عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 13%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 421

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 421 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 208277 / ڈاؤنلوڈ: 8548
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

پہلی جلد

علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم:سید قلبی حسین رضوی

۳

خطوط اور مقدمے

کتاب عبدا للہ بن سبا کی علمی قدر و قیمت

ایک شیعہ دانشور محترم جناب شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

الازہر یونیورسٹی ، مصر کے مجلہ کا جواب

مباحث پر ایک نظر

سلسلہ مباحث کی پیدائش

۴

کتاب عبد اللہ بن سبا کی علمی قدرو قیمت

مصر کی الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر جناب ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کا خط

کتاب عبدالله بن سبا ، آخر میں دوسرے ایڈیشن کے عنوان سے مصر میں دوسری بار شائع ہوئی ہے،اس کتاب نے اہل سنت ممالک میں گہرا اثر ڈالا ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں خاص کر الازہر یونیورسٹی کے دانشوروں اور اساتذہ کی توجہ کا سبب بنی ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں میں غیر معمولی اثر ڈالا ہے ،مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی طرف سے مؤلف کو اس کتاب کو پسند کرنے کے سلسلہ میں کئی خطوط ملے ہیں ، ان میں سے ایک جناب ڈاکٹر حامدکا خط ہے ، وہ مصر کے ایک نامور دانشور ہیں ، جو کئی قابل قدر تحقیقی تالیفات کے مالک ہیں ۔

چونکہ یہ خط انصاف و عدالت کا ایک نمونہ اور تعصب اورہٹ دھرمی کی سرحدوں کو توڑنے والا ایک عنوانہے اس لئے ہم اسے ترجمہ کرکے شائع کرتے ہیں(۱)

____________________

۱۔ نشریہ سالانہ مکتب تشیع ۴/۳۰۲۔

۵

خط کا مضمون

تاریخ اسلام کی تیرہ صدیاں اختتام کو پہنچی ہیں ان تیرہ صدیوں کے دوران ہمارے دانشوروں کے ایک گروہ نے حتی الامکان شیعوں کے خلاف آواز اٹھائیہے اور حقائق کو اپنی نفسانی خواہشات سے مخلوط کیا ہے اس ناپسندیدہ روش کی وجہ سے اسلامی فرقوں کے د رمیان گہرے اختلافات پیدا ہوئے ہیں ، نتیجہ کے طورپر شیعہ دانشوروں کے فکر و اندیشہ کے گوہر کو حقیر سمجھا گیا ہے اسی روش کی بنا پر علمی دنیا کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

شیعہ دانشوروں کے افکار سے علم محروم رہا ہے کیونکہ دشمنوں نے شیعوں کے پا ک و صاف دامن کو داغدار بنا کر انھیں ایک توہمات و خرافات کے حامل گروہ کے طور پر پہچنوایا ہے ، بے شک ہم شیعوں کے صاف و شفاف علمی چشمہ زلال سے ایک گھونٹ پی سکتے تھے نیزاس مذہب کے سرمایہ سے فائدہ اٹھا سکتے تھے ، لیکن افسوس کہ ہمارے گزشتہ دانشوروں نے تعصب سے کام لیااور عقل کو ھوا و ہوس پر ترجیح نہیں دی ، اے کاش کہ وہ لوگ عقل کی پیروی کرتے اور جذبات کے کھلونے نہ بن تے !! جو کوئی تعصب کے عینک کو اتارکر فقہی مباحث کےلئے اقدام کرے اور فقہ مذاہب چہارگانہ پر تحقیق کرے ، وہ شیعہ فقہ سے بھی استفادہ کرنے پر مجبور ہے اور بے شک جب فقہ اہل سنت پرتحقیق کرے تو اس وقت شیعہ فقہ کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے اور اس سے آگاہ ہونا چاہئے ۔

۶

ہم کب تک خواب غفلت میں رہیں گے ؟! کیا فقہ شیعہ کے پرچم دار ،ا مام جعفر صادق علیہ السلام(۱) سنی مذہب کے دو امامو ں کے استاد نہیں تھے؟ یہ دو امام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مکتب میں زانوئے ادب تہہ کیا ہے ۔

ابو حنیفہ ، نعمان بن ثابت(۲) کہتے ہیں :

لولاالسنتان لهلک النعمان

اگر امام صادق علیہ السلام کے درس میں دو سال شرکت نہ کی ہوتی تو بے شک میں ہلاک ہوجاتا، اوردین سے منحرف ہوتا۔

اس کی مراد وہی دو سال ہیں جس میں انہوں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کے علم کے میٹھے اور زلالی چشمہ سے استفادہ کیا ہے ۔

اور یہ مالک بن انس ہیں جو واضح طور پر اعتراف کرتے ہیں :

ما رایت افقه من جعفر بن محمد

میں نے جعفر بن محمد سے فقیہ تر کسی کو نہیں د یکھا ہے(۳)

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ علم کے بارے میں صرف دور سے کچھ سننے والوں نے اپنے آپ کو دانشور سمجھ کر اپنے قلم سے تحقیق کی بنیادوں کو اکھاڑ کر حق و حقیقت کو اپنی نفسانی خواہشات پر قربان

____________________

۱۔ وفات ۱۴۸ ھ

۲۔ وفات ۱۵۰ھ

۳۔ وفات ۱۷۹ ھ

۷

کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر گلستان علم کے دروازے ان پر بند ہوگئے اور اس طرح وہ شمع معرفت کے نور سے محروم ہوگئے ہیں ، اس مذموم روش نے فتنہ کی آگ کو بھڑکانے کے علاوہ مسلمانوں میں ، دن بدن اختلافات کو بڑھا وا دیا ہے ۔

افسوس کہ ہمارے استاد ” احمد امین “(۱) بھی انہیں افراد میں سے تھے ، جنہوں نے معرفت کے نور سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ظلمت کے پردوں کے پیچھے زندگی بسر کرتے رہے ، یہ وہ کرنیں ہیں جو تشیع کے سورج سے چمکی ہیں اور جہالت کی تاریک رات کو نور میں تبدیل کرکے اسلام کے عظیم تمدن کو اس وقت وجود بخشا ، جبکہ دوسرے لوگ بہت پیچھے تھے۔

تاریخ نے اس ناپاک رویہ کی بنا پر ، احمد امین اور ان جیسے تمام اساتذہ اور دانشوروں کے دامن پر عظیم داغ لگادیا ہے، جنہوں نے آنکھیں بند کرکے تعصب کی وادی میں قدم رکھا ہے ، یہ دانشور وں اور محققین کا طریقہ کار نہیں ہے کہ ایک جگہ بیٹھے رہیں اور جمود کی بیڑی کو اپنی فکر کے پاؤں سے نہ اتاریں اور بے جا پر تعصب سے کام لے کر آنکھیں بند کرکے کسی مذہب کی پیروی کریں !!

ان کی فکرو قلم سے بہت ساری غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہوئی ہیں اور انہیں الجھن اور بد حواسی سے دوچار کیا ہے ، شاید مذکورہ داستان اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔

انہوں نے جھوٹ بول کر بعض مطالب کو شیعوں سے نسبت دیکران کے دامن کو داغدار بنادیا

____________________

۱۔ ” فصل “ پیدائش افسانہ د ور راویان آن “ شمارہ ہفتم ، کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں پر احمد امین کی باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا ہے جس کا سبب شیعوں کے ساتھ اس کی دشمنی اور کینہ ہے ۔

۸

ہے کہ ہم نے ان میں سے بعض کی طرف اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے ،(۱) انہوں نے تصور کیا ہے کہ جتنے بھی خرافات اور جعلی چیزیں اسلام کی تاریخ میں موجود ہیں ، سب کی سب شیعہ علما کی گڑھی ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنے خود ساختہ گمان سے شیعوں پر حملہ کیا اور ان کو برا بھلا کہا ہے۔

جلیل القدر محقق ”جناب مرتضیٰ عسکری “ نے اپنی کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ میں کافی دلائل سے مکمل طور پر ثابت کیا ہے کہ ” عبدا للہ بن سبا “ ایک خیالی اور جعلی موجود ہے ۔

تاریخ نویسوں نے جو حکایتیں بیان کی ہیں اور ان کی بناء پر اسے (عبدا للہ بن سبا) مذہب شیعہ کا مروج(۲) بیان کیا ہے البتہ یہ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، مؤرخین نے ان گڑھی ہوئی داستانوں کو اس لئے مرتب کیا ہے تا کہ فریب کاری کے جال کو پھیلا کر شیعوں پر حملے کرکے بے جا ان کے خلاف تہمت و افتراء پردازی کریں ۔

ہم عصر دانشور ،جناب مرتضیٰ عسکری نے اس کتاب میں اپنی فکر و اندیشہ کے سہارے تاریخ کے سمندر میں غوطہ لگا کر ، بہت سی کتابوں کا مطالعہ فرمایا ہے اور انتہائی تلاش و جستجو کے بعد اس سمندر سے کافی مقدارمیں موتی لے کر ساحل تک آئے ہیں ۔

انہوں نے زیر بحث حقائق کو ثابت کرنے کےلئے نزدیک ترین راستہ طے کیا ہے ، شیعوں کے

مخالفوں سے بحث کے دوران ان کے ہی بیانات کو مآخذ قرار دیکر ان کی باتوں کو باطل ثابت کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کی کتا ب” مع احمد امین “ کے مقدمہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ خود غرض مورخین نے اسے شیعہ مذہب کا بانی و مروج خیال کیاہے۔

۹

تاریخ اسلام کے آغاز سے عصر حاضر تک ” سیف بن عمر“ کی روایتوں نے مؤرخین کو الجھا رکھا ہے جو عام طور پر قابل اعتماد ہے، اس کتاب میں ان روایتوں کے بارے میں ایک گراں بہا تحقیق کی گئی ہے کہ قارئین بڑی آسانی سے انھیں سمجھ سکتے ہیں ۔

خدا کی حکمت اسی میں ہے کہ بعض محققین مردانہ وار قلم ہاتھ میں اٹھا کر حقائق سے پردہ اٹھائیں ، اور اس راستہ میں دوسروں کی سرزنش اور ملامت کی پروانہ کریں ، مصنف محترم پہلی شخصیت ہیں جس نے اپنی گہری تحقیقات کے نتیجہ میں اہل سنت محققین کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ طبری کی کتاب ” تاریخ الامم و الملوک “ کے بارے میں تجدید نظر کریں ، نیز انھیں اس بات پر مجبور کیا ہے کہ اس کتاب اورتاریخ کی دوسری بنیادی کتابوں کے بارے میں از سر نو دقت سے غور کرتے ہوئے اور خوب و بد کو ایک دوسرے سے جدا کریں ،مزید ان تاریخی حوادث کے بارے میں بھی نئے سرے سے غور کریں ، جنہیں وہ نازل شدہ وحی کے مانند صحیح اور نا قابل تغییر سمجھتے تھے !!

