ہے تو) لوگوں كو اس ميں كوئي اختيار حاصل نہيں ہے۔ليكن وسيع منطقۃالفراغ ہے جسے اسلامي مرونت و نرمي نے خالي چھوڑا ہے كيونكہ يہ زندگي كے حدود سے مربوط ہے اور زندگي جو تغير و تبدل كا شكار ہے اور قواعد كلي (عناصر مشتركہ) كے ذريعے اس كے حدود مشخص نہيں ہيں لہذا شريعت نے اس مورد ميں بلاواسطہ حكم اور خاص قانون كے ذريعہ حكم نہيں كيا ليكن اس دائرہ (منطقۃالفراغ) كو شرائط زمان و مكان كے تقاضوں كے مطابق پر كرنے كے لئے جس كي طرف رجوع كرنا ضروري ہے اسے شريعت نے معين كيا ہے اس مرجع كي تعيين كے مورد ميں دلائل كے درميان تعارض و تنافي پائي جاتي ہے بعض دلائل تاكيد كرتے ہيں كہ يہ مرجع فقيہ ہے جبكہ دوسري دلائل كے مطابق يہ مرجع امت اور اكثريت امت ہے ۔

پس اس بيان كےمطابق دودليليں (ولايت كي دليل اورشوريٰ كي دليل) مساوي درجہ ركھتي ہيں اوراس مورد ميں (ان دودليلوں ميں سے) كوئي ايك دليل دوسري دليل پرمقدم نہيں ہے۔

جواب:

جيسا كہ گذر چكا حقيقت يہ ہے كہ يہ بيان كامل نہيں ہے اگرچہ ہم يہ كہ قول خداوندمتعال ”وامرهم شوريٰ بينهم ”قرار ديتا ہے كہ شوريٰ فقط ان لوگوں كے درميان ہوگي مورد بحث موضوع جن سے متعلق ہوگا اور وہ امر ان كا امر شمار ہوگا۔

پس اگر ايسا موضوع ہو جو ايك اعتبار سے امت كے وسيع دائري سے مربوط ہو اور ايك اعتبار سے امت كے محدود دائري مثلا ايك خاص جماعت سے مربوط ہوجوجماعت اس وسيع دائري كا حصہ ہو اور اس ميں شامل ہو تو امر (موضوع شوريٰ) كا اس جماعت سے رابطہ گہرا ہوگا ۔(۷۳)

يہ امر سبب بنے گا كہ سابقہ نص مجمل ہوجائے اور نص دو امروں ميں مردود ہوجائے كہ شوريٰ وسيع دائري ميں شامل افراد كے ذريعہ تشكيل پائے گي يا فقط خاص دائري ميں شامل افراد كے ذريعہ اس كي تشكيل ہوگي يعني راي گيري ميں كون لوگ شريك ہوں وسيع دائري والے لوگ يا محدود دائري والے لوگ ولايت فقيہ كي دليل دلالت كرتي ہے كہ منطقۃالفراغ كو پر كرنے كا موضوع بھي اسي قسم ميں سے ہے كيونكہ يہ موضوع ايك اعتبار سے پوري امت كے لئے اہميت كا حامل ہے اور امت كي زندگي كا نظم و ضبط اسي پر موقوف ہے لہذا اس اعتبار سے يہ امر (موضوع) پوري امت كي سے ومربوط ہے جبكہ ايك اور اعتبار سے (ولايت فقيہ كے دلائل كے مطابق) يہ موضوع فقط فقہاء كي طرف منسوب ہے اور فقہاء امت كے طبقوں ميں سے ايك خاص طبقہ ہيں ۔

بنابرايں ولايت فقيہ كي دليل كے مطابق دليل”وامرهم شوريٰ بينهم ”اس مورد ميں مجمل ہوجائے گي ليكن اس كے باوجود اس دليل ميں اتني گنجائش نہيں كہ اسے ولايت فقيہ كي دليل (جو مجمل نہيں ہے) سے معارض دليل كے طور پر پيش كيا جاسكے

پس نتيجۃً ثابت ہوا كہ ولايت (خواہ قانون نافذ كرنے والي قدرت كے مورد ميں ہو خواہ منطقۃالفراغ كو پر كرنے كے مورد ميں) فقط فقيہ كو حاصل ہے اس كے علاوہ كسي اور كو حاصل نہيں ہے اگرچہ آيہ شوريٰ كي رو سے فقہاء كے لئے ضروري ہے كہ احكام و قوانين كے نفاذ اور منطقۃالفراغ كو پر كرنے كي كيفيت كے متعلق آپس ميں مشورہ كريں۔

فقط فقہا كو حق انتخاب عطا كرنے كے ذريعہ دو دليلوں كے درميان جمع:

گزشتہ مطلب پر كبھي يہ اعتراض كيا جاتا ہے اگر ہم قبول كر ليں كہ ولايت فقيہ كے دلائل كي دلالت صحيح ہے اور ان دلائل كي بنياد پر فقيہ كو قوانين واحكام كے نفاذ كي طاقت و قوت اور منطقہ فراغ كو پر كرنے كا حق عطا كرديں تو شوريٰ كي دليل كے دامن ميں فقہاء كے باہمي مشورى كے علاوہ اور كيا رہ جاتا ہے جبكہ آيہ شوريٰ بطور عام تمام مومنين كي توصيف ميں وارد ہوئي ہے ۔(۷۴)

يہ تاويل كيسے ممكن ہے كہ ”ھم”سے مراد فقط فقہاء ہوں؟ فہم عرفي اس كو قبول نہيں كرتا(۷۵)

پس عرف يہاں پر دو دليلوں كے درميان تنافي اورتعارض ديكھتا ہے البتہ اگر سابقہ نتيجے كو قبول كرليں(۷۶) (اگر دونوں دليليں مندرجہ بالا امور سے قطع نظر اپنے مقام پر صحيح ہوں) تو دونوں دليلوں پر عمل كرنے كا تقاضا يہ ہے كہ امت كو فقط يہ حق ديا جائے كہ وہ اپنے نمائندوں كو انتخاب كرے ليكن امت كو يہ حق حاصل نہ ہو كہ فقہاء كے علاوہ دوسري لوگوں ميں سے اپنے نمائندوں كا انتخاب كرے۔ پس جب امت فقہاء ميں سے اپنے نمائندوں كا انتخاب كرے تو اب نمائندگان باہمي مشورى كے ساتھ امور (حكومت) كوآگے بڑھائيں ۔

لہذا جب ہم نے امت كو امر ميں سے اتنا حصہ عطا كرديا تو ہم نے اس فہم عرفي كے ساتھ ھماھنگي كرلي اور متفق ہوگئے جو فہم عرفي آيہ شوريٰ كو تخصيص لگانے اور اسے فقط فقہاء كے دائري ميں محدود كرنے كي اجازت نہيں ديتا تھا(۷۷)

يہ ساري بحث اس بات پر موقوف ہے كہ ہم شوريٰ كي دليل سے راي گيري اور اكثريت يا اكثريت كے منتخب نمائندگان كو ولايت عطا كرنا سمجھ سكيں۔

اب ہم شوريٰ كي دليل كو مورد بحث و تنقيد قرار ديتے ہيں اور بحث كرتے ہيں كہ اس دليل سے گزشتہ تين احتمالوں ميں سے پہلے احتمال كو سمجھنا كس حد تك ممكن ہے۔

شوريٰ كے دلائل پر ايك نظر

سب سے پہلے ہم ان دلائل (روايات) كو مستثني كرديں گے جواس بات پر دلالت كرتي ہيں كہ ائمہ معصومين عليہ السلام كے زمانے ميں بھي امامت كي تعيين شوريٰ اور انتخاب كے ذريعے ہوگي۔

ہم ملاحظہ كرتے ہيں كہ شوريٰ كے متعلق بعض روايات ميں شوريٰ كے متعلق حكم يا شوريٰ كي مخالفت سے نہي نہيں پائي جاتي اور ان سے فقط يہ سمجھا جاتا ہے كہ شوريٰ كي ترغيب دلائي جارہي ہے مثلا رسول اكرم سے يہ قول نقل ہوا ہے مظاھرہ اوثقا من المشاور ہ لامظاھرۃ اوثق من المشاورۃ (مشورى سے بڑھ كر كوئي چيز پشت كي مضبوطي كا سبب نہيں)

اس قسم كي روايات (مقصود پر دلالت نہيں كرتيں) چنانچہ واضح ہے ۔اسي طرح شوريٰ كي روايات كي ايك اور قسم وہ ہے جو مشورى كا حكم تو ديتي ہے ليكن مشورہ دينے والوں كي راي كي مخالفت سے منع نہيں كرتي چنانچہ محمد بن حنفيہ كے نام امير المومنين عليہ السلام كي وصيت ميں كيا ہے:

اضمم آراء الرجال بعضها الي بعض ثم اختر اقربها الي الصواب و ابعدها من الارتياب

(مردوں كي آراء كو ايك دوسري سے ضميمہ كرو اور پھر ان ميں سے ايسي راي كا انتخاب كرو جو حقيقت سے زيادہ قريب اور شك وشبہ سے زيادہ دور ہو)(۷۸) اگر فرض كرليا جائے كہ(۷۹)

روايات كي يہ قسم بہ طور مطلق اور كسي قسم كي قيد و شرط كے بغير مشورى كے وجوب پر دلالت كرتي ہے ليكن روايات كي يہ قسم اس امر پر دلالت نہيں كرتي كيونكہ شوريٰ ميں ولايت پائي جاتي ہے لہذا مشورہ واجب و لازم ہے كيونكہ (نہ لغت كے اعتبار سے اور نہ ہي عرف كے اعتبار سے) لفظ شوريٰ ميں ولايت كا معني نہيں پايا جاتا لہذا ہم كہہ سكتے ہيں اس قسم كي روايات كے مطابق گزشتہ تين احتمالوں ميں سے تيسري احتمال كے مطابق مشورہ واجب ہے يعني دوسروں كي آراء اور تجربات سے استفادہ كرنے كي خاطر مشورہ ضروري ہے چنانچہ گزشتہ وصيت (پھر ان ميں سے اس راي كو منتخب كرو جو حقيقت سے زيادہ قريب اور شك و شبہ سے زيادہ بعيد ہو)(۸۰)

حضرت علي عليہ السلام كا يہ قول مشورہ لينے والوں كو اختيار ديتا ہے اس شخص كواختيار نہيں ديتا جس سے مشورہ ليا جارہا ہے۔

