عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 13%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 421

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 421 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 208573 / ڈاؤنلوڈ: 8556
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

پہلی جلد

علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم:سید قلبی حسین رضوی

۳

خطوط اور مقدمے

کتاب عبدا للہ بن سبا کی علمی قدر و قیمت

ایک شیعہ دانشور محترم جناب شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

الازہر یونیورسٹی ، مصر کے مجلہ کا جواب

مباحث پر ایک نظر

سلسلہ مباحث کی پیدائش

۴

کتاب عبد اللہ بن سبا کی علمی قدرو قیمت

مصر کی الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر جناب ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کا خط

کتاب عبدالله بن سبا ، آخر میں دوسرے ایڈیشن کے عنوان سے مصر میں دوسری بار شائع ہوئی ہے،اس کتاب نے اہل سنت ممالک میں گہرا اثر ڈالا ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں خاص کر الازہر یونیورسٹی کے دانشوروں اور اساتذہ کی توجہ کا سبب بنی ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں میں غیر معمولی اثر ڈالا ہے ،مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی طرف سے مؤلف کو اس کتاب کو پسند کرنے کے سلسلہ میں کئی خطوط ملے ہیں ، ان میں سے ایک جناب ڈاکٹر حامدکا خط ہے ، وہ مصر کے ایک نامور دانشور ہیں ، جو کئی قابل قدر تحقیقی تالیفات کے مالک ہیں ۔

چونکہ یہ خط انصاف و عدالت کا ایک نمونہ اور تعصب اورہٹ دھرمی کی سرحدوں کو توڑنے والا ایک عنوانہے اس لئے ہم اسے ترجمہ کرکے شائع کرتے ہیں(۱)

____________________

۱۔ نشریہ سالانہ مکتب تشیع ۴/۳۰۲۔

۵

خط کا مضمون

تاریخ اسلام کی تیرہ صدیاں اختتام کو پہنچی ہیں ان تیرہ صدیوں کے دوران ہمارے دانشوروں کے ایک گروہ نے حتی الامکان شیعوں کے خلاف آواز اٹھائیہے اور حقائق کو اپنی نفسانی خواہشات سے مخلوط کیا ہے اس ناپسندیدہ روش کی وجہ سے اسلامی فرقوں کے د رمیان گہرے اختلافات پیدا ہوئے ہیں ، نتیجہ کے طورپر شیعہ دانشوروں کے فکر و اندیشہ کے گوہر کو حقیر سمجھا گیا ہے اسی روش کی بنا پر علمی دنیا کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

شیعہ دانشوروں کے افکار سے علم محروم رہا ہے کیونکہ دشمنوں نے شیعوں کے پا ک و صاف دامن کو داغدار بنا کر انھیں ایک توہمات و خرافات کے حامل گروہ کے طور پر پہچنوایا ہے ، بے شک ہم شیعوں کے صاف و شفاف علمی چشمہ زلال سے ایک گھونٹ پی سکتے تھے نیزاس مذہب کے سرمایہ سے فائدہ اٹھا سکتے تھے ، لیکن افسوس کہ ہمارے گزشتہ دانشوروں نے تعصب سے کام لیااور عقل کو ھوا و ہوس پر ترجیح نہیں دی ، اے کاش کہ وہ لوگ عقل کی پیروی کرتے اور جذبات کے کھلونے نہ بن تے !! جو کوئی تعصب کے عینک کو اتارکر فقہی مباحث کےلئے اقدام کرے اور فقہ مذاہب چہارگانہ پر تحقیق کرے ، وہ شیعہ فقہ سے بھی استفادہ کرنے پر مجبور ہے اور بے شک جب فقہ اہل سنت پرتحقیق کرے تو اس وقت شیعہ فقہ کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے اور اس سے آگاہ ہونا چاہئے ۔

۶

ہم کب تک خواب غفلت میں رہیں گے ؟! کیا فقہ شیعہ کے پرچم دار ،ا مام جعفر صادق علیہ السلام(۱) سنی مذہب کے دو امامو ں کے استاد نہیں تھے؟ یہ دو امام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مکتب میں زانوئے ادب تہہ کیا ہے ۔

ابو حنیفہ ، نعمان بن ثابت(۲) کہتے ہیں :

لولاالسنتان لهلک النعمان

اگر امام صادق علیہ السلام کے درس میں دو سال شرکت نہ کی ہوتی تو بے شک میں ہلاک ہوجاتا، اوردین سے منحرف ہوتا۔

اس کی مراد وہی دو سال ہیں جس میں انہوں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کے علم کے میٹھے اور زلالی چشمہ سے استفادہ کیا ہے ۔

اور یہ مالک بن انس ہیں جو واضح طور پر اعتراف کرتے ہیں :

ما رایت افقه من جعفر بن محمد

میں نے جعفر بن محمد سے فقیہ تر کسی کو نہیں د یکھا ہے(۳)

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ علم کے بارے میں صرف دور سے کچھ سننے والوں نے اپنے آپ کو دانشور سمجھ کر اپنے قلم سے تحقیق کی بنیادوں کو اکھاڑ کر حق و حقیقت کو اپنی نفسانی خواہشات پر قربان

____________________

۱۔ وفات ۱۴۸ ھ

۲۔ وفات ۱۵۰ھ

۳۔ وفات ۱۷۹ ھ

۷

کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر گلستان علم کے دروازے ان پر بند ہوگئے اور اس طرح وہ شمع معرفت کے نور سے محروم ہوگئے ہیں ، اس مذموم روش نے فتنہ کی آگ کو بھڑکانے کے علاوہ مسلمانوں میں ، دن بدن اختلافات کو بڑھا وا دیا ہے ۔

افسوس کہ ہمارے استاد ” احمد امین “(۱) بھی انہیں افراد میں سے تھے ، جنہوں نے معرفت کے نور سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ظلمت کے پردوں کے پیچھے زندگی بسر کرتے رہے ، یہ وہ کرنیں ہیں جو تشیع کے سورج سے چمکی ہیں اور جہالت کی تاریک رات کو نور میں تبدیل کرکے اسلام کے عظیم تمدن کو اس وقت وجود بخشا ، جبکہ دوسرے لوگ بہت پیچھے تھے۔

تاریخ نے اس ناپاک رویہ کی بنا پر ، احمد امین اور ان جیسے تمام اساتذہ اور دانشوروں کے دامن پر عظیم داغ لگادیا ہے، جنہوں نے آنکھیں بند کرکے تعصب کی وادی میں قدم رکھا ہے ، یہ دانشور وں اور محققین کا طریقہ کار نہیں ہے کہ ایک جگہ بیٹھے رہیں اور جمود کی بیڑی کو اپنی فکر کے پاؤں سے نہ اتاریں اور بے جا پر تعصب سے کام لے کر آنکھیں بند کرکے کسی مذہب کی پیروی کریں !!

ان کی فکرو قلم سے بہت ساری غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہوئی ہیں اور انہیں الجھن اور بد حواسی سے دوچار کیا ہے ، شاید مذکورہ داستان اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔

انہوں نے جھوٹ بول کر بعض مطالب کو شیعوں سے نسبت دیکران کے دامن کو داغدار بنادیا

____________________

۱۔ ” فصل “ پیدائش افسانہ د ور راویان آن “ شمارہ ہفتم ، کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں پر احمد امین کی باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا ہے جس کا سبب شیعوں کے ساتھ اس کی دشمنی اور کینہ ہے ۔

۸

ہے کہ ہم نے ان میں سے بعض کی طرف اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے ،(۱) انہوں نے تصور کیا ہے کہ جتنے بھی خرافات اور جعلی چیزیں اسلام کی تاریخ میں موجود ہیں ، سب کی سب شیعہ علما کی گڑھی ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنے خود ساختہ گمان سے شیعوں پر حملہ کیا اور ان کو برا بھلا کہا ہے۔

جلیل القدر محقق ”جناب مرتضیٰ عسکری “ نے اپنی کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ میں کافی دلائل سے مکمل طور پر ثابت کیا ہے کہ ” عبدا للہ بن سبا “ ایک خیالی اور جعلی موجود ہے ۔

تاریخ نویسوں نے جو حکایتیں بیان کی ہیں اور ان کی بناء پر اسے (عبدا للہ بن سبا) مذہب شیعہ کا مروج(۲) بیان کیا ہے البتہ یہ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، مؤرخین نے ان گڑھی ہوئی داستانوں کو اس لئے مرتب کیا ہے تا کہ فریب کاری کے جال کو پھیلا کر شیعوں پر حملے کرکے بے جا ان کے خلاف تہمت و افتراء پردازی کریں ۔

ہم عصر دانشور ،جناب مرتضیٰ عسکری نے اس کتاب میں اپنی فکر و اندیشہ کے سہارے تاریخ کے سمندر میں غوطہ لگا کر ، بہت سی کتابوں کا مطالعہ فرمایا ہے اور انتہائی تلاش و جستجو کے بعد اس سمندر سے کافی مقدارمیں موتی لے کر ساحل تک آئے ہیں ۔

انہوں نے زیر بحث حقائق کو ثابت کرنے کےلئے نزدیک ترین راستہ طے کیا ہے ، شیعوں کے

مخالفوں سے بحث کے دوران ان کے ہی بیانات کو مآخذ قرار دیکر ان کی باتوں کو باطل ثابت کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کی کتا ب” مع احمد امین “ کے مقدمہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ خود غرض مورخین نے اسے شیعہ مذہب کا بانی و مروج خیال کیاہے۔

۹

تاریخ اسلام کے آغاز سے عصر حاضر تک ” سیف بن عمر“ کی روایتوں نے مؤرخین کو الجھا رکھا ہے جو عام طور پر قابل اعتماد ہے، اس کتاب میں ان روایتوں کے بارے میں ایک گراں بہا تحقیق کی گئی ہے کہ قارئین بڑی آسانی سے انھیں سمجھ سکتے ہیں ۔

خدا کی حکمت اسی میں ہے کہ بعض محققین مردانہ وار قلم ہاتھ میں اٹھا کر حقائق سے پردہ اٹھائیں ، اور اس راستہ میں دوسروں کی سرزنش اور ملامت کی پروانہ کریں ، مصنف محترم پہلی شخصیت ہیں جس نے اپنی گہری تحقیقات کے نتیجہ میں اہل سنت محققین کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ طبری کی کتاب ” تاریخ الامم و الملوک “ کے بارے میں تجدید نظر کریں ، نیز انھیں اس بات پر مجبور کیا ہے کہ اس کتاب اورتاریخ کی دوسری بنیادی کتابوں کے بارے میں از سر نو دقت سے غور کرتے ہوئے اور خوب و بد کو ایک دوسرے سے جدا کریں ،مزید ان تاریخی حوادث کے بارے میں بھی نئے سرے سے غور کریں ، جنہیں وہ نازل شدہ وحی کے مانند صحیح اور نا قابل تغییر سمجھتے تھے !!

