عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 13%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 421

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 421 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 208568 / ڈاؤنلوڈ: 8554
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

پہلی جلد

علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم:سید قلبی حسین رضوی

۳

خطوط اور مقدمے

کتاب عبدا للہ بن سبا کی علمی قدر و قیمت

ایک شیعہ دانشور محترم جناب شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

الازہر یونیورسٹی ، مصر کے مجلہ کا جواب

مباحث پر ایک نظر

سلسلہ مباحث کی پیدائش

۴

کتاب عبد اللہ بن سبا کی علمی قدرو قیمت

مصر کی الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر جناب ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کا خط

کتاب عبدالله بن سبا ، آخر میں دوسرے ایڈیشن کے عنوان سے مصر میں دوسری بار شائع ہوئی ہے،اس کتاب نے اہل سنت ممالک میں گہرا اثر ڈالا ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں خاص کر الازہر یونیورسٹی کے دانشوروں اور اساتذہ کی توجہ کا سبب بنی ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں میں غیر معمولی اثر ڈالا ہے ،مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی طرف سے مؤلف کو اس کتاب کو پسند کرنے کے سلسلہ میں کئی خطوط ملے ہیں ، ان میں سے ایک جناب ڈاکٹر حامدکا خط ہے ، وہ مصر کے ایک نامور دانشور ہیں ، جو کئی قابل قدر تحقیقی تالیفات کے مالک ہیں ۔

چونکہ یہ خط انصاف و عدالت کا ایک نمونہ اور تعصب اورہٹ دھرمی کی سرحدوں کو توڑنے والا ایک عنوانہے اس لئے ہم اسے ترجمہ کرکے شائع کرتے ہیں(۱)

____________________

۱۔ نشریہ سالانہ مکتب تشیع ۴/۳۰۲۔

۵

خط کا مضمون

تاریخ اسلام کی تیرہ صدیاں اختتام کو پہنچی ہیں ان تیرہ صدیوں کے دوران ہمارے دانشوروں کے ایک گروہ نے حتی الامکان شیعوں کے خلاف آواز اٹھائیہے اور حقائق کو اپنی نفسانی خواہشات سے مخلوط کیا ہے اس ناپسندیدہ روش کی وجہ سے اسلامی فرقوں کے د رمیان گہرے اختلافات پیدا ہوئے ہیں ، نتیجہ کے طورپر شیعہ دانشوروں کے فکر و اندیشہ کے گوہر کو حقیر سمجھا گیا ہے اسی روش کی بنا پر علمی دنیا کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

شیعہ دانشوروں کے افکار سے علم محروم رہا ہے کیونکہ دشمنوں نے شیعوں کے پا ک و صاف دامن کو داغدار بنا کر انھیں ایک توہمات و خرافات کے حامل گروہ کے طور پر پہچنوایا ہے ، بے شک ہم شیعوں کے صاف و شفاف علمی چشمہ زلال سے ایک گھونٹ پی سکتے تھے نیزاس مذہب کے سرمایہ سے فائدہ اٹھا سکتے تھے ، لیکن افسوس کہ ہمارے گزشتہ دانشوروں نے تعصب سے کام لیااور عقل کو ھوا و ہوس پر ترجیح نہیں دی ، اے کاش کہ وہ لوگ عقل کی پیروی کرتے اور جذبات کے کھلونے نہ بن تے !! جو کوئی تعصب کے عینک کو اتارکر فقہی مباحث کےلئے اقدام کرے اور فقہ مذاہب چہارگانہ پر تحقیق کرے ، وہ شیعہ فقہ سے بھی استفادہ کرنے پر مجبور ہے اور بے شک جب فقہ اہل سنت پرتحقیق کرے تو اس وقت شیعہ فقہ کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے اور اس سے آگاہ ہونا چاہئے ۔

۶

ہم کب تک خواب غفلت میں رہیں گے ؟! کیا فقہ شیعہ کے پرچم دار ،ا مام جعفر صادق علیہ السلام(۱) سنی مذہب کے دو امامو ں کے استاد نہیں تھے؟ یہ دو امام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مکتب میں زانوئے ادب تہہ کیا ہے ۔

ابو حنیفہ ، نعمان بن ثابت(۲) کہتے ہیں :

لولاالسنتان لهلک النعمان

اگر امام صادق علیہ السلام کے درس میں دو سال شرکت نہ کی ہوتی تو بے شک میں ہلاک ہوجاتا، اوردین سے منحرف ہوتا۔

اس کی مراد وہی دو سال ہیں جس میں انہوں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کے علم کے میٹھے اور زلالی چشمہ سے استفادہ کیا ہے ۔

اور یہ مالک بن انس ہیں جو واضح طور پر اعتراف کرتے ہیں :

ما رایت افقه من جعفر بن محمد

میں نے جعفر بن محمد سے فقیہ تر کسی کو نہیں د یکھا ہے(۳)

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ علم کے بارے میں صرف دور سے کچھ سننے والوں نے اپنے آپ کو دانشور سمجھ کر اپنے قلم سے تحقیق کی بنیادوں کو اکھاڑ کر حق و حقیقت کو اپنی نفسانی خواہشات پر قربان

____________________

۱۔ وفات ۱۴۸ ھ

۲۔ وفات ۱۵۰ھ

۳۔ وفات ۱۷۹ ھ

۷

کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر گلستان علم کے دروازے ان پر بند ہوگئے اور اس طرح وہ شمع معرفت کے نور سے محروم ہوگئے ہیں ، اس مذموم روش نے فتنہ کی آگ کو بھڑکانے کے علاوہ مسلمانوں میں ، دن بدن اختلافات کو بڑھا وا دیا ہے ۔

افسوس کہ ہمارے استاد ” احمد امین “(۱) بھی انہیں افراد میں سے تھے ، جنہوں نے معرفت کے نور سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ظلمت کے پردوں کے پیچھے زندگی بسر کرتے رہے ، یہ وہ کرنیں ہیں جو تشیع کے سورج سے چمکی ہیں اور جہالت کی تاریک رات کو نور میں تبدیل کرکے اسلام کے عظیم تمدن کو اس وقت وجود بخشا ، جبکہ دوسرے لوگ بہت پیچھے تھے۔

تاریخ نے اس ناپاک رویہ کی بنا پر ، احمد امین اور ان جیسے تمام اساتذہ اور دانشوروں کے دامن پر عظیم داغ لگادیا ہے، جنہوں نے آنکھیں بند کرکے تعصب کی وادی میں قدم رکھا ہے ، یہ دانشور وں اور محققین کا طریقہ کار نہیں ہے کہ ایک جگہ بیٹھے رہیں اور جمود کی بیڑی کو اپنی فکر کے پاؤں سے نہ اتاریں اور بے جا پر تعصب سے کام لے کر آنکھیں بند کرکے کسی مذہب کی پیروی کریں !!

ان کی فکرو قلم سے بہت ساری غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہوئی ہیں اور انہیں الجھن اور بد حواسی سے دوچار کیا ہے ، شاید مذکورہ داستان اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔

انہوں نے جھوٹ بول کر بعض مطالب کو شیعوں سے نسبت دیکران کے دامن کو داغدار بنادیا

____________________

۱۔ ” فصل “ پیدائش افسانہ د ور راویان آن “ شمارہ ہفتم ، کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں پر احمد امین کی باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا ہے جس کا سبب شیعوں کے ساتھ اس کی دشمنی اور کینہ ہے ۔

۸

ہے کہ ہم نے ان میں سے بعض کی طرف اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے ،(۱) انہوں نے تصور کیا ہے کہ جتنے بھی خرافات اور جعلی چیزیں اسلام کی تاریخ میں موجود ہیں ، سب کی سب شیعہ علما کی گڑھی ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنے خود ساختہ گمان سے شیعوں پر حملہ کیا اور ان کو برا بھلا کہا ہے۔

جلیل القدر محقق ”جناب مرتضیٰ عسکری “ نے اپنی کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ میں کافی دلائل سے مکمل طور پر ثابت کیا ہے کہ ” عبدا للہ بن سبا “ ایک خیالی اور جعلی موجود ہے ۔

تاریخ نویسوں نے جو حکایتیں بیان کی ہیں اور ان کی بناء پر اسے (عبدا للہ بن سبا) مذہب شیعہ کا مروج(۲) بیان کیا ہے البتہ یہ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، مؤرخین نے ان گڑھی ہوئی داستانوں کو اس لئے مرتب کیا ہے تا کہ فریب کاری کے جال کو پھیلا کر شیعوں پر حملے کرکے بے جا ان کے خلاف تہمت و افتراء پردازی کریں ۔

ہم عصر دانشور ،جناب مرتضیٰ عسکری نے اس کتاب میں اپنی فکر و اندیشہ کے سہارے تاریخ کے سمندر میں غوطہ لگا کر ، بہت سی کتابوں کا مطالعہ فرمایا ہے اور انتہائی تلاش و جستجو کے بعد اس سمندر سے کافی مقدارمیں موتی لے کر ساحل تک آئے ہیں ۔

انہوں نے زیر بحث حقائق کو ثابت کرنے کےلئے نزدیک ترین راستہ طے کیا ہے ، شیعوں کے

مخالفوں سے بحث کے دوران ان کے ہی بیانات کو مآخذ قرار دیکر ان کی باتوں کو باطل ثابت کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کی کتا ب” مع احمد امین “ کے مقدمہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ خود غرض مورخین نے اسے شیعہ مذہب کا بانی و مروج خیال کیاہے۔

۹

تاریخ اسلام کے آغاز سے عصر حاضر تک ” سیف بن عمر“ کی روایتوں نے مؤرخین کو الجھا رکھا ہے جو عام طور پر قابل اعتماد ہے، اس کتاب میں ان روایتوں کے بارے میں ایک گراں بہا تحقیق کی گئی ہے کہ قارئین بڑی آسانی سے انھیں سمجھ سکتے ہیں ۔

خدا کی حکمت اسی میں ہے کہ بعض محققین مردانہ وار قلم ہاتھ میں اٹھا کر حقائق سے پردہ اٹھائیں ، اور اس راستہ میں دوسروں کی سرزنش اور ملامت کی پروانہ کریں ، مصنف محترم پہلی شخصیت ہیں جس نے اپنی گہری تحقیقات کے نتیجہ میں اہل سنت محققین کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ طبری کی کتاب ” تاریخ الامم و الملوک “ کے بارے میں تجدید نظر کریں ، نیز انھیں اس بات پر مجبور کیا ہے کہ اس کتاب اورتاریخ کی دوسری بنیادی کتابوں کے بارے میں از سر نو دقت سے غور کرتے ہوئے اور خوب و بد کو ایک دوسرے سے جدا کریں ،مزید ان تاریخی حوادث کے بارے میں بھی نئے سرے سے غور کریں ، جنہیں وہ نازل شدہ وحی کے مانند صحیح اور نا قابل تغییر سمجھتے تھے !!

