عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 13%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 421

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 421 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 208949 / ڈاؤنلوڈ: 8560
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

پہلی جلد

علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم:سید قلبی حسین رضوی

۳

خطوط اور مقدمے

کتاب عبدا للہ بن سبا کی علمی قدر و قیمت

ایک شیعہ دانشور محترم جناب شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

الازہر یونیورسٹی ، مصر کے مجلہ کا جواب

مباحث پر ایک نظر

سلسلہ مباحث کی پیدائش

۴

کتاب عبد اللہ بن سبا کی علمی قدرو قیمت

مصر کی الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر جناب ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کا خط

کتاب عبدالله بن سبا ، آخر میں دوسرے ایڈیشن کے عنوان سے مصر میں دوسری بار شائع ہوئی ہے،اس کتاب نے اہل سنت ممالک میں گہرا اثر ڈالا ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں خاص کر الازہر یونیورسٹی کے دانشوروں اور اساتذہ کی توجہ کا سبب بنی ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں میں غیر معمولی اثر ڈالا ہے ،مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی طرف سے مؤلف کو اس کتاب کو پسند کرنے کے سلسلہ میں کئی خطوط ملے ہیں ، ان میں سے ایک جناب ڈاکٹر حامدکا خط ہے ، وہ مصر کے ایک نامور دانشور ہیں ، جو کئی قابل قدر تحقیقی تالیفات کے مالک ہیں ۔

چونکہ یہ خط انصاف و عدالت کا ایک نمونہ اور تعصب اورہٹ دھرمی کی سرحدوں کو توڑنے والا ایک عنوانہے اس لئے ہم اسے ترجمہ کرکے شائع کرتے ہیں(۱)

____________________

۱۔ نشریہ سالانہ مکتب تشیع ۴/۳۰۲۔

۵

خط کا مضمون

تاریخ اسلام کی تیرہ صدیاں اختتام کو پہنچی ہیں ان تیرہ صدیوں کے دوران ہمارے دانشوروں کے ایک گروہ نے حتی الامکان شیعوں کے خلاف آواز اٹھائیہے اور حقائق کو اپنی نفسانی خواہشات سے مخلوط کیا ہے اس ناپسندیدہ روش کی وجہ سے اسلامی فرقوں کے د رمیان گہرے اختلافات پیدا ہوئے ہیں ، نتیجہ کے طورپر شیعہ دانشوروں کے فکر و اندیشہ کے گوہر کو حقیر سمجھا گیا ہے اسی روش کی بنا پر علمی دنیا کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

شیعہ دانشوروں کے افکار سے علم محروم رہا ہے کیونکہ دشمنوں نے شیعوں کے پا ک و صاف دامن کو داغدار بنا کر انھیں ایک توہمات و خرافات کے حامل گروہ کے طور پر پہچنوایا ہے ، بے شک ہم شیعوں کے صاف و شفاف علمی چشمہ زلال سے ایک گھونٹ پی سکتے تھے نیزاس مذہب کے سرمایہ سے فائدہ اٹھا سکتے تھے ، لیکن افسوس کہ ہمارے گزشتہ دانشوروں نے تعصب سے کام لیااور عقل کو ھوا و ہوس پر ترجیح نہیں دی ، اے کاش کہ وہ لوگ عقل کی پیروی کرتے اور جذبات کے کھلونے نہ بن تے !! جو کوئی تعصب کے عینک کو اتارکر فقہی مباحث کےلئے اقدام کرے اور فقہ مذاہب چہارگانہ پر تحقیق کرے ، وہ شیعہ فقہ سے بھی استفادہ کرنے پر مجبور ہے اور بے شک جب فقہ اہل سنت پرتحقیق کرے تو اس وقت شیعہ فقہ کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے اور اس سے آگاہ ہونا چاہئے ۔

۶

ہم کب تک خواب غفلت میں رہیں گے ؟! کیا فقہ شیعہ کے پرچم دار ،ا مام جعفر صادق علیہ السلام(۱) سنی مذہب کے دو امامو ں کے استاد نہیں تھے؟ یہ دو امام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مکتب میں زانوئے ادب تہہ کیا ہے ۔

ابو حنیفہ ، نعمان بن ثابت(۲) کہتے ہیں :

لولاالسنتان لهلک النعمان

اگر امام صادق علیہ السلام کے درس میں دو سال شرکت نہ کی ہوتی تو بے شک میں ہلاک ہوجاتا، اوردین سے منحرف ہوتا۔

اس کی مراد وہی دو سال ہیں جس میں انہوں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کے علم کے میٹھے اور زلالی چشمہ سے استفادہ کیا ہے ۔

اور یہ مالک بن انس ہیں جو واضح طور پر اعتراف کرتے ہیں :

ما رایت افقه من جعفر بن محمد

میں نے جعفر بن محمد سے فقیہ تر کسی کو نہیں د یکھا ہے(۳)

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ علم کے بارے میں صرف دور سے کچھ سننے والوں نے اپنے آپ کو دانشور سمجھ کر اپنے قلم سے تحقیق کی بنیادوں کو اکھاڑ کر حق و حقیقت کو اپنی نفسانی خواہشات پر قربان

____________________

۱۔ وفات ۱۴۸ ھ

۲۔ وفات ۱۵۰ھ

۳۔ وفات ۱۷۹ ھ

۷

کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر گلستان علم کے دروازے ان پر بند ہوگئے اور اس طرح وہ شمع معرفت کے نور سے محروم ہوگئے ہیں ، اس مذموم روش نے فتنہ کی آگ کو بھڑکانے کے علاوہ مسلمانوں میں ، دن بدن اختلافات کو بڑھا وا دیا ہے ۔

افسوس کہ ہمارے استاد ” احمد امین “(۱) بھی انہیں افراد میں سے تھے ، جنہوں نے معرفت کے نور سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ظلمت کے پردوں کے پیچھے زندگی بسر کرتے رہے ، یہ وہ کرنیں ہیں جو تشیع کے سورج سے چمکی ہیں اور جہالت کی تاریک رات کو نور میں تبدیل کرکے اسلام کے عظیم تمدن کو اس وقت وجود بخشا ، جبکہ دوسرے لوگ بہت پیچھے تھے۔

تاریخ نے اس ناپاک رویہ کی بنا پر ، احمد امین اور ان جیسے تمام اساتذہ اور دانشوروں کے دامن پر عظیم داغ لگادیا ہے، جنہوں نے آنکھیں بند کرکے تعصب کی وادی میں قدم رکھا ہے ، یہ دانشور وں اور محققین کا طریقہ کار نہیں ہے کہ ایک جگہ بیٹھے رہیں اور جمود کی بیڑی کو اپنی فکر کے پاؤں سے نہ اتاریں اور بے جا پر تعصب سے کام لے کر آنکھیں بند کرکے کسی مذہب کی پیروی کریں !!

ان کی فکرو قلم سے بہت ساری غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہوئی ہیں اور انہیں الجھن اور بد حواسی سے دوچار کیا ہے ، شاید مذکورہ داستان اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔

انہوں نے جھوٹ بول کر بعض مطالب کو شیعوں سے نسبت دیکران کے دامن کو داغدار بنادیا

____________________

۱۔ ” فصل “ پیدائش افسانہ د ور راویان آن “ شمارہ ہفتم ، کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں پر احمد امین کی باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا ہے جس کا سبب شیعوں کے ساتھ اس کی دشمنی اور کینہ ہے ۔

۸

ہے کہ ہم نے ان میں سے بعض کی طرف اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے ،(۱) انہوں نے تصور کیا ہے کہ جتنے بھی خرافات اور جعلی چیزیں اسلام کی تاریخ میں موجود ہیں ، سب کی سب شیعہ علما کی گڑھی ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنے خود ساختہ گمان سے شیعوں پر حملہ کیا اور ان کو برا بھلا کہا ہے۔

جلیل القدر محقق ”جناب مرتضیٰ عسکری “ نے اپنی کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ میں کافی دلائل سے مکمل طور پر ثابت کیا ہے کہ ” عبدا للہ بن سبا “ ایک خیالی اور جعلی موجود ہے ۔

تاریخ نویسوں نے جو حکایتیں بیان کی ہیں اور ان کی بناء پر اسے (عبدا للہ بن سبا) مذہب شیعہ کا مروج(۲) بیان کیا ہے البتہ یہ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، مؤرخین نے ان گڑھی ہوئی داستانوں کو اس لئے مرتب کیا ہے تا کہ فریب کاری کے جال کو پھیلا کر شیعوں پر حملے کرکے بے جا ان کے خلاف تہمت و افتراء پردازی کریں ۔

ہم عصر دانشور ،جناب مرتضیٰ عسکری نے اس کتاب میں اپنی فکر و اندیشہ کے سہارے تاریخ کے سمندر میں غوطہ لگا کر ، بہت سی کتابوں کا مطالعہ فرمایا ہے اور انتہائی تلاش و جستجو کے بعد اس سمندر سے کافی مقدارمیں موتی لے کر ساحل تک آئے ہیں ۔

انہوں نے زیر بحث حقائق کو ثابت کرنے کےلئے نزدیک ترین راستہ طے کیا ہے ، شیعوں کے

مخالفوں سے بحث کے دوران ان کے ہی بیانات کو مآخذ قرار دیکر ان کی باتوں کو باطل ثابت کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کی کتا ب” مع احمد امین “ کے مقدمہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ خود غرض مورخین نے اسے شیعہ مذہب کا بانی و مروج خیال کیاہے۔

۹

تاریخ اسلام کے آغاز سے عصر حاضر تک ” سیف بن عمر“ کی روایتوں نے مؤرخین کو الجھا رکھا ہے جو عام طور پر قابل اعتماد ہے، اس کتاب میں ان روایتوں کے بارے میں ایک گراں بہا تحقیق کی گئی ہے کہ قارئین بڑی آسانی سے انھیں سمجھ سکتے ہیں ۔

خدا کی حکمت اسی میں ہے کہ بعض محققین مردانہ وار قلم ہاتھ میں اٹھا کر حقائق سے پردہ اٹھائیں ، اور اس راستہ میں دوسروں کی سرزنش اور ملامت کی پروانہ کریں ، مصنف محترم پہلی شخصیت ہیں جس نے اپنی گہری تحقیقات کے نتیجہ میں اہل سنت محققین کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ طبری کی کتاب ” تاریخ الامم و الملوک “ کے بارے میں تجدید نظر کریں ، نیز انھیں اس بات پر مجبور کیا ہے کہ اس کتاب اورتاریخ کی دوسری بنیادی کتابوں کے بارے میں از سر نو دقت سے غور کرتے ہوئے اور خوب و بد کو ایک دوسرے سے جدا کریں ،مزید ان تاریخی حوادث کے بارے میں بھی نئے سرے سے غور کریں ، جنہیں وہ نازل شدہ وحی کے مانند صحیح اور نا قابل تغییر سمجھتے تھے !!

