عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 13%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 421

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 421 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207878 / ڈاؤنلوڈ: 8538
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

پہلی جلد

علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم:سید قلبی حسین رضوی

۳

خطوط اور مقدمے

کتاب عبدا للہ بن سبا کی علمی قدر و قیمت

ایک شیعہ دانشور محترم جناب شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

الازہر یونیورسٹی ، مصر کے مجلہ کا جواب

مباحث پر ایک نظر

سلسلہ مباحث کی پیدائش

۴

کتاب عبد اللہ بن سبا کی علمی قدرو قیمت

مصر کی الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر جناب ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کا خط

کتاب عبدالله بن سبا ، آخر میں دوسرے ایڈیشن کے عنوان سے مصر میں دوسری بار شائع ہوئی ہے،اس کتاب نے اہل سنت ممالک میں گہرا اثر ڈالا ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں خاص کر الازہر یونیورسٹی کے دانشوروں اور اساتذہ کی توجہ کا سبب بنی ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں میں غیر معمولی اثر ڈالا ہے ،مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی طرف سے مؤلف کو اس کتاب کو پسند کرنے کے سلسلہ میں کئی خطوط ملے ہیں ، ان میں سے ایک جناب ڈاکٹر حامدکا خط ہے ، وہ مصر کے ایک نامور دانشور ہیں ، جو کئی قابل قدر تحقیقی تالیفات کے مالک ہیں ۔

چونکہ یہ خط انصاف و عدالت کا ایک نمونہ اور تعصب اورہٹ دھرمی کی سرحدوں کو توڑنے والا ایک عنوانہے اس لئے ہم اسے ترجمہ کرکے شائع کرتے ہیں(۱)

____________________

۱۔ نشریہ سالانہ مکتب تشیع ۴/۳۰۲۔

۵

خط کا مضمون

تاریخ اسلام کی تیرہ صدیاں اختتام کو پہنچی ہیں ان تیرہ صدیوں کے دوران ہمارے دانشوروں کے ایک گروہ نے حتی الامکان شیعوں کے خلاف آواز اٹھائیہے اور حقائق کو اپنی نفسانی خواہشات سے مخلوط کیا ہے اس ناپسندیدہ روش کی وجہ سے اسلامی فرقوں کے د رمیان گہرے اختلافات پیدا ہوئے ہیں ، نتیجہ کے طورپر شیعہ دانشوروں کے فکر و اندیشہ کے گوہر کو حقیر سمجھا گیا ہے اسی روش کی بنا پر علمی دنیا کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

شیعہ دانشوروں کے افکار سے علم محروم رہا ہے کیونکہ دشمنوں نے شیعوں کے پا ک و صاف دامن کو داغدار بنا کر انھیں ایک توہمات و خرافات کے حامل گروہ کے طور پر پہچنوایا ہے ، بے شک ہم شیعوں کے صاف و شفاف علمی چشمہ زلال سے ایک گھونٹ پی سکتے تھے نیزاس مذہب کے سرمایہ سے فائدہ اٹھا سکتے تھے ، لیکن افسوس کہ ہمارے گزشتہ دانشوروں نے تعصب سے کام لیااور عقل کو ھوا و ہوس پر ترجیح نہیں دی ، اے کاش کہ وہ لوگ عقل کی پیروی کرتے اور جذبات کے کھلونے نہ بن تے !! جو کوئی تعصب کے عینک کو اتارکر فقہی مباحث کےلئے اقدام کرے اور فقہ مذاہب چہارگانہ پر تحقیق کرے ، وہ شیعہ فقہ سے بھی استفادہ کرنے پر مجبور ہے اور بے شک جب فقہ اہل سنت پرتحقیق کرے تو اس وقت شیعہ فقہ کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے اور اس سے آگاہ ہونا چاہئے ۔

۶

ہم کب تک خواب غفلت میں رہیں گے ؟! کیا فقہ شیعہ کے پرچم دار ،ا مام جعفر صادق علیہ السلام(۱) سنی مذہب کے دو امامو ں کے استاد نہیں تھے؟ یہ دو امام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مکتب میں زانوئے ادب تہہ کیا ہے ۔

ابو حنیفہ ، نعمان بن ثابت(۲) کہتے ہیں :

لولاالسنتان لهلک النعمان

اگر امام صادق علیہ السلام کے درس میں دو سال شرکت نہ کی ہوتی تو بے شک میں ہلاک ہوجاتا، اوردین سے منحرف ہوتا۔

اس کی مراد وہی دو سال ہیں جس میں انہوں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کے علم کے میٹھے اور زلالی چشمہ سے استفادہ کیا ہے ۔

اور یہ مالک بن انس ہیں جو واضح طور پر اعتراف کرتے ہیں :

ما رایت افقه من جعفر بن محمد

میں نے جعفر بن محمد سے فقیہ تر کسی کو نہیں د یکھا ہے(۳)

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ علم کے بارے میں صرف دور سے کچھ سننے والوں نے اپنے آپ کو دانشور سمجھ کر اپنے قلم سے تحقیق کی بنیادوں کو اکھاڑ کر حق و حقیقت کو اپنی نفسانی خواہشات پر قربان

____________________

۱۔ وفات ۱۴۸ ھ

۲۔ وفات ۱۵۰ھ

۳۔ وفات ۱۷۹ ھ

۷

کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر گلستان علم کے دروازے ان پر بند ہوگئے اور اس طرح وہ شمع معرفت کے نور سے محروم ہوگئے ہیں ، اس مذموم روش نے فتنہ کی آگ کو بھڑکانے کے علاوہ مسلمانوں میں ، دن بدن اختلافات کو بڑھا وا دیا ہے ۔

افسوس کہ ہمارے استاد ” احمد امین “(۱) بھی انہیں افراد میں سے تھے ، جنہوں نے معرفت کے نور سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ظلمت کے پردوں کے پیچھے زندگی بسر کرتے رہے ، یہ وہ کرنیں ہیں جو تشیع کے سورج سے چمکی ہیں اور جہالت کی تاریک رات کو نور میں تبدیل کرکے اسلام کے عظیم تمدن کو اس وقت وجود بخشا ، جبکہ دوسرے لوگ بہت پیچھے تھے۔

تاریخ نے اس ناپاک رویہ کی بنا پر ، احمد امین اور ان جیسے تمام اساتذہ اور دانشوروں کے دامن پر عظیم داغ لگادیا ہے، جنہوں نے آنکھیں بند کرکے تعصب کی وادی میں قدم رکھا ہے ، یہ دانشور وں اور محققین کا طریقہ کار نہیں ہے کہ ایک جگہ بیٹھے رہیں اور جمود کی بیڑی کو اپنی فکر کے پاؤں سے نہ اتاریں اور بے جا پر تعصب سے کام لے کر آنکھیں بند کرکے کسی مذہب کی پیروی کریں !!

ان کی فکرو قلم سے بہت ساری غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہوئی ہیں اور انہیں الجھن اور بد حواسی سے دوچار کیا ہے ، شاید مذکورہ داستان اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔

انہوں نے جھوٹ بول کر بعض مطالب کو شیعوں سے نسبت دیکران کے دامن کو داغدار بنادیا

____________________

۱۔ ” فصل “ پیدائش افسانہ د ور راویان آن “ شمارہ ہفتم ، کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں پر احمد امین کی باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا ہے جس کا سبب شیعوں کے ساتھ اس کی دشمنی اور کینہ ہے ۔

۸

ہے کہ ہم نے ان میں سے بعض کی طرف اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے ،(۱) انہوں نے تصور کیا ہے کہ جتنے بھی خرافات اور جعلی چیزیں اسلام کی تاریخ میں موجود ہیں ، سب کی سب شیعہ علما کی گڑھی ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنے خود ساختہ گمان سے شیعوں پر حملہ کیا اور ان کو برا بھلا کہا ہے۔

جلیل القدر محقق ”جناب مرتضیٰ عسکری “ نے اپنی کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ میں کافی دلائل سے مکمل طور پر ثابت کیا ہے کہ ” عبدا للہ بن سبا “ ایک خیالی اور جعلی موجود ہے ۔

تاریخ نویسوں نے جو حکایتیں بیان کی ہیں اور ان کی بناء پر اسے (عبدا للہ بن سبا) مذہب شیعہ کا مروج(۲) بیان کیا ہے البتہ یہ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، مؤرخین نے ان گڑھی ہوئی داستانوں کو اس لئے مرتب کیا ہے تا کہ فریب کاری کے جال کو پھیلا کر شیعوں پر حملے کرکے بے جا ان کے خلاف تہمت و افتراء پردازی کریں ۔

ہم عصر دانشور ،جناب مرتضیٰ عسکری نے اس کتاب میں اپنی فکر و اندیشہ کے سہارے تاریخ کے سمندر میں غوطہ لگا کر ، بہت سی کتابوں کا مطالعہ فرمایا ہے اور انتہائی تلاش و جستجو کے بعد اس سمندر سے کافی مقدارمیں موتی لے کر ساحل تک آئے ہیں ۔

انہوں نے زیر بحث حقائق کو ثابت کرنے کےلئے نزدیک ترین راستہ طے کیا ہے ، شیعوں کے

مخالفوں سے بحث کے دوران ان کے ہی بیانات کو مآخذ قرار دیکر ان کی باتوں کو باطل ثابت کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کی کتا ب” مع احمد امین “ کے مقدمہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ خود غرض مورخین نے اسے شیعہ مذہب کا بانی و مروج خیال کیاہے۔

۹

تاریخ اسلام کے آغاز سے عصر حاضر تک ” سیف بن عمر“ کی روایتوں نے مؤرخین کو الجھا رکھا ہے جو عام طور پر قابل اعتماد ہے، اس کتاب میں ان روایتوں کے بارے میں ایک گراں بہا تحقیق کی گئی ہے کہ قارئین بڑی آسانی سے انھیں سمجھ سکتے ہیں ۔

خدا کی حکمت اسی میں ہے کہ بعض محققین مردانہ وار قلم ہاتھ میں اٹھا کر حقائق سے پردہ اٹھائیں ، اور اس راستہ میں دوسروں کی سرزنش اور ملامت کی پروانہ کریں ، مصنف محترم پہلی شخصیت ہیں جس نے اپنی گہری تحقیقات کے نتیجہ میں اہل سنت محققین کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ طبری کی کتاب ” تاریخ الامم و الملوک “ کے بارے میں تجدید نظر کریں ، نیز انھیں اس بات پر مجبور کیا ہے کہ اس کتاب اورتاریخ کی دوسری بنیادی کتابوں کے بارے میں از سر نو دقت سے غور کرتے ہوئے اور خوب و بد کو ایک دوسرے سے جدا کریں ،مزید ان تاریخی حوادث کے بارے میں بھی نئے سرے سے غور کریں ، جنہیں وہ نازل شدہ وحی کے مانند صحیح اور نا قابل تغییر سمجھتے تھے !!

