عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 13%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 421

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 421 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207891 / ڈاؤنلوڈ: 8538
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

پہلی جلد

علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم:سید قلبی حسین رضوی

۳

خطوط اور مقدمے

کتاب عبدا للہ بن سبا کی علمی قدر و قیمت

ایک شیعہ دانشور محترم جناب شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

الازہر یونیورسٹی ، مصر کے مجلہ کا جواب

مباحث پر ایک نظر

سلسلہ مباحث کی پیدائش

۴

کتاب عبد اللہ بن سبا کی علمی قدرو قیمت

مصر کی الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر جناب ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کا خط

کتاب عبدالله بن سبا ، آخر میں دوسرے ایڈیشن کے عنوان سے مصر میں دوسری بار شائع ہوئی ہے،اس کتاب نے اہل سنت ممالک میں گہرا اثر ڈالا ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں خاص کر الازہر یونیورسٹی کے دانشوروں اور اساتذہ کی توجہ کا سبب بنی ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں میں غیر معمولی اثر ڈالا ہے ،مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی طرف سے مؤلف کو اس کتاب کو پسند کرنے کے سلسلہ میں کئی خطوط ملے ہیں ، ان میں سے ایک جناب ڈاکٹر حامدکا خط ہے ، وہ مصر کے ایک نامور دانشور ہیں ، جو کئی قابل قدر تحقیقی تالیفات کے مالک ہیں ۔

چونکہ یہ خط انصاف و عدالت کا ایک نمونہ اور تعصب اورہٹ دھرمی کی سرحدوں کو توڑنے والا ایک عنوانہے اس لئے ہم اسے ترجمہ کرکے شائع کرتے ہیں(۱)

____________________

۱۔ نشریہ سالانہ مکتب تشیع ۴/۳۰۲۔

۵

خط کا مضمون

تاریخ اسلام کی تیرہ صدیاں اختتام کو پہنچی ہیں ان تیرہ صدیوں کے دوران ہمارے دانشوروں کے ایک گروہ نے حتی الامکان شیعوں کے خلاف آواز اٹھائیہے اور حقائق کو اپنی نفسانی خواہشات سے مخلوط کیا ہے اس ناپسندیدہ روش کی وجہ سے اسلامی فرقوں کے د رمیان گہرے اختلافات پیدا ہوئے ہیں ، نتیجہ کے طورپر شیعہ دانشوروں کے فکر و اندیشہ کے گوہر کو حقیر سمجھا گیا ہے اسی روش کی بنا پر علمی دنیا کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

شیعہ دانشوروں کے افکار سے علم محروم رہا ہے کیونکہ دشمنوں نے شیعوں کے پا ک و صاف دامن کو داغدار بنا کر انھیں ایک توہمات و خرافات کے حامل گروہ کے طور پر پہچنوایا ہے ، بے شک ہم شیعوں کے صاف و شفاف علمی چشمہ زلال سے ایک گھونٹ پی سکتے تھے نیزاس مذہب کے سرمایہ سے فائدہ اٹھا سکتے تھے ، لیکن افسوس کہ ہمارے گزشتہ دانشوروں نے تعصب سے کام لیااور عقل کو ھوا و ہوس پر ترجیح نہیں دی ، اے کاش کہ وہ لوگ عقل کی پیروی کرتے اور جذبات کے کھلونے نہ بن تے !! جو کوئی تعصب کے عینک کو اتارکر فقہی مباحث کےلئے اقدام کرے اور فقہ مذاہب چہارگانہ پر تحقیق کرے ، وہ شیعہ فقہ سے بھی استفادہ کرنے پر مجبور ہے اور بے شک جب فقہ اہل سنت پرتحقیق کرے تو اس وقت شیعہ فقہ کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے اور اس سے آگاہ ہونا چاہئے ۔

۶

ہم کب تک خواب غفلت میں رہیں گے ؟! کیا فقہ شیعہ کے پرچم دار ،ا مام جعفر صادق علیہ السلام(۱) سنی مذہب کے دو امامو ں کے استاد نہیں تھے؟ یہ دو امام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مکتب میں زانوئے ادب تہہ کیا ہے ۔

ابو حنیفہ ، نعمان بن ثابت(۲) کہتے ہیں :

لولاالسنتان لهلک النعمان

اگر امام صادق علیہ السلام کے درس میں دو سال شرکت نہ کی ہوتی تو بے شک میں ہلاک ہوجاتا، اوردین سے منحرف ہوتا۔

اس کی مراد وہی دو سال ہیں جس میں انہوں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کے علم کے میٹھے اور زلالی چشمہ سے استفادہ کیا ہے ۔

اور یہ مالک بن انس ہیں جو واضح طور پر اعتراف کرتے ہیں :

ما رایت افقه من جعفر بن محمد

میں نے جعفر بن محمد سے فقیہ تر کسی کو نہیں د یکھا ہے(۳)

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ علم کے بارے میں صرف دور سے کچھ سننے والوں نے اپنے آپ کو دانشور سمجھ کر اپنے قلم سے تحقیق کی بنیادوں کو اکھاڑ کر حق و حقیقت کو اپنی نفسانی خواہشات پر قربان

____________________

۱۔ وفات ۱۴۸ ھ

۲۔ وفات ۱۵۰ھ

۳۔ وفات ۱۷۹ ھ

۷

کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر گلستان علم کے دروازے ان پر بند ہوگئے اور اس طرح وہ شمع معرفت کے نور سے محروم ہوگئے ہیں ، اس مذموم روش نے فتنہ کی آگ کو بھڑکانے کے علاوہ مسلمانوں میں ، دن بدن اختلافات کو بڑھا وا دیا ہے ۔

افسوس کہ ہمارے استاد ” احمد امین “(۱) بھی انہیں افراد میں سے تھے ، جنہوں نے معرفت کے نور سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ظلمت کے پردوں کے پیچھے زندگی بسر کرتے رہے ، یہ وہ کرنیں ہیں جو تشیع کے سورج سے چمکی ہیں اور جہالت کی تاریک رات کو نور میں تبدیل کرکے اسلام کے عظیم تمدن کو اس وقت وجود بخشا ، جبکہ دوسرے لوگ بہت پیچھے تھے۔

تاریخ نے اس ناپاک رویہ کی بنا پر ، احمد امین اور ان جیسے تمام اساتذہ اور دانشوروں کے دامن پر عظیم داغ لگادیا ہے، جنہوں نے آنکھیں بند کرکے تعصب کی وادی میں قدم رکھا ہے ، یہ دانشور وں اور محققین کا طریقہ کار نہیں ہے کہ ایک جگہ بیٹھے رہیں اور جمود کی بیڑی کو اپنی فکر کے پاؤں سے نہ اتاریں اور بے جا پر تعصب سے کام لے کر آنکھیں بند کرکے کسی مذہب کی پیروی کریں !!

ان کی فکرو قلم سے بہت ساری غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہوئی ہیں اور انہیں الجھن اور بد حواسی سے دوچار کیا ہے ، شاید مذکورہ داستان اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔

انہوں نے جھوٹ بول کر بعض مطالب کو شیعوں سے نسبت دیکران کے دامن کو داغدار بنادیا

____________________

۱۔ ” فصل “ پیدائش افسانہ د ور راویان آن “ شمارہ ہفتم ، کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں پر احمد امین کی باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا ہے جس کا سبب شیعوں کے ساتھ اس کی دشمنی اور کینہ ہے ۔

۸

ہے کہ ہم نے ان میں سے بعض کی طرف اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے ،(۱) انہوں نے تصور کیا ہے کہ جتنے بھی خرافات اور جعلی چیزیں اسلام کی تاریخ میں موجود ہیں ، سب کی سب شیعہ علما کی گڑھی ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنے خود ساختہ گمان سے شیعوں پر حملہ کیا اور ان کو برا بھلا کہا ہے۔

جلیل القدر محقق ”جناب مرتضیٰ عسکری “ نے اپنی کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ میں کافی دلائل سے مکمل طور پر ثابت کیا ہے کہ ” عبدا للہ بن سبا “ ایک خیالی اور جعلی موجود ہے ۔

تاریخ نویسوں نے جو حکایتیں بیان کی ہیں اور ان کی بناء پر اسے (عبدا للہ بن سبا) مذہب شیعہ کا مروج(۲) بیان کیا ہے البتہ یہ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، مؤرخین نے ان گڑھی ہوئی داستانوں کو اس لئے مرتب کیا ہے تا کہ فریب کاری کے جال کو پھیلا کر شیعوں پر حملے کرکے بے جا ان کے خلاف تہمت و افتراء پردازی کریں ۔

ہم عصر دانشور ،جناب مرتضیٰ عسکری نے اس کتاب میں اپنی فکر و اندیشہ کے سہارے تاریخ کے سمندر میں غوطہ لگا کر ، بہت سی کتابوں کا مطالعہ فرمایا ہے اور انتہائی تلاش و جستجو کے بعد اس سمندر سے کافی مقدارمیں موتی لے کر ساحل تک آئے ہیں ۔

انہوں نے زیر بحث حقائق کو ثابت کرنے کےلئے نزدیک ترین راستہ طے کیا ہے ، شیعوں کے

مخالفوں سے بحث کے دوران ان کے ہی بیانات کو مآخذ قرار دیکر ان کی باتوں کو باطل ثابت کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کی کتا ب” مع احمد امین “ کے مقدمہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ خود غرض مورخین نے اسے شیعہ مذہب کا بانی و مروج خیال کیاہے۔

۹

تاریخ اسلام کے آغاز سے عصر حاضر تک ” سیف بن عمر“ کی روایتوں نے مؤرخین کو الجھا رکھا ہے جو عام طور پر قابل اعتماد ہے، اس کتاب میں ان روایتوں کے بارے میں ایک گراں بہا تحقیق کی گئی ہے کہ قارئین بڑی آسانی سے انھیں سمجھ سکتے ہیں ۔

خدا کی حکمت اسی میں ہے کہ بعض محققین مردانہ وار قلم ہاتھ میں اٹھا کر حقائق سے پردہ اٹھائیں ، اور اس راستہ میں دوسروں کی سرزنش اور ملامت کی پروانہ کریں ، مصنف محترم پہلی شخصیت ہیں جس نے اپنی گہری تحقیقات کے نتیجہ میں اہل سنت محققین کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ طبری کی کتاب ” تاریخ الامم و الملوک “ کے بارے میں تجدید نظر کریں ، نیز انھیں اس بات پر مجبور کیا ہے کہ اس کتاب اورتاریخ کی دوسری بنیادی کتابوں کے بارے میں از سر نو دقت سے غور کرتے ہوئے اور خوب و بد کو ایک دوسرے سے جدا کریں ،مزید ان تاریخی حوادث کے بارے میں بھی نئے سرے سے غور کریں ، جنہیں وہ نازل شدہ وحی کے مانند صحیح اور نا قابل تغییر سمجھتے تھے !!

