عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 18%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 421

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 421 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207794 / ڈاؤنلوڈ: 8536
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

پہلی جلد

علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم:سید قلبی حسین رضوی

۳

خطوط اور مقدمے

کتاب عبدا للہ بن سبا کی علمی قدر و قیمت

ایک شیعہ دانشور محترم جناب شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

الازہر یونیورسٹی ، مصر کے مجلہ کا جواب

مباحث پر ایک نظر

سلسلہ مباحث کی پیدائش

۴

کتاب عبد اللہ بن سبا کی علمی قدرو قیمت

مصر کی الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر جناب ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کا خط

کتاب عبدالله بن سبا ، آخر میں دوسرے ایڈیشن کے عنوان سے مصر میں دوسری بار شائع ہوئی ہے،اس کتاب نے اہل سنت ممالک میں گہرا اثر ڈالا ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں خاص کر الازہر یونیورسٹی کے دانشوروں اور اساتذہ کی توجہ کا سبب بنی ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں میں غیر معمولی اثر ڈالا ہے ،مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی طرف سے مؤلف کو اس کتاب کو پسند کرنے کے سلسلہ میں کئی خطوط ملے ہیں ، ان میں سے ایک جناب ڈاکٹر حامدکا خط ہے ، وہ مصر کے ایک نامور دانشور ہیں ، جو کئی قابل قدر تحقیقی تالیفات کے مالک ہیں ۔

چونکہ یہ خط انصاف و عدالت کا ایک نمونہ اور تعصب اورہٹ دھرمی کی سرحدوں کو توڑنے والا ایک عنوانہے اس لئے ہم اسے ترجمہ کرکے شائع کرتے ہیں(۱)

____________________

۱۔ نشریہ سالانہ مکتب تشیع ۴/۳۰۲۔

۵

خط کا مضمون

تاریخ اسلام کی تیرہ صدیاں اختتام کو پہنچی ہیں ان تیرہ صدیوں کے دوران ہمارے دانشوروں کے ایک گروہ نے حتی الامکان شیعوں کے خلاف آواز اٹھائیہے اور حقائق کو اپنی نفسانی خواہشات سے مخلوط کیا ہے اس ناپسندیدہ روش کی وجہ سے اسلامی فرقوں کے د رمیان گہرے اختلافات پیدا ہوئے ہیں ، نتیجہ کے طورپر شیعہ دانشوروں کے فکر و اندیشہ کے گوہر کو حقیر سمجھا گیا ہے اسی روش کی بنا پر علمی دنیا کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

شیعہ دانشوروں کے افکار سے علم محروم رہا ہے کیونکہ دشمنوں نے شیعوں کے پا ک و صاف دامن کو داغدار بنا کر انھیں ایک توہمات و خرافات کے حامل گروہ کے طور پر پہچنوایا ہے ، بے شک ہم شیعوں کے صاف و شفاف علمی چشمہ زلال سے ایک گھونٹ پی سکتے تھے نیزاس مذہب کے سرمایہ سے فائدہ اٹھا سکتے تھے ، لیکن افسوس کہ ہمارے گزشتہ دانشوروں نے تعصب سے کام لیااور عقل کو ھوا و ہوس پر ترجیح نہیں دی ، اے کاش کہ وہ لوگ عقل کی پیروی کرتے اور جذبات کے کھلونے نہ بن تے !! جو کوئی تعصب کے عینک کو اتارکر فقہی مباحث کےلئے اقدام کرے اور فقہ مذاہب چہارگانہ پر تحقیق کرے ، وہ شیعہ فقہ سے بھی استفادہ کرنے پر مجبور ہے اور بے شک جب فقہ اہل سنت پرتحقیق کرے تو اس وقت شیعہ فقہ کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے اور اس سے آگاہ ہونا چاہئے ۔

۶

ہم کب تک خواب غفلت میں رہیں گے ؟! کیا فقہ شیعہ کے پرچم دار ،ا مام جعفر صادق علیہ السلام(۱) سنی مذہب کے دو امامو ں کے استاد نہیں تھے؟ یہ دو امام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مکتب میں زانوئے ادب تہہ کیا ہے ۔

ابو حنیفہ ، نعمان بن ثابت(۲) کہتے ہیں :

لولاالسنتان لهلک النعمان

اگر امام صادق علیہ السلام کے درس میں دو سال شرکت نہ کی ہوتی تو بے شک میں ہلاک ہوجاتا، اوردین سے منحرف ہوتا۔

اس کی مراد وہی دو سال ہیں جس میں انہوں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کے علم کے میٹھے اور زلالی چشمہ سے استفادہ کیا ہے ۔

اور یہ مالک بن انس ہیں جو واضح طور پر اعتراف کرتے ہیں :

ما رایت افقه من جعفر بن محمد

میں نے جعفر بن محمد سے فقیہ تر کسی کو نہیں د یکھا ہے(۳)

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ علم کے بارے میں صرف دور سے کچھ سننے والوں نے اپنے آپ کو دانشور سمجھ کر اپنے قلم سے تحقیق کی بنیادوں کو اکھاڑ کر حق و حقیقت کو اپنی نفسانی خواہشات پر قربان

____________________

۱۔ وفات ۱۴۸ ھ

۲۔ وفات ۱۵۰ھ

۳۔ وفات ۱۷۹ ھ

۷

کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر گلستان علم کے دروازے ان پر بند ہوگئے اور اس طرح وہ شمع معرفت کے نور سے محروم ہوگئے ہیں ، اس مذموم روش نے فتنہ کی آگ کو بھڑکانے کے علاوہ مسلمانوں میں ، دن بدن اختلافات کو بڑھا وا دیا ہے ۔

افسوس کہ ہمارے استاد ” احمد امین “(۱) بھی انہیں افراد میں سے تھے ، جنہوں نے معرفت کے نور سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ظلمت کے پردوں کے پیچھے زندگی بسر کرتے رہے ، یہ وہ کرنیں ہیں جو تشیع کے سورج سے چمکی ہیں اور جہالت کی تاریک رات کو نور میں تبدیل کرکے اسلام کے عظیم تمدن کو اس وقت وجود بخشا ، جبکہ دوسرے لوگ بہت پیچھے تھے۔

تاریخ نے اس ناپاک رویہ کی بنا پر ، احمد امین اور ان جیسے تمام اساتذہ اور دانشوروں کے دامن پر عظیم داغ لگادیا ہے، جنہوں نے آنکھیں بند کرکے تعصب کی وادی میں قدم رکھا ہے ، یہ دانشور وں اور محققین کا طریقہ کار نہیں ہے کہ ایک جگہ بیٹھے رہیں اور جمود کی بیڑی کو اپنی فکر کے پاؤں سے نہ اتاریں اور بے جا پر تعصب سے کام لے کر آنکھیں بند کرکے کسی مذہب کی پیروی کریں !!

ان کی فکرو قلم سے بہت ساری غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہوئی ہیں اور انہیں الجھن اور بد حواسی سے دوچار کیا ہے ، شاید مذکورہ داستان اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔

انہوں نے جھوٹ بول کر بعض مطالب کو شیعوں سے نسبت دیکران کے دامن کو داغدار بنادیا

____________________

۱۔ ” فصل “ پیدائش افسانہ د ور راویان آن “ شمارہ ہفتم ، کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں پر احمد امین کی باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا ہے جس کا سبب شیعوں کے ساتھ اس کی دشمنی اور کینہ ہے ۔

۸

ہے کہ ہم نے ان میں سے بعض کی طرف اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے ،(۱) انہوں نے تصور کیا ہے کہ جتنے بھی خرافات اور جعلی چیزیں اسلام کی تاریخ میں موجود ہیں ، سب کی سب شیعہ علما کی گڑھی ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنے خود ساختہ گمان سے شیعوں پر حملہ کیا اور ان کو برا بھلا کہا ہے۔

جلیل القدر محقق ”جناب مرتضیٰ عسکری “ نے اپنی کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ میں کافی دلائل سے مکمل طور پر ثابت کیا ہے کہ ” عبدا للہ بن سبا “ ایک خیالی اور جعلی موجود ہے ۔

تاریخ نویسوں نے جو حکایتیں بیان کی ہیں اور ان کی بناء پر اسے (عبدا للہ بن سبا) مذہب شیعہ کا مروج(۲) بیان کیا ہے البتہ یہ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، مؤرخین نے ان گڑھی ہوئی داستانوں کو اس لئے مرتب کیا ہے تا کہ فریب کاری کے جال کو پھیلا کر شیعوں پر حملے کرکے بے جا ان کے خلاف تہمت و افتراء پردازی کریں ۔

ہم عصر دانشور ،جناب مرتضیٰ عسکری نے اس کتاب میں اپنی فکر و اندیشہ کے سہارے تاریخ کے سمندر میں غوطہ لگا کر ، بہت سی کتابوں کا مطالعہ فرمایا ہے اور انتہائی تلاش و جستجو کے بعد اس سمندر سے کافی مقدارمیں موتی لے کر ساحل تک آئے ہیں ۔