محترم مصنف نے کافی ، واضح اور روشن شواہد کی مدد سے ان تاریخی وقائع سے ابہام کے پردے کو ہٹا دیا ہے اور حقیقت کو اس کے متوالوں کےلئے آشکار کیا ہے حتی کہ بعض حقائق انتہائی بھیانک اور حیرت انگیز دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ایک عمر کے عادات و رسومات چند صدیوں کی اعتقادی میراث کے مخالف ہیں ، لیکن حق کی پیروی کرنالازم و واجب ہے ہر چند کہ یہ امر دشور ہو ” الحق احق ان یتبع“۔

مذکورہ مطالب سے آگاہی چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ کریں او رتاریخ کے اختلافی حوادث جیسے ، اسامہ کی لشکر کشی ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت اور سقیفہ کی داستان (جس پر مؤلف نے تنقیدی تجربہ کیا ہے) کا دقت کے ساتھ مطالعہ کریں ۔

جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موت کا شیرین جام نوش فرمارہے تھے، اسامہ کے لشکر سے بعض افراد حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے مدینہ لوٹے اور ریاست و خلافت کی امید سے جہاد سے منہ موڑ لیا ، مؤلف نے ان افراد کو پہچنوایا ہے ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر مرگ پر جب وصیت لکھنے کا حکم دیدیا، کچھ لوگوں نے اس حکم پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالی اور اسے ہذیان سے تعبیر کیا (گویا انہوں نے گمان کیا کہ پیغمبر ہذیان کہہ رہے ہیں)کیونکہ وہ اس امر سے خائف تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وصیت میں علی علیہ السلام کی خلافت کی خبر دیں گے اور ان آخری لمحات میں بھی اسے اپنے وصی کے طور پر تعارف کرائیں گے ۔

۱۰

مؤلف اس حادثہ کی حقیقت و کیفیت کو بھی آشکار کرتے ہیں عمر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے انکار کرنے کا مقصد کیا تھا ؟ کیوں وہ ان افراد کو موت کی دھمکی دیتے تھے جو یہ کہتے تھے کہ پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے رحلت کی ہے ؟جس وقت امام علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچیرے بھائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس اور چند بوڑھے اور سن رسیدہ اصحاب کی مددسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن نازنین کوغسل دینے میں مشغول تھے ، تو اس وقت کس غرض سے عمر اور ابو عبیدہ نے انتہائی عجلت کے ساتھ اپنے آپ کو سقیفہ کے اجتماع میں پہنچادیا اور لوگوں سے ابوبکر کے حق میں بیعت لے لی ؟!

بے شک ، اگر تھوڑا سا انتظار کرتے تا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سپرد لحد کرکے اور علی علیہ السلام بھی اس اجتماع میں حاضر ہوتے تو علی علیہ السلام خلافت کے مستحق قرار پاتے اور بنی ہاشم ان کے علاوہ کسی اور کو امام المسلمین کے طور پر قبول نہیں کرتے !

مؤلف نے مذکورہ تین مباحث میں صحیح کو غلط سے اور برے کو بھلے سے جدا کرکے ان مسلم حقائق تک رسائی حاصل کی ہے اور ان کی اس تحقیق کے نتیجہ میں فریب کاروں کےلئے مکرو فریب کے دروازے بند ہوگئے ہیں ۔

کتاب کے دوسرے مباحث بھی مذکورہ بالا تین مباحث کی طرح ، دقت کے ساتھ حقائق کو ایسے آشکار کرتے ہیں کہ بہت جلد ہی تاریخ اسلام کے اندر گہرے اثرات رونما ہوں گے ۔

میں اس مقالہ کو ختم کرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ درج ذیل تین سوالات کا جواب دیدوں :

۱ ۔ کیا پیغمبر خدا کا صحابی غلطی کرسکتا ہے اورلغزش سے دوچار ہوسکتا ہے ؟

۲ ۔ کیا اس کے کام اور کردار پر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے ؟

۳ ۔ کیا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی کو منافق یا کافر کہا جاسکتا ہے ؟

۱۱

سوال نمبر ایک اور دو کا میں مثبت جواب دیتا ہوں ، لیکن تیسرے سوال کا جواب منفی ہے ۔ اس لئے نہیں کہ میں تعصب سے کام لیتا ہوں اور علم کے اصول کے خلاف کہتا ہوں ، بلکہ ایک ایسا استدلال رکھتا ہوں کہ عقل اس کو قبول کرتی ہے اور منطق اسکی تائید کرتی ہے کیونکہ کفر و نفاق کا تعلق قلب و دل سے ہے اور وہاں تک خدا کے سوا کسی کی رسائی نہیں ہے ، علمی تجربہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ہے ، صرف خداوند عالم ہے جو انسان کے اندرونی اسرار سے واقف ہے اور پوشیدہ چیزوں کامکمل طور پر علم رکھتا ہے(۱)

مذکورہ روش ، وہی جدید روش ہے ، جس کا واضح مشاہدہ میری تمام تالیفات میں کیا جاسکتا ہے۔

مجھے اس بات پر انتہائی مسرت ہے کہ علم کے لحاظ سے اس عظیم کتاب اور اس کے عالی قدر مصنف استاد علامہ محقق جناب مرتضی عسکری کے تئیں انتہائی احترام و محبت کا قائل ہوں ، اسی طرح جناب مرتضیٰ رضوی کشمیری کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کو پوری ظرافت اور دیدہ زیب صورت میں شائع کیا ہے ، علامہ نے اس فریضہ کو انجام دے کر اسلام کی ایک عظیم خدمت کی ہے اور اس ذمہ داری کو انجام دے کر اسلام کے تاریخی حقائق کو زندہ کرنے کےلئے ایک عظیم اثر چھوڑا ہے ۔

قاہرہ اول جمادی الاول ۱۳۸۱ ھء مطابق ۱۲ ،اکتوبر ۱۹۶۱ ئئ

ڈاکٹر حامد حفنی داؤد

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد نے اس خط کو نصف کتاب کے شائع ہونے کے پیش نظر مصر میں لکھا ہے ۔

۱۲

ایک محترم شیعہ دانشور شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

سنی دانشور محترم جناب ڈاکٹر حامد کے نظریہ سے آگاہ ہونے کے بعد مناسب ہے یہاں پر اس کتاب کے بارے میں ایک شیعہ دانشور علامہ نابغہ جناب شیخ محمد جواد مغنیہ جبل عاملی کے نظریہ سے بھی آگاہ ہوجائیں ، علامہ موصوف لبنان میں مروج مذہب تشیع ہیں ۔

موصوف کی گراں بہا تالیفات میں من جملہ ” تفسیر قرآن مجید “ ” معالم الفلسفة الاسلامیہ“، ”الشیعہ و الحاکمون “ ” اصول الاثبات فی الفقہ الجعفری“ اور دسیوں دوسری تالیفات سنجیدہ فکر اور ان کے علمی بلند مقام کو آشکار کرتی ہیں ، ذیل میں مجلہ ” العرفان “(۱) میں شائع ہوئے ان کے مقالہ کا ترجمہ ہے :

مذہب شیعہ کے خلاف لکھنے کے علاوہ دنیا کی تمام چیزوں میں دگرگونی اور تغیرات پیدا ہوئے ہیں شیعوں پر تہمت و افتراء کے علاوہ ہر آغاز کا خاتمہ ہے شیعوں کے خلاف جاری کئے جانے والے احکام کے علاوہ ہر حکم کی ایک دلیل و علت ہے آخر کیوں ؟

کیا شیعہ شورشی اور فتنہ گر ہیں اور لوگوں کے سکون و اطمینان کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں ؟

____________________

۱۔ نمبر ۳/ سال ۱۳۸۱ ھ صفحہ ۲۳۰۔

۱۳

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :

سیف بن عمر تمیمی(۱) نامی ایک شخص نے گزشتہ دو سری صدی کے دوران دو کتابیں لکھی ہیں ، اس کی پہلی کتاب ” الفتوح و الردّة“ اور دوسری کتاب ” الجمل و مسیر عائشة و علیّ “ ہے ان دونوں کتابوں میں د رج ذیل مطالب کی ملاوٹ کی گئی ہے :

۱ ۔ ایسے حوادث و اتفاقات کی تخلیق کرنا ، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

۲ ۔ رونما ہوئے حقیقی حوادث و واقعات میں تحریف کرکے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت دکھانا ۔

اس بے لگام اور جھوٹے شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے چند من گھڑت اصحاب جعل کئے جن کے سعیر ، ہزہاز، اط ، حمیضہ ، وغیرہ نام رکھے ہیں ۔

اس نے تابعین اور غیر تابعین کے کچھ اشخاص جعلکئے ہیں اور ان کی زبانی اپنی جعلی احادیث نقل کی ہیں ۔

اس کی انہیں تخلیقات میں سے ایک سورما ہے جس کی شخصیت کو اس نے جعلکیا ہے اور اس کا فرضی نام بھی معین کیا ہے ، اور چند داستانوں کو گڑھ کر اس سے نسبت دی ہے یہ افسانوی سورما ”عبد اللہ بن سبا“ ہے جس کسی نے بھی شیعوں پر تہمتیں لگائی ہیں اور ان کے بارے میں جہل یا نفاق کے سبب افترا پردازی کی ہے ، ان سب نے اسی پر اعتماد کیا اور اس کی باتوں پر تکیہ کیا ہے۔

____________________

۱۔وفات دوسری صدی ہجری ۔

۱۴

”سیف“ کے بعد مؤرخین کی ایک جماعت نے فریب اور دھوکہ سے بھری ان دو کتابوں کو سند بنا کر کسی قسم کے تامل و تدبر کے بغیر دروغ پرداز اور چالباز سیف کے نظریات اور اندیشہ کو نقل کیا ہے ، اس طرح اس کے مذموم تفکر سے استفادہ کیا گیا ہے ۔

