توبہ آغوش رحمت

توبہ آغوش رحمت 20%

توبہ آغوش رحمت مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

توبہ آغوش رحمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25396 / ڈاؤنلوڈ: 6233
سائز سائز سائز
توبہ آغوش رحمت

توبہ آغوش رحمت

مؤلف:
اردو

1

2

نیکیوں سے مزین ہونا اور برائیوں سے پرھیز کرنا (۱)

( كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ انَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوء اً بِجَهالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَاصْلَحَ فَانَّهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔(۲۶۴)

” تمھارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت لازم قرار دے لی ہے کہ تم میں جو بھی از روئے جھالت برائی کرے گا اور اس کے بعد تو بہ کر کے اپنی اصلاح کرلے گا تو خدا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ہے“۔

زیبائی اور برائی گزشتہ صفحہ میں بیان ہونے والے دو عنوان سے باطنی، معنوی، اخلاقی اور عملی زبیائی او ربرائی مراد ہے۔

جو شخص اپنے ارادہ و اختیار اور شناخت و معرفت کے ذریعہ الٰھی حقائق (اخلاقی حسنات) اور عملی واقعیات (احکام خداوندی) کو اپنے صفحہ دل پر نقش کرلیتا ہے، اس نقش کو ایمان کے روغن سے جلا دیتا ہے، اور زمانہ کے حوادث و آفات سے نجات پالیتا ہے، جس کے ذریعہ سے انسان بھترین سیرت اور خوبصورت وشائستہ صورت بنالیتا ہے۔

الٰھی حقائق یا اخلاقی حسنات خداوندعالم کے اسماء و صفات کے جلوے اور ارادہ پروردگار کے عملی واقعیات کے جلوے ہیں ، اسی وجہ سے یہ چیزیں انسان کی سیرت و صورت کو بازار مصر میں حُسن یوسف کی طرح جلوہ دیتے ہیں ، اور دنیا و آخرت میں اس کو خریدنے والے بھت سے معشوق نظر آتے ہیں ۔

لیکن وہ انسان جو اپنے قلم و ارادہ و اختیار سے جھل و غفلت غرور و تکبر، بُرے اخلاق اور برے اعمال کو اپنے صفحہ دل پرنقش کرلیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ گناھوں میں غرق ہوتا چلا جاتا ہے، جو انسان کی ھمیشگی ھلاکت کے باعث ہیں ، ان ہیں کی وجہ سے ان کی صورت بدشکل اور تیرہ و تاریک ہوجاتی ہے۔

اخلاقی برائیاں، بُرے اعمال شیطانی صفات کا انعکاس اور شیطانی حرکتوں کا نتیجہ ہیں ، اسی وجہ سے انسان کی سیرت و صورت پر شیطانی نشانیاں دکھائی دیتی ہیں ، جس کی بنا پر خدا، انبیاء اور ملائکہ نفرت کرتے ہیں اور دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی اس کے دامن گیر ہوجاتی ہے۔

معنوی و روحانی زیبائی و برائی کے سلسلہ میں ھمیں قرآن مجید کی آیات اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وائمہ معصومین علیھم السلام کی احادیث کا مطالعہ کرنا چاہئے، تاکہ ان الٰھی حقائق اور آسمانی تعلیمات سے آشنائی کے ذریعہ اپنے کو مزین کریں، اور توبہ و استغفار کے ذریعہ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق اپنے ظاھر و باطن کی اصلاح کو کامل کرلیں:

( وَإِذَا جَائَكَ الَّذِینَ یؤْمِنُونَ بِآیاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ انَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوء اً بِجَهالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَاصْلَحَ فَانَّهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔(۲۶۵)

”اور جب وہ لوگ آپ کے پاس آئیں جو ھماری آیت وں پر ایمان رکھتے ہیں تو ان سے کہئے کہ سلام علیکم تمھارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت لازم قرار دے لی ہے کہ تم میں جو بھی از روئے جھالت برائی کرے گا اور اس کے بعد تو بہ کر کے اپنی اصلاح کرلے گا تو خدا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ہے“۔

اھل ہدایت و صاحب فلاح

( الَّذِینَ یؤْمِنُونَ بِالْغَیبِ وَیقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهم ینفِقُونَ وَالَّذِینَ یؤْمِنُونَ بِمَا انْزِلَ إِلَیكَ وَمَا انْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هم یوقِنُونَ اوْلَئِكَ عَلَی هُدًی مِنْ رَبِّهم وَاوْلَئِكَ هم الْمُفْلِحُونَ ) ۔(۲۶۶)

”جولوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں ۔پابندی سے پورے اھتمام کے ساتھ نماز ادا کر تے ہیں اور جو کچھ ھم نے رزق دیا ہے اس میں سے ھماری راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں ۔وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جن ہیں (اے رسول) ھم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جو آپ سے پھلے نازل کی گئی ہیں اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں ۔یھی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ہیں اور یھی لوگ فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں “۔

مذکورہ آیت سے درج ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں :

۱۔ غیب پر ایمان ۔

۲۔ نماز قائم کرنا۔

۳۔ صدقہ اور حقوق کی ادائیگی۔

۴۔ قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں پر ایمان۔

۵۔ آخرت پر یقین۔

غیب پر ایمان

غیب سے مراد ایسے امور ہیں جن کو ظاھری حواس سے درک ن ہیں کیا جاسکتا، چونکہ ان کو حواس کے ذریعہ ن ہیں درک کیا جاسکتا لہٰذا ان کو غیبی امور کھا جاتا ہے۔

غیب، ان حقائق کو کھتے ہیں جن کو دل اور عقل کی آنکھ سے درک کیا جاسکتا ہے، جس کے مصادیق خداوندعالم، فرشتے، برزخ، روز محشر، حساب، میزان اور جنت و جہنم ہے، ان کا بیان کرنا انبیاء، ائمہ علیھم السلام اور آسمانی کتابوں کی ذمہ داری ہے۔

ان حقائق پر ایمان رکھنے سے انسان کا باطن طیب و طاھر، روح صاف و پاکیزہ، تزکیہ نفس، روحی سکون اور قلبی اطمینان حاصل ہوتا ہے نیز اعضاء و جوارح خدا و رسول اور اھل بیت علیھم السلام کے احکام کے پابند ہوجاتے ہیں ۔

غیب پر ایمان رکھنے سے انسان میں تقويٰ پیدا ہوتا ہے، اس میں عدالت پیدا ہوتی ہے، اور انسان کی تمام استعداد شکوفہ ہوتی ہیں ، یھی ایمان اس کے کمالات میں اضافہ کرتا ہے، نیز خداوندعالم کی خلافت و جانشینی حاصل ہونے کا راستہ ھموار ہوتا ہے۔

کتاب خدا، قرآن مجید جو احسن الحدیث، اصدق قول اور بھترین وعظ و نصیحت کرنے والی کتاب ہے، جس کے وحی ہونے کی صحت و استحکام میں کوئی شک و شبہ ن ہیں ہے، اس نے مختلف سوروں میں مختلف دلائل کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ قرآن کتاب خدا ہے، جن کی بنا پر انسان کو ذرہ برابر بھی شک ن ہیں رھتا، قرآن کریم کی بھت سی آیات میں غیب کے مکمل مصادیق بیان کئے گئے ہیں اور ان آیات کے ذیل میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے بھت اھم احادیث بیان ہوئی ہیں جن کے پر توجہ کرنے سے انسان کے لئے غیب پر ایمان و یقین کا راستہ ھموار ہوجاتا ہے۔

خدا

قرآن مجید نے خداوندعالم کو تمام کائنات اور تمام موجودات کے خالق کے عنوان سے پہچنوایا ہے، اور تمام انسانوں کو خدا کی عبادت کی دعوت دی ہے، اس کا شریک اس کی ضدو مثل اوراس کا کفوقرار دینے سے سخت منع کیا ہے اور اس کو غفلت و جھالت کا نتیجہ بتایا ہے، اور کسی چیز کو اس کے خلاف بیان کرنے کو فطرت و وجدان کے خلاف شمار کیا ہے، اس عالم ہستی میں صحیح غور و فکر کرنے کی رغبت دلائی ہے، اور فطری، عقلی، طبیعی اور علمی دلائل و شواہد کے ذریعہ غیر خدا کے خالق ہونے کو باطل قرار دیا ہے، اور اس جملہ کو بے بنیاد، بے معنی اور مسخرہ آمیز بتایا ہے کہ ”یہ چیزیں خود بخود وجود میں آگئی ہیں “ اس کی شدت کے ساتھ ردّ کی ہے اور علمی منطق اور عقل سلیم سے کوسوں دور بتایا ہے، المختصر: قرآن مجید نے اپنی آیات کے اندر انسان کے جھل اور غفلت جیسی بیماریوں کا علاج بتایا ہے، اورفطرت و وجدان کو جھنجھوڑتے ہوئے عقل و دل کی آنکھوں کے سامنے سے شک و تردید اور اوھام کے پردوں کو ہٹادیا ہے، اور خداوندعالم کے وجود کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے، نیز اس معنی پر توجہ دلائی ہے کہ آئینہ ہستی کی حقیقت روز روشن سے بھی زیادہ واضح ہے، اور خدا کی ذات اقدس میں کسی کے لئے شک و تردید کا کوئی وجود ن ہیں ہے:

( افِی اللهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْارْضِ یدْعُوكُمْ لِیغْفِرَ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ ) (۲۶۷)

” کیا تم ہیں اللہ کے وجود کے بارے میں بھی شک ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اور تم ہیں اس لئے بلاتا ہے کہ تمھارے گناھوں کو معاف کردے۔۔“۔

( یاایها النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمْ الَّذِی خَلَقَكُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ الَّذِی جَعَلَ لَكُمْ الْارْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَانْزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاخْرَجَ بِهِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلاَتَجْعَلُوا لِلَّهِ اندَادًا وَانْتُمْ تَعْلَمُونَ ) ۔(۲۶۸)

”اے انسانو! پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم ہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پھلے والوں کو بھی خلق کیا ہے ۔شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرھیز گار بن جاو۔اس پروردگار نے تمھارے لئے زمین کا فرش اور آسمان کا شامیانہ بنایا ہے اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمھاری روزی کے لئے زمین سے پھل نکالے ہیں لہٰذا اس کے لئے جان بوجھ کر کسی کو ھمسر اور مثل نہ بناو“۔

جی ھاں! اس نے ھمیں اور ھم سے پھلے انسانوں کو خلق کیا، آسمانوں کو بنایا، تمھاری زندگی کے لئے زمین کا فرش بچھایا، تمھارے لئے بارش برسائی، جس کی وجہ سے مختلف قسم کے پھل اور اناج پیدا ہوئے، اگر یہ تمام عجیب و غریب چیزیں اس کا کام ن ہیں ہے تو پھر کس کا کام ہے؟

اگر کوئی کھتا ہے کہ ان تمام عجیب و غریب خلقت کی پیدائش کی علت ”تصادف“(یعنی اتفاقی) ہے تو اس کی مستحکم منطقی اور عقلی دلیل کیا ہے؟ اگر کھا گیاکہ یہ چیزیں خود بخود پیدا ہوگئیں تو کیا اس کائنات کی چیزیں پھلے سے موجود ن ہیں ت ہیں جو خود بخود وجود میں آگئیں، اس کے علاوہ جو چیز موجود ہے وہ خود بخود وجود میں آجائیں اس کے کوئی معنی ن ہیں ہیں ، پس معلوم ہوا کہ ان تمام چیزوں کا خالق اور ان کو نظم دینے والا علیم و بصیر و خبیر ”اللہ تعاليٰ“ ہے جس نے ان تمام چیزوں کو وجود بخشا ہے، اور اس مضبوط اور مستحکم نظام کی بنیاد ڈالی ہے، لہٰذا انسان پر واجب ہے کہ اس کے حکم کی اطاعت کرے، اس کی عبادت و بندگی کرے تاکہ تقويٰ، پاکیزگی اور کمال کی معراج حاصل کرے:

( اعْبُدُوا رَبَّكُمْ الَّذِی خَلَقَكُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون ) ۔(۲۶۹)

”تم لوگ اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم ہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پھلے والوں کو بھی خلق کیا ہے ۔شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرھیز گار بن جاو“۔

مفضل بن عمر کوفی کھتے ہیں : مجھ سے حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

وجود خدا کی سب سے پھلی دلیل اس دنیا کا نظم و ترتیب ہے کہ تمام چیزیں بغیر کسی کمی و نقصان کے اپنی جگہ پر موجود ہیں اور اپنا کام انجام دے رھی ہیں ۔

مخلوقات کے لئے زمین کا فرش بچھایا گیا، آسمان پر زمین کے لئے روشنی دینے والے سورج چاند اور ستارے لٹکائے گئے، پھاڑوں کے اندر گرانبھا جواھرات قرار دئے گئے، ھر چیز میں ایک مصلحت رکھی گئی اور ان تمام چیزوں کو انسان کے اختیار میں دیدیا گیا، مختلف قسم کی گھاس، درخت اور حیوانات کو اس کے لئے خلق کیا تاکہ آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکےں۔

اس دنیا کے نظم وترتیب کو دیکھو کہ جھاں ھر چیز ذرہ برابر کمی و نقصان کے بغیر اپنی مخصوص جگہ پرہے جو اس بات کی بھترین دلیل ہے کہ یہ دنیا حکمت کے تحت پیدا کی گئی ہے، اس کے علاوہ تمام چیزوں کے درمیان ایک رابطہ پایا جاتا ہے اور سب ایک دوسرے کے محتاج ہیں جو خود اس بات کی بھترین دلیل ہے کہ ان تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ایک ہی ہے، ان تمام چیزوں کے پیدا کرنے والے نے ان تمام چیزوں کے درمیان الفت پیدا کی ہے اور ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرا کا محتاج قرار دیا ہے!

مفضل کھتے ہیں : معرفت خدا کی گفتگو کے تیسرے دن جب امام ششم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: آج چاند، سورج اور ستاروں کے بارے میں گفتگو ہوگی:

اے مفضل! آسمان کا رنگ نیلا دکھائی دیتا ہے او رجھاں تک انسان آسمان کو دیکھتا چلا جاتا ہے اس کو کوئی تکلیف ن ہیں ہوتی، کیونکہ نیلا رنگ نہ صرف یہ کہ آنکھ کے لئے نقصان دہ ن ہیں ہے بلکہ آنکھ کی طاقت کے لئے مفید بھی ہے۔

اگر سورج نہ نکلتا اور دن نہ ہوتا تو پھر دنیا کے تمام امور میں خلل واقع ہوجاتا، لوگ اپنے کاموں کو نہ کرپاتے، بغیر نور کے ان کی زندگی کا کوئی مزہ نہ ہوتا، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو روز روشن سے بھی زیادہ واضح ہے۔

اگر سورج غروب نہ ہوتا اور رات کا وجود نہ ہوتا تو لوگوں کو سکون حاصل نہ ہوتا اور ان کی تھکاوٹ دور نہ ہوتی، ھاضمہ نظام غذا کو ہضم نہ کرپاتا او راس غذائی طاقت کو دوسرے اعضاء تک نہ پہنچاتا۔

اگر ھمیشہ دن ہوا کرتا تو انسان لالچ کی وجہ سے ھمیشہ کام میں لگارھتا جس سے انسان کا بدن رفتہ رفتہ جواب دیدیتا، کیونکہ بھت سے لوگ مال دنیا جمع کرنے میں اس قدر لالچی ہیں کہ اگر رات کا اندھیرے ان کے کاموں میں مانع نہ ہو تا تو اس قدر کام کرتے کہ اپاہج ہوجاتے!

اگر رات نہ ہوا کرتی تو سورج کی گرمی سے زمین میں اس قدر گرمی پیدا ہوجاتی کہ روئے زمین پر کوئی حیوان اور درخت باقی نہ رھتا۔

اسی وجہ سے خداوندعالم نے سورج کو ایک چراغ کی طرح قرار دیا کہ ضرورت کے وقت اس کو جلایاجاتا ہے تاکہ اھل خانہ اپنی ضرورت سے فارغ ہوجائیں، اور پھر اس کو خاموش کردیتے ہیں تاکہ آرام کرلیں! پس نور اور اندھیرا جو ایک دوسرے کی ضد ہیں دونوں ہی اس دنیا کے نظام اور انسانوں کے لئے خلق کئے گئے ہیں ۔

اے مفضل! غور تو کرو کہ کس طرح سورج کے طلوع و غروب سے چار فصلیں وجود میں آتی ہیں تاکہ حیوانات او ردرخت رشد ونمو کرسکیں اور اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔

اسی طرح دن رات کی مدت کے بارے میں غور فکر کرو کہ کس طرح انسان کی مصلحت کا لحاظ رکھا گیا ہے اکثر آباد زمین پر دن ۱۵ گھنٹے سے زیادہ ن ہیں ہوتا اگر دن سو یا دوسو گھنٹے کا ہوتا تو کوئی بھی جانداز زمین پر باقی نہ بچتا۔

کیونکہ اس قدر طولانی دن میں دوڑ دھوپ کرتے ہوئے ھلاک ہوجاتے، درخت وغیرہ سورج کی گرمی سے خشک ہوجاتے!

اسی طرح اگر سو یا دوسو گھنٹے کی رات ہوا کرتی، تمام جاندار روزی حاصل ن ہیں کرسکتے تھے اور بھوک سے ھلاک ہوجاتے، درختوں اور سبزیوں کی حرارت کم ہوجاتی، جس کے نتیجہ میںان کا خاتمہ ہوجاتا، جیسا کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بھت سی گھاس اگر ایسی جگہ اُگ آئیں جھاں پر سورج کی روشنی نہ پڑے ہو تو وہ بر باد ہوجایا کرتی ہیں ۔

سردیوں کے موسم میں درختوں اور نباتات کے اندر کی حرارت او رگرمی مخفی ہوجاتی ہے تاکہ ان میں پھلوں کا مادہ پیدا ہو، سردی کی وجہ سے بادل اٹھتے ہیں ، بارش ہوتی ہے، جس سے حیوانوں کے بدن مضبوط ہوتے ہیں ، فصل بھار میں درخت اور نباتات میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ ظاھر ہوتے ہیں ، کلیاں کھلنے لگتی ہیں ، حیوانات بچے پیدا کرنے کے لئے ایک دوسرے کے پاس جاتے ہیں ، گرمی کے موسم میں گرمی کی وجہ سے بھت سے پھل پکنے لگتے ہیں ، حیوانات کے جسم میں بڑھی ہوئی رطوبت جذب ہوتی ہے، اور روئے زمین کی رطوبت کم ہوتی تاکہ انسان عمارت کا کام اور دیگر کاموں کو آسانی سے انجام دے سکے، فصل پائیز میں ہوا صاف ہوتی ہے تاکہ انسان کے جسم کی بیماریاں دور ہوجائیں اور بدن صحیح و سالم ہوجائے، اگر کوئی شخص ان چار فصلوں کے فوائد بیان کرنا چاھے تو گفتگو طولانی ہوجائے گی!