محترم مصنف نے کافی ، واضح اور روشن شواہد کی مدد سے ان تاریخی وقائع سے ابہام کے پردے کو ہٹا دیا ہے اور حقیقت کو اس کے متوالوں کےلئے آشکار کیا ہے حتی کہ بعض حقائق انتہائی بھیانک اور حیرت انگیز دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ایک عمر کے عادات و رسومات چند صدیوں کی اعتقادی میراث کے مخالف ہیں ، لیکن حق کی پیروی کرنالازم و واجب ہے ہر چند کہ یہ امر دشور ہو ” الحق احق ان یتبع“۔

مذکورہ مطالب سے آگاہی چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ کریں او رتاریخ کے اختلافی حوادث جیسے ، اسامہ کی لشکر کشی ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت اور سقیفہ کی داستان (جس پر مؤلف نے تنقیدی تجربہ کیا ہے) کا دقت کے ساتھ مطالعہ کریں ۔

جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موت کا شیرین جام نوش فرمارہے تھے، اسامہ کے لشکر سے بعض افراد حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے مدینہ لوٹے اور ریاست و خلافت کی امید سے جہاد سے منہ موڑ لیا ، مؤلف نے ان افراد کو پہچنوایا ہے ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر مرگ پر جب وصیت لکھنے کا حکم دیدیا، کچھ لوگوں نے اس حکم پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالی اور اسے ہذیان سے تعبیر کیا (گویا انہوں نے گمان کیا کہ پیغمبر ہذیان کہہ رہے ہیں)کیونکہ وہ اس امر سے خائف تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وصیت میں علی علیہ السلام کی خلافت کی خبر دیں گے اور ان آخری لمحات میں بھی اسے اپنے وصی کے طور پر تعارف کرائیں گے ۔

۱۰

مؤلف اس حادثہ کی حقیقت و کیفیت کو بھی آشکار کرتے ہیں عمر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے انکار کرنے کا مقصد کیا تھا ؟ کیوں وہ ان افراد کو موت کی دھمکی دیتے تھے جو یہ کہتے تھے کہ پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے رحلت کی ہے ؟جس وقت امام علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچیرے بھائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس اور چند بوڑھے اور سن رسیدہ اصحاب کی مددسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن نازنین کوغسل دینے میں مشغول تھے ، تو اس وقت کس غرض سے عمر اور ابو عبیدہ نے انتہائی عجلت کے ساتھ اپنے آپ کو سقیفہ کے اجتماع میں پہنچادیا اور لوگوں سے ابوبکر کے حق میں بیعت لے لی ؟!

بے شک ، اگر تھوڑا سا انتظار کرتے تا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سپرد لحد کرکے اور علی علیہ السلام بھی اس اجتماع میں حاضر ہوتے تو علی علیہ السلام خلافت کے مستحق قرار پاتے اور بنی ہاشم ان کے علاوہ کسی اور کو امام المسلمین کے طور پر قبول نہیں کرتے !

مؤلف نے مذکورہ تین مباحث میں صحیح کو غلط سے اور برے کو بھلے سے جدا کرکے ان مسلم حقائق تک رسائی حاصل کی ہے اور ان کی اس تحقیق کے نتیجہ میں فریب کاروں کےلئے مکرو فریب کے دروازے بند ہوگئے ہیں ۔

کتاب کے دوسرے مباحث بھی مذکورہ بالا تین مباحث کی طرح ، دقت کے ساتھ حقائق کو ایسے آشکار کرتے ہیں کہ بہت جلد ہی تاریخ اسلام کے اندر گہرے اثرات رونما ہوں گے ۔

میں اس مقالہ کو ختم کرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ درج ذیل تین سوالات کا جواب دیدوں :

۱ ۔ کیا پیغمبر خدا کا صحابی غلطی کرسکتا ہے اورلغزش سے دوچار ہوسکتا ہے ؟

۲ ۔ کیا اس کے کام اور کردار پر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے ؟

۳ ۔ کیا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی کو منافق یا کافر کہا جاسکتا ہے ؟

۱۱

سوال نمبر ایک اور دو کا میں مثبت جواب دیتا ہوں ، لیکن تیسرے سوال کا جواب منفی ہے ۔ اس لئے نہیں کہ میں تعصب سے کام لیتا ہوں اور علم کے اصول کے خلاف کہتا ہوں ، بلکہ ایک ایسا استدلال رکھتا ہوں کہ عقل اس کو قبول کرتی ہے اور منطق اسکی تائید کرتی ہے کیونکہ کفر و نفاق کا تعلق قلب و دل سے ہے اور وہاں تک خدا کے سوا کسی کی رسائی نہیں ہے ، علمی تجربہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ہے ، صرف خداوند عالم ہے جو انسان کے اندرونی اسرار سے واقف ہے اور پوشیدہ چیزوں کامکمل طور پر علم رکھتا ہے(۱)

مذکورہ روش ، وہی جدید روش ہے ، جس کا واضح مشاہدہ میری تمام تالیفات میں کیا جاسکتا ہے۔

مجھے اس بات پر انتہائی مسرت ہے کہ علم کے لحاظ سے اس عظیم کتاب اور اس کے عالی قدر مصنف استاد علامہ محقق جناب مرتضی عسکری کے تئیں انتہائی احترام و محبت کا قائل ہوں ، اسی طرح جناب مرتضیٰ رضوی کشمیری کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کو پوری ظرافت اور دیدہ زیب صورت میں شائع کیا ہے ، علامہ نے اس فریضہ کو انجام دے کر اسلام کی ایک عظیم خدمت کی ہے اور اس ذمہ داری کو انجام دے کر اسلام کے تاریخی حقائق کو زندہ کرنے کےلئے ایک عظیم اثر چھوڑا ہے ۔

قاہرہ اول جمادی الاول ۱۳۸۱ ھء مطابق ۱۲ ،اکتوبر ۱۹۶۱ ئئ

ڈاکٹر حامد حفنی داؤد

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد نے اس خط کو نصف کتاب کے شائع ہونے کے پیش نظر مصر میں لکھا ہے ۔

۱۲

ایک محترم شیعہ دانشور شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

سنی دانشور محترم جناب ڈاکٹر حامد کے نظریہ سے آگاہ ہونے کے بعد مناسب ہے یہاں پر اس کتاب کے بارے میں ایک شیعہ دانشور علامہ نابغہ جناب شیخ محمد جواد مغنیہ جبل عاملی کے نظریہ سے بھی آگاہ ہوجائیں ، علامہ موصوف لبنان میں مروج مذہب تشیع ہیں ۔

موصوف کی گراں بہا تالیفات میں من جملہ ” تفسیر قرآن مجید “ ” معالم الفلسفة الاسلامیہ“، ”الشیعہ و الحاکمون “ ” اصول الاثبات فی الفقہ الجعفری“ اور دسیوں دوسری تالیفات سنجیدہ فکر اور ان کے علمی بلند مقام کو آشکار کرتی ہیں ، ذیل میں مجلہ ” العرفان “(۱) میں شائع ہوئے ان کے مقالہ کا ترجمہ ہے :

مذہب شیعہ کے خلاف لکھنے کے علاوہ دنیا کی تمام چیزوں میں دگرگونی اور تغیرات پیدا ہوئے ہیں شیعوں پر تہمت و افتراء کے علاوہ ہر آغاز کا خاتمہ ہے شیعوں کے خلاف جاری کئے جانے والے احکام کے علاوہ ہر حکم کی ایک دلیل و علت ہے آخر کیوں ؟

کیا شیعہ شورشی اور فتنہ گر ہیں اور لوگوں کے سکون و اطمینان کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں ؟

____________________

۱۔ نمبر ۳/ سال ۱۳۸۱ ھ صفحہ ۲۳۰۔

۱۳

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :

سیف بن عمر تمیمی(۱) نامی ایک شخص نے گزشتہ دو سری صدی کے دوران دو کتابیں لکھی ہیں ، اس کی پہلی کتاب ” الفتوح و الردّة“ اور دوسری کتاب ” الجمل و مسیر عائشة و علیّ “ ہے ان دونوں کتابوں میں د رج ذیل مطالب کی ملاوٹ کی گئی ہے :

۱ ۔ ایسے حوادث و اتفاقات کی تخلیق کرنا ، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

۲ ۔ رونما ہوئے حقیقی حوادث و واقعات میں تحریف کرکے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت دکھانا ۔

اس بے لگام اور جھوٹے شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے چند من گھڑت اصحاب جعل کئے جن کے سعیر ، ہزہاز، اط ، حمیضہ ، وغیرہ نام رکھے ہیں ۔

اس نے تابعین اور غیر تابعین کے کچھ اشخاص جعلکئے ہیں اور ان کی زبانی اپنی جعلی احادیث نقل کی ہیں ۔

اس کی انہیں تخلیقات میں سے ایک سورما ہے جس کی شخصیت کو اس نے جعلکیا ہے اور اس کا فرضی نام بھی معین کیا ہے ، اور چند داستانوں کو گڑھ کر اس سے نسبت دی ہے یہ افسانوی سورما ”عبد اللہ بن سبا“ ہے جس کسی نے بھی شیعوں پر تہمتیں لگائی ہیں اور ان کے بارے میں جہل یا نفاق کے سبب افترا پردازی کی ہے ، ان سب نے اسی پر اعتماد کیا اور اس کی باتوں پر تکیہ کیا ہے۔

____________________

۱۔وفات دوسری صدی ہجری ۔

۱۴

”سیف“ کے بعد مؤرخین کی ایک جماعت نے فریب اور دھوکہ سے بھری ان دو کتابوں کو سند بنا کر کسی قسم کے تامل و تدبر کے بغیر دروغ پرداز اور چالباز سیف کے نظریات اور اندیشہ کو نقل کیا ہے ، اس طرح اس کے مذموم تفکر سے استفادہ کیا گیا ہے ۔