محترم مصنف نے کافی ، واضح اور روشن شواہد کی مدد سے ان تاریخی وقائع سے ابہام کے پردے کو ہٹا دیا ہے اور حقیقت کو اس کے متوالوں کےلئے آشکار کیا ہے حتی کہ بعض حقائق انتہائی بھیانک اور حیرت انگیز دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ایک عمر کے عادات و رسومات چند صدیوں کی اعتقادی میراث کے مخالف ہیں ، لیکن حق کی پیروی کرنالازم و واجب ہے ہر چند کہ یہ امر دشور ہو ” الحق احق ان یتبع“۔

مذکورہ مطالب سے آگاہی چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ کریں او رتاریخ کے اختلافی حوادث جیسے ، اسامہ کی لشکر کشی ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت اور سقیفہ کی داستان (جس پر مؤلف نے تنقیدی تجربہ کیا ہے) کا دقت کے ساتھ مطالعہ کریں ۔

جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موت کا شیرین جام نوش فرمارہے تھے، اسامہ کے لشکر سے بعض افراد حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے مدینہ لوٹے اور ریاست و خلافت کی امید سے جہاد سے منہ موڑ لیا ، مؤلف نے ان افراد کو پہچنوایا ہے ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر مرگ پر جب وصیت لکھنے کا حکم دیدیا، کچھ لوگوں نے اس حکم پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالی اور اسے ہذیان سے تعبیر کیا (گویا انہوں نے گمان کیا کہ پیغمبر ہذیان کہہ رہے ہیں)کیونکہ وہ اس امر سے خائف تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وصیت میں علی علیہ السلام کی خلافت کی خبر دیں گے اور ان آخری لمحات میں بھی اسے اپنے وصی کے طور پر تعارف کرائیں گے ۔

۱۰

مؤلف اس حادثہ کی حقیقت و کیفیت کو بھی آشکار کرتے ہیں عمر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے انکار کرنے کا مقصد کیا تھا ؟ کیوں وہ ان افراد کو موت کی دھمکی دیتے تھے جو یہ کہتے تھے کہ پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے رحلت کی ہے ؟جس وقت امام علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچیرے بھائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس اور چند بوڑھے اور سن رسیدہ اصحاب کی مددسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن نازنین کوغسل دینے میں مشغول تھے ، تو اس وقت کس غرض سے عمر اور ابو عبیدہ نے انتہائی عجلت کے ساتھ اپنے آپ کو سقیفہ کے اجتماع میں پہنچادیا اور لوگوں سے ابوبکر کے حق میں بیعت لے لی ؟!

بے شک ، اگر تھوڑا سا انتظار کرتے تا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سپرد لحد کرکے اور علی علیہ السلام بھی اس اجتماع میں حاضر ہوتے تو علی علیہ السلام خلافت کے مستحق قرار پاتے اور بنی ہاشم ان کے علاوہ کسی اور کو امام المسلمین کے طور پر قبول نہیں کرتے !

مؤلف نے مذکورہ تین مباحث میں صحیح کو غلط سے اور برے کو بھلے سے جدا کرکے ان مسلم حقائق تک رسائی حاصل کی ہے اور ان کی اس تحقیق کے نتیجہ میں فریب کاروں کےلئے مکرو فریب کے دروازے بند ہوگئے ہیں ۔

کتاب کے دوسرے مباحث بھی مذکورہ بالا تین مباحث کی طرح ، دقت کے ساتھ حقائق کو ایسے آشکار کرتے ہیں کہ بہت جلد ہی تاریخ اسلام کے اندر گہرے اثرات رونما ہوں گے ۔

میں اس مقالہ کو ختم کرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ درج ذیل تین سوالات کا جواب دیدوں :

۱ ۔ کیا پیغمبر خدا کا صحابی غلطی کرسکتا ہے اورلغزش سے دوچار ہوسکتا ہے ؟

۲ ۔ کیا اس کے کام اور کردار پر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے ؟

۳ ۔ کیا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی کو منافق یا کافر کہا جاسکتا ہے ؟

۱۱

سوال نمبر ایک اور دو کا میں مثبت جواب دیتا ہوں ، لیکن تیسرے سوال کا جواب منفی ہے ۔ اس لئے نہیں کہ میں تعصب سے کام لیتا ہوں اور علم کے اصول کے خلاف کہتا ہوں ، بلکہ ایک ایسا استدلال رکھتا ہوں کہ عقل اس کو قبول کرتی ہے اور منطق اسکی تائید کرتی ہے کیونکہ کفر و نفاق کا تعلق قلب و دل سے ہے اور وہاں تک خدا کے سوا کسی کی رسائی نہیں ہے ، علمی تجربہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ہے ، صرف خداوند عالم ہے جو انسان کے اندرونی اسرار سے واقف ہے اور پوشیدہ چیزوں کامکمل طور پر علم رکھتا ہے(۱)

مذکورہ روش ، وہی جدید روش ہے ، جس کا واضح مشاہدہ میری تمام تالیفات میں کیا جاسکتا ہے۔

مجھے اس بات پر انتہائی مسرت ہے کہ علم کے لحاظ سے اس عظیم کتاب اور اس کے عالی قدر مصنف استاد علامہ محقق جناب مرتضی عسکری کے تئیں انتہائی احترام و محبت کا قائل ہوں ، اسی طرح جناب مرتضیٰ رضوی کشمیری کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کو پوری ظرافت اور دیدہ زیب صورت میں شائع کیا ہے ، علامہ نے اس فریضہ کو انجام دے کر اسلام کی ایک عظیم خدمت کی ہے اور اس ذمہ داری کو انجام دے کر اسلام کے تاریخی حقائق کو زندہ کرنے کےلئے ایک عظیم اثر چھوڑا ہے ۔

قاہرہ اول جمادی الاول ۱۳۸۱ ھء مطابق ۱۲ ،اکتوبر ۱۹۶۱ ئئ

ڈاکٹر حامد حفنی داؤد

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد نے اس خط کو نصف کتاب کے شائع ہونے کے پیش نظر مصر میں لکھا ہے ۔

۱۲

ایک محترم شیعہ دانشور شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

سنی دانشور محترم جناب ڈاکٹر حامد کے نظریہ سے آگاہ ہونے کے بعد مناسب ہے یہاں پر اس کتاب کے بارے میں ایک شیعہ دانشور علامہ نابغہ جناب شیخ محمد جواد مغنیہ جبل عاملی کے نظریہ سے بھی آگاہ ہوجائیں ، علامہ موصوف لبنان میں مروج مذہب تشیع ہیں ۔

موصوف کی گراں بہا تالیفات میں من جملہ ” تفسیر قرآن مجید “ ” معالم الفلسفة الاسلامیہ“، ”الشیعہ و الحاکمون “ ” اصول الاثبات فی الفقہ الجعفری“ اور دسیوں دوسری تالیفات سنجیدہ فکر اور ان کے علمی بلند مقام کو آشکار کرتی ہیں ، ذیل میں مجلہ ” العرفان “(۱) میں شائع ہوئے ان کے مقالہ کا ترجمہ ہے :

مذہب شیعہ کے خلاف لکھنے کے علاوہ دنیا کی تمام چیزوں میں دگرگونی اور تغیرات پیدا ہوئے ہیں شیعوں پر تہمت و افتراء کے علاوہ ہر آغاز کا خاتمہ ہے شیعوں کے خلاف جاری کئے جانے والے احکام کے علاوہ ہر حکم کی ایک دلیل و علت ہے آخر کیوں ؟

کیا شیعہ شورشی اور فتنہ گر ہیں اور لوگوں کے سکون و اطمینان کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں ؟

____________________

۱۔ نمبر ۳/ سال ۱۳۸۱ ھ صفحہ ۲۳۰۔

۱۳

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :

سیف بن عمر تمیمی(۱) نامی ایک شخص نے گزشتہ دو سری صدی کے دوران دو کتابیں لکھی ہیں ، اس کی پہلی کتاب ” الفتوح و الردّة“ اور دوسری کتاب ” الجمل و مسیر عائشة و علیّ “ ہے ان دونوں کتابوں میں د رج ذیل مطالب کی ملاوٹ کی گئی ہے :

۱ ۔ ایسے حوادث و اتفاقات کی تخلیق کرنا ، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

۲ ۔ رونما ہوئے حقیقی حوادث و واقعات میں تحریف کرکے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت دکھانا ۔

اس بے لگام اور جھوٹے شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے چند من گھڑت اصحاب جعل کئے جن کے سعیر ، ہزہاز، اط ، حمیضہ ، وغیرہ نام رکھے ہیں ۔

اس نے تابعین اور غیر تابعین کے کچھ اشخاص جعلکئے ہیں اور ان کی زبانی اپنی جعلی احادیث نقل کی ہیں ۔

اس کی انہیں تخلیقات میں سے ایک سورما ہے جس کی شخصیت کو اس نے جعلکیا ہے اور اس کا فرضی نام بھی معین کیا ہے ، اور چند داستانوں کو گڑھ کر اس سے نسبت دی ہے یہ افسانوی سورما ”عبد اللہ بن سبا“ ہے جس کسی نے بھی شیعوں پر تہمتیں لگائی ہیں اور ان کے بارے میں جہل یا نفاق کے سبب افترا پردازی کی ہے ، ان سب نے اسی پر اعتماد کیا اور اس کی باتوں پر تکیہ کیا ہے۔

____________________

۱۔وفات دوسری صدی ہجری ۔

۱۴

”سیف“ کے بعد مؤرخین کی ایک جماعت نے فریب اور دھوکہ سے بھری ان دو کتابوں کو سند بنا کر کسی قسم کے تامل و تدبر کے بغیر دروغ پرداز اور چالباز سیف کے نظریات اور اندیشہ کو نقل کیا ہے ، اس طرح اس کے مذموم تفکر سے استفادہ کیا گیا ہے ۔

”طبری“ پہلا شخص تھا جو” سیف “کے دام فریب میں پھنس گیا تھا اس کے بعد ابن اثیر ، ابن عساکر اور ابن کثیر اور دوسرے لوگ” طبری“ سے آنکھیں بند کرکے روایت نقل کرنے کے سبب اس گڑھے میں گر گئے ہیں ۔

اس طرح جھوٹے ”سیف“ کی تخلیقات کی تاریخی کتابوں اور منابع میں بلاواسطہ طور پر ملاوٹ ہوئی ہے لیکن ان کی جڑ اور بنیاد، وہی سیف کی دو کتابیں ” الفتوح “ اور ” الجمل “ ہیں ۔

علامہ سید مرتضی عسکری کی کتاب ” عبد اللہ بن سبا“ مذکورہ حقائق کو صحیح دلائل کی بنا پر آشکار کرتی ہے اور قارئین کو صاف اور واضح راہنمائی کرکے حقیقت کی منزل تک پہنچاتی ہے ۔