انہوں نے زیر بحث حقائق کو ثابت کرنے کےلئے نزدیک ترین راستہ طے کیا ہے ، شیعوں کے

مخالفوں سے بحث کے دوران ان کے ہی بیانات کو مآخذ قرار دیکر ان کی باتوں کو باطل ثابت کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کی کتا ب” مع احمد امین “ کے مقدمہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ خود غرض مورخین نے اسے شیعہ مذہب کا بانی و مروج خیال کیاہے۔

۹

تاریخ اسلام کے آغاز سے عصر حاضر تک ” سیف بن عمر“ کی روایتوں نے مؤرخین کو الجھا رکھا ہے جو عام طور پر قابل اعتماد ہے، اس کتاب میں ان روایتوں کے بارے میں ایک گراں بہا تحقیق کی گئی ہے کہ قارئین بڑی آسانی سے انھیں سمجھ سکتے ہیں ۔

خدا کی حکمت اسی میں ہے کہ بعض محققین مردانہ وار قلم ہاتھ میں اٹھا کر حقائق سے پردہ اٹھائیں ، اور اس راستہ میں دوسروں کی سرزنش اور ملامت کی پروانہ کریں ، مصنف محترم پہلی شخصیت ہیں جس نے اپنی گہری تحقیقات کے نتیجہ میں اہل سنت محققین کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ طبری کی کتاب ” تاریخ الامم و الملوک “ کے بارے میں تجدید نظر کریں ، نیز انھیں اس بات پر مجبور کیا ہے کہ اس کتاب اورتاریخ کی دوسری بنیادی کتابوں کے بارے میں از سر نو دقت سے غور کرتے ہوئے اور خوب و بد کو ایک دوسرے سے جدا کریں ،مزید ان تاریخی حوادث کے بارے میں بھی نئے سرے سے غور کریں ، جنہیں وہ نازل شدہ وحی کے مانند صحیح اور نا قابل تغییر سمجھتے تھے !!

محترم مصنف نے کافی ، واضح اور روشن شواہد کی مدد سے ان تاریخی وقائع سے ابہام کے پردے کو ہٹا دیا ہے اور حقیقت کو اس کے متوالوں کےلئے آشکار کیا ہے حتی کہ بعض حقائق انتہائی بھیانک اور حیرت انگیز دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ایک عمر کے عادات و رسومات چند صدیوں کی اعتقادی میراث کے مخالف ہیں ، لیکن حق کی پیروی کرنالازم و واجب ہے ہر چند کہ یہ امر دشور ہو ” الحق احق ان یتبع“۔

مذکورہ مطالب سے آگاہی چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ کریں او رتاریخ کے اختلافی حوادث جیسے ، اسامہ کی لشکر کشی ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت اور سقیفہ کی داستان (جس پر مؤلف نے تنقیدی تجربہ کیا ہے) کا دقت کے ساتھ مطالعہ کریں ۔

جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موت کا شیرین جام نوش فرمارہے تھے، اسامہ کے لشکر سے بعض افراد حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے مدینہ لوٹے اور ریاست و خلافت کی امید سے جہاد سے منہ موڑ لیا ، مؤلف نے ان افراد کو پہچنوایا ہے ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر مرگ پر جب وصیت لکھنے کا حکم دیدیا، کچھ لوگوں نے اس حکم پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالی اور اسے ہذیان سے تعبیر کیا (گویا انہوں نے گمان کیا کہ پیغمبر ہذیان کہہ رہے ہیں)کیونکہ وہ اس امر سے خائف تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وصیت میں علی علیہ السلام کی خلافت کی خبر دیں گے اور ان آخری لمحات میں بھی اسے اپنے وصی کے طور پر تعارف کرائیں گے ۔

۱۰

مؤلف اس حادثہ کی حقیقت و کیفیت کو بھی آشکار کرتے ہیں عمر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے انکار کرنے کا مقصد کیا تھا ؟ کیوں وہ ان افراد کو موت کی دھمکی دیتے تھے جو یہ کہتے تھے کہ پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے رحلت کی ہے ؟جس وقت امام علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچیرے بھائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس اور چند بوڑھے اور سن رسیدہ اصحاب کی مددسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن نازنین کوغسل دینے میں مشغول تھے ، تو اس وقت کس غرض سے عمر اور ابو عبیدہ نے انتہائی عجلت کے ساتھ اپنے آپ کو سقیفہ کے اجتماع میں پہنچادیا اور لوگوں سے ابوبکر کے حق میں بیعت لے لی ؟!

بے شک ، اگر تھوڑا سا انتظار کرتے تا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سپرد لحد کرکے اور علی علیہ السلام بھی اس اجتماع میں حاضر ہوتے تو علی علیہ السلام خلافت کے مستحق قرار پاتے اور بنی ہاشم ان کے علاوہ کسی اور کو امام المسلمین کے طور پر قبول نہیں کرتے !

مؤلف نے مذکورہ تین مباحث میں صحیح کو غلط سے اور برے کو بھلے سے جدا کرکے ان مسلم حقائق تک رسائی حاصل کی ہے اور ان کی اس تحقیق کے نتیجہ میں فریب کاروں کےلئے مکرو فریب کے دروازے بند ہوگئے ہیں ۔

کتاب کے دوسرے مباحث بھی مذکورہ بالا تین مباحث کی طرح ، دقت کے ساتھ حقائق کو ایسے آشکار کرتے ہیں کہ بہت جلد ہی تاریخ اسلام کے اندر گہرے اثرات رونما ہوں گے ۔

میں اس مقالہ کو ختم کرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ درج ذیل تین سوالات کا جواب دیدوں :

۱ ۔ کیا پیغمبر خدا کا صحابی غلطی کرسکتا ہے اورلغزش سے دوچار ہوسکتا ہے ؟

۲ ۔ کیا اس کے کام اور کردار پر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے ؟

۳ ۔ کیا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی کو منافق یا کافر کہا جاسکتا ہے ؟

۱۱

سوال نمبر ایک اور دو کا میں مثبت جواب دیتا ہوں ، لیکن تیسرے سوال کا جواب منفی ہے ۔ اس لئے نہیں کہ میں تعصب سے کام لیتا ہوں اور علم کے اصول کے خلاف کہتا ہوں ، بلکہ ایک ایسا استدلال رکھتا ہوں کہ عقل اس کو قبول کرتی ہے اور منطق اسکی تائید کرتی ہے کیونکہ کفر و نفاق کا تعلق قلب و دل سے ہے اور وہاں تک خدا کے سوا کسی کی رسائی نہیں ہے ، علمی تجربہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ہے ، صرف خداوند عالم ہے جو انسان کے اندرونی اسرار سے واقف ہے اور پوشیدہ چیزوں کامکمل طور پر علم رکھتا ہے(۱)

مذکورہ روش ، وہی جدید روش ہے ، جس کا واضح مشاہدہ میری تمام تالیفات میں کیا جاسکتا ہے۔

مجھے اس بات پر انتہائی مسرت ہے کہ علم کے لحاظ سے اس عظیم کتاب اور اس کے عالی قدر مصنف استاد علامہ محقق جناب مرتضی عسکری کے تئیں انتہائی احترام و محبت کا قائل ہوں ، اسی طرح جناب مرتضیٰ رضوی کشمیری کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کو پوری ظرافت اور دیدہ زیب صورت میں شائع کیا ہے ، علامہ نے اس فریضہ کو انجام دے کر اسلام کی ایک عظیم خدمت کی ہے اور اس ذمہ داری کو انجام دے کر اسلام کے تاریخی حقائق کو زندہ کرنے کےلئے ایک عظیم اثر چھوڑا ہے ۔

قاہرہ اول جمادی الاول ۱۳۸۱ ھء مطابق ۱۲ ،اکتوبر ۱۹۶۱ ئئ

ڈاکٹر حامد حفنی داؤد

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد نے اس خط کو نصف کتاب کے شائع ہونے کے پیش نظر مصر میں لکھا ہے ۔

۱۲

ایک محترم شیعہ دانشور شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

سنی دانشور محترم جناب ڈاکٹر حامد کے نظریہ سے آگاہ ہونے کے بعد مناسب ہے یہاں پر اس کتاب کے بارے میں ایک شیعہ دانشور علامہ نابغہ جناب شیخ محمد جواد مغنیہ جبل عاملی کے نظریہ سے بھی آگاہ ہوجائیں ، علامہ موصوف لبنان میں مروج مذہب تشیع ہیں ۔

موصوف کی گراں بہا تالیفات میں من جملہ ” تفسیر قرآن مجید “ ” معالم الفلسفة الاسلامیہ“، ”الشیعہ و الحاکمون “ ” اصول الاثبات فی الفقہ الجعفری“ اور دسیوں دوسری تالیفات سنجیدہ فکر اور ان کے علمی بلند مقام کو آشکار کرتی ہیں ، ذیل میں مجلہ ” العرفان “(۱) میں شائع ہوئے ان کے مقالہ کا ترجمہ ہے :