محترم مصنف نے کافی ، واضح اور روشن شواہد کی مدد سے ان تاریخی وقائع سے ابہام کے پردے کو ہٹا دیا ہے اور حقیقت کو اس کے متوالوں کےلئے آشکار کیا ہے حتی کہ بعض حقائق انتہائی بھیانک اور حیرت انگیز دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ایک عمر کے عادات و رسومات چند صدیوں کی اعتقادی میراث کے مخالف ہیں ، لیکن حق کی پیروی کرنالازم و واجب ہے ہر چند کہ یہ امر دشور ہو ” الحق احق ان یتبع“۔

مذکورہ مطالب سے آگاہی چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ کریں او رتاریخ کے اختلافی حوادث جیسے ، اسامہ کی لشکر کشی ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت اور سقیفہ کی داستان (جس پر مؤلف نے تنقیدی تجربہ کیا ہے) کا دقت کے ساتھ مطالعہ کریں ۔

جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موت کا شیرین جام نوش فرمارہے تھے، اسامہ کے لشکر سے بعض افراد حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے مدینہ لوٹے اور ریاست و خلافت کی امید سے جہاد سے منہ موڑ لیا ، مؤلف نے ان افراد کو پہچنوایا ہے ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر مرگ پر جب وصیت لکھنے کا حکم دیدیا، کچھ لوگوں نے اس حکم پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالی اور اسے ہذیان سے تعبیر کیا (گویا انہوں نے گمان کیا کہ پیغمبر ہذیان کہہ رہے ہیں)کیونکہ وہ اس امر سے خائف تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وصیت میں علی علیہ السلام کی خلافت کی خبر دیں گے اور ان آخری لمحات میں بھی اسے اپنے وصی کے طور پر تعارف کرائیں گے ۔

۱۰

مؤلف اس حادثہ کی حقیقت و کیفیت کو بھی آشکار کرتے ہیں عمر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے انکار کرنے کا مقصد کیا تھا ؟ کیوں وہ ان افراد کو موت کی دھمکی دیتے تھے جو یہ کہتے تھے کہ پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے رحلت کی ہے ؟جس وقت امام علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچیرے بھائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس اور چند بوڑھے اور سن رسیدہ اصحاب کی مددسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن نازنین کوغسل دینے میں مشغول تھے ، تو اس وقت کس غرض سے عمر اور ابو عبیدہ نے انتہائی عجلت کے ساتھ اپنے آپ کو سقیفہ کے اجتماع میں پہنچادیا اور لوگوں سے ابوبکر کے حق میں بیعت لے لی ؟!

بے شک ، اگر تھوڑا سا انتظار کرتے تا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سپرد لحد کرکے اور علی علیہ السلام بھی اس اجتماع میں حاضر ہوتے تو علی علیہ السلام خلافت کے مستحق قرار پاتے اور بنی ہاشم ان کے علاوہ کسی اور کو امام المسلمین کے طور پر قبول نہیں کرتے !

مؤلف نے مذکورہ تین مباحث میں صحیح کو غلط سے اور برے کو بھلے سے جدا کرکے ان مسلم حقائق تک رسائی حاصل کی ہے اور ان کی اس تحقیق کے نتیجہ میں فریب کاروں کےلئے مکرو فریب کے دروازے بند ہوگئے ہیں ۔

کتاب کے دوسرے مباحث بھی مذکورہ بالا تین مباحث کی طرح ، دقت کے ساتھ حقائق کو ایسے آشکار کرتے ہیں کہ بہت جلد ہی تاریخ اسلام کے اندر گہرے اثرات رونما ہوں گے ۔

میں اس مقالہ کو ختم کرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ درج ذیل تین سوالات کا جواب دیدوں :

۱ ۔ کیا پیغمبر خدا کا صحابی غلطی کرسکتا ہے اورلغزش سے دوچار ہوسکتا ہے ؟

۲ ۔ کیا اس کے کام اور کردار پر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے ؟

۳ ۔ کیا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی کو منافق یا کافر کہا جاسکتا ہے ؟

۱۱

سوال نمبر ایک اور دو کا میں مثبت جواب دیتا ہوں ، لیکن تیسرے سوال کا جواب منفی ہے ۔ اس لئے نہیں کہ میں تعصب سے کام لیتا ہوں اور علم کے اصول کے خلاف کہتا ہوں ، بلکہ ایک ایسا استدلال رکھتا ہوں کہ عقل اس کو قبول کرتی ہے اور منطق اسکی تائید کرتی ہے کیونکہ کفر و نفاق کا تعلق قلب و دل سے ہے اور وہاں تک خدا کے سوا کسی کی رسائی نہیں ہے ، علمی تجربہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ہے ، صرف خداوند عالم ہے جو انسان کے اندرونی اسرار سے واقف ہے اور پوشیدہ چیزوں کامکمل طور پر علم رکھتا ہے(۱)

مذکورہ روش ، وہی جدید روش ہے ، جس کا واضح مشاہدہ میری تمام تالیفات میں کیا جاسکتا ہے۔

مجھے اس بات پر انتہائی مسرت ہے کہ علم کے لحاظ سے اس عظیم کتاب اور اس کے عالی قدر مصنف استاد علامہ محقق جناب مرتضی عسکری کے تئیں انتہائی احترام و محبت کا قائل ہوں ، اسی طرح جناب مرتضیٰ رضوی کشمیری کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کو پوری ظرافت اور دیدہ زیب صورت میں شائع کیا ہے ، علامہ نے اس فریضہ کو انجام دے کر اسلام کی ایک عظیم خدمت کی ہے اور اس ذمہ داری کو انجام دے کر اسلام کے تاریخی حقائق کو زندہ کرنے کےلئے ایک عظیم اثر چھوڑا ہے ۔

قاہرہ اول جمادی الاول ۱۳۸۱ ھء مطابق ۱۲ ،اکتوبر ۱۹۶۱ ئئ

ڈاکٹر حامد حفنی داؤد

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد نے اس خط کو نصف کتاب کے شائع ہونے کے پیش نظر مصر میں لکھا ہے ۔

۱۲

ایک محترم شیعہ دانشور شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

سنی دانشور محترم جناب ڈاکٹر حامد کے نظریہ سے آگاہ ہونے کے بعد مناسب ہے یہاں پر اس کتاب کے بارے میں ایک شیعہ دانشور علامہ نابغہ جناب شیخ محمد جواد مغنیہ جبل عاملی کے نظریہ سے بھی آگاہ ہوجائیں ، علامہ موصوف لبنان میں مروج مذہب تشیع ہیں ۔

موصوف کی گراں بہا تالیفات میں من جملہ ” تفسیر قرآن مجید “ ” معالم الفلسفة الاسلامیہ“، ”الشیعہ و الحاکمون “ ” اصول الاثبات فی الفقہ الجعفری“ اور دسیوں دوسری تالیفات سنجیدہ فکر اور ان کے علمی بلند مقام کو آشکار کرتی ہیں ، ذیل میں مجلہ ” العرفان “(۱) میں شائع ہوئے ان کے مقالہ کا ترجمہ ہے :

مذہب شیعہ کے خلاف لکھنے کے علاوہ دنیا کی تمام چیزوں میں دگرگونی اور تغیرات پیدا ہوئے ہیں شیعوں پر تہمت و افتراء کے علاوہ ہر آغاز کا خاتمہ ہے شیعوں کے خلاف جاری کئے جانے والے احکام کے علاوہ ہر حکم کی ایک دلیل و علت ہے آخر کیوں ؟

کیا شیعہ شورشی اور فتنہ گر ہیں اور لوگوں کے سکون و اطمینان کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں ؟

____________________

۱۔ نمبر ۳/ سال ۱۳۸۱ ھ صفحہ ۲۳۰۔

۱۳

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :

سیف بن عمر تمیمی(۱) نامی ایک شخص نے گزشتہ دو سری صدی کے دوران دو کتابیں لکھی ہیں ، اس کی پہلی کتاب ” الفتوح و الردّة“ اور دوسری کتاب ” الجمل و مسیر عائشة و علیّ “ ہے ان دونوں کتابوں میں د رج ذیل مطالب کی ملاوٹ کی گئی ہے :

۱ ۔ ایسے حوادث و اتفاقات کی تخلیق کرنا ، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

۲ ۔ رونما ہوئے حقیقی حوادث و واقعات میں تحریف کرکے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت دکھانا ۔

اس بے لگام اور جھوٹے شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے چند من گھڑت اصحاب جعل کئے جن کے سعیر ، ہزہاز، اط ، حمیضہ ، وغیرہ نام رکھے ہیں ۔

اس نے تابعین اور غیر تابعین کے کچھ اشخاص جعلکئے ہیں اور ان کی زبانی اپنی جعلی احادیث نقل کی ہیں ۔

اس کی انہیں تخلیقات میں سے ایک سورما ہے جس کی شخصیت کو اس نے جعلکیا ہے اور اس کا فرضی نام بھی معین کیا ہے ، اور چند داستانوں کو گڑھ کر اس سے نسبت دی ہے یہ افسانوی سورما ”عبد اللہ بن سبا“ ہے جس کسی نے بھی شیعوں پر تہمتیں لگائی ہیں اور ان کے بارے میں جہل یا نفاق کے سبب افترا پردازی کی ہے ، ان سب نے اسی پر اعتماد کیا اور اس کی باتوں پر تکیہ کیا ہے۔

____________________

۱۔وفات دوسری صدی ہجری ۔

۱۴

”سیف“ کے بعد مؤرخین کی ایک جماعت نے فریب اور دھوکہ سے بھری ان دو کتابوں کو سند بنا کر کسی قسم کے تامل و تدبر کے بغیر دروغ پرداز اور چالباز سیف کے نظریات اور اندیشہ کو نقل کیا ہے ، اس طرح اس کے مذموم تفکر سے استفادہ کیا گیا ہے ۔

”طبری“ پہلا شخص تھا جو” سیف “کے دام فریب میں پھنس گیا تھا اس کے بعد ابن اثیر ، ابن عساکر اور ابن کثیر اور دوسرے لوگ” طبری“ سے آنکھیں بند کرکے روایت نقل کرنے کے سبب اس گڑھے میں گر گئے ہیں ۔

اس طرح جھوٹے ”سیف“ کی تخلیقات کی تاریخی کتابوں اور منابع میں بلاواسطہ طور پر ملاوٹ ہوئی ہے لیکن ان کی جڑ اور بنیاد، وہی سیف کی دو کتابیں ” الفتوح “ اور ” الجمل “ ہیں ۔

