عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 13%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 421

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 421 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 208234 / ڈاؤنلوڈ: 8542
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

پہلی جلد

علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم:سید قلبی حسین رضوی

۳

خطوط اور مقدمے

کتاب عبدا للہ بن سبا کی علمی قدر و قیمت

ایک شیعہ دانشور محترم جناب شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

الازہر یونیورسٹی ، مصر کے مجلہ کا جواب

مباحث پر ایک نظر

سلسلہ مباحث کی پیدائش

۴

کتاب عبد اللہ بن سبا کی علمی قدرو قیمت

مصر کی الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر جناب ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کا خط

کتاب عبدالله بن سبا ، آخر میں دوسرے ایڈیشن کے عنوان سے مصر میں دوسری بار شائع ہوئی ہے،اس کتاب نے اہل سنت ممالک میں گہرا اثر ڈالا ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں خاص کر الازہر یونیورسٹی کے دانشوروں اور اساتذہ کی توجہ کا سبب بنی ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں میں غیر معمولی اثر ڈالا ہے ،مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی طرف سے مؤلف کو اس کتاب کو پسند کرنے کے سلسلہ میں کئی خطوط ملے ہیں ، ان میں سے ایک جناب ڈاکٹر حامدکا خط ہے ، وہ مصر کے ایک نامور دانشور ہیں ، جو کئی قابل قدر تحقیقی تالیفات کے مالک ہیں ۔

چونکہ یہ خط انصاف و عدالت کا ایک نمونہ اور تعصب اورہٹ دھرمی کی سرحدوں کو توڑنے والا ایک عنوانہے اس لئے ہم اسے ترجمہ کرکے شائع کرتے ہیں(۱)

____________________

۱۔ نشریہ سالانہ مکتب تشیع ۴/۳۰۲۔

۵

خط کا مضمون

تاریخ اسلام کی تیرہ صدیاں اختتام کو پہنچی ہیں ان تیرہ صدیوں کے دوران ہمارے دانشوروں کے ایک گروہ نے حتی الامکان شیعوں کے خلاف آواز اٹھائیہے اور حقائق کو اپنی نفسانی خواہشات سے مخلوط کیا ہے اس ناپسندیدہ روش کی وجہ سے اسلامی فرقوں کے د رمیان گہرے اختلافات پیدا ہوئے ہیں ، نتیجہ کے طورپر شیعہ دانشوروں کے فکر و اندیشہ کے گوہر کو حقیر سمجھا گیا ہے اسی روش کی بنا پر علمی دنیا کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

شیعہ دانشوروں کے افکار سے علم محروم رہا ہے کیونکہ دشمنوں نے شیعوں کے پا ک و صاف دامن کو داغدار بنا کر انھیں ایک توہمات و خرافات کے حامل گروہ کے طور پر پہچنوایا ہے ، بے شک ہم شیعوں کے صاف و شفاف علمی چشمہ زلال سے ایک گھونٹ پی سکتے تھے نیزاس مذہب کے سرمایہ سے فائدہ اٹھا سکتے تھے ، لیکن افسوس کہ ہمارے گزشتہ دانشوروں نے تعصب سے کام لیااور عقل کو ھوا و ہوس پر ترجیح نہیں دی ، اے کاش کہ وہ لوگ عقل کی پیروی کرتے اور جذبات کے کھلونے نہ بن تے !! جو کوئی تعصب کے عینک کو اتارکر فقہی مباحث کےلئے اقدام کرے اور فقہ مذاہب چہارگانہ پر تحقیق کرے ، وہ شیعہ فقہ سے بھی استفادہ کرنے پر مجبور ہے اور بے شک جب فقہ اہل سنت پرتحقیق کرے تو اس وقت شیعہ فقہ کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے اور اس سے آگاہ ہونا چاہئے ۔

۶

ہم کب تک خواب غفلت میں رہیں گے ؟! کیا فقہ شیعہ کے پرچم دار ،ا مام جعفر صادق علیہ السلام(۱) سنی مذہب کے دو امامو ں کے استاد نہیں تھے؟ یہ دو امام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مکتب میں زانوئے ادب تہہ کیا ہے ۔

ابو حنیفہ ، نعمان بن ثابت(۲) کہتے ہیں :

لولاالسنتان لهلک النعمان

اگر امام صادق علیہ السلام کے درس میں دو سال شرکت نہ کی ہوتی تو بے شک میں ہلاک ہوجاتا، اوردین سے منحرف ہوتا۔

اس کی مراد وہی دو سال ہیں جس میں انہوں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کے علم کے میٹھے اور زلالی چشمہ سے استفادہ کیا ہے ۔

اور یہ مالک بن انس ہیں جو واضح طور پر اعتراف کرتے ہیں :

ما رایت افقه من جعفر بن محمد

میں نے جعفر بن محمد سے فقیہ تر کسی کو نہیں د یکھا ہے(۳)

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ علم کے بارے میں صرف دور سے کچھ سننے والوں نے اپنے آپ کو دانشور سمجھ کر اپنے قلم سے تحقیق کی بنیادوں کو اکھاڑ کر حق و حقیقت کو اپنی نفسانی خواہشات پر قربان

____________________

۱۔ وفات ۱۴۸ ھ

۲۔ وفات ۱۵۰ھ

۳۔ وفات ۱۷۹ ھ

۷

کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر گلستان علم کے دروازے ان پر بند ہوگئے اور اس طرح وہ شمع معرفت کے نور سے محروم ہوگئے ہیں ، اس مذموم روش نے فتنہ کی آگ کو بھڑکانے کے علاوہ مسلمانوں میں ، دن بدن اختلافات کو بڑھا وا دیا ہے ۔

افسوس کہ ہمارے استاد ” احمد امین “(۱) بھی انہیں افراد میں سے تھے ، جنہوں نے معرفت کے نور سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ظلمت کے پردوں کے پیچھے زندگی بسر کرتے رہے ، یہ وہ کرنیں ہیں جو تشیع کے سورج سے چمکی ہیں اور جہالت کی تاریک رات کو نور میں تبدیل کرکے اسلام کے عظیم تمدن کو اس وقت وجود بخشا ، جبکہ دوسرے لوگ بہت پیچھے تھے۔

تاریخ نے اس ناپاک رویہ کی بنا پر ، احمد امین اور ان جیسے تمام اساتذہ اور دانشوروں کے دامن پر عظیم داغ لگادیا ہے، جنہوں نے آنکھیں بند کرکے تعصب کی وادی میں قدم رکھا ہے ، یہ دانشور وں اور محققین کا طریقہ کار نہیں ہے کہ ایک جگہ بیٹھے رہیں اور جمود کی بیڑی کو اپنی فکر کے پاؤں سے نہ اتاریں اور بے جا پر تعصب سے کام لے کر آنکھیں بند کرکے کسی مذہب کی پیروی کریں !!

ان کی فکرو قلم سے بہت ساری غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہوئی ہیں اور انہیں الجھن اور بد حواسی سے دوچار کیا ہے ، شاید مذکورہ داستان اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔

انہوں نے جھوٹ بول کر بعض مطالب کو شیعوں سے نسبت دیکران کے دامن کو داغدار بنادیا

____________________

۱۔ ” فصل “ پیدائش افسانہ د ور راویان آن “ شمارہ ہفتم ، کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں پر احمد امین کی باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا ہے جس کا سبب شیعوں کے ساتھ اس کی دشمنی اور کینہ ہے ۔

۸

ہے کہ ہم نے ان میں سے بعض کی طرف اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے ،(۱) انہوں نے تصور کیا ہے کہ جتنے بھی خرافات اور جعلی چیزیں اسلام کی تاریخ میں موجود ہیں ، سب کی سب شیعہ علما کی گڑھی ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنے خود ساختہ گمان سے شیعوں پر حملہ کیا اور ان کو برا بھلا کہا ہے۔

جلیل القدر محقق ”جناب مرتضیٰ عسکری “ نے اپنی کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ میں کافی دلائل سے مکمل طور پر ثابت کیا ہے کہ ” عبدا للہ بن سبا “ ایک خیالی اور جعلی موجود ہے ۔

تاریخ نویسوں نے جو حکایتیں بیان کی ہیں اور ان کی بناء پر اسے (عبدا للہ بن سبا) مذہب شیعہ کا مروج(۲) بیان کیا ہے البتہ یہ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، مؤرخین نے ان گڑھی ہوئی داستانوں کو اس لئے مرتب کیا ہے تا کہ فریب کاری کے جال کو پھیلا کر شیعوں پر حملے کرکے بے جا ان کے خلاف تہمت و افتراء پردازی کریں ۔

ہم عصر دانشور ،جناب مرتضیٰ عسکری نے اس کتاب میں اپنی فکر و اندیشہ کے سہارے تاریخ کے سمندر میں غوطہ لگا کر ، بہت سی کتابوں کا مطالعہ فرمایا ہے اور انتہائی تلاش و جستجو کے بعد اس سمندر سے کافی مقدارمیں موتی لے کر ساحل تک آئے ہیں ۔

انہوں نے زیر بحث حقائق کو ثابت کرنے کےلئے نزدیک ترین راستہ طے کیا ہے ، شیعوں کے

مخالفوں سے بحث کے دوران ان کے ہی بیانات کو مآخذ قرار دیکر ان کی باتوں کو باطل ثابت کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کی کتا ب” مع احمد امین “ کے مقدمہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ خود غرض مورخین نے اسے شیعہ مذہب کا بانی و مروج خیال کیاہے۔

۹

تاریخ اسلام کے آغاز سے عصر حاضر تک ” سیف بن عمر“ کی روایتوں نے مؤرخین کو الجھا رکھا ہے جو عام طور پر قابل اعتماد ہے، اس کتاب میں ان روایتوں کے بارے میں ایک گراں بہا تحقیق کی گئی ہے کہ قارئین بڑی آسانی سے انھیں سمجھ سکتے ہیں ۔

خدا کی حکمت اسی میں ہے کہ بعض محققین مردانہ وار قلم ہاتھ میں اٹھا کر حقائق سے پردہ اٹھائیں ، اور اس راستہ میں دوسروں کی سرزنش اور ملامت کی پروانہ کریں ، مصنف محترم پہلی شخصیت ہیں جس نے اپنی گہری تحقیقات کے نتیجہ میں اہل سنت محققین کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ طبری کی کتاب ” تاریخ الامم و الملوک “ کے بارے میں تجدید نظر کریں ، نیز انھیں اس بات پر مجبور کیا ہے کہ اس کتاب اورتاریخ کی دوسری بنیادی کتابوں کے بارے میں از سر نو دقت سے غور کرتے ہوئے اور خوب و بد کو ایک دوسرے سے جدا کریں ،مزید ان تاریخی حوادث کے بارے میں بھی نئے سرے سے غور کریں ، جنہیں وہ نازل شدہ وحی کے مانند صحیح اور نا قابل تغییر سمجھتے تھے !!

