عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 13%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 421

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 421 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 208248 / ڈاؤنلوڈ: 8544
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

پہلی جلد

علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم:سید قلبی حسین رضوی

۳

خطوط اور مقدمے

کتاب عبدا للہ بن سبا کی علمی قدر و قیمت

ایک شیعہ دانشور محترم جناب شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

الازہر یونیورسٹی ، مصر کے مجلہ کا جواب

مباحث پر ایک نظر

سلسلہ مباحث کی پیدائش

۴

کتاب عبد اللہ بن سبا کی علمی قدرو قیمت

مصر کی الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر جناب ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کا خط

کتاب عبدالله بن سبا ، آخر میں دوسرے ایڈیشن کے عنوان سے مصر میں دوسری بار شائع ہوئی ہے،اس کتاب نے اہل سنت ممالک میں گہرا اثر ڈالا ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں خاص کر الازہر یونیورسٹی کے دانشوروں اور اساتذہ کی توجہ کا سبب بنی ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں میں غیر معمولی اثر ڈالا ہے ،مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی طرف سے مؤلف کو اس کتاب کو پسند کرنے کے سلسلہ میں کئی خطوط ملے ہیں ، ان میں سے ایک جناب ڈاکٹر حامدکا خط ہے ، وہ مصر کے ایک نامور دانشور ہیں ، جو کئی قابل قدر تحقیقی تالیفات کے مالک ہیں ۔

چونکہ یہ خط انصاف و عدالت کا ایک نمونہ اور تعصب اورہٹ دھرمی کی سرحدوں کو توڑنے والا ایک عنوانہے اس لئے ہم اسے ترجمہ کرکے شائع کرتے ہیں(۱)

____________________

۱۔ نشریہ سالانہ مکتب تشیع ۴/۳۰۲۔

۵

خط کا مضمون

تاریخ اسلام کی تیرہ صدیاں اختتام کو پہنچی ہیں ان تیرہ صدیوں کے دوران ہمارے دانشوروں کے ایک گروہ نے حتی الامکان شیعوں کے خلاف آواز اٹھائیہے اور حقائق کو اپنی نفسانی خواہشات سے مخلوط کیا ہے اس ناپسندیدہ روش کی وجہ سے اسلامی فرقوں کے د رمیان گہرے اختلافات پیدا ہوئے ہیں ، نتیجہ کے طورپر شیعہ دانشوروں کے فکر و اندیشہ کے گوہر کو حقیر سمجھا گیا ہے اسی روش کی بنا پر علمی دنیا کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

شیعہ دانشوروں کے افکار سے علم محروم رہا ہے کیونکہ دشمنوں نے شیعوں کے پا ک و صاف دامن کو داغدار بنا کر انھیں ایک توہمات و خرافات کے حامل گروہ کے طور پر پہچنوایا ہے ، بے شک ہم شیعوں کے صاف و شفاف علمی چشمہ زلال سے ایک گھونٹ پی سکتے تھے نیزاس مذہب کے سرمایہ سے فائدہ اٹھا سکتے تھے ، لیکن افسوس کہ ہمارے گزشتہ دانشوروں نے تعصب سے کام لیااور عقل کو ھوا و ہوس پر ترجیح نہیں دی ، اے کاش کہ وہ لوگ عقل کی پیروی کرتے اور جذبات کے کھلونے نہ بن تے !! جو کوئی تعصب کے عینک کو اتارکر فقہی مباحث کےلئے اقدام کرے اور فقہ مذاہب چہارگانہ پر تحقیق کرے ، وہ شیعہ فقہ سے بھی استفادہ کرنے پر مجبور ہے اور بے شک جب فقہ اہل سنت پرتحقیق کرے تو اس وقت شیعہ فقہ کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے اور اس سے آگاہ ہونا چاہئے ۔

۶

ہم کب تک خواب غفلت میں رہیں گے ؟! کیا فقہ شیعہ کے پرچم دار ،ا مام جعفر صادق علیہ السلام(۱) سنی مذہب کے دو امامو ں کے استاد نہیں تھے؟ یہ دو امام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مکتب میں زانوئے ادب تہہ کیا ہے ۔

ابو حنیفہ ، نعمان بن ثابت(۲) کہتے ہیں :

لولاالسنتان لهلک النعمان

اگر امام صادق علیہ السلام کے درس میں دو سال شرکت نہ کی ہوتی تو بے شک میں ہلاک ہوجاتا، اوردین سے منحرف ہوتا۔

اس کی مراد وہی دو سال ہیں جس میں انہوں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کے علم کے میٹھے اور زلالی چشمہ سے استفادہ کیا ہے ۔

اور یہ مالک بن انس ہیں جو واضح طور پر اعتراف کرتے ہیں :

ما رایت افقه من جعفر بن محمد

میں نے جعفر بن محمد سے فقیہ تر کسی کو نہیں د یکھا ہے(۳)

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ علم کے بارے میں صرف دور سے کچھ سننے والوں نے اپنے آپ کو دانشور سمجھ کر اپنے قلم سے تحقیق کی بنیادوں کو اکھاڑ کر حق و حقیقت کو اپنی نفسانی خواہشات پر قربان

____________________

۱۔ وفات ۱۴۸ ھ

۲۔ وفات ۱۵۰ھ

۳۔ وفات ۱۷۹ ھ

۷

کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر گلستان علم کے دروازے ان پر بند ہوگئے اور اس طرح وہ شمع معرفت کے نور سے محروم ہوگئے ہیں ، اس مذموم روش نے فتنہ کی آگ کو بھڑکانے کے علاوہ مسلمانوں میں ، دن بدن اختلافات کو بڑھا وا دیا ہے ۔

افسوس کہ ہمارے استاد ” احمد امین “(۱) بھی انہیں افراد میں سے تھے ، جنہوں نے معرفت کے نور سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ظلمت کے پردوں کے پیچھے زندگی بسر کرتے رہے ، یہ وہ کرنیں ہیں جو تشیع کے سورج سے چمکی ہیں اور جہالت کی تاریک رات کو نور میں تبدیل کرکے اسلام کے عظیم تمدن کو اس وقت وجود بخشا ، جبکہ دوسرے لوگ بہت پیچھے تھے۔

تاریخ نے اس ناپاک رویہ کی بنا پر ، احمد امین اور ان جیسے تمام اساتذہ اور دانشوروں کے دامن پر عظیم داغ لگادیا ہے، جنہوں نے آنکھیں بند کرکے تعصب کی وادی میں قدم رکھا ہے ، یہ دانشور وں اور محققین کا طریقہ کار نہیں ہے کہ ایک جگہ بیٹھے رہیں اور جمود کی بیڑی کو اپنی فکر کے پاؤں سے نہ اتاریں اور بے جا پر تعصب سے کام لے کر آنکھیں بند کرکے کسی مذہب کی پیروی کریں !!

ان کی فکرو قلم سے بہت ساری غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہوئی ہیں اور انہیں الجھن اور بد حواسی سے دوچار کیا ہے ، شاید مذکورہ داستان اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔

انہوں نے جھوٹ بول کر بعض مطالب کو شیعوں سے نسبت دیکران کے دامن کو داغدار بنادیا

____________________

۱۔ ” فصل “ پیدائش افسانہ د ور راویان آن “ شمارہ ہفتم ، کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں پر احمد امین کی باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا ہے جس کا سبب شیعوں کے ساتھ اس کی دشمنی اور کینہ ہے ۔

۸

ہے کہ ہم نے ان میں سے بعض کی طرف اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے ،(۱) انہوں نے تصور کیا ہے کہ جتنے بھی خرافات اور جعلی چیزیں اسلام کی تاریخ میں موجود ہیں ، سب کی سب شیعہ علما کی گڑھی ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنے خود ساختہ گمان سے شیعوں پر حملہ کیا اور ان کو برا بھلا کہا ہے۔

جلیل القدر محقق ”جناب مرتضیٰ عسکری “ نے اپنی کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ میں کافی دلائل سے مکمل طور پر ثابت کیا ہے کہ ” عبدا للہ بن سبا “ ایک خیالی اور جعلی موجود ہے ۔

تاریخ نویسوں نے جو حکایتیں بیان کی ہیں اور ان کی بناء پر اسے (عبدا للہ بن سبا) مذہب شیعہ کا مروج(۲) بیان کیا ہے البتہ یہ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، مؤرخین نے ان گڑھی ہوئی داستانوں کو اس لئے مرتب کیا ہے تا کہ فریب کاری کے جال کو پھیلا کر شیعوں پر حملے کرکے بے جا ان کے خلاف تہمت و افتراء پردازی کریں ۔

ہم عصر دانشور ،جناب مرتضیٰ عسکری نے اس کتاب میں اپنی فکر و اندیشہ کے سہارے تاریخ کے سمندر میں غوطہ لگا کر ، بہت سی کتابوں کا مطالعہ فرمایا ہے اور انتہائی تلاش و جستجو کے بعد اس سمندر سے کافی مقدارمیں موتی لے کر ساحل تک آئے ہیں ۔

انہوں نے زیر بحث حقائق کو ثابت کرنے کےلئے نزدیک ترین راستہ طے کیا ہے ، شیعوں کے

مخالفوں سے بحث کے دوران ان کے ہی بیانات کو مآخذ قرار دیکر ان کی باتوں کو باطل ثابت کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کی کتا ب” مع احمد امین “ کے مقدمہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ خود غرض مورخین نے اسے شیعہ مذہب کا بانی و مروج خیال کیاہے۔

۹

تاریخ اسلام کے آغاز سے عصر حاضر تک ” سیف بن عمر“ کی روایتوں نے مؤرخین کو الجھا رکھا ہے جو عام طور پر قابل اعتماد ہے، اس کتاب میں ان روایتوں کے بارے میں ایک گراں بہا تحقیق کی گئی ہے کہ قارئین بڑی آسانی سے انھیں سمجھ سکتے ہیں ۔

خدا کی حکمت اسی میں ہے کہ بعض محققین مردانہ وار قلم ہاتھ میں اٹھا کر حقائق سے پردہ اٹھائیں ، اور اس راستہ میں دوسروں کی سرزنش اور ملامت کی پروانہ کریں ، مصنف محترم پہلی شخصیت ہیں جس نے اپنی گہری تحقیقات کے نتیجہ میں اہل سنت محققین کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ طبری کی کتاب ” تاریخ الامم و الملوک “ کے بارے میں تجدید نظر کریں ، نیز انھیں اس بات پر مجبور کیا ہے کہ اس کتاب اورتاریخ کی دوسری بنیادی کتابوں کے بارے میں از سر نو دقت سے غور کرتے ہوئے اور خوب و بد کو ایک دوسرے سے جدا کریں ،مزید ان تاریخی حوادث کے بارے میں بھی نئے سرے سے غور کریں ، جنہیں وہ نازل شدہ وحی کے مانند صحیح اور نا قابل تغییر سمجھتے تھے !!