علامہ سید مرتضی عسکری کی کتاب ” عبد اللہ بن سبا“ مذکورہ حقائق کو صحیح دلائل کی بنا پر آشکار کرتی ہے اور قارئین کو صاف اور واضح راہنمائی کرکے حقیقت کی منزل تک پہنچاتی ہے ۔

انہوں نے اس کتاب کی تالیف میں انتہائی دقت سے کام لیا ہے اور موصوف کی تمام تر سعی و تلاش اس امر پر متمرکز رہی ہے کہ حق و حقیقت کے علاوہ کوئی چیز کاغذ پر نہ لکھی جائے ، قارئین کرام جس قدر بھی مفکر اور دانشور ہوں ، موصوف کے حاصل کئے ہوئے نتائج سے نہ تو انکار کرسکتے ہیں اورہی نہ شک و شبہ ، کیونکہ اس کتاب کے بہت سے دقیق مباحث کی بنیاد بدیہی قضایا پر مبنی ہے اور بدیہیات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے ۔

میں نے مختلف افراد سے بارہا بحث کی ہے ، اور ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا ہے ، لیکن اس گفتگو میں میں نے شیخ مفید ، سید مرتضی ، اور علامہ حلی سے آگے قدم نہیں بڑھایا ہے ، میری روش صرف یہ تھی کہ میں ان بزرگوں کے طرز بیان کو بدل دیتاتھا اور مخاطب کے لئے مطالب کو آشکار اور واضح تر بیان کرتا تھا ، کیونکہ کوئی تازہ اعتراض نہیں تھا کہ میں اس کا تازہ اور نیا جواب دیتا بلکہ اعتراض وہی تھا جو پچھلے لوگوں نے کر رکھاتھا اور اس کا جواب سن چکے تھے ، چونکہ یہ لوگ بھی گزشتہ لوگوں کی طرح اعتراض کرتے ہیں لہذا مجبور ہیں وہی جواب سنیں ،میں اپنے علمائے سلف کی باتوں کی تکرار کرتا تھا ، کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ بے خبر، معترضین علماء کی باتوں پر اعتراض کرتے ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ ان کی ہی باتوں سے آگاہ ہوجائیں ۔

بے شک میں علمائے تشیع کی پیروی کرتے ہوئے ” عبدا للہ بن سبا“ کے وجود کا معترف تھا ، لیکن اس کی رفتار کو حقیر اور شرم آور سمجھتا اور اس کی باتوں کا انکار کرتا تھا ۔

۱۵

علامہ عالیقدر جناب سید مرتضیٰ عسکری نے اس عمارت کی بنیاد ہی اکھاڑ کرکے رکھدی اور اپنی گہری تحقیقات سے ثابت کردیا کہ ” عبد اللہ بن سبا “ کی حقیقت ایک افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ! اور یہی وہ حقیقت ہے جو اس کتاب میں بے نقاب ہوئی ہے ، اگر میں یہ کہوں کہ عربی میں یہ تنہا کتاب ہے ، جس میں تاریخ کی علمی بنیادوں پر تحقیق کرکے اس پر غور کیا گیا ہے تو یہ ہرگز مبالغہ نہیں ہے ، اور میرا یہ کہنا بھی ہر گز بیجا نہیں ہوگا کہ اس دانشور مصنف نے دین و علم اور خاص طور پر شیعوں اورمذہب تشیع کی ایک ایسے زمانے میں بے مثال اور عظیم خدمت کی ہے کہ جب ان پر تہمتوں ، افتراء پردازیوں اور بہتان تراشیوں کی بھر مار ہورہی ہے ، موصوف نے اسلام کی ایک عظیم اور درخشان خدمت کی ہے ، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان رخنہ ڈال کر ان کے اتحاد و یکجہتی کو درہم برہم کرکے انھیں کمزوراوربے بس کردیا ہے ۔

ہم نے فرمانرواؤں اور ظالم حکام کی طرف سے بد ترین عذاب اور مشکلات برداشت کی ہیں تا کہ اسلام کی یکجہتی کا تحفظ کرکے دشمنی سے پرہیز کریں ، لیکن وہ روز بروز اپنی دروغ بیانی میں تشویق ہوتے رہے ہیں اور ان کی پہلی اور آخری سند ” ابن سبا“ کا افسانہ اور ” ابن السوداء “ کا خرافہ تھا کہ افسانہ ساز ”سیف “ نے انھیں ، خدا اوراپنے ضمیر کے سامنے کسی ذمہ داری کا احساس کئے بغیر جعلکیا ہے ۔ لیکن آج ” عبدا للہ ابن سبا “ نام کی کتاب لکھی جانے کے بعد یہ کاسہ لیس اور چاپلوس لوگ کیا جواب دیں گے ؟!

آخر میں میری تجویز ہے کہ یہ کتاب دیدہ زیب طباعت کے ساتھ دوبارہ شائع کی جائے اور عالم اسلام کے تمام شہروں میں نصف قیمت پر بیچی جائے تا کہ عام مسلمان اسے خرید کر اس کے عالی مطالب سے استفادہ کرسکیں ۔

نجف اشرف کے دانشوروں اور مراجع عظام کو چاہئے مذکورہ مقصد کی جانب توجہ کرتے ہوئے رقومات شرعیہ سے مدد کریں یا خیّر افراد کی اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں ۔

میری تجویز ہے کہ یہ حضرات تاکید کے ساتھ حکم فرمائیں تا کہ یہ کتاب دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر سستے داموں میں دنیا کے لوگوں تک پہنچ جائے ، یہ دین اسلام کےلئے ایک عظیم خدمت ہوگی۔

لبنان ۔ شیخ محمد جواد مغنیہ

۱۶

الازہر یونیورسٹی مصر کے مجلہ ” جامع الازھر “ میں شائع شدہ اعتراضات کا جواب

مجلہ ” جامع الازھر“ مصر میں کتاب ”عبدا للہ بن سبا “ کے بارے میں دو مقالے لکھے گئے ہیں(۱) اہم ترین مطلب جوان دو تنقیدی مقالوں میں ملاحظہ کے قابلہے عبارت ہے :

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اور ان کے باہمی اختلافات ، چودہ صدی پرانی بات ہے اور وہ سب اپنے مالک حقیقی سے جاملے لہذا چاہئے کہ ان مسائل سے صرف نظر کیا جائے(۲)

اس بات کے جواب میں ہم کہتے ہیں :

اولاً : ہم سیف کی روایتوں کی تحقیق کی فکر میں تھے ، جس موضوع پر اس نے روایتیں نقل کی تھیں ، ہم نے مجبور ہو کر ان ہی موضوعات پر بحث و تحقیق کی ہے ، چونکہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا“ میں عبد اللہ بن سبا کے افسانہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے باہمی اختلافات کے بارے میں سیف ابن عمر کی نقل کی گئی روایتوں پر بحث کی گئی ہے ، لہذا ہم مجبور ہوئے کہ ہر موضوع کے

____________________

۱۔ پہلا مقالہ کتاب کی نجف اشرف میں طبع شدہ پہلی اشاعت پر ایک تنقید ہے ، اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۳ ج۱۰، ۱۳۸۰ ئھ ” باب الکتب “ کے صفحہ۱۱۵۰ ۔۱۱۵۱ میں شائع ہوا ہے ۔ دوسرا مقالہ اسی کتاب کے مصر میں طبع شدہ نسخہ پر ایک تنقید ہے اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۲ /ج ۶/ ۱۳۸۱ ء ھ کے صفحہ۷۶۰ ۔۷۶۱ میں شائع ہوا ہے۔

۲۔ یہ جملہ پہلے مقالہ کے آخر پر لکھا گیا ہے اور باقی تمام مطالب اسی جملہ کی تفسیر اور تشریح میں لکھے گئے ہیں ۔

۱۷

بارے میں بحث کو جاری رکھتے ہوئے تجزیہ و تحقیق کریں ، جس طرح میں نے اپنی کتاب ” خمسون و ماة صحابی مختلق“ ( ۱۵۰ جعلی اصحاب) میں اصحاب کے فتوحات اور صدر اسلام کی جنگوں کو اپنا موضوع قرار دیگر بحث و تحقیق کی ہے ۔

سیف کی روایتوں پر تحقیق نے ہمیں اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ ایسی بحثوں میں داخل ہوجائیں جنھیں بہت سے دانشوروں نے پردے میں رکھا ہے ، لہذا ان موضوعات پر بحث و تحقیق نے انھیں برہم اور رنجیدہ کیا ہے ، البتہ ہم بھی ان کی طرح ایسے وقائع اور روداد کے رونما ہونے سے خوشحال نہیں ہیں اور ان سے پردہ اٹھانے اور ان پر غور و فکر کرنے سے ہمارا رنج و غم بھڑک اٹھتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خداوند عالم نے پیغمبر خدا کے اصحاب کو ملک و فرشتہ خلق نہیں کیا ہے کہ جبلت انسانی سے عاری ہوں بلکہ وہ دوسرے افراد کی طرح انسانی جبلت میں ان کے شریک ہیں ، اور ایمان اور اسلام میں استقامت کے مراتب میں بھی ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ، اس حد تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان میں سے بعض پر حد جاری کی ہے (کوڑے لگائے ہیں) اور ان میں سے بعض کے بارے میں ” آیات افک “ نازل ہوئی ہیں جن میں ان کی اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ انہوں نے پیغمبر خدا کی بیوی کی جانب نازیبانسبت دی تھی ، اور ان میں سے بعض کے بارے میں نفاق کی آیات نازل ہوئی ہیں ۔

ان تمام مطالب کے باوجود ہم نہیں سمجھتے کہ پیغمبر خدا کے اصحاب کو ان اختلافات اور تحولات کے ساتھ کیسے چھوڑدیں جبکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام اور عقائد کو ہم تک پہنچانے کے واسطہ ہیں کیا اس طرح صرف پیغمبر کو درک کرنے کی بنا پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عزت و احترام کرنا بحث و تحقیق کےلئے رکاوٹ اور دینداری کے نام پر علم ودانش کے دروازہ کو بند کرنے کے مترادف نہیں ہے ؟ چونکہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے صدیوں سے اپنے اوپر اجتہاد کا دروازہ بند کررکھتا ہے ، لہذا تحقیق و علم کا دروازہ بھی ان پر بند ہوگیا ہے ۔

۱۸

خدارا ! ہم نے اس مطلب کو قبول نہیں کیا ہے اور اسکی تائید نہیں کرتے ہیں بلکہ دین و اسلام کے نام پر اور اس پر عمل کرنے کیلئے اسلام کی راہ میں بحث و تحقیق کےلئے قدم اٹھاتے ہیں ۔