محترم مصنف نے کافی ، واضح اور روشن شواہد کی مدد سے ان تاریخی وقائع سے ابہام کے پردے کو ہٹا دیا ہے اور حقیقت کو اس کے متوالوں کےلئے آشکار کیا ہے حتی کہ بعض حقائق انتہائی بھیانک اور حیرت انگیز دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ایک عمر کے عادات و رسومات چند صدیوں کی اعتقادی میراث کے مخالف ہیں ، لیکن حق کی پیروی کرنالازم و واجب ہے ہر چند کہ یہ امر دشور ہو ” الحق احق ان یتبع“۔

مذکورہ مطالب سے آگاہی چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ کریں او رتاریخ کے اختلافی حوادث جیسے ، اسامہ کی لشکر کشی ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت اور سقیفہ کی داستان (جس پر مؤلف نے تنقیدی تجربہ کیا ہے) کا دقت کے ساتھ مطالعہ کریں ۔

جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موت کا شیرین جام نوش فرمارہے تھے، اسامہ کے لشکر سے بعض افراد حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے مدینہ لوٹے اور ریاست و خلافت کی امید سے جہاد سے منہ موڑ لیا ، مؤلف نے ان افراد کو پہچنوایا ہے ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر مرگ پر جب وصیت لکھنے کا حکم دیدیا، کچھ لوگوں نے اس حکم پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالی اور اسے ہذیان سے تعبیر کیا (گویا انہوں نے گمان کیا کہ پیغمبر ہذیان کہہ رہے ہیں)کیونکہ وہ اس امر سے خائف تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وصیت میں علی علیہ السلام کی خلافت کی خبر دیں گے اور ان آخری لمحات میں بھی اسے اپنے وصی کے طور پر تعارف کرائیں گے ۔

۱۰

مؤلف اس حادثہ کی حقیقت و کیفیت کو بھی آشکار کرتے ہیں عمر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے انکار کرنے کا مقصد کیا تھا ؟ کیوں وہ ان افراد کو موت کی دھمکی دیتے تھے جو یہ کہتے تھے کہ پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے رحلت کی ہے ؟جس وقت امام علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچیرے بھائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس اور چند بوڑھے اور سن رسیدہ اصحاب کی مددسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن نازنین کوغسل دینے میں مشغول تھے ، تو اس وقت کس غرض سے عمر اور ابو عبیدہ نے انتہائی عجلت کے ساتھ اپنے آپ کو سقیفہ کے اجتماع میں پہنچادیا اور لوگوں سے ابوبکر کے حق میں بیعت لے لی ؟!

بے شک ، اگر تھوڑا سا انتظار کرتے تا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سپرد لحد کرکے اور علی علیہ السلام بھی اس اجتماع میں حاضر ہوتے تو علی علیہ السلام خلافت کے مستحق قرار پاتے اور بنی ہاشم ان کے علاوہ کسی اور کو امام المسلمین کے طور پر قبول نہیں کرتے !

مؤلف نے مذکورہ تین مباحث میں صحیح کو غلط سے اور برے کو بھلے سے جدا کرکے ان مسلم حقائق تک رسائی حاصل کی ہے اور ان کی اس تحقیق کے نتیجہ میں فریب کاروں کےلئے مکرو فریب کے دروازے بند ہوگئے ہیں ۔

کتاب کے دوسرے مباحث بھی مذکورہ بالا تین مباحث کی طرح ، دقت کے ساتھ حقائق کو ایسے آشکار کرتے ہیں کہ بہت جلد ہی تاریخ اسلام کے اندر گہرے اثرات رونما ہوں گے ۔

میں اس مقالہ کو ختم کرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ درج ذیل تین سوالات کا جواب دیدوں :

۱ ۔ کیا پیغمبر خدا کا صحابی غلطی کرسکتا ہے اورلغزش سے دوچار ہوسکتا ہے ؟

۲ ۔ کیا اس کے کام اور کردار پر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے ؟

۳ ۔ کیا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی کو منافق یا کافر کہا جاسکتا ہے ؟

۱۱

سوال نمبر ایک اور دو کا میں مثبت جواب دیتا ہوں ، لیکن تیسرے سوال کا جواب منفی ہے ۔ اس لئے نہیں کہ میں تعصب سے کام لیتا ہوں اور علم کے اصول کے خلاف کہتا ہوں ، بلکہ ایک ایسا استدلال رکھتا ہوں کہ عقل اس کو قبول کرتی ہے اور منطق اسکی تائید کرتی ہے کیونکہ کفر و نفاق کا تعلق قلب و دل سے ہے اور وہاں تک خدا کے سوا کسی کی رسائی نہیں ہے ، علمی تجربہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ہے ، صرف خداوند عالم ہے جو انسان کے اندرونی اسرار سے واقف ہے اور پوشیدہ چیزوں کامکمل طور پر علم رکھتا ہے(۱)

مذکورہ روش ، وہی جدید روش ہے ، جس کا واضح مشاہدہ میری تمام تالیفات میں کیا جاسکتا ہے۔

مجھے اس بات پر انتہائی مسرت ہے کہ علم کے لحاظ سے اس عظیم کتاب اور اس کے عالی قدر مصنف استاد علامہ محقق جناب مرتضی عسکری کے تئیں انتہائی احترام و محبت کا قائل ہوں ، اسی طرح جناب مرتضیٰ رضوی کشمیری کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کو پوری ظرافت اور دیدہ زیب صورت میں شائع کیا ہے ، علامہ نے اس فریضہ کو انجام دے کر اسلام کی ایک عظیم خدمت کی ہے اور اس ذمہ داری کو انجام دے کر اسلام کے تاریخی حقائق کو زندہ کرنے کےلئے ایک عظیم اثر چھوڑا ہے ۔

قاہرہ اول جمادی الاول ۱۳۸۱ ھء مطابق ۱۲ ،اکتوبر ۱۹۶۱ ئئ

ڈاکٹر حامد حفنی داؤد

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد نے اس خط کو نصف کتاب کے شائع ہونے کے پیش نظر مصر میں لکھا ہے ۔

۱۲

ایک محترم شیعہ دانشور شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

سنی دانشور محترم جناب ڈاکٹر حامد کے نظریہ سے آگاہ ہونے کے بعد مناسب ہے یہاں پر اس کتاب کے بارے میں ایک شیعہ دانشور علامہ نابغہ جناب شیخ محمد جواد مغنیہ جبل عاملی کے نظریہ سے بھی آگاہ ہوجائیں ، علامہ موصوف لبنان میں مروج مذہب تشیع ہیں ۔

موصوف کی گراں بہا تالیفات میں من جملہ ” تفسیر قرآن مجید “ ” معالم الفلسفة الاسلامیہ“، ”الشیعہ و الحاکمون “ ” اصول الاثبات فی الفقہ الجعفری“ اور دسیوں دوسری تالیفات سنجیدہ فکر اور ان کے علمی بلند مقام کو آشکار کرتی ہیں ، ذیل میں مجلہ ” العرفان “(۱) میں شائع ہوئے ان کے مقالہ کا ترجمہ ہے :

مذہب شیعہ کے خلاف لکھنے کے علاوہ دنیا کی تمام چیزوں میں دگرگونی اور تغیرات پیدا ہوئے ہیں شیعوں پر تہمت و افتراء کے علاوہ ہر آغاز کا خاتمہ ہے شیعوں کے خلاف جاری کئے جانے والے احکام کے علاوہ ہر حکم کی ایک دلیل و علت ہے آخر کیوں ؟

کیا شیعہ شورشی اور فتنہ گر ہیں اور لوگوں کے سکون و اطمینان کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں ؟

____________________

۱۔ نمبر ۳/ سال ۱۳۸۱ ھ صفحہ ۲۳۰۔

۱۳

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :

سیف بن عمر تمیمی(۱) نامی ایک شخص نے گزشتہ دو سری صدی کے دوران دو کتابیں لکھی ہیں ، اس کی پہلی کتاب ” الفتوح و الردّة“ اور دوسری کتاب ” الجمل و مسیر عائشة و علیّ “ ہے ان دونوں کتابوں میں د رج ذیل مطالب کی ملاوٹ کی گئی ہے :

۱ ۔ ایسے حوادث و اتفاقات کی تخلیق کرنا ، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

۲ ۔ رونما ہوئے حقیقی حوادث و واقعات میں تحریف کرکے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت دکھانا ۔

اس بے لگام اور جھوٹے شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے چند من گھڑت اصحاب جعل کئے جن کے سعیر ، ہزہاز، اط ، حمیضہ ، وغیرہ نام رکھے ہیں ۔

اس نے تابعین اور غیر تابعین کے کچھ اشخاص جعلکئے ہیں اور ان کی زبانی اپنی جعلی احادیث نقل کی ہیں ۔

اس کی انہیں تخلیقات میں سے ایک سورما ہے جس کی شخصیت کو اس نے جعلکیا ہے اور اس کا فرضی نام بھی معین کیا ہے ، اور چند داستانوں کو گڑھ کر اس سے نسبت دی ہے یہ افسانوی سورما ”عبد اللہ بن سبا“ ہے جس کسی نے بھی شیعوں پر تہمتیں لگائی ہیں اور ان کے بارے میں جہل یا نفاق کے سبب افترا پردازی کی ہے ، ان سب نے اسی پر اعتماد کیا اور اس کی باتوں پر تکیہ کیا ہے۔

____________________

۱۔وفات دوسری صدی ہجری ۔

۱۴

”سیف“ کے بعد مؤرخین کی ایک جماعت نے فریب اور دھوکہ سے بھری ان دو کتابوں کو سند بنا کر کسی قسم کے تامل و تدبر کے بغیر دروغ پرداز اور چالباز سیف کے نظریات اور اندیشہ کو نقل کیا ہے ، اس طرح اس کے مذموم تفکر سے استفادہ کیا گیا ہے ۔

”طبری“ پہلا شخص تھا جو” سیف “کے دام فریب میں پھنس گیا تھا اس کے بعد ابن اثیر ، ابن عساکر اور ابن کثیر اور دوسرے لوگ” طبری“ سے آنکھیں بند کرکے روایت نقل کرنے کے سبب اس گڑھے میں گر گئے ہیں ۔

اس طرح جھوٹے ”سیف“ کی تخلیقات کی تاریخی کتابوں اور منابع میں بلاواسطہ طور پر ملاوٹ ہوئی ہے لیکن ان کی جڑ اور بنیاد، وہی سیف کی دو کتابیں ” الفتوح “ اور ” الجمل “ ہیں ۔

علامہ سید مرتضی عسکری کی کتاب ” عبد اللہ بن سبا“ مذکورہ حقائق کو صحیح دلائل کی بنا پر آشکار کرتی ہے اور قارئین کو صاف اور واضح راہنمائی کرکے حقیقت کی منزل تک پہنچاتی ہے ۔

انہوں نے اس کتاب کی تالیف میں انتہائی دقت سے کام لیا ہے اور موصوف کی تمام تر سعی و تلاش اس امر پر متمرکز رہی ہے کہ حق و حقیقت کے علاوہ کوئی چیز کاغذ پر نہ لکھی جائے ، قارئین کرام جس قدر بھی مفکر اور دانشور ہوں ، موصوف کے حاصل کئے ہوئے نتائج سے نہ تو انکار کرسکتے ہیں اورہی نہ شک و شبہ ، کیونکہ اس کتاب کے بہت سے دقیق مباحث کی بنیاد بدیہی قضایا پر مبنی ہے اور بدیہیات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے ۔

میں نے مختلف افراد سے بارہا بحث کی ہے ، اور ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا ہے ، لیکن اس گفتگو میں میں نے شیخ مفید ، سید مرتضی ، اور علامہ حلی سے آگے قدم نہیں بڑھایا ہے ، میری روش صرف یہ تھی کہ میں ان بزرگوں کے طرز بیان کو بدل دیتاتھا اور مخاطب کے لئے مطالب کو آشکار اور واضح تر بیان کرتا تھا ، کیونکہ کوئی تازہ اعتراض نہیں تھا کہ میں اس کا تازہ اور نیا جواب دیتا بلکہ اعتراض وہی تھا جو پچھلے لوگوں نے کر رکھاتھا اور اس کا جواب سن چکے تھے ، چونکہ یہ لوگ بھی گزشتہ لوگوں کی طرح اعتراض کرتے ہیں لہذا مجبور ہیں وہی جواب سنیں ،میں اپنے علمائے سلف کی باتوں کی تکرار کرتا تھا ، کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ بے خبر، معترضین علماء کی باتوں پر اعتراض کرتے ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ ان کی ہی باتوں سے آگاہ ہوجائیں ۔