محترم مصنف نے کافی ، واضح اور روشن شواہد کی مدد سے ان تاریخی وقائع سے ابہام کے پردے کو ہٹا دیا ہے اور حقیقت کو اس کے متوالوں کےلئے آشکار کیا ہے حتی کہ بعض حقائق انتہائی بھیانک اور حیرت انگیز دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ایک عمر کے عادات و رسومات چند صدیوں کی اعتقادی میراث کے مخالف ہیں ، لیکن حق کی پیروی کرنالازم و واجب ہے ہر چند کہ یہ امر دشور ہو ” الحق احق ان یتبع“۔

مذکورہ مطالب سے آگاہی چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ کریں او رتاریخ کے اختلافی حوادث جیسے ، اسامہ کی لشکر کشی ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت اور سقیفہ کی داستان (جس پر مؤلف نے تنقیدی تجربہ کیا ہے) کا دقت کے ساتھ مطالعہ کریں ۔

جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موت کا شیرین جام نوش فرمارہے تھے، اسامہ کے لشکر سے بعض افراد حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے مدینہ لوٹے اور ریاست و خلافت کی امید سے جہاد سے منہ موڑ لیا ، مؤلف نے ان افراد کو پہچنوایا ہے ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر مرگ پر جب وصیت لکھنے کا حکم دیدیا، کچھ لوگوں نے اس حکم پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالی اور اسے ہذیان سے تعبیر کیا (گویا انہوں نے گمان کیا کہ پیغمبر ہذیان کہہ رہے ہیں)کیونکہ وہ اس امر سے خائف تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وصیت میں علی علیہ السلام کی خلافت کی خبر دیں گے اور ان آخری لمحات میں بھی اسے اپنے وصی کے طور پر تعارف کرائیں گے ۔

۱۰

مؤلف اس حادثہ کی حقیقت و کیفیت کو بھی آشکار کرتے ہیں عمر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے انکار کرنے کا مقصد کیا تھا ؟ کیوں وہ ان افراد کو موت کی دھمکی دیتے تھے جو یہ کہتے تھے کہ پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے رحلت کی ہے ؟جس وقت امام علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچیرے بھائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس اور چند بوڑھے اور سن رسیدہ اصحاب کی مددسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن نازنین کوغسل دینے میں مشغول تھے ، تو اس وقت کس غرض سے عمر اور ابو عبیدہ نے انتہائی عجلت کے ساتھ اپنے آپ کو سقیفہ کے اجتماع میں پہنچادیا اور لوگوں سے ابوبکر کے حق میں بیعت لے لی ؟!

بے شک ، اگر تھوڑا سا انتظار کرتے تا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سپرد لحد کرکے اور علی علیہ السلام بھی اس اجتماع میں حاضر ہوتے تو علی علیہ السلام خلافت کے مستحق قرار پاتے اور بنی ہاشم ان کے علاوہ کسی اور کو امام المسلمین کے طور پر قبول نہیں کرتے !

مؤلف نے مذکورہ تین مباحث میں صحیح کو غلط سے اور برے کو بھلے سے جدا کرکے ان مسلم حقائق تک رسائی حاصل کی ہے اور ان کی اس تحقیق کے نتیجہ میں فریب کاروں کےلئے مکرو فریب کے دروازے بند ہوگئے ہیں ۔

کتاب کے دوسرے مباحث بھی مذکورہ بالا تین مباحث کی طرح ، دقت کے ساتھ حقائق کو ایسے آشکار کرتے ہیں کہ بہت جلد ہی تاریخ اسلام کے اندر گہرے اثرات رونما ہوں گے ۔

میں اس مقالہ کو ختم کرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ درج ذیل تین سوالات کا جواب دیدوں :

۱ ۔ کیا پیغمبر خدا کا صحابی غلطی کرسکتا ہے اورلغزش سے دوچار ہوسکتا ہے ؟

۲ ۔ کیا اس کے کام اور کردار پر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے ؟

۳ ۔ کیا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی کو منافق یا کافر کہا جاسکتا ہے ؟

۱۱

سوال نمبر ایک اور دو کا میں مثبت جواب دیتا ہوں ، لیکن تیسرے سوال کا جواب منفی ہے ۔ اس لئے نہیں کہ میں تعصب سے کام لیتا ہوں اور علم کے اصول کے خلاف کہتا ہوں ، بلکہ ایک ایسا استدلال رکھتا ہوں کہ عقل اس کو قبول کرتی ہے اور منطق اسکی تائید کرتی ہے کیونکہ کفر و نفاق کا تعلق قلب و دل سے ہے اور وہاں تک خدا کے سوا کسی کی رسائی نہیں ہے ، علمی تجربہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ہے ، صرف خداوند عالم ہے جو انسان کے اندرونی اسرار سے واقف ہے اور پوشیدہ چیزوں کامکمل طور پر علم رکھتا ہے(۱)

مذکورہ روش ، وہی جدید روش ہے ، جس کا واضح مشاہدہ میری تمام تالیفات میں کیا جاسکتا ہے۔

مجھے اس بات پر انتہائی مسرت ہے کہ علم کے لحاظ سے اس عظیم کتاب اور اس کے عالی قدر مصنف استاد علامہ محقق جناب مرتضی عسکری کے تئیں انتہائی احترام و محبت کا قائل ہوں ، اسی طرح جناب مرتضیٰ رضوی کشمیری کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کو پوری ظرافت اور دیدہ زیب صورت میں شائع کیا ہے ، علامہ نے اس فریضہ کو انجام دے کر اسلام کی ایک عظیم خدمت کی ہے اور اس ذمہ داری کو انجام دے کر اسلام کے تاریخی حقائق کو زندہ کرنے کےلئے ایک عظیم اثر چھوڑا ہے ۔

قاہرہ اول جمادی الاول ۱۳۸۱ ھء مطابق ۱۲ ،اکتوبر ۱۹۶۱ ئئ

ڈاکٹر حامد حفنی داؤد

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد نے اس خط کو نصف کتاب کے شائع ہونے کے پیش نظر مصر میں لکھا ہے ۔

۱۲

ایک محترم شیعہ دانشور شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

سنی دانشور محترم جناب ڈاکٹر حامد کے نظریہ سے آگاہ ہونے کے بعد مناسب ہے یہاں پر اس کتاب کے بارے میں ایک شیعہ دانشور علامہ نابغہ جناب شیخ محمد جواد مغنیہ جبل عاملی کے نظریہ سے بھی آگاہ ہوجائیں ، علامہ موصوف لبنان میں مروج مذہب تشیع ہیں ۔

موصوف کی گراں بہا تالیفات میں من جملہ ” تفسیر قرآن مجید “ ” معالم الفلسفة الاسلامیہ“، ”الشیعہ و الحاکمون “ ” اصول الاثبات فی الفقہ الجعفری“ اور دسیوں دوسری تالیفات سنجیدہ فکر اور ان کے علمی بلند مقام کو آشکار کرتی ہیں ، ذیل میں مجلہ ” العرفان “(۱) میں شائع ہوئے ان کے مقالہ کا ترجمہ ہے :

مذہب شیعہ کے خلاف لکھنے کے علاوہ دنیا کی تمام چیزوں میں دگرگونی اور تغیرات پیدا ہوئے ہیں شیعوں پر تہمت و افتراء کے علاوہ ہر آغاز کا خاتمہ ہے شیعوں کے خلاف جاری کئے جانے والے احکام کے علاوہ ہر حکم کی ایک دلیل و علت ہے آخر کیوں ؟

کیا شیعہ شورشی اور فتنہ گر ہیں اور لوگوں کے سکون و اطمینان کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں ؟

____________________

۱۔ نمبر ۳/ سال ۱۳۸۱ ھ صفحہ ۲۳۰۔

۱۳

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :

سیف بن عمر تمیمی(۱) نامی ایک شخص نے گزشتہ دو سری صدی کے دوران دو کتابیں لکھی ہیں ، اس کی پہلی کتاب ” الفتوح و الردّة“ اور دوسری کتاب ” الجمل و مسیر عائشة و علیّ “ ہے ان دونوں کتابوں میں د رج ذیل مطالب کی ملاوٹ کی گئی ہے :

۱ ۔ ایسے حوادث و اتفاقات کی تخلیق کرنا ، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

۲ ۔ رونما ہوئے حقیقی حوادث و واقعات میں تحریف کرکے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت دکھانا ۔

اس بے لگام اور جھوٹے شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے چند من گھڑت اصحاب جعل کئے جن کے سعیر ، ہزہاز، اط ، حمیضہ ، وغیرہ نام رکھے ہیں ۔

اس نے تابعین اور غیر تابعین کے کچھ اشخاص جعلکئے ہیں اور ان کی زبانی اپنی جعلی احادیث نقل کی ہیں ۔

اس کی انہیں تخلیقات میں سے ایک سورما ہے جس کی شخصیت کو اس نے جعلکیا ہے اور اس کا فرضی نام بھی معین کیا ہے ، اور چند داستانوں کو گڑھ کر اس سے نسبت دی ہے یہ افسانوی سورما ”عبد اللہ بن سبا“ ہے جس کسی نے بھی شیعوں پر تہمتیں لگائی ہیں اور ان کے بارے میں جہل یا نفاق کے سبب افترا پردازی کی ہے ، ان سب نے اسی پر اعتماد کیا اور اس کی باتوں پر تکیہ کیا ہے۔

____________________

۱۔وفات دوسری صدی ہجری ۔

۱۴

”سیف“ کے بعد مؤرخین کی ایک جماعت نے فریب اور دھوکہ سے بھری ان دو کتابوں کو سند بنا کر کسی قسم کے تامل و تدبر کے بغیر دروغ پرداز اور چالباز سیف کے نظریات اور اندیشہ کو نقل کیا ہے ، اس طرح اس کے مذموم تفکر سے استفادہ کیا گیا ہے ۔

”طبری“ پہلا شخص تھا جو” سیف “کے دام فریب میں پھنس گیا تھا اس کے بعد ابن اثیر ، ابن عساکر اور ابن کثیر اور دوسرے لوگ” طبری“ سے آنکھیں بند کرکے روایت نقل کرنے کے سبب اس گڑھے میں گر گئے ہیں ۔

