عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 13%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 421

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 421 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 208570 / ڈاؤنلوڈ: 8554
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

پہلی جلد

علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم:سید قلبی حسین رضوی

۳

خطوط اور مقدمے

کتاب عبدا للہ بن سبا کی علمی قدر و قیمت

ایک شیعہ دانشور محترم جناب شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

الازہر یونیورسٹی ، مصر کے مجلہ کا جواب

مباحث پر ایک نظر

سلسلہ مباحث کی پیدائش

۴

کتاب عبد اللہ بن سبا کی علمی قدرو قیمت

مصر کی الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر جناب ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کا خط

کتاب عبدالله بن سبا ، آخر میں دوسرے ایڈیشن کے عنوان سے مصر میں دوسری بار شائع ہوئی ہے،اس کتاب نے اہل سنت ممالک میں گہرا اثر ڈالا ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں خاص کر الازہر یونیورسٹی کے دانشوروں اور اساتذہ کی توجہ کا سبب بنی ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں میں غیر معمولی اثر ڈالا ہے ،مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی طرف سے مؤلف کو اس کتاب کو پسند کرنے کے سلسلہ میں کئی خطوط ملے ہیں ، ان میں سے ایک جناب ڈاکٹر حامدکا خط ہے ، وہ مصر کے ایک نامور دانشور ہیں ، جو کئی قابل قدر تحقیقی تالیفات کے مالک ہیں ۔

چونکہ یہ خط انصاف و عدالت کا ایک نمونہ اور تعصب اورہٹ دھرمی کی سرحدوں کو توڑنے والا ایک عنوانہے اس لئے ہم اسے ترجمہ کرکے شائع کرتے ہیں(۱)

____________________

۱۔ نشریہ سالانہ مکتب تشیع ۴/۳۰۲۔

۵

خط کا مضمون

تاریخ اسلام کی تیرہ صدیاں اختتام کو پہنچی ہیں ان تیرہ صدیوں کے دوران ہمارے دانشوروں کے ایک گروہ نے حتی الامکان شیعوں کے خلاف آواز اٹھائیہے اور حقائق کو اپنی نفسانی خواہشات سے مخلوط کیا ہے اس ناپسندیدہ روش کی وجہ سے اسلامی فرقوں کے د رمیان گہرے اختلافات پیدا ہوئے ہیں ، نتیجہ کے طورپر شیعہ دانشوروں کے فکر و اندیشہ کے گوہر کو حقیر سمجھا گیا ہے اسی روش کی بنا پر علمی دنیا کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

شیعہ دانشوروں کے افکار سے علم محروم رہا ہے کیونکہ دشمنوں نے شیعوں کے پا ک و صاف دامن کو داغدار بنا کر انھیں ایک توہمات و خرافات کے حامل گروہ کے طور پر پہچنوایا ہے ، بے شک ہم شیعوں کے صاف و شفاف علمی چشمہ زلال سے ایک گھونٹ پی سکتے تھے نیزاس مذہب کے سرمایہ سے فائدہ اٹھا سکتے تھے ، لیکن افسوس کہ ہمارے گزشتہ دانشوروں نے تعصب سے کام لیااور عقل کو ھوا و ہوس پر ترجیح نہیں دی ، اے کاش کہ وہ لوگ عقل کی پیروی کرتے اور جذبات کے کھلونے نہ بن تے !! جو کوئی تعصب کے عینک کو اتارکر فقہی مباحث کےلئے اقدام کرے اور فقہ مذاہب چہارگانہ پر تحقیق کرے ، وہ شیعہ فقہ سے بھی استفادہ کرنے پر مجبور ہے اور بے شک جب فقہ اہل سنت پرتحقیق کرے تو اس وقت شیعہ فقہ کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے اور اس سے آگاہ ہونا چاہئے ۔

۶

ہم کب تک خواب غفلت میں رہیں گے ؟! کیا فقہ شیعہ کے پرچم دار ،ا مام جعفر صادق علیہ السلام(۱) سنی مذہب کے دو امامو ں کے استاد نہیں تھے؟ یہ دو امام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مکتب میں زانوئے ادب تہہ کیا ہے ۔

ابو حنیفہ ، نعمان بن ثابت(۲) کہتے ہیں :

لولاالسنتان لهلک النعمان

اگر امام صادق علیہ السلام کے درس میں دو سال شرکت نہ کی ہوتی تو بے شک میں ہلاک ہوجاتا، اوردین سے منحرف ہوتا۔

اس کی مراد وہی دو سال ہیں جس میں انہوں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کے علم کے میٹھے اور زلالی چشمہ سے استفادہ کیا ہے ۔

اور یہ مالک بن انس ہیں جو واضح طور پر اعتراف کرتے ہیں :

ما رایت افقه من جعفر بن محمد

میں نے جعفر بن محمد سے فقیہ تر کسی کو نہیں د یکھا ہے(۳)

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ علم کے بارے میں صرف دور سے کچھ سننے والوں نے اپنے آپ کو دانشور سمجھ کر اپنے قلم سے تحقیق کی بنیادوں کو اکھاڑ کر حق و حقیقت کو اپنی نفسانی خواہشات پر قربان

____________________

۱۔ وفات ۱۴۸ ھ

۲۔ وفات ۱۵۰ھ

۳۔ وفات ۱۷۹ ھ

۷

کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر گلستان علم کے دروازے ان پر بند ہوگئے اور اس طرح وہ شمع معرفت کے نور سے محروم ہوگئے ہیں ، اس مذموم روش نے فتنہ کی آگ کو بھڑکانے کے علاوہ مسلمانوں میں ، دن بدن اختلافات کو بڑھا وا دیا ہے ۔

افسوس کہ ہمارے استاد ” احمد امین “(۱) بھی انہیں افراد میں سے تھے ، جنہوں نے معرفت کے نور سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ظلمت کے پردوں کے پیچھے زندگی بسر کرتے رہے ، یہ وہ کرنیں ہیں جو تشیع کے سورج سے چمکی ہیں اور جہالت کی تاریک رات کو نور میں تبدیل کرکے اسلام کے عظیم تمدن کو اس وقت وجود بخشا ، جبکہ دوسرے لوگ بہت پیچھے تھے۔

تاریخ نے اس ناپاک رویہ کی بنا پر ، احمد امین اور ان جیسے تمام اساتذہ اور دانشوروں کے دامن پر عظیم داغ لگادیا ہے، جنہوں نے آنکھیں بند کرکے تعصب کی وادی میں قدم رکھا ہے ، یہ دانشور وں اور محققین کا طریقہ کار نہیں ہے کہ ایک جگہ بیٹھے رہیں اور جمود کی بیڑی کو اپنی فکر کے پاؤں سے نہ اتاریں اور بے جا پر تعصب سے کام لے کر آنکھیں بند کرکے کسی مذہب کی پیروی کریں !!

ان کی فکرو قلم سے بہت ساری غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہوئی ہیں اور انہیں الجھن اور بد حواسی سے دوچار کیا ہے ، شاید مذکورہ داستان اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔

انہوں نے جھوٹ بول کر بعض مطالب کو شیعوں سے نسبت دیکران کے دامن کو داغدار بنادیا

____________________

۱۔ ” فصل “ پیدائش افسانہ د ور راویان آن “ شمارہ ہفتم ، کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں پر احمد امین کی باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا ہے جس کا سبب شیعوں کے ساتھ اس کی دشمنی اور کینہ ہے ۔

۸

ہے کہ ہم نے ان میں سے بعض کی طرف اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے ،(۱) انہوں نے تصور کیا ہے کہ جتنے بھی خرافات اور جعلی چیزیں اسلام کی تاریخ میں موجود ہیں ، سب کی سب شیعہ علما کی گڑھی ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنے خود ساختہ گمان سے شیعوں پر حملہ کیا اور ان کو برا بھلا کہا ہے۔

جلیل القدر محقق ”جناب مرتضیٰ عسکری “ نے اپنی کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ میں کافی دلائل سے مکمل طور پر ثابت کیا ہے کہ ” عبدا للہ بن سبا “ ایک خیالی اور جعلی موجود ہے ۔

تاریخ نویسوں نے جو حکایتیں بیان کی ہیں اور ان کی بناء پر اسے (عبدا للہ بن سبا) مذہب شیعہ کا مروج(۲) بیان کیا ہے البتہ یہ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، مؤرخین نے ان گڑھی ہوئی داستانوں کو اس لئے مرتب کیا ہے تا کہ فریب کاری کے جال کو پھیلا کر شیعوں پر حملے کرکے بے جا ان کے خلاف تہمت و افتراء پردازی کریں ۔

ہم عصر دانشور ،جناب مرتضیٰ عسکری نے اس کتاب میں اپنی فکر و اندیشہ کے سہارے تاریخ کے سمندر میں غوطہ لگا کر ، بہت سی کتابوں کا مطالعہ فرمایا ہے اور انتہائی تلاش و جستجو کے بعد اس سمندر سے کافی مقدارمیں موتی لے کر ساحل تک آئے ہیں ۔

انہوں نے زیر بحث حقائق کو ثابت کرنے کےلئے نزدیک ترین راستہ طے کیا ہے ، شیعوں کے

مخالفوں سے بحث کے دوران ان کے ہی بیانات کو مآخذ قرار دیکر ان کی باتوں کو باطل ثابت کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کی کتا ب” مع احمد امین “ کے مقدمہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ خود غرض مورخین نے اسے شیعہ مذہب کا بانی و مروج خیال کیاہے۔

۹

تاریخ اسلام کے آغاز سے عصر حاضر تک ” سیف بن عمر“ کی روایتوں نے مؤرخین کو الجھا رکھا ہے جو عام طور پر قابل اعتماد ہے، اس کتاب میں ان روایتوں کے بارے میں ایک گراں بہا تحقیق کی گئی ہے کہ قارئین بڑی آسانی سے انھیں سمجھ سکتے ہیں ۔

خدا کی حکمت اسی میں ہے کہ بعض محققین مردانہ وار قلم ہاتھ میں اٹھا کر حقائق سے پردہ اٹھائیں ، اور اس راستہ میں دوسروں کی سرزنش اور ملامت کی پروانہ کریں ، مصنف محترم پہلی شخصیت ہیں جس نے اپنی گہری تحقیقات کے نتیجہ میں اہل سنت محققین کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ طبری کی کتاب ” تاریخ الامم و الملوک “ کے بارے میں تجدید نظر کریں ، نیز انھیں اس بات پر مجبور کیا ہے کہ اس کتاب اورتاریخ کی دوسری بنیادی کتابوں کے بارے میں از سر نو دقت سے غور کرتے ہوئے اور خوب و بد کو ایک دوسرے سے جدا کریں ،مزید ان تاریخی حوادث کے بارے میں بھی نئے سرے سے غور کریں ، جنہیں وہ نازل شدہ وحی کے مانند صحیح اور نا قابل تغییر سمجھتے تھے !!

محترم مصنف نے کافی ، واضح اور روشن شواہد کی مدد سے ان تاریخی وقائع سے ابہام کے پردے کو ہٹا دیا ہے اور حقیقت کو اس کے متوالوں کےلئے آشکار کیا ہے حتی کہ بعض حقائق انتہائی بھیانک اور حیرت انگیز دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ایک عمر کے عادات و رسومات چند صدیوں کی اعتقادی میراث کے مخالف ہیں ، لیکن حق کی پیروی کرنالازم و واجب ہے ہر چند کہ یہ امر دشور ہو ” الحق احق ان یتبع“۔

مذکورہ مطالب سے آگاہی چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ کریں او رتاریخ کے اختلافی حوادث جیسے ، اسامہ کی لشکر کشی ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت اور سقیفہ کی داستان (جس پر مؤلف نے تنقیدی تجربہ کیا ہے) کا دقت کے ساتھ مطالعہ کریں ۔

جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موت کا شیرین جام نوش فرمارہے تھے، اسامہ کے لشکر سے بعض افراد حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے مدینہ لوٹے اور ریاست و خلافت کی امید سے جہاد سے منہ موڑ لیا ، مؤلف نے ان افراد کو پہچنوایا ہے ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر مرگ پر جب وصیت لکھنے کا حکم دیدیا، کچھ لوگوں نے اس حکم پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالی اور اسے ہذیان سے تعبیر کیا (گویا انہوں نے گمان کیا کہ پیغمبر ہذیان کہہ رہے ہیں)کیونکہ وہ اس امر سے خائف تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وصیت میں علی علیہ السلام کی خلافت کی خبر دیں گے اور ان آخری لمحات میں بھی اسے اپنے وصی کے طور پر تعارف کرائیں گے ۔

۱۰

مؤلف اس حادثہ کی حقیقت و کیفیت کو بھی آشکار کرتے ہیں عمر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے انکار کرنے کا مقصد کیا تھا ؟ کیوں وہ ان افراد کو موت کی دھمکی دیتے تھے جو یہ کہتے تھے کہ پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے رحلت کی ہے ؟جس وقت امام علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچیرے بھائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس اور چند بوڑھے اور سن رسیدہ اصحاب کی مددسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن نازنین کوغسل دینے میں مشغول تھے ، تو اس وقت کس غرض سے عمر اور ابو عبیدہ نے انتہائی عجلت کے ساتھ اپنے آپ کو سقیفہ کے اجتماع میں پہنچادیا اور لوگوں سے ابوبکر کے حق میں بیعت لے لی ؟!