انہوں نے اس کتاب کی تالیف میں انتہائی دقت سے کام لیا ہے اور موصوف کی تمام تر سعی و تلاش اس امر پر متمرکز رہی ہے کہ حق و حقیقت کے علاوہ کوئی چیز کاغذ پر نہ لکھی جائے ، قارئین کرام جس قدر بھی مفکر اور دانشور ہوں ، موصوف کے حاصل کئے ہوئے نتائج سے نہ تو انکار کرسکتے ہیں اورہی نہ شک و شبہ ، کیونکہ اس کتاب کے بہت سے دقیق مباحث کی بنیاد بدیہی قضایا پر مبنی ہے اور بدیہیات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے ۔

میں نے مختلف افراد سے بارہا بحث کی ہے ، اور ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا ہے ، لیکن اس گفتگو میں میں نے شیخ مفید ، سید مرتضی ، اور علامہ حلی سے آگے قدم نہیں بڑھایا ہے ، میری روش صرف یہ تھی کہ میں ان بزرگوں کے طرز بیان کو بدل دیتاتھا اور مخاطب کے لئے مطالب کو آشکار اور واضح تر بیان کرتا تھا ، کیونکہ کوئی تازہ اعتراض نہیں تھا کہ میں اس کا تازہ اور نیا جواب دیتا بلکہ اعتراض وہی تھا جو پچھلے لوگوں نے کر رکھاتھا اور اس کا جواب سن چکے تھے ، چونکہ یہ لوگ بھی گزشتہ لوگوں کی طرح اعتراض کرتے ہیں لہذا مجبور ہیں وہی جواب سنیں ،میں اپنے علمائے سلف کی باتوں کی تکرار کرتا تھا ، کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ بے خبر، معترضین علماء کی باتوں پر اعتراض کرتے ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ ان کی ہی باتوں سے آگاہ ہوجائیں ۔

بے شک میں علمائے تشیع کی پیروی کرتے ہوئے ” عبدا للہ بن سبا“ کے وجود کا معترف تھا ، لیکن اس کی رفتار کو حقیر اور شرم آور سمجھتا اور اس کی باتوں کا انکار کرتا تھا ۔

۱۵

علامہ عالیقدر جناب سید مرتضیٰ عسکری نے اس عمارت کی بنیاد ہی اکھاڑ کرکے رکھدی اور اپنی گہری تحقیقات سے ثابت کردیا کہ ” عبد اللہ بن سبا “ کی حقیقت ایک افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ! اور یہی وہ حقیقت ہے جو اس کتاب میں بے نقاب ہوئی ہے ، اگر میں یہ کہوں کہ عربی میں یہ تنہا کتاب ہے ، جس میں تاریخ کی علمی بنیادوں پر تحقیق کرکے اس پر غور کیا گیا ہے تو یہ ہرگز مبالغہ نہیں ہے ، اور میرا یہ کہنا بھی ہر گز بیجا نہیں ہوگا کہ اس دانشور مصنف نے دین و علم اور خاص طور پر شیعوں اورمذہب تشیع کی ایک ایسے زمانے میں بے مثال اور عظیم خدمت کی ہے کہ جب ان پر تہمتوں ، افتراء پردازیوں اور بہتان تراشیوں کی بھر مار ہورہی ہے ، موصوف نے اسلام کی ایک عظیم اور درخشان خدمت کی ہے ، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان رخنہ ڈال کر ان کے اتحاد و یکجہتی کو درہم برہم کرکے انھیں کمزوراوربے بس کردیا ہے ۔

ہم نے فرمانرواؤں اور ظالم حکام کی طرف سے بد ترین عذاب اور مشکلات برداشت کی ہیں تا کہ اسلام کی یکجہتی کا تحفظ کرکے دشمنی سے پرہیز کریں ، لیکن وہ روز بروز اپنی دروغ بیانی میں تشویق ہوتے رہے ہیں اور ان کی پہلی اور آخری سند ” ابن سبا“ کا افسانہ اور ” ابن السوداء “ کا خرافہ تھا کہ افسانہ ساز ”سیف “ نے انھیں ، خدا اوراپنے ضمیر کے سامنے کسی ذمہ داری کا احساس کئے بغیر جعلکیا ہے ۔ لیکن آج ” عبدا للہ ابن سبا “ نام کی کتاب لکھی جانے کے بعد یہ کاسہ لیس اور چاپلوس لوگ کیا جواب دیں گے ؟!

آخر میں میری تجویز ہے کہ یہ کتاب دیدہ زیب طباعت کے ساتھ دوبارہ شائع کی جائے اور عالم اسلام کے تمام شہروں میں نصف قیمت پر بیچی جائے تا کہ عام مسلمان اسے خرید کر اس کے عالی مطالب سے استفادہ کرسکیں ۔

نجف اشرف کے دانشوروں اور مراجع عظام کو چاہئے مذکورہ مقصد کی جانب توجہ کرتے ہوئے رقومات شرعیہ سے مدد کریں یا خیّر افراد کی اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں ۔

میری تجویز ہے کہ یہ حضرات تاکید کے ساتھ حکم فرمائیں تا کہ یہ کتاب دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر سستے داموں میں دنیا کے لوگوں تک پہنچ جائے ، یہ دین اسلام کےلئے ایک عظیم خدمت ہوگی۔

لبنان ۔ شیخ محمد جواد مغنیہ

۱۶

الازہر یونیورسٹی مصر کے مجلہ ” جامع الازھر “ میں شائع شدہ اعتراضات کا جواب

مجلہ ” جامع الازھر“ مصر میں کتاب ”عبدا للہ بن سبا “ کے بارے میں دو مقالے لکھے گئے ہیں(۱) اہم ترین مطلب جوان دو تنقیدی مقالوں میں ملاحظہ کے قابلہے عبارت ہے :

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اور ان کے باہمی اختلافات ، چودہ صدی پرانی بات ہے اور وہ سب اپنے مالک حقیقی سے جاملے لہذا چاہئے کہ ان مسائل سے صرف نظر کیا جائے(۲)

اس بات کے جواب میں ہم کہتے ہیں :

اولاً : ہم سیف کی روایتوں کی تحقیق کی فکر میں تھے ، جس موضوع پر اس نے روایتیں نقل کی تھیں ، ہم نے مجبور ہو کر ان ہی موضوعات پر بحث و تحقیق کی ہے ، چونکہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا“ میں عبد اللہ بن سبا کے افسانہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے باہمی اختلافات کے بارے میں سیف ابن عمر کی نقل کی گئی روایتوں پر بحث کی گئی ہے ، لہذا ہم مجبور ہوئے کہ ہر موضوع کے

____________________

۱۔ پہلا مقالہ کتاب کی نجف اشرف میں طبع شدہ پہلی اشاعت پر ایک تنقید ہے ، اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۳ ج۱۰، ۱۳۸۰ ئھ ” باب الکتب “ کے صفحہ۱۱۵۰ ۔۱۱۵۱ میں شائع ہوا ہے ۔ دوسرا مقالہ اسی کتاب کے مصر میں طبع شدہ نسخہ پر ایک تنقید ہے اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۲ /ج ۶/ ۱۳۸۱ ء ھ کے صفحہ۷۶۰ ۔۷۶۱ میں شائع ہوا ہے۔

۲۔ یہ جملہ پہلے مقالہ کے آخر پر لکھا گیا ہے اور باقی تمام مطالب اسی جملہ کی تفسیر اور تشریح میں لکھے گئے ہیں ۔

۱۷

بارے میں بحث کو جاری رکھتے ہوئے تجزیہ و تحقیق کریں ، جس طرح میں نے اپنی کتاب ” خمسون و ماة صحابی مختلق“ ( ۱۵۰ جعلی اصحاب) میں اصحاب کے فتوحات اور صدر اسلام کی جنگوں کو اپنا موضوع قرار دیگر بحث و تحقیق کی ہے ۔

سیف کی روایتوں پر تحقیق نے ہمیں اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ ایسی بحثوں میں داخل ہوجائیں جنھیں بہت سے دانشوروں نے پردے میں رکھا ہے ، لہذا ان موضوعات پر بحث و تحقیق نے انھیں برہم اور رنجیدہ کیا ہے ، البتہ ہم بھی ان کی طرح ایسے وقائع اور روداد کے رونما ہونے سے خوشحال نہیں ہیں اور ان سے پردہ اٹھانے اور ان پر غور و فکر کرنے سے ہمارا رنج و غم بھڑک اٹھتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خداوند عالم نے پیغمبر خدا کے اصحاب کو ملک و فرشتہ خلق نہیں کیا ہے کہ جبلت انسانی سے عاری ہوں بلکہ وہ دوسرے افراد کی طرح انسانی جبلت میں ان کے شریک ہیں ، اور ایمان اور اسلام میں استقامت کے مراتب میں بھی ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ، اس حد تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان میں سے بعض پر حد جاری کی ہے (کوڑے لگائے ہیں) اور ان میں سے بعض کے بارے میں ” آیات افک “ نازل ہوئی ہیں جن میں ان کی اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ انہوں نے پیغمبر خدا کی بیوی کی جانب نازیبانسبت دی تھی ، اور ان میں سے بعض کے بارے میں نفاق کی آیات نازل ہوئی ہیں ۔

ان تمام مطالب کے باوجود ہم نہیں سمجھتے کہ پیغمبر خدا کے اصحاب کو ان اختلافات اور تحولات کے ساتھ کیسے چھوڑدیں جبکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام اور عقائد کو ہم تک پہنچانے کے واسطہ ہیں کیا اس طرح صرف پیغمبر کو درک کرنے کی بنا پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عزت و احترام کرنا بحث و تحقیق کےلئے رکاوٹ اور دینداری کے نام پر علم ودانش کے دروازہ کو بند کرنے کے مترادف نہیں ہے ؟ چونکہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے صدیوں سے اپنے اوپر اجتہاد کا دروازہ بند کررکھتا ہے ، لہذا تحقیق و علم کا دروازہ بھی ان پر بند ہوگیا ہے ۔

۱۸

خدارا ! ہم نے اس مطلب کو قبول نہیں کیا ہے اور اسکی تائید نہیں کرتے ہیں بلکہ دین و اسلام کے نام پر اور اس پر عمل کرنے کیلئے اسلام کی راہ میں بحث و تحقیق کےلئے قدم اٹھاتے ہیں ۔

ثانیاً : کاش کہ ہم یہ جانتے کہ قدیم و جدید دانشور جو پیغمبر خدا کے اصحاب کی عزت و احترام میں جو غیرت و حمیت دکھاتے ہیں ، کیا اس میں پیغمبر خدا کے تمام اصحاب شامل ہیں خواہ اس کے سزاوار ہوں یا نہ ، خواہ وہ عیش پرست ہوں یا زاہد و پرہیزگار ؟ کیا یہ احترام عام طور پر اس لئے ہے کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کادیدار کیا ہے ؟ یا ان کےلئے مخصوص ہے جوسرمایہ دار و قدرتمندتھے اور حکومت تک ان کی رسائی تھی ؟ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ احترام شعوری یا لا شعوری طور پر صرف ان افراد سے مخصوص ہوکے رہ گیا جو حکومت اور ایوان حکومت سے وابستہ و مربوط ہیں ۔