محترم مصنف نے کافی ، واضح اور روشن شواہد کی مدد سے ان تاریخی وقائع سے ابہام کے پردے کو ہٹا دیا ہے اور حقیقت کو اس کے متوالوں کےلئے آشکار کیا ہے حتی کہ بعض حقائق انتہائی بھیانک اور حیرت انگیز دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ایک عمر کے عادات و رسومات چند صدیوں کی اعتقادی میراث کے مخالف ہیں ، لیکن حق کی پیروی کرنالازم و واجب ہے ہر چند کہ یہ امر دشور ہو ” الحق احق ان یتبع“۔

مذکورہ مطالب سے آگاہی چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ کریں او رتاریخ کے اختلافی حوادث جیسے ، اسامہ کی لشکر کشی ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت اور سقیفہ کی داستان (جس پر مؤلف نے تنقیدی تجربہ کیا ہے) کا دقت کے ساتھ مطالعہ کریں ۔

جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موت کا شیرین جام نوش فرمارہے تھے، اسامہ کے لشکر سے بعض افراد حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے مدینہ لوٹے اور ریاست و خلافت کی امید سے جہاد سے منہ موڑ لیا ، مؤلف نے ان افراد کو پہچنوایا ہے ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر مرگ پر جب وصیت لکھنے کا حکم دیدیا، کچھ لوگوں نے اس حکم پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالی اور اسے ہذیان سے تعبیر کیا (گویا انہوں نے گمان کیا کہ پیغمبر ہذیان کہہ رہے ہیں)کیونکہ وہ اس امر سے خائف تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وصیت میں علی علیہ السلام کی خلافت کی خبر دیں گے اور ان آخری لمحات میں بھی اسے اپنے وصی کے طور پر تعارف کرائیں گے ۔

۱۰

مؤلف اس حادثہ کی حقیقت و کیفیت کو بھی آشکار کرتے ہیں عمر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے انکار کرنے کا مقصد کیا تھا ؟ کیوں وہ ان افراد کو موت کی دھمکی دیتے تھے جو یہ کہتے تھے کہ پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے رحلت کی ہے ؟جس وقت امام علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچیرے بھائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس اور چند بوڑھے اور سن رسیدہ اصحاب کی مددسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن نازنین کوغسل دینے میں مشغول تھے ، تو اس وقت کس غرض سے عمر اور ابو عبیدہ نے انتہائی عجلت کے ساتھ اپنے آپ کو سقیفہ کے اجتماع میں پہنچادیا اور لوگوں سے ابوبکر کے حق میں بیعت لے لی ؟!

بے شک ، اگر تھوڑا سا انتظار کرتے تا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سپرد لحد کرکے اور علی علیہ السلام بھی اس اجتماع میں حاضر ہوتے تو علی علیہ السلام خلافت کے مستحق قرار پاتے اور بنی ہاشم ان کے علاوہ کسی اور کو امام المسلمین کے طور پر قبول نہیں کرتے !

مؤلف نے مذکورہ تین مباحث میں صحیح کو غلط سے اور برے کو بھلے سے جدا کرکے ان مسلم حقائق تک رسائی حاصل کی ہے اور ان کی اس تحقیق کے نتیجہ میں فریب کاروں کےلئے مکرو فریب کے دروازے بند ہوگئے ہیں ۔

کتاب کے دوسرے مباحث بھی مذکورہ بالا تین مباحث کی طرح ، دقت کے ساتھ حقائق کو ایسے آشکار کرتے ہیں کہ بہت جلد ہی تاریخ اسلام کے اندر گہرے اثرات رونما ہوں گے ۔

میں اس مقالہ کو ختم کرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ درج ذیل تین سوالات کا جواب دیدوں :

۱ ۔ کیا پیغمبر خدا کا صحابی غلطی کرسکتا ہے اورلغزش سے دوچار ہوسکتا ہے ؟

۲ ۔ کیا اس کے کام اور کردار پر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے ؟

۳ ۔ کیا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی کو منافق یا کافر کہا جاسکتا ہے ؟

۱۱

سوال نمبر ایک اور دو کا میں مثبت جواب دیتا ہوں ، لیکن تیسرے سوال کا جواب منفی ہے ۔ اس لئے نہیں کہ میں تعصب سے کام لیتا ہوں اور علم کے اصول کے خلاف کہتا ہوں ، بلکہ ایک ایسا استدلال رکھتا ہوں کہ عقل اس کو قبول کرتی ہے اور منطق اسکی تائید کرتی ہے کیونکہ کفر و نفاق کا تعلق قلب و دل سے ہے اور وہاں تک خدا کے سوا کسی کی رسائی نہیں ہے ، علمی تجربہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ہے ، صرف خداوند عالم ہے جو انسان کے اندرونی اسرار سے واقف ہے اور پوشیدہ چیزوں کامکمل طور پر علم رکھتا ہے(۱)

مذکورہ روش ، وہی جدید روش ہے ، جس کا واضح مشاہدہ میری تمام تالیفات میں کیا جاسکتا ہے۔

مجھے اس بات پر انتہائی مسرت ہے کہ علم کے لحاظ سے اس عظیم کتاب اور اس کے عالی قدر مصنف استاد علامہ محقق جناب مرتضی عسکری کے تئیں انتہائی احترام و محبت کا قائل ہوں ، اسی طرح جناب مرتضیٰ رضوی کشمیری کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کو پوری ظرافت اور دیدہ زیب صورت میں شائع کیا ہے ، علامہ نے اس فریضہ کو انجام دے کر اسلام کی ایک عظیم خدمت کی ہے اور اس ذمہ داری کو انجام دے کر اسلام کے تاریخی حقائق کو زندہ کرنے کےلئے ایک عظیم اثر چھوڑا ہے ۔

قاہرہ اول جمادی الاول ۱۳۸۱ ھء مطابق ۱۲ ،اکتوبر ۱۹۶۱ ئئ

ڈاکٹر حامد حفنی داؤد

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد نے اس خط کو نصف کتاب کے شائع ہونے کے پیش نظر مصر میں لکھا ہے ۔

۱۲

ایک محترم شیعہ دانشور شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

سنی دانشور محترم جناب ڈاکٹر حامد کے نظریہ سے آگاہ ہونے کے بعد مناسب ہے یہاں پر اس کتاب کے بارے میں ایک شیعہ دانشور علامہ نابغہ جناب شیخ محمد جواد مغنیہ جبل عاملی کے نظریہ سے بھی آگاہ ہوجائیں ، علامہ موصوف لبنان میں مروج مذہب تشیع ہیں ۔

موصوف کی گراں بہا تالیفات میں من جملہ ” تفسیر قرآن مجید “ ” معالم الفلسفة الاسلامیہ“، ”الشیعہ و الحاکمون “ ” اصول الاثبات فی الفقہ الجعفری“ اور دسیوں دوسری تالیفات سنجیدہ فکر اور ان کے علمی بلند مقام کو آشکار کرتی ہیں ، ذیل میں مجلہ ” العرفان “(۱) میں شائع ہوئے ان کے مقالہ کا ترجمہ ہے :

مذہب شیعہ کے خلاف لکھنے کے علاوہ دنیا کی تمام چیزوں میں دگرگونی اور تغیرات پیدا ہوئے ہیں شیعوں پر تہمت و افتراء کے علاوہ ہر آغاز کا خاتمہ ہے شیعوں کے خلاف جاری کئے جانے والے احکام کے علاوہ ہر حکم کی ایک دلیل و علت ہے آخر کیوں ؟

کیا شیعہ شورشی اور فتنہ گر ہیں اور لوگوں کے سکون و اطمینان کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں ؟

____________________

۱۔ نمبر ۳/ سال ۱۳۸۱ ھ صفحہ ۲۳۰۔

۱۳

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :

سیف بن عمر تمیمی(۱) نامی ایک شخص نے گزشتہ دو سری صدی کے دوران دو کتابیں لکھی ہیں ، اس کی پہلی کتاب ” الفتوح و الردّة“ اور دوسری کتاب ” الجمل و مسیر عائشة و علیّ “ ہے ان دونوں کتابوں میں د رج ذیل مطالب کی ملاوٹ کی گئی ہے :

۱ ۔ ایسے حوادث و اتفاقات کی تخلیق کرنا ، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

۲ ۔ رونما ہوئے حقیقی حوادث و واقعات میں تحریف کرکے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت دکھانا ۔

اس بے لگام اور جھوٹے شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے چند من گھڑت اصحاب جعل کئے جن کے سعیر ، ہزہاز، اط ، حمیضہ ، وغیرہ نام رکھے ہیں ۔

اس نے تابعین اور غیر تابعین کے کچھ اشخاص جعلکئے ہیں اور ان کی زبانی اپنی جعلی احادیث نقل کی ہیں ۔

اس کی انہیں تخلیقات میں سے ایک سورما ہے جس کی شخصیت کو اس نے جعلکیا ہے اور اس کا فرضی نام بھی معین کیا ہے ، اور چند داستانوں کو گڑھ کر اس سے نسبت دی ہے یہ افسانوی سورما ”عبد اللہ بن سبا“ ہے جس کسی نے بھی شیعوں پر تہمتیں لگائی ہیں اور ان کے بارے میں جہل یا نفاق کے سبب افترا پردازی کی ہے ، ان سب نے اسی پر اعتماد کیا اور اس کی باتوں پر تکیہ کیا ہے۔

____________________

۱۔وفات دوسری صدی ہجری ۔

۱۴

”سیف“ کے بعد مؤرخین کی ایک جماعت نے فریب اور دھوکہ سے بھری ان دو کتابوں کو سند بنا کر کسی قسم کے تامل و تدبر کے بغیر دروغ پرداز اور چالباز سیف کے نظریات اور اندیشہ کو نقل کیا ہے ، اس طرح اس کے مذموم تفکر سے استفادہ کیا گیا ہے ۔

”طبری“ پہلا شخص تھا جو” سیف “کے دام فریب میں پھنس گیا تھا اس کے بعد ابن اثیر ، ابن عساکر اور ابن کثیر اور دوسرے لوگ” طبری“ سے آنکھیں بند کرکے روایت نقل کرنے کے سبب اس گڑھے میں گر گئے ہیں ۔

اس طرح جھوٹے ”سیف“ کی تخلیقات کی تاریخی کتابوں اور منابع میں بلاواسطہ طور پر ملاوٹ ہوئی ہے لیکن ان کی جڑ اور بنیاد، وہی سیف کی دو کتابیں ” الفتوح “ اور ” الجمل “ ہیں ۔

علامہ سید مرتضی عسکری کی کتاب ” عبد اللہ بن سبا“ مذکورہ حقائق کو صحیح دلائل کی بنا پر آشکار کرتی ہے اور قارئین کو صاف اور واضح راہنمائی کرکے حقیقت کی منزل تک پہنچاتی ہے ۔

انہوں نے اس کتاب کی تالیف میں انتہائی دقت سے کام لیا ہے اور موصوف کی تمام تر سعی و تلاش اس امر پر متمرکز رہی ہے کہ حق و حقیقت کے علاوہ کوئی چیز کاغذ پر نہ لکھی جائے ، قارئین کرام جس قدر بھی مفکر اور دانشور ہوں ، موصوف کے حاصل کئے ہوئے نتائج سے نہ تو انکار کرسکتے ہیں اورہی نہ شک و شبہ ، کیونکہ اس کتاب کے بہت سے دقیق مباحث کی بنیاد بدیہی قضایا پر مبنی ہے اور بدیہیات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے ۔

میں نے مختلف افراد سے بارہا بحث کی ہے ، اور ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا ہے ، لیکن اس گفتگو میں میں نے شیخ مفید ، سید مرتضی ، اور علامہ حلی سے آگے قدم نہیں بڑھایا ہے ، میری روش صرف یہ تھی کہ میں ان بزرگوں کے طرز بیان کو بدل دیتاتھا اور مخاطب کے لئے مطالب کو آشکار اور واضح تر بیان کرتا تھا ، کیونکہ کوئی تازہ اعتراض نہیں تھا کہ میں اس کا تازہ اور نیا جواب دیتا بلکہ اعتراض وہی تھا جو پچھلے لوگوں نے کر رکھاتھا اور اس کا جواب سن چکے تھے ، چونکہ یہ لوگ بھی گزشتہ لوگوں کی طرح اعتراض کرتے ہیں لہذا مجبور ہیں وہی جواب سنیں ،میں اپنے علمائے سلف کی باتوں کی تکرار کرتا تھا ، کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ بے خبر، معترضین علماء کی باتوں پر اعتراض کرتے ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ ان کی ہی باتوں سے آگاہ ہوجائیں ۔