سورج کی روشنی کی کیفیت پر غور و فکر کرو کہ جس کو خداوندعالم نے اس طرح قرار دیا ہے کہ پوری زمین اس کی روشنی سے فیضیاب ہوتی ہے، اگر سورج کے لئے طلوع و غروب نہ ہوتا تونور کی بھت سی جھتوں سے استفادہ نہ ہوتا، پھاڑ، دیوار اور چھت نور کی تابش میں مانع ہوجاتے، چونکہ خداوندعالم نور خورشید سے تمام زمین کو فیضیاب کرنا چاھتا ہے لہٰذا سورج کی روشنی کو اس طرح مرتب کیا ہے کہ اگر صبح کے وقت ک ہیں سورج کی روشنی ن ہیں پہنچتی تو دن کے دوسرے حصہ میں وھاں سورج کی روشنی پہنچ جاتی ہے، یا اگر کسی جگہ شام کے وقت روشنی نہ پہنچ سکے تو صبح کے وقت روشنی سے فیضیاب ہوسکے، پس معلوم ہوا کہ کوئی جگہ ایسی ن ہیں ہے جوسورج کی روشنی سے فائدہ نہ اٹھائے، واقعاً یہ خوش نصیبی ہے کہ خداوندعالم نے سورج کی روشنی کو زمین رہنے والے تمام موجودات چاھے وہ جمادات ہوں یا نباتات یا دوسری جاندار چیزیں سب کے لئے پیدا کی اور کسی کو بھی اس سے محروم نہ رکھا۔

اگر ایک سال تک سورج کی روشنی زمین پر نہ پڑتی تو زمین پر رہنے والوں کا کیا حال ہوتا؟ کیا کوئی زندہ رہ سکتا تھا؟

رات کا اندھیرا بھی انسان کے لئے مفید ہے جو اس کو آرام کرنے پر مجبور کرتا ہے، لیکن چونکہ رات میں بھی کبھی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، بھت سے لوگ وقت نہ ہونے یا گرمی کی وجہ سے رات میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں یا بعض مسافر رات کو سفر کرتے ہیں ان کو روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، تو اس ضرورت کے تحت خداوندعالم نے چاند او رستاروں کو خلق فرمایا ہے تاکہ وہ اپنی نور افشانی سے خدا کی مخلوق کے لئے آسائش کا سامان فراھم کرےںاور اپنی منظم حرکت کے ذریعہ مسافروںکو راستہ کی طرف راہنمائی کریں اور کشی میں سوار مسافرین کو راستہ بھٹکنے سے روکے ر ہیں ۔

ستاروں کی دو قسم ہوتی ہیں ، ایک ثابت ستارے جو ایک جگہ اپنے معین فاصلہ پر رھتے ہیں ، اور دوسرے ستارے گھومتے رھتے ہیں ایک برج سے دوسرے برج کی طرف جاتے ہیں ، یہ ستارے اپنے راستہ سے ذرہ برابر بھی منحرف ن ہیں ہوتے، ان کی حرکت کی بھی دو قسمیں ہیں : ایک عمودی حرکت ہوتی ہے جو دن رات میں مشرق سے مغرب کی طرف انجام پاتی ہے، اور دوسری اس کی اپنی مخصوص حرکت ہوتی ہے، اور وہ مغرب سے مشرق کی طرف ہوتی ہے، جیسے اگر ایک چیونٹی چكّی کے پاٹ پر بیٹھ کر بائیں جانب حرکت کرے درحالیکہ چكّی داہنی جانب چلتی ہے، لہٰذا چیونٹی کی دو حرکت ہوتی ہیں ایک اپنے ارادہ سے اور دوسری چكّی کی وجہ سے، کیا یہ ستارے جن میں بعض اپنی جگہ قائم ہیں اور بعض منظم طور پر حرکت کرتے ہیں کیا ان کی تدبیر خداوندحکیم کے علاوہ ممکن ہے؟ اگر کسی صاحب حکمت کی تدبیر نہ ہوتی تو یا سب ساکن ہوتے یا سب متحرک، اور اگر متحرک بھی ہوتے تو اتنا صحیح نظم و ضبط کھاں پیدا ہوتا؟

ستاروں کی رفتار انسانوں کے تصور سے ک ہیں زیادہ ہے، اور ان کی روشنی اس قدر شدید ہے کہ اس کو دیکھنے کی تاب کسی بھی آنکھ میں ن ہیں ہے، خداوندعالم نے ھمارے اور ان کے درمیان اس قدر فاصلہ قرار دیا ہے کہ ھم ان کی حرکت کو درک ن ہیں کرسکتے، اور نہ ہی ان کی روشنی ھماری آنکھوں کے لئے نقصان دہ ہے، اگر اپنی مکمل رفتار کے ساتھ ھم سے نزدیک ہوتے، تو ان کے نور کی شدت کی وجہ سے ھماری آنک ہیں نابینا ہوجاتیں، اسی طرح جب پے در پے بجلی کڑکتی وچمکتی ہے آنکھ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، جس طرح سے اگر کچھ لوگ ایک کمرہ میں موجود ہوں اور وھاں پر تیز روشنی والے بلب روشن ہوں اور اچانک خاموش کردئے جائیں تو آنک ہیں پریشان ہوجاتی ہیں اور کچھ دکھائی ن ہیں دیتا۔

اے مفضل! اگر رہٹ کے ذریعہ کسی کنویں سے پانی نکال کر کسی باغ کی سینچائی کی جائے، عمارت، کنویں اور پانی نکالنے کے وسائل اس قدر منظم اور قاعدہ کے تحت ہوں کہ باغ کی صحیح سنچائی ہوسکے، اگر کسی ایسی رہٹ کو دیکھے تو کیا انسان کہہ سکتا ہے کہ یہ خود بخود بن گئی ہے، اور کسی نے اس کو ن ہیں بنایا ہے اور کسی نے منظم ن ہیں کیا ہے، یہ بات واضح ہے کہ عقل سلیم اس کے دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ایک ماھر اور ہوشیار شخص نے اس رہٹ کو اس اندازسے بنایا ہے، اور جب انسان پانی نکالنے والی ایک چھوٹی سی چیز کو دیکھنے کے بعد اس کے بنانے والے کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ ان تمام گھومنے والے اور ایک جگہ باقی رہنے والے ستاروں، شب و روز، سال کی چار فصلوں کو حساب شدہ دیکھے جبکہ ان میں ذرا بھی انحراف اور بے نظمی ن ہیں پائی جاتی تو کیا انسان اس قدر عظیم اور عجیب و غریب چیزوں کو دیکھ کر ان کے پیدا کرنے والے کو ن ہیں پہچان سکتا؟( ۲ ۷۰)

ایک شخص حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضرھوکر عرض کرتا ہے: مجھے علم کے عجائبات سکھادیجئے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا: کیا تجھے اصل علم کے بارے میں کچھ خبر ہے جو عجائب کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاھتا ہے؟ تو اس نے کھا: یا رسول اللہ! اصل علم کیا ہے؟ تو حضرت نے فرمایا: معرفت خدا، اور حق معرفت، اس نے کھا: حق معرفت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: خدا کی مثل و مانند اور شبیہ نہ ماننا، اور خدا کو واحد، احد، ظاھر، باطن، اول و آخر ماننا اور یہ کہ اس کا کوئی کفو و نظیر ن ہیں ہے، اور یھی معرفت کاحق ہے۔

پورے قرآن کریم میں اس مسلم اور ھمیشگی حقیقت پر توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ حقیقت اصل جھان اوراس دنیا کو پیدا کرنے والے اور اس کو باقی رکھنے والی کی ہے، انسان کے حواس کو ظاھری آنکھوں سے درک ن ہیں کیا جاسکتا، لہٰذا غیب کھا جاتا ہے، اور یہ تمام موجوات فنا ہونے والی ہیں لیکن اس کی ذات باقی ہے، نیز یہ کہ تمام موجوات کے لئے آغاز و انجام ہوتا ہے لیکن اس کے لئے کوئی آغاز اور انجام ن ہیں ہے، وھی اول ہے اور وھی آخر ۔

قرآن کریم کے تمام سوروں اور اس کی آیات میں اس حقیقت کو ”اللہ تعاليٰ“ کھا گیا ہے، اور ھر سورے میں متعدد بار تکرار ہوا ہے، اور تمام واقعیات اور تمام مخلوقات اسی واحد قھار کے اسم گرامی سے منسوب ہیں ۔

ھم جس مقدار میں خدا کی مخلوقات اور متعدد عالم کو ایک جگہ ضمیمہ کرکے مطالعہ کریں تو ھم دیک ہیں گے:

یہ تمام مجموعہ ایک چھوٹے عالم کی طرح ایک نظام کی پیروی کرتا ہے یھاں تک کہ اگر تمام وسیع و عریض عالم کو جمع کریں اور انسانی علم و سائنس کے جدید وسائل جیسے ٹلسکوپ " Telescop "وغیرہ کے ذریعہ کشف ہونے والی چیزوں کو ملاحظہ کریں تو جو نظام اور قوانین ایک چھوٹے نظام میں دیکھے جاتے ہیں ان ہی کو مشاہدہ کریں گے، اور اگر عالَموں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے تجزیہ و تحلیل کریں یھاں تک کہ ایک چھوٹے سے ”مولکل“" Molecule " (یعنی کسی چیز کا سب سے چھوٹا جز )کو بھی دیک ہیں گے تو ملاحظہ فرمائیں گے کہ اس کا نظام اس عظیم جھان سے کچھ بھی کم ن ہیں ہے، حالانکہ یہ تمام موجودات ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں ۔

المختصر یہ کہ تمام عالموں کا مجموعہ ایک موجود ہے، اور اس پر ایک ہی نظام کی حکومت ہے، نیز اس عالم کے تمام اجزاء و ذرات اپنے اختلاف کے باوجود ایک ہی نظام کے مسخر ہیں ۔

( وَعَنَتْ الْوُجُوهُ لِلْحَی الْقَیوم ) (۲۷۱)

”اس دن سارے چھرے خدائے حی وقیوم کے سامنے جھکے ہوںگے۔“

اس آیہ شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا اور ان کی تدبیر کرنے والا خداوندعالم ہے۔

( وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَانُ الرَّحِیمُ ) ۔(۲۷۲)

”اور تمھار ا خدا بس ایک ہے ۔اس کے علاوہ کوئی خدا ن ہیں ہے وھی رحمن بھی ہے اور وھی رحیم بھی “۔

فرشتے

قرآن مجید کی تقریباً ۹۰ آیات میں فرشتوں کا ذکر ہوا ہے۔

قرآن کریم نے فرشتوں کے دشمن کو کافر شمار کیا ہے، اور ملائکہ کا انکار کرنے والوں کو گمراہ قرار دیاھے۔

( مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِیلَ وَمِیكَالَ فَإِنَّ اللهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِینَ ) ۔(۲۷۳)

”اورجو بھی اللہ، ملائکہ، مرسلین، جبرئیل و مکائیل کا دشمن ہوگا، اسے معلوم رہے کہ خدا بھی تمام کافروں کا دشمن ہے“۔

( وَمَنْ یكْفُرْ بِاللهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْیوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلًا بَعِیدًا ) ۔(۲۷۴)

”اورجو شخص اللہ، ملائکہ، آسمانی کتابوں، رسولوں اور روز قیامت کا انکار کرے گا وہ یقینا گمراھی میں بھت دور نکل گیا ہے“۔

نہج البلاغہ کے پھلے خطبہ میںحضرت علی علیہ السلام فرشتوں کے سلسلہ میں بیان فرماتے ہیں :

”بعض سجدہ میں ہیں تو رکوع کی نوبت ن ہیں آتی ہے، بعض رکوع میں ہیں تو سر ن ہیں اٹھاتے، بعض صف باندھے ہوئے ہیں تو اپنی جگہ سے حرکت ن ہیں کرتے، بعض مشغول تسبیح ہیں تو خستہ حال ن ہیں ہوتے، سب کے سب وہ ہیں کہ ان کی آنکھوں پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے اور نہ عقلوں پر سھوو نسیان کا، نہ بدن میں سستی پیدا ہوتی ہے اور نہ دماغ میں نسیان کی غفلت۔

ان میں سے بعض کو وحی کا امین بنایا ہے اور رسولوں کی طرف قدرت کی زبان بنایا گیا ہے جو اس کے فیصلوں اور احکام کو برابر لاتے رھتے ہیں ، اور کچھ بندوں کے محافظ اور جنت کے دروازوں کے دربان ہیں اوران میں بعض وہ بھی ہیں جن کے قدم زمین کے آخری طبقہ میں ثابت ہیں اور گردنیں بلند ترین آسمانوں سے بھی باھر نکلی ہوئی ہیں ، ان کی اطراف بدن اقطار عالم سے وسیع تر ہیں اور ان کے کاندھے پایہ ھای عرش اٹھانے کے قابل ہیں ، ان کی نگا ہیں عرش الٰھی کے سامنے جھکی ہوئی ہیں ، اور وہ اس کے نیچے پروں کو سمیٹے ہوئے ہیں ، ان کے اور دیگر مخلوقات کے درمیان عزت کے حجاب اور قدرت کے پردے حائل ہیں ، وہ اپنے پروردگار کے بارے میں شکل و صورت کا تصور بھی ن ہیں کرتے ہیں ، نہ اس کے حق میں مخلوقات کے صفات جاری کرتے ہیں ، وہ نہ اسے مکان میں محدود کرتے ہیں اور نہ اس کی طرف اشباہ و نظائر سے اشارہ کرتے ہیں(۲۷۵)

جی ھاں، فرشتے بھی عالم غیب کے مصادیق ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید اور روایات میں بیان ہوا ہے، انسانی زندگی سے رابطہ کے پیش نظر خصوصاً نامہ اعمال لکھنے، انسان کے اچھے برے اعمال یا ان کی گفتگو اور زحمتوں کے لکھنے کے لئے معین ہیں ، یھی فرشتے ان کی روح قبض کرنے اور اھل جہنم پر عذاب دینے پر بھی مامور ہیں ، ملائکہ پر ایمان رکھنے سے انسان کی زندگی پر مثبت آثار پیدا ہوتے ہیں ، اور خداوندعالم کی اس نورانی مخلوق پر اعتقاد رکھنا معنوی زیبائیوں میں سے ہے۔

برزخ

موت کے بعد سے روز قیامت تک کی مدت کو قرآنی اصلاح میں برزخ کھا جاتا ہے۔

اس دنیا سے رخصت ہونے والے افراد پھلے برزخ میں وارد ہوتے ہیں ، اپنے عقائد و اعمال اور اخلاق کی بنا پر ان کی ایک زندگی ہوتی ہے، یہ ایک ایسی زندگی ہے جو نہ دنیا کی طرح ہے اور نہ آخرت کی طرح ہے۔

( حَتَّی إِذَا جَاءَ احَدَهم الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِی لَعَلِّی اعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَكْتُ كَلاَّ إِنَّها كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُها وَمِنْ وَرَائِهم بَرْزَخٌ إِلَی یوْمِ یبْعَثُونَ ) ۔(۲۷۶)

”یھاں تک کہ جب ان میں کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے ۔شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں۔ھر گز ن ہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رھا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے“۔

لیکن چونکہ قانون خلقت نہ نیک افراد کو اور نہ برے لوگوں کودنیا میں واپس پلٹنے کی اجازت دیتا، لہٰذا ان کو اس طرح جواب دیا جائے گا: ”ن ہیں ن ہیں ، ھرگز پلٹنے کا کوئی راستہ ن ہیں ہے“، اور یھی جواب انسان کی زبان بھی جاری ہوگا، لیکن یہ جملہ بے اختیار اور یونھی اس کی زبان پر جاری ہوگا، یہ وھی جملہ ہوگا کہ جب کوئی بدکار انسان یا کوئی قاتل اپنے کئے کی سزا کو دیکھتا ہے تو اس کی زبان پر بھی یھی جملہ ہوتا ہے، لیکن جب سزا ختم ہوجاتی ہے یا بلاء دور ہوجاتی ہے تو وہ انسان پھر وھی پرانے کام شروع کردیتا ہے۔

آیت کے آخر میں ایک چھوٹا سا لیکن پُر معنی اور اسرار آمیز جملہ برزخ کے بارے میں بیان ہوا ہے:” اس کے بعد روز قیامت تک کے لئے برزخ موجود ہے“۔

در اصل دو چیزوں کے درمیان حائل ہونے والی چیز کو برزخ کھتے ہیں ، اس کے بعد سے دو چیزوں کے درمیان قرار پانے والی چیز کو برزخ کھا جانے لگا، اسی وجہ سے دنیا و آخرت کے درمیان قرار پانے والے عالم کو ”عالم برزخ “کھا جاتا ہے۔

عالم قبر یا عالم ارواح کے سلسلہ میں منقولہ دلائل موجود ہیں ، قرآن مجید کی بھت سی آیات برزخ پر دلالت کرتی ہیں جن میں سے بعض بطور اشارہ اور بعض صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہیں ۔

آیہ کریمہ( وَمِنْ وَرَائِهم بَرْزَخٌ إليٰ یوْمِ یبْعَثُوْنَ ) ، عالم برزخ کے بارے میں واضح ہے۔

جن آیات میں وضاحت کے ساتھ عالم برزخ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے وہ شہداء کے سلسلہ میں نازل ہوئیں ہیں ، جیسے:

( وَلاَتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ امْوَاتًا بَلْ احْیاءٌ عِنْدَ رَبِّهم یرْزَقُونَ ) ۔(۲۷۷)

”اور خبر دار راہ خدا میں قتل ہونے والوںکو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یھاں رزق پارہے ہیں “۔

نہ صرف یہ کہ شہداء کے لئے برزخ موجود ہے بلکہ کفار، فرعون جیسے ظالم وجابر اور اس کے ساتھیوںکے بارے میں برزخ موجود ہے، سورہ مومن کی آیت نمبر ۲۶ میں اس چیزکی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