ثانیاً : کاش کہ ہم یہ جانتے کہ قدیم و جدید دانشور جو پیغمبر خدا کے اصحاب کی عزت و احترام میں جو غیرت و حمیت دکھاتے ہیں ، کیا اس میں پیغمبر خدا کے تمام اصحاب شامل ہیں خواہ اس کے سزاوار ہوں یا نہ ، خواہ وہ عیش پرست ہوں یا زاہد و پرہیزگار ؟ کیا یہ احترام عام طور پر اس لئے ہے کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کادیدار کیا ہے ؟ یا ان کےلئے مخصوص ہے جوسرمایہ دار و قدرتمندتھے اور حکومت تک ان کی رسائی تھی ؟ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ احترام شعوری یا لا شعوری طور پر صرف ان افراد سے مخصوص ہوکے رہ گیا جو حکومت اور ایوان حکومت سے وابستہ و مربوط ہیں ۔

جو کچھ ایک دوررس اور نکتہ شناس محقق کےلئے قابل اہمیت ہے وہ دوسرا مطلب ہے کیونکہ اگر تاریخ طبری میں ۳۰ ء ھ کے روئدادوں اور حوادث پر غور کیا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس نے یوں لکھا ہے :

اس سال ، یعنی ۳۰ ئھ میں جو کچھ ابوذر اور معاویہ کے درمیان پیش آیا ، اور سر انجام ابوذر کے شام سے مدینہ جلا وطن کئے جانے پر تمام ہوا ، اس سلسلے میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں کہ جنکو میں نقل کرنا پسندنہیں کرتا ہوں ، لیکن اس سلسلہ میں معاویہ کیلئے عذر پیش کرنے والوں نے ایک داستان نقل کی ہے ، اس داستان میں کہا گیا ہے:

شعیب نے اسے سیف سے نقل کیا ہے

اس کے بعد طبری نے ابو ذر اور معاویہ کے بارے میں نقل کی گئی داستان کے سلسلے میں سیف کی باقی روایت کو اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے ۔

۱۹

اگر ہم اس سلسلے میں تاریخ ابن اثیر کی طرف رجوع کریں گے تو دیکھتے ہیں کہ وہ کہتا ہے :

اس سال ( ۳۰ ھء) ابوذر کی داستان اور معاویہ کے توسط سے اسے شام سے مدینہ جلاوطن کرنے کا مسئلہ پیش آیا، اس رفتار کی علت کے بارے میں بہت سے مطالب لکھے گئے ہیں ، من جملہ یہ کہ : معاویہ نے انھیں گالیاں بکیں اور موت کی دھمکی دی ، شام سے مدینہ تک انھیں ایک بے کجاوہ اونٹ پر سوار کرکےنہایت ہی بیدردی سے ایک ناگفتہ بہ حالت میں مدینہ کی طرف جلاوطن کردیا ، مناسب نہیں ہے اسے یہاں بیان کیا جائے میں اسے نقل کرناپسند نہیں کرتا ہوں ، لیکن جنہوں نے اس سلسلے میں عذر پیش کیا ہے، یو ں کہا ہے :

اس بنا پر طبری نے یہاں پر ان بہت سی روایتوں کو درج نہیں کیا ہے جن میں معاویہ اور ابوذر کی روئداد بیان ہوئی ہے اور ان کو بیان کرنا پسند نہیں کرتا تھا، پھر بھی اس نے ان روایتوں کو بالکل ہی درج کرنے سے چشم پوشی نہیں کی ہے ۔ بلکہ سیف کی ان تمام روایتوں میں سے ایسی روایت کا انتخاب کیا ہے کہ معاویہ کا عذر پیش کرنے والوں کےلئے سند کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے اس کے کام کی توجیہ کے طورپر پیش کرتے ہیں ، جبکہ اس روایت میں پیغمبر اسلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بزرگوار صحابی ” ابو ذر“ کی حد سے زیادہ توہین کی گئی ہے ۔ اس کی دینداری پر طعنہ زنی کی گئی ہے ، اسے بیوقوف اور احمق کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس پرناروا تہمتیں لگائی گئی ہیں ۔

۲۰

کیونکہ اس روایت میں معاویہ کو حق بجانب ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے عذر کو درست قرار دیاگیا ہے ، اور اس طرح مؤرخین کا یہ قائد ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس تہی دست صحابی کی شخصیت اور احترام سے چشم پوشی کرتاہے اوران کی عظمت کو معاویہ جیسے حاکم اور ثروتمند شخص کے حرمت کے تحفظ میں قربان کرتاہے ، یہی کام ابن اثیر، ابن خلدون اور دوسروں نے بھی انجام دیا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ، بنیادی طور پر اسی سبب سے تاریخ طبری نے رواج پیدا کیا ہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ شہرت پائی ہے ، اور اس لئے سیف (بے دینی کا ملزم ٹھہرائے جانے کے باوجود) کی روایتوں کو اس قدر اشاعت ملی ہے اور اسی لئے مشہور ہوئی ہیں(۱) ۔

اس بنا پر ایسے دانشوروں نے صرف ایسے صحابیوں کے احترام کے تحفظ کےلئے اقدام کیا ہے جو صاحبِ قدرت و حکومت تھے ، اور” معاویہ بن ابو سفیان “ جیسے شخص کی اس لئے عزت کرتے ہیں کہ وہ صاحب حکومت و اقتدار تھا ، جبکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “(۲) میں شمار فرمایا ہے اور اس کی نفرین کرتے ہوئے فرمایا:

خداوند عالم اس کے شکم کو کبھی سیر نہ کرے “(۳) اسی طرح ” عبدا للہ بن سعد بن ابی سرح “(۴) جو ابتداء میں مسلمان ہوا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتبوں میں شمار ہوتا تھا، لیکن ایک مدت کے بعد مرتد ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن مجید پر تہمت لگائی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کا خون بہانا مباح قرار فرمایا تھا،ایسے شخص کو ان خصوصیات کے باوجود مصر کا گورنر ہونے کے ناطے اس کا نام تاریخ میں درج کرکے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

اس طرح خلیفہ عثمان کے بھائی ولید ، جس کے بارے میں آیہ نبا نازل ہوئی ہے :

<یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اِذا جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَیَّنُوا اَنْ تُصِیْبُوا قَوْماً

____________________

۱۔ کتاب کے فصل ” پیدائش افسانہ “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ تمام سیرت لکھنے والوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح حنین کے بعد معاویہ اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “ میں شمار فرمایا ہے ، اس لئے انھیں کچھ چیزیں دیدی ہیں ۔

۳۔ صحیح مسلم کے اس باب کی طرف رجوع کیا جائے کہ ”پیغمبر خدا نے جن پر لعنت کی ہے “

۴۔ اس کے حالات پر اگلے صفحات میں روشنی ڈالی جائے گی۔

۲۱

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

حریف کہتا ہے:

آج کے بعد تمہارا نام یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہے کیونکہ تم نے خدا اور انسان سے جنگ کی ہے اور انھیں مغلوب کیا ہے۔

یعقوب نے اس جگہ کا نام '' فینیسیئل'' رکھا اور کہتے تھے: میں نے یہاں خدا کو آمنے سامنے دیکھا ہے اور میری روح نے نجات پائی ہے!

ہم توریت کا مطالعہ جاری رکھتے ہوئے اس کے سفر خروج کے بتیسویں باب میں یوں پڑھتے ہیں :

جب قوم نے دیکھا کہ موسیٰ نے اس پہاڑ سے نیچے اترنے میں تخیر کی تو ہارون کے ہاں جمع ہوئے اور ان سے کہاکہ اٹھو اور ہمارے لئے ایک ایسا خدا بناؤ جو ہمارے سامنے راہ چلے ۔ کیونکہ وہ موسیٰ ، جو ہمیں سرزمین مصر سے باہر لائے نہیں معلوم ان پر کیا گزری ہے ۔ ہارون نے ان سے کہا: سونے کے گوشوارے جو تمہاری عورتوں ، بیٹوں او ر بیٹیوں کے کانوں میں ہیں ، انہیں نکال کر میرے پاس لاؤ۔ لہذا امت کار ہرفرد کانوں سے گوشوارے اتار کر ہارون کے پاس لے آیا ۔ ہارون نے ان گوشواروں سے لے کر ایک گوسالہ کا مجسمہ بنادیا۔ اس کے بعد لوگوں نے کہا: اے بنی اسرائیل یہ تمہارے خدا ہیں جنہوں نے تمہیں سرزمین مصر سے باہرنکالا۔ ہارون نے جب یہ دیکھا تو ان کے سامنے ایک ذبح خانہ تعمیر کیا اور بلند آواز میں کہا : کل خدا کی عید ہے ۔

لیکن قرآن مجید گوسالہ بنانے' قوم کو گمراہ کرنے کی نسبت سامری کی طرف دے کر کہتا ہے کہ ہارون نے انھیں ایسے کام کے انجام دینے سے منع کیا تھا لیکن انہوں نے ان کی بات نہ مانی ۔ اس سلسلے میں ہم کلام اللہ میں یوں پڑھتے ہیں :

(فَکَذٰلِکَ اَلْقَی السَّامِرِیُّ فَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجلاً جَسَداً لَهُ خُوَار فَقَالُوا هٰذَا اِلٰهُکُمْ وَ اِلٰهُ مُوسٰی وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ یَا قَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ وَ اِنَّ رَ بَّکُمْ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُونِی وَ اَطِیعُوا اَمْرِیْ قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَیهِ عَاکِفِینَ حَتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوسیٰ ) ١

پھر سامری نے ان کیلئے ایک گائے کے بچے کا مجسمہ بنایا جس میں آواز بھی تھی تو لوگوں نے کہا : یہی تمہارا اور موسیٰ کا خدا ہے

ہارون نے توان لوگوں سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اے قوم اس کے ذریعہ تمہارا امتحان لیا گیا

ہے اور بیشک تمہارا رب رحمان ہی ہے لہذ امیرا اتباع اور میرے امرکی اطاعت کرو ۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس کے گرد جمع رہیں گے یہاں تک کہ موسیٰ ہمارے درمیان واپس آجائیں ۔

____________________

١۔ طہ ٨٧ ۔٩١

۴۱

توریت میں تحریف کے چند ثبوت:

