عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 13%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 421

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 421 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207853 / ڈاؤنلوڈ: 8538
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

پہلی جلد

علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم:سید قلبی حسین رضوی

۳

خطوط اور مقدمے

کتاب عبدا للہ بن سبا کی علمی قدر و قیمت

ایک شیعہ دانشور محترم جناب شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

الازہر یونیورسٹی ، مصر کے مجلہ کا جواب

مباحث پر ایک نظر

سلسلہ مباحث کی پیدائش

۴

کتاب عبد اللہ بن سبا کی علمی قدرو قیمت

مصر کی الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر جناب ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کا خط

کتاب عبدالله بن سبا ، آخر میں دوسرے ایڈیشن کے عنوان سے مصر میں دوسری بار شائع ہوئی ہے،اس کتاب نے اہل سنت ممالک میں گہرا اثر ڈالا ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں خاص کر الازہر یونیورسٹی کے دانشوروں اور اساتذہ کی توجہ کا سبب بنی ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں میں غیر معمولی اثر ڈالا ہے ،مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی طرف سے مؤلف کو اس کتاب کو پسند کرنے کے سلسلہ میں کئی خطوط ملے ہیں ، ان میں سے ایک جناب ڈاکٹر حامدکا خط ہے ، وہ مصر کے ایک نامور دانشور ہیں ، جو کئی قابل قدر تحقیقی تالیفات کے مالک ہیں ۔

چونکہ یہ خط انصاف و عدالت کا ایک نمونہ اور تعصب اورہٹ دھرمی کی سرحدوں کو توڑنے والا ایک عنوانہے اس لئے ہم اسے ترجمہ کرکے شائع کرتے ہیں(۱)

____________________

۱۔ نشریہ سالانہ مکتب تشیع ۴/۳۰۲۔

۵

خط کا مضمون

تاریخ اسلام کی تیرہ صدیاں اختتام کو پہنچی ہیں ان تیرہ صدیوں کے دوران ہمارے دانشوروں کے ایک گروہ نے حتی الامکان شیعوں کے خلاف آواز اٹھائیہے اور حقائق کو اپنی نفسانی خواہشات سے مخلوط کیا ہے اس ناپسندیدہ روش کی وجہ سے اسلامی فرقوں کے د رمیان گہرے اختلافات پیدا ہوئے ہیں ، نتیجہ کے طورپر شیعہ دانشوروں کے فکر و اندیشہ کے گوہر کو حقیر سمجھا گیا ہے اسی روش کی بنا پر علمی دنیا کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

شیعہ دانشوروں کے افکار سے علم محروم رہا ہے کیونکہ دشمنوں نے شیعوں کے پا ک و صاف دامن کو داغدار بنا کر انھیں ایک توہمات و خرافات کے حامل گروہ کے طور پر پہچنوایا ہے ، بے شک ہم شیعوں کے صاف و شفاف علمی چشمہ زلال سے ایک گھونٹ پی سکتے تھے نیزاس مذہب کے سرمایہ سے فائدہ اٹھا سکتے تھے ، لیکن افسوس کہ ہمارے گزشتہ دانشوروں نے تعصب سے کام لیااور عقل کو ھوا و ہوس پر ترجیح نہیں دی ، اے کاش کہ وہ لوگ عقل کی پیروی کرتے اور جذبات کے کھلونے نہ بن تے !! جو کوئی تعصب کے عینک کو اتارکر فقہی مباحث کےلئے اقدام کرے اور فقہ مذاہب چہارگانہ پر تحقیق کرے ، وہ شیعہ فقہ سے بھی استفادہ کرنے پر مجبور ہے اور بے شک جب فقہ اہل سنت پرتحقیق کرے تو اس وقت شیعہ فقہ کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے اور اس سے آگاہ ہونا چاہئے ۔

۶

ہم کب تک خواب غفلت میں رہیں گے ؟! کیا فقہ شیعہ کے پرچم دار ،ا مام جعفر صادق علیہ السلام(۱) سنی مذہب کے دو امامو ں کے استاد نہیں تھے؟ یہ دو امام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مکتب میں زانوئے ادب تہہ کیا ہے ۔

ابو حنیفہ ، نعمان بن ثابت(۲) کہتے ہیں :

لولاالسنتان لهلک النعمان

اگر امام صادق علیہ السلام کے درس میں دو سال شرکت نہ کی ہوتی تو بے شک میں ہلاک ہوجاتا، اوردین سے منحرف ہوتا۔

اس کی مراد وہی دو سال ہیں جس میں انہوں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کے علم کے میٹھے اور زلالی چشمہ سے استفادہ کیا ہے ۔

اور یہ مالک بن انس ہیں جو واضح طور پر اعتراف کرتے ہیں :

ما رایت افقه من جعفر بن محمد

میں نے جعفر بن محمد سے فقیہ تر کسی کو نہیں د یکھا ہے(۳)

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ علم کے بارے میں صرف دور سے کچھ سننے والوں نے اپنے آپ کو دانشور سمجھ کر اپنے قلم سے تحقیق کی بنیادوں کو اکھاڑ کر حق و حقیقت کو اپنی نفسانی خواہشات پر قربان

____________________

۱۔ وفات ۱۴۸ ھ

۲۔ وفات ۱۵۰ھ

۳۔ وفات ۱۷۹ ھ

۷

کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر گلستان علم کے دروازے ان پر بند ہوگئے اور اس طرح وہ شمع معرفت کے نور سے محروم ہوگئے ہیں ، اس مذموم روش نے فتنہ کی آگ کو بھڑکانے کے علاوہ مسلمانوں میں ، دن بدن اختلافات کو بڑھا وا دیا ہے ۔

افسوس کہ ہمارے استاد ” احمد امین “(۱) بھی انہیں افراد میں سے تھے ، جنہوں نے معرفت کے نور سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ظلمت کے پردوں کے پیچھے زندگی بسر کرتے رہے ، یہ وہ کرنیں ہیں جو تشیع کے سورج سے چمکی ہیں اور جہالت کی تاریک رات کو نور میں تبدیل کرکے اسلام کے عظیم تمدن کو اس وقت وجود بخشا ، جبکہ دوسرے لوگ بہت پیچھے تھے۔

تاریخ نے اس ناپاک رویہ کی بنا پر ، احمد امین اور ان جیسے تمام اساتذہ اور دانشوروں کے دامن پر عظیم داغ لگادیا ہے، جنہوں نے آنکھیں بند کرکے تعصب کی وادی میں قدم رکھا ہے ، یہ دانشور وں اور محققین کا طریقہ کار نہیں ہے کہ ایک جگہ بیٹھے رہیں اور جمود کی بیڑی کو اپنی فکر کے پاؤں سے نہ اتاریں اور بے جا پر تعصب سے کام لے کر آنکھیں بند کرکے کسی مذہب کی پیروی کریں !!

ان کی فکرو قلم سے بہت ساری غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہوئی ہیں اور انہیں الجھن اور بد حواسی سے دوچار کیا ہے ، شاید مذکورہ داستان اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔

انہوں نے جھوٹ بول کر بعض مطالب کو شیعوں سے نسبت دیکران کے دامن کو داغدار بنادیا

____________________

۱۔ ” فصل “ پیدائش افسانہ د ور راویان آن “ شمارہ ہفتم ، کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں پر احمد امین کی باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا ہے جس کا سبب شیعوں کے ساتھ اس کی دشمنی اور کینہ ہے ۔

۸

ہے کہ ہم نے ان میں سے بعض کی طرف اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے ،(۱) انہوں نے تصور کیا ہے کہ جتنے بھی خرافات اور جعلی چیزیں اسلام کی تاریخ میں موجود ہیں ، سب کی سب شیعہ علما کی گڑھی ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنے خود ساختہ گمان سے شیعوں پر حملہ کیا اور ان کو برا بھلا کہا ہے۔

جلیل القدر محقق ”جناب مرتضیٰ عسکری “ نے اپنی کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ میں کافی دلائل سے مکمل طور پر ثابت کیا ہے کہ ” عبدا للہ بن سبا “ ایک خیالی اور جعلی موجود ہے ۔

تاریخ نویسوں نے جو حکایتیں بیان کی ہیں اور ان کی بناء پر اسے (عبدا للہ بن سبا) مذہب شیعہ کا مروج(۲) بیان کیا ہے البتہ یہ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، مؤرخین نے ان گڑھی ہوئی داستانوں کو اس لئے مرتب کیا ہے تا کہ فریب کاری کے جال کو پھیلا کر شیعوں پر حملے کرکے بے جا ان کے خلاف تہمت و افتراء پردازی کریں ۔

ہم عصر دانشور ،جناب مرتضیٰ عسکری نے اس کتاب میں اپنی فکر و اندیشہ کے سہارے تاریخ کے سمندر میں غوطہ لگا کر ، بہت سی کتابوں کا مطالعہ فرمایا ہے اور انتہائی تلاش و جستجو کے بعد اس سمندر سے کافی مقدارمیں موتی لے کر ساحل تک آئے ہیں ۔

انہوں نے زیر بحث حقائق کو ثابت کرنے کےلئے نزدیک ترین راستہ طے کیا ہے ، شیعوں کے

مخالفوں سے بحث کے دوران ان کے ہی بیانات کو مآخذ قرار دیکر ان کی باتوں کو باطل ثابت کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کی کتا ب” مع احمد امین “ کے مقدمہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ خود غرض مورخین نے اسے شیعہ مذہب کا بانی و مروج خیال کیاہے۔

۹

تاریخ اسلام کے آغاز سے عصر حاضر تک ” سیف بن عمر“ کی روایتوں نے مؤرخین کو الجھا رکھا ہے جو عام طور پر قابل اعتماد ہے، اس کتاب میں ان روایتوں کے بارے میں ایک گراں بہا تحقیق کی گئی ہے کہ قارئین بڑی آسانی سے انھیں سمجھ سکتے ہیں ۔

خدا کی حکمت اسی میں ہے کہ بعض محققین مردانہ وار قلم ہاتھ میں اٹھا کر حقائق سے پردہ اٹھائیں ، اور اس راستہ میں دوسروں کی سرزنش اور ملامت کی پروانہ کریں ، مصنف محترم پہلی شخصیت ہیں جس نے اپنی گہری تحقیقات کے نتیجہ میں اہل سنت محققین کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ طبری کی کتاب ” تاریخ الامم و الملوک “ کے بارے میں تجدید نظر کریں ، نیز انھیں اس بات پر مجبور کیا ہے کہ اس کتاب اورتاریخ کی دوسری بنیادی کتابوں کے بارے میں از سر نو دقت سے غور کرتے ہوئے اور خوب و بد کو ایک دوسرے سے جدا کریں ،مزید ان تاریخی حوادث کے بارے میں بھی نئے سرے سے غور کریں ، جنہیں وہ نازل شدہ وحی کے مانند صحیح اور نا قابل تغییر سمجھتے تھے !!