بے شک ، اگر تھوڑا سا انتظار کرتے تا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سپرد لحد کرکے اور علی علیہ السلام بھی اس اجتماع میں حاضر ہوتے تو علی علیہ السلام خلافت کے مستحق قرار پاتے اور بنی ہاشم ان کے علاوہ کسی اور کو امام المسلمین کے طور پر قبول نہیں کرتے !

مؤلف نے مذکورہ تین مباحث میں صحیح کو غلط سے اور برے کو بھلے سے جدا کرکے ان مسلم حقائق تک رسائی حاصل کی ہے اور ان کی اس تحقیق کے نتیجہ میں فریب کاروں کےلئے مکرو فریب کے دروازے بند ہوگئے ہیں ۔

کتاب کے دوسرے مباحث بھی مذکورہ بالا تین مباحث کی طرح ، دقت کے ساتھ حقائق کو ایسے آشکار کرتے ہیں کہ بہت جلد ہی تاریخ اسلام کے اندر گہرے اثرات رونما ہوں گے ۔

میں اس مقالہ کو ختم کرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ درج ذیل تین سوالات کا جواب دیدوں :

۱ ۔ کیا پیغمبر خدا کا صحابی غلطی کرسکتا ہے اورلغزش سے دوچار ہوسکتا ہے ؟

۲ ۔ کیا اس کے کام اور کردار پر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے ؟

۳ ۔ کیا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی کو منافق یا کافر کہا جاسکتا ہے ؟

۱۱

سوال نمبر ایک اور دو کا میں مثبت جواب دیتا ہوں ، لیکن تیسرے سوال کا جواب منفی ہے ۔ اس لئے نہیں کہ میں تعصب سے کام لیتا ہوں اور علم کے اصول کے خلاف کہتا ہوں ، بلکہ ایک ایسا استدلال رکھتا ہوں کہ عقل اس کو قبول کرتی ہے اور منطق اسکی تائید کرتی ہے کیونکہ کفر و نفاق کا تعلق قلب و دل سے ہے اور وہاں تک خدا کے سوا کسی کی رسائی نہیں ہے ، علمی تجربہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ہے ، صرف خداوند عالم ہے جو انسان کے اندرونی اسرار سے واقف ہے اور پوشیدہ چیزوں کامکمل طور پر علم رکھتا ہے(۱)

مذکورہ روش ، وہی جدید روش ہے ، جس کا واضح مشاہدہ میری تمام تالیفات میں کیا جاسکتا ہے۔

مجھے اس بات پر انتہائی مسرت ہے کہ علم کے لحاظ سے اس عظیم کتاب اور اس کے عالی قدر مصنف استاد علامہ محقق جناب مرتضی عسکری کے تئیں انتہائی احترام و محبت کا قائل ہوں ، اسی طرح جناب مرتضیٰ رضوی کشمیری کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کو پوری ظرافت اور دیدہ زیب صورت میں شائع کیا ہے ، علامہ نے اس فریضہ کو انجام دے کر اسلام کی ایک عظیم خدمت کی ہے اور اس ذمہ داری کو انجام دے کر اسلام کے تاریخی حقائق کو زندہ کرنے کےلئے ایک عظیم اثر چھوڑا ہے ۔

قاہرہ اول جمادی الاول ۱۳۸۱ ھء مطابق ۱۲ ،اکتوبر ۱۹۶۱ ئئ

ڈاکٹر حامد حفنی داؤد

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد نے اس خط کو نصف کتاب کے شائع ہونے کے پیش نظر مصر میں لکھا ہے ۔

۱۲

ایک محترم شیعہ دانشور شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

سنی دانشور محترم جناب ڈاکٹر حامد کے نظریہ سے آگاہ ہونے کے بعد مناسب ہے یہاں پر اس کتاب کے بارے میں ایک شیعہ دانشور علامہ نابغہ جناب شیخ محمد جواد مغنیہ جبل عاملی کے نظریہ سے بھی آگاہ ہوجائیں ، علامہ موصوف لبنان میں مروج مذہب تشیع ہیں ۔

موصوف کی گراں بہا تالیفات میں من جملہ ” تفسیر قرآن مجید “ ” معالم الفلسفة الاسلامیہ“، ”الشیعہ و الحاکمون “ ” اصول الاثبات فی الفقہ الجعفری“ اور دسیوں دوسری تالیفات سنجیدہ فکر اور ان کے علمی بلند مقام کو آشکار کرتی ہیں ، ذیل میں مجلہ ” العرفان “(۱) میں شائع ہوئے ان کے مقالہ کا ترجمہ ہے :

مذہب شیعہ کے خلاف لکھنے کے علاوہ دنیا کی تمام چیزوں میں دگرگونی اور تغیرات پیدا ہوئے ہیں شیعوں پر تہمت و افتراء کے علاوہ ہر آغاز کا خاتمہ ہے شیعوں کے خلاف جاری کئے جانے والے احکام کے علاوہ ہر حکم کی ایک دلیل و علت ہے آخر کیوں ؟

کیا شیعہ شورشی اور فتنہ گر ہیں اور لوگوں کے سکون و اطمینان کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں ؟

____________________

۱۔ نمبر ۳/ سال ۱۳۸۱ ھ صفحہ ۲۳۰۔

۱۳

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :

سیف بن عمر تمیمی(۱) نامی ایک شخص نے گزشتہ دو سری صدی کے دوران دو کتابیں لکھی ہیں ، اس کی پہلی کتاب ” الفتوح و الردّة“ اور دوسری کتاب ” الجمل و مسیر عائشة و علیّ “ ہے ان دونوں کتابوں میں د رج ذیل مطالب کی ملاوٹ کی گئی ہے :

۱ ۔ ایسے حوادث و اتفاقات کی تخلیق کرنا ، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

۲ ۔ رونما ہوئے حقیقی حوادث و واقعات میں تحریف کرکے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت دکھانا ۔

اس بے لگام اور جھوٹے شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے چند من گھڑت اصحاب جعل کئے جن کے سعیر ، ہزہاز، اط ، حمیضہ ، وغیرہ نام رکھے ہیں ۔

اس نے تابعین اور غیر تابعین کے کچھ اشخاص جعلکئے ہیں اور ان کی زبانی اپنی جعلی احادیث نقل کی ہیں ۔

اس کی انہیں تخلیقات میں سے ایک سورما ہے جس کی شخصیت کو اس نے جعلکیا ہے اور اس کا فرضی نام بھی معین کیا ہے ، اور چند داستانوں کو گڑھ کر اس سے نسبت دی ہے یہ افسانوی سورما ”عبد اللہ بن سبا“ ہے جس کسی نے بھی شیعوں پر تہمتیں لگائی ہیں اور ان کے بارے میں جہل یا نفاق کے سبب افترا پردازی کی ہے ، ان سب نے اسی پر اعتماد کیا اور اس کی باتوں پر تکیہ کیا ہے۔

____________________

۱۔وفات دوسری صدی ہجری ۔

۱۴

”سیف“ کے بعد مؤرخین کی ایک جماعت نے فریب اور دھوکہ سے بھری ان دو کتابوں کو سند بنا کر کسی قسم کے تامل و تدبر کے بغیر دروغ پرداز اور چالباز سیف کے نظریات اور اندیشہ کو نقل کیا ہے ، اس طرح اس کے مذموم تفکر سے استفادہ کیا گیا ہے ۔

”طبری“ پہلا شخص تھا جو” سیف “کے دام فریب میں پھنس گیا تھا اس کے بعد ابن اثیر ، ابن عساکر اور ابن کثیر اور دوسرے لوگ” طبری“ سے آنکھیں بند کرکے روایت نقل کرنے کے سبب اس گڑھے میں گر گئے ہیں ۔

اس طرح جھوٹے ”سیف“ کی تخلیقات کی تاریخی کتابوں اور منابع میں بلاواسطہ طور پر ملاوٹ ہوئی ہے لیکن ان کی جڑ اور بنیاد، وہی سیف کی دو کتابیں ” الفتوح “ اور ” الجمل “ ہیں ۔

علامہ سید مرتضی عسکری کی کتاب ” عبد اللہ بن سبا“ مذکورہ حقائق کو صحیح دلائل کی بنا پر آشکار کرتی ہے اور قارئین کو صاف اور واضح راہنمائی کرکے حقیقت کی منزل تک پہنچاتی ہے ۔

انہوں نے اس کتاب کی تالیف میں انتہائی دقت سے کام لیا ہے اور موصوف کی تمام تر سعی و تلاش اس امر پر متمرکز رہی ہے کہ حق و حقیقت کے علاوہ کوئی چیز کاغذ پر نہ لکھی جائے ، قارئین کرام جس قدر بھی مفکر اور دانشور ہوں ، موصوف کے حاصل کئے ہوئے نتائج سے نہ تو انکار کرسکتے ہیں اورہی نہ شک و شبہ ، کیونکہ اس کتاب کے بہت سے دقیق مباحث کی بنیاد بدیہی قضایا پر مبنی ہے اور بدیہیات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے ۔

میں نے مختلف افراد سے بارہا بحث کی ہے ، اور ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا ہے ، لیکن اس گفتگو میں میں نے شیخ مفید ، سید مرتضی ، اور علامہ حلی سے آگے قدم نہیں بڑھایا ہے ، میری روش صرف یہ تھی کہ میں ان بزرگوں کے طرز بیان کو بدل دیتاتھا اور مخاطب کے لئے مطالب کو آشکار اور واضح تر بیان کرتا تھا ، کیونکہ کوئی تازہ اعتراض نہیں تھا کہ میں اس کا تازہ اور نیا جواب دیتا بلکہ اعتراض وہی تھا جو پچھلے لوگوں نے کر رکھاتھا اور اس کا جواب سن چکے تھے ، چونکہ یہ لوگ بھی گزشتہ لوگوں کی طرح اعتراض کرتے ہیں لہذا مجبور ہیں وہی جواب سنیں ،میں اپنے علمائے سلف کی باتوں کی تکرار کرتا تھا ، کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ بے خبر، معترضین علماء کی باتوں پر اعتراض کرتے ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ ان کی ہی باتوں سے آگاہ ہوجائیں ۔

بے شک میں علمائے تشیع کی پیروی کرتے ہوئے ” عبدا للہ بن سبا“ کے وجود کا معترف تھا ، لیکن اس کی رفتار کو حقیر اور شرم آور سمجھتا اور اس کی باتوں کا انکار کرتا تھا ۔

۱۵

علامہ عالیقدر جناب سید مرتضیٰ عسکری نے اس عمارت کی بنیاد ہی اکھاڑ کرکے رکھدی اور اپنی گہری تحقیقات سے ثابت کردیا کہ ” عبد اللہ بن سبا “ کی حقیقت ایک افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ! اور یہی وہ حقیقت ہے جو اس کتاب میں بے نقاب ہوئی ہے ، اگر میں یہ کہوں کہ عربی میں یہ تنہا کتاب ہے ، جس میں تاریخ کی علمی بنیادوں پر تحقیق کرکے اس پر غور کیا گیا ہے تو یہ ہرگز مبالغہ نہیں ہے ، اور میرا یہ کہنا بھی ہر گز بیجا نہیں ہوگا کہ اس دانشور مصنف نے دین و علم اور خاص طور پر شیعوں اورمذہب تشیع کی ایک ایسے زمانے میں بے مثال اور عظیم خدمت کی ہے کہ جب ان پر تہمتوں ، افتراء پردازیوں اور بہتان تراشیوں کی بھر مار ہورہی ہے ، موصوف نے اسلام کی ایک عظیم اور درخشان خدمت کی ہے ، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان رخنہ ڈال کر ان کے اتحاد و یکجہتی کو درہم برہم کرکے انھیں کمزوراوربے بس کردیا ہے ۔

ہم نے فرمانرواؤں اور ظالم حکام کی طرف سے بد ترین عذاب اور مشکلات برداشت کی ہیں تا کہ اسلام کی یکجہتی کا تحفظ کرکے دشمنی سے پرہیز کریں ، لیکن وہ روز بروز اپنی دروغ بیانی میں تشویق ہوتے رہے ہیں اور ان کی پہلی اور آخری سند ” ابن سبا“ کا افسانہ اور ” ابن السوداء “ کا خرافہ تھا کہ افسانہ ساز ”سیف “ نے انھیں ، خدا اوراپنے ضمیر کے سامنے کسی ذمہ داری کا احساس کئے بغیر جعلکیا ہے ۔ لیکن آج ” عبدا للہ ابن سبا “ نام کی کتاب لکھی جانے کے بعد یہ کاسہ لیس اور چاپلوس لوگ کیا جواب دیں گے ؟!