جو کچھ ایک دوررس اور نکتہ شناس محقق کےلئے قابل اہمیت ہے وہ دوسرا مطلب ہے کیونکہ اگر تاریخ طبری میں ۳۰ ء ھ کے روئدادوں اور حوادث پر غور کیا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس نے یوں لکھا ہے :

اس سال ، یعنی ۳۰ ئھ میں جو کچھ ابوذر اور معاویہ کے درمیان پیش آیا ، اور سر انجام ابوذر کے شام سے مدینہ جلا وطن کئے جانے پر تمام ہوا ، اس سلسلے میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں کہ جنکو میں نقل کرنا پسندنہیں کرتا ہوں ، لیکن اس سلسلہ میں معاویہ کیلئے عذر پیش کرنے والوں نے ایک داستان نقل کی ہے ، اس داستان میں کہا گیا ہے:

شعیب نے اسے سیف سے نقل کیا ہے

اس کے بعد طبری نے ابو ذر اور معاویہ کے بارے میں نقل کی گئی داستان کے سلسلے میں سیف کی باقی روایت کو اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے ۔

۱۹

اگر ہم اس سلسلے میں تاریخ ابن اثیر کی طرف رجوع کریں گے تو دیکھتے ہیں کہ وہ کہتا ہے :

اس سال ( ۳۰ ھء) ابوذر کی داستان اور معاویہ کے توسط سے اسے شام سے مدینہ جلاوطن کرنے کا مسئلہ پیش آیا، اس رفتار کی علت کے بارے میں بہت سے مطالب لکھے گئے ہیں ، من جملہ یہ کہ : معاویہ نے انھیں گالیاں بکیں اور موت کی دھمکی دی ، شام سے مدینہ تک انھیں ایک بے کجاوہ اونٹ پر سوار کرکےنہایت ہی بیدردی سے ایک ناگفتہ بہ حالت میں مدینہ کی طرف جلاوطن کردیا ، مناسب نہیں ہے اسے یہاں بیان کیا جائے میں اسے نقل کرناپسند نہیں کرتا ہوں ، لیکن جنہوں نے اس سلسلے میں عذر پیش کیا ہے، یو ں کہا ہے :

اس بنا پر طبری نے یہاں پر ان بہت سی روایتوں کو درج نہیں کیا ہے جن میں معاویہ اور ابوذر کی روئداد بیان ہوئی ہے اور ان کو بیان کرنا پسند نہیں کرتا تھا، پھر بھی اس نے ان روایتوں کو بالکل ہی درج کرنے سے چشم پوشی نہیں کی ہے ۔ بلکہ سیف کی ان تمام روایتوں میں سے ایسی روایت کا انتخاب کیا ہے کہ معاویہ کا عذر پیش کرنے والوں کےلئے سند کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے اس کے کام کی توجیہ کے طورپر پیش کرتے ہیں ، جبکہ اس روایت میں پیغمبر اسلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بزرگوار صحابی ” ابو ذر“ کی حد سے زیادہ توہین کی گئی ہے ۔ اس کی دینداری پر طعنہ زنی کی گئی ہے ، اسے بیوقوف اور احمق کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس پرناروا تہمتیں لگائی گئی ہیں ۔

۲۰

کیونکہ اس روایت میں معاویہ کو حق بجانب ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے عذر کو درست قرار دیاگیا ہے ، اور اس طرح مؤرخین کا یہ قائد ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس تہی دست صحابی کی شخصیت اور احترام سے چشم پوشی کرتاہے اوران کی عظمت کو معاویہ جیسے حاکم اور ثروتمند شخص کے حرمت کے تحفظ میں قربان کرتاہے ، یہی کام ابن اثیر، ابن خلدون اور دوسروں نے بھی انجام دیا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ، بنیادی طور پر اسی سبب سے تاریخ طبری نے رواج پیدا کیا ہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ شہرت پائی ہے ، اور اس لئے سیف (بے دینی کا ملزم ٹھہرائے جانے کے باوجود) کی روایتوں کو اس قدر اشاعت ملی ہے اور اسی لئے مشہور ہوئی ہیں(۱) ۔

اس بنا پر ایسے دانشوروں نے صرف ایسے صحابیوں کے احترام کے تحفظ کےلئے اقدام کیا ہے جو صاحبِ قدرت و حکومت تھے ، اور” معاویہ بن ابو سفیان “ جیسے شخص کی اس لئے عزت کرتے ہیں کہ وہ صاحب حکومت و اقتدار تھا ، جبکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “(۲) میں شمار فرمایا ہے اور اس کی نفرین کرتے ہوئے فرمایا:

خداوند عالم اس کے شکم کو کبھی سیر نہ کرے “(۳) اسی طرح ” عبدا للہ بن سعد بن ابی سرح “(۴) جو ابتداء میں مسلمان ہوا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتبوں میں شمار ہوتا تھا، لیکن ایک مدت کے بعد مرتد ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن مجید پر تہمت لگائی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کا خون بہانا مباح قرار فرمایا تھا،ایسے شخص کو ان خصوصیات کے باوجود مصر کا گورنر ہونے کے ناطے اس کا نام تاریخ میں درج کرکے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

اس طرح خلیفہ عثمان کے بھائی ولید ، جس کے بارے میں آیہ نبا نازل ہوئی ہے :

<یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اِذا جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَیَّنُوا اَنْ تُصِیْبُوا قَوْماً

____________________

۱۔ کتاب کے فصل ” پیدائش افسانہ “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ تمام سیرت لکھنے والوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح حنین کے بعد معاویہ اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “ میں شمار فرمایا ہے ، اس لئے انھیں کچھ چیزیں دیدی ہیں ۔

۳۔ صحیح مسلم کے اس باب کی طرف رجوع کیا جائے کہ ”پیغمبر خدا نے جن پر لعنت کی ہے “

۴۔ اس کے حالات پر اگلے صفحات میں روشنی ڈالی جائے گی۔

۲۱

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

طبری نے بھی اس داستان کی تفصیل میں ابن اسحاق سے نقل کرکے روایت کی ہے :

جب اسلامی فوج تمام سازوسامان ومال ومنال لے کر دریائے دجلہ کے ساحل پر پہنچی ، توسعددریاسے گزرنے کی ایک جگہ تلاش کرنے لگا۔لیکن دجلہ کوعبور کرنے کی کوئی راہ نہ پائی ۔بالآخر شہر مدائن کاایک باشندہ راہنمائی کے لئے سعد کی خدمت میں آیا اور سعد سے کہا:میں تم لوگوں کو ایک کم گہری جگہ سے عبور کراسکتا ہوں تاکہ تم لوگ دشمن کے دور ہونے سے پہلے اس تک پہنچ سکو ۔ اس کے بعد اس نے سعد کی سپاہ کو قطر بل نام کی ایک گزرگاہ کی طرف راہنمائی کی ۔ جس شخص نے اس گزرگاہ پر سب سے پہلے دریا میں قدم رکھاوہ ہاشم بن عتبہ تھاجو اپنے پیدل فوجیوں کے ہمراہ دریا میں کود پڑا ۔ جب ہاشم اوراس کے پیادہ ساتھی دریاسے گزر ے تو ہاشم کے سوار بھی دریا میں اترے ۔اس کے بعد سعد نے حکم دیاکہ عرفطہ کے سوار بھی دریائے دجلہ کوعبور کریں ۔اس کے بعد عیاض بن غنم کوحکم دیا کہ اپنے سوار فوجیوں کے ہمراہ دجلہ کوعبور کرے ۔اس کے بعد باقی فوجی دریا میں اترے اور اسے عبور کرگئے

ابن حزم بھی اپنی کتاب ''جمہرہ''میں لکھتا ہے :

اسلام کے سپاہیوں میں بنی سنبس کا سلیل بن زید تنہا شخص تھا جو مدائن کی طرف جاتے ہوئے دریائے دجلہ عبور کرنے کے دن غرق ہوا ۔اس کے علاوہ اس دن کوئی اور غرق نہیں ہواہے،

سند کی تحقیق:

طبری نے سیف کی پہلی روایت ،یعنی داستان کے اس حصہ کے بارے میں ،جہاں سے وہ سعد وقاص کے دریائے دجلہ کے کنارے پر حیران حالت میں کھڑے رہنے کا ذکر کرتا ہے، وہاں سے سپاہیوں سے خطاب کرنے،عاصم کے پیش قدم ہونے ،سرانجام ساحل پرقبضہ کرنے اور ماہ صفر ١٦ھ میں مدائن میں داخل ہونے تک کسی راوی کاذکر نہیں کرتاہے اور نہ کسی قسم کی سند پیش کرتاہے۔

۳۲۱

لیکن دوسری روایت میں ،سیف داستان کو''ایک مرد''کی زبانی رو ایت کرتاہے ۔ ہمیں معلوم نہ ہوسکاکہ سیف نے اپنے خیال میں اس مرد کا کیا نام رکھاہے؟!تاکہ ہم راویوں کی فہرست میں اسے تلاش کرتے۔

اس کی پانچویں اور ساتویں روایت کے راوی محمد ،مھلب اور طلحہ ہیں کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں یہ سیف کی ذہنی تخلیق اور جعل کردہ راوی ہیں ۔

اسی طرح پانچویں روایت میں عمیر الصائری کوبھی راوی کی حیثیت سے پیش کرتاہے کہ ہم نے عمیر الصائری کانام سیف کی حدیث کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا۔اس نباء پرعمیر کوبھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کر تے ہیں ۔

لیکن تیسری اور چوتھی روایت کو ایسے رایوں سے نسبت دیتا ہے کہ جو در حقیقت موجود ہیں ایسے راوی تھے ۔لیکن ہم ہر گز یہ گناہ نہیں کرسکتے کہ سیف کے خود ساختہ جھوٹ کو ان کی گردنوں پر بار کریں جب کہ ہم نے پورے اطمینان کے ساتھ یہ معلوم کر لیا ہے کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جس نے ایسے مطالب ان راویوں سے منسوب کئے ہیں اور دوسرے مورخین و مولفین نے ان راویوں سے اس قسم کی چیزیں نقل نہیں کی ہیں ۔

تحقیق کا نتیجہ:

مدائن کی طرف جاتے وقت دریائے دجلہ سے عبور کرنا ایک مقامی راہنما کی راہنمائی سے انجام پایا ہے ۔اس نے اس گزرگاہ کی نشاندہی کی جہاں پر پانی کی گہرائی کم تھی اور جس شخص نے سب سے پہلے دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے لئے قدم رکھا ،وہ ہاشم اور اس کی پیادہ فوج تھی ۔اس کے بعد ہاشم کے سوار فوجیوں نے دجلہ کو عبور کیا ۔اس کے بعد خالد اور اس کے بعد عیاض نے دریا میں قدم رکھا اوراسے عبور کیا ۔جب کہ سیف اپنے افسانے میں یوں ذکر کرتا ہے :