محترم مصنف نے کافی ، واضح اور روشن شواہد کی مدد سے ان تاریخی وقائع سے ابہام کے پردے کو ہٹا دیا ہے اور حقیقت کو اس کے متوالوں کےلئے آشکار کیا ہے حتی کہ بعض حقائق انتہائی بھیانک اور حیرت انگیز دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ایک عمر کے عادات و رسومات چند صدیوں کی اعتقادی میراث کے مخالف ہیں ، لیکن حق کی پیروی کرنالازم و واجب ہے ہر چند کہ یہ امر دشور ہو ” الحق احق ان یتبع“۔

مذکورہ مطالب سے آگاہی چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ کریں او رتاریخ کے اختلافی حوادث جیسے ، اسامہ کی لشکر کشی ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت اور سقیفہ کی داستان (جس پر مؤلف نے تنقیدی تجربہ کیا ہے) کا دقت کے ساتھ مطالعہ کریں ۔

جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موت کا شیرین جام نوش فرمارہے تھے، اسامہ کے لشکر سے بعض افراد حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے مدینہ لوٹے اور ریاست و خلافت کی امید سے جہاد سے منہ موڑ لیا ، مؤلف نے ان افراد کو پہچنوایا ہے ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر مرگ پر جب وصیت لکھنے کا حکم دیدیا، کچھ لوگوں نے اس حکم پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالی اور اسے ہذیان سے تعبیر کیا (گویا انہوں نے گمان کیا کہ پیغمبر ہذیان کہہ رہے ہیں)کیونکہ وہ اس امر سے خائف تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وصیت میں علی علیہ السلام کی خلافت کی خبر دیں گے اور ان آخری لمحات میں بھی اسے اپنے وصی کے طور پر تعارف کرائیں گے ۔

۱۰

مؤلف اس حادثہ کی حقیقت و کیفیت کو بھی آشکار کرتے ہیں عمر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے انکار کرنے کا مقصد کیا تھا ؟ کیوں وہ ان افراد کو موت کی دھمکی دیتے تھے جو یہ کہتے تھے کہ پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے رحلت کی ہے ؟جس وقت امام علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچیرے بھائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس اور چند بوڑھے اور سن رسیدہ اصحاب کی مددسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن نازنین کوغسل دینے میں مشغول تھے ، تو اس وقت کس غرض سے عمر اور ابو عبیدہ نے انتہائی عجلت کے ساتھ اپنے آپ کو سقیفہ کے اجتماع میں پہنچادیا اور لوگوں سے ابوبکر کے حق میں بیعت لے لی ؟!

بے شک ، اگر تھوڑا سا انتظار کرتے تا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سپرد لحد کرکے اور علی علیہ السلام بھی اس اجتماع میں حاضر ہوتے تو علی علیہ السلام خلافت کے مستحق قرار پاتے اور بنی ہاشم ان کے علاوہ کسی اور کو امام المسلمین کے طور پر قبول نہیں کرتے !

مؤلف نے مذکورہ تین مباحث میں صحیح کو غلط سے اور برے کو بھلے سے جدا کرکے ان مسلم حقائق تک رسائی حاصل کی ہے اور ان کی اس تحقیق کے نتیجہ میں فریب کاروں کےلئے مکرو فریب کے دروازے بند ہوگئے ہیں ۔

کتاب کے دوسرے مباحث بھی مذکورہ بالا تین مباحث کی طرح ، دقت کے ساتھ حقائق کو ایسے آشکار کرتے ہیں کہ بہت جلد ہی تاریخ اسلام کے اندر گہرے اثرات رونما ہوں گے ۔

میں اس مقالہ کو ختم کرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ درج ذیل تین سوالات کا جواب دیدوں :

۱ ۔ کیا پیغمبر خدا کا صحابی غلطی کرسکتا ہے اورلغزش سے دوچار ہوسکتا ہے ؟

۲ ۔ کیا اس کے کام اور کردار پر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے ؟

۳ ۔ کیا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی کو منافق یا کافر کہا جاسکتا ہے ؟

۱۱

سوال نمبر ایک اور دو کا میں مثبت جواب دیتا ہوں ، لیکن تیسرے سوال کا جواب منفی ہے ۔ اس لئے نہیں کہ میں تعصب سے کام لیتا ہوں اور علم کے اصول کے خلاف کہتا ہوں ، بلکہ ایک ایسا استدلال رکھتا ہوں کہ عقل اس کو قبول کرتی ہے اور منطق اسکی تائید کرتی ہے کیونکہ کفر و نفاق کا تعلق قلب و دل سے ہے اور وہاں تک خدا کے سوا کسی کی رسائی نہیں ہے ، علمی تجربہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ہے ، صرف خداوند عالم ہے جو انسان کے اندرونی اسرار سے واقف ہے اور پوشیدہ چیزوں کامکمل طور پر علم رکھتا ہے(۱)

مذکورہ روش ، وہی جدید روش ہے ، جس کا واضح مشاہدہ میری تمام تالیفات میں کیا جاسکتا ہے۔

مجھے اس بات پر انتہائی مسرت ہے کہ علم کے لحاظ سے اس عظیم کتاب اور اس کے عالی قدر مصنف استاد علامہ محقق جناب مرتضی عسکری کے تئیں انتہائی احترام و محبت کا قائل ہوں ، اسی طرح جناب مرتضیٰ رضوی کشمیری کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کو پوری ظرافت اور دیدہ زیب صورت میں شائع کیا ہے ، علامہ نے اس فریضہ کو انجام دے کر اسلام کی ایک عظیم خدمت کی ہے اور اس ذمہ داری کو انجام دے کر اسلام کے تاریخی حقائق کو زندہ کرنے کےلئے ایک عظیم اثر چھوڑا ہے ۔

قاہرہ اول جمادی الاول ۱۳۸۱ ھء مطابق ۱۲ ،اکتوبر ۱۹۶۱ ئئ

ڈاکٹر حامد حفنی داؤد

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد نے اس خط کو نصف کتاب کے شائع ہونے کے پیش نظر مصر میں لکھا ہے ۔

۱۲

ایک محترم شیعہ دانشور شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

سنی دانشور محترم جناب ڈاکٹر حامد کے نظریہ سے آگاہ ہونے کے بعد مناسب ہے یہاں پر اس کتاب کے بارے میں ایک شیعہ دانشور علامہ نابغہ جناب شیخ محمد جواد مغنیہ جبل عاملی کے نظریہ سے بھی آگاہ ہوجائیں ، علامہ موصوف لبنان میں مروج مذہب تشیع ہیں ۔

موصوف کی گراں بہا تالیفات میں من جملہ ” تفسیر قرآن مجید “ ” معالم الفلسفة الاسلامیہ“، ”الشیعہ و الحاکمون “ ” اصول الاثبات فی الفقہ الجعفری“ اور دسیوں دوسری تالیفات سنجیدہ فکر اور ان کے علمی بلند مقام کو آشکار کرتی ہیں ، ذیل میں مجلہ ” العرفان “(۱) میں شائع ہوئے ان کے مقالہ کا ترجمہ ہے :

مذہب شیعہ کے خلاف لکھنے کے علاوہ دنیا کی تمام چیزوں میں دگرگونی اور تغیرات پیدا ہوئے ہیں شیعوں پر تہمت و افتراء کے علاوہ ہر آغاز کا خاتمہ ہے شیعوں کے خلاف جاری کئے جانے والے احکام کے علاوہ ہر حکم کی ایک دلیل و علت ہے آخر کیوں ؟

کیا شیعہ شورشی اور فتنہ گر ہیں اور لوگوں کے سکون و اطمینان کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں ؟

____________________

۱۔ نمبر ۳/ سال ۱۳۸۱ ھ صفحہ ۲۳۰۔

۱۳

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :

سیف بن عمر تمیمی(۱) نامی ایک شخص نے گزشتہ دو سری صدی کے دوران دو کتابیں لکھی ہیں ، اس کی پہلی کتاب ” الفتوح و الردّة“ اور دوسری کتاب ” الجمل و مسیر عائشة و علیّ “ ہے ان دونوں کتابوں میں د رج ذیل مطالب کی ملاوٹ کی گئی ہے :

۱ ۔ ایسے حوادث و اتفاقات کی تخلیق کرنا ، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

۲ ۔ رونما ہوئے حقیقی حوادث و واقعات میں تحریف کرکے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت دکھانا ۔

اس بے لگام اور جھوٹے شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے چند من گھڑت اصحاب جعل کئے جن کے سعیر ، ہزہاز، اط ، حمیضہ ، وغیرہ نام رکھے ہیں ۔

اس نے تابعین اور غیر تابعین کے کچھ اشخاص جعلکئے ہیں اور ان کی زبانی اپنی جعلی احادیث نقل کی ہیں ۔

اس کی انہیں تخلیقات میں سے ایک سورما ہے جس کی شخصیت کو اس نے جعلکیا ہے اور اس کا فرضی نام بھی معین کیا ہے ، اور چند داستانوں کو گڑھ کر اس سے نسبت دی ہے یہ افسانوی سورما ”عبد اللہ بن سبا“ ہے جس کسی نے بھی شیعوں پر تہمتیں لگائی ہیں اور ان کے بارے میں جہل یا نفاق کے سبب افترا پردازی کی ہے ، ان سب نے اسی پر اعتماد کیا اور اس کی باتوں پر تکیہ کیا ہے۔

____________________

۱۔وفات دوسری صدی ہجری ۔

۱۴

”سیف“ کے بعد مؤرخین کی ایک جماعت نے فریب اور دھوکہ سے بھری ان دو کتابوں کو سند بنا کر کسی قسم کے تامل و تدبر کے بغیر دروغ پرداز اور چالباز سیف کے نظریات اور اندیشہ کو نقل کیا ہے ، اس طرح اس کے مذموم تفکر سے استفادہ کیا گیا ہے ۔

”طبری“ پہلا شخص تھا جو” سیف “کے دام فریب میں پھنس گیا تھا اس کے بعد ابن اثیر ، ابن عساکر اور ابن کثیر اور دوسرے لوگ” طبری“ سے آنکھیں بند کرکے روایت نقل کرنے کے سبب اس گڑھے میں گر گئے ہیں ۔

اس طرح جھوٹے ”سیف“ کی تخلیقات کی تاریخی کتابوں اور منابع میں بلاواسطہ طور پر ملاوٹ ہوئی ہے لیکن ان کی جڑ اور بنیاد، وہی سیف کی دو کتابیں ” الفتوح “ اور ” الجمل “ ہیں ۔

علامہ سید مرتضی عسکری کی کتاب ” عبد اللہ بن سبا“ مذکورہ حقائق کو صحیح دلائل کی بنا پر آشکار کرتی ہے اور قارئین کو صاف اور واضح راہنمائی کرکے حقیقت کی منزل تک پہنچاتی ہے ۔