آخر میں میری تجویز ہے کہ یہ کتاب دیدہ زیب طباعت کے ساتھ دوبارہ شائع کی جائے اور عالم اسلام کے تمام شہروں میں نصف قیمت پر بیچی جائے تا کہ عام مسلمان اسے خرید کر اس کے عالی مطالب سے استفادہ کرسکیں ۔

نجف اشرف کے دانشوروں اور مراجع عظام کو چاہئے مذکورہ مقصد کی جانب توجہ کرتے ہوئے رقومات شرعیہ سے مدد کریں یا خیّر افراد کی اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں ۔

میری تجویز ہے کہ یہ حضرات تاکید کے ساتھ حکم فرمائیں تا کہ یہ کتاب دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر سستے داموں میں دنیا کے لوگوں تک پہنچ جائے ، یہ دین اسلام کےلئے ایک عظیم خدمت ہوگی۔

لبنان ۔ شیخ محمد جواد مغنیہ

۱۶

الازہر یونیورسٹی مصر کے مجلہ ” جامع الازھر “ میں شائع شدہ اعتراضات کا جواب

مجلہ ” جامع الازھر“ مصر میں کتاب ”عبدا للہ بن سبا “ کے بارے میں دو مقالے لکھے گئے ہیں(۱) اہم ترین مطلب جوان دو تنقیدی مقالوں میں ملاحظہ کے قابلہے عبارت ہے :

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اور ان کے باہمی اختلافات ، چودہ صدی پرانی بات ہے اور وہ سب اپنے مالک حقیقی سے جاملے لہذا چاہئے کہ ان مسائل سے صرف نظر کیا جائے(۲)

اس بات کے جواب میں ہم کہتے ہیں :

اولاً : ہم سیف کی روایتوں کی تحقیق کی فکر میں تھے ، جس موضوع پر اس نے روایتیں نقل کی تھیں ، ہم نے مجبور ہو کر ان ہی موضوعات پر بحث و تحقیق کی ہے ، چونکہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا“ میں عبد اللہ بن سبا کے افسانہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے باہمی اختلافات کے بارے میں سیف ابن عمر کی نقل کی گئی روایتوں پر بحث کی گئی ہے ، لہذا ہم مجبور ہوئے کہ ہر موضوع کے

____________________

۱۔ پہلا مقالہ کتاب کی نجف اشرف میں طبع شدہ پہلی اشاعت پر ایک تنقید ہے ، اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۳ ج۱۰، ۱۳۸۰ ئھ ” باب الکتب “ کے صفحہ۱۱۵۰ ۔۱۱۵۱ میں شائع ہوا ہے ۔ دوسرا مقالہ اسی کتاب کے مصر میں طبع شدہ نسخہ پر ایک تنقید ہے اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۲ /ج ۶/ ۱۳۸۱ ء ھ کے صفحہ۷۶۰ ۔۷۶۱ میں شائع ہوا ہے۔

۲۔ یہ جملہ پہلے مقالہ کے آخر پر لکھا گیا ہے اور باقی تمام مطالب اسی جملہ کی تفسیر اور تشریح میں لکھے گئے ہیں ۔

۱۷

بارے میں بحث کو جاری رکھتے ہوئے تجزیہ و تحقیق کریں ، جس طرح میں نے اپنی کتاب ” خمسون و ماة صحابی مختلق“ ( ۱۵۰ جعلی اصحاب) میں اصحاب کے فتوحات اور صدر اسلام کی جنگوں کو اپنا موضوع قرار دیگر بحث و تحقیق کی ہے ۔

سیف کی روایتوں پر تحقیق نے ہمیں اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ ایسی بحثوں میں داخل ہوجائیں جنھیں بہت سے دانشوروں نے پردے میں رکھا ہے ، لہذا ان موضوعات پر بحث و تحقیق نے انھیں برہم اور رنجیدہ کیا ہے ، البتہ ہم بھی ان کی طرح ایسے وقائع اور روداد کے رونما ہونے سے خوشحال نہیں ہیں اور ان سے پردہ اٹھانے اور ان پر غور و فکر کرنے سے ہمارا رنج و غم بھڑک اٹھتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خداوند عالم نے پیغمبر خدا کے اصحاب کو ملک و فرشتہ خلق نہیں کیا ہے کہ جبلت انسانی سے عاری ہوں بلکہ وہ دوسرے افراد کی طرح انسانی جبلت میں ان کے شریک ہیں ، اور ایمان اور اسلام میں استقامت کے مراتب میں بھی ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ، اس حد تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان میں سے بعض پر حد جاری کی ہے (کوڑے لگائے ہیں) اور ان میں سے بعض کے بارے میں ” آیات افک “ نازل ہوئی ہیں جن میں ان کی اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ انہوں نے پیغمبر خدا کی بیوی کی جانب نازیبانسبت دی تھی ، اور ان میں سے بعض کے بارے میں نفاق کی آیات نازل ہوئی ہیں ۔

ان تمام مطالب کے باوجود ہم نہیں سمجھتے کہ پیغمبر خدا کے اصحاب کو ان اختلافات اور تحولات کے ساتھ کیسے چھوڑدیں جبکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام اور عقائد کو ہم تک پہنچانے کے واسطہ ہیں کیا اس طرح صرف پیغمبر کو درک کرنے کی بنا پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عزت و احترام کرنا بحث و تحقیق کےلئے رکاوٹ اور دینداری کے نام پر علم ودانش کے دروازہ کو بند کرنے کے مترادف نہیں ہے ؟ چونکہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے صدیوں سے اپنے اوپر اجتہاد کا دروازہ بند کررکھتا ہے ، لہذا تحقیق و علم کا دروازہ بھی ان پر بند ہوگیا ہے ۔

۱۸

خدارا ! ہم نے اس مطلب کو قبول نہیں کیا ہے اور اسکی تائید نہیں کرتے ہیں بلکہ دین و اسلام کے نام پر اور اس پر عمل کرنے کیلئے اسلام کی راہ میں بحث و تحقیق کےلئے قدم اٹھاتے ہیں ۔

ثانیاً : کاش کہ ہم یہ جانتے کہ قدیم و جدید دانشور جو پیغمبر خدا کے اصحاب کی عزت و احترام میں جو غیرت و حمیت دکھاتے ہیں ، کیا اس میں پیغمبر خدا کے تمام اصحاب شامل ہیں خواہ اس کے سزاوار ہوں یا نہ ، خواہ وہ عیش پرست ہوں یا زاہد و پرہیزگار ؟ کیا یہ احترام عام طور پر اس لئے ہے کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کادیدار کیا ہے ؟ یا ان کےلئے مخصوص ہے جوسرمایہ دار و قدرتمندتھے اور حکومت تک ان کی رسائی تھی ؟ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ احترام شعوری یا لا شعوری طور پر صرف ان افراد سے مخصوص ہوکے رہ گیا جو حکومت اور ایوان حکومت سے وابستہ و مربوط ہیں ۔

جو کچھ ایک دوررس اور نکتہ شناس محقق کےلئے قابل اہمیت ہے وہ دوسرا مطلب ہے کیونکہ اگر تاریخ طبری میں ۳۰ ء ھ کے روئدادوں اور حوادث پر غور کیا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس نے یوں لکھا ہے :

اس سال ، یعنی ۳۰ ئھ میں جو کچھ ابوذر اور معاویہ کے درمیان پیش آیا ، اور سر انجام ابوذر کے شام سے مدینہ جلا وطن کئے جانے پر تمام ہوا ، اس سلسلے میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں کہ جنکو میں نقل کرنا پسندنہیں کرتا ہوں ، لیکن اس سلسلہ میں معاویہ کیلئے عذر پیش کرنے والوں نے ایک داستان نقل کی ہے ، اس داستان میں کہا گیا ہے:

شعیب نے اسے سیف سے نقل کیا ہے

اس کے بعد طبری نے ابو ذر اور معاویہ کے بارے میں نقل کی گئی داستان کے سلسلے میں سیف کی باقی روایت کو اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے ۔

۱۹

اگر ہم اس سلسلے میں تاریخ ابن اثیر کی طرف رجوع کریں گے تو دیکھتے ہیں کہ وہ کہتا ہے :

اس سال ( ۳۰ ھء) ابوذر کی داستان اور معاویہ کے توسط سے اسے شام سے مدینہ جلاوطن کرنے کا مسئلہ پیش آیا، اس رفتار کی علت کے بارے میں بہت سے مطالب لکھے گئے ہیں ، من جملہ یہ کہ : معاویہ نے انھیں گالیاں بکیں اور موت کی دھمکی دی ، شام سے مدینہ تک انھیں ایک بے کجاوہ اونٹ پر سوار کرکےنہایت ہی بیدردی سے ایک ناگفتہ بہ حالت میں مدینہ کی طرف جلاوطن کردیا ، مناسب نہیں ہے اسے یہاں بیان کیا جائے میں اسے نقل کرناپسند نہیں کرتا ہوں ، لیکن جنہوں نے اس سلسلے میں عذر پیش کیا ہے، یو ں کہا ہے :

اس بنا پر طبری نے یہاں پر ان بہت سی روایتوں کو درج نہیں کیا ہے جن میں معاویہ اور ابوذر کی روئداد بیان ہوئی ہے اور ان کو بیان کرنا پسند نہیں کرتا تھا، پھر بھی اس نے ان روایتوں کو بالکل ہی درج کرنے سے چشم پوشی نہیں کی ہے ۔ بلکہ سیف کی ان تمام روایتوں میں سے ایسی روایت کا انتخاب کیا ہے کہ معاویہ کا عذر پیش کرنے والوں کےلئے سند کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے اس کے کام کی توجیہ کے طورپر پیش کرتے ہیں ، جبکہ اس روایت میں پیغمبر اسلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بزرگوار صحابی ” ابو ذر“ کی حد سے زیادہ توہین کی گئی ہے ۔ اس کی دینداری پر طعنہ زنی کی گئی ہے ، اسے بیوقوف اور احمق کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس پرناروا تہمتیں لگائی گئی ہیں ۔

۲۰

کیونکہ اس روایت میں معاویہ کو حق بجانب ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے عذر کو درست قرار دیاگیا ہے ، اور اس طرح مؤرخین کا یہ قائد ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس تہی دست صحابی کی شخصیت اور احترام سے چشم پوشی کرتاہے اوران کی عظمت کو معاویہ جیسے حاکم اور ثروتمند شخص کے حرمت کے تحفظ میں قربان کرتاہے ، یہی کام ابن اثیر، ابن خلدون اور دوسروں نے بھی انجام دیا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ، بنیادی طور پر اسی سبب سے تاریخ طبری نے رواج پیدا کیا ہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ شہرت پائی ہے ، اور اس لئے سیف (بے دینی کا ملزم ٹھہرائے جانے کے باوجود) کی روایتوں کو اس قدر اشاعت ملی ہے اور اسی لئے مشہور ہوئی ہیں(۱) ۔

اس بنا پر ایسے دانشوروں نے صرف ایسے صحابیوں کے احترام کے تحفظ کےلئے اقدام کیا ہے جو صاحبِ قدرت و حکومت تھے ، اور” معاویہ بن ابو سفیان “ جیسے شخص کی اس لئے عزت کرتے ہیں کہ وہ صاحب حکومت و اقتدار تھا ، جبکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “(۲) میں شمار فرمایا ہے اور اس کی نفرین کرتے ہوئے فرمایا:

خداوند عالم اس کے شکم کو کبھی سیر نہ کرے “(۳) اسی طرح ” عبدا للہ بن سعد بن ابی سرح “(۴) جو ابتداء میں مسلمان ہوا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتبوں میں شمار ہوتا تھا، لیکن ایک مدت کے بعد مرتد ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن مجید پر تہمت لگائی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کا خون بہانا مباح قرار فرمایا تھا،ایسے شخص کو ان خصوصیات کے باوجود مصر کا گورنر ہونے کے ناطے اس کا نام تاریخ میں درج کرکے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

اس طرح خلیفہ عثمان کے بھائی ولید ، جس کے بارے میں آیہ نبا نازل ہوئی ہے :

<یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اِذا جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَیَّنُوا اَنْ تُصِیْبُوا قَوْماً

____________________

۱۔ کتاب کے فصل ” پیدائش افسانہ “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ تمام سیرت لکھنے والوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح حنین کے بعد معاویہ اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “ میں شمار فرمایا ہے ، اس لئے انھیں کچھ چیزیں دیدی ہیں ۔

۳۔ صحیح مسلم کے اس باب کی طرف رجوع کیا جائے کہ ”پیغمبر خدا نے جن پر لعنت کی ہے “

۴۔ اس کے حالات پر اگلے صفحات میں روشنی ڈالی جائے گی۔

۲۱

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

وضو

مسئلہ ٢ ۴ ٢ وضوميں واجب ہے کہ چہرہ اور دونوں ہاتھ دهوئے جائيں، سر کے اگلے حصے اور دونوں پاؤں کے سامنے والے حصے کا مسح کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٣ چھرے کو لمبائی ميں پيشانی کے اوپر اس جگہ سے لے کر جهاں سر کے بال اگتے ہيں ٹھ وڑی کے آخری کنارے تک دهونا ضروری ہے اور چوڑائی ميں بيچ کی انگلی اور انگوٹھ ے کے پهيلاؤميں جتنی جگہ آجائے اسے دهونا ضروری ہے اور اتنی مقدار دهل جانے کا یقين حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس مقدار کی اطراف سے بھی کچھ دهولے۔

مسئلہ ٢ ۴۴ اگر کسی شخص کے ہاتھ یا چہرہ عام لوگوں کی نسبت بڑے یا چھوٹے ہوں تو ضروری ہے کہ عام لوگوں کو دیکھے کہ کهاں تک اپنا چہرہ دهوتے ہيں پھر وہ بھی اتنا ہی دهوئے۔

هاں، اگر اس کے ہاتھ اور چہرہ دونوں عام لوگوں کی نسبت فرق کرتے ہوں ليکن آپس ميں متناسب ہوں تو ضروری ہے کہ پچهلے مسئلے ميں بيان شدہ کيفيت کے مطابق دهوئے۔