گزشتہ مطالب میں ہم نے توریت میں دو قسم کی تحریفوں کے نمونے بیان کئے ۔ ایک میں خدائے تعالیٰ سے ایک ایسی چیز کی نسبت دی گئی ہے جس سے وہ منزّہ و پاک ہے ۔ اور دوسری تحریف میں خدا کے پیغمبروں ایسی نسبتیں دی گئی ہیں جن سے وہ منزہ و پاک ہیں ۔توریت اور انجیل میں تحریف کے سلسلے میں بہت زیادہ شواہد و ثبوت موجود ہیں ارباب نظر و تحقیق نے انہیں جمع کرکے ان پر بحث ، تحقیق اور تنقید کی ہے۔ من جملہ محترم دانشور حجة الاسلام بلاغی ہیں جنہوں نے اپنی بحث و تحقیق کے نتیجہ کو اپنی دو کتابوں '' الرحلة المدرسیة'' اور ''الھدیٰ الی دین المصطفی'' میں منعکس کیا ہے۔انہوں نے اور دیگر محققین نے توریت و انجیل میں تحریف کے موارد کو اپنی دقیق، مفصل اور تاریخی تحقیق اور جانچ پڑتال کے ذریعہ ثابت کیا ہے ۔ امریکہ کے ڈاکٹر '' ہانس'' نے اپنی کتاب مقدس کی قاموس میں لفظ '' انجیل ' میں ان کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس سلسلے میں قابل اعتراض موارد کو برطرف کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔اس بحث کے خاتمہ پر ہم ذیل میں سفر تثنیہ کے تینتیسویں باب کے تحریف کے تین نمونے پیش کرتے ہیں :

١۔ ذیل میں دیا گیا نمونہ اس نسخہ کی تصویر ہے جسے '' جناب پادری رابنسن'' نے عبرانی زبان سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے اور یہ نسخہ لندن کے رچرڈ واٹسن پریس میں ١٨٣٩ ء میں چھپ چکا ہے ۔

٢۔ذیل میں اسی باب کی ایک اور تصویر ہے جو ١٨٣١ ء میں لندن کے رچررڈ واٹسن پریس میں مشرقی روم کے یہودیوں کی عبادت گاہوں کیلئے ١٦٧١ ء میں طبع شدہ ایک نسخہ سے نقل کرکے اس کی اشاعت کی گئی ہے:

٣۔ ذیل میں اسی باب کے ایک اور نسخہ کی تصویر ہے جو ١٩٠٧ ء میں بیروت کے ایک امریکی پریس میں طبع ہواہے : ١

اب ہم دیکھیں گے کہ اس کتاب توریت کے صرف اس ایک باب میں تین بار چھپائی کے دوران کیا چیزیں تحریف ہوئی ہیں ۔

اس باب کے نمبر ١ سے ٤ تک یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی وفات سے پہلے تین جگہوں کا نام لیا ہے کہ جہاں خدائے تعالیٰ نے اپنا امر ظاہر کرکے اپنی شریعت نازل کی ہے ۔ یہ تیں جگہیں حسب ذیل ہیں :

____________________

١۔ توریت کے اس باب کے تیسرے حصہ میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی بات کی گئی ہے ، بعید نہیں کہ یہ مطلب اس آیۂ شریفہ کا مصداق ہوں :(مُحَمَّد رَسُولُ اﷲِ وَ الَّذِینَ مَعَهُ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَارِ رُحَمَائُ بَیْنَهُم تَرَاهُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَبْتَغُونَ فَضلاً مِنَ اﷲِ وَ رِضْوَاناً سِیمَاهُمْ فِی وُجُوهِهِمْ مِنْ اَثِرِ السُّجُودِ ذٰلِکَ مَثَلُهُمْ فِی التَّورَاتِ ) ( فتح ٢٩)

محمد اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کیلئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحم دل ہیں ۔ تم انھیں دیکھو گے کہ بارہ گاہ احدیت میں سر خم کے ہوئے سجدہ ریز ہیں اور اپنے پروردگار سے فضل و کرم اور اس کی خوشنودی کے طلب گار ہیں ۔ کثرت سجدہ کی بناء پر ان کے چہروں پر سجدے کے نشانات پائے جاتے ہیں یہی ان کی مثال توریت میں ہے ۔

۴۲

١۔ سیناء : یہ وہ جگہ ہے جہاں پر خدائے تعالیٰ نے حضرت موسیٰ پر توریت کی شریعت نازل فرمائی جسے چوتھے حصے میں اچھی طرح بیان کیا ہے اور تاکید فرمائی ہے وہ شریعت یعقوب کی میراث ہے جو بنی اسرائیل کے نام سے معروف ہیں ۔ اس لحاظ سے یہ شریعت قوم بنی اسرائیل سے مخصوص ہے۔

٢۔ سعیر یا ساعیر : لفظ '' سعیر'' کے بارے میں کتاب قاموس مقدس میں اور لفظ ''ساعیر'' کے بارے میں حموی کے معجم البلدان میں کی گئی تشریح کے پیش نظر یہ ان سرزمینون کا نام ہے جس کے پہاڑوں کے بیچ میں '' قدس'' واقع ہے۔

اس توصیف کے پیش نظر یہ وہی جگہ ہے جہاں '' حضرت عیسی بن مریم '' پر انجیل کی شریعت نازل ہوئی ہے اور حضرت موسیٰ کے بیانات میں اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

٣۔ کوہ فاران : جیسا کہ توریت کے سفر تکوینی کے اکیسویں باب میں آیا ہے کہ فاران ایک ایسی جگہ کا نام ہے جہاں حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی سارہ کی خواہش پر اپنی دوسری بیوی ہاجر اور اکلوتے بیٹے اسماعیل کو چھوڑا تھا۔ اس موضوع کی نمبر ٢١ میں یوں وضاحت ہوئی ہے:

اسماعیل نے صحرائے '' فاران'' میں رہائش اختیار کی اور ان کی ماں نے ان کیلئے سرزمین مصر سے ایک شریک حیات کا انتخاب کیا۔

تمام مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ جناب اسماعیل اپنی ماں کے ساتھ مرتے دم تک وہیں رہے اور وہیں دفن ہوئے آپ کی قبر حجر اسماعیل کے نام سے معروف ہے۔

اس لحاظ سے کوہ فاران مکہ کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہونا چائیے ۔ جیسا کہ یاقوت حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں ، ابن منظور نے ''لسان العرب '' میں ، فیروز آبادی نے '' قاموس'' میں اور زبیدی نے '' تاج العروس'' میں لفظ '' فاران '' میں اس کی وضاحت کی ہے ۔

کوہ فاران پر نازل ہونے والے قوانین و شریعت کی تشریح اور اس جگہ پر حکم خدا کے ظہور کی کیفیت کے بارے میں ''پادری رابنسن ''کے ترجمہ کے نمبر ١ میں یوں بیان ہواہے ۔

... اور کوہ فاران سے نور افشاں ہوا اور دس ہزار مقربین کے ساتھ وارد ہوا، اس کے دائیں ہاتھ سے ایک آتشین شریعت ان لوگوں کے لئے پہنچی، بلکہ وہ تمام قبیلوں سے محبت کرتا تھا' تمام مقدسات تمہارے اختیار میں ہیں ، مقربان بھی تمہاری خدمت میں ہوں گے ، تمہارے حکم کی تعمیل کریں گے ۔

۴۳

یہی مطلب روم میں چھپے ہوئے نسخہ میں اس طرح ہے: ...فاران کی پہاڑی سے ہزاروں پاکیزہ لوگوں کے ساتھ ظاہر ہوا' اپنے دائیں ہاتھ میں شریعت لئے ہوئے تمام قوموں سے محبت کرتا ہے اور بھی پاکیزہ لوگ اس کے اختیار میں ہیں جو بھی اس سے نزدیک ہوتے ہیں اس کے حکم کو قبول کرتے ہیں ۔

کوہِ فاران سے ظہور ، مکہ میں موجود کوہِ فاران کے غار حرا میں خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نزولِ قرآن مجید پر دلالت کرتا ہے اور یہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو دس ہزار افراد لے کر مکہ -- سرزمین فاران-- میں داخل ہوتے ہیں اور اسے فتح کرتے ہیں ۔ یہ وہی ہیں جو پرچمِ شریعت یا ایک آتشین سنت --جہاد و پیکار کی شریعت-- کے حامل ہیں ۔ اور بالآخر یہ وہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو قبائل اور لوگوں کو دوست رکھنے و الے ہیں ، قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے :

(وَ مَا اَرْسَلْنَا کَ اِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ ) ١

اور ہم نے آپ کو عالمین کیلئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

یا یوں فرماتا ہے :

( وَ مَا اَرْسَلْنَاکَ الَّا کَافَةً لِلنَّاسِ بَشِیراً و َ نَذِیراً ) ٢

اور اے پیغمبر ! ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے صرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔

یہ اشراق اور ظہور صرف حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر دلالت کرتا ہے اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ کسی اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صدق نہیں آتا ہے ۔ کیونکہ:

موسیٰ صرف اپنے بھائی ہارون اور عیسیٰ چند حواریوں کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ اس لئے یہ جملہ '' اور دس ہزار مقربان کے ساتھ واردہوا'' ان میں سے کسی ایک پر صدق نہیں کرتا ہے۔

اسی طرح یہ جملہ : '' اور دائیں ہاتھ سے انہیں آتشین شریعت پہنچی '' ہر گز حضرت عیسیٰ پر صادق نہیں آتاہے۔

اسی طرح یہ جملہ کہ '' قبائل اور لوگوں کو دوست رکھنے والے تھے '' حضرت موسیٰ کیلئے مناسب نہیں لگتا کیونکہ ان کی شریعت قوم بنی اسرائیل کیلئے مخصوص تھی ۔

لہذا ان ہی اسباب کی بناء پر تورات کے مختلف نسخے تحریف کی زد میں آگئے ہیں ۔ ہم نے

____________________

١۔انبیاء ١٠٧

٢۔سبا ٢٨

۴۴

درج ذیل خاکہ میں تحریف کے ہر ایک مورد کو الگ الگ دکھایا ہے ١

طبع

پہلا جملہ

دوسرا جملہ

تیسرا جملہ

رابینسن

اور دس ہزار مقربان کے ہمراہ تشریف لائے۔

اور اس کے دائیں ہاتھ پر اسے آتشین شریعت پہنچی۔

بلکہ قبائل کو دوست رکھتا تھا۔

رومی

او ر ان کے ساتھ ہزاروں پاک لوگ ہیں ۔

اور اس کے د ائیں ہاتھ پر آگ کی شریعت

لوگوں کو دوست رکھنے وال

امریکی

قدس کی بلندی سے آئے۔

اور دائیں ہاتھ سے ان کیلئے ایک شریعت کی آگ

لہذا لوگوں کو دوست رکھتاہے۔

____________________

١۔قابل توجہ بات ہے کہ پہلا جملہ '' اور دس ہزار مقربان کے ہمراہ تشریف لائے '' دوسرے جملہ '' اور ان کے ساتھ ہزاروں پاک لوگ ہیں '' میں تحریف ہوئی ہے ۔ آخر میں یہ جملہ حذف ہو کر اس جملہ میں تحریف ہوا ہے کہ '' قدس کی بلندی سے آئے '' تا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کے ظہور پر دلالت کرے!!دوسرے جملہ ''آتشین شریعت''' میں تحریف کرکے '' آگ کی شریعت'' اور پھر اسے '' شریعت کی آگ'' میں تحریف کیا گیا ہے تا کہ اسلام کے جہاد و پیکار والی شریعت پر دلالت نہ کرے اور اس طرح حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کا مصداق نہ بن جائے۔تیسرے جملہ میں '' بلکہ قبائل کو دوست رکھتا ہے '' بصورت جمع ہے اسے جملۂ '' لوگوں میں '' اور پھر '' لوگوں کو دوست رکھتا ہے '' میں تحریف کی گئی ہے تا کہ پیغمبر اسلام پر دلالت نہ کرے بلکہ دوسروں پر صادق آئے۔

