عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 13%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 421

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 421 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207860 / ڈاؤنلوڈ: 8538
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

پہلی جلد

علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم:سید قلبی حسین رضوی

۳

خطوط اور مقدمے

کتاب عبدا للہ بن سبا کی علمی قدر و قیمت

ایک شیعہ دانشور محترم جناب شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

الازہر یونیورسٹی ، مصر کے مجلہ کا جواب

مباحث پر ایک نظر

سلسلہ مباحث کی پیدائش

۴

کتاب عبد اللہ بن سبا کی علمی قدرو قیمت

مصر کی الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر جناب ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کا خط

کتاب عبدالله بن سبا ، آخر میں دوسرے ایڈیشن کے عنوان سے مصر میں دوسری بار شائع ہوئی ہے،اس کتاب نے اہل سنت ممالک میں گہرا اثر ڈالا ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں خاص کر الازہر یونیورسٹی کے دانشوروں اور اساتذہ کی توجہ کا سبب بنی ہے اور مصر کی یونیورسٹیوں میں غیر معمولی اثر ڈالا ہے ،مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی طرف سے مؤلف کو اس کتاب کو پسند کرنے کے سلسلہ میں کئی خطوط ملے ہیں ، ان میں سے ایک جناب ڈاکٹر حامدکا خط ہے ، وہ مصر کے ایک نامور دانشور ہیں ، جو کئی قابل قدر تحقیقی تالیفات کے مالک ہیں ۔

چونکہ یہ خط انصاف و عدالت کا ایک نمونہ اور تعصب اورہٹ دھرمی کی سرحدوں کو توڑنے والا ایک عنوانہے اس لئے ہم اسے ترجمہ کرکے شائع کرتے ہیں(۱)

____________________

۱۔ نشریہ سالانہ مکتب تشیع ۴/۳۰۲۔

۵

خط کا مضمون

تاریخ اسلام کی تیرہ صدیاں اختتام کو پہنچی ہیں ان تیرہ صدیوں کے دوران ہمارے دانشوروں کے ایک گروہ نے حتی الامکان شیعوں کے خلاف آواز اٹھائیہے اور حقائق کو اپنی نفسانی خواہشات سے مخلوط کیا ہے اس ناپسندیدہ روش کی وجہ سے اسلامی فرقوں کے د رمیان گہرے اختلافات پیدا ہوئے ہیں ، نتیجہ کے طورپر شیعہ دانشوروں کے فکر و اندیشہ کے گوہر کو حقیر سمجھا گیا ہے اسی روش کی بنا پر علمی دنیا کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

شیعہ دانشوروں کے افکار سے علم محروم رہا ہے کیونکہ دشمنوں نے شیعوں کے پا ک و صاف دامن کو داغدار بنا کر انھیں ایک توہمات و خرافات کے حامل گروہ کے طور پر پہچنوایا ہے ، بے شک ہم شیعوں کے صاف و شفاف علمی چشمہ زلال سے ایک گھونٹ پی سکتے تھے نیزاس مذہب کے سرمایہ سے فائدہ اٹھا سکتے تھے ، لیکن افسوس کہ ہمارے گزشتہ دانشوروں نے تعصب سے کام لیااور عقل کو ھوا و ہوس پر ترجیح نہیں دی ، اے کاش کہ وہ لوگ عقل کی پیروی کرتے اور جذبات کے کھلونے نہ بن تے !! جو کوئی تعصب کے عینک کو اتارکر فقہی مباحث کےلئے اقدام کرے اور فقہ مذاہب چہارگانہ پر تحقیق کرے ، وہ شیعہ فقہ سے بھی استفادہ کرنے پر مجبور ہے اور بے شک جب فقہ اہل سنت پرتحقیق کرے تو اس وقت شیعہ فقہ کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے اور اس سے آگاہ ہونا چاہئے ۔

۶

ہم کب تک خواب غفلت میں رہیں گے ؟! کیا فقہ شیعہ کے پرچم دار ،ا مام جعفر صادق علیہ السلام(۱) سنی مذہب کے دو امامو ں کے استاد نہیں تھے؟ یہ دو امام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مکتب میں زانوئے ادب تہہ کیا ہے ۔

ابو حنیفہ ، نعمان بن ثابت(۲) کہتے ہیں :

لولاالسنتان لهلک النعمان

اگر امام صادق علیہ السلام کے درس میں دو سال شرکت نہ کی ہوتی تو بے شک میں ہلاک ہوجاتا، اوردین سے منحرف ہوتا۔

اس کی مراد وہی دو سال ہیں جس میں انہوں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کے علم کے میٹھے اور زلالی چشمہ سے استفادہ کیا ہے ۔

اور یہ مالک بن انس ہیں جو واضح طور پر اعتراف کرتے ہیں :

ما رایت افقه من جعفر بن محمد

میں نے جعفر بن محمد سے فقیہ تر کسی کو نہیں د یکھا ہے(۳)

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ علم کے بارے میں صرف دور سے کچھ سننے والوں نے اپنے آپ کو دانشور سمجھ کر اپنے قلم سے تحقیق کی بنیادوں کو اکھاڑ کر حق و حقیقت کو اپنی نفسانی خواہشات پر قربان

____________________

۱۔ وفات ۱۴۸ ھ

۲۔ وفات ۱۵۰ھ

۳۔ وفات ۱۷۹ ھ

۷

کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر گلستان علم کے دروازے ان پر بند ہوگئے اور اس طرح وہ شمع معرفت کے نور سے محروم ہوگئے ہیں ، اس مذموم روش نے فتنہ کی آگ کو بھڑکانے کے علاوہ مسلمانوں میں ، دن بدن اختلافات کو بڑھا وا دیا ہے ۔

افسوس کہ ہمارے استاد ” احمد امین “(۱) بھی انہیں افراد میں سے تھے ، جنہوں نے معرفت کے نور سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ظلمت کے پردوں کے پیچھے زندگی بسر کرتے رہے ، یہ وہ کرنیں ہیں جو تشیع کے سورج سے چمکی ہیں اور جہالت کی تاریک رات کو نور میں تبدیل کرکے اسلام کے عظیم تمدن کو اس وقت وجود بخشا ، جبکہ دوسرے لوگ بہت پیچھے تھے۔

تاریخ نے اس ناپاک رویہ کی بنا پر ، احمد امین اور ان جیسے تمام اساتذہ اور دانشوروں کے دامن پر عظیم داغ لگادیا ہے، جنہوں نے آنکھیں بند کرکے تعصب کی وادی میں قدم رکھا ہے ، یہ دانشور وں اور محققین کا طریقہ کار نہیں ہے کہ ایک جگہ بیٹھے رہیں اور جمود کی بیڑی کو اپنی فکر کے پاؤں سے نہ اتاریں اور بے جا پر تعصب سے کام لے کر آنکھیں بند کرکے کسی مذہب کی پیروی کریں !!

ان کی فکرو قلم سے بہت ساری غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہوئی ہیں اور انہیں الجھن اور بد حواسی سے دوچار کیا ہے ، شاید مذکورہ داستان اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔

انہوں نے جھوٹ بول کر بعض مطالب کو شیعوں سے نسبت دیکران کے دامن کو داغدار بنادیا

____________________

۱۔ ” فصل “ پیدائش افسانہ د ور راویان آن “ شمارہ ہفتم ، کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں پر احمد امین کی باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا ہے جس کا سبب شیعوں کے ساتھ اس کی دشمنی اور کینہ ہے ۔

۸

ہے کہ ہم نے ان میں سے بعض کی طرف اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے ،(۱) انہوں نے تصور کیا ہے کہ جتنے بھی خرافات اور جعلی چیزیں اسلام کی تاریخ میں موجود ہیں ، سب کی سب شیعہ علما کی گڑھی ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنے خود ساختہ گمان سے شیعوں پر حملہ کیا اور ان کو برا بھلا کہا ہے۔

جلیل القدر محقق ”جناب مرتضیٰ عسکری “ نے اپنی کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ میں کافی دلائل سے مکمل طور پر ثابت کیا ہے کہ ” عبدا للہ بن سبا “ ایک خیالی اور جعلی موجود ہے ۔

تاریخ نویسوں نے جو حکایتیں بیان کی ہیں اور ان کی بناء پر اسے (عبدا للہ بن سبا) مذہب شیعہ کا مروج(۲) بیان کیا ہے البتہ یہ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، مؤرخین نے ان گڑھی ہوئی داستانوں کو اس لئے مرتب کیا ہے تا کہ فریب کاری کے جال کو پھیلا کر شیعوں پر حملے کرکے بے جا ان کے خلاف تہمت و افتراء پردازی کریں ۔

ہم عصر دانشور ،جناب مرتضیٰ عسکری نے اس کتاب میں اپنی فکر و اندیشہ کے سہارے تاریخ کے سمندر میں غوطہ لگا کر ، بہت سی کتابوں کا مطالعہ فرمایا ہے اور انتہائی تلاش و جستجو کے بعد اس سمندر سے کافی مقدارمیں موتی لے کر ساحل تک آئے ہیں ۔

انہوں نے زیر بحث حقائق کو ثابت کرنے کےلئے نزدیک ترین راستہ طے کیا ہے ، شیعوں کے

مخالفوں سے بحث کے دوران ان کے ہی بیانات کو مآخذ قرار دیکر ان کی باتوں کو باطل ثابت کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد حفنی داؤد کی کتا ب” مع احمد امین “ کے مقدمہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ خود غرض مورخین نے اسے شیعہ مذہب کا بانی و مروج خیال کیاہے۔

۹

تاریخ اسلام کے آغاز سے عصر حاضر تک ” سیف بن عمر“ کی روایتوں نے مؤرخین کو الجھا رکھا ہے جو عام طور پر قابل اعتماد ہے، اس کتاب میں ان روایتوں کے بارے میں ایک گراں بہا تحقیق کی گئی ہے کہ قارئین بڑی آسانی سے انھیں سمجھ سکتے ہیں ۔

خدا کی حکمت اسی میں ہے کہ بعض محققین مردانہ وار قلم ہاتھ میں اٹھا کر حقائق سے پردہ اٹھائیں ، اور اس راستہ میں دوسروں کی سرزنش اور ملامت کی پروانہ کریں ، مصنف محترم پہلی شخصیت ہیں جس نے اپنی گہری تحقیقات کے نتیجہ میں اہل سنت محققین کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ طبری کی کتاب ” تاریخ الامم و الملوک “ کے بارے میں تجدید نظر کریں ، نیز انھیں اس بات پر مجبور کیا ہے کہ اس کتاب اورتاریخ کی دوسری بنیادی کتابوں کے بارے میں از سر نو دقت سے غور کرتے ہوئے اور خوب و بد کو ایک دوسرے سے جدا کریں ،مزید ان تاریخی حوادث کے بارے میں بھی نئے سرے سے غور کریں ، جنہیں وہ نازل شدہ وحی کے مانند صحیح اور نا قابل تغییر سمجھتے تھے !!