مذہب شیعہ کے خلاف لکھنے کے علاوہ دنیا کی تمام چیزوں میں دگرگونی اور تغیرات پیدا ہوئے ہیں شیعوں پر تہمت و افتراء کے علاوہ ہر آغاز کا خاتمہ ہے شیعوں کے خلاف جاری کئے جانے والے احکام کے علاوہ ہر حکم کی ایک دلیل و علت ہے آخر کیوں ؟

کیا شیعہ شورشی اور فتنہ گر ہیں اور لوگوں کے سکون و اطمینان کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں ؟

____________________

۱۔ نمبر ۳/ سال ۱۳۸۱ ھ صفحہ ۲۳۰۔

۱۳

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :

سیف بن عمر تمیمی(۱) نامی ایک شخص نے گزشتہ دو سری صدی کے دوران دو کتابیں لکھی ہیں ، اس کی پہلی کتاب ” الفتوح و الردّة“ اور دوسری کتاب ” الجمل و مسیر عائشة و علیّ “ ہے ان دونوں کتابوں میں د رج ذیل مطالب کی ملاوٹ کی گئی ہے :

۱ ۔ ایسے حوادث و اتفاقات کی تخلیق کرنا ، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

۲ ۔ رونما ہوئے حقیقی حوادث و واقعات میں تحریف کرکے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت دکھانا ۔

اس بے لگام اور جھوٹے شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے چند من گھڑت اصحاب جعل کئے جن کے سعیر ، ہزہاز، اط ، حمیضہ ، وغیرہ نام رکھے ہیں ۔

اس نے تابعین اور غیر تابعین کے کچھ اشخاص جعلکئے ہیں اور ان کی زبانی اپنی جعلی احادیث نقل کی ہیں ۔

اس کی انہیں تخلیقات میں سے ایک سورما ہے جس کی شخصیت کو اس نے جعلکیا ہے اور اس کا فرضی نام بھی معین کیا ہے ، اور چند داستانوں کو گڑھ کر اس سے نسبت دی ہے یہ افسانوی سورما ”عبد اللہ بن سبا“ ہے جس کسی نے بھی شیعوں پر تہمتیں لگائی ہیں اور ان کے بارے میں جہل یا نفاق کے سبب افترا پردازی کی ہے ، ان سب نے اسی پر اعتماد کیا اور اس کی باتوں پر تکیہ کیا ہے۔

____________________

۱۔وفات دوسری صدی ہجری ۔

۱۴

”سیف“ کے بعد مؤرخین کی ایک جماعت نے فریب اور دھوکہ سے بھری ان دو کتابوں کو سند بنا کر کسی قسم کے تامل و تدبر کے بغیر دروغ پرداز اور چالباز سیف کے نظریات اور اندیشہ کو نقل کیا ہے ، اس طرح اس کے مذموم تفکر سے استفادہ کیا گیا ہے ۔

”طبری“ پہلا شخص تھا جو” سیف “کے دام فریب میں پھنس گیا تھا اس کے بعد ابن اثیر ، ابن عساکر اور ابن کثیر اور دوسرے لوگ” طبری“ سے آنکھیں بند کرکے روایت نقل کرنے کے سبب اس گڑھے میں گر گئے ہیں ۔

اس طرح جھوٹے ”سیف“ کی تخلیقات کی تاریخی کتابوں اور منابع میں بلاواسطہ طور پر ملاوٹ ہوئی ہے لیکن ان کی جڑ اور بنیاد، وہی سیف کی دو کتابیں ” الفتوح “ اور ” الجمل “ ہیں ۔

علامہ سید مرتضی عسکری کی کتاب ” عبد اللہ بن سبا“ مذکورہ حقائق کو صحیح دلائل کی بنا پر آشکار کرتی ہے اور قارئین کو صاف اور واضح راہنمائی کرکے حقیقت کی منزل تک پہنچاتی ہے ۔

انہوں نے اس کتاب کی تالیف میں انتہائی دقت سے کام لیا ہے اور موصوف کی تمام تر سعی و تلاش اس امر پر متمرکز رہی ہے کہ حق و حقیقت کے علاوہ کوئی چیز کاغذ پر نہ لکھی جائے ، قارئین کرام جس قدر بھی مفکر اور دانشور ہوں ، موصوف کے حاصل کئے ہوئے نتائج سے نہ تو انکار کرسکتے ہیں اورہی نہ شک و شبہ ، کیونکہ اس کتاب کے بہت سے دقیق مباحث کی بنیاد بدیہی قضایا پر مبنی ہے اور بدیہیات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے ۔

میں نے مختلف افراد سے بارہا بحث کی ہے ، اور ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا ہے ، لیکن اس گفتگو میں میں نے شیخ مفید ، سید مرتضی ، اور علامہ حلی سے آگے قدم نہیں بڑھایا ہے ، میری روش صرف یہ تھی کہ میں ان بزرگوں کے طرز بیان کو بدل دیتاتھا اور مخاطب کے لئے مطالب کو آشکار اور واضح تر بیان کرتا تھا ، کیونکہ کوئی تازہ اعتراض نہیں تھا کہ میں اس کا تازہ اور نیا جواب دیتا بلکہ اعتراض وہی تھا جو پچھلے لوگوں نے کر رکھاتھا اور اس کا جواب سن چکے تھے ، چونکہ یہ لوگ بھی گزشتہ لوگوں کی طرح اعتراض کرتے ہیں لہذا مجبور ہیں وہی جواب سنیں ،میں اپنے علمائے سلف کی باتوں کی تکرار کرتا تھا ، کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ بے خبر، معترضین علماء کی باتوں پر اعتراض کرتے ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ ان کی ہی باتوں سے آگاہ ہوجائیں ۔

بے شک میں علمائے تشیع کی پیروی کرتے ہوئے ” عبدا للہ بن سبا“ کے وجود کا معترف تھا ، لیکن اس کی رفتار کو حقیر اور شرم آور سمجھتا اور اس کی باتوں کا انکار کرتا تھا ۔

۱۵

علامہ عالیقدر جناب سید مرتضیٰ عسکری نے اس عمارت کی بنیاد ہی اکھاڑ کرکے رکھدی اور اپنی گہری تحقیقات سے ثابت کردیا کہ ” عبد اللہ بن سبا “ کی حقیقت ایک افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ! اور یہی وہ حقیقت ہے جو اس کتاب میں بے نقاب ہوئی ہے ، اگر میں یہ کہوں کہ عربی میں یہ تنہا کتاب ہے ، جس میں تاریخ کی علمی بنیادوں پر تحقیق کرکے اس پر غور کیا گیا ہے تو یہ ہرگز مبالغہ نہیں ہے ، اور میرا یہ کہنا بھی ہر گز بیجا نہیں ہوگا کہ اس دانشور مصنف نے دین و علم اور خاص طور پر شیعوں اورمذہب تشیع کی ایک ایسے زمانے میں بے مثال اور عظیم خدمت کی ہے کہ جب ان پر تہمتوں ، افتراء پردازیوں اور بہتان تراشیوں کی بھر مار ہورہی ہے ، موصوف نے اسلام کی ایک عظیم اور درخشان خدمت کی ہے ، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان رخنہ ڈال کر ان کے اتحاد و یکجہتی کو درہم برہم کرکے انھیں کمزوراوربے بس کردیا ہے ۔

ہم نے فرمانرواؤں اور ظالم حکام کی طرف سے بد ترین عذاب اور مشکلات برداشت کی ہیں تا کہ اسلام کی یکجہتی کا تحفظ کرکے دشمنی سے پرہیز کریں ، لیکن وہ روز بروز اپنی دروغ بیانی میں تشویق ہوتے رہے ہیں اور ان کی پہلی اور آخری سند ” ابن سبا“ کا افسانہ اور ” ابن السوداء “ کا خرافہ تھا کہ افسانہ ساز ”سیف “ نے انھیں ، خدا اوراپنے ضمیر کے سامنے کسی ذمہ داری کا احساس کئے بغیر جعلکیا ہے ۔ لیکن آج ” عبدا للہ ابن سبا “ نام کی کتاب لکھی جانے کے بعد یہ کاسہ لیس اور چاپلوس لوگ کیا جواب دیں گے ؟!