۳۲۲

سعد دریائے دجلہ ک کنارے پر متحیر و پریشان کھڑا تھا ۔دریا تلاطم اور طغیان کی حالت میں تھا کہ اس کا دیکھا ہوا خواب اس کی آنکھوں سے پردہ اٹھا تاہے ۔ وہ اپنی بات دوسرے سپاہیوں کے سامنے بیان کرتا ہے اور وہ جواب دیتے ہیں کہ: خدائے تعالیٰ ہماری اور تمھاری راہنمائی کرے ،جو چاہو حکم دو یہ باتیں اسے امید بخشتی ہیں عاصم بن عمرو وہ پہلوان ہے جو دریائے دجلہ عبور کرنے کے لئے سب سے پہلے آمادگی کا اعلان کرتاہے ۔سعد اسے چھ سو جنگجو ئوں اور دلیروں کی قیادت سونپتا ہے جو دریاکو عبور کرنے کے لئے آمادہ تھے ۔عاصم ساٹھ افراد کے ساتھ دریا میں قدم رکھتا ہے ،پانی میں دشمنون سے نبرد آزما ہوتا ہے اور ان پر فتح پاتا ہے ۔اس موقع پر سعد وقاص عاصم کے ''اھوال'' فوجی دستہ کو قعقاع کے ''خرساء '' فوجی دستے سے تشبیہ دیتا ہے ۔

سیف اس بات کی تشریخ کرتا ہے کہ دریا کے ساحل پر عاصم کے قدم جمانے کے بعد کسی طرح باقی سپاہیوں نے دریائے دجلہ میں قدم رکھا کہ ان کی کثرت کی وجہ سے ساحل سے دریا کی طرف دیکھنے والا پانی نہیں دیکھ سکتا تھا ،اور کیسے وہ آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ اپنی حالت یعنی دریا میں چلنے کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے تھے ،جیسے کہ خشکی میں ٹہل رہے تھے سیف تشریح کرتا ہے کہ جب بھی کوئی سپاہی تھک جاتا تھا ،تو دریا کی تہہ سے فورا ًزمین کا ایک ٹکڑا جدا ہو کر اوپر اٹھ آتا تھا اور بالکل اس شخص کے پائوں کے نیچے قرار پاجاتا تھا اور وہ شخص اس پر ٹھہر کر تھکاوٹ دور کرتا تھا ۔اسی سبب سے اس دن کو '' یوم الجراثیم'' یعنی زمین کے ٹکڑے کا دن کہا گیا ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ اس دن غرقدہ کے علاوہ کوئی جنگجو دریا ئے دجلہ میں غرق نہیں ہوا ،غرقدہ قبیلہ بارق سے تھا اور ایک نامور جنگجو اور شجاع سپاہی تھا ،وہ اپنے سرخ گھوٹے سے دریا میں گر گیا اور پانی میں ڈپکیاں لگا نے لگا جب مرد میدان اور خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع نے یہ ماجرا دیکھا تو اپنے گھوڑے کو غرقدہ کی طرف موڑا اوراپنا ہاتھ بڑھا کر غرقدہ کے ہاتھ کو پکڑ کر اسے کھینچ کے ساحل تک لے آیا اور اسے نجات دی ۔اس وقت غرقدہ نے اس سے مخاطب ہو کر کہا: اے قعقاع بہنیں تجھ جیسے کسی اور پہلوان کو جنم نہیں دے سکتیں !

۳۲۳

وہ مزید حکایت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : سپاہیوں میں سے ایک سپاہی کا برتن بندھن فرسودہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ کر دریا میں گر گیا اور دریا کی موجیں اسے اپنے ساتھ بہا لے گئیں آخر ان موجوں نے برتن کو ساحل تک پہنچا دیا ۔ساحل پر موجود ایک محافظ اسے دیکھتا ہے اور اپنے نیزہ کے ذریعہ پانی سے باہر کھینچ لیتا ہے اور سپاہ تک پہنچا دیتا ہے ۔برتن کا مالک اسے پہچان کر لے لیتا ہے ۔

سیف اپنے افسانوں کو اس صورت میں جعل کرکے اسلام کے حقائق کو توہمات کے پردے کے پیچھے چھپانے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ دریائے دجلہ کی تہہ سے زمین کا ایک ٹکڑا جدا ہو کر غرقدہ کے پائوں کے نیچے کیوں نہ آگیا کہ وہ بیچارہ پانی میں گرکر نہ ڈوبا ہوتا اور قعقاع کو اسے نجات دینے کی ضرورت نہ پڑتی ؟کیا اس داستان میں یہی طے نہیں کیا گیا ہے کہ ایسی حالت میں بھی قعقاع اور خاندان تمیم افتخار حاصل کرنے سے محروم نہ رہیں ۔اسی لئے غرقدہ کو غرق کیا جاتا ہے تاکہ یہاں پر بھی قعقاع کا نام نجات دہندہ ،بہادر اور بشر دوست کی حیثیت سے زبان زد خاص و عام ہو جائے ؟جب فوج کے تمام سپاہی ،حتی گھوڑے بھی اس فضیلت کے لائق تھے کہ دریا ئے دجلہ کی تہہ سے زمین کا ٹکڑا جد ا ہوکر ان کے پائوں کے نیچے قرار پائے تاکہ وہ تھکاوٹ دور کریں ،تو بیچارہ غرقدہ کیوں اس فضیلت سے محروم کیا گیا ؟ شائد سیف نے غرقدہ کے نام اور لفظ ''غرق'' کے درمیان موجود یکسانیت سے فائدہ اٹھاکر ایک بامسمیٰ داستان گڑھ لی ہے !!

سیف نے اپنے اس افسانے میں قعقاع اور عاصم نامی دو تمیمی بھائیوں کے لئے خاص فضائل ،شجاعتیں اور بہادریاں ذکر کی ہیں اور عام سپاہیوں کے بھی منقبت و فضائل بیان کئے ہیں تاکہ سیف کی کرامتیں اور فضائل درج کرنے والوں کو ایک جذبات بھرا اور جوشیلا افسانہ ہاتھ آئے ،چنانچہ ابونعیم نے اس افسانہ کو معتبر اور قطعی سند کے طور پر اپنی کتاب '' دلائل النبوہ'' میں درج کیا ہے۔

سیف نے سپاہیوں کے دریائے دجلہ عبور کرنے کے افسانہ کو مستقل اور ایک دوسرے سے جدا چند روایات کی صورت میں اور مختلف راویوں کی زبانی نقل کرکے پیش کیا ہے تاکہ اس کی روایت پائدار اور ناقابل انکار ثابت ہو۔

۳۲۴

سیف اس افسانہ کو بھی اپنے اکثر افسانوں کی شکل و صورت بخشتا ہے اور اپنی مخصوص مہارت سے اپنے افسانہ کے سورمائوں کی سرگوشیاں ،باتیں اور حرکات و سکنات کی ایسی منظر کشی کرتا ہے کہ گویا پڑھنے والا انھیں زندہ اپنے سامنے مشاہدہ کرتا ہے ،ان کے ساتھ قدم بہ قدم چلتا ہے ،ان کے حرکات و سکنات کو دیکھ رہا ہوتا ہے ،ان کی باتوں حتی سانس لینے کی آوازدجلہ کے پانی کے ساتھ لگنے والی گھوڑوں کی سموں کی آواز ،دریا کی لہروں کی آواز اور لوگوں کا شور وغل سب سن رہا ہوتا ہے ۔اور لوگوں کا پانی میں ایک دوسرے کے ساتھ اوپر نیچے ہونا ،حتی دریائے دجلہ کی تہہ سے اٹھنے والے زمین کے ٹکڑوں کے اوپر نیچے جانے کے منظر کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے ،اس قسم کے زندہ اور محسوس افسانہ کے لئے راوی اور سند کی کیا ضرورت ہے کہ اسے قبول کریں اس کے سورمائوں کو پہچانیں اور باور کریں ؟کیا آپ نے سیف کی اس روایت کو غور سے نہیں پڑھا ہے جس میں وہ غرقدہ کے غرق ہونے کے بارے میں لکھتا ہے :

غرقدہ اپنے سرخ گھوڑے سے دریائے دجلہ میں گر گیا ،برسوں گزرنے کے بعد بھی میں اس وقت اس منظر کو جیسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں غرقدہ کا گھوڑا اپنے سرگردن دراز کرکے تیز ی کے ساتھ ہلا رہا ہے اور پانی کی چھینٹیں اس کے گردن اور یال سے ہوا میں چھٹک رہی ہیں ڈوبنے والا پانی میں ڈبکیاں کھا رہا ہے اور اپنے گرد گھوم رہا ہے اور دریا کی موجیں اسے غرق نہیں کرتیں اسی اثنا میں مرد میداں اور بیچاروں کا دادرس ،قعقاع متوجہ ہوتا ہے ،اپنے گھوڑے کی لگام کو غرقدہ کی طرف موڑلیتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے پاس پہنچاتاہے ،اپنا ہاتھ بڑھا تا ہے اور غرقدہ کا ہاتھ پکڑتا ہے اور اسے کھینچ کر ساحل تک لے آتا ہے ،غرقدہ قبیلہ بارق سے ہے اور قعقاع کی ماں بھی اسی قبیلہ سے ہے وہ قعقاع کی طرف مخاطب ہوکر کہتا ہے : اے قعقاع بہنیں تم جیسے سورما کو پھر جنم نہیں دے سکتیں ۔

سیف کے ایسے افسانے کڑھنے کا اصلی مقصد شائد یہی ہے کہ : صرف قبیلہ بارق کی عورتیں ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کی عورتیں قعقاع تمیمی جیسا دلاور اور پہلوان جنم دینے سے قاصر ہیں ۔

سیف اپنے افسانہ میں قعقاع کے بھائی عاصم کی شجاعتیں اور دلاوریاں بھی ایک ایک کرکے گنواتاہے کہ وہ اتنے افسروں اور دلاوروں میں پہلا شخص تھا جس نے دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے لئے قدم بڑھایا اور پانی و خشکی میں دشمنوں سے نبرد آزما ئی کی اور سب کو نابود کرکے رکھ دیا اور اگر کوئی بچ بھی نکلا تو وہ اپنی ایک آنکھ کھو چکا تھا اور کس طرح اس دلاور پہلوان نے ساحل پر قبضہ جمایا کہ باقی سپاہی امن و سلامتی کے ساتھ دریا ئے دجلہ کو عبور کرگئے ۔

۳۲۵

داستان جراثیم کے نتائج

١۔ سعد وقاص کا ایک خطبہ ،جو عبارتوں کی ترکیب ،نثر نویسی اور خطابہ کے فن کے لحاظ سے ادبی کتابوں کی زینت بنے ۔

٢۔ سعد وقاص کی دعائیں جو دعائوں کی کتابوں میں درج ہو جائیں ۔

٣۔اسلامی جنگوں میں '' یوم جراثیم '' '' زمین کے ٹکڑوں کا دن'' کے نام سے ایک ایسے دن کی تخلیق کرنا جو تاریخ کی کتابوں میں ثبت ہو جائے ۔

٤۔ اسلام کے سپاہیوں کے لئے فضیلت و منقبت کی تخلیق ،جیسے تھکاوٹ دور کرنے کے لئے دریائے دجلہ کی تہہ سے زمین کے ٹکڑے کا جدا ہوکر اوپر اٹھنا اور سپاہ اسلام کے پائوں کے نیچے قرار پاجانا تاکہ وہ فضائل و مناقب کی کتابوں میں ثبت ہو۔

٥۔گزشتہ افسانوں کی تائید وتاکید ،جیسے دوتمیمی بھائیوں کی کمانڈمیں سپاہ کے دو دستے ''اھوال'' اور '' خرسائ'' اور ان دو تمیمی بہادر بھائیوں کے دسیوں بلکہ سیکڑوں فضائل بیان کرنا

۳۲۶

عاصم ،سرزمین ایران میں !