”طبری“ پہلا شخص تھا جو” سیف “کے دام فریب میں پھنس گیا تھا اس کے بعد ابن اثیر ، ابن عساکر اور ابن کثیر اور دوسرے لوگ” طبری“ سے آنکھیں بند کرکے روایت نقل کرنے کے سبب اس گڑھے میں گر گئے ہیں ۔

اس طرح جھوٹے ”سیف“ کی تخلیقات کی تاریخی کتابوں اور منابع میں بلاواسطہ طور پر ملاوٹ ہوئی ہے لیکن ان کی جڑ اور بنیاد، وہی سیف کی دو کتابیں ” الفتوح “ اور ” الجمل “ ہیں ۔

علامہ سید مرتضی عسکری کی کتاب ” عبد اللہ بن سبا“ مذکورہ حقائق کو صحیح دلائل کی بنا پر آشکار کرتی ہے اور قارئین کو صاف اور واضح راہنمائی کرکے حقیقت کی منزل تک پہنچاتی ہے ۔

انہوں نے اس کتاب کی تالیف میں انتہائی دقت سے کام لیا ہے اور موصوف کی تمام تر سعی و تلاش اس امر پر متمرکز رہی ہے کہ حق و حقیقت کے علاوہ کوئی چیز کاغذ پر نہ لکھی جائے ، قارئین کرام جس قدر بھی مفکر اور دانشور ہوں ، موصوف کے حاصل کئے ہوئے نتائج سے نہ تو انکار کرسکتے ہیں اورہی نہ شک و شبہ ، کیونکہ اس کتاب کے بہت سے دقیق مباحث کی بنیاد بدیہی قضایا پر مبنی ہے اور بدیہیات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے ۔

میں نے مختلف افراد سے بارہا بحث کی ہے ، اور ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا ہے ، لیکن اس گفتگو میں میں نے شیخ مفید ، سید مرتضی ، اور علامہ حلی سے آگے قدم نہیں بڑھایا ہے ، میری روش صرف یہ تھی کہ میں ان بزرگوں کے طرز بیان کو بدل دیتاتھا اور مخاطب کے لئے مطالب کو آشکار اور واضح تر بیان کرتا تھا ، کیونکہ کوئی تازہ اعتراض نہیں تھا کہ میں اس کا تازہ اور نیا جواب دیتا بلکہ اعتراض وہی تھا جو پچھلے لوگوں نے کر رکھاتھا اور اس کا جواب سن چکے تھے ، چونکہ یہ لوگ بھی گزشتہ لوگوں کی طرح اعتراض کرتے ہیں لہذا مجبور ہیں وہی جواب سنیں ،میں اپنے علمائے سلف کی باتوں کی تکرار کرتا تھا ، کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ بے خبر، معترضین علماء کی باتوں پر اعتراض کرتے ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ ان کی ہی باتوں سے آگاہ ہوجائیں ۔

بے شک میں علمائے تشیع کی پیروی کرتے ہوئے ” عبدا للہ بن سبا“ کے وجود کا معترف تھا ، لیکن اس کی رفتار کو حقیر اور شرم آور سمجھتا اور اس کی باتوں کا انکار کرتا تھا ۔

۱۵

علامہ عالیقدر جناب سید مرتضیٰ عسکری نے اس عمارت کی بنیاد ہی اکھاڑ کرکے رکھدی اور اپنی گہری تحقیقات سے ثابت کردیا کہ ” عبد اللہ بن سبا “ کی حقیقت ایک افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ! اور یہی وہ حقیقت ہے جو اس کتاب میں بے نقاب ہوئی ہے ، اگر میں یہ کہوں کہ عربی میں یہ تنہا کتاب ہے ، جس میں تاریخ کی علمی بنیادوں پر تحقیق کرکے اس پر غور کیا گیا ہے تو یہ ہرگز مبالغہ نہیں ہے ، اور میرا یہ کہنا بھی ہر گز بیجا نہیں ہوگا کہ اس دانشور مصنف نے دین و علم اور خاص طور پر شیعوں اورمذہب تشیع کی ایک ایسے زمانے میں بے مثال اور عظیم خدمت کی ہے کہ جب ان پر تہمتوں ، افتراء پردازیوں اور بہتان تراشیوں کی بھر مار ہورہی ہے ، موصوف نے اسلام کی ایک عظیم اور درخشان خدمت کی ہے ، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان رخنہ ڈال کر ان کے اتحاد و یکجہتی کو درہم برہم کرکے انھیں کمزوراوربے بس کردیا ہے ۔

ہم نے فرمانرواؤں اور ظالم حکام کی طرف سے بد ترین عذاب اور مشکلات برداشت کی ہیں تا کہ اسلام کی یکجہتی کا تحفظ کرکے دشمنی سے پرہیز کریں ، لیکن وہ روز بروز اپنی دروغ بیانی میں تشویق ہوتے رہے ہیں اور ان کی پہلی اور آخری سند ” ابن سبا“ کا افسانہ اور ” ابن السوداء “ کا خرافہ تھا کہ افسانہ ساز ”سیف “ نے انھیں ، خدا اوراپنے ضمیر کے سامنے کسی ذمہ داری کا احساس کئے بغیر جعلکیا ہے ۔ لیکن آج ” عبدا للہ ابن سبا “ نام کی کتاب لکھی جانے کے بعد یہ کاسہ لیس اور چاپلوس لوگ کیا جواب دیں گے ؟!

آخر میں میری تجویز ہے کہ یہ کتاب دیدہ زیب طباعت کے ساتھ دوبارہ شائع کی جائے اور عالم اسلام کے تمام شہروں میں نصف قیمت پر بیچی جائے تا کہ عام مسلمان اسے خرید کر اس کے عالی مطالب سے استفادہ کرسکیں ۔

نجف اشرف کے دانشوروں اور مراجع عظام کو چاہئے مذکورہ مقصد کی جانب توجہ کرتے ہوئے رقومات شرعیہ سے مدد کریں یا خیّر افراد کی اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں ۔

میری تجویز ہے کہ یہ حضرات تاکید کے ساتھ حکم فرمائیں تا کہ یہ کتاب دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر سستے داموں میں دنیا کے لوگوں تک پہنچ جائے ، یہ دین اسلام کےلئے ایک عظیم خدمت ہوگی۔

لبنان ۔ شیخ محمد جواد مغنیہ

۱۶

الازہر یونیورسٹی مصر کے مجلہ ” جامع الازھر “ میں شائع شدہ اعتراضات کا جواب

مجلہ ” جامع الازھر“ مصر میں کتاب ”عبدا للہ بن سبا “ کے بارے میں دو مقالے لکھے گئے ہیں(۱) اہم ترین مطلب جوان دو تنقیدی مقالوں میں ملاحظہ کے قابلہے عبارت ہے :

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اور ان کے باہمی اختلافات ، چودہ صدی پرانی بات ہے اور وہ سب اپنے مالک حقیقی سے جاملے لہذا چاہئے کہ ان مسائل سے صرف نظر کیا جائے(۲)

اس بات کے جواب میں ہم کہتے ہیں :

اولاً : ہم سیف کی روایتوں کی تحقیق کی فکر میں تھے ، جس موضوع پر اس نے روایتیں نقل کی تھیں ، ہم نے مجبور ہو کر ان ہی موضوعات پر بحث و تحقیق کی ہے ، چونکہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا“ میں عبد اللہ بن سبا کے افسانہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے باہمی اختلافات کے بارے میں سیف ابن عمر کی نقل کی گئی روایتوں پر بحث کی گئی ہے ، لہذا ہم مجبور ہوئے کہ ہر موضوع کے

____________________

۱۔ پہلا مقالہ کتاب کی نجف اشرف میں طبع شدہ پہلی اشاعت پر ایک تنقید ہے ، اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۳ ج۱۰، ۱۳۸۰ ئھ ” باب الکتب “ کے صفحہ۱۱۵۰ ۔۱۱۵۱ میں شائع ہوا ہے ۔ دوسرا مقالہ اسی کتاب کے مصر میں طبع شدہ نسخہ پر ایک تنقید ہے اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۲ /ج ۶/ ۱۳۸۱ ء ھ کے صفحہ۷۶۰ ۔۷۶۱ میں شائع ہوا ہے۔

۲۔ یہ جملہ پہلے مقالہ کے آخر پر لکھا گیا ہے اور باقی تمام مطالب اسی جملہ کی تفسیر اور تشریح میں لکھے گئے ہیں ۔

۱۷

بارے میں بحث کو جاری رکھتے ہوئے تجزیہ و تحقیق کریں ، جس طرح میں نے اپنی کتاب ” خمسون و ماة صحابی مختلق“ ( ۱۵۰ جعلی اصحاب) میں اصحاب کے فتوحات اور صدر اسلام کی جنگوں کو اپنا موضوع قرار دیگر بحث و تحقیق کی ہے ۔

سیف کی روایتوں پر تحقیق نے ہمیں اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ ایسی بحثوں میں داخل ہوجائیں جنھیں بہت سے دانشوروں نے پردے میں رکھا ہے ، لہذا ان موضوعات پر بحث و تحقیق نے انھیں برہم اور رنجیدہ کیا ہے ، البتہ ہم بھی ان کی طرح ایسے وقائع اور روداد کے رونما ہونے سے خوشحال نہیں ہیں اور ان سے پردہ اٹھانے اور ان پر غور و فکر کرنے سے ہمارا رنج و غم بھڑک اٹھتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خداوند عالم نے پیغمبر خدا کے اصحاب کو ملک و فرشتہ خلق نہیں کیا ہے کہ جبلت انسانی سے عاری ہوں بلکہ وہ دوسرے افراد کی طرح انسانی جبلت میں ان کے شریک ہیں ، اور ایمان اور اسلام میں استقامت کے مراتب میں بھی ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ، اس حد تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان میں سے بعض پر حد جاری کی ہے (کوڑے لگائے ہیں) اور ان میں سے بعض کے بارے میں ” آیات افک “ نازل ہوئی ہیں جن میں ان کی اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ انہوں نے پیغمبر خدا کی بیوی کی جانب نازیبانسبت دی تھی ، اور ان میں سے بعض کے بارے میں نفاق کی آیات نازل ہوئی ہیں ۔