آخر میں میری تجویز ہے کہ یہ کتاب دیدہ زیب طباعت کے ساتھ دوبارہ شائع کی جائے اور عالم اسلام کے تمام شہروں میں نصف قیمت پر بیچی جائے تا کہ عام مسلمان اسے خرید کر اس کے عالی مطالب سے استفادہ کرسکیں ۔

نجف اشرف کے دانشوروں اور مراجع عظام کو چاہئے مذکورہ مقصد کی جانب توجہ کرتے ہوئے رقومات شرعیہ سے مدد کریں یا خیّر افراد کی اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں ۔

میری تجویز ہے کہ یہ حضرات تاکید کے ساتھ حکم فرمائیں تا کہ یہ کتاب دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر سستے داموں میں دنیا کے لوگوں تک پہنچ جائے ، یہ دین اسلام کےلئے ایک عظیم خدمت ہوگی۔

لبنان ۔ شیخ محمد جواد مغنیہ

۱۶

الازہر یونیورسٹی مصر کے مجلہ ” جامع الازھر “ میں شائع شدہ اعتراضات کا جواب

مجلہ ” جامع الازھر“ مصر میں کتاب ”عبدا للہ بن سبا “ کے بارے میں دو مقالے لکھے گئے ہیں(۱) اہم ترین مطلب جوان دو تنقیدی مقالوں میں ملاحظہ کے قابلہے عبارت ہے :

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اور ان کے باہمی اختلافات ، چودہ صدی پرانی بات ہے اور وہ سب اپنے مالک حقیقی سے جاملے لہذا چاہئے کہ ان مسائل سے صرف نظر کیا جائے(۲)

اس بات کے جواب میں ہم کہتے ہیں :

اولاً : ہم سیف کی روایتوں کی تحقیق کی فکر میں تھے ، جس موضوع پر اس نے روایتیں نقل کی تھیں ، ہم نے مجبور ہو کر ان ہی موضوعات پر بحث و تحقیق کی ہے ، چونکہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا“ میں عبد اللہ بن سبا کے افسانہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے باہمی اختلافات کے بارے میں سیف ابن عمر کی نقل کی گئی روایتوں پر بحث کی گئی ہے ، لہذا ہم مجبور ہوئے کہ ہر موضوع کے

____________________

۱۔ پہلا مقالہ کتاب کی نجف اشرف میں طبع شدہ پہلی اشاعت پر ایک تنقید ہے ، اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۳ ج۱۰، ۱۳۸۰ ئھ ” باب الکتب “ کے صفحہ۱۱۵۰ ۔۱۱۵۱ میں شائع ہوا ہے ۔ دوسرا مقالہ اسی کتاب کے مصر میں طبع شدہ نسخہ پر ایک تنقید ہے اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۲ /ج ۶/ ۱۳۸۱ ء ھ کے صفحہ۷۶۰ ۔۷۶۱ میں شائع ہوا ہے۔

۲۔ یہ جملہ پہلے مقالہ کے آخر پر لکھا گیا ہے اور باقی تمام مطالب اسی جملہ کی تفسیر اور تشریح میں لکھے گئے ہیں ۔

۱۷

بارے میں بحث کو جاری رکھتے ہوئے تجزیہ و تحقیق کریں ، جس طرح میں نے اپنی کتاب ” خمسون و ماة صحابی مختلق“ ( ۱۵۰ جعلی اصحاب) میں اصحاب کے فتوحات اور صدر اسلام کی جنگوں کو اپنا موضوع قرار دیگر بحث و تحقیق کی ہے ۔

سیف کی روایتوں پر تحقیق نے ہمیں اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ ایسی بحثوں میں داخل ہوجائیں جنھیں بہت سے دانشوروں نے پردے میں رکھا ہے ، لہذا ان موضوعات پر بحث و تحقیق نے انھیں برہم اور رنجیدہ کیا ہے ، البتہ ہم بھی ان کی طرح ایسے وقائع اور روداد کے رونما ہونے سے خوشحال نہیں ہیں اور ان سے پردہ اٹھانے اور ان پر غور و فکر کرنے سے ہمارا رنج و غم بھڑک اٹھتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خداوند عالم نے پیغمبر خدا کے اصحاب کو ملک و فرشتہ خلق نہیں کیا ہے کہ جبلت انسانی سے عاری ہوں بلکہ وہ دوسرے افراد کی طرح انسانی جبلت میں ان کے شریک ہیں ، اور ایمان اور اسلام میں استقامت کے مراتب میں بھی ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ، اس حد تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان میں سے بعض پر حد جاری کی ہے (کوڑے لگائے ہیں) اور ان میں سے بعض کے بارے میں ” آیات افک “ نازل ہوئی ہیں جن میں ان کی اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ انہوں نے پیغمبر خدا کی بیوی کی جانب نازیبانسبت دی تھی ، اور ان میں سے بعض کے بارے میں نفاق کی آیات نازل ہوئی ہیں ۔

ان تمام مطالب کے باوجود ہم نہیں سمجھتے کہ پیغمبر خدا کے اصحاب کو ان اختلافات اور تحولات کے ساتھ کیسے چھوڑدیں جبکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام اور عقائد کو ہم تک پہنچانے کے واسطہ ہیں کیا اس طرح صرف پیغمبر کو درک کرنے کی بنا پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عزت و احترام کرنا بحث و تحقیق کےلئے رکاوٹ اور دینداری کے نام پر علم ودانش کے دروازہ کو بند کرنے کے مترادف نہیں ہے ؟ چونکہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے صدیوں سے اپنے اوپر اجتہاد کا دروازہ بند کررکھتا ہے ، لہذا تحقیق و علم کا دروازہ بھی ان پر بند ہوگیا ہے ۔

۱۸

خدارا ! ہم نے اس مطلب کو قبول نہیں کیا ہے اور اسکی تائید نہیں کرتے ہیں بلکہ دین و اسلام کے نام پر اور اس پر عمل کرنے کیلئے اسلام کی راہ میں بحث و تحقیق کےلئے قدم اٹھاتے ہیں ۔

ثانیاً : کاش کہ ہم یہ جانتے کہ قدیم و جدید دانشور جو پیغمبر خدا کے اصحاب کی عزت و احترام میں جو غیرت و حمیت دکھاتے ہیں ، کیا اس میں پیغمبر خدا کے تمام اصحاب شامل ہیں خواہ اس کے سزاوار ہوں یا نہ ، خواہ وہ عیش پرست ہوں یا زاہد و پرہیزگار ؟ کیا یہ احترام عام طور پر اس لئے ہے کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کادیدار کیا ہے ؟ یا ان کےلئے مخصوص ہے جوسرمایہ دار و قدرتمندتھے اور حکومت تک ان کی رسائی تھی ؟ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ احترام شعوری یا لا شعوری طور پر صرف ان افراد سے مخصوص ہوکے رہ گیا جو حکومت اور ایوان حکومت سے وابستہ و مربوط ہیں ۔

جو کچھ ایک دوررس اور نکتہ شناس محقق کےلئے قابل اہمیت ہے وہ دوسرا مطلب ہے کیونکہ اگر تاریخ طبری میں ۳۰ ء ھ کے روئدادوں اور حوادث پر غور کیا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس نے یوں لکھا ہے :

اس سال ، یعنی ۳۰ ئھ میں جو کچھ ابوذر اور معاویہ کے درمیان پیش آیا ، اور سر انجام ابوذر کے شام سے مدینہ جلا وطن کئے جانے پر تمام ہوا ، اس سلسلے میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں کہ جنکو میں نقل کرنا پسندنہیں کرتا ہوں ، لیکن اس سلسلہ میں معاویہ کیلئے عذر پیش کرنے والوں نے ایک داستان نقل کی ہے ، اس داستان میں کہا گیا ہے:

شعیب نے اسے سیف سے نقل کیا ہے

اس کے بعد طبری نے ابو ذر اور معاویہ کے بارے میں نقل کی گئی داستان کے سلسلے میں سیف کی باقی روایت کو اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے ۔

۱۹

اگر ہم اس سلسلے میں تاریخ ابن اثیر کی طرف رجوع کریں گے تو دیکھتے ہیں کہ وہ کہتا ہے :

اس سال ( ۳۰ ھء) ابوذر کی داستان اور معاویہ کے توسط سے اسے شام سے مدینہ جلاوطن کرنے کا مسئلہ پیش آیا، اس رفتار کی علت کے بارے میں بہت سے مطالب لکھے گئے ہیں ، من جملہ یہ کہ : معاویہ نے انھیں گالیاں بکیں اور موت کی دھمکی دی ، شام سے مدینہ تک انھیں ایک بے کجاوہ اونٹ پر سوار کرکےنہایت ہی بیدردی سے ایک ناگفتہ بہ حالت میں مدینہ کی طرف جلاوطن کردیا ، مناسب نہیں ہے اسے یہاں بیان کیا جائے میں اسے نقل کرناپسند نہیں کرتا ہوں ، لیکن جنہوں نے اس سلسلے میں عذر پیش کیا ہے، یو ں کہا ہے :

اس بنا پر طبری نے یہاں پر ان بہت سی روایتوں کو درج نہیں کیا ہے جن میں معاویہ اور ابوذر کی روئداد بیان ہوئی ہے اور ان کو بیان کرنا پسند نہیں کرتا تھا، پھر بھی اس نے ان روایتوں کو بالکل ہی درج کرنے سے چشم پوشی نہیں کی ہے ۔ بلکہ سیف کی ان تمام روایتوں میں سے ایسی روایت کا انتخاب کیا ہے کہ معاویہ کا عذر پیش کرنے والوں کےلئے سند کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے اس کے کام کی توجیہ کے طورپر پیش کرتے ہیں ، جبکہ اس روایت میں پیغمبر اسلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بزرگوار صحابی ” ابو ذر“ کی حد سے زیادہ توہین کی گئی ہے ۔ اس کی دینداری پر طعنہ زنی کی گئی ہے ، اسے بیوقوف اور احمق کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس پرناروا تہمتیں لگائی گئی ہیں ۔