بے شک میں علمائے تشیع کی پیروی کرتے ہوئے ” عبدا للہ بن سبا“ کے وجود کا معترف تھا ، لیکن اس کی رفتار کو حقیر اور شرم آور سمجھتا اور اس کی باتوں کا انکار کرتا تھا ۔

۱۵

علامہ عالیقدر جناب سید مرتضیٰ عسکری نے اس عمارت کی بنیاد ہی اکھاڑ کرکے رکھدی اور اپنی گہری تحقیقات سے ثابت کردیا کہ ” عبد اللہ بن سبا “ کی حقیقت ایک افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ! اور یہی وہ حقیقت ہے جو اس کتاب میں بے نقاب ہوئی ہے ، اگر میں یہ کہوں کہ عربی میں یہ تنہا کتاب ہے ، جس میں تاریخ کی علمی بنیادوں پر تحقیق کرکے اس پر غور کیا گیا ہے تو یہ ہرگز مبالغہ نہیں ہے ، اور میرا یہ کہنا بھی ہر گز بیجا نہیں ہوگا کہ اس دانشور مصنف نے دین و علم اور خاص طور پر شیعوں اورمذہب تشیع کی ایک ایسے زمانے میں بے مثال اور عظیم خدمت کی ہے کہ جب ان پر تہمتوں ، افتراء پردازیوں اور بہتان تراشیوں کی بھر مار ہورہی ہے ، موصوف نے اسلام کی ایک عظیم اور درخشان خدمت کی ہے ، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان رخنہ ڈال کر ان کے اتحاد و یکجہتی کو درہم برہم کرکے انھیں کمزوراوربے بس کردیا ہے ۔

ہم نے فرمانرواؤں اور ظالم حکام کی طرف سے بد ترین عذاب اور مشکلات برداشت کی ہیں تا کہ اسلام کی یکجہتی کا تحفظ کرکے دشمنی سے پرہیز کریں ، لیکن وہ روز بروز اپنی دروغ بیانی میں تشویق ہوتے رہے ہیں اور ان کی پہلی اور آخری سند ” ابن سبا“ کا افسانہ اور ” ابن السوداء “ کا خرافہ تھا کہ افسانہ ساز ”سیف “ نے انھیں ، خدا اوراپنے ضمیر کے سامنے کسی ذمہ داری کا احساس کئے بغیر جعلکیا ہے ۔ لیکن آج ” عبدا للہ ابن سبا “ نام کی کتاب لکھی جانے کے بعد یہ کاسہ لیس اور چاپلوس لوگ کیا جواب دیں گے ؟!

آخر میں میری تجویز ہے کہ یہ کتاب دیدہ زیب طباعت کے ساتھ دوبارہ شائع کی جائے اور عالم اسلام کے تمام شہروں میں نصف قیمت پر بیچی جائے تا کہ عام مسلمان اسے خرید کر اس کے عالی مطالب سے استفادہ کرسکیں ۔

نجف اشرف کے دانشوروں اور مراجع عظام کو چاہئے مذکورہ مقصد کی جانب توجہ کرتے ہوئے رقومات شرعیہ سے مدد کریں یا خیّر افراد کی اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں ۔

میری تجویز ہے کہ یہ حضرات تاکید کے ساتھ حکم فرمائیں تا کہ یہ کتاب دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر سستے داموں میں دنیا کے لوگوں تک پہنچ جائے ، یہ دین اسلام کےلئے ایک عظیم خدمت ہوگی۔

لبنان ۔ شیخ محمد جواد مغنیہ

۱۶

الازہر یونیورسٹی مصر کے مجلہ ” جامع الازھر “ میں شائع شدہ اعتراضات کا جواب

مجلہ ” جامع الازھر“ مصر میں کتاب ”عبدا للہ بن سبا “ کے بارے میں دو مقالے لکھے گئے ہیں(۱) اہم ترین مطلب جوان دو تنقیدی مقالوں میں ملاحظہ کے قابلہے عبارت ہے :

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اور ان کے باہمی اختلافات ، چودہ صدی پرانی بات ہے اور وہ سب اپنے مالک حقیقی سے جاملے لہذا چاہئے کہ ان مسائل سے صرف نظر کیا جائے(۲)

اس بات کے جواب میں ہم کہتے ہیں :

اولاً : ہم سیف کی روایتوں کی تحقیق کی فکر میں تھے ، جس موضوع پر اس نے روایتیں نقل کی تھیں ، ہم نے مجبور ہو کر ان ہی موضوعات پر بحث و تحقیق کی ہے ، چونکہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا“ میں عبد اللہ بن سبا کے افسانہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے باہمی اختلافات کے بارے میں سیف ابن عمر کی نقل کی گئی روایتوں پر بحث کی گئی ہے ، لہذا ہم مجبور ہوئے کہ ہر موضوع کے

____________________

۱۔ پہلا مقالہ کتاب کی نجف اشرف میں طبع شدہ پہلی اشاعت پر ایک تنقید ہے ، اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۳ ج۱۰، ۱۳۸۰ ئھ ” باب الکتب “ کے صفحہ۱۱۵۰ ۔۱۱۵۱ میں شائع ہوا ہے ۔ دوسرا مقالہ اسی کتاب کے مصر میں طبع شدہ نسخہ پر ایک تنقید ہے اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۲ /ج ۶/ ۱۳۸۱ ء ھ کے صفحہ۷۶۰ ۔۷۶۱ میں شائع ہوا ہے۔

۲۔ یہ جملہ پہلے مقالہ کے آخر پر لکھا گیا ہے اور باقی تمام مطالب اسی جملہ کی تفسیر اور تشریح میں لکھے گئے ہیں ۔

۱۷

بارے میں بحث کو جاری رکھتے ہوئے تجزیہ و تحقیق کریں ، جس طرح میں نے اپنی کتاب ” خمسون و ماة صحابی مختلق“ ( ۱۵۰ جعلی اصحاب) میں اصحاب کے فتوحات اور صدر اسلام کی جنگوں کو اپنا موضوع قرار دیگر بحث و تحقیق کی ہے ۔

سیف کی روایتوں پر تحقیق نے ہمیں اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ ایسی بحثوں میں داخل ہوجائیں جنھیں بہت سے دانشوروں نے پردے میں رکھا ہے ، لہذا ان موضوعات پر بحث و تحقیق نے انھیں برہم اور رنجیدہ کیا ہے ، البتہ ہم بھی ان کی طرح ایسے وقائع اور روداد کے رونما ہونے سے خوشحال نہیں ہیں اور ان سے پردہ اٹھانے اور ان پر غور و فکر کرنے سے ہمارا رنج و غم بھڑک اٹھتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خداوند عالم نے پیغمبر خدا کے اصحاب کو ملک و فرشتہ خلق نہیں کیا ہے کہ جبلت انسانی سے عاری ہوں بلکہ وہ دوسرے افراد کی طرح انسانی جبلت میں ان کے شریک ہیں ، اور ایمان اور اسلام میں استقامت کے مراتب میں بھی ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ، اس حد تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان میں سے بعض پر حد جاری کی ہے (کوڑے لگائے ہیں) اور ان میں سے بعض کے بارے میں ” آیات افک “ نازل ہوئی ہیں جن میں ان کی اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ انہوں نے پیغمبر خدا کی بیوی کی جانب نازیبانسبت دی تھی ، اور ان میں سے بعض کے بارے میں نفاق کی آیات نازل ہوئی ہیں ۔

ان تمام مطالب کے باوجود ہم نہیں سمجھتے کہ پیغمبر خدا کے اصحاب کو ان اختلافات اور تحولات کے ساتھ کیسے چھوڑدیں جبکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام اور عقائد کو ہم تک پہنچانے کے واسطہ ہیں کیا اس طرح صرف پیغمبر کو درک کرنے کی بنا پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عزت و احترام کرنا بحث و تحقیق کےلئے رکاوٹ اور دینداری کے نام پر علم ودانش کے دروازہ کو بند کرنے کے مترادف نہیں ہے ؟ چونکہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے صدیوں سے اپنے اوپر اجتہاد کا دروازہ بند کررکھتا ہے ، لہذا تحقیق و علم کا دروازہ بھی ان پر بند ہوگیا ہے ۔

۱۸

خدارا ! ہم نے اس مطلب کو قبول نہیں کیا ہے اور اسکی تائید نہیں کرتے ہیں بلکہ دین و اسلام کے نام پر اور اس پر عمل کرنے کیلئے اسلام کی راہ میں بحث و تحقیق کےلئے قدم اٹھاتے ہیں ۔

ثانیاً : کاش کہ ہم یہ جانتے کہ قدیم و جدید دانشور جو پیغمبر خدا کے اصحاب کی عزت و احترام میں جو غیرت و حمیت دکھاتے ہیں ، کیا اس میں پیغمبر خدا کے تمام اصحاب شامل ہیں خواہ اس کے سزاوار ہوں یا نہ ، خواہ وہ عیش پرست ہوں یا زاہد و پرہیزگار ؟ کیا یہ احترام عام طور پر اس لئے ہے کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کادیدار کیا ہے ؟ یا ان کےلئے مخصوص ہے جوسرمایہ دار و قدرتمندتھے اور حکومت تک ان کی رسائی تھی ؟ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ احترام شعوری یا لا شعوری طور پر صرف ان افراد سے مخصوص ہوکے رہ گیا جو حکومت اور ایوان حکومت سے وابستہ و مربوط ہیں ۔

جو کچھ ایک دوررس اور نکتہ شناس محقق کےلئے قابل اہمیت ہے وہ دوسرا مطلب ہے کیونکہ اگر تاریخ طبری میں ۳۰ ء ھ کے روئدادوں اور حوادث پر غور کیا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس نے یوں لکھا ہے :

اس سال ، یعنی ۳۰ ئھ میں جو کچھ ابوذر اور معاویہ کے درمیان پیش آیا ، اور سر انجام ابوذر کے شام سے مدینہ جلا وطن کئے جانے پر تمام ہوا ، اس سلسلے میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں کہ جنکو میں نقل کرنا پسندنہیں کرتا ہوں ، لیکن اس سلسلہ میں معاویہ کیلئے عذر پیش کرنے والوں نے ایک داستان نقل کی ہے ، اس داستان میں کہا گیا ہے:

شعیب نے اسے سیف سے نقل کیا ہے

اس کے بعد طبری نے ابو ذر اور معاویہ کے بارے میں نقل کی گئی داستان کے سلسلے میں سیف کی باقی روایت کو اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے ۔

۱۹

اگر ہم اس سلسلے میں تاریخ ابن اثیر کی طرف رجوع کریں گے تو دیکھتے ہیں کہ وہ کہتا ہے :

اس سال ( ۳۰ ھء) ابوذر کی داستان اور معاویہ کے توسط سے اسے شام سے مدینہ جلاوطن کرنے کا مسئلہ پیش آیا، اس رفتار کی علت کے بارے میں بہت سے مطالب لکھے گئے ہیں ، من جملہ یہ کہ : معاویہ نے انھیں گالیاں بکیں اور موت کی دھمکی دی ، شام سے مدینہ تک انھیں ایک بے کجاوہ اونٹ پر سوار کرکےنہایت ہی بیدردی سے ایک ناگفتہ بہ حالت میں مدینہ کی طرف جلاوطن کردیا ، مناسب نہیں ہے اسے یہاں بیان کیا جائے میں اسے نقل کرناپسند نہیں کرتا ہوں ، لیکن جنہوں نے اس سلسلے میں عذر پیش کیا ہے، یو ں کہا ہے :