محترم مصنف نے کافی ، واضح اور روشن شواہد کی مدد سے ان تاریخی وقائع سے ابہام کے پردے کو ہٹا دیا ہے اور حقیقت کو اس کے متوالوں کےلئے آشکار کیا ہے حتی کہ بعض حقائق انتہائی بھیانک اور حیرت انگیز دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ایک عمر کے عادات و رسومات چند صدیوں کی اعتقادی میراث کے مخالف ہیں ، لیکن حق کی پیروی کرنالازم و واجب ہے ہر چند کہ یہ امر دشور ہو ” الحق احق ان یتبع“۔

مذکورہ مطالب سے آگاہی چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ کریں او رتاریخ کے اختلافی حوادث جیسے ، اسامہ کی لشکر کشی ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت اور سقیفہ کی داستان (جس پر مؤلف نے تنقیدی تجربہ کیا ہے) کا دقت کے ساتھ مطالعہ کریں ۔

جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موت کا شیرین جام نوش فرمارہے تھے، اسامہ کے لشکر سے بعض افراد حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے مدینہ لوٹے اور ریاست و خلافت کی امید سے جہاد سے منہ موڑ لیا ، مؤلف نے ان افراد کو پہچنوایا ہے ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر مرگ پر جب وصیت لکھنے کا حکم دیدیا، کچھ لوگوں نے اس حکم پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالی اور اسے ہذیان سے تعبیر کیا (گویا انہوں نے گمان کیا کہ پیغمبر ہذیان کہہ رہے ہیں)کیونکہ وہ اس امر سے خائف تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وصیت میں علی علیہ السلام کی خلافت کی خبر دیں گے اور ان آخری لمحات میں بھی اسے اپنے وصی کے طور پر تعارف کرائیں گے ۔

۱۰

مؤلف اس حادثہ کی حقیقت و کیفیت کو بھی آشکار کرتے ہیں عمر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے انکار کرنے کا مقصد کیا تھا ؟ کیوں وہ ان افراد کو موت کی دھمکی دیتے تھے جو یہ کہتے تھے کہ پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے رحلت کی ہے ؟جس وقت امام علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچیرے بھائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس اور چند بوڑھے اور سن رسیدہ اصحاب کی مددسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن نازنین کوغسل دینے میں مشغول تھے ، تو اس وقت کس غرض سے عمر اور ابو عبیدہ نے انتہائی عجلت کے ساتھ اپنے آپ کو سقیفہ کے اجتماع میں پہنچادیا اور لوگوں سے ابوبکر کے حق میں بیعت لے لی ؟!

بے شک ، اگر تھوڑا سا انتظار کرتے تا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سپرد لحد کرکے اور علی علیہ السلام بھی اس اجتماع میں حاضر ہوتے تو علی علیہ السلام خلافت کے مستحق قرار پاتے اور بنی ہاشم ان کے علاوہ کسی اور کو امام المسلمین کے طور پر قبول نہیں کرتے !

مؤلف نے مذکورہ تین مباحث میں صحیح کو غلط سے اور برے کو بھلے سے جدا کرکے ان مسلم حقائق تک رسائی حاصل کی ہے اور ان کی اس تحقیق کے نتیجہ میں فریب کاروں کےلئے مکرو فریب کے دروازے بند ہوگئے ہیں ۔

کتاب کے دوسرے مباحث بھی مذکورہ بالا تین مباحث کی طرح ، دقت کے ساتھ حقائق کو ایسے آشکار کرتے ہیں کہ بہت جلد ہی تاریخ اسلام کے اندر گہرے اثرات رونما ہوں گے ۔

میں اس مقالہ کو ختم کرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ درج ذیل تین سوالات کا جواب دیدوں :

۱ ۔ کیا پیغمبر خدا کا صحابی غلطی کرسکتا ہے اورلغزش سے دوچار ہوسکتا ہے ؟

۲ ۔ کیا اس کے کام اور کردار پر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے ؟

۳ ۔ کیا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی کو منافق یا کافر کہا جاسکتا ہے ؟

۱۱

سوال نمبر ایک اور دو کا میں مثبت جواب دیتا ہوں ، لیکن تیسرے سوال کا جواب منفی ہے ۔ اس لئے نہیں کہ میں تعصب سے کام لیتا ہوں اور علم کے اصول کے خلاف کہتا ہوں ، بلکہ ایک ایسا استدلال رکھتا ہوں کہ عقل اس کو قبول کرتی ہے اور منطق اسکی تائید کرتی ہے کیونکہ کفر و نفاق کا تعلق قلب و دل سے ہے اور وہاں تک خدا کے سوا کسی کی رسائی نہیں ہے ، علمی تجربہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ہے ، صرف خداوند عالم ہے جو انسان کے اندرونی اسرار سے واقف ہے اور پوشیدہ چیزوں کامکمل طور پر علم رکھتا ہے(۱)

مذکورہ روش ، وہی جدید روش ہے ، جس کا واضح مشاہدہ میری تمام تالیفات میں کیا جاسکتا ہے۔

مجھے اس بات پر انتہائی مسرت ہے کہ علم کے لحاظ سے اس عظیم کتاب اور اس کے عالی قدر مصنف استاد علامہ محقق جناب مرتضی عسکری کے تئیں انتہائی احترام و محبت کا قائل ہوں ، اسی طرح جناب مرتضیٰ رضوی کشمیری کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کو پوری ظرافت اور دیدہ زیب صورت میں شائع کیا ہے ، علامہ نے اس فریضہ کو انجام دے کر اسلام کی ایک عظیم خدمت کی ہے اور اس ذمہ داری کو انجام دے کر اسلام کے تاریخی حقائق کو زندہ کرنے کےلئے ایک عظیم اثر چھوڑا ہے ۔

قاہرہ اول جمادی الاول ۱۳۸۱ ھء مطابق ۱۲ ،اکتوبر ۱۹۶۱ ئئ

ڈاکٹر حامد حفنی داؤد

____________________

۱۔ڈاکٹر حامد نے اس خط کو نصف کتاب کے شائع ہونے کے پیش نظر مصر میں لکھا ہے ۔

۱۲

ایک محترم شیعہ دانشور شیخ محمد جواد مغنیہ کا نظریہ

سنی دانشور محترم جناب ڈاکٹر حامد کے نظریہ سے آگاہ ہونے کے بعد مناسب ہے یہاں پر اس کتاب کے بارے میں ایک شیعہ دانشور علامہ نابغہ جناب شیخ محمد جواد مغنیہ جبل عاملی کے نظریہ سے بھی آگاہ ہوجائیں ، علامہ موصوف لبنان میں مروج مذہب تشیع ہیں ۔

موصوف کی گراں بہا تالیفات میں من جملہ ” تفسیر قرآن مجید “ ” معالم الفلسفة الاسلامیہ“، ”الشیعہ و الحاکمون “ ” اصول الاثبات فی الفقہ الجعفری“ اور دسیوں دوسری تالیفات سنجیدہ فکر اور ان کے علمی بلند مقام کو آشکار کرتی ہیں ، ذیل میں مجلہ ” العرفان “(۱) میں شائع ہوئے ان کے مقالہ کا ترجمہ ہے :

مذہب شیعہ کے خلاف لکھنے کے علاوہ دنیا کی تمام چیزوں میں دگرگونی اور تغیرات پیدا ہوئے ہیں شیعوں پر تہمت و افتراء کے علاوہ ہر آغاز کا خاتمہ ہے شیعوں کے خلاف جاری کئے جانے والے احکام کے علاوہ ہر حکم کی ایک دلیل و علت ہے آخر کیوں ؟

کیا شیعہ شورشی اور فتنہ گر ہیں اور لوگوں کے سکون و اطمینان کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں ؟

____________________

۱۔ نمبر ۳/ سال ۱۳۸۱ ھ صفحہ ۲۳۰۔

۱۳

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :

سیف بن عمر تمیمی(۱) نامی ایک شخص نے گزشتہ دو سری صدی کے دوران دو کتابیں لکھی ہیں ، اس کی پہلی کتاب ” الفتوح و الردّة“ اور دوسری کتاب ” الجمل و مسیر عائشة و علیّ “ ہے ان دونوں کتابوں میں د رج ذیل مطالب کی ملاوٹ کی گئی ہے :

۱ ۔ ایسے حوادث و اتفاقات کی تخلیق کرنا ، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

۲ ۔ رونما ہوئے حقیقی حوادث و واقعات میں تحریف کرکے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت دکھانا ۔

اس بے لگام اور جھوٹے شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے چند من گھڑت اصحاب جعل کئے جن کے سعیر ، ہزہاز، اط ، حمیضہ ، وغیرہ نام رکھے ہیں ۔

اس نے تابعین اور غیر تابعین کے کچھ اشخاص جعلکئے ہیں اور ان کی زبانی اپنی جعلی احادیث نقل کی ہیں ۔

اس کی انہیں تخلیقات میں سے ایک سورما ہے جس کی شخصیت کو اس نے جعلکیا ہے اور اس کا فرضی نام بھی معین کیا ہے ، اور چند داستانوں کو گڑھ کر اس سے نسبت دی ہے یہ افسانوی سورما ”عبد اللہ بن سبا“ ہے جس کسی نے بھی شیعوں پر تہمتیں لگائی ہیں اور ان کے بارے میں جہل یا نفاق کے سبب افترا پردازی کی ہے ، ان سب نے اسی پر اعتماد کیا اور اس کی باتوں پر تکیہ کیا ہے۔

____________________

۱۔وفات دوسری صدی ہجری ۔

۱۴

”سیف“ کے بعد مؤرخین کی ایک جماعت نے فریب اور دھوکہ سے بھری ان دو کتابوں کو سند بنا کر کسی قسم کے تامل و تدبر کے بغیر دروغ پرداز اور چالباز سیف کے نظریات اور اندیشہ کو نقل کیا ہے ، اس طرح اس کے مذموم تفکر سے استفادہ کیا گیا ہے ۔

”طبری“ پہلا شخص تھا جو” سیف “کے دام فریب میں پھنس گیا تھا اس کے بعد ابن اثیر ، ابن عساکر اور ابن کثیر اور دوسرے لوگ” طبری“ سے آنکھیں بند کرکے روایت نقل کرنے کے سبب اس گڑھے میں گر گئے ہیں ۔

اس طرح جھوٹے ”سیف“ کی تخلیقات کی تاریخی کتابوں اور منابع میں بلاواسطہ طور پر ملاوٹ ہوئی ہے لیکن ان کی جڑ اور بنیاد، وہی سیف کی دو کتابیں ” الفتوح “ اور ” الجمل “ ہیں ۔

علامہ سید مرتضی عسکری کی کتاب ” عبد اللہ بن سبا“ مذکورہ حقائق کو صحیح دلائل کی بنا پر آشکار کرتی ہے اور قارئین کو صاف اور واضح راہنمائی کرکے حقیقت کی منزل تک پہنچاتی ہے ۔

انہوں نے اس کتاب کی تالیف میں انتہائی دقت سے کام لیا ہے اور موصوف کی تمام تر سعی و تلاش اس امر پر متمرکز رہی ہے کہ حق و حقیقت کے علاوہ کوئی چیز کاغذ پر نہ لکھی جائے ، قارئین کرام جس قدر بھی مفکر اور دانشور ہوں ، موصوف کے حاصل کئے ہوئے نتائج سے نہ تو انکار کرسکتے ہیں اورہی نہ شک و شبہ ، کیونکہ اس کتاب کے بہت سے دقیق مباحث کی بنیاد بدیہی قضایا پر مبنی ہے اور بدیہیات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے ۔