۲۰

اعصاب کے ذریعہ مغز تک منتقل کردیتے ہیں_

ہاضمہ کے خلیے اس کے لیس دار پانی کے ساتھ مل کر غذا کے ہضم کرنے کے نظام کو انجام دیتے ہیں_ یہاں تک کہ بدن کی ہڈیوں کے لئے بھی زندہ خلیے موجود ہوا کرتے ہیں_ بدن کے خلیے ایک خاص نظم و ضبط اور ترتیب سے بدن میں رکھے گئے ہیں ان کے درمیان تعجب آور ہماہنگی اور ہمکاری موجود ہے یہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام اور ضرورت کو انجام دیتے ہیں_

یوں نہیں ہوتا کہ معدہ کے ہاضمہ کے خلیے صرف اپنے لئے غذا مہیا کریں بلکہ تمام بدن کے دوسرے خلیے کی بھی خدمات انجام دیتے ہیں اور تمام اعضاء کے لئے غذا بناتے ہیں اگر کسی عضو پر تکلیف وارد ہو تو تمام خلیے اکٹھے ہوکر اس عضو کی تکلیف کو درست کرنا شروع کردیتے ہیں_

ہاں بچو اس نظم و ضبط اور تعجب و ہمکاری سے جو ہمارے بدن میں رکھ دی گئی ہے اس سے ہم کیا سمجھتے ہیں___؟

کیا یہ نہیں سمجھ لیتے کہ ان کو پیدا کرنے والا عالم اور قادر ہے کہ جس نے ہمارے بدن میں ایک خاص نظام اور ہماہنگی کو خلق کیا ہے اور وہ عالم اور قادر ذات ''خدا'' ہے_

بچو تم جان چکے ہو کہ خلیے کس تعجب و نظم اور ترتیب سے ایک دوسرے کی ہمکاری کرتے ہیں___؟

۲۱

21

اور ایک دوسرے کی مدد و کمک کرتے ہیں اسی وجہ سے خلیے زندہ رہتے ہیں اور زندگی کرتے ہیں_

ہم انسان بھی خالق مہربان کے حکم اور اس کے برگزیدہ بندوں کی رہبری میں انھیں بدن کے خلیوں کی طرح ایک دوسرے کی مدد و ہمکاری اور کمک کریں اگر ہم ایک دوسرے کی مدد کیا کریں تو اس جہاں میں آزاد و کامیاب اور سربلند زندگی کرسکیں گے اور آخرت میں سعادت مند اور خوش و خرم ہوا کریں گے اور اللہ تعالی ہمیں بہت نیک جزا عنایت فرمائے گا_

میں تم سب سے خواہش کرتا ہوں کہ راستے میں جو انیٹیں پڑی ہوئی ہیں سب ملکر انھیں راستے سے ہٹاکر اس مکان کے اندر داخل کردو تا کہ ان مزدوروں کی مدد کرسکو''_

تمام بچوں نے اپنے استاد کی اس پیش کش کو خوش و خرم قبول کرتے ہوئے تھوڑی مدت میں ان تمام اینٹوں کو مکان کے اندر رکھ دیا جو باہر بکھری پڑی ہوئی تھیں_ استاد نے آخر میں فرمایا:

''آج کا سبق ایمان اور عمل کا درس تھا ہم اپنے بدن کی ساخت کے مطالعہ سے اپنے خدا سے بہتر آشنا ہوگئے ہیں اور مزدوروں کی مدد کرنے سے ایک نیک عمل بھی بجالائے ہیں اور اپنے خدا کو خوشنود کیا ہے''_

۲۲

سوالات

ان سوالات کے جوابات دیجئے

۱)___ ہمارے بدن کی ساختمان کے چھوٹے سے چھوٹے جز کا کیا نام ہے؟ تم کو کتنے خلیوں کے نام یاد ہیں___؟

۲)___ معدہ کے ہاضمہ کے خلیہ کا دوسرے خلیوں سے کیا ربط ہے___؟

۳)___ جب کسی خلیہ کو تکلیف ہوتی ہے تو اس کی ترمیم کردینے سے ہم کیا سمجھتے ہیں، خلی کے ایک دوسرے سے ربط رکھنے سے کیا سمجھا جاتا ہے___؟

۴)___ اگر ہمارے بدن کے خلیے ایک دوسرے سے ہماہنگی نہ کرتے تو کیا ہم زندگی کرسکتے___؟

۵)___ ہمارے بدن میں تعجب آور جو ہماہنگی اور ہمکاری پائی جاتی ہے اس سے ہم کیا سمجھتے ہیں___؟

۶)___ ہم انسان کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کریں___؟

۷)___ استاد نے آخر میں کیا خواہش ظاہر کی، تمھارے خیال میں استاد نے وہ خواہش کیوں ظاہر کی___؟

۸)___ کیا بتاسکتے ہو کہ استاد نے اس سبق کو کیوں ایمان اور عمل کا نام دیا___؟

۲۳

بہترین سبق

دوسرے دن وہی استاد کلاس میں آئے اور کل والی بحث کو پھر سے شروع کردیا اور فرمایا: ''پیارے بچو تم نے کل کے سبق میں پڑھا تھا کہ ہمارے بدن کی ساخت چھوٹے چھوٹے ذرات سے مل کر ہوئی ہے کہ جنھیں خلیے کہا جاتا ہے یہ خلیے ایک خاص نظم اور ترتیب سے رکھے گئے ہیں اور خلیے کی ہر ایک قسم اپنے کام سے خو ب آشنا ہے اور اسے بخوبی انجام دیتی ہے_

آج بھی میں اسی کے متعلق گفتگو کروں گا جانتے ہو کہ خلیہ کو کس طرح بنایا گیا ہے، خلیہ ایک خاص مادہ سے بنایا گیا ہے کو جو انڈے کی سفیدی کی طرح ہوتا ہے اور اس کا نام پروٹو پلازم رکھا گیا ہے اور پھر یہی پروٹو پلازم کئی مواد اور اجزاء سے مرکب ہوتا ہے_ تمھیں معلوم ہے کہ ایک سل میں کتنے اجزاء ہیں اور اس میں کام کرنے والے اجزاء کون سے ہیں عمدہ کام کرنے والا جزو وہی پروٹوپلازم ہے یہ حرکت کرتا ہے اور اکسیجن لیتا ہے اور کاربن خارج کرتا ہے، غذا حاصل کرتا ہے تا کہ زندہ رہ سکے پروٹوپلازم غذا کی کچھ مقدار کو دوسرے نئے پروٹوپلازم بنانے میں

۲۴

صرف کرکے تولید مثل کرتا ہے اسی وجہ سے زندہ موجودات رشد کرتے ہوئے اپنی زندگی کو دوام بخشتے ہیں جو اجزاء کو جو بے کار ہوجاتے ہیں ان کی جگہ دوسرے اس قسم کے اجزاء بناتا ہے اور خراب شدہ کی ترمیم کردیتا ہے_

ہر سل کے اندر بہت چھوٹے چھوٹے دانے ہوتے ہیں کہ جنھیں سل کا حصہ یعنی مغز یا گٹھلی کہاجاتا ہے کیا تم جانتے ہو کہ سیلز ( CELLS ) کے یہ مغز کیا کام انجام دیتے ہیں___؟ کیا تم ایک سیل اور ایک اینٹ کا فرق بتاسکتے ہو؟ کیا تم بتاسکتے ہو کہ ان دونوں کی ساخت میں کیا فرق ہے___؟ بچوں نے ان سوالوں کے جوابات دیئے اور ان کے کئی فرق بیان کئے_ اس کے بعد استاد نے پھر سے اسی بحث کو شروع کیا اور پوچھا کہ:

'' کیا تم اپنے بدن میں سیلز کی تعداد کو جانتے ہو؟ کیا جانتے ہو کہ صرف انسان کے مغز میں تقریباً دس میلیارد سیلز موجود ہیں_ کیا تمھیں علم ہے کہ انسان کے خون میں تقریباً پندرہ تریلیوں سیلز موجود ہوتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام سیلز زندہ ہوتے ہیں اور اپنا کام بہت دقت سے ایک خاص نظم و ترتیب سے بخوبی انجام دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام کو پایہ تکمیل پہنچاتے ہیں_

غذا اور آکسیجن حاصل کرتے ہیں اور کاربن باہر خارج کردیتے ہیں، تولید مثل کرتے رہتے ہیں_ بعض دیکھنے کے لئے

۲۵

اور بعض سننے کے لئے، بعض ذائقہ اور شامہ کے لئے وسیلہ بنتے ہیں، بعض سے گرمی و سردی اور سختی محسوس کیا جاتا ہے اور یہ بدن کے تمام کاموں کو انجام دیتے ہیں_