ان تمام مطالب کے باوجود ہم نہیں سمجھتے کہ پیغمبر خدا کے اصحاب کو ان اختلافات اور تحولات کے ساتھ کیسے چھوڑدیں جبکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام اور عقائد کو ہم تک پہنچانے کے واسطہ ہیں کیا اس طرح صرف پیغمبر کو درک کرنے کی بنا پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عزت و احترام کرنا بحث و تحقیق کےلئے رکاوٹ اور دینداری کے نام پر علم ودانش کے دروازہ کو بند کرنے کے مترادف نہیں ہے ؟ چونکہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے صدیوں سے اپنے اوپر اجتہاد کا دروازہ بند کررکھتا ہے ، لہذا تحقیق و علم کا دروازہ بھی ان پر بند ہوگیا ہے ۔

۱۸

خدارا ! ہم نے اس مطلب کو قبول نہیں کیا ہے اور اسکی تائید نہیں کرتے ہیں بلکہ دین و اسلام کے نام پر اور اس پر عمل کرنے کیلئے اسلام کی راہ میں بحث و تحقیق کےلئے قدم اٹھاتے ہیں ۔

ثانیاً : کاش کہ ہم یہ جانتے کہ قدیم و جدید دانشور جو پیغمبر خدا کے اصحاب کی عزت و احترام میں جو غیرت و حمیت دکھاتے ہیں ، کیا اس میں پیغمبر خدا کے تمام اصحاب شامل ہیں خواہ اس کے سزاوار ہوں یا نہ ، خواہ وہ عیش پرست ہوں یا زاہد و پرہیزگار ؟ کیا یہ احترام عام طور پر اس لئے ہے کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کادیدار کیا ہے ؟ یا ان کےلئے مخصوص ہے جوسرمایہ دار و قدرتمندتھے اور حکومت تک ان کی رسائی تھی ؟ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ احترام شعوری یا لا شعوری طور پر صرف ان افراد سے مخصوص ہوکے رہ گیا جو حکومت اور ایوان حکومت سے وابستہ و مربوط ہیں ۔

جو کچھ ایک دوررس اور نکتہ شناس محقق کےلئے قابل اہمیت ہے وہ دوسرا مطلب ہے کیونکہ اگر تاریخ طبری میں ۳۰ ء ھ کے روئدادوں اور حوادث پر غور کیا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس نے یوں لکھا ہے :

اس سال ، یعنی ۳۰ ئھ میں جو کچھ ابوذر اور معاویہ کے درمیان پیش آیا ، اور سر انجام ابوذر کے شام سے مدینہ جلا وطن کئے جانے پر تمام ہوا ، اس سلسلے میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں کہ جنکو میں نقل کرنا پسندنہیں کرتا ہوں ، لیکن اس سلسلہ میں معاویہ کیلئے عذر پیش کرنے والوں نے ایک داستان نقل کی ہے ، اس داستان میں کہا گیا ہے:

شعیب نے اسے سیف سے نقل کیا ہے

اس کے بعد طبری نے ابو ذر اور معاویہ کے بارے میں نقل کی گئی داستان کے سلسلے میں سیف کی باقی روایت کو اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے ۔

۱۹

اگر ہم اس سلسلے میں تاریخ ابن اثیر کی طرف رجوع کریں گے تو دیکھتے ہیں کہ وہ کہتا ہے :

اس سال ( ۳۰ ھء) ابوذر کی داستان اور معاویہ کے توسط سے اسے شام سے مدینہ جلاوطن کرنے کا مسئلہ پیش آیا، اس رفتار کی علت کے بارے میں بہت سے مطالب لکھے گئے ہیں ، من جملہ یہ کہ : معاویہ نے انھیں گالیاں بکیں اور موت کی دھمکی دی ، شام سے مدینہ تک انھیں ایک بے کجاوہ اونٹ پر سوار کرکےنہایت ہی بیدردی سے ایک ناگفتہ بہ حالت میں مدینہ کی طرف جلاوطن کردیا ، مناسب نہیں ہے اسے یہاں بیان کیا جائے میں اسے نقل کرناپسند نہیں کرتا ہوں ، لیکن جنہوں نے اس سلسلے میں عذر پیش کیا ہے، یو ں کہا ہے :

اس بنا پر طبری نے یہاں پر ان بہت سی روایتوں کو درج نہیں کیا ہے جن میں معاویہ اور ابوذر کی روئداد بیان ہوئی ہے اور ان کو بیان کرنا پسند نہیں کرتا تھا، پھر بھی اس نے ان روایتوں کو بالکل ہی درج کرنے سے چشم پوشی نہیں کی ہے ۔ بلکہ سیف کی ان تمام روایتوں میں سے ایسی روایت کا انتخاب کیا ہے کہ معاویہ کا عذر پیش کرنے والوں کےلئے سند کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے اس کے کام کی توجیہ کے طورپر پیش کرتے ہیں ، جبکہ اس روایت میں پیغمبر اسلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بزرگوار صحابی ” ابو ذر“ کی حد سے زیادہ توہین کی گئی ہے ۔ اس کی دینداری پر طعنہ زنی کی گئی ہے ، اسے بیوقوف اور احمق کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس پرناروا تہمتیں لگائی گئی ہیں ۔

۲۰

کیونکہ اس روایت میں معاویہ کو حق بجانب ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے عذر کو درست قرار دیاگیا ہے ، اور اس طرح مؤرخین کا یہ قائد ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس تہی دست صحابی کی شخصیت اور احترام سے چشم پوشی کرتاہے اوران کی عظمت کو معاویہ جیسے حاکم اور ثروتمند شخص کے حرمت کے تحفظ میں قربان کرتاہے ، یہی کام ابن اثیر، ابن خلدون اور دوسروں نے بھی انجام دیا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ، بنیادی طور پر اسی سبب سے تاریخ طبری نے رواج پیدا کیا ہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ شہرت پائی ہے ، اور اس لئے سیف (بے دینی کا ملزم ٹھہرائے جانے کے باوجود) کی روایتوں کو اس قدر اشاعت ملی ہے اور اسی لئے مشہور ہوئی ہیں(۱) ۔

اس بنا پر ایسے دانشوروں نے صرف ایسے صحابیوں کے احترام کے تحفظ کےلئے اقدام کیا ہے جو صاحبِ قدرت و حکومت تھے ، اور” معاویہ بن ابو سفیان “ جیسے شخص کی اس لئے عزت کرتے ہیں کہ وہ صاحب حکومت و اقتدار تھا ، جبکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “(۲) میں شمار فرمایا ہے اور اس کی نفرین کرتے ہوئے فرمایا:

خداوند عالم اس کے شکم کو کبھی سیر نہ کرے “(۳) اسی طرح ” عبدا للہ بن سعد بن ابی سرح “(۴) جو ابتداء میں مسلمان ہوا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتبوں میں شمار ہوتا تھا، لیکن ایک مدت کے بعد مرتد ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن مجید پر تہمت لگائی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کا خون بہانا مباح قرار فرمایا تھا،ایسے شخص کو ان خصوصیات کے باوجود مصر کا گورنر ہونے کے ناطے اس کا نام تاریخ میں درج کرکے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

اس طرح خلیفہ عثمان کے بھائی ولید ، جس کے بارے میں آیہ نبا نازل ہوئی ہے :

<یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اِذا جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَیَّنُوا اَنْ تُصِیْبُوا قَوْماً

____________________

۱۔ کتاب کے فصل ” پیدائش افسانہ “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ تمام سیرت لکھنے والوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح حنین کے بعد معاویہ اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “ میں شمار فرمایا ہے ، اس لئے انھیں کچھ چیزیں دیدی ہیں ۔

۳۔ صحیح مسلم کے اس باب کی طرف رجوع کیا جائے کہ ”پیغمبر خدا نے جن پر لعنت کی ہے “

۴۔ اس کے حالات پر اگلے صفحات میں روشنی ڈالی جائے گی۔

۲۱

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

پندرہواں سبق:

ولايت فقيہ كا معني

لغوى لحاظ سے ولايت '' و _ ل _ ي'' سے ماخوذ ہے _ واو پر زبر اور زير دونوں پڑھے جاتے ہيں _ اس كے ہم مادہ ديگر كلمات يہ ہيں _ توليت ، موالات ، تولّى ، وليّ، متولّي، استيلائ، ولائ، مولا، والى _

لغوى لحاظ سے ولايت كے متعدد معانى ہيں مثلاً نصرت ، مدد، امور غيركا متصدى ہونا اور سرپرستى وغيرہ_البتہ ان معانى ميں سے سرپرستى او رغير كے امور ميں تصرف ولايت فقيہ سے زيادہ مناسبت ركھتے ہيں_جو شخص كسى منصب يا امر كا حامل ہو اسے اس امر كا سرپرست، مولى اورولى كہا جاتاہے، بنابريں لفظ ولايت اور اس كے ہم مادہ الفاظ يعنى ولي، توليت ، متولى اور والى سرپرستى اور تصرف كے معنى پر دلالت كرتے ہيں اس قسم كے كلمات كسى دوسرے كى سرپرستى اور اس كے امور كى ديكھ بھال كيلئے استعمال ہوتے ہيں اور بتلاتے ہيں كہ ولى اور مولا دوسروں كى نسبت اس تصرف اور سرپرستى كے زيادہ سزاوار ہيںاور ولى و مولا كى ولايت كے ہوتے ہوئے دوسرے افراد اس شخص كى سرپرستى اور اس كے امور ميں تصرف كا حق نہيں ركھتے(۱)

____________________

۱) مولى اور ولى كے معانى كى مزيد تفصيل كيلئے كتاب الغدير ، جلد۱، صفحہ ۶۰۹ ، ۶۴۹ اور فيض القدير ،صفحہ ۳۷۵_ ۴۴۸ كى طرف رجوع كيجئے _

۱۴۱

قرآن كريم ميں جو الفاظ ان معانى ميں استعمال ہوئے ہيں _ وہ اللہ تعالى ، رسول -(ص) اور امام كيلئے استعمال ہوئے ہيں _

( '' إنَّمَا وَليُّكُمُ الله ُ وَرَسُولُهُ وَالَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم رَاكعُونَ'' ) (۱)