اس بنا پر طبری نے یہاں پر ان بہت سی روایتوں کو درج نہیں کیا ہے جن میں معاویہ اور ابوذر کی روئداد بیان ہوئی ہے اور ان کو بیان کرنا پسند نہیں کرتا تھا، پھر بھی اس نے ان روایتوں کو بالکل ہی درج کرنے سے چشم پوشی نہیں کی ہے ۔ بلکہ سیف کی ان تمام روایتوں میں سے ایسی روایت کا انتخاب کیا ہے کہ معاویہ کا عذر پیش کرنے والوں کےلئے سند کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے اس کے کام کی توجیہ کے طورپر پیش کرتے ہیں ، جبکہ اس روایت میں پیغمبر اسلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بزرگوار صحابی ” ابو ذر“ کی حد سے زیادہ توہین کی گئی ہے ۔ اس کی دینداری پر طعنہ زنی کی گئی ہے ، اسے بیوقوف اور احمق کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس پرناروا تہمتیں لگائی گئی ہیں ۔

۲۰

کیونکہ اس روایت میں معاویہ کو حق بجانب ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے عذر کو درست قرار دیاگیا ہے ، اور اس طرح مؤرخین کا یہ قائد ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس تہی دست صحابی کی شخصیت اور احترام سے چشم پوشی کرتاہے اوران کی عظمت کو معاویہ جیسے حاکم اور ثروتمند شخص کے حرمت کے تحفظ میں قربان کرتاہے ، یہی کام ابن اثیر، ابن خلدون اور دوسروں نے بھی انجام دیا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ، بنیادی طور پر اسی سبب سے تاریخ طبری نے رواج پیدا کیا ہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ شہرت پائی ہے ، اور اس لئے سیف (بے دینی کا ملزم ٹھہرائے جانے کے باوجود) کی روایتوں کو اس قدر اشاعت ملی ہے اور اسی لئے مشہور ہوئی ہیں(۱) ۔

اس بنا پر ایسے دانشوروں نے صرف ایسے صحابیوں کے احترام کے تحفظ کےلئے اقدام کیا ہے جو صاحبِ قدرت و حکومت تھے ، اور” معاویہ بن ابو سفیان “ جیسے شخص کی اس لئے عزت کرتے ہیں کہ وہ صاحب حکومت و اقتدار تھا ، جبکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “(۲) میں شمار فرمایا ہے اور اس کی نفرین کرتے ہوئے فرمایا:

خداوند عالم اس کے شکم کو کبھی سیر نہ کرے “(۳) اسی طرح ” عبدا للہ بن سعد بن ابی سرح “(۴) جو ابتداء میں مسلمان ہوا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتبوں میں شمار ہوتا تھا، لیکن ایک مدت کے بعد مرتد ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن مجید پر تہمت لگائی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کا خون بہانا مباح قرار فرمایا تھا،ایسے شخص کو ان خصوصیات کے باوجود مصر کا گورنر ہونے کے ناطے اس کا نام تاریخ میں درج کرکے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

اس طرح خلیفہ عثمان کے بھائی ولید ، جس کے بارے میں آیہ نبا نازل ہوئی ہے :

<یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اِذا جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَیَّنُوا اَنْ تُصِیْبُوا قَوْماً

____________________

۱۔ کتاب کے فصل ” پیدائش افسانہ “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ تمام سیرت لکھنے والوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح حنین کے بعد معاویہ اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “ میں شمار فرمایا ہے ، اس لئے انھیں کچھ چیزیں دیدی ہیں ۔

۳۔ صحیح مسلم کے اس باب کی طرف رجوع کیا جائے کہ ”پیغمبر خدا نے جن پر لعنت کی ہے “

۴۔ اس کے حالات پر اگلے صفحات میں روشنی ڈالی جائے گی۔

۲۱

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ہم نے داؤد اور سلیمان کو مخصوص دانش عطا کی.اور ان دونوں نے کہا:اس خدا کی تعریف ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سارے مومن بندوں پر فوقیت اور بر تری دی.سلیمان نے داؤد کی میراث پائی اور کہا:اے لوگو!ہمیں پرندوں کی زبان سکھا ئی گئی ہے اور ہر چیز سے ہمیں عطا کیا گیا ہے، یقینا یہ برتری آشکار ہے ، سلیمان کے لئے ان کا تمام لشکر جن وانس اور پرندے کو جمع کر دیا اور ان کو پرا گندہ ہونے سے روکاجاتا تھا یہاں تک کہ جب چیونٹیوں کی وادی سے گذر ے! تو ایک چیو نٹی نے کہا:اے چیونٹیوں !اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ تا کہ سلیمان اور ان کے سپا ہی نا دانستہ طور پر تمھیں کچل نہ ڈ الیں سلیمان چیونٹی کی بات سن کر مسکرائے اور ہنس کر کہا:خدا یا ! مجھ پر لطف کر تا کہ تیری ان نعمتوں کا شکریہ ادا کروں جوتو نے مجھے اور میرے ماںباپ کو عطا کی ہیں. اور وہ عمل صالح انجام دوں جو تیری رضا اور خوشنودی کا باعث ہو اور مجھے اپنی رحمت کے ساتھ ساتھ اپنے نیک بندوں کے زمرہ میں قرار دے.سلیمان نے ایک پرندوے کو غیر حاضر دیکھا،تو کہا:کیا بات ہے کہ ھُدھُد کو نہیں دیکھ رہاہوں؟ کیا وہ غا ئبین میں سے ہے(بغیر عذر کے غا ئب ہو گیا ہے)؟ قسم ہے اسے سخت سزا دوں گا یا اس کا سر کاٹ دوں گا، مگر یہ کہ کوئی واضح اور قابل قبول عذر پیش کرے۔

زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی (کہ ھد ھدآگیا اور )بولا: ایک ایسی خبر لا یا ہوں جس سے آپ بے خبر ہیں اور قوم سبأ کی یقینی خبر آپ کے لئے لایا ہوں. میں نے ( سبائیوں ) پر ایک عورت کو حکومت کرتے دیکھا ہے اور اُسے سب کچھ دیا گیا ہے،اس کے پاس ایک عظیم تخت ہے.میں نے دیکھا کہ وہ اور ا س کی قوم خدا کے بجائے سورج کو سجدہ کرتی ہیں.اور شیطان نے ان کے امور کو ان کے لئے آراستہ کردیا ہے اور انھیں راہ حق سے روک دیاہے وہ ہدایت نہیں پا ئیںگے.....

۱۸۱

سلیمان نے کہا: عنقریب دیکھوں گا کہ تم نے سچ کہا ہے یا جھوٹ.یہ میرا خط لے جاؤ اور ان کے پاس ڈال دو،پھر واپس آؤ اور دیکھو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں.(بلقیس نے خط کا دقت سے مطالعہ کیا اور اپنے دربار کے مردوں سے خطاب کر کے) کہا:اے بزرگو ! ایک محترم خط ہماری طرف بھیجا گیا ہے. وہ خط سلیمان کا ہے.اور (اس کا مضمون)اس طرح ہے:بخشش کرنے والے اور مہربان خدا کے نام سے میرے خلاف طغیانی اور سرکشی نہ کرو اور سراپا تسلیم ہو کر میرے پا س آجاؤ۔

ملکہ نے کہا:اے بزرگو ! میرے معا ملہ میں رائے دو کہ میں تمہارے ہوتے ہوئے کوئی فیصلہ نہیں کروں گی۔

(اشراف نے ) کہا:ہم طاقتور اور دلاور ہیں(اس کے باوجود) فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کیا سونچتی ہیں اور کیا حکم دیتی ہیں ۔

ملکہ نے کہا:بادشاہ لوگ جب کسی شہر میں داخل ہو جاتے ہیں تو اس جگہ کو ویران کر دیتے ہیں اور وہاں کے آبرومندوں کو ذلیل ورسواکر دیتے ہیں کیو نکہ ان کی سیاست کی رسم اسی طرح ہے میں ان کی طرف ایک ہدیہ بھیج رہی ہوںاور (اس بات ) کی منتظر رہوں گی کہ ہمارے بھیجے ہوئے قاصد کس جواب کے ساتھ واپس آتے ہیں۔

جب(ہدیہ)سلیمان کے پاس پہنچا تو کہا: تم لوگ مال کے ذریعہ ہماری نصرت کرو گے؟!جو کچھ خدا نے ہمیں دیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمھیں دیا ہے،جاؤ تم لوگ خود ہی اپنے ھدیہ سے شاد وخرم رہو۔

انکی طرف لوٹ جائو کہ ان کے سر پرایسے سپا ہی لاؤں گا کہ اُن سے مقابلہ کی طاقت نہ رکھتے ہوں گے اور ذلت وخواری کے ساتھ انھیں ان کے شہر اور علا قے سے نکال باہر کر دیں گے

(پھر اس وقت سلیمان اپنے اصحاب سے مخاطب ہوئے) اور کہا: اے لوگو! تم میں سے کون ہے جو ان کے سراپا تسلیم ہو نے سے پہلے ہی اس (بلقیس) کا تخت میرے پا س حاضر کردے؟ .(اس اثناء میں)جنوں میں سے ایک دیو نے کہا:میں اسے قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں حاضر کردوں گا(یعنی آدھے دن سے بھی کم میں) اور میںاس کے لانے پر قادر اور امین ہوں ۔

وہ شخص جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا اس نے کہا:میں اُسے پلک جھپکنے سے پہلے حاضر کر دوں گا. اور جب (سلیمان نے) اُسے اپنے پاس حاضر پا یا تو کہا:یہ میرے ربّ کا ایک فضل ہے تا کہ ہمیں آزمائے کہ ہم شکر گذار ہوتے ہیں یا نا شکرے.جو شکر گذا ر ہو گا وہ اپنے فائدہ کے لئے شکرکرے گا اور جو نا شکر ی کرے گا اس کی طرف سے میرا ربّ بے نیاز اور کریم ہے ۔

۱۸۲

سلیمان نے کہا:اُس کے تخت کو(شکل بدل کر) نا قابل شناخت بنا دو تا کہ دیکھیں کہ اسے پہچانتی ہے یا اس کو پہچا ننے کے لئے کو ئی راہ نہیں ملتی .جب بلقیس آئی(اس سے) کہا گیا کیا تمہارا تخت یہی ہے؟ملکہ نے کہا: گویا وہی ہے ہم اس سے پہلے ہی(سلیمان کی قدرت و شوکت ) سے آگاہ اور سراپا تسلیم تھے.غیر اللہ کی عبادت(آفتاب پرستی) اسے (اسلام قبول کرنے سے)مانع تھی کہ وہ کافر قوموں میں تھی.اس سے کہا گیا:محل میں داخل ہو جاؤ!جب اُس نے دیکھا تو گمان کیا کہ صرف گہرا پا نی ہے لہٰذا اپنی دونوں پنڈلیوں کو کھول دیا۔

سلیمان نے کہا:یہ محل(قصر) صاف وشفاف شیشہ سے بنا یا گیا ہے۔

ملکہ نے کہا: خدا یا!میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا.(اب ) سلیمان کے ساتھ عالمین کے خدا پر ایمان لا تی ہوں۔