بے شک میں علمائے تشیع کی پیروی کرتے ہوئے ” عبدا للہ بن سبا“ کے وجود کا معترف تھا ، لیکن اس کی رفتار کو حقیر اور شرم آور سمجھتا اور اس کی باتوں کا انکار کرتا تھا ۔

۱۵

علامہ عالیقدر جناب سید مرتضیٰ عسکری نے اس عمارت کی بنیاد ہی اکھاڑ کرکے رکھدی اور اپنی گہری تحقیقات سے ثابت کردیا کہ ” عبد اللہ بن سبا “ کی حقیقت ایک افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ! اور یہی وہ حقیقت ہے جو اس کتاب میں بے نقاب ہوئی ہے ، اگر میں یہ کہوں کہ عربی میں یہ تنہا کتاب ہے ، جس میں تاریخ کی علمی بنیادوں پر تحقیق کرکے اس پر غور کیا گیا ہے تو یہ ہرگز مبالغہ نہیں ہے ، اور میرا یہ کہنا بھی ہر گز بیجا نہیں ہوگا کہ اس دانشور مصنف نے دین و علم اور خاص طور پر شیعوں اورمذہب تشیع کی ایک ایسے زمانے میں بے مثال اور عظیم خدمت کی ہے کہ جب ان پر تہمتوں ، افتراء پردازیوں اور بہتان تراشیوں کی بھر مار ہورہی ہے ، موصوف نے اسلام کی ایک عظیم اور درخشان خدمت کی ہے ، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان رخنہ ڈال کر ان کے اتحاد و یکجہتی کو درہم برہم کرکے انھیں کمزوراوربے بس کردیا ہے ۔

ہم نے فرمانرواؤں اور ظالم حکام کی طرف سے بد ترین عذاب اور مشکلات برداشت کی ہیں تا کہ اسلام کی یکجہتی کا تحفظ کرکے دشمنی سے پرہیز کریں ، لیکن وہ روز بروز اپنی دروغ بیانی میں تشویق ہوتے رہے ہیں اور ان کی پہلی اور آخری سند ” ابن سبا“ کا افسانہ اور ” ابن السوداء “ کا خرافہ تھا کہ افسانہ ساز ”سیف “ نے انھیں ، خدا اوراپنے ضمیر کے سامنے کسی ذمہ داری کا احساس کئے بغیر جعلکیا ہے ۔ لیکن آج ” عبدا للہ ابن سبا “ نام کی کتاب لکھی جانے کے بعد یہ کاسہ لیس اور چاپلوس لوگ کیا جواب دیں گے ؟!

آخر میں میری تجویز ہے کہ یہ کتاب دیدہ زیب طباعت کے ساتھ دوبارہ شائع کی جائے اور عالم اسلام کے تمام شہروں میں نصف قیمت پر بیچی جائے تا کہ عام مسلمان اسے خرید کر اس کے عالی مطالب سے استفادہ کرسکیں ۔

نجف اشرف کے دانشوروں اور مراجع عظام کو چاہئے مذکورہ مقصد کی جانب توجہ کرتے ہوئے رقومات شرعیہ سے مدد کریں یا خیّر افراد کی اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں ۔

میری تجویز ہے کہ یہ حضرات تاکید کے ساتھ حکم فرمائیں تا کہ یہ کتاب دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر سستے داموں میں دنیا کے لوگوں تک پہنچ جائے ، یہ دین اسلام کےلئے ایک عظیم خدمت ہوگی۔

لبنان ۔ شیخ محمد جواد مغنیہ

۱۶

الازہر یونیورسٹی مصر کے مجلہ ” جامع الازھر “ میں شائع شدہ اعتراضات کا جواب

مجلہ ” جامع الازھر“ مصر میں کتاب ”عبدا للہ بن سبا “ کے بارے میں دو مقالے لکھے گئے ہیں(۱) اہم ترین مطلب جوان دو تنقیدی مقالوں میں ملاحظہ کے قابلہے عبارت ہے :

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اور ان کے باہمی اختلافات ، چودہ صدی پرانی بات ہے اور وہ سب اپنے مالک حقیقی سے جاملے لہذا چاہئے کہ ان مسائل سے صرف نظر کیا جائے(۲)

اس بات کے جواب میں ہم کہتے ہیں :

اولاً : ہم سیف کی روایتوں کی تحقیق کی فکر میں تھے ، جس موضوع پر اس نے روایتیں نقل کی تھیں ، ہم نے مجبور ہو کر ان ہی موضوعات پر بحث و تحقیق کی ہے ، چونکہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا“ میں عبد اللہ بن سبا کے افسانہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے باہمی اختلافات کے بارے میں سیف ابن عمر کی نقل کی گئی روایتوں پر بحث کی گئی ہے ، لہذا ہم مجبور ہوئے کہ ہر موضوع کے

____________________

۱۔ پہلا مقالہ کتاب کی نجف اشرف میں طبع شدہ پہلی اشاعت پر ایک تنقید ہے ، اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۳ ج۱۰، ۱۳۸۰ ئھ ” باب الکتب “ کے صفحہ۱۱۵۰ ۔۱۱۵۱ میں شائع ہوا ہے ۔ دوسرا مقالہ اسی کتاب کے مصر میں طبع شدہ نسخہ پر ایک تنقید ہے اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۲ /ج ۶/ ۱۳۸۱ ء ھ کے صفحہ۷۶۰ ۔۷۶۱ میں شائع ہوا ہے۔

۲۔ یہ جملہ پہلے مقالہ کے آخر پر لکھا گیا ہے اور باقی تمام مطالب اسی جملہ کی تفسیر اور تشریح میں لکھے گئے ہیں ۔

۱۷

بارے میں بحث کو جاری رکھتے ہوئے تجزیہ و تحقیق کریں ، جس طرح میں نے اپنی کتاب ” خمسون و ماة صحابی مختلق“ ( ۱۵۰ جعلی اصحاب) میں اصحاب کے فتوحات اور صدر اسلام کی جنگوں کو اپنا موضوع قرار دیگر بحث و تحقیق کی ہے ۔

سیف کی روایتوں پر تحقیق نے ہمیں اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ ایسی بحثوں میں داخل ہوجائیں جنھیں بہت سے دانشوروں نے پردے میں رکھا ہے ، لہذا ان موضوعات پر بحث و تحقیق نے انھیں برہم اور رنجیدہ کیا ہے ، البتہ ہم بھی ان کی طرح ایسے وقائع اور روداد کے رونما ہونے سے خوشحال نہیں ہیں اور ان سے پردہ اٹھانے اور ان پر غور و فکر کرنے سے ہمارا رنج و غم بھڑک اٹھتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خداوند عالم نے پیغمبر خدا کے اصحاب کو ملک و فرشتہ خلق نہیں کیا ہے کہ جبلت انسانی سے عاری ہوں بلکہ وہ دوسرے افراد کی طرح انسانی جبلت میں ان کے شریک ہیں ، اور ایمان اور اسلام میں استقامت کے مراتب میں بھی ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ، اس حد تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان میں سے بعض پر حد جاری کی ہے (کوڑے لگائے ہیں) اور ان میں سے بعض کے بارے میں ” آیات افک “ نازل ہوئی ہیں جن میں ان کی اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ انہوں نے پیغمبر خدا کی بیوی کی جانب نازیبانسبت دی تھی ، اور ان میں سے بعض کے بارے میں نفاق کی آیات نازل ہوئی ہیں ۔

ان تمام مطالب کے باوجود ہم نہیں سمجھتے کہ پیغمبر خدا کے اصحاب کو ان اختلافات اور تحولات کے ساتھ کیسے چھوڑدیں جبکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام اور عقائد کو ہم تک پہنچانے کے واسطہ ہیں کیا اس طرح صرف پیغمبر کو درک کرنے کی بنا پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عزت و احترام کرنا بحث و تحقیق کےلئے رکاوٹ اور دینداری کے نام پر علم ودانش کے دروازہ کو بند کرنے کے مترادف نہیں ہے ؟ چونکہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے صدیوں سے اپنے اوپر اجتہاد کا دروازہ بند کررکھتا ہے ، لہذا تحقیق و علم کا دروازہ بھی ان پر بند ہوگیا ہے ۔

۱۸

خدارا ! ہم نے اس مطلب کو قبول نہیں کیا ہے اور اسکی تائید نہیں کرتے ہیں بلکہ دین و اسلام کے نام پر اور اس پر عمل کرنے کیلئے اسلام کی راہ میں بحث و تحقیق کےلئے قدم اٹھاتے ہیں ۔

ثانیاً : کاش کہ ہم یہ جانتے کہ قدیم و جدید دانشور جو پیغمبر خدا کے اصحاب کی عزت و احترام میں جو غیرت و حمیت دکھاتے ہیں ، کیا اس میں پیغمبر خدا کے تمام اصحاب شامل ہیں خواہ اس کے سزاوار ہوں یا نہ ، خواہ وہ عیش پرست ہوں یا زاہد و پرہیزگار ؟ کیا یہ احترام عام طور پر اس لئے ہے کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کادیدار کیا ہے ؟ یا ان کےلئے مخصوص ہے جوسرمایہ دار و قدرتمندتھے اور حکومت تک ان کی رسائی تھی ؟ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ احترام شعوری یا لا شعوری طور پر صرف ان افراد سے مخصوص ہوکے رہ گیا جو حکومت اور ایوان حکومت سے وابستہ و مربوط ہیں ۔

جو کچھ ایک دوررس اور نکتہ شناس محقق کےلئے قابل اہمیت ہے وہ دوسرا مطلب ہے کیونکہ اگر تاریخ طبری میں ۳۰ ء ھ کے روئدادوں اور حوادث پر غور کیا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس نے یوں لکھا ہے :

اس سال ، یعنی ۳۰ ئھ میں جو کچھ ابوذر اور معاویہ کے درمیان پیش آیا ، اور سر انجام ابوذر کے شام سے مدینہ جلا وطن کئے جانے پر تمام ہوا ، اس سلسلے میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں کہ جنکو میں نقل کرنا پسندنہیں کرتا ہوں ، لیکن اس سلسلہ میں معاویہ کیلئے عذر پیش کرنے والوں نے ایک داستان نقل کی ہے ، اس داستان میں کہا گیا ہے:

شعیب نے اسے سیف سے نقل کیا ہے

اس کے بعد طبری نے ابو ذر اور معاویہ کے بارے میں نقل کی گئی داستان کے سلسلے میں سیف کی باقی روایت کو اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے ۔

۱۹

اگر ہم اس سلسلے میں تاریخ ابن اثیر کی طرف رجوع کریں گے تو دیکھتے ہیں کہ وہ کہتا ہے :

اس سال ( ۳۰ ھء) ابوذر کی داستان اور معاویہ کے توسط سے اسے شام سے مدینہ جلاوطن کرنے کا مسئلہ پیش آیا، اس رفتار کی علت کے بارے میں بہت سے مطالب لکھے گئے ہیں ، من جملہ یہ کہ : معاویہ نے انھیں گالیاں بکیں اور موت کی دھمکی دی ، شام سے مدینہ تک انھیں ایک بے کجاوہ اونٹ پر سوار کرکےنہایت ہی بیدردی سے ایک ناگفتہ بہ حالت میں مدینہ کی طرف جلاوطن کردیا ، مناسب نہیں ہے اسے یہاں بیان کیا جائے میں اسے نقل کرناپسند نہیں کرتا ہوں ، لیکن جنہوں نے اس سلسلے میں عذر پیش کیا ہے، یو ں کہا ہے :