۴۵

قرآن مجید ایک لافانی معجزہ :

ہم نے توریت کے ایک حصہ میں ١٨٣١ ء میں واقع ہوئی تحریف کے طرز و طریقہ کو نمونہ کے طور پر بیان کیا۔

لیکن قرآن مجید کے بارے میں خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ ہر قسم کے دخل و تصرف اور تحریف سے خدا کی پناہ میں ہوگا ۔ اس سلسلے میں فرماتا ہے:

(وَ اِنَّه لَکِتَاب عَزِیز لَا یَاتِیهِ البَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِیل مِنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ ) ١

اور یہ ایک عالی مرتبہ کتاب ہے ، جس کے قریب ، سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آبھی نہیں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکیم و حمید کی نازل کی ہوئی کتا ب ہے ۔

اور خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ خود اس کا محافظ اور بچانے والا ہوگا ، جیسے کہ فرماتا ہے :

(اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ٢

ہم نے ہی اس قرآن کونازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔

حتی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اپنی بات کو خدا کے کلام کے برابر قرار نہیں دے سکتے ، جیسا کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے:

____________________

١۔ فصلت ٤١ ۔ ٤٢۔

٢۔حجر ٩۔

۴۶

( تَنْزِیل مِنْ ربِّ العَالَمِینَ وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیلِ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِینِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الوَتِینَ فَمَا مِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِینَ ) ١

یہ ( قرآن ) رب العالمین کا نازل کردہ ہے' اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتا تو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑلیتے اور پھر اس کی گردن اڑا دیتے پھر تم میں سے کوئی مجھے روکنے والا نہ ہوتا ۔

یا یہ کہ اگر خدائے تعالیٰ قرآن مجید کو اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھین لیتا ، تو رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کچھ نہیں کرسکتے :

(وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِی اَوَْحَیْنَا اِلَیکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لک بِهِ عَلَیْنَا وَکِیلاً ) ٢

اور اگر ہم چاہیں تو جو کچھ آپ کو وحی کے ذر یعہ دیا گیا ہے اسے اٹھالیں اور اس کے بعد ہمارے مقابلہ میں کوئی سازگار اور ذمہ دار نہ ملے۔

اس کے علاوہ خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اگر جن و انسان باہم متفق ہو کر قرآن کے مانند کسی کتاب کو فراہم کرنے کی کوشش کریں گے تو بھی وہہر گز اس میں کامیاب نہیں ہوں گے :

(قُلْ لَئِنْ اجْتَمَعَتِ الاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰی اَنْ یَْتُوا بِمِثْلِ هٰذَا القُرآنِ لَا یَْتُونَ بِمِثْلِه وَ لَو کانَ بَعْضُهُم لِبَعْضِ ظَهِیراً )

آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اورجنّات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے ، چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں ۔

____________________

١۔ الحاقہ ٤٣ ۔ ٤٧

٢۔ اسراء ٨٦

٣۔ الاسراء ٨٨

۴۷

قرآن مجید کے مثل کسی کتاب کو لانے کے بارے میں انسان و جنات کی مجموعی قدرت اور توانائی سے نفی کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(وَ اِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثلِهِ وَ ادْعُوْا شُهَدائَکُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ اِنْ کُنْتُم صَادِقِینَ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَ لَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُو النَّارَ الَّتِی وَ قُودُهَا النَّاسُ وَ الحِجَارَةُ اُعِدَّت لِلْکَافِرِینَ ) ١

اگر تمہیں اس میں کوئی شک ہے، جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ اور اﷲ کے علاوہ جتنے تمہارے مددگار ہیں سب کو بلا لو۔ اگر تم اپنے دعوے اور خیال میں سچے ہو۔ اور اگر تم ایسا نہ کرسکے اور یقینا نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جسے کافروں کیلئے مہیا کیا گیا ہے۔

اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے

(اَمْ یَقُولُون افْتَرَاهُ قُلْ فَْتُوا بِعَشْرِ سُورٍ مِثْلِه مُفتَرَیَاتٍ وَ ادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ اِنْ کنتُمْ صَادِقِینَ فَاِلَّمْ یَسْتَجِیبُوا لَکُمْ فَاعْلَمُوا اَنَّمَا اُنْزِلَ بِعِلْمِ اﷲ ...) ٢

____________________

١۔بقرہ ٢٣۔ ٢٤

٢۔ہود ١٣۔١٤

۴۸

کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن بندے نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے کہ اس کے جیسے دس سورے گڑھ کر تم بھی لے آؤ اور اﷲ کے علاوہ جس کو چاہو اپنی مدد کیلئے بلا لو اگر تم لوگ اپنی بات میں سچے ہو۔ پھر اگر یہ آپ کی بات قبول نہ کریں توسمجھ لو کہ جو کچھ نازل کیا گیا ہے سب خدا کے علم سے ہے...

اور مزید فرماتا ہے:

(وَمَا کَانَ هٰذَا الْقُرآنْ اَنْ یُفْتَریٰ مِنْ دُوْنِِ اﷲِ وَ لٰکِنْ تَصْدِیقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْهِ وَ تَفصِیلَ الْکِتَابِ لاَ رَیْبَ فِیهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ ، اَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُو مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ )

اور یہ قرآن کسی غیر خدا کی طرف سے افتراء نہیں بے بلکہ اپنے ما سبق کی کتابوں کی تصدیق اور تفصیل ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔

کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے کہ تم اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ اور خدا کے علاوہ جسے چاہو اپنی مدد کیلئے بلا لو، اگر تم لوگ سچے ہو۔

____________________

١۔یونس ٣٧- ٣٨

۴۹

قرآن مجید میں تحریف کی ایک ناکام کوشش

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا وہ قرآن مجید کی شان میں خدا کا کلام تھا جو دقیق علمی بحث و تمحیص کے ذریعہ مذکورہ تمام مطلب کی تائید و تصدیق کرتا ہے ، اس کے تکرار کی گنجائش نہیں ہے ١

لیکن حیرت کی بات ہے کہ بعض روایات اس کے بر خلاف کہتی ہیں ذیل میں ان کے چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں :

١۔ بخاری اور مسلم کی '' صحیح'' ، ابو داؤدکی ترمذی اور ابن ماجہ کی '' سنن'' اور مالک کی '' مؤطائ'' میں یہ روایت نقل ہوئی ہے جسے ہم ذیل میں '' صحیح بخاری'' سے بعینہ نقل کرتے ہیں :

خلیفہ دوم عمر بن خطاب سے روایت ہے :کہ

خدائے تعالیٰ نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مبعوث فرمایا اور قرآن کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل فرمایا۔ جس کی آیات میں آیۂ '' رجم'' بھی موجود تھی کہ ہم نے اس آیت کو پڑھا اور سمجھا و درک کیا ہے۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ہم نے اسی آیت سے استدلال کرکے ''رجم'' یعنی '' سنگسار'' انجام دیا ہے ۔ اب مجھے اس بارے میں ڈر ہے کہ زمانہ گزرنے پر کوئی یہ کہے کہ : خد کی قسم میں نے آیۂ '' رجم'' کو کتابِ خدا میں نہیں دیکھا ہے ! اور لوگ اس واجب الٰہی کو ترک کرکے گمراہ ہوجائیں جبکہ قرآن مجید کی رو سے زنائے محصنہ میں رجم کی سزا واجب ہے ٢

____________________

١۔ مقدمۂ تفسیر الاء الرحمن اور مقدمۂ تفسیر البیان''۔

٢۔عن الخلیفة عمر بن الخطاب قال : اِنَّ الله بعث محمداً ( ص) و اَنزل علیه الکتاب فکان مما انزل اﷲ آیة الرجم فقرناها و وعینا ها ، و رجم رسول اﷲ ( ص) و رجمنا بعده فاخشیٰ ن طال بالناس زمان ان یقول قائل : و اﷲ ما نجد آیة الرجم فی کتاب اﷲ فیضلوا بترک فریضة انزلها اﷲ و الرجم فی کتاب اﷲ حق علی من زنی اذا حصن ...