سورہ ٔسبأ کی ۱۲ویں تا ۱۴ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلِسُلَیْمَانَ الرِّیحَ غُدُوُّهَا شَهْر وَرَوَاحُهَا شَهْر وََسَلْنَا لَهُ عَیْنَ الْقِطْرِ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْهِ بِإِذْنِ راَبِهِ وَمَنْ یَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ َمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیرِ ٭ یَعْمَلُونَ لَهُ مَا یَشَائُ مِنْ مَحَارِیبَ وَتَمَاثِیلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِیَاتٍ اِعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُکْرًا وَقَلِیل مِنْ عِبَادِی الشَّکُورُ ٭ فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَی مَوْتِهِ ِلاَّ دَابَّةُ الَرْضِ تَْکُلُ مِنسََتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ َنْ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ الْغَیْبَ مَا لاَبِثُوا فِی الْعَذَابِ الْمُهِین )

ہم نے ہواکو سلیمان کا تا بع بنایا تا کہ (ان کی بساط کو)صبح سے ظہر تک ایک ماہ کی مسافت کے بقدر اور ظہر سے عصر تک ایک ماہ کی مسا فت کے بقدرجا بجا کردے اور پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ اُن کے لئے ہم نے جاری کیا اور ایسے جنات تھے جو اپنے ربّ کے حکم سے ان کے حضور خدمت میں مشغول رہتے اور ان میں جو بھی ہمارے حکم کے خلا ف کرتا تو ہم اسے گرم آگ سے عذاب کرتے ۔

وہ جنات اور دیو سلیمان کے لئے وہ جو چا ہتے بنادیتے تھے جیسے محراب، عبادت گا ہیں،مجسمے، حوض آب جیسے بڑے بڑے پیا لے اور بڑے بڑے دیگ ۔

۱۸۳

اب اے آل داؤد! اللہ کاشکر ادا کرو اور میرے بندوں میں کم لوگ شکر گذار ہیں۔

اور جب ہم نے سلیمان کے لئے موت مقرر کی،تودیمکوں کے سوا جو ان کے عصا کو کھا کر خالی کر رہی تھیں(یہاں تک کہ سلیمان زمین پر گر پڑے) کسی کو ان کی موت سے آگا ہی نہیں تھی ۔

اور جب سلیمان زمین پر گر پڑے توجنوں کواُن کی موت سے آگاہی ہو ئی ۔

کہ اگر وہ اسرار غیبی سے آگاہ ہوتے تو دیر تک عذاب اور ذلت وخواری میں پڑ ے نہ رہتے۔

کلمات کی تشریح

۱۔ذاالاید:

آد، یئیدُ،ایداً:قوی اور طاقتور ہو گیا.ذاالا ید:قوی اورتوانا۔

۲۔اَوّاب:

آب الیٰ اللّہ: اپنے گناہ سے توبہ کیا اور ایسا شخص آئب اور اوّاب ہے.بحث سے منا سب معنی:جو گناہ سے شرمندہ اور نادم ہو اور خدا کی خوشنودی اور رضا کا طالب ہو۔

۳۔اُوِّبی:

(مونث سے خطا ب) خدا وند عالم کی تسبیح میں اس کے ہماہنگ اور شانہ بشانہ رہو۔

۴۔سابغات:

سبغ الشی سبوغاً:تمام کیا اور کامل کیا.سابغات:استفادہ کے لئے آمادہ اور مکمّل زرہیں۔

۱۸۴

۵۔قدِّرْ فی السّرد:

سر د ، زرہ کے حلقوں کے معنی میں ہے،(و قدَّر فی السرد)

یعنی حلقے یکساں اورایک جیسے بنائو کہ نہ ڈھیلے ہوں اور نہ کسے ہوئے ہوں اور ایک ناپ کا تےّار کرو۔

۶۔رُخائ:

نرمی.

۷۔مقّرنین فی ا لاصفاد:

رسّی یا زنجیر میں آپس میں بندھے ہوئے۔

۸۔محشورةً:

اکٹھا کیا گیا،جمع کیا گیا۔

۹۔ےُوزَعون:

وَزَعَ الْجیْش : الگ الگ صف کے ساتھ منظم ہوئے، پیکار کے لئے آمادہ ہوئے۔

۱۰۔ عفریت:

جناتوں میں سب سے قوی ومضبوط اور ان میں سب سے زیادہ تن وتوش والادیو۔

۱۱۔صَرْحُ مُمَّرَد مِنْ قَوَاْرِیرَ:

الصرح:آراستہ گھر،بلند عمارت،ممَّرد:خوشنما اور عالی شان قصر، کہ جس کا فرش اورسطح آئینہ سے بنا یا گیا ہو۔

۱۸۵

۱۲۔لُجَّة :

کثیر پا نی،آہستہ آہستہ موجوں کے ساتھ موج مارنے والا حوض ،اس کی جمع لجج آئی ہے۔

۱۳۔اَسَلْنَاْ لَہُ عَےْنَ القِطْر:

سال المائع : بہنے والی چیز بہنے لگی، القطر: پگھلا ہوا تانبا،عبارت کے معنی یہ ہیں کہ:اُس پر پگھلا ہوا تا نبا ڈالیں۔

۱۴۔ےَزِغْ عَنْ اَمْرِنَا:

زَاْغَ عَنِ الَطّرِیق:

راستہ سے منحرف ہو گیا،آیت کے منا سب معنی یہ ہیں کہ جناتوں میں سے جو بھی سلیمان کے دستورات سے سر پیچی اور مخالفت کرے اسے ہم عذاب دیں گے۔

۱۵۔سعیر:

آگ اور اس کا شعلہ۔

۱۶۔جَفَانٍ کَالْجَواب:

جفان(جفنہ کی جمع ہے)یعنی کھانے کے بہت بڑے بڑے ظروف اور جواب یعنی بڑا حوض.جفان کالجواب یعنی:کھانے کے ایسے ظروف جن میں بہت زیادہ گنجائش اور وسعت ہوتی ہے۔

۱۷۔قُدور راسیات:

قدر راسیة: بہت بڑا دیگ جو بڑے ہو نے کی وجہ سے حمل و نقل کے قابل نہ ہو، الرّاسی: عظیم اور استوار پہاڑ۔

۱۸۔دابَّة الارض:

دیمک۔

۱۹۔منساة:

عصا(لاٹھی)۔

۱۸۶

آیات کی تفسیر

ارشاد فرماتا ہے: اے پیغمبر! خدا کے قوی،بہت زیادہ توبہ کر نے والے اور خدا کی خوشنودی اور رضایت کے طالب بندے داؤد کو یاد کرو.جب کہ خدا نے پہاڑوں کو ان کاتابع بنا دیا تا کہ ان کی تسبیح کے ہمراہ خدا کی صبح و شام تسبیح کریںاور پرندوں کو ان کے ارد گرد جمع کر دیا تا کہ ان کی تسبیح کے ساتھ ہم آواز ہوں.اس کی بادشاہی کوپر ھیبت اور سپاہیوں کو قوی بنا دیا اور مقام نبوت،امور میں دور اندیشی اور صحیح تفکر اور منازعات (لڑائی جھگڑے)میں واضح بیان اور قطعی حکم اُسے عطا کیا. لوہا اس کے ہاتھوں میں نرم ہو گیا تا کہ اُس سے حلقہ دار اور منظم زرہیں بنا ئیں.داؤد سب سے پہلے آدمی ہیں جنھوں نے جنگ کے لئے زرہ تیار کی۔

خدا وند منّان نے داؤد کو سلیمان(سا فرزند) بخشا کہ انھوں نے بارگاہ خدا وندی میں بہت توبہ کی اور اللہ کی خو شنودگی ورضا کے طالب تھے. یہ سلیمان تھے جنھوں نے کہا:خدا یا ہمیں بخش دے اور ہمیں ایسی بادشاہی عطا کر کہ ہمارے بعد ویسی کسی کو نہ ملے،لہٰذا خد انے ان کے لئے ہوا کو مسخر کر دیا کہ ان کے حکم کے تحت نرمی کے ساتھ جہاں وہ چاہیں روانہ ہو جا ئے، جنوں، دیووں، آدمیوں اور پرندوں میں سے ان کے سپاہی مقرر کئے اور ساری زبا نیں انھیں تعلیم دی، جنوں اور دیووں کو ان کا فرما نبردار بنا یا تا کہ جس چیز کی خواہش ہو ان کے لئے تعمیر کر دیں اور سمندروںکے اندر غوطہ لگا کر موتیاں لے آئیں اور اُن میں سے بعض کو زنجیر میں جکڑ کر قید خانہ میں ڈال دیا۔

وہ ایک دن اپنے سپا ہیوں کے ساتھ چیونٹیو کی وادی سے گذر رہے تھے تو سنا کہ ایک چیو نٹی اپنے ساتھیوں کو خبر دے رہی ہے اے چیونٹیوں! اپنے اپنے سوراخوں میں چلی جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر نا دانستہ طور پر تمھیں کچل ڈالے، اس حال میں جو کچھ خدا وندسبحان نے انھیں اوران کے ماں باپ کو نعمت عطا کی تھی اس پر خدا کا شکر ادا کیا۔

ایک دن پرندوں کی فوجی پریڈ کا معائنہ کیا تو ھُد ھُد کو ان کے درمیان اپنے سر پر سایہ فگن نہیں دیکھا.تو کہا اسے تنبیہ کروں گا یااس کا سر کاٹ دوں گا، مگر یہ کہ اپنی غیبت کے لئے کوئی قابل قبول عذر پیش کرے، زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ہُدہُد آگیا اور ان کے لئے سبا اور یمن والوں کی خبر لے کر آیا کہ :

میں نے دیکھا کہ ایک عورت اُن پر حکومت کررہی ہے اور وہ ایک عظیم اور بڑے تخت کی مالک ہے.وہ اور اس کے افراد خدا کا سجدہ نہیں کرتے،بلکہ سورج کی پو جا کر تے ہیں۔

سیلمان نے کہا:دیکھوں گا کہ سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ گڑھ لیا ہے.میرا خط لے جا کر ان کے سامنے ڈال دے،پھر اُن سے دور ہوجا اوردیکھ کہ وہ کیا کہتے ہیں۔

۱۸۷

حضرت سلیما ن کا خط اس طرح تھا.