انہوں نے اس کتاب کی تالیف میں انتہائی دقت سے کام لیا ہے اور موصوف کی تمام تر سعی و تلاش اس امر پر متمرکز رہی ہے کہ حق و حقیقت کے علاوہ کوئی چیز کاغذ پر نہ لکھی جائے ، قارئین کرام جس قدر بھی مفکر اور دانشور ہوں ، موصوف کے حاصل کئے ہوئے نتائج سے نہ تو انکار کرسکتے ہیں اورہی نہ شک و شبہ ، کیونکہ اس کتاب کے بہت سے دقیق مباحث کی بنیاد بدیہی قضایا پر مبنی ہے اور بدیہیات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے ۔

میں نے مختلف افراد سے بارہا بحث کی ہے ، اور ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا ہے ، لیکن اس گفتگو میں میں نے شیخ مفید ، سید مرتضی ، اور علامہ حلی سے آگے قدم نہیں بڑھایا ہے ، میری روش صرف یہ تھی کہ میں ان بزرگوں کے طرز بیان کو بدل دیتاتھا اور مخاطب کے لئے مطالب کو آشکار اور واضح تر بیان کرتا تھا ، کیونکہ کوئی تازہ اعتراض نہیں تھا کہ میں اس کا تازہ اور نیا جواب دیتا بلکہ اعتراض وہی تھا جو پچھلے لوگوں نے کر رکھاتھا اور اس کا جواب سن چکے تھے ، چونکہ یہ لوگ بھی گزشتہ لوگوں کی طرح اعتراض کرتے ہیں لہذا مجبور ہیں وہی جواب سنیں ،میں اپنے علمائے سلف کی باتوں کی تکرار کرتا تھا ، کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ بے خبر، معترضین علماء کی باتوں پر اعتراض کرتے ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ ان کی ہی باتوں سے آگاہ ہوجائیں ۔

بے شک میں علمائے تشیع کی پیروی کرتے ہوئے ” عبدا للہ بن سبا“ کے وجود کا معترف تھا ، لیکن اس کی رفتار کو حقیر اور شرم آور سمجھتا اور اس کی باتوں کا انکار کرتا تھا ۔

۱۵

علامہ عالیقدر جناب سید مرتضیٰ عسکری نے اس عمارت کی بنیاد ہی اکھاڑ کرکے رکھدی اور اپنی گہری تحقیقات سے ثابت کردیا کہ ” عبد اللہ بن سبا “ کی حقیقت ایک افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ! اور یہی وہ حقیقت ہے جو اس کتاب میں بے نقاب ہوئی ہے ، اگر میں یہ کہوں کہ عربی میں یہ تنہا کتاب ہے ، جس میں تاریخ کی علمی بنیادوں پر تحقیق کرکے اس پر غور کیا گیا ہے تو یہ ہرگز مبالغہ نہیں ہے ، اور میرا یہ کہنا بھی ہر گز بیجا نہیں ہوگا کہ اس دانشور مصنف نے دین و علم اور خاص طور پر شیعوں اورمذہب تشیع کی ایک ایسے زمانے میں بے مثال اور عظیم خدمت کی ہے کہ جب ان پر تہمتوں ، افتراء پردازیوں اور بہتان تراشیوں کی بھر مار ہورہی ہے ، موصوف نے اسلام کی ایک عظیم اور درخشان خدمت کی ہے ، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان رخنہ ڈال کر ان کے اتحاد و یکجہتی کو درہم برہم کرکے انھیں کمزوراوربے بس کردیا ہے ۔

ہم نے فرمانرواؤں اور ظالم حکام کی طرف سے بد ترین عذاب اور مشکلات برداشت کی ہیں تا کہ اسلام کی یکجہتی کا تحفظ کرکے دشمنی سے پرہیز کریں ، لیکن وہ روز بروز اپنی دروغ بیانی میں تشویق ہوتے رہے ہیں اور ان کی پہلی اور آخری سند ” ابن سبا“ کا افسانہ اور ” ابن السوداء “ کا خرافہ تھا کہ افسانہ ساز ”سیف “ نے انھیں ، خدا اوراپنے ضمیر کے سامنے کسی ذمہ داری کا احساس کئے بغیر جعلکیا ہے ۔ لیکن آج ” عبدا للہ ابن سبا “ نام کی کتاب لکھی جانے کے بعد یہ کاسہ لیس اور چاپلوس لوگ کیا جواب دیں گے ؟!

آخر میں میری تجویز ہے کہ یہ کتاب دیدہ زیب طباعت کے ساتھ دوبارہ شائع کی جائے اور عالم اسلام کے تمام شہروں میں نصف قیمت پر بیچی جائے تا کہ عام مسلمان اسے خرید کر اس کے عالی مطالب سے استفادہ کرسکیں ۔

نجف اشرف کے دانشوروں اور مراجع عظام کو چاہئے مذکورہ مقصد کی جانب توجہ کرتے ہوئے رقومات شرعیہ سے مدد کریں یا خیّر افراد کی اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں ۔

میری تجویز ہے کہ یہ حضرات تاکید کے ساتھ حکم فرمائیں تا کہ یہ کتاب دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر سستے داموں میں دنیا کے لوگوں تک پہنچ جائے ، یہ دین اسلام کےلئے ایک عظیم خدمت ہوگی۔

لبنان ۔ شیخ محمد جواد مغنیہ

۱۶

الازہر یونیورسٹی مصر کے مجلہ ” جامع الازھر “ میں شائع شدہ اعتراضات کا جواب

مجلہ ” جامع الازھر“ مصر میں کتاب ”عبدا للہ بن سبا “ کے بارے میں دو مقالے لکھے گئے ہیں(۱) اہم ترین مطلب جوان دو تنقیدی مقالوں میں ملاحظہ کے قابلہے عبارت ہے :

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اور ان کے باہمی اختلافات ، چودہ صدی پرانی بات ہے اور وہ سب اپنے مالک حقیقی سے جاملے لہذا چاہئے کہ ان مسائل سے صرف نظر کیا جائے(۲)

اس بات کے جواب میں ہم کہتے ہیں :

اولاً : ہم سیف کی روایتوں کی تحقیق کی فکر میں تھے ، جس موضوع پر اس نے روایتیں نقل کی تھیں ، ہم نے مجبور ہو کر ان ہی موضوعات پر بحث و تحقیق کی ہے ، چونکہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا“ میں عبد اللہ بن سبا کے افسانہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے باہمی اختلافات کے بارے میں سیف ابن عمر کی نقل کی گئی روایتوں پر بحث کی گئی ہے ، لہذا ہم مجبور ہوئے کہ ہر موضوع کے

____________________

۱۔ پہلا مقالہ کتاب کی نجف اشرف میں طبع شدہ پہلی اشاعت پر ایک تنقید ہے ، اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۳ ج۱۰، ۱۳۸۰ ئھ ” باب الکتب “ کے صفحہ۱۱۵۰ ۔۱۱۵۱ میں شائع ہوا ہے ۔ دوسرا مقالہ اسی کتاب کے مصر میں طبع شدہ نسخہ پر ایک تنقید ہے اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۲ /ج ۶/ ۱۳۸۱ ء ھ کے صفحہ۷۶۰ ۔۷۶۱ میں شائع ہوا ہے۔

۲۔ یہ جملہ پہلے مقالہ کے آخر پر لکھا گیا ہے اور باقی تمام مطالب اسی جملہ کی تفسیر اور تشریح میں لکھے گئے ہیں ۔

۱۷

بارے میں بحث کو جاری رکھتے ہوئے تجزیہ و تحقیق کریں ، جس طرح میں نے اپنی کتاب ” خمسون و ماة صحابی مختلق“ ( ۱۵۰ جعلی اصحاب) میں اصحاب کے فتوحات اور صدر اسلام کی جنگوں کو اپنا موضوع قرار دیگر بحث و تحقیق کی ہے ۔

سیف کی روایتوں پر تحقیق نے ہمیں اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ ایسی بحثوں میں داخل ہوجائیں جنھیں بہت سے دانشوروں نے پردے میں رکھا ہے ، لہذا ان موضوعات پر بحث و تحقیق نے انھیں برہم اور رنجیدہ کیا ہے ، البتہ ہم بھی ان کی طرح ایسے وقائع اور روداد کے رونما ہونے سے خوشحال نہیں ہیں اور ان سے پردہ اٹھانے اور ان پر غور و فکر کرنے سے ہمارا رنج و غم بھڑک اٹھتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خداوند عالم نے پیغمبر خدا کے اصحاب کو ملک و فرشتہ خلق نہیں کیا ہے کہ جبلت انسانی سے عاری ہوں بلکہ وہ دوسرے افراد کی طرح انسانی جبلت میں ان کے شریک ہیں ، اور ایمان اور اسلام میں استقامت کے مراتب میں بھی ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ، اس حد تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان میں سے بعض پر حد جاری کی ہے (کوڑے لگائے ہیں) اور ان میں سے بعض کے بارے میں ” آیات افک “ نازل ہوئی ہیں جن میں ان کی اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ انہوں نے پیغمبر خدا کی بیوی کی جانب نازیبانسبت دی تھی ، اور ان میں سے بعض کے بارے میں نفاق کی آیات نازل ہوئی ہیں ۔

ان تمام مطالب کے باوجود ہم نہیں سمجھتے کہ پیغمبر خدا کے اصحاب کو ان اختلافات اور تحولات کے ساتھ کیسے چھوڑدیں جبکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام اور عقائد کو ہم تک پہنچانے کے واسطہ ہیں کیا اس طرح صرف پیغمبر کو درک کرنے کی بنا پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عزت و احترام کرنا بحث و تحقیق کےلئے رکاوٹ اور دینداری کے نام پر علم ودانش کے دروازہ کو بند کرنے کے مترادف نہیں ہے ؟ چونکہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے صدیوں سے اپنے اوپر اجتہاد کا دروازہ بند کررکھتا ہے ، لہذا تحقیق و علم کا دروازہ بھی ان پر بند ہوگیا ہے ۔

۱۸

خدارا ! ہم نے اس مطلب کو قبول نہیں کیا ہے اور اسکی تائید نہیں کرتے ہیں بلکہ دین و اسلام کے نام پر اور اس پر عمل کرنے کیلئے اسلام کی راہ میں بحث و تحقیق کےلئے قدم اٹھاتے ہیں ۔

ثانیاً : کاش کہ ہم یہ جانتے کہ قدیم و جدید دانشور جو پیغمبر خدا کے اصحاب کی عزت و احترام میں جو غیرت و حمیت دکھاتے ہیں ، کیا اس میں پیغمبر خدا کے تمام اصحاب شامل ہیں خواہ اس کے سزاوار ہوں یا نہ ، خواہ وہ عیش پرست ہوں یا زاہد و پرہیزگار ؟ کیا یہ احترام عام طور پر اس لئے ہے کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کادیدار کیا ہے ؟ یا ان کےلئے مخصوص ہے جوسرمایہ دار و قدرتمندتھے اور حکومت تک ان کی رسائی تھی ؟ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ احترام شعوری یا لا شعوری طور پر صرف ان افراد سے مخصوص ہوکے رہ گیا جو حکومت اور ایوان حکومت سے وابستہ و مربوط ہیں ۔