انسان کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں_ میرے عزیز طالب علمو ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک منظم عمارت کا بنانے والا کوئی نہ ہو بغیر نقشے اور غرض و غایت کے موجود ہوجائے_ تم ایک عمارت کی ترتیب اور نظم سے سمجھ جاتے ہو کہ اس کے بنانے میں عقل اور شعور کو دخل ہے اور یہ از خود بغیر غرض و غایت کے وجود میں نہیں آئی بالخصوص ایسی عمارت کہ جس کے تمام اجزاء آپس میں ایک خاص ارتباط و ہم آہنگی اور ہمکاری رکھتے ہوں_

بچو تم اپنے بدن کی عمارت کی ساخت کے بارے میں کیا کہتے ہو___؟ تم اپنے بدن کے بہت دقیق اور ہم آہنگ سیلز کے متعلق کیا سوچتے ہو___؟ تم ایک ایسی عمارت کے متعلق کہ جو کئی ہزار اینٹوں اور دوسرے ازجزاء سے بنائی گئی ہو کبھی یہ احتمال نہیں دیتے کہ یہ خود بخود وجود میں آگئی ہوگی بلکہ اس میں کوئی شک اورتردید نہیں کرتے کہ اس کے بنانے والے نے اسے علم سے ایک خاص نقشے کو سامنے رکھ کر ایک خاص غرض کے لئے بنایا ہے___؟ اپنے بدن کے متعلق جو کئی ملیارد سیلز سے جو ایک خاص نظم اور ترتیب و تعجب آور ہمکاری اور اپنے فرائض کو انجام دیتے ہیں

۲۶

بنایا گیا ہے_ تم اس کے متعلق کیا نظر رکھتے ہو؟ کیا یہ احتمال دے سکتے ہو کہ یہ از خود بن گیا ہوگا___؟ کیا یہ احتمال دے سکتے ہو کہ اس کا بنانے والا اور نقشہ کشی کرنے والا کوئی بھی نہ ہوگا؟ کیا یہ احتمال دے سکتے ہو کہ اس کا بنانے والا عالم اور قادر نہ ہوگا___؟

کیا احتمال دے سکتے ہو کہ اس کے بنانے میں کوئی غرض و غایت مقصود نہ ہوگی تم کیا کہتے ہو___؟ بتلاؤ

کیا نہیں کہوگے کہ پیدا کرنے والا ایک بہت بڑا عالم اور قادر ہے اور سب کا پہلے سے حساب کر کے انسان کے بدن کو ملیارد سیلز سے اس طرح منظم اور زیبا خلق فرما ہے_ سچ کہہ رہے ہو کہ ہم اس دقیق و زیبا نظم سے جو تعجب آور ہے سمجھ جاتے ہیں کہ اسے خلق کرنے والا عالم اور قادر ہے کہ جس نے اسے اس طرح خلق فرمایا ہے اور اس کو چلا رہا ہے_

سوچو اگر بدن کے سیلز کو غذا اور آکسیجن نہ پہنچے تو وہ کس طرح زندہ رہ سکتے ہیں اور کام کرسکتے ہیں ؟ اگر غذا کو ہضم کرنے کے لئے سیلز غذا کو جذب اور ہضم نہ کرتے تو بدن کے دوسرے سیلز کہاں سے غذا حاصل کرتے، کس طرح بڑھتے اور رشد کرتے؟ کس طرح تولید مثل کرتے؟

اگر ہاتھ کے اعصاب کے سیلز مدد نہ کریں تو کس طرح غذا کو منھ تک لے جایا جاسکتا ہے؟ اگر پانی و غذا اور آکسیجن موجود نہ ہوتے تو کہاں سے غذا حاصل کی جاتی؟ اگر بدن کے سیلز میں تعاون اور ہمکاری موجود نہ ہوتی تو کیا ہمارا زندگی کو باقی رکھنا ممکن ہوتا؟

۲۷

کیا ان تمام ربط اور ہم آہنگی کے دیکھنے سے خالق کے دانا اور توانا ہونے تک نہیں پہنچا جاسکتا؟ ہم بہت اشتیاق سے کوشش کر رہے ہیں کہ اس ذات کو بہتر پہچانیں اور اس کا زیادہ شکریہ ادا کریں ہمارے وظائف میں داخل ہے کہ دستورات اور احکام کو معلوم کریں اور ان کی پیروی کریں تا کہ دنیا میں آزاد و کامیاب اور سربلند ہوں اور آخرت میں سعادت مند اور خوش و خرم بنیں_

بچو میں بہت خوش ہوں کہ آج میں نے تمھیں بہترین سبق پڑھایا ہے یہ ''خداشناسی'' کا سبق ہے جو میں نے تمھیں بتلایا ہے_ ''خداشناسی'' کا سبق تمام علوم طبعی اور جہاں شناسی کی کتابوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے''

قرآن مجید کی ایک آیت:

( و فی الارض ایات للموقنین و فی انفسکم افلا تبصرون ) (۱)

'' زمین میں خداوند عالم کے وجود کے لئے یقین رکھنے والوں کے لئے نشانیاں موجود ہیں اور خود تمھارے وجود میں بھی اس کے وجود کے لئے علامتیں موجود ہیں کیا تم دیکھتے نہیں ہو___؟

____________________

۱) سورہ ذاریات آیت نمبر ۲۱

۲۸

سوالات

ان سوالات کے جواب دیجئے

۱) ___ ایک سیل کی تصویر بنایئےور اس کے مختلف اجزاء کے نام بتلایئے

۲)___ تم کن کن سیل کو جانتے ہو، کیا ان کی تصویریں بناسکتے ہو___؟ ایک ایسی تصویر بنایئےو کتاب میں موجود نہ ہو_

۳)___ اپنے بدن کے سیلز کی تعداد کو جانتے ہو___؟ حروف میں لکھو

۴)___ کیا تم بدن کے سیل کا فرق ایک اینٹ سے بتلاسکتے ہو____؟

۵)___ تمام اعضاء کے ربط اور ہم آہنگی سے تم کیا سمجھتے ہو، کیا اس قسم کی مخلوق بغیر کسی غرض اور غایت کے وجود میں آسکتی ہے___؟

۶)___ اگر سیلز کے درمیان تعاون و ربط اور ہم آہنگی نہ ہوتی تو کیا زندگی باقی رکھنا ممکن ہوتا___؟

۷)___ بدن کے سیلز اور ان کے درمیان ربط و ہم آہنگی سے تم کیا سمجھتے ہو_

۸)___ اپنے خالق کے بارے میں ہمارا کیا فریضہ ہے، اگر اس کے احکام کو معلوم کرلیں اور ان کی پیروی کریں تو کس طرح کی زندگی بسر کریں گے___؟

۹)___ کیا تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ استاد نے اس سبق میں کتنے سوال بیان کئے ہیں سبق کو غور سے پڑھو اور دیکھو کہ تمھارا اندازہ ٹھیک ہے؟ سوالوں کو لکھو_

۱۰)___ اس سبق میں اور پہلے دوسبقوں میں تم نے کچھ خالق جہاں کے صفات معلوم کئے ہیں کیا ان کو بیان کرسکتے ہو___؟

۲۹

آپ ربط و ہم آہنگی کے مشاہدے سے کیا سمجھتے ہیں؟

تم یہاں دو قسم کی شکلیں دیکھ رہے ہو ان میں سے کون سی شکل منظم اور مرتبط ہے اور کون سی شکل غیر منظم اور غیر مرتبط ہے؟ کیا بتلاسکتے ہو کہ منظم شکل اور غیر منظم شکل میں کیا فرق موجود ہے___؟

۳۰

ایک منظم اورمرتبط شکل میں ایک خاص غرض اور غایت ہے اس کے تمام اجزاء اس طرح بنائے جاتے ہیں کہ ان کے ارتباط سے اسی غرض اور غایت تک پہنچنا ممکن ہے اسی بناپر اس شکل کو منظم اور مرتبط کہا جاسکتا ہے کہ جس کے تمام اجزاء بطور کامل ایک دوسرے سے ہم آہنگی او رہمکاری رکھتے ہوں اور ان تمام سے ایک خاص غرض اور غایت حاصل کی جاسکتی ہو مثلا شکل نمبر دو کو ایک منظم اور مرتبط شکل کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے تمام اجزاء اس طرح بنائے گئے ہیں کہ جن سے ایک خاص غرض اور غایت مراد ہے اور وہ ہے ''سوار ہونا'' اور راستہ طے کرنا_

کسی منظم شکل میں ہر ایک جزء کو اس کی مخصوص جگہ پر رکھا جاتا ہے اور وہ دوسرے اجزاء کے ساتھ مل کر ایک مخصوص کام انجام دیتی ہے اگر اسی اس جگہ نہ رکھا جائے تو اس سے پورا کام حاصل نہ کیا جاسکے گا اور وہ کام ناقص انجام پائے گا_