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مجھ پر طغیا نی اور سر کشی نہ کرو.اور مسلمان ہو کر میرے پا س آجاؤ. دلچسپ اور مزہ کی بات یہ ہے کہ یہ خط خو د ہی اس بات کی ایک دلیل ہے کہ کلمہ اسلام گزشتہ ادیان کا ایک نام تھا.اور امور کی ابتداخدا کے نام اور بسم اللہ سے ان کی شریعتوں میں ایک عام بات تھی۔

ہاں ، جب سبا کی ملکہ بلقیس نے حضرت سلیمان کا خط لیا تو اپنے مشاورین سے مشورہ کیا کہ سلیمان کے خط کا کیا جواب دیں؟

بو لے: ہم قوی ،شجاع ، دلیر،صاحب شوکت اور نڈرسپا ہی ہیں،اس کے با وجود حکم آپ کا ہے۔

ملکہ نے کہا: بادشا ہ جب کسی شہر میں قہر وغلبہ سے داخل ہوتے ہیںتو فساد کرتے اور تباہی مچاتے ہیں اور وہاں کے معزز افراد کو رذلیل اور رسوا کرتے ہیں میں بہت جلد ہی سلیمان کے لئے ایک ھدیہ بھیجتی ہوں اور ان کے جواب کا انتظا ر کروں گی کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ؟

جب بلقیس کے تحفے سلیمان کی خد مت میں پہونچے توآپ نے ان نمائندوں سے جنھوں نے آپ کی خد مت میں تحفے دئیے تھے فرما یا : جو کچھ خدا وند سبحان نے مجھے عطا کیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمھیں دیا ہے؛ اور تحفوں کو قبول نہیں کیابلکہ فرمایا: میں ایک ایسے لشکر کے ساتھ تم پر حملہ کروں گا کہ جس کے مقا بلے کی طا قت نہیں رکھتے ہو اور تمھیں ذلت ورسوائی کے ساتھ کھینچ لاؤں گا۔

اُس وقت مجلس میں حاضر سپا ہیوں سے مخا طب ہوئے اور کہا :کون تخت بلقیس ہمارے لئے حاضر کرے گا؟

تو ایک بلند و بالا،قوی ہیکل اور طاقتور دیو نے کہا : میں قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں تخت بلقیس کو آپ کے سا منے حا ضر کر دوں گا۔

اور حضرت سلیمان کی عادت تھی کہ آدھا دن دربار میں بیٹھتے تھے اتنے میں وہ شخص (گزشتہ زمانے میں نا زل شدہ کتا ب کا ) جس کے پا س کچھ علم تھا آگے بڑھا اور بو لا:میں اسے چشم زدن میں حاضر کردوں گا اور حاضر کر دیا اس وقت سلیمان نے خدا کی تما م نعمتوں کا شکر ادا کیا۔

۱۸۸

کہتے ہیں کہ اس کتاب کے عا لم حضرت سلیما ن کے وزیر آصف ابن برخیا تھے۔

پھر سلیمان نے فرمایا:بلقیس کے تخت میں کچھ تبد یلیاں کردو تا کہ اس کی عقل ودرایت کا معیار درک کریں.جب بلقیس آئی ،تو اس سے پوچھا:آیا یہ تمہارا تخت ہے؟

کہا: ایسا لگتاہے کہ وہی ہے.پھر بعد میں اس سے کہا: شاہی محل میں داخل ہو جاؤ محل کی دالان کا فرش صاف وشفاف شیشہ کا تھا اور اس کے نیچے پا نی بہہ رہا تھا. بلقیس نے پا نی کا گمان کیا اس لئے لبا س کے نچلے حصّہ کو اوپر اٹھا لیا اور اپنی پنڈ لیوں کو نما یاں کر دیا تا کہ اُس پانی سے گذر سکیں. یہ ماجرا دیکھ کر لوگوں نے بتایا یہ صاف و شفاف شیشہ ہے جس کے نیچے پا نی بہہ رہا ہے. بلقیس ایسے امور کے مشا ہدہ کے بعد جن کا آمادہ اور فراہم کرنا انسان کے بس سے با ہر ہے ایمان لے آئیں اور مسلمان ہوگئیں۔

خدا وند عالم نے سلیمان کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ جاری کر دیا اور ان کے لئے دیو بڑی سے بڑی بلند عمارتیں تعمیر کر تے تھے اور درختوں کے تنوں سے مجسمہ اور اس جیسی دوسری چیزیں ان کے لئے تراشتے تھے اور کھانے کے بڑے بڑے ظروف اور اتنے گہرے اور بڑے بڑے دیگ جو بڑے ہو نے کی بنا پر ایک جگہ سے دوسری جگہ حمل ونقل کے قابل نہیں تھے بناتے تھے۔

ایک دن حضرت سلیماناپنے محل کی چھت پر تشر یف لائے اور اپنے عصاپر ٹیک لگایا اور جنا تی کا ریگروں کے کاموں کا نظا رہ کر نے لگے وہ جنات جو اپنی کار کردگی میں زبردست مشغول تھے،اسی حال میں خدا وند عالم نے ان کی (حضرت سلیمان کی )روح قبض کر لی اورچند دنوں تک ان کا بے جا ن جسم عصا کے سہارے دیوؤں کے کاموں کو دیکھتا رہا، دیو لوگ بڑی محنت اور زحمت کے ساتھ اپنے ذمّہ امور کے لئے کوشش کر رہے تھے اور ذرہ برابر بھی نہ جان سکے کہ سلیمان مرچکے ہیں. یہ حا لت اسی طرح اُس وقت تک باقی رہی جب تک دیمک نے ان کے لکڑی کے عصا کو کھوکھلا نہ کر دیا اور سلیمان کے جسم کو بلندی سے زمین پر نہ گرا دیا ان کے گر تے ہی جنّات اور دیوؤںکو ان کے مرنے کی اطلا ع ہو گئی، کیو نکہ جنات کو اگر غیب کا علم ہوتا تو سلیمان کے مرنے کے بعد ایک آن بھی ان طاقت فرسا امور کو جاری نہ رکھتے!

۱۸۹

پانچواں منظر: زکری اور یحییٰ

خدا وندسبحان سورہ ٔمریم کی پہلی تا ۱۵ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

(بِسْمِ ﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم )

( کهٰیٰعص٭ ذِکْرُ رَحْمَةِ راَبِکَ عَبْدَهُ زَکَرِیَّا ٭ إِذْ نَادَی رَبَّهُ نِدَائً خَفِیًّا ٭ قَالَ راَبِ ِنِّی وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّی وَاشْتَعَلَ الرَّْسُ شَیْبًا واَلَمْ َکُنْ بِدُعَائِکَ راَبِ شَقِیًّا ٭ وَِنِّی خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَرَائِی وَکَانَتْ امْرََتِی عَاقِرًا فَهَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا ٭ یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ راَبِ رَضِیًّا ٭ یَازَکَرِیَّا ِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ یَحْیَی لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا ٭ قَالَ راَبِ َنَّی یَکُونُ لِی غُلَام وَکَانَتِ امْرََتِی عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنْ الْکِبَرِ عِتِیًّا ٭ قَالَ کَذَلِکَ قَالَ رَبُّکَ هُوَ عَلَیَّ هَیِّن وَقَدْ خَلَقْتُکَ مِنْ قَبْلُ واَلَمْ تَکُنْ شَیْئًا ٭ قَالَ راَبِ اجْعَل لِی آیَةً قَالَ آیَتُکَ َلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَیَالٍ سَوِیًّا ٭ فَخَرَجَ عَلَی قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فََوْحَی الَیهِمْ َنْ ساَبِحُوا بُکْرَةً وَعَشِیًّا ٭ یَایَحْیَی خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَیْنَاهُ الْحُکْمَ صاَبِیًّا ٭ وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَ زَکَاةً وَکَانَ تَقِیًّا ٭ وَبَرًّا بِوَالِدَیْهِ واَلَمْ یَکُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا ٭ وَسَلَام عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا ٭ )

کھٰےٰعص .ان آیات میں، تمہارا ربّ اپنے خاص بندہ زکریا پر اپنی رحمت کے متعلق گفتگو کرتا ہے۔

جب اُس نے تنہا ئی میں اپنے خدا کوآواز دی۔

اُس نے کہا:خدا یا!ہماری ہڈیاں کمزور ہوگئیں اور سر کے بال سفید ہو چکے ہیں۔

خدا یا میں نے جب بھی تمھیں پکا را محروم نہیں رہا ہوں میں اپنے موجودہ وارثوں (چچا زاد بھائیوں) سے خوفزدہ ہوں اور میری بیوی ابتدا ہی سے بانجھ ہے۔

لہٰذا مجھے ایک فرزند عطا کر جو میری اور آل یعقوب کی میراث پا ئے اور اسے اپنا پسندیدہ قرار دے ۔

(اُنھیںخطاب ہوا) اے زکریا! ہم تجھے یحییٰ نامی ایک فرزند کی خوشخبری دے رہے ہیں.اور اب تک کسی کو اس کا ہم نام قرار نہیں دیا ہے ۔

۱۹۰

کہا:خدا یا ! مجھے کیسے کوئی فرزندپیدا ہو گا جبکہ میری بیوی پہلے ہی سے بانجھ ہے اور میں خود بھی مکمّل بوڑھا ہو چکا ہوں.(فرشتہ نے کہا) تمہارے ربّ کا ارشاد ہے:یہ کام میرے لئے نہا یت آسان ہے.تمھیں اس سے قبل جب کہ تم کچھ نہیں تھے میں نے خلق کیا۔

کہا: خدا یا ! ہمارے لئے کوئی نشا نی قرار دے.کہا: تمہاری علامت اور نشا نی یہ ہے کہ تین شب کلام نہیں کرو گے ۔

(زکریا) محراب(عبادت)سے خا رج ہوئے اور اپنی قوم کی طرف اشارہ کیا کہ صبح اور عصر کے وقت خدا کی تسبیح کرو.اے یحییٰ! کتاب (توریت ) کو مضبوطی سے پکڑلو؛اور اُس کو بچپنے میں مقام نبوت عطا کیا ۔

اور اپنی طرف سے اسے شفقت ، مہر بانی اور پاکیز گی عطا کی اور وہ پارسا اور پرہیز گار تھا.اور اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والا تھا ۔

ستمگر اور سرکش نہیں تھا!اُس دن پر درود ہوجس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن ابدی زندگی کے لئے مبعوث ہو گا(اُٹھا یا جا ئے گا)۔

سورہ ٔآل عمران کی ۳۸ویں تا ۴۱ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( هُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّهُ قَالَ راَبِ هَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً ِنَّکَ سَمِیعُ الدُّعَائِ ٭ فَنَادَتْهُ الْمَلاَئِکَةُ وَهُوَ قَائِم یُصَلِّی فِی الْمِحْرَابِ َنَّ ﷲ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیَی مُصَدِّقًا بِکَلِمَةٍ مِنَ ﷲ وَسَیِّدًا وَحَصُورًا وَناَبِیًّا مِنَ الصَّالِحِینَ ٭ قَالَ راَبِ َنَّی یَکُونُ لِی غُلاَم وَقَدْ بَلَغَنِی الْکِبَرُ وَامْرََتِی عَاقِر قَالَ کَذَلِکَ ﷲ یَفْعَلُ مَا یَشَائُ ٭ قَالَ راَبِ اجْعَلْ لِی آیَةً قَالَ آیَتُکَ َلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَةَ َیَّامٍ ِلاَّ رَمْزًا وَاذْکُرْ رَبَّکَ کَثِیرًا وَساَبِحْ بِالْعَشِیِّ وَالِْبْکَارِ ٭ )

یہاں تک کہ زکریا نے اپنے ربّ سے دعا کی اور کہا:خدا یا ! اپنی طرف سے ایک پاک و پاکیزہ فرزند عطا کر کہ تو دعا کا سننے والا ہے ۔

فرشتوں نے اُ نھیں آواز دی جب کہ وہ محراب عبادت میں کھڑے ہوئے تھے کہ:خدا وند عالم تمھیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو کہ ایک کلمہ ( حضرت عیسیٰ ہیں) کی تصدیق کر نے والا رہبر، پرہیز گار اور پاکیزہ افراد میں سے پیغمبر ہے۔

آپ نے کہا: خدا یا !مجھے کس طرح کوئی فرزند ہو گا جب کہ میری ضعیفی کمال کو پہنچی ہوئی ہے اور میری بیوی بانجھ ہے؟!(فرشتہ نے کہا) ایسا ہی ہے خدا جو چا ہتا ہے انجام دیتا ہے۔

(زکریا نے کہا):خدا یا!میرے لئے کوئی علامت قرار دے۔

کہا تمہاری علامت یہ ہے کہ تین دن تک لوگوں سے بات نہیں کرو گے مگر اشارہ سے؛ اپنے ربّ کو بہت زیادہ یاد کرواور صبح وشام اس کی تسبیح کرو۔