قال سیف و کان عاصم من الصحابه

سیف کہتا ہے کہ عاصم ،پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا۔

جندی شاپور کی فتح کی داستان :

طبری ١٧ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے روایت کرتا ہے :

علاء بن خضرمی یمانی بحرین میں تھا ۔سعد وقاص نزاری کا سخت رقیب تھا جب اسے پتا چلا کہ قادسیہ کی جنگ میں سعد کو فتحیابیاں نصیب ہوئی ہیں اور وہ ارتداد کی جنگوں کی نسبت اس جنگ میں بیشتر جنگی غنائم حاصل کرکے شہرت پا چکا ہے ،تو اس نے بھی فیصلہ کیا کہ اپنے طورپر جنوب کی طرف سے ایران پر حملہ کرکے سعد کے نمایاں کارناموں کے مقابلہ میں قابل توجہ کا رنامے انجام دے ۔ لہٰذا اس نے خلیفہ کی اطاعت یا نافرمانی وسرکشی کے موضوع کو اہمیت دئے بغیر جنوب کے سمندری راستے سے ایران پر حملہ کیا ،جب کہ خلیفہ عمر نے پہلے اسے ایسا کام کرنے سے منع کیا تھا۔

اپنے اس بلا منصوبہ حملہ کی وجہ سے علاء اور اس کے سپاہی ایرانی سپاہیوں کے محاصرے میں پھنس گئے ،سرانجام خلیفہ عمر ابن خطاب نے حکم دیا کہ عتبہ بن غزوان اپنے سپاہیوں کے ساتھ علاء اور اس کے سپاہیوں کو نجات دینے کے لئے بصرہ کی جانب سے فوراً روانہ ہو جائے ۔ایران کی طرف عزیمت کرنے والی عتبہ کی فوج کے نامور سرداروں میں عاصم بن عمرو تمیمی بھی تھا ۔

عتبہ ،عاصم اور بصرہ کے سپاہیوں نے علاء اور اس کے سپاہیوں کی مدد کی اور سر انجام دشمنوں کے محاصرہ کو توڑ کر ان پر فتح پانے میں کامیاب ہوئے ۔

۳۲۷

طبری نے یہ داستان سیف سے نقل کی ہے اور ابن اثیر نے اسے طبری سے نقل کرتے ہوئے اس کی سند کی روایت کا اشارہ کئے بغیر اپنی تاریخ میں درج کیاہے۔ابن کثیر نے بھی اس داستان کے مطالب کو اس جملہ کے ساتھ کہ :'' طبری نے یہ روایت سیف سے نقل کی ہے'' طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ذکر کیاہے۔

طبری اس داستان کو سیف سے نقل کرنے کے بعد روایت کرتاہے کہ اسلامی فوج نے ایران میں مختلف شہروں کو فتح کیا اور ان کا آخری شہر''جندی شاپور''تھا۔

طبری نے ،''جندی شاپور'' کی فتح کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے یوں لکھاہے:

انھوں نے ،یعنی عتبہ ،عاصم اور علاء نے ایک دوسرے کے تعاون اور مدد سے شہر کامحاصرہ کیا اور محاصرہ کے دوران ایرانیوں سے نبرد آزمارہے۔ایک دن اچانک اور خلاف توقع مسلمانوں کے لئے قلعہ کے دروازے کھل گئے اور قلعہ کے محافظوں نے مسلمانوں سے کہا:تم لوگوں نے جوامان نامہ ہمارے لئے اپنے ایک تیر کے ہمراہ قلعہ کے اندر پھینکا تھا،ہم نے اسے قبول کیاہے۔مسلمانوں نے ان کی یہ بات آسانی سے قبول نہیں کی اور امان نامہ کو تیر کے ہمراہ قلعہ کے اندر پھینکنے پر یقین نہیں کیا ۔ اس موضوع پر کافی تحقیق کے بعد اس نتیجہ پرپہنچے کہ مکنف نام کے ایک غلام نے یہ حرکت کی تھی جو حقیقت میں ''جندی شاپور'' کا باشندہ تھا ۔اس نے تیر کے ذریعہ امان نامہ دشمن کے قلعہ کے اندر پھینکا تھا۔اس موضوع کی رپورٹ خلیفہ عمر کی خدمت میں بھیجی گئی تا کہ ان سے ہدایت حاصل کی جائے۔عمر نے ان کے جواب میں مکنف کے اقدام کی تائید اور امان نامہ کو منظور فرمایا۔

۳۲۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

طبری نے سیف کی بات کی یہیں تک روایت کی ہے اور دوسرے مؤرخین نے اس چیز کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں لکھاہے۔

لیکن حموی ''جندی شاپور''نام کے تحت اس داستان کو ذکر کرنے کے بعد آخر میں لکھتاہے کہ عاصم بن عمرو نے ''جندی شاپور'' کی فتح کے بارے میں یہ شعر کہے ہیں :

''اپنی جان کی قسم!مکنف نے بہترین صورت میں رشتہ داری کی رعایت کی ہے اور قطع رحم نہیں کیاہے۔اس نے ذلالت ،خواری،رسوائی اور شہروں کے ویران ہونے کے خوف سے انھیں اپنی پناہ میں لے لیا، اور خلیفہ نے بھی غلام کے دئے گئے امان نامہ کو برقرار رکھ کر منظور فرمایاباوجود یکہ ہم ان سے اختلاف رکھتے تھے ۔جن امور کے بارے میں جنگ ہورہی تھی ،انھیں ایک ایسے منصف کو سونپاگیا جو صحیح فیصلہ کرتاہے اور اس حاکم نے بھی کہا کہ امان نامہ کو توڑا نہیں جاسکتاہے''۔

اس کے بعد حموی حسب ذیل صورت میں سلسلہ جاری رکھتاہے :

یہ سیف کا کہنا ہے ،جب کہ بلاذری فتح تستر(شوشتر)کی تشریح کے بعد لکھتاہے :

ابو موسیٰ اشعری نے وہاں سے ''جندی شاپور'' پر حملہ کیا۔لیکن شہر کے باشندوں نے انتہائی خوف کے سبب اس سے امان مانگی،ابوموسیٰ نے بھی موافقت کی اور مان لیا کہ سب باشندے امان میں ہوں گے،کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ اسیر بنائے جائیں گے اور جنگ سے مربوط سازوسامان کے علاوہ کسی چیز پر ہاتھ نہ ڈالا جائے گا.....

یہ وہ مطالب تھے جنھیں حموی نے لفظ ''جندی شاپور'' کے بارے میں اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں درج کیاہے ۔

حمیری نے بھی اپنی کتاب ''روض المعطار '' میں لفظ''جندی شاپور '' کے بارے میں سیف سے نقل کرکے مندرجہ بالا داستان کو ذکر کرنے کے بعد آخر میں عاصم بن عمرو کے چوتھے شعر کے بعد پانچویں شعر کا حسب ذیل اضافہ کیاہے :

''خدا جانتاہے !''جندی شاپور'' کتنا زیبا ہے !کتنا اچھا ہوا کہ ویران اور مسمار ہونے سے بچ گیا،اتنے شہروں کے تباہ ہونے کے بعد''۔

۳۲۹

تحقیق کا نتیجہ:

سیف تنہا شخص ہے جو علاء خضرمی یمانی اور سعد وقاص کے در میان حسد اور رقابت کی خبر دیتاہے اور وقت کے خلیفہ عمر بن خطاب کے حکم کی علاء کی طرف سے نافرمانی اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ محاصرہ میں پھنسنے کی خبر لکھتاہے کہ ہم نے اس کتاب کے آغاز میں ،جہاں پر خاندانی تعصبات کی بات کی ہے ،اس داستان کی طرف اشارہ کرکے اس کا سبب بھی بیان کیاہے ۔

اس کے علاوہ سیف تنہا شخص ہے،جو عاصم بن عمرو کا نام لیتاہے اور اس کی شجاعتیں شمار کراتا ہے اور بعض رجز خوانیوں کو اس سے منسوب کرتاہے ۔

یہ طبری ہے جو سیف کی روایتوں کو رجز خوانیوں اور رزم ناموں کی وضاحت کئے بغیر اپنی کتاب میں نقل کرتا ہے ۔جب کہ حموی نے اسی داستان کو عاصم کے چار اشعار اور اس کے مصدر یعنی سیف کی وضاحت کے ساتھ اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں ثبت کیا ہے ،اور حمیری نے اس داستان کو اس کے مصدر کے بارے میں اشارہ کئے بغیر عاصم کے پانچ اشعار کے ساتھ اپنی کتاب '' روض المعطار'' میں درج کیا ہے ٨

سند داستان کی تحقیق :

افسانوی سورما عاصم بن عمرو کے بارے میں بیان کی گئی سیف کی زیادہ تر احادیث میں راوی کے طور پر محمد اور مہلب کے نام نظر آتے ہیں ۔اس کے بعد بھی اس کے بیانات میں جہاں عاصم کا نام آئے ،یہ دو اشخاص راویوں کے طور پر ملتے رہیں گے ۔اور ہم بھی مکرر کہتے رہیں گے کہ ان دو راویوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے یہ سیف کے جعل کردہ راوی ہیں ۔

سیف ایک بار پھر شوش کی فتح کے بارے میں اپنی روایت کی سند کا یوں ذکر کرتا ہے : ''...اس سے جس نے فتح شوش کی روایت کی ہے ...'' جس نے فتح شوش کی روایت کی ہے وہ کون ہے؟ اور اس کا نام کیا تھا ؟ کچھ معلوم نہیں ہے کہ اس کی تلاش کی جاتی ۔ ٩

۳۳۰

داستان کے نتائج:

١۔یمانی قحطانی صحابی کی مذمت و بدگوئی کرنا جو ایک مضری نزاری شخص سے حسد و رقابت کی بناء پر جنگ کے لئے اٹھتا ہے ،مضری خلیفہ سے سرکشی اور اس کے حکم کی نافرمانی جیسی لغزش سے دو چار ہوکر ایک بڑی اور ناقابل بخشش گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور ان دو فاحش غلطیوں کی وجہ سے نزدیک تھا کہ اپنے سپاہیوں سمیت ہلاک ہو جائے ۔