اس بنا پر طبری نے یہاں پر ان بہت سی روایتوں کو درج نہیں کیا ہے جن میں معاویہ اور ابوذر کی روئداد بیان ہوئی ہے اور ان کو بیان کرنا پسند نہیں کرتا تھا، پھر بھی اس نے ان روایتوں کو بالکل ہی درج کرنے سے چشم پوشی نہیں کی ہے ۔ بلکہ سیف کی ان تمام روایتوں میں سے ایسی روایت کا انتخاب کیا ہے کہ معاویہ کا عذر پیش کرنے والوں کےلئے سند کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے اس کے کام کی توجیہ کے طورپر پیش کرتے ہیں ، جبکہ اس روایت میں پیغمبر اسلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بزرگوار صحابی ” ابو ذر“ کی حد سے زیادہ توہین کی گئی ہے ۔ اس کی دینداری پر طعنہ زنی کی گئی ہے ، اسے بیوقوف اور احمق کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس پرناروا تہمتیں لگائی گئی ہیں ۔

۲۰

کیونکہ اس روایت میں معاویہ کو حق بجانب ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے عذر کو درست قرار دیاگیا ہے ، اور اس طرح مؤرخین کا یہ قائد ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس تہی دست صحابی کی شخصیت اور احترام سے چشم پوشی کرتاہے اوران کی عظمت کو معاویہ جیسے حاکم اور ثروتمند شخص کے حرمت کے تحفظ میں قربان کرتاہے ، یہی کام ابن اثیر، ابن خلدون اور دوسروں نے بھی انجام دیا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ، بنیادی طور پر اسی سبب سے تاریخ طبری نے رواج پیدا کیا ہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ شہرت پائی ہے ، اور اس لئے سیف (بے دینی کا ملزم ٹھہرائے جانے کے باوجود) کی روایتوں کو اس قدر اشاعت ملی ہے اور اسی لئے مشہور ہوئی ہیں(۱) ۔

اس بنا پر ایسے دانشوروں نے صرف ایسے صحابیوں کے احترام کے تحفظ کےلئے اقدام کیا ہے جو صاحبِ قدرت و حکومت تھے ، اور” معاویہ بن ابو سفیان “ جیسے شخص کی اس لئے عزت کرتے ہیں کہ وہ صاحب حکومت و اقتدار تھا ، جبکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “(۲) میں شمار فرمایا ہے اور اس کی نفرین کرتے ہوئے فرمایا:

خداوند عالم اس کے شکم کو کبھی سیر نہ کرے “(۳) اسی طرح ” عبدا للہ بن سعد بن ابی سرح “(۴) جو ابتداء میں مسلمان ہوا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتبوں میں شمار ہوتا تھا، لیکن ایک مدت کے بعد مرتد ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن مجید پر تہمت لگائی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کا خون بہانا مباح قرار فرمایا تھا،ایسے شخص کو ان خصوصیات کے باوجود مصر کا گورنر ہونے کے ناطے اس کا نام تاریخ میں درج کرکے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

اس طرح خلیفہ عثمان کے بھائی ولید ، جس کے بارے میں آیہ نبا نازل ہوئی ہے :

<یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اِذا جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَیَّنُوا اَنْ تُصِیْبُوا قَوْماً

____________________

۱۔ کتاب کے فصل ” پیدائش افسانہ “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ تمام سیرت لکھنے والوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح حنین کے بعد معاویہ اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “ میں شمار فرمایا ہے ، اس لئے انھیں کچھ چیزیں دیدی ہیں ۔

۳۔ صحیح مسلم کے اس باب کی طرف رجوع کیا جائے کہ ”پیغمبر خدا نے جن پر لعنت کی ہے “

۴۔ اس کے حالات پر اگلے صفحات میں روشنی ڈالی جائے گی۔

۲۱

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

كے لحاظ سے ہر طرح كے سازو سامان سے ليس تھا وہ حضرت موسى كے خلاف ہر طرف سے حركت ميں آگيا تھا اس كے نتيجے ميں تمام لوگوں كا ايك ہى نعرہ تھا اور وہ يہ كہ اے موسى تم تو ايك زبردست جادو گر ہو ، كيونكہ موسى كى بات كو رد كرنے كا ان كے پاس اس سے بہتر كوئي جواب نہ تھا جس كے ذريعے لوگوں كے دلوں ميں وہ گھربنانا چاہتے تھے _

ليكن چونكہ خدا كسى قوم پر اس وقت تك اپنا آخرى عذاب نازل نہيں كرتا جب تك كہ اس پر خوب اچھى طرح سے اتمام حجت نہ كرلے اس لئے بعد والى آيت ميں فرمايا گيا ہے كہ ہم نے پہلے طرح طرح كى بلائيں ان پر نازل كيں كہ شايد ان كو ہوش آجائے _(۱)

''پہلے ہم نے ان پر طوفان بھيجا''

اس كے بعد قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے:

''اس كے بعد ہم نے ان كى زراعتوں اور درختوں پر ٹڈيوں كو مسلط كرديا_''

روايات ميں وارد ہوا ہے كہ كہ اللہ نے ان پر ٹڈياں اس كثرت سے بھيجيں كہ انھوں نے درختوں كے شاخ و برگ كا بالكل صفايا كرديا، حتى كہ ان كے بدنوں تك كو وہ اتنا آزار پہنچاتى تھيں كہ وہ تكليف سے چيختے چلاتے تھے_

جب بھى ان پر بلا نازل ہوتى تھى تو وہ حضرت موسى عليہ السلام سے فرياد كرتے تھے كہ وہ خدا سے كہہ كر اس بلا كو ہٹواديں طوفان اور ٹڈيوں كے موقع پر بھى انھوں نے جناب موسى عليہ السلام سے يہى خواہش كى ، جس كو موسى عليہ السلام نے قبول كرليا اور يہ دونوں بلائيں برطرف ہوگئيں ، ليكن اس كے بعد پھر وہ اپنى ضد پر اتر آئے جس كے نتيجے ميں تيسرى بلا ''قمّل '' كى ان پر نازل ہوئي_

''قمّل'' سے كيا مراد ہے؟ اس بارے ميں مفسرين كے درميان گفتگو ہوئي ہے ليكن ظاہر يہ ہے كہ يہ

____________________

(۱) سورہ اعراف كى ايت ۱۳۳ ميں ان بلاو ں كا نام ليا گيا ہے

۳۴۱

ايك قسم كى نباتى آفت تھى جو زراعت كو كھاجاتى تھي_

جب يہ آفت بھى ختم ہوئي اور وہ پھر بھى ايمان نہ لائے،تو اللہ نے مينڈك كى نسل كو اس قدر فروغ ديا كہ مينڈك ايك نئي بلا كى صورت ميں ان كى زندگى ميں اخل ہوگئے_

جدھر ديكھتے تھے ہر طرف چھوٹے بڑے مينڈك نظر آتے تھے يہاں تك كہ گھروں كے اندر، كمروں ميں ، بچھونوں ميں ، دسترخوان پر كھانے كے برتنوں ميں مينڈك ہى مينڈك تھے، جس كى وجہ سے ان كى زندگى حرام ہوگئي تھي، ليكن پھر بھى انھوں نے حق كے سامنے اپنا سرنہ جھكايا اور ايمان نہ لائے_

اس وقت اللہ نے ان پر خون مسلط كيا_

بعض مفسرين نے كہا كہ خون سے مراد ''مرض نكسير'' ہے جو ايك وبا كى صورت ميں ان ميں پھيل گيا، ليكن بہت سے مفسرين نے لكھا ہے كہ دريائے نيل لہو رنگ ہوگيا اتنا كہ اس كا پانى مصرف كے لائق نہ رہا_

آخر ميں قرآن فرماتا ہے: '' ان معجزوں اور كھلى نشانيوں كو جو موسى كى حقانيت پر دلالت كرتى تھيں ،ہم نے ان كو دكھلايا ليكن انھوں نے ان كے مقابلہ ميں تكبر سے كام ليا اور حق كو قبول كرنے سے انكار كرديا اور وہ ايك مجرم او رگناہگار قوم تھے_''(۱)

بعض روايات ميں ہے كہ ان ميں سے ہر ايك بلا ايك ايك سال كے لئے آتى تھى يعنى ايك سال طوفان و سيلاب، دوسرے سال ٹڈيوں كے دَل، تيسرے سال نباتاتى آفت، اسى طرح آخر تك، ليكن ديگر روايات ميں ہے كہ ايك آفت سے دوسرى آفت تك ايك مہينہ سے زيادہ فاصلہ نہ تھا، بہر كيف اس ميں شك نہيں كہ ان آفتوں كے درميان فاصلہ موجود تھا( جيسا كہ قرآن نے لفظ ''مفصلات'' سے تعبير كيا ہے)تاكہ ان كو تفكر كے لئے كافى موقع مل جائے_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ يہ بلائيں صرف فرعون اور فرعون والوں كے دامن گير ہوتى تھيں ، بني

____________________

(۱) سورہ اعراف آيت ۱۳۳

۳۴۲

اسرائيل اس سے محفوظ تھے، بے شك يہ اعجاز ہى تھا ،ليكن اگر نكتہ ذيل پر نظر كى جائے تو ان ميں سے بعض كى علمى توجيہہ بھى كى جاسكتى ہے_

ہميں معلوم ہے كہ مصر جيسى سرسبز و شاداب اور خوبصورت سلطنت جو دريائے نيل كے كناروں پر آباد تھى اس كے بہترين حصے وہ تھے جو درياسے قريب تھے وہاں پانى بھى فراوان تھا اور زراعت بھى خوب ہوتى تھى ،تجارتى كشتياں وغيرہ بھى دستياب تھيں ، يہ خطے فرعون والوں اور قبطيوں كے قبضے ميں تھے جہاں انھوں نے اپنے قصر و باغات بنا ركھے تھے اس كے بر خلاف اسرائيلوں كو دور دراز كے خشك اور كم آب علاقے دئے گئے تھے جہاں وہ زندگى كے يہ سخت دن گذارتے تھے كيونكہ ان كى حيثيت غلاموں جيسى تھي_

بنا بر اين يہ ايك طبيعى امر ہے كہ جب سيلاب اور طوفان آيا تو اس كے نتيجے ميں وہ آبادياں زيادہ متاثر ہوئيں جو دريائے نيل كے دونوں كناروں پر آباد تھيں ، اسى طرح مينڈھك بھى پانى سے پيدا ہوتے ہيں جو قبطيوں كے گھروں كے آس پاس بڑى مقدار ميں موجود تھے، يہى حال خون كا ہے كيونكہ رود نيل كا پانى خون ہو گيا تھا، ٹڈياں اور زرعى آفتيں بھى باغات، كھيتوں اور سر سبز علاقوں پر حملہ كرتى ہيں ، لہذا ان عذابوں سے زيادہ تر نقصان قبطيوں ہى كا ہوتا تھا_

جو كچھ قرآن ميں ذكر ہوا ہے اس كا ذكر موجودہ توريت ميں بھى ملتا ہے، ليكن كسى حد تك فرق كے ساتھ_(۱)

بار بار كى عہد شكنياں

قرآن ميں فرعونيوں كے اس رد عمل كا ذكر كيا گيا ہے جو انہوں نے پروردگار عالم كى عبرت انگيزاور بيدار كنندہ بلائوں كے نزول كے بعد ظاہر كيا،ان تما م قرآنى گفتگو سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ جس وقت وہ بلا كے چنگل ميں گرفتار ہو جاتے تھے،جيسا كہ عام طور سے تباہ كاروں كا دستور ہے،وقتى طور پر خواب غفلت