مسئلہ ٢ ۴۵ اگر اس بات کا احتمال ہو کہ بهوؤں، آنکه کے گوشوں اور ہونٹوں پر ميل یا کوئی اور ایسی چيز ہے جو پانی کے ان تک پهنچنے ميں مانع ہے اور اس کا یہ احتمال عقلائی ہو تو ضروری ہے کہ وضو سے پهلے تحقيق کر لے تاکہ اگر کوئی ایسی چيز ہو تو اسے دور کر لے۔

مسئلہ ٢ ۴۶ اگر چھرے کی جلد بالوں کے نيچے سے نظر آتی ہوتو پانی جلد تک پهنچانا ضروری ہے اور اگر نظر نہ آتی ہو تو بالوں کا دهونا کافی ہے اور ان کے نيچے تک پانی پهنچانا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ آیا اس کے چھرے کی جلد بالوں کے نيچے سے نظر آتی ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ بالوں کو دهوئے اور پانی کو جلد تک پهنچائے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨ ناک کے اندرونی حصے اور ہونٹوں اور آنکہوں کے ان حصوں کا جو بند کرنے پر نظر نہيں آتے، دهونا واجب نہيں ہے ، ليکن اس بات کا یقين حاصل کرنا ضروری ہے کہ جن جگہوں کو دهونا ضروری ہے اس ميں سے کچھ باقی نہيں رہا ہے اور جو شخص یہ نہيں جانتا تھا کہ واجب کی انجا م دهی کے یقين تک دهونا ضروری ہے ، اگر نہ جانتا ہو کہ جو وضو اس نے کئے ہيں اس ميں اس نے اس مقدار تک دهویا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اس وضو کے ساته پڑھی گئی نماز کا وقت اگر باقی ہے تو اسے نئے وضو کے ساته دوبارہ پڑھے اورجن نمازوں کا وقت گذر چکا ہے ان کی قضا کرے۔

۴۱

مسئلہ ٢ ۴ ٩ ہاتھوں کو وضو ميں اوپر سے نيچے کی طرف دهونا ضروری ہے اور اگر نيچے سے اوپر کی طرف دهوئے تو وضو باطل ہے اور بنا بر احتياط واجب چھرے کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠ اگر ہاتھ کو تر کر کے چھرے اور ہاتھوں پر پهيرا جائے اور ہاتھ ميں اتنی تری ہوکہ ہاتھ پهيرنے سے ذرا سا پانی ان پر بهے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ١ چہرہ دهونے کے بعد ضروری ہے کہ پهلے دایاں اور پھر بایاں ہاتھ کهنی سے انگليوں کے سروں تک دهویا جائے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢ کهنی کے مکمل طور پر دهل جانے کا یقين حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کهنی سے اوپر کی کچھ مقدار بھی دهوئے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣ جس شخص نے چہرہ دهونے سے پهلے اپنے ہاتھوں کو کلائی تک دهویا ہو ضروری ہے کہ وضو کرتے وقت انگليوں کے سروں تک دهوئے، اگر وہ صرف کلائی تک دهوئے گا تو اس کا وضو باطل ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۴ وضو ميں چھرے اور ہاتھوں کا دهونا پهلی مرتبہ واجب، دوسری مرتبہ مستحب اور تيسری مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ دهونا حرام ہے ۔ جهاں تک یہ سوال ہے کہ کون سا دهونا پهلا، دوسرا یا تيسرا ہے اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ اعضاء وضو کو وضوکی نيت سے دهویا جائے، مثلاًاگر تين مرتبہ چھرے پر پانی ڈالے اور تيسری مرتبہ وضو کے لئے دهونے کی نيت کرے، تو کوئی حرج نہيں اور تيسری مرتبہ دهونا پهلا دهونا شمار ہو گا، ليکن اگر تين مرتبہ چھرے پر پانی ڈالے اور ہر مرتبہ وضو کے لئے دهونے کی نيت کرے تو تيسری مرتبہ پانی ڈالنا حرام ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۵ ضروری ہے کہ دونوںہاتھ دهونے کے بعد سر کے اگلے حصے کا، ہاتھ ميں رہ جانے والی وضو کے پانی کی تری سے مسح کرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ مسح سيدهے ہاتھ کی ہتھيلی کی طرف سے کيا جائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اوپر سے نيچے کی طرف انجام دیا جائے۔

مسئلہ ٢ ۵۶ سر کے چار حصوں ميں سے ایک حصہ جو پيشانی سے ملاہو ا ہے ، مسح کر نے کا مقام ہے ۔ اس حصے ميں جهاں بھی اور جس انداز سے بھی مسح کرے کافی ہے اگرچہ مستحب ہے کہ لمبائی ميں ایک انگلی کی لمبائی کے لگ بھگ اور چوڑائی ميں تين ملی ہوئی انگليوں کے لگ بھگ جگہ پر مسح کيا جائے۔

۴۲

مسئلہ ٢ ۵ ٧ یہ ضروری نہيں کہ سر کا مسح جلد پر کيا جائے بلکہ سر کے اگلے حصے کے بالوں پر کرنا بھی درست ہے ليکن اگر کسی کے سر کے بال اتنے لمبے ہوں کہ مثلاً کنگھا کرتے وقت چھرے پر آگریں یا سر کے کسی دوسرے حصے تک جا پهنچيں تو ضروری ہے کہ بالوں کی جڑ پر یا مانگ نکال کر سر کی جلد پر مسح کرے اور اگر وہ چھرے پر آگرنے والے یا سر کے دوسرے حصے تک پهنچنے والے بالوں کو آگے کی طرف جمع کر کے ان پر مسح کرے یا سر کے دوسرے حصوں کے بالوں پر جو آگے بڑھ آئے ہوں مسح کرے تو ایسا مسح باطل ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٨ ضروری ہے سر کے مسح کے بعد ہاتھوں ميں بچ جانے والی وضو کے پانی کی تری سے پاؤں کے اوپری حصے کا مسح کرے۔ اس کی واجب مقدار پاؤں کی ایک انگلی سے لے کر گٹوں کے ابهار تک ہے اور احتياط مستحب پاؤں کے جوڑ تک ہے ۔ احتياط واجب یہ ہے کہ سيدهے پاؤں کا مسح الٹے پاؤں سے پهلے کرے، اسی طرح سيدهے ہاتھ سے سيدهے پاؤں اور الٹے ہاتھ سے الٹے پاؤں کا مسح کرے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩ پاؤں پر مسح کی چوڑائی جتنی بھی ہو کافی ہے ليکن افضل یہ ہے کہ پاؤں کے پورے اوپری حصے کا مسح پوری ہتھيلی سے کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠ احتياط واجب یہ ہے کہ پاؤں کا مسح کرتے وقت ہاتھ انگليوں کے سروں پر رکھے اور پھر پاؤں کے ابهار کی جانب کھينچے یا ہاتھ گٹوں کے ابهار یا پاؤں کے جوڑ پر رکھ کر انگليوں کے سروں کی طرف کھينچے، یہ نہ ہو کہ پورا ہاتھ پاؤ ںپر رکھ کر تهوڑا سا کھينچ دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ١ سر اور پاؤں کا مسح کرتے وقت ضروری ہے کہ ہاتھ کو ان پر کھينچے، نہ کہ ہاتھ کو رکھ کر سر یا پاؤں کو حرکت دے، ليکن ہاتھ کھينچنے کے وقت سر یا پاؤں کے معمولی حرکت کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢ ضروری ہے کہ مسح کی جگہ خشک ہو، لہٰذا اگر وہ اس قدر تر ہو کہ ہتھيلی کی تری اس پر اثر نہ کرے تو مسح باطل ہے ۔ ہاں، اگر اس پر نمی یا تری اتنی کم ہو کہ مسح کے بعد جو تری نظر آئے اسے صرف ہاتھ کی تری کها جائے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣ اگر مسح کرنے کے لئے ہتھيلی پر تری باقی نہ رہی ہو تو کسی اور پانی سے تر نہيں کيا جاسکتا، بلکہ ایسی صورت ميں ضروری ہے کہ داڑھی کے اس حصے سے جو چھرے کی حدود ميں ہے ، تری لے کر مسح کرے اور داڑھی کے علاوہ کسی اور جگہ سے تری لے کر مسح کرنا محلِ اشکال ہے ۔

۴۳

مسئلہ ٢ ۶۴ اگر ہتھيلی کی تری صرف سر کے مسح کے لئے کافی ہو تو سر کا مسح اس تری سے کرے اور پاؤں کے مسح کے لئے داڑھی سے، جو چھرے کی حدود ميں داخل ہے ، تری حاصل کرے۔

مسئلہ ٢ ۶۵ موزے اور جوتے پر مسح کرنا باطل ہے ۔ ہاں، اگر سخت سردی کی وجہ سے یا چور یا درندے وغيرہ کے خوف سے جوتے یا موزے نہ اتار سکے تو احتياط واجب یہ ہے کہ موزے اور جوتے پر مسح کرے اور تيمم بھی کرے۔

مسئلہ ٢ ۶۶ اگر پاؤں کا اوپر والا حصہ نجس ہو اور مسح کرنے کے لئے اسے پاک نہ کيا جا سکتا ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

ارتماسی وضو

مسئلہ ٢ ۶ ٧ ارتماسی وضو یہ ہے کہ انسان چھرے اور ہاتھوں کو وضو کی نيت سے پانی ميں ڈبودے ليکن ارتماسی طریقے سے دهلے ہوئے ہاتھ کی تری سے مسح کرنے ميں اشکال ہے ۔ لہذا، اگر بایاں ہاتھ ارتماسی طریقے سے دهوئے تو اس ہتھيلی کی طرف سے کچھ مقدار پانی ميں نہ ڈالے بلکہ سيدهے ہاتھ سے اس حصے کو دهو لے۔

احتياط واجب کی بنا پر اعضائے وضو کوپانی سے باہر نکالنے پر ارتماسی وضو محقق نہيں ہوتا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨ ارتماسی وضو ميں ہاتھوں کو اوپر سے نيچے کی طرف دهونا ضروری ہے ۔ پس اگر ہاتھوں کو پانی ميں وضو کے قصد سے ڈبوئے تو ضروری ہے کہ کهنيوں کی طرف سے داخل کرے۔ اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر چھرے کو پيشانی کی طرف سے پانی ميں داخل کرے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩ وضو ميں بعض اعضاء کو ارتماسی اور بعض کو غير ارتماسی طریقے سے دهونے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

وضو کے وقت کی مستحب دعائيں

مسئلہ ٢٧٠ جو شخص وضو کر رہا ہو اس کے لئے مستحب ہے کہ:

جب پانی ہاتھ ميں لے تو کهے:

بِسْمِ اللّٰهِ وَ بِاللّٰهِ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِيْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَهِّرِیْن

اور کلی کرتے وقت یہ کهے:

اَللّٰهُمَّ لَقِّنِیْ حُجَّتِیْ یَوْمَ ا لَْٔقَاکَ وَ ا طَْٔلِقْ لِسَانِیْ بِذِکْرِک

اور ناک ميں پانی ڈالتے وقت یہ دعا پڑھے :

اَللّٰهُمَّ لاَ تُحَرِّمْ عَلَیَّ رِیْحَ الْجَنَّةِ وَاجْعَلْنِی مِمَّنْ یَّشُمُّ رِیْحَهَا وَ رَوْحَهَا وَ طِيْبَهَا

۴۴

چهرہ دهوتے وقت یہ دعا پڑھے :

اَللّٰهُمَّ بَيِّضْ وَجْهِیْ یَوْمَ تَسْوَدُّ فِيْهِ الْوُجُوْهُ وَلاَ تُسَوِّدْ وَجْهِیْ یَوْمَ تَبْيَضُّ فِيْهِ الْوُجُوه

دایاں ہاتھ دهوتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ ا عَْٔطِنِیْ کِتَابِیْ بِيَمِيْنِیْ وَالْخُلْدَ فِی الْجَنَانِ بِيَسَارِیْ وَحَاسِبْنِیْ حِسَاباً یَّسِيْرًا

بایاں ہاتھ دهوتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ لاَ تُعْطِنِیْ کِتَابِی بِشِمَالِی وَلاَ مِنْ وَّرَاءِ ظَهْرِیْ وَلاَ تَجْعَلْهَا مَغْلُوْلَةً إِلٰی عُنُقِیْ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِن مُّقَطَّعَاتِ النِّيْرَان

سر کا مسح کرتے وقت یہ دعا پڑھے :

اَللّٰهُمَّ غَشِّنِیْ بِرَحْمَتِکَ وَبَرَکَاتِکَ وَعَفْوِک

پاؤں کا مسح کرتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ ثَبِّتْنِیْ عَلَی الصِّرَاطِ یَوْمَ تَزِلُّ فِيْهِ اْلا قَْٔدَامُ وَاجْعَلْ سَعْيِیْ فِی مَا یُرْضِيْکَ عَنِّی یَا ذَا الْجَلاَلِ وَاْلإِکْرَام اور مستحب ہے کہ جب وضو کر لے تو یہ پڑھے :

ا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِی مِنَ التَّوَّابِيْنَ وَاجْعَلْنِی مِنَ الْمُتَطَهِّرِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِين

وضو صحيح ہونے کی شرائط

وضو صحيح ہونے کی چند شرائط ہيں :