اس روایت کے آخر میں عمر کی خیالی آیۂ '' رجم'' کے سلسلے میں ابن ماجہ نے اس طرح لکھا ہے: ہم آیۂ رجم کو یوں پڑھتے تھے۔

الشیخ و الشیخة اذا زنیا فارجموهما البتة

جب ایک مرد اور عورت زنا کے مرتکب ہوجائیں تو انہیں سنگسار کرو۔

۵۰

یہی مطلب مالک کی ''موطا'' میں یوں آیا ہے: ہم اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے:

الشیخُ وَ الشیخَةُ فَارْجِمُو هُمَا اَلْبَتّة ١

پھر اسی حدیث میں '' صحیح'' بخاری اور '' مسند '' احمد میں خلیفہ دوم سے منقول ہے کہ : ہم اس آیت کو کتاب خدا میں پڑھتے تھے:

الَّا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ فَاِنَّه کفر بِکُمْ اَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ

اپنے باپ سے منہ نہ موڑنا اگر ایسا کرو گے تو کفر کے مرتکب ہوگے۔

٢۔ مسلم کی'' صحیح''، ابو داؤد ، نسائی اور دارمی کی '' سنن'' اور مالک کی ''موطا'' میں ام المؤمنین عائشہ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے ' ہم یہاں پر '' صحیح مسلم'' میں نقل ہوئی اس حدیث کی عین عبارت نقل کرتے ہیں :

ام المؤمنین عائشہ سے منقول ہے کہ:

قرآن میں نازل ہونے والی آیتوں کے ضمن میں '' با علم دس مرتبہ دودھ پلانے کی آیت ' بھی

____________________

١۔ ابی بن کعب سے نقل کرکے تقریباً اسی مضمون کی حدیث '' مسند '' احمد ( ٥ ١٣٢) اور زید بن ثابت انصاری سے '' مسند'' احمد ( ٥ ١٨٣) میں آئی ہے۔

۵۱

نازل ہوئی تھی اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اس آیت کو قرآن مجید میں پڑھا جاتا تھا ۔

'' سنن'' ابی ماجہ میں حدیث عائشہ یوں نقل ہوئی ہے:

عائشہ نے کہا کہ آیۂ '' رجم '' اور '' بالغون کو دس مرتبہ دودھ پلانے '' کی آیت __ محرم بنانے کیلئے __ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھی ہوئی تھی اور میں نے اسے اپنے سونے کے تخت کے نیچے چھپا رکھا تھا ۔ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رحلت فرمائی ، ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجہیز و تکفین میں لگ گئے اور دیگر امور سے غفلت کی ، ایک مرغی کمرے میں داخل ہوئی اور اس کاغذ کو کھا گئی !! ١

٣۔ '' صحیح'' مسلم میں آیا ہے کہ ابو موسیٰ اشعری نے بصرہ کے قاریوں کیلئے جن کی تعداد تین سو تھی ایک پیغام بھیجا کہ ہم قرآن مجید میں ایک سورہ پڑھتے تھے جسے بلندی اور پائیداری کے لحاظ سے سورۂ برائت کے شبیہ جانتے تھے اور میں نے اسے فراموش کر دیا۔ اس میں سے صرف یہ حصہ یاد ہے کہ ارشاد ہوتاہے :

اگر فرزند آدم کے پاس دو بیابانوں کے برابر مال و دولت ہوجائے تو وہ تیسرے بیاباں کی بھی آرزو کرے گا ۔ فرزند آدم کا پیٹ مٹی کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں بھر سکتا ٢

ابو موسی اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

____________________

١ نزلت آیة الرجم و رضاعة الکبیر عشراًلقد کان فی صحیفة تحت سریری ، فلما مات رسول اﷲ تشاغلنا بموته فدخل داجن فاکلها !!

٢لو کان لابن آدم وادیان من مالِ لا بتغیٰ وادیا ثالثا و لا یملاء جو ف ابن ادٔم الا التراب !

۵۲

قرآن مجید میں ایک ایسا سورہ بھی تھا جو تسبیحات کی شبیہ تھا میں نے اسے بھی فراموش کر ڈالا۔ صرف اس کا یہ حصہ یاد ہے کہ ارشاد ہوتا ہے:

اے ایمان لانے والو ! تم جس چیز کو انجام نہیں دیتے اسے زبان پر کیوں لاتے ہو؟ تاکہ تمہاری گردن پر گواہی لکھ جائے اور قیامت کے دن تم سے پوچھ تاچھ کی جائے ؟!

ایسی بناوٹی اور جھوٹی احادیث ١ اگر کسی مطلب پر دلالت کر سکتی ہیں تو وہ مطلب یہ ہوگا کہ حدیث نبوی کے مطابق اس امت میں بھی ایسے افراد ہیں جو گزشتہ امتوں کے مانند آسمانی کتاب میں تحریف کرنے پر اتر آئیں گے ۔ اس سلسلے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :

تم لوگ اپنے اسلاف کی روش پر تیر کے پروں اور جوتوں کے جوڑے کے مانند چلو گے۔ اس حد تک کہ اگر وہ کسی چھپکلی کے بِل میں گھس گئے ہوں گے تو تم لوگ بھی اس میں گھس جاؤ گے۔

لیکن قرآن مجید میں تحریف کے بارے میں ان خود غرضوں کی تمام کوششیں ناکامی اور رسوائی سے دوچار ہوئیں ۔ جیساکہ خداوند فرماتا ہے :'' قرآن کے قریب ، سامنے یا پیچھے کی طرف سے باطل آبھی نہیں سکتا ہے '' اور خدائے تعالیٰ اپنی کتاب کو ایسے بیہودہ مطالب کی آلودگیوں سے بچالے گا جن سے عربوں کا ذوق سلیم بھی نفرت کا اظہار کرتاہے ۔ جیسا کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے : '' ہم

____________________

١۔ معتبر اور گراں قدر کتابوں کے ایک حصہ میں ان ہی روایات کا وجود ہمیں اپنے معین کردہ ارادہ میں مصمم تر کرتا ہے کہ حقائق تک پہچنے اور بیہودہ مطالب اور جھوٹ کو محکم و متین مضامین سے جدا کرنے کیلئے اپنی بحث و تحقیق کو جاری رکھیں ۔)

۵۳

نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ''۔

ارادۂ الٰہی کے تحت ، قرآن مجید لاکھوں مسلمانوں کے ذریعہ دست بدست پھرانے اور عصر رسالتمآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آج تک نسل بہ نسل منتقل ہونے کے باوجود ہر قسم کی تحریف اور آلودگیوں سے پاک اور محفوظ رہ کر اسی حالت میں موجود ہے جس حالت میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے تبلیغ فرمایا تھا اور انشاء اللہ اسی صورت میں آئندہ بھی محفوظ رہے گا۔

اسلامی مصادر کی تحقیق ضروری ہے :

اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے بیہودہ اور توہمات پر مشتمل مطالب اگر چہ قرآن مجید میں نفوذ نہیں کرسکے ہیں لیکن بہر صورت روایات و احادیث اور گراں قدر کتابوں میں سرایت کرچکے ہیں جنہوں نے ذہنوں کو مشغول کر رکھا ہے۔

اگر چہ قرآن مجید تحریف سے محفوظ رہا ہے لیکن سنّت کسی صورت میں تحریف اور دخل و تصرف سے محفوظ نہیں رہی ہے ۔ اس سلسلے میں دشمنان اسلام ، من جملہ یہود، نصاریٰ ، زندیقی اور دیگر منافقین' اسلام کالبادہ اوڑھ کے مسلمانوں کے اندرگھس کر مختلف صورتوں میں اور وسیع پیمانے پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی احادیث، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت ، اصحاب کی سیرت ، تاریخ اسلام ، احادیث اور تفسیر قرآن میں ہر قسم کی تحریف اور دخل و تصرف کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں !! یہاں تک کہ شاید ہمیں گزشتہ امتوں میں کوئی ایسی امت نہیں مل سکے گی جس نے اپنے پیغمبر کیلئے ایک سو پچاس اصحاب جعل کئے ہوں اور انھیں حقیقی و مسلم صحابیوں کے عنوان سے اپنے ہم عقیدوں کے سامنے پیش کیا ہو ! جس چیز کو اس کتاب میں مد نظر رکھا گیا ہے ، وہ یہ ہے کہ اسلامی مصادر کی حتی الامکان تحقیق و جستجو کرکے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے جعل کئے گئے اس قسم کے اصحاب کو پہچنوایا جائے ۔ انشاء اللہ اس کا م کو انجام دیا جائے گا۔

۵۴

لیکن مسلمانوں کی بڑی اکثریت یہ اعتقاد رکھتی ہے کہ جو کچھ انھیں اپنے اسلاف سے ملا ہے وہ سب کا سب صحیح ہے اور اسے ہر قسم کی آلودگی اور دخل و تصرف سے پاک و منزہ جانتے ہیں ۔ چنانچہ بحث و تحقیق کے ضمن میں اگرتاریخ طبری میں کسی صحابی کی خبر یا سیرۂ ابن ہشام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مربوط کسی خبر یا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مربوط کسی بھی حدیث کو اپنی مورد اعتما د و احترام کتابوں میں یا اس قسم کے دوسرے مصادر میں پاتے ہیں تو چوں و چرا کے بغیر اطمینان کامل کے ساتھ اس مطلب کو آنکھیں بند کر کے قبول کرلیتے ہیں ۔ اور اس کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں بحث و تحقیق کرنے کی ہر گز اپنے آپ کو تکلیف نہیں دیتے ۔ بلکہ اس کے برعکس ان کے علماء اور دانشور بھی ، مذکورہ مصادر کے مؤلفین نے جو کچھ اپنے فہم ، ذوق اور سلیقہ کے مطابق لکھا ہے ، اسے آنکھیں بند کرکے قبول کرتے ہیں ۔

ہم کتاب '' عبد اللہ بن سبا'' کے مختلف حصوں کی تحقیق و جستجو کے دوران پیروان مکتبِ خلفاء کے مطمئن ترین منبع یعنی '' تاریخ طبری'' میں چند بڑی تحریفات سے دوچار ہوئے جو اصحاب سے مخصوص ہیں ۔ یہ تحریفات ، تاریخی حقائق کو الٹ پلٹ کردینے کا سبب بنی ہیں اور انھیں اپنے اصلی راستے سے منحرف کرکے رکھدیا ہے ۔

اگر ایک محقق، انکے نزدیک سیرت میں مطمئن ترین کتاب '' سیرہ ابن ہشام '' یا انکی انتہائی مورد اعتماد حدیث کی کسی بھی کتاب کی تحقیق کرے تو ا ن میں حیرت انگیز حد تک جھوٹ اور تحریف کا سامنا کرے گا۔

گزشتہ بحث کے پیش نظرہم اس قسم کی سیرت ، حدیث و تاریخ کی کتابوں کے بارے میں درج ذیل تین راہوں میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے پر ناگزیر ہیں :

١۔ صرف قرآن مجید پر اکتفا کریں اور اپنے اسلام کو اسی میں تلاش کریں لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ اس قسم کے اقدام کا نتیجہ ترکِ اسلام ہے جو قرآن کو ترک کرنے کے برابر ہے۔

۵۵

٢۔ انہیں کتابوں کو ، کہ جن پر اکثر مسلمانوں کو اطمینان ہے اور ان میں درج مطالب کے صحیح ہونے پر ایمان رکھتے ہیں 'تسلیم کرلیں اور جو کچھ ان میں درج ہے اسے بلا چوں و چرا قبول کرلیں اور کسی بحث و تحقیقکے بغیر ان کی روایتوں کے مضامین ، راویوں کے سلسلہ ، ان کا تاریخ و سیرت کی دوسری کتابوں میں موجود مطالب سے موازنہ وغیرہ سے چشم پوشی کرکے سب کچھ قبول کرلیں ۔

ہماری اس بحث و تحقیق کے پیش نظر نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم صحیح کے بجائے تحریف اور حق کے بجائے باطل کو قبول کر لیں اور اس طرح وہی پہلا نتیجہ حاصل ہوگا۔

٣۔ یہ کہ حدیث ، سیرت اور تاریخ کی تمام کتابوں کا مطالعہ کرکے ان پر بحث ، تحقیق، تنقید اور جانچ پڑتال کرکے ان سند ، متن اور مضمون کے لحاظ سے موازنہ کریں اور علمی بنیادوں پر حاصل شدہ تحقیق کے نتیجہ کو قبول کریں ۔

قرآن مجید کے علاوہ تمام اسلامی مصادر کے بارے میں ہم مجبور ہیں کہ مذکورہ تین راہوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں ۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ پہلے دو راستے اسلام اور قرآن سے منہہ موڑنے کے مترادف ہیں ، پس جب صحیح اسلام اور اس کے سچے قوانین کی پیروی کے خواہاں ہیں تو ہم ناگزیر ہیں کہ اسی تیسرے طریقے یعنی بحث و تحقیق اور تنقید جو صحیح اور علمی ہے اس کا انتخاب کرنے کو ہی قبول کریں ۔

اس انتخاب میں ضروری ہے کہ اصحاب کی سیرت پر بحث و تحقیق کو دوسرے امور پر مقدم قرار دیں ،ہم نے بھی اسی بحث کو دوسری بحثوں پر مقدم قرار دیا ہے ۔

کیونکہ صحابہ ہمارے اور حدیث کے درمیان رابطے کی کڑی ہیں ۔ ہم نے اس سلسلے میں دیکھا کہ سیرت سے مربوط بعض روایات بعض ایسے اصحاب سے روایت کی گئی ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے ابھی انھیں پیدا ہی نہیں کیا ہے !