____________________

(۱)ملاحظہ ہو سفر خروج فصل ہفتم تا دہم توريت

۳۴۳

سے بيدار ہوجاتے تھے اور فرياد وزارى كرنے لگتے تھے اور حضرت موسى عليہ السلام سے درخواست كرتے تھے كہ خدا سے ان كى نجات كے لئے دعا كريں _ چونكہ حضرت موسى عليہ السلام ان كے لئے دعا كرتے تھے اور وہ بلا ان كے سروں سے ٹل جاتى تھي،مگر ان كى حالت يہ تھى كہ جونہى وہ بلا سر سے ٹلتى تھى تو وہ تمام چيزوں كو بھول جاتے تھے اور وہ اپنى پہلى نا فرمانى اور سركشى كى حالت پر پلٹ جاتے تھے_

جس وقت ان پر بلا مسلط ہوتى تھى تو كہتے تھے:'' اے موسى ہمارے لئے اپنے خدا سے دعا كرو كہ جو عہد اس نے تم سے كيا ہے اسے پورا كرے اور تمہارى دعا ہمارے حق ميں قبول كرے،اگر تم يہ بلا ہم سے دور كردو تو ہم يہ وعدہ كرتے ہيں كہ ہم خود بھى تم پر ضرور ايمان لائيں گے اور بنى اسرائيل كو بھى يقينا تمہارے ہمرا ہ روانہ كرديں گے''_(۱)

اس كے بعد ان كى پيمان شكنى كا ذكر كيا گيا ہے،ارشاد ہوتا ہے:''جس وقت ہم ان پر سے بلائوں كو تعين شدہ مدت كے بعد ہٹا ديتے تھے تو وہ اپنا وعدہ توڑ ڈالتے تھے''_(۲)

نہ خود ہى ايمان لاتے تھے اور نہ ہى بنى اسرائيل كو اسيرى سے آزاد كرتے تھے_

حضرت موسى عليہ السلام ان كايك مدت معين كرتے تھے كہ فلا ں وقت يہ بلا بر طرف ہوجائے گى تاكہ ان پر اچھى طرح كھل جائے كہ يہ بلا كوئي اتفاقى حادثہ نہ تھا بلكہ حضرت موسى عليہ السلام كى دعا كى وجہ سے تھا_

موسى عليہ السلام كے پاس سونے كے كنگن كيوں نہيں ؟

حضرت موسى عليہ السلام كى منطق ايك طرف ان كے مختلف معجزات دوسرى طرف مصر كے لوگوں پر نازل ہونيوالى بلائيں جو موسى عليہ السلا م كى دعا كى بركت سے ٹل جاتى تھيں تيسرى طرف،ان سب اسباب نے مجموعى طور پر اس ماحول پر گہرے اثرات ڈالے اور فرعون كے بارے ميں لوگوں كے افكار كو ڈانواں ڈول

____________________

()اعراف آيت ۱۳۴

(۲)سورہ اعراف ايت ۱۳۵

۳۴۴

كرديا اور انھيں پورے مذہبى اور معاشرتى نظام كے بارے ميں سوچنے پر مجبور كرديا_

اس موقع پر فرعون نے دھوكہ دھڑى كے ذريعہ موسى عليہ السلام كا اثر مصرى لوگوں كے ذہن سے ختم كرنے كى كوشش كى اور پست اقدار كا سہارا ليا جو اس ماحول پر حكم فرماتھا، انھيں اقدار كے ذريعہ اپنا اور موسى عليہ السلام كا موازنہ شروع كرديا تا كہ اس طرح لوگوں پر اپنى برترى كو پايہ ثبوت تك پہنچائے، جيسا كہ قرآن پاك فرماتا ہے:

''اور فرعون نے اپنے لوگوں كو پكار كر كہا:اے ميرى قوم آيا مصر كى وسيع و عريض سر زمين پر ميرى حكومت نہيں ہے اور كيا يہ عظيم دريا ميرے حكم سے نہيں بہہ رہے ہيں اور ميرے محلوں ،كھيتوں اور باغوں سے نہيں گررہے ہيں ؟كيا تم ديكھتے نہيں ہو؟''(۱)

ليكن موسى عليہ السلام كے پاس كيا ہے،كچھ بھى نہيں ، ايك لاٹھى اور ايك اونى لباس اور بس ،تو كيا اس كى شخصيت بڑى ہوگى يا ميري؟ آيا وہ سچ بات كہتا ہے يا ميں ؟اپنى آنكھيں كھولوں اور بات اچھى طرح سمجھنے كى كوشش كرو_ اس طرح فرعون نے مصنوعى اقدار كو لوگوں كے سامنے پيش كيا،بالكل ويسے ہى جيسے عصر جاہليت كے بت پرستوں نے پيغمبر اسلام (ص) كے مقابلے ميں مال و مقام كو صحيح انسانى اقدار سمجھ ركھا تھا_

لفظ''نادى ''(پكار كر كہا )سے معلوم ہوتا ہے كہ فرعون نے اپنى مملكت كے مشاہير كى ايك عظيم محفل جمائي اور بلند آواز كے ساتھ ان سب كو مخاطب كرتے ہوئے يہ جملے ادا كيے،يا حكم ديا كہ اس كى اس آواز كو ايك سركارى حكم نامے كے ذريعے پورے ملك ميں بيان كيا جائے_

قرآن آگے چل كر فرماتا ہے كہ فرعون نے كہا:''ميں اس شخص سے برتر ہوں جو ايك پست خاندان اور طبقے سے تعلق ركھتا ہے_اور صاف طور پر بات بھى نہيں كرسكتا''_(۲)

اس طرح سے اس نے اپنے لئے دو بڑے اعزازات(حكومت مصر اور نيل كى مملكت)اور موسى

____________________

(۱)سورہ زخرف آيت ۵۱

(۲)سورہ زخرف آيت ۵۲

۳۴۵

عليہ السلام كے دوكمزور پہلو(فقر اور لكنت زبان) بيان كرديئے_

حالانكہ اس وقت حضرت موسى عليہ السلام كى زبان ميں لكنت نہ تھي_كيونكہ خدا نے ان كى دعا كو قبول فرماليا تھا اور زبان كى لكنت كو دور كرديا تھا كيونكہ موسى عليہ السلام نے مبعوث ہوتے ہى خداسے يہ دعا مانگى تھى كہ _''خدا وندا ميرى زبان كى گرہيں كھول دے''_(۱) اور يقينا ان كى دعا قبول ہوئي اور قرآن بھى اس بات پر گواہ ہے_ بے پناہ دولت،فاخرہ لباس اور چكاچوند كرتے محلات،مظلوم طبقے پر ظلم و ستم كے ذريعے حاصل ہوتے ہيں _ ان كا مالك نہ ہونا صرف عيب كى بات ہى نہيں بلكہ باعث صدافتخار شرافت اور عزت كا سبب بھى ہے_

''مھين''(پست)كى تعبير سے ممكن ہے اس دور كے اجتماعى طبقات كى طرف اشارہ ہو، كيونكہ اس دور ميں بڑے بڑے سرمايہ داروں كا معاشرہ كے بلند طبقوں ميں شمار ہوتا تھا او رمحنت كشوں اور كم آمدنى والے لوگوں كا پست طبقے ميں ،يا پھر ممكن ہے موسى عليہ السلام كى قوم كى طرف اشارہ ہو كيونكہ ان كا تعلق بنى اسرائيل سے تھا اور فرعون كى قبطى قوم اپنے آپ كو سردار اور آقا سمجھتى تھي_ پھر فرعون دو اور بہانوں كا سہارا ليتے ہوئے كہتا ہے:''اسے سونے كے كنگن كيوں نہيں ديئے اور اس كے لئے مددگار كيوں نہيں مقرر كئے تاكہ وہ اس كى تصديق كريں ؟'' اگر خدا نے اسے رسول بنايا ہے تو دوسرے رسول كى طرح طلائي كنگن كيوں نہيں دئے گئے اور اس كے لئے مدد گار كيوں نہيں مقرر كئے گئے_

كہتے ہيں كہ فرعونى قوم كا عقيدہ تھا كہ روساء اور سر براہوں كو ہميشہ طلائي كنگنوں اور سونے كے ہاروں سے مزين ہونا چاہيئےور چونكہ موسى عليہ السلام كے پاس اس قسم كے زيورات نہيں تھے بلكہ ان زيورات كے بجائے وہ چرواہوں والا موٹا سا اونى كرتا زيب تن كئے ہوئے تھے،لہذا ان لوگوں نے اس بات پر تعجب كا اظہار كيا اور يہى حال ان لوگوں كا ہوتا ہے جو انسانى شخصيت كے پركھنے كا معيار سونا،چاندى اور دوسرے زيورات كو سمجھتے ہيں _

____________________

(۱)سورہ طہ آيت ۲۷

۳۴۶

جناب موسى اورہارون عليہما السلام كے اونى لباس

اس بارے ميں ايك نہايت عمدہ بيان آيا ہے ،امام على بن ابى طالب عليہما السلام فرماتے ہيں :موسى عليہ السلام اپنے بھائي(ہارون) كے ساتھ فرعون كے دربار ميں پہنچے دونوں كے بدن پراونى لباس اور ہاتھوں ميں عصا تھا اس حالت ميں انھوں نے شرط پيش كى كہ اگر فرمان الہى كے سامنے جھك جائے تو اس كى حكومت اور ملك باقى اور اقتدار قائم و برقرار رہے گا،ليكن فرعون نے حاضرين سے كہا:تمہيں ان كى باتوں پر تعجب نہيں ہوتا كہ ميرے ساتھ شرط لگا رہے ہيں كہ ميرے ملك كى بقا اور ميرى عزت كا دوام ان كى مرضى كے ساتھ وابستہ ہے جبكہ ان كا اپنا حال يہ ہے كہ فقر و تنگدستى ان كى حالت اور صورت سے ٹپك رہى ہے(اگر يہ سچ كہتے ہيں تو)خود انھيں طلائي كنگن كيوں نہيں ديئے گئے_

دوسرا بہانہ وہى مشہور بہانہ ہے جو بہت سى گمراہ اور سركش امتيں انبياء كرام عليہم السلام كے سامنے پيش كيا كرتى تھيں ،كبھى تو كہتى تھيں كہ''وہ انسان كيوں ہے اور فرشتہ كيوں نہيں ؟اور كبھى كہتى تھى كہ اگر وہ انسان ہے تو پھر كم از كم اس كے ہمراہ كوئي فرشتہ كيوں نہيں آيا؟''

حالانكہ انسانوں كى طرف بھيجے ہوئے رسولوں كوروح انسانى كا حامل ہونا چاہئے تا كہ وہ ان كى ضرورتوں ،مشكلوں اور مسائل كو محسوس كرسكيں اور انہيں ان كا جواب دے سكيں اور عملى لحاظ سے ان كے لئے نمونہ اور اسوہ قرار پاسكيں _

چوتھا مرحلہ انقلاب كى تياري

حضرت موسى عليہ السلام ميدان مقابلہ ميں فرعون پر غالب آگئے اور سرخرو اور سرفراز ہوكر ميدان سے باہر آئے اگر چہ فرعون اور اس كے تمام دربارى ان پر ايمان نہ لائے ليكن اس كے چند اہم نتائج ضرور برآمد ہوئے،جن ميں سے ہر ايك اہم كاميابى شمار ہوتا ہے_

۱_بنى اسرائيل كا اپنے رہبر اور پيشوا پر عقيدہ مزيد پختہ ہوگيا اور انھيں مزيد تقويت مل گئي چنانچہ ايك