سواے اس كے نہيں كہ تمہارا ولى خدا ، اس كا رسول اور وہ مومن ہيں جو نماز قائم كرتے ہيں اور حالت ركوع ميں زكوة ديتے ہيں _

و ، ل ، ى كے مشتقات كے معانى اور قرآن و روايات ميں ان كے استعمال كى تفصيلى بحث ہميں ہمارى اصلى بحث سے دور كردے گى ، كيونكہ ولايت اور اس سے ملتے جلتے الفاظ يعنى والى اور ولى و غيرہ كا اصطلاحى معنى واضح اور روشن ہے_

جب ہم كہتے ہيں : كيا رسول خدا (ص) نے كسى كو مسلمانوں كى ولايت كيلئے منصوب كيا ہے ؟ يا پوچھتے ہيں : كيا زمانہ غيبت ميں فقيہ عادل و لايت ركھتا ہے ؟ واضح ہے كہ اس سے ہمارى مراد دوستي، محبت اور نصرت وغيرہ نہيں ہوتي_ بلكہ اس سے مراد اسلامى معاشرہ كے امور كى سرپرستى ہوتى ہے _ ولايت فقيہ كا معنى يہ ہے كہ فقيہ عادل اسلامى معاشرہ كى سرپرستى اور حاكميت كا حقدار ہے اور اس شرعى اور اجتماعى منصب كيلئے منتخبكيا گيا ہے _

ولايت كى حقيقت اور ماہيت

ولايت فقيہ كى ادلہ كے ذريعہ فقيہ عادل كيلئے جو ولايت ثابت كى جاتى ہے وہ شرعى اعتبارات اور مجعولات ميں سے ہے _ فقاہت ، عدالت اور شجاعت جيسى صفات تكوينى ہيں جبكہ رياست اور ملكيت جيسے امور اعتباري

____________________

۱) سورہ مائدہ آيت ۵۵_

۱۴۲

اور وضعى ہيں _ اعتبارى اور وضعى امور ان امور كو كہتے ہيں جو جعل اور قرار دينے سے وجود ميں آتے ہيں يعنى بذات خود خارج ميں ان كااپنا وجود نہيں ہوتا_ بلكہ بنانے والے كے بنانے اور قرار دينے والے كے قرار دينے سے وجود ميں آتے ہيں _ لہذا اگر قرار دينے والا شارع مقدس ہو تو انہيں ''اعتبارات شرعي''كہتے ہيں اورا گر عقلاء اور عرف عام ہوں تو پھر انہيں ''اعتبارات عقلائي ''كہا جاتاہے_ (۱)

جو شخص فقيہ بنتاہے يا وہ شخص جو ملكہ عدالت اور تقوى كو حاصل كرليتاہے وہ ايك حقيقت اور ''تكوينى صفت'' كا حامل ہوجاتاہے _ليكن اگر كسى شخص كو كسى منصب پر فائز كيا گيا ہے اوراس كے لئے ايك حاكميت قرار دى گئي ہے تو يہ ايك حقيقى اور تكوينى صفت نہيں ہے بلكہ ايك قرار داد اور ''عقلائي اعتبار'' ہے ''امر اعتبارى ''اور'' امر تكوينى ''ميں يہ فرق ہے كہ '' امر اعتبارى '' كا وجود واضع اور قرار دادكرنے والوں كے ہاتھ ميں ہوتاہے_ ليكن ''تكوينى حقائق '' كسى بنانے والے يا قرار دينے والے كے ہاتھ ميں نہيں ہوتے كہ قرار كے بدلنے سے ان كا وجود ختم ہوجائے_

ولايت دو طرح كى ہوتى ہے _ تكوينى اور اعتبارى _ وہ ولايت جو فقيہ كو حاصل ہے اور ولايت فقيہ كى ادلہ سے جس كا اثبات ہوتاہے _'' ولايت اعتبارى ''ہے _ولايت تكوينى ايك فضيلت اور معنوى و روحانى كمال ہے _رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين كو دونوں قسم كى ولايت حاصل ہے آپ عصمت، عبوديت اور علم الہى كے اعلى مراتب پر فائز ہونے اور خليفہ خدا ہونے كى وجہ سے ولايت تكوينيہ اور الہيہ كے حامل محسوب ہوتے ہيں جبكہ مسلمانوں كى رہبرى اور قيادت كى وجہ سے سياسى ولايت ركھتے ہيں جو كہ ''ولايت اعتباري''ہے _ امام خمينى اس بارے ميں فرماتے ہيں :

____________________

۱) وہ حاكميت جس كا ايك قوم وقبيلہ اپنے سردار كيلئے اور ايك معاشرہ اپنے حاكم كيلئے قائل ہوتاہے ''اعتبارات عقلائي'' كے نمونے ہيں _ اسى طرح ٹريفك كے قوانين كہ سرخ لائٹ پر ركنا ہے يا يہ سڑك يك طرفہ ہے يہ تمام اعتبارات و مجعولات عقلائي كى مثاليں ہيں_

۱۴۳

جب ہم يہ كہتے ہيں كہ وہ ولايت جس كے رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين حامل تھے وہى ولايت زمانہ غيبت ميں فقيہ عادل كو حاصل ہے تو كوئي ہرگز يہ نہ سمجھے كہ فقہاء كو وہى مقام حاصل ہے جو رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومين كو حاصل تھا، كيونكہ يہاں بات مقام كى نہيں ہے بلكہ فريضے اور ذمہ دارى كى ہے_ ولايت يعنى ''حكومت اورملك ميں شرعى قوانين كا اجرا'' ايك سنگين اور اہم ذمہ دارى ہے _ نہ يہ كہ كسى شخص كو ايك عام انسان سے ہٹ كر كوئي اعلى و ارفع مقام ديا جارہا ہے_ دوسرے لفظوں ميں مورد بحث ولايت يعنى حكومت اور اس كا انتظام بہت سے افراد كے تصور كے برعكس كوئي مقام نہيں ہے بلكہ ايك بھارى اور عظيم ذمہ دارى ہے ''ولايت فقيہ '' ايك ''امر اعتبارى عقلائي'' ہے _ لہذا جعل كے سوا كچھ بھى نہيں ہے (۱) _

ياد رہے كہ اس اعتبار سے كہ ولايت فقيہہ ، منصب حكومت اور معاشرتى نظام كے چلانے كو فقيہ كى طرف منسوب كرتى ہے_ ولايت فقيہ ايك'' اعتبار عقلائي ''ہے كيونكہ تمام معاشروں ميں ايسى قرارداد ہوتى ہے اور كچھ افراد كيلئے يہ منصب وضع كيا جاتاہے_ دوسرى طرف چونكہ يہ منصب اور اعتبار روايات معصومين اور شرعى ادلّہ سے فقيہ كو حاصل ہے اس لئے يہ ايك شرعى اعتبار اور منصب بھى ہے _ پس اصل ولايت ايك ''اعتبار عقلائي''ہے اور فقيہ كيلئے شارع مقدس كى طرف اس كى تائيد ايك ''اعتبار شرعى ''ہے _

اسلامى فقہ ميں دوطرح كى ولايت

ولايت كے متعلق آيات اور روايات كو كلى طور پر دو قسموں ميں تقسيم كيا جاسكتاہے يا دقيق تعبير كے مطابق فقہ ميں دو قسم كى ولايت پائي جاتى ہے_ ايك ولايت كا تعلق مومنين كے امور كى سرپرستى سے ہے يہ وہى ولايت ہے جو رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومينكى طرف سے ''زمانہ غيبت'' ميں'' فقيہ عادل '' كو حاصل

____________________

۱) ولايت فقيہ صفحہ ۴۰ ، ۴۱_

۱۴۴

ہے _ اس سبق كى ابتدا ء ميں جو آيت ذكر كى گئي ہے _ وہ اسى ولايت كى طرف اشارہ كرتى ہے _ دوسرى ولايت وہ ہے جس ميں ان افراد كى سرپرستى كى جاتى ہے جو فہم و شعور نہيں ركھتے يا اپنے امور انجام دينے سے قاصر ہيں يا موجود نہ ہونے كى وجہ سے اپنے حق سے فائدہ نہيں اٹھاسكتے _ لہذا ضرورى ہے كہ ان كى طرف سے ايك ولى اپنى صواب ديد كے تحت انمحجور، غائب اور بے بس افراد كے امور كى سرپرستى كرے _

باپ اور دادا كى اپنے كم سن، كم عقل اور ديوانے بچوں پر ولايت، مقتول كے اولياء كى ولايت اورميت كے ورثا كى ولايت تمام ا سى ولايت كى قسميں ہيں _ درج ذيل آيات اسى ولايت كى اقسام كى طرف اشارہ كررہى ہيں_

( ''و من قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطانا فلا يُسرف فى القتل'' ) (سورہ اسراء آيت۳۳)

جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس كے وارث كو ( قصاص كا) حق ديا ہے پس اسے چاہيے كہ قتل ميں زيادتى نہ كرے_

( ''فان كان الذى عليه الحق سفيهاً او ضعيفا او لا يستطيع ان يملّ هو فليملل وليه بالعدل'' ) (سورہ بقرہ آيت ۲۸۲)

اور اگر قرض لينے والا كم عقل يا معذور يا خود لكھوا نہ سكتا ہو تو اس كا سرپرست انصاف سے لكھوادے_

ان دو قسم كى ولايت كے درميان بنيادى فرق سے غفلت اور ان دونوں كو ايك ہى سمجھنے كى وجہ سے ولايت فقيہ كے بعض مخالفين ايك بڑى اور واضح غلطى كے مرتكب ہوئے ہيں _ وہ يہ سمجھنے لگے ہيں كہ ولايت فقيہ وہى محجور و قاصر افراد پر ولايت ہے اور ولايت فقيہ كا معنى يہ ہے كہ لوگ مجنون، بچے ، كم عقل اور محجور افراد كى طرح ايك سرپرست كے محتاج ہيں اور ان كيلئے ايك سرپرست كى ضرورت ہے_ لہذا ولايت فقيہ كا لازمہ لوگوں اور ان كے رشد و ارتكاء كى اہانت ہے _ آنے والے سبق ميں ہم اس غلط فہمى كا جواب ديں گے_