( النَّارُ یعْرَضُونَ عَلَیها غُدُوًّا وَعَشِیا وَیوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ ادْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ اشَدَّ الْعَذَابِ )

”وہ جہنم جس کے سامنے ھر صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت برپا ہوگی تو فرشتوں کو حکم ہوگا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب کی منزل میں داخل کردو“۔

شیعہ سنی مشھور کتابوں میں بھت سی روایات بیان ہوئی ہیں جن میں عالم برزخ، عالم قبر اور عالم ارواح کے بارے میں مختلف الفاظ وارد ہوئے ہیں ، چنانچہ نہج البلاغہ میں وارد ہوا ہے کہ جب حضرت امیر المومنین علیہ السلام جنگ صفین کی واپسی پر کوفہ کے اطراف میں ایک قبرستان سے گزرے تو قبروں کی طرف رخ کرکے فرمایا:

”اے وحشت ناک گھروں کے رہنے والو! اے ویران مکانات کے باشندو! اور تاریک قبر کے بسنے والو! اے خاک نشینو! اے غربت، وحدت اور وحشت والو! تم ھم سے آگے چلے گئے ہو اور ھم تم سے ملحق ہونے والے ہیں ، دیکھو تمھارے مکانات آباد ہوچکے ہیں تمھاری بیویوں کا دوسرا عقد ہوچکا ہے اور تمھارے اموال تقسیم ہوچکے ہیں ، یہ تو ھمارے یھاں کی خبر ہے، اب تم بتاؤ کہ تمھارے یھاں کی خبر کیا ہے؟

اس کے بعد اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا: اگر ان ہیں بولنے کی اجازت مل جاتی تو تم ہیں صرف یہ پیغام دیتے کہ بھترین زاد راہ؛ تقويٰ الٰھی ہے“۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے:

اِنَّ الْقَبْرَ اِمّا رَوْضَةٌ مِنْ رِیاضِ الْجَنَّةِ، اَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النّیرانِ “۔

”قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

اَلبَرْزَخُ الْقَبْرُ، وَهُوَ الثَّوابُ وَالْعِقابُ بَینَ الدُّنْیا وَالْآخِرَةُوَاللّٰهِ مَانَخافُ عَلَیكُم اِلاَّ الْبَرْزَخَ “۔

”برزخ وھی قبر ہے کہ جھاں دنیا و آخرت کے درمیان عذاب یا ثواب دیا جائے گا، خدا کی قسم، ھم تمھارے بارے میں برزخ سے ڈرتے ہیں “۔

روای نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا: برزخ کیا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:

القَبْرُ مُنْذُ حینِ مَوْتِهِ اِليٰ یوْمِ القِیامَةِ “۔

”موت سے لے کر روز قیامت تک قبر میں رہنے کا نام ہی برزخ ہے“۔

عظیم الشان کتاب ”کافی“ میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

فی حُجُراتٍ فِی الجَنَّةِ یاكُلُونَ مِنْ طَعامِها، وَ یشْرَبُونَ مِنْ شَرابِها، وَیقولُونَ :رَبَّنا اَقِمْ لَنَا السَّاعَةَ، وَانْجِزْ لَنا ما وَعَدْتَنا “۔

”مرنے کے بعد مومنین کی ارواح جنت کے حجروں میں رھتی ہے، (وہ لوگ) جنتی غذا کھاتے ہیں ، جنت کا پانی پیتے ہیں ، اور کھتے ہیں : پالنے والے! جتنا جلدی ہوسکے روز قیامت برپا کردے اور ھم سے کئے ہوئے وعدہ کووفا فرما“۔

عالم برزخ پر عقیدہ کے سلسلہ میں قرآن مجید اور روایات میں بیان موجود ہے، جو معنوی زیبائیوں میں سے ہے، جس پر توجہ رکھنے سے نیک افراد اور بدکار لوگوں کی زندگی پر مفید آثار برآمد ہوتے ہیں اور جس سے انسان تقويٰ، پرھیزگاری اور ظاھر و باطن کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔

محشر

روز قیامت اور روز محشرایک ایسی حقیقت ہے جس کے با رے میں تمام آسمانی کتابوں، انبیاء کرام اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے خبر دی ہے جھاں پر تمام لوگ اپنی نیکی یا بدی کی جزا یا سزا پائےں گے ۔

روز قیامت پر اعتقاد رکھنا ایمان کا ایک حصہ ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔

قرآن مجید میں ایک ہزار آیات سے زیادہ اور بھت سی احادیث میں قیامت سے متعلق تفصیلی بیان ہوا ہے:

( رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِیوْمٍ لاَرَیبَ فِیهِ إِنَّ اللهَ لاَیخْلِفُ الْمِیعَادَ ) ۔(۲۷۸)

” خدا یا! تو تمام انسانوں کواس دن جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شک ن ہیں ہے ۔اور اللہ کا وعدہ غلط ن ہیں ہوتا “۔

( فَكَیفَ إِذَا جَمَعْنَاهم لِیوْمٍ لاَرَیبَ فِیهِ وَوُفِّیتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهم لاَیظْلَمُونَ ) ۔(۲۷۹)

”اس وقت کیا ہوگا جب ھم سب کو اس دن جمع کریں گے جس میں کسی شک اور شبہہ کی گنجائش ن ہیں ہے اورھر نفس کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر (ذرہ برابر) ظلم ن ہیں کیا جائے گا“۔

( وَلَئِنْ مُتُّمْ اوْ قُتِلْتُمْ لَإِلَی اللهِ تُحْشَرُون ) ۔(۲۸۰)

”اور تم اپنی موت سے مرو یا قتل ہو جاوسب اللہ ہی کی بارگاہ میں حاضر کئے جاوگے“۔

( وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِی إِلَیهِ تُحْشَرُونَ ) ۔(۲۸۱)

”اور اس خدا سے ڈرتے رھو جس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے“۔

( لَیجْمَعَنَّكُمْ إِلَی یوْمِ الْقِیامَةِ لاَرَیبَ فِیهِ ) (۲۸۲)

”وہ تم سب کو قیامت کے دن اکٹھا کرے گا جس میں کسی شک کی گنجائش ن ہیں ہے“۔

( وَالْمَوْتَی یبْعَثُهم اللَّهُ ثُمَّ إِلَیهِ یرْجَعُونَ ) ۔(۲۸۳)

”اور مردوں کو تو خدا ہی اٹھا ئے گا اور پھر اس کی بارگاہ میں پلٹا دئے جائیں گے“۔

( وَسَیرَی اللهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیبِ وَالشَّهادَةِ فَینَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔(۲۸۴)

”وہ یقینا تمھارے اعمال کو دیکھ رھا ہے اور رسول بھی دیکھ رھا ہے اس کے بعد تم حاضر وغیب کے عالم خدا کی بارگاہ میں واپس کئے جاوگے اور وہ تم ہیں تمھارے اعمال سے با خبر کرے گا“۔

( ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَیتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ یوْمَ الْقِیامَةِ تُبْعَثُونَ ) ۔(۲۸۵)

”پھر اس کے بعد تم سب مر جانے والے ہو۔پھر اس کے بعد تم روز قیامت دوبارہ اٹھائے جاوگے“۔

( لاَ اقْسِمُ بِیوْمِ الْقِیامَةِ وَلاَاقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ایحْسَبُ الْإِنسَانُ الَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ بَلَی قَادِرِینَ عَلَی انْ نُسَوِّی بَنَانَهُ ) ۔(۲۸۶)

”میں روز قیامت کی قسم کھاتا ہوں۔اور برائیوں پر ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں۔کیا یہ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ھم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے۔یقینا ھم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے پورتک درست کرسکیں“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : جناب جبرئیل حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے او رآنحضرت کو قبرستان بقیع میں لے گئے، آپ کو ایک قبر کے پاس بٹھایا اور اس قبر کے مردہ کو آواز دی کہ بہ اذن الٰھی اٹھ کھڑا ہو، وہ فوراً باھر آگیا! ایک ایسا شخص جس کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے قبر سے باھر نکلادر حالیکہ اپنے منھ سے گردوخاک ہٹاتے ہوئے کھتا تھا:”الحمد لله و الله اکبر“، اس وقت جناب جبرئیل نے اس سے کھا: بہ اذن خدا واپس ہوجا، اس کے بعد پیغمبر اکرم کو ایک دوسری قبر کے پاس لے گئے اور اس سے کھا: حکم خدا سے اٹھ کھڑا ہو، چنانچہ ایک شخص نکلا جس کا چھرہ سیاہ تھا اور کہنے لگا: ھائے افسوس! ھائے ھلاکت و بیچارگی! چنانچہ جناب جبرئیل نے اس سے کھا: حکم خدا سے واپس ہوجا۔ اس کے بعد جناب جبرئیل نے کھا: اے محمد! تمام مردے اسی طرح سے روز قیامت محشور ہوں گے(۲۸۷)

لقمان حکیم اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :اے میرے بیٹے! اگر تم ہیں مرنے میں شک ہے تو سونا چھوڑو لیکن ن ہیں چھوڑسکتے، اگر روز قیامت قبر سے اٹھائے جانے میں شک رکھتے ہو تو بیدار رہنا چھوڑدو لیکن ن ہیں چھوڑسکتے، لہٰذا اگر سونے اور جاگنے میں غور و فکر کرو تو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ تمھارا اختیار کسی دوسرے کے ھاتھ میں ہے، بے شک نیند موت کی طرح ہے اور بیداری اور جاگنا مرنے کے بعد قبر سے اٹھانے کی مانند ہے(۲۸۸)

بھر حال پورے قرآن کریم میں قیامت اور اس کے صفات کے بارے میں بھت زیادہ تکرار، تاکید اور وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے، صرف بعض مقامات پر استدلال اور برھان بیان ہوا، برخلاف اثبات توحید کے کہ جھاں پر دلیل و برھان کے ساتھ ساتھ خداوندعالم کی قدرت و حکمت کا بیان بھی ہوا ہے، کیونکہ جب انسان توحید خدا کو قبول کرلیتا ہے تو اس کے لئے معاد اور قیامت کا مسئلہ واضح ہوجاتا ہے۔

اسی وجہ سے قرآن مجید میں روز قیامت کی تشریح و توصیف سے پھلے یا اس کے بعد خدا کی قدرت و توانائی کے بارے میں بیان ہوا ہے، درحقیقت خداوندعالم کے وجود کے دلائل یقینی طور پر معاد کے دلائل بھی ہیں ۔

جھاں پر روز قیامت اور مردوں کے زندہ ہونے پر واضح دلیل بیان ہوئی ہے، وھاں بھی یھی دلیل و برھان قائم کی گئی ہے؛ کیونکہ کوئی بھی یہ ن ہیں کھتا: قیامت کا ہونا کیوں ضروری ہے؟ تاکہ گناھوں کے بارے میں فیصلہ ہوسکے، اور نیک افراد اور برے لوگوں کو جزا یا سزا دی جاسکے، اس پر کوئی اعتراض ن ہیں کرتا بلکہ انکار کرنے والوں کا اعتراض اور اشکال یہ ہوتا ہے کہ کس طرح یہ جسم خاک میں ملنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوگا؟ اسی وجہ سے خداوندعالم نے واضح طور پر یا دلائل توحید کے ضمن میںروز قیامت کے دلائل سے زیادہ منکرین کے لئے جواب دئے ہیں تاکہ منکرین سمجھ لیں کہ جس قدرت خدا کے ذریعہ یہ کائنات خلق ہوئی ہے اسی قدرت کے پیش نظر قیامت کوئی مشکل کام ن ہیں ہے، وھی خالق جس نے شروع میں حیات اور وجود بخشا تو اس کے لئے دوبارہ زندہ کرنا اور دوبارہ حیات دینا کوئی مشکل کام ن ہیں ہے۔

قرآن مجید نے منکرین، مخالفین اور ملحدین کے اعتراض کو سورہ يٰس میں اس طرح بیان کیا ہے:

( اوَلَمْ یرَ الْإِنسَانُ انَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِیمٌ مُبِینٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَنَسِی خَلْقَهُ قَالَ مَنْ یحْی الْعِظَامَ وَهِی رَمِیمٌ قُلْ یحْییها الَّذِی انشَاها اوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ ) ۔(۲۸۹)

”توکیا انسان نے یہ ن ہیں دیکھا کہ ھم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا ہے اور وہ

یکبارگی ھمارا کھلا ہوا دشمن ہوگیا ہے۔اور ھمارے لئے مثل بیان کرتا ہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے کھتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے۔ (اے رسول!) آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پھلی مرتبہ پیدا کیا ہے وھی زندہ بھی کرے گا اور وہ ھر مخلوق کا بھتر جاننے والا ہے“۔

ان آیات میں پھلے انسان کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ تو پھلے تو کچھ ن ہیں تھا اور ایک نطفہ سے زیادہ ارزش ن ہیں رکھتا تھا، لہٰذا انسان کو غور و فکر کی دعوت دی جاتی ہے کہ کیا انسان تونے ن ہیں دیکھا، توجہ ن ہیں کی، غور وفکر ن ہیں کیا کہ ھم نے تجھے ایک نطفہ سے خلق کیا ہے اور اب اتناطاقتور، صاحب قدرت اور باشعور ہوگیا کہ اپنے پروردگار سے مقابلہ کے لئے کھڑا ہوگیا اور علی الاعلان اس سے پر برسرپیکارہے ؟!

پھلے انسان کو مخاطب کیاگیا ہے، یعنی ھر انسان چاھے کسی مذھب کا ماننے والا ہو یا اس کا علم و دانش کسی بھی حد میں ہو اس حقیقت کو درک کرسکتا ہے۔

اس کے بعد نطفہ کے بارے میں گفتگو کی ہے، (لغت میں نطفہ کے معنی ناچیز او ربے ارزش پانی کے ہیں )تاکہ انسان مغرور نہ ہوجائے لہٰذا تھوڑا بھت اپنی ابتداء کے بارے میں بھی جان لے کہ وہ پھلے کیا تھا؟ اس کے علاوہ صرف یھی ایک ناچیز قطرہ اس کی رشد و نمو کے لئے کافی ن ہیں تھا بلکہ اس ایک قطرہ میں چھوٹے چھوٹے ہزاروں سلولز تھے جو آنکھوں سے ن ہیں دیکھے جاسکتے اور یہ زندہ سلولز رحم مادر میں بھت چھوٹے سلولز سے باھم ملے اور انسان ان چھوٹے موجود سے وجود میں آیا ہے۔

اپنے رشد و نمو کی منزل کو یکے بعد دیگرے طے کیا، سورہ مومنون کی ابتدائی آیات نے ان چھ مراحل کی طرف اشارہ کیا ہے: نطفہ، علقہ (مضغہ) ہڈیوں کا ظاھر ہونا، ہڈیوں پر گوشت پیدا ہونا اور آخر میں روح کی پیدائش اور حرکت۔

انسان پیدائش کے وقت ضعیف و ناتواں بچہ تھا، اس کے بعد تکامل کے مرحلوں کو تیزی کے ساتھ طے کیا یھاں تک کہ عقلانی اور جسمانی بلوغ تک پہنچ گیا۔

یہ کمزور اور ناتواں بچہ اس قدر طاقتور ہوا کہ خدا کے مد مقابل کھڑا ہوگیا، اس نے اپنی عاقبت کو بالکل ہی بھلادیااور ”خصیم مبین“ کا واضح مصداق بن گیا۔

انسان کی جھالت کا اندازہ لگائیں کہ ھمارے لئے مثال بیان کرتا ہے اور اپنے زعم ناقص میں داندان شکن دلیل حاصل کرلی ہے، حالانکہ اپنے پھلے وجود کو بھول گیا ہے اور کھتا ہے: ان بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرنے والا کون ہے ؟!

جی ھاں، وہ منکر معاند(دشمن) خصیم مبین (کھلا ہوا دشمن) بغض و کینہ رکھنے والااور بھول جانے والا، جنگل بیابان سے ایک بوسیدہ ہڈی کو پالیتا ہے جس ہڈی کے بارے میں یہ بھی معلوم ن ہیں ہے کہ کس کی ہے؟ اپنی موت پر مرا ہے یا زمان جاھلیت کی جنگ میں دردناک طریقہ سے ماراگیا ہے یا بھوک کی وجہ سے مرگیا ہے؟ بھر حال ہڈی کو پاکر یہ سوچتا تھا کہ قیامت کے انکار پر ایک دندان شکن دلیل مل گئی ہے، غصہ اور خوشحالی کی حالت میں اس ہڈی کو اٹھاکر کھتا ہے: اسی دلیل کے سھارے میں محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) سے ایسا مقابلہ کروں گا جس کا کوئی جواب نہ دیا جاسکے!