۳۴۷

دل اور ايك جان ہو كر ان كے گرد جمع ہوگئے كيونكہ انھوں نے سالہا سال كى بدبختى اور دربدر كى ٹھوكريں كھانے كے بعد اب اپنے اندر كسى آسمانى پيغمبر كو ديكھا تھا جو كہ ان كى ہدايت كابھى ضامن تھا اور ان كے انقلاب،آزادى اور كاميابى كا بھى رہبر تھا_

۲_موسى عليہ السلام نے مصريوں اور قبطيوں تك كے درميان ايك اہم مقام حاصل كرليا_ كچھ لوگ ان كى طرف مائل ہوگئے اور جو مائل نہيں ہوئے تھے وہ كم ازكم كم ان كى مخالفت سے ضرور گھبراتے تھے اور جناب موسى عليہ السلام كى صدائے دعوت تمام مصر ميں گونجنے لگي_

۳_سب سے بڑھ كر يہ كہ فرعون عوامى افكار اور اپنى جان كو لاحق خطرے سے بچائو كے لئے اپنے اندر ايسے شخص كے ساتھ مقابلے كى طاقت كھوچكا تھا جس كے ہاتھ ميں اس قسم كا عصا اور منہ ميں اس طرح كى گويا زبان تھي_

مجموعى طور پر يہ امور موسى عليہ السلام كے لئے اس حد تك زمين ہموار كرنے ميں معاون ثابت ہوئے كہ مصريوں كے اندر ان كے پائوں جم گئے اور انھوں نے كھل كر اپنا تبليغى فريضہ انجام ديا اور اتمام حجت كي_

قرآن ميں فرعونيوں كے خلاف بنى اسرائيل كے قيام اور انقلاب كا ايك اور مرحلہ بيان كيا گيا ہے_پہلى بات يہ ہے كہ خدا فرماتا ہے:''ہم نے موسى اور اس كے بھائي كى طرف وحى كى كہ سرزمين مصر ميں اپنى قوم كے لئے گھروں كا انتخاب كرو''_(۱)

''اور خصوصيت كے ساتھ ان گھروں كو ايك دوسرے كے قريب اور آمنے سامنے بنائو''_(۲)

پھر روحانى طور پر اپنى خود سازى اور اصلاح كرو''اور نماز قائم كرو_''اس طرح سے اپنے نفس كو پاك اور قوى كرو_(۳)

____________________

(۱)سورہ يونس آيت۸۷

(۲)سورہ يونس آيت۸۷

(۳)سورہ يونس آيت۸۷

۳۴۸

اور اس لئے كہ خوف اور وحشت كے آثار ان كے دل سے نكل جائيں اور وہ روحانى و انقلابى قوت پاليں ''مومنين كوبشارت دو''كاميابى اور خدا كے لطف و رحمت كى بشارت_(۱)

زير بحث آيات كے مجموعى مطالعے سے معلوم ہوتا ہے كہ اس زمانے ميں بنى اسرائيل منتشر،شكست خوردہ،وابستہ،طفيلي،آلودہ اور خوف زدہ گروہ كى شكل ميں تھے،نہ ان كے پاس گھر تھے نہ كوئي مركز تھا،نہ ان كے پاس معنوى اصلاح كا كوئي پروگرام تھا اور نہ ہى ان ميں اس قدر شجاعت،عزم اور حوصلہ تھا جو شكست دينے والے انقلاب كے لئے ضرورى ہوتا ہے_لہذا حضرت موسى عليہ السلام اور ان كے بھائي حضرت ہارون عليہ السلام كو حكم ملاكہ وہ بنى اسرائيل كى مركزيت كے لئے خصوصاً روحانى حوالے سے چند امور پر مشتمل پروگرام شروع كريں _

۱_مكان تعمير كريں اور اپنے مكانات فرعونيوں سے الگ بنائيں _ اس ميں متعدد فائدے تھے_

ايك يہ كہ سرزمين مصر ميں ان كے مكانات ہوں گے تو وہ اس كا دفاع زيادہ لگائو سے كريں گے_

دوسرا يہ كہ قبطيوں كے گھروں ميں طفيلى زندگى گزارنے كے بجائے وہ اپنى ايك مستقل زندگى شروع كرسكيں گے_

تيسرا يہ كہ انكے معاملات اور تدابير كے راز دشمنوں كے ہاتھ نہيں لگيں گے_

۲_اپنے گھر ايك دوسرے كے آمنے سامنے اور قريب قريب بنائيں ،بنى اسرائيل كى مركزيت كے لئے يہ ايك موثر كام تھا اس طرح سے وہ اجتماعى مسائل پر مل كر غور فكر كرسكتے تھے اور مذہبيمراسم كے حوالے سے جمع ہوكر اپنى آزادى كے لئے ضرورى پروگرام بنا سكتے تھے_

۳_عبادت كى طرف متوجہ ہوں ،خصوصاً نماز كى طرف كہ جو انسان كو بندوں كى بندگى سے جدا كرتى ہے اور اس كا تعلق تمام قدرتوں كے خالق سے قائم كرديتى ہے_ اس كے دل اور روح كو گناہ كى آلودگى سے

____________________

(۱)سورہ يونس آيت ۸۷

۳۴۹

پاك كرتى ہے اپنے آپ پر بھروسہ كرنے كا احساس زندہ كرتى ہے اورقدرت پروردگار كا سہارا لے كر انسانى جسم ميں ايك تازہ روح پھونك ديتى ہے_

۴_ايك رہبر كے طور پر حضرت موسى عليہ السلام كو حكم ديا گيا ہے كہ وہ بنى اسرائيل كى روحوں ميں موجود طويل غلامى اور ذلت كے دور كا خوف ووحشت نكال باہر پھينكيں اور حتمى فتح ونصرت،كاميابى اور پروردگار كے لطف وكرم كى بشارت دے كر مومنين كے ارادے كو مضبوط كريں اور ان ميں شہامت و شجاعت كى پرورش كريں _

اس روش كو كئي سال گزر گئے اور اس دوران ميں موسى عليہ السلام نے اپنے منطقى دلائل كے ساتھ ساتھ انھيں كئي معجزے بھى دكھائے _

ہم نے انھيں باہر نكال ديا

جب موسى عليہ السلام ان لوگوں پر اتمام حجت كرچكے اور مومنين ومنكرين كى صفيں ايك دوسرے سے جدا ہوگئيں تو موسى عليہ السلام نے بنى اسرائيل كے كوچ كرنے كا حكم دے ديا گيا، چنانچہ قرآن نے اس كى اسطرح منظر كشى كى _

سب سے پہلے فرمايا گياہے:''ہم نے موسى پر وحى كى كہ راتوں رات ميرے بندوں كو(مصر سے باہر)نكال كرلے جائو،كيونكہ وہ تمہارا پيچھا كرنے والے ہيں ''_(۱)

موسى عليہ السلام نے اس حكم كى تعميل كى اور دشمن كى نگاہوں سے بچ كر بنى اسرائيل كو ايك جگہ اكٹھا كرنے كے بعد كوچ كا حكم ديا اور حكم خدا كے مطابق رات كو خصوصى طور پر منتخب كيا تاكہ يہ منصوبہ صحيح صورت ميں تكميل كو پہنچے_

ليكن ظاہر ہے كہ اتنى بڑى تعداد كى روانگى ايسى چيز نہيں تھى جو زيادہ دير تك چھپى رہ جاتي_ جاسوسوں

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۵۲

۳۵۰

نے جلد ہى اس كى رپورٹ فرعون كو دے دى اور جيسا كہ قرآن كہتا ہے:'' فرعون نے اپنے كارندے مختلف شہروں ميں روانہ كرديئے تا كہ فوج جمع كريں ''_(۱)

البتہ اس زمانے كے حالات كے مطابق فرعون كا پيغام تمام شہروں ميں پہنچانے كے لئے كافى وقت كى ضرورت تھى ليكن نزديك كے شہروں ميں يہ اطلاع بہت جلد پہنچ گئي اور پہلے سے تيار شدہ لشكر فوراً حركت ميں آگئے اور مقدمة الجيش اور حملہ آور لشكر كى تشكيل كى گئي اور دوسرے لشكر بھى آہستہ آہستہ ان سے آملتے رہے_

ساتھ ہى لوگوں كے حوصلے بلند ركھنے اور نفسياتى اثر قائم ركھنے كے لئے اس نے حكم ديا كہ اس بات كا اعلان كرديا جائے كہ''وہ تو ايك چھوٹا سا گروہ ہے''_(۲) (تعداد كے لحاظ سے بھى كم اور طاقت كے لحاظ سے بھى كم)_

لہذا اس چھوٹے سے كمزور گروہ كے مقابلے ميں ہم كامياب ہوجائيں گے گھبرانے كى كوئي بات نہيں _كيونكہ طاقت اور قوت ہمارے پاس زيادہ ہے لہذا فتح بھى ہمارى ہى ہوگي_

فرعون نے يہ بھى كہا:'' آخر ہم كس حد تك برداشت كريں اور كب تك ان سركش غلاموں كے ساتھ نرمى كا برتائو كرتے رہيں ؟انھوں نے تو ہميں غصہ دلايا ہے''_(۳)

آخر كل مصر كے كھيتوں كى كون آبپاشى كرے گا؟ہمارے گھر كون بنائے گا؟اس وسيع و عريض مملكت كا كون لوگ بوجھ اٹھائيں گے؟اور ہمارى نوكرى كون كرے گا؟

اس كے علاوہ'' ہميں ان لوگوں كى سازشو ں سے خطرہ ہے(خواہ وہ يہاں رہيں يا كہيں اور چلے جائيں )اور ہم ان سے مقابلہ كے لئے مكمل طور پر آمادہ اور اچھى طرح ہوشيار ہيں ''_(۴)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۵۳

(۲)سورہ شعراء آيت ۵۴

(۳)سورہ شعراء آيت۵۵

(۴)سورہ شعراء آيت ۵۶

۳۵۱

پھر قرآن پاك فرعونيوں كے انجام كا ذكر كرتا ہے اور اجمالى طور پر ان كى حكومت كے زوال اور بنى اسرائيل كے اقتدار كو بيان كرتے ہوئے كہتا ہے:''ہم نے انھيں سر سبز باغات اور پانى سے لبريز چشموں سے باہر نكال ديا''_(۱) خزانوں ،خوبصورت محلات اور آرام و آسائش كے مقامات سے بھى نكال ديا_

ہاں ہاں ہم نے ايسا ہى كيا اور بنى اسرائيل كو بغير كسى مشقت كے يہ سب كچھ دےديا اور انھيں فرعون والوں كا وارث بناديا_(۲)(۳)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۵۷تا۵۹

(۲)سورہ شعراء ايت ۵۹

(۳)آيا بنى اسرائيل نے مصر ميں حكومت كى ہے؟

خدا وند عالم قران مجيد ميں فرماتا ہے كہ ہم نے بنى اسرائيل كو فرعون والوں كا وارث بنايا_ اسى تعبير كى بناء پر بعض مفسرين كى يہ رائے ہے كہ بنى اسرائيل كے افراد مصر كى طرف واپس لوٹ آئے اور زمام حكومت و اقتدار اپنے قبضے ميں لے كر مدتوں وہاں حكومت كرتے رہے_

آيات بالا كا ظاہرى مفہوم بھى اسى تفسير سے مناسبت ركھتا ہے_

جبكہ بعض مفسرين كى رائے يہ ہے كہ وہ لوگ فرعونيوں كى ہلاكت كے بعد مقدس سرزمينوں كى طرف چلے گئے البتہ كچھ عرصے كے بعد مصر واپس آگئے اور وہاں پر اپنى حكومت تشكيل دي_ تفسير كے اسى حصے كے ساتھ موجودہ توريت كى فصول بھى مطابقت ركھتى ہيں _