۱۴۵

خلاصہ

۱)ولايت كے متعدد معانى ہيں _ ولايت فقيہ سے جو معنى مراد ليا جاتاہے وہ ايك لغوى معنى يعنى سرپرستى اور تصرف كے ساتھ مطابقت ركھتاہے _

۲)ولايت فقيہ ''اعتبارات شرعى ''ميں سے ہے _

۳) معصومين '' ولايت اعتبارى ''كے علاوہ '' ولايت تكوينى ''كے بھى حامل ہيں جو كہ ايك كمال اور معنوى فضيلت ہے _

۴) فقہ ميں دو قسم كى ولايت پائي جاتى ہے_

الف:محجور و عاجز افراد پر ولايتب : مومنين كے اجتماعى امور كى سرپرستي

۵) وہ ولايت جو قرآن كريم ميں رسول خدا (ص) اور اولى الامر كيلئے ثابت ہے اور ان كى پيروى ميں فقيہ عادل كيلئے بھى ثابت ہے ولايت كى يہى دوسرى قسم ہے_

۶) ان دو قسم كى ولايت كے درميان اشتباہ اور دوسرى قسم كى ولايت كے وجود سے غفلت سبب بنى ہے كہ بعض افراد نے ولايت فقيہ كو اس ولايت كى قسم سمجھا ہے جو محجور اوربے بس افراد پر ہوتى ہے_

۱۴۶

سوالات:

۱) ولايت فقيہ كا اصطلاحى معنى ولايت كے كونسے لغوى معنى كے ساتھ مناسبت ركھتاہے ؟

۲)اس سے كيا مراد ہے كہ فقيہ عادل كى ولايت ايك'' امر اعتبارى ''ہے ؟

۳) ولايت تكوينى سے كيا مراد ہے ؟

۴) ولايت فقيہ اور ائمہ معصومين كى ولايت ميں كيا فرق ہے ؟

۵) محجور افراد پر ولايت سے كيا مراد ہے؟

۱۴۷

سولہواں سبق :

فقيہ كى وكالت اور نظارت كے مقابلہ ميں ولايت انتصابي

اس سبق كا مقصد اس امر كى مزيد وضاحت كرنا ہے كہ'' فقيہ كى ولايت انتصابى سے كيا مراد ہے''؟ اوران لوگوں كے اس نظريہ كے ساتھ اس كا كيا فرق ہے جو ''ولايت فقيہ'' كى بجائے ''وكالت فقيہ ''كے قا ئل ہيں يعنى فقيہ لوگوں كا وكيل ياوہ حكومتى امور پرنظارت كھنے والا ہے _ اس سے ولايت فقيہ كى بحث ميں محل نزاع كے واضح ہونے ميں مدد ملے گى ليكن اس بحث ميں داخل ہونے سے پہلےان غلط فہميوںكى طرف اشارہ كرديا جائے جو ولايت فقيہ كے معنى كے متعلق پائي جاتى ہيں _وہى غلط فہمى جس كى طرف گذشتہ سبق كے آخر ميں ہم اشارہ كرچكے ہيں _ فقيہ كى سياسى ولايت كے بعض مخالفين اس بات پر مصرہيں كہ ولايت فقيہ ميں ''ولايت'' كاوہ معنى كيا جائے جو دوسرے سياسى نظاموں ميں موجود سياسى اقتدار اور قانونى حاكميت سے بالكل مختلف ہے_ گويا اس نظام ميں سياسى اقتدار كى حقيقت مكمل طور پر دوسرے نظاموں كے سياسى اقتدار كى حقيقت سے مختلف ہے _اس فكر اور نظريہ كا منشاو سرچشمہ فقيہ كى ولايت سياسى اور اُس ولايت كو ايك ہى طرح كا قرار دينا ہے جو محجور اور بے بس افراد پرہوتى ہے _وہ يہ سمجھتے ہيں كہ مختلف فقہى ابواب ميں جس ولايت كا ذكر كيا جاتا

۱۴۸

ہے وہ ان موارد ميں ہوتى ہے جن ميں '' مولّى عليہ'' (جس پر ولايت ہو)محجور ،بے بس اور عاجز ہو پس ان لوگوں نے سياسى ولايت كو بھى اسى قسم كى ولايت خيال كيا ہے اور اس بات كے قائل ہوئے ہيں كہ فقيہ كى ولايت عامہ كا معنى يہ ہوا كہ معاشرہ كے افراد محجور وبے بس ہيں اور انھيں ايك ولى اور سرپرست كى ضرورت ہے_ لوگ رشد وتشخيص دينے سے قاصر ہيں اور اپنے امور ميں ايك سرپرست كے محتاج ہيں اس نظريہ كے حاميوں ميں سے ايك كہتے ہيں -:

ولايت بمعنى ''سرپرستي'' مفہوم اور ماہيت كے لحاظ سے حكومت اور سياسى حاكميت سے مختلف ہے كيونكہ ''ولايت'' وہ حق تصرف ہے جو ولى امر ''مولّى عليہ '' كے مخصوص مال اور حقوق ميں ركھتا ہے _وہ تصرفات جو ''مولّى عليہ '' عدم بلوغ و رشد اورشعور و عقل كى كمى يا ديوانگى كى وجہ سے اپنے حقوق اور اموال ميں نہيں كرسكتا _جبكہ حكومت يا سياسى حاكميت كا معنى ايك مملكت كوچلانا ہے _

اس قسم كے مطالب دوبنيادى نكات سے غفلت كى وجہ سے بيان كئے جاتے ہيں _

پہلا نكتہ يہ كہ فقہ ميں دو طرح كى ولايت پائي جاتى ہے _ايك وہ ولايت جو معاشرتى امور كى سرپرستى ہے كہ جس كا تعلق حكومت اور انتظامى امور سے ہے اور يہ ولايت اُس ولايت سے بالكل مختلف ہے جو محجور وقاصر افراد پر ہوتى ہے _ولايت كى يہ قسم قرآن كى رو سے رسولخدا (ص) اور اولى الامركيلئے ثابت ہے _كيا رسولخدا (ص) كا مسلمانوں كے ولى امر ہونے كا مطلب يہ ہے كہ صدر اسلام كے مسلمان محجوروعاجز تھے؟ اور اس دور كى ممتازاور سركردہ شخصيات ناقص تھيں ؟جيسا كہ كئي بار وضاحت كى گئي ہے كہ ولايت فقيہ وہى ائمہ معصومين كى ولايت كى ايك قسم ہے البتہ اس فرق كے ساتھ كہ ائمہ معصومين كى ولايت اس اعتبارى ولايت ميں منحصر نہيں ہے- بلكہ ائمہ معصومين مقامات معنوى اور تمام ترولايت و خلافت الہيہ كے بھى حامل

۱۴۹

ہيں _

دوسرانكتہ يہ كہ روايات كى روسے امام قيّم و سرپرست ہو تا ہے _ولايت اور امامت كے عظيم عہدہ كے فلسفہ كے متعلق فضل ابن شاذان امام رضا سے روايت نقل كرتے ہيں جس ميں امام كو دين خدا كے نگران اور قيّم،احكام الہى كے محافظ اور بدعتى و مفسد افراد كا مقابلہ كرنے والے كے طور پر متعارف كرواياگيا ہے _روايت كے الفاظ يہ ہيں :

''انه لولم يجعل لهم اماماً قيمّاً اميناً حافظاً مستودعاً ،لدرست الملّة وذهبت الدين وغيّرت السّنن ...فلولم يجعل لهم قيّماحافظاً لما جاء به الرسول (ص) لفسدوا'' (۱)

اگر خداوند متعال لوگوں كيلئے سرپرست، دين كا امين ، حفاظت كرنے والااور امانتوں كا نگران امام قرار نہ ديتا تو ملت كا نشان تك باقى نہ رہتا، دين ختم ہوجاتا اور سنتيں تبديل ہوجاتيں پس اگر خدا ،رسول اكرم (ص) كے لائے ہوئے دين كيلئے كسى كو سرپرست اور محافظ نہ بناتا تو لوگ اس دين كو تباہ كرديتے_

اس قسم كى روايات ميں موجود لفظ ''قيّم ''سے مراد وہ سرپرستى نہيں لى جا سكتى جو باپ اور ولى كو چھوٹے بچے يا كم شعور پر حاصل ہوتى ہے _كيونكہ قرآن اور روايات كى اصطلاح ميں'' قيّم ''اس چيز يا اس شخص كو كہتے ہيں جو خود بھى قائم ہو اور دوسروں كے قوام كا ذريعہ ہو_اسى لئے قرآن كريم ميں دين اور كتاب خدا كو اس صفت كے ساتھ متصف كيا گيا ہے _سورہ توبہ كى آيت ۳۶ ميں ارشاد ہو تاہے:

( ''ذلك الدين القيم '' ) يہى دين قيم ہے_

____________________

۱) بحارالانوار ج۶ ، صفحہ ۶۰ ، حديث ۱_

۱۵۰

سورہ روم كى آيت ۴۳ ميں ہے:

( ''فاقم وجهك للدّين القيّم ) ''

آپ اپنے رخ كو دين قيم كى طرف ركھيں_

سورہ بينہ كى آيت ۲ اور ۳ ميں ہے:

( ''رسولٌ من الله يتلوا صحفاً مطهّرة *فيها كتب قيّمة'' )

اللہ كى طرف سے رسول ہے جو پاكيزہ صحيفوں كى تلاوت كرتا ہے _ جن ميں كتب قيمة ہيں_

امام اور اسلامى معاشرہ كا سرپرست اس معنى ميں لوگوں كا قيّم ہے كہ وہ ان كيلئے مايہ انسجام اور زندگى كا سہارا ہو تا ہے _قرآن اور روايت ميں استعمال ہونے والے لفظ ''قيّم ''كو اس معنى ميں نہيں لياجاسكتا جو فقہى كتب ميں محجور وبے كس افراد كى سرپرستى كيلئے استعمال ہو تا ہے _بنابريں ولايت فقيہ كے منكرين كے اس گروہ كويہى غلط فہمى ہوئي ہے كہ انہوں نے فقيہ كى ولايت كو اسى قسم كى سرپرستى سمجھاہے جو محجور و قاصر افراد پرہو تى ہے(۱) _