جو کچھ ایک دوررس اور نکتہ شناس محقق کےلئے قابل اہمیت ہے وہ دوسرا مطلب ہے کیونکہ اگر تاریخ طبری میں ۳۰ ء ھ کے روئدادوں اور حوادث پر غور کیا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس نے یوں لکھا ہے :

اس سال ، یعنی ۳۰ ئھ میں جو کچھ ابوذر اور معاویہ کے درمیان پیش آیا ، اور سر انجام ابوذر کے شام سے مدینہ جلا وطن کئے جانے پر تمام ہوا ، اس سلسلے میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں کہ جنکو میں نقل کرنا پسندنہیں کرتا ہوں ، لیکن اس سلسلہ میں معاویہ کیلئے عذر پیش کرنے والوں نے ایک داستان نقل کی ہے ، اس داستان میں کہا گیا ہے:

شعیب نے اسے سیف سے نقل کیا ہے

اس کے بعد طبری نے ابو ذر اور معاویہ کے بارے میں نقل کی گئی داستان کے سلسلے میں سیف کی باقی روایت کو اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے ۔

۱۹

اگر ہم اس سلسلے میں تاریخ ابن اثیر کی طرف رجوع کریں گے تو دیکھتے ہیں کہ وہ کہتا ہے :

اس سال ( ۳۰ ھء) ابوذر کی داستان اور معاویہ کے توسط سے اسے شام سے مدینہ جلاوطن کرنے کا مسئلہ پیش آیا، اس رفتار کی علت کے بارے میں بہت سے مطالب لکھے گئے ہیں ، من جملہ یہ کہ : معاویہ نے انھیں گالیاں بکیں اور موت کی دھمکی دی ، شام سے مدینہ تک انھیں ایک بے کجاوہ اونٹ پر سوار کرکےنہایت ہی بیدردی سے ایک ناگفتہ بہ حالت میں مدینہ کی طرف جلاوطن کردیا ، مناسب نہیں ہے اسے یہاں بیان کیا جائے میں اسے نقل کرناپسند نہیں کرتا ہوں ، لیکن جنہوں نے اس سلسلے میں عذر پیش کیا ہے، یو ں کہا ہے :

اس بنا پر طبری نے یہاں پر ان بہت سی روایتوں کو درج نہیں کیا ہے جن میں معاویہ اور ابوذر کی روئداد بیان ہوئی ہے اور ان کو بیان کرنا پسند نہیں کرتا تھا، پھر بھی اس نے ان روایتوں کو بالکل ہی درج کرنے سے چشم پوشی نہیں کی ہے ۔ بلکہ سیف کی ان تمام روایتوں میں سے ایسی روایت کا انتخاب کیا ہے کہ معاویہ کا عذر پیش کرنے والوں کےلئے سند کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے اس کے کام کی توجیہ کے طورپر پیش کرتے ہیں ، جبکہ اس روایت میں پیغمبر اسلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بزرگوار صحابی ” ابو ذر“ کی حد سے زیادہ توہین کی گئی ہے ۔ اس کی دینداری پر طعنہ زنی کی گئی ہے ، اسے بیوقوف اور احمق کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس پرناروا تہمتیں لگائی گئی ہیں ۔

۲۰

کیونکہ اس روایت میں معاویہ کو حق بجانب ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے عذر کو درست قرار دیاگیا ہے ، اور اس طرح مؤرخین کا یہ قائد ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس تہی دست صحابی کی شخصیت اور احترام سے چشم پوشی کرتاہے اوران کی عظمت کو معاویہ جیسے حاکم اور ثروتمند شخص کے حرمت کے تحفظ میں قربان کرتاہے ، یہی کام ابن اثیر، ابن خلدون اور دوسروں نے بھی انجام دیا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ، بنیادی طور پر اسی سبب سے تاریخ طبری نے رواج پیدا کیا ہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ شہرت پائی ہے ، اور اس لئے سیف (بے دینی کا ملزم ٹھہرائے جانے کے باوجود) کی روایتوں کو اس قدر اشاعت ملی ہے اور اسی لئے مشہور ہوئی ہیں(۱) ۔

اس بنا پر ایسے دانشوروں نے صرف ایسے صحابیوں کے احترام کے تحفظ کےلئے اقدام کیا ہے جو صاحبِ قدرت و حکومت تھے ، اور” معاویہ بن ابو سفیان “ جیسے شخص کی اس لئے عزت کرتے ہیں کہ وہ صاحب حکومت و اقتدار تھا ، جبکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “(۲) میں شمار فرمایا ہے اور اس کی نفرین کرتے ہوئے فرمایا:

خداوند عالم اس کے شکم کو کبھی سیر نہ کرے “(۳) اسی طرح ” عبدا للہ بن سعد بن ابی سرح “(۴) جو ابتداء میں مسلمان ہوا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتبوں میں شمار ہوتا تھا، لیکن ایک مدت کے بعد مرتد ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن مجید پر تہمت لگائی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کا خون بہانا مباح قرار فرمایا تھا،ایسے شخص کو ان خصوصیات کے باوجود مصر کا گورنر ہونے کے ناطے اس کا نام تاریخ میں درج کرکے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

اس طرح خلیفہ عثمان کے بھائی ولید ، جس کے بارے میں آیہ نبا نازل ہوئی ہے :

<یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اِذا جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَیَّنُوا اَنْ تُصِیْبُوا قَوْماً

____________________

۱۔ کتاب کے فصل ” پیدائش افسانہ “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ تمام سیرت لکھنے والوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح حنین کے بعد معاویہ اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “ میں شمار فرمایا ہے ، اس لئے انھیں کچھ چیزیں دیدی ہیں ۔

۳۔ صحیح مسلم کے اس باب کی طرف رجوع کیا جائے کہ ”پیغمبر خدا نے جن پر لعنت کی ہے “

۴۔ اس کے حالات پر اگلے صفحات میں روشنی ڈالی جائے گی۔

۲۱

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اب آئیے دیکھتے ہیں  کہ ”معائنے“ کے لمحے میں توبہ کیوں قبول نہیں  ہوتیقرآن واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ :

فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْآ ٰامَنَّا بِاﷲِ وَحْدَه وَ کَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِه مُشْرِکِیْنَ

پھر جب انہوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم خدائے یکتا پر ایمان لائے ہیں  اور جن باتوں کا شرک کیا کرتے تھے سب کا انکار کر رہے ہیں (سورہ مومن۴۰آیت ۸۴)

یعنی جوں ہی انہوں نے ہمارے انتقام کودیکھا، توبہ کرنا چاہی، ہم اُن کی توبہ قبول نہیں  کریں گےجس لمحے ہمارا انتقام ان کے سر پر پہنچے، اس لمحے ان کا اظہارِ ایمان کرنا، اظہارِتوبہ کرنا بے فائدہ ہوگا

کیوں؟ اسلئے کہ توبہ صرف پشیمانی اورصرف پلٹنے کا نام نہیں  ہےیعنی اگر انسان کسی بھی سبب سے صرف اپنی گمراہی سے لوٹ آئے، تو اسے توبہ شمار نہیں  کیا جائے گاتوبہ اس وقت ہوگی جب انسان کے اندر ایک اندرونی انقلاب پیدا ہوجائےیعنی انسان کی شہوانی، غضبی اور شیطانی قوتیں اُس کی تباہکاریوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں، اور انسان کے وجود کی مملکت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیںیہ ہیں  توبہ کے معنیتوبہ یعنی انسان کا اندرونی انقلاب

ایک مرحلے پر پہنچنے کے بعد، جب انسان کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ موت کے چنگل میں پھنس چکا ہے اور عذاب ِ الٰہی اسے اپنے سامنے نظر آتا ہے، ظاہر ہے وہ ایسے موقع پر اظہارِ ایمان کرتا ہے، لیکن ایمان کا یہ اظہار اُس کے اندر پیدا ہونے والا مقدس انقلاب نہیں  ہوتاقرآن، فرعون کے بارے میں کہتا ہے :

۴۱

حَتّٰی اِذَآ اَدْرَکَهُ الْغَرَقُلا قَالَ ٰامَنْتُ اَنَّه لااَآ اِٰلهَ اِلَّا الَّذِیْ ٰامَنَتْ بِه بَنُوْآ اِسْرَآئِیْلَ

یہاں تک کہ جب غرق ہونے کے قریب پہنچ گیا تو اس نے آواز دی کہ میں اس خدائے واحد ہٗ لا شریک پر ایمان لے آیا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں (سورہ یونس۱۰آیت ۹۰)

فرعون جب تک دنیا میں ہے اوراس کے جسم کو دنیا کی ہوالگ رہی ہے وہ فرعونیت کا مظاہرہ کرتا ہے، کوئی دلیل نہیں  مانتا، کسی وعظ و نصیحت کوقبول نہیں  کرتا، موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان مقابلے منعقد کرواتا ہے، خود جادوگر ایمان لے آتے ہیں  لیکن وہ مزید سرکشی کا اظہار کرتا ہے، موسیٰ اور ان کی قوم کے قتل کے درپے ہوجاتاہے، اُن کا تعاقب کرتا ہےجب وہ دریا میں ڈوبنے لگتا ہے، پانی اسے گھیر لیتا ہے، اُسے اپنی زندگی کا اختتام نظر آنے لگتا ہے اور اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اب اُس کے پاس بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں  رہا، تو کہتا ہے:قَالَ امَنْتُ اَنَّه لااَآ اِٰلهَ اِلَّاالَّذِیْ ٰامَنَتْ بِه بَنُوْآ اِسْرَآئِیْل ہاں، میں اب موسیٰ کے خدا پر ایمان لے آیا

اب یہاں پہنچ کر اس کی توبہ قبول نہیں  ہوگی

خدا اس کی توبہ کیوں قبول نہیں  کرے گا؟

کیا خدا بخل سے کام لے رہا ہے؟

نہیں ، اگر توبہ ہو تووہ قبول کرے! یہ توبہ ہی نہیں  ہےتوبہ، یعنی باطن میں پیدا ہونے والا ایک مقدس انقلابیہ مقدس باطنی انقلاب نہیں  ہے

۴۲

ایک ایسا انسان جو دریا کی تہہ میں ہو، جس کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہو، وہ جس طرف بھی نگاہ اٹھائے اُسے پانی ہی دکھائی دے، اور اس حال میں وہ توبہ کا اظہار کرے، تو ایسے شخص کا ضمیر منقلب نہیں  ہوا ہے، اُس کی فطرت زندہ نہیں  ہوئی ہے، اُس نے خود اپنے خلاف قیام نہیں  کیا ہےبلکہ اب اس حال میں جب وہ اپنے آپ کوبے بس اور لاچار محسوس کر رہا ہے، تو مجبوراً اظہارِ تسلیم کر رہا ہےلہٰذا اُس سے کہتے ہیں  کہ: ٰٓالْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْل

تو آواز آئی کہ اب جبکہ تو پہلے نافرمانی کر چکا ہے(سورہ یونس ۱۰آیت ۹۱)

لمحے بھر پہلے جب تم آزاد تھے، اُس وقت تم نے یہ بات کیوں نہ کہی؟ گھڑی بھر پہلے جب تم آزاد تھے، اگر اُس وقت یہ کہا ہوتا، تو پتا چلتاکہ تمہارے اندر ایک مقدس انقلاب پیدا ہوا ہےلیکن اب جب یہ کہتے ہو، تو یہ، کسی مقدس انقلاب کی وجہ سے نہیں  ہے، بلکہ مجبوری اور بے بسی کی بنا پرہے

دنیا کا کونسامجرم ایسا ہے جو عدالت کے کٹہرے میں آنے کے بعد پشیمانی کا اظہار نہیں  کرتا؟ لیکن یہ پشیمانی نہیں  ہے، اصلاح نہیں  ہے، راہِ راست پرآنے کی علامت نہیں  ہےاگرگرفتار ہونے سے پہلے خودمجرم کے اندر انقلاب پیدا ہو جائے اور اس کے پاس جرم کرنے کاموقع ہو، اُس کے باوجود جرم کا مرتکب نہ ہو، تواس کا نام توبہ اور مخلصانہ رجوع ہےپس آخری لمحات میں، اس حال میں کہ جب انسان کو دوسری دنیا نظر آنے لگتی ہے اُس کی توبہ قبول نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ توبہ ہوتی ہی نہیں ایسا نہیں  ہوتا کہ وہ توبہ ہے لیکن اسے قبول نہیں  کیا جاتا، نہیں ، یہ اصلاً توبہ ہوتی ہی نہیں  ہے

 رہی بات یہ کہ اُس دوسری دنیا میں انسان کی توبہ کیوں قبول نہیں  ہوتی؟ توپہلی بات تو یہ ہے کہ اس کا جواب اسی پہلے جواب سے واضح ہےکیونکہ اُس دنیا میں بھی انسان ہر چیز کو دیکھ لیتا ہے، سب کچھ اُس کے سامنے ہوتا ہےلہٰذا جب وہ وہاں پرتوبہ کا اظہار کرتا ہے

۴۳

اور کہتا ہے کہ خدایا! میں پشیمان ہوں، تو اُس کا یہ اظہارِ پشیمانی اُس میں پیدا ہونے والے باطنی مقدس انقلاب کی وجہ سے نہیں  ہے، ایک آزاد انقلاب نہیں  ہے

دوسری بات یہ کہ جوں ہی انسان اس دنیا سے قدم باہر رکھتا ہے، اُسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اب اُس کی حیثیت کیاہےاُس کی حیثیت اُس پھل کی سی ہے جو ایک درخت پر تھااور اب پک کریا کسی بھی وجہ سے درخت سے جدا ہو گیا ہے

پھل جب تک درخت پر رہتا ہے، اُس وقت تک درخت کے نظام کا تابع ہوتا ہےاگر اُس کی نشوونما ہوتی ہے، تو درخت کے ذریعے ہوتی ہےاگر اُس تک پانی پہنچتا ہے، تو درخت کی جڑوں کے راستے پہنچتا ہےاگر غذائی مواد اُس تک پہنچتا ہے، تو درخت کے ذریعے پہنچتا ہےاگر وہ ہوا سے استفادہ کرتا ہے، تو درخت کے ذریعے استفادہ کرتا ہےاگر اُس کا ذائقہ میٹھا ہوتا ہے، تو اُس عمل اور ردِ عمل کا نتیجہ ہوتا ہے جو درخت میں انجام پاتا ہےاگر اُس کا رنگ بدلتا ہے، تو یہ بھی درخت ہی کے ذریعے ہوتا ہے

جوں ہی پھل درخت سے جدا ہوتا ہے، اُس کے لئے موجود تمام امکانات ختم ہوجاتے ہیں مثلاً لمحے بھر پہلے جو سیب زمین پر گرا تھا، وہ کچا درخت پر موجود تھا، اُس کے لئے اِس بات کا امکان تھا کہ وہ پک جائے، ایک اور مرحلہ طے کرلے، اُس کا رنگ بدل جائے، اُس کے حجم میں اور اضافہ ہوجائے، ذائقہ اور خوشگوار ہوجائے، اُس کی مٹھاس بڑھ جائے، وہ زیادہ خوشبو دارہوجائےلیکن جوں ہی وہ درخت سے گرتا ہے، اُس کے لئے تمام امکانات ختم ہوجاتے ہیں یعنی جس لمحے وہ درخت سے گرا تھا وہی اُس کی آخری کیفیت، آخری حالت ہوتی ہے انسان درخت ِ کائنات کا پھل ہے، دنیا کے درخت کا پھل ہےہم انسانوں کے لئے موجود تمام امکانات، اسی کائنات، اسی دنیا میں ہیں ہمارے لئے اچھے ہونے کا امکان اسی دنیا میں پایاجاتاہے،

ہمارے بُرے اور بدتر ہونے کے وسائل بھی اسی دنیا میں موجود ہیں جب ہم اس دنیا میں موجود ہوتے ہیں ، توکائنات اور دنیا کے درخت پر ہوتے ہیں ، اس درخت کا پھل ہوتے ہیں

۴۴

این جہان ہمچون درخت است اے گرام

ما بر آن، چون میوہ ھای نیم خام

جب تک ہم کائنات کے درخت کی شاخ پر ہیں ، ہمارے پاس تمام امکانات موجودہیں اگرہم عبادت کریں، توپکے ہوئے پھل کی طرح پک جائیں گے اور اگر گناہ کے مرتکب ہوں، توسڑے ہوئے پھل کی مانند سڑ جائیں گےجیسے کوئی کیڑا یا گھن(۱) درخت کے ذریعے اس پھل تک پہنچ گیا ہو

توبہ بھی امکانات میں سے ایک امکان ہےاُس پانی یا خوراک کی مانند ہے جو درخت ِ کائنات کے ذریعے ہم تک پہنچنا چاہئےلہٰذامرنے کے بعد ہمارے کام نہیں  آئے گی

کیوں؟

اسلئے کہ ہم نے عرض کیا کہ توبہ ایک مقدس انقلاب ہے، اور تمام تبدیلیوں، تغیرات اور انقلابات کا تعلق اِس دنیا سے ہےاپنی راہ کو بدلنا، اپنی سمت میں تبدیلی لانا سب کا سب اِس دنیا سے تعلق رکھتا ہے اوپر اٹھنا اور نیچے گرنا اس دنیا میں ممکن ہےجوں ہی ہم اُس دنیا میں قدم رکھیں گے، جس حد اور درجے میں ہوں گے، جس راہ پر ہوں گے، جس سمت ہمارا رخ ہوگا وہیں  ٹھہر کے رہ جائیں گےاُسی مقام پر ہمارے عمل کی آخری حد ختم ہوجائے گی

ایک اور مثال پیش خدمت ہے:

بچہ جب تک رحمِ مادر میں ہوتا ہے، ماں کے وجود سے وابستہ ہوتا ہےاُس کی خوراک ماں کی جانب سے ہے، اُس کے بدن کا مائع او رپانی ماں کے وجود سے ہے، اُس کی تندرستی اور بیماری ماں سے ہےلیکن جیسے ہی وہ ماں سے پیدا ہوتا ہے،

--------------

1:- درخت یا غلے میں لگنے والا ایک کیڑا

۴۵

ماں سے اُس کی یہ وابستگیاں ختم ہوجاتی ہیں ، اُس کی زندگی ایک اور نظام کے تابع ہوجاتی ہےاور اب وہ ایک لمحے کے لئے بھی اُس پہلے نظام کے ساتھ، جو رحمِ مادر کا نظام تھا، زندگی بسر نہیں  کر سکتاجوں ہی انسان اِس دنیا سے جاتا ہے، اُس کی زندگی کا نظام یکسر بدل جاتا ہےاور اُس کے لئے اِس دنیا کے نظاموں سے معمولی سے استفادے کاامکان بھی نہیں  رہتاعمل اور توبہ، پیش قدمی اور پسپائی، اوپر اٹھنا اور نیچے آنااور راستے اور سمت کو تبدیل کرنا، یہ سب باتیں اِس دنیا سے تعلق رکھتی ہیں

حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے:

اَلْیَوْمَ عَمَلٌ وَ لَا حِسَابٌ وَ غَدًا حِسَابٌ وَ لَا عَمَلَ (۲)

فرماتے ہیں : اے لوگو ! آج عمل کا دن ہے، حساب کادن نہیں  دنیا جزا اور احتساب کا مقام نہیں  البتہ یہ نہیں  کہہ رہے کہ دنیا میں کسی مکافات ِعمل کا سامنا نہیں  کرنا پڑتابعض اعمال کی دنیا ہی میں مکافات ہےاور دنیا میں انسان کو جن مصیبتوں کا سامناکرنا پڑتا ہےاُن میں سے بعض انسان کے عمل کا نتیجہ ہوتی ہیں  لیکن یہ نہ سمجھئے گا کہ خدا ہر بُرے عمل کا حساب اسی دنیا میں لے لیتا ہے، اور نہ یہ تصور پیدا ہوکہ جس کسی بُری حالت کا انسان کو شکار ہونا پڑتا ہے وہ اُس کے کسی گزشتہ عمل کا نتیجہ ہوتی ہےنہیں  ، ایسا نہیں   ہے

لہٰذا اگر اِس دنیا میں انسان کو کوئی سزا نہیں ملتی، تو اِس کا یہ مطلب نہیں  کہ اُس کا حساب صاف ہےنہیں ، ایسا نہیں  ہےاوراگر کسی کو دنیا میں کوئی سختی دیکھنا پڑے، تو یہ اِس بات کی دلیل نہیں  ہے کہ وہ اعمالِ بد کا مرتکب ہوا ہےمثلاً یہ جوایک سیلاب آیا اور پاکستانیوں کو ہلاکت سے دوچار کیا(۳)

--------------

۲:- آج عمل کا دن ہے، حساب نہیں  ہے اور کل حساب کا دن ہوگا، عمل کی گنجائش نہیں  ہوگی(نہج البلاغہخطبہ۴۲)

۳:- یہ اُس زمانے میں پاکستان میں آنے والے ایک سیلاب کی جانب اشارہ ہے

۴۶

کیا یہ اُن کے بُرے عمل کی دلیل ہے؟ یعنی خدا نے اِس دنیا ہی میں اُن کا حساب کردیا ہے؟ نہیں ، ایسا نہیں  ہےاسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ:اَلْیَوْمَ عَمَلٌ وَ لَا حِسَابٌ وَ غَدًا حِسَابٌ وَ لَا عَمَلَ دنیامقامِ عمل ہے، مقامِ حساب نہیں اِس کے برعکس آخرت مکانِ عمل نہیں ، صرف اور صرف حساب لئے جانے کی جگہ ہے