محترم مصنف نے کافی ، واضح اور روشن شواہد کی مدد سے ان تاریخی وقائع سے ابہام کے پردے کو ہٹا دیا ہے اور حقیقت کو اس کے متوالوں کےلئے آشکار کیا ہے حتی کہ بعض حقائق انتہائی بھیانک اور حیرت انگیز دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ایک عمر کے عادات و رسومات چند صدیوں کی اعتقادی میراث کے مخالف ہیں ، لیکن حق کی پیروی کرنالازم و واجب ہے ہر چند کہ یہ امر دشور ہو ” الحق احق ان یتبع“۔

مذکورہ مطالب سے آگاہی چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ کریں او رتاریخ کے اختلافی حوادث جیسے ، اسامہ کی لشکر کشی ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت اور سقیفہ کی داستان (جس پر مؤلف نے تنقیدی تجربہ کیا ہے) کا دقت کے ساتھ مطالعہ کریں ۔

جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موت کا شیرین جام نوش فرمارہے تھے، اسامہ کے لشکر سے بعض افراد حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے مدینہ لوٹے اور ریاست و خلافت کی امید سے جہاد سے منہ موڑ لیا ، مؤلف نے ان افراد کو پہچنوایا ہے ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر مرگ پر جب وصیت لکھنے کا حکم دیدیا، کچھ لوگوں نے اس حکم پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالی اور اسے ہذیان سے تعبیر کیا (گویا انہوں نے گمان کیا کہ پیغمبر ہذیان کہہ رہے ہیں)کیونکہ وہ اس امر سے خائف تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وصیت میں علی علیہ السلام کی خلافت کی خبر دیں گے اور ان آخری لمحات میں بھی اسے اپنے وصی کے طور پر تعارف کرائیں گے ۔

۱۰

مؤلف اس حادثہ کی حقیقت و کیفیت کو بھی آشکار کرتے ہیں عمر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے انکار کرنے کا مقصد کیا تھا ؟ کیوں وہ ان افراد کو موت کی دھمکی دیتے تھے جو یہ کہتے تھے کہ پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے رحلت کی ہے ؟جس وقت امام علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچیرے بھائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس اور چند بوڑھے اور سن رسیدہ اصحاب کی مددسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن نازنین کوغسل دینے میں مشغول تھے ، تو اس وقت کس غرض سے عمر اور ابو عبیدہ نے انتہائی عجلت کے ساتھ اپنے آپ کو سقیفہ کے اجتماع میں پہنچادیا اور لوگوں سے ابوبکر کے حق میں بیعت لے لی ؟!

بے شک ، اگر تھوڑا سا انتظار کرتے تا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سپرد لحد کرکے اور علی علیہ السلام بھی اس اجتماع میں حاضر ہوتے تو علی علیہ السلام خلافت کے مستحق قرار پاتے اور بنی ہاشم ان کے علاوہ کسی اور کو امام المسلمین کے طور پر قبول نہیں کرتے !

مؤلف نے مذکورہ تین مباحث میں صحیح کو غلط سے اور برے کو بھلے سے جدا کرکے ان مسلم حقائق تک رسائی حاصل کی ہے اور ان کی اس تحقیق کے نتیجہ میں فریب کاروں کےلئے مکرو فریب کے دروازے بند ہوگئے ہیں ۔

کتاب کے دوسرے مباحث بھی مذکورہ بالا تین مباحث کی طرح ، دقت کے ساتھ حقائق کو ایسے آشکار کرتے ہیں کہ بہت جلد ہی تاریخ اسلام کے اندر گہرے اثرات رونما ہوں گے ۔

میں اس مقالہ کو ختم کرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ درج ذیل تین سوالات کا جواب دیدوں :

۱ ۔ کیا پیغمبر خدا کا صحابی غلطی کرسکتا ہے اورلغزش سے دوچار ہوسکتا ہے ؟

۲ ۔ کیا اس کے کام اور کردار پر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے ؟

۳ ۔ کیا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی کو منافق یا کافر کہا جاسکتا ہے ؟

۱۱

سوال نمبر ایک اور دو کا میں مثبت جواب دیتا ہوں ، لیکن تیسرے سوال کا جواب منفی ہے ۔ اس لئے نہیں کہ میں تعصب سے کام لیتا ہوں اور علم کے اصول کے خلاف کہتا ہوں ، بلکہ ایک ایسا استدلال رکھتا ہوں کہ عقل اس کو قبول کرتی ہے اور منطق اسکی تائید کرتی ہے کیونکہ کفر و نفاق کا تعلق قلب و دل سے ہے اور وہاں تک خدا کے سوا کسی کی رسائی نہیں ہے ، علمی تجربہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ہے ، صرف خداوند عالم ہے جو انسان کے اندرونی اسرار سے واقف ہے اور پوشیدہ چیزوں کامکمل طور پر علم رکھتا ہے(۱)

مذکورہ روش ، وہی جدید روش ہے ، جس کا واضح مشاہدہ میری تمام تالیفات میں کیا جاسکتا ہے۔

مجھے اس بات پر انتہائی مسرت ہے کہ علم کے لحاظ سے اس عظیم کتاب اور اس کے عالی قدر مصنف استاد علامہ محقق جناب مرتضی عسکری کے تئیں انتہائی احترام و محبت کا قائل ہوں ، اسی طرح جناب مرتضیٰ رضوی کشمیری کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کو پوری ظرافت اور دیدہ زیب صورت میں شائع کیا ہے ، علامہ نے اس فریضہ کو انجام دے کر اسلام کی ایک عظیم خدمت کی ہے اور اس ذمہ داری کو انجام دے کر اسلام کے تاریخی حقائق کو زندہ کرنے کےلئے ایک عظیم اثر چھوڑا ہے ۔

قاہرہ اول جمادی الاول ۱۳۸۱ ھء مطابق ۱۲ ،اکتوبر ۱۹۶۱ ئئ

ڈاکٹر حامد حفنی داؤد

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد نے اس خط کو نصف کتاب کے شائع ہونے کے پیش نظر مصر میں لکھا ہے ۔

۱۲

ایک محترم شیعہ دانشور شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

سنی دانشور محترم جناب ڈاکٹر حامد کے نظریہ سے آگاہ ہونے کے بعد مناسب ہے یہاں پر اس کتاب کے بارے میں ایک شیعہ دانشور علامہ نابغہ جناب شیخ محمد جواد مغنیہ جبل عاملی کے نظریہ سے بھی آگاہ ہوجائیں ، علامہ موصوف لبنان میں مروج مذہب تشیع ہیں ۔

موصوف کی گراں بہا تالیفات میں من جملہ ” تفسیر قرآن مجید “ ” معالم الفلسفة الاسلامیہ“، ”الشیعہ و الحاکمون “ ” اصول الاثبات فی الفقہ الجعفری“ اور دسیوں دوسری تالیفات سنجیدہ فکر اور ان کے علمی بلند مقام کو آشکار کرتی ہیں ، ذیل میں مجلہ ” العرفان “(۱) میں شائع ہوئے ان کے مقالہ کا ترجمہ ہے :

مذہب شیعہ کے خلاف لکھنے کے علاوہ دنیا کی تمام چیزوں میں دگرگونی اور تغیرات پیدا ہوئے ہیں شیعوں پر تہمت و افتراء کے علاوہ ہر آغاز کا خاتمہ ہے شیعوں کے خلاف جاری کئے جانے والے احکام کے علاوہ ہر حکم کی ایک دلیل و علت ہے آخر کیوں ؟

کیا شیعہ شورشی اور فتنہ گر ہیں اور لوگوں کے سکون و اطمینان کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں ؟

____________________

۱۔ نمبر ۳/ سال ۱۳۸۱ ھ صفحہ ۲۳۰۔

۱۳

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :

سیف بن عمر تمیمی(۱) نامی ایک شخص نے گزشتہ دو سری صدی کے دوران دو کتابیں لکھی ہیں ، اس کی پہلی کتاب ” الفتوح و الردّة“ اور دوسری کتاب ” الجمل و مسیر عائشة و علیّ “ ہے ان دونوں کتابوں میں د رج ذیل مطالب کی ملاوٹ کی گئی ہے :

۱ ۔ ایسے حوادث و اتفاقات کی تخلیق کرنا ، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

۲ ۔ رونما ہوئے حقیقی حوادث و واقعات میں تحریف کرکے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت دکھانا ۔

اس بے لگام اور جھوٹے شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے چند من گھڑت اصحاب جعل کئے جن کے سعیر ، ہزہاز، اط ، حمیضہ ، وغیرہ نام رکھے ہیں ۔

اس نے تابعین اور غیر تابعین کے کچھ اشخاص جعلکئے ہیں اور ان کی زبانی اپنی جعلی احادیث نقل کی ہیں ۔

اس کی انہیں تخلیقات میں سے ایک سورما ہے جس کی شخصیت کو اس نے جعلکیا ہے اور اس کا فرضی نام بھی معین کیا ہے ، اور چند داستانوں کو گڑھ کر اس سے نسبت دی ہے یہ افسانوی سورما ”عبد اللہ بن سبا“ ہے جس کسی نے بھی شیعوں پر تہمتیں لگائی ہیں اور ان کے بارے میں جہل یا نفاق کے سبب افترا پردازی کی ہے ، ان سب نے اسی پر اعتماد کیا اور اس کی باتوں پر تکیہ کیا ہے۔

____________________

۱۔وفات دوسری صدی ہجری ۔

۱۴

”سیف“ کے بعد مؤرخین کی ایک جماعت نے فریب اور دھوکہ سے بھری ان دو کتابوں کو سند بنا کر کسی قسم کے تامل و تدبر کے بغیر دروغ پرداز اور چالباز سیف کے نظریات اور اندیشہ کو نقل کیا ہے ، اس طرح اس کے مذموم تفکر سے استفادہ کیا گیا ہے ۔

”طبری“ پہلا شخص تھا جو” سیف “کے دام فریب میں پھنس گیا تھا اس کے بعد ابن اثیر ، ابن عساکر اور ابن کثیر اور دوسرے لوگ” طبری“ سے آنکھیں بند کرکے روایت نقل کرنے کے سبب اس گڑھے میں گر گئے ہیں ۔

اس طرح جھوٹے ”سیف“ کی تخلیقات کی تاریخی کتابوں اور منابع میں بلاواسطہ طور پر ملاوٹ ہوئی ہے لیکن ان کی جڑ اور بنیاد، وہی سیف کی دو کتابیں ” الفتوح “ اور ” الجمل “ ہیں ۔

علامہ سید مرتضی عسکری کی کتاب ” عبد اللہ بن سبا“ مذکورہ حقائق کو صحیح دلائل کی بنا پر آشکار کرتی ہے اور قارئین کو صاف اور واضح راہنمائی کرکے حقیقت کی منزل تک پہنچاتی ہے ۔

انہوں نے اس کتاب کی تالیف میں انتہائی دقت سے کام لیا ہے اور موصوف کی تمام تر سعی و تلاش اس امر پر متمرکز رہی ہے کہ حق و حقیقت کے علاوہ کوئی چیز کاغذ پر نہ لکھی جائے ، قارئین کرام جس قدر بھی مفکر اور دانشور ہوں ، موصوف کے حاصل کئے ہوئے نتائج سے نہ تو انکار کرسکتے ہیں اورہی نہ شک و شبہ ، کیونکہ اس کتاب کے بہت سے دقیق مباحث کی بنیاد بدیہی قضایا پر مبنی ہے اور بدیہیات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے ۔