”طبری“ پہلا شخص تھا جو” سیف “کے دام فریب میں پھنس گیا تھا اس کے بعد ابن اثیر ، ابن عساکر اور ابن کثیر اور دوسرے لوگ” طبری“ سے آنکھیں بند کرکے روایت نقل کرنے کے سبب اس گڑھے میں گر گئے ہیں ۔

اس طرح جھوٹے ”سیف“ کی تخلیقات کی تاریخی کتابوں اور منابع میں بلاواسطہ طور پر ملاوٹ ہوئی ہے لیکن ان کی جڑ اور بنیاد، وہی سیف کی دو کتابیں ” الفتوح “ اور ” الجمل “ ہیں ۔

علامہ سید مرتضی عسکری کی کتاب ” عبد اللہ بن سبا“ مذکورہ حقائق کو صحیح دلائل کی بنا پر آشکار کرتی ہے اور قارئین کو صاف اور واضح راہنمائی کرکے حقیقت کی منزل تک پہنچاتی ہے ۔

انہوں نے اس کتاب کی تالیف میں انتہائی دقت سے کام لیا ہے اور موصوف کی تمام تر سعی و تلاش اس امر پر متمرکز رہی ہے کہ حق و حقیقت کے علاوہ کوئی چیز کاغذ پر نہ لکھی جائے ، قارئین کرام جس قدر بھی مفکر اور دانشور ہوں ، موصوف کے حاصل کئے ہوئے نتائج سے نہ تو انکار کرسکتے ہیں اورہی نہ شک و شبہ ، کیونکہ اس کتاب کے بہت سے دقیق مباحث کی بنیاد بدیہی قضایا پر مبنی ہے اور بدیہیات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے ۔

میں نے مختلف افراد سے بارہا بحث کی ہے ، اور ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا ہے ، لیکن اس گفتگو میں میں نے شیخ مفید ، سید مرتضی ، اور علامہ حلی سے آگے قدم نہیں بڑھایا ہے ، میری روش صرف یہ تھی کہ میں ان بزرگوں کے طرز بیان کو بدل دیتاتھا اور مخاطب کے لئے مطالب کو آشکار اور واضح تر بیان کرتا تھا ، کیونکہ کوئی تازہ اعتراض نہیں تھا کہ میں اس کا تازہ اور نیا جواب دیتا بلکہ اعتراض وہی تھا جو پچھلے لوگوں نے کر رکھاتھا اور اس کا جواب سن چکے تھے ، چونکہ یہ لوگ بھی گزشتہ لوگوں کی طرح اعتراض کرتے ہیں لہذا مجبور ہیں وہی جواب سنیں ،میں اپنے علمائے سلف کی باتوں کی تکرار کرتا تھا ، کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ بے خبر، معترضین علماء کی باتوں پر اعتراض کرتے ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ ان کی ہی باتوں سے آگاہ ہوجائیں ۔

بے شک میں علمائے تشیع کی پیروی کرتے ہوئے ” عبدا للہ بن سبا“ کے وجود کا معترف تھا ، لیکن اس کی رفتار کو حقیر اور شرم آور سمجھتا اور اس کی باتوں کا انکار کرتا تھا ۔

۱۵

علامہ عالیقدر جناب سید مرتضیٰ عسکری نے اس عمارت کی بنیاد ہی اکھاڑ کرکے رکھدی اور اپنی گہری تحقیقات سے ثابت کردیا کہ ” عبد اللہ بن سبا “ کی حقیقت ایک افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ! اور یہی وہ حقیقت ہے جو اس کتاب میں بے نقاب ہوئی ہے ، اگر میں یہ کہوں کہ عربی میں یہ تنہا کتاب ہے ، جس میں تاریخ کی علمی بنیادوں پر تحقیق کرکے اس پر غور کیا گیا ہے تو یہ ہرگز مبالغہ نہیں ہے ، اور میرا یہ کہنا بھی ہر گز بیجا نہیں ہوگا کہ اس دانشور مصنف نے دین و علم اور خاص طور پر شیعوں اورمذہب تشیع کی ایک ایسے زمانے میں بے مثال اور عظیم خدمت کی ہے کہ جب ان پر تہمتوں ، افتراء پردازیوں اور بہتان تراشیوں کی بھر مار ہورہی ہے ، موصوف نے اسلام کی ایک عظیم اور درخشان خدمت کی ہے ، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان رخنہ ڈال کر ان کے اتحاد و یکجہتی کو درہم برہم کرکے انھیں کمزوراوربے بس کردیا ہے ۔

ہم نے فرمانرواؤں اور ظالم حکام کی طرف سے بد ترین عذاب اور مشکلات برداشت کی ہیں تا کہ اسلام کی یکجہتی کا تحفظ کرکے دشمنی سے پرہیز کریں ، لیکن وہ روز بروز اپنی دروغ بیانی میں تشویق ہوتے رہے ہیں اور ان کی پہلی اور آخری سند ” ابن سبا“ کا افسانہ اور ” ابن السوداء “ کا خرافہ تھا کہ افسانہ ساز ”سیف “ نے انھیں ، خدا اوراپنے ضمیر کے سامنے کسی ذمہ داری کا احساس کئے بغیر جعلکیا ہے ۔ لیکن آج ” عبدا للہ ابن سبا “ نام کی کتاب لکھی جانے کے بعد یہ کاسہ لیس اور چاپلوس لوگ کیا جواب دیں گے ؟!

آخر میں میری تجویز ہے کہ یہ کتاب دیدہ زیب طباعت کے ساتھ دوبارہ شائع کی جائے اور عالم اسلام کے تمام شہروں میں نصف قیمت پر بیچی جائے تا کہ عام مسلمان اسے خرید کر اس کے عالی مطالب سے استفادہ کرسکیں ۔

نجف اشرف کے دانشوروں اور مراجع عظام کو چاہئے مذکورہ مقصد کی جانب توجہ کرتے ہوئے رقومات شرعیہ سے مدد کریں یا خیّر افراد کی اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں ۔

میری تجویز ہے کہ یہ حضرات تاکید کے ساتھ حکم فرمائیں تا کہ یہ کتاب دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر سستے داموں میں دنیا کے لوگوں تک پہنچ جائے ، یہ دین اسلام کےلئے ایک عظیم خدمت ہوگی۔

لبنان ۔ شیخ محمد جواد مغنیہ

۱۶

الازہر یونیورسٹی مصر کے مجلہ ” جامع الازھر “ میں شائع شدہ اعتراضات کا جواب

مجلہ ” جامع الازھر“ مصر میں کتاب ”عبدا للہ بن سبا “ کے بارے میں دو مقالے لکھے گئے ہیں(۱) اہم ترین مطلب جوان دو تنقیدی مقالوں میں ملاحظہ کے قابلہے عبارت ہے :

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اور ان کے باہمی اختلافات ، چودہ صدی پرانی بات ہے اور وہ سب اپنے مالک حقیقی سے جاملے لہذا چاہئے کہ ان مسائل سے صرف نظر کیا جائے(۲)

اس بات کے جواب میں ہم کہتے ہیں :

اولاً : ہم سیف کی روایتوں کی تحقیق کی فکر میں تھے ، جس موضوع پر اس نے روایتیں نقل کی تھیں ، ہم نے مجبور ہو کر ان ہی موضوعات پر بحث و تحقیق کی ہے ، چونکہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا“ میں عبد اللہ بن سبا کے افسانہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے باہمی اختلافات کے بارے میں سیف ابن عمر کی نقل کی گئی روایتوں پر بحث کی گئی ہے ، لہذا ہم مجبور ہوئے کہ ہر موضوع کے

____________________

۱۔ پہلا مقالہ کتاب کی نجف اشرف میں طبع شدہ پہلی اشاعت پر ایک تنقید ہے ، اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۳ ج۱۰، ۱۳۸۰ ئھ ” باب الکتب “ کے صفحہ۱۱۵۰ ۔۱۱۵۱ میں شائع ہوا ہے ۔ دوسرا مقالہ اسی کتاب کے مصر میں طبع شدہ نسخہ پر ایک تنقید ہے اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۲ /ج ۶/ ۱۳۸۱ ء ھ کے صفحہ۷۶۰ ۔۷۶۱ میں شائع ہوا ہے۔

۲۔ یہ جملہ پہلے مقالہ کے آخر پر لکھا گیا ہے اور باقی تمام مطالب اسی جملہ کی تفسیر اور تشریح میں لکھے گئے ہیں ۔

۱۷

بارے میں بحث کو جاری رکھتے ہوئے تجزیہ و تحقیق کریں ، جس طرح میں نے اپنی کتاب ” خمسون و ماة صحابی مختلق“ ( ۱۵۰ جعلی اصحاب) میں اصحاب کے فتوحات اور صدر اسلام کی جنگوں کو اپنا موضوع قرار دیگر بحث و تحقیق کی ہے ۔

سیف کی روایتوں پر تحقیق نے ہمیں اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ ایسی بحثوں میں داخل ہوجائیں جنھیں بہت سے دانشوروں نے پردے میں رکھا ہے ، لہذا ان موضوعات پر بحث و تحقیق نے انھیں برہم اور رنجیدہ کیا ہے ، البتہ ہم بھی ان کی طرح ایسے وقائع اور روداد کے رونما ہونے سے خوشحال نہیں ہیں اور ان سے پردہ اٹھانے اور ان پر غور و فکر کرنے سے ہمارا رنج و غم بھڑک اٹھتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خداوند عالم نے پیغمبر خدا کے اصحاب کو ملک و فرشتہ خلق نہیں کیا ہے کہ جبلت انسانی سے عاری ہوں بلکہ وہ دوسرے افراد کی طرح انسانی جبلت میں ان کے شریک ہیں ، اور ایمان اور اسلام میں استقامت کے مراتب میں بھی ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ، اس حد تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان میں سے بعض پر حد جاری کی ہے (کوڑے لگائے ہیں) اور ان میں سے بعض کے بارے میں ” آیات افک “ نازل ہوئی ہیں جن میں ان کی اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ انہوں نے پیغمبر خدا کی بیوی کی جانب نازیبانسبت دی تھی ، اور ان میں سے بعض کے بارے میں نفاق کی آیات نازل ہوئی ہیں ۔