اس طرح جھوٹے ”سیف“ کی تخلیقات کی تاریخی کتابوں اور منابع میں بلاواسطہ طور پر ملاوٹ ہوئی ہے لیکن ان کی جڑ اور بنیاد، وہی سیف کی دو کتابیں ” الفتوح “ اور ” الجمل “ ہیں ۔

علامہ سید مرتضی عسکری کی کتاب ” عبد اللہ بن سبا“ مذکورہ حقائق کو صحیح دلائل کی بنا پر آشکار کرتی ہے اور قارئین کو صاف اور واضح راہنمائی کرکے حقیقت کی منزل تک پہنچاتی ہے ۔

انہوں نے اس کتاب کی تالیف میں انتہائی دقت سے کام لیا ہے اور موصوف کی تمام تر سعی و تلاش اس امر پر متمرکز رہی ہے کہ حق و حقیقت کے علاوہ کوئی چیز کاغذ پر نہ لکھی جائے ، قارئین کرام جس قدر بھی مفکر اور دانشور ہوں ، موصوف کے حاصل کئے ہوئے نتائج سے نہ تو انکار کرسکتے ہیں اورہی نہ شک و شبہ ، کیونکہ اس کتاب کے بہت سے دقیق مباحث کی بنیاد بدیہی قضایا پر مبنی ہے اور بدیہیات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے ۔

میں نے مختلف افراد سے بارہا بحث کی ہے ، اور ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا ہے ، لیکن اس گفتگو میں میں نے شیخ مفید ، سید مرتضی ، اور علامہ حلی سے آگے قدم نہیں بڑھایا ہے ، میری روش صرف یہ تھی کہ میں ان بزرگوں کے طرز بیان کو بدل دیتاتھا اور مخاطب کے لئے مطالب کو آشکار اور واضح تر بیان کرتا تھا ، کیونکہ کوئی تازہ اعتراض نہیں تھا کہ میں اس کا تازہ اور نیا جواب دیتا بلکہ اعتراض وہی تھا جو پچھلے لوگوں نے کر رکھاتھا اور اس کا جواب سن چکے تھے ، چونکہ یہ لوگ بھی گزشتہ لوگوں کی طرح اعتراض کرتے ہیں لہذا مجبور ہیں وہی جواب سنیں ،میں اپنے علمائے سلف کی باتوں کی تکرار کرتا تھا ، کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ بے خبر، معترضین علماء کی باتوں پر اعتراض کرتے ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ ان کی ہی باتوں سے آگاہ ہوجائیں ۔

بے شک میں علمائے تشیع کی پیروی کرتے ہوئے ” عبدا للہ بن سبا“ کے وجود کا معترف تھا ، لیکن اس کی رفتار کو حقیر اور شرم آور سمجھتا اور اس کی باتوں کا انکار کرتا تھا ۔

۱۵

علامہ عالیقدر جناب سید مرتضیٰ عسکری نے اس عمارت کی بنیاد ہی اکھاڑ کرکے رکھدی اور اپنی گہری تحقیقات سے ثابت کردیا کہ ” عبد اللہ بن سبا “ کی حقیقت ایک افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ! اور یہی وہ حقیقت ہے جو اس کتاب میں بے نقاب ہوئی ہے ، اگر میں یہ کہوں کہ عربی میں یہ تنہا کتاب ہے ، جس میں تاریخ کی علمی بنیادوں پر تحقیق کرکے اس پر غور کیا گیا ہے تو یہ ہرگز مبالغہ نہیں ہے ، اور میرا یہ کہنا بھی ہر گز بیجا نہیں ہوگا کہ اس دانشور مصنف نے دین و علم اور خاص طور پر شیعوں اورمذہب تشیع کی ایک ایسے زمانے میں بے مثال اور عظیم خدمت کی ہے کہ جب ان پر تہمتوں ، افتراء پردازیوں اور بہتان تراشیوں کی بھر مار ہورہی ہے ، موصوف نے اسلام کی ایک عظیم اور درخشان خدمت کی ہے ، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان رخنہ ڈال کر ان کے اتحاد و یکجہتی کو درہم برہم کرکے انھیں کمزوراوربے بس کردیا ہے ۔

ہم نے فرمانرواؤں اور ظالم حکام کی طرف سے بد ترین عذاب اور مشکلات برداشت کی ہیں تا کہ اسلام کی یکجہتی کا تحفظ کرکے دشمنی سے پرہیز کریں ، لیکن وہ روز بروز اپنی دروغ بیانی میں تشویق ہوتے رہے ہیں اور ان کی پہلی اور آخری سند ” ابن سبا“ کا افسانہ اور ” ابن السوداء “ کا خرافہ تھا کہ افسانہ ساز ”سیف “ نے انھیں ، خدا اوراپنے ضمیر کے سامنے کسی ذمہ داری کا احساس کئے بغیر جعلکیا ہے ۔ لیکن آج ” عبدا للہ ابن سبا “ نام کی کتاب لکھی جانے کے بعد یہ کاسہ لیس اور چاپلوس لوگ کیا جواب دیں گے ؟!

آخر میں میری تجویز ہے کہ یہ کتاب دیدہ زیب طباعت کے ساتھ دوبارہ شائع کی جائے اور عالم اسلام کے تمام شہروں میں نصف قیمت پر بیچی جائے تا کہ عام مسلمان اسے خرید کر اس کے عالی مطالب سے استفادہ کرسکیں ۔

نجف اشرف کے دانشوروں اور مراجع عظام کو چاہئے مذکورہ مقصد کی جانب توجہ کرتے ہوئے رقومات شرعیہ سے مدد کریں یا خیّر افراد کی اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں ۔

میری تجویز ہے کہ یہ حضرات تاکید کے ساتھ حکم فرمائیں تا کہ یہ کتاب دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر سستے داموں میں دنیا کے لوگوں تک پہنچ جائے ، یہ دین اسلام کےلئے ایک عظیم خدمت ہوگی۔

لبنان ۔ شیخ محمد جواد مغنیہ

۱۶

الازہر یونیورسٹی مصر کے مجلہ ” جامع الازھر “ میں شائع شدہ اعتراضات کا جواب

مجلہ ” جامع الازھر“ مصر میں کتاب ”عبدا للہ بن سبا “ کے بارے میں دو مقالے لکھے گئے ہیں(۱) اہم ترین مطلب جوان دو تنقیدی مقالوں میں ملاحظہ کے قابلہے عبارت ہے :

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اور ان کے باہمی اختلافات ، چودہ صدی پرانی بات ہے اور وہ سب اپنے مالک حقیقی سے جاملے لہذا چاہئے کہ ان مسائل سے صرف نظر کیا جائے(۲)

اس بات کے جواب میں ہم کہتے ہیں :

اولاً : ہم سیف کی روایتوں کی تحقیق کی فکر میں تھے ، جس موضوع پر اس نے روایتیں نقل کی تھیں ، ہم نے مجبور ہو کر ان ہی موضوعات پر بحث و تحقیق کی ہے ، چونکہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا“ میں عبد اللہ بن سبا کے افسانہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے باہمی اختلافات کے بارے میں سیف ابن عمر کی نقل کی گئی روایتوں پر بحث کی گئی ہے ، لہذا ہم مجبور ہوئے کہ ہر موضوع کے

____________________

۱۔ پہلا مقالہ کتاب کی نجف اشرف میں طبع شدہ پہلی اشاعت پر ایک تنقید ہے ، اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۳ ج۱۰، ۱۳۸۰ ئھ ” باب الکتب “ کے صفحہ۱۱۵۰ ۔۱۱۵۱ میں شائع ہوا ہے ۔ دوسرا مقالہ اسی کتاب کے مصر میں طبع شدہ نسخہ پر ایک تنقید ہے اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۲ /ج ۶/ ۱۳۸۱ ء ھ کے صفحہ۷۶۰ ۔۷۶۱ میں شائع ہوا ہے۔

۲۔ یہ جملہ پہلے مقالہ کے آخر پر لکھا گیا ہے اور باقی تمام مطالب اسی جملہ کی تفسیر اور تشریح میں لکھے گئے ہیں ۔

۱۷

بارے میں بحث کو جاری رکھتے ہوئے تجزیہ و تحقیق کریں ، جس طرح میں نے اپنی کتاب ” خمسون و ماة صحابی مختلق“ ( ۱۵۰ جعلی اصحاب) میں اصحاب کے فتوحات اور صدر اسلام کی جنگوں کو اپنا موضوع قرار دیگر بحث و تحقیق کی ہے ۔

سیف کی روایتوں پر تحقیق نے ہمیں اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ ایسی بحثوں میں داخل ہوجائیں جنھیں بہت سے دانشوروں نے پردے میں رکھا ہے ، لہذا ان موضوعات پر بحث و تحقیق نے انھیں برہم اور رنجیدہ کیا ہے ، البتہ ہم بھی ان کی طرح ایسے وقائع اور روداد کے رونما ہونے سے خوشحال نہیں ہیں اور ان سے پردہ اٹھانے اور ان پر غور و فکر کرنے سے ہمارا رنج و غم بھڑک اٹھتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خداوند عالم نے پیغمبر خدا کے اصحاب کو ملک و فرشتہ خلق نہیں کیا ہے کہ جبلت انسانی سے عاری ہوں بلکہ وہ دوسرے افراد کی طرح انسانی جبلت میں ان کے شریک ہیں ، اور ایمان اور اسلام میں استقامت کے مراتب میں بھی ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ، اس حد تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان میں سے بعض پر حد جاری کی ہے (کوڑے لگائے ہیں) اور ان میں سے بعض کے بارے میں ” آیات افک “ نازل ہوئی ہیں جن میں ان کی اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ انہوں نے پیغمبر خدا کی بیوی کی جانب نازیبانسبت دی تھی ، اور ان میں سے بعض کے بارے میں نفاق کی آیات نازل ہوئی ہیں ۔

ان تمام مطالب کے باوجود ہم نہیں سمجھتے کہ پیغمبر خدا کے اصحاب کو ان اختلافات اور تحولات کے ساتھ کیسے چھوڑدیں جبکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام اور عقائد کو ہم تک پہنچانے کے واسطہ ہیں کیا اس طرح صرف پیغمبر کو درک کرنے کی بنا پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عزت و احترام کرنا بحث و تحقیق کےلئے رکاوٹ اور دینداری کے نام پر علم ودانش کے دروازہ کو بند کرنے کے مترادف نہیں ہے ؟ چونکہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے صدیوں سے اپنے اوپر اجتہاد کا دروازہ بند کررکھتا ہے ، لہذا تحقیق و علم کا دروازہ بھی ان پر بند ہوگیا ہے ۔