میں نے مختلف افراد سے بارہا بحث کی ہے ، اور ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا ہے ، لیکن اس گفتگو میں میں نے شیخ مفید ، سید مرتضی ، اور علامہ حلی سے آگے قدم نہیں بڑھایا ہے ، میری روش صرف یہ تھی کہ میں ان بزرگوں کے طرز بیان کو بدل دیتاتھا اور مخاطب کے لئے مطالب کو آشکار اور واضح تر بیان کرتا تھا ، کیونکہ کوئی تازہ اعتراض نہیں تھا کہ میں اس کا تازہ اور نیا جواب دیتا بلکہ اعتراض وہی تھا جو پچھلے لوگوں نے کر رکھاتھا اور اس کا جواب سن چکے تھے ، چونکہ یہ لوگ بھی گزشتہ لوگوں کی طرح اعتراض کرتے ہیں لہذا مجبور ہیں وہی جواب سنیں ،میں اپنے علمائے سلف کی باتوں کی تکرار کرتا تھا ، کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ بے خبر، معترضین علماء کی باتوں پر اعتراض کرتے ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ ان کی ہی باتوں سے آگاہ ہوجائیں ۔

بے شک میں علمائے تشیع کی پیروی کرتے ہوئے ” عبدا للہ بن سبا“ کے وجود کا معترف تھا ، لیکن اس کی رفتار کو حقیر اور شرم آور سمجھتا اور اس کی باتوں کا انکار کرتا تھا ۔

۱۵

علامہ عالیقدر جناب سید مرتضیٰ عسکری نے اس عمارت کی بنیاد ہی اکھاڑ کرکے رکھدی اور اپنی گہری تحقیقات سے ثابت کردیا کہ ” عبد اللہ بن سبا “ کی حقیقت ایک افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ! اور یہی وہ حقیقت ہے جو اس کتاب میں بے نقاب ہوئی ہے ، اگر میں یہ کہوں کہ عربی میں یہ تنہا کتاب ہے ، جس میں تاریخ کی علمی بنیادوں پر تحقیق کرکے اس پر غور کیا گیا ہے تو یہ ہرگز مبالغہ نہیں ہے ، اور میرا یہ کہنا بھی ہر گز بیجا نہیں ہوگا کہ اس دانشور مصنف نے دین و علم اور خاص طور پر شیعوں اورمذہب تشیع کی ایک ایسے زمانے میں بے مثال اور عظیم خدمت کی ہے کہ جب ان پر تہمتوں ، افتراء پردازیوں اور بہتان تراشیوں کی بھر مار ہورہی ہے ، موصوف نے اسلام کی ایک عظیم اور درخشان خدمت کی ہے ، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان رخنہ ڈال کر ان کے اتحاد و یکجہتی کو درہم برہم کرکے انھیں کمزوراوربے بس کردیا ہے ۔

ہم نے فرمانرواؤں اور ظالم حکام کی طرف سے بد ترین عذاب اور مشکلات برداشت کی ہیں تا کہ اسلام کی یکجہتی کا تحفظ کرکے دشمنی سے پرہیز کریں ، لیکن وہ روز بروز اپنی دروغ بیانی میں تشویق ہوتے رہے ہیں اور ان کی پہلی اور آخری سند ” ابن سبا“ کا افسانہ اور ” ابن السوداء “ کا خرافہ تھا کہ افسانہ ساز ”سیف “ نے انھیں ، خدا اوراپنے ضمیر کے سامنے کسی ذمہ داری کا احساس کئے بغیر جعلکیا ہے ۔ لیکن آج ” عبدا للہ ابن سبا “ نام کی کتاب لکھی جانے کے بعد یہ کاسہ لیس اور چاپلوس لوگ کیا جواب دیں گے ؟!

آخر میں میری تجویز ہے کہ یہ کتاب دیدہ زیب طباعت کے ساتھ دوبارہ شائع کی جائے اور عالم اسلام کے تمام شہروں میں نصف قیمت پر بیچی جائے تا کہ عام مسلمان اسے خرید کر اس کے عالی مطالب سے استفادہ کرسکیں ۔

نجف اشرف کے دانشوروں اور مراجع عظام کو چاہئے مذکورہ مقصد کی جانب توجہ کرتے ہوئے رقومات شرعیہ سے مدد کریں یا خیّر افراد کی اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں ۔

میری تجویز ہے کہ یہ حضرات تاکید کے ساتھ حکم فرمائیں تا کہ یہ کتاب دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر سستے داموں میں دنیا کے لوگوں تک پہنچ جائے ، یہ دین اسلام کےلئے ایک عظیم خدمت ہوگی۔

لبنان ۔ شیخ محمد جواد مغنیہ

۱۶

الازہر یونیورسٹی مصر کے مجلہ ” جامع الازھر “ میں شائع شدہ اعتراضات کا جواب

مجلہ ” جامع الازھر“ مصر میں کتاب ”عبدا للہ بن سبا “ کے بارے میں دو مقالے لکھے گئے ہیں(۱) اہم ترین مطلب جوان دو تنقیدی مقالوں میں ملاحظہ کے قابلہے عبارت ہے :

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اور ان کے باہمی اختلافات ، چودہ صدی پرانی بات ہے اور وہ سب اپنے مالک حقیقی سے جاملے لہذا چاہئے کہ ان مسائل سے صرف نظر کیا جائے(۲)

اس بات کے جواب میں ہم کہتے ہیں :

اولاً : ہم سیف کی روایتوں کی تحقیق کی فکر میں تھے ، جس موضوع پر اس نے روایتیں نقل کی تھیں ، ہم نے مجبور ہو کر ان ہی موضوعات پر بحث و تحقیق کی ہے ، چونکہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا“ میں عبد اللہ بن سبا کے افسانہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے باہمی اختلافات کے بارے میں سیف ابن عمر کی نقل کی گئی روایتوں پر بحث کی گئی ہے ، لہذا ہم مجبور ہوئے کہ ہر موضوع کے

____________________

۱۔ پہلا مقالہ کتاب کی نجف اشرف میں طبع شدہ پہلی اشاعت پر ایک تنقید ہے ، اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۳ ج۱۰، ۱۳۸۰ ئھ ” باب الکتب “ کے صفحہ۱۱۵۰ ۔۱۱۵۱ میں شائع ہوا ہے ۔ دوسرا مقالہ اسی کتاب کے مصر میں طبع شدہ نسخہ پر ایک تنقید ہے اور یہ مقالہ مجلہ کی جلد ۳۲ /ج ۶/ ۱۳۸۱ ء ھ کے صفحہ۷۶۰ ۔۷۶۱ میں شائع ہوا ہے۔

۲۔ یہ جملہ پہلے مقالہ کے آخر پر لکھا گیا ہے اور باقی تمام مطالب اسی جملہ کی تفسیر اور تشریح میں لکھے گئے ہیں ۔

۱۷

بارے میں بحث کو جاری رکھتے ہوئے تجزیہ و تحقیق کریں ، جس طرح میں نے اپنی کتاب ” خمسون و ماة صحابی مختلق“ ( ۱۵۰ جعلی اصحاب) میں اصحاب کے فتوحات اور صدر اسلام کی جنگوں کو اپنا موضوع قرار دیگر بحث و تحقیق کی ہے ۔

سیف کی روایتوں پر تحقیق نے ہمیں اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ ایسی بحثوں میں داخل ہوجائیں جنھیں بہت سے دانشوروں نے پردے میں رکھا ہے ، لہذا ان موضوعات پر بحث و تحقیق نے انھیں برہم اور رنجیدہ کیا ہے ، البتہ ہم بھی ان کی طرح ایسے وقائع اور روداد کے رونما ہونے سے خوشحال نہیں ہیں اور ان سے پردہ اٹھانے اور ان پر غور و فکر کرنے سے ہمارا رنج و غم بھڑک اٹھتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خداوند عالم نے پیغمبر خدا کے اصحاب کو ملک و فرشتہ خلق نہیں کیا ہے کہ جبلت انسانی سے عاری ہوں بلکہ وہ دوسرے افراد کی طرح انسانی جبلت میں ان کے شریک ہیں ، اور ایمان اور اسلام میں استقامت کے مراتب میں بھی ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ، اس حد تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان میں سے بعض پر حد جاری کی ہے (کوڑے لگائے ہیں) اور ان میں سے بعض کے بارے میں ” آیات افک “ نازل ہوئی ہیں جن میں ان کی اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ انہوں نے پیغمبر خدا کی بیوی کی جانب نازیبانسبت دی تھی ، اور ان میں سے بعض کے بارے میں نفاق کی آیات نازل ہوئی ہیں ۔

ان تمام مطالب کے باوجود ہم نہیں سمجھتے کہ پیغمبر خدا کے اصحاب کو ان اختلافات اور تحولات کے ساتھ کیسے چھوڑدیں جبکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام اور عقائد کو ہم تک پہنچانے کے واسطہ ہیں کیا اس طرح صرف پیغمبر کو درک کرنے کی بنا پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عزت و احترام کرنا بحث و تحقیق کےلئے رکاوٹ اور دینداری کے نام پر علم ودانش کے دروازہ کو بند کرنے کے مترادف نہیں ہے ؟ چونکہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے صدیوں سے اپنے اوپر اجتہاد کا دروازہ بند کررکھتا ہے ، لہذا تحقیق و علم کا دروازہ بھی ان پر بند ہوگیا ہے ۔

۱۸

خدارا ! ہم نے اس مطلب کو قبول نہیں کیا ہے اور اسکی تائید نہیں کرتے ہیں بلکہ دین و اسلام کے نام پر اور اس پر عمل کرنے کیلئے اسلام کی راہ میں بحث و تحقیق کےلئے قدم اٹھاتے ہیں ۔

ثانیاً : کاش کہ ہم یہ جانتے کہ قدیم و جدید دانشور جو پیغمبر خدا کے اصحاب کی عزت و احترام میں جو غیرت و حمیت دکھاتے ہیں ، کیا اس میں پیغمبر خدا کے تمام اصحاب شامل ہیں خواہ اس کے سزاوار ہوں یا نہ ، خواہ وہ عیش پرست ہوں یا زاہد و پرہیزگار ؟ کیا یہ احترام عام طور پر اس لئے ہے کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کادیدار کیا ہے ؟ یا ان کےلئے مخصوص ہے جوسرمایہ دار و قدرتمندتھے اور حکومت تک ان کی رسائی تھی ؟ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ احترام شعوری یا لا شعوری طور پر صرف ان افراد سے مخصوص ہوکے رہ گیا جو حکومت اور ایوان حکومت سے وابستہ و مربوط ہیں ۔

جو کچھ ایک دوررس اور نکتہ شناس محقق کےلئے قابل اہمیت ہے وہ دوسرا مطلب ہے کیونکہ اگر تاریخ طبری میں ۳۰ ء ھ کے روئدادوں اور حوادث پر غور کیا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس نے یوں لکھا ہے :