ان تمام مطالب کے باوجود ہم نہیں سمجھتے کہ پیغمبر خدا کے اصحاب کو ان اختلافات اور تحولات کے ساتھ کیسے چھوڑدیں جبکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام اور عقائد کو ہم تک پہنچانے کے واسطہ ہیں کیا اس طرح صرف پیغمبر کو درک کرنے کی بنا پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عزت و احترام کرنا بحث و تحقیق کےلئے رکاوٹ اور دینداری کے نام پر علم ودانش کے دروازہ کو بند کرنے کے مترادف نہیں ہے ؟ چونکہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے صدیوں سے اپنے اوپر اجتہاد کا دروازہ بند کررکھتا ہے ، لہذا تحقیق و علم کا دروازہ بھی ان پر بند ہوگیا ہے ۔

۱۸

خدارا ! ہم نے اس مطلب کو قبول نہیں کیا ہے اور اسکی تائید نہیں کرتے ہیں بلکہ دین و اسلام کے نام پر اور اس پر عمل کرنے کیلئے اسلام کی راہ میں بحث و تحقیق کےلئے قدم اٹھاتے ہیں ۔

ثانیاً : کاش کہ ہم یہ جانتے کہ قدیم و جدید دانشور جو پیغمبر خدا کے اصحاب کی عزت و احترام میں جو غیرت و حمیت دکھاتے ہیں ، کیا اس میں پیغمبر خدا کے تمام اصحاب شامل ہیں خواہ اس کے سزاوار ہوں یا نہ ، خواہ وہ عیش پرست ہوں یا زاہد و پرہیزگار ؟ کیا یہ احترام عام طور پر اس لئے ہے کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کادیدار کیا ہے ؟ یا ان کےلئے مخصوص ہے جوسرمایہ دار و قدرتمندتھے اور حکومت تک ان کی رسائی تھی ؟ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ احترام شعوری یا لا شعوری طور پر صرف ان افراد سے مخصوص ہوکے رہ گیا جو حکومت اور ایوان حکومت سے وابستہ و مربوط ہیں ۔

جو کچھ ایک دوررس اور نکتہ شناس محقق کےلئے قابل اہمیت ہے وہ دوسرا مطلب ہے کیونکہ اگر تاریخ طبری میں ۳۰ ء ھ کے روئدادوں اور حوادث پر غور کیا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس نے یوں لکھا ہے :

اس سال ، یعنی ۳۰ ئھ میں جو کچھ ابوذر اور معاویہ کے درمیان پیش آیا ، اور سر انجام ابوذر کے شام سے مدینہ جلا وطن کئے جانے پر تمام ہوا ، اس سلسلے میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں کہ جنکو میں نقل کرنا پسندنہیں کرتا ہوں ، لیکن اس سلسلہ میں معاویہ کیلئے عذر پیش کرنے والوں نے ایک داستان نقل کی ہے ، اس داستان میں کہا گیا ہے:

شعیب نے اسے سیف سے نقل کیا ہے

اس کے بعد طبری نے ابو ذر اور معاویہ کے بارے میں نقل کی گئی داستان کے سلسلے میں سیف کی باقی روایت کو اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے ۔

۱۹

اگر ہم اس سلسلے میں تاریخ ابن اثیر کی طرف رجوع کریں گے تو دیکھتے ہیں کہ وہ کہتا ہے :

اس سال ( ۳۰ ھء) ابوذر کی داستان اور معاویہ کے توسط سے اسے شام سے مدینہ جلاوطن کرنے کا مسئلہ پیش آیا، اس رفتار کی علت کے بارے میں بہت سے مطالب لکھے گئے ہیں ، من جملہ یہ کہ : معاویہ نے انھیں گالیاں بکیں اور موت کی دھمکی دی ، شام سے مدینہ تک انھیں ایک بے کجاوہ اونٹ پر سوار کرکےنہایت ہی بیدردی سے ایک ناگفتہ بہ حالت میں مدینہ کی طرف جلاوطن کردیا ، مناسب نہیں ہے اسے یہاں بیان کیا جائے میں اسے نقل کرناپسند نہیں کرتا ہوں ، لیکن جنہوں نے اس سلسلے میں عذر پیش کیا ہے، یو ں کہا ہے :

اس بنا پر طبری نے یہاں پر ان بہت سی روایتوں کو درج نہیں کیا ہے جن میں معاویہ اور ابوذر کی روئداد بیان ہوئی ہے اور ان کو بیان کرنا پسند نہیں کرتا تھا، پھر بھی اس نے ان روایتوں کو بالکل ہی درج کرنے سے چشم پوشی نہیں کی ہے ۔ بلکہ سیف کی ان تمام روایتوں میں سے ایسی روایت کا انتخاب کیا ہے کہ معاویہ کا عذر پیش کرنے والوں کےلئے سند کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے اس کے کام کی توجیہ کے طورپر پیش کرتے ہیں ، جبکہ اس روایت میں پیغمبر اسلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بزرگوار صحابی ” ابو ذر“ کی حد سے زیادہ توہین کی گئی ہے ۔ اس کی دینداری پر طعنہ زنی کی گئی ہے ، اسے بیوقوف اور احمق کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس پرناروا تہمتیں لگائی گئی ہیں ۔

۲۰

کیونکہ اس روایت میں معاویہ کو حق بجانب ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے عذر کو درست قرار دیاگیا ہے ، اور اس طرح مؤرخین کا یہ قائد ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس تہی دست صحابی کی شخصیت اور احترام سے چشم پوشی کرتاہے اوران کی عظمت کو معاویہ جیسے حاکم اور ثروتمند شخص کے حرمت کے تحفظ میں قربان کرتاہے ، یہی کام ابن اثیر، ابن خلدون اور دوسروں نے بھی انجام دیا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ، بنیادی طور پر اسی سبب سے تاریخ طبری نے رواج پیدا کیا ہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ شہرت پائی ہے ، اور اس لئے سیف (بے دینی کا ملزم ٹھہرائے جانے کے باوجود) کی روایتوں کو اس قدر اشاعت ملی ہے اور اسی لئے مشہور ہوئی ہیں(۱) ۔

اس بنا پر ایسے دانشوروں نے صرف ایسے صحابیوں کے احترام کے تحفظ کےلئے اقدام کیا ہے جو صاحبِ قدرت و حکومت تھے ، اور” معاویہ بن ابو سفیان “ جیسے شخص کی اس لئے عزت کرتے ہیں کہ وہ صاحب حکومت و اقتدار تھا ، جبکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “(۲) میں شمار فرمایا ہے اور اس کی نفرین کرتے ہوئے فرمایا:

خداوند عالم اس کے شکم کو کبھی سیر نہ کرے “(۳) اسی طرح ” عبدا للہ بن سعد بن ابی سرح “(۴) جو ابتداء میں مسلمان ہوا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتبوں میں شمار ہوتا تھا، لیکن ایک مدت کے بعد مرتد ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن مجید پر تہمت لگائی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کا خون بہانا مباح قرار فرمایا تھا،ایسے شخص کو ان خصوصیات کے باوجود مصر کا گورنر ہونے کے ناطے اس کا نام تاریخ میں درج کرکے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

اس طرح خلیفہ عثمان کے بھائی ولید ، جس کے بارے میں آیہ نبا نازل ہوئی ہے :

<یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اِذا جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَیَّنُوا اَنْ تُصِیْبُوا قَوْماً

____________________

۱۔ کتاب کے فصل ” پیدائش افسانہ “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ تمام سیرت لکھنے والوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح حنین کے بعد معاویہ اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “ میں شمار فرمایا ہے ، اس لئے انھیں کچھ چیزیں دیدی ہیں ۔

۳۔ صحیح مسلم کے اس باب کی طرف رجوع کیا جائے کہ ”پیغمبر خدا نے جن پر لعنت کی ہے “

۴۔ اس کے حالات پر اگلے صفحات میں روشنی ڈالی جائے گی۔

۲۱

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اولاد میں سے بھی بعض موجود تھے انھوں نے جب پانی دیکھا تو بڑی خوشیاں منائیں۔ جب آپ(ع) نے یہ محسوس کیا تو فرمایا ۔ “میرے بچو! اس باغ اور اس نہر کی وجہ سے خوشحال نہ ہونا۔ اور ساتھ ہی آپ نے قلم ودوات لانے کا حکم فرمایا ۔ حکم کی تعمیل ہوئی تو آپ نے نہر اور باغ دونوں فقراء کے لیے وقف کردیا۔

آپ(ع) کا در گزر

عفو کے اسلامی اور حقیقی معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے ذاتی حق سے دستبردار ہوجائے مگر اس طرح دشمن کو گستاخی کرنے کا موقع نہ ملے۔ اس قسم کا عفو و درگزر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کا اولین مقصد رہا ہے۔ ابن ملجم کے بارے میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی نصیحتیں قابل انکار نہیں ہیں اور اس طرح عورت کی کہاںی جو مشک کاندھے پر لیے امیرالمومنین (ع) کا گالیاں دے رہی تھی۔ آپ نے سن کر اس کی دلجوئی کی۔ اسی طرح معاویہ کی فوج نے پانی کے گھاٹ پر قبضہ کرنے کے بعد علی(ع) کے لشکر کے لیے پانی بند کیا۔ لیکن جب حضرت امیرالمومنین (ع) کی فوجوں نے پانی کے گھاٹ پر دوبارہ قبضہ کیا تو معاویہ کے لشکر کے لیے پانی واگزار کردیا۔

جارج جرداق کا کہنا ہے کہ علی (ع) رحم کرنے والے ہیں اور جو رحم طلب کرتے ہیں انہیں معاف کرتے ہیں چاہیے وہ شخص عمرو بن عاص ہی کیوں نہ ہو جس نے جنگ کے دوران لباس کو اوپر اٹھا کر اپنے آپ کو ننگا کیا تھا۔

آپ(ع) کی انکساری

 ایک دفعہ حضرت امیرالمومنین(ع) انبار سے گزر رہے تھے وہاں کے لوگوں نے ساسانیوں کے رواج کے مطابق جو اپنے بادشاہوں کے آنے پر پہلے راستے پر عطر پاشی کرتے تھے اور بعد میں بادشاہوں کے آگے آگے دوڑتے تھے۔آپ(ع) کے سامنے