۱۸

خدارا ! ہم نے اس مطلب کو قبول نہیں کیا ہے اور اسکی تائید نہیں کرتے ہیں بلکہ دین و اسلام کے نام پر اور اس پر عمل کرنے کیلئے اسلام کی راہ میں بحث و تحقیق کےلئے قدم اٹھاتے ہیں ۔

ثانیاً : کاش کہ ہم یہ جانتے کہ قدیم و جدید دانشور جو پیغمبر خدا کے اصحاب کی عزت و احترام میں جو غیرت و حمیت دکھاتے ہیں ، کیا اس میں پیغمبر خدا کے تمام اصحاب شامل ہیں خواہ اس کے سزاوار ہوں یا نہ ، خواہ وہ عیش پرست ہوں یا زاہد و پرہیزگار ؟ کیا یہ احترام عام طور پر اس لئے ہے کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کادیدار کیا ہے ؟ یا ان کےلئے مخصوص ہے جوسرمایہ دار و قدرتمندتھے اور حکومت تک ان کی رسائی تھی ؟ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ احترام شعوری یا لا شعوری طور پر صرف ان افراد سے مخصوص ہوکے رہ گیا جو حکومت اور ایوان حکومت سے وابستہ و مربوط ہیں ۔

جو کچھ ایک دوررس اور نکتہ شناس محقق کےلئے قابل اہمیت ہے وہ دوسرا مطلب ہے کیونکہ اگر تاریخ طبری میں ۳۰ ء ھ کے روئدادوں اور حوادث پر غور کیا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس نے یوں لکھا ہے :

اس سال ، یعنی ۳۰ ئھ میں جو کچھ ابوذر اور معاویہ کے درمیان پیش آیا ، اور سر انجام ابوذر کے شام سے مدینہ جلا وطن کئے جانے پر تمام ہوا ، اس سلسلے میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں کہ جنکو میں نقل کرنا پسندنہیں کرتا ہوں ، لیکن اس سلسلہ میں معاویہ کیلئے عذر پیش کرنے والوں نے ایک داستان نقل کی ہے ، اس داستان میں کہا گیا ہے:

شعیب نے اسے سیف سے نقل کیا ہے

اس کے بعد طبری نے ابو ذر اور معاویہ کے بارے میں نقل کی گئی داستان کے سلسلے میں سیف کی باقی روایت کو اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے ۔

۱۹

اگر ہم اس سلسلے میں تاریخ ابن اثیر کی طرف رجوع کریں گے تو دیکھتے ہیں کہ وہ کہتا ہے :

اس سال ( ۳۰ ھء) ابوذر کی داستان اور معاویہ کے توسط سے اسے شام سے مدینہ جلاوطن کرنے کا مسئلہ پیش آیا، اس رفتار کی علت کے بارے میں بہت سے مطالب لکھے گئے ہیں ، من جملہ یہ کہ : معاویہ نے انھیں گالیاں بکیں اور موت کی دھمکی دی ، شام سے مدینہ تک انھیں ایک بے کجاوہ اونٹ پر سوار کرکےنہایت ہی بیدردی سے ایک ناگفتہ بہ حالت میں مدینہ کی طرف جلاوطن کردیا ، مناسب نہیں ہے اسے یہاں بیان کیا جائے میں اسے نقل کرناپسند نہیں کرتا ہوں ، لیکن جنہوں نے اس سلسلے میں عذر پیش کیا ہے، یو ں کہا ہے :

اس بنا پر طبری نے یہاں پر ان بہت سی روایتوں کو درج نہیں کیا ہے جن میں معاویہ اور ابوذر کی روئداد بیان ہوئی ہے اور ان کو بیان کرنا پسند نہیں کرتا تھا، پھر بھی اس نے ان روایتوں کو بالکل ہی درج کرنے سے چشم پوشی نہیں کی ہے ۔ بلکہ سیف کی ان تمام روایتوں میں سے ایسی روایت کا انتخاب کیا ہے کہ معاویہ کا عذر پیش کرنے والوں کےلئے سند کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے اس کے کام کی توجیہ کے طورپر پیش کرتے ہیں ، جبکہ اس روایت میں پیغمبر اسلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بزرگوار صحابی ” ابو ذر“ کی حد سے زیادہ توہین کی گئی ہے ۔ اس کی دینداری پر طعنہ زنی کی گئی ہے ، اسے بیوقوف اور احمق کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس پرناروا تہمتیں لگائی گئی ہیں ۔

۲۰

کیونکہ اس روایت میں معاویہ کو حق بجانب ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے عذر کو درست قرار دیاگیا ہے ، اور اس طرح مؤرخین کا یہ قائد ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس تہی دست صحابی کی شخصیت اور احترام سے چشم پوشی کرتاہے اوران کی عظمت کو معاویہ جیسے حاکم اور ثروتمند شخص کے حرمت کے تحفظ میں قربان کرتاہے ، یہی کام ابن اثیر، ابن خلدون اور دوسروں نے بھی انجام دیا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ، بنیادی طور پر اسی سبب سے تاریخ طبری نے رواج پیدا کیا ہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ شہرت پائی ہے ، اور اس لئے سیف (بے دینی کا ملزم ٹھہرائے جانے کے باوجود) کی روایتوں کو اس قدر اشاعت ملی ہے اور اسی لئے مشہور ہوئی ہیں(۱) ۔

اس بنا پر ایسے دانشوروں نے صرف ایسے صحابیوں کے احترام کے تحفظ کےلئے اقدام کیا ہے جو صاحبِ قدرت و حکومت تھے ، اور” معاویہ بن ابو سفیان “ جیسے شخص کی اس لئے عزت کرتے ہیں کہ وہ صاحب حکومت و اقتدار تھا ، جبکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “(۲) میں شمار فرمایا ہے اور اس کی نفرین کرتے ہوئے فرمایا:

خداوند عالم اس کے شکم کو کبھی سیر نہ کرے “(۳) اسی طرح ” عبدا للہ بن سعد بن ابی سرح “(۴) جو ابتداء میں مسلمان ہوا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتبوں میں شمار ہوتا تھا، لیکن ایک مدت کے بعد مرتد ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن مجید پر تہمت لگائی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کا خون بہانا مباح قرار فرمایا تھا،ایسے شخص کو ان خصوصیات کے باوجود مصر کا گورنر ہونے کے ناطے اس کا نام تاریخ میں درج کرکے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

اس طرح خلیفہ عثمان کے بھائی ولید ، جس کے بارے میں آیہ نبا نازل ہوئی ہے :

<یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اِذا جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَیَّنُوا اَنْ تُصِیْبُوا قَوْماً

____________________

۱۔ کتاب کے فصل ” پیدائش افسانہ “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ تمام سیرت لکھنے والوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح حنین کے بعد معاویہ اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “ میں شمار فرمایا ہے ، اس لئے انھیں کچھ چیزیں دیدی ہیں ۔

۳۔ صحیح مسلم کے اس باب کی طرف رجوع کیا جائے کہ ”پیغمبر خدا نے جن پر لعنت کی ہے “

۴۔ اس کے حالات پر اگلے صفحات میں روشنی ڈالی جائے گی۔

۲۱

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

مسافت ہے، لیکن اگر اس مسا فت کواس مسا فت سے جو کہ آ فتاب منظو مہ شمشی کے سب سے دور والے سیارہ سے رکھتا ہے، موازنہ کیاجائے تو بہت کم اورمختصر لگے کی بطور مثال ،''پلو ٹون'' سےّارہ کی مسا فت زمین سے تقریبا ً زمین اور خورشید کی مسا فت کے چا لیس گنا ہے یعنی ۳ ارب چھ سو بیس ملین(۰۰۰،۰۰۰،۶۲۰،۳) میل ہے۔

اصل'' کون و ہستی '' سے متعلق بہت سارے نظریات ہیں ، ان میں سب سے جد ید '' بیگ با نگ''( ۱ ) کی تھیوری ہے جو ۱۹۲۰ء میں جارج لا میٹر کے ذریعہ پیش کی گی ہے وہ واضح طور پر کہتا ہے: تمام مواد اور اشعہ ہستی میں ایک عظیم دھماکہ سے ظہور میں آئی ہیں اور طبیعت کی یہ وسیع شکل ا سی کا نتیجہ ہے اور اسی طرح یہ وسیع ترہو تی چلی جا رہی ہے ۔

اس نظریہ کے مطابق مذکورہ دھماکہ تقریبا ً ۱۰ سے ۲۰ ہزار ملین سال قبل و اقع ہوا ہے؛ اور اس بات کی طرف تو جہ کر تے ہو ئے کہ ہائیڈروجن اور ہلیوم کا ابتدائی اور بلند ترین درجہ ٔ حرارت اس طرح کی ناگہانی وسعت اور ہستی کی یکبارگی تشکیل کے لئے ہلیوم گیس سے کافی تھا ، یہ نظریہ پریکٹیکل تجربات سے بخوبی ہماہنگی رکھتا ہے۔

اس سلسلے میں حیرت انگیز اور قابل تو جہ ایک دوسرا انکشاف ہے جو کہ ''ہا بل''( ۲) کے قانو ن کے نام سے ہستی کی وسعت کے بارے میں معروف ہے ، اس تھیو ری کے مطا بق''کون وہستی'' کی وسعت ایک دائمی امر ہے اور یہ گسترش اور وسعت ہستی کی تمام جہا ت میں یکساں ہے ، یہ تھیو ری کہتی ہے :دورکی کہکشاؤں میں موجود ستاروں سے ساطع ہونے والے نو ر کا رنگ سُر خ طیف کی انتہا کی طرف حرکت کرتا ہے، یعنی ان کے طیفی خطوط بلند ترین موجوں کے طول کی طرف مکا ن بدلتے رہتے ہیں اور یہ یعنی کہکشائوں کا ہم سے اور ہماری کہکشائوں سے دور ہونااور عا لم میں کہکشاؤں کے درمیان فا صلوں کا اضا فہ ہونا ہے۔

آخر میں ستارہ شنا س دانشوراور علم نجوم کے ماہرین بہت عظیم کہکشا ؤں کے بارے میں خبر دیتے ہیں جو راہ شیری کہکشاں( ۳ ) کی کئی گناہیں، جن کا فاصلہ ہما ری زمین سے دس ملین نوری سال ہے۔

____________________

(۱) BIGBANG THEORY

(۲)''اڈوین پاول ہابل ''ایک امریکی دانشور ہے کہ جو علم نجوم میں مہارت رکھتا تھا۱۸۸۹ ۔ ۱۹۵۳ء