پس یہ جو انسان کے لئے توبہ کا وقت موت اور اُس کے آثار نظر آنے سے پہلے تک محدودکیا گیا ہے، اور جب انسان کو موت اپنے سر پر نظر آنے لگے (جیسے فرعون کے ساتھ ہوا تھا) تو ایسے وقت میں اُس کی توبہ قبول نہیں  کی جائے گی، اور اسی طرح عالمِ آخرت میں توبہ نہ ہونے کا سبب وہی باتیں ہیں  جنہیں  ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیا

اِن سے ہمیں کیا نتیجہ حاصل کرنا چاہئے؟

بقول حضرت علی علیہ السلام:اَلْیَوْمَ عَمَل (آج عمل کا دن ہے) لہٰذا ہمیں موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئےاُن لوگوں میں سے نہیں  ہونا چاہئے جویہ سوچ کرتوبہ میں تاخیر کرتے رہتے ہیں  کہ ابھی بہت وقت پڑاہےخداوند عالم فرماتا ہے:

یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیْهِمْط وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا (۴)

یہ امید رکھنا کہ ابھی دیر نہیں  ہوئی، ابھی توہماری کافی عمر باقی ہے، ابھی ہم نے دنیا میں دیکھا ہی کیا ہے، یہ شیطانی بہلاوے ہیں ، نفسِ امارہ کے فریب ہیں  انسان کو توبہ میں تاخیر نہیں  کرنی چاہئے

یہاں ہماری تمہید ختم ہوئی، اب حضرت علی ؑ کے کلام کی طرف آتے ہیں :

--------------

۴:- شیطان اُن سے وعدہ کرتا ہے اور اُنہیں  امیدیں دلاتا ہے، اور وہ جوبھی وعدہ کرتا ہے وہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں  ہے(سورہ نسا ۴آیت ۱۲۰)

۴۷

توبہ کی شرائط

جب اُس شخص نے حضرت علی ؑ کے سامنے استغفار کی اور حضرت ؑ نے یہ محسوس کیا کہ وہ شخص استغفار کے معنی، اُس کی حقیقت اور اُس کے بلند مقام سے واقف نہیں  ہے، توآپ ؑ نے اعتراض کرتے ہوئے اُس سے کہا:ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ، أَ تَدْرِیْ مَا الْاِسْتِغْفَارُ؟ اَلْاِسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّیِّیْنَ خدا تجھے موت دے، تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے اورروئے!تولفظ استغفارکہتا ہے؟ جانتا بھی ہے استغفار کی حقیقت کیا ہے؟ استغفار علیین کا مرتبہ ہے(علیین یعنی وہ لوگ جو قرب ِ الٰہی کے اُن بلند درجات پر فائز ہیں ) اِس کے بعد آپ ؑنے فرمایا: استغفار اور توبہ ایک کلمہ ہے جو چھے بنیادوں پر قائم ہے

حضرت علی ؑکی بیان کی ہوئی ان چھے بنیادوں کو علما نے اس طرح سمجھا ہے کہ اِن میں سے دوتوبہ کی رکن و اساس ہیں دوسری دوتوبہ کی قبولیت کی شرط ہیں  (یعنی دو توبہ کی حقیقت کو تشکیل دیتی ہیں  اور دوسری دو حقیقی توبہ کی قبولیت کی شرط کو) اور آخری دوتوبہ کے کامل ہونے کی شرط ہیں

اب دیکھتے ہیں  یہ چھے شرائط ہیں  کیا؟

فرماتے ہیں :اَوَّلُهَا النَّدَمُ عَلٰی مَا مَضَی توبہ کی پہلی شرط (رکن) ماضی پر پشیمانی، حسرت، افسوس اور باطنی خلش اور تکلیف ہےیعنی توبہ اُس وقت حقیقی توبہ ہے جب آپ اپنے گزشتہ سیاہ اعمال نامے پر نگاہ ڈالیں، تویکلخت ایک ندامت، ایک پشیمانی، ایک افسوس اور غیرمعمولی حسرت آپ کے اندر پیدا ہو، آپ اپنے دل میں ایک خلش محسوس کریں اور خود سے کہیں  کہ یہ میں نے کیا کیا تھا؟

۴۸

آپ نے دیکھا ہوگا کہ کبھی انسان کوئی کام اس خیال سے کرتا ہے کہ اس سے اُسے فائدہ پہنچے گایہ کام کرنے کے بعد یکایک وہ دیکھتا ہے کہ مثلاً اس کام سے اُسے دس ہزار روپے کا نقصان ہوا ہےجب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے توکہتا ہے:اوہ!اور اپنی انگلی دانتوں میں دبا لیتا ہےہائے! میں نے کیوں ایسا کام کیا؟ اس چیز کو پشیمانی اور حسرت کہتے ہیں کبھی کہتے ہیں  کہ:میں نے فلاں کام کیا، اور اب اس کی وجہ سے اتنا پشیمان ہوں، ایساپچھتا رہا ہوں کہ اگر پچھتاوے کے سینگ ہوتے تو ابھی میرے سینگ نکل آتےایسی ہی پشیمانی اور ندامت توبہ کی پہلی شرط ہےخدا نخواستہ آپ کے لب ایک حرام مثلاً شراب سے آلودہ ہیں پھر ایک مرتبہ آپ سوچتے ہیں  کہ آخر قرآنِ کریم نے شراب نوشی کے بارے میں کیا کہا ہے؟ قرآن کہتاہے کہ:

یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلااَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن

اے ایمان والو !شراب، جوا، بت، پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہٰذا ان سے پرہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کرسکو(سورہ مائدہ۵آیت۹۰)

شراب، جوا اوربت پرستانہ کام خبائث ہیں ، اگربہتری، سعادت اور کامیابی چاہتے ہو، تو اِن سے دور رہوشراب نوشی، سعادت اور کامیابی کے منافی عمل ہےجوا، اسلام میں حرام قرار دیا گیاہے، یہ جس شکل وصورت میں بھی ہوگناہانِ کبیرہ میں اِس کاشمار ہوتا ہے

مسلمان جوا نہیں  کھیلتا

۴۹

غیبت کی مذمت

ہم کیسے مسلمان ہیں  جو اسلام کی طرف سے حرام کئے گئے بڑے بڑے کاموں کا بھی ارتکاب کر بیٹھتے ہیں ؟ قرآن ہمارے درمیان رائج اس گناہ یعنی غیبت کرنے اورتہمت لگانے کے بارے میں اورکس قدرمتنبہ کرے؟ خدا کی قسم! انسان کو لوگوں کے درمیان رائج اس قدر تہمت پر تعجب ہوتا ہے!!

آپ جانتے ہیں  تہمت کیا ہے؟ ہمارے پاس اوّل درجے کے دو گناہانِ کبیرہ ہیں  ان میں سے ایک جھوٹ بولنااور دوسرا غیبت کرناہےگناہِ کبیرہ، یعنی وہ گناہ جس کی وجہ سے انسان جہنم میں جانے کا مستحق ہوجاتا ہے

وَ لااَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًاَ (۱)

ایک دوسرے کی غیبت نہ کرنا، کیا تم میں سے کوئی یہ بات پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے(سورہ حجرات۴۹آیت۱۲)

اے لوگو! ایک دوسرے کی غیبت نہ کرناکیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ مسلمان بھائی کا گوشت کھائے؟  مردے کا گوشت کھاناکس قدرکریہہ اور نفرت انگیز ہےخصوصاً اگر انسان اس مردہ شخص کوجانتا ہو اور وہ اس کا دوست بھی ہوکیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی تعبیر ہوسکتی ہے؟

۵۰

تہمت، یعنی جھوٹ بھی اور غیبت بھییعنی جب یہ دو گناہ (جھوٹ اور غیبت) مل جائیں، تو اس کا نام تہمت ہوجاتا ہےہمارے درمیان تہمت کتنی عام ہےہم میں سے بعض لوگ مقدس بننے کی خاطر (کسی کی غیبت کرتے ہوئے) اپنی بات سے پہلے ”لوگ کہتے ہیں “ لگادیتے ہیں مثلاً کسی شخص نے کسی دوسرے پر تہمت لگائی، اب ہم چاہتے ہیں  کہ اس تہمت کا بار اپنی گردن پر نہ لیں (ہم سمجھتے ہیں  کہ خدا کو بھی دھوکا دیا جاسکتا ہے!) لہٰذا ہم کہتے ہیں :لوگ کہتے ہیں  کہ فلاں شخص ایسا ہے، کہتے ہیں  کہ فلاں جگہ ایسی ہےدوسرا ہم سے سننے کے بعد کسی اور جگہ جاکے کہتا ہے:لوگ ایسا کہتے ہیں  اور پھر کہتا ہے:میں یہ نہیں  کہتاکہ میں کہتا ہوں (بلکہ) دوسرے ایسا کہتے ہیں قرآن نے اس سے بھی منع کیاہے اور اس کو بھی ایک بڑا گناہ شمار کیا ہےفرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ

جو لوگ یہ چاہتے ہیں  کہ صاحبانِ ایمان میں بدکاری کا چرچا پھیل جائے، اُن کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے(سورہ نور۲۴آیت ۱۹)

جو لوگ کسی مومن شخص، مومن افرادیا مومنین کے کسی ادارے کے بارے میں کوئی بُری اور قبیح بات پھیلانا پسند کرتے ہیں  (اُن کے لئے ایک دردناک عذاب ہے) اگر آپ نے کسی احمق سے، کسی مفاد پرست سے یاکسی ایسے شخص سے جس کی بات کی جڑکے بارے میں آپ جانتے ہوں کہ وہ کہاں ہے کسی کے متعلق کوئی بات سنی ہو، تو آپ کو حق نہیں  پہنچتا کہ آپ کہیں  کہ ”میں نے سنا ہے“یا یہ کہ ”لوگ کہتے ہیں “خودیہ کہنا بھی کہ ”کہتے ہیں “ تشیع فاحشہ (برائی پھیلانا) ہےدوسرے گناہ بھی اسی طرح ہیں

۵۱

جو شخص نظربازی کرتا ہے، لوگوں کی عزت وناموس کے ساتھ خیانت کرتا ہے، اسے پتا ہونا چاہئے کہ پیغمبرا سلام کا فرمان ہے :

زِنَی الْعَیْنِ النَّظَر

نظر بازی آنکھوں کا زنا ہے(بحار الانوارج ۱۴)