شوريٰ كے متعلق موجود روايات كي تيسري قسم بھي پائي جاتي ہے جو شوريٰ كے نتيجے كي مخالفت سے منع كرتي ہے نبي كريم كا ارشاد ہے (عاقل سے رہنمائي حاصل كرو اور اس كي مخالفت نہ كروورنہ پشيمان ہونا پڑے گا) اس قسم كي روايات كو وجوب كے بجائے فقط تشويق و رغبت دلانے پر حمل كيا جاسكتا ہے كيونكہ اگر دقت كي جائے تو يہ روايت بہ طور خاص اجتماعي امور ميں وارد نہيں ہوئي بلكہ فقط انفرادي امور كو شامل ہے واضح ہے كہ انفردي امور ميں مشورى كا مطلب فقط يہي ہے كہ دوسروں كي آراء سے رہنمائي لي جائے ليكن كسي قسم كا جواب نہيں پايا جاتا كہ مشورى پر عمل بھي كيا جائے شايد مقصود (مورد نظر معني) پر دلالت كے اعتبار سے رسول خدا كي وہ روايت باقي تمام روايات سے قوي ہے (زيادہ دلالت كرتي ہے) جو گزر چكي ہے يعني جب تمہاري حكمران نيك افراد ميں سے ہوں، تمہاري غني ومالدار افراد سخي اوركھلے ہاتھ والے ہوں اور تمہاري امور شوريٰ يعني باہمي مشورى سے انجام پائيں تو تمہاري لئے زمين كي پشت زمين كے بطن سے بہتر ہے ليكن جب تمہاري حكمران تمہاري بري افراد ہوں تمہاري غني ومالدار بخيل و كنجوس افراد ہوں اورتمہاري امور خواتين سے مشورى كے ذريعے انجام پائيں تو تمہاري لئے زمين كا بطن زمين كي پشت سے بہتر ہے (يعني مرجانا بہتر ہے) يہاں كچھ نكتے پائے جاتے ہيں جو اس حديث سے استدلال كو قوت بخشتے ہيں:

پہلا نكتہ:

اس حديث كے متعلق يہ دعوي كيا جاسكتا ہے كہ يہ حديث انفرادي امور (موضوعات) كو بالكل شامل نہيں ہوتي كيونكہ رسول خدا كا يہ قول (اموركم شوريٰ بينكم جب تمہاري امور باہمي مشورى اور شوريٰ سے انجام پائيں) معاشرہ كو بہ عنوان معاشرہ مورد خطاب قرار دے رہا ہے لہذا انفرادي اور شخصي امورمدنظر نہيں ہيں يہي وجہ ہے كہ حديث ميں جداگانہ طور پر مشورہ كرنے والے اور مشورہ دينے والے كا كوئي فريضہ ذكر نہيں ہواجب(۸۱) ہم نے جان ليا كہ روايت انفرادي امور كو شامل نہيں ہے تويہ روايت اس اشكال ميں مبتلا نہيں ہوگي جو اشكال ہم باقي روايت پر كرچكے ہيں كيونكہ اگر روايت انفرادي امور كو شامل ہو تو معني يہ ہوگا كہ فقط دوسروں كي آراء سے استفادہ اور رہنمائي مقصود ہے اور مشورى كے نتيجے ميں كسي قسم كي ولايت وجود ميں نہيں آتي (تاكہ اس كي مخالفت ممكن نہ ہو) يہ وہي معني ہے جس پر گزشتہ تين احتمالوں ميں سے تيسرا احتمال دلالت كرتا ہے۔

اگر ہم يہ ثابت كرليں كہ روايت شوريٰ كے متعلق گزشتہ تين احتمالوں ميں سے پہلے احتمال (يعني اكثريت كو ولايت عطا كرنا يا اكثريت كے منتخب نمائندگان كو ولايت عطا كرنا) پر دلالت كرتي ہے تو اس جہت سے اس دلالت كے ساتھ كوئي چيز تعارض نہيں ركھتي

دوسرا نكتہ:

روايت ميں قرينہ پايا جاتا ہے جو روايت كو تيسري احتمال پر دلالت كرنے كے بجائے پہلے احتمال پر دلالت كرنے كي طرف پھير ديتا ہے وہي قرينہ جس كي طرف ہم اشارہ كرچكے ہيں يعني روايت ميں مشورہ كرنے والے اور مشورہ دينے والے كے درميان وحدت پائي جاتي ہے اور ان كو دو فرض نہيں كيا گيا۔

(قرينہ مقابلہ كي روسے) دوسرا جملہ بھي انفرادي و شخصي موضوعات كو شامل ہے كيونكہ ”اموركم الي نسائكم ” ميں موجود ضمير مردوں كي طرف پلٹي ہے كيونكہ عورتوں كو ذكر كرنا اس بات پرقرينہ ہے بنابرايں يہ روايت مردوں كے امور ميں عورتوں كي دخالت كو بيان كررہي ہے اور ترغيب دلا رہي ہے۔كہ بہتر يہ ہے كہ مرد مردوں ہي سے مشورہ كريں اور ان امور ميں عورتوں كو شامل نہ كريں ۔ ليكن اس دعوي پر يہ اشكال كيا جاسكتا ہے كہ رسول خدا كے قول ”اموركم الي نسائكم ” سے مراد اجتماعي امور ہوں يعني وہ امور جو تمام مسلمانوں كے امور ہيں اس حيثيت سے كہ مسلمانوں ميں مرد و عورتيں دونوں شامل ہيں ۔ اور دوسري جملے سے ان اجتماعي امور ميں عورتوں كي دخالت مراد ہے۔اس بحث ميں كبھي يہ كہاجاتا ہے جب ہم متردد ہيں كہ ”اموركم الي نسائكم ” سے مراد كيا ہے؟ كيا يہ انفرادي امور پرناظر ہے يا اجتماعي امور پر؟ تو ايسي صورت ميں ہم يہ احتمال دے سكتے ہيں كہ يہ جملہ ” اموركم الي نسائكم” قرينہ ہے كہ پہلا جملہ ”اموركم شوريٰ بينكم ” انفرادي امور كوشامل ہے كيونكہ اس كا قرينہ بننا پہلے فرض كے مطابق ثابت ہے پس جب يہ احتمال ممكن ہے تو پہلا جملہ ” اموركم شوريٰ بينكم” مجمل و مبہم ہوجائے گا جملہ اور اس سے مقصودہ معني كا استفادہ نہيں كيا جاسكتا (مقصود يہ ہے كہ يہ جملہ اجتماعي امور پر دلالت كرے) جس طرح جمع كے صيغے كے ذريعے تعبير لانا (اموركم) بھي مؤيد ہے كہ روايت انفرادي امور كو شامل ہے كيونكہ صيغہ جمع كے مقابلے ميں صيغہ جمع لانے سے مرادامور كو مختلف اقسام ميں تقسيم كرنا ہے۔

وضاحت

شوريٰ كي اكثر روايات ميں مشورہ كرنے والے اور مشورہ دينے والے كا تذكرہ ہوا ہے اور فرض كيا گيا ہے كہ مشورہ كرنے والا مشورہ دينے والے سے جدا ہے (انہيں دو فرض كيا گيا ہے) اور مورد مشورہ موضوع كو مشورہ دينے والے كے لئے نہيں بلكہ مشورہ لينے والے كے لئے رجحان ركھنے والاموضوع فرض كيا گيا ہے ان روايات ميں سے ايك اميرالمومنين عليہ السلام كي جانب سے محمدبن حنفيہ كے نام وصيت ہے جو گزر چكي ہے، مثلا مشورہ لينے والا محمد بن حنفيہ ہے اور مردوں سے مشورہ ليا جارہا ہے اور نبي كريم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كايہ قول (مشورى سے بڑھ كر كوئي چيز پشت كي مضبوطي كا سبب نہيں) بھي اس احتمال پر دلالت كرتا ہے يعني ايك ايسا شخص ہے جسے اپني پشت مضبوط كرنے كي ضرورت ہے لہذا روايت كہہ رہي ہے دوسروں سے مشورى كے ذريعہ پشت مضبوط ہوگي اسي طرح نبي كريم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كايہ قول جو گزر چكا ہے (عاقل سے رہنمائي (مشورہ) حاصل كرو اور اس كي مخالفت نہ كرو) دلالت كرتا ہے كہ ايك ايسا شخص ہے جو عاقل سے مشورہ كررہا ہے۔

قول نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ہے (جس نے مشورہ كيا وہ پشيمان نہيں ہوگا) ظاہر ہے كہ انسان اپنےآپسے نہيں بلكہ كسي اور سے مشورہ كرتا ہے اس طرح انحضرت كا يہ قول (مشورہ كے سبب كوئي شخص ہلاك نہيں ہوگا) اسي طرح انحضرت كا يہ قول” جب تم ميں سے كوئي اپنے مسلمان بھائي سے مشورہ كرے تو اس پر ضروري ہے كہ مشورہ دے” اور اس كے علاوہ متعدد دوسري روايات بھي اس معني پر دلالت كرتي ہيں كيونكہ مندرجہ بالا تمام روايات ميں فرض كيا گيا ہے كہ ايك مشورہ لينے والا ہے جو كسي موضوع ميں مشورى كا محتاج ہے اور اس كے علاوہ ايك دوسرا شخص ہے جس سے مشورہ ليا جارہا ہے لہذا ممكن ہےان روايات كو تيسري احتمال پر حمل كيا جائے اور كہا جائے كہ آخر كار مشورہ لينے والا مشورہ دينے والے كي راي پر نہيں بلكہ اپني راي پر عمل كرتا ہے اور فقط علم و معرفت كسب كرنے كي غرض سے كسي سے مشورہ كرتا ہے اور اس لئے مشورہ كرتا ہے كہ شايد مشورہ دينے والے كا مشورہ اس كي راي پر اثر كرے اور اس مشورہ كي وجہ سے اس كي راي تبديل ہوجائے جبكہ دوسري روايات ميں مشورہ دينے والے كي مخالفت سے نہي كي گئي ہے اس سے مراد يہ ہے كہ جب تك اس مشورہ كي مخالف راي كي درستگي واضح طور پر ثابت نہ ہوجائے اس وقت تك اس كي راي پر عمل كرنے كي طرف ترغيب دلائي جارہي ہے۔كيونكہ روايت ميں قرينہ موجود ہے كہ مشورہ عمومي و اجتماعي امور سے مخصوص نہيں۔ (چنانچہ اس سے متعلق بحث گزر چكي ہے)

خداوند متعال كے فرمان ”اموركم شوريٰ بينكم اور جب تمہاري امور شوريٰ كے ذريعہ انجام پائيں،، ميں يہ فرض نہيں ہوا كہ مشورہ كرنے والا اور مشورہ دينے والا دو مختلف افراد ہيں بلكہ فقط يہ فرض ہوا كہ امر (موضوع) سب كا امر ہے ليكن يہ موضوع سب سے مربوط ہے اور سب كے سب اس مشترك امر ميں مشير بھي ہيں اور مشورہ لينے والے بھي ۔ بنابراين جب مفہوم عرفي كے مطابق يہ احتمال نہيں ديا جاسكتا كہ مشورہ لينے والا مشورہ دينے والوں كي راي پر عمل نہ كرے بلكہ اپني ہي راي پر عمل كرے تواسے تيسري احتمال پر حمل نہيں كيا جاسكتا كيونكہ مشورہ لينے والامشورہ دينے والوں سے جدا نہيں ہے جس طرح يہ احتمال نہيں ديا جاسكتا كہ مشورہ سے ہٹ كر كسي ولي (صاحب ولايت و سرپرستي) كي راي پر عمل كيا جائے البتہ اس نكتہ كي بنياد پر كہ جس كي وضاحت مشورہ كے متعلق دوسري جہت سے استدلال كرتے وقت كي جائے گي انشاء اللہ تعالي۔