(۳) milkyway

۲۲۱

ان کہکشاؤں کی شنا خت پہلے مر حلہ میں تمام ہو ئی اور بہت سارے دانشو ر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ'' کون و ہستی'' بے انتہا وسعت اورپھیلاؤ کی جانب گامزن ہے یا ناچاراندر کی طرف سمٹ رہی ہے۔

کون و ہستی قرآن کریم کی روشنی میں

قرآن کریم جو کہ آخری آسمانی کتا ب ہے،بدرجہ ٔ اکمل وضاحت کے ساتھ عالم ہستی و آفر ینش کے بنیادی و اسا سی حقا ئق سے پردہ اٹھا تی ہے اور اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ: جو کچھ'' کون و ہستی'' میں پا یا جاتا ہے خدا وند خالق و ربّ العا لمین '' کی تخلیق و آفر ینش کی نشانی ہے،خدا وند عالم نے چاند، سورج اور آسمان و زمین نیز ان کے ما بین جو کچھ ہے سب کو متنا سب اندا زہ میں خلق کیا ہے۔قرآن کریم اس سلسلے میں فر ما تا ہے:

( بدیع السموات والأرض واِذا قضیٰ أمرا ً فا نّما یقو ل له کن فیکون ) ( ۱ )

زمین اور آسمانوں کو وجود دینے والا وہ ہے اور جب بھی کسی چیز کے ہو نے کا حکم صا در کرتاہے، تو صرف کہتا ہے : ہو جا ، تو وہ چیز فو را ً وجود میں آجا تی ہے ۔

لفظ '' بدیع'' آیت میں اس بات پر دلیل ہے کہ خدا وند عالم اشیا ء کو عدم سے وجود میں لایا ہے ،را غب اصفہانی '' مفردات '' نامی کتا ب میں فرماتے ہیں : کلمۂ'' بدع'' اس معنی میں ہے کہ کو ئی چیز بغیر ''ما دہ''اور نمونہ ''آئیڈیل '' کے وجود میں لائی جائے ، یہ لفظ جب بھی خدا کے بارے میں اور اس کے اسمائے حسنی اور صفات کی ردیف میں ذکر ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے اشیا ء کوعدم سے خلق فرمایا ہے،'' قرآن کریم دوسری جگہ فرماتا ہے:

( وهوالذی خلق السّموات والأرض با لحقّ و یو م یقول کن فیکون ) ( ۲ )

وہ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو حق کے ساتھ خلق فرمایا ہے اور جس دن کسی بھی چیز سے کہتا ہے : ہو جا ! تو وہ فورا ً مو جود ہو جا تی ہے ۔راغب فرماتے ہیں: کلمۂ'' حق '' کا استعمال کر نا بے مثا ل اور جدید چیز کی طرف اشارہ ہے ، کہ جب بھی خالق کی صفت سے مر بوط ہو ، تو اس سے مراد کسی نٔی چیز کو عدم سے وجود میں لانا ہے، یعنی خدا وہ ہے جو آسمانوں اور زمینوں کو عدم سے وجود میں لایا ۔

____________________

(۱)بقرہ ۱۱۷۔(۲)انعام ۷۳

۲۲۲

دو سری جگہ پر عالم خلقت کے مادی اور طبیعی مظاہر کے بارے میں ا رشاد فرماتا ہے:

( هو الذی جعل الشمش ضيٰا ئً والقمر نوراً وقدَّ رهُ منٰا زل لتعلموا عدد السِّنین والحسا ب مٰا خلق ﷲ ذٰ لک الاّ با لحق يُفصِّل الا یات لقوم ٍ یعلمون ) ( ۱ )

خداوہ ہے جس نے سورج کوضیا باراور چاند کو نور بنا یا ہے اور اس (چا ند)کے لئے منزلیںمقررکیں تاکہ سال کا شمار اورکاموں کا حسا ب جان سکو، خدا وند عالم نے انھیں صرف حق کے ساتھ خلق کیا ، وہ (اپنی) آیات کی ان لوگو ں کے لئے جو سمجھتے ہیں تشریح کرتا ہے۔

قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ خدا وند عالم عظمت تخلیق کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فر ماتا ہے۔

( أولم یروا أنَّ ﷲ الذی خلق السَّموا ت والأ رض و لم یعی بخلقهنَّ بقا در ٍ علیٰ أن يُحیی المو تیٰ بلیٰ انَّه علیٰ کلّ شی ء ٍ قدیر ) ( ۲ )

کیا وہ نہیں جانتے جس خدا نے آسمانوںاور زمینوں کو خلق فرمایا اور ان کی تخلیق سے عا جز وناتواں نہیں ہے تھا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہی مردوں کو زندہ کر دے ہے؟ ہاں وہ ہر چیز پر قادر وتوانا ہے۔

گز شتہ آیات واضح طور پر بیان کر تی ہیں: صرف خدا وند عزوجل ہے جس نے اس عا لم محسو س کوبالکل صحیح اندازے کے مطابق موزوں اور منا سب طور پر خلق فرمایا ہے اور دوبارہ ان تمام موجو د کی تخلیق اوران کے لوٹانے پر قادر ہے، مادہ کی ہے تخلیق اور عالم ہستی کے تمام قوا نین اور ان کو حرکت میں لانے والی قوتوں میں اصل اصیل خدا وند عالم کا امر اورفرمان ہے ۔

تخلیق کی کیفیت

قرآن کریم نے '' ہستی '' کی تخلیق کی کیفیت کو متعددبار بیان کیا ہے؛ درج ذیل آیات تخلیق کے بنیا دی اصول و طرز کا خلا صہ ہما رے سا منے اس طرح پیش کرتی ہیں:

الف۔( أولم یر الّذین کفر وا أنَّ السموات والأرض کا نتارتقا ً ففتقنٰهُما و جعلنا من الماء کلّ شی ئٍ حیٍّ ) ( ۳ )

____________________

(۱)یونس ۵(۲)احقاف ۳۳.(۳)انبیاء ۳۰

۲۲۳

آیا جو لوگ کافر ہو گئے ہیں کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین ،متصل اورپیو ستہ تھے تو ہم نے انھیں جدا کیا اور وسیع بنایا اور ہر چیز کو پا نی سے حیا ت بخشی؟

دوسری آیت میں زمین کی خلقت کے بعد آسمان کے شکل اختیا ر کرنے کے طریقے اور متقا بل تا ثیر اور امر خلقت کے پے در پے ہو نے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما تا ہے ۔

ب۔( ثُمَّ استو یٰ الی السما ء وهی دُخان فقا ل لها وللأ رض ائتیا طوعا ً او کر ها ً قا لتا أتینا طا ئعین ) ( ۱ )

پھر آسمان کی طرف متو جہ ہوا جبکہ ابھی وہ دھواں تھا ، پھر اس سے اور زمین سے کہا : اپنی خواہش اور مرضی سے یا جبر وا کراہ کے ساتھ آگے آؤ! دونوں نے کہا : ہم اطاعت گزار بن کر حاضر ہیں۔

پہلی آیت نے درج ذیل حقائق سے پر دہ ہٹا یا ہے:

۱ ۔جو مادہ'' ہستی'' کی پیدا ئش میں مو ثر ہے اس کی ایک ہی ما ہیت اور حقیقت ہے۔

۲ ۔تمام '' ہستی'' ایک ٹکڑے کے مانندباہم پیو ستہ اور جڑی ہوئی ہے۔

۳ ۔ اجزا ء ہستی کی وسعت او ر اس میں تفکیک طبیعی قوا نین اور مادہ کے تحول و تبدل کی روش پر مبتنی اور منظم ہے، یہ نظام صرف منظو مہ شمشی اور ہماری کہکشاں میں جو سیا رے انہیں سے وابستہ ہیں اس میں خلاصہ نہیں ہوتاہے، بلکہ خود کہکشا ئیں بھی،ایک برتر اور وسیع تر نظا م کا جز ہیں جو کہ ایک دوسری شکلمیں ،(منظومہ شمسی کے مانند) اپنے مر کزی محور پر گر دش کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر''موریس بو کیل'' نے آخری زمانے میں ایک نظر یہ کی بنا رکھی جو ''ہستی ''کی شکل اختیا ر کر نے کے سلسلہ میں قرآن کی آیات کی روشنی میں بعض مسلمان علماء کے نظریہ کے مطابق ہے وہ '' کل کو قابل شمارش اجزاء میں تفکیک اور تبدیل کرنے کی فکر کے سلسلہ میں '' کہتا ہے :جدا ئی اور تفکیک ہمیشہ ایک مرکزی نقطہ سے ہوتی ہے جس کے عنا صر ابتدا ء میں ایک دوسرے سے متصل اور جڑے ہوئے ہوتے ہیں '' یعنی وہی کہ جس کو آیہ شر یفہ میں کلمہ '' رتق'' یعنی متصل اور پیو ستہ سے اور '' فتق''یعنی کھلا اور جدا سے تعبیر کیا گیاہے ۔

موجودہ علمی نظریہ کے مقا بل جو کچھ '' انفجا ر ہستی''( ۲ ) کے عنوا ن سے معروف ہوا ہے، وہ ایک زمانے میں ایک اتفاقی حا دثہ کا نتیجہ ہے جو انتہائی درجہء حرارت کی وجہ سے استثنائی صورت میں پیش آیا تھا اور فرض یہ

____________________

(۱)فصلت ۱۱(۲) bigbang

۲۲۴

ہے کہ اس انفجا ر(دھماکہ) کے وقت تمام ہستی ایک نقطہ پر ایک جز کی حیثیت سے تھی اور یہ جدائی اس میں ظاہر ہو ئی ہے سوائے اس کے کہ یہ مادی قوانین اس انفجا ر کا نتیجہ نہیں ہیں ،یہ نظریہ معلومات کے لحا ظ سے ان معلو مات کے مشا بہ ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے۔

جوبات حیرت میں اضا فہ کاباعث ہے یہ ہے کہ قرآن کریم نے ۱۴۰۰ سو سال سے زیا دہ پہلے اس راز سے پر دہ اٹھا یا ہے، جب کہ اس وقت کوئی علمی بحث اس طرح کی مو جود نہیں تھی ! ٹھیک اسی طرح سے قرآن کریم نے ''ہا بل '' کے نظریہ میں جو کہ ہستی کی وسعت کے بارے میں حقائق بیان ہوئے ہیں ان اس سے بھی پردہ اٹھا یا ہے اور سورہ '' ذاریات ''کی آیہ(۴۷) میں ارشاد ہو تا ہے :

( والسّما ء بنینا ها بأیدٍ وانا لمو سعو ن )