اس طرح ہمیں چاہئے کہ اس بحث و تحقیق میں تنقید، تحقیق اور چانچ پڑتال کرتے وقت انتہائی اہم کتابوں کو اہم پر اہم کو غیر اہم کتابوں پر مقدم قرار دیں ۔ یا سادہ الفاظ میں امکان کی حد تک اپنی بحث و تحقیق میں انتہائی مشہور کتابوں کو دوسرے درجہ کی مشہور کتابوں اور دوسرے درجے کی کتابوں کو غیر مشہور کتابوں پر مقدم قراردیں ۔

۵۶

اب میں نے انتہائی انکساری کے ساتھ فیصلہ کیا ہے کہ اس بحث و تحقیق کے سلسلہ کو اسی پروگرام کے تحت جاری رکھوں اور اگر خدائے تعالیٰ نے اس پروگرام میں میری مدد فرمائی تو اس کا شکر گزار رہوں کا ورنہ اسلام کے علماء اور محققین کی ذمہ داری ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کو آلودگیوں اور تحریفات سے پاک کرنے کیلئے قدم اٹھائیں ۔

خلاصہ

چونکہ تمام اسلام قرآن و سنت میں ہے ، لہذ اصحیح اسلام کو درک کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ان دونوں کی طرف رجوع کیا جائے کوئی شخص قرآن کو سنت سے جدا نہیں کرتا مگر وہ شخص کہ جو اپنی خواہش و مرضی کے مطابق عمل کرنا چاہتا ہے اور قرآن مجید کی اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق تویل و تفسیر کرنا چاہتا ہے۔ خدائے تعالی اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا ہے کہ قرآن و سنت کی طرف ایک ساتھ رجوع کیا جائے۔ لیکن جب ہم اسلام کو حاصل کرنے کیلئے سنّت کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ سنت مختلف صورتوں میں تحریف کا شکار ہوئی ہے ۔ اس تحریف اور دخل و تصرف میں امت اسلامیہ مو بمو گزشتہ امتوں کے نقش قدم پر چلی ہے۔

خدائے تعالی نے گزشتہ امتوں کی تحریف کے بارے میں اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس امت کے گزشتہ امتوں کے تمام امور میں پیروی کرنے کی خبر دی ہے ۔یہی امر دسیوں ہزار بناوٹی اور تحریف شدہ روایتوں ، سیرت ، تاریخ اسلام ، عقائد اسلامی ، تفسیر قرآن میں اور ایسے ہی دوسرے امور میں شامل ہوکر صحیح اسلام کے نظروں سے اوجھل ہوجانے اور حقیقت تک رسائی کے بہت مشکل ہوجانے کا سبب بنا ہے ۔ اس کے علاوہ یہی تحریفات اور دخل و تصرف مسلمانوں کی یکجہتی ، اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرکے انھیں مختلف ٹولیوں اور گروہوں میں تقسیم کرنے کا سبب بنے ہیں ۔

اس لحاظ سے اگر ہم صحیح اسلام کو سمجھنا چاہیں تو ہمیں اس قسم کی بحث و تحقیق کی سخت ضرورت ہے اور اس ضرورت کا اسلام کے احکام پر عمل کرتے وقت شدت سے احساس کرتے ہیں ۔

۵۷

اس کے علاوہ اگر مسلمانوں کے امور اور ان کا اتحاد ہمارے پیش نظر ہے تو ہم اس قسم کی بحث و تحقیق کے سخت محتاج ہوں گے، کیونکہ آج کل مسلمانوں کے درمیان اختلاف و افتراق کا سرچشمہ اسلام کے تمام امور میں ہزاروں کی تعداد میں ضد و نقیض احادیث کے وجود کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ اسی طرح اس قسم کی تحقیقات و بحث و مباحثہ کے بغیر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لائے ہوئے اصلیاسلام کو سمجھنا' اس کے احکام پر عمل کرنا اور مسلمانوں کا اتحاد و اتفاقبھی ممکن نہیں ہے۔

لہذا گزشتہ بحث کے تناظر میں لازم بن جاتا ہے کہ ہم اس بحث و تحقیق کے کام کو جاری رکھیں تا کہ صحیح کو غلط سے جدا کرکے پہچان سکیں ، اس مشکل ، سنجیدہ اور زبردست کام کیلئے دانشوروں کی ایک جماعت کو قدم اٹھانا چاہئے ۔ پھر یہ امت اسلامیہ کا فرض بنتا ہے کہ ان کی بحث و تحقیق کے نتیجہ پر راضی ہو کر اسے خد اکی راہ میں اور اس کی خوشنودی کیلئے قبول کریں ۔

لیکن یہ کہنا کہ '' چپ رہو'' __اس خدا کی قسم جس نے زمین و آسمان کو خلق کیا ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق پر مبعوث فرمایا ہے __ علم و دانش کے خلاف ناپاک ترین جملہ ہے اور دین کیلئے سب سے بڑا نقصان ہے ۔ یہ بات جس کے منہ سے بھی نکلے شیطان کا کلام اور اس کا وسوسہ ہے ۔ میں اس قسم کے بیہودہ گو افراد کے بارے میں اس کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتا :

(رَبّ اَهْدِ قَوْمِی اِنَّهُمْ لَا یَعلَمُونَ)

وہ جو چاہیں کہیں ، لیکن میں خدا کو شاہد و گواہ قرار دیکر کہتا ہوں کہ میں نے صرف اسلام اور اس کی پہچان کیلئے ان مباحث و تحقیقات کے سلسلہ کی اشاعت کا قدم اٹھایا ہے اور خاص کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان اصحاب کو پہچنوانے کیلئے جنھیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت اور ادراک کا شرف حاصلہوا ہے اور انہی حقیقی اصحاب کو جعلی اصحاب سے جدا کرنے کیلئے میں نے '' ١٥٠ جعلی اصحاب'' نامی اپنی کتاب شائع کی ہے۔

اب ہم کتاب کے اس حصہ میں سیف کے پچیس دیگر جعلی '' اصحاب ، حدیث کے راوی، جنگی سپہ سالار،شعراء ، اور رجز خوانوں '' کے بارے میں بحث و تحقیق شروع کرتے ہیں اور خدائے تعالیٰ سے اس کام میں کامیابی کی دعا کرتے ہیں ۔

۵۸

پہلے حصہ کے مصادر و مآخذ

حسان بن ثابت انصاری کی حدیث :

١۔ کتاب '' سنن'' دارمی ( ١٤٥١) باب '' السنة قاضیہ علی کتاب اﷲ'' کا مقدمہ۔

مقدام کی حدیث :

١۔ '' سنن'' ابو داؤد ( ٢ ٢٥٥)

٢۔ '' سنن'' ترمذی باب '' ما نھی عنہ ان یقال عند حدیث النبی '' (١٣٢١٠)

٣۔ '' سنن'' ابن ماجہ باب '' تعظیم حدیث رسول اﷲ'' (٦١)

٤۔ '' سنن'' دارمی ، باب '' السنة قاضیہ علی کتاب اﷲ'' کا مقدمہ (٤٠١)

٥۔ '' مسند'' احمد بن حنبل ( ٤ ١٣٠۔١٣١و ١٣٢)

عبید اللہ بن ابی رافع کی حدیث :

١۔ '' سنن'' ابو داؤد ، کتاب '' السنة '' ، '' لزوم السنة'' ( ٢ ٢٥٦)

٢۔ '' سنن'' ترمذی ( ١٣٣١٠)

٣۔ '' سنن'' ابن ماجہ ( ٦١)

٤۔ ''مسند'' احمد بن حنبل ( ٨٦)

۵۹

عرباض بن ساریہ کی حدیث :

١۔ '' سنن'' ابو داؤد ( ٦٤٢) باب '' تعشیر اھل الذمہ'' کتاب '' خراج '' سے ۔

ابو ہریرہ کی حدیث :

١۔ ''مسند'' احمد بن حنبل ۔ ( ٢ ٣٦٧)

اس امت کے اپنے اسلاف کی تقلید کرنے کا موضوع

حضرت امام صادق کی اپنے جد بزگورار سے حدیث :

١۔ '' اکمال الدین '' شیخ صدوق ، ص ٥٧٦' طبع حیدری تہران ١٣٩٠ ھ

٢۔ '' بحار الانوار 'مجلسی ، شیخ صدوق سے نقل کرکے ، طبع کمپانی (٢٨)

٣۔ '' مجمع البیان '' مرحوم طبرسی ، ' جلاء الاذہان '' گازر ، تفسیر آیۂ شریفہ :

(لَتَرْکَبُنَّ طَبْقاً عَنْ طَبْقٍ )

شافعیوں کے پیشوا اما م شافعی کی حدیث:

١۔'' فتح الباری '' ابن حجر ( ٦٤١٧)

ابو سعید خدری کی حدیث :

١۔ ''مسند'' طیالسی ، حدیث نمبر ٢١٧٨۔

٢۔ '' مسند '' احمد ، ( ٩٤٣) و ٨٤٣)

٣۔ '' صحیح مسلم '' نووی کی شرح ،کتاب العلم ( ١٦ ٢١٩)

٤۔ '' صحیح '' بخاری، کتاب '' الانبیاء '' باب '' ما ذکر عن بنی اسرائیل '' (٢ ١٧١)

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421