تیزی کے ساتھ چل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور فریاد بلند کی: ذرا بتائےے تو سھی کہ اس بوسیدہ ہڈی کو کون دوبارہ لباس ِحیات پہناسکتا ہے؟ اس کے بعد اس ہڈی کو مسلتے ہوئے زمین پر ڈال دیا، وہ سوچتا تھا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے پاس اس کو کوئی جواب ن ہیں پن پائے گا۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے ایک چھوٹے سے جملہ( نسی خلقہ) کے ذریعہ پورا جواب دیدیا، اگرچہ اس کے بعد مزید وضاحت اور دلائل بھی بیان کئے ہیں ۔

ارشاد ہوا: اگر تو نے اپنی پیدائش کو نہ بُھلایا ہوتا تو اس طرح کی بے بنیاد دلیل نہ دیتا؛ اے بھولنے والے انسان! ذرامڑکرتو دیکھ اور اپنی پیدائش کے بارے میں غور و فکر کر کہ اول خلقت میں کس قدر ذلیل پانی تیرا وجود تھا، ھر روز ایک نئی زندگی کی شروعات تھی، تو ھمیشہ موت و معاد کی حالت میں ہے، لیکن اے بھولنے والے انسان! تو نے سب کچھ بالائے طاق رکھ دیا اور اپنی خلقت کو بھول گیا اور اب پوچھتا ہے کہ کون اس بوسیدہ ہڈی کو دوبارہ زندہ کرسکتا ہے؟یہ ہڈی جب مکمل طور پر بوسیدہ ہوجائے گی تو خاک بن جائے گی، کیا تو روز اول خاک ن ہیں تھا؟! فوراً ہی پیغمبر کو حکم ہوتا ہے کہ اس مغرور اور بھولنے والے سے کہہ دو: ”وھی اس کو دوبارہ زندہ کرے گا جس نے روز اول اس کو پیدا کیا ہے“(۲۹۰)

اگر آج یہ بوسیدہ ہڈی باقی رہ گئی ہے تو پھلے تو یہ ہڈی بھی ن ہیں تھی یھاں تک کہ مٹی اور خاک بھی ن ہیں تھی، جی ھاں جس نے اس انسان کو عدم کی وادی سے وجود عطا کیا تو اس کے لئے بوسیدہ ہڈی سے دوبارہ پیدا کرنا بھت آسان ہے۔

اگر تو یہ سوچتا ہے کہ یہ بوسیدہ ہڈیاں خاک ہوکر تمام جگھوں پر پھیل جائیں گی، تو ان ہڈیوںکو کون پہچان سکتا ہے اور کون ان کو مختلف جگہ سے جمع کرسکتا ہے؟ تو اس چیز کا جواب بھی واضح اور روشن ہے کہ وہ تمام مخلوقات سے آگاہ ہے اور اس کی تمام خصوصیات کو جانتا ہے:

( وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ )

”اور وہ ھر مخلوق کا بھترین جاننے والا ہے“۔

جس کے پاس اس طرح کا علم اور قدرت ہو تو اس کے لئے معاد اور مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا کوئی مشکل کام ن ہیں ہے۔

ایک مقناطیس کے ذریعہ مٹی کے نیچے بکھرے ہوئے لوھے کے ذرات کو جمع کیا جاسکتا ہے جبکہ

یہ مقناطیس ایک بے جان چیز ہے، تو کیاخداوندعالم انسان کے بکھرے ہوئے ھر ذرہ کو ایک اشارہ سے جمع ن ہیں کرسکتا؟

وہ نہ صرف انسان کی خلقت سے آگاہ ہے بلکہ انسان کی نیتوں اور اس کے اعمال سے بھی آگاہ ہے، انسان کا حساب و کتاب اس کے نزدیک واضح و روشن ہے۔

لہٰذا اس کے اعمال، اعتقادات اور نیتوں کا حساب کرنا اس کے لئے کوئی مشکل ن ہیں ہے:

( وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِی انفُسِكُمْ اوْ تُخْفُوهُ یحَاسِبْكُمْ بِهِ ) ۔(۲۹۱)

”تم اپنے دل کی باتوں کا اظھار کرو یا ان پر پردہ ڈالو، وہ سب کا محاسبہ کرلے گا“۔

اسی وجہ سے جناب موسيٰ علیہ السلام کو حکم ملا کہ فرعون (جو معاد کے بارے میں شک کرتا تھا اور صدیوں پرانے لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور ان کے حساب و کتاب سے تعجب کرتا تھا)سے کہہ دو :

( عِلْمُها عِنْدَ رَبِّی فِی كِتَابٍ لاَیضِلُّ رَبِّی وَلاَینسَی ) ۔(۲۹۲)

”ان باتوں کا علم میرے پروردگار کے پاس اس کا کتاب میں محفوظ ہے، وہ نہ بہکتا ہے اور نہ بھولتا ہے“(۲۹۳)

بھر حال روز قیامت، روز محشر اورحساب و کتاب کا مسئلہ غیب کے مصادیق میں سے ہے، جس پرقرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں اعتقاد اور ایمان رکھنا معنوی اور روحانی زبیائیوں میں سے ہے، جس سے انسان رشد و کمال کے درجات اور صحیح تربیت حاصل کرلیتاھے، جو انسانی زندگی میں بھت موثر اور ثمر بخش نتائج کا حامل ہے۔

حساب

روز قیامت میں تمام انسانوں کے عقائد، اخلاق اور اعمال کا حساب و کتاب ایک ایسی حقیقت ہے جس کو قرآن کریم اور معارف الٰھی نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔

یہ بات قابل قبول ن ہیں ہے کہ نیک افراد صدق و صفا، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ میں اپنی پوری عمر بسر کریں اور دوسروں کو بھی فیض پہنچائیں، اور ان کے مرنے کے بعد ان کے اعمال کی فائل بند ہوجائے اور ان کا حساب و کتاب نہ کیا جائے، ان کی زندگی کی کتاب کا دوبارہ مطالعہ نہ کیا جائے اور ان کو کوئی جزا یا انعام نہ ملے۔

اسی طرح یہ بات بھی قابل قبول ن ہیں ہے کہ ناپاک کفارو مشرکین، ملحداور اھل طاغوت، ظلم و ستم، جھالت و غفلت، پستی و ناپاکی، خیانت و ظلم اور غارت گری میں اپنی پوری عمر گزار نے والے، لوگوں پر ظلم و ستم کریں ان کو اذیت پہنچائیں، بھت سے افراد کو ان کے حق سے محروم کردیں، ان کے مرنے کے بعد ان کے اعمال کی فائل بند کردی جائے، ان کا کوئی حساب و کتاب نہ کیا جائے، ان کی زندگی کی کتاب کا دوبارہ مطالعہ نہ کیا جائے اور ان کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جائے۔

خداوندعالم کے عدل، حکمت، رحمت اور غضب کا تقاضا ہے کہ ایک روز تمام انسانوں کو جمع کرے، ان کے عقائد اور اعمال کا حساب کرے، اور ھر شخص کو اس کے نامہ اعمال کے لحاظ سے جزا یا سزا دے۔

نیک اور صالح افراد کے حساب و کتاب کے بارے میں قرآن مجید فرماتا ہے:

( وَمِنْهم مَنْ یقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اوْلَئِكَ لَهم نَصِیبٌ مِمَّا كَسَبُوا وَاللهُ سَرِیعُ الْحِسَابِ ) ۔(۲۹۴)

”اور بعض کھتے ہیں کہ پروردگار ھمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرمااور آخرت میں بھی اور ھم کو عذاب سے محفوظ فرما۔یھی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کی کمائی کا حصہ ہے اور خدا بھت جلد حساب کرنے والا ہے“۔

( ثُمَّ رُدُّوا إِلَی اللَّهِ مَوْلاَهم الْحَقِّ الاَلَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ اسْرَعُ الْحَاسِبِینَ ) ۔(۲۹۵)

”پھر سب اپنے مولائے برحق پروردگار کی طرف پلٹا دیئے جاتے ہیں آگاہ ہو جاو کہ فیصلہ کا حق صرف اسی کو ہے اور وہ بھت جلد ی حساب کرنے والاھے۔

( فَامَّا مَنْ اوتِی كِتَابَهُ بِیمِینِهِفَسَوْفَ یحَاسِبُ حِسَاباً یسِیراً ) ۔(۲۹۶)

”پھر جس کو نامہ اعمال داہنے ھاتھ میں دیا جائے گا۔اس کا حساب آسان ہوگا“۔

حضرت امام موسيٰ کاظم علیہ السلام اپنے آباء و اجداد کے حوالہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

لَا تَزولُ قَدَما عَبْدٍٴ یوْمَ الْقِیامَةِ حَتّی یسْالَ عَنْ ارْبَعٍ :عَنْ عُمْرِهِ فِیما اَفْناهُ، وَشَبابِهِ فِیما اَبْلاهُ وَعَنْ مَالِهِ مِنْ اَینَ كَسَبَهُ وَفِیمااَنْفَقَهُ، وَعَنْ حُبِّنَا اَهل الْبَیتِ(۲۹۷)

”روز قیامت انسان کے قدم ن ہیں بڑ ہیں گے مگر یہ کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے : کس چیز میں اپنی عمر گزاری، جوانی کو کن چیزوں میں گزارا، مال و دولت کھاں سے حاصل کی اور کھاں خرچ کی، نیز محبت اھل بیت(علیھم السلام) کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

بے شک جن مومنین نے اپنی عمر او رجوانی کو عبادت و اطاعت میں صرف کیا ہوگا، اور قرآن کے حکم کے مطابق اپنی دولت کو خرچ کیا ہے، اور محبت اھل بیت علیھم السلام میں اپنی عمر گزاری ہے، تو روز قیامت ایسے افراد کا حساب آسان ہوگا، اور حشر کے میدان میں ان کو کوئی پریشانی ن ہیں ہوگی، اور ان کا حساب و کتاب بھت جلد ہوجائے گا۔

ایک شخص امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرتا ہے: اے فرزند رسول! میں آپ کی خدمت میں ایک حاجت رکھتا ہوں، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: مجھ سے مكّہ میں ملنا، میںمكّہ میں حضرت سے ملا اور اپنی حاجت کے بارے میں کھا تو حضرت نے فرمایا: منيٰ میں مجھ سے ملنا، چنانچہ میں منيٰ میں حضرت سے ملااور اپنی حاجت کے بارے میں کھا، تو امام علیہ السلام نے کھا: کھو کیا کہنا چاھتے ہو؟ میں نے کھا: میں ایک ایسے گناہ کا مرتکب ہوا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی اس سے مطلع ن ہیں ہے، اس گناہ کا بوجھ مجھے مارے ڈال رھا ہے، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں تاکہ اس سے نجات مل جائے، اور اس گناہ کے بوجھ سے سبکدوش ہوجاؤں، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: جب خداوندعالم روز قیامت برپا کرے گا اور اپنے مومن بندوں کا حساب کرے گا تو ان کے تمام گناھوں سے آگاہ کرے گا، پھر اپنی رحمت و مغفرت میں جگہ دے گا اور اپنے بندے کے بخشے گئے گناھوں سے کسی فرشتہ یا رسول کو بھی باخبر ن ہیں کرے گا!(۲۹۸)

مومنین کے حساب کے سلسلے میں ایک بھت اھم روایت علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے اپنی گزانقدر کتاب بحار الانوار میں امالی شیخ طوسی علیہ الرحمہ کے حوالہ سے حضرت علی علیہ السلام سے نقل کی ہے، جو واقعاً تعجب خیز اور امیدوار کرنے والی ہے! روایت یوں ہے:

یوقَفُ الْعَبْدَ بَینَ یدَی اللّٰهِ فَیقُولُ :قیسُوا بَینَ نِعَمی عَلَیهِ وَ بَینَ عَمَلِهِ، فَتَسْتَغْزِقُ النِّعَمُ الْعَمَلَ، فَیقولونَ:قَدِ اسْتَغْرَقَ النِّعَمُ الْعَمَلَ، فَیقُولُ : هَبُوا لَهُ نِعَمِی، وَ قیسُوا بَینَ الْخَیرِ وَ الشَّرِّ مِنْهُ، فَاِنِ اسْتَوَی الْعَمَلانِ اَذْهَبَ اللّٰهُ الشَّرَّ بِالْخَیرِ وَاَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ، وَاِنْ کانَ لَهُ فَضْلٌ اَعْطاهُ اللّٰهُ بِفَضْلِهِ، وَاِنْ کاَنَ عَلَیهِ فَضْلٌ وَهُوَ مِنْ اَهل التَّقْويٰ لَمْ یشْرِكْ بِاللّٰهِ تَعاليٰ وَاتَّقَی الشِّرْكَ بِهِ فَهُوَ مِنْ اَهل الْمَغْفِرَةِ یغْفِر اللّٰهُ لَهُ بِرَحْمَتِهِ اِنْ شاءَِ وَ یتَفَضَّلُ عَلَیهِ بِعَفْوِهِ(۲۹۹)

”بندہ کو خدا کی بارگاہ میں حاضر کیا جائے گا اور خدا فرمائے گا:میری نعمتوں اور اس کے اعمال کا موازنہ کرو، چنانچہ جب نعمتیں اس کے تمام اعمال کو چھپالیں گی تو فرشتے عرض کریں گے: پالنے والے! اس کے اعمال پر تیری نعمتیں غالب ہیں ، خطاب ہوگا: میری نعمتوں کو بخش دو، اس کی نیکیوں اور برائیوں کے درمیان موازنہ کرو، اگر اس کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوگئیں تو اس کی برائیوں کو نیکیوں کے احترام میں بخش دو، اس کو بہشت میں وارد کردو، اور اگر اس کی نیکیاں زیادہ ہیں تو نیکیوں کی وجہ سے اس کو مزید عطا کردو، اوراگر اس کی برائیاں زیادہ ہیں لیکن اھل تقويٰ ہے اور خدا کے ساتھ شرک ن ہیں کیا ہے، تو یہ شخص مغفرت کا سزاوار ہے، خداوندعالم اگر چاھے تو اپنی رحمت کے ذریعہ اس کے گناھوں کو بخش دے گا اور اپنے عفو وکرم سے اس پر فضل و کرم کرے گا!“

علامہ مجلسی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب بحار الانوار میں اصول کافی سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: روز قیامت نعمتوں، نیکیوں اور برائیوں کے درمیان مقائسہ کیا جائے گا۔

نعمتوں اور نیکیوں کا آپس میں موازنہ کیا جائے گا، نعمتیں، نیکیوں سے زیادہ ہوں گی، برائیوں کی فائل کی شکست ہوگی، مومن انسان کو حساب کے لئے بلایا جائے گا، اس وقت قرآن کریم بھترین صورت میں اس مومن بندے کے پاس حاضر ہوکر یوں گویا ہوگا: پروردگارا! میں قرآن ہوں اور یہ تیرا مومن بندہ، اس نے میری تلاوت کے لئے زحمتیں اٹھائی ہیں ، راتوں میری تلاوت میں مشغول رھا ہے، نماز شب میں اپنی آنکھوں سے آنسو بھائے ہیں ، پالنے والے! اس سے راضی ہوجا، اس وقت خدائے عزیز و جباربندہ مومن سے خطاب فرمائے گا: اپنا داہنا ھاتھ کھول، چنانچہ اس کے داہنے ھاتھ کو اپنی رضوان سے بھردے گا اور بائیں ھاتھ کو اپنی رحمت سے بھر دے گا، اور پھر اپنے مومن بندہ سے خطاب فرمائے گا: یہ بہشت تیرے لئے مباح ہے، قرآن پڑھتا جا اور بلند و بالادرجات کی طرف بڑھتا جا، چنانچہ انسان جس مقدار میں قرآن کی آیتوں کی تلاوت کرتا رہے گا اسی مقدار میں جنت کے درجات پر فائز ہوتا جائے گا۔

گناھگاروں، بدکاروں، ملحدوں اور بے دین لوگوں کے حساب اور ان کے نامہ اعمال کے پڑھے جانے کے سلسلہ میں قرآن مجید اور روایات میں پڑھتے ہیں :

( وَمَنْ یكْفُرْ بِآیاتِ اللهِ فَإِنَّ اللهَ سَرِیعُ الْحِسَابِ ) ۔(۳۰۰)

”اور جو بھی آیات الٰھی کا انکار کرے گا تو خدا بھت جلد حساب کرنے والاھے“۔

( وَالَّذِینَ لَمْ یسْتَجِیبُوا لَهُ لَوْ انَّ لَهم مَا فِی الْارْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ اوْلَئِكَ لَهم سُوءُ الْحِسَابِ وَمَاوَاهم جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهادُ ) ۔(۳۰۱)

”اور جو اس کی بات کو قبول ن ہیں کرتے ان ہیں زمین کے سارے خزانے بھی مل جائیں اور اسی قدر اور بھی مل جائے تو یہ بطور فدیہ دے دیں گے لیکن ان کے لئے بد ترین حساب ہے اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بھت بُرا ٹھکانا ہے“۔

( وَكَاینْ مِنْ قَرْیةٍ عَتَتْ عَنْ امْرِ رَبِّها وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاها حِسَابًا شَدِیدًا وَعَذَّبْنَاها عَذَابًا نُكْرًا ) ۔(۳۰۲)

”اور کتنی ہی بستیاں ایسی ہیں جنھوں نے حکم خدا و رسول کی نافرمانی کی تو ھم نے ان کا شدید محاسبہ کر لیا اور ان ہیں بد ترین عذاب میں مبتلا کردیا“۔

( اِلاَّ مَنْ تَوَلّٰی وَكَفَرَفَیعَذِّبُهُ اللّٰهُ الْعَذَابَ الْاَكْبَرَاِنَّ اِلَینَا اِیابَهُمْثُمَّ اِنَّ عَلَینَا حِسَابَهُمْ ) ۔(۳۰۳)

”مگر منھ پھیرلے اور کافر ہوجائے۔تو خدا اسے بھت بڑے عذاب میں مبتلا کرے گا۔پھر ھمارے ہی طرف ان سب کی باز گشت ہے۔اور ھمارے ہی ذمہ ان سب کا حساب ہے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام درج ذیل آیہ قرآن( إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اوْلَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ) ۔(۳۰۴) کے بارے میں فرماتے ہیں :

یسْالُ السَّمْعَ عَمّا یسْمَعُ، وَالْبَصَرَ عَمّا یطْرِفُ، وَالْفُوادَ عَمّا عَقَدَ عَلَیهِ(۳۰۵)

”روز قیامت خدا وندعالم کانوں سے سنی ہوئی، آنکھوں سے دیکھی گئی اور دل میں پیدا ہونے والی چیزوںکے بارے میں سوال فرمائے گا“۔

ایک شخص نے حضرت امام سجاد علیہ السلام سے عرض کیا: اگر کسی مومن کا کوئی حق کافر کے ذمہ باقی رہ گیا ہے تو روز قیامت کافر سے مومن کے نفع میں کیا چیز لی جائے گی، حالانکہ کافر اھل جہنم ہوگا؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: کافر پر حق کے برابر مومن کے گناھوں کو کافر کی گردن پر ڈالدیا جائے گا اور کافر اپنے گناھوں اور اس حق کے گناھوں کے برابر عذاب میں گرفتار ہوگا!(۳۰۶)

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :

ظلم و ستم کی تین قسمیں ہیں : ایک وہ ستم جس کو معاف ن ہیں کیا جائے، دوسرے وہ ستم جس کو چھوڑا ن ہیں جائے گا، تیسرے وہ ستم جو بخش دیا جائے گا اور اس کا مطالبہ ن ہیں ہوگا۔

لیکن وہ ستم جو معاف ن ہیں ہوگا وہ خدا کے ساتھ شرک کرنا ہے، جیسا کہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا ہے:

( إِنَّ اللهَ لاَیغْفِرُ انْ یشْرَكَ بِه ) ۔(۳۰۷)

”اللہ اس بات کو معاف ن ہیں کر سکتا کہ اس کا شریک قرا دیا جائے“۔

وہ ستم جو بخش دیا جائے گا، وہ انسان کا اپنے نفس پر ظلم و ستم ہوگا جو انسان نے گناھان صغیرہ کے ذریعہ انجام دیا ہوگا۔