۴۱

بھی دوڑنے لگے تو فرمایا ہم تم سب اﷲ کے بندے ہیں اور ایسا کرنا تمہارے لیے ذلت کا باعث ہے انسان کو چاہیے کہ صرف خداوند عالم کے حضور خاکساری برتے۔

امیرالمومنین علیہ السلام غذا ، خوراک ، لباس ، گھر اور دیگر ضروریات میں تمام لوگوں سے زیادہ سادگی اختیار کرتے تھے۔ آپ(ع) اکثر فرماتے تھے۔

“أَ أَقْنَعُ مِنْ نَفْسِي بِأَنْ يُقَالَ هَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَ لَا أُشَارِكُهُمْ فِي مَكَارِهِ‏ الدَّهْرِ”

“ کیا میں صرف اسی پر اکتفا کروں کہ لوگ امیرالمومنین (ع) کہیں اور میں ان کے مصائب میں شریک نہ ہوں۔”

امیرالمومنین (ع) جیسے مرد آزاد کے بارے میں اس پہلو سے بحث جائز نہیں۔ لیکن نہج البلاغہ میں جیسے اشارہ ہوا ہے۔ جس میں آپ نے اپنے خداندان والوں سے فرمایا ہے کہ اگر میں چاہوں تو اپنے لئے بہترین غذا اور لباس مہیا کرسکتا ہوں لیکن۔

“هَيْهَاتَ أَنْ يَغْلِبَنِي هَوَايَ وَ لَعَلَّ بِالْحِجَازِ أَوْ بِالْيَمَامَةِ مَنْ لَا طَمَعَ‏ لَهُ فِي الْقُرْصِوَ لَا عَهْدَ لَهُ بِالشِّبَعِ”

“ یہ بہت بعید ہے کہ میرا نفس مجھ پر غالب آئے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ دور حجاز یا یمن کوئی ایسا شخص ہو جو بھوکا ہو یا پیٹ بھر کر طعام نہ کھایا ہو۔”

جارج جرادق نے کیا ہی خوب کہا ہے دنیا کے تمام سمندروں ، تالابوں کے پانی، جھیلوں کے پانی ،اوقیانوس کے پانی میں طوفان آسکتا ہے مگر جہاں طوفان نہیں آسکتا تو وہ علی (ع) کے وجود کا سمندر ہے۔ کوئی شخص اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس میں طوفان و ہلچل پیدا کرسکے۔ واقعا ایسا ہی ہے۔

کیا اچھا کھانے کی فطری خواہش علی(ع) میں ہلچل مچاسکتی ہے؟ حالانکہ یہ ایک ایسی فطری خواہش ہے جو افراد کو اپنی اولاد تک کو کھا جانے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہی وہ جبلت ہے جسے فرائڈ کے شاگردوں نے دوسری تمام خواہشات کے سرچشمہ قرار دیا ہے ۔ بر خلاف فرائڈ کے کہ اس نے جنسی خواہش کو سرچشمہ سمجھا ہے مگر شاگردوں

۴۲

 نے رد کر کے کہا دوسری تمام جبلی خواہشات اس کھانے کی جبلت کی وجہ سے ہیں۔

حمزہ کہتا ہے ایک دفعہ شام کے وقت معاویہ کےہاں تھا اور اس نے اپنا مخصوص ڈنر میرے سامنے رکھا مگر غصے کی وجہ سے لقمہ میرے منہ میں اٹک گیا میں نے پوچھا معاویہ یہ غذا کیا ہے؟ اس نے کہا یہ ایک خاص غذا ہے جو گندم کے نشاستہ ، حیوانات کے  مغز اور بادام کے روغن وغیرہ سے تیار کی گیا ہے۔ یہ سن کر میں نے کہا ایک رات دار الامارہ میں علی(ع) کی خدمت میں تھا افطار میں میرے لیے ایک روٹی اور تھوڑا سا دودھ تھا اور امیرالمومنین (ع) کی غذا جو کی خشک روٹی تھی جسے پانی میں بھگو کر کھا رہے تھے  اور یہ روٹی بھی ایسے فصل کی تھی جسے آپ(ع) نے اپنے ہاتھوں سے کاشت کر کے حاصل کیا تھا اور جس وقت کنیز نے آکر دسترخوان اٹھانا چاہا تو میں نے کہا کہ اب امیرالمومنین(ع) ضعیف ہوچکے ہیں ان کی غذا میں خیال رکھیں۔ کیونکہ ان کا زیادہ کا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سن کر خادمہ رونے لگی اور کہا امیرالمومنین (ع) اس بات پر راضی نہیں کہ ان کی روٹی میں تھوڑا سا زیتون کا تیل ملائیں تاکہ روٹی نرم ہوجائے۔ یہ سن کر امیرالمومنین(ع) نے فرمایا حمزہ! مسلمانوں کے حاکم کے  چاہئے کہ وہ غذا، لباس، اور مکان کی حیثیت سے تمام سے کمتر ہو تاکہ قیامت کے دن اس سے کم سے کم حساب لیا جائے۔  یہ سن کر معاویہ رونے لگے اور کہا۔

“ ایک ایسے شخص کا نام درمیان میں آیا جس کے فضائل اور مناقب سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔”

اسی طرح اقتدار پرستی کی خواہش بھی دوسری خواہشات سے بڑھ کر ہے اور اقتدار کا طلب گار شخص اپنی تمام دوسری خواہشات کو اس پر قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اپنی ذات سے محبت کے بعد ایک عام انسان کے لیے جاہ طلبی کی جبلت ایک اہمیت رکھتی ہے کیا جاہ طلبی کی خواہش بھی علی(ع) میں ہلچل مچاسکی؟

۴۳

ابن عباس کہتے ہیں کہ جنگ جمل میں چند سرکردہ لوگ آئے تاکہ میں انہیں علی(ع) کے پاس لے جاؤں میں آپ کے خیمے میں پہنچا تو آپ اپنی جوتی کی مرمت کررہے تھے میں نے اعتراض کیا تو آپ نے جوتا میرے سامنے پھینک کر کہا “ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں علی(ع) کی جان ہے یہ حکومت و اقتدار علی(ع) کے نزدیک اس جوتی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ مگر یہ کہ حکومت کے ذریعے کسی کا حق دلادوں یا اس اقتدار کے ذریعے کسی باطل کو مٹادوں۔”

طلحہ اور زبیر بہت اصرار کر کے بصرہ اور مصر کی گورنری حاصل کر کے آپ کا شکریہ ادا کرنے لگے تو آپ نے ان دونوں کا تقرر نامہ پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا میں تمہارے کندھوں پر اتنا عظیم بوجھ رکھ رہا ہوں مگر تم میرا شکریہ ادا کر رہے ہو۔

معلوم ہوتا ہے کہ تم سوء استفادہ کا ارادہ رکھتے ہو۔

عمرو بن عاص ، عمر بن سعد، معاویہ، طلحہ اور زبیر وغیرہ سب اسی جاہ طلبی کی خواہش میں غرق ہوگئے لیکن امیرالمومنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اس دنیا اور اس کی حکومت کو ایک ٹڈی کے منہ میں پتہ یا پرانی جوتیوں سے کم قیمت یا بکری کی چھینک سے بے وقعت بتا دیا ہے۔

صعصعہ کہتا ہے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شخصیت آپ کی اس ہیبت کے باوجود ہمارے درمیان آپ ہماری طرح ہی رہتے تھے جہاں ہم کہتے بیٹھ جاتے ، جوکچھ کہتے اسے سنتے تھے اور جہاں کہیں آپ کو بلاتے تو آپ آجاتے تھے۔

حضور اکرم(ص) نے آپ کو اگر گرانقدر اور دین کا پشت پناہ قرار دیا ہے تو بالکل بجا فرمایا ہے۔ روایت ثقلین جسے شیعہ و سنی سب نے نقل کیا ہے سب کے نزدیک مسلم ہے۔ صاحب طبقات الانوار اہل سنت کی کتب سے پانچ سو دو کتابوں سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے قرآن اور عترت کو دو گرانقدر چیزیں قرار دی ہیں۔

۴۴

   “ إِنِّي‏ تَارِكٌ‏ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي  وَ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.”

“ بے شک میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں۔”

“وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ء”( النحل : 89  )

“ ہم نے تم پر جو کتاب نازل کی ہے وہ ہر چیز کا بیان کرنے والی ہے اور فتنوں کے زمانے میں ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم ہوا ۔”

“إِذَا الْتَبَسَتْ‏ عَلَيْكُمُ‏ الْأُمُورُ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ فَعَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ”

“ جب رات کی تاریکیوں کی طرح فتنے تمہاری طرف بڑھیں تو قرآن کا سہارا لو۔”

اور عترت کو قرآن کے ساتھ قرار دیا اور اس کے اکمال کو عترت کے ذریعے قرار دیا ہے۔

 “ ِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي‏ وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً”

“ آج کے دن تمہارے دین کو کامل کیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا ”

بحث کے آخر میں عمرو عاص، یزید اور معاویہ کے اشعار یہاں درج کرتے ہیں معاویہ نے کہا ہے۔

             خير البريه بعد احمد حيدر              والناس ارضی والوصی سماء

حضرت احمد(ص) کے بعد بہترین مردم حیدر(ع) ہے دوسرے لوگ زمین اور وصی آسمان کی مانند ہے۔

عمرو عاص نے کہا ہے۔

کمليحه شهدت لها ضرا تها                 فاالحسن ماشهدت به الصنراء

۴۵

اس حسین عورت کی طرح جس کے حسن وجمال کا اعتراف اس کی سوتن کرے۔ فضیلت یہ ہی کافی ہے کہ اس کی سوتن اس کا اقرار کرتی ہے۔

ومناقب شهد العدو لفضلها         والفضل ما شهدت به الاعداء

اس میں فضیلت و مناقب وہی ہے جس کی گواہی دشمن بھی دیں۔

جارج جرداق اپنی کتاب “ ندائے عدالت انسانی” میں کسی مسیحی کے اشعار نقل کرتا ہے ۔ ان اشعار میں وہ مسیحی کہتا ہے  کہ اگر کوئی مجھ پر اعتراض کرے کہ تم نے علی(ع) کی تعریف کی ہے لہذا پوپ کی مدح بھی کرو تو میں جواب میں کہوں گا میں تو فضیلت و شرف کا دلدادہ ہوں اور میں نے علی(ع) کو فضیلت کا شرچشمہ پایا لہذا ان کی تعریف کی ہے۔