(اسی طرح) جس نے نماز ترک کی، جس نے روزہ چھوڑا

مجھے نہیں  معلوم ہم کس قسم کے مسلمان ہیں ؟ انسان کو شرم محسوس ہوتی ہے، لوگ ماہِ رمضان میں سڑک پر چلتے ہوئے، علیٰ الاعلان ہونٹوں میں سگریٹ دبائے چلے جارہے ہوتے ہیں ! کوئی گاڑی میں بیٹھا سگریٹ پیتا نظر آتا ہےہر سال پولیس کی جانب سے اعلان کیا جاتا ہے کہ کسی کو روزہ خور وں کے خلاف اقدام کا حق نہیں  ہے، خودپولیس کارروائی کرے گیہم نے تو نہیں  دیکھا کہ کسی پولیس والے نے کسی روزہ خور کوٹوکا ہو

علیٰ الاعلان روزہ خوری اسلام کی بے حرمتی ہے، یہ عمل قرآن کی بے عزتی کرنا ہے، پیغمبر اسلام کی توہین کرنا ہےاگر آپ روزہ خوری کرنا چاہتے ہیں ، تو اپنے گھر میں کیجئےاگرآپ نے اپنے گھر میں روزہ خوری کی، توآپ ایک گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہوں گے لیکن جب آپ سڑکوں پر روزہ خوری کرتے ہیں ، تو روزہ خوری کے ساتھ ساتھ آپ اسلام کی توہین بھی کرتے ہیں

توبہ کرنے کے لئے پہلے ہمیں چاہئے کہ اپنی کی ہوئی غیبتوں پرایک نظر ڈالیں، اپنی شراب نوشیوں کو پیش نظررکھیں، اپنی کی ہوئی تہمتوں کو مد ِنظررکھیں، اپنے جوا کھیلنے پرنظرڈالیں، اپنی نظر بازیوں کو دیکھیں، خواتین اپنے عریاں لباسوں کاجائزہ لیںپیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے معراج میں ایسی عورتوں کو دیکھا جنہیں  ان کے بالوں سے لٹکایا گیا تھا اور آتشیں کوڑوں سے ان کو مار رہے تھےمیں نے حیرت کے ساتھ جبرئیل ؑ سے پوچھا: یہ کون ہیں ؟

۵۲

 جبرئیل ؑ نے کہا: یہ آپ کی امت کی وہ عورتیں ہیں  جواپنے بال نامحرموں سے نہیں  چھپاتی تھیںاُس وقت بے پردگی کا رواج تو نہیں  تھا لیکن رسولؐ نے چشمِ باطن سے دیکھا(یہ چیزیں چودہ سو سال پہلے سے کتابوں میں ہیں ) فرمایا: میں نے ایسی عورتوں کو دیکھا جنہیں  ان کے سینوں سے لٹکایا گیا تھا اور ان کے سینوں پر کوڑے مارے جارہے تھےیہ عورتیں جو اِس حال میں تھیں، یہ کون تھیں؟ فرمایا: مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت کی وہ عورتیں ہیں  جو دوسروں کے سامنے اپنے بدن کی نمائش کرتی ہیں

آخر دنیا کی یہ چار دن کی زندگی کیا حیثیت رکھتی ہے کہ (اِسے اس طرح بسر کرکے) انسان اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے عذابِ الٰہی میں مبتلاکرلے؟ بخدا! درست ہے، بقولِ یہ چکنے گھڑے ہیں یہ جسارت آخرکب تک؟ خدا کے خلاف بغاوت کب تک؟ پیغمبر اسلام کی توہین کب تک؟ اب یہ توہین چاہے زبانی کی جائے چاہے تحریریانسان کیا کہے کہ اِس ملک میں ایسی کتاب شائع ہوتی ہے جو سر تا پا پیغمبر اسلام کی توہین سے بھری ہے او راس کی پشت پر باقاعدہ نمبر بھی ثبت ہے (یعنی وہ باقاعدہ حکومت سے منظور شدہ بھی ہے) اسے اشاعت کی باقاعدہ اجازت بھی دی گئی ہے! ہوش میں آؤ، ذرا سوچو، کب تک غفلت میں پڑے رہو گے؟

اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِکْرِ اﷲِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَق “ (سورہ حدید۵۷آیت ۱۶)

کیا وہ وقت نہیں  آیا ہے کہ ہمارے یہ دِل جھک جائیں، خاشع ہوجائیں، یادِ خدا کے لئے نرم ہوجائیں اور خدا کی جانب سے نازل ہونے والے اس برحق قرآن کی پرواہ کریں؟ اس کی تعلیمات پر توجہ کریں؟

۵۳

دیکھئے محرم آرہا ہےاگرہمارا دل زیادہ سے زیادہ اس بات پر خوش ہوکہ کسی مجلس میں شرکت کر کے چند قطرے آنسو بہا لیں، توواﷲ یہ کافی نہیں  ہےہمیں اپنے اوراپنے اسلام کے حال پرکچھ دیرغوروفکر کرنا چاہئےہمارے بچے ہاتھ سے نکل گئے ہیں ، ہماری اولادیں ہاتھ سے نکل گئی ہیں ، ہماری لڑکیاں ہاتھ سے نکل گئی ہیں ، ہمارا معاشرہ ہاتھ سے نکل گیا ہے، ہمیں ان کے بارے میں کچھ سوچنا چاہئے، ہمیں چاہئے توبہ کریں

(دوبارہ امیر المومنین ؑکے کلام کی طرف آتے ہیں )

فرمایا: سب سے پہلے توتمہاری روح میں خلش پیدا ہونی چاہئے، اسے شعلہ ور ہونا چاہئے، تم اپنے آپ کو حسرت میں ڈوبا ہوا محسوس کرو، ندامت اور پچھتاوے میں غرق محسوس کرواپنے گناہوں پر نظر ڈالو! اپنے اعمال کا محاسبہ کرو، اپنے آپ سے حساب لو، دیکھو کہ روزانہ کتنے گناہانِ کبیرہ کا ارتکاب کرتے ہو؟ شیخ بہائی کہتے ہیں :

جد تو آدم بہشتش جای بود

قدسیان کردند بہر او سجود

یک گنہ ناکردہ، گفتندش تمام

مذنبی، مذنب، برو بیرون خرام

تو طمع داری کہ با چندین گناہ

داخلِ جنت شوی اے روسیاہ؟

۵۴

(اے انسان تیرے جد آدم ؑ بہشت میں تھے اور فرشتوں نے ان کو سجدہ کیا تھالیکن جوں ہی وہ ایک گناہ کے مرتکب ہوئے، اُن سے کہہ دیا گیا کہ بس اب یہ سب کچھ ختمتم گناہ گار ہواب یہاں سے چلے جاؤلیکن اے روسیاہ! تویہ سمجھتا ہے کہ کئی گناہ کرکے بھی جنت میں چلا جائے گا)

توبہ کی دوسری شرط (رکن) کیا ہے؟ فرمایا:اَلْعَزْمُ عَلیٰ تَرْکِ الْعَوْدِ ایک مردانہ عزمِ، ایک پکا ارادہ کہ اب مزید میں یہ عملِ بد انجام نہیں  دوں گا

البتہ یہ جو شعر میں نے پڑھے ہیں ، اِن سے کہیں  میں نے آپ کو مایوس نہ کیا ہویہ نہ سمجھئے گا کہ لیجئے ہمارا تو کام تمام ہوگیانہیں

لاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اﷲِ

(سورہ زمر۳۹آیت ۵۳) خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہونا

جتنے بھی گناہ کئے ہوں، بارگاہِ الٰہی میں لوٹ جائیے، خدا قبول کرلے گا(توبہ کی قبولیت کی) تمام شرائط کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن گناہ کی حد اور مقدار کا ذکر نہیں  کیا گیایہ نہیں  کہا ہے کہ اگر تمہارے گناہ اس حد تک ہوئے تو تمہاری توبہ قبول ہوگی اور اگر اس سے زیادہ ہوئے تو نہیں بلکہ یہ کہا ہے کہ توبہ کرو، قبول ہوگی، البتہ شرط یہ ہے کہ توبہ صدقِ دل سے کی گئی ہواگرآپ کے باطن میں خلش پیداہوجائے، آپ کی روح میں ایک مقدس انقلاب بپا ہوجائے،

۵۵

 آپ گناہ کی طرف نہ پلٹنے کا عزم کرلیں، تو آپ کی توبہ قبول ہےہاں، شرط یہ ہے کہ آپ کاعزم حقیقی عزم ہوایسا نہ ہو کہ یہاں آئے اور دل ہی دل میں اپنے بُرے حالوں پر افسوس کیا اور باہر جاتے ہی سب کچھ بھول گئےاس سے کوئی فائدہ نہیں ، بلکہ یہ زیادہ بُری چیز ہے

امام ؑ فرماتے ہیں : جو لوگ استغفار کرتے ہیں  اور پھردوبارہ گناہ کرتے ہیں ، اُن کا استغفار کرنا استغفار نہ کرنے سے زیادہ برا ہےکیونکہ یہ توبہ کا مذاق اڑانا ہے، خدا کی تضحیک کرنا ہے، توبہ کی تضحیک کرناہے

یہ دوچیزیں توبہ کی رکن ہیں :

پہلی چیز: ندامت، حسرت، باطنی خلش، ماضی پر دکھ، گناہ پر مکمل پچھتاوا

اور دوسری چیز: دوبارہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم اور پکا ارادہ

لیکن توبہ کی دو شرطیں بھی ہیں :

پہلی شرط یہ ہے کہ لوگوں کے حقوق، حقوق الناس اُن کو لوٹانا چاہئیں خدا عادل ہے، وہ اپنے بندوں کے حقوق نظرانداز نہیں  کرتا(لوگوں کے حقوق انہیں  لوٹانے کے) معنی کیا ہیں ؟ آپ نے لوگوں کا مال ہڑپ کیا ہے؟ آپ کو چاہئے کہ وہ مال اس کے مالک کو واپس کریں، یا کم از کم اُس کی رضامندی حاصل کریں آپ نے لوگوں کی غیبت کی ہے؟ آپ کو انہیں  راضی کرنا چاہئے، آپ کو چاہئے کہ خود کو چھوٹا بنائیں، اُن کے پاس جائیں، اُن سے کہیں  کہ جناب میں نے آپ کی غیبت کی ہے، التماس کرتا ہوں کہ مجھے معاف فرمادیں

۵۶

ایک قصہ خود میرے ساتھ بھی پیش آیا ہے، نہیں  معلوم اسے بیان کرنا درست ہے یا نہیں ؟