پهلی شرط: وضو کا پانی پاک ہو۔

دوسری شرط: وضو کا پانی مطلق ہو۔

مسئلہ ٢٧١ نجس یا مضاف پانی سے وضو باطل ہے ، چاہے وضو کرنے والا شخص اس کے نجس یا مضاف ہونے کے بارے ميں علم ہی نہ رکھتا ہو یا بھول گيا ہو اور اگر وہ اس وضو کے ساته نماز پڑھ چکا ہو توضروری ہے کہ صحيح وضو کے ساته دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ٢٧٢ اگر مٹی ملے ہوئے مضاف پانی کے علاوہ کوئی اور پانی وضو کے لئے نہ ہو اور نماز کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کر لے ليکن اگر وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کے صاف ہونے کا انتظار کرے یا اسے صاف کر کے وضو کر لے۔

۴۵

تيسری شرط: یہ کہ وضو کا پانی مباح ہو اور احتياط واجب کی بناپر جس فضاميں وضو کررہاہے وہ بهی مباح ہو۔

مسئلہ ٢٧٣ غصبی پانی یا ایسے پانی سے جس کے مالک کی رضایت پر دليل نہ رکھتا ہو، وضو کرنا حرام اور باطل ہے اور اگر وضوکا پانی غصبی جگہ پر گرے اور اس کے علاوہ وضو کرنے کے لئے کوئی جگہ بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے اور اگر اس جگہ کہ علاوہ کہيں وضو کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ وہاں وضو کرے اور اگر کوئی شخص گناہ کرتے ہوئے وہيں وضو کرلے تو اس وضو کا صحيح ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۴ کسی مدرسے کے ایسے حوض سے وضو کرنا کہ جس کے بارے ميں انسان نہ جانتا ہو کہ یہ حوض تمام افراد کے لئے وقف ہے یا فقط مدرسے کے طلاب کے لئے ، جائز نہيں ہے اور اگر انسان کو، چاہے عام لوگوں کو وضو کرتا ہوا دیکھ کر ہی سهی، یہ اطمينان ہو جائے کہ یہ تمام افراد کے لئے وقف ہے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۵ جو شخص کسی مسجد ميں نما ز نہ پڑھنا چاہتا ہو اور یہ بھی نہ جانتا ہو کہ آیا اس مسجد کا حوض تما م افراد کے لئے وقف ہے یا صرف اس مسجد ميں نماز پڑھنے والوں کے لئے تو اس کے لئے ا س حوض سے وضو کرنا صحيح نہيں ہے ، ليکن اگر عموماًوہ لوگ بھی اس حوض سے وضو کرتے ہوں جو اس مسجد ميں نماز نہ پڑھنا چاہتے ہوں اور ان کے وضو کرنے سے عموميت وقف کا اطمينان حاصل ہو جائے تو اس حوض سے وضو کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۶ سرائے، مسافر خانوں اور ایسے ہی دوسرے مقامات کے حوض سے ان لوگوں کے لئے جو ان ميں مقيم نہ ہوں، وضو کرنا اس صورت ميں صحيح ہے جب ا ن کے مالکان کی رضایت کا اطمينان ہو جائے، چاہے یہ اطمينان وہاں نہ رہنے والے لوگوں کے وضو کرنے سے حاصل ہو۔

مسئلہ ٢٧٧ بڑی نهروں سے وضو کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے اگرچہ انسان ان کے مالک کی رضایت کا علم نہ رکھتا ہو، ليکن اگر ان نهروں کا مالک وضو کرنے سے منع کرے یا یہ کہ انسان کو علم ہو کہ اس کا مالک راضی نہيں ہے تو ان سے وضو کرنا جائز نہيں ہے ۔ یهی حکم احتياط واجب کی بنا پر اس وقت ہے جب مالک بچہ یا پاگل ہو یا یہ نہر کسی غاصب کے قبضے ميں ہو یا گمان ہو کہ مالک راضی نہيں ہے ۔ ہاں، نهروں اور قناتوں کے اس پانی سے جو آبادی مثلاًدیهات سے گزرتا ہے ، وضو کرنے پينے اور اس جيسے دوسرے کام لينے ميں کوئی حرج نہيں چاہے ان کا مالک بچہ یا پاگل ہی کيوں نہ ہو۔

مسئلہ ٢٧٨ اگر کوئی شخص بھول جائے کہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کر لے تو اس کا وضو صحيح ہے ، ليکن اگر خود پانی کو غصب کيا ہو اور بعد ميں اس کا غصبی ہونا بھول کر وضو کر لے تو اگر اس نے غصب سے توبہ نہ کی ہو، اس کا وضو باطل ہے اور اگر توبہ کر چکا ہو تو اس کا باطل ہو نا محلِ اشکال ہے ۔

۴۶

چوتھی شرط : یہ کہ وضو کے پانی کا برتن مباح ہو۔

پانچویں شرط:وضو کے پانی کا برتن احتياط واجب کی بنا پر سونے اور چاندی کا نہ ہو۔

ان دو شرائط کی تفصيل اگلے مسائل ميں آرہی ہے ۔

مسئلہ ٢٧٩ اگر وضو کا پانی غصبی برتن ميں ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور پانی نہ ہو تو اگر وہ اس پانی کو شرعی طریقے سے دوسرے برتن ميں انڈیل سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسے کسی دوسرے برتن ميں انڈیل لے، پھر اس سے وضو کرے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے یا اگر کوئی پانی موجود ہو تو اس سے وضو کرے۔ ہاں، ان دونوں صورتوں ميں اگر وہ معصيت کرے اور پانی کو اس ميں سے اٹھ ائے اور اٹھ ا نے کے بعدوضو کرے تو اس کا وضو صحيح ہو گا۔

اسی طریقے سے اگر سونے یا چاندی کے برتن سے وضو کرے تو وضو صحيح ہے چاہے دوسرا پانی ہو یا نہ ہو۔

اگر غصبی برتن سے ارتماسی وضو کرے تو وضو حرام اور باطل ہے چاہے دوسرا پانی ہو یا نہ ہو، ليکن اگر سونے اور چاندی کے برتن ميں ارتماسی وضو کرے تو اس کا وضو جائز اور صحيح ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٨٠ جس حوض ميں مثلاًایک اینٹ یا ایک پتّھر غصبی ہو اور عرف عام ميں اس حوض ميں سے پانی نکالنا اس اینٹ یا پتّھر پر تصرف نہ سمجھا جائے تو کوئی حرج نہيں اور اگر تصرف سمجھا جائے اور اس کے علاوہ کوئی اور پانی بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور پانی موجود ہو تو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس پانی سے وضو کرے، ليکن اگر دونوں صورتوں ميں معصيت کرتے ہوئے پانی اٹھ ائے اور اٹھ انے کے بعد وضو کرے تو اس کا وضو صحيح ہے ۔ جب کہ دونوں صورتوں ميں ارتماسی وضو کرنا، اگر غصبی چيز ميں تصرف سمجھا جائے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٢٨١ ائمہ عليهم السلام یا امام زادگان کے صحن ميں جو پهلے قبرستان تھا اگر کوئی حوض یا نہر کهودی جائے اور یہ علم نہ ہو کہ صحن کی زمين قبرستان کے لئے وقف ہو چکی ہے تو اس حوض یا نہر کے پانی سے وضو کرنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

چھٹی شرط:وضو کے اعضاء دهوتے وقت اور مسح کرتے وقت پاک ہوں اگر چہ یہ طهارت

وضو کے دوران معتصم پانی سے دهوتے وقت حاصل ہو جائے۔ معتصم اس پانی کوکہتے ہيں جو نجاست کے ملنے سے نجس نہ ہو جيسے بارش کا پانی، کرُ یا جاری پانی۔

مسئلہ ٢٨٢ اگر وضو مکمل ہونے سے پهلے وہ جگہ جس کو دهویا یا مسح کيا جاچکا ہو نجس ہو جائے تو وضو صحيح ہو گا۔

مسئلہ ٢٨٣ اگر اعضاء وضوکے علاوہ انسان کے بدن کا کوئی حصہ نجس ہو تو اس کا وضو صحيح ہے ليکن اگر پيشاب یا پاخانے کی جگہ پاک نہ کی ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ انہيں پاک کرنے کے بعد وضو کرے۔

۴۷

مسئلہ ٢٨ ۴ اگر اعضاء وضو ميں سے کوئی ایک نجس ہو اور وضو کرنے کے بعد شک کرے کہ وضو سے پهلے اس جگہ کو پاک کيا تھا یا نہيں ، تو اگر وضو کرتے وقت وہ اس جگہ کے پاک یا نجس ہونے کے بارے ميں متوجہ نہيں تھا تو اس کا وضو باطل ہے اور اگر جانتا ہو یا احتمال رکھتا ہو کہ متوجہ تھا تو اس کا وضو صحيح ہے اور دونوں صورتوں ميں نجس جگہ کو پاک کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٨ ۵ اگر چھرے یا ہاتھوں پر کوئی ایسی خراش یا زخم ہو جس کا خون نہ رک رہا ہو اورپانی اس کے لئے مضر بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس عضو کے صحيح وسالم اجزاء کو دهونے کے بعد وضو کے مسئلہ نمبر” ٢ ۴ ٩ “ميں بيان شدہ طریقے کے مطابق ترتيب کا خيال رکھتے ہوئے زخم یا خراش والے حصے کو کرُیا جاری پانی ميں ڈبو دے اور اسے اس قدر دبائے کہ خون آنا بند ہو جائے اور ہاتھ کو پانی کے نيچے ہی زخم یا خراش پر وضو کی نيت سے اوپر سے نيچے کی طرف پهيرے تاکہ پانی اس پر جاری ہوجائے، اس کے بعد بقيہ وضو کو انجام دے اور اس بات کا خيال رکھے کہ مسح ہاتھ کی تری سے ہی انجام پائے۔

ساتویں شرط:وضو اور نما زکے لئے وقت ميں گنجائش ہو۔

مسئلہ ٢٨ ۶ اگر وقت اتنا تنگ ہو کہ وضو کرنے کی صورت ميں ساری کی ساری نما زیا اس کا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے تو ضروری ہے کہ تيمم کر لے ليکن اگر تيمم اور وضو کے لئے یکساں وقت درکار ہو تو پھر وضو کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٨٧ جس شخص کے لئے نماز کا وقت تنگ ہونے کے باعث تيمم کرنا ضروری ہو اور وہ اس نيت سے کہ وضو کرنا مستحب ہے یا کسی ایسے مستحب کام مثلاً قرآن مجيد پڑھنے کے لئے وضو کرے جس کے لئے شریعت ميں وضو کرنے کا حکم آیا ہے تو اس کا وضو صحيح ہے ، ليکن اگر اس نماز کو پڑھنے کے لئے اس طرح وضو کرے کہ اگر باوضو ہو کر نمازپڑھنے کا حکم نہ ہوتا تووضو کا ارادہ بھی نہ ہوتا، تو یہ وضو باطل ہے ۔

آٹھ ویں شرط:وضو قصد قربت اور خلوص کے ساته کرے۔

”قصد قربت“سے مراد یہ ہے کہ عمل کو اس چيز کے ارادے سے جسے خداوند متعال سے نسبت دے رہا ہے مثلاًا س کے حکم کی بجا آوری یا اس کی محبوبيت حاصل کرنے کے لئے انجام دے۔

مسئلہ ٢٨٨ وضو کی نيت زبان پر لانا یا دل ميں گزارناضروری نہيں ہے بلکہ اگر کوئی شخص وضو کے تمام افعال الله تعالی کے لئے بجا لائے تو کافی ہے ۔

نویں شرط:وضو کو بيان شدہ ترتيب کے مطابق انجام دے،

یعنی پهلے چہرہ ، اس کے بعد دایاں اور پھر بایاں ہاتھ دهوئے اس کے بعد سر کا اور پھر پاؤں کا مسح کرے اور بنا بر احتياط واجب بائيں پاؤں کا مسح دائيں پاؤںکے بعد کرے۔

۴۸

دسویں شرط:وضو کے افعال پے درپے انجام دے۔

مسئلہ ٢٨٩ اگر وضو کے افعال کے درميان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ جب وہ کسی عضو کو دهونا یا اس پر مسح کرنا چاہے تو اس پهلے والے اعضاء کی رطوبت خشک ہو چکی ہو تو اس کا وضو باطل ہے اور اگر جس عضو کو دهونا یا اس پر مسح کرنا ہے ، صرف اس سے پهلے دهوئے ہوئے یا مسح کئے ہوئے عضو کی تری خشک ہو گئی ہومثلاًبایاں ہاتھ دهوتے وقت صرف دائيں ہاتھ کی تری خشک ہو چکی ہو ليکن چہرہ تر ہو، تو وضو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٩٠ اگر وضو کے افعال پے درپے انجام دے ليکن موسم یا بدن کی گرمی یا ایسی ہی کسی وجہ سے پچهلے حصوں کی رطوبت خشک ہو جائے تو اس کا وضو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٩١ وضو کے دوران چلنے پھرنے ميں کوئی حرج نہيں ، لہٰذا اگر کوئی شخص چہرہ اور ہاتھ دهونے کے بعد چند قدم چلے اور پھر سر او ر پاؤں کا مسح کرے تو اس کا وضو صحيح ہے ۔

گيارہویں شرط:انسان خود اپنا چہرہ اور ہاتھ دهوئے اور سر اور پاؤں کا مسح کرے۔

اگر کوئی دوسرا اسے وضو کرائے یا اس کے چھرے یا ہاتھوں پر پانی ڈالنے یا سر اور پاؤں کا مسح کرنے ميں اس کی مدد کرے تو اس کا وضو باطل ہے ۔