میں نے مختلف افراد سے بارہا بحث کی ہے ، اور ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا ہے ، لیکن اس گفتگو میں میں نے شیخ مفید ، سید مرتضی ، اور علامہ حلی سے آگے قدم نہیں بڑھایا ہے ، میری روش صرف یہ تھی کہ میں ان بزرگوں کے طرز بیان کو بدل دیتاتھا اور مخاطب کے لئے مطالب کو آشکار اور واضح تر بیان کرتا تھا ، کیونکہ کوئی تازہ اعتراض نہیں تھا کہ میں اس کا تازہ اور نیا جواب دیتا بلکہ اعتراض وہی تھا جو پچھلے لوگوں نے کر رکھاتھا اور اس کا جواب سن چکے تھے ، چونکہ یہ لوگ بھی گزشتہ لوگوں کی طرح اعتراض کرتے ہیں لہذا مجبور ہیں وہی جواب سنیں ،میں اپنے علمائے سلف کی باتوں کی تکرار کرتا تھا ، کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ بے خبر، معترضین علماء کی باتوں پر اعتراض کرتے ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ ان کی ہی باتوں سے آگاہ ہوجائیں ۔

بے شک میں علمائے تشیع کی پیروی کرتے ہوئے ” عبدا للہ بن سبا“ کے وجود کا معترف تھا ، لیکن اس کی رفتار کو حقیر اور شرم آور سمجھتا اور اس کی باتوں کا انکار کرتا تھا ۔

۱۵

علامہ عالیقدر جناب سید مرتضیٰ عسکری نے اس عمارت کی بنیاد ہی اکھاڑ کرکے رکھدی اور اپنی گہری تحقیقات سے ثابت کردیا کہ ” عبد اللہ بن سبا “ کی حقیقت ایک افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ! اور یہی وہ حقیقت ہے جو اس کتاب میں بے نقاب ہوئی ہے ، اگر میں یہ کہوں کہ عربی میں یہ تنہا کتاب ہے ، جس میں تاریخ کی علمی بنیادوں پر تحقیق کرکے اس پر غور کیا گیا ہے تو یہ ہرگز مبالغہ نہیں ہے ، اور میرا یہ کہنا بھی ہر گز بیجا نہیں ہوگا کہ اس دانشور مصنف نے دین و علم اور خاص طور پر شیعوں اورمذہب تشیع کی ایک ایسے زمانے میں بے مثال اور عظیم خدمت کی ہے کہ جب ان پر تہمتوں ، افتراء پردازیوں اور بہتان تراشیوں کی بھر مار ہورہی ہے ، موصوف نے اسلام کی ایک عظیم اور درخشان خدمت کی ہے ، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان رخنہ ڈال کر ان کے اتحاد و یکجہتی کو درہم برہم کرکے انھیں کمزوراوربے بس کردیا ہے ۔

ہم نے فرمانرواؤں اور ظالم حکام کی طرف سے بد ترین عذاب اور مشکلات برداشت کی ہیں تا کہ اسلام کی یکجہتی کا تحفظ کرکے دشمنی سے پرہیز کریں ، لیکن وہ روز بروز اپنی دروغ بیانی میں تشویق ہوتے رہے ہیں اور ان کی پہلی اور آخری سند ” ابن سبا“ کا افسانہ اور ” ابن السوداء “ کا خرافہ تھا کہ افسانہ ساز ”سیف “ نے انھیں ، خدا اوراپنے ضمیر کے سامنے کسی ذمہ داری کا احساس کئے بغیر جعلکیا ہے ۔ لیکن آج ” عبدا للہ ابن سبا “ نام کی کتاب لکھی جانے کے بعد یہ کاسہ لیس اور چاپلوس لوگ کیا جواب دیں گے ؟!

آخر میں میری تجویز ہے کہ یہ کتاب دیدہ زیب طباعت کے ساتھ دوبارہ شائع کی جائے اور عالم اسلام کے تمام شہروں میں نصف قیمت پر بیچی جائے تا کہ عام مسلمان اسے خرید کر اس کے عالی مطالب سے استفادہ کرسکیں ۔

نجف اشرف کے دانشوروں اور مراجع عظام کو چاہئے مذکورہ مقصد کی جانب توجہ کرتے ہوئے رقومات شرعیہ سے مدد کریں یا خیّر افراد کی اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں ۔

میری تجویز ہے کہ یہ حضرات تاکید کے ساتھ حکم فرمائیں تا کہ یہ کتاب دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر سستے داموں میں دنیا کے لوگوں تک پہنچ جائے ، یہ دین اسلام کےلئے ایک عظیم خدمت ہوگی۔

لبنان ۔ شیخ محمد جواد مغنیہ

۱۶

الازہر یونیورسٹی مصر کے مجلہ ” جامع الازھر “ میں شائع شدہ اعتراضات کا جواب

مجلہ ” جامع الازھر“ مصر میں کتاب ”عبدا للہ بن سبا “ کے بارے میں دو مقالے لکھے گئے ہیں(۱) اہم ترین مطلب جوان دو تنقیدی مقالوں میں ملاحظہ کے قابلہے عبارت ہے :

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اور ان کے باہمی اختلافات ، چودہ صدی پرانی بات ہے اور وہ سب اپنے مالک حقیقی سے جاملے لہذا چاہئے کہ ان مسائل سے صرف نظر کیا جائے(۲)

اس بات کے جواب میں ہم کہتے ہیں :

اولاً : ہم سیف کی روایتوں کی تحقیق کی فکر میں تھے ، جس موضوع پر اس نے روایتیں نقل کی تھیں ، ہم نے مجبور ہو کر ان ہی موضوعات پر بحث و تحقیق کی ہے ، چونکہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا“ میں عبد اللہ بن سبا کے افسانہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے باہمی اختلافات کے بارے میں سیف ابن عمر کی نقل کی گئی روایتوں پر بحث کی گئی ہے ، لہذا ہم مجبور ہوئے کہ ہر موضوع کے

____________________

۱۔ پہلا مقالہ کتاب کی نجف اشرف میں طبع شدہ پہلی اشاعت پر ایک تنقید ہے ، اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۳ ج۱۰، ۱۳۸۰ ئھ ” باب الکتب “ کے صفحہ۱۱۵۰ ۔۱۱۵۱ میں شائع ہوا ہے ۔ دوسرا مقالہ اسی کتاب کے مصر میں طبع شدہ نسخہ پر ایک تنقید ہے اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۲ /ج ۶/ ۱۳۸۱ ء ھ کے صفحہ۷۶۰ ۔۷۶۱ میں شائع ہوا ہے۔

۲۔ یہ جملہ پہلے مقالہ کے آخر پر لکھا گیا ہے اور باقی تمام مطالب اسی جملہ کی تفسیر اور تشریح میں لکھے گئے ہیں ۔

۱۷

بارے میں بحث کو جاری رکھتے ہوئے تجزیہ و تحقیق کریں ، جس طرح میں نے اپنی کتاب ” خمسون و ماة صحابی مختلق“ ( ۱۵۰ جعلی اصحاب) میں اصحاب کے فتوحات اور صدر اسلام کی جنگوں کو اپنا موضوع قرار دیگر بحث و تحقیق کی ہے ۔

سیف کی روایتوں پر تحقیق نے ہمیں اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ ایسی بحثوں میں داخل ہوجائیں جنھیں بہت سے دانشوروں نے پردے میں رکھا ہے ، لہذا ان موضوعات پر بحث و تحقیق نے انھیں برہم اور رنجیدہ کیا ہے ، البتہ ہم بھی ان کی طرح ایسے وقائع اور روداد کے رونما ہونے سے خوشحال نہیں ہیں اور ان سے پردہ اٹھانے اور ان پر غور و فکر کرنے سے ہمارا رنج و غم بھڑک اٹھتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خداوند عالم نے پیغمبر خدا کے اصحاب کو ملک و فرشتہ خلق نہیں کیا ہے کہ جبلت انسانی سے عاری ہوں بلکہ وہ دوسرے افراد کی طرح انسانی جبلت میں ان کے شریک ہیں ، اور ایمان اور اسلام میں استقامت کے مراتب میں بھی ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ، اس حد تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان میں سے بعض پر حد جاری کی ہے (کوڑے لگائے ہیں) اور ان میں سے بعض کے بارے میں ” آیات افک “ نازل ہوئی ہیں جن میں ان کی اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ انہوں نے پیغمبر خدا کی بیوی کی جانب نازیبانسبت دی تھی ، اور ان میں سے بعض کے بارے میں نفاق کی آیات نازل ہوئی ہیں ۔

ان تمام مطالب کے باوجود ہم نہیں سمجھتے کہ پیغمبر خدا کے اصحاب کو ان اختلافات اور تحولات کے ساتھ کیسے چھوڑدیں جبکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام اور عقائد کو ہم تک پہنچانے کے واسطہ ہیں کیا اس طرح صرف پیغمبر کو درک کرنے کی بنا پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عزت و احترام کرنا بحث و تحقیق کےلئے رکاوٹ اور دینداری کے نام پر علم ودانش کے دروازہ کو بند کرنے کے مترادف نہیں ہے ؟ چونکہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے صدیوں سے اپنے اوپر اجتہاد کا دروازہ بند کررکھتا ہے ، لہذا تحقیق و علم کا دروازہ بھی ان پر بند ہوگیا ہے ۔

۱۸

خدارا ! ہم نے اس مطلب کو قبول نہیں کیا ہے اور اسکی تائید نہیں کرتے ہیں بلکہ دین و اسلام کے نام پر اور اس پر عمل کرنے کیلئے اسلام کی راہ میں بحث و تحقیق کےلئے قدم اٹھاتے ہیں ۔

ثانیاً : کاش کہ ہم یہ جانتے کہ قدیم و جدید دانشور جو پیغمبر خدا کے اصحاب کی عزت و احترام میں جو غیرت و حمیت دکھاتے ہیں ، کیا اس میں پیغمبر خدا کے تمام اصحاب شامل ہیں خواہ اس کے سزاوار ہوں یا نہ ، خواہ وہ عیش پرست ہوں یا زاہد و پرہیزگار ؟ کیا یہ احترام عام طور پر اس لئے ہے کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کادیدار کیا ہے ؟ یا ان کےلئے مخصوص ہے جوسرمایہ دار و قدرتمندتھے اور حکومت تک ان کی رسائی تھی ؟ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ احترام شعوری یا لا شعوری طور پر صرف ان افراد سے مخصوص ہوکے رہ گیا جو حکومت اور ایوان حکومت سے وابستہ و مربوط ہیں ۔

جو کچھ ایک دوررس اور نکتہ شناس محقق کےلئے قابل اہمیت ہے وہ دوسرا مطلب ہے کیونکہ اگر تاریخ طبری میں ۳۰ ء ھ کے روئدادوں اور حوادث پر غور کیا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس نے یوں لکھا ہے :