بنابراين فہم عرفي كے مطابق كلام كا مفہوم يہ ہوگا كہ اجتماعي راي حتمي راي قرار پائے گي راي ہوگي مثلا اكثريت كي راي پر عمل كيا جائے گاوغيرہ مندرجہ بالا بحث كے نتيجہ ميں پہلا معني ثابت ہوجائے گااور يہ بھي ثابت ہوجائے گا كہ شوريٰ كے ذريعہ ولي امر كي تعيين ممكن ہے ۔

حاصل: بحث يہ ہے كہ مشورہ كي بحث كي ابتدا ميں وارد ہونے والے عمومي اعتراض و اشكال سے قطع نظر يہ كہا جاسكتا ہے كہ (شوريٰ پر) اس روايت كي دلالت كامل ہے ليكن سند كے لحاظ سے اس روايت كي كوئي قدر وقيمت نہيں ہے واضح ہے كہ بالفرض مان بھي ليا جائے كہ شوريٰ كے متعلق روايات مجموعي طور پر متواتر يا مستفيض ہيں) ليكن اس كے باوجود يہ كہا جائے گا كہ وہ حد تواتر تك بلكہ حد استفاضہ تك بھي نہيں پہنچيں لہذا ضعف سند كي وجہ سے ان كا كوئي اعتبار نہيں۔

شوريٰ كے متعلق آيات ميں مناقشہ

شوريٰ كے متعلق آيات دوآيتوں ميں منحصر ہيں:

پہلي آيت: ارشاد رب العزت ہے:وشاور هم في الامر اور ان سے امر ميں مشورہ كرو

اس آيہ مباركہ كے ذريعہ استدلال دو اعتبار سے قابل مناقشہ ہے۔

اس آيہ مباركہ كے ذريعہ استدلال يا اس دعوي پر مبني ہے كہ مشورہ دينے والوں كے علاوہ دوسروں كي آراء كو اخذ كرنا شوريٰ كے مفہوم ميں شامل ہے جب لفظ شوريٰ اور اس سے مشتق ہونے والے دوسري الفاظ مطلق يعني قيد كے بغير ہوں تو اس سے يہ سمجھا جاتا ہے كہ تمام لوگوں سے راي لي جائے اور مثلا اكثريت آراء پر عمل كيا جائے يا اس آيہ مباركہ سے استدلال اس دعوي پر مبني ہے كہ شوريٰ كا حكم فقط اس لئے ہوا ہے تاكہ حقيقت سے قريب تر راي تك پہنچا جاسكے اور يہ اس صورت ميں ممكن ہے جب مشورہ كرنے والا دوسروں كي آراء پر عمل كرے اگر وہ ان سے مشورہ تو كرے ليكن ان كي راي پرعمل كرے تو يہ شوريٰ اپنے مطلوبہ ہدف كو تحقق پذير نہيں كرسكتي بنا براين شوريٰ كي يہ صفت طريقيت(۸۲) عرفي اعتبار سے قرينہ قرار پاتي ہے كہ شوريٰ كے متعلق امر سے مراد يہ ہے كہ مثلا اكثريت كو ولايت عطا كي جائے ۔

پہلا فرض تو يقيني طور پر باطل ہے اور (لغوي طورپر) شوريٰ كے معني و مفہوم ميں يہ شامل نہيں كہ مشورہ دينے والوں كے علاوہ كسي اور كي راي پرعمل كيا جائے اور اس طريقہ سے ان كے لئے ولايت ثابت كي جائے۔ پس ہم نے جان ليا كہ شوريٰ كے مفہوم ميں كوئي ايسي دليل نہيں پائي جاتي جو ہميں مجبور كرے كہ ہم آيہ مباركہ ميں انے والے لفظ ”شوريٰ" كو پہلے يا دوسري احتمال پر حمل كريں۔

پہلے فرض كي طرح دوسرا فرض بھي صحيح نہيں ہے حتي اگر ہم قبول بھي كرليں كہ آيہ ميں فرض ہونے والا مشورہ (دوسري راستوں كي نسبت) بہتر اور زيادہ باصلاحيت راستے تك پہنچنے كے لئے ہے يا امت كو اس سرچشمہ و منبع كا عادي بنانے كے لئے ہے جو امت كو بہتر و باصلاحيت راستے تك پہنچا دے (اگرچہ نبي اكرم اس كے محتاج نہيں) حتي اگر ہم اسے قبول بھي كرليں تو يہ الزامآور نہيں ہے اور نہ ہي اس چيز كے متقاضي ہے كہ اكثريت كو ولايت عطا كي جائے كيونكہ احتمال ديا جاسكتا ہے كہ شوريٰ كا حكم دوسروں كي آراء و افكار سےآگاہى، انكے تجربات اور آراء افكار سے استفادہ كرنے اور انكے تجربات كو مشورہ لينے والے شخص كے تجربات و افكار سے ضميمہ كر كے بہتر و نفع بخش اور زيادہ باصلاحيت راي تك پہنچنے كے لئے ہے اگرچہ اكثريت آرا پر عمل نہ كيا جائے۔يہاں مشورہ كرنے والے شخص نے فقط مختلف آراء و مشورى جمع كئے اور ان ميں سے (اپنے فہم و تصور كے مطابق) بہتر راي كو منتخب كيااور ممكن ہے فقط يہ راي چند افراد كي راي سے تجاوز نہ كرے اور يہ بھي ممكن ہے كہ منتخب شدہ راي فقط اسكي اپني راي ہو دوسروں كي نہ ہو كيونكہ اسكي نظر ميں اسكي اپني راي كے علاوہ باقي تمام آراء باطل تھيں۔

دوسرا فرض: يہ ہے كہ آيہ مباركہ ميں شوريٰ كا حكم اس اعتبار سے نہيں كيونكہ شوريٰ بہتر راي تك پہنچنے كا وسيلہ ہے بلكہ يہ حكم فقط اس اعتبار سے ہے كہ اسكے ذريعہ لوگوں كو راضي ركھا جائے اور انكے احساسات و عواطف كا احترام كياجائے اور وہ شوريٰ كے موضوع كے سامنے اپنےآپكو زيادہ مسئول سمجھيں جب آيہ مباركہ كے سياق كا ملاحظہ كيا جائے تو يہي معني سياق سے زيادہ مناسب اور ہماہنگ معلوم ہوتا ہے كيونكہ خداوندمتعال نے فرماياہے:

( فبما رحمة من الله لنت لهم ولوكنت فظا غليظ القلب لانفضوا من حولك فاعف عنهم واستغفرلهم و شاور هم في الامر )

”پيغمبر! اللہ كي مہرباني ہے كہ تم ان لوگوں كےلئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو يہ تمہاري پاس سے بھاگ كھڑے ہوتے لہذا اب انہيں معاف كردو اور ان كےلئے استغفار كرو اور ا ن سے امر ميں مشورہ كرو”آيہ مباركہ كا يہ سياق دلوں كو خوش كرنے اور انہيں دعوت اسلامي كے بندھن ميں باندھنے كا سياق ہے لہذا اس آيہ مباركہ سے استدلال درست و كامل نہيں ہے۔

اگرچہ ہم فرض كرليں كہ درست ترراستے تك پہنچنے كا راستہ اكثريت كي آراء كو اخذ كرنے ميں منحصر ہے بعض اوقات علي بن مھزيار كي روايت (جن كا تذكرہ گزر چكا ہے) كو اس بات پر

شاہد كے طور پر لكيا جاتا ہے كہ آيہ مباركہ ميں حق اور درست تر راستے تك پہنچنے كا عنصر مد نظر ركھا گيا ہے فقط دلوں كو خوش كرنےاوراحساس مسئوليت كي تقويت مدنظر نہيں تھي۔

فقد روي العياشي عن احمد بن محمد عن علي بن مهزيار قال: كتب الي ابوجعفر ان سل فلانا ان اشير علي و يتخير لنفسه فهو اعلم بمايجوز في بلده و كيف يعامل السلاطين فان المشورة مباركة قال الله لنبيه في محكم كتابه و شاور هم في الامر فاذا عزمت فتوكل فان كان مما يجوز كتبت اصوب رايه و ان كان غير ذلك رجوت ان اضعه علي الطريق الواضح انشاء الله شاور هم في الامر قال: الاستخارة

عياشي نے احمد بن محمد سے اس نے علي بن مہزيار سے نقل كيا ہے علي بن مہزيار كہتےہيں”مجھے امام باقرعليہ السلام نے خط لكھ كر حكم ديا كہ فلاں شخص سے كہو مجھے مشورہ دے اور اپنے لئے اختيار كرے كيونكہ وہ اپنے شہر (ياملك) كے حالات كو بہتر سمجھتا ہے اور بخوبي آگاہ ہے كہ حكمرانوں كے ساتھ كيا سلوك كيا جائے مشورہ مبارك ہے خداوندمتعال نے اپني محكم كتاب ميں اپنے نبي كو حكم ديا ہے”ان سے امر ميں مشورہ كرو اور جب فيصلہ كرلو تو خدا پر بھروسہ كرو"

اگر اس نے جائز امر كا مشورہ ديا تو ميں خط لكھ كر اس كي تائيد كروں گااور اگر اس نے غير جائز امر كا مشورہ ديا تو انشاء اللہ ميں اسے واضح وآشكار راستے پر گامزن كروں گا ”شاور ھم في الامر ان سے امر ميں مشورہ كرو،، كے متعلق فرمايا يعني ”استخارہ، ، طلب خيركرنا ۔ بہ تحقيق يہ روايت دلالت نہيں كرتي كہ آيہ مباركہ ميں مشورى كا حقيقي ہدف ومقصد درست تر راستے (راي) كو كشف كرنا ہے لہذا ہماري لئےآيہ كريمہ سے ثابت كرنا ممكن نہيں كہ مشورہ ايك عمومي و كلي قاعدہ و اصول كے طور پر واجب ہے كہ جس كے ذريعہ اس چيز تك پہنچا جاسكتا ہے كہ جس كا انجام دينا شايستہ و سزا وار ہے۔

اس كے علاوہ بر اين يہ روايت سند كے اعتبار سے ضعيف ہے كيونكہ عياشي اور احمد بن محمد كے درميان سلسلہ سند ميں واقع ہونے والے راويوں كي حالت معلوم نہيں۔(۸۳)

جب ہم نے ثابت كردياآيہ مباركہ دلالت نہيں كرتي كہ شوريٰ (مشورہ) فقط اس لئے ہے تاكہ اكثريت آراء پر عمل كيا جائے اب يہ كہنا ممكن ہے كہ آيت اس كے برعكس معني پر دلالت كرتي ہے جس معني كوآيہ فاذا عزمت فتوكل كے ذيل سے استفادہ كيا جاسكتا ہے يہ جملہ واضح طور پر دلالت كرتا ہے كہ مشورہ دينے والوں كي راي پر عمل كرنا واجب نہيں آيہ مباركہ ميں مشورى كا مطلب يہ نہيں كہ ان كي راي جيسي بھي ہو اس كي پيروي كي جائے۔بلكہ آيہ مباركہ ميں نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے فقط يہ مطالبہ ہوا ہے كہ ان سے مشورہ كرو اور پھر حتمي فيصلہ خود كرو اور خدا پر توكل كرو(۸۴)

گزشتہ بيان كي روشني ميں يہ بھي ثابت ہوجاتا ہے كہ فاذا عزمت فتوكل علي اللہ، كي وہ تفسير درست نہيں جو تفسير المنار ميں ذكر ہوئي ہے صاحب تفسير المنار نے اس جملے كي تفسير يوں كي ہے: شوريٰ جسے ترجيح دے اس كي تائيد كا عزم و ارادہ كرو تو خدا پر بھروسہ كرو(۸۵)