لیکن وہ ستم جس کو چھوڑا ن ہیں جائے گا، وہ دوسروں پر کیا ہوا ظلم ہوگا، یہ ستم چاقو یا تازیانہ سے کیا ہوا ستم ن ہیں ہوگا بلکہ اس سے (بھی) کمتر اور چھوٹا ظلم ہوگا۔(۳۰۸)

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

یوتيٰ یوْمَ الْقِیامَةِ بِصاحِبِ الدَّینِ یشْكُو الْوَحْشَةَ، فَاِنْ کاَنَتْ لَهْ حَسَناتُ اْخِذَ مِنْهُ لِصاحِبِ الدَّینِ، وَقالَ:وَاِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَناتٌ اُلْقِی عَلَیهِ مِنْ سَیئاتِ صاحِبِ الدَّینِ ۔“

” ایک مقروض کو روز قیامت حاضر کیا جائے گا جو خوف و وحشت کی شکایت کرتا ہوگا، تو اگر اس کے پاس نیکیاں ہوں گی تو صاحب قرض کو اس کی نیکیاں دیدی جائیں گی، او راگر نیکیاں نہ ہوں گی تو صاحب قرض کی برائیاں اس کی گردن پر ڈال دی جائیں گی“۔

حساب و کتاب اور روز قیامت بندوں کے اعمال کی کتاب کا دوبارہ مطالعہ بھی غیب کے

مصادیق میں سے ہے، جس پر عقیدہ رکھنا قرآن و حدیث کی بنا پر ایمان کا جزء ہے اور معنوی زیبائیوں میں سے ہے۔

میزان

انسان کے اعمال کو پرکھنے کی میزان اور ترازو چاھے جس کیفیت کے ساتھ بھی ہو ایک اھم مسئلہ ہے، جس کا ذکر قرآن کریم اور اور احادیث اھل بیت علیھم السلام میں تفصیلی طور پر ہوا ہے، جو روز قیامت کے مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے۔

( وَالْوَزْنُ یوْمَئِذٍ الْحَق ) ۔(۳۰۹)

”آج کے دن اعمال کا وزن ایک برحق شئے ہے“۔

( وَ نَضَعُ المَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیوْمِ الْقِیامَةِ فَلاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیئاً ) ۔(۳۱۰)

”اور ھم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کریں گے“۔

ہشام بن سالم کھتے ہیں : میں نے اس آیت کے بارے میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ روز قیامت ”میزان“ سے کیا مراد ہے؟ تو حضرت نے فرمایا: اس سے مراد انبیاء اور اوصیاء انبیاء علیھم السلام ہے۔(۳۱۱)

جی ھاں، روز قیامت میں بندوں کے اعمال، عقائد اور اخلاق کو انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے ساتھ تولا جائے گا، اگر انسان کے عقائد، اعمال اور اخلاق انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کے عقائد و اعمال کے ساتھ ھم آہنگ ہوں گے تو ایسا شخص اھل نجات ہے، اور درحقیقت اس کا پلڑا بھاری ہوگا، اور اگر انسان کے اعمال انبیاء و ائمہ علیھم السلام سے ھم آہنگ نہ ہوں گے تو ایسا شخص نجات ن ہیں پاسکتا، چونکہ اس کا پلڑا ھلکا او ربے وزن ہوگا، قرآن مجید نے ان دونوں مسائل کے بارے میں یوں اشارہ کیا ہے:

( فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُهُ فَاوْلَئِكَ هم الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُهُ فَاوْلَئِكَ الَّذِینَ خَسِرُوا انفُسَهم بِمَا كَانُوا بِآیاتِنَا یظْلِمُونَ ) ۔(۳۱۲)

”پھر جن کے نیک اعمال کا پلہ بھاری ہو گا وھی نجات پانے والے ہیں ۔اور جن کا پلہ ھلکا ہوگیا یھی وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے نفس کو خسارہ میں رکھا کہ وہ ھماری آیت وں پر ظلم کر رہے تھے“۔

( وَاِنْ کاَنَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ اتَینَا بِهَا وَكَفَيٰ بِنَا حَاسِبِینَ ) ۔(۳۱۳)

”اور کسی کا عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہے تو ھم اسے لے آئیں گے اور ھم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں “۔

( فَامَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِینُهُ فَهُوَ فِی عِیشَةٍ رَاضِیةٍوَامَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُهُ فَا مُّهُ هَاوِیةٌوَمَا ادْرَاكَ مَاهِیهْنَارٌ حَامِیةٌ ) ۔(۳۱۴)

”تو اس دن جس کی نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا۔وہ پسندیدہ عیش میں ہوگا۔اور جس کا پلہ ھلکا ہوگا ۔اس کا مرکز ھاویہ ہے۔اور تم کیا جانو کہ ھاویہ کیا مصیبت ہے۔یہ ایک دہکتی ہوئی آگ ہے“۔

عقائد حقہ، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ خاص اھمیت سے برخوردار ہیں ، عدل الٰھی کی میزان میں ناقابل تصور وزن رکھتے ہیں اور سخت مقامات پر باعث نجات ہیں ۔

حضرت امام باقر علیہ السلام اپنے آباء و اجداد کے سلسلے میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

حُبّی وَحُبُّ اَهل بَیتِی نافِعٌ فِی سَبْعَةِ مَواطِنَ اَهْوَالُهُنَّ عَظیمَةٌ، عِنْدَ الْوَفاةِ، وَفِی الْقَبْرِ، وَ عِنْدَ النُّشورِ، وَ عِنْدَ الْكِتابِ، وَعِنْد الْحِسابِ، وَ عِنْدَ الْمِیزانِ، وَ عِنْدَ الصِّراطِ(۳۱۵)

”ھماری اور ھمارے اھل بیت کی محبت سات خطرناک مقامات پر کام آئے گی، موت کے وقت، قبرمیں، قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے کے وقت، نامہ اعمال کے وقت، حساب کے وقت، میزان پر، اور پُل صراط پر گزرتے وقت“۔

قارئین کرام! ھم جانتے ہیں کہ محب کی محبت محبوب سے کسب آثار کے لئے بھت اھم چیز ہے، جو محبت انسان کے لئے سات مقامات پر کام آنے والی ہے، جو انسان کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آنحضرت کے اھل بیت علیھم السلام کی پیروی اور اطاعت کرنے کے لئے آمادہ کرے۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں :

ما یوضَعُ فی میزانِ امْرِیءٍ یوْمَ الْقِیامَةِ اَفْضَلُ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ(۳۱۶)

”روز قیامت انسان کی ترازومیں حسن خلق سے بھتر کوئی چیز ن ہیں ہے“۔

حضرت امام رضا علیہ السلام مامون عباسی کے لئے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں :

وَتُومِنُ بِعَذابِ الْقَبْرِ، وَمُنْكَرٍ وَنَكِیرٍ وَ الْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْمِیزانِ وَالصِّراطِ(۳۱۷)

”عذاب قبر، منکر و نکیر اور مرنے کے بعد روز قیامت میں محشور ہونے، میزان اور پُل صراط پر ایمان رکھ“۔

میزان کا مسئلہ بھی گزشتہ مسائل کی طرح غیب کے مصادیق میں سے ہے، اور قرآن کریم اور حدیث کی بنا پر اس پر ایمان رکھنا واجب ہے، جس کے انسان کی زندگی میں بھت سے مفید آثار نمایاں ہوتے ہیں ۔

بہشت و جہنم

”بہشت “متقین کے لئے ھمیشگی اور ابدی مقام ہے، اور ”جہنم “اھل کفر و معصیت کا ھمیشگی مقام ہے، جن کے بارے میں قرآن مجید کی بھت سی آیات اور اسلامی تعلیمات خصوصاً احادیث اھل بیت علیھم السلام میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔

ھم ان دونوں کی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس ن ہیں کرتے، کیونکہ اکثر مومنین مجالس اور دیگر طریقوں سے یا اسلامی کتابوں میں ان دونوں کے بارے میں سن چکے یا پڑھ چکے ہیں ۔

جنت ودوزخ پر ایمان رکھنا دینی ضروریات میں سے ہے اور ان دونوں پر ایمان نہ رکھنا کفر کے برابر ہے۔

بہشت اپنی تمام تر مادی و معنوی نعمتوں کے ساتھ نیک اور صالح افراد کی جزا اور جہنم اپنے تمام ظاھری و باطنی عذاب کے ساتھ بدکاروں کے لئے جائے سزا ہے۔

بہشت و جہنم غیب کے مصادیق میں سے ہے، ان دونوں کے بارے میں بیان کرنا صرف اورصرف وحی الٰھی کی ذمہ داری ہے، انسان کا علم جس کے درک کرنے سے قاصرہے ، اسی وجہ سے انسان وحی الٰھی پر توجہ کئے بغیر ان دونوں کے بارے میں اپنا نظریہ بیان ن ہیں کر سکتا، اگرچہ علم و دانش کے لحاظ سے بلند مقام پر پہنچ چکا ہے۔

خداوندعالم ؛اھل صدق و صداقت اور نیک افراد کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

( قَالَ اللهُ هَذَا یوْمُ ینفَعُ الصَّادِقِینَ صِدْقُهم لَهم جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِها الْانهارُ خَالِدِینَ فِیها ابَدًا رَضِی اللهُ عَنْهم وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ) ۔(۳۱۸)

”اللہ نے کھا کہ یہ قیامت کا دن ہے جب صادقین کو ان کا سچ فائدہ پہنچائے گا تو ان کے لئے باغات ہوں گے جن کے نیچے نھریں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ھمیشہ ھمیشہ ر ہیں گے ۔خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے راضی ہوں گے، اور یھی ایک عظیم کامیابی ہے“۔

اسی طرح خداوندعالم گناھگاروں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَالَّذِینَ كَسَبُوا السَّیئَاتِ جَزَاءُ سَیئَةٍ بِمِثْلِها وَتَرْهَقُهم ذِلَّةٌ مَا لَهم مِنْ اللهِ مِنْ عَاصِمٍ كَانَّمَا اغْشِیتْ وُجُوهُهم قِطَعًا مِنْ اللَّیلِ مُظْلِمًا اوْلَئِكَ اصْحَابُ النَّارِ هم فِیها خَالِدُونَ ) ۔(۳۱۹)

”اور جن لوگوں نے برائیاں کمائی ہیں ان کے لئے ھر بُرائی کے بدلے ویسی ہی بُرائی ہے اور ان کے چھروں پر گناھوں کی سیاھی بھی ہوگی اور ان ہیں عذاب الٰھی سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا ۔ان کے چھرے پر جیسے سیاہ رات کی تاریکی کا پردہ ڈال دیا گیا ہو۔وہ اھل جہنم ہیں اور اسی میں ھمیشہ رہنے والے ہیں “۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : جس وقت روز قیامت برپا ہوگی، خداوندعالم ایک منادی کو حکم دے گا کہ اس کی بارگاہ میں یہ اعلان کرے: غریب اورنادار لوگ کھاں ہو؟ بھت سے لوگ جمع ہوجائیں گے، اس وقت خدا فرمائے گا: اے میرے بندو! تووہ آواز دیں گے: لبیک یا اللہ، اس وقت خدا فرمائے گا: میں نے تم لوگوں کو ذلیل کرنے کے لئے غریب و نادار ن ہیں بنایا تھالیکن اس لئے کہ آج کے دن تم ہیں نعمتوں سے مالامال کردوں، جاؤ اور لوگوں کو تلاش کرو کہ جس نے بھی تمھارے ساتھ نیکی کی ہو، اس کی نیکی میری خوشنودی کے لئے تھی، لہٰذا اس کے عمل کی جزا یہ ہے کہ اس کو بہشت میں داخل کردو۔(۳۲۰)

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اگر کوئی مومن کسی دوسرے مومن کی ضرورت کے وقت حاجت پوری نہ کرے، اپنی طرف سے یا دوسرے کے ذریعہ اس کی مشکل کو آسان نہ کرے تو خداوندعالم روز قیامت اس کے چھرہ کو سیاہ کردے گا، اس کی آنک ہیں اندھی ہوجائیں گی اور اس کے دونوں ھاتھ گردن سے بندھے ہوں گے، اور کھا جائے گا: یہ وہ خیانت کار ہے جس نے خدا و رسول کے ساتھ خیانت کی ہے، اس کے بعد حکم دیا جائے گا کہ اس کو آتش جہنم میں ڈال دو۔[۶۸]

حضرت امیر المومنین علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا: یا علی!جو شخص مجھ سے محبت کا دعويٰ کرے درحالیکہ آپ سے دشمنی رکھتا ہو ایسا شخص جھوٹا ہے، یا علی! جس وقت قیامت برپا ہوگی اےک منادی عرش سے آواز دے گا، علی علیہ السلام کے عاشق اور ان کے شیعہ کھاں ہیں ؟ علی کے محب اور دوستدار اور جس کو علی دوست رکھتے ہیں کھاں ہو؟ جن لوگوں نے رضائے الٰھی کے لئے دوستی کی ہے اور ایک دوسرے سے محبت کی ہے، جنھوں نے خدا کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ کرم و بخشش سے کام لیا ہے، وہ لوگ جنھوں نے اپنی ضرورت کے باوجود دوسروں کی حاجت کو پورا کیا ہے، جن لوگوں کی زبان گرمی کے روزہ کی وجہ سے خشک ہوئی ہے، جنھوں نے رات کے اندھیرے میں عبادتیں کی ہیں جبکہ دوسرے لوگ سوئے ہوئے تھے، جن لوگوں نے خوف خدا سے گریہ کیا ہے؟ آج تم لوگوں کے لئے کوئی خوف و ھراس ن ہیں ہے، تم لوگ (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھی ہو، تمھاری آنک ہیں منور ہوں، تم اپنی ازواج کے ساتھ خوش و خرم بہشت میں داخل ہوجاؤ(۳۲۱)

جنت و دوزخ کے بارے میں قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اور بھت سی احادیث بیان ہوئی ہیں اور امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق (بہشت و جہنم) اب بھی موجود ہیں اور یہ غیب کے مصادیق میں سے ہیں ، جس پر ایمان و عقیدہ رکھنے سے صالح مومنین اور بدکاروں کی زندگی پر مثبت آثار ظاھر ہوتے ہیں ، کیونکہ طالب بہشت اپنے کو عقائد حقہ، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ سے آراستہ ہونے کی کوشش کرتا ہے اور جہنم سے ڈرنے والا درد ناک عذاب کے باعث خود کوگناھوں سے محفوظ کرتاھے۔

قارئین کرام! گزشتہ صفحات میں خدا، فرشتوں، برزخ، قیامت، حساب و کتاب، میزان اور بہشت و جہنم کے بارے میں بیان کئے گئے مطالب آیہ( الَّذِینَ یومِنونَ بِالْغَیبِ ) ۔(۳۲۲) کی تفسیر تھی۔

قرآن کریم اور احادیث معصومین علیھم السلام پر غور و فکر کرتے ہوئے غیب پر ایمان رکھنا ھر مرد و زن کے لئے ممکن ہے، اور ان چیزوں پر اعتقاد و ایمان رکھنا شرعی اور عقلی طور پر واجب ہے، کیونکہ غیب پر ایمان رکھنا دین کے اصول اور ضروری دین میں سے ہے، ان عقائد کے بارے میں کسی انسان کو کسی کی تقلید کرنے کا کوئی حق ن ہیں ہے، کیونکہ ھر انسان کے دل میں ان چیزوں پر ایمان ہونا ضروری ہے۔

غیب پر ایمان رکھنے سے انسان کو بلند مقامات عطا ہوتے ہیں ، غیب پر ایمان رکھنے والا شخص محبوب خدا بن جاتا ہے، اس کے لئے دنیا و آخرت کی نجات کا دروازہ کھل جاتا ہے، اس کے لئے آج اور کل کی سعادت کا راستہ ھموار ہوجاتا ہے، جس سے انسان کو خدا کی عبادت اور پیغمبر و ائمہ علیھم السلام کی اطاعت کے لئے طاقت ملتی ہے۔

قرآن مجید نے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات میں غیب پر ایمان رکھنے کے بارے میں تاکید کی ہے اور اس کے بعد نماز و انفاق، آسمانی کتابوں اور قیامت کے دن پر ایمان کے بارے میں بیان کیا ہے جو غیب پر ایمان رکھنے کے آثار ہیں ۔

قرآن اور اس سے قبل نازل ہونے والی کتابوں(جن کی تصدیق قرآن کریم نے فرمائی ہے) پر ایمان رکھنا قرآن کریم کی آیات اور اس کی تفسیر میں غور و فکر کے بعدھی ممکن ہے۔

قرآن کریم کے ایک (چھوٹے سے )سورے جیسے سورہ توحید یا سورہ کوثر کا جواب اگر ممکن ہوتا تو دشمنان اسلام اپنی تمام تر ترقی کے باوجودجواب لے آئے ہوتے، لیکن قیامت تک کسی قوم و ملت میں اتنی طاقت ن ہیں ہے کہ وہ قرآن کی مثل لے آئے:

( وَإِنْ كُنتُمْ فِی رَیبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَاتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَائَكُمْ مِنْ دُونِ اللهِ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِینَ ) ۔(۳۲ ۳ )

”اگر تم ہیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ھم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسا ایک ہی سورہ لے آو اور اللہ کے علاوہ جتنے تمھارے مددگار ہیں سب کو بلا لو اگر تم دعوے اور خیال میں سچے ہو“۔

( قُلْ لَئِنْ اجْتَمَعَتْ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی انْ یاتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لاَیاتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهم لِبَعْضٍ ظَهِیرًا ) ۔(۳۲۴)

”(اے رسول)آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی ن ہیں لاسکتے، چاھے سب ایک دوسرے کے مددگار و پشت وپناہ ہی کیوں نہ ہو جائیں“۔

ان دونوں آیات کے پیش نظر قرآن کریم کے خداوندعالم کی طرف نازل ہونے میں ذرہ برابر بھی شک باقی ن ہیں رھتا، لہٰذا قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب اور دیگر آسمانی کتابوں پر ایمان رکھنا، کوئی مشکل کام ن ہیں ہے۔

اسی طرح قرآنی آیات اور دلائل میں غور و فکر کے ذریعہ آخرت پر ایمان حاصل کرنا بھی ایک آسان کام ہے۔

غیب، قرآن کریم، دیگر آسمانی کتب اور آخرت پر ایمان و یقین رکھنا معنوی زیبائیوں میں سے ہے۔