اس سال ، یعنی ۳۰ ئھ میں جو کچھ ابوذر اور معاویہ کے درمیان پیش آیا ، اور سر انجام ابوذر کے شام سے مدینہ جلا وطن کئے جانے پر تمام ہوا ، اس سلسلے میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں کہ جنکو میں نقل کرنا پسندنہیں کرتا ہوں ، لیکن اس سلسلہ میں معاویہ کیلئے عذر پیش کرنے والوں نے ایک داستان نقل کی ہے ، اس داستان میں کہا گیا ہے:

شعیب نے اسے سیف سے نقل کیا ہے

اس کے بعد طبری نے ابو ذر اور معاویہ کے بارے میں نقل کی گئی داستان کے سلسلے میں سیف کی باقی روایت کو اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے ۔

۱۹

اگر ہم اس سلسلے میں تاریخ ابن اثیر کی طرف رجوع کریں گے تو دیکھتے ہیں کہ وہ کہتا ہے :

اس سال ( ۳۰ ھء) ابوذر کی داستان اور معاویہ کے توسط سے اسے شام سے مدینہ جلاوطن کرنے کا مسئلہ پیش آیا، اس رفتار کی علت کے بارے میں بہت سے مطالب لکھے گئے ہیں ، من جملہ یہ کہ : معاویہ نے انھیں گالیاں بکیں اور موت کی دھمکی دی ، شام سے مدینہ تک انھیں ایک بے کجاوہ اونٹ پر سوار کرکےنہایت ہی بیدردی سے ایک ناگفتہ بہ حالت میں مدینہ کی طرف جلاوطن کردیا ، مناسب نہیں ہے اسے یہاں بیان کیا جائے میں اسے نقل کرناپسند نہیں کرتا ہوں ، لیکن جنہوں نے اس سلسلے میں عذر پیش کیا ہے، یو ں کہا ہے :

اس بنا پر طبری نے یہاں پر ان بہت سی روایتوں کو درج نہیں کیا ہے جن میں معاویہ اور ابوذر کی روئداد بیان ہوئی ہے اور ان کو بیان کرنا پسند نہیں کرتا تھا، پھر بھی اس نے ان روایتوں کو بالکل ہی درج کرنے سے چشم پوشی نہیں کی ہے ۔ بلکہ سیف کی ان تمام روایتوں میں سے ایسی روایت کا انتخاب کیا ہے کہ معاویہ کا عذر پیش کرنے والوں کےلئے سند کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے اس کے کام کی توجیہ کے طورپر پیش کرتے ہیں ، جبکہ اس روایت میں پیغمبر اسلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بزرگوار صحابی ” ابو ذر“ کی حد سے زیادہ توہین کی گئی ہے ۔ اس کی دینداری پر طعنہ زنی کی گئی ہے ، اسے بیوقوف اور احمق کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس پرناروا تہمتیں لگائی گئی ہیں ۔

۲۰

کیونکہ اس روایت میں معاویہ کو حق بجانب ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے عذر کو درست قرار دیاگیا ہے ، اور اس طرح مؤرخین کا یہ قائد ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس تہی دست صحابی کی شخصیت اور احترام سے چشم پوشی کرتاہے اوران کی عظمت کو معاویہ جیسے حاکم اور ثروتمند شخص کے حرمت کے تحفظ میں قربان کرتاہے ، یہی کام ابن اثیر، ابن خلدون اور دوسروں نے بھی انجام دیا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ، بنیادی طور پر اسی سبب سے تاریخ طبری نے رواج پیدا کیا ہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ شہرت پائی ہے ، اور اس لئے سیف (بے دینی کا ملزم ٹھہرائے جانے کے باوجود) کی روایتوں کو اس قدر اشاعت ملی ہے اور اسی لئے مشہور ہوئی ہیں(۱) ۔

اس بنا پر ایسے دانشوروں نے صرف ایسے صحابیوں کے احترام کے تحفظ کےلئے اقدام کیا ہے جو صاحبِ قدرت و حکومت تھے ، اور” معاویہ بن ابو سفیان “ جیسے شخص کی اس لئے عزت کرتے ہیں کہ وہ صاحب حکومت و اقتدار تھا ، جبکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “(۲) میں شمار فرمایا ہے اور اس کی نفرین کرتے ہوئے فرمایا:

خداوند عالم اس کے شکم کو کبھی سیر نہ کرے “(۳) اسی طرح ” عبدا للہ بن سعد بن ابی سرح “(۴) جو ابتداء میں مسلمان ہوا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتبوں میں شمار ہوتا تھا، لیکن ایک مدت کے بعد مرتد ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن مجید پر تہمت لگائی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کا خون بہانا مباح قرار فرمایا تھا،ایسے شخص کو ان خصوصیات کے باوجود مصر کا گورنر ہونے کے ناطے اس کا نام تاریخ میں درج کرکے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

اس طرح خلیفہ عثمان کے بھائی ولید ، جس کے بارے میں آیہ نبا نازل ہوئی ہے :

<یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اِذا جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَیَّنُوا اَنْ تُصِیْبُوا قَوْماً

____________________

۱۔ کتاب کے فصل ” پیدائش افسانہ “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۔ تمام سیرت لکھنے والوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح حنین کے بعد معاویہ اور اس کے باپ کو ” المؤلفة قلوبھم “ میں شمار فرمایا ہے ، اس لئے انھیں کچھ چیزیں دیدی ہیں ۔

۳۔ صحیح مسلم کے اس باب کی طرف رجوع کیا جائے کہ ”پیغمبر خدا نے جن پر لعنت کی ہے “

۴۔ اس کے حالات پر اگلے صفحات میں روشنی ڈالی جائے گی۔

۲۱

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

قيادت و فرماندارى ميں روميوں سے جنگ كرنے كے لئے لشكر روانہ كيا تھا ، تو معاويہ پرچمدار كى حيثيت سے لشكر شام كے ہمراہ تھا جب اس كے بھائي كا انتقال ہوگيا تو خليفہ وقت نے اسے سپاہ كا فرماندار مقرر كرديا_ عثمان كے دور خلافت ميں بہت سے نئے علاقے اسلامى حكومت كى قلمرو ميں شامل ہوئے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ معاويہ انيس سال تك خاطر جمعى كے ساتھ شام پر حكومت كرتا رہا_

جس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے زمام حكومت سنبھالى تو معاويہ نے آپعليه‌السلام كا فرمان قبول كرنے سے روگردانى كى اور عثمان كے خون كا بدلہ لينے كو بہانہ بناكر حضرت علىعليه‌السلام سے برسر پيكار ہوگيا اورجنگ صفين كيلئے راہ ہموار كى ، آخرى لمحات ميں جب كہ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كى فتح و پيروزى يقينى تھى ، اس نے عمرو عاص كى نيرنگى سے قرآن مجيد كو نيزوں كى نوك پر اٹھاليا اور حضرت علىعليه‌السلام كو حكميت قرآن كى جانب آنے كى دعوت دى اور اس طرح اس نے كوفہ كے سادہ لوح سپاہيوں كو تقدس نمائي سے اپنا گرويدہ كرليا _ يہاں تك كہ انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو مجبور كيا كہ وہ جنگ كرنے سے باز رہيں _

قرآن مجيد كى ''حكميت'' كا فائدہ بھى معاويہ كو ہى ہوا (اس كى تفصيل بعد ميں بيان كى جائے گى)چنانچہ پہلى مرتبہ اس كا نام لوگوں كى زبانوں پر خليفہ كى حيثيت سے آنے لگا اور سنہ ۴۰ ھ ميں جب حضرت علىعليه‌السلام كو شہيد كرديا گيا تو خليفہ بن كر ہى مسند خلافت پر آيا اور اس نے انيس سال سے زيادہ مسلمانوں پر حكومت كى اور بالآخر ماہ رجب ميں اس كا انتقال ہوا_

معاويہ كى تخريب كاري

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف معاويہ نے جس قدر مخالفت و تخريب كارى كى اس كى طرح اندازى عمرو عاص كرتا تھا جيسے ہى يہ اطلاع ملى كہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كر رہے ہيں تو اس نے درج ذيل مضمون پر مشتمل خط زبير كو لكھا:

۱۶۱

''معاويہ كى جانب سے بندہ خدا زبير كى خدمت ميں عرض ہے كہ اے اميرالمومنين ميں نے شام كے لوگوں سے كہا كہ وہ آپ كے لئے ميرے ہاتھ پر بيعت كريں انہوں نے ميرے ہاتھ پر بيعت كرلى ہے وہ سب متفقہ طور پر آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں انہوں نے ہى مجھ پر دباؤ ڈالا كہ آپ كے حق ميں ، ميں ان سے بيعت لوں ، آپ كوفہ و بصرہ كى حفاظت كيجئے كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ دو شہر على بن ابى طالبعليه‌السلام كے ہاتھ لگ جائيں كيونكہ ان دو شہروں پر قبضہ ديگر سرزمينوں كو حاصل كرنے كے لئے خاص اہميت كا حامل ہے _ آپ كے بعد ميں نے طلحہ كے حق ميں بھى لوگوں سے بيعت لے لى ہے اب آپ يہ كہہ كر شورش و سركشى كريں كہ عثمان كے خون كا بدلہ لينا ہے اور لوگوں كو بھى اسى عنوان سے دعوت ديجئے اس مقصد كى برآورى كے لئے پورى متانت و سنجيدگى اور سرعت عمل سے كام ليجئے _(۱۸)

معاويہ نے اپنى جدو جہد كا آغاز اسى روش سے كيا اگر چہ كسى بھى تاريخ كى كتاب ميں يہ واقعہ نہيں ملتا كہ انہوں نے شام ميں زبير كى حق ميں بيعت لى ہو _

امام علىعليه‌السلام كا نمايندہ معاويہ كى جانب

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے معاويہ كيساتھ جنگ كرنے سے قبل اتمام حجت كى غرض سے ''جرير ابن عبداللہ'' كو خط ديكر روانہ كيا(۱۹) اور اس سے بيعت كا مطالبہ كرتے ہوئے طلحہ اور زبير كى عہد شكنى كا بھى ذكركيا ، خط كے آخر ميں آپعليه‌السلام نے مزيد تحرير فرمايا كہ اگر تمہارا خودكو بلاؤں ميں گرفتار كرنا مقصد ہے تم سے جنگ كروں گا تم ان آزاد شدہ لوگوں ميں سے ہو جن ميں نہ تو خلافت كى اہليت وشايستگى ہے او رنہ ہى امور خلافت ميں انكو مشير بنايا جاسكتا ہے _(۲۰) جب جرير نے خط معاويہ كو ديا وہ اس خط كو پڑھ كر حيرت زدہ رہ گيا اور جرير سے كہا كہ ميرے جواب كا انتظار كرو اس مسئلہ كا حل تلاش كرنے كى غرض سے عمرو عاص كو اپنے پاس بلايا اور كہا كہ اگر اس مشكل كا حل نكال لو تو مصر كى حكومت ميں تمہارے حوالے كردوں گا _ معاويہ نے ان كى تجويز پر