اگر صدرآيہ مباركہ ميں اكثريت كي راي كي پيروي كو لازم قرار ديا جاتا تو اس صورت ميں يہ معني درست تھے لہذا اس صورت ميں” فاذا عزمت جب ارادہ كرو" كو شوريٰ كے مورد ترجيح فيصلے كي تائيد پر حمل كيا جاتا ليكن صدرآيہ اس معني (اكثريت آراء كي پيروي لازم ہے) پر دلالت نہيں كرتي اور فاذا عزمت كا متعلَّق بھي محذوف ہے يعني ذكر نہيں ہوا كہ كس چيز كا ارادہ كرو (بلكہ فقط كہا گيا ہے جب ارادہ كرو) چونكہ متعلَّق (مورد ارادہ) حذف ہے لہذا ظاہريہ ہے كہ عزم و ارادہ كا متعلَّق پيغمبراكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كا اپناہي فيصلہ ہے(۸۶) پس آيہ كريمہ شوريٰ كے متعلق ذكر ہونے والے تين احتمالات ميں سے تيسري احتمال ميں ظہور(۸۷) ركھتي ہے اور وہ احتمال يہ ہے كہ دوسروں كي آراء و افكار سے فقط رہنمائي لي جائے جبكہ ان كے مشورىاور راي پر عمل كرنا ضروري نہيں ہے ۔

(۱) اس فرض كے ساتھ آيہ مباركہ كي تفسير ممكن نہيں كہ مشورہ دينے والوں يا اكثريت كو ايك قسم كي ولايت حاصل ہے كيونكہ واضح ہے كہ آيہ كے مصداق (نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) كے متعلق كسي بھي اعتبار سے كسي قسم كي حاكميت يا ولايت قابل تصور نہيں(۸۸)

كيونكہ نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم مومنين كے نفوس پر خود ان سے بھي زيادہ حق تصرف ركھتے ہيں (يعني حق ولايت و حاكميت ركھتے ہيں) ۔

اگر كوئي كہے نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كا شوريٰ پر عمل كرنا فقط اس لئے تھا تاكہ لوگوں كو اس نظام كا عادي بناياجائے اگرچہ خود نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم شوريٰ كے محتاج نہيں تھے اور نہ ہي مشورہ دينے والوں كوآپ پر كسي قسم كي ولايت حاصل تھي اس كے جواب ميں ہم يہ كہيں گے جب ہم نے موردنزول آيت (جس كي آيہ ميں تصريح ہوئي ہے (يعني نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) كے لئے شوريٰ كے ذريعہ ولايت كو قبول نہيں كيا تو غير مورد پرآيت كي دلالت كو كيسے قبول كرسكتے ہيں!؟(۸۹)

دوسري آيت: ارشاد رب العزت ہے( وَامْرُهمْ شُورَي بَينَهُما ) آپس كے معاملات ميں مشورہ كرتے ہيں)(۹۰)

آيہ مباركہ سے استدلال

كوئي شك نہيں كہ عام طور پر مشورہ كے باب ميں مشورہ كرنے والاشخص مشورہ كرنے كے بعد كسي ايك راي كو منتخب كرتا ہے (ليكن سوال يہ ہے كہ) وہ راي كونسي راي ہے جس پر مشورہ كے باب ميں عمل كيا جاتا ہےكيا ضروري ہے كہ مشورہ دينے والے تمام افراد كي راي يا مثلا مشورہ دينے والوں كي اكثريت كي راي پر عمل كيا جائے ياضروري نہيں ہے؟ بلكہ كبھي مشورہ لينے والا مشورہ دينے والے تمام افراد كي راي كودرج ذيل دلائل كي بنياد پر ٹھكراتے ہوئے اپني ہي راي پر عمل كرتا ہے ۔

كيونكہ مشورہ دينے والے افراد ايك دوسري كي راي كے نقاط ضعف كي نشاندہي كرديتے ہيں ياكيونكہ معاشري ميں اكثريت كے علاوہ كوئي دوسرا ولي (صاحب ولايت) پايا جاتا ہے يا جسے اكثريت نے منتخب كيا ہو اس كي راي پر عمل كرنا ضروري ہے اور مشورى كامقصد فقط يہ ہے كہ لوگوں كے افكار و نظريات سے راہنمائي حاصل كي جاسكے كيونكہ بعض اوقات لوگوں كے افكار وآراء ولي پراثرانداز ہوتے ہيں اورولي كے سامنے راستہ روشن كرتے ہيں؟

پس اس طرح تين فرض سامنےآتے ہيں:

۱) مشورہ دينے والے كي راي پر عمل كيا جائے

۲) مشورہ كا واحد مقصد لوگوں كے افكار ونظريات سےآشنائي ہے اورآخركار مشورہ لينے والا (اپني ذاتي تشخيص) اور اپني راي پر عمل كرتا ہے۔

۳) مشورہ كا مقصد لوگوں كےآراء و افكار سےآشناہونا ہے اور معاشرہ كے ولي كوفيصلہ كرنا ہے كہ كس كي راي يا مشورہ پر عمل كياجائے اوراس كي پيروي دوسروں كےلئے ضروري ہے اكثريت كو يہ فيصلہ نہيں كرنا۔

پہلا فرض مطلوب و مقصود ہے (يعني اس فرض كے مطابق آيہ شوريٰ پر دلالت كرسكتي ہے) ليكن دوسرا فرض اس چيز پر متوقف ہے كہ مشورہ كرنے والے اور مشورہ دينے والے دو عليحدہ عليحدہ شخص ہوں جبكہ يہ آيہ مباركہ كے ظاہري معني كے خلاف ہے

كيونكہ آيہ مباركہ ميں (امر) كو اس ضمير كي طرف مضاف كيا گيا ہے جو خود مشورہ دينے والوں كي طرف لوٹتي ہے ۔(۹۱)

ليكن تيسري فرض ميں ايسے شخص (صاحب ولايت) كا فرض ہوا ہے جو تمام مشورہ دينے والوں يا ان كي اكثريت كے علاوہ ہے اور اس كي طرف رجوع كرنا واجب ہے اگرچہ ہماري بحث ميں يہ احتمال ديا جاسكتا ہے ليكن يہ احتمال بھي آيہ مباركہ كے ظہور كے خلاف ہے جس طرح روايت( وَامْورُكُمْ شُورَي بَينَكُم ) ، تمہاري امور باہمي مشورى سے سے انجام پائيں) ميں بھي يہ احتمال ممكن ہے ۔ تيسري احتمال كے خلاف ظاہر ہونے كي وجہ يہ ہے كہ كلام ميں اس ولي كے وجود كي طرف كسي قسم كا اشارہ (نہ قريب سے كوئي اشارہ نہ بعيد سے) نہيں ملتا كہ اس ولي كي راي پر عمل كيا جائے(۹۲)

پس (جب دو فرض ردّ ہوگئے) پہلا فرض متعين ہے اور پہلا فرض يہ ہے كہ مشورہ كرنے والا تمام مشورہ دينے والوں يا، ان كي اكثريت كي راي پر عمل كرے۔اوراس فرض كا مطلب امت يا اكثريت كو ولايت عطا كرنا ہے يا جزوي ولايت (جواز كو وجوب ميں تبديل كرنے كي حد تك چنانچہ شوريٰ كے دلائل كے متعلق پائے جانے والے تين احتمالات ميں سے دوسري احتمال كامطلب يہي ہے) يا كلي و عمومي ولايت كہ جس كي بنياد پر حكومت اسلامي كي تاسيس درست ہے چنانچہ پہلا احتمال اس معني پر دلالت كرتا تھا۔

اور يہي احتمال دليل كے اطلاق كي رو سے متعين ہے كيونكہ ولايت كو اس خاص دائري تك محدود و مقيد كرنے كے لئے قرينہ كي ضرورت ہے ۔ (جو مفقود ہے)(۹۳)

بعض اوقات كہا جاتا ہے كہ آيہ مباركہ سے يہ استفادہ ممكن نہيں كہ شوريٰ پر عمل كرنا واجب ہے كيونكہ آيہ مباركہ كا سياق وجوب پر دلالت كرنے سےمانع ہے خداوند متعال كا ارشاد ہے:

( فَما اوتِيتُمْ مِنْ شَيءٍ فَمَتَاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا وَما عِنْدَ اللهِ خَيرٌ وَابْقَي لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَي رَبِّهمْ يتَوَكَّلُونَ وَالَّذِينَ يجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَاما غَضِبُوا هُمْ يغْفِرُونَ وَالَّذِينَ استَجَابوا لِرَبِّهِمْ وَاقَامُوا الصَّلاَةَ وَامْرُهُمْ شُورَي بَينَهُمْ وَمِما رَزَقْنَاهُمْ ينْفِقُونَ وَالَّذِينَ إِذَا اصَابهُمْ الْبَغْي هُمْ ينْتَصِرُونَ ) (۹۴)

(پس تم كو جوكچھ بھي ديا گيا ہے وہ زندگاني كا چين ہے اور بس جو كچھ اللہ كي بارگاہ ميں ہے وہ خير اور باقي رہنے والا ہے ان لوگوں كے لئے جو ايمان ركھتے ہيں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ كرتے ہيں اور بڑے بڑے گناہوں اور فحش باتوں سے پرہيز كرتے ہيں اورجب غصہ آجاتا ہے تو معاف كرديتے ہيں اور جو اپنے رب كي بات كو قبول كرتے ہيں اور نماز قائم كرتے ہيں اور آپس كے معاملات ميں مشورہ كرتے ہيں اور ہماري رزق ميں سے ہماري راہ ميں خرچ كرتے ہيں اور جب ان پر كوئي ظلم ہوتا ہے تو اس كا بدلہ لے ليتے ہيں۔

كيونكہ ہم ملاحظہ كرتے ہيں كہ جملہ( وَامْرُهُمْ شُورَي بَينَهُم ) اورآپس كے معاملات ميں مشورہ كرتے ہيں) ايسے متعدد جملوں كے سياق ميں واقع ہوا ہے جو شريعت كي اخلاقي تعليمات كو بيان كررہے ہيں جن ميں سے بعض امور واجب جبكہ بعض مستحب ہيں اور بعض ايسے امورہيں جو بعض حالات ميں واجب جبكہ بعض دوسري حالات ميں غير واجب ہيں بلكہ بعض اوقات غير صحيح ہيں (مثلا خدا كي طرف سے عطا ہونے والامال خرچ) يہ سياق ايسا سياق ہے جو وجوب پر دلالت كرنے سےمانع ہے ليكن يہ مناقشہ تب صحيح ہے جب آيہ مباركہ كو شوريٰ كے متعلق تين احتمالات ميں سے) تيسري احتمال پر تطبيق كيا جائے اور كہا جائے كہ آيت مباركہ وجوب پر دلالت كررہي ہے اس صورت ميں آيت مباركہ دوسروں كےآراء و افكار سے مستفيد ہونے كي غرض سے مشورى كا امر ديتي ہے اس طرح يہ امر، امر وجوبي اور امر استحبابي ميں متردد ہوجائے گا۔ (معلوم نہيں واجب ہے يا مستحب)