نماز

نماز وہ حقیقت ہے جس سے انسان کے ظاھر و باطن میں مادی اور معنوی طھارت و پاکیزگی پیدا ہوتی ہے، جس سے انسان کا ظاھر و باطن مزین ہوجاتا ہے، اور نمازی کے لئے ایک خاص نورانیت حاصل ہوتی ہے۔

قرآن کریم نے بھت سی آیات میں نماز کی طرف دعوت دی ہے، اور اس کو ایک فریضہ الٰھی کے عنوان سے بیان کیا ہے، نہ صرف یہ کہ نماز کاحکم دیا ہے بلکہ واجبی حکم دیا گیا ہے۔

( وَاقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَمَا تُقَدِّمُوا لِانفُسِكُمْ مِنْ خَیرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللهِ إِنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ) ۔(۳۲۵)

”اور تم نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو کہ جو کچھ اپنے واسطے پھلے بھیج دوگے سب خدا کے یھاں مل جائے گا ۔خدا تمھارے اعمال کا دیکھنے والا ہے“۔

قرآن مجید نے بھت سی آیات میں مشکلات کے دور ہونے، سختیوں کے آسان ہونے اور بھت سے نیک کاموں میں امداد ملنے کے لئے نماز اور صبر کی دعوت دی ہے:

( وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ وَإِنَّها لَكَبِیرَةٌ إِلاَّ عَلَی الْخَاشِعِینَ ) ۔(۳۲۶)

”صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو ۔نماز بھت مشکل کام ہے مگر ان لوگوں کے لئے جو خشوع و خضوع والے ہیں “۔

البتہ یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ وھی نماز انسان کو طاقت و بلندی عطا کرتی ہے جس میں فقھی اور معنوی شرائط پائے جاتے ہوں، جس نماز میں لباس اور مکان مباح ہو، وضو اور غسل کا پانی اور تیمم کی مٹی مباح ہو، جس نماز میں ترتیب اور طمانینہ (یعنی اطمینان) اور وقت کی رعایت کی گئی ہو، جس نماز میں سستی اور بے توجھی نہ پائی جاتی ہو، جس نماز میں نیت پاک ہو اور اس میں اخلاص پایا جاتا ہو، تو اس طرح کی نماز انسان کی مشکلات اور سختیوں میںمددگار ثابت ہوتی ہے، اور پھر انسان کے لئے تمام نیک کام کرنے کا راستہ ھموار ہوجاتا ہے۔

قرآن مجید نے بھت سی آیات میں نماز کو ایمان کی نشانی قرار دیا ہے۔

( اِنَّمَا الْمُومِنُونَ الَّذِینَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَاِذَا تُلِیتْ عَلَیهِمْ آیا تُهُ زَادَتْهُمْ اِیمَاناً وَعَلٰی رَبِّهِمْ یتَوَكَّلُونَالَّذِینَ یقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ینْفِقُونَ ) ۔(۳۲۷)

”صاحبان ایمان در حقیقت وہ لوگ ہیں جن کے سامنے ذکر خدا کیا جائے تو ان کے دلوں میں خوف خدا پیدا ہو اور اس کی آیات کی تلاوت کی جائے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ لوگ اللہ ہی پر توکل کرتے ہیں ۔وہ لوگ نماز کو قائم کرتے ہیں اور ھمارے دیئے ہوئے رزق سے انفاق بھی کرتے ہیں “۔

قرآن کریم نے سستی، حالت غنودگی اور حضور قلب میں مانع ہونے والی ھر چیز کو حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے، بلکہ ایسے وقت میں نماز کی ادائیگی چاھی ہے کہ جب خوشی و نشاط، صدق و صفا اور خلوص اور حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھی جاسکے اور تمام ظاھری و باطنی شرائط کا لحاظ کیا جائے:

( یاایها الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَقْرَبُوا الصَّلاَةَ وَانْتُمْ سُكَارَی حَتَّی تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ ) ۔(۳۲۸)

”اے ایمان والو ! خبر دار نشہ کی حالت میں نما زکے قریب بھی نہ جانا جب تک یہ ہوش نہ آجائے کہ تم کیا کہہ رہے ہو“۔

قرآن مجید نے اپنے اھل و عیال کو نماز کی دعوت کو اخلاق انبیاء بتایا ہے، اور نمونہ کے طور پر حضرت اسماعیل کی دعوت کو بیان کیاھے:

( وَكَانَ یامُرُ اهلهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِیا ) ۔(۳۲۹)

”اور وہ اپنے گھر والوں کو نما ز اور زکوٰة کا حکم دیتے تھے اور اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے“۔

قرآن مجید نے بیان کیا ہے کہ نمازانسان کو فحشاء و منکر سے روکتی ہے۔ جی ھاں، یہ بات تجربہ سے ثابت ہوچکی ہے کہ واقعی نماز انسان کو برائیوں سے روک دیتی ہے، اور انسان کے دل و جان میں پاکیزگی بھر دیتی ہے، اعضاء وجوارح کو خدا کی اطاعت کرنے پر آمادہ کردیتی ہے۔

( وَاقِمْ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلاَةَ تَنْهَی عَنْ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ) (۳۳۰)

”اور نماز قائم کرو کہ نماز ھربُرائی اور بدکاری سے روکنے والی ہے۔“

قرآن کریم نے بے نمازی، بخیل، اھل باطل اور قیامت کی تکذیب کرنے والوں کو جہنمی قرار دیا ہے:

( قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّینَوَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِینَ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِینَ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِیوْمِ الدِّینِ ) ۔(۳۳۱)

”وہ ک ہیں گے ھم نماز گذارن ہیں تھے۔اور مسکین کو کھانا ن ہیں کھلایا کرتے تھے۔ لوگوں کے بُرے کاموں میں شامل ہو جایا کرتے تھے۔اور روز قیامت کی تکذیب کیاکرتے تھے“۔

قرآن مجید نے حقیقت نماز سے غافل اور ریاکاری کرنے والے نمازی کو دین کا جھٹلانے والا قرا دیا ہے:

( فَوَیلٌ لِلْمُصَلِّینَ الَّذِینَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَالَّذِینَ هُمْ یرَآءُ ونَ ) ۔(۳۳۲)

”تو تباھی ہے ان نمازیوں کے لئے ۔جو اپنی نمازوں سے غافل رھتے ہیں ۔دکھانے کے لئے عمل کرتے ہیں “۔

نماز اور اس کے فقھی و معنوی شرائط کے سلسلہ میں بھت سی روایات بھی بیان ہوئی ہیں جن میں چند کو بطور نمونہ پیش کیا جاتا ہے:

حضرت امام باقر علیہ السلام ایک روایت کے ضمن میں کچھ چیزوں کی سفارش کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اپنی نماز کو بھی سبک نہ سمجھو کیونکہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے آخری وقت میں فرمایاھے:

لَیسَ مِنّی مَنِ اسْتَخَفَّ بِصَلاتِهِ لَایرِدُّ عَلَی الْحَوْض لَا وَاللّٰهِ، لَیسَ مِنّی مَنْ شَرِبَ مُسْكِراً لَا یرِدُّ عَلَی الْحَوْضَ لَا وَاللّٰهِ ۔“( ۳ ۳۳)

”جو شخص نماز کو سبک سمجھے وہ مجھ سے ن ہیں ہے، خدا کی قسم حوض کوثر پر میرے پاس ایسا شخص ن ہیں پہنچ سکتا، اور ایسا شخص بھی مجھ سے ن ہیں ہے جو شراب پئے، خدا کی قسم ایسا شخص (بھی) میرے پاس حوض کوثر پر ن ہیں پہنچ سکتا“۔

حضرت موسيٰ علیہ السلام نے خداوندعالم کی بارگاہ میں عرض کیا:پالنے والے!ایسے وقت پر نماز پڑھنے والے کی کیا جزاء ہے ؟ تو خطاب ہوا:

اُعْطِیهِ سُولَهُ، وَاُبیحُهُ جَنَّتِی(۳۳۴)

”میںاس کے سوالوں کو پورا، ا اور اس کے لئے جنت مباح کردوں گا“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

اَحَبُّ الْعِبادِ اِلَی اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ رجلٌ صَدوقٌ فی حَدِیثِهِ مُحافِظٌ عَليٰ صَلَواتِهِ وَمَاافْتَرَضَ اللّٰهُ عَلَیهِ مَعَ اَداءِ الْاَمانَةِ(۳۳۵)

”خداوندعالم کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اپنی گفتگو میں صداقت سے کام لے، نماز و دیگر عبادتوں کی حفاظت کرے اور امانت ادا کرے“۔

ابن مسعود کھتے ہیں : میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا: کونساعمل خداوندعالم کے نزدیک سب سے بھترہے ؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اَلصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا(۳۳۶)

”نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

لَا تُضَیعُوا صَلاَتَكُمْ فَاِنَّ مَنْ ضَیعَ صَلَاتَهُ حُشِرَ مَعَ قَارُونَ وَهامانَ، وَکاَنَ حَقّاً عَلَی اللّٰهِ اَنْ یدْخِلَهُ النّارَ مَعَ الْمُنافِقینَ، فَالْوَیلُ لِمَنْ لَمْ یحافِظْ عَليٰ صَلَاتِهِ وَاَداءِ سُنَّةِنَبِیهِ(۳۳۷)

”اپنی نمازوں کو برباد نہ کرو، بے شک جس نے نماز کو ضایع کیا وہ قارون اور ھامان کے ساتھ محشور ہوگا، اور خداوندعالم اس کو منافقین کے ساتھ جہنم میں ڈال دے گا، پس وائے ہونماز اور سنت پیغمبر کی حفاظت نہ کرنے والے شخص پر !“

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

یعْرَفُ مَنْ یصِفُ الْحَقَّ بِثَلَاثِ خِصالٍ:ینْظَرُ اِليٰ اَصْحابِهِ مَنْ هُمْ؟وَاِليٰ صَلَاتِهِ كَیفَ هِی وَفِی اَی وَقْتٍ یصَلّیها، فَاِنْ كَانَ ذَا مالٍ نُظِرَ اَینَ یضَعُ مالَهُ ؟ “۔(۳۳۸)

”جو شخص حق کی معرفت کا دعويٰ کرے وہ تین خصلتوں کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے، اس کو دیکھا جائے کہ اس کی دوستی کن لوگوں سے ہے، اور اس کی نماز کس طرح کی ہے اور کس وقت پڑھتا ہے، اور اگر مالدار ہے تو اپنی دولت کھاں خرچ کرتا ہے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ھمارے شیعوں کو تین چیزوں کے ذریعہ پہچانو: نماز کے اوقات پر، کہ کس طرح اس کے معین وقت پر ادا کرتے ہیں ، دوسرے رازداری میںکہ کس طرح ھمارے دشمنوں سے اسرار کو چھپاتے ہیں ، تیسرے مال و دولت کے سلسلہ میں کہ اپنے دینی بھائیوں سے کس طرح مواسات کرتے ہیں ۔(۳۳۹)

انفاق

جو کچھ خداوندعالم مومنین کو عطا کرتا ہے وہ اس کو راہ خدا میں خرچ کردیتے ہیں ۔

( وَمِمَّا رَزَقْنَاهم ینفِقُونَ ) ۔(۳۴۰)

”اور جو کچھ ھم نے رزق دیا ہے اس میں سے ھماری راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں “۔

اھل ایمان لوگوں کی مشکلات دور کرنے کے لئے اپنے مال و دولت، مقام، آبرو، عہدہ اور موقعیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور خلوص و محبت کے ساتھ خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو کسی ریاکاری اور کسی احسان کے بغیر خرچ کرتے ہیں ۔

اھل ایمان کی زکوٰة پر توجہ، نماز، روزہ اور حج کی طرح ہوتی ہے، اور مالی واجبات کو نماز کی ادائیگی کی طرح اھمیت دیتے ہیں ۔

اھل ایمان زکوٰة، انفاق، صدقہ اور مومنین کے مدد کرنے میں ذرہ بھی بخل ن ہیں کرتے۔

قرآن مجید نے بھت سی آیات میں لوگوں کو انفاق کا حکم دیا ہے اور اس سلسلہ میں اس قدر اھمیت دی ہے کہ راہ خدا میں انفاق نہ کرنے کوخود اپنے ھاتھوں ھلاکت میں ڈالنے کے برابر مانا ہے۔

( وَانفِقُوا فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَتُلْقُوا بِایدِیكُمْ إِلَی التَّهلكَةِ وَاحْسِنُوا إِنَّ اللهَ یحِبُّ الْمُحْسِنِینَ ) ۔(۳۴۱)

”اور راہ خدا میں خرچ کرو اور اپنے نفس کو ھلاکت میں نہ ڈالو ۔نیک برتاو کرو کہ خدا نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے“۔

قرآن مجید نے انفاق نہ کرنے کو انسان کی آخرت خراب ہونے کا باعث بتایا ہے، اور اس کو کفر و ظلم کے برابر قرار دیا ہے، نیز یہ اعلان کرتا ہے کہ جن لوگوں نے انفاق میں بخل سے کام لیا وہ روز قیامت اپنا کوئی دوست یا شفیع ن ہیں پائیں گے۔

( یاایها الَّذِینَ آمَنُوا انفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ انْ یاتِی یوْمٌ لاَبَیعٌ فِیهِ وَلاَخُلَّةٌ وَلاَشَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هم الظَّالِمُونَ ) (۳۴۲)

”اے ایمان والو ! جو تم ہیں رزق دیا گیا ہے اس میںسے راہ خدا میں خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس دن نہ تجارت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش ۔اور کافرین ہی اصل میںظالمین ہیں “۔

قرآن مجید انفاق کو انسان کے لئے خیر سمجھتا ہے، اور بخل سے محفوظ رہنے کو فلاح و بھبودی کا باعث مانتا ہے۔

( فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَاطِیعُوا وَانفِقُوا خَیرًا لِانْفُسِكُمْ وَمَنْ یوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَاوْلَئِكَ هم الْمُفْلِحُونَ ) ۔(۳۴۳)

”لہٰذا جھاں تک ممکن ہو اللہ سے ڈرو اور ان کی بات سنو اور اطاعت کرو اور راہ خدا میں خرچ کرو کہ اس میں تمھارے لئے خیر ہے اور جو اپنے ہی نفس کے بخل سے محفوظ ہو جائے وھی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں “۔

قرآن مجید راہ خدا میں انفاق کرنے کا اجز و ثواب ۷۰۰برابر اور اس سے بھی زیادہ شمار کرتا ہے، چنانچہ انفاق کے مسئلہ کو ھماری آنکھوں دیکھی حقیقت سے مثال بیان کی ہے تاکہ اس خداپسند عمل کے سلسلہ میں لوگوں کا ایمان پختہ ہوجائے:

( مَثَلُ الَّذِینَ ینفِقُونَ امْوَالَهم فِی سَبِیلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ انْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللهُ یضَاعِفُ لِمَنْ یشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ) ۔(۳۴۴)

”جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال کو خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی م-ثال اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ھر بالی میں سو سو دانے ہوںاور خدا جس کے لئے چاھتا ہے اضافہ بھی کردیتا ہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہے اورعلیم و دانا بھی“۔

شب و روز، ظاھر بظاھر اور مخفی طور پر انفاق کرنا ایک ایسی حقیقت ہے جس پر قرآن کریم نے بھت زور دیاھے، اور یہ ایک خداپسند عمل ہے جس کا اجر بھی خداوندعالم عنایت فرماتا ہے، جس کی بدولت انسان کو موت اور قیامت کا خوف ن ہیں رھتا:

( الَّذِینَ ینفِقُونَ امْوَالَهم بِاللَّیلِ وَالنَّهارِ سِرًّا وَعَلاَنِیةً فَلَهم اجْرُهم عِنْدَ رَبِّهم وَلاَخَوْفٌ عَلَیهم وَلاَهم یحْزَنُونَ ) ۔(۳۴۵)

”جو لوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں رات میں ۔دن میں خاموشی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ہیں ان کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے اوران ہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ حزن“۔

قرآن مجید نے آیات الٰھی کی تلاوت کرنے، نماز قائم کرنے اور راہ خدا میں خرچ کرنے کو ایسی تجارت قرار دیا ہے جس میں کسی طرح کا کوئی نقصان ن ہیں اور جس میںفائدہ ہی فائدہ ہے:

( إِنَّ الَّذِینَ یتْلُونَ كِتَابَ اللهِ وَاقَامُوا الصَّلَاةَ وَانْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهم سِرًّا وَعَلَانِیةً یرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُور ) ۔(۳۴۶)

”یقینا جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اورا نھوں نے نماز قائم کی ہے اور جو کچھ ھم نے بطور رزق دیا ہے اس میں سے ھماری راہ میں خفیہ اور علانیہ خرچ کیا ہے یہ لوگ ایسی تجارت کے امید وار ہیں جس میں کسی طرح کی تباھی ن ہیں ہے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

”تمھارے بدن کے تمام اعضاء و جوارح پر زکوٰة واجب ہے، بلکہ ھر بال اور عمر کے ھر لمحہ پر زکوٰة واجب ہے“۔

آنکھ کی زکوٰة اور اس کا انفاق یہ ہے کہ دوسروں کو عبرت کی نگاہ سے دیکھے اور خدا کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کرے۔

کان کی زکوٰة یہ ہے کہ انسان علم و حکمت، قرآن اور موعظہ و نصیحت کو سنے، اور ان چیزوں کو سنے جن کے ذریعہ دنیا و آخرت کی نجات شامل ہو خصوصاً جھوٹ، غیبت ا ورتھمت وغیرہ جیسے شیطانی کاموں سے پرھیز کرے۔

زبان کی زکوٰة یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کے ساتھ نیکی کرنے، خواب غفلت میں سوئے ہوئے مسلمانوں کو بیدار کرنے اور خداوندعالم کی تسبیح و تھلیل کرنے کے لئے اپنی زبان کھولے۔

ھاتھ کی زکوٰة یہ ہے کہ خدا کی عطا کردہ نعمتوں اور مال و دولت کو اس کی راہ خرچ کرے، اس سے ایسے مطالب لکھے جس سے مسلمانوں کی فلاح و بھبودی ہو اور لوگوں کو اطاعت خدا پر آمادہ کرے، اور اپنے ھاتھ کو ظلم و ستم اور فساد سے محفوظ رکھے۔

پیروں کی زکوٰة یہ ہے کہ راہ خدا میں اٹ ہیں ، خدا کے حقوق کی ادائیگی میں چلیں، خدا کے مخلص بندوں کی زیارت کے لئے بڑ ہیں ، علمی مجالس میں شرکت کریں، اصلاح معاشرہ اورصلہ رحم کے لئے بڑ ہیں ، اور ایسے کاموں کی طرف اٹ ہیں جن سے دین و دنیا کی اصلاح ہوسکے۔