۱۶۲

شام كے سربرآوردہ لوگوں كو مسجد ميں جمع كيا اور ان كے سامنے مفصل تقرير كى اس نے اہل شام كى تحسين و قدر دانى كرتے ہوئے ان كے جذبات كو عثمان كے خون كا بدلہ لينے كيلئے مشتعل كيا اور حاضرين جلسہ كى اس بارے ميں رائے جاننا چاہي، اس بات پر حاضرين اٹھ كھڑے ہوئے اور انہوں نے عثمان كے خون كا بدلہ لينے كے لئے اپنى آمادگى و رضامندى كا اظہار كيا چنانچہ اس غرض كے تحت انہوں نے معاويہ كے ہاتھ پر بيعت كى اور يہ وعدہ كيا كہ جب تك دم ميں دم ہے ، وہ اس عہد پر قائم رہيں گے اور اپنا مال تك اس راہ ميں قربان كرديں گے _

جرير نے جب يہ منظر اپنى آنكھوں سے ديكھا تو وہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے پاس واپس آگئے اور تمام واقعات آپ كے سامنے بيان كئے اور كہا كہ شام كے لوگوں نے معاويہ كے ساتھ گريہ و زارى بھى كى اور آپ سے جنگ كرنے كيلئے سب متفق الرائے ہيں كيونكہ ان كا گمان ہے كہ حضرت على بن ابى طالبعليه‌السلام نے انہيں قتل كرايا ہے اور ان كے قاتلوں كو پناہ دى ہے_(۲۱)

سركشى كے اسباب

معاويہ نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف كيوں سركشى كى نيز اس كے پس پشت كيا اسباب و علل اور محركات كار فرماتھے ان كا مختصر طور پر ہى سہى مگر ذكر كردينابہت ضرورى ہے_

۱_ دشمنى اور كينہ

خاندان بنى اميہ كو جس كا سردار معاويہ تھا ، ہاشمى خاندان بالخصوص پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام سے سخت عداوت ودشمنى تھى ، اس دشمنى و كينہ توزى كا آغاز نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عہد رسالت اور اس كے بعد پيش آنے والے غزوات كے باعث ہوا_ عداوت اور دشمنى اس حدتك پہنچ چكى تھى كہ جہاں كہيں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عظمت كا ذكر ہوتا معاويہ اپنے دل ميں ملول ہوتا ذيل كى حكايت اس كى شاہد و گواہ ہے ''مطرف ابن مغيرہ '' سے منقول ہے كہ ميرے والد كى معاويہ كے پاس آمد

۱۶۳

ورفت تھى وہ جب بھى اس كے پاس سے واپس گھر آتے تو اسكى ذہانت و ذكاوت كى بہت تعريف كرتے ايك رات معاويہ كے پاس سے آئے تو ميں نے انہيں اتنا مضطرب وپراكندہ خاطر پايا كہ انہوں نے كھانا تك نہيں كھايا_ ميں نے اپنے والد سے دريافت كيا كہ وہ اس قدر كيوں مضطرب و پريشان خاطر ہيں ، انہوں نے جواب ديا كہ آج ميں انتہائي كافر اور خبيث ترين شخص كے پاس سے واپس آرہا ہوں _ ميں نے پوچھا آخر ہوا كيا؟ انہوں نے كہا كہ معاويہ كے پاس بيٹھا ہوا تھا جب خلوت ہوئي تو ميں نے كہا اے اميرالمومنين آپ كافى عمر رسيدہ ہوچكے ہيں اور عہد پيرى كى منزل تك پہنچ گئے يہاں اچھا ہوگا كہ آپ اب عدل وانصاف سے كام ليں اور اپنے بھائي بنى ہاشم سے صلہ رحمى كے ساتھ پيش آئيں كيونكہ انكے پاس ايسى كوئي چيز نہيں جس كے باعث آپ كو ان سے خطرہ ہو ، اس كے علاوہ اگر آپ حسن سلوك كريں گے تو لوگ آپ كو ياد ركھيں گے اور اس كا آپ كو اجر بھى ملے گا_

اس پر معاويہ نے كہا كہ ہرگز اپنے كام كى بقا كى خاطر كس اميد پر نيك كام كروں ''يتم'' كے بھائي ابوبكر كو خلافت ملى عدل وانصاف كو اپنا شيوہ بنايا اور جو كچھ كرنا تھا انہوں نے كيا ليكن جب ان كى وفات ہوگئي تو لوگ انہيں بھول گئے بس لوگوں كو اتنا ہى ياد رہ گيا ہے كہ ابوبكر كے بعد عدى كے بھائي عمر نے حكومت كى _ دس سال تك وہ خدمت خلق كرتے رہے مگر مرنے كے بعد انكا نام بھى صفحہ ہستى سے محو ہوگيا صرف چند ہى لوگوں كو يہ نام (عمر)ياد رہ گيا ہے ليكن اس كے برعكس ''ابى كبشہ'' كے فرزند محمد ابن عبداللہ'' كا نام ہر روز پانچ مرتبہ بآواز بلند ليا جاتا ہے اور''اشهد ان محمد رسول الله'' كہا جاتا ہے اس كے بعد ميرى كون سى كاركردگى اور ياد باقى رہ جائے گى خدا كى قسم جيسے ہى ميں خاك كے نيچے جاؤں گا ميرا نام بھى اس كے ساتھ دفن ہوجائے گا_(۲۲)

۲_ حكومت كى آرزو

معاويہ جانتا تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اسے اس كے منصب پر قائم رہنے نہيں دےں گے كيونكہ اسے اس بات كا علم تھا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے ظلم واستبداد كى ہميشہ مخالفت كى ہے اور حكومت اسى

۱۶۴

لئے قبول كى كہ اسے عدالت وانصاف سے چلائيں گے_

حضرت علىعليه‌السلام كے كردار سے وہ چونكہ بخوبى واقف تھا اس لئے اسے يہ بھى علم تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نہ صرف يہ كہ حكومت شام كى جانب سے چشم پوشى نہ كريں گے بلكہ وہاں جو مال انہوں نے عثمان كے دور خلافت ميں جمع كيا تھ اس سے لے كر بيت المال ميں داخل كرديں گے _ اس كے بعد وہ ايك معمولى فرد كى طرح اپنى باقى عمر كسى گوشہ تنہائي ميں گذارلے گا يہ بات اس كے لئے كسى بھى طرح قابل برداشت نہ تھى _

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ وہ جب تك شام پر حكم فرما رہا ، اس نے كبھى مركزى حكومت كے كارپردازو و نمايندے كى حيثيت سے عمل نہيں كيا بلكہ وہاں اپنے لئے ايك مستقل سلطنت كى بنياد قائم كردى تھى _ تاكہ اپنى مرضى كے مطابق وہ لوگوں پر حكمرانى كرسكے اور ايسى حكومت كى بنياد ركھ دى جو اس كے خاندان ميں آنے والى نسلوں كى ميراث بن گئي _

۳_ ناكثين كى شورش

ناكثين كى شورش نے عثمان كے خون كا بدلہ لينے كى تحريك كے لئے راستہ ہموار كرديا اگر ايسا نہ ہوتا تو معاويہ كے لئے مشكل تھا كہ اس اتحاد كو جو مسلمانوں كے درميان پيدا ہوگيا تھا اور جس كى سرزمين اسلام كے بيشتر علاقوں پر حكم و فرمانروائي تھى اس كو درہم برہم كرسكے اور مسلمانوں ميں ايك دوسرے كے خلاف مقابلے كى ہمت و جرا ت پيدا ہوسكے ليكن جنگ جمل كے جو ناخوشگوار نتائج رونما ہوئے انہوں نے اس سد عظيم كو گراديا اور معاويہ كے واسطے شورش و سركشى كا ميدان صاف كرديا_

۴_ گزشتہ خلفاء كى دليل ومثال

اس كے علاوہ معاويہ اپنے اس رويے كى يہ توجيہ پيش كرتا اور كہتا كہ گذشتہ خلفاء نے حضرت علىعليه‌السلام پر سبقت حاصل كرلى اور مسلمانوں نے بھى ان كى حكومت كو تسليم كرليا اس لئے ميں بھى انہى كے رويے كى پيروى كر رہا ہوں _

۱۶۵

چنانچہ جب اس نے محمد ابن ابى بكر كو خط لكھا تو اس ميں انہوں نے اسى امر كى جانب اشارہ كيا كہ تمہارے والد اورعمرآن اولين افراد ميں سے تھے جنہوں نے خلافت ميں علىعليه‌السلام كى مخالفت كى اور ان كا حق خود لے ليا وہ خود تو مسئلہ خلافت پر متمكن رہے مگر علىعليه‌السلام كو انہوں نے امر خلافت ميں شريك تك نہ كيا اگر وہ راہ راست پر چل رہے ہيں تو تمہارے والد وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے يہ راہ اختيار كى اگر ہم ظلم و ستم كے رستے پر گامزن ہيں تو اس راستے كو بھى تمہارے والد نے سب سے پہلے ہموار كيا تھا اس مقصد ميں ہم ان كے شريك كار اور انہى كى پيروى كر رہے ہيں اگر تمہارے والد اس راہ ميں ہم پر سبقت نہ لے جاتے تو ہم على بن ابى طالبعليه‌السلام كى ہرگز مخالفت نہ كرتے ليكن ہم نے ديكھا كہ تمہارے والد نے يہ كام انجام ديا ہے چنانچہ ہم ان كى راہ و روش پر گامزن ہيں _(۲۳)

۵_ پروپيگنڈہ

عثمان كے قتل كے بعد طلحہ و زبير نے جو شورش و سركشى كى راہ اختيار كى اس كے باعث معاويہ كو يہ موقع مل گيا كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف پروپيگنڈہ كرسكے اور اس ميں بھى جو چيز كار فرما تھى وہ عثمان كے خون كا بدلہ تھا_

معاويہ نے اہل شام كے جذبات بر افروختہ كرنے كے لئے عثمان كے خون آلود كرتے اور ان كى اہليہ نائلہ كى قطع شدہ انگلى كو جنہيں ''نعمان بن بشير'' اپنے ساتھ صوبہ شام سے لے آيا تھا ، مسجد كى ديوار پر نصب كرديا اور انہوں نے چند عمر رسيدہ لوگوں سے كہا كہ وہ ان چيزوں كے نزديك بيٹھ كر گريہ وزارى كريں ، اس پروپيگنڈہ نے لوگوں كے دلوں پر ايسا گہرا اثر كيا كہ جيسے ہى معاويہ كى ولولہ انگيز تقرير ختم ہوگئي تو لوگ اپنى جگہ سے اٹھ كھڑے ہوئے اور سب نے ايك آواز ہوكر كہا كہ ہم عثمان كے خون كا بدلہ ليں گے اورمعاويہ كے ہاتھ پر يہ كہہ كر بيعت كى كہ جب تك ہمارے دم ميں دم ہے تمہارا ساتھ ديں گے_