مسئلہ ٢٩٢ اگر کوئی شخص خود وضو نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ کسی کو نائب بنائے جو اس کو وضو کرائے اور اگر نائب مزدوری مانگے جب کہ مزدوری دینا ممکن ہو اور باعث حرج نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے مزدوری دے، ليکن ضروری ہے کہ وضو کی نيت خود کرے اور بنا بر احتياط واجب نائب بھی وضو کی نيت کرے اور مسح خود کرے اور اگر مسح خود نہ کر سکتا ہو تو نائب مسح کی جگہوں پر اس کا ہاتھ کھينچے اور اگریہ بھی ممکن نہ ہو تو نائب اس کے ہاتھ سے رطوبت لے کر اس کے سر اور پاؤں کا مسح کرے۔

مسئلہ ٢٩٣ وضو کے جو بھی افعال انسان خود انجام دے سکتا ہو ضروری ہے کہ ان کی انجام دهی ميں دوسروں سے مدد نہ لے۔

بارہویں شرط:وضو کرنے والے کے لئے پانی کے استعمال ميں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

مسئلہ ٢٩ ۴ جس شخص کو خوف ہو کہ وضو کرنے سے بيمار ہو جائے گا تو ضروری ہے کہ وضو نہ کرے اور جس شخص کو خوف ہو کہ پانی وضوميں استعمال کرنے سے پياسا رہ جائے گا تو اگر پياس بيماری کا باعث بنے تو ضروری ہے کہ وضو نہ کرے اور اگر بيماری کا باعث نہ ہو تو اختيار ہے کہ وضو کرے یا تيمم کرے اور اگر نہ جانتا ہو کہ پانی کا استعمال اس کے لئے مضر ہے اور وضو کرلے اگر چہ بعد ميں اسے معلوم ہوجائے کہ پانی کا استعمال اس کے لئے مضر تھا ليکن ضرر، ضررِحرام نہ تھا، تواس کا وضو صحيح ہے ۔

۴۹

مسئلہ ٢٩ ۵ اگر چھرے اور ہاتھوں کو اتنے کم پانی سے دهونا جس سے وضو صحيح ہو جاتا ہے ضرر رساں نہ ہو اور اس سے زیادہ ضرر رساں ہو تو ضروری ہے کہ کم مقدار سے ہی وضو کرلے۔

تيرہویں شرط:اعضائے وضو تک پانی پهنچنے ميں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

مسئلہ ٢٩ ۶ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ اس کے اعضائے وضو پر کوئی چيز لگی ہوئی ہے ليکن اس کے بارے ميں اسے شک ہو کہ آیا وہ چيز پانی کے ان اعضا ء تک پهنچنے ميں رکاوٹ ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ یا تو اس چيز کو ہٹا دے یا پانی کو اس کے نيچے تک پهنچائے۔

مسئلہ ٢٩٧ اگرمعمول کے مطابق بڑھے ہوئے ناخنوں کے نيچے ميل ہو تو وضو کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔ ہاں، ناخنوں کو کاٹ دینے کی صورت ميں وضو کے لئے اسے برطرف کرنا ضروری ہے اور اگر ناخن معمول سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں تو جو ميل معمول سے زیادہ والی مقدار کے نيچے ہے اسے برطرف کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٩٨ اگر کسی شخص کے چھرے، ہاتھوں، سر کے اگلے حصے یا پاؤں سے اوپر والے حصے پر جل جانے سے یا کسی اور وجہ سے ورم ہو جائے تو اسے دهو لينا اور اس پر مسح کر لينا کافی ہے اور اگر اس ميں سوراخ ہو جائے تو پانی جلد کے نيچے پهنچانا ضروری نہيں بلکہ اگر جلد کا ایک حصہ اکهڑ جائے تب بھی جو حصہ نہيں اکهڑا اس کے نيچے تک پانی پهنچانا ضروری نہيں ، ليکن جب اکهڑی ہوئی جلد کبهی بدن سے چپک جاتی ہو اور کبهی اٹھ جاتی ہو تو ضروری ہے کہ اسے کاٹ دے یا اس کے نيچے پانی پهنچائے۔

مسئلہ ٢٩٩ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء سے کوئی چيز چپکی ہوئی ہے یا نہيں اور اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظر ميں بھی درست ہو مثلاً، گارے سے کوئی کام کرنے کے بعد شک ہو کہ گارا اس کے ہاتھ سے لگا رہ گياہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ تحقيق کر لے یا اپنے ہاتھوں کو اتنا ملے کہ اطمينان ہو جائے کہ اگر اس پر گارا رہ گياتها تو اب دور ہو گيا ہے یا پانی اس کے نيچے پهنچ گيا ہے ۔

مسئلہ ٣٠٠ دهونے یا مسح کرنے کی جگہ پر اگر ميل ہو ليکن وہ ميل پانی کے جلد تک پهنچنے ميں رکاوٹ نہ ڈالے تو کوئی حرج نہيں ۔ اسی طرح اگر پلستر وغيرہ کا کام کرنے کے بعد سفيدی ہاتھ پر لگی رہ جائے جو پانی کو جلد تک پهنچنے سے نہ روکے تو اس ميں بھی کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر شک ہو کہ ان چيزوں کی موجودگی پانی کے جلد تک پهنچنے ميں مانع ہے یا نہيں تو انہيں دور کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣٠١ اگر کوئی شخص وضو کرنے سے پهلے جانتا ہو کہ وضو کے بعض اعضاء پر ایسی چيز موجود ہے جو ان تک پانی پهنچنے ميں مانع ہے اور وضو کے بعد شک کرے کہ وضو کے دوران ا ن اعضاء تک پانی پهنچا ہے یا نہيں ، اگر اسے وضو کے دوران غافل ہونے کا یقين نہ ہو تو ا س کا وضو صحيح ہے ۔

۵۰

مسئلہ ٣٠٢ اگر وضو کے بعض اعضاء پر کوئی ایسی رکاوٹ ہو جس کے نيچے پانی کبهی خود بخود چلا جاتا ہے اور کبهی خود نہيں پهنچ پاتا اور انسان وضو کے بعد شک کرے کہ پانی اس کے نيچے پهنچا ہے یا نہيں ، اگر جانتا ہو کہ وضو کے وقت اس سے غافل تھا تو ضروری ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔

مسئلہ ٣٠٣ اگر وضو کرنے کے بعد اعضائے وضو پر کوئی ایسی چيز دیکھے جو پانی کے پهنچنے ميں رکاوٹ ہو اور وہ نہ جانتا ہو کہ وضو کرتے وقت یہ رکاوٹ موجود تھی یا بعد ميں آئی ہے تو اگر وضو کرتے وقت جانتا ہواس امر سے غافل تھا تو ضروری ہے کہ دوبارہ وضو کرے اور اگر اس امر کی طرف متوجہ تھا تو اس کا وضو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣٠ ۴ اگر وضو کرنے کے بعد شک کرے کہ جو چيز پانی کے پهنچنے ميں مانع ہے وضو کے اعضاء پر تھی یا نہيں تو اگر وضو کرتے وقت اس امر سے غافل ہونے کا علم نہ ہو تو اس کا وضو صحيح ہے ۔

احکام وضو

مسئلہ ٣٠ ۵ اگر کوئی شخص افعالِ وضو اور شرائط ميں بہت شک کرتا ہو، اگر اس کا شک وسواس کی حد تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ ٣٠ ۶ جس شخص کو شک ہو کہ اس کا وضو باطل ہوا ہے یا نہيں تو سمجھے کہ اس کا وضو باقی ہے ، ليکن اگر اس نے پيشاب کرنے کے بعد استبرا کئے بغير وضو کر ليا ہو اور وضو کے بعد اس سے ایسی رطوبت خارج ہو جس کے بارے ميں نہ جانتا ہو کہ پيشاب ہے یا کوئی اور چيز تو اس کا وضو باطل ہے ۔

مسئلہ ٣٠٧ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس نے وضو کيا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ وضو کرے۔

مسئلہ ٣٠٨ جس شخص کو معلوم ہو کہ اس نے وضو کيا ہے اور اس سے حدث بھی واقع ہو گيا ہے مثلاًاس نے پيشاب کيا ہے ، ليکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کون سی چيز پهلے واقع ہوئی ہے ، اگر یہ صورت نماز سے پهلے پيش آئے تو ضروری ہے کہ وضو کرے اوراگر نما زکے دوران یہ صورت پيش آئے تو ضروری ہے کہ نما زتوڑ کر وضو کرے اور اگر نمازکے بعد یہ صورت پيش آئے تو جو نما زپڑھ چکا ہے اس شرط پر صحيح ہے کہ نما زشروع کرتے وقت غفلت کا یقين نہ ہو، البتہ اگلی نمازوں کے لئے وضو کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣٠٩ اگر کسی شخص کو وضو کے بعد یا وضو کے دوران یقين آجائے کہ اس نے بعض جگہيں نہيں دهوئيں یا ان کا مسح نہيں کيا، جب کہ جن اعضاء کی باری ان سے پهلے تھی ان کی تری زیادہ وقت گزر جانے کی وجہ سے خشک ہو چکی ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ وضو کرے، ليکن اگر وہ تری خشک نہ ہوئی ہو یا گرمی یا ایسی ہی کسی وجہ سے خشک ہو گئی ہو تو ضروری ہے کہ بھولی ہوئی اور اس کے بعد آنے والی جگہوں کو دهوئے یا ان کا مسح کرے۔ اسی طرح وضو کے دوران کسی عضو کے دهونے یا مسح کرنے کے بارے ميں شک کی صورت ميں اسی حکم پر عمل کرنا ضروری ہے ۔

۵۱

مسئلہ ٣١٠ اگر کسی شخص کو نماز پڑھنے کے بعد شک ہو کہ اس نے وضو کيا تھا یا نہيں تو اس صورت ميں کہ اسے یقين نہ ہو کہ شروع کرتے وقت وہ اس بات سے غافل تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔ البتہ دوسری نماز وں کے لئے ضروری ہے کہ وضو کرے۔

مسئلہ ٣١١ اگر کسی شخص کو نما زکے دوران شک ہو کہ وضو کيا تھا یا نہيں تو اس کی نماز باطل ہے اور ضروری ہے کہ وضو کرکے نماز پڑھے۔

مسئلہ ٣١٢ اگر کوئی شخص نماز کے بعد یہ جان لے کہ اس کا وضو باطل ہو گيا تھا ليکن شک کرے کہ نماز کے بعد باطل ہوا تھا یا اس سے پهلے، تو جو نما زپڑھ چکا ہے وہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣١٣ اگر کوئی شخص ایسے مرض ميں مبتلا ہوکہ اس کا پيشاب قطرہ قطرہ ٹپکتاہویا پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو، اگر اسے یقين ہو کہ نماز کے اول وقت سے آخر وقت تک اسے اتنا وقفہ مل جائے گا کہ وضو کر کے نماز پڑھ سکے تو ضروری ہے کہ اس وقفے کے دوران نماز پڑھے اور اگر اسے وضو اور نما زکے صرف واجب افعال انجام دینے کا وقت ملے تو ضروری ہے کہ اس وقفے ميں وضو ونماز کے صرف واجبات کو انجام دے اور مستحبات کو چھوڑ دے۔

مسئلہ ٣١ ۴ اگر اس شخص کو وضو اور نما زپڑھنے کے کی مقدار کے برابر وقفہ نہ ملتا ہو اور نماز کے دوران ایک یا چند بار پيشاب یا پاخانہ اس سے خارج ہو تا ہو، اگر اسی نما زکو ایک وضو سے پڑھے تو کافی ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ جب بھی پيشاب یا پاخانہ خارج ہو موالات ختم ہونے سے پهلے وضو کرے اور بقيہ نماز کو مکمل کرے۔

مسئلہ ٣١ ۵ جس شخص کا پيشاب یاپاخانہ پے درپے خارج ہوتو وہ ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھ سکتا ہے سوائے اس کے کہ کسی دوسرے حدث ميں مبتلا ہو جائے اور بہتر یہ ہے کہ ہر نماز کے لئے ایک وضو کرے، ليکن بھولے ہوئے سجدے وتشهد اور نماز احتياط کے لئے دوسرا وضو ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣١ ۶ جس شخص کا پيشا ب یاپاخانہ پے درپے خارج ہوتا ہو اس کے لئے ضروری نہيں کہ وضو کے بعد فوراًنماز پڑھے اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ وضو کے فوراًبعد نماز پڑھے۔

مسئلہ ٣١٧ جس شخص کا پيشاب یاپاخانہ پے درپے خارج ہوتا ہو وضو کے بعد بنابر احتياط مستحب ان چيزوں کو مس کرنے سے پرہيز کرے جنہيں مس کرنا محدث پر حرام ہے ۔

مسئلہ ٣١٨ جس شخص کو قطرہ قطرہ پيشاب آتاہو ضروری ہے کہ نماز ميں خود کو ایک ایسی تهيلی کے ذریعے پيشاب سے بچائے جس ميں روئی یا کوئی اور چيز رکھی ہو جو پيشاب کو دوسری جگہوں پر نہ پهنچنے دے اور احتياط واجب یہ ہے کہ ہر نماز سے پهلے مقام پيشاب کو پاک کرے سوائے اس صورت کے کہ باعث حرج ہو۔