جب ہم دیکھ رہے ہوں کہ کوئی چیز منظم اور مرتبط ہے اور اس کے مختلف اجزاء کسی خاص حساب سے ایک دوسرے سے مرتبط ہیں اور اس کا ہر جزء ایک مخصوص کام اور ایک خاص اندازے سے انجام دے رہا ہو مثلا شکل نمبر دو میں پہئے ایک خاص مقدار سے بنائے اور ایک خاص جنس سے بنائے گئے ہیں_ گدی بیٹھنے کے لئے، بریک روکنے کے لئے، گھنٹی ہوشیار کرنے کے لئے، بتیاں اور پیٹروں کی جگہ ایک خاص جنس سے بنائی گئی ہے اور یہ ایک خاص اندازے اور حساب سے ایک دوسرے سے مرتبط کر کے رکھے گئے ہیں کہ اگر وہ اس طرح منظم اور حساب کے ساتھ رکھے نہ جاتے تو وہ کسی کام نہ آتے اور وہ اس غرض و غایت کی بجاآوری نکے لئے بے فائدہ ہوتے کہ جوان سے مقصود تھی_

اب تم ان سوالوں کے جوابات دو_

۳۱

ایک منظم اور مرتبط شکل کے مشاہدے سے کہ جو وقت اور حساب سے کسی خاص جنس سے کسی خاص ہیئت میں بنائی گئی ہو اور اس کے اجزاء کے ایک دوسرے سے اور ایک دوسرے کے کام میں تعاون سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ کیا ایسی شکل اور چیز کے بنانے والے کے متعلق یہ نہ سمجھیں گے کہ وہ باشعور و عالم و دانا اور اس قسم کی چیز کے بنانے پر قادر تھا اور ایسی ذات کا ہونا اس صورت میں ضروری نہ ہوگا؟ اگر کوئی عالم اور قادر نہ ہو تو کیا شکل نمبر ایک کو شکل نمبر دو میں تبدیل کرسکتا ہے___؟ حالانکہ شکل نمبر ایک بھی خاص اجزاء متفرق کا مجموعہ ہے کہ جسے ایک خاص جنس او رکسی خاص شکل و اندازے کے مطابق بنایا گیا ہے جس کے بنانے میں بھی ایک عالم اور قادر کی ضرورت ہے_ کیا تم یہ بتاسکتے ہو کہ ایک منظم شکل کے دیکھنے سے اس کے بنانے والے کے متعلق اس کے قادر، عالم و دانا ہونے اور آیندہ نگری کو معلوم نہیں کیا جاسکتا ___؟

دنیا اور اپنے خالق کے قادر و عالم ہونے کے متعلق اس سے زیادہ معرفت حاصل کرنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے بدن کے بنانے اور اس میں حیرت انگیز نظم و ربط اور دنیا کی دوسری اشیاء کو دیکھیں اور سوچیں کہ بدن کے جس حصہ کو دیکھیں اس میں حیران کن ہم آہنگی او رتعجب انگیز نظم و ربط کو دیکھ سکتے ہیں؟

بینائی اور سماعت کے حصے کو غور سے دیکھیں یا دل کے کام کو ملاحظہ کریں یا پھیھپڑے اور جکر کو غور سے دیکھیں تو ان میں سے ہر ایک میں سوائے ایک خاص نظم اور ربط کے کچھ اور دیکھ سکیں گے___؟

(اس کے بعد والے سبق میں ہم کلیہ اور پیشاب کے باہر پھینکنے والے حصّے کو بیان کریں گے)

۳۲

اپنے آپ کو دیکھیں

آپ نے ابھی گردے دیکھے ہیں اگر نہیں دیکھے تو ایک گوسفند کے گردے لے آئیں اور انھیں غور سے، قریب سے دیکھیں_ انسان کے بھی دو گردے ہوتے ہیں_ تم بھی یقینا دو گردے رکھتے ہو_ کیا تم دو عدد عمدہ اور چھوٹے عضو کے کام اور اہمیت کو جانتے ہو؟ کیا تم جانتے ہو کہ اگر تمھآرے بدن میں یہ چھوٹے دو عضو نہ رکھے جاتے تو کیا ہوتا___؟ آپ کے پیدا ہونے کے دن ہی آپ کے تمام بدن میں زہریلا مواد پیدا ہوجاتا اور زیادہ مواد اکٹھا ہوکر تمام بدن پر چھا جاتا اور پھر تمھاری موت یقینی ہوجاتی_

کیا تم جانتے ہو کہ پیشاب کے خارج کرنے والا عضو اور حصہ کن کن چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے___؟ کیا تم جانتے ہو کہ خود پیشاب کن کن چیزوں سے بنتا ہے اور کس طرح بدن سے خارج ہوتا ہے؟ انسان کے بدن میں کچھ زائد مواد اکٹھا ہوجاتا ہے کہ جس کا بدن میں باقی رہنا انسان کی سلامتی اور زندگی کے لئے خطرناک ہوتا ہے ضروری ہے کہ وہ انسانی بدن سے خارج ہوجائے اس زائد مواد میں سے ایک سفید رنگ کا ماہ ہے کہ جسے (اورہ) کہاجاتا ہے یہ حیوانی غذا اور ان پروٹین سے جو بدن کے سیلز کے کام آتے ہیں پیدا ہوجاتا ہے یہ اور دوسرے مواد جو مضر ہوتے ہیں ایک عمدہ اور شائستہ حصہ کے ذریعہ جو خون سے پیشاب کو حاصل کرتا ہے اور بدن سے باہر نکال دیتا ہے وہ حصہ جو پیشاب بناتا اور باہر پھینکتا ہے ایک بہت منظم و دقیق عضو اور حصّہ

۳۳

ہے کہ جس میں سیکڑوں دقیق اور عمدہ اجزاء رکھے گئے ہیں کہ جس سے بہت زیادہ تعجب اور حیرت ہوتی ہے_

درج ذیل شکل کو دیکھئے اور غور سے دیکھئے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ پیشاب والا عضو اور مقام کن کن چیزوں سے بنایاگیا ہے_

مثانہ گردےونیرنالی وگردے:

گردے لوبیا کی شکل کے ہوتے ہیں سرخ رنگ معدے اور جگر کے پیچھے دو عضو ہوتے ہیں اور انسان کے مہروں کے ستون کے دونوں طرف واقع ہوتے ہیں_ ہر انسان کے دو گردے ہوتے ہیں، گردوں کی ساخت کئی نالیوں سے ہوتی ہے _ تم جانتے ہو کہ گردے کتنی نالیوں سے بنائے گئے ہیں___؟

ہر ایک گردے میں ایک ملیون کے قریب نالیاں ہوتی ہیں ان کے اطراف میں مو ہرگیا سے جالی نے گھیر رکھا ہے، خون ایک بڑی سرخ رگ کے ذریعہ ان میں داخل ہوتا ہے اور ان میں گردش کرنے کے بعد ایک سیاہ رگ سے خارج ہوجاتا ہے، اس سرخ رگ کو بڑے اہتمام سے بنایا گیا ہے کہ جس کی تفصیل تم علوم طبعی کی کتابوں میں پڑھا کرتے ہو_

۲)نیرنالی :

ہر ایک گردے سے ایک نالی باہر نکلی ہوتی ہے جو مثانہ سے گردے کو ملائے رکھتی ہے اس نالی کا نام ''نیرنالی'' ہے انھیں میں خون سے زائد مواد اکٹھا ہوجاتا ہے او رپیشاب گردے سے مثانہ میں وارد ہوجاتا ہے_

۳) مثانہ:

یہ ایک چھوٹاسا کیسہ ہے کہ جن کی کیفیت پلاسٹیک کی طرح ہوتی ہے کہ جو کہ پھیل سکتا ہے یہ انسان کے پیٹ کے نیچے کی طرف واقع

۳۴

ہوتا ہے_ جب مثانہ کی دیوار خالی ہو تو یہ تقریبا پندرہ ملی میٹر تک کا ضخیم ہوتا ہے اور جب یہ پیشاب سے پر ہوجائے تو پھیل جاتا ہے اور اس کی دیوار کی ضخامت تین سے چار ملی میٹر تک ہوجاتی ہے_ مثانہ کی دیوار میں تین عدد مسل ماہیچہ رکھے ہوئے ہیں کہ جو پیشاب کے خارج ہونے کے وقت اس کے منقبض ہونے میں مدد دیتے ہیں_

۴) پیشاب کے خارج ہونے کا راستہ:

یہ مثانہ کو باہر کی طرف مرتبط کرتا ہے، ابتداء میں اس میں دو ماہیچہ ہوتے ہیں کہ جو عام حالات میں پیشاب کو خارج ہونے سے روکے رکھتے ہیں، بدن میں گردے ایک صاف کرنے والی چھلنی کی طرح ہوتے ہیں_ سرخ رگ کے ذریعہ خون گردے میں وارد ہوتاہے_