۱۶۶

مشہور و معروف اشخاص كواپنانا

معاويہ كا مقصد چونكہ زمام حكومت كو اپنے اختيار ميں لينا تھا سى لئے اسكى مسلسل يہ سعى وكوشش تھى كہ جس طرح بھى ممكن ہوسكے ان لوگوں كى توجہ كو اپنى طرف مائل كريں جو اس كام كے لئے مناسب ہوسكتے ہيں اور ان كے ساتھ يہ عہد وپيمان كريں كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف سرگرم عمل رہيں گے اس كام ميں جو لوگ اس كے ہم خيال رہے ان كے نام درج ذيل ہيں :

۱_ عمروعاص : معاويہ نے اس سے كہا كہ تم ميرے ہاتھ پر بيعت كرو اور ميرى مدد كرو اس پر عمرو عاص نے كہا كہ خدا كى قسم دين كى خاطر تو ميں يہ كام نہيں كرسكتا البتہ دنيوى مفاد كى خاطر ميں تيار ہوں معاويہ نے دريافت كيا كہ كيا مانگنا چاہتے ہو اس نے كہا كہ مصر كى حكومت معاويہ نے اس كے اس مطالبے كو منظور كرليا اور لكھ كر دستاويز بھى دى _(۲۴)

۲_ طلحہ و زبير جيسا كہ پہلے ذكر كيا جاچكاہے كہ معاويہ نے زبير كو خط لكھا تو اس ميں زبير كو اميرالمومنين كے لقب سے ياد كيا تھا اور ان كى نيز طلحہ كى توجہ كو اپنى جانب مائل كرنے كى غرض سے ايسا ظاہر كياكہ ميں نے تمہارے حق ميں شام كے لوگوں سے بيعت لى ہے اور طلحہ كو وليعہد مقرر كرديا ہے_

۳_ شرحبيل _ اس كا شمار شام كے بااثر و رسوخ افراد ميں ہوتا تھا معاويہ نے خاص حكمت عملى كے ذريعے اسے اپنى جانب مائل كيا اور وہ بھى اس كا ايسا گرويدہ ہوا كہ معاويہ كا دم بھرنے كے علاوہ عثمان كے خون كا مطالبہ شروع كرديا _ معاويہ نے ضمناً عمرو عاص كا ذكر كرتے ہوئے اسے خط ميں لكھا كہ علىعليه‌السلام كا جرير نامى نمايندہ ميرے پاس آيا ہے اور اس نے بہت اہم تجويز ميرے سامنے ركھى ہے يہ خط ملتے ہيں آپ فوراً ميرے پاس چلے آئيں _ معاويہ نے شرحبيل كے آنے سے قبل بعض ايسے لوگوں كو جو اس كے نزديك قابل اعتماد تھے اور اس كے ساتھ ہى وہ شرجيل كے قرابت دار بھى يہ ہدايت كہ جب شرحبيل مجھ سے ملاقات كرچكے تو وہ اس سے ملاقات كريں اور اسے اطلاع ديں كہ عثمان كا قتل حضرت علىعليه‌السلام كے ايماء پر ہى ہوا ہے _(۲۵)

۱۶۷

شرحبيل كو جيسے ہى معاويہ كا خط ملا تو عبدالرحمن ابن غنم اور عياض جيسے خير خواہ دوستوں كى مرضى و منشاء كے خلاف اس نے معاويہ كى دعوت كو قبول كرليا اگرچہ انہوں نے بہت منع كيا مگر اس كے باوجودوہ حمص سے دمشق كى جانب روانہ ہوگيا _(۲۶)

شرحبيل جيسے ہى شہر ميں داخل ہوا تو معاويہ كے ہواخواہ اس كے ساتھ بہت عزت واحترام سے پيش آئے اس كے بعد معاويہ نے جرير كے خط كا ذكر كيا اورمزيد يہ كہا كہ اگر علىعليه‌السلام نے عثمان كو قتل نہ كرايا ہو تا تو وہ بہترين انسان شمار كئے جاتے جب معاويہ كى گفتگو ختم ہوگئي تو شرحبيل نے كہا كہ مجھے اس مسئلے پر سوچنے كا موقع ديجئے تا كہ اس كے بارے ميں غور وفكر كرسكوں _

معاويہ سے رخصت ہوكر جب وہ واپس ہو اتو اس كى كچھ لوگوں سے ملاقات ہوگئي يہ لوگ تو پہلے سے ہى ان سے ملنے كے متمنى و مشتاق تھے _ شرحبيل نے عثمان كے قتل كے بارے ميں ان سے دريافت كيا تو سب نے يہى كہا كہ علىعليه‌السلام ہى عثمان كے قاتل ہيں _

يہ سننے كے بعد شرحبيل غضبناك حالت ميں معاويہ كے پاس واپس آيا اور كہا كہ لوگوں كا يہ خيال واضح ہے كہ عثمان كو علىعليه‌السلام نے قتل كيا ہے _ خدا كى قسم اگر تم نے ان كے ہاتھ پر بيعت كى تو ہم لوگ يا تو تمہيں شام سے باہر نكال ديں گے يا يہيں قتل كرڈاليں گے _ معاويہ نے محسوس كرليا كہ اس كا منصوبہ كارگر ثابت ہوا ہے كہا كہ ميں بھى شام كے افراد ميں سے ايك ہوں ميں نے آج تك تمہارى مخالفت نہيں كى ہے اور آيندہ بھى ايسا نہ كروں گا مگر تم كو يہ جاننا چاہئے كہ يہ كام شام كے عوام كى مرضى كے بغير صورت پذير نہيں ہوسكتا تم كو اس منطقے ميں شہرت و نام آورى حاصل ہے اب تم شام كے مختلف شہروں كا دورہ كرو اور لوگوں كو بتاؤ كہ عثمان كو علىعليه‌السلام نے قتل كياہے اور اب مسلمانوں پر واجب ہے كہ اس خون كا بدلہ لينے كى خاطر شورش وسركشى كريں _ شرحبيل نے ايسا ہى كيا چنانچہ چند زاہد و پارسا و گوشہ نشين افراد كے علاوہ شام كے عام لوگوں نے اس دعوت كو قبول كرليا _(۲۷)

۱۶۸

سوالات

۱_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے بصرہ پہنچنے كے بعد كيا اقدامات كئے ؟

۲_ جنگ جمل كے كيا نتائج واثرات رونما ہوئے ؟مختصر طور پر وضاحت كيجئے_

۳_ جنگ جمل كے بعد كوفہ كو مركز حكومت كيوں قرار ديا ؟

۴_ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف معاويہ كا كيا موقف تھا ؟ معاويہ كے عدم تعاون كى ايك مثال پيش كيجئے _

۵_ حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف معاويہ نے كيوں شورش و سركشى اختيار كى ؟ مختصر طور پر بيان كيجئے_

۶_ معاويہ نے صاحب اثر ورسوخ اور سياستمدار افراد كى توجہ كو اپنى طرف كيسے مبذول كيا اس كى ايك مثال پيش كيجئے ؟

۱۶۹

حوالہ جات

۱_ الجمل ۲۱۱

۲_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۵۵ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۳۸

۳_ مروج الذہب ج ۲ہ ۳۶۸

۴_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۴۱، كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۵۶

۵_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۷۱ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۴۹

۶_ جنگ جمل ميں جو جانى نقصان ہوا اس كے بارے ميں مورخين كے درميان اختلاف رائے ہے _ ابن اثير ج ۳/ ۲۵۵_ اور طبرى ج ۴/ ۵۳۹ نے مقتولين كى تعداد دس ہزار افراد لكھى ہے يعنى ہرطرف سے تقريباً پانچ ہزار افرادقتل ہوئے _ مسعودى ج ۲/ ۵۳۹نے مروج الذہب ميں مقتولين كى تعداد بيان كرتے ہوئے لكھا ہے كہ اصحاب جمل كے تيرہ ہزار افراد مارے گئے اور حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ ميں سے پانچ ہزار افراد شہيد ہوئے _ بلاذرى نے انساب الاشراف ج ۲/ ۲۶۵ ميں درج كيا ہے كہ صرف اہل بصرہ ميں سے بيس ہزار افراد قتل ہوئے مگر يعقوبى نے اپنى تاريخ كے ج۲ /۱۸۳ پر جانبين كے مقتولين كى تعداد تيس ہزار افراد سے زيادہ بيان كى ہے _

۷_ ملاحظہ ہو الملل و النحل شہرستانى ج ۱/ ۱۲۱ ، والتبصير ۴۲_

۸_ علامہ مفيد نے حضرت علىعليه‌السلام كے خطوط اپنى تاليف و تاليف الجمل ميں صفحات ۲۱۵ ، ۲۱۱ پر درج كئے ہيں _

۹_ رحبہ كوفہ كے محلوں ميں سے ايك محلے كا نام تھا (معجم البلدان ج ۳/ ۳۳)

۱۰_ وقعہ صفين ۳_

۱۱_ ملاحظہ ہو كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۶۰ و تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۴۴ ، ۵۴۳_

۱۲_ ''جعدہ'' اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام بھانجے تھے آپ كى والدہ ام بانى دخترابى طالب تھيں (شرح ابن ابى الحديد ج ۱۰ /۷۷)_

۱۳_ وقعہ صفين / ۳_۱۰_

۱۴_ مروج الذہب ج ۲/ ۲۷۲ ، كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۷۶_

۱۷۰

۱۵_ وقعہ صفين ۱۲_۱۱_

۱۶_اذهبو انتم الطلقاء (اسى وجہ سے معاويہ كا شمار طلقاء ميں ہوتا ہے _

۱۷_ شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۳۱ _ تاريخ التواريخ ج ۱/ ۳۸_

۱۸_ بعض مورخين نے لكھا ہے كہ جرير كو انہى كى درخواست پر روانہ كيا گيا تھا اگر چہ مالك اشتر نے انہيں روانہ كئے جانے كى مخالفت كى تھى اور يہ كہا تھا كہ جرير كا دل سے جھكاؤ معاويہ كى جانب ہے ليكن اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا تھا كہ ان كا امتحان كئے ليتے ہيں پھر ديكھيں گے كہ وہ ہمارى طرف كيسے آتے ہيں _ ملاحظہ ہو مروج الذہب ج ۲/ ۳۷۲ ، وقعہ صفين ۲۷_

۱۹_ وقعہ صفين /۱۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۳ ۷۵ ، كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۷۶ اور مروج الذہب ج ۲/ ۳۷۲_

۲۰ _ مروج الذہب ج ۲/ ۳۷۲ ، وقعہ صفين ۳۴ ، ۳۱_

۲۱_ شرح ابن ابى الحديد ج ۵/ ۱۲۹_

۲۲_ وقعہ صفين ۱۲۰_۱۱۹ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۳/ ۱۸۹_

۲۳_ تاريخ ابوالفداء ج ۱/ ۱۷۱ كامل ابن اثير ج ۳/ ۱۹۲_ ۲۷۷_

۲۴_ وقعہ صفين ۳۲ شرح ابن ابى الحديد ج ۳/ ۷۸_

۲۵_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۴ _ وقعہ صفين ۴۰/ ۳۸_

۲۶_ وقعہ صفين ۴۴ يہاں اس بات كا ذكر بھى ضرورى ہے كہ شرحبيل اور جرير كے درميان سخت عداوت تھي_

۲۷_ ان كى قرابت دارى ميں يزيد بن اسد بُسر اور ارطاء اور عمر بن سفيان بھى شامل تھے_