اب كہا جائے گا مذكورہ سياق اجازت نہيں ديتا كہ امر وجوب پر دلالت كرے ليكن جب ہم آيہ كريمہ كي يہ تفسير كريں كہ مسلمان اپنے امور ميں باہمي مشورہ كريں اور پھر اكثريت كي راي كي پيروي كريں اور يہ تفسير كريں كہ شوريٰ كا ہدف مختلف افكار و تجربات سے مطلع ہونا ہے اگر يہ تفسير كي جائے تو عرف احتمال نہيں ديتا كہ (آيہ شوريٰ ميں انے والا) امر، امر استحبابي ہو كيونكہ امر ايسے اہم منبع و سرچشمہ سے متعلق ہے كہ جس كي بنياد پر اسلامي معاشري كي مشكلات كو حل كيا جاسكتا ہے اور قومي امور كي باگ ڈور سنبھالي جاسكتي ہے اب كہا جائے گا كيا شوريٰ ايسي عمومي ولايت وجود ميں آتي ہے جو ولايت، اجتماعي مشكلات كے راہ حل كي بنياد فراہم كرسكے يا شوريٰ كے نتيجے ميں ايسي ولايت وجودميں نہيں آتى؟

اگر شوريٰ كے نتيجے ميں ايسي ولايت حاصل نہ ہو تو شوريٰ اجتماعي مشكلات كو حل نہيں كرسكتي لہذا شوريٰ كے متعلق امر كرنا بے معني ہوجائے گا خواہ يہ امر وجوبي ہو خواہ استحبابي۔ اور اگر شوريٰ اكثريت يا اكثريت كے نمائندگان كو شرعي ولايت عطاكرتي ہے تاكہ اس كے ذريعہ اجتماعي مشكل كو حل كيا جاسكے تو اس صورت ميں شوريٰ كے متعلق امر، امر وجوبي ہوگا اور ولي امر كي اتباع وپيروي واجب ہوگي اس صورت ميں امر كو امر مستحبي قرار دينا بے معني ہے كيونكہ استحبابي و غير حتمي (غير واجب) اتباع اجتماعي مشكلات كے راہ حل كي بنياد نہيں بن سكتي۔

اس آيہ مباركہ سے شوريٰ كو اسلامي حكومت كي بنياد قرار دينے كے لئے استدلال كرتے وقت جو كہنا ممكن ہے ہم نے اسے بيان كرديا ہے۔

حقيقت يہ ہے كہ اس استدلال كا كامل وصحيح ہونا ممكن نہيں حقيقت يہ ہے كہ آيہ كريمہ كے موردميں يہ فرض بہت بعيد ہے كہ مشورہ كرنے والا ايسا شخص ہو جس كي نظر ميں موضوع (امر) اہميت كا حامل ہوليكن وہ مشورہ كي غرض سے ايسے شخص كي طرف رجوع كرے جس كا مذكورہ موضوع سے كوئي رابطہ و تعلق نہ ہوآيہ كريمہ ميں امر خود مشورہ دينے والوں ہي كي طرف مضاف ہے (يہ امر مشورہ كرنے والوں ہي كا امر ہے)

ليكن يہاں پرآيہ كريمہ كے مورد ميں دواحتمال ممكن ہيں:

۱) مقصود يہ ہو كہ عمومي امور و واقعات ميں موقف معين كرنے كے لئے مشورہ دينے والوں كي راي يا ان كي اكثريت كي راي كي طرف رجوع كرنا چاہيئے۔

۲) شوريٰ اپنے تيسري احتمال كي صورت ميں مقصود ہو يعني لوگ آراء و افكار اور تجربات كے ذريعے ايك دوسري كي مدد و اعانت كريں جبكہ فرض يہ ہو كہ ولي امر موجود ہے جو ہر موضوع ميں اس موضوع كےماہر افراد كےآراء و افكار سے مطلع ہوكر اور صلاح و مشورہ كر كے حتمي فيصلہ دے گا اور مختلف امور كے متعلق موقف معين كرے گايہي دوسرا احتمال آيہ كريمہ سے ظاہر ہوتا ہے۔

اور ہم نے استدلال كي تقويت كے لئے جو كچھ كہا تھا (كہ ولي امر كي راي اخذ كرنے كا فرض خلاف ظاہر ہے كيونكہ اس (فرض) كے لئے قرينہ اور مزيدبيان كي ضرورت ہے جبكہ قرينہ و بيان آيہ كريمہ ميں موجود نہيں ہے) وہ درجہ ذيل وجوہ كي بناپر صحيح نہيں ہے:

آيہ كريمہ كا ظاہري معني يہ ہے كہ آيہ كريمہ بعض پسنديدہ صفات كے ذريعے مومنين كي جماعت كي توصيف كررہي ہے جو و صفات (پسنديدہ امور كو انجام دينا اور ناپسنديدہ امور كو ترك كرنا) كم ازكم نزول آيہ كے وقت شرعي طور پر مطلوب ومرغوب تھيں ليكن يہ فرض كرنا كہ ان اوصاف ميں سے بعض ايسي صفات ہيں جن كي پابندي فقط مستقبل ميں مطلوب و مرغوب ہے كيونكہ ان كے متعلق امر فقط اس ظرف ميں پسنديدہ اور بہتر ہوگا جو ظرف نزول آيہ كے بعد متحقق ہوگا۔

يہ فرض آيہ كريمہ كے ظاہر (ظاہري معني) كے خلاف ہے واضح رہے كہ نبي اكرم كے زمانے ميں خدائي ولايت شوريٰ كو نہيں بلكہ آپكو حاصل تھي اور آپ مومنين كے نفوس پر خود ان سے (تصرف كا زيادہ حق ركھتے تھے اور (اس كے باوجود) آپكو مشورى كا حكم ديا گيا اور آپكو اختيار ديا گيا كہ فيصلہ كريں (كسي بھي راي كو منتخب كريں خواہ وہ مشورہ دينے والے كي راي ہو ياآپكي اپني راي) اور اپنے عزم وارادے كے نفاذ كے لئے خدا پر توكل كريں ليكن لوگوں كے ساتھ مشورہ كرنالوگوں كے دل خوش كرنے اور انہيں اسلام كي طرف مائل كرنے كي غرض سے تھا يا زيادہ سے زيادہ دوسروں كي آراء وافكا ر سے معرفت حاصل كرنامقصود تھا (يعني تيسرا احتمال مقصودہے) ۔

آيہ كريمہ كا ظہور يہ ہے كہ لوگوں ميں سے مومنين اور نمونہ عمل افراد كي توصيف كي جارہي ہے وہ افراد جن ميں آيہ كريمہ كے نازل ہوتے وقت يہ صفات پائي جاتي ہيں نہ يہ كہ فقط آيہ كريمہ كے نازل ہونے كے بعد ان ميں يہ صفات وجود ميں آئيں گي اور اسي طرح يہ بھي واضح ہے كہ (اس وقت) ولي امر موجود تھا يعني رسول خدا موجود تھے اور آپكو شوريٰ كے ذريعہ كوئي دوسري ولايت حاصل نہيں ہوئي تھي (يعني وہ تو پہلے ہي سے صاحب ولايت تھے) يہ سب امور مل كر دليل بنتے ہيں اور قرينہ تشكيل ديتے ہيں جسے قرينہ متصلہ كہا جاسكتا ہے گويا يہ دليل تصريح كررہي ہے كہ اس وقت مشورہ كرنے كے بعد ولي امر كي راي كو اخذ كرنا ضروري تھا۔

صحيح وہي ہے جو ہم پہلے كہہ چكے ہيں كہ اگر قرينہ نہ پايا جائے تو يہ فرض كہ مشورہ كرنے كے بعد مشورہ دينے والے كي راي كو نہيں بلكہ ولي امر كي راي كو اخذ كيا جائےآيہ كريمہ كے ظاہر كے خلاف ہے ليكن ہم جان چكے ہيں كہ وضاحت مانند قرينہ موجود تھا كيونكہ نزول آيہ كريمہ كے وقت لوگوں كے اذھان ميں مكمل طور پر واضح تھا ۔

پس اس طرح واضح ہوگيا ہے كہ اس آيہ مباركہ كے ذريعہ يہ استدلال كرنا كہ شوريٰ ولايت شرعي عطاكرتي ہے باطل ہے ۔

ہم اس بحث كے اختتام پر ايك اور آيہ كے ذريعہ شورائي نظام كے لئے استدلال كرنے والوں سے اپنے شديد تعجب كا اظہار كرنا چاہيں گے وہ آيہ مباركہ يہ ہے:

( وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ امَّةٌ يدْعُونَ اِلَي الْخَيرِ وَيامُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَينْهَوْنَ عَنْ الْمُنْكَرِ وَاوْلَئِكَ هُمْ الْمُفْلِحُونَ ) (۹۵)

(اور تم ميں سے ايك گروہ كو ايسا ہونا چاہيے جو خير كي دعوت دے نيكيوں كا حكم دے برائي سے منع كرے اور يہي لوگ نجات يافتہ ہيں)

اس آيہ كريمہ سے شوري پر استدلال كرنے والوں ميں سے شيخ محمد عبدہ ہيں چنانچہ تفسير المنار(۹۶) ميں يہ استدلال موجود ہے اور قحطان الدوري بھي انہيں افراد ميں سے ہيں چنانچہ ان كي كتاب ”الشوريٰ بين النظريۃوالتطبيق،(۹۷) ميں يہ استدلال موجود ہے۔

ہميں معلوم نہيں امر بالمعروف اور نھي عن المنكر كے حكم سے كس طرح شورائي نظام كے اثبات كے لئے استدلال كيا جاسكتا ہے؟ كيا يہ (حكم) دلالت كرتا ہے كہ معروف كي تطبيق (ترويج) اور منكر كے خاتمے كي روش شوريٰ اور راي كي اتباع سے عبارت ہے(۹۸) ؟ آيہ مباركہ كس طرح دلالت كرتي ہے كہ شوريٰ اس ولايت عامہ كا سرچشمہ ہے جو ولايت، حكومت كي شرعي بنياد و اساس ہے اور اس ولايت كے علاوہ كوئي اور چيز تشكيل حكومت اور حكومت چلانے كي شرعي بنياد و اساس نہيں بن سكتى؟ !!