۴۶

حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام

(ام الائمہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اﷲ علیہا )

آپ کا نام نامی فاطمہ(س) ہے اور آپ کے مشہور القاب آٹھ ہیں، صدیقہ ، راضیہ، مرضیہ، زہرا، بتول، عذرا، مبارکہ اور طاہرہ بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ ذکیہ اور محدثہ بھی ان معظمہ کے القاب ہیں اور آپ کی کنیت “ ام ابیہا ” ہے۔

آپ (س) کی عمر مبارک تقریبا 18 سال ہے 20 جمادی الثانی بعثت کے پانچویں سال پیدا ہوئیں اور ہجرت کے گیارہویں سال تین جمادی الثانی کو ثقیفہ بن ساعدہ کے کرتا دھرتا  لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوئیں۔

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کی شخصیت کا احاطہ اس مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں اس لیے جو کچھ بیان ہوگا آپ کی فضیلت کے سمندر میں سے ایک قطرہ لینے کے مترادف ہوگا۔

اسلامی شخصیت کا ادراک دو طریقوں سے ہوتا ہے ایک تو حسب ونسب کے ذریعے اور دوسرے ذاتی فضائل کی بنیاد پر۔ لیکن اسلام نے نسب کے اعتبار سے جس شخصیت کو قبول کیا ہے وہ مختلف عوامل کی تاثیر کے تحت ہے۔ قانون وراثت ، شرعی احکام کے تحت ، غذا و ماحول کا اثر میاں بیوی کی تاثیر ، اولاد صالح وغیرہ کسی شخصیت میں اپنا نقش ثبت کرتے ہیں۔

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا قانون وراثت کی روسے رسول اکرم(ص) جیسا باپ جو

۴۷

انسانی کمالات کے تمام مراتب کو طے کرچکا ہے ۔ آپ (ص) کےجمال سے دنیا کی تمام تاریکیاں منور ہوچکی ہیں اور آپ(ص) کی صفات کے بارے میں انتہائی بات یہ کہی جاسکتی ہے۔

             بلغ العلی بکماله               کشف الدجی بجماله

             حسنت جميع خصاله           صلو عليه و آله

اور آپ(س) کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ الکبری(ع) ہیں۔ وہی خاتون ، اسلام جن کا مرہون منت ہے، مسلمانوں کی وہی مان جس نے تین سال تک جب مسلمان شعب ابی طالب(ع) میں محصور تھے تو ان کے اخراجات کا بندوبست کیا اور اپنے تمام اموال صرف کئے وہی ماں جس نے مکہ کے کمر شکن مصائب کا مقابلہ کیا اور رسول اکرم(ص) کے شانہ بشانہ اسلام کی مدد کی اور مدد و ںصرت کی اس راہ میں جسم اطہر پر پتھر بھی لگے۔ طعنے بھی سنے مگر جس قدر مصائب بڑھتے گئے اس معظمہ نے صبر و استقامت کا نمونہ بن کر برداشت کیا۔

اور غذا کی تاثیر کے تحت دیکھیں تو پتہ چلتا ہے مورخوں نے لکھا ہے کہ جس وقت خداوند عالم نے حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کو تخلیق کا ارادہ فرمایا تو رسول اکرم(ص) کو حکم ملا کہ چالیس روز تک غار حرا میں عبادت کریں اور حضرت خدیجہ سلام علیہا لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنے گھر میں عبادت میں مشغول ہوئیں اور حضور اکرم (ص) غار حرا میں اس مدت کے بعد حضور اکرم (ص) کو حکم ملا کہ گھر واپس لوٹیں۔ عالم ملکوت سے ان کے لیے غذا لائی گئی جس کے بعد زہرا(س) کو نور حضرت خدیجہ(ع) کو منتقل ہوا۔ ماحول کے اثرات کی روسے علاوہ اس کے کہ حضرت زہرا(ع) کو ایک فداکار

۴۸

 خاتون کی گود نصیب تھی جو ثابت قدمی میں ایک نمونہ تھیں ساتھ ہی حضور اکرم(ص) جیسے باپ کی تربیت میں پروان چڑھیں۔ آپ جس ماحول میں زندگی گزار رہی تھیں وہ تلاطم سے پر تھا مکہ معظمہ اپنی تمام مصیبتوں اور ناگوار حادثوں کےساتھ آپ کی پرورش کا ماحول تھا۔ آپ نے شعب ابی طالب میں جس طرح زندگی گزاری اس کی تعریف میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے معاویہ کو یوں کہا۔ “تم لوگوں نے ہمیں تین سال تک سورج کے نیچے قید میں رکھا ۔ وہ بھی اس طرح کہ ہمارے بچے بھوک اور پیاس سے مرگئے ، ہمارے بڑوں کی جلدیں اکھڑ گئیں تھیں او بچوں اور عورتوں کے گریہ و فریاد کی آواز سنی جاتی تھیں۔”

واضح رہے کہ جو بچہ ایسے ماحول اور معاشرے میں پل رہا ہو اور اس کی پرورش کرنے والی رسول اکرم(ص) جیسی ہستی ہوتو اس کے صبر و استقامت اور وسعت صدر (قلب ) زیادہ سے زیادہ ہی ہوگی۔

ناز پروردہ تنعم نہ برد راہ بہ دوست                عاشقی شیوہ رندان بلاکش باشد

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا بیوی، ہم نشین رفیق اور اولاد کی حیثیت سے فوق العادت ہستی ہیں حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب (ع) جیسا شوہر جس کی شان مں قرآن کی تین سو سے زیادہ آیات موجود ہیں اور تاریخ نے اسلام کو انہی کی ذات کے مرہون منت سمجھا ہے۔

ایک ایسا شوہر ہے کہ خود اہلسنت کے اقرار کے مطابق مختلف مواقع میں حضرت عمر نے 72 سے زیادہ مرتبہلو لا علی ل ه ک العمر کہا ۔ خداوند عالم نے آپ کو حسن(ع) حسین(ع) اور زینب(س) و ام کلثوم(س) جیسی اولاد عطا کی جو اگر نہ ہوتے تو اسلام ہی نہ ہوتا۔ حضرت امام حسین(ع) کے کہنے کے مطابق “و علی الاسلام السلام ” اولاد کے اعتبار

۴۹

 سے حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا “ ام الائمہ” ہیں اور حضرت قائم آل محمد(ص) ہمارے عالم خلقت کے نچوڑ میں ایک ودیعت کئے ہوئے سربستہ راز ہیں۔

اور انسانی فضائل کی روسے اس ہستی کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ جس کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) نے متعدد دفعہ فرمایا “ إنّ‏ اللّه‏ اصطفيك‏ و طهّرك و اصطفيك على نساء العالمين.”

بے شک خداوند عالم نے تمہیں منتخب کیا اور تمہیں پاکیزہ کیا اور تمام جہانوں کی عورتوں سے برگزیدہ قرار دیا۔”

اگر حضرت زہرا(س) کی شان میں سورہ کوثر کے علاوہ کچھ نہ ہوتا تو بھی آپ کی عظمت کو سمجھنے کے لیے کافی ہوتا کہ آپ تمام جہان والوں کی نسبت خدا کے حضور برتری اور فضیلت کی حامل ہیں۔

“بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‏ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر فَصَلّ‏ِ لِرَبِّكَ وَ انحَْر إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْترَُ”

“ بے شک ہم نے تمہیں کوثر عطا کی پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو بے شک تمہارا دشمن ہی دم کٹا ہوگا۔”

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا ایمان کے اعتبار سے راضیہ اور مرضیہ ہیں۔

“يَأَيَّتهَُا النَّفْسُ الْمُطْمَئنَّةُ ارْجِعِى إِلىَ‏ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّة فَادْخُلىِ فىِ عِبَادِى وَ ادْخُلىِ جَنَّتى‏”

“ اے نفس مطمینہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا اس حالت میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہے پس تو میرے بندوں میں شامل ہوجا اور میری بہشت میں داخل ہوجا۔”

ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حضرات چہاردہ معصومین علیہم السلام کے القاب اور کنیتیں بے سبب نہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک راز کی حامل ہیں اگر آپ زہرا(س) ،

۵۰

 صدیقہ، ذکیہ، طاہرہ، محدثہ القاب کی اسم با مسمی نہ ہو تو یہ بڑی بے معنی بات ہوگی۔ اگر جبرئیل(ع) نہ آتے اس مطمینہ کے ساتھ بات نہ کرتے باوجود اس کے آپ کو محدثہ کہا جائے گا۔ تو یہ جھوٹ ہوگا۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی محدثہ ہو اور اس کا ایمان شہود کی منزل تک نہ پہنچا ہو۔

علمی اعتبار سے آپ صحیفہ کی حامل ہیں

روایات کے مطابق کچھ کتابیں حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام کے پاس ہیں جن میں سے ایک صحف فاطمہ(س) ہے اسی کتاب پر ائمہ علیہم السلام نے فخر کیا ہے اور کہا ہے کہ علم ما کان وما یکون وما ہو کائن۔ اس میں موجود ہے یعنی جو کچھ ہوا ہو، جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے اس کا علم اس میں موجود ہے اور یہ صحیفہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کا لکھایا ہوا ہے اور حضرت امیرالمومنین (ع) کے دست مبارک کا لکھا ہوا ہے۔

حضرت زہرا(س) کا زہد

جس دن حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا علی(ع) کے گھر میں بیاہ کر آئیں تو امیر المومنین علیہ السلام نے “ش” ایک قسم کی گھاس کا فرش بجھایا ہوا تھا اور حضرت رسول اکرم(ص) نے آپ کو جو جہیز دیا تھا اس تمام کی قیمت 63 درہم تھی اور وہ جہیزیہ تھا۔ عباء، مقنعہ، پیراہن ، چٹائی، پردہ، لحاف ، کٹورہ ، پیالہ ، دستی چکی ، پانی کا مشکیزہ، گوسفند کا چمڑا ، تکیہ