ہم نے آسمان کی قدرت کے ساتھ بنیادرکھی اورہم ہمیشہ اسے وسعت بخشتے ہیں۔

جب ہم جدید نظریے کے مطا بق ہستی کی وسعت اوراس کے طول و عرض کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ خو رشید میں مو جو د ''ہائیڈرو جن'' ہمیشہ ایٹمی اور نیوکلیائی پگھلاؤ نے سے ہلیوم کے عنصر میں تبدیل ہو تا رہتا اور نورا نی غبار( ۱ ) یعنی جو بہت چھوٹے چھوٹے ستا روں کے تودیغبار کے ذرات کے مانند نظر آتے ہیں ،وہ حرارت آمیز ایٹمی اور نیو کلیائی شعلوں کے علاوہ کو ئی دوسری شۓ نہیں ہیں۔

اس طرح تمام ہستی بارور قدرت اور توانا ئی سے مرکب اور اسی پر مبنی ہے اور یہ صورت حال ہمیشہ تو سعہ اوروسعت کی حالت میں ہے، یہ نتیجہ اس فر ض کی بنیاد پر ہے کہ '' سرخ انتقا ل یا تحول''( ۲ ) پیمانہ سرعت کے امکان کے ساتھ نور پراجسام کی متقابل تا ثیر کا نتیجہ ہے ۔

ہم اس سلسلے میں ، یعنی ہستی کی وسعت کے بارے میں جب قر آن کریم کی طرف مر ا جعہ کرتے ہیں تو اس کے لئے سب سے اہم کلمہ لفظ عالمین ہم کو نظر آتا ہے کہ جس کی دسیوں بار قرآن کریم میں تکرار ہو ئی ہے ،جیسے:

۱۔( و لکن ﷲ ذو فضل ٍ علی العا لمین ) '

لیکن خدا وند عا لم '' عا لمین'' کی نسبت لطف و احسا ن رکھتا ہے۔( ۳ )

۲ ۔( قل أنَّ صلا تی و نسکی و محیا ی و مما تی للّٰه ربّ العا لمین ) ( ۴ )

کہو!ہما ری نما ز ، عبادت ،زندگی اور موت سب کچھ عا لمین کے ربّ کے لئے ہے۔

____________________

(۱) stardust (۲) redshift (۳)بقرہ۲۵۱ (۴)انعام۱۶۳

۲۲۵

۳ ۔( ألا له الخلق والأمر تبا رک ﷲ ربّ العا لمین ) ( ۱ )

آگا ہ ہو جاؤ ! تخلیق و تد بیر اس کی طرف سے ہے ، عا لمین کا پروردگار بلند مرتبہ خدا ہے۔

۴ ۔( و ما أرسلنا ک اِلاّ رحمة ً للعا لمین ) ( ۲ )

تمھیں عا لمین کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

۵ ۔( اِنّی اِنّا ﷲ ربُّ العا لمین ) میں ہوں''عا لمین '' کا پروردگا ر خدا۔

جن آیات کو ہم نے پیش کیا ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ عا لم کا سید نظم بر قرار رکھنے والا، حا فظ، خالق اور پروردگار اپنے وسیع معنی میں خدا وند سبحا ن ہے اور کلمۂ ''عا لمین'' ہستی یا عا لم کے متعددہونے کے معنی میں آیا ہے۔

ان عوالم میں کروڑوں کہکشا ئیں پائی جا تی ہیں اور ایک کہکشاں کے ان گنت اور بے شمار منظوموں میں سے ہر ایک منظومہ میں ایسے کروڑوںثابت اورسیار ستار ے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے ارتباط اور اتصال رکھتے ہیں اور اگر کسی راہ شیری کہکشاں کے اربوں ستاروں میں سے کوئی ایک ستارہ کسی ایک سیاّرے سے پیو ستہ مثلاً ہماری زمین سے اور مر بوط ہو، تو اس کے معنی یہ ہو ں گے کہ کروڑوں سیاروں کے زمین سے متصل ہو نے کا امکان ہے اور '' ہستی شنا سی'' کے جد ید علم کے مطا بق دیگر سیارات سے ناگہا نی ارتباط اور اتصال ند آنے والے زمانے میں بعید نہیں ہے۔

ڈاکٹر'' موریس بو کیل'' نے ہستی کی وسعت اور ضخا مت کے بارے میں جد ید علمی معلو مات فر اہم کی ہیں،جیسے خو رشید کی شعاع اور نور کے پلوٹون تک پہنچنے کے لئے، جو کہ منظو مہ شمسی کا ایک سیاّ رہ ہے، نور کی رفتار سے( جس کی سرعت ہر سکینڈ میں تین لاکھ کیلو میٹر ہے) تقر یبا چھ گھنٹہ کاوقت در کار ہے۔

اس لحاظ سے ، آسمانو ں کے دور دراز ستاروں کے نور کوہم تک پہنچنے کے لئے لاکھوں سال در کار ہوتے ہیں ۔

عالم طبیعت کی یہ مختصراور بطور خلا صہ تحقیق کسی حد تک اس آ یۂ شر یفہ کے سمجھنے میں معا ون ثا بت ہو تی ہے:

( والسّما ء بنیناها بأید و اِنّا لموسعو ن ) ( ۳ )

آسما ن کو ہم نے قدرت سے بنا یا اور مسلسل ہم اسے وسعت عطا کرتے رہتے ہیں۔

اور جب بات طبعیت اور ہستی کی تاریخ کی ابتداء میں '' خاکستر اور دھوئیں'' کے متعلق ہو تو قرآن کریم

____________________

(۱)اعراف ۵۴(۲)انبیائ۱۰۷ (۳)ذاریات۴۷

۲۲۶

اس راز سے بھی پر دہ اٹھا تے ہوئے فرماتا ہے:

( ثُمَّ استو یٰ اِلیٰ السّما ء و هی دُخان ) ( ۱ )

پھر وہ آسمان کی تخلیق میں مشغو ل ہو گیا جب کہ وہ دھوئیں تھا۔

طبیعت و ہستی کے آغاز پیدا ئش میں '' دھوئیں'' کا و جود اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس وقت ہستی میں پایاجانے والا مادہ گیس کی صورت میں تھا ، جد ید دانش میں محققین '' سد یمی ابر''( ۲ ) کی تھیو ری پیش کرتے ہیںاور کہتے ہیں : اپنے پہلے مر حلہ میں طبیعت و ہستی اسی طرح تھی۔

قرآ ن کریم فر ماتا ہے:

( قل أئنکم لتکفرون با لذ ی خلق الأرض فی یو مین و تجعلون له اندادا ً ذلک ر بُّ العا لمین)( وجعل فیها روا سی من فو قها...ثُمَّ استو یٰ اِلیٰ السّما ء و هی دُخا ن ) ( ۳ )

کہو! کیا تم لوگ اس ذا ت کا ا نکا ر کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن مین خلق کیا ہے اور اس کے لئے شریک قرار دیتے ہو ؟ وہ تمام عالمین کا ربّ ہے !اُ س نے زمین میں استوار اور محکم پہا ڑوں کو قرار دیا پھر آسما نوں کی تخلیق شروع کی جب کہ وہ دھوئیں کی شکل میں تھا۔

جب ہم ان آیات کی تلا وت کرتے ہیں تو درک کرتے ہیں کہ '' طبیعت و ہستی ''کا شکل اختیار کرنا اولین''سدیمی'' بادلوں کا تہ بہ تہ ڈھیرہونا پھران کی ایک دوسرے سے جدا ئی کا نتیجہ ہے ، یہ وہ چیز ہے کہ قرآن کریم وضا حت کے ساتھ جس کے راز سے پردہ اٹھا تا ہے پھر ان کاموں کی طرف اشارہ کرتے کرتے ہوئے کہ جن سے آسمانی '' دھوئیں اور دخان '' میں اتصال و انفصال پیدا ہوتا ہے، خلقت کا راز ہم پر کھو لتا ہے، یہ وہی چیز ہے جس کو جد ید علم اصل '' طبیعت و ہستی '' کے بارے میں بسط و تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

____________________

(۱)فصلت۱۱ (۲) nebula (۳)فصلت ۹ تا۱۱

۲۲۷

فہرستیں

جلد اول و دوم

ترتیب و پیشکش: سردارنیا

اسماء کی فہرست

جلد اول ودوم

حضرت آدم ـ : جلد اول :۱۷،۱۹،۵۶،۵۸،۶۸،۱۰۱،۱۰۲،۱۰۳،۱۰۹،۱۱۱،۱۱۲،۱۱۵،۱۱۶،۱۱۷،۱۲۰،

۱۲۱،۱۲۳،۱۲۴،۱۲۵،۱۲۶،۱۲۷،۱۲۸،۱۲۹،۱۳۳،۱۳۴،۱۳۵،۱۳۶،۱۳۷،۱۳۸،۱۴۷،۱۶۰،۱۶۱،۱۶۳،۱۶۴،۱۶۵،۱۷۳،۱۷۶،۱۸۲،۱۸۸،۱۹۰،۱۹۱،۱۹۲،۲۰۰،۲۱۹،۲۲۰،۲۲۱،۲۲۲،۲۲۵،۲۳۹،۲۴۴،

۲۶۹،۲۷۲،۲۷۳،۲۸۰۔

جلددوم:۱۵،۱۷،۱۸،۱۶۹،۱۸۶،۲۴۱،۲۸۰۔

آسیہ :۲۳۔ج۱.

آصف محسنی : ۲۲۶

آل ابرا ہیم : ۲۸۰۔ ج۱.

آل عمرا ن : جلداول:۲۸۰۔جلددوم: ۳۷۔

آل فرعون : جلددوم : ۳۰۔۶۷۔

آل موسیٰ : جلددوم۴۸۔

آ ل ہا رون : جلددوم:۴۸۔

آمری : جلددوم:۲۱۷۔

ابراہیم :۲۵،۲۶،۲۸،۸۰،۱۴۷،۱۴۸،۱۵۶،۱۶۶،۱۷۲،۱۷۳،۱۸۲،۱۸۶،۲۰۳،۲۱۸،۲۲۵،۲۲۸،

۲۳۷،۲۳۸،۲۳۹،۲۴۴،۲۶۹،۲۷۶،۲۷۷،۲۸۰،۲۹۳۔

۲۲۸

جلددوم:۱۳،۱۷ تا ۲۷،۳۴،۳۵،۳۷،۴۳،۶۱،۶۲،۱۵۲۔

ابلیس: ۸۹،۱۰۲،۱۰۳،۱۰۷،۱۰۹،۱۱۱،۱۱۲،۱۱۵،۱۱۶،۱۱۸،۱۲۳،۱۲۴،۱۲۶،۱۲۷،۱۳۲،۱۳۷،۱۵۰،

۱۶۰،۱۶۱،۱۶۴،۱۶۳،۲۰۶،۲۲۱،۲۳۵،۲۳۷،۲۴۰۔

جلددوم:۱۹،۵۳،۹۹،۱۲۰،۱۴۰،۱۵۵۔

ابن ابی الحدید : ۱۳۲.