بہرحال شوريٰ كو ثابت كرنے كے لئے كسي آيت يا روايت سے استدلال (حتي اگرآيت و روايت پر كوئي خصوصي اشكال نہ بھي كيا جائے) اس عمومي اور ہماگير اشكال ميں مبتلا ہے جسے ہم شوريٰ كي بحث ميں تفصيلي طور پر بيان كرچكے ہيں۔ اور وہ عمومي اعتراض(۹۹) اشكال (خصوصي اشكالات كے يہ ہے كہ ہم نے واضح طور پر ملاحظہ كيا كہ قائد اعظم رسول خدا نے شوريٰ كے مختلف نظاموں (شوريٰ كي مختلف زمانوں كے اعتبار سے قابل نفاذ صورتيں) اور اس كے بنيادي اصول و ضوابط كے بيان كو اہميت نہيں دي اور اسي طرح اس سلسلے ميں (شيعوں ميں بھي) زمانہ غيبت سے پہلے ائمہ اھل بيت عليہ السلام كي طرف سے كوئي تفصيل بيان نہيں ہوئي ۔

اگرمان ليا جائے (فرض كرليا جائے) كہ رسول خدا يا ائمہ عليھم السلام ميں سے كسي ايك امام معصوم عليہ السلام نے اس مسئلہ كو (جو نہايت اہم اور زندگي ساز مسئلہ ہے كہ جسے مبہم و مجمل چھوڑنا ممكن نہيں) اہميت دي ہے تو (كم ازكم) ان حضرات كے بيانات اور شرعي نصوص كي كچھ مقدار ہم تك ضرور پہنچتي ليكن ہم ملاحظہ كرتے ہيں كہ ہم تك اس قسم كا كوئي بيان يا شرعي نص نہيں پہنچي۔

مگر ہم يہ احتمال ديں كہ قول خداوند متعال( وَامْرُهُمْ شُورَي بَينَهُم ) اور آپس كے معاملات ميں مشورہ كرتے ہيں)(۱۰۰) اس مستقبل كي طرف اشارہ ہے جو ابھي تك نہيں كيااور جب وہ مستقبل (مورد نظرزمانہ) آپہنچے گا تو شوريٰ كي مختلف اقسام، شوريٰ كي حدود وقيود اور شرائط بيان كي جائيں گي اور يہ كام امام مھدي عليہ السلام كے ذريعہ انجام پائے گا جب آپ ظہور فرمائيں گے۔يہ احتمال آيہ مباركہ كے ظہور كے خلاف ہے كيونكہ ہم نے بيان كيا ہے كہ آيہ مباركہ كا ظاہر يہ ہے كہ شوريٰ (مشورہ) آيہ كے نزول كے زمانے ميں ايك پسنديدہ صفت تھي اور اس وقت موجود تھي آيہ مباركہ ايسے نظام كو بيان نہيں كررہي جس كي تطبيق ونفاذمستقبل بعيد ميں واجب ہے ۔

بہرحال ہم كسي بھي آيت وروايت يا كسي بھي دوسري دليل سے يہ استفادہ نہيں كرسكے كہ رسول اعظم كے بعد يا زمانہ غيبت ميں شوريٰ، اسلامي نظام حكومت كي بنياد بن سكتي ہے۔ پس واضح ہوگيا كہ شورائي نظام بھي جمہوري نظام كي طرح حكومت كے لئے صحيح و منطقي بنياد و اساس فراہم نہيں كر سكتا۔

فقيہ كا شوريٰ سے رشتہ

ممكن ہے كہا جائے ہم آئندہ ذكر ہونے والے ولايت فقيہ كے دلائل (اگر مكمل ہوں)

اور آيہ مباركہ ,,وَامْرُھُمْ شُورَي بَينَھُم،، جوتيسري احتمال كے مطابق دوسروں كےآراء و افكار سے مطلع ہونے اور ان كے تجربات سے رہنمائي و ہدايت حاصل كرنے كي طرف ناظر ہے، كے درميان يوں جمع كرسكتے ہيں كہ فقيہ كے لئے مختلف امور ميں مشورہ كرنا اور دوسروں كے افكار سے مدد لينا واجب ہے البتہ اس كا مطلب يہ نہيں كہ مثلااكثريت كي راي پر عمل كيا جائے بلكہ فقط دوسروں كي آراء سے مطلع ہونے، حقيقت سے قريب ہونے اور ان كے تجربات كو اپنے تجربات سے ملانے كي خاطرمشورہ كرنا ضروري ہے۔

واضح ہے كہ شوريٰ كو اس معني پر حمل كرنا سزاوار و شائستہ نہيں كہ جتنے لوگوں كے لئے بھي شوريٰ كا موضوع قابل اہميت ہو اور وہ ان كا امر كہاجائے تو ان سب لوگوں كے آراء و افكار سے ضروري ہے بلكہ معنيٰ يہ ہوگا كہ شوريٰ ايك عقلائي منبع و سرچشمہ (قانون) كي طرف ناظر ہے جو عملي قدم اٹھانے سے پہلے مختلف تجربات كي جمعاوري اور دوسروں كي آراء كے ملاحظہ كي دعوت ديتا ہے ۔

واضح ہے كہ اس عقلائي منبع و سرچشمہ ميں اس امر كو مدنظر نہيں ركھا گياہے كہ جتنے لوگ بھي شوريٰ كے موضوع سے وابستہ ہوں ان سب كےآراء و افكار كوجمع كيا جائے۔ہاں جمہوريت كے طرفدار اس نظريہ كے قائل ہيں كہ جتنے لوگ بھي شوريٰ كے موضوع سے مربوط ہوں اور وہ امر ان كا امرشمار ہو، انہيں اظہار نظر اور اپني راہ معين كرنے كا حق حاصل ہے ليكن اس نظريہ كے مطابق ايسا ضروري نہيں جس نظريہ كے مطابق لوگوں كي آراء و افكار اور تجربات سے روشني ليتے ہوئے بہتر راستے كي معرفت اور حقيقت كا حصول مقصود ہے كيونكہ اكثر اوقات مشورہ ايك خاص گروہ كے درميان بحث و گفتگو اور تبادلہ خيال كے ذريعہ تحقق پذير ہوتا ہے اور بعض اوقات محدود افراد كے درميان انجام پانے والے مشورہ كے ذريعہ حقيقت تك پہنچنے كا زيادہ امكان ہوتا ہے جب كہ اس مشورہ ميں يہ امكان كم ہوتا ہے جس ميں تمام لوگوں كو مشورى ميں شامل كيا جاتا ہے اور تمام لوگوں كےآراء جمع كيئے جائيں ۔

البتہ كبھي كبھار مورد مشورہ ايسا موضوع ہوتا ہے جس ميں جتنے زيادہ لوگ شركت كريں اور شريك ہونے والے فيصدي كے اعتبار سے زيادہ ہوں، اتنے ہي بہتر اثرات مرتب ہوتے ہيں(۱۰۱) يہ ايك دوسرا موضوع ہے۔

خلاصہ بحث

جب ہم نےآيہ مباركہ كو شوريٰ كے تيسري معني پر حمل كيا توآيہ اس امر كي طرف ناظر نہيں ہے كہ تمام لوگ يا ان كي اكثريت سے مشورہ كيا جائے۔ليكن (سوال يہ ہے كہ) كيا يہ جمع اور اس كا نيتجہ صحيح ہے اور كيا ولي ّ فقيہ يا فقہا پر واجب ہے كہ اجتماعي امور ميں لوگوں سے مشورہ كريں؟

بعض لوگوں نے جواب ديا ہے كہ آيہ مباركہ سے يہ استفادہ كرنا اور يہ نتيجہ لينا درست نہيں ہے كيونكہ يہ نتيجہ اس بات پر موقوف ہے كہ آيہ مباركہ شوريٰ كے وجوب پر دلالت كرے ليكن اگرآيہ مباركہ كو شوريٰ كے متعلق تين احتمالات ميں سے تيسري احتمال پر حمل كيا جائے اور سياق آيہ كو مدنظر ركھا جائے توآيہ مباركہ شوريٰ كے وجوب پر دلالت نہيں كرتي (چنانچہ ہم تذكرہ كرچكے ہيں) ہاں اگر ہم شوريٰ كو اس معني پر حمل كريں كہ مشورہ دينے والے كي راي اپنائي جائے تو اس صورت ميں مشورہ كے متعلق امر كو استحباب پر حمل نہيں كيا جاسكتا بنابرايں آيہ مباركہ (اپنے سياق كے لحاظ سے) اس سے زيادہ معني پر دلالت نہيں كرتي كہ شوريٰ، اسلامي آداب ميں سے ايك ادب ہے جو كبھي واجب ہوتا ہے اور كبھي مستحب، اس كا وجوب و استحباب موارد و خصوصيات كے مختلف ہونے سے مختلف ہوتا ہے بنابرايں اس آيہ مباركہ كے ذريعہ يہ ثابت كرنا ممكن نہيں كہ ولي ّ امر (ولي فقيہ) پر مشورہ كرنا واجب ہے۔

ہاں ہم عنقريب بحث كريں گے كہ ولي ّ امر كو اس لئے ولي قرار ديا گيا ہے تاكہ ان لوگوں كي ضروريات اور نقائص كو برطرف كرسكے جن لوگوں پر اسے ولايت حاصل ہے بنابراين فقيہ كو اس لئے معاشري كا ولي قرار نہيں ديا گيا كہ وہ اپني آراء ان لوگوں پر مسلط كرے بلكہ اسے ولي قرار دينے كا مقصد يہ ہے كہ عوام كي خدمت كرسكے اور ان كے مفاداتا اورمصلحتوں كا تحفظ كرسكے لہذا اگر ولي فقيہ تشخيص دے كہ شديد مصلحت اس چيز ميں پائي جاتي ہے كہ امور ميں لوگوں سے مشورہ كيا جائے تو فقيہ كے لئے ضروري ہے كہ لوگوں سے مشورہ كرے اور اگر بعض اوقات ولي فقيہ تشخيص دے كہ اس وقت مصلحت كا تقاضا يہ ہے كہ لوگوں سے فقط مشورہ ہي نہ كيا جائے بلكہ اكثريت آراء پر عمل بھي كيا جائے تو اكثريت كي آراء پرعمل كرنا فقيہ پر واجب ہوگا۔

بعض اوقات كچھ لوگ اعتراض كرتے ہيں كہ چونكہ آيہ مباركہ قابل نمونہ مومنين كي صفتيں بيان كررہي ہے اور ان صفتوں ميں سے ايك صفت مشورہ ہے لہذاآيہ مباركہ سے استفادہ ہوتا ہے كہ مشورہ ہميشہ امت كي مصلحت و نفع ميں ہوتا ہے اور جب فرض يہ ہے كہ ولي پر لازم ہے كہ اپنےماتحت لوگوں كے مفادات كي رعايت كرے تو ثابت ہوجائے گاكہ فقيہ پرمسلمانوں كے تمام امور ميں ہميشہ مشورہ كرنا ضروري ہے۔

ليكن حقيقت يہ ہے كہ جب ہم نے شوريٰ كو تيسري معني پر حمل كيا ہے تو اب آيہ سے يہ استفادہ نہيں ہوتا كہ بہ طور مطلق (بغير كسي قيد وشرط كے) فقيہ پر مشورہ كرنا واجب ہے (حتي اگر ہم گزشتہ كو بھي ضميمہ كريں) لہذا يہ كہنا بےجا ہے كہ كيونكہ مشورہ ہميشہ (بلااستثناء) امت كے لئے مفيد و نفع بخش ہے لہذا ہميشہ اور ہر امر ميں مشورہ واجب ہے۔

بلكہ يہ احتمال بھي ممكن ہے كہ شوريٰ كے متعلق حكم اس عقلائي اور قابل انعطاف مشورہ كي طرف ناظر ہو كہ جس كا حكم موارد كے اختلاف كے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے اس احتمال كي دليل يہ ہے كہ آيہ شريفہ ميں مورد بحث جملہ، انفاق (راہ خدا ميں مال خرچ كرنا) و مغفرت كے سياق ميں واقع ہوا ہے اور واضح ہے كہ انفاق و مغفرت وہ امور ہيں جن كے احكام موارد كے اختلاف كے ساتھ ساتھ تبديل ہوتے ہيں پس يہ امور كبھي واجب ہوتے ہيں اور كبھي مستحب، جب كہ بعض اوقات پسنديدہ نہيں ہوتے يہ ايسے امور نہيں كہ جن ميں ہميشگي پائي جائے اور ان كا حكم (ہميشہ كے لئے) معين و مشخص ہو۔