اس سال ، یعنی ۳۰ ئھ میں جو کچھ ابوذر اور معاویہ کے درمیان پیش آیا ، اور سر انجام ابوذر کے شام سے مدینہ جلا وطن کئے جانے پر تمام ہوا ، اس سلسلے میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں کہ جنکو میں نقل کرنا پسندنہیں کرتا ہوں ، لیکن اس سلسلہ میں معاویہ کیلئے عذر پیش کرنے والوں نے ایک داستان نقل کی ہے ، اس داستان میں کہا گیا ہے:

شعیب نے اسے سیف سے نقل کیا ہے

اس کے بعد طبری نے ابو ذر اور معاویہ کے بارے میں نقل کی گئی داستان کے سلسلے میں سیف کی باقی روایت کو اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے ۔

۱۹

اگر ہم اس سلسلے میں تاریخ ابن اثیر کی طرف رجوع کریں گے تو دیکھتے ہیں کہ وہ کہتا ہے :

اس سال ( ۳۰ ھء) ابوذر کی داستان اور معاویہ کے توسط سے اسے شام سے مدینہ جلاوطن کرنے کا مسئلہ پیش آیا، اس رفتار کی علت کے بارے میں بہت سے مطالب لکھے گئے ہیں ، من جملہ یہ کہ : معاویہ نے انھیں گالیاں بکیں اور موت کی دھمکی دی ، شام سے مدینہ تک انھیں ایک بے کجاوہ اونٹ پر سوار کرکےنہایت ہی بیدردی سے ایک ناگفتہ بہ حالت میں مدینہ کی طرف جلاوطن کردیا ، مناسب نہیں ہے اسے یہاں بیان کیا جائے میں اسے نقل کرناپسند نہیں کرتا ہوں ، لیکن جنہوں نے اس سلسلے میں عذر پیش کیا ہے، یو ں کہا ہے :

اس بنا پر طبری نے یہاں پر ان بہت سی روایتوں کو درج نہیں کیا ہے جن میں معاویہ اور ابوذر کی روئداد بیان ہوئی ہے اور ان کو بیان کرنا پسند نہیں کرتا تھا، پھر بھی اس نے ان روایتوں کو بالکل ہی درج کرنے سے چشم پوشی نہیں کی ہے ۔ بلکہ سیف کی ان تمام روایتوں میں سے ایسی روایت کا انتخاب کیا ہے کہ معاویہ کا عذر پیش کرنے والوں کےلئے سند کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے اس کے کام کی توجیہ کے طورپر پیش کرتے ہیں ، جبکہ اس روایت میں پیغمبر اسلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بزرگوار صحابی ” ابو ذر“ کی حد سے زیادہ توہین کی گئی ہے ۔ اس کی دینداری پر طعنہ زنی کی گئی ہے ، اسے بیوقوف اور احمق کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس پرناروا تہمتیں لگائی گئی ہیں ۔

۲۰

کیونکہ اس روایت میں معاویہ کو حق بجانب ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے عذر کو درست قرار دیاگیا ہے ، اور اس طرح مؤرخین کا یہ قائد ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس تہی دست صحابی کی شخصیت اور احترام سے چشم پوشی کرتاہے اوران کی عظمت کو معاویہ جیسے حاکم اور ثروتمند شخص کے حرمت کے تحفظ میں قربان کرتاہے ، یہی کام ابن اثیر، ابن خلدون اور دوسروں نے بھی انجام دیا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ، بنیادی طور پر اسی سبب سے تاریخ طبری نے رواج پیدا کیا ہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ شہرت پائی ہے ، اور اس لئے سیف (بے دینی کا ملزم ٹھہرائے جانے کے باوجود) کی روایتوں کو اس قدر اشاعت ملی ہے اور اسی لئے مشہور ہوئی ہیں(۱) ۔

اس بنا پر ایسے دانشوروں نے صرف ایسے صحابیوں کے احترام کے تحفظ کےلئے اقدام کیا ہے جو صاحبِ قدرت و حکومت تھے ، اور” معاویہ بن ابو سفیان “ جیسے شخص کی اس لئے عزت کرتے ہیں کہ وہ صاحب حکومت و اقتدار تھا ، جبکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “(۲) میں شمار فرمایا ہے اور اس کی نفرین کرتے ہوئے فرمایا:

خداوند عالم اس کے شکم کو کبھی سیر نہ کرے “(۳) اسی طرح ” عبدا للہ بن سعد بن ابی سرح “(۴) جو ابتداء میں مسلمان ہوا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتبوں میں شمار ہوتا تھا، لیکن ایک مدت کے بعد مرتد ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن مجید پر تہمت لگائی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کا خون بہانا مباح قرار فرمایا تھا،ایسے شخص کو ان خصوصیات کے باوجود مصر کا گورنر ہونے کے ناطے اس کا نام تاریخ میں درج کرکے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

اس طرح خلیفہ عثمان کے بھائی ولید ، جس کے بارے میں آیہ نبا نازل ہوئی ہے :

<یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اِذا جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَیَّنُوا اَنْ تُصِیْبُوا قَوْماً

____________________

۱۔ کتاب کے فصل ” پیدائش افسانہ “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ تمام سیرت لکھنے والوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح حنین کے بعد معاویہ اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “ میں شمار فرمایا ہے ، اس لئے انھیں کچھ چیزیں دیدی ہیں ۔

۳۔ صحیح مسلم کے اس باب کی طرف رجوع کیا جائے کہ ”پیغمبر خدا نے جن پر لعنت کی ہے “

۴۔ اس کے حالات پر اگلے صفحات میں روشنی ڈالی جائے گی۔

۲۱

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

اس جملے سے حضرت شعيب يہ كہنا چاہتے ہيں كہ اس كام ميں ميراصرف روحانى ، انسانى اور تربيتى مقصدہے ميں ايسے حقائق كو جانتا ہوں جنہيں تم نہيں جانتے اور انسان ہميشہ اس چيز كا دشمن ہوتاہے جسے نہيں جانتا ہے _

اس كے بعد يہ عظيم پيغمبر مزيد كہتے ہيں :يہ گمان نہ كرنا كہ ميں تمہيں كسى چيز سے منع كروں اور پھر خود اسى كى جستجو ميں لگ جائوں ''_(۱)

تمہيں كہوں كم فروشى نہ كرو اور دھوكا بازى اور ملاوٹ نہ كرو ليكن ميں خود يہ اعمال انجام دوں كہ دولت و ثروت اكھٹا كرنے لگوں يا تمہيں تو بتوں كى پرستش سے منع كروں مگر خودان كے سامنے سر تعظيم خم كروں نہيں ايسا ہرگز نہيں ہے _

اس جملے سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ حضرت شعيب پر الزام لگاتے تھے كہ خود يہ فائدہ اٹھانے كا ارادہ ركھتا ہے لہذا وہ صراحت سے اس امر كى نفى كرتے ہيں _

آخر ميں ان سے كہتے ہيں :

''ميرا صرف ايك ہدف اور مقصد ہے اور وہ ہے اپنى قدرت واستطاعت كے مطابق تمہارى اور تمہارے معاشرے كى اصلاح ''_(۲)

يہ وہى ہدف ہے جو تمام پيغمبروں كے پيش نطر رہا ہے ،يعنى عقيدے كى اصلاح، اخلاق كى اصلاح، عمل كى اصلاح ، روابط اور اجتماعى نطاموں كى اصلاح _

''اور اس ہدف تك پہنچنے كے لئے صرف خدا سے توفيق طلب كرتا ہوں ''(۳)

مشكلات كے حل كے لئے اس كى مدد پر بھروسہ كرتے ہوئے كو شش كرتاہوں اور اس راہ ميں سختياں گوارا كرنے كےلئے اس كى طرف رجوع كرتا ہوں _

____________________

(۱)سورہ ہود آيت۸۸

(۲)سورہ ہود آيت۸۸

(۳)سورہ ہود آيت ۸۸

۲۶۱

اس كے بعد انہيں ايك اخلاقى نكتے كى طرف متوجہ كيا گيا ہے اور وہ يہ كہ اكثر ايسا ہوتا ہے كہ انسان كسى سے بغض وعداوت كى بناء پر يا تعصب اور ہٹ دھرمى سے اپنے تمام مصالح نظر انداز كرديتا ہے اور انجام كو فراموش كرديتا ہے ،چنانچہ حضرت شعيب نے ان سے فرمايا : ''اے ميرى قوم ايسا نہ ہوكہ ميرى دشمنى اور عداوت تمہيں گناہ، عصياں اور سركشى پر ابھارے اور كہيں ايسانہ ہو كہ وہى بلائيں ، مصيبتيں ، تكليفيں عذاب اور سزائيں جو قوم نوح ، قوم ہود يا قوم صالح كو پہنچيں وہ تمہيں بھى آليں ،يہاں تك كہ قوم لوط كے شہروں كا زير وزبر ہونا اور ان پر سنگبارى كا واقعہ تم سے كوئي دور نہيں ہے''_(۱)

نہ ان كا زمانہ تم سے كوئي دور ہے اور نہ ان كے علاقے تم سے دور ہيں اور نہ ہى تمہارے اعمال اور گناہ ان لوگوں سے كچھ كم ہيں _''مدين'' كہ جو قوم شعيب كا مركز تھا وہ قوم لوط كے علاقے سے كوئي زيادہ فاصلے پر نہيں تھا_ كيونكہ دونوں شامات كے علاقوں ميں تھے_زمانے كے لحاظ سے اگر چہ كچھ فاصلہ تھاتا ہم اتنا نہيں كہ ان كى تاريخ فراموش ہوچكى ہوتي_باقى رہا عمل كے لحاظ سے تو اگر چہ قوم لوط كے جنسى انحرافات نماياں تھے اور قوم شعيب كے اقتصادى انحرافات زيادہ تھے_ اور ظاہراًبہت مختلف تھے ليكن دونوں معاشرے ميں فساد پيدا كرنے،اجتماعى نظام خراب كرنے،اخلاقى فضائل كو نابود كرنے اور برائي پھيلانے ميں ايك دوسرے سے مشابہت ركھتے تھے_

ايك دوسرے كو دھمكياں

يہ عظيم پيغمبرحضرت شعيب كہ انتہائي جچے تلے،بليغ اور دلنشين كلام كى وجہ سے جن كا لقب،''خطيب الانبياء ''ہے،ان كا كلام ان لوگوں كے لئے روحانى ومادى زند گى كى راہيں كھولنے والاتھا_انہوں نے بڑے صبر،حوصلے،متانت اور دلسوزى كے ساتھ ان سے تمام باتيں كيں ليكن ہم ديكھ رہے ہيں كہ اس گمراہ قوم نے انہيں كس طرح سے جواب ديا_

____________________

(۱) سورہ ہود آيت ۸۹

۲۶۲

انہوں نے چار جملوں ميں كہ جو ڈھٹائي،جہالت اور بے خبرى كا مظہر تھے آپ(ع) كو جواب ديا:

پہلے وہ كہنے لگے:''اے شعيب(ع) تمہارى زيادہ تر باتيں ہمارى سمجھ ميں نہيں آتيں ''_(۱)