ابن ابی العو جا ء : ۲۵۴،۲۵۵۔

ابن اثیر :۲۲۰۔

ابن با بویہ :جلددوم:۲۳۴،۲۳۷۔

ابن بطہ : جلددوم: ۲۱۶.

ابن تیمیہ : جلددوم: ۲۱۸۔۲۱۹۔

ابن حجر :۲۵۵

ابن حزم : جلددوم:۱۹۳،۱۹۴،۲۱۵۔

ابن حبان:۲۵۵.

ابن خزیمہ : جلددوم:۲۱۶.

ابن خلکان : ۲۵۳.

ابن رشد :جلددوم:۲۱۸۔ ۲۱۹۔

ابن زیاد : جلددوم:۲۰۸۔

ابن سعد :۱۲۹۔۱۸۸۔ ۲۲۰۔ ۲۵۳۔۴ ۲۵۔

جلددوم :۱۸۵۔

ابن سینا : جلددوم:۲۱۸۔

ابن طفیل : جلددوم:۲۱۸۔

۲۲۹

ابن طولو ن : جلددوم:۲۳۷.

ابن عبا س : ۱۷۔۱۸۸۔۲۰۹۔۲۱۹۔ جلددوم:۱۵۲۔ ۱۸۲۔۱۸۳۔ ۲۰۱۔

ابن عبا س جو ھری :جلددوم:۲۳۷۔

ابن عساکر : جلددوم:۱۳۲۔ ۲۰۱۔

ابن قدامہ: جلددوم: ۲۱۶۔

ابن کثیر : ۱۸۸۔ ۲۲۰۔۲۸۴۔ جلددوم:۵۷۔۱۱۴۔۱۵۲۔۱۸۱۔۱۸۲۔ ۲۲۲۔

ابن کلبی : جلددوم:۱۹۔

ابن ما جہ :جلددوم:۱۸۵۔۲۱۸۔

ابن منظور : ۳۸۔

ابن ہشا م : ۲۸۵۔ جلد دوم :۲۵۱۔

ابو الحسن اشعری:جلددوم:۲۱۵۔۲۱۹۔

ابو بکر ( خلیفہ )۲۷۹۔

ابو حا تم : ۲۵۵۔

ابو حنیفہ : ۲۶۲۔

ابو داؤد : ۱۲۹۔

ابو طا لب تجلیل : جلددوم:۲۳۷۔

ابو عبیدہ :۲۷۹۔

ابوملک بن یر بو شت :۲۵۸۔

ابو منصور ما تر یدی سمر قندی؛ جلددوم: ۲۲۲۔

ابو ہا شم جبا ئی: جلددوم: ۲۳۰۔

ابو ہذیل علا ف :جلددوم:۲۲۰۔

ابو ہریرہ :۲۵۴

۲۳۰

ابو الھیثم : ۳۸۔

ابو وائل : جلددوم:۱۸۱ ۔

احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : ۱۴ ۔

احمد آرام :جلددوم:۲۲۵۔

احمد امین : جلددوم: ۲۱۵۔

احمد ابن حنبل : ۱۴۸. جلددوم:۱۰۲۔۱۱۳۔۱۸۲،۱۸۵۔۲۱۴۔۲۱۵۔۲۱۶۔

سرسیداحمد خان ہندی : جلددوم: ۲۲۴،۲۲۵۔

احمد محمو د صبحی : جلددوم: ۲۱۳،۲۱۷،۲۱۸،۲۲۲،۲۲۴۔

اخطل شاعر : جلددوم:۱۳۲ ۔

خنوخ :۲۱۹،۲۲۰۔

ادریس :۲۱۹۔۲۲۰۔۲۲۱۔۲۲۵جلددوم:۱۶۹۔

اڈو ین پا ول ھا بل : جلددوم:۲۴۷۔

ارسطا طا لیس : جلددوم:۲۱۸۔

ارسطو : جلددوم:۲۱۸۔۲۲۴۔

اسا مہ بن زید : ۲۶۶۔۲۶۷ ۔

اسبا ط : ۱۴۷۔جلددوم:۱۵۴ ۔

اسحق :۱۴۷۔۱۴۸۔جلددوم:۲۲۔۲۷۔۵۳۔

اسرا ئیل :۱۳۔۱۴۔ ۵۱۔۱۸۷۔۱۸۹۔۱۹۴۔۲۰۰۔۲۲۳۔۲۲۴۔۲۴۹۔۲۵۱۔۲۵۲۔۲۵۷۔۲۶۰۔

۲۶۱۔۲۶۳۔۲۹۰۔۲۹۲۳۔

جلددوم:۱۳،۱۵،۳۱،۳۴،۳۷،۳۸،۴۰،۴۲،۴۳،۴۵،۴۷،۴۸،۴۹،۵۲،۵۳،۵۶،۵۸،۶۱،۶۲،

۶۶،۶۷،۷۱،۱۰۳۔

۲۳۱

اسرا فیل :۹۰۔

اسماعیل :۱۶،۱۴۷،۱۴۸،۱۹۹،۲۵۲۔ جلددوم:۲۱۔۲۲۔ ۲۴،۲۵،۲۷،۳۴،۳۵،۴۴۔

اصحا ب ۔ صحا بی :۹،۱۰،۱۰۳،۱۲۰۔ جلددوم:۴۰،۶۰،۸۷،۱۱۷،۱۱۹،۱۸۱،۲۰۸۔

العازار کا ہن :۲۲۳۔

الفر دبل : جلددوم:۲۲۲۔

اقبال لاھوری :جلددوم:۲۲۵۔

الیاس :۲۲۵۔

امام ابو الحسن :جلددوم:۱۰۱۔

امام الحر مین :جلددوم:۲۱۷ ۔

ائمہ اہل بیت : ۱۲،۲۲۷،۲۷۷۔ جلددوم :۱۴،۱۸۶،۱۸۸،۱۹۵،۲۰۱،۲۰۳۔

امام جعفر صادق :۱۰۹،۱۱۰،۱۳۶،۲۷۳،۲۸۴۔ جلددوم:۱۹،۸۸،۹۶،۱۰۰،۱۰۱،۱۰۲،۱۰۶،۱۰۹،

۱۱۴،۱۲۹،۱۵۳،۱۸۵،۲۰۳،۲۰۵،۲۳۵۔

امام حسن مجتبی : جلددوم۲۰۱ ۔

امام حسین : ۵۶۔جلددوم:۲۰۸،۲۰۹۔

امام زین العا بدین : جلددوم۱۰۶۔

امام علی بن ابی طا لب :۶۹،۱۳۰،۱۳۲،۱۳۳،۱۳۵۔جلددوم:۶۱،۱۰۰،۱۰۳،۱۱۴۔

امام علی ابن موسی ٰ الر ضا :۱۳۷،۲۳۰،۲۷۹۔. جلددوم۱۸۷۱۱۳،۲۰۳۔

امام کا ظم :جلددوم :۱۱۳۔

امام محمد باقر ـ :۱۰۸،۱۳۶۔ جلددوم:۱۰۱،۱۰۷،۱۸۸۔

امام امیر المو منین علی :۲۴۵۔ جلددوم: ۷۶،۱۱۳،۱۰۲،۲۲۷۔

انس ابن مالک :۲۵۲۔ ۲۵۵ ۔۲۶۱۔۲۶۲۔ ۲۸۴.

۲۳۲

ا نصار :جلددوم:۲۹۔ ۶۹۔۷۰۔

انوش :۲۱۹ ۔

اوریا : ۲۵۰۔۲۵۲۔ ۲۵۶۔۲۵۷۔۲۵۸۔۲۵۹۔۲۶۲۔۲۸۰۔۲۸۲۔۲۸۳.

اہل بیت :۲۵۶. جلددوم:۲۔۵۔۶۔۷۔۸۔۱۴۔۱۱۵۔۲۱۹۔۲۲۵۔۲۲۶۔۲۲۷۔ ۲۳۰۔۳۲۱۔۲۳۲۔

۲۳۳۔ ۲۳۴۔ ۲۳۵۔۲۳۶۔۲۳۷۔۲۳۹۔۲۴۰۔

اے۔ کر یسی مر سیون :۳۴۔

ایوب : ۱۴۸۔ ۲۲۵۔۲۳۸.

(ب)

بحرا نی :۱۲ ۔

بخاری : ۲۲۔ ۲۱۰۔

بشربن مروان : جلد دوم :۱۳۲۔

بطلیمو س : ۹۱۔

بلقیس :۱۱۱ ۔۲۲۹۔

یوارد :۲۲۰۔

بیگ با نگ : جلددوم : ۲۴۷۔

بیہقی : جلد دوم : ۲۱۹۔

(پ)

پطرس :۲۲۴ ۔

پیغمبرصلی ﷲ علیہ و الہ وسلم :۵۲۔۱۲۵۔۱۲۶۔۲۶۵۔۲۷۷۔۲۷۹۔۲۸۴۔

جلددوم:۱۴۔۱۶۔۲۲۔۲۳۔۲۴۔۲۶۔۲۷۔۲۸۔۳۰۔۴۱۔۵۵۔۸۰۔۹۰۔۹۲۔۱۰۷۔۱۲۶۔۱۲۹۔

۱۳۳۔ ۱۳۴۔۱۳۶۔ ۱۴۲۔۱۵۶۔۱۶۲۔۱۷۴۔۱۸۵۔۱۹۶۔۲۰۳۔۲۰۹۔۲۱۰۔۲۱۱۔۲۱۵۔۲۱۷۔ ۲۱۸ ۔

۲۳۳

(ت)

تا بعین :۲۶۱ ۔ جلددوم :۱۸۱ ۔

تر مذ ی :۱۲۹۔ جلددوم :۱۱۴۔۵ ۱۸۔

تمیم داری :۲۶۱ ۔

(ث)

ثقفی : ۱۳۴۔

(ج)

جا حظ؛ جلد: دوم :۲۲۰ ۔

جبا ئیا ن :جلد دوم: ۲۲۰۔

جبرا ئیل : ۶۴۔۶۶۔۶۷۔۳ ۱۳۔۱۳۴۔۱۳۶۔۱۳۷۔۱۵۶۔۲۵۲۔ جلد دوم :۱۷۔۹۰۔

جعفر سبحانی جلد:دوم :۲۲۲۔

جمال الدین اسد آبادی جلد :دوم :۲۲۵۔

ڈاکٹرجواد علی :۲۵۳۔

جورج لا میتر : جلد دوم :۲۴۷۔

جوہری : جلددوم : ۱۵۶۔

جو ینی : جلددوم :۲۱۸۔

۲۳۴

(ح)