۱۹۱

کلمات کی تشریح

۱۔اِشْتَعَلَ الرَّأسُ شَیْباً :

میرے سر کی سفیدی نے پو را سر گھیر لیا ہے؛(بڑھاپے کی وجہ سے میرے سر کے سارے بال سفید ہوگئے) خداوند سبحان نے بو ڑھاپے اور بال کی سفیدی کوآگ سے تشبیہ دی اور بال میں اس کی وسعت وگسترش کو اُس کے شعلہ سے تشبیہ دی ہے۔

۲ ۔ عاقر:

بانجھ عورت۔

۳۔ عَتِیاً:

بہت زیادہ ضیعف،کھو کھلی اور بالکل خالی ۔

۴۔سوّیاً :

یعنی تم بغیر اس کے کہ بیماری میں مبتلا ہو اورصحیح وسالم ہو نے کے باوجود کلام نہیں کر سکتے۔

۵۔فاوحیٰ الیھم :

ان کی طرف اشارہ کیا۔

۶۔خُذ الکتاب بقُوَّةٍ :

اپنی تمام تر طاقت سے توریت کو لے لو۔

۷۔( آتَیْناهُ الحُکْمَ صَبیّاً ) :

جب وہ تین سالہ بچہ تھا تو ہم نے اسے نبوت عطا کی۔

۸۔ حنا ناً :

اُس پر ہماری رحمت اور لطف۔

۱۹۲

آیات کی تفسیر

حضرت زکریا پیری کی منزل کو پہنچ چکے تھے(یعنی بوڑھے ہو چکے تھے)ان کی ہڈیاں کمزور اور سر کے بال سفیدی کی طرف ما ئل ہو چکے تھے. کہ اپنے ربّ سے خطاب کیا، میںبوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے اور اپنے چچا زاد بھا ئیوں کے انجام کا ر سے جو کہ میرے بعد میرے وارث ہو گے خوفزدہ ہوں۔

لہٰذا مجھے ایک ایسا بیٹا عطا کر جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو اور اسے اپنے نیک بندوں میں قرار دے .خدا وند منّا ن نے حضرت زکریا کی دعا قبول کی اور انھیں یحییٰ نامی فرزند کی کہ اُس وقت تک کسی کو اس نام سے یاد نہیں کیا گیاتھا بشارت دی ۔

زکریانے کہا:مجھ سے کیسے فرزند پیدا ہو گا جبکہ میں بوڑھا ،کمزور ،لا غر اور سوکھ چکا ہوں اور میری بیوی بھی بانجھ ہے(تولید کے سن سے باہر اور بچہ پیدا کر نے کے قا بل نہیں ہے)۔

خدا وند عالم نے فرمایا یہ کام میرے لئے بہت سہل اور آسان ہے،تمہارا اس سے پہلے کوئی وجود نہیں تھا لیکن میں نے پیدا کیا۔

زکریا نے کہا: خدا یا! اگر ایسا ہے تو میرے لئے اس عطیہ میں کو ئی علامت اور نشانی قرار دے۔

خدا وند متعال نے فرمایا: وہ علا مت یہ ہے کہ تم صحیح وسالم ہو نے کے باوجود تین رات تک تکلم پر قادر نہیں ہو سکو گے ۔

زکریاجب محراب عبادت سے با ہر نکلے تو اپنی قوم کی طرف اشارہ کیا کہ روزانہ صبح وشام خدا کی تسبیح کرو۔

خدا وند عالم نے یحییٰ پر وحی نازل کی کہ: اے یحییٰ!اپنی تمام طاقت سے توریت کو پکڑ لو: اور اسے عہد طفولیت ہی میں مقام نبوت اور توریت کے مطا لب کا ادراک عطا فرمایا۔

۱۹۳

چھٹا منظر: عیسیٰ بن مریم :

خدا وند سبحان سورۂ مریم کی ۱۶ویں تا ۳۳ ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

( وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ َهْلِهَا مَکَانًا شَرْقِیًّا ٭ فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُونِهِمْ حِجَابًا فََرْسَلْنَا الَیهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا ٭ قَالَتْ ِنِّی َعُوذُ بِالرَّحْمَانِ مِنْکَ ِنْ کُنتَ تَقِیًّا ٭ قَالَ ِنَّمَا َنَا رَسُولُ راَبِکِ لَِهَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا ٭ قَالَتْ َنَّی یَکُونُ لِی غُلَام واَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَر واَلَمْ َکُنْ بَغِیًّا٭ قَالَ کَذَلِکِ قَالَ رَبُّکِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّن وَلِنَجْعَلَهُ آیَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِنَّا وَکَانَ َمْرًا مَقْضِیًّا ٭ فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَکَانًا قَصِیًّا ٭ فََجَائَهَا الْمَخَاضُ الَی جإِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ یَالَیْتَنِی مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَکُنتُ نَسْیًا مَنْسِیًّا ٭ فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا َلاَّ تَحْزَنِی قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا ٭ وَهُزِّی الَیکِ بِجإِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا ٭ فَکُلِی وَاشْراَبِی وَقَرِّی عَیْنًا فَِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ َحَدًا فَقُولِی ِنِّی نَذَرْتُ لِلرَّحْمَانِ صَوْمًا فَلَنْ ُکَلِّمَ الْیَوْمَ ِنسِیًّا ٭ فََتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ قَالُوا یَامَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا ٭ یَاُخْتَ هَارُونَ مَا کَانَ َبُوکِ امْرََ سَوْئٍ وَمَا کَانَتْ ُمُّکِ بَغِیًّا ٭ فََشَارَتْ الَیهِ قَالُوا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صاَبِیًّا ٭ قَالَ ِنِّی عَبْدُ ﷲ آتَانِی الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی ناَبِیًّا ٭ وَجَعَلَنِی مُبَارَکًا َیْنَ مَا کُنتُ وََوْصَانِی بِالصَّلَاةِ وَالزَّکَاةِ مَا دُمْتُ حَیًّا٭ وَبَرًّا بِوَالِدَتِی واَلَمْ یَجْعَلْنِی جَبَّارًا شَقِیًّا ٭ وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ َمُوتُ وَیَوْمَ ُبْعَثُ حَیًّا ٭ )

قرآن میں مریم کو یاد کرو،جب کہ اُس نے اپنے گھرانے سے جدا ہو کر شرقی علاقہ (بیت المقدس) میں سکو نت اختیار کی .اوراپنے اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیا میں نے اپنی روح (روح القدس) کو انسانی شکل (خوبصورت) میں اس کے پاس بھیجا۔

مریم نے کہا:میں تم سے خدا کی پناہ چاہتی ہوں شاید کہ تم پارسا اور پاک باز ہو .(روح القدس نے) کہا :یقینا میں تمہارے ربّ کا فرستادہ ہوںآیا ہوں تاکہ تمہیں ایک پاکیزہ فرزند عطا کروں ۔

مریم نے کہا! مجھے کیسے کوئی بچہ ہو گا،جبکہ کسی انسان نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگا یاہے اور نہ ہی میں بد کار ہوں؟!

فرشتہ نے کہا ایسا ہی تمہارے ربّ نے کہا ہے کہ یہ کام ہمارے لئے نہایت آسان اور سہل ہے ہم اس بچہ کو لوگوں کے لئے آیت اورنشانی اور اپنی طرف سے ایک رحمت قرار د یں گے اور یہ امر یقینی ہے ۔

مریم اس بچہ سے حاملہ ہوئیں اور اس کے ساتھ ایک دور دارز جگہ پر ایک گو شہ میں قیام کیا.

۱۹۴

دردِ زہ کھجور کے درخت کے نیچے عارض ہوا(غم واندوہ اور کرب کی شدت سے ا پنے آپ سے کہا ) اے کاش اس سے پہلے مرگئی ہوتی اور فراموش ہو گئی ہوتی۔

(بچہ نے ) اسے نیچے سے آواز دی کہ : غم نہ کرو،تمہارے ربّ نے تمہارے قدم کے نیچے ایک نہر جاری کی ہے۔

خرمے کی شاخ کو اپنی طرف حرکت دو،تو تم پر تازہ خرمے گریں گے.کھاؤ پیؤ اور خوش وخرم رہو.اور اگر آدمیوں میں سے کسی کودیکھوتو کہو:میں نے خدا وند رحمن کے لئے خاموشی کا روزہ رکھا ہے آج میں کسی سے بات نہیںکروں گی۔

(مریم) حضرت عیسیٰ کو آغوش میں لئے ہوئے قوم کے سامنے آئیں۔

تو انھوں نے کہا:اے مریم! عجب تم نے بُرا کام کیاہے! اے ہا رون کی بہن! تمہارا باپ کوئی بُرا انسان نہیں تھا اور نہ ہی تمہاری ماں بد کار تھی۔

مریم نے عیسیٰ کی طرف اشارہ کیا؛انھوں نے کہا:ہم گہوارہ میں موجود بچے سے کیسے کلام کریں ؟! (بچہ امر خدا وندی سے گو یا ہوا)اور کہا! میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے آسمانی کتاب اور نبوت کا شرف عطا کیا ہے..اور ہمیں ہم دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں مبارک قرار دیا ہے۔

اور جب تک زندہ ہوں نماز اور زکاة کی وصیت کی ہے۔

اور میرے لئے اس کا حکم ہے کہ میں اپنی ماں کی ساتھ نیکی کروں اور مجھے بدبخت اور ستم گر قرار نہیں دیا ہے.مجھ پر درود ہو جس دن میں پیدا ہوا ہوںاور جس دن موت آئے گی اور اس د ن جب آخرت کی ابدی زندگی کے لئے دوبارہ مبعوث کیا جاؤں گا۔

۱۹۵

عیسیٰ بن مریم کے ساتھ بنی اسرائیل کی داستان

خداوند عالم سورۂ آل عمران کی ۴۵ تا ۵۲ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

( إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ ِنَّ ﷲ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیهًا فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ وَمِنْ الْمُقَرّاَبِینَ ٭ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِینَ ٭ قَالَتْ راَبِ َنَّی یَکُونُ لِی وَلَد واَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَر قَالَ کَذَلِکِ ﷲ یَخْلُقُ مَا یَشَائُ ِذَا قَضَی َمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَهُ کُنْ فَیَکُونُ ٭ وَیُعَلِّمُهُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالِنجِیلَ ٭ وَرَسُولًإ الَی بَنِی ِسْرَائِیلَ َنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِآیَةٍ مِنْ راَبِکُمْ َنِّی َخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّینِ کَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فََنفُخُ فِیهِ فَیَکُونُ طَیْرًا بِإِذْنِ ﷲ وَُبْرِئُ الَکْمَهَ وَالَبْرَصَ وَُحْیِ الْمَوْتَی بِإِذْنِ ﷲ وَُناَبِئُکُمْ بِمَا تَْکُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِی بُیُوتِکُمْ ِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَةً لَکُمْ ِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ ٭ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلُِحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِی حُرِّمَ عَلَیْکُمْ وَجِئْتُکُمْ بِآیَةٍ مِنْ راَبِکُمْ فَاتَّقُوا ﷲ وََطِیعُونِ ٭ ِنَّ ﷲ راَبِی وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاط مُسْتَقِیم ٭ فَلَمَّا َحَسَّ عِیسَی مِنْهُمْ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ َنْصَارِی الَی ﷲ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ نَحْنُ َنْصَارُ ﷲ آمَنَّا بِﷲ وَاشْهَدْ بَِنَّا مُسْلِمُونَ ) ٭)