پس ہم اس نتيجہ پر پہنچے كہ آيہ مباركہ سے اس مقدار سے زيادہ استفادہ ممكن نہيں ہے جو مقدار اس آيہ مباركہ سے قطع نظر پہلے سے ثابت شدہ ہے۔ اور وہ ثابت شدہ مقدار يہ ہے كہ عام طور پر اكثر امور ميں ولي امر (فقيہ جامع الشرائط) پر واجب ہے كہ شوريٰ پر اعتماد كرے تاكہ اس كے لئے بہتر راستہ كي نشان دہي ہوسكے اور اگرآيہ مباركہ كے سياق سے چشم پوشي بھي كرلي جائے تب بھي ہماري لئے ممكن نہيں كہ آيہ مباركہ سے بہ طور مطلق (تمام شرائط ميں) مشورہ كا وجوب ثابت كرسكيں كيونكہ ہم نےآيہ مباركہ ميں انے والے لفظ شوريٰ كو شوريٰ كے متعلق پائے جانے والے تين احتمالات ميں سے تيسري احتمال پر حمل كيا ہے (يعني لوگوں كےآراء و افكار سےآگاہي) اور يہ عقلائي (قانون) خود شوريٰ كي حدود كو سمجھنے ميں موثر ہے اور موجب بنتا ہے كہ ہم آيہ مباركہ سے يہ استفادہ كرسكيں كہ آيہ مباركہ مذكورہ قابل انعطاف اور غيرحتمي عقلائي قانون كي طرف اشارہ كررہي ہے اور اس قانون كا دائرہ اسي نرمي اور انعطاف پذيري سے تجاوز نہيں كرتا۔

____________________

۳۰. يہاں پر مؤلف نے لفظ ”مرونہ “ استعمال كيا ہے جس كا معني ہے نرمي اور لچك دار ہونا جس طرح نرم اور لچك دار جسم مختلف شكلوں ميں بدلنے كي صلاحيت ركھتا ہے اسي طرح اسلامي نظام كے لئے شوريٰ كو بنياد قرار ديا گيا ہے ليكن اس كي خاص شكل و صورت بيان نہيں كي گئي تاكہ تمام زمانوں اور تمام مكانوں ميں تمام تر معاشرتي شرائط كے اختلاف كے باوجود قابل تطبيق اور قابل نفاذہو ۔ .مترجم.

۳۱. يعني ممكن ہے ايك نظام ميں زيادہ صلاحيت پائي جائے اور وہ دوسري نظام كي نسبت زيادہ مناسب و موزوں ہو يا ايك ہي نظام بعض شرائط ميں زيادہ مناسب ہو جبكہ دوسري حالات و شرائط ميں كمتر مفيد و موزوں ہوں

۳۲. يعني خاص شكل و صورت معين نہ كرنا بلكہ مطلق چھوڑ دينا تاكہ ہر زمانے كے مطابق شكل و صورت اور نوعيت كا انتخاب كيا جائے .الشوريٰ بين النظريہ والتطبيقص ۶۷.

۳۳. مثلاايك طرف ايك ووٹ زيادہ ہوجائے جسے COSTING يعني فيصلہ كن ووٹ كہاجاتا ہے۔

۳۴. مثلااگرشوريٰ كا موضوع زراعت سے مربوط ہو تو يہ موضوع كاشتكاروں كے لئے زيادہ قابل اہميت ہے اگرچہ دوسري لوگوں سے بھي اس كا تعلق ہے ليكن كاشتكار كے لئے زيادہ اہميت كا حامل ہے اسي طرح اگر شوريٰ كا موضوع ميڈيكل سے مربوط ہو تو يہ موضوع باقي افراد كي نسبت ڈاكٹروں كے لئے زيادہ اہميت كا حامل ہے (مترجم)

۳۵. سورہ شوريٰ آيت ۳۸

۳۶. بعض اوقات دو افراد ميں سے كسي ايك كو دوسري پر مقدم كيا جاتا ہے اسكي دو صورتيں ہيں .الف. ايك دفعہ كسي خصوصيت كو مدنظر ركھے بغير اور كسي ضابطے اور معيار كو مدنظر ركھے بغير ايك كو دوسري پر ترجيح دي جاتي ہے يہ ترجيح بلامرجح ہے ۔

۳۷. بنابراين نظام كي مختلف اقسام اور مختلف شكلوں .جو سب كي سب مشكلات كو حل كرنے كي صلاحيت ركھتي ہيں. ميں سے كسي ايك كو اختيار كرنا اسے مھمل اور آزاد چھوڑنے سے افضل تھا۔علاوہ بران نظام كي مختلف اقسام ميں سے ايك شكل و قسم كو اختيار كرنے كا حق پوري امت كو ديا گيا ہے، افراد كو نہيں بنابرايں اگرلوگ اس امر ميں اختلاف كرتے تو سب كے سب مستحق سزا و عقاب ہوتے ہيں۔. قائد كے تعين كے نظام كي طرف عدول كرتا اور اسے ولايت مطلقہ عطا كرتا اور مخصوص صفات كے حامل افراد كو ولايت مطلقہ عطا كرتا اسي طرح اسلام كے لئے ممكن تھا كہ انسانيت كو ساحل سعادت سے ہمكنار كرنے كے لئے بلاواسطہ دخالت كرتا اور كسي قسم كا نقص بھي لازم نہ آتا اور يہ ايساامر ہے جسے اسلام نے پوري دقت كے ساتھ انجام ديا ہے .چنانچہ قابل مشاہدہ ہے.

۳۸. سورہ اعراف آيہ ۹۶

۳۹. سورہ مائدہ آيت: ۶۶

۴۰. اطلاق پايا جاتا ہے يعني اسے كسي خاص قيد كے ساتھ مقيد نہيں كيا گيااطلاق اصول كي اصطلاح ميں تقييد كے مقابلے ميں ہے (مترجم)

۴۱. استحسان اس كے لغوي معني ہيں طلب حسن ۔ اور اہل سنت كے نزديك اجتہاد كے منابع وماخذ ميں سے ايك ”استحسان” ہے يعني جس طرح قران و سنت سے حكم اخذ كيا جاسكتا ہے اسي طرح قياس و استحسان سے بھي كسي موضوع كا حكم دريافت كيا جاسكتا ہے اگر مجتہد كے پاس قران و سنت سے كوئي دليل موجود نہ ہو تو وہ اپني سوچ و فكر كے مطابق كسي چيز كو بہتر قرار ديتا ہے مثلا بہتر يہ معلوم ہوتا ہے كہ اس موضوع كا حكم يہ ہونا چاہيے۔ يہي استحسان ہے۔ .مترجم.

۴۲. نہج البلاغہ، مكتوب نمبر۶

۴۳. وقعۃ صفين، مطبوعہ قم ص ۲۹

۴۴. وقعہ صفين، ص ۵۸

۴۵. نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۷۱

۴۶. اوران روايات كے ساتھ ان روايات كا بھي اضافہ كيا جائے گا جو جماعت سے جدائي كي حرمت كے متعلق ائمہ معصومين سے نقل ہوئي ہيں اور ان روايات كا ظہور اس معني ميں ہے كہ مسلمانوں كي ايسي عظيم اكثريت جو خليفہ وقت كے تابع ہو اس سے مفارقت و جدائي حرام ہے اور وہ خليفہ وقت (ائمہ عليہ السلامكي نظر ميں) غاصب ہو جيسے كافي ميں اصحاب اماميہ كي جماعت سے اس جماعت نے احمد بن محمد سے اس نے ابن فضال سے اس نے ابي جميلہ سے اس نے محمد حلبي سے اور محمد حلبي نے امام جعفر صادق - سے نقل كيا ہے كہ حضرت نے فرمايا”جو شخص مسلمانوں كي جماعت سے ايك بالشت كے برابر جدا ہوا .دور ہوا. گويا اس نے اپني گردن سے اسلام كا قلادہ .ہار. اتار ديا اور اس” سند كے

۴۷. نہج البلاغہ خطبہ(۳)شقشقيہ

۴۸. آل عمران آيت۱۵۹

۴۹. سورہ شوريٰ آيت ۳۶تا ۳۹

۵۰. علم حديث كي رو سے تواتر يہ ہے كہ .راويوں كي اتني تعداد كسي روايت كو نقل كرے جس سے اس حديث كے صادر ہونے كا يقين حاصل ہوجائے. تواتر كے لئے كسي خاص عدد كو معين نہيں كيا گيا اور تواتر سے نچلے درجے كو استفاضہ كہا جاتا ہے يعني راويوں كي اتني تعداد كسي روايت كو نقل كرے جس سے انسان كو يقين حاصل نہ ہو تو اسے استفاضہ كہا جاتا ہے يا بہ الفاظ ديگر خبر واحد اور تواتر كے درمياني مرتبہ كو استفاضہ كہا جاتا ہے۔ (مترجم)

۵۱. وہ ابواب كہ جن ميں معاشرت كے احكام بيان ہوئے ہيں۔ (مترجم)

۵۲. وسائل الشيعة، جلد۸ ص ۴۰۹، باب: ۹، ابواب احكام عشرۃ، حديث:(۴)

۵۳. وسائل الشيعة، جلد۸ ص۴۲۴، باب: ۲۱، ابواب: احكام العشرۃ، حديث:(۱)

۵۴. وسائل الشيعة، ج۲ ص۴۲۴، باب: ۸، ابواب: احكام العشرۃ، حديث-(۲)

۵۵. وسائل الشيعة، جلد۲ ص۴۲۴، باب: ۸، ابواب: احكام العشرۃ، حديث:(۳)

۵۶. وسائل الشيعة، جلد۸ ص ۴۲۴، باب: ۲۱، ابواب: احكام العشرۃ، حديث:(۴)

۵۷. وسائل الشيعة، جلد۱ ص۴۲۸، باب: ۲۱، ابواب: احكام العشرۃ، حديث:(۱)

۵۸. وسائل الشيعة، جلد۴ ص۴۲۸، باب: ۲۱، ابواب: احكام العشرۃ، حديث:(۴)

۵۹. وسائل الشيعة، ج۴ص۴۲۸، باب: ۲۱، ابواب: احكام العشرۃ، حديث:(۵)

۶۰. وسائل الشيعة، ج۵ص۴۲۶، باب: ۲۲، ابواب: احكام العشرۃ، حديث: ۵،

۶۱. وسائل الشيعة، ج۶ ص ۴۲۶، باب: ۲۲، ابواب احكام العشرۃ، حديث:(۶)

۶۲. وسائل الشيعة، ج۲ ص ۴۲۹، باب: ۲۵، ابواب احكام العشرۃ، حديث:(۲)

۶۳. الشوريٰ بين النظريہ والتطبيق ص ۲۷تا۳۰

۶۴. زمين كي پشت كنايہ ہے زندگي سے جبكہ زمين كا بطن كنايہ ہے موت سے يعني اس صورت ميں تمہاري لئے زندگي موت سے بہتر ہے (مترجم)

۶۵. اپني ہي ملكيت ميں جسكے تصرفات كوشريعت نے ممنوع قرار ديا ہو كيونكہ وہ صحيح تصرفات كي اہليت نہيں ركھتا (مترجم)

۶۶. بہ طور مثال پاني پينا عنوان اولي كے تحت مباح .جائز. ہے ليكن اگر زندگي كا دارمدار پاني پر ہو مثلا ايك شخص شدت پياس سے جان بلب ہو اگرچہ پاني پينا عنوان اولي كے تحت جائز ہے ليكن اس صورت ميں واجب ہے كيونكہ اس وقت اس پر ايك اور عنوان صادق آرہا ہے جسے عنوان ثانوي كہا جاتا ہے اور وہ ہے موت سے نجات اور موت سے نجات واجب ہے پس عنوان ثانوي كے تحت پاني پينا واجب ہے (مترجم)

۶۷. جو كام عنوان اولي كے تحت لازم نہ ہو اسے لازمي قرار دينے كے لئے ولايت (حق حاكميت) كا دائرہ بہت وسيع ہے .چنانچہ ولايت فقيہ كي بحث ميں اس كي وضاحت كي جائے گي انشاء اللہ.