میری طالب ِ علمی کا زمانہ تھا، طالب ِ علمی کے دنوں میں، البتہ دوسری جگہوں سے کم، لیکن پھر بھی ایسا اتفاق ہوجاتا ہے کہ انسان کسی محفل میں بیٹھا ہوتا ہے اور کچھ لوگ مختلف لوگوں کی غیبت شروع کردیتے ہیں  اور بسا اوقات انسان خود بھی اس میں مبتلا ہوجاتا ہےخدا رحمت کرے مرحوم آیت اﷲ العظمیٰ آقائے حجت رضوان اﷲ علیہ پرمیں ایک مرتبہ ایسے حالات میں پھنس گیا اور کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ جا بیٹھا جنہوں نے آقائے حجت کی غیبت کی آقائے حجت میری گردن پر استادی کا حق رکھتے ہیں ، میں نے کئی سال ان سے درس پڑھاتھا، حتیٰ اُن کے درس میں ایک عام مقابلے میں اُن سے انعام بھی حاصل کیاتھا

ایک مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ یہ بات ٹھیک نہیں  ہےمیں کیوں وہاں جا پھنسا؟ ایک مرتبہ گرمیوں میں وہ حضرت عبد العظیم (کے حرم کے علاقے) میں تشریف لائے ہوئے تھےایک دِن سہ پہرکے وقت میں نے ان کے گھر پر دستک دی اور کہا کہ اُنہیں  بتائیں فلاں آیا ہےوہ اندرونی میں تھےاجازت عنایت کی مجھے یاد ہے کہ میں اندر گیا، اُن کے سر پر ٹوپی تھی اور وہ ایک تکئے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے (وہ بوڑھے اور بیمار تھے، یہ اُن کے انتقال سے دو تین سال پہلے کی بات ہے) میں نے عرض کیا: جناب ِ عالی میں ایک بات عرض کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں انہوں نے فرمایا:کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا:میں نے آپ کی غیبت کی ہے، البتہ بہت کم، لیکن نسبتاً زیادہ غیبت سنی ہےمیں اپنے اِس عمل پر پشیمان ہوں، کہ آخر میں کیوں ایک ایسی محفل میں شریک رہاجس میں لوگ آپ کی غیبت کررہے تھے، پھر میں نے آپ کی غیبت سنی اور کیوں خود میری زبان پر بھی آپ کی غیبت آگئی اب جبکہ میں نے عزم کرلیا ہے کہ کبھی آپ کی غیبت نہیں  کروں گا، اور ہرگز کسی سے آپ کی غیبت نہیں  سنوں گالہٰذا میں یہ عرض کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے معاف کردیں، مجھ سے درگزر فرمائیں

۵۷

وہ جس بزرگواری کے حامل تھے، انہوں نے اُس کامظاہرہ کرتے ہوئے مجھ سے فرمایا: ہم جیسے لوگوں کی غیبت کرنے کی دو قسمیں ہیں  ایک مرتبہ (ہماری غیبت) اس طرح کی جاتی ہے کہ اُس سے اسلام کی توہین ہوتی ہے اور ایک مرتبہ (غیبت) خود ہماری ذات سے متعلق ہوتی ہے(میں سمجھ گیا کہ ُان کا مقصد کیا ہے) نہیں ، میں نے ایسی کوئی بات نہیں  کی اورکوئی ایسی جسارت نہیں  کی جس سے اسلام کی توہین ہوتی ہوجو کچھ تھا وہ آپ کی ذات سے متعلق تھاانہوں نے فرمایا: میں نے تمہیں  معاف کیا

انسان اگر توبہ کرنا چاہتا ہے، تواُسے چاہئے کہ لوگوں کے حقوق اور اُن کے قرض ادا کرےایسا شخص جس کے ذمے زکات ہو اور اس نے وہ ادا نہ کی ہو، اُس کی گردن پر حق الناس ہے، اسے چاہئے کہ وہ ادا کرےایسا شخص جس کے ذمے خمس ہو اوراُس نے وہ ادا نہ کیا ہو، اُس کی گردن پر حق الناس ہے، اُسے چاہئے اُسے ادا کرےایسا شخص جس نے رشوت لی ہو، اُسے چاہئے وہ اسے اس کے مالک کو واپس کرےایسا شخص جس نے کسی بھی ذریعے سے کوئی حرام مال بنایا ہے، اُسے چاہئے کہ اُس مال کو واپس کرےاگر کسی نے کسی پرکوئی زیادتی کی ہو، تو اسے چاہئے کہ اُ س کی رضاحاصل کرےتوبہ، یوں ہی نہیں  کی جاسکتی!

حضرت علی ؑنے فرمایاہے: توبہ کی شرط یہ ہے کہ لوگوں کے جو حقوق تمہارے ذمے ہیں  اُنہیں  واپس لوٹاؤمثلاً آپ نے لوگوں کا مال ہڑپ کیا ہے اور اب اُنہیں  دینے کے لئے آپ کے پاس کچھ نہیں  ہے او رآ پ ایسے حالات میں ہیں  کہ اُن تک دسترس نہیں مثلاً وہ لوگ مرچکے ہیں  ایسی صورت میں استغفا رکریں، اُن کے لئے مغفرت طلب کریں، انشاء اﷲ خدا اُنہیں  (آپ سے) راضی کردے گا

۵۸

توبہ کی (قبولیت کی) تیسر ی شرط یہ ہے کہ حقوق اﷲ ادا کریں حق اﷲ سے کیامراد ہے؟ مثلاً روزہ حق اﷲ ہے، روزہ خدا کا ہےجو روزے آپ نے چھوڑے ہیں  اُن کی قضا کیجئےجو نمازیں آپ نے چھوڑی ہیں ، ان کی قضا ادا کیجئےآپ مستطیع تھے لیکن حج کو نہیں  گئے تھے، آپ کو چاہئے کہ اپنا حج انجام دیںیہ مذاق نہیں  ہےحج کے بارے میں آیا ہے کہ اگر کوئی صاحب ِ استطاعت ہوجائے اوراُسے کوئی عذرِ شرعی بھی نہ ہو، یعنی اُسے طبیعی استطاعت حاصل ہو اور سفر کے لحاظ سے کوئی رکاوٹ نہ ہواُسے مالی استطاعت حاصل ہو اوراُس کی اقتصادی حالت اسے اجازت دیتی ہوجسمانی استطاعت رکھتا ہو اورایسا مریض نہ ہو جو چلنے پھرنے کے قابل نہیں  ہوتا، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے، یہاں تک کہ مر جائے، ایسا شخص مرتے وقت اسلام کی حالت میں دنیا سے نہیں  جائے گااُس کے پاس خدا کے فرشتے آتے ہیں  اور اُس سے کہتے ہیں :مُتْ اِنْ شِئْتَ یَهُوْدِیِّاً وَ اِنْ شِئْتَ نَصْرَانِیِّاً (وسائل الشیعہ ج ۸ص۲۰، ۲۱) تم نے اسلام کے اِس رُکن کو انجام نہیں  دیااب تمہیں  اختیار ہے، چاہوتو یہودی مرواور چاہوتو نصرانیاب تم مسلمان نہیں  مر سکتے

کیسے ممکن ہے کہ انسان مسلمان ہو اور نماز نہ پڑھتاہو؟ مجھے یاد آیا کہ دو تین رات قبل جب میں نے فُضَیل بن عَیاض کے بارے میں بات کی تھی، تو بعد میں مجھے ایک محترم خاتون کا ایک خط دیا گیا، جس میں لکھا تھا کہ اگر آپ اپنے سننے والوں کا احترام کرتے ہیں  تو اپنی تقریر میں اس بات کا بھی تذکرہ کریں کیونکہ یہ بات بتانے میں کوئی حرج نہیں  بلکہ بہتر ہےلہٰذامیں بیان کرتا ہوں:

انہوں نے لکھا تھا کہ میں ایک رات صرف اُسی پہلی مرتبہ کے لئے یہاں آئی تھی لیکن میں اس قدر متاثر ہوئی کہ میں نے فیصلہ کیا کہ دوبارہ بھی یہاں آؤں گیمیں آج آئی ہوں اورآئندہ بھی آؤں گیمیں نے تربیتی علوم میں ماسٹرز کیا ہے، پرنسپل ہوں

۵۹

(اس وقت مجھے یہ یاد نہیں  کہ وہ پرائمری اسکول کی پرنسپل تھیں یا ہائی اسکول کی) آپ نے بہت سی باتیں کیں فُضَیل بن عَیاض میں قرآن کی ایک آیت سُن کرانقلاب بپاہوگیا، یا نماز اور حضورِ قلب کے بارے میں بیان کیامیں بدقسمت جو سرے سے قرآن کے معنی ہی نہیں  سمجھتی، کیا کروں؟ میں، جو نماز کے معنی ہی نہیں  سمجھتی میرے لئے اِس کے دوران حضورِ قلب کیونکر ممکن ہے؟ گویا یہ خاتون اپنی زبانِ حال سے یہ کہہ رہی ہیں  کہ ہم نے نرسری پڑھی، پرائمری پڑھی، ہائی اسکول اور کالج، یونیورسٹی کی تعلیم بھی مکمل کی لیکن قرآن ہمیں کہیں  نہیں  سکھایا گیالہٰذا آپ یہاں اس حد تک عربی سکھانے کا کوئی بندوبست کیجئے کہ لوگ کم و بیش قرآن کے معنی سمجھ سکیں، نماز کے معنی جان سکیں اور کم ازکم نماز کو اُس کی روح کے ساتھ پڑھ سکیں، قرآن کو اس کی روح کے ساتھ پڑھ سکیں، قرآن کی ایک آیت بھی پڑھیں، تو اسے سمجھیں

میں (دوستوں کے مشورے سے) آپ سب کے لئے ایک جوا ب دینا چاہتا ہوںمیں نے ہمیشہ اظہار کیا ہے اور اس کو واجب ترین واجبات میں سے سمجھتا ہوں کہ مسلمان عربی زبان سے واقفیت حاصل کریں، وہ سمجھیں کہ نماز میں کیا پڑھتے ہیں ، اپنے قرآن کو سمجھیں لیکن کیا کیا جائے کہ دنیا کی ہوس نے ہمیں اس طرح گرفت میں لے لیا ہے کہ کیونکہ انگریزی زبان آمدنی اور مادّیات کی کنجی ہے اسلئے ہم اپنے سات سالہ بچے کو بھی انگریزی سیکھنے بھیج دیتے ہیں بہت کم گھرانے ایسے ہوں گے جن میں کم از کم ایک فرد انگریزی نہ جانتا ہو لیکن ہم اس بات کے لئے تیار نہیں  کہ عربی کے لئے ایک کلاس ترتیب دیں اور خدا کی خاطر عربی زبان سیکھیں، اپنی نماز کے لئے عربی سیکھیں، اپنے قرآن کے لئے عربی سیکھیںکئی مرتبہ اعلان کر چکے ہیں  کہ ہم یہاں عورتوں اور مردوں کے لئے عربی سیکھنے کی کلاس ترتیب دینے کو تیار ہیں ، لوگ آئیں اور اپنے نام درج کرائیں، عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ کلاسیں ہوں گی، یہ ادارہ (حسینیہ ارشادمراد ہے) ان کے لئے مفت عربی زبان سکھانے کے انتظام کوتیار ہے کیونکہ یہ واجب ہے

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421