جب فرشتوں نے مریم سے کہا: اے مریم!خداوند رحمن تمھیں اپنے ایک کلمہ مسیح بن مریم کے نام کی بشارت دیتا ہے کہ وہ دنیا وآخرت میں محترم اور معزز ہے اور خدا کے مقر ب لوگوں میں ہے۔

اور وہ گہوارہ میں لوگوں سے بات کرلے گا جس طرح بڑے لوگ کرتے ہیں اور وہ نیک اور شائستہ لوگوں میں ہے۔

(مریم نے )کہا خد ایا! کس طرح مجھے بچہ ہو گا جب کہ مجھے کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگا یا ہے.فرشتہ نے کہا:( خدا کا حکم) ایسا ہی ہے،خدا جو چا ہتا ہے پیدا کر دیتا ہے۔

جب وہ کسی چیز کا ارداہ کرتا ہے تو اس سے کہتاہے ہو جا تو وہ چیز اسی وقت ہو جاتی ہے خدا نے عیسیٰ کو کتاب وحکمت ،توریت وانجیل کی تعلیم دی ہے۔

اور اُس کو بنی اسرائیل کی طرف پیغمبری کیلئے مبعوث کرے گا( تاکہ وہ کہے) میں تمہارے ربّ کی طرف سے تمہارے لئے ایک معجزہ لایا ہوں.میں تمھارے لئے مٹی سے ایک پرندے کا مجسمہ بناؤں گا اور اس میں پھونک ماروں گا تا کہ خدا کے اذن سے ایک پرندہ بن جا ئے اور کور مادر زاد اور کوڑھی کوخدا کے اذن سے شفادوں گا اور مردوں کو خدا کے اذن سے زندہ کروںگااور جو کچھ کھاتے ہو یا جو کچھ اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو اس کی خبر دوں گا۔

۱۹۶

یہ معجزات تمہارے لئے(میری رسالت پر) ایک دلیل ہیں اگر تم مومن ہو .وہ توریت جو مجھ سے پہلے تھی اس کی تصدیق کرتا ہوں اور بعض وہ چیزیں جو تم پر حرام تھیں اُسے حلال کروں گا اور تمہارے ربّ کی جانب سے تمہارے لئے ایک نشا نی لا یا ہوں.لہٰذا اے بنی اسرا ئیل خدا سے ڈرو اور میرے حکم کی تعمیل کرو.ﷲ ہی ہمارا اور تمہارا ربّ ہے لہٰذا اس کی عبادت اور پرستش کرو کہ سیدھا راستہ یہی ہے۔

جب عیسیٰ نے ان میں کفر کا احساس کیا،تو کہا ! خدا کی راہ میں ہمارے ساتھی اور چاہنے والے کون لوگ ہیں؟حواریوں نے کہا:ہم خدا کے ناصر ہیں اور خدا پر ایمان لائے ہیں؛گواہ رہو کہ ہم اس کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم ہیں۔

سورۂ صف کی چھٹی آیت میں ارشاد ہوتا ہے؛

( وَإِذْ قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَابَنِی ِسْرَائِیلَ ِنِّی رَسُولُ ﷲ الَیکُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ یَاْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُهُ َحْمَدُ فَلَمَّا جَائَهُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْر مُبِین )

اُس وقت کو یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا:اے بنی اسرائیل!میں تمہاری طرف اللہ کا پیغمبر ہوں،اس توریت کی تصدیق کرتا ہوں کہ جو میرے سامنے ہے اور اپنے بعد ایک ایسے پیغمبر کی خوشخبری اور بشارت دیتا ہوں جس کا نام احمد ہے۔

پھر جب وہ پیغمبر( رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰلہ وسلم ) آیات اور معجزات کے ساتھ خلق کی طرف آیا،تو انھوں نے کہا :یہ (معجزات اور اس کا قرآن)کھلا ہوا سحر ہے ۔

سورہ ٔ نسا کی ۱۵۵ویں تا ۱۵۸ویں آیات میں خدا ارشاد فرماتا ہے:

( فاَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیثَاقَهُمْ وَکُفْرِهِمْ بِآ یَاتِ ﷲ وَقَتْلِهِمُ الَنْبِیَائَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَ قَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْف بَلْ طَبَعَ ﷲ عَلَیْهَا بِکُفْرِهِمْ فَلاَیُؤْمِنُونَ ِلاَّ قَلِیلًا ٭ واَبِکُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَی مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیمًا ٭ وَقَوْلِهِمْ ِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیحَ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُولَ ﷲ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَکِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَِنَّ الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِیهِ لَفِی شَکٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ ِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ یَقِینًا ٭ بَلْ رَفَعَهُ ﷲ الَیهِ وَکَانَ ﷲ عَزِیزًا حَکِیمًا )

پھر ان کی عہد شکنی اور آیات خدا وندی کے انکار اور پیغمبروں کے ناحق قتل کی وجہ سے (خدا نے انھیں کفیر کردار تک پہنچا یا یعنی انھیں عذاب دیا) اور کہتے تھے:ہمارے قلوب پو شیدہ اور مستور (چھپے) ہیں بلکہ خدا نے ان کے کفر کی وجہ سے اُن پر مہر لگا دی ہے کہ بجز معدودے چند افراد کے ایمان نہیں لائے اور ان کے کیفر کے با عث اور اس لئے کہ انھوں نے مر یم پر عظیم بہتان باندھا ہے ۔

۱۹۷

اور یہ کہ انھوں نے کہا:ہم نے (حضرت ) مسیح عیسیٰ بن مریم خدا کے پیغمبر کو قتل کرڈ الاہے جبکہ انھوں نے اسے قتل نہیں کیا ہے اور دار پر نہیں لٹکا یا ہے.بلکہ دوسرے کو ان کی شبیہ بنادیا گیاتھااور جن لوگوں نے ان کے قتل کے بارے میں اختلا ف کیا ہے، وہ اس کے بارے میں شک و تردید میں ہیں اور گمان کا اتباع کرنے کے علا وہ کوئی علم نہیں رکھتے؛اور انھوں نے اس کو یقینا قتل نہیں کیا. بلکہ خدا وند عالم نے انھیں اپنی طرف اوپر بلا لیا اور خدا عزیز اور حکیم ہے۔

کلمات کی تشریح

۱۔ کَلِمة :

یہاں پر ایک ایسی مخلوق کے معنی میں ہے کہ خدا وند عالم نے جس کو کلمہ کن(ہو جا)اور اس جیسے الفاظ کے ذریعہ اور خلقت کے عام اسباب و وسائل کو اس میں دخیل بنائے بغیر پیدا کیا ہے۔

۲۔ انتبذت:

کنارہ کشی اختیار کی،دور ہو کر ایک گوشہ میں چلی گئی۔

۳۔زکےّاً:

طاہر،ہر قسم کی آلودگی سے پاک ۔

۴۔سَرےّاً:

چھوٹی ندی ، پانی کی نہر۔

۵۔ جنّی:

تازہ چُنے ہوئے میوے۔

۱۹۸

۶۔فریّاً:

ایک حیرت انگیز اور نا معلوم امر۔

۷۔اکمہ:

مادر زاد نابینا۔

۸۔مُصدِّقاً :

چونکہ توریت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے کی بشارت ہے وہ بھی انھیں صفات کے ساتھ آنا جو کہ توریت میں مذکورہیں لہٰذاحضرت رسول اکر م صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰ لہ وسلم کا وجود توریت کے لئے مصدِّ ق اور تصدیق کر نے والا ہے۔

۹۔بغےّاً :

وہ بد کار(طوائف)عورت جو زنا کے ذریعہ کسب معا ش کرتی ہے۔

گزشتہ آیات کی تفسیر

بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ گرامی حضرت مریم کی داستان قرآن مجید میں اس طرح بیان ہوئی ہے:

فرشتوں نے حضرت مریم کو آواز دی اور اللہ کی خوشخبری دی جو کہ حضرت عیسیٰ مسیح کی ولا دت سے متعلق تھی کہ حضرت باری تعالیٰ ان کو اپنے کلمہ کن ( ہو جا ) سے اور معروف ومشہور اسباب ووسائل کے بغیر، کو خلق کرے گا اور وہ خدا کے کلام کو گہوار ہ میں اور بڑے ہو نے پر لوگوںکوابلا غ کرے گا۔

حضرت مریم نے ایسا خطاب سن کر کہا: خدا یا ! میں کس طرح دنیامیں کو ئی بچہ پیدا کرسکتی ہوں جب کہ کسی انسان نے مجھے مس تک نہیں کیاہے؟

۱۹۹

جبرئیل خدا کا پیغام انھیں اس طرح ابلا غ کرتے ہیں:

خدا جس کو (اورجو بھی )چا ہتا ہے بغیر اسباب اور بغیر کسی وسیلہ کے صرف (کن) جیسے لفظ سے پیدا کر دیتا ہے اور وہ چیز اسی گھڑی پیدا ہو جا تی ہے ٹھیک اسی طرح جو اسباب ووسائل کے ذریعہ خلق ہوتی ہے۔

پھر جبرائیل نے حضرت مریم کے گلے کے سامنے گریبان میں روح پھونکی اور جو کچھ خدا وند عالم کا ارادہ تھا خود بخود تحقق پاگیا اور مریم حاملہ ہو گئیں۔

جب حضرت مریم نے اپنے اندر کسی بچے کا احساس کیا،تو اپنے خاندان سے ایک دور جگہ چلی گئیں،درد زہ نے انھیںخرمے کے سوکھے درخت کی جانب آنے پر مجبور کیا آپ نے اس سے ٹیک لگا کر کہا:اے کاش اس سے پہلے ہی مر کر نیست ونابود ہو گئی ہوتی ، کہ اسی حال میں ان کے پہلو سے عیسیٰ یا جبرائیل نے آواز دی غمگین نہ ہو خدا وند عالم نے تمہارے قدم کے نیچے ایک چھوٹی نہر جاری کی ہے ، خرمے کی سوکھی شاخ کو حرکت دو تو تازے خرمے گریں گے.پھر اسوقت وہ خرمے کھاؤ اور اس پانی سے سیراب ہو کر خوش وخرم ہو جاؤ اور جب کسی کو دیکھو تو کہو:میں نے خدا کے لئے خاموشی کے روزہ کی نذر کر لی ہے اور ہرگز آج کسی سے بات نہیں کروںگی۔

مریم نومولود کو اٹھا کر قوم کے سامنے آئیں. وہ لوگ منھ بنا نے اور چہر ہ سکوڑ نے لگے اور ناراض ہوکر کہا: اے ہارون کی بہن ! تم نے بہت گندہ اور ناپاک فعل انجام دیا ہے نہ تو تمہارا باپ زنا کار تھا اور نہ تمہاری ماں کوئی بد کار خاتون تھی حضرت مریم نے جناب عیسیٰ کی طرف اشارہ کیا کہ اس بچے سے بات کرو، وہ تمھیں جواب دے گا،بولے: ہم گہوارہ میں نو مولود سوئے ہوئے بچے سے کیسے بات کریں؟!تو خدا وند عالم نے عیسیٰ کو قوت نطق دی اور زبان گویا ہوئی، کہا: میں خدا کا بندہ ہوں،اس نے مجھے انجیل نامی کتاب دی ہے اور مجھے نبوت کا شرف عطا کیا ہے اور میں جہاں کہیں بھی رہوں مجھے مبارک اور نیک اور امور خیر کے لئے ایک معلّم قرار دیا ہے اور جب تک میں زندہ ہوں اُس وقت تک مجھ نماز(قائم کرنے) زکوة(دینے) اور اپنی ماں کے حق میں نیکی کرنے کاحکم دیا ہے۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421