۳۵

اور وہ مویرگ میں تقسیم ہوجاتا ہے اور جب ان سے عبور کرتا ہے تو اپنے ہمراہ معمولی پانی اور اورہ، آسیدہ، اوریک، نمک اور گلوگز جالیوں سے ترشح کرتے ہوئے پیشاب کی نالیوں میں وارد ہوتا ہے_ اس وقت معمولی پانی، نمک اور گلوگز ان نالیوں کی دیواروں میں جذب ہوکر دوبارہ خون میں لوٹ جاتا ہے_

تعجب اس ہوتا ہے کہ اگر بدن میں پانی ضرورت کے مطابق نہ ہو تو پھر زائد پانی گردوں سے مثانہ میں وارد نہیں ہوتا اور صرف اورہ، آسید، اوریک اور معمولی پانی پیشاب کی نالیوں سے نیرنالیوں میں وارد ہوتا ہے اور وہاں سے قطرہ قطرہ ہوکر مثانہ میں جمع ہوتا رہتا ہے_

گردے نہ صرف کمال وقت سے اورہ، رسید، اوریک کو خون سے لیتے ہیں اور اسے صاف کرتے ہیں بلکہ بدن کے مختلف مواد کو بھی اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں مثلاً اگر خون میں شوگر یا نمک ضرورت سے زائد ہوجائے تو زائد مقدار کو لے کر بدن سے باہر پھینک دیتے ہیں_

مثانہ کافی مقدار میں پیشاب کو محفوظ رکرسکتا ہے اور جب پیشاب کی مقدار بہت زیادہ ہوجائے اور مثانہ کی ظرفیت پر ہوجائے تو پھر وہی ماہیچہ حرکت کرتے ہیں اور اس صورت میں وہی دو ماہیچے پیشاب کے مجری کو کھولتے اور بند کرتے ہیں اور پیشاب کی ایک مقدار مثانہ میں وارد ہوجاتی ہے اور اس میں سوزش پیدا کردیتی ہے اگر اسے اپنے اختیار سے باہر نہ نکالا گیا تو پھر مثانہ کا منھ قہراً کھل جاتا ہے اور پیشاب باہر نکل آتا ہے_

آپ اس وقت اور تعجب آور صنعت کے بارے میں جو اس عضو کے کام میں لائی گئی ہے خوب سوچیں اور اس نظم، مزید ہم آہنگی کو جو خون کی گردش گردوں میں اور گردوں

۳۶

کا ارتباط ینرنالی سے اور اس کا مثانہ سے موجود ہے_ تامّل اور غور سے دیکھیں تو کیا یہ ایک ایسا حصہ نہ ہوگا جو منظم اور کسی خاص غرض کے لئے بنایا گیا ہو___؟

یا یہ ایک ایسا حصہ اور عضو ہوگا کہ جس میں کوئی غرض اور غایت مد نظر نہ رکھی گئی ہو بلکہ اسے ایک غیر منظم حصہ مانا جائے___؟ کیا گردوں کی کوئی خاص غرض ہوگی کہ جس کا اسے ذمہ دار اور پابند سمجھا جائے___؟ کیا ہم اس خون کے باوجود جو زہر سے اور زائد مواد سے پر ہو زندہ رہ سکتے تھے___؟ اگر یہ عضو مرتبط اور ہم آہنگ نہ ہوتا اور نیرنالی کی نالیاں نہ ہوتیں تو گردے زائد مواد کو خون سے لے کر کہاں پہنچاتے___؟

اگر ہمارا مثانہ نہ ہوتا کہ جس میں پیشاب جمع ہوجاتا ہے تو مجبوراً پیشاب قطرہ قطرہ ہوکر باہر نکلتا رہتا تو اس وقت کیا کرتے___؟ اگر پیشاب کے خارج کرنے کے دروازے ہمارے اختیار میں نہ ہوتے تو پھر کیا ہوتا___؟

اس دقیق اور مہم عضو اور حساس حصّہ کے دیکھنے سے ہم کیا سمجھتے ہیں؟ اس منظم اور دقیق حساب سے جو اس عضو میں رکھا گیا ہے اور اس حصہ کی اس طرح کی شکل ہے جو بنائی گئی ہے اور اس میں جو نظام ربط اور ہم آہنگی رکھی گئی ہے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ کیا ہمیں یہ یقین نہیں ہوجاتا کہ یہ منظم اور دقیق حساب جو اس عضو اور بدن کے دوسرے اعضاء میں موجود ہے از خود، بغیر کسی غرض اور حساب کے موجود نہیں ہوا___؟

کیا یہ کسی عاقل اور صاحب بصیرت کے لئے ممکن ہے کہ وہ قبول کر لے کہ سیاہ اور خاموش، بے شعور طبیعت و مادّہ سے یہ تعجب آور اور حیران کن نظم، وجود میں آیا ہے؟ صاحب عقل اور سمجھدار اناسان کو یقین ہوجائے گا کہ کسی عالم اور قادر ذات نے اسے خلق فرمایا ہے کہ جس میں اس نے ایک خاص غرض و غایت، مد نظر رکھی ہے اس سوچ کے بعد ہر عقلمند کا ان تمام اسرار اور مصالح کے دیکھنے کے بعد خالق جہاں جو ''عالم اور توانا'' ہے

۳۷

کے متعلق یقین زیادہ محکم اور مضبوط ہوجائے گا، اس کی اس عظیم قدرت اور فراوانی نعمت کے سامنے سر تسلیم خم کردے گا_

قرآن کی آیت :

( قل انظروا ماذا فی السّموات و الارض ) ___(۱)

'' کہہ دیجئے کہ جو کچھ زمین اور آسمان میں موجود ہے اسے دیکھو''

____________________

۱) سورہ یونس آیت نمبر ۱۰۱

۳۸

سوالات

جواب دیجئے

۱) ___ایک منظم و مرتبط شکل میں اور ایک غیر منظم و غیر مرتبط شکل میں کیا فرق ہے؟

۲)___ ایک ایسے حصہ سے جو منظم اور مرتبط ہوگیا سمجھاتا جاتا ہے___؟

۳)___ ایک حصہ کے بنانے میں جو منظم اور پناتلا ہو اس کے بنانے والے کے لئے عالم اور قادر ہونا ضروری سمجھتے ہو اور کیوں___؟ وضاحت کرو_

۴)___ تمھارے گردے کتنے ہیںاور بدن کے کس حصہ میں واقع ہیں؟ بیان کرو اور گردوں کی شکل بناؤ

۵)___ گردوں کی ساخت کس طرح ہوتی ہے اور ان کا کام کی ہے؟ کیا گوسفند کا گردہ کلاس میں لاسکتے ہو؟ وضاحت کرو_

۶)___ رنیرنالی کا کیا کام ہے؟ مثانہ کی دیوار کس طرح ہوتی ہے اور مثانہ کا کیا کام ہے___؟

۷)___ گردوں کے بعض تعجب آور کام کو بتایئے

۸)___ گردوں کے کام اور دوسرے اعضاء سے ان کے ارتباط کو دیکھنے سے کیا سمجھاجاتا ہے؟ کیا تمھیں یہ ایک بے غرض اور غیر منظم حصہ نظر آتا ہے یا یہ ایک منظم اور بامقصد عضو معلوم ہوتا ہے؟

۹)___ ہم جہان عالم کی پر اسرار اور مصالح کی پیدائشے و خلقت سے کیا سمجھتے ہیں اور اس سے کیا نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں___؟

۳۹

خالق جہان کے صفات کمالیہ

۱) ___ تم چل سکتے ہو، فکر کرسکتے ہو، کھاپی سکتے ہو اور کتاب پڑھ سکتے ہو؟ لیکن کیا یہی کام پتھر کا ایک ٹکڑا انجام دے سکتا ہے؟

یقینا جواب دوگے کہ نہیں یہ کام پتھر انجام نہیں دے سکتا پس تم ان کاموں کے بجالانے پر قدرت رکھتے ہو لیکن پتھر ایسی قدرت نہیں رکھتا_ کیا تم ان امور کے لحاظ سے پتھر پر کوئی خصوصیت رکھتے ہو___؟ کون سی خصوصیت___؟ تم کامل ہو یا پتھر کا ٹکڑا___؟ کیا جواب دوگے___؟

یقینا تمھارا یہ جواب ٹھیک ہوگا کہ تم یہ کام کرسکتے ہو لیکن پتھر یہ کام نہیں کرسکتا پس تم کامل تر ہوگئے کیونکہ ان کاموں کے بجالانے پر قدرت رکھتے ہو تو پھر قدرت کو ایک کمال کی صفت قرار دیا جاسکتا ہے یعنی قدرت، کمال کی صفت ہے_

۲)___ تم بہت سی چیزوں کو جانتے ہو یعنی تمھیں ان کا علم ہے، تمھارے دوست بھی بہت سی چیزوں کو جانتے ہیں اور انھیں بھی ان کا علم ہے_ مخلوقات میں سے بعض کو علم ہوتا ہے اور بعض کو علم نہیں ہوتا_ انسان ان میں سے کون سی قسم میں داخل ہے؟ پتھر، لکڑی اور لوہا ان میں سے کون سی قسم میں داخل ہیں؟

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421