بنيادى طور پر تيرى باتوں كا كوئي سر پير نہيں ،ان ميں كوئي خاص بات اور منطق ہى نہيں كہ ہم ان پر كوئي غوروفكر كريں _ لہذا ان ميں كوئي ايسى چيز نہيں جس پر ہم عمل كريں اس ليے تم اپنے آ پ كو زيادہ نہ تھكائو اور دوسرے لوگوں كے پيچھے جائو_

''دوسرا يہ كہ ہم تجھے اپنے مابين كمزور پاتے ہيں ''_(۲)

لہذا گر تم يہ سوچتے ہو كہ تم اپنى بے منطق باتيں طاقت كے بل پر منوالوگے تو يہ بھى تمہارى غلط فہمى ہے_

يہ گمان نہ كروں كہ اگر ہم تم سے پوچھ گچھ نہيں كرتے تو يہ تمہارى طاقت كے خوف سے ہے_اگر تيرى قوم و قبيلہ كا احترام پيش نظر نہ ہوتا تو ہم تجھے بد ترين طريقے سے قتل كرديتے اور تجھے سنگسار كرتے_(۳)

آخر ميں انہوں نے كہا:

''تو ہمارے ليے كوئي طاقتور اور ناقابل شكست نہيں ہے''_(۴)

اگر چہ تو اپنے قبيلے كے بزرگوں ميں شمار ہوتا ہے ليكن جو پروگرام تيرے پيش نظر ہے اس كى وجہ سے ہمارى نگاہ ميں كوئي وقعت اور منزلت نہيں ہے_

حضرت شعيب(ع) ان باتوں كے نشتروں اور توہين آميز رويّے سے(سيخ پا ہوكر)اٹھ كرنہيں گئے بلكہ آپ(ع) نے اس طرح انہيں پر منطق اور بليغ پيرائے ميں جواب ديا:''اے قومميرے قبيلے كے يہ چند افراد تمہارے نزديك خدا سے زيادہ عزيز ہيں _''(۵)

____________________

(۱)سورہ ہود آيت۹۱ (۲)سورہ ھود آيت ۹۱

(۳)سورہ شعيب آيت۹۱ (۴)سورہ ھود آيت۹۱

(۵)سورہ ھودآيت۹۲

۲۶۳

تم ميرے خاندان كى خاطر كہ جو تمہارے بقول چند نفر سے زيادہ نہيں ہے ،مجھے آزار نہيں پہنچاتے ہو،توكيوں خدا كے ليے تم ميرى باتوں كو قبول نہيں كرتے ہو_ كيا عظمت خدا كے سامنے چندافرادكى كوئي حيثيت ہے؟

كيا تم خدا كے لئے كسى احترام كے قائل ہو''جبكہ اسے اور اس كے فرمان كو تم نے پس پشت ڈال ديا ہے_''(۱)

آخر ميں حضرت شعيب(ع) كہتے ہيں :'' يہ خيال نہ كرو كہ خدا تمہارے اعمال كو نہيں ديكھتا اور تمہارى باتيں نہيں سنتا_ يقين جانو كہ ميرا پروردگار ان تمام اعمال پر محيط ہے جو تم انجام ديتے ہو''_(۲)

بليغ سخن ور وہ ہے كہ جو اپنى باتوں ميں مدمقابل كى تمام تنقيدوں كا جواب دے_قوم شعيب(ع) كے مشركين نے چونكہ اپنى باتوں كے آخر ميں ضمناًانہيں سنگسار كرنے كى دھمكى دى تھى اور ان كے سامنے اپنى طاقت كا اظہار كيا تھا لہذا ان كى دھمكى كے جواب ميں حضرت شعيب(ع) نے اپنے موقف كواس طرح سے بيان كيا:

اے ميرى قومجو كچھ تمہارے بس ميں ہے كر گزرواور اس ميں كوتاہى نہ كرو اور جو كچھ تم سے ہو سكتا ہے اس ميں رورعايت نہ كرو_ميں بھى اپنا كام كروں گا_ليكن تم جلد سمجھ جائو گے كہ كون رسوا كن عذاب ميں گرفتار ہوتا ہے اور كون جھوٹا ہے ميں يا تم _

اور اب جبكہ معاملہ اس طرح ہے تو تم بھى انتظار كرو اور ميں بھى انتظار كرتا ہوں ،تم اپنى طاقت،تعداد،سرمائے اور اثرورسوخ سے مجھ پر كاميابى كے انتظار ميں رہو اور ميں بھى اس انتظار ميں ہوں كہ عنقريب دردناك عذاب الہى تم جيسى گمراہ قوم كے دامن گير ہو اور تمہيں صفحہ ہستى سے مٹادے_

مدين كے تباہ كاروں كا انجام

گزشتہ اقوام كى سرگزشت كے بارے ميں قرآن مجيد ميں ہم نے بارہا پڑھا ہے كہ پہلے مرحلے ميں

____________________

(۱)سورہء ھود آيت۹۲

(۲)سورہ ھودآيت۹۲

۲۶۴

انبياء انہيں خدا كى طرف دعوت دينے كے ليے قيام كرتے تھے اور ہر طرح سے تعليم و تربيت اور پند ونصيحت ميں كوئي گنجائش نہيں چھوڑتے تھے_ دوسرے مرحلے ميں جب ايك گروہ پر پند و نصائح كا كوئي اثر نہ ہوتا تو انہيں عذاب الہى سے ڈراتے تاكہ وہ آخرى افراد تسليم حق ہوجائيں جو قبوليت كى اہليت ركھتے ہيں اور راہ خدا كى طرف پلٹ آئيں نيز اتمام حجت ہو جائے_

تيسرے مرحلے ميں جب ان پركوئي چيز مو ثر نہ ہوتى تو روئے زمين كى ستھرائي اور پاك سازى كر ليے سنت الہى كے مطابق عذاب آجاتا اور راستے كے ان كانٹوں كو دور كرديتا _

قوم شعيب(ع) يعنى اہل مدين كا بھى آخر كار مرحلہ انجام آپہنچا_چنانچہ قرآن كہتا ہے: ''جب(اس گمراہ، ظالم اور ہٹ دھرم قوم كو عذاب ديئے جانے كے بارے ميں ) ہمارا فرمان آپہنچا تو ہم نے شعيب(ع) اور اس پر ايمان لانے والوں كو اپنى رحمت كى بركت سے نجات دي_''(۱) ''پھر آسمانى پكار اور مرگ آفريں عظيم صيحہ نے ظالموں اور ستمگروں كو اپنى گرفت ميں لے ليا_''(۲)

جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں _''صيحہ'' ہرقسم كى عظيم آواز اور پكار كے معنى ميں ہے، قرآن نے بعض قوموں كى نابودى صيحہ آسمانى كے ذريعے بتائي ہے_ يہ صيحہ احتمالاًصاعقہ كے ذريعے يا اس كى مانند ہوتى ہے اور جيسا كہ ہم نے قوم ثمود كى داستان ميں بيان كيا ہے كہ صوتى امواج بعض اوقات اس قدر قوى ہوسكتى ہيں كہ ايك گروہ كى موت كا سبب بن جائيں _

اس كے بعد فرمايا گيا ہے:''اس آسمانى صيحہ كے اثر سے قوم شعيب كے لوگ اپنے گھروں ميں منہ كے بل جاگرے اور مرگئے اور ان كے بے جان جسم درس عبرت بنے ہو ايك مدت تك وہيں پڑے رہے''_(۳)

ان كى زندگى كى كتاب اس طرح بندكردى گئي كہ ''گويا كبھى وہ اس سرزمين كے ساكن ہى نہ تھے''_

____________________

(۱)سورہ ھودآيت۹۴

(۲)سورہ ھود آيت۹۴

(۳)سورہ ھود آيت۹۴

۲۶۵

سات روز تك شدت كى گرمى پڑى اور ہوا بالكل نہ چلي، اس كے بعد اچانك آسمان پر بادل آئے، ہوا چلى ان كو گھروں سے نكال پھينكا، گرمى كى وجہ سے بادل كے سايہ كے نيچے چلے گئے_

اس وقت صاعقہ موت كا پيغام لے كر آئي خطرناك آواز، آگ كى بارش اور زمين ميں زلزلہ آگيا، اس طرح وہ سب نابود ہوگئے_

وہ تمام دولت وثروت كہ جس كى خاطر انہوں نے گناہ اور ظلم و ستم كيے نابود ہوگئي_ انكى زمينيں اور زرق برق زندگى ختم ہوگئي اور ان كا شور وغو غا خاموش ہوگيا اور آخر كار جيسا كہ قوم عادوثمود كى داستان كے آخر ميں بيان ہوا ہے فرمايا گيا ہے:دورہو سرزمين مدين لطف و رحمت پروردگار سے جيسے كہ قوم ثمود دور ہوئي_(۱)

''واضح ہے كہ يہاں ''مدين''سے مراد اہل مدين ہيں جو رحمت خدا سے دور ہوئے''_

____________________

(۱)سورہ ھود آيت۹۵

۲۶۶

حضرت موسى عليہ السلام

تمام پيغمبر كى نسبت قرآن ميں حضرت موسى (ع) كا واقعہ زيادہ آيا ہے_تيس سے زيادہ سورتوں ميں موسى (ع) و فرعون اور بنى اسرائيل كے واقعہ كى طرف سومرتبہ سے زيادہ اشارہ ہوا ہے_

اگر ہم ان آيتوں كى الگ الگ شرح كريں ااس كے بعد ان سب كو ايك دوسرے كے ساتھ ملا ديں تو بعض افراد كے اس توہم كے برخلاف كہ قرآن ميں تكرار سے كام ليا گيا ہے،ہم كو معلوم ہوگا كہ قرآن ميں نہ صرف تكرار نہيں ہے بلكہ ہر سورہ ميں جو بحث چھيڑى گئي ہے اس كى مناسبت سے اس سرگزشت كا ايك حصہ شاہد كے طور پر پيش كيا گيا ہے_

ضمناًيہ بات بھى ذہن ميں ركھنا چايئےہ اس زمانے ميں مملكت مصر نسبتاً وسيع مملكت تھي_وہاں كے رہنے والوں كا تمدن بھى حضرت نوح(ع) ،ہود(ع) اور شعيب(ع) كى اقوام سے زيادہ ترقى يافتہ تھا_ لہذا حكومت فراعنہ كى مقاومت بھى زيادہ تھي_

اسى بناء پر حضرت موسى (ع) كى تحريك اور نہضت بھى اتنى اہميت كى حامل ہوئي كہ اس ميں بہت زيادہ عبرت انگيز نكات پائے جاتے ہيں _بنابريں اس قرآن ميں حضرت موسى (ع) كى زندگى اور بنى اسرائيل كے حالات كے مختلف پہلوئوں پر روشنى ڈالى گئي ہے_

كلى طور پر اس عظيم پيغمبر(ع) كى زندگى كو پانچ ادوار ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے_

۲۶۷

حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے پانچ ادوار

۱_پيدائش سے لے كر آغوش فرعون ميں آپ(ع) كى پرورش تك كا زمانہ_

۲_مصر سے آپ(ع) كا نكلنا اور شہر مدين ميں حضرت شعيب(ع) كے پاس كچھ دقت گزارنا_

۳_آپ(ع) كى بعثت كا زمانہ اور فرعون اور اس كى حكومت والوں سے آپ(ع) كے متعدد تنازعے_