یہ ایسے مسائل ہیں جن کو ایک انسان انجام دے سکتا ہے، اور سبھی اتنی صلاحیت رکھتے ہیں کہ ان تمام چیزوں پر عمل کریں، لیکن وہ تجارت جس سے خدا کے مقرب بندوں کے علاوہ کوئی آگاہ ن ہیں ہے، اس سے ک ہیں زیادہ ہیں کہ ھم شمار کریں، صرف ارباب عمل ہی اس سے آگاہ ہیں ، اولیاء الٰھی کا شعار زکوٰة ِکامل کے سلسلہ میں دوسروں سے بالکل الگ ہے(۳۴۷)

حضرت امام عسکری علیہ السلام قرآن مجید میں بیان ہونے والی آیات میں( وَ آتُوْا الزَّکوٰة ) کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :

مال، آبرو اور قدرت بدن کی زکوٰة دینا مراد ہے۔

مال کی نسبت اپنے مومن بھائیوں سے مواسات کرنامراد ہے۔

آبرو کے سلسلہ میں زکوٰة یہ ہے کہ اپنی عزت و آبرو کے ذریعہ اپنے دینی بھائیوں کی مدد کرے اور ان کی مشکلات کو دور کرے۔

طاقت کی زکوٰة انسان کااپنے برادر مومن کی ھر ممکن طریقہ سے مدد کرناھے۔

یہ تمام چیزیں یعنی مال، آبرواور طاقت کی زکوٰة کے ساتھ ساتھ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور پ کے اھل بیت علیھم السلام کی ولایت کا معتقد رہے ، اسی صورت میں خداوندعالم ھمارے اعمال کو پاکیزہ قرار دیتا ہے، اور ان کا چند برابر اجر دیتا ہے کیونکہ یہ عنایت اور توفیق ان حضرات کے لئے ہے جو ولایت محمد و آل محمد(ص) کو قبول کریں اور ان کے دشمنوں سے بیزار ر ہیں ۔(۳۴۸)

حضرت امیر المومنین علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت فرماتے ہیں :

قِراءَ ةُ الْقُرآنِ فِی الصَّلاةِ اَفْضَلُ مِنْ قِراءَ ِة الْقُرآنِ فِی غَیرِالصَّلاةِ، وَذِكْرُاللّٰهِ اَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ، وَالصَّدَقَةُ اَفْضَلُ مِنَ الصَّوْمِ، وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ(۳۴۹)

”نماز میں قرآن پڑھنا غیر نماز میں پڑھنے سے بھتر ہے، اور زندگی کے تمام حالات میں یاد خدا کرنا صدقہ دینے سے بھتر ہے، اور صدقہ روزہ سے افضل ہے، اور روزہ آتش جہنم کے لئے سپر اور ڈھال ہے“۔

امام زین العابدین علیہ السلام حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں :

”بے شک جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے اوپر سے نئے لباس نکلتے ہیں ، اور اس کے نیچے سے خاکستری رنگ کے گھوڑے نکلتے ہیں ، جن پر زین اور لگام ہوتے ہیں ، ان گھوڑوں کے پر ہوتے ہیں ! وہ پیشاب پاخانہ ن ہیں کرتے، ان پر اولیاء الٰھی سوار ہوتے ہیں اور جنت میں جھاں جانا چا ہیں جاتے ہیں ۔

ان میں سے کم ترین درجہ والے افراد بارگاہ خداوندی میں عرض کریں گے: پالنے والے! کس چیز کی وجہ سے تیرے بندے اس عظیم مرتبہ پر پہنچے ہیں ؟ اس وقت خداوندعالم جواب دے گا: نماز شب، روزہ، دشمن سے بے خوف جھاد، اور راہ خدا میں صدقہ دینے میں بخل نہ کرنے کی وجہ سے یہ لوگ اس عظیم مرتبہ پر پہنچے ہیں “(۳۵۰)

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اَلا وَمَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَلَهُ بِوَزْنِ كُلِّ دِرْهَمٍ مِثْلُ جَبَلِ اُحُدٍ مِنْ نَعِیمِ الْجَنَّةِ؛(۳۵۱)

”آگاہ ہوجاؤ! کہ جس شخص نے بھی راہ خدا میں صدقہ دیا تو اس کے ھر درھم کے بدلے جنت میں کوہ احد کے برابر نعمتیں ملیں گی“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام اپنے آباء و اجداد کے متعلق حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں :

كُلُّ مَعْروفٍ صَدَقَةٌ، وَالدَّالُّ عَلَی الْخَیرِ كَفَاعِلِهِ، وَاللّٰهِ یحِبُّ اِغاثَةَ اللَّهْفانِ(۳۵۲)

”ھر نیک کام صدقہ ہے، اور ھر خیر کے لئے رہنما ہے جیسے خود اس کا فاعل ہو، خداوندعالم صاحب حزن و ملال کی فریاد کو سنتا ہے“۔

صدقہ و انفاق کے سلسلہ میں ایک عجیب و غریب و اقعہ

حضرت امام موسيٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں : امام صادق علیہ السلام ایک قافلہ کے ساتھ ایک بیابان سے گزر رہے تھے۔ اھل قافلہ کو خبردار کیا گیا کہ راستے میں چور بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اھل قافلہ اس خبر کو سن کر پریشان اور لرزہ براندام ہوگئے۔ اس وقت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: کیا ہوا؟ تو لوگوں نے بتایا کہ ھمارے پاس (بھت) مال و دولت ہے اگر و ہ لوٹ گیا تو کیا ہوگا؟! کیا آپ ھمارے مال کو اپنے پاس رکھ سکتے ہیں تاکہ چور آپ کو دیکھ کر وہ مال آپ سے نہ لوٹیں۔ آپ نے فرمایا: تم ہیں کیا خبر شاید وہ ھمیں ہی لوٹنا چاھتے ہوں؟ تو پھر اپنے مال کو میرے حوالے کرکے کیوں ضایع کرنا چاھتے ہو، اس وقت لوگوں نے کھا: تو پھر کیا کریں کیا مال کو زمین میں دفن کردیا جائے؟ آپ نے فرمایا: ن ہیں ایسا نہ کرو کیونکہ اس طرح تو مال یونھی برباد ہوجائے گا، ہوسکتا ہے کہ کوئی اس مال کو نکال لے یا پھر دوبارہ تم اس جگہ کو تلاش نہ کرسکو۔ اھل قافلہ نے پھر کھا کہ تو آپ ہی بتائےے کیاکریں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کو کسی کے پاس امانت رکھ دو، تاکہ وہ اس کی حفاظت کرتا رہے ، اور اس میں اضافہ کرتا رہے ، او رایک درھم کو اس دنیا سے بزرگ تر کردے اور پھر وہ تم ہیں واپس لوٹادے، اور اس مال کو تمھارے ضرورت سے زیادہ عطا کرے!!

سب لوگوں نے کھا: وہ کون ہے؟ تب امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ”ربّ العالمین“ ہے۔ لوگوں نے کھا: کس طرح اس کے پاس امانت رک ہیں ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: غریب اور فقیر لوگوں کو صدقہ دیدو۔ سب نے کھا: ھمارے درمیان کوئی غریب یا فقیر ن ہیں ہے جس کو صدقہ دیدیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اس مال کا ایک تھائی حصہ صدقہ کی نیت سے الگ کرلو تاکہ خداوندعالم چوروں کی غارت گری سے محفوظ رکھے، سب نے کھا: ھم نے نیت کرلی۔ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا:

فَانْتُمْ فِی امَانِ الله فَامْضُوْا “۔

”پس (اب) تم خدا کی امان میں ہو لہٰذا راستہ چل پڑو“۔

جس وقت قافلہ چل پڑا راستہ میں چوروں کا گروہ سامنے دکھائی دیا، اھل قافلہ ڈرنے لگے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: (اب) تم کیوں ڈررہے ہو؟ تم لوگ تو خدا کی امان میں ہو۔ چور آگے بڑھے اور امام علیہ السلام کے ھاتھوں کو چومنے لگے اور کھا: ھم نے کل رات خواب میں رسول اللہ کو دیکھا ہے جس میں آنحضرتنے فرمایا: کہ تم لوگ اپنے کو آپ کی خدمت میں پیش کرو۔ لہٰذا اب ھم آپ کی خدمت میں ہیں تاکہ آپ اور آپ کے قافلہ والوں کوچوروں کے شر سے محفوظ رک ہیں ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: تمھاری کوئی ضرورت ن ہیں ہے جس نے تم لوگوں کے شر کو ھم سے دور کیا ہے وہ دوسرے دشمنوں کے شر کو ھم سے دور کرے گا۔ اھل قافلہ صحیح و سالم شھر میں پہنچ گئے؛ سب نے ایک سوم مال غریبوں میں تقسیم کیا، ان کی تجارت میں بھت زیادہ برکت ہوئی، ھر ایک درھم کے دس درھم بن گئے، سب لوگوں نے تعجب سے کھا:واقعاً کیا برکت ہے؟

امام صادق علیہ السلام نے اس موقع پر فرمایا:

”اب جبکہ تم ہیں خدا سے معاملہ کرنے کی برکت معلوم ہوگئی ہے تو تم اس پر ھمیشہ عمل کرتے رہنا“(۳۵۳)

امام جواد علیہ السلام کے نام امام رضا علیہ السلام کا ایک اھم خط

بزنطی جوشیعہ دانشور راوی اور امام رضا علیہ السلام کے معتبر او رمطمئن صحابی ہیں ، بیان کرتے ہیں : میں نے اس خط کو پڑھا ہے جو امام رضا علیہ السلام نے خراسان سے حضرت امام جواد (محمد تقی) علیہ السلام کو مدینہ بھیجا تھا، جس میں تحریر تھا:

مجھے معلوم ہوا ہے کہ جب آپ بیت الشرف سے باھر نکلتے ہیں اور سواری پر سوار ہوتے ہیں تو خادمین آپ کو چھوٹے دروازے سے باھر نکالتے ہیں ، یہ ان کا بخل ہے تاکہ آپ کا خیر دوسروں تک نہ پہنچے، میں بعنوان پدر اور امام تم سے یہ چاھتاھوں کہ بڑے دروازے سے رفت و آمد کیا کریں، اور رفت و آمد کے وقت اپنے پاس درھم و دینار رکھ لیا کریں تاکہ اگر کسی نے تم سے سوال کیا تو اس کو عطا کردو، اگر تمھارے چچا تم سے سوال کریں تو ان کو پچاس دینار سے کم نہ دینا، اور زیادہ دینے میں خود مختار ہو، اور اگر تمھاری پھوپھیاں تم سے سوال کریں تو ۲۵ درھم سے کم ن ہیں دیں اگر زیادہ دینا چا ہیں تو تم ہیں اختیار ہے۔ میری آرزو ہے کہ خدا تم کو بلند مرتبہ پر فائز کرے، لہٰذا راہ خدا میں انفاق کرو، اور خدا کی طرف سے تنگدسی سے نہ ڈرو!(۳۵۴)

قارئین کرام! اس حقیقت پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ قرآن مجید نے بھت سی آیات میں اس صدقہ سے منع کیا ہے جس میں دوسروں پر منت اور احسان یا اس میں اذیت پائی جاتی ہو، صدقہ و خیرات صرف اور صرف رضائے الٰھی کے لئے ہونا چاہئے، اور صدقہ لینے والے دوسروں کی منت اور احسان جتانے کی شرمندگی سے محفوظ ر ہیں ، ورنہ تو وہ صدقہ باطل ہوجائے گا او رخدا کی نظر میں اس کا کوئی اجر و ثواب ن ہیں ہوگا۔

( الَّذِینَ ینفِقُونَ امْوَالَهم فِی سَبِیلِ اللهِ ثُمَّ لاَیتْبِعُونَ مَا انفَقُوا مَنًّا وَلاَاذًی لَهم اجْرُهم عِنْدَ رَبِّهم وَلاَخَوْفٌ عَلَیهم وَلاَهم یحْزَنُونَ ) ۔(۳۵۵)

”جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں اور اس کے بعد احسان ن ہیں جتاتے اور اذیت بھی ن ہیں دیتے ان کے لئے پروردگار کے یھاں اجر بھی ہے اور ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے نہ حزن“۔

( یاایها الَّذِینَ آمَنُوا لاَتُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاذَی ) ۔(۳۵۶)

”اے ایمان والو ! اپنے صدقات کو منت گذاری اور اذیت سے برباد نہ کرو“۔

بھر حال نماز، انفاق اور معنوی زیبائیوں میں سے جو کچھ بھی خداوندعالم نے انسان کو عطا فرمایا ہے، اورگناھوں سے توبہ و استغفار کے بعد ظاھر و باطن کے اصلاح کرنے کے راستہ ہیں ۔

غیب پر ایمان رکھنا، نماز کا قائم کرنا، خدا داد نعمتوں میں سے اس کی راہ میں خرچ کرنا، قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں اور آخرت پر یقین وایمان جیسا کہ گزشتہ صفحات میں وضاحت کی گئی ہے ؛ یہ تمام ایسے حقائق ہیں کہ جس انسان میں بھی پائے جائیں وہ راہ ہدایت پر ہے اور دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہے۔

( اوْلَئِكَ عَلَی هُدًی مِنْ رَبِّهم وَاوْلَئِكَ هم الْمُفْلِحُونَ ) ۔(۳۵۷)

”یھی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ہیں اور فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں “۔

بعض اھل تحقیق جیسے راغب اصفھانی کے نزدیک فلاح و بھبودی کے معنی یہ ہیں : فلاح یعنی ایسی زندگی جس میںموت نہ ہو، ایسی عزت جس میں ذلت نہ ہو، ایسا علم جس میں جھالت کا تصور نہ ہو، ایسی ثروت جھاں فقر و تنگدستی نہ ہو، اور یہ فلاح آخرت میں مکمل طریقہ سے ان انسانوں کو نصیب ہوگی جو لوگ غیب( خدا، فرشتے، برزخ، محشر، حساب، میزان اور جنت و دوزخ) پر ایمان رکھتے ہوں، نماز قائم کرتے ہوں، زکوٰة ادا کرتے ہوں، صدقہ و انفاق کرتے ہوں، قرآن او ردیگر آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہوں اور آخرت پر یقین رکھتے ہوں۔

یہ بات بھی معلوم ہونا چاہئے کہ انسان کو بارگاہ الٰھی میں مقبول ہونے کے لئے صرف گناھوں سے توبہ کرنا اور گناھوں سے دوری کرلینا کافی ن ہیں ہے بلکہ قرآن کریم کی آیات کے پیش نظر جن میں سے بعض کو آپ حضرات نے گزشتہ صفحات میں ملاحظہ فرمایا ہے، توبہ کے بعد اپنی حالت، اقوال اور اعمال کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہئے کہ عمل صالح، اخلاق حسنہ اور معنوی زیبائیوں کی طرف توجہ کے ذریعہ اپنی توبہ کو کامل کرے اور اپنے گزشتہ کی تلافی کرے اور برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے۔

( إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاوْلَئِكَ یبَدِّلُ اللهُ سَیئَاتِهم حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا ) ۔(۳۵۸)

”علاوہ اس شخص کے جو توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل بھی کرے، تو پروردگار اس کی برائیوں کو اچھائیوں سے تبدیل کردے گا اور خدا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ہے“۔

عمل صالح اور اخلاق حسنہ کے سلسلہ میں جو گناھوں سے توبہ کے بعدظاھر و باطن کے اصلاح کے اسباب میں سے ہے، قرآن مجید ماں باپ، رشتہ دار، یتیموں اور مسکینوںکے ساتھ نیکی اور احسان، تمام لوگوں کے ساتھ نیک گفتار، نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے کا حکم دیتا ہے، چونکہ ھمارا ارادہ یہ ہے کہ لازمی حد تک قرآن مجید اور احادیث سے مدد لیتے ہوئے معنوی زیبائیوں کو بیان کریں تاکہ ھماری حالت اور عمل کی اصلاح ہوسکے، کچھ چیزیں گزشتہ صفحات میں بیان ہوچکی ہیں ان کی تکرار کی ضرورت ن ہیں ہے، صرف ھر آیت کے ذیل میں نئے اور جدید مطلب کی وضاحت کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں ، عزیز قارئین ! اب آپ قرآن مجید کی روشنی میں اخلاقی واقعیات کی طرف توجہ فرمائیں:

( لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ اللهَ وَبِالْوَالِدَینِ إِحْسَانًا وَذِی الْقُرْبَی وَالْیتَامَی وَالْمَسَاكِینِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَاقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ) ۔(۳۵۹)

”خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ، قرابتداروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاو کرنا۔لوگوں سے اچھی باتیں کرنا ۔نماز قائم کرنا۔ زکوٰة ادا کرنا“۔

گزشتہ صفحات میں عبادت خدا اور احکام الٰھی کی فرمانبرداری کے عنوان سے نمازاور انفاق کے سلسلہ میں لازمی حد تک وضاحت کی گئی ہے لہٰذا مذکورہ آیت کے ذریعہ ماں باپ، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیکی اور احسان، نیز دوسرے لوگوں کے ساتھ نیک گفتار کے سلسلہ میں کچھ چیزیں بیان کرتے ہیں :

ماں باپ کے ساتھ نیکی

قرآن مجید کی متعدد آیات نے تمام لوگوں کو خدا کی عبادت کے بعد ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے کا حکم دیا ہے، اس حکم سے شرعی اور اخلاقی وجوب کی بُوآتی ہے، یہ ایک ایسا حکم ہے جس کی اطاعت خدا کی عین بندگی اور عبادت ہے اور اس کی مخالفت گناہ و معصیت اور روز قیامت کے عذاب کا باعث ہے۔

خداوندعالم کا ارشاد ہوتا ہے:

( وَاعْبُدُوا اللهَ وَلاَتُشْرِكُوا بِهِ شَیئًا وَبِالْوَالِدَینِ إِحْسَانًا ) ۔(۳۶۰)

”اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی شئے کو اس کا شریک نہ بناو اور والدین کے ساتھ نیک برتاوکرو“۔

ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا ان زحمتوں اور احسان کی تلافی ہے جس کو ان دونوں نے اپنی اولاد کے ساتھ کیا ہے، جنھوں نے پیدائش کے وقت سے اب تک کسی بھی طرح کے احسان اور زحمت سے دریغ ن ہیں کیا۔