۵۲

اور ظہر وعصر یا مغرب وعشا کو ملا کر پڑھنے کی صورت ميں دوسری نماز کے لئے مقام پيشاب کو پاک کرنا ضروری نہيں ہے ۔

اور اگر کوئی شخص پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو تو ضروری ہے کہ جهاں تک ممکن ہو نماز پڑھنے کی مقدار تک پاخانہ دوسری جگہ تک پهنچنے سے روکے اور بنابر احتياط واجب ہر نماز کے لئے مقام پاخانہ کو پاک کرے، سوائے اس صورت ميں کہ باعث حرج ہو۔

مسئلہ ٣١٩ جو شخص پيشاب یا پاخانہ روکنے پر قدرت نہ رکھتا ہو، ضروری ہے کہ ممکنہ حد تک حرج نہ ہونے کی صورت ميں نماز پڑ هنے کی مقدار تک پيشاب وپاخانہ کو نکلنے سے روکے، اور اگر آسانی سے اس مرض کا علاج ہو سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اس کا علاج کرائے۔

مسئلہ ٣٢٠ جو شخص پيشاب یا پاخانہ روکنے پر قدرت نہيں رکھتا، صحت یا ب ہونے کے بعد ضروری نہيں ہے کہ جو نمازیں اس نے بيماری کی حالت ميں اپنی ذمہ داری کے مطابق پڑھی تہيں ، ان کی قضا کرے ليکن اگر نما زکے وقت کے دوران مرض سے شفا پا جائے تو ضروری ہے کہ اس وقت ميں پڑھی ہوئی نماز کو دهرائے۔

مسئلہ ٣٢١ جو شخص اپنی ریح روکنے پر قادر نہ ہو ضروری ہے کہ ان لوگوں کے وظيفے کے مطابق عمل کرے جو پيشاب یا پاخا نہ روکنے پر قدرت نہيں رکھتے۔

وہ چيزيں جن کے لئے حدث سے پاک ہونا ضروری ہے

مسئلہ ٣٢٢ چھ چيزوں کے لئے وضو کرنا واجب ہے :

١) نماز ميت کے علاوہ تمام واجب نمازوںکے لئے اور مستحب نمازوں ميں وضو شرط صِحت ہے ۔

٢) بھولے ہوئے سجدے اور تشهد کی قضا کے لئے اور تشهد بھولنے کی وجہ سے انجام دئے جانے والے سجدہ سهو کٔے لئے اور اگر ان کے اور نماز کے درميان اس سے کوئی حدث سر زد ہوا ہو مثلاًپيشاب کر دیا ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے۔ ہاں، مذکورہ سجدہ سهوکے علاوہ دوسرے موارد ميں وضو کرنا واجب نہيں ہے ۔

٣) حج وعمرے کے واجب طواف کے لئے ۔

۴) اگر کسی نے وضو کرنے کی نذر کی ہو، عهد کيا ہو یا قسم کهائی ہو۔

۵) جب کسی نے نذر کی ہو کہ اپنے بدن کے کسی حصے کو قرآن کے حروف سے مس کرے گا، جب کہ یہ نذر صحيح ہو، مثلاًقرآن کو بوسہ دینا۔

۵۳

۶) نجس قرآن کو پاک کرنے یا قرآن کو ایسی جگہ سے نکالنے کے لئے جهاں قرآن کا ہونا توهين کا باعث ہو، جب کہ صورت حال یہ ہو کہ انسان اپنے ہاتھ یا بدن کے کسی حصے کو قرآن کے حروف سے مس کرنے پر مجبور ہو، ليکن اگر وضو کے لئے رکنا قرآن کی بے احترامی کا باعث ہو تو ضروری ہے کہ بغير وضو ہی قرآن کو اس جگہ سے نکالے یا اگر نجس ہو گيا ہو تو اسے پاک کرے۔

مسئلہ ٣٢٣ جو شخص باوضو نہ ہو اس کے لئے قرآن کے حروف کو مس کر نا، یعنی بدن کا کوئی حصہ قرآن کے حروف سے لگانا، حرام ہے ليکن اگر بال کھال کے تابع شمار نہ ہو ں تو انہيں قران کے حروف سے مس کرنے ميں کوئی حرج نہيں اور اگر قرآن کا اردو یا کسی اور زبان ميں ترجمہ کيا گيا ہو تو خداوندِمتعال کے اسم ذات اور اسماء صفات کے علاوہ کومس کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣٢ ۴ بچے اور دیوانے کو قرآن مجيد کے الفاظ کو مس کرنے سے روکنا واجب نہيں ، ليکن اگر ان کے ایسا کرنے سے قرآن مجيد کی بے حرمتی ہوتی ہو تو انہيں روکنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣٢ ۵ جو شخص باوضو نہ ہو اس کے لئے الله تعالی کی ذات او ر اس کی صفات کے ناموں کو خواہ کسی بھی زبان ميں لکھے ہوں مس کرنا حرام ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ چودہ معصومين عليهم السلام کے اسماء مبارک کو بھی بغير وضو کے مس نہ کيا جائے۔

مسئلہ ٣٢ ۶ اگر کوئی شخص نما زکا وقت آنے سے پهلے باطهارت ہونے کے ارادے سے وضو یا غسل کرے تو صحيح ہے اور نماز کے وقت کے نزدیک بھی اگر نما ز کے لئے تيار ہونے کی نيت سے وضو کرے تو کوئی حرج نہيں ، بلکہ مستحب ہے ۔

مسئلہ ٣٢٧ اگر کسی کو یقين ہو یا شرعی دليل رکھتا ہو کہ نما زکا وقت داخل ہو چکا ہے اور وہ واجب کی نيت سے وضو کرے جب کہ اس کا قصد وجوب سے مقيد نہ ہو اور وضو کے بعد معلوم ہو کہ وقت داخل نہيں ہوا تھا تو اس کاوضو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣٢٨ انسان کے لئے مستحب ہے کہ ہر اس کام کے لئے جس کے صحيح ہونے کے لئے وضو کرنا اگر چہ شرط نہيں ليکن اس عمل کے کمال ميں معتبر ہے ، وضو کرے۔ مثلاًواجب طواف اور نماز طواف کے علاوہ باقی تمام مناسک حج کے لئے ، کيونکہ ان دو ميں وضو کرنا شرطِ صحت ہے ۔

اسی طرح نماز ميت پڑھنے، ميت کو قبر ميں داخل کرنے، مسجد جانے، قرآن پڑھنے اور لکھنے اور سوتے وقت وضو کرنا مستحب ہے ۔ یہ بھی مستحب ہے کہ جو شخص با وضو ہو وہ دوبارہ وضو کرے۔

مذکورہ بالا کاموں ميں سے کسی ایک کے لئے بھی وضو کرنے کی صورت ميں انسان ہر وہ کام انجام دے سکتا ہے جس کے لئے وضو کرنا ضروری ہے مثلاًاس وضو سے نماز پڑھ سکتا ہے یا واجب طواف کر سکتا ہے ۔

۵۴

مبطلات وضو

مسئلہ ٣٢٩ سات چيزیں وضو کر باطل کرتی ہيں :

٢)پيشاب وپاخانہ، جب کہ اپنی طبيعی جگہ سے نکلے یا عادت کے مطابق غير طبيعی جگہ ،١

نکلے۔ اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر بغير عادت کے غير طبيعی مقام سے پيشاب یا پاخانہ نکلنے پر بھی وضو باطل ہو جاتا ہے ۔

وہ تری جو پيشاب سے شباہت رکھتی ہو اور استبرا سے پهلے نکلے پيشاب کا حکم رکھتی ہے ۔

٣) طبيعی مقام سے نکلنے والی آنتوں کی ریح اور پاخانے کے مورد ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق غير طبيعی مقام سے نکلنے والی ریح بھی جب کہ اس مقام کا دو مخصوص ناموں ميں سے ایک نام رکھا جا سکے۔

۴) نيند، جو اس وقت ثابت ہوگی جب کان سن نہ سکيں۔

۵) عقل کو زائل کر دینے والی چيزیں جيسے دیوانگی، مستی، بے ہوشی وغيرہ۔

۶) عورتوں کا استحاضہ جس کی تفصيل بعد ميں آئے گی۔

٧) جنابت۔

جبيرہ وضوکے احکام

وہ چيز جس سے زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کو باندها جاتا ہے اور وہ دوا جو زخم یا ایسی ہی کسی چيز پر لگائی جاتی ہے جبيرہ کهلاتی ہے ۔

مسئلہ ٣٣٠ اگر اعضاء وضو ميں سے کسی پر زخم یا پھوڑا ہو یا ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو، تو اگر اس پر کوئی چيز نہ ہو اور پانی اس کے ليے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ عام طریقے سے وضو کيا جائے۔

مسئلہ ٣٣١ اگر زخم پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی چھرے یا ہاتھوںپر ہو اوراس پر کوئی چيز نہ ہو جب کہ پانی ڈالنا اس کے لئے مضر ہو تو اگر اس پر گيلا ہاتھ پهيرنا مضر نہ ہو تو ٹوٹی ہوئی ہڈی کی صورت ميں ضروری ہے کہ اس پر گيلا ہاتھ پهيرے، جب کہ زخم یا پھوڑا ہونے کی صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ گيلا ہاتھ پهيرے اور اس کے بعد احتياط مستحب کی بنا پر ایک پاک کپڑا اس پر رکھ کر گيلا ہاتھ کپڑے پر بھی پهيرے۔

اور اگر یہ بھی مضر ہو یا زخم اور ٹوٹی ہوئی ہڈی وغيرہ نجس ہو جسے پاک نہ کيا جا سکتا ہو تو زخم کی صورت ميں ضروری ہے کہ زخم کے اطراف کو وضو ميں بيان شدہ طریقے کے مطابق اوپر سے نيچے کی طرف دهوئے اور تيمم بھی ضروری نہيں ، البتہ احتياط مستحب یہ ہے کہ زخم پر پاک کپڑا رکھ کر اس پر گيلا ہاتھ پهيرے اور تيمم بھی کرے۔

۵۵

اور ٹوٹی ہوئی ہڈی کی صورت ميں ضروری ہے کہ تيمم کرے اور احتياط واجب کی بنا پر وضو بھی کرے اور اس پر پاک کپڑارکھ کر گيلا ہاتھ پهير دے۔

مسئلہ ٣٣٢ زخم، پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کسی کے سر یا پاؤں کے اوپر والے حصے ميں ہو اور اس پر کوئی چيز بھی نہ ہو، اگر وہ اس پر مسح نہ کر سکتا ہو، یعنی مثلا زخم مسح کے سارے مقام پر پهيلا ہوا ہو یا سالم حصوں پر مسح کرنا بھی ممکن نہ ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ ایک پاک کپڑا زخم وغيرہ پر رکھ کر ہاتھ ميں بچی ہوئی وضو کی تری سے اس پر مسح کرتے ہوئے وضو بھی کرے اور تيمم بھی کرے۔

مسئلہ ٣٣٣ اگر پهوڑے، زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کو کسی چيز سے باندها گيا ہو، اگر اس کا کهو لنا مشقت کا باعث نہ ہو اور پانی بھی اس کے لئے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے کھول کر وضو کرے خواہ زخم وغيرہ چھرے اور ہاتھوں پر ہو یا سر کے اگلے حصے یا پاؤں کے اوپر والے حصے پر ہو۔

مسئلہ ٣٣ ۴ اگر کسی شخص کا زخم، پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی جو کسی چيز سے بندهی ہو اس کے چھرے یا ہاتھوں پر ہواور اسے کھولنے یا پانی ڈالنے ميں ضرر یا مشقت ہو تو جتنی مقدار ميں ضرر اور مشقت نہ ہو، اسے دهوئے اور جبيرہ کے اوپر گيلا ہاتھ پهيرے۔

مسئلہ ٣٣ ۵ اگر زخم کو کھولا نہ جاسکتا ہو ليکن خود زخم اور جو چيز ا س پر لگا ئی ہو پاک ہوں اور زخم تک پانی پهنچانا ممکن ہو اور مضر اور باعث مشقت بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کو زخم پر ترتيب کا خيال رکھتے ہوئے، جس کا خيال رکھنا چھرے ميں احتياط واجب کی بنا پرہے، پهنچائے، ليکن اگر جبيرہ چھرے پر ہو اور پانی پهنچانے ميں ترتيب کا خيال رکھنا ممکن نہ ہو تو بنا بر احتياط اسے دهوئے بھی اور ترتيب کا خيال رکھتے ہوئے گيلا ہاتھ بھی پهيرے۔

اور اگر زخم یا وہ چيز جو ا س کے اوپر رکھی ہے نجس ہو، چنانچہ اسے پاک کر نا اور زخم تک پانی پهنچانا ممکن ہو اور ضرر ومشقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے پاک کرے اور وضو کے وقت پانی کو زخم تک پهنچائے۔