۴_فرعونيوں كے چنگل سے موسى (ع) اور بنى اسرائيل كى نجات اور وہ حوادث جو راستہ ميں اور بيت المقدس پہنچنے پر رونما ہوئے_

۵_حضرت موسى (ع) اور بنى اسرائيل كے درميان كشمكش كا زمانہ_

ولادت حضرت موسى عليہ السلام

حكومت فرعون نے بنى اسرئيل كے يہاں جو نومولود بيٹے ہوتے تھے انہيں قتل كرنے كا ايك وسيع پروگرام بنايا تھا_ يہاں تك كہ فرعون كى مقرر كردہ دائياں بنى اسرائيل كى باردار عورتوں كى نگرانى كرتى تھيں _

ان دائيوں ميں سے ايك والدہ موسى (ع) كى دوست بن گئي تھي_ (شكم مادر ميں موسى (ع) كا حمل مخفى رہا اوراس كے آثار ظاہر نہ ہوئے) جس وقت مادر موسى (ع) كو يہ احساس ہوا كہ بچے كى ولادت كا وقت قريب ہے تو آپ نے كسى كے ذريعہ اپنى دوست دائي كو بلانے بھيجا_جب وہ آگئي تو اس سے كہا:ميرے پيٹ ميں ايك فرزند ہے،آج مجھے تمہارى دوستى اور محبت كى ضرورت ہے_

جس وقت حضرت موسى عليہ السلام پيدا ہوگئے تو آپ كى آنكھوں ميں ايك خاص نور چمك رہا تھا،چنانچہ اسے ديكھ كر وہ دايہ كاپنے لگى اور اس كے دل كى گہرائي ميں محبت كى ايك بجلى سماگئي،جس نے اس كے دل كى تمام فضاء كو روشن كرديا_

يہ ديكھ كر وہ دايہ، مادر موسى (ع) سے مخاطب ہوكر بولى كہ ميرا يہ خيال تھا كہ حكومت كے دفتر ميں جاكے اس بچے كے پيدا ہونے كى خبر دوں تاكہ جلاد آئيں اور اسے قتل كرديں اور ميں اپنا انعام پالوں _ مگر ميں كيا كروں

۲۶۸

كہ ميں اپنے دل ميں اس نوزائيدہ بچے كى شديد محبت كا احساس كرتى ہوں _ يہاں تك كہ ميں يہ نہيں چاہتى كہ اس كا بال بھى بيكا ہو_اس كى اچھى طرح حفاظت كرو_ميرا خيال ہے كہ آخر كار يہى ہمارا دشمن ہوگا_

جناب موسى عليہ السلام تنور ميں

وہ دايہ مادر موسى (ع) كے گھر سے باہر نكلي_ تو حكومت كے بعض جاسوسوں نے اسے ديكھ ليا_ انھوں نے تہيہ كرليا كہ وہ گھر ميں داخل ہوجائيں گے_ موسى (ع) كى بہن نے اپنى ماں كو اس خطرے سے آگاہ كرديا ماں يہ سن كے گھبراگئي_ اس كى سمجھ ميں نہ آتا تھا كہ اب كيا كرے_

اس شديد پريشانى كے عالم ميں جب كہ وہ بالكل حواس باختہ ہورہى تھياس نے بچے كو ايك كپڑے ميں لپيٹا او رتنور ميں ڈال ديا_ اس دوران ميں حكومت كے آدمى آگئے_مگر وہاں انھوں نے روشن تنور كے سوا كچھ نہ ديكھا_ انھوں نے مادر موسى (ع) سے تفتيش شرو ع كردى _ پوچھا_دايہ يہاں كيا كررہى تھي_؟ موسى (ع) كى ماں نے كہا كہ وہ ميرى سہيلى ہے مجھ سے ملنے آئي تھى _حكومت كے كارندے مايوس ہوكے واپس ہوگئے_

اب موسى (ع) كى ماں كو ہوش آيا_ آپ نے اپنى بيٹى سے پوچھا كہ بچہ كہاں ہے؟ اس نے لاعلمى كا اظہار كيا_ ناگہاں تنور كے اندر سے بچہ كے رونے كى آواز آئي_ اب ماں تنور كى طرف دوڑى _كيا ديكھتى ہے كہ خدا نے اس كے لئے آتش تنور كو ''ٹھنڈا اور سلامتى كہ جگہ''بناديا ہے_ وہى خدا جس نے حضرت ابراھيم(ع) كے ليے آتش نمرود كو ''برد وسلام''بناديا تھا_ اس نے اپنا ہاتھ بڑھايا اور بچے كو صحيح وسالم باہر نكال ليا_

ليكن پھر بھى ماں محفوظ نہ تھي_كيونكہ حكومت كے كارندے دائيں بائيں پھرتے رہتے اور جستجو ميں لگے رہتے تھے_ كسى بڑے خطرے كے ليے يہى كافى تھا كہ وہ ايك نوزائيد بچے كے رونے كى آواز سن ليتے_

اس حالت ميں خدا كے ايك الہام نے ماں كے قلب كو روشن كرديا_وہ الہام ايسا تھا كہ ماں كو بظاہر ايك خطرناك كام پر آمادہ كررہا تھا_مگر پھر بھى ماں اس ارادے سے اپنے دل ميں سكون محسوس كرتى تھي_

۲۶۹

''ہم نے موسى (ع) كى ماں كى طرف وحى كى كہ اسے دودھ پلا اور جب تجھے اس كے بارے ميں كچھ خوف پيدا ہوتو اسے دريا ميں ڈال دينا اور ڈرنا نہيں اور نہ غمگين ہونا كيونكہ ہم اسے تيرے پاس لوٹا ديں گے اور اسے رسولوں ميں سے قرار ديں گے_(۱)

اس نے كہا: ''خدا كى طرف سے مجھ پريہ فرض عائد ہوا ہے_ ميں اسے ضرور انجام دوں گي''_اس نے پختہ ارادہ كرليا كہ ميں اس الہام كو ضرور عملى جامہ پہنائوں گى اور اپنے نوزائيدہ بچے كو دريائے نيل ميں ڈال دوں گي_

اس نے ايك مصرى بڑھئي كو تلاش كيا (وہ بڑھئي قبطى اور فرعون كى قوم ميں سے تھا)اس نے اس بڑھئي سے درخواست كى كہ ميرے ليے ايك چھوٹا سا صندوق بنادے_

بڑھئي نے پوچھا:جس قسم كا صندوقچہ تم بنوانا چاہتى ہو اسے كس كام ميں لائوگي؟

موسى (ع) كى ماں جو دروغ گوئي كى عادى نہ تھى اس نازك مقام پر بھى سچ بولنے سے باز نہ رہي_اس نے كہا:ميں بنى اسرائيل كى ايك عورت ہوں _ميرا ايك نوزائيد بچہ لڑكا ہے_ميں اس بچے كو اس صندوق ميں چھپانا چاہتى ہوں _

اس قبطى بڑھئي نے اپنے دل ميں يہ پختہ ارادہ كرليا كہ جلادوں كو يہ خبر پہنچادےگا_وہ تلاش كركے ان كے پاس پہنچ گيا_ مگر جب وہ انھيں يہ خبر سنانے لگاتو اس كے دل پر ايسى وحشت طارى ہوئي كہ اس كى زبان بند ہوگئي_ وہ صرف ہاتھوں سے اشارے كرتا تھا اور چاہتا تھا كہ ان علامتوں سے انھيں اپنا مطلب سمجھا دے_ حكومت كے كارندوں نے اس كى حركات ديكھ كر يہ سمجھا كہ يہ شخص ہم سے مذاق كررہا ہے_اس ليے اسے مارا اور باہر نكال ديا_

جيسے ہى وہ اس دفتر سے باہر نكلا اس كے ہوش و حواس يكجاہوگئے، وہ پھر جلادوں كے پاس گيا اور اپنى حركات سے پھر ماركھائي_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۷

۲۷۰

آخر اس نے يہ سمجھا كہ اس واقعے ميں ضرور كوئي الہى راز پوشيدہ ہے_چنانچہ اس نے صندوق بناكے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو دےديا_

دريا كى موجيں گہوارے سے بہتر

غالباًصبح كا وقت تھا_ابھى اہل مصر محو خواب تھے_مشرق سے پو پھٹ رہى تھي_ماں نے نوزائيدہ بچے اور صندوق كو دريائے نيل كے كنارے لائي،بچے كو آخرى مرتبہ دودھ پلايا_پھر اسے،مخصوص صندوق ميں ركھا(جس ميں يہ خصوصيت تھى كہ ايك چھوٹى كشتى كى طرح پانى پر تيرسكے)پھر اس صندوق كو نيل كى موجوں كے سپرد كرديا_ نيل كى پر شور موجوں نے اس صندوق كوجلدہى ساحل سے دور كرديا_ماں كنارے كھڑى ديكھ رہى تھى _ معاًاسے ايسا محسوس ہوا كہ اس كا دل سينے سے نكل كر موجوں كے اوپر تيررہاہے_اس دقت،اگر الطاف الہى اس كے دل كو سكون و قرار نہ بخشتا تو يقينا وہ زور زور سے رونے لگتى اور پھر سارا راز فاش ہو جاتا،كسى آدمى ميں يہ قدرت نہيں ہے كہ ان حساس لمحات ميں ماں پر جو گزررہى تھي_الفاظ ميں اس كا نقشہ كھينچ سكے مگر _ ايك فارسى شاعرہ نے كسى حد تك اس منظر كو اپنے فصيح اور پر از جذبات اشعار ميں مجسم كيا ہے_

۱_مادر موسى (ع) چو موسى (ع) رابہ نيل ---درفگند از گفتہ رب جليل

۲_خودز ساحل كرد باحسرت نگاہ ---گفت كاى فرزند خرد بى گناہ

۳_گر فراموشت كند لطف خداى ---چون رہى زين كشتى بى ناخداي

۴_وحى آمد كاين چہ فكر باطل است ---رہرو ما اينك اندر منزل است

۵_ماگرفتيم آنچہ را انداختى ----دست حق را ديدى ونشاختي

۶_سطح آب از گاہوارش خوشتراست ---دايہ اش سيلاب و موجش مادراست

۷_رودھا از خودنہ طغيان مى كنند--- آنچہ مى گوئيم ما آن مى كنند

۲۷۱

۸_ما بہ دريا حكم طوفان مى دہيم

ما بہ سيل وموج فرماں مى دہيم

۹_نقش ہستى نقشى از ايوان ما است

خاك وباد وآب سرگردان ماست

۱۰_بہ كہ برگردى بہ ما بسپاريش

كى تو از ما دوسترمى داريش؟(۱)

۱_جب موسى (ع) كى ماں نے حكم الہى كے مطابق موسى (ع) كو دريائے نيل ميں ڈال ديا_

۲_وہ ساحل پركھڑى ہوئي حسرت سے ديكھ رہى تھى اور كہہ رہى تھى كہ اے ميرے بے گناہ ننھے بيٹے

۳_اگر لطف الہى تيرے شامل حال نہ ہو تو ،تو اس كشتى ميں كيسے سلامت رہ سكتا ہے جس كا كوئي نا خدا نہيں ہے_