۲۸_ وقعہ صفين ۴۵_

۲۹_ وقعہ صفين ۵۰_ ۴۶ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۷۱_

۱۷۱

نواں سبق

قاسطين (جنگ صفين)۱

حضرت علىعليه‌السلام كا معاويہ كے ساتھ مراسلت ميں محرك

حجاز كى جانب درازدستي

نمايندے كى روانگي

مہاجرين و انصار كے ساتھ مشورہ

عمومى فوج

كمانڈروں كاتقرر

صفين كى جانب روانگي

شام ميں بحرانى حالات كا اعلان

پہلا مقابلہ

پانى پر بندشي

سوالات

حوالہ جات

۱۷۲

حضرت علىعليه‌السلام كا معاويہ كے ساتھ مراسلت ميں محرك

حضرت علىعليه‌السلام جب تك كوفہ ميں قيام پذير رہے اور صفين كى جانب روانہ ہونے سے پہلے تك آپ نے معاويہ كى جانب خطوط بھيجنے اور اپنے نمايندگان كو روانہ كرنے ميں ہميشہ پيشقدمى كى تا كہ اسے اس راہ و روش سے روكا جا سكے جو اس نے اختيار كر ركھى تھى جس كى پہلى وجہ يہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام دل سے يہ نہيں چاھتے تھے كہ شام كے لوگوں سے جنگ كى جائے كيونكہ وہ بھى مسلمان تھے_

دوسرى وجہ يہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام چاھتے تھے كہ معاويہ ،شام كے عوام اور ان لوگوں كے لئے جو آئندہ آپ كے ہمركاب رہ كر معاويہ سے جنگ كريں گے اتمام حجت ہوجائے_

تيسرى وجہ يہ تھى كہ اگر امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام معاويہ كے خطوط كا جواب نہ ديتے اور اس كے عدم تعاون كے خلاف صريح و قطعى موقف اختيار نہ كرتے تو ممكن تھا كہ عوام اس رائے كے حامى ہوجاتے كہ معاويہ حق بجانب ہے_

ابن ابى الحديد نے ان بعض خطوط كونقل كرتے ہوئے جن كا مبادلہ حضرت علىعليه‌السلام اور معاويہ كے درميان ہوا لكھا ہے كہ اگر چہ زمانے ميں نيرنگياں تو بہت ہيں مگر اس سے زيادہ كيا عجيب بات ہو سكتى ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كے لئے نوبت يہاں تك آن پہنچى كہ ان كا اور معاويہ كا شمار ايك ہى صف كيا جانے لگا اور وہ ايك دوسرے كے ساتھ مراسلت كريں _(۱)

اس كے بعد ابن ابى الحديدنے لكھا ہے كہ اس مراسلت و مكاتبت كے پس پشت كون سا محرك كار فرما تھا وہ لكھتا ہے كہ '' شايد حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں اس كى وہ مصلحت آشكار و روشن تھى جو ہم پر

۱۷۳

پوشيدہ و پنہاں ہے '' اوپر جو وجوہ بيان كے گئے ہيں ان كے علاوہ خطوط لكھنے كى وجہ يہ بھى ہو سكتى ہے كہ :

۱-_ زور آور و تنومند سياسى افراد نے مختلف احاديث جعل كركے معاويہ كو اس بلند مقام پر پہنچا ديا اور اس كے لئے ايسے فضائل اختراع كئے كہ معاويہ امامعليه‌السلام كے مقابلہ ميں آگيا يہى نہيں بلكہ معاويہ خود كو افضل تصور كرتا اور اس پر فخر كرتا تھا يہ تحريك عمر كے عہد خلافت ميں شروع ہوئي(۲) اور بالاخرہ امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كے زمان خلافت ميں شدت اختيار كر گئي_

۲_ معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كو جو خطوط لكھے ہيں ان ميں اس نے حضرت علىعليه‌السلام سے بہت سى ناروا باتيں منسوب كى ہيں اور اپنى طرف ايسے افتخارات كى نسبت دى ہے جن كى كوئي اساس نہيں ہے اگر حضرت علىعليه‌السلام نے ان حقائق كوآشكار نہ كيا ہوتا اور اس ضمن ميں ضرورى باتيں نہ بتائي ہوتيں تو بہت سے حقيقى واقعات نظروں سے او جھل ہو كر رہ جاتے اور وہ افترا پردازياں جو آپعليه‌السلام كے ساتھ روا ركھى گئيں ان كا جواب نہ ديا گيا ہوتا تو سادہ لوح انسان ان كو حقيقت سمجھ كر قبول كر ليتے_

حضرت علىعليه‌السلام سے جو اتہامات منسوب كئے گئے ان ميں سے ايك يہ بھى تھا كہ آپعليه‌السلام كو اپنے سے پہلے كے خلفاء سے حسد و بغض تھا اور ان كے خلاف شورش كرنا چاہتے تھے اگر اس كا جواب نہ ديا گيا ہوتا تو عين ممكن تھا كہ سپاہ عراق ميں تفرقہ پيدا ہوجاتا چنانچہ يہى جہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام نے اس سازش كو روكنے كى غرض سے اپنے منطقى و مستدل بيان سے معاويہ كو جواب ديا(۳) _

حجاز كى جانب دراز دستي

حضرت علىعليه‌السلام كى يہى كوشش تھى كہ معاويہ كے ساتھ جو اختلافات ہے وہ مسالمت آميز طريقے سے حل ہوجائيں اور وہ قتل و خون ريزى كے بغير حق و انصاف كے سامنے سر تسليم خم كردے ليكن اس كے بر عكس معاويہ پورى سنجيدگى سے حالات كى برہمى و آشفتگى اور مسلمانوں ميں باہمى اختلاف و گروہ بندى كى كوشش كرتا رہا چنانچہ اس نے اپنے سياسى اقتدار كو تقويت دينے كے لئے

۱۷۴

سر برآوردہ افراد اور سرداران قبائل كو خط لكھنے شروع كئے تا كہ اس طريقے سے حجاز اس كى دسترس ميں آجائے_

اس سلسلے ميں اس نے عمروعاص سے مشورہ كيا اور كہا كہ اس اقدام كے ذريعے ہميں دو نتائج ميں سے ايك حاصل ہوگا يا تو ہم اپنے مقصد ميں كامياب ہوجائيں گے اور انھيں اپنا ہم خيال بناليں گے يا تو كم از كم ان كے درميان شك و ترديد تو پيدا كرديں گے تا كہ وہ علىعليه‌السلام كو مدد دينے سے باز رہيں _

ليكن عمروعاص كى رائے ميں يہ اقدام موثر نہ تھا كيونكہ اس كا خيال تھا كہ جن افراد كو خط لكھا جا رہا ہے وہ يا تو حضرت علىعليه‌السلام كے طرفدار ہيں ظاہر صورت ميں انھيں خط لكھنے سے ان كى نظر و بصيرت ميں اضافہ ہوگا اور وہ بيشتر علىعليه‌السلام كى حامى و طرفدار ہوجائيں گے يا پھر وہ لوگ ہى جو عثمان كے جانبدار ہيں انھيں خط لكھنے سے كوئي فائدہ نہيں كيونكہ وہ جو كچھ بھى ہيں خط سے ان پر مزيد كوئي اثر ہونے والا نہيں ،رہے وہ لوگ جو ہر طرف سے لاتعلق ہيں انھيں بھى تم سے زيادہ علىعليه‌السلام پر اعتماد ہے_

ليكن معاويہ اپنے فيصلے پر پورى سنجيدگى سے قائم رہا بالاخر دونوں نے مشتركہ طور پر اہل مدينہ كو لكھا اور اس ميں انہوں نے يہ اتہام لگايا كہ عثمان كے قاتل علىعليه‌السلام ہيں چنانچہ انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے درخواست كى كہ عثمان كے قاتل ان كے حوالے كئے جائيں اور اس سلسلے ميں اہل مدينہ سے مدد چاہي_(۴)

مذكورہ بالا خط كے علاوہ انہوں نے سعد بن ابى وقاص ،عبداللہ بن عمر اور محمد بن مسلمہ جيسے سر برآوردہ لوگوں كو بھى خطوط لكھے كہ جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے كنارہ كشى اختيار كر لى تھي_

اس اقدام سے معاويہ كا مقصد و مدعا يہ تھا كہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كو داخلى مشكلات و كشمكش سے دوچار كردے كيونكہ وہ جانتا تھا كہ اگر اپنے مقصد ميں كامياب ہوگيا تو اسے دو جانبہ فتح و كامرانى حاصل ہوگى اول تو يہ كہ وہ سربرآوردہ اشخاص كى حمايت حاصل كرلے گا اور دوسرى طرف اس كے اس اقدام سے مركزى حكومت كو كارى ضرب لگے گي_

۱۷۵

ليكن معاويہ كو جيسا كہ عمروعاص نے پيشين گوئي كى تھى كاميابى حاصل نہ ہوئي كيونكہ جن اشخاص كو خطوط لكھے گئے تھے انہوں نے منطقى و مدلل جواب كے ساتھ ان كى درخواست كو رد كرديا_(۵)

نمايندے كى روانگي

اس سے پہلے كہ جنگ و جدال كى نوبت آئے حضرت علىعليه‌السلام ہر اس طريقے كو بروئے كار لائے جس كے ذريعے اہل شام بيدار ہو سكيں اور معاويہ كو شورش و سركشى سے باز ركھا جاسكے اسى مقصد كے تحت انہوں نے ''خفاف بن عبداللہ '' كو معاويہ كے پاس بھيجا كيونكہ خفاف ميں شاعرانہ مزاح جاتا پايا تھا اور فطرتا بولنے والے واقع ہوئے تھے شام پہنچنے كے بعد انہوں نے اپنے چچا زاد بھائي '' حابس بن سعد'' كو جو قبيلہ طيى ّ كے سردار تھے اپنے ساتھ ليا اور دونوں مل كر معاويہ كى طرف روانہ ہوئے اور عثمان كے واقعہ قتل كى پورى تفصيل اس كے سامنے بيان كى اس كے بعد انہوں نے يہ بھى بتايا كہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے لئے كس طرح متمنى و خواہش مند تھے ساتھ ہى انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كى بصرہ و كوفہ كى جانب روانگى كى مفصل كيفيت بيان كى اور مزيد كہا كہ اس وقت بھى بصرہ ان كى ہاتھ ميں ہے اور كوفہ ميں تمام طبقات كے لوگ جن ميں بچے، سن رسيدہ خواتين ، نئي دلہينں و غيرہ شامل ہيں پورے جوش و خروش سے آپ كا استقبال كرنے كے لئے شاداں و خندان آئے اور ميں جس وقت ان كے پاس روانہ ہوا تھا ان كے سامنے شام كى جانب آنے كے علاوہ كوئي مقصد نہ تھا(۶) _معاويہ نے جب يہ كيفيت سنى تو اس پر خوف طارى ہوگيا اور ان لوگوں كى موجودگى ميں جو ان كے گرد جمع تھے اسے اپنى شكست كا احساس ہوا ناچار اس نے حابس سے كہا كہ لگتا ہے كہ يہ شخص علىعليه‌السلام كا جاسوس ہے اسے اپنے پاس سے آگے چلتا كر كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ شام كے لوگوں كو گمراہ كردے _(۷)