اور اگر زخم تک پانی پهنچانا ممکن نہ ہو یا ضرر یا مشقت ہو یا زخم نجس ہو اور اسے پاک کرنا ممکن نہ ہو یا ضرر یا مشقت ہو تو ضروری ہے کہ زخم کے اطراف کو دهوئے اور اگر جبيرہ پاک ہو تو اس کے اوپر گيلا ہاتھ پهيرے، اور اگر جبيرہ نجس ہو یا گيلا ہاتھ اس کے اوپر نہيں پهير سکتے تو ممکنہ صورت ميں پاک کپڑا اس پر رکھ کر احتياط واجب کی بنا پر تيمم بھی کرے اور اس کپڑ ے پر گيلا ہاتھ بھی پهيرے اور حتی الامکان اس کپڑ ے کو اس طرح رکھے کہ جبيرہ کا جزء سمجھا جائے اور اگر دوسرا کپڑا رکھنا یا اس پر گيلا ہاتھ پهيرنا ممکن نہ ہو تو بنا بر احتياط واجب اس کے اطراف کو وضو ميں بيا ن شدہ طریقے کے مطابق دهوئے اور تيمم بھی کرے۔

مسئلہ ٣٣ ۶ اگر جبيرہ تمام چھرے یا پورے ایک ہاتھ یا پورے دونوں ہاتھوں کو گھيرے ہوئے ہو، احتياط واجب یہ ہے کہ وضوئے جبيرہ اور تيمم دونوں کرے۔

۵۶

مسئلہ ٣٣٧ اگر جبيرہ تمام اعضاء وضو کو گھيرے ہوئے ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ وضوئے جبيرہ اور تيمم دونوں کرے۔

مسئلہ ٣٣٨ جس شخص کی ہتھيلی اور انگليوں پر جبيرہ ہو اور وضو کرتے وقت اس پر گيلا ہاتھ پهيرا ہو تو وہ سر اور پاؤں کا مسح اسی رطوبت سے کرے۔

مسئلہ ٣٣٩ اگر کسی شخص کے پاؤں کے اوپر والے پورے حصے پر جبيرہ ہو ليکن کچھ حصہ انگليوں کی طرف سے اورکچه حصہ پاؤںکے اوپر والے حصے کی طرف سے کہ جس پر مسح واجب ہے ، کهلا ہوا ہو تو ضروری ہے کہ جو جگہيں کهلی ہيں وہاں پاؤں کے اوپر والے حصے پر اور جن جگہوں پر جبيرہ ہے وہاں جبيرہ پر مسح کرے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٠ اگر چھرے یاہاتھوں پر ایک سے زیادہ جبيرے ہوں تو ان کا درميانی حصہ دهونا ضروری ہے اور اگر سر یاپاؤں کے اوپر والے حصے پر چند جبيرے ہوں تو ان کے درميانی حصے کا مسح کرنا ضروری ہے اور جهاں جبيرے ہوں وہاں جبيرے کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣ ۴ ١ اگر جبيرہ زخم کے آس پاس کے حصوں کو معمول سے زیادہ گھيرے ہوئے ہو اور اس کو ہٹا نا بغير مشقت کے ممکن نہ ہوتو بنا بر احتياط واجب وضو ئے جبيرہ بھی کرے اور تيمم بھی اور اگر جبيرے کی معمول سے زیادہ بڑھی ہوئی مقدار کو ہٹانے ميں مشقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے ہٹا لے، پس اگر زخم چھرے یا ہاتھوں پر ہو تو ان کو دهولے اور اگر سر یا پيروں کے اوپر والے حصے پر ہوکہ جس کا مسح واجب ہے تو اس کا مسح کرے اور زخم کی جگہ پر جبيرہ کے احکام کے مطابق عمل کرے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٢ اگر اعضائے وضو پر زخم، چوٹ یا ٹوٹی ہوئی ہڈی نہ ہو ليکن کسی اور وجہ سے پانی ان کے لئے مضر ہو تو تيمم کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣ ۴ ٣ اگر اعضائے وضو ميں سے کسی جگہ کی رگ کٹوا کر خون نکلوایا ہواور اس مقام کو ضرر کی وجہ سے نہ دهویا جاسکتا ہو تو اس پر زخم کے احکام جاری ہوں گے جن کا تذکرہ پچهلے مسائل ميں ہو ا اور اگر کسی اور وجہ سے مثلا خون نہ رکنے کی وجہ سے اسے دهونا ممکن نہ ہوتو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

مسئلہ ٣ ۴۴ اگر وضو یا غسل کی جگہ پر کوئی ایسی چيز چپک گئی ہو جس کا اتارنا ممکن نہ ہو یا باعثِ حرج ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ وضو یا غسل جبيرہ بھی کرے اور تيمم بهی۔

۵۷

مسئلہ ٣ ۴۵ غسل ميت کے علاوہ غسل کی تمام اقسام ميں غسل جبيرہ وضوئے جبيرہ کی طرح ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اسے ترتيبی طریقے سے انجام دے، ليکن اگر بد ن ميں زخم یا پھوڑا ہو تو چاہے اس مقام پر جبيرہ ہو یا نہ ہو، اگرچہ مکلف کے غسل یا تيمم ميں سے کسی ایک کو انجام دینے پر صاحب اختيار ہونے کی دليل ہے ، ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ غسل کرے اور ٹوٹی ہوئی جگہ، زخم اور پهوڑے کاحکم غسل ميں وهی ہے جو وضو ميں چھرے اور ہاتھوں کے سلسلے ميں بيان کيا جاچکاہے۔

مسئلہ ٣ ۴۶ جس شخص کی ذمہ داری تيمم ہو اگر اس کے بعض اعضائے تيمم پر زخم یاپھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی ہو تو ضروری ہے کہ وضوئے جبيرہ کے احکام کے مطابق تيمم جبيرہ انجام دے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٧ جس شخص کے لئے وضوئے جبيرہ یا غسل جبيرہ کے ساته نماز پڑھنا ضروری ہو، اگر جانتاہو کہ نماز کے آخری وقت تک اس کا عذر دور نہيں ہوگا، تو وہ اول وقت ميں نماز پڑھ

سکتاہے ، ليکن اگر اميد ہو کہ آخر وقت تک عذر بر طرف ہو جائے گا تو بہتر ہے کہ صبر کرلے اور عذر برطرف نہ ہونے کی صورت ميں نماز کو آخر وقت ميں وضوئے جبيرہ یا غسلِ جبيرہ کے ساته انجام دے، اور اگر اول وقت ميں نماز پڑھ چکا ہو اور آخر وقت ميں عذر بر طرف ہوجائے تو ضروری ہے کہ وضو یا غسل کرکے دوبارہ نماز پڑھے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٨ اگر کسی شخص نے آنکه کی بيماری کی وجہ سے پلکيں چپکا کر رکھی ہو ں یا آنکه ميں درد کی وجہ سے پانی اس کے لئے مضر ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٩ جو شخص نہ جانتا ہو کہ آیا اس کا وظيفہ تيمم ہے یا وضو ئے جبيرہ تو ضروری ہے کہ احتياط کرتے ہوئے وضو بھی کرے اور تيمم بھی کرے۔

مسئلہ ٣ ۵ ٠ جونمازیں انسان نے وضوء جبيرہ سے پڑھی ہوں اور آخر وقت تک عذر باقی رہا ہو، صحيح ہيں اور بعد کی نمازوں کو بھی اگر تمام وقت ميں عذر باقی رہے تو اسی وضو سے پڑھ سکتا ہے اور جب بھی عذر ختم ہوجائے احتياط واجب کی بنا پر بعد کی نمازوں کے لئے وضو کرے۔

واجب غسل واجب غسل سات ہيں :

١) غسل جنابت

٢) غسل حيض

٣) غسل نفاس

۴) غسل استحاضہ

۵۸

۵) غسل مسِ ميت

۶) غسل ميت

٧) وہ غسل جو نذر، قسم یا ان جيسی چيزوں کی وجہ سے واجب ہوجائے۔

جنابت کے احکام

مسئلہ ٣ ۵ ١ انسان دو چيزوں سے جنب ہوتا ہے :

١) جماع

٢) منی کے خارج ہونے سے، خواہ وہ نيند کی حالت ميں نکلے یا بيداری ميں ، کم ہو یا زیادہ، شهوت سے نکلے یا بغير شهوت کے، اختيار سے نکلے یا بغير اختيار کے۔

مسئلہ ٣ ۵ ٢ اگر کسی مرد کے بدن سے کوئی رطوبت خارج ہو اور وہ یہ نہ جانتا ہوکہ منی ہے یا پيشاب یا کوئی اور چيز، اگر وہ رطوبت شهوت کے ساته اور اچھل کر نکلے اور اس کے نکلنے کے بعد بدن سست پڑ جائے تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے ، ليکن اگر ان تين علامتوں ميں سے ساری یا کچھ موجود نہ ہوں تو وہ رطوبت منی کے حکم ميں نہيں آئے گی، ليکن اگر بيمار ہو اور وہ رطوبت شهوت کے ساته نکلی ہو تو چاہے اچھل کر نہ نکلی ہواور اس کے نکلنے کے بعد جسم سست نہ پڑا ہو، تب بھی منی کے حکم ميں ہے اور اگر عورت شهوت کے ساته انزال کرے تو اس پر غسل جنابت واجب ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵ ٣ اگر کسی ایسے مرد کے مقام پيشاب سے جو بيمار نہ ہو کوئی ایسا پانی خارج ہو، جس ميں ان مذکورہ بالا تين علامات ميں سے کوئی ایک علامت موجود ہو ليکن نہ جانتا ہو کہ بقيہ علامات بھی اس ميں موجود ہيں یا نہيں ، تو اگر اس پانی کے خارج ہونے سے پهلے اس نے وضو کيا ہوا ہو تو وهی وضو کافی ہے اور اگر وضو نہيں کيا تھا تو صرف وضو کرنا کافی ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵۴ منی خارج ہونے کے بعد انسان کے لئے پيشاب کرنا مستحب ہے اور اگر پيشاب نہ کرے اور غسل کے بعد اس سے کوئی رطوبت خارج ہو جس کے بارے ميں نہ جانتا ہوکہ منی ہے یا کوئی اور رطوبت تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵۵ اگر کوئی شخص جماع کرے اور عضو تناسل ختنہ گاہ کی مقدار تک یا اس سے زیادہ عورت کی شرمگاہ ميں داخل ہوجائے تو خواہ یہ دخول فرج ميں ہو یا دبر ميں ، دونوں جنب ہو جائيں گے، اگرچہ منی بھی خارج نہ ہوئی ہو اور اگر مرد سے جماع کرے تو پهلے سے باوضو نہ ہونے کی صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ وضو بھی کرے اور غسل بھی ورنہ غسل کرنا کافی ہے ۔ مذکورہ بالا حکم ميں بالغ ونابالغ، عاقل ودیوانے اور با ارادہ یا بے ارادہ کے درميان کوئی فرق نہيں ۔

۵۹

مسئلہ ٣ ۵۶ اگر کسی کو شک ہو کہ عضو تناسل ختنہ گاہ تک داخل ہوا ہے یا نہيں ، تو اس پر غسل واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵ ٧ اگر کوئی شخص کسی حيوان کے ساته وطی کرے اور اس کی منی خارج ہو تو صرف غسل کرنا کافی ہے اور اگر منی خارج نہ ہو ليکن وطی سے پهلے با وضو ہو تب بھی صرف غسل کافی ہے اور اگر باوضو نہ ہو تو بنا بر احتياط واجب وضو بھی کرے اور غسل بهی۔

مسئلہ ٣ ۵ ٨ اگر منی اپنی جگہ سے حرکت کرے ليکن خارج نہ ہو یا انسان کو شک ہو کہ منی خارج ہوئی ہے یا نہيں تو اس پر غسل واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵ ٩ جو شخص غسل نہ کرسکتا ہو ليکن تيمم کر سکتا ہو، وہ نما زکا وقت داخل ہونے کے بعد بھی اپنی بيوی سے جماع کر سکتاہے۔

مسئلہ ٣ ۶ ٠ اگر کوئی شخص اپنے لباس ميں منی دیکھے اور جانتا ہو کہ اس کی اپنی منی ہے اور اس کے لئے غسل نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور جن نمازوں کے بارے ميں اسے یقين ہو کہ وہ اس نے منی خارج ہونے کے بعد پڑھی ہيں ، اگر وقت باقی ہو تو ادا کرلے اور اگر وقت گزر چکا ہو تو ان نمازوں کی قضا کرے، ليکن جن نمازوں کے بارے ميں احتمال ہو کہ منی خارج ہونے سے پهلے پڑھی ہيں ان کی ادا یاقضا نہيں ۔

وہ چيزيں جو جنب پر حرام ہيں

مسئلہ ٣ ۶ ١ پانچ چيزیں جنب شخص پر حرام ہيں :

١) اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجيد کے الفاظ، الله تعالی کے نام، خواہ کسی بھی زبان ميں ہو اور باقی اسمائے حسنی سے مس کرنا۔ احتياط مستحب یہ ہے کہ پيغمبروں، ائمہ اور حضرت زهرا عليها السلام کے ناموں سے بھی اپنا بدن مس نہ کرے۔

٢) مسجدا لحرام اور مسجد النبوی صلی الله عليہ و آلہ وسلم ميں جانا، خواہ ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل آئے۔

٣) دوسری مسجدوں ميں ٹہرنا، ليکن اگر ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل آئے تو کوئی حرج نہيں ہے اور اسی طرح ائمہ عليهم السلام کے حرم ميں ٹہرنا حرام ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ ائمہ عليهم السلام کے حرم ميں ، حتی ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے دروازے سے نکلنے کی حد تک بھی نہ جائے۔

۴) کسی چيز کو مسجد ميں رکھنے کے لئے اور اسی طرح بنا بر احتياط واجب کسی چيز کو مسجد سے اٹھ انے کے لئے داخل ہونا۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421