۴_حضرت موسى عليہ السلام كى ماں كو اس وقت وحى ہوئي كہ تيرى يہ كيا خام خيالى ہے ہمارا مسافر تو سوئے منزل رواں ہے_

۵_تونے جب اس بچے كو دريا ميں ڈالاتھا تو ہم نے اسے اسى وقت سنبھال ليا تھا _ تو نے خدا كا ہاتھ ديكھا مگر اسے پہچانا نہيں _

۶_اس وقت پانى كى سطح(اس كے ليے)اس كے گہوارے سے زيادہ راحت بخش ہے_دريا كا سيلاب اس كى دايہ گيرى كررہا ہے اور اس كى موجيں آغوش مادر بنى ہوئي ہيں _

۷_ديكھوں دريائوں ميں ان كے ارادہ و اختيار سے طغيانى نہيں آتي_وہ ہمارے حكم كے مطيع ہيں وہ وہى كرتے ہيں جو ہمارا امر ہوتا ہے_

۸_ہم ہى سمندروں كو طوفانى ہونے كاحكم ديتے ہيں اور ہم ہى سيل دريا كو روانى اور امواج بحر كو تلاطم كا فرمان بھيجتے ہيں _

____________________

(۱)از ديوان پروين اعتصامي

۲۷۲

۹_ہستى كا نقش ہمارے ايوان كے نقوش ميں سے ايك نقش ہے جو كچھ ہے،يہ كائنات تو اس كامشتے ازخروارى نمونہ ہے_ اور خاك،پاني،ہوا اور آتش ہمارے ہى اشارے سے متحرك ہيں _

۱۰_بہتر يہى ہے كہ تو بچے كو ہمارے سپرد كردے اور خود واپس چلى جا_ كيونكہ تو اس سے ہم سے زيادہ محبت نہيں كرتي_

دلوں ميں حضرت مو سى عليہ السلام كى محبت

اب ديكھناچاہيئے فرعون كے محل ميں كيا ہورہا تھا؟

روايات ميں مذكور ہے كہ فرعون كى ايك اكلوتى بيٹى تھي_وہ ايك سخت بيمارى سے شديد تكليف ميں تھي_فرعون نے اس كا بہت كچھ علاج كرايا مگر بے سود_اس نے كاہنوں سے پوچھا_ انھوں نے كہا:''اے فرعون ہم پيشن گوئي كرتے ہيں كہ اس دريا ميں سے ايك آدمى تيرے محل ميں داخل ہوگا_اگر اس كے منہ كى رال اس بيمار كے جسم پر ملى جائے گى تو اسے شفا ہوجائيگي_

چنانچہ فرعون اور اس كى ملكہ آسيہ ايسے واقعے كے انتظار ميں تھے كہ ناگہاں ايك روز انھيں ايك صندوق نظر آيا جو موجوں كى سطح پر تير رہا تھا_فرعون نے حكم ديا كہ سركارى ملازمين فوراً ديكھيں كہ يہ صندوق كيسا ہے اور اسے پانى ميں سے نكال ليں _ديكھيں كہ اس ميں كيا ہے؟

نوكروں نے وہ عجيب صندوق فرعون كے سامنے لاكے ركھ ديا_ كسى كو اس كا ڈھكنا كھولنے كى ہمت نہ ہوئي_ مطابق مشيت الہي،يہ لازمى تھا كہ حضرت موسى (ع) كى نجات كے ليے صندوق كا ڈھكنا فرعون ہى كے ہاتھ سے كھولا جائے،چنانچہ ايسا ہى ہوا_

جس وقت فرعون كى ملكہ نے اس بچے كو ديكھا تو اسے يوں محسوس ہواكہ ايك بجلى چمكى ہے جس نے اس كے دل كو منور كرديا ہے_

ان دونوں بالخصوص فرعون كى ملكہ كے دل ميں اس بچے كى محبت نے گھر بناليا اور جب اس بچے كا

۲۷۳

آب دہن اس كے ليے موجب شفا ہوگيا تو يہ محبت اور بھى زيادہ ہوگئي _

قرآن ميں يہ واقعہ اس طرح مذكور ہے كہ:_فرعون كے اہل خانہ نے موسى (ع) كو نيل كى موجوں كے اوپر سے پكڑ ليا_ تا كہ وہ ان كا دشمن اور ان كے ليے باعث اندوہ ہوجائے_(۱)

''يہ امر بديہى ہے كہ فرعون كے اہل خانہ نے اس بچے كے قنداقہ(وہ كپڑاجس ميں بچہ كو لپيٹتے ہيں )كو اس نيت سے دريا سے نہيں نكالا تھا كہ اپنے جانى دشمن كو اپنى گود ميں پاليں ،بلكہ وہ لوگ بقول ملكہ فرعون،اپنے ليے ايك نور چشم حاصل كرناچاہتے تھے_

ليكن انجام كار ايسا ہى ہوا،اس معنى و مراد كى تعبير ميں لطافت يہى ہے كہ خدا اپنى قدرت كا اظہار كرنا چاہتا ہے كہ وہ كس طرح اس گروہ كو جنھوں نے اپنى تمام قوتيں اور وسائل،بنى اسرائيل كى اولاد ذكور كو قتل كرنے كے ليے وقف كرديا تھا،اس خدمت پر مامور كرے كہ جس بچے كو نابود كرنے كے ليے انھوں نے يہ پروگرام بنايا تھا،اسى كوو وہ اپنى جان كى طرح عزيز ركھيں اور اسى كى پرورش كريں _

قرآن كى آيات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ اس بچے كى بابت فرعون،اس كى ملكہ اور ديگر اہل خاندان ميں باہم نزاع اور اختلاف بھى ہوا تھا،كيونكہ قرآن شريف ميں يوں بيان ہے:فرعون كى بيوى نے كہا كہ يہ بچہ ميرى اور تيرى آنكھوں كا نور ہے_ اسے قتل نہ كرو_ ممكن ہے يہ ہمارے ليے نفع بخش ہو يا ہم اسے ہم اپنا بيٹابنا ليں _(۲)

ايسا معلوم ہوتا ہے كہ فرعون بچے كے چہرے اور دديگر علامات سے،من جملہ ان كے اسے صندوق ميں ركھنے اور دريائے نيل ميں بہادينے سے يہ سمجھ گيا تھا كہ يہ بنى اسرائيل ميں سے كسى كا بچہ ہے_

يہ سمجھ كر ناگہاں ،بنى اسرائيل ميں سے ايك آدمى كى بغاوت اور اس كى سلطنت كے زوال كا كابوس اس كى روح پر مسلط ہوگيا اور وہ اس امر كا خواہاں ہوا كہ اس كا وہ ظالمانہ قانون،جو بنى اسرائيل كے تمام نوزاد اطفال كے ليے جارى كيا گيا تھا اس بچے پر بھى نافذ ہو_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۸

(۲)قصص آيت ۹

۲۷۴

فرعون كے خوشامدى درباريوں او ررشتہ داروں نے بھى اس امر ميں فرعون كى تائيد و حمايت كى اور كہا اس كى كوئي دليل نہيں ہے كہ يہ بچہ قانون سے مستثنى رہے_

ليكن فرعون كى بيوى آسيہ جس كے بطن سے كوئي لڑكا نہ تھا اور اس كا پاك دل فرعون كے درباريوں كى مانند نہ تھا،اس بچے كے ليے محبت كا كان بن گيا تھا_ چنانچہ وہ ان سب كى مخالفت پرآمادہ ہوگئي اور چونكہ اس قسم كے گھريلو اختلافات ميں فتح ہميشہ عورتوں كى ہوتى ہے،وہ بھى جيت گئي_

اگر اس گھريلو جھگڑے پر،دختر فرعون كى شفايابى كے واقعے كا بھى اضافہ كرليا جائے تواس اختلاف باہمى ميں آسيہ كى فتح كا امكان روشن تر ہو جاتا ہے_

قرآن ميں ايك بہت ہى پر معنى فقرہ ہے:''وہ نہيں جانتے تھے كہ كيا كررہے ہيں :''(۱)

البتہ وہ بالكل بے خبر تھے كہ خدا كا واجب النفوذ فرمان اور اس كى شكست ناپذير مشيت نے يہ تہيہ كرليا ہے كہ يہ طفل نوزاد انتہائي خطرات ميں پرورش پائے _ اور كسى آدمى ميں بھى ارادہ و مشيت الہى سے سرتابى كى جرا ت اور طاقت نہيں ہے''_

اللہ كى عجيب قدرت

اس چيز كانام قدرت نمائي نہيں ہے كہ خداآسمان و زمين كے لشكروں كو مامور كركے كسى پُرقوت اور ظالم قوم كو نيست و نابود كردے_

بلكہ قدرت نمائي يہ ہے كہ ان ہى جباران مستكبر سے يہ كا م لے كر وہ اپنے آپ كو خود ہى نيست و نابود كرليں اور ان كے دل و دماغ ميں ايسے خيالات پيدا ہوجائيں كہ بڑے شوق سے لكڑياں جمع كريں اور اس كى آگ ميں جل مريں ،اپنے ليے خودہى قيدخانہ بنائيں اور اسميں اسير ہوكے جان دے ديں ، اپنے ليے خود ہى صليب كھڑى كريں اور اس پر چڑھ مرجائيں _

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۹

۲۷۵

فرعون اوراسكے زور منداور ظالم ساتھيوں كے ساتھ بھى يہى پيش آيا_ چنانچہ تمام مراحل ميں حضرت موسى (ع) كى نجات اور پرورش انہى كے ہاتھوں سے ہوئي،حضرت موسى (ع) كى دايہ قبطيوں ميں سے تھي،صندوق موسى (ع) كو امواج نيل سے نكالنے اور نجات دينے والے متعلقين فرعون تھے،صندوق كا ڈھكنا كھولنے والا خود فرعون يا اس كى اہليہ تھي،اور آخر كا ر فرعون شكن اور مالك غلبہ و اقتدار موسى (ع) كے ليے امن و آرام اور پرورش كى جگہ خود فرعون كا محل قرار پايا_ يہ ہے پروردگار عالم خدا كى قدرت_

موسى عليہ السلام پھر آغوش مادر ميں

حضرت موسى عليہ السلام كى ماں نے اس طرح سے جيسا كہ ہم نے پيشتر بيان كيا ہے،اپنے فرزند كو دريائے نيل كى لہروں كے سپرد كرديا_ مگر اس عمل كے بعد اس كے دل ميں جذبات كا يكايك شديد طوفان اٹھنے لگا،نوزائيدہ بيٹے كى ياد،جس كے سوا اس كے دل ميں كچھ نہ تھا،اس كے احساسات پر غالب آگئي تھي،قريب تھا كہ وہ دھاڑيں مار كر رونے لگے اور اپنا راز فاش كردے،قريب تھا كہ چيخ مارے اور اپنے بيٹے كى جدائي ميں نالے كرے_