٢۔ کبھی واقع نہ ہوئی جنگوں کی تفصیلات اور تشریح بیان کرنا اور ایسی فتوحات کا سبب صرف افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کا وجود ہوا کرتا تھا۔

٣۔ رزمیہ اشعار بیان کرنا تاکہ ادبیات عرب کے خزانے میں اضافہ ہو ۔

٤۔ سیف کے افسانوی سورما عاصم بن عمر وتمیمی کے درخشان اور قابل تحسین کارناموں کا اظہار۔

فتح سیستان کی داستان

طبری نے سیف بن عمر تمیمی سے نقل کرتے ہوئے ١٧ھ کے حوادث کے ضمن میں اس طرح روایت کی ہے :

خلیفہ عمر ابن خطاب نے ایران کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے لئے فوج کے سات سرداروں کا انتخاب کیا اور ان علاقوں کی فتح کا حکم اور پرچم انھیں دیا ،ان میں سیستان کی فتح کا پرچم عاصم بن عمرو تمیمی کے لئے بھیجا اور اسے اس علاقے کو فتح کرنے پر مامور کیا۔

یہاں پر سیف صراحتاًکہتا ہے کہ : عاصم بن عمرو اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے تھا ۔

طبری ٢٣ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے سیستان کی فتح کے بارے میں یوں روایت کرتا ہے :

۳۳۱

عاصم بن عمرو نے سیستان کی طرف عزیمت کی ۔اس علاقے کے مرکز تک پیش قدمی کرنے کے بعد وہاں کے باشندوں سے اس کا سامنا ہو اان کے ساتھ سخت جنگ کرنے کے بعد اس نے انھیں بری طرح شکست دی ۔سیستانی مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے پیچھے ہٹے اور سیستان کے دارالحکومت شہر ''زرنج '' میں پناہ لے لی اور چاروں طرف دیوار کھینچ دی ۔عاصم نے اپنی پیش قدمی کو جاری رکھتے ہوئے شہر'' زرنج'' کا محاصرہ کیا اور وہاں کے باشندوں کا قافیہ تنگ کر دیا ۔لوگوں نے جب اپنے اندر عاصم سے لڑنے کی ہمت نہ پائی تو مجبور ہوکر صلح کی تجویز پیش کی ،اس شرط پر کہ عاصم ان کی کاشت کی زمین انھیں واپس کردے ۔عاصم نے یہ تجویز منظور کی اور ان کی زمینیں انھیں واپس کر دیں اس طرح اس نے منطقۂ سیستان ،جو منطقہ خراسان سے بھی وسیع تھا ،کواپنے قبضے میں لے لیا ۔ اس علاقہ کی سرحدیں وسیع و عریض تھیں اور مختلف علاقوں کے لوگوں ،جیسے قندہار ،ترک اور دیگر قوموں کے پڑوسی ہونے کی وجہ سے کافی جنگ و جدال ہوا کرتی تھی۔

یہ وہ مطالب ہیں جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے عاصم بن عمرو کے ذریعہ سیستان کو فتح کرنے کے سلسلے میں ذکر کیا ہے اور تاریخ لکھنے والوں نے طبری کے بعد ،ان ہی مطالب کو اس سے نقل کیاہے ۔

حموی لفظ '' زرنج'' کے بارے میں لکھتا ہے :

...اور سیستان کو خلافت عمر کے زمانے میں عاصم بن عمرو نے فتح کیا ہے اور اس نے اس سلسلے میں اشعار کہے ہیں :

'' زرنج کے بارے میں مجھ سے پوچھو !کیا میں نے زرنج کے باشندوں کو بے سہارا اور پریشان نہیں کیا جب میں ان کے ہاتھ کی ضرب کو اپنے انگوٹھے کی ضرب سے جواب دیتا تھا ؟!''

طبری ٢٩ھ کے حوادث کے ضمن میں روایت کرتا ہے :

وقت کے خلیفہ عثمان بن عفان نے سیستان کی حکومت کسی اور کو سونپی ،اس کے بعد دو بارہ یہ عہد ہ عاصم بن عمرو کو سونپا ۔عثمان نے اپنی خلافت کے چوتھے سال عاصم بن عمر و کو صوبہ کرمان کا گورنر منصوب کیا اور وہ مرتے دم تک اسی عہدہ پر باقی رہا۔

عاصم کے مرنے کے بعد ایران کے علاقے میں شورش و بغاوتیں شروع ہوئیں اور علاقہ میں افرا تفری پھیل گئی ۔

۳۳۲

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

عاصم کے ذریعہ فتح سیستان اور سیستان و کرمان پراس کی حکومت کے بارے میں طبری نے سیف سے روایت کی ہے اور دوسرے مورخین نے اسے طبری سے نقل کیا ہے ،جب ک بلاذری فتح سیستان کے بارے میں لکھتا ہے:

عبد اللہ بن عامر بن کریز نے ربیع بن زیاد حارثی کو سیستان کی جانب بھیجا ۔ ربیع نے سیستان کے باشندوں سے صلح کی اور دو سال تک سیستان پر حکومت کی ،اس کے بعد عبداللہ بن عامر نے عبدالرحمن بن سمرہ کو سیستا ن کی حکومت کے لئے منصوب کیا اور خلافت عثمان کے زوال تک یہی عبدالرحمن سیستان پر حکومت کرتا رہا ۔ ١٠

تحقیق و موازنہ کا نتیجہ :

سیف تنہا فرد ہے جو ایران کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے لئے خلیفہ عمر کے واضح حکم کی روایت کرتا ہے اور فتح سیستان کے پرچم کو عمر کی طرف سے عاصم بن عمرو کے حوالے کرکے نتیجہ حاصل کرتا ہے کہ یہ عاصم بن عمرو ہی تھا جس نے سیستان کے دارالحکومت زرنج کو وہاں کے باشندوں

سے صلح کرکے اپنے قبضے میں لے لیا اور حموی بھی سیف پر اعتماد کرکے فتح سیستان کے

مطالب کو لفظ ''زرنج'' کے سلسلہ میں اپنی کتاب میں درج کرتاہے ،جب کہ زرنج کا فاتح

ربیع بن زیاد ہے۔

اور سیف تنہا فرد ہے جس نے عاصم بن عمرو کی سیستان پر حکومت اور کرمان کی گورنری کی روایت کی ہے اور عاصم کی وفات کی کرمان میں روایت کی ہے۔

۳۳۳

داستان کا نتیجہ:

١۔خلیفہ کی جانب سے عاصم کے لئے حکومت سیستان اور کرمان کا حکم جاری کرکے عاصم بن عمرو کے لئے افتخار کا اضافہ۔

٢۔خراسان سے زیادہ سے وسیع علاقہ پر عاصم بن عمرو کی فتحیابی جتلانا،کیونکہ سیستان وسعت اور مختلف اقوام سے ہمسائیگی نیز فوجی اور سیاسی لحاظ سے بہت اہم تھا۔

٣۔اس بات کی وضاحت اور تاکید کرنا کہ عاصم بن عمرو تمیمی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا۔

٤۔عاصم کی تاریخ وفات اور جگہ معین کرنا۔

۳۳۴

عمرو بن عاصم

یہاں تک ہم نے سیف کے ان افسانوں کا ایک خلاصہ پیش کیا جو اس نے عمرو تمیمی کے دو بیٹوں قعقاع اور عاصم کے بارے میں تخلیق کئے ہیں ۔مناسب ہے کہ ان دو بھائیوں کے سلسلے کو یہیں پر ختم نہ کیاجائے بلکہ اگلی فصل میں بھی ان دو ''نامور''اور ''بے مثال''بھائیوں میں سے ایک کے بیٹے کے بارے میں سیف کی زبانی روایت سنیں ۔

عاصم کا بیٹا اور اس کا خاندان

ھذا عن القعقاع وعن اخیہ عاصم

یہ ہے سیف کے ان مطالب کا خلاصہ ،جو اس نے قعقاع اور اس کے بھائی عاصم کے بارے میں جھوٹ کے پل باندھ کربیان کئے ہیں ۔

(مؤلف)

عمرو بن عاصم

سیف نے اپنی ذہنی تخلیق ،عاصم کے لئے عمرو نام کا ایک بیٹا بھی خلق کیاہے اور اس کے بارے میں ایک داستان بھی گڑھی ہے۔

عثمان کی خلافت کے زمانے میں گڑھی گئی اپنی داستانوں میں سے ایک کے ضمن میں سیف یوں لکھتاہے:

شہر کوفہ کے چند جوانوں نے رات کے وقت ابن حیسمان کے گھر میں نقب زنی کی وہ ننگی تلوار لے کر ان کے مقابلے میں آیا۔جب اس نے دیکھا کہ نقب زنوں کی تعداد زیادہ ہے،تو اس نے شور مچاتے ہوئے لوگوں سے مدد طلب کی ۔مذکورہ جوان جو آشوب وفتنہ وفساد کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے انھوں نے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا:چپ ہوجاؤ!تلوار کا صرف ایک وار تجھے اس وحشتناک شب کے خوف سے آزاد کرنے کے لئے کافی ہے۔اس کے بعد انھوں نے اس کو سخت زدو کوب کرکے قتل کر ڈالا۔

۳۳۵

اس کے فریاد اور شور وغل سے جمع ہوئے لوگوں نے فتنہ گر جوانوں کا محاصرہ کرکے انھیں پکڑ کر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دئے ۔اس موضوع کی مکمل روداد خلیفہ عثمان کی خدمت میں بھیجی گئی ۔ عثمان نے ان کے لئے سزائے موت کا حکم صادر کیا۔اس کے بعد انھیں کوفہ کے دار الامارة پر پھانسی پر لٹکادیاگیا۔عمرو بن عاصم تمیمی جو اس ماجرا کا عینی شاہد تھا،یوں کہتاہے:

''اے فتنہ انگیزو!حکومت عثمان میں کبھی اپنے ہمسایوں پر جارحانہ حملہ کرکے انھیں ہلاک کرنے کی کوشش نہ کرنا،کیونکہ عثمان بن عفان وہی ہے جسے تم لوگوں نے آزمایا ہے۔وہ چوروں کو قرآن مجید کے حکم کے مطابق چوری کرنے سے روکتاہے اور ہمیشہ ان کے ہاتھ اور انگلیاں کاٹ کر احکام قرآن نافذ کرتاہے''۔

سیف نے عثمان کے دور حکومت کے لئے بہت سے افسانے تخلیق کئے ہیں اور خاندان مضر کے ان سرداروں کا دفاع کیاہے جو اس زمانے میں بر سر اقتدار تھے۔اور حتی الامکان کوشش کی ہے کہ اس زمانے کی اسلامی شخصیات پر جھوٹے الزامات عائد کرکے انھیں اخلاقی برائیوں ،کم فہمیوں اور برے کاموں سے منسوب کیاہے اور اس کے مقابلے میں صاحب اقتدار افراد کو سادہ دل،پاک،نیک صفات اور نیک کردار ثابت کرنے کی زبردست کوشش کی ہے ۔ہم نے یہاں پراس سلسلہ میں اپنے موضوع سے مربوط کچھ مختصر نمونے پیش کئے ۔ ان تمام مطالب کی تحقیق کرنا اس کتاب میں ممکن نہیں ہے۔صرف یہ مطلب بیان کرنا ضروری ہے کہ مندرجہ بالا داستان سیف کی دیگر داستانوں کی طرح صرف اس کے ذہن کی تخلیق ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں ۔ ١١