بعض دوسرے مفسرين كا خيال ہے كہ بنى اسرائيل دوحصوں ميں بٹ گئے_ايك گروہ مصر ميں رہ گيا اور وہيں پر حكومت كى اور ايك گروہ موسى عليہ السلام كے ساتھ سر زمين مقدس كى طرف روانہ ہو گيا_ يہ احتمال بھى ذكر كيا گيا ہے كہ بنى اسرائيل كے وارث ہونے سے مراد يہ ہے كہ انھوں نے حضرت موسى عليہ السلام كے بعد اور جناب حضرت سليمان عليہ السلام كے زمانے ميں مصر كى وسيع و عريض سر زمين پر حكومت كي_ ليكن اگر اس بات پر غور كيا جائے كہ حضرت موسى عليہ السلام چونكہ انقلابى پيغمبر تھے لہذا يہ بات بالكل بعيد نظر آتى ہے كہ وہ ايسى سر زمين كو كلى طور پر خير باد كہہ كر چلے جائيں جس كى حكومت مكمل طور پر انھيں كے قبضہ اور اختيارميں آچكى ہو اور وہ وہاں كے بارے ميں كسى قسم كا فيصلہ كئے بغير بيابانوں كى طرف چل ديں خصوصاً جب كہ لاكھوں بنى اسرائيلى عرصہ دراز سے وہاں پر مقيم بھى تھے اور وہاں كے ماحول سے اچھى طرح واقف بھى تھے_ بنابريں يہ كيفيت دوحال سے خالى نہيں يا تو تمام بنى اسرائيلى مصر ميں واپس لوٹ آئے اور حكومت تشكيل دي،يا كچھ لوگ جناب موسى عليہ السلام كے حكم كے مطابق وہيں رہ گئے تھے اور حكومت چلاتے رہے اس كے علاوہ فرعون او رفرعون والوں كے باہر نكال دينے او ربنى اسرائيل كو ان كا وارث بنادينے كا اور كوئي واضح مفہوم نہيں ہوگا_

۳۵۲

فرعونيوں كا درناك انجام

قرآن ميں حضرت موسى عليہ السلام اور فرعون كى داستان كا آخرى حصہ پيش كيا گيا ہے كہ فرعون اور فرعون والے كيونكر غرق ہوئے اور بنى اسرائيل نے كس طرح نجات پائي؟ جيسا كہ ہم گزشتہ ميں پڑھ چكے ہيں كہ فرعون نے اپنے كارندوں كو مصر كے مختلف شہروں ميں بھيج ديا تاكہ وہ بڑى تعداد ميں لشكر اور افرادى قوت جمع كرسكيں چنانچہ انھوں نے ايسا ہى كيا اور مفسرين كى تصريح كے مطابق فرعون نے چھ لاكھ كا لشكر مقدمہ الجيش كى صورت ميں بھيج ديا اور خود دس لاكھ كے لشكر كے ساتھ ان كے پيچھے پيچھے چل ديا _

سارى رات بڑى تيزى كے ساتھ چلتے رہے اورطلوع آفتاب كے ساتھ ہى انھوں نے موسى عليہ السلام كے لشكر كو پاليا، چنانچہ اس سلسلے كى پہلى آيت ميں فرمايا گيا ہے : فرعونيووں نے ان كا تعاقب كيا اور طلوع آفتاب كے وقت انھيں پاليا_

''جب دونوں گروہوں كا آمناسامنا ہوا تو موسى عليہ السلام كے ساتھى كہنے لگے اب تو ہم فرعون والوں كے نرغے ميں آگئے ہيں اور بچ نكلنے كى كوئي راہ نظر نہيں آتى ''_(۱)

ہمارے سامنے دريا اور اس كى ٹھاٹھيں مارتى موجيں ہيں ، ہمارے پيچھے خونخوارمسلح لشكر كا ٹھاٹھيں مارتا سمندر ہے لشكر بھى ايسے لوگوں كا ہے جو ہم سے سخت ناراض اور غصے سے بھرے ہوئے ہيں ، جنھوں نے اپنى خونخوارى كا ثبوت ايك طويل عرصے تك ہمارے معصوم بچوں كو قتل كركے ديا ہے اور خود فرعون بھى بہت بڑا مغرور،ظالم اور خونخوار شخص ہے لہذا وہ فوراً ہمارا محاصرہ كركے ہميں موت كے گھاٹ اتارديں گے ياقيدى بنا كر تشدد كے ذريعے ہميں واپس لے جائيں گے قرائن سے بھى ايسا ہى معلوم ہورہا تھا _

____________________

(۱) سورہ شعراء آيت۶۱

۳۵۳

اپنے عصا كو دريا پر ماردو

اس مقام پر بنى اسرائيل پر كرب و بے چينى كى حالت طارى ہوگئي اور ان كا ايك ايك لمحہ كرب واضطراب ميں گزر نے لگا يہ لمحات ان كے لئے زبردست تلخ تھے شايد بہت سے لوگوں كا ايما ن بھى متزلزل ہوچكا تھا اور بڑى حدتك ان كے حوصلے پست ہوچكے تھے _

ليكن جناب موسى عليہ السلام حسب سابق نہايت ہى مطمئن اور پر سكون تھے انھيں يقين تھا كہ بنى اسرائيل كى نجات اورسركش فرعونيوں كى تباہى كے بارے ميں خدا كا فيصلہ اٹل ہے اور وعدہ يقينى ہے _

لہذا انھوں نے مكمل اطمينان اور بھرپور اعتمادكے ساتھ بنى اسرائيل كى وحشت زدہ قوم كى طرف منہ كركے كہا: ''ايسى كوئي بات نہيں وہ ہم پر كبھى غالب نہيں آسكيں گے كيونكہ ميرا خدا ميرے ساتھ ہے اور وہ بہت جلدى مجھے ہدايت كرے گا ''_(۱)

اسى موقع پر شايد بعض لوگوں نے موسى كى باتو ں كو سن تو ليا ليكن انھيں پھر بھى يقين نہيں آرہا تھا اور وہ اسى طرح زندگى كے آخرى لمحات كے انتظار ميں تھے كہ خدا كا آخرى حكم صادر ہوا، قرآن كہتا ہے :'' ہم نے فوراً موسى كى طرف وحى بھيجى كہ اپنے عصا كودريا پرمارو''_(۲)

وہى عصاجو ايك دن تو ڈرانے كى علامت تھا اور آج رحمت اور نجات كى نشانى _

موسى عليہ السلام نے تعميل حكم كى اور عصا فوراًدرياپر دے مارا تو اچانك ايك عجيب وغريب منظر ديكھنے ميں آيا جس سے بنى اسرائيل كى آنكھيں چمك اٹھيں اور ان كے دلو ں ميں مسرت كى ايك لہردوڑگئي، ناگہانى طور پر دريا پھٹ گيا، پانى كے كئي ٹكڑے بن گئے اور ہر ٹكڑا ايك عظيم پہاڑ كى مانند بن گيا اور ان كے درميان ميں راستے بن گئے_(۳)

بہرحال جس كا فرمان ہر چيز پر جارى اور نافذ ہے اگر پانى ميں طغيانى آتى ہے تو اس كے حكم سے اور

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۶۲

(۲)سورہ شعراء آيت۶۳

(۳)سورہ شعراء آيت ۶۳

۳۵۴

اگر طوفانوں ميں حركت آتى ہے تو اس كے امر سے ، وہ خدا كہ :

نقش ہستى نقشى ازايوان

اوست آب وبادوخاك سرگردان اوست

اسى نے دريا كى موجوں كو حكم ديا امواج دريا نے اس حكم كو فورا ًقبول كياايك دوسرے پر جمع پرہوگئيں اور ان كے درميان كئي راستے بن گئے اور بنى اسرائيل كے ہر گروہ نے ايك ايك راستہ اختيار كرليا _

فرعون اور اس كے ساتھى يہ منظر ديكھ كر حيران وششد ررہ گئے،اس قدر واضح اور آشكار معجزہ ديكھنے كے باوجود تكبر اور غرور كى سوارى سے نہيں اترے، انھوں نے موسى عليہ السلام اور بنى اسرائيل كا تعاقب جارى ركھا اور اپنے آخرى انجام كى طرف آگے بڑھتے رہے جيسا كہ قرآن فرماتاہے :''اور وہاں پر دوسرے لوگوں كو بھى ہم نے نزديك كرديا''_

اس طرح فرعونى لشكر دريائي راستوں پر چل پڑے اور وہ لوگ اپنے ان پرانے غلاموں كے پيچھے دوڑتے رہے جنھوں نے اب اس غلامى كى زنجيريں توڑدى تھيں ليكن انھيں يہ معلوم نہيں تھا كہ يہ ان كى زندگى كے آخرى لمحات ہيں اور ابھى عذاب كا حكم جارى ہونے والا ہے _

قرآن كہتا ہے :''ہم نے موسى اور ان تمام لوگوں كو نجات دى جوان كے ساتھ تھے _''(۱)

ٹھيك اس وقت جبكہ بنى اسرائيل كا آخرى فرددريا سے نكل رہا تھا اور فرعونى لشكر كا آخرى فرد اس ميں داخل ہورہاتھا ہم نے پانى كو حكم ديا كہ اپنى پہلى حالت پر لوٹ ا،اچانك موجيں ٹھاٹھيں مارنے لگيں اور فرغون اور اس كے لشكر كو گھاس پھونس اور تنكوں كى طرح بہاكرلے گئيں اور صفحہ ہستى سے ان كانام ونشان تك مٹاديا _

قرآن نے ايك مختصرسى عبارت كے ساتھ يہ ماجرايوں بيان كيا ہے : پھر ہم نے دوسروں كو غرق كرديا_''(۲)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۶۵

(۲)سورہ شعراء آيت ۶۶

۳۵۵

اے فرعون تيرا بدن لوگوں كے لئے عبرتناك ہوگا

بہر كيف يہ معاملہ چل رہا تھا '' يہاں تك كہ فرعون غرقاب ہونے لگا اور وہ عظيم دريائے نيل كى موجوں ميں تنكے كى طرح غوطے كھانے لگا تو اس وقت غرور وتكبر اور جہالت وبے خبرى كے پردے اس كى آنكھوں سے ہٹ گئے اور فطرى نور توحيد چمكنے لگا وہ پكاراٹھا :'' ميں ايمان لے آيا كہ اس كے سوا كوئي معبود نہيں كہ جس پر بنى اسرائيل ايمان لائے ہيں ''_(۱)

كہنے لگا كہ نہ صرف ميں اپنے دل سے ايمان لايا ہوں '' بلكہ عملى طور پر بھى ايسے توانا پروردگار كے سامنے سرتسليم خم كرتا ہوں ''_(۲)

درحقيقت جب حضرت موسى كى پيشين گوئياں يكے بعد ديگرے وقوع پذير ہوئيں اور فرعون اس عظيم پيغمبر كى گفتگو كى صداقت سے آگاہ ہوا اور اس كى قدر ت نمائي كامشاہدہ كيا تو اس نے مجبوراً اظہار ايمان كيا، اسے اميد تھى كہ جيسے ''بنى اسرائيل كے خدا'' نے انھيں كوہ پيكر موجوں سے سے نجات بخشى ہے اسے بھى نجات دے گا، لہذا وہ كہنے لگاميں اسى بنى اسرائيل كے خدا پر ايمان لايا ہوں ، ليكن ظاہر ہے كہ ايسا ايمان جو نزول بلا اور موت كے چنگل ميں گرفتار ہونے كے وقت ظاہر كيا جائے، در حقيقت ايك قسم كا اضطرارى ايمان ہے، جس كا اظہار سب مجرم اور گناہگار كرتے ہيں ، ايسے ايمان كى كوئي قدر و قيمت نہيں ہوتي، اور نہ يہ حسن نيت اور صدق گفتار كى دليل ہوسكتا ہے_