ليكن عنايت خداوندى اس كے شامل حال رہى جيسا كہ قرآن ميں مذكور ہے:''موسى عليہ السلام كى ماں كا دل اپنے فرزند كى ياد كے سوا ہر چيز سے خالى ہوگيا،اگر ہم نے اس كا دل ايمان اور اميد كے نور سے روشن نہ كيا ہوتا تو قريب تھا كہ وہ راز فاش كرديتي_ ليكن ہم نے يہ اس ليے كيا تاكہ وہ اہل ايمان ميں سے رہے''_(۱)

يہ قطعى فطرى امر ہے كہ: ايك ماں جو اپنے بچے كو اس صورت حال سے اپنے پاس سے جدا كرے وہ اپنى اولاد كے سوا ہر شے كو بھول جائے گي_ اور اس كے حواس ايسے باختہ ہو جائيں گے كہ ان خطرات كا لحاظ

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۰

۲۷۶

كيے بغير جو اس كے اور اس كے بيٹے دونوں كے سر پر منڈلارہے تھے فرياد كرے اور اپنے دل كا راز فاش كردے_

ليكن وہ خدا جس نے اس ماں كے سپرد يہ اہم فريضہ كيا تھا،اسى نے اس كے دل كو ايسا حوصلہ بھى بخشا كہ وعدہ الہى پر اس كا ايمان ثابت رہے اور اسے يہ يقين رہے كہ اس كا بچہ خدا كے ہاتھ ميں ہے آخر كار وہ پھر اسى كے پاس آجائے گا اور پيغمبر بنے گا_

اس لطف خداوندى كے طفيل ماں كے دل كا سكون لوٹ آيامگر اسے آرزورہى كہ وہ اپنے فرزندكے حال سے باخبر رہے'' اس لئے اس نے موسى عليہ السلام كى بہن سے كہاكہ جا تو ديكھتى رہ كہ اس پر كيا گزرتى ہے''_(۱)

موسى عليہ السلام كى بہن ماں كا حكم بجالائي اور اتنے فاصلہ سے جہاں سے سب كچھ نظر آتا تھا ديكھتى رہى _ اس نے دور سے ديكھا كہ فرعون كے عمال اس كے بھائي كے صندوق كو پانى ميں سے نكال رہے ہيں اور موسى عليہ السلام كو صندوق ميں سے نكال كر گود ميں لے رہے ہيں _

''مگر وہ لوگ اس بہن كى ا س كيفيت حال سے بے خبر تھے_''_(۲)

بہر حال ارادہ الہى يہ تھا كہ يہ طفل نوزاد جلد اپنى ماں كے پاس واپس جائے اور اس كے دل كو قرار آئے_اس ليے فرمايا گيا ہے :''ہم نے تمام دودھ پلانے والى عورتوں كو اس پر حرام كرديا تھا''_(۳)

يہ طبيعى ہے كہ شير خوار نوزاد چندگھنٹے گزرتے ہى بھوك سے رونے لگتا ہے اور بے تاب ہوجاتا ہے_ درين حال لازم تھا كہ موسى عليہ السلام كو دودھ پلانے كے ليے كسى عورت كى تلاش كى جاتي_ خصوصاً جبكہ ملكہ مصر اس بچے سے نہايت دل بستگى ركھتى تھى اور اسے اپنى جان كے برابر عزيز ركھتى تھي_

محل كے تمام خدام حركت ميں آگئے اور دربدر كسى دودھ پلانے والى كو تلاش كرنے لگے_مگر يہ عجيب بات تھى كہ وہ كسى كا دودھ پيتا ہى نہ تھا_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۱

(۲)سورہ قصص آيت۱۱

(۳)سورہ قصص آيت۱۲

۲۷۷

ممكن ہے كہ وہ بچہ ان عورتوں كى صورت ہى سے ڈرتا ہو اور ان كے دودھ كا مزہ(جس سے وہ آشنا نہ تھا) اسے اس كا ذائقہ ناگوار اور تلخ محسوس ہوتا ہو_اس بچے كا طور كچھ اس طرح كا تھا گويا كہ ان (دودھ پلانے والي)عورتوں كى گود سے اچھل كے دورجاگرے در اصل يہ خدا كى طرف سے''تحريم تكويني''تھى كہ اس نے تمام عورتوں كو اس پر حرام كرديا تھا_

بچہ لحظہ بہ لحظہ زيادہ بھوكا اور زيادہ بيتاب ہوتا جاتا تھا_ بار بار رورہا تھا اور اس كى آواز سے فرعون كے محل ميں شور ہورہا تھا_ اور ملكہ كا دل لرز رہا تھا_

خدمت پرمامور لوگوں نے اپنى تلاش كو تيز تر كرديا_ ناگہاں قريب ہى انھيں ايك لڑكى مل جاتى ہے_ وہ ان سے يہ كہتى ہے:ميں ايك ايسے خاندان كو جانتى ہوں جو اس بچے كى كفالت كرسكتا ہے_ وہ لوگ اس كے ساتھ اچھا سلوك كريں گے_

''كيا تم لوگ يہ پسند كروگے كہ ميں تمہيں وہاں لے چلوں ''؟(۱)

ميں بنى اسرائيل ميں سے ايك عورت كو جانتى ہوں جس كى چھاتيوں ميں دودھ ہے اور اس كا دل محبت سے بھرا ہوا ہے_ اس كا ايك بچہ تھا وہ اسے كھو چكى ہے_ وہ ضرور اس بچے كو جو محل ميں پيدا ہوا ہے،دودھ پلانے پر آمادہ ہوجائے گي_

وہ تلاش كرنے والے خدام يہ سن كر خوش ہوگئے اور موسى عليہ السلام كى ماں كو فرعون كے محل ميں لے گئے_ اس بچے نے جونہى اپنى ماں كى خوشبو سونگھى اس كا دودھ پينے لگا_ اور اپنى ماں كا روحانى رس چوس كر اس ميں جان تازہ آگئي_اسكى آنكھوں ميں خوشى كا نور چمكنے لگا_

اس وقت وہ خدام جو ڈھونڈ ڈھونڈ كے تھك گئے تھے_ بہت ہى زيادہ خوش و خرم تھے_ فرعون كى بيوى بھى اس وقت اپنى خوشى كو نہ چھپا سكي_ممكن ہے اس وقت لوگوں نے كہا ہوكہ تو كہاں چلى گئي تھي_ہم تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ كے تھك گئے _ تجھ پر اورتيرے شير مشكل كشا پر آفرين ہے_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۲

۲۷۸

صرف تيرا ہى دودھ كيوں پيا

جس وقت حضرت موسى عليہ السلام ماں كا دودھ پينے لگے،فرعون كے وزير ہامان نے كہا: مجھے لگتا ہے كہ تو ہى اسكى ماں ہے_ بچے نے ان تمام عورتوں ميں سے صرف تيرا ہى دودھ كيوں قبول كرليا؟

ماں نے كہا:اس كى وجہ يہ ہے كہ ميں ايسى عورت ہوں جس كے دودھ ميں سے خوشبو آتى ہے_ ميرا دودھ نہايت شيريں ہے_ اب تك جو بچہ بھى مجھے سپرد كيا گيا ہے_ وہ فوراً ہى ميرا دودھ پينے لگتا ہے_

حاضرين دربار نے اس قول كى صداقت كو تسليم كرليا اور ہر ايك نے حضرت موسى عليہ السلام كى ماں كو گراں بہا ہديے اور تحفے ديے_

ايك حديث جو امام باقر عليہ السلام سے مروى ہے اس ميں منقول ہے كہ:''تين دن سے زيادہ كا عرصہ نہ گزرا تھا كہ خدانے كے بچے كواس كى ماں كے پاس لوٹا ديا''_

بعض اہل دانش كا قول ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كے ليے يہ''تحريم تكويني''(يعنى دوسرى عورتوں كا حرام كيا جانا)اس سبب سے تھاكہ خدا يہ نہيں چاہتا تھا كہ ميرا فرستادہ پيغمبر ايسا دودھ پيئے جو حرام سے آلودہ ہو اور ايسا مال كھاكے بنا ہو جو چوري،نا جائز ذرائع،رشوت اور حق الناس كو غصب كركے حاصل كيا گيا ہو_

خدا كى مشيت يہ تھى كہ حضرت موسى عليہ السلام اپنى صالحہ ماں كے پاك دودھ سے غذا حاصل كريں _تاكہ وہ اہل دنيا كے شر كے خلاف ڈٹ جائيں اور اہل شروفساد سے نبردآزمائي كرسكيں _

''ہم نے اس طرح موسى عليہ السلام كو اس كى ماں كے پاس لوٹا ديا_تاكہ اس كى آنكھيں روشن ہوجائيں اور اس كے دل ميں غم واندوہ باقى نہ رہے اور وہ يہ جان لے كہ خدا كا وعدہ حق ہے_ اگر چہ اكثر لوگ يہ نہيں جانتے''_(۱)

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۱۳

۲۷۹

اس مقام پر ايك سوال پيدا ہوتا ہے اور وہ يہ ہے كہ:كيا وابستگان فرعون نے موسى عليہ السلام كو پورے طور سے ماں كے سپرد كرديا تھا كہ وہ اسے گھر لے جائے اور دودھ پلايا كرے اور دوران رضاعت روزانہ يا كبھى كبھى بچے كو محل ميں لايا كرے تا كہ ملكہ مصر اسے ديكھ ليا كرے يا يہ كہ بچہ محل ہى ميں رہتا تھا اور موسى عليہ السلام كى ماں معين اوقات ميں آكر اسے دودھ پلاجاتى تھي؟

مذكورہ بالا دونوں احتمالات كے ليے ہمارے پاس كوئي واضح دليا نہيں ہے_ ليكن احتمال اول زيادہ قرين قياس ہے_

ايك اور سوال يہ ہے كہ:

آيا عرصہ شير خوارگى كے بعد حضرت موسى عليہ السلام فرعون كے محل ميں چلے گئے يا ان كا تعلق اپنى ماں اور خاندان كے ساتھ باقى رہا اور محل سے وہاں آتے جاتے رہے؟

اس مسئلے كے متعلق بعض صاحبان نے يہ كہا ہے كہ شير خوار گى كے بعد آپ كى ماں نے انھيں فرعون اور اس كى بيوى آسيہ كے سپرد كرديا تھا اور حضرت موسى عليہ السلام ان دونوں كے پاس پرورش پاتے رہے_

اس ضمن ميں راويوں نے فرعون كے ساتھ حضرت موسى عليہ السلام كى طفلانہ(مگر با معنى )باتوں كا ذكر كيا ہے كہ اس مقام پر ہم ان كو بعذر طول كلام كے پيش نظر قلم انداز كرتے ہيں _ ليكن فرعون كا يہ جملہ جے اس نے بعثت موسى عليہ السلام كے بعد كہا:

''كيا ہم نے تجھے بچپن ميں پرورش نہيں كيا اور كيا تو برسوں تك ہمارے درميان نہيں رہا''_(۱)

اس جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ جناب موسى عليہ السلام چند سال تك فرعون كے محل ميں رہتے تھے_

على ابن ابراھيم كى تفسير سے استفادہ ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام تازمانہ بلوغ فرعون كے محل ميں نہايت احترام كے ساتھ رہے_مگر ان كى توحيد كے بارے ميں واضح باتيں فرعون كو سخت ناگوار ہوتى تھيں _

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۱۸

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421