۶۸. ۱۔ اگر عدم جواز اصول عمليہ ميں سے كسي اصل كے ذريعہ ثابت ہوا ہو، وہ اصول عمليہ جن كے باري ميں بحث علم اصول فقہ ميں كي جاتي ہے يا عدم جواز ظن و گمان كے ذريعہ ثابت ہوا ہو مثلا ان مورد ميں كہ جہاں پر شرعي امارہ موجود نہيں ہوتا لھذا ہميں مجبورا ظن كي اتباع كرني پڑتي ہے يہاں پر ولي امر .ولي فقيہ. كا حكم مقدم ہے جب حكم كے ذريعے امارہ تشكيل پائے كيونكہ امارہ اصل اور ظن پر مقدم ہوتا ہے۔

۶۹. اگرچہ فقط اس موردميں كہ جہاں پر حكم كاشف ہو .اس اصطلاح كے مطابق كہ جسے ہم ولايت فقيہ كي بحث ميں ذكر كريں گے. ورنہ اس كے لئے .شوريٰ كے لئے. ممكن نہيں كہ الزام كو اٹھادے .جواز ميں بدل دے. مگر موضوع كو تبديل كرنے كے ذريعہ .موضوع لزوم كو اٹھانے كے ذريعے الزام كو اٹھكياجاسكتا ہے.

۷۰. نذر وعہد ۔۔۔۔۔۔۔اس صورت ميں واجب ہيں جب ان كا متعلق جائز امر ہوں ورنہ واجب نہيں مثلا اگر كوئي شخص كسي كو قتل كرنے كي نذر كرے .جو حرام ہے. يہ نذر واجب الوفاء نہيں ۔ (مترجم)

۷۱. جسے منطقہ الفراغ سے تعبير كيا جاتا ہے بعض وہ امور جن ميں شريعت نے حكم نہ كيا ہو۔ (مترجم)

۷۲. سورہ احزاب آيت ۳۶

۷۳. كيونكہ اگر وسيع دائري سے راي لي جائے تب بھي يہ جماعت اس ميں شامل ہےاوراگرصرف اس خاص جماعت سے راي لي جائے اور اسكے ذريعے شوريٰ تشكيل پائے تب بھي يہ جماعت شوريٰ اور راي گيري ميں شريك ہے (مترجم)

۷۴. كہ مومنين كي صفت يہ ہے كہ اپنے امور ميں باہمي مشورہ كرتے ہيں ”وامرھم شوريٰ بينھم"

۷۵. يعني اگر ايك عربي داں شخص كے سامنے يہ آيت ركھي جائے تو وہ يہ نہيں سمجھتا كہ فقط فقہاء مراد ہيں (مترجم)

۷۶. علماء اصول فقہ كي اصطلاح ميں يہ كہا جاتا ہے كہ بعض دلائل مثلاآيت و روايت قابل تخصيص .استثناء. نہيں ہے

۷۷. ہميں اس مشكل كا سامنا تھا كہ عرف اس تخصيص كي اجازت نہيں ديتا تھا جب ہم نے امت كو يہ اختيار دے ديا كہ فقہاء ميں سے اپنے نمائندگان كا انتخاب كرليں توامت كو عطا شدہ اختيار كہ يہي مقدار اس مشكل كو حل كرنے كے لئے كافي ہے اور يہي مقدار يقيني طور پر امت كے لئے ثابت ہے (مترجم)

۷۸. اوراسي طرح ان روايات كو استثناء كريں گے جنہيں ہم حاشيے ميں ذكر كرچكے ہيں ۔

۷۹. اشارہ ہے كہ اس دلالت كو يہ كہتے ہوئے رد كيا جاسكتا ہے كہ روايت اس عقلائي قاعدے كي طرف رہنمائي كررہي ہے جس كے مطابق دوسروں كے تجربات سے استفادہ كرنے كي غرض سے ان سے مشورہ كرنا پسنديدہ كام ہے اس قاعدے كا ملاك وجوب واستحباب كے لحاظ سے ہر مورد ميں دوسري موارد سے مختلف ہے بلكہ كبھي شخص كي نگاہ ميں امر .موضوع. مكمل طور پر اتنا واضح ہوتا ہے كہ وہ اسے مشورى كا موردہي نہيں سمجھتا۔

۸۰. ثم اختر اقربھا الي الصواب و ابعدھا من الارتياب

۸۱. يہاں پر كوئي كہہ سكتا ہے كہ اگر روايت ميں موجود جملوں ”اموركم شوريٰ بينكم”جب تمہاري امور شوريٰ سے انجام پائيں اور” اموركم الي نسائكم” جب تمہاري امور عورتوں كے مشورہ سے انجام پائيں، كو مدنظر ركھا جائے تو ان دوجملوں كے درميان ايك قرينہ مقابلہ يا قرينہ تقابل پايا جاتا ہے جو تقاضا كرتا ہے كہ جس تمہارا دوسرا جملہ انفرادي موضوعات و واقعات كوشامل ہے

۸۲. علم اصول ميں طريقيت كے مقابلے ميں موضوعيت كا لفظ استعمال ہوتا ہے مثلا كہا جاتا ہے كہ فلاں صفت موضوعيت ركھتي ہے يعني في نفسہ مطلوب نہيں جبكہ اس كے مقابلے ميں كہا جاتا ہے فلاں صفت طريقيت ركھتي ہے يعني في نفسہ مطلوب نہيں ہے بلكہ مطلوبہ ھدف تك پہنچنے كا وسيلہ اور طريق ہے (مترجم)

۸۳. اگرچہ عياشي اور احمد بن محمد ثقہ ہيں ليكن ان دو كے درميان سلسلہ سند ميں واقع ہونے والے راويوں كي حالت معلوم نہيں كہ كيا وہ ثقہ .قابل اعتماد. ہيں يا نہيں لہذا روايت ضعيف ہے (مترجم)

۸۴. يعني اگر تمہارا فيصلہ ان كے مشوروں اوران كي آراء كےمخالف ہوتوگھبرانے كي ضرورت نہيں بلكہ خدا پر توكل كرو (مترجم)

۸۵. تفسير المنار رشيد رضا جلد(۴)ص ۲۰۵يعني جب شوريٰ كے نتيجے ميں ترجيح پانے والے راستے .مشورى. كي تائيد كرنا چاہو تو .گھبراؤ نہيں. بلكہ خدا پر توكل كرو۔ (مترجم)

۸۶. يعني جب عزم و ارادہ كا متعلق حذف ہو اوراس كي تعيين پر كوئي قرينہ بھي موجود نہ ہو تو اس كا ظہوريہ ہے كہ عزم و ارادہ كا متعلق ارادہ كرنے والے كي اپني راي ہے

۸۷. علم اصول ميں ظہور سے مراد يہ ہے كہ اس لفظ يا جملے كا ظاہري معني يہ ہے يعني اس معني كا احتمال قوي ہے جبكہ دوسري معني كا احتمال بھي ممكن ہے اگرچہ وہ احتمال بہت ضعيف ہے جبكہ اس كے برعكس جب يہ كہا جاتا ہے كہ فلاں لفظ فلاں معني ميں نص ہے تو اس كا مطلب يہ ہے كہ اس كے علاوہ كسي اور معني كا احتمال نہيں ديا جاسكتا ہے يعني احتمال خلاف بالكل منتفي ہے .مترجم.

۸۸. فرض نہيں كيا جاسكتا كہ آيہ مباركہ شوريٰ كے ذريعہ نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو حاكميت و ولايت عطا كررہي ہے كيونكہ نبي اكرم تو پہلے ہي سے مومنين كے مولي و سرپرست اور ان كے نفوس پر خود ان سے بھي زيادہ حق تصرف ركھتے ہيں (مترجم)

۸۹. علماء اصول فقہ كہتے ہيں كہ عرفاً مورد كا عام سے خارج ہونا قبح و ناپسنديدہ ہے۔

۹۰. سورہ شوريٰ آيہ ۳۸

۹۱. .وَامْرُھُمْ شُورَي بَينَھم. امرھم ميں .ھم. كي ضمير كي بازگشت مشورہ كرنے والوں كي طرف ہے اور بينھم ميں .ھم. كي ضمير بھي انہي كي طرف لوٹتي ہے لہذاآيہ مباركہ ميں جداگانہ طور پر مشورہ كرنے والوں اور مشورہ دينے والوں كو فرض نہيں كيا گيا بلكہ مشورہ لينے والے اپنے ہي درميان مشورہ كرتے ہيں۔ (مترجم)

۹۲. ضميمہ نمبر۱

۹۳. ضميمہ نمبر۲

۹۴. سورہ شوريٰ آيہ ۳۶تا ۳۹

۹۵. سورہ آل عمران آيہ ۱۰۴

۹۶. تفسير المنار ج۴ ص۴۵صاحب تفسير محمد رشيد رضا نے اپنے استاد شيخ محمد عبدہ سے نقل كيا ہے۔

۹۷. الشوريٰ بين النظريۃ والتطبيق قحطان الدوري ص۲۶

۹۸. شوريٰ اورراي گيري كي پيروي كرتے ہوئے معاشري ميں معروف كي ترويج اورمنكركاخاتمہ ممكن ہے (مترجم)

۹۹. عمومي سے مراد يہ ہے كہ يہ اشكال شوريٰ كے تمام دلائل .كيات وروايات. پر وارد ہے اگرچہ ہرايك دليل پر خصوصي اعتراضات و اشكالات بھي وارد ہيں (مترجم)

۱۰۰. سورہ شوريٰ آيہ ۳۸

۱۰۱. فرض كريں اگرساٹھ فيصد لوگ شركت كريں تو تھوڑا اثر ہوگا اور اگرپنچانوے فيصدلوگ شركت كريں تو زيادہ اثر مرتب ہوگا مثلاً وہ مسائل جن كے باري ميں ريفرنڈم كروكيا جاتا ہے ان ميں شركت كرنے والوں كي تعداد جتني زيادہ ہوگي اتنے ہي بہتر اثرات مرتب ہوں گے ۔ (مترجم)