اسى بنا پر خدا وندعالم نے اسے مخاطب كرتے ہوئے فرمايا:'' تو اب ايمان لايا ہے حالانكہ اس سے پہلے تو نافرمانى اورطغيان كرنے والوں ، مفسدين فى الارض اور تباہ كاروں كى صف ميں تھا''(۳)

''ليكن آج ہم تيرے بدن كو موجوں سے بچاليں گے تاكہ تو آنے والوں كے لئے درس عبرت ہو، برسراقتدار مستكبرين كے لئے، تمام ظالموں اور مفسدوں كےلئے اور مستضعف گروہوں كے لئے بھى ''

____________________

(۱)سورہ يونس آيت ۹۰

(۲)سورہ يونس آيت ۹۰

(۳)سورہ يونس آيت ۹۰

۳۵۶

يہ كہ''بدن سے مراد يہاں كيا ہے ،اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے ان ميں سے اكثر كا نظريہ ہے كہ اس سے مراد فرعون كا بے جان جسم ہے كيونكہ اس ماحول كے لوگوں كے ذہن ميں فرعون كى اس قدر عظمت تھى كہ اگر اس كے بدن كو پانى سے باہرنہ اچھالاجاتاتو بہت سے لوگ يقين ہى نہ كرتے كہ اس كا غرق ہونا بھى ممكن ہے اور ہوسكتا تھا كہ اس ماجرے كے بعد فرعون كى زندگى كے بارے ميں افسانے تراش لئے جاتے _

يہ امر جاذب توجہ ہے كہ لغت ميں لفظ '' بدن'' جيسا كہ راغب نے مفردات ميں كہا ہے '' جسد عظيم'' كے معنى ميں ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ بہت سے خوشحال لوگوں كى طرح كہ جنكى بڑى زرق برق افسانوى زندگى تھى وہ بڑا سخت اور چاك وچوبند تھا مگر بعض دوسرے افراد نے كہاہے كہ''بدن'' كا ايك معني'' زرہ'' بھى ہے يہ اس طرف اشارہ ہے كہ خدا نے فرعون كو اس زريں زرہ سميت پانى سے باہر نكالاكہ جو اس كے بدن پر تھى تاكہ اس كے ذريعے پہچاناجائے اور كسى قسم كا شك وشبہ باقى نہ رہے _

اب بھى مصر اور برطانيہ كے عجائب گھروں ميں فرعونيوں كے موميائي بد ن موجود ہيں كيا ان ميں حضرت موسى عليہ السلام كے ہم عصر فرعون كا بدن بھى ہے كہ جسے بعد ميں حفاظت كے لئے مومياليا گيا ہويا نہيں ؟ اس سلسلے ميں كوئي صحيح دليل ہمارے پاس نہيں ہے _

بنى اسرائيل كى گذرگاہ

قرآن مجيد ميں بارہا اس بات كو دہرايا گيا ہے كہ موسى عليہ السلام نے خدا كے حكم سے بنى اسرائيل كو'' بحر'' عبور كروايا اورچند مقامات پر''يم'' كا لفظ بھى ايا ہے _

اب سوال يہ ہے كہ يہاں پر ''يم'''' بحر'' اور '' يم'' سے كيا مراد ہے آيايہ نيل ( NILE RIYER ) جيسے وسيع وعريض دريا كى طرف اشارہ ہے كہ سرزمين مصر كى تمام آبادى جس سے سيراب ہوتى تھى يا بحيرہ احمريعنى بحر قلزم ( RID SEA )كى طرف اشارہ ہے _

۳۵۷

موجودہ تو ريت اور بعض مفسرين كے انداز گفتگو سے معلوم ہوتاہے كہ بحيرہ احمر كى طرف اشارہ ہے ليكن ايسے قرائن موجود ہيں جن سے معلوم ہوتا ہے كہ اس سے مراد نيل كا عظيم ووسيع دريا ہے _

حضرت موسى عليہ السلام سے بت سازى كى فرمائش

قرآن ميں بنى اسرائيل كى سرگزشت كے ايك اور اہم حصہ كى طرف اشارہ كيا گيا ہے يہ واقعہ فرعونيوں پر ان كى فتحيابى كے بعد ہوا، اس واقعہ سے بت پرستى كى جانب ان كى توجہ ظاہر ہوتى ہے _

واقعہ يہ ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام فرعون كے جھگڑے سے نكل چكے تو ايك اور داخلى مصيبت شروع ہوگئي جو بنى اسرائيل كے جاہل ، سركش اور فرعون اور فرعونيوں كے ساتھ جنگ كرنے سے بدر جہا سخت اور سنگين تر تھى اور ہر داخلى كشمكش كا يہى حال ہواكرتا ہے _قرآن ميں فرماياگيا ہے:'' ہم نے بنى اسرائيل كو دريا (نيل) كے اس پار لگا ديا :''

ليكن '' انہوں نے راستے ميں ايك قوم كو ديكھا جو اپنے بتوں كے گرد خضوع اور انكسارى كے ساتھ اكٹھا تھے'' _(۱) امت موسى عليہ السلام كے جاہل افراد يہ منظر ديكھ كر اس قدر متاثر ہوئے كہ فوراً حضرت موسى كے پاس آئے اور '' وہ كہنے لگے اے موسى ہمارے واسطے بھى بالكل ويسا ہى معبود بنادو جيسا معبود ان لوگوں كا ہے''_(۲) حضرت موسى عليہ السلام ان كى اس جاہلانہ اور احمقانہ فرمائش سے بہت ناراض ہوئے ، آپ نے ان لوگوں سے كہا: ''تم لوگ جاہل وبے خبر قوم ہو''_(۳)

بنى اسرائيل ميں ناشكر گزار افراد كى كثرت تھي،باوجود يكہ انہوں نے حضرت موسى عليہ السلام سے اتنے معجزے ديكھے، قدرت كے اتنے انعامات ان پر ہوئے، ان كا دشمن فرعون نابود ہوا ابھى كچھ عرصہ بھى نہيں گذرا تھا، وہ غرق كرديا گيا اور وہ سلامتى كے ساتھ دريا كو عبور كرگئے ليكن انہوں نے ان تمام باتوں كو يكسر بھلاديا اور حضرت موسى عليہ السلام سے بت سازى كا سوال كربيٹھے_

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۳۸

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۳۸

(۳)سورہ اعراف ۱۳۸

۳۵۸

ايك يہودى كو حضرت اميرالمومنين عليہ السلام كا جواب

نہج البلاغہ ميں ہے كہ ايك مرتبہ ايك يہودى نے حضرت اميرالمو منين عليہ السلام كے سامنے مسلمانوں پر اعتراض كيا:

''ابھى تمہارے نبى دفن بھى نہ ہونے پائے تھے كہ تم لوگوں نے اختلاف كرديا ''_

حضرت على عليہ السلام نے اس كے جواب ميں فرمايا :

ہم نے ان فرامين واقوال كے بارے ميں اختلاف كيا ہے جو پيغمبر سے ہم تك پہنچے ہيں ، پيغمبريا ان كى نبوت سے متعلق ہم نے كوئي اختلاف نہيں كيا (چہ جائيكہ الوہيت كے متعلق ہم نے كوئي بات كہى ہو)ليكن تم (يہودي) ابھى تمہارے پير دريا كے پانى سے خشك نہيں ہونے پائے تھے كہ تم نے اپنے نبى (حضرت موسى عليہ السلام) سے يہ كہہ ديا كہ ہمارے لئے ايك ايسا ہى معبود بنادو جس طرح كہ ان كے متعدد معبود ہيں ، اور اس نبى نے تمہارے جواب ميں تم سے كہا تھا كہ تم ايك ايسا گروہ ہوجو جہل كے دريا ميں غوطہ زن ہے _

حضرت موسى عليہ السلام نے اپنى بات كى تكميل كے لئے بنى اسرائيل سے كہا: ''اس بت پرست گروہ كو جو تم ديكھ رہے ہو ان كا انجام ہلاكت ہے اور ان كاہر كام باطل وبے بنيادہے ''_(۱)

اس كے بعد مزيد تاكيد كے لئے فرمايا گيا ہے : ''آيا خدائے برحق كے علاوہ تمہارے لئے كوئي دوسرا معبود بنالوں ، وہى خدا جس نے اہل جہان (ہمعصر لوگوں )پر تم كو فضيلت دى ''_(۲)

اس كے بعد خداوند كريم اپنى نعمتوں ميں سے ايك بڑى نعمت كا ذكر فرماتا ہے جو اس نے بنى اسرائيل كوعطا فرمائي تھى تاكہ اس عظيم نعمت كا تصور كركے ان ميں شكر گزارارى كا جذبہ بيدار ہواور انہيں يہ احساس ہوكہ پرستش اور سجدے كا مستحق صرف خدائے يكتا ويگانہ ہے، اور اس بت كى كوئي دليل نہيں پائي جاتى كہ جو بت بے نفع اور بے ضرر ہيں ان كے سامنے سر تعظيم جھكايا جائے _

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۳۹

(۲)سورہ اعراف۱۴۰

۳۵۹

پہلے ارشاد ہوتا ہے :'' ياد كرو اس وقت كو جب كہ ہم نے تمہيں فرعون كے گروہ كے شرسے نجات ديدي، وہ لوگ تم كو مسلسل عذاب ديتے چلے آرہے تھے ''_(۱)

اس كے بعد اس عذاب وايزارسانى كى تفصيل يوں بيان فرماتاہے:وہ تمہارے بيٹوں كو تو قتل كرديتے تھے اور تمہارى عورتوں لڑكيوں كو (خدمت اور كنيزى كے لئے ) زندہ چھوڑديتے تھے'' _(۲)

بنى اسرائيل سر زمين مقدس كى طرف

قران ميں اس كے بعد سرزمين مقدس ميں بنى اسرائيل كے ورود كے بارے ميں يوں بيان كيا گيا ہے:'' موسى عليہ السلام نے اپنى قوم سے كہا كہ تم سرزمين مقدس ميں جسے خدا نے تمہارے لئے مقرر كيا ہے_داخل ہوجائو، اس سلسلے ميں مشكلات سے نہ ڈرو، فدا كارى سے منہ نہ موڑو اور اگر تم نے اس حكم سے پيٹھ پھيرى تو خسارے ميں رہوگے ''_(۳)

ارض مقدسہ سے كيا مراد ہے اس، اس سلسلے ميں مفسرين نے بہت كچھ كہا ہے، بعض بيت المقدس كہتے ہيں كچھ اردن يا فلسطين كانام ليتے ہيں اور بعض سرزمين طور سمجھتے ہيں ، ليكن بعيد نہيں كہ اس سے مراد منطقہ شامات ہو، جس ميں تمام مذكورہ علاقے شامل ہيں _

كيونكہ تاريخ شاہد ہے كہ يہ سارا علاقہ انبياء الہى كا گہوراہ، عظيم اديان كے ظہور كى زمين اور طول تاريخ ميں توحيد، خدا پرستى اور تعليمات انبياء كى نشرواشاعت كا مركزرہاہے_

لہذا اسے سرزمين مقدس كہاگيا ہے اگرچہ بعض اوقات خاص بيت المقدس كو بھى ارض مقدس كہاجاتاہے_

بنى اسرائيل نے اس حكم پر حضرت موسى عليہ السلام كو وہى جواب ديا جو ايسے موقع پر كمزور، بزدل اور جاہل لوگ ديا كرتے ہيں _

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۴۱

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۴۱

(۳)سورہ مائدہ آيت۲۱

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421