ولايت انتصابى اور وكالت ونظارت ميں فرق

ولايت فقيہ كى بحث كا بنيادى اور اصلى محور يہ ہے كہ كيا ائمہ معصومين كى طرف سے فقيہہ عادل كو امت پر ولى نصب كيا گيا ہے ؟مسلم معاشرے كے سياسى اور اجتماعى امور كى ديكھ بھال، احكام كے اجرا اور امام معصوم كى نيابت كا اہم ترين فريضہ ادا كرنے كيلئے فقيہ كا امام كى طرف سے مقام ولايت پر منصوب ہونا درحقيقت ولايت فقيہ كى اصلى و بنيادى مباحث ميں سے ہے _''ولايت انتصابي'' كے معنى كى مزيد وضاحت كيلئے ضرورى ہے كہ ''ولايت انتخابي'' يا ''وكالت فقيہ'' سے اس كے فرق كى تحقيق كى جائے _جس طرح اس بات كى وضاحت بھى ضرورى ہے كہ'' ولايت فقيہ'' اور''نظارت فقيہ'' ميں كيا فرق ہے _

____________________

۱) مزيدتفصيل كيلئے كتاب'' حكومت ديني'' صفحہ۱۷۷تا۱۸۵كى طرف رجوع كيجئے_

۱۵۱

زمانہ غيبت ميں عادل اور جامع الشرائط فقيہ امام زمانہ(عجل اللہ فرجہ الشريف) كا نائب اور آپ كى طرف سے اسلامى معاشرہ كا منتظم و نگران ہو تا ہے _فقيہ عادل آپ كى طرف سے لوگوں پر ولايت ركھتا ہے يہ ''ولايت''،'' وكالت'' سے جدا ايك عہدہ ہے _فقيہ كى ''ولايت انتصابي'' اور ''ولايت انتخابى ''ميں بنيادى فرق اسى نكتہ ميں پوشيدہ ہے _''ولايت انتخابي'' كے نظريہ كى بنياد پر لوگ انتخاب اور بيعت كے ذريعہ فقيہ كو ''ولايت'' عطا كرتے ہيںگويا كہ لوگوں كا منتخب شدہ شخص ان كا وكيل اور مملكت كے انتظامى امور كا سرپرست ہو تا ہے_ ليكن فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''كے نظريہ كى بنياد پر فقيہ عادل لوگوں كا وكيل نہيں ہوتابلكہ اسے يہ منصب شرعى دليلوں اور امام كے منصوب كرنے سے حاصل ہو تا ہے _اور لوگوں كا اسے تسليم كرنا اور اسكى مدد كرنا،اسكے ''منصب اور ولايت'' ميں كوئي بنيادى كردار ادا نہيں كرتا_بلكہ ولايت كو بروئے كار لانے اور اس كے اختيارات كے عملى ہونے ميں مددگار ثابت ہو تا ہے دوسرے لفظوں ميں لوگوں كا فقيہ كى ولايت كو قبول كرلينا اسكى ولايت كے شرعى ہونے كا باعث نہيں بنتا_بلكہ لوگوں كى طرف سے حمايت اور ساتھ دينے سے اس كى مقبوليت اور خارجى وجود كا اظہار ہوتاہے _

''ولايت انتصابى ''كى حقيقت مكمل طورپر''حقيقت وكالت ''سے بھى مختلف ہے _وكالت ميں ايك مخصوص شخص يعنى وكيل ايك خاص مورد ميں ايك دوسرے شخص يعنى ''موكل'' كى جگہ پر قرار پاتا ہے اور اس كى طرف سے عمل انجام ديتا ہے _اصل اختيار موكل كے ہاتھ ميں ہوتا ہے وكيل انہى اختيارات كى بنياد پر كام كرتا ہے جو ايك يا چند موكل اسے ديتے ہيں _جبكہ ولايت ميں ايسا نہيں ہوتا _حتى كہ اگر امام معصوم بھى ايك شخص كو وكيل اور دوسرے كو ولايت كے مقام پر منصوب فرمائيںتو ان دونوں كى حقيقت وحيثيت بھى ايك جيسى نہيں ہوتي_آيت الله جوادى آملى اس بار ے ميں كہتے ہيں :

۱۵۲

''ولايت'' اور'' وكالت'' ميں فرق ہے_ كيونكہ وكالت ''موكل'' كے مرنے سے ختم ہوجاتى ہے ليكن ولايت ميں ايسا نہيں ہوتا يعنى اگر امام معصوم كسى كو كسى امر ميں اپنا وكيل قرار ديتے ہيں تو امام كى شہادت يا رحلت كے بعد اس شخص كى وكالت ختم ہوجاتى ہے_ مگر يہ كہ بعد والے امام اس كى وكالت كى تائيد كر ديں_ ليكن ولايت ميں ايسا نہيں ہوتا مثلا اگر امام كسى كو منصوب كرتے ہيں اور وہ آپ (ع) كى طرف سے كسى موقوفہ پر ولايت ركھتا ہو تو امام كى شہادت يا رحلت كے بعد اس شخص كى ولايت ختم نہيں ہوگى _ مگر يہ كہ بعد والے امام اس كو ولايت سے معزول كرديں_ (۱)

دوسرا نكتہ يہ ہے كہ'' ولايت فقيہ ''،''نظارت فقيہ ''سے مختلف ہے _ ولايت كا تعلق نظام كے چلانے اور اجراسے ہے_ ولايت اسلامى معاشرہ كے اہم ترين اور مختلف مسائل اور انتظامى امور كو اسلامى موازين اور قواعد كے مطابق حل كرنے كو كہتے ہيں_ جبكہ نظارت ايك قسم كى نگرانى ہے اور اجرائي عنصركى حامل نہيں ہوتى _ زمانہ غيبت ميں سياسى تفكر ميں محل نزاع ''فقيہ عادل كيلئے ولايت كا اثبات'' ہے جبكہ'' نظارت فقيہ'' موافقين اور مخالفين كے درميان محل نزاع و بحث نہيں ہے اصلى نزاع اور جھگڑا اس ميں ہے كہ كيا فقيہ عادل كو شريعت كى طرف سے ولايت پر منصوب كيا گيا ہے يا نہيں؟ لہذا اس باب ميں فقہى بحث كا محور ہميشہ ''ولايت فقيہ'' رہا ہے نہ كہ ''نظارت فقيہ''_

فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''كے نظريہ كى بنياد پر يہ سوال سامنے آتا ہے كہ جامع الشرائط فقيہ كيلئے يہ ولايت كس طرح محقق ہوتى ہے؟

____________________

۱) ولايت فقيہ صفحہ ۳۹۵_

۱۵۳

كيا ہر عادل اور جامع الشرائط فقيہ ''شان ولايت'' ركھتا ہے يا ''بالفعل'' اس منصب پر فائزہے ؟

حق يہ ہے كہ اگر'' ولايت فقيہ ''پر روايات كى دلالت صحيح ہو تو پھر ہر ''جامع الشرائط فقيہ '' كيلئے منصب ''ولايت'' ثابت ہے_ اور يہ عہدہ '' اہل حل و عقد ''كے انتخاب يا رائے عامہ جيسے كسى اور امر پر موقوف نہيں ہے_ پس ولايت فقيہ كى ادلّہ كى روسے فقيہ عادل بالفعل ولايت كا حامل ہے _ جس طرح ہر فقيہ عادل بالفعل منصب قضا كا حامل ہوتا ہے اور جھگڑوں كا فيصلہ كر سكتا ہے_

ياد رہے كہ تمام ''و اجدالشرائط فقہاء ''جو كہ'' منصب ولايت ''كے حامل ہيں براہ راست معاشرے كے امور كى نگرانى كے عہدہ پر فائز نہيں ہوسكتے _ جس طرح ايك كيس كے سلسلہ ميں تمام قاضى فيصلہ نہيں دے سكتے _ واضح سى بات ہے كہ جب ايك ''جامع الشرائط فقيہ'' امور كى سرپرستى اپنے ذمہ لے ليتا ہے تو باقى فقہا سے يہ ذمہ دارى ساقط ہوجاتى ہے _ بنابريں ايك فقيہ عادل كو اہل حل و عقد كا منتخب كرنا يا عوام كا اسے تسليم كر لينا دوسرے فقہاء سے منصب ولايت كو سلب نہيں كرتا بلكہ جب تك ايك فقيہ عادل امور كى سرپرستى كر رہا ہے تو دوسروں سے يہ ذمہ دارى ساقط ہے_

۱۵۴

خلاصہ :

۱) جوافراد ولايت فقيہ كو اس ولايت كى قسم سمجھتے ہيں جو محجور و بے كس افراد پر ہوتى ہے وہ ولايت كى قانونى حقيقت و ماہيت كو دوسرے سياسى اقتدار كى قانونى حقيقت سے مختلف قرار ديتے ہيں_

۲) اس نظريہ كے قائلين ''فقيہ كى ولايت عامہ ''كو لوگوں كے كم شعور اور بے بس ہونے كا لازمہ سمجھتے ہيں_

۳) اس نظريہ كے قائلين اس سے غافل رہے ہيں كہ اسلامى معارف ميں لفظ ولايت كے مختلف استعمال ہيں_

۴) روايات ميں امام كومعاشرہ كا قيّم كہا گيا ہے_ اور ان روايات ميں ''قيم''،'' ذريعہ حيات و قوام '' كے معنى ميں استعمال ہوا ہے_ جس معنى ميں قرآن نے دين اور آسمانى صحيفوں كو'' قيّم ''كہا ہے_

۵) ''ولايت انتصابى ''مكمل طور پرلوگوں كى طرف سے ''ولايت انتخابي'' اور ''وكالت فقيہ '' كے نظريہ سے مختلف ہے_

۶) ولايت انتصابى ايك قانونى حقيقت ہونے كے لحاظ سے وكالت كى ماہيت سے مختلف ہے_

۷)'' ولايت فقيہ ''حاكميت اور امور كى سرپرستى كے معنى ميںہے لہذا'' نظارت فقيہ '' سے واضح فرق ركھتى ہے_

۸) ولايت فقيہ كى ادلّہ كى رو سے يہ ولايت بالفعل ہر جامع الشرائط فقيہ كو حاصل ہے _ يعنى ہر فقيہ عادل امام كى طرف سے منصوب ہوتا ہے اور اس كى ولايت شرعى ہوتى ہے_

۱۵۵

سوالات :