حضور اکرم(ص) سے جب جہیز کے سامان کو دیکھا تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا“ خداوند! اس جہیز میں برکت عطا فرما جس میں سے اکثر مٹی کا بنا ہوا ہے۔”

۵۱

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا نے اپنے شوہر کے گھر کی طرف جاتے ہوئے وہ پیراہن ایک مسکین کو دیدیا اور اپنے پرانے پیراہن میں ہی شوہر کے گھر پہنچ گئیں۔ دوسرے دن حضرت پیغمبر اکرم(ص) بیٹی سے ملنے کے لیے آئے تو یہ تحفہ بیٹی کے لیے لے آئے تھے۔

“ علی فاطمه خدمته ما دون الباب و علی علی خدمته ما خلفه”گھر کے اندر کے کام فاطمہ(س) کے سرد ہیں اور گھر کے باہر کا کام علی(ع) کے ذمے ہیں۔” اس تحفے کو جناب زہرا سلام اﷲ علیہا نے بخوشی قبول کیا بلکہ بے حد خوشی کا اظہار کیا اور کہا “ ما يعلم الا الله ما داخلنی من السرور ”خداوند عالم کے علاوہ اور کوئی نہیں جان سکتا کہ اس تقسیم سے میں کس قدر خوش ہوئی ہوں۔”

حضرت زہرا(س) کی عبادت

روایات میں وارد ہے کہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا اس قدر عبادت کرتیں اور قیام میں رہتی تھیں کہ آپ کے پاؤں سوجھ جاتے تھے ۔ حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے تھے کہ میری والدہ گرامی رات کے ابتدائی حصے سے صبح تک عبادت میں  مشغول رہتی تھیں اور جب بھی آپ نماز سے فارغ ہوتی تھیں تو ہمسایوں کے لیے دعا کرتی تھیں اور جب ہم آپ سے پوچھتے تھے کہ اماں آپ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتی تھیں بیٹے “الجار ثم الدار ” بیٹے پہلے ہمسائے پھر گھر۔ حضرت زہرا(س) کی تسبیح کی بے حد فضیلت بیان ہوئی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ “ میری داماد حضرت زہرا(س) کی تسبیح میرے نزدیک ایک ہزار رکعت نماز سے بہتر ہے۔”

کہتے ہیں کہ گھر کے کاموں میں حضرت زہرا(س) کی مدد کے لیے ایک خادم کی ضرورت تھی اور اس وقت کا رواج بھی تھا کہ خادم یا خادمہ گھر میں رکھے جاتے تھے جس

۵۲

 وقت حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا حضور اکرم(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو قبل اس کے کہ حضرت فاطمہ (س) کچھ عرض کرتیں رسول اکرم(ص) نے فرمایا “ میری جان زہرا(س) کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ میں تمہیں ایک ایسی چیز سکھادوں جو دنیا و ما فیہا سے بہتر ہو اور ساتھ ہی آپ نے مشہور تسبیح جسے “ تسبیح فاطمہ” کہتے ہیں آپ کو سکھا دی۔ یہ تسبیح سیکھ کر حضرت زہرا(س) خوشی خوشی گھر آئیں  اور حضرت علی (ع) سے فرمایا “ اپنے پدر بزرگوار سے دعا سیکھ کر میں نے دنیا کی بھلائی کا حصہ حاصل کیا ہے۔”

آپ کی سخاوت اور ایثار

تمام مفسرین شیعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک دفعہ حضرت زہرا(س) اور آپ کے گھر والوں نے روزہ رکھا اور افطار کا وقت قریب ہوا تھا کہ ایک فقیر نے آکر آواز دی تمام گھر والوں نے اپنی اپنی روٹی اس کے حوالے کردی اور پانی سے روزہ افطار کر کے سوگئے دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا جب افطار کا وقت قریب آیا تو ایک یتیم نے آکر سوال کیا حضرت فاطمہ(س) آپ کے شوہر اور آپ کے بچوں نے نیز آپ کی خادمہ نے بھی اپنی روٹی اٹھا کر یتیم کے حوالے کی اور اس دن بھی تمام گھر والے پانی سے افطار کر کے سوگئے تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا عین افطار کے وقت ایک قیدی آیا تو سب نے اپنا اپنا کھانا اے دے دیا عین اسی وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

“وَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلىَ‏ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَ يَتِيمًا وَ أَسِيرًا إِنمََّا نُطْعِمُكمُ‏ْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكمُ‏ْ جَزَاءً وَ لَا شُكُورًا”

“ یہ لوگ اﷲ کی محبت میں مسکین ، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو صرف اور صرف اﷲکی خوشنودی کی خاطر کھلاتے ہیں اور تم سے کوئی بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے ہیں۔”

بحث کے آخر میں ہم آپ کے نام اور کنیت کے بارے میں کچھ گفتگو کرتے ہیں۔ حضرت زہرا(س) کے القاب کے بارے میں بہت ساری تاویلیں کی ہیں کہ ان تمام کا ذکر

۵۳

 یہاں ممکن نہیں بلکہ ان کے خلاصے کو طور پر ہم صرف آپ کے نام اور کنیت کے بارے میں تھوڑی سی بحث کرتے ہیں۔

حضرت زہرا(س) کی کنیت “ ام ابیہا ” ہے اور یہی کنیت جو آپ کے لیے باعث افتخار ہے خود حضور اکرم(ص)نے دی ہے۔ “ام ابیہا ” کے معنی “ اپنے باپ کی ماں” ہیں اس کنیت کے مختلف معانی ہیں لیکن بہترین معانی یہ ہیں جو رسول اکرم(ص)نے اس کنیت کو دیئے ہیں یعنی ” زہرا(س) دنیا کی علت غائی ہیں۔” ایسی بعض روایات و احادیث بھی منقول ہیں کہ حضرت زہرا(س) دنیا جہان کی علت غائی ہیں اور اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ عالم ہستی کے فیض کا واسطہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا ہیں تو یہ بھی بے دلیل نہیں اور حضرت فاطمہ(س) کو فاطمہ(س)  کیوں کہا گیا ہے اس کے بھی اسرار ہیں اور روایات اس راز کو یوں بیان کرتی ہیں۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةُ لِأَنَّهَا فُطِمَتْ مِنَ الشَّرِّ

1ـ آپ کو فاطمہ اس لیے کہا گیا کہ آپ برائی سے جدا اور الگ ہیں یہ جملہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کی عصمت پر دلیل ہے کیوںکہ آپ کا معصومہ ہونا ثابت ہے اور آیت تطہیر آپ ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

“إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً”

“ اے اہل بیت رسول(ص) خداوند عالم کا ارادہ ہے کہ تم اہل بیت کو ہر قسم کے رجس سے ایسا پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے۔”

إِنَّهَا سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةَ لِأَنَّهَا فُطِمَتْ عَنِ الطَّمْثِ.

2ـ حضرت فاطمہ(س) کو فاطمہ(س) اس لیے کہا گیا ہے کہ آپ عورتوں کی ماہانہ عادت سے پاک تھیں یہ آپ کی ظاہری طہارت کی طرف اشارہ ہے روایات سے ثابت ہے کہ آپ طاہرہ اور مطہرہ تھیں۔ طاہرہ یعنی ظاہری نجاسات سے پاک اور مطہرہ معنوی نجاسات سے پاک ۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةُ لِأَنَّها فُطِمت عَنْ الْخَلْقَ

۵۴

3ـ فاطمہ (س) کو فاطمہ(س) اس لیے کہا گیا کہ آپ مخلوق سے جدا تھیں یہ تفسیر آپ کے عرفان کی منزل کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کے دل میں سوائے خدا کے اور کسی کا تصور نہیں تھا اور ہر وقت آپ کا دل مشغول عبادت حق تھا۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةَ لِأَنَّ الْخَلْقَ فُطِمُوا عَنْ کنه مَعْرِفَتِهَا.

4ـ آپ کو فاطمہ اس لیے کہا گیا کہ لوگ آپ کی معرفت سے قاصر ہیں یہ تفسیر آپ کے اسی مرتبہ کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ کو رسول اکرم(ص) نے “ ام ابیہا” کہا ہے۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَة فَاطِمَة لِأَنَّهَا فُطِمَتْ شِيعَتُهَا عن النَّارِ

5ـ آپ کو فاطمہ نام اس لیے دیا گیا کہ قیامت کے دن اپنے شیعوں کو جہنم کی آگ سے نجات دلا دیں گی۔ یہ اشارہ آپ کی شفاعت کے حق کی طرف ہے۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةَ فاطِمَة لِأَنَّ أَعْدَاؤهَا فطِمُوا عَنْ حُبِّهَا

6ـ آپ کو فاطمہ(س) ا سلیے کہا گیا کہ آپ کے دشمن کو آپ کی محبت سے الگ کیا گیا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ جس کے پاس محبت اہل بیت(ع) کی سعادت نہٰیں ہوگی اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔

اس فاطمہ(س) کی توصیف کیسے کی جاسکتی ہے کہ جب حضرت زہرا(س) حضور اکرم(ص) کے ہاں جاتیں یا حضور اکرم (ص) حضرت زہرا(س) کے ہاں آتی تو آپ کے ہاتھ اور چہرے کے بوسے لیتے آپ کا استقبال کرتے اور اپنی جگہ بٹھاتے اور فرماتے تھے کہ “ مجھے فاطمہ(ع) سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔”

لیکن یہی زہرا(ع) اس قدر متواضع تھیں کہ جب امیرالمومنین (ع) کہتے ہیں کہ گھر میں کوئی مہمان آرہے ہیں تو فرماتی ہیں یہ گھر آپ کا ہے اور میں آپ کی کنیز ہوں۔ باوجود اس کے کہ آپ ان لوگوں سے سخت بیزار تھیں لیکن آپ کے شوہر نے

۵۵

اجازت چاہی تو اجازت دی۔ ایک دفعہ ایک عورت آتی ہے اور ایک مسئلہ شرعی پوچھتی ہے مسئلہ پوچھ کر چلی گئی لیکن بھول کی بیماری میں مبتلا ہونے کہ وجہ سے کئی دفعہ یہاں تک دس بار واپس آئی تو آپ نے ہر بار اسے مسئلے کا جواب بتا دیا جب وہ عورت معذرت کرتی ہے تو آپ فرماتی ہیں۔ “ تمہارے ہر بار سوال کرنے سے خداوند عالم مجھے جزا دے رہا ہے تم بار بار پوچھنے کی معذرت مت کرو۔”