حا رث محا سبی : جلددوم :۲۲۷۔

حا فظ محمد سیلم : جلددوم :۲۴۶۔

حام : ۲۲۱۔

حجا ج ابن یو سف :۳ ۲۵۔

حر عا ملی : جلددوم :۲۳۷ ۔

حسن بصری : ۲۵۱۔۲۵۳۔۲۵۴۔۲۵۵۔۲۶۰۔ ۲۶۱۔۲۶۲۔۲۶۳۔

حمیری :۲۵۳۔

حوا : ۱۲۳۔۱۲۵۔ ۱۲۷۔۱۲۹۔ ۱۳۶۔ ۱۳۷۔ ۱۳۸۔۱۹۲۔ ۱۹۳۔۲۱۹۔جلد دوم :۱۸۔

حواری ؛حواریوں ؛ حواریین: ۱۸۸۔۲۲۴۔۲۲۵۔

(خ)

خاتم الانبیائ؛خاتم المرسلین؛خاتم النبیین:۱۳۔۲۶۔۲۸۔۳۰۔۷۰۔۸۸۔۹۰۔۹۱۔۹۸۔ ۹۹۔ ۱۱۲۔۱۲۶۔

۱۵۳۔۱۵۶۔۱۷۴۔۱۸۲۔۲۰۸۔۲۱۶۔۲۳۵۔۲۴۷۔ جلد دوم :۱۳۔۱۵ ۔۲۵ ۔۲۶۔۲۹۔ ۳۸۔۴۰۔ ۴۱۔ ۴۴۔۴۵۔۵۹۔۶۰۔۶۲۔۶۳۔۶۵۔۶۶۔ ۶۸۔۷۰۔۸۳۔۱۱۲۔۱۴۰۔

خازن : ۲۶۳۔۲۸۳۔

خدیجہ ام المومنین علیہا السلام : ۲۶۶۔

حضرت خضر ـ: ۲۶۳۔

خنوخ : ۲۱۹۔۲۲۰۔

۲۳۵

(د)

دارمی : جلد دوم :۲۔۸۹۔

داود :۱۰۸۔۱۴۷۔۹ ۱۸۔۲۳۵۔۲۳۸۔ ۲۴۷۔۲۴۸۔۲۴۹۔۲۵۰۔۲۵۱۔۲۵۲۔۲۷۶۔ ۲۸۰۔ ۲۸۲۔ ۲۸۹۔ جلددوم :۵۸۔۶ ۱۸۔۱۸۸ ۔۱۹۹۔

ڈیکارٹ: جلد دوم :۲۱۸۔

(ذ)

ذوالکفل : ۲۲۵۔ ۲۳۸۔

ذوالنو ن : ۲۸۰ ۔۲۸۱۔

(ر)

راغب اصفہا نی : ۱۴۳۔۱۴۴۔۱۵۷۔۲۷۸ ۔ جلد دوم :۴۷۔۲۲۷۔۲۴۸۔

ربیعة بن الحرث بن عبد المطلب :۵ ۲۸۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :۱۰۔۱۱۔ ۵۶۔ ۷۵۔ ۱۲۹۔ ۱۳۷۔۱۶۱۔۱۷۷۔۲۱۰۔ ۲۴۴۔ ۲۴۵۔۲۶۱۔۲۶۲۔۲۶۳۔ ۲۶۵۔۲۶۶۔ ۲۶۷۔۲۷۹۔۲۸۲۔۲۸۴۔۲۸۵۔ جلددوم : ۱۱۔۵ ۲۔ ۶۶۔ ۶۷۔۷۸۔ ۹۵۔ ۱۰۰۔۱۰۲۔ ۱۰۳۔۱۰۶۔۱۱۳۔۱۱۴۔ ۱۱۷۔ ۱۱۸۔ ۱۱۹۔ ۱۵۳۔۱۵۵۔ ۱۸۰۔۱۸۶۔۲۲۶۔۲۳۷۔

روح الا مین :۱۱۔۶۴۔۶۹۔۷۱۔ ۱۳۴۔

روح القدس :۶ ۵۔۵۷۔ ۶۴۔ ۶۹۔۷۰۔۷۱۔ ۱۳۴۔۱۹۳۔ جلددوم :۳۲۔۳۶۔۴۳۔۴۴۔

ریچرڈ واٹس :۱۲۴۔ جلددوم :۳۸۔

۲۳۶

(ز)

زعفرا نی : جلددوم :۲۱۶ ۔

زکریا : ۵۴۔ ۱۵۶۔۲۳۸۔ جلددوم :۱۶۹ ۔

زلیخا :۲۳۷۔ ۲۴۱۔

زھدی حسن جار ﷲ : جلددوم :۲۲۱۔

زھیر بن ابی سلمی : ۲۶۲۔

زیاد ابن ابیہ : جلددوم :۲۰۸۔

زید بن ثا بت ؛ ۲۵۳۔

زید بن حارثہ : ۲۱۰۔۲۶۵۔۲۶۶۔

زید بن محمد :۲۶۶۔

زین العا بدین امام علی بن الحسین :۲۶۳ ۔ جلددوم :۱۰۶۔

زینب بنت جحش :۲۶۳۔ ۲۶۵۔

(س)

سام : ۲۲۲۔

سا مری : ۱۲۴۔ جلددوم :۴۸۔۱۵۲۔

سا می البدری :۴ ۱۲۔

السبکی : جلد دوم :۲۲۲ ۔

سعد بن ابی وقا ص: جلددوم :۴۱ ۔

سفیان بن عیینہ : ۲۶۳۔

سکا کی : ۳۰۰ ۔

۲۳۷

سیلما ن : ۹۷ ۔۹۸ ۔۱۰۸ ۔۱۰۹ ۔۱۱۱۔۱۱۲ ۔۱۴۷۔۱۴۸۔۱۷۵۔۱۸۷۔۲۲۴۔۲۲۵۔۲۲۹۔ ۲۳۸۔

جلددوم :۵۸۔۱۵۳۔

ڈاکٹرسلیمان دنیا : جلددوم :۲۲۳۔

سمعون :۲۲۴۔

سمو ئیل : ۲۵۶۔۲۶۰۔

سمیع عا طف الز ین : جلد دوم :۲۲۴۔

سوا ع :۲۲۱ ۔ جلددوم :۱۸۔

سیو طی :۱۲۔۱۰۷۔ ۲۵۱۔۲۵۲۔۲۶۲۔ جلددوم :۵۸۔

(ش)

شافعی :۲۶۲ ۔ جلددوم : ۲۱۶۔

شعبہ :۲۵۵۔

شعیب :۲۱۷۔ ۲۲۵۔ جلد دوم :۱۷۔۲۷۔

شفیق بن سلمہ : جلددوم :۱۸۱۔

شمعون :۲۲۴۔

شوکا نی : جلد دوم :۲۱۷۔۲۱۹۔

شہر ستا نی : جلددوم :۱۹۳۔۱۹۴۔

شیخ صدوق : ۱۱۱۔ ۱۲۹۔ ۲۸۳۔ جلددوم :۷۹۔۸۷۔ ۸۹۔۹۸۔۱۰۱۔۱۰۷۔۱۰۹۔۱۱۰۔۱۱۸۔۱۱۹۔ ۱۵۳۔۱۸۶۔۱۸۷۔۲۰۱۔

شیخ مفید : جلد دوم :۲۳۴۔۲۳۶۔

شیث: ۱۲۵۔۲۱۹۔۲۲۰۔۲۲۱۔

۲۳۸

( ص)

صابونی : جلددوم :۲۱۷۔

صالح : ۴۲۔۲۳۱۔ جلددوم : ۱۷۔

(ط)

طبری : ۲۲۰۔۲۴۸۔۲۵۱۔۲۵۲۔۲۶۱۔۲۶۴۔جلددوم :۱۱۴۔۱۵۲۔۱۸۱۔۱۸۳۔۱۸۴۔

طیا لسی : جلددوم :۱۸۔۱۸۶۔

( ع)

عبا س بن عبد المطلب : ۲۸۵ ۔

عبا س علی براتی : جلددوم :۲۱۳۔

عبد الجباربن احمدہمدانی : جلد دوم :۲۲۰۔

عبد الحلیم محمود : جلد دوم :۲۱۸۔

عبد الر زاق نو فل : جلددوم :۲۲۴۔

عبد ﷲ بن عباس : ۲۶۲۔

عبد ﷲ بن عمر وعاص :۲۶۱۔

عبد المطلب :۲۶۶

عبد الوھا ب بن احمد : جلددوم :۲۲۴۔

عبید ﷲ بن حسن عنبری : جلددوم : ۲۱۷۔

عثما ن (خلیفہ ) :۲۶۱۔

عزرائیل : جلد دوم :۹۰

عزّیٰ :۴۹۔

۲۳۹

عز یر: ۔۵۰۔

علی بن ابرا ہیم :۲۸۳۔ جلددوم :۱۸۸۔

علی بن ابی طالب علیہ السلام : یہ امام علی ـ میں گزر چکا ہے.

علی بن حسین علیہ السلام : یہ امام زین العابدین ـمیں گزر چکا ہے۔

علی بن حسین المو سوی : جلددوم :۲۲۹۔

علی بن جد عان : ۲۶۳

علی بن جہم : ۲۷۶۔۲۸۱۔

علی بن زید : ۲۵۴۔

علی بن طا ووس : جلددوم :۲۲۶۔

علی حسین الجا بری : جلددوم :۲۱۹۔

علی سامی النشا ر ؛ جلددوم :۲۱۹۔

عمر بن خطاب( خلیفہ):۲۶۱۔جلددوم :۱۸۱۔

عمر بن عبد العزیز : جلددوم :۱۸۱۔

عمرو بن شعیب : جلددوم :۲۱۴۔

عمر و بن عبید : جلددوم :۲۲۰۔

عیسیٰ علیہ السلا م : ۱۳۔۵۱۔۵۲۔ ۵۴۔ ۵۶۔۵۸۔۶۴۔ ۶۸۔۱۴۷۔۱۷۲۔۱۷۳۔۱۸۲۔۱۸۸۔ ۱۹۴۔

جلد دوم :۱۳۔۱۷۔ ۶۳۔

عیسیٰ نا صری :۱۸۹۔

( غ)

غزا لی : جلددوم :۲۱۸۔۲۱۹۔۲۲۳۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421