۱) كيا ولايت فقيہ كى قانونى حقيقت دوسرى حكومتوں كے سياسى اقتدار سے مختلف ہوتى ہے؟

۲) وہ افراد جو ولايت فقيہ كو وہ ولايت سمجھتے ہيں جو محجور افراد پر ہوتى ہيں_ انہوں نے كن نكات سے غفلت كى ہے؟

۳) فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''،''وكالت فقيہ ''سے كيا فرق ركھتى ہے؟

۴) كيا ولايت فقيہ اور نظارت فقيہ ايك ہى چيز ہے؟

۵) ولايت فقيہ كى ادلّہ كى روسے جامع الشرائط فقيہ كيلئے كس قسم كى ولايت ثابت كى جاسكتى ہے؟

۱۵۶

ستر ہواں سبق :

ولايت فقيہ كى مختصر تاريخ -۱-

ولايت فقيہ كى ابتداء آغاز فقہ سے ہى ہوتى ہے_ فقہ اور اجتہاد كى ابتدائ تاريخ سے ہى فقيہ كى بعض امور ميں ولايت كا اعتقاد پايا جاتا ہے _ اس وجہ سے اسے'' فقہ شيعہ'' كے مسلّمات ميں سے سمجھا جاسكتا ہے_ ولايت فقيہ كے متعلق جو شيعہ علماء ميں اختلاف پاياجاتا ہے_ وہ اس كى حدود وقيود اور اختيارات ميں ہے نہ كہ اصل ولايت فقيہ ميں_

قضاوت اور امور حسبيّہ(۱) جيسے امور ميں فقيہ عادل كى ولايت پر سب متفق ہيں_جبكہ اس سے وسيع تر امورميں اختلاف ہے_ يعنى معاشرہ كے سياسى اور انتظامى امور ميں فقيہ ولايت ركھتا ہے يا نہيں ؟ اسے

____________________

۱) امور حسبيّہ سے مراد وہ امور ہيں جن كے چھوڑ دينے پر شارع مقدس كسى صورت ميں بھى راضى نہيں ہے مثلاً بچوں ، ديوانوں اور بے شعور افراد كى سرپرستى _لفظ ''حسبہ' كے معنى اجر اور ثواب كے ہيں _ عام طور پر اس كا اطلاق ان امور پر ہوتا ہے جو اخروى اجر و ثواب كيلئے انجام ديئے جاتے ہيںاور كبھى قربت كے معنى ميں بھى استعمال ہوتا ہے _وہ كام امور حسبيّہ ميں شمار ہوتے ہيں جنہيں قربت خدا كيلئے انجام ديا جاتا ہے يا در ہے كہ امور حسبيّہ واجبات كفائي نہيں ہيں _ كيونكہ واجبات كفائي ان امور كو كہتے ہيں جنہيں ہر شخص انجام دے سكتا ہے اور بعض كے انجام دينے سے دوسروں سے ساقط ہوجاتے ہيں جبكہ امور حسبيّہ ميں تصرف كا حق يا تو صرف فقيہ عادل كے ساتھ مخصوص ہے يا پھر كم از كم فقيہ عادل كے ہوتے ہوئے دوسرے حق تصرف نہيں ركھتے _

۱۵۷

''ولايت عامہ فقيہ'' يا ''معصومين كى نيابت عامہ'' سے بھى تعبير كيا جاتا ہے_ فقيہ كى ولايت عامہ سے مراد يہ ہے كہ فقيہ عادل نہ صرف اجرائے احكام ، قضاوت اور امور حسبيّہ ميں امام معصوم كا نائب ہے بلكہ امام كى تمام قابل نيابت خصوصيات كا بھى حامل ہو تا ہے_

ولايت فقيہ كے بعض مخالفين يہ باور كرانا چاہتے ہيں كہ شيعہ فقہ كى تاريخ ميں ولايت عامہ فقيہ كى بحث ايك نئي بحث ہے جو آخرى دو صديوں ميں منظر عام پر آئي ہے جبكہ شيعہ فقہ كى طويل تاريخ ميں اس سے پہلے اس كا كوئي وجود نہيں ملتا حالانكہ فقاہت تشيع كے تمام ادوار ميں اس نظريہ كے قابل اعتبار قائلين موجود رہے ہيں بلكہ بعض بڑے بڑے شيعہ علماء و فقہاء نے اس كے متعلق فتوے بھى ديئے ہيں اور بعض علماء نے اس كے متعلق اجماع كادعوى بھى كيا ہے_ يہاں ہم صرف تين بزرگ فقہاء كے كلام كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

دسويں صدى كے عظيم شيعہ فقيہ جناب محقق كر كى جامع الشرائط فقيہ كيلئے امام كى نيابت عامہ كو اجماعى اور متفق عليہ سمجھتے ہيں اور كہتے ہيں : اس ولايت كا نہ ہونا شيعوں كے امور كے معطل ہونے كا باعث بنتا ہے_(۱)

عظيم كتاب ''جواہر الكلام'' كے مصنف اور نامور شيعہ فقيہ شيخ محمد حسن نجفى امر بالمعروف كى بحث كے دوران امام معصوم كے تمام مناصب ميں فقيہ عادل كى نيابت كو شيعہ علماء كے نزديك ايك مسلّم حقيقت سمجھتے ہيں _ ان كا كہنا ہے كہ فقيہ كى ولايت عامہ سے انكار شيعوں كے بہت سے امور كے معطل ہونے كا باعث بنتا ہے_ اور جنہوں نے فقيہ كى ولايت عامہ كا انكار يا اس ميں شك كيا ہے انہوں نے نہ تو فقہ كے مزہ كو چكھا ہے اور نہ ہى معصومين كے كلام كے رموز كو سمجھا ہے(۲) _آپ فرماتے ہيں:

____________________

۱) رسائل محقق كركى جلد ۱ ، صفحہ ۱۴۲، ۱۴۳_ رسالة فى صلاة الجمعة_

۲) آپ كى آنے والى عبارت كا ترجمہ بھى تقريبا يہى ہے ( مترجم)

۱۵۸

ثبوت النيابة لهم فى كثير من المواضع على وجه يظهر منه عدم الفرق بين مناصب الامام اجمع ، بل يمكن دعوى المفروغية منه بين الاصحاب، فانّ كتبهم مملوء ة بالرجوع الى الحاكم ، المراد منه نائب الغيبة فى سائر المواضع لو لا عموم الولاية لبقى كثير من الامور المتعلّقة بشيعتهم معطّلة _ فمن الغريب وسوسة بعض الناس فى ذلك بل كانّه ما ذاق من طعم الفقه شيئاً، و لا فهم من لَحن قولهم و رموزهم امراً (۱)

فقيہ متبحر آقا رضا ہمدانى فقيہ عادل كيلئے امام كى نيابت اور جانشينى كے مسلّمہ ہونے كے متعلق يوں فرماتے ہيں:

زمانہ غيبت ميں اس قسم كے امور (وہ امور عامہ جن ميں ہر قوم اپنے رئيس كى طرف رجوع كرتى ہے) ميں جامع الشرائط فقيہ كے امام كے جانشين ہونے ميں شك و ترديد معقول نہيں ہے جبكہ علماء كے اقوال بھى اس بات كى تائيد كرتے ہيں كيونكہ ان كے كلام سے ظاہر ہوتا ہے كہ يہ بات امور مسلّمہ ميں سے ہے اور يہ بات اس قدر واضح تھى كہ بعض علماء نے تو امام كى طرف سے فقيہ كى نيابت عامہ كى دليل ''اجماع'' كو قرار ديا ہے_(۲)

ہم اشارہ كر چكے ہيں كہ فقہ شيعہ كے طول تاريخ ميں زمانہ قدماء سے ليكر آج تك علمائ'' فقيہ كى ولايت

____________________

۱) جواہر الكلام فى شرح شرائع الاسلام جلد ۲۱، صفحہ ۳۹۶، ۳۹۷_

۲) مصباح الفقيہ جلد ۱۴، صفحہ ۲۹۱ كتاب الخمس _

۱۵۹

عامہ'' كے معتقد رہے ہيں اور عظيم فقہاء نے اسى كے مطابق فتوے ديئے ہيں_ بہتر ہے كہ ہم يہاں مختلف ادوار كے علماء كے اقوال ذكر كر ديں_

محمد ابن نعمان بغدادى متوفى ۴۱۳ھ جو كہ شيخ مفيدرحمة الله عليہ كے نام سے مشہور ہيں اور شيعوں كے بہت بڑے فقيہ شمار ہوتے ہيں_ مخالفين كے اس ادعا كو نقل كرنے كے بعد كہ اگر امام زمانہ عجل الله فرجہ الشريف كى غيبت اسى طرح جا رى رہى تو حدود الہى كا اجرا كسى پر واجب نہيں ہے_ كہتے ہيں:

فأما إقامة الحدود فهو إلى سلطان الاسلام المنصوب من قبَل الله تعالى و هم ائمة الهُدى من آل محمد(ص) و من نصبوه لذلك من الاُمراء والحكام ، و قد فَوَّضوا النظرَ فيه إلى فقهاء شيعتهم مع الامكان (۱)

حدود الہى كا اجرا حاكم شرعى كا كام ہے _ وہ حاكم شرعى جسے خدا كى طرف سے مقرر كيا گيا ہو اور وہ ائمہ اہلبيت ہيںيا وہ افراد جنہيں ائمہ معصومين حاكم مقرر كرديں اور ممكنہ صورت ميں انہوں نے يہ كام اپنے شيعہ فقہا كے سپرد كر ركھا ہے_

اس عبارت ميں شيخ مفيد حدود الہى كا اجرا اسلام كے حاكم كى ذمہ دارى قرار ديتے ہيں نہ كہ قاضى كى لہذا ان كا اس بات كى تاكيد كر نا كہ يہ كام جامع الشرائط فقيہ كى خصوصيات ميں سے ہے فقيہ كى ولايت عامہ كى دليل ہے _ كيونكہ صرف حاكم شرع ہى حدود الہى كو جارى كرسكتا ہے_ يہ بات درج ذيل دو روايات كے ساتھ مطابقت ركھتى ہے_

''عن حفص بن غياث قال : سألت اباعبدالله (عليه السلام)

____________________

۱) المقنعہ صفحہ ۸۱۰، كتاب الامر بالمعروف و النہى عن المنكر _

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421