جس وقت حضرت زہرا(س) کو ان کے پدر بزرگوار نے خادمہ کی حیثیت سے فضہ دیا تو اپنے پدر گرامی کے حکم کے مطابق گھر کے کاموں کو تقسیم کیا۔ اس طرح ایک دن حضرت فضہ اور ایک دن آپ(ع) کام کرتی تھیں۔

یہ بات نہیں بھولنی چاہئے اور خصوصا خواتین یاد رکھیں کہ تمام اہل بیت(ع) ہماری زندگی کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ قرآن بھی یہی حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ پیغمبر اکرم(ص) اور ان کے خاندان کو نمونہ عمل قرار دیں۔

“لَقَدْ كانَ لَكُمْ في‏ رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَ الْيَوْمَ الْآخِرَ ”( سورہ الاحزاب آیت 21  )

“ بے شک رسول اﷲ(ص) ان لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہیں جو اﷲ اور روز جزا پر امید رکھتے ہیں۔”

اگر ہمیں دو جہاںوں کی سعادت مطلوب ہے تو چاہئے کہ رسول اکرم(ص) اور ان کے اہل بیت(ع) کی  پیروی کریں۔ مسلمان خواتین اسی وقت سعادت حاصل کرسکتی ہیں جب وہ عفت ، ایثار، جان نثاری، شوہر داری، خانہ داری اور اولاد کی تربیت مٰیں حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کی پیروی اختیار کریں۔

صاحب وسائل شیعہ نے وسائل کے جلد دوم میں ایک واقعہ لکھا ہے جو حضرت زہرا(س) کے بارے میں ہے لہذا خصوصا خواتین کو اس پر توجہ دینی چاہئے۔ ایک دفعہ

۵۶

حضرت فضہ نے جناب زہرا(س) کو مغموم پایا اور وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا مجھے یہ فکر ہے جب میرا جنازہ ٹھایا جائے گا تو میرے بدن کا حجم نامحرم لوگوں کو نظر آئے گا۔ فضہ کہتے ہیں یہ سن کر میں نے ایک عماری کا نقشہ کھینچا اور کہا کہ عجم میں لوگوں کی یہ رسم ہے کہ معزز لوگوں کو اس میں رکھ کر لے جاتے ہیں۔ یہ سن کر آپ بہت خوش ہوئی اور تاکید کے ساتھ وصیت کی کہ ان کے جنازے کے عماری میں رکھ کر اٹھایا جائے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ بھی وصیت کی تھی کہ رات کے وقت تجہیز و تکفین و تدفین کی جائے۔

     زوجہ علی(ع) کی بنت رسالت ہیں فاطمہ(س)                اتری ہے جن کے گھر میں امامت ہیں فاطمہ(س)

     کاظم نہ پوچھ رتبہ سردار مومنات                             گر ہیں اذان رسول (ص)  اقامت ہیں فاطمہ (س)

                                                     سید کاظم عباس زیدی

۵۷

حضرت امام حسن علیہ السلام

آپ کا نام نامی حسن(ع) ہے اور یہ نام آپ کےلیے پروردگار عالم کی طرف سے عنایت ہوا۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ جس وقت امام حسن(ع) دنیا میں آئے تو حضور اکرم(ص) کے پاس خداوند عالم کی طرف سے جبرائیل امین(ع) نازل ہوئے اور کہا کہ چونکہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) کی نسبت آپ کے ساتھ ایسی ہے جیسے ہارون کو موسی(ع) کے ساتھ تھی۔ اس لیے علی(ع) کے بیٹے کا نام ہارون(ع) کے بیٹے کے نام پر رکھو جس کا نام حسن(ع) تھا۔ لہذا تم بھی اپنے اس نواسے کا نام حسن رکھو۔

“ روایت منزلت ” علمائے اسلام کے نزدیک ایک مشہور حدیث ہے اہلسنت و شیعہ کے متعدد ذرائع نے یہ حدیث رسول اکرم(ص) سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم (ص) نے متعدد بار فرمایا “يا علی أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ‏ مِنْ مُوسَى إِلَّا إنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي” اے علی(ع) تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون (ع) کو موسی(ع) سے تھی۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ ” یعنی جس طرح موسی(ع) کی غیر حاضری میں وہ موسی(ع) کے خلیفہ تھے اسی طرح میری غیر موجودگی میں تم میرے خلیفہ ہو صرف یہ فرق ہے کہ موسی(ع) کے بعد نبوت کا سلسلہ تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

آپ کی مشہور کنیت ابو محمد (ع) اور مشہور لقب مجتبیٰ(ع) اور سبط اکبر ہیں آپ نے 47 سال کی عمر پائی۔ آپ کی ولادت 3 ہجری 15 رمضان المبارک کو ہوئی تھی۔ سات سال آپ نے اپنے نانا کے زیر سایہ گزارے اور 30 سال اپنے والد گرامی کے ساتھ گزارے اور آپ کی مدت امامت دس سال ہے۔ آپ ہر پہلو سے “حسن(ع)”

۵۸

 تھے رسول اکرم(ص) جیسا نانا، والدہ گارمی حضرت زہرا(ع)مرضیہ، والد گرامی علی ابن ابی طالب(ع)۔

اگر ہم بچے کی تربیت میں موثر عامل کے تمام قوانین جیسے قانون وراثت وغیرہ کا مطالعہ کریں گے تو مان باپ کے اثرات کا انکار نہیں کرسکتے۔ آپ کے نانا اتنی عبادت کرتے تھے کہ کثرت قیام سے پاؤں میں ورم آجاتا تھا۔ اور خداوند عالم کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی۔ “طه مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْءَانَ لِتَشْقَى ‏”“ ہمارے رسول(ص) ہم نے تم پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مشقت میں پڑو۔” اسی ہستی کے زیر تربیت رہ کر نواسہ پلا بڑھا جس نے بیس سے زیادہ حج پا پیادہ کئے اور بعض سفروں میں آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے۔

ان کے والد گرامی حضرت امیرالمومنین علی(ع) رات کی تاریکی میں مصلے بچھاتے اور امام حسن (ع) کی تکبیروں اور خوف الہی سے گریہ و زاری کرنے کی آوازیں سنتے تھے تو اس فرزند کی تربیت اس انداز میں ہوئی کہ وضو کرتے وقت کانپ اٹھتے تھے اور مسجد میں داخل ہوتے وقت روتے ہوئے کہتے تھے

 “إِلَهِي‏ ضَيْفُكَ‏ بِبَابِكَ يَا مُحْسِنُ قَدْ أَتَاكَ الْمُسِي‏ءُ فَتَجَاوَزْ عَنْ قَبِيحِ مَا عِنْدِي بِجَمِيلِ مَا عِنْدَكَ يَا كَرِيمُ.”

“اے میرے معبود! تیرا مہمان دروازے پر ہے اے نیکی کرنے والے ! تیرے حضور گناہ گار پہنچا اپنی خوبی کے وسیلے اس کی برائیوں کو معاف فرما۔”

جس باپ نے تیس تک اسلام کے مصالح کی خاطر صبر کیا اور ایسے زندگی گزاری جیسے آنکھ میں خار اور گلے میں ہڈی انکی ہوتو اس کے بیٹے نے دس سال تک مصالح اسلام کی خاطر صبر کیا اور معاویہ کے ساتھ صلح کی اور والدہ گرامی زہرا(ع) مرضیہ تھیں جو اپنا متعلقین کا کھانا  پہلے فقیر کو خیرات میں دیتی ہیں اس کے بعد اپنا کھانا دوبارہ پکاتی ہیں تو ایک یتیم کی آواز سن کر غذا اس کے حوالے کرتی ہیں اور

۵۹

اپنے گھر والوں کے لیے کھانا پکانے لگتی ہیں جب کھانا تیار ہوتا ہے تو ایک اسیر کی آواز سن کر کھانا اس کے حوالے کرتی ہیں۔ اور خود کو اور گھر والوں کو روزہ افطار کرنے کے لیے کچھ نہیں رہتا ہے تو پانی سے افطار کرتے ہیں۔

اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔

“وَ يُطْعِمُونَ‏ الطَّعامَ‏ عَلى‏ حُبِّهِ مِسْكِيناً وَ يَتِيماً وَ أَسِيراً”

“ یہ لوگ اپنی غذا کو جس کی خود انہیں بھی ضرورت ہے مسکین یتیم اور اسیر کو دے دیتے ہیں۔”اسی ایثار کو ان کا فرزند حسن(ع) میں پاتا ہے۔

ایک دن ایک سائل کے حضور آکر اپنے فقر کی شکایت کرنے لگا اور اس مضمون کے دو شعر کہے کہ۔

میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جسے بیچ کر اپنی ضرورت پوری کروں میری حالت اس کی گواہ ہے صرف اس وقت میری آبرو محفوظ  ہے میں نے ہر چند چاہا کہ نہ بیچوں مگر آج آپ کو خریدار پایا میری آبرو کو خرید کر مجھے فقر سے نجات دیں۔ یہ سن کر آپ نے اخراجات کے ذمے دار سے فرمایا آج جو کچھ تمہارے سامنے موجود ہے اسے دے دو لہذا اس نے بارہ ہزار درہم جو موجود تھے۔ اس کے حوالے کئے اور اور اس روز گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ آپ نے دو شعر جواب میں یوں لکھ کر دیئے۔

“ تم نے جلدی میں ہم سے جلدی میں ہم سے کچھ چاہا جو کچھ موجود تھا دیا مگر یہ بہت کم تھا اسے لے لو اور اپنی آبرو کی حفاظت کرو گویا ہمیں دیکھا نہ ہو اور نہ ہمیں کچھ فروخت کیا ہو۔” آپ کی مادر گرامی اس منزلت کی تھیں کہ راتوں کو صبح تک نماز میں مشغول رہتیں ہیں اور ہر نماز کے بعد دوسروں کے لئے دعا کرتی رہتیں ہیں۔ آپ کے فرزند حسن(ع) آپ سے پوچھتے ہیں“ اماں آپ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتیں

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421