داستان کا نتیجہ :

١۔ عثمان کے زمانے میں واقع ہونے والے حوادث سے خاندان مضر کو مبرّا قرار دینا۔

٢۔عاصم کے لئے عمرو نامی ایک بیٹے کا وجود ثابت کرنا تاکہ اس کانام خاندان تمیم کے نیک تابعین کی فہرست میں قرار پائے۔

۳۳۶

تاریخ میں عمرو کا خاندان

سیف کی روایتوں کے مطابق عاصم کے باپ،عمرو تمیمی کے گھرانے کے بارے میں ایک اور زاوئے سے مطالعہ کرنا بے فائدہ نہیں ہے :

١۔ قعقاع :سیف قعقاع کی کنیت ،ابن حنظلیہ بتاتاہے ۔اس کے لئے قبیلۂ بارق میں چند ماموں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کی بیوی کوہنیدہ بنت عامر ہلالیہ نخع نام دیتاہے اور اصرار کرتاہے کہ وہ صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھا اور اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی ہے۔

قعقاع سقیفہ بنی ساعدہ میں حاضر تھااور وہاں پر واقع ہونے والے حالات کی خبر دیتاہے۔

قعقاع ارتداد کی جنگوں میں کمانڈر کی حیثیت سے شرکت کرتاہے اور عراق کی فتوحات میں خالد بن ولید کے ہمراہ شرکت کرتا ہے ، اس کے ساتھ اسلامی فوج کے سپہ سالارکی مدد کرنے کے لئے شام کی طرف عزیمت کرتاہے اور وہاں سے ایران کی جنگوں مین اسلامی فوج کے سپہ سالار سعد وقاص کی مدد کے لئے ایران عزیمت کرتاہے ۔قادسیہ کی جنگ میں اور اس کے بعد والی جنگوں جیسے :فتوح مدائن ،جلولاء اور حلوان میں شرکت کرتاہے اس کے بعد ابو عبیدہ کی مدد کرنے کے لئے دوبارہ شام جاتاہے اور سرانجام حلوان کے گورنرکے عہدے پر منصوب ہوتاہے۔

قعقاع نے نہاوند کی جنگ ''فتح الفتوح ''میں اور اس کے بعدہمدان وغیرہ کی فتح میں شرکت کی ہے اور عثمان کی حکومت کے زمانے میں عظیم مملکت اسلامیہ کے مشرقی علاقوں ۔جن کا مرکز کوفہ تھا۔ کے وزیر دفاع کے عہدے پر منصوب ہوتاہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ قعقاع فتنہ اور بغاوتوں کے شعلوں کے بجھانے کی کوشش کرتاہے ،حتی خلیفہ عثمان کی جان بچانے کے لئے مدینہ کی طرف روانہ ہوتاہے لیکن اسے یہ توفیق حاصل نہیں ہوتی ہے اور اس کے مدینے پہنچنے سے پہلے ہی عثمان شورشیوں کے ہاتھوں قتل ہوجاتے ہیں ۔

۳۳۷

ہم اسے امام علی ں کی خلافت کے زمانے میں بھی دیکھتے ہیں کہ وہ کوفہ کے لوگوں کو اسلامی فوج سے ملحق ہونے کی ترغیب دیتاہے اور خود امام علی ں اور عائشہ ،طلحہ وزبیر کے درمیان صلح کرانے کے لئے سفیر صلح بن کر نمایاں سرگرمیاں انجام دیتاہے لیکن عبد اللہ ابن سبا اور اس کے چیلوں کی تخریب کاریوں کے نتیجہ میں اس مصلح اعظم کی کوششوں پر پانی پھر جاتاہے اور جنگ جمل شروع ہوجاتی ہے۔قعقاع جنگ جمل میں امام کے پرچم کے تلے شرکت کرتاہے عائشہ کے اونٹ کاکام تمام کرتاہے اور جنگ کے خاتمے پر جمل کے خیرخواہوں کو عام معافی دیتاہے۔

سرانجام یہی قعقاع اتنے درخشا ں کارناموں کے باوجود معاویہ ابن ابوسفیان کی حکومت میں ''عام الجماعہ''کے بعد امام علی ں کی محبت اور ان کی طرفداری کے جرم میں فلسطین کے علاقہ ایلیا میں جلا وطن کیاجاتاہے ۔اور اس کے بعد سیف کے اس افسانوی سورما اور ''تابناک اور بے مثال'' چہرے کاکہیں کوئی سراغ نہیں ملتا۔

٢۔عاصم :سیف نے اپنے افسانوں اور داستانوں میں عاصم کے بارے میں جوکچھ بیان کیاہے اس کا حسب ذیل خلاصہ یوں کیاجاسکتاہے:

عاصم کو جو سیف کے کہنے کے مطابق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا خالد،ارتداد کی جنگوں کے بعد اپنے ہراول دستہ کے سردار کے طور پر عراق کی طرف روانہ کرتاہے اور وہ خالد کی قیادت اور پرچم کے تحت عراق کے شہروں کی فتوحات میں شرکت کرتاہے،اس کے بعد مثنی اور ابو عبیدہ کی سر کردگی میں عراق کی جنگوں کو جاری رکھتاہے۔ان دو نامور سرداروں کے بعد قادسیہ ومدائن کسریٰ کی جنگوں میں سعد وقاص کی قیادت میں شرکت کرتاہے ۔اس کے بعد عتبہ بن غزوان کی سر کردگی میں علاء خضرمی یمانی کی نجات کے لئے ایران کے جنوبی علاقوں کی جنگ میں شرکت کرتاہے اور یہ لوگ ''جندی شاپور ''کوا یک دوسرے کی مدد سے فتح کرتے ہیں ۔اس کے بعد عمر کے زمانے میں ایک فوجی دستی کے کمانڈر کی حیثیت سے سیستان کی فتح کے لئے انتخاب ہوتاہے اور خلیفہ اسے فوج کا علم عطاکرتے ہیں ۔عاصم اپنی ماموریت کی طرف روانہ ہوتاہے ،سیستان کو فتح کرتاہے اور خلافت عمر کے زمانے مین وہاں کی حکومت کو سنبھالتاہے ۔

خلیفہ عثمان بن عفان بھی سیستان میں عاصم کی حکومت کی تائید کرتے ہیں ۔اور صوبہ کرمان کی حکومت بھی اسی کو سونپتے ہیں ۔سر انجام خلیفہ عثمان کی خلافت کے چوتھے سال جب کہ عاصم سیستان اور کرمان پر حکومت کررہاتھا ،وفات پاجاتاہے،اور عمرو کے نام سے اس کاایک بیٹا باقی بچتاہے جو تابعین میں سے ہے اور اپنے چند اشعار کے ذریعہ امت اسلامیہ میں خلافت عثمان کے زمانے میں شورشوں اور بغاوتوں کے وجود کی خبر دیتاہے اور اشرار ومجرمین کے خلاف خلیفہ کے شدید اقدامات کو بیان کرتاہے ۔

۳۳۸

عاصم کے بارے میں

سیف کے راویوں کاسلسلہ

وردت اسطور عاصم عند سیف فی نیف واربعین حدیثاً

عاصم کا افسانہ چالیس سے زیادہ روایات میں ذکر ہواہے۔

(مولف)

جن لوگوں سے سیف نے عاصم کا افسانہ نقل کیاہے

سیف نے عاصم کے افسانے کو چالیس سے زائد روایات کے ضمن میں درج ذیل راویوں سے نقل کیاہے :

١۔محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ ٢٨ روایات میں

٢۔زیاد بن سرجس احمری ١٦ روایات میں

٣۔مھلب بن عقبہ اسدی ٩ روایات میں

٤۔نضر بن سری ٣ روایات میں

٥۔ابو سفیان ،طلحہ بن عبد الرحمن ٢ روایات میں

٦۔ حمید بن ابی شجار ١ روایت میں

٧۔ ابن الرفیل

٨۔وہ اپنے باپ سے جب کہ باپ بیٹوں نے ایک ہی صورت میں ایک دوسرے سے روایت کی ہے۔

٩۔ظفر بن دہی

١٠۔عبد الرحمن بن سیاہ

۳۳۹

اور یہی راوی ہیں جنھوں نے قعقاع کی روایات نقل کی ہیں اور سیف ان ہی کی زبانی قعقاع کے افسانے بھی بیان کرتا تھا اور ہم نے ثابت کیا کہ ان میں سے ایک راوی بھی حقیقت میں وجود نہیں رکھتا تھا ۔یہ سب کے سب سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور اس کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

درج ذیل نام بھی عاصم کے افسانوں کی روایات میں سے ہر ایک روایت کی سند میں راوی کے طور پر ذکر ہوئے ہیں لیکن قعقاع کے بارے میں سیف کی روایتوں میں ان کا نام نظر نہیں آتا ۔

١١۔حمزة بن علی بن محفز

١٢۔عبداللہ بن مسلم عکلی

١٣ ۔کرب بن ابی کرب عکلی

١٤۔عمیر صائدی

ان کے بارے میں بھی ہم نے اپنی جگہ پر وضاحت کی ہے کہ چونکہ ان ناموں کو ہم نے سیف کے علاوہ کسی بھی روایت میں کہیں نہیں پایا اور راویوں کی فہرست میں بھی ان کے نا م نظر نہیں آتے۔لہٰذا انھیں بھی ہم سیف کے دیگر راویوں کی طرح اس کے اپنے ذہن کی تخلیق محسوب کرتے ہیں اور انشاء اللہ ان کی زندگی کے حالات سیف کے دیگر جعلی راویوں کے ساتھ ایک الگ کتاب میں بیان کریں گے ۔

اس کے علاوہ چند مجہول راویوں کے نام بھی لئے گئے ہیں ،جیسے عطیہ ،بنی بکر سے ایک مرد، بنی اسد سے ایک مرد، ایک مرد سے ،اس سے جس نے فتح شوش کی روایت کی ہے وغیرہ ۔چوں کہ ان کا کامل طور سے ذکر نہیں کیا گیا ہے اور ان کے نام بھی ذکر نہیں کئے گئے ہیں اس لئے ان کی پہچان کرنا ممکن نہیں ہے ۔

اسی طرح بقول سیف جو روایت موسیٰ ابن طریف نے محمد بن قیس سے نقل کی ہے ،اس سلسلے میں علمائے رجال کے ہاں وہ تمام راوی مشخص و معلوم ہیں جن سے موسیٰ ابن طریف نے روایت کی ہے لیکن ان میں محمد بن قیس نام ١٢ کا کوئی راوی موجود نہیں ہے ۔

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421