۱۷۶

مہاجرين و انصار سے مشورہ

جب حضرت علىعليه‌السلام كو يہ يقين ہوگيا كہ اب يہ طوفان دبنے والا نہيں اور معاويہ اپنے ارادے سے بازنہ آئے گا تو ناچار انہوں نے فيصلہ كيا كہ مقابلے كيلئے اقدام كريں چنانچہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے طريق كا ر پر عمل كرتے ہوئے آپعليه‌السلام نے جنگ سے قبل اپنے مہاجرين اور انصار اصحاب سے مشورہ كيا حضرت علىعليه‌السلام كے پيروكاروں نے مختلف افكار و خيالات كا اظہار كيا جن ميں بيشتر افراد كى رائے يہى تھى كہ جس قدر جلد ہوسكے اقدام كيا جائے كچھ لوگوں نے كہا كہ جتنا جلدى ہوسكے اس بارے ميں فيصلہ كر ليا جائے مگر ان ميں ايسے لوگ بھى تھے جو چاھتے تھے كہ پہلے مسالمت آميز طريقہ اختيار كيا جائے اور اگر حريف اپنى عناد پسندى اور سركشى پر قائم رہا تو جنگ شروع كى جانى چاھيئے_(۸)

سب سے آخر ميں سہل بن حنيف اپنى جگہ سے اٹھے اور انہوں نے حاضرين كى نمايندگى كرتے ہوئے كہا كہ '' اے امير المومنين آپ جس كے ساتھ صلح و آشتى چاہيں گے ہم اس كے ساتھ صلح و آشتى كريں گے ہمارى رائے اور مرضى وہى ہے جو آپ كى ہے ہم سب دست راست كى مانند آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں _(۹)

اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے عام لوگوں كو آمادہ كرنے كى خاطر خطبہ ديا اور لوگوں ميں جہاد كرنے اور صفين كى جانب روانہ ہونے كيلئے جوش دلايا آپ نے فرمايا : سيرو الى اعداء اللہ سيروا الى اعداء السنن و القران سيروا الى بقية الاحزاب قتلة المہاجرين و الانصار(۱۰) چلو دشمنان خدا كى طرف ،چلو سنت و قرآن كے دشمنوں كى جانب ان لوگوں كى طرف جو باطل كے گروہ ميں سے بچ گئے ہيں جو مہاجرين و انصار كے قاتل ہيں _

اس اثناء '' بنى فزارہ '' قبيلے كا '' اربد'' نامى شخص اٹھا جو بظاہر معاويہ كا ہمنوا اور اس كا جاسوس تھا اس نے كہا كہ كيا آپ يہ چاھتے ہيں كہ ہميں اپنے شامى بھائيوں كے خلاف جنگ كرنے كے ليئے لے جائيں ؟ بالكل اسى طرح جيسے آپ برادران بصرہ كے خلاف ہميں لے گئے تھے خدا كى

۱۷۷

قسم ہم ہرگز ايسا كوئي اقدام نہيں كريں گے_

حضرت مالك اشتر نے جب يہ ديكھا كہ يہ شخص مسلمانوں كى صفوں كو درہم برہم كرنا چاہتا ہے تو انہوں نے بلند آواز ميں كہا_ ہے كوئي جو ہميں اس كے شر سے نجات دلائے؟ اربدى فزارى نے جيسے ہى مالك اشتر كى آواز سنى تو خوف كے مارے بھاگ نكلا لوگوں نے اس كا تعاقب كيا اور بالاخر بيچ بازار ميں اسے پكڑليا اور گھونسوں لاتوں ،اور شمشير كى نيام سے اسے اتنا مارا كہ اس كى جان ہى تن سے نكل گئي _(۱۱)

عمومى فوج

جب حضرت علىعليه‌السلام نے سركشوں اور شورش پسندوں كے خلاف جہاد كرنے كے لئے رائے عامہ كو ہموار كر ليا تو آپعليه‌السلام نے مختلف مناطق ميں اپنے كارپردازوں كو فوجى فرمانداروں اور عاملين محصول كو خطوط لكھے جن ميں انھيں ہدايت كى گئي كہ اپنے اپنے علاقوں ميں وہ لوگوں كو اس جہاد مقدس ميں شركت كى دعوت ديں اور جو لوگ متمنى ہيں انھيں مركز كى جانب روانہ كيا جائے_(۱۲)

لوگوں كے دلوں ميں جذبہ خلوص و قربانى كو تقويت دينے كى خاطر منبر مسجد پر تشريف لے گئے اور وہاں خطبہ صادر فرمايا_ خطبہ كے دوران بعض مقامات پر آپ نے يہ بھى فرمايا كہ معاويہ اور اس كے سپاہى باغى و سركش ہوگئے ہيں كيونكہ شيطان نے ان كى زمام اپنے دست اختيار ميں لے لى ہے اور پر فريب و عدوں سے انھيں گمراہ كرديا ہے تم خداوند تعالى كى داناترين مخلوق ہو اور اسنے جن چيزوں كو حلال و حرام قرار ديا ہے ان كے درميان تم خوب تميز كرسكتے ہو چنانچہ جو تم جانتے ہو اس پر اكتفاء كرو اور خدا نے جن چيزوں سے گريز كرنے كے لئے كہا تم ان سے اجتناب كرو_(۱۳)

حضرت علىعليه‌السلام كے خطبے كے بعد آپ كے دونوں فرزند دلبند حضرت امام حسن اور حضرت امام حسين (عليہما السلام) نے بھى اس مسئلے كى اہميت كو واضح و روشن كرنے كے غرض سے بصيرت افروز تقارير كيں _

۱۷۸

حضرت امام حسنعليه‌السلام كے بعض ارشادات عاليہ ميں آيا ہے كہ معاويہ اور ان كے سپاہى تيار ہوچكے ہيں خيال رہے تم ہرگز كنارہ كشى نہ كرنا كيونكہ كنارہ كشى اور احساس كمترى دلوں كو ايك دوسرے سے جدا كرديتے ہيں نوك نيزہ كے سامنے سينہ سپر ہونا عزت شجاعت اور پاكدامنى كى علامات ہيں _(۱۴)

امام مجتبىعليه‌السلام نے عام خطبہ صادر كرنے كے علاوہ ان لوگوں سے بھى شخصاً ملاقات كى جن كا ارادہ جنگ سے كنارہ كشى اختيار كرنے كا تھا چنانچہ انھيں سمجھا كر صف مجاہدين ميں لے آئے_(۱۵)

حضرت امام حسينعليه‌السلام نے تقرير كرنے كے علاوہ لوگوں كوراہ خدا ميں جہاد كرنے كى ترغيب دلائي اور انھيں بعض آداب فن حرب و جنگ بھى سكھائے اور سب كو اتحاد و يگانگى كى دعوت دي_(۱۶)

جب حضرت علىعليه‌السلام اور ان كے دونوں فرزند ارجمند كى تقارير اختتام پذير ہوئيں تو اكثر و بيشتر لوگ نبرد آزمائي كيلئے آمادہ ہوچكے تھے ليكن عبداللہ بن مسعود كے ساتھى عليحدہ رہے چنانچہ وہ لوگ حضرت علىعليه‌السلام كے پاس آئے اور كہنے لگے كہ ہم جنگ ميں آپ سے لا تعلق رہيں گے ليكن جب ہميں جداگانہ طور پر جگہ مل جائے گى تو قريب آكر آپ اور شام كے لشكر كو ديكھيں گے اور دونوں ميں سے جو بھى غير مشروع مقصد كى جانب جائے گا يا جس كا ظلم و ستم ہميں نظر آئے گا ہم اس كے خلاف جنگ كريں گے_

حضرت علىعليه‌السلام نے ان كے افكار و خيالات كى ستائشے كى اور فرمايا كہ دين ميں اسى كا نام فہم و فراست ہے اور يہى سنت سے آگاہى و واقفيت ہے_

عبداللہ كے دوسرے ساتھيوں نے جو چار سو افراد پر مشتمل تھے حضرت علىعليه‌السلام سے كہا كہ ہم آپ كى فضيلت و برترى سے بخوبى واقف ہيں اور يہ بھى جانتے ہيں كہ ہم سب كو دشمن سے نبرد آزما ہونے كى آرزو ہے مگر اس كے ساتھ ہى ہميں اس جنگ كے بارے ميں شك و تردد ہے ہمارى

۱۷۹

مرضى تو يہ ہے كہ آپ عليه‌السلام ہميں اسلامى مملكت كى سرحدوں پر بھيجديں تا كہ وہاں پہنچ كر ہم اسلام كا دفاع كرسكيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں ربيع بن خيثم كى فرماندارى ميں علاقہ رى كى سرحد پر بھيجديا_(۱۷)

قبيلہ '' باہلہ'' ميں بھى ايسا گروہ موجود تھا جس كا حضرت علىعليه‌السلام كے مكتب فكر كى جانب كوئي خاص ميلان نہ تھا چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام كے فرمان كے بموجب وہ جنگ سے كنارہ كش ہوگيا كيونكہ ايسے لوگوں كى جہاد ميں شركت جن كا كوئي مقصد و ارادہ نہ ہو اور عقيدہ بھى ان كا سُست ہو تو وہ نہ صرف محاذ حق كو تقويت نہيں پہنچاتے بلكہ بسا اوقات دوسرے سپاہيوں كا حوصلہ پست كرنے كا سبب ہوتے ہيں اور ايسى صورت ميں كہ وہ قيد كرلئے جائيں تو بہت سے فوجى راز دشمن تك پہنچاديتے ہيں يا خود دشمن ہى انھيں يہ موقع فراہم كرديتا ہے كہ وہ اس كے ليئے اپنے وطن ميں خدمات انجام ديں _

شايد ان دلائل كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں اپنے پاس بلايا اور ان كى جو مزدورى يا تنخواہ ہوسكتى تھى وہ ادا كرنے كے بعد انھيں حكم ديا كہ '' ديلم'' كى جانب مہاجرت كرجائيں _(۱۸)

كمانڈروں كا تقرر

حضرت علىعليه‌السلام نے تمام بنيادى كام انجام دينے كے بعد لشكر كى روانگى كا فيصلہ كيا چنانچہ آپ كى فرمايش كے مطابق '' حارث بن اعور'' نے كوفہ ميں اعلان كيا كہ تمام لشكر'' نُخَيلة''كى جانب روانہ ہوجائے اور شہر سے باہر خيمے بپا كرلے كوفہ كے حاكم شہر '' مالك بن حبيب'' كو اس كام پر مقرر كيا گيا كہ وہ سپاہ عسكر كے درميان ہم آہنگى پيدا كريں اور انھيں لشكرگاہ كى جانب روانہ كرنے ميں مدد كريں عقبہ بن عمرو انصارى حضرت علىعليه‌السلام كے جانشين كى حيثيت سے كوفہ ميں ہى مقيم رہے_

ان اقدامات كى تكميل كے بعد امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام اپنے لشكر كے ہمراہ لشكرگاہ كى جانب

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421