انھوں نے تمام مقامات پر اپنی اولاد کو اپنے اوپر مقدم کیا، ان کے سلسلہ میں ایثار کیا قربانیاں دیں اور اپنی طرف سے درگزر کیا، بلاؤں کے طوفان اور سخت سے سخت حالات میں اولاد کی حفاظت کی، اور اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہوئے اپنی آغوش میں بٹھایا، اولاد کے چین و سکون کے لئے راتوں جاگتے رہے ، اور سخت سے سخت حالات کی تلخیوں کو خوش ہوکر برداشت کیا، اس کی تربیت میں بھت سی مصیتیں برداشت کیں، اور اپنے خون جگر سے ان کو غذا دی، بھت سی سختیوں اور پریشانیوں کو تحمل کیا تاکہ اولاد کسی مقام پر پہنچ جائے، لہٰذا اب اولاد کی ذمہ داری ہے کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کرکے ان کی زحمتوں کے ایک معمولی سے حصہ کی تلافی کرے۔

( وَقَضَی رَبُّكَ الاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیاهُ وَبِالْوَالِدَینِ إِحْسَانًا إِمَّا یبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ احَدُهما اوْ كِلَاهما فَلاَتَقُلْ لَهما افٍّ وَلاَتَنْهرهما وَقُلْ لَهما قَوْلًا كَرِیمًا وَاخْفِضْ لَهما جَنَاحَ الذُّلِّ مِنْ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهما كَمَا رَبَّیانِی صَغِیرًا ) ۔(۳۶۱)

”اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاو کرنا اور اگر تمھارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو خبر دار ان سے اف نہ کہنا اور ان ہیں جھڑکنا بھی ن ہیں اور ان سے ھمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا ۔اور ان کے لئے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگار ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انھوں نے پچپن میں مجھے پالا ہے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال ہوا کہ ماں باپ کے سلسلہ میں جس احسان کی سفارش ہوئی ہے اس سے کیا مراد ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ان کے ساتھ نیکی اور بھلائی کے ساتھ زندگی کرو، ان کو مجبور نہ کرو کہ وہ تم سے کسی چیز کا سوال کریں اگرچہ وہ بے نیاز ہوں، بلکہ ان کے کہنے سے پھلے ہی ان کی ضرورتوں کو پورا کردو، کیا خداوندعالم نے قرآن مجید میں ن ہیں فرمایا ہے:

( لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ) ۔(۳۶۲)

”تم نیکی کی منزل تک ن ہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ دا میں انفاق نہ کرو“۔

ان کو ”اُف“ تک نہ کھو، اور ان کو اپنے سے دور نہ کرو، ان کو مایوس نہ کرو، اگر ان کی وجہ سے تم کو کوئی پریشانی ہے بھی تو اس کو برداشت کرو اور اپنی زبان پر کوئی ایسا لفظ نہ لاؤ جس سے وہ ناراحت ہوں، اگر انھوں نے تم ہیں مارنے کے لئے ھاتھ اٹھایا یا تم کو مار بھی دیا ہو تو صبر کرو، اور ان سے جدا نہ ہوں، اور ایسی حالت میں ان سے کھو: خداوندعالم تم سے درگزر فرمائے، اور اپنی مغفرت میں جگہ عنایت فرمائے، کہ”قول کریم“ سے مراد یھی ہے، پیار اور محبت بھری نگاھوں سے ان کی طرف دیکھا کرو، مھربانی کی نگاہ کے علاوہ ان کو نہ دیکھو، اپنی آواز کو ان کی آواز سے بلندتر نہ کرو، ان کے ھاتھ سے اپنا ھاتھ اوپر نہ اٹھاؤ، اور ان کے چلتے ہوئے ان سے آگے آگے نہ چلو(۳۶۳)

حضرت امام صادق علیہ السلام نیکی اور احسان کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اگر خداوندعالم کے نزدیک ”اُف“ سے کمتر کوئی لفظ ہوتا تو اولاد کو اپنے ماں باپ کے لئے کہنے سے منع فرماتا۔ نیز اولاد کو یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ عاق کا سب سے کم درجہ ماں باپ کے لئے لفظ ”اُف“ کا استعمال کرنا ہے۳(۶۴)

کتاب شریف”کافی“ میں روایت بیان ہوئی ہے کہ ماں باپ کی طرف ترچھی نگاھوں سے دیکھنا (بھی) عاق کا ایک مرحلہ ہے!۔(۳۶۵)

ایک شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا: اولاد پر باپ کا حق کیا ہے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”لَا یسَمِّیهِ بِاسْمِهِ، وَلَا یمْشی بَینَ یدَیهِ، وَلَا یجْلِسُ قَبْلَهُ، وَلَا یسْتَسِبُّ لَهُ(۳۶۶)

”باپ کا نام لے کر نہ پکارے، اس کے آگے نہ چلے، اس کی طرف پیٹھ کرکے نہ بیٹھے اور اپنے برے کاموں کے ذریعہ اپنے بے گناہ باپ کو ذلیل و رسوا نہ کرے“۔

ایک روایت میں بیان ہوا ہے: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین بار فرمایا: ذلیل و رسوا ہو، اصحاب نے سوال کیا: یا رسول اللہ! آپ کس کے بارے میں فرمارہے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: جس کے ماں باپ ضعیف العمر ہوں اوروہ ان کے ساتھ نیکی و احسان نہ کرکے بہشت میں داخل نہ ہو۔(۳۶۷)

جناب حذیفہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا: میرا باپ مشرکین کی طرف سے میدان جنگ میں آیا ہوا ہے کیا آپ مجھے اس پر حملہ کرنے اوراس کو قتل کرنے کی اجازت دیتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: ن ہیں ، تم یہ کام نہ کرو، کوئی دوسرا اس سے مقابلہ کرے(۳۶۸)

تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے:

افْضَلُ والِدَیكُمْ وَاَحَقُّهُما بِشُكْرِكُمْ مُحَمَّدٌ صلی الله علیه و آله و سلم وَعَلِی علیه السلام(۳۶۹)

”تمھارا سب سے بھترین باپ اور تمھارے شکریہ کے سزاوار ترین ذات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور علی علیہ السلام ہیں “۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے:

اَنَا وَ عَلَی اَبَوَاهٰذِهِ الْاُمَّةِ، وَلَحَقُّنا عَلَیهِمْ اَعْظَمُ مِنْ حَقِّ اَبَوَی وِلَادَتِهِمْ فَاِنَّا نُنْقِذُهُمْ اِنْ اَطاعونا مِنَ النّارِ اِليٰ دَارِالْقَرارِ، وَنُلْحِقُهُمْ مِنَ الْعُبودِیةِ بِخِیارِ الْاَحْرارِ(۳۷۰)

”میں اور علی دونوں اس امت کے باپ ہیں ، بے شک ھمارا حق اس باپ سے بھی زیادہ ہے جو اسے دنیا میں لانے کا سبب بنا، ھم اس امت کو آتش جہنم سے نجات دیتے ہیں اگر ھماری اطاعت کریں، اور ان کو جنت میں پہنچادیں گے اگر ھمارے حکم پر عمل کرے، اور ان کو عبادت کے سلسلہ میں منتخب بندوں سے ملحق کردیں گے“۔

رشتہ داروں سے نیکی کرنا

رشتہ داروں سے مراد ماں باپ کے حسبی اور نسبی رشتہ دار مراد ہیں ۔

انسان کا چچا، ماموں، پھوپھی، خالہ، اولاد، داماد، بھو اور اولاد کی اولاد رشتہ دار کھلاتے ہیں ۔

بھائی، بہن، بھتیجے، بھانجے، داماد اور بھوویں اور ھر وہ شخص جو نسبی یا سببی رشتہ رکھتا ہو انسان کے رشتہ دار حساب ہوتے ہیں ۔

ان کے ساتھ صلہ رحم اور نیکی یہ ہے کہ ان سے ملاقات کرے، ان کی مشکلات کو دور کرے اور ان کی حاجتوں کو پورا کرے۔

رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحم اور نیکی کرنا خداوندعالم کا حکم اور ایک اخلاقی و شرعی ذمہ داری ہے، جس کا اجر ثواب عظیم اور اس کا ترک کرنا عذاب الیم کا باعث ہے۔

قرآن مجید نے پیمان شکنی، قطع تعلق اور زمین پر فتنہ و فساد پھیلانے کو خسارہ اور گھاٹااٹھانے والوں میں شمار کیا ہے:

( الَّذِینَ ینقُضُونَ عَهْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِهِ وَیقْطَعُونَ مَا امَرَ اللهُ بِهِ انْ یوصَلَ وَیفْسِدُونَ فِی الْارْضِ اوْلَئِكَ هم الْخَاسِرُونَ ) ۔(۳۷۱)

”جو خدا کے ساتھ مضبوط عہد کرنے کے بعد بھی اسے توڑ دیتے ہیں اور جسے خدا نے جوڑ نے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں یھی وہ لوگ ہیں جو حقیقتاً خسارہ والے ہیں “۔

رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا ایک غیر شرعی عمل ہے اگرچہ انھوںنے کسی کو رنجیدہ خاطر بھی کیا ہو۔

رشتہ داروں کے یھاں آمد و رفت، ایک خداپسند عمل اور اخلاق حسنہ کی نشانی ہے۔

اگر چہ انسان کے بعض رشتہ دار دین و دینداری سے دور ہوں اور حق و حقیقت کے مخالف ہوں لیکن اگر ان کی ہدایت کی امید ہو تو ان کی نجات کے لئے قدم اٹھانا چاہئے اور امر بالمعروف و نھی عن المنکر کے لئے ان کے یھاں رفت و آمد کرنا چاہئے۔

صلہ رحم کے سلسلہ میں بھت سی اھم روایات رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے بیان ہوئیں ہیں جن کے حکیمانہ مطالب پر توجہ کرنا ھر مومن پر لازم و واجب ہے۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بھت سی اھم روایات صلہ رحم کے سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں جو واقعاً بھت ہی اھم ہیں :

اِنَّ اَعْجَلَ الْخَیرِ ثَواباً صِلَةُ الرَّحِمِ “۔

”بے شک ثواب کی طرف تیزی سے جانے والا کار خیر صلہ رحم ہے“۔

صِلَةُ الرَّحِمِ تُهَوِّنُ الْحِسابَ، وَتَقی میتَةَ السُّوءِ “۔

”صلہ رحم کے ذریعہ روز قیامت میں انسان کا حساب آسان ہوجاتا ہے، اور بُری موت سے محفوظ رھتا ہے“۔

صِلُوا اَرْحَامَكُمْ فِی الدُّنْیا وَلَوْ بِسَلامٍ “۔

”دنیا میں صلہ رحم کی رعایت کرو اگرچہ ایک سلام ہی کے ذریعہ کیوں نہ ہو“۔

صِلْ مَنْ قَطَعَكَ، وَاَحْسِنْ اِليٰ مَنْ اَساءَ اِلَیكَ، وَقُلِ الْحَقَّ وَلَوْعَليٰ نَفْسِكَ “۔

”جن رشتہ داروں نے تجھ سے قطع تعلق کیا ہے اس کے ساتھ صلہ رحم کرو، اور جس نے تمھارے ساتھ بدی کی ہے اس کے ساتھ نیکی کرو، نیز ھمیشہ سچ بات کھو چاھے تمھارے نقصان میں تمام ہو“۔

اِنَّ الرَّجُلَ لَیصِلُ رَحِمَهُ وَقَدْ بَقِی مِنْ عُمُرِهِ ثَلاثُ سِنینَ فَیصَیرُهَا اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ ثَلاثینَ سَنَةً، وَیقْطَعُها وَقَدْ بَقِی مِنْ عُمُرِهِ ثَلاثُونَ سَنَةً فَیصَیرُهَا اللّٰهُ ثَلاثَ سِنینَ [۱۲۴]ثُمَّ تَلا :( یمْحُوا اللهُ مَا یشَاءُ وَیثْبِتُ وَعِنْدَهُ امُّ الْكِتَابِ ) ۔(۳۷۲)

”بے شک جب انسان صلہ رحم کرتا ہے تو اگرچہ اس کی عمر کے تین سال باقی رہ گئے ہوں تو خداوندعالم اس کی عمر تیس سال بڑھادیتا ہے، اور جو شخص رشتہ داروں سے قطع تعلق کرتا ہے اگرچہ اس کی عمر تیس سال باقی رہ گئی ہو توبھی خداوندعالم اس کی عمر تین سال کردیتا ہے، اس کے بعد (امام علیہ السلام نے) مذکورہ بالا آیت کی تلاوت کی:( خداوندعالم جس چیز کو چاھے مٹادے اور جس چیز کو چاھے لکھ دے) “۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:

وَاكْرِمْ عَشِیرَتَكَ فَاِنَّهُمْ جَناحُكَ الَّذِی بِهِ تطیر، وَاَصْلُكَ الَّذِی اِلَیهِ تَصیرُ، وَیدُكَ الَّذِی بِها تَصولُ(۳۷۳)

”اپنے رشتہ داروں کے ساتھ لطف و کرم کرو، وہ تمھارے بال و پر ہیں جن کے ذریعہ تم پرواز کرسکتے ہو، اور وھی تمھاری اصل ہیں کہ ان کی طرف پلٹ جانا ہے، نیز تمھاری طاقت ہیں کہ ان ہیں کے ذریعہ اپنے دشمنوں پر حملہ کرسکتے ہو“۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام فرماتے ہیں : جناب موسيٰ علیہ السلام نے خداوندعالم کی بارگاہ میں عرض کیا:

فَما جَزاءُ مَنْ وَصَلَ رَحِمَهُ قَالَ:یا مُوسيٰ اُنْسِی ءُ لَهُ اَجَلَهُ، وَاُهَوِّنَ عَلَیهِ سَكَراتِ الْمَوْتِ(۳۷۴)

”خداوندا! صلہ رحم کرنے والے کی جزا کیا ہے؟ جواب آیا: اس کی موت دیر سے بھیجوں گا، اور اس کے لئے موت کی سختیوں کو آسان کردوں گا“۔

__ __________________

۲۶۴. سورہ انعام، آیت ۵۴۔

۲۶۵. سورہ انعام، آیت ۵۴۔

۲۶۶. سورہ بقرہ، آیت ۳۔۵۔

۲۶۷. سورہ ابراھیم، آیت ۱۰۔

۲۶۸. سورہ بقرہ، آیت ۲۱۔۲۲۔

۲۶۹. سورہ بقرہ، آیت ۲۱۔

۲۷۰. توحید مفضل :۳۹؛بحارالانوار، ج۳، ص۵۷، باب ۴، حدیث۱۔۸.جاء اعرابی الی النبی صلی الله علیه و آله و سلم فقال:یا رسول الله !علمنی من غرائب العلمقال:ما صنعت فی راس العلم حتی تسال عن غرائبهقال الرجل :ما راس العم یا رسول الله ؟قال:معرفة الله حق معرفته قال الاعرابی:وما معرفة الله حق معرفته؟قال:تعرفه بلا مثل و لاشبه ولاند، وانه واحد احد ظاهر باطن اول آخرلاکفو له ولا نظیر فذلک حق معرفته ۔

۲۷۱. سورہ طہ، آیت ۱۱۱۔

۲۷۲. سورہ بقرہ، آیت ۱۶۳۔

۲۷۳. سورہ بقرہ، آیت ۹۸۔

۲۷۴. سورہ نساء، آیت ۱۳۶۔

۲۷۵. نہج البلاغہ، ترجمہ علامہ جوادی علیہ الرحمہ، ص ۳۱۔

۲۷۶. سورہ مومنون، آیت ۹۹۔۱۰۰۔

۲۷۷. آل عمران، آیت ۱۶۹۔

۲۷۹. سورہ آل عمران، آیت ۲۵۔

۲۸۰. سورہ آل عمران، آیت ۱۵۸۔

۲۸۱. سورہ مائدہ، آیت ۹۶۔

۲۸۲. سورہ انعام، آیت ۱۲۔

۲۸۳. سورہ انعام، آیت ۳۶۔

۲۸۴. سورہ توبہ آیت ۹۴۔

۲۸۵. سورہ مومنون آیت ۱۵۔۱۶۔

۲۸۶. سورہ قیامت آیت ۱۔۴۔

۲۸۷. تفسیر قمی ج۲، ص۲۵۳، کیفیة نفخ الصور؛بحار الانوار ج۷، ص۳۹، باب ۳، حدیث۸۔۳۲.عن ابی جعفر علیه السلام قال:کان فیما وعظ به لقمان علیه السلام ابنه ان قال :یا بنی!ان تک فی شک من الموت فارفع عن نفسک النوم، ولن تستطیع ذلک، وان کنت فی شک من البعث فارفع عن نفسک الانتباه، ولن تستطیع ذلکفانک اذا فکرت فی هذا علمت ان نفسک بید غیرک، وانما النوم بمنزلة الموت، وانما الیقظة بعد النوم بمنزلة البعث بعد الموت ۔

۲۸۸. تفسیر نوین، ص : ۱۹۔

۲۸۹. سورہ یس آیت ۷۷۔۷۹۔

۲۹۰. سورہ یس آیت ۷۹۔((قُلْ یحْییها الَّذِی انشَاها اوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ ))

۲۹۱. سورہ بقرہ آیت ۲۸۴۔

۲۹۲. سورہ طہ آیت ۵۲۔

۲۹۳. تفسیر نمونہ ج۱۸، ص۴۵۶۔

۲۹۴. سورہ بقرہ آیت ۲۰۱۔۲۰۲۔

۲۹۵. سورہ انعام آیت ۶۲۔

۲۹۶. سورہ انشقاق آیت ۷۔۸۔

۲۹۷. اما لی صدوق :۳۹، مجلس ۱۰، حدیث ۹؛بحار الانوار ج۷، ص۲۵۸، باب ۱۱، حدیث ۱۔۴۳.عن ابی جعفر علیه السلام قال :قلت له: یاابن رسول الله ان لی حاجة، فقال:تلقانی بمکةفلقت :یا ابن رسول الله!ان لی حاجة فقال تلقانی بمنی، فقلت :یا ابن رسول الله !ان لی حاجة فقال:هات حاجتک فقلت یاابن رسول الله !انی اذنبت ذنبا بینی وبین الله لم یطلع علیه احد فعظم علی واجلک ان استقبلک بهفقال:انه اذاکان یوم القیامة وحاسب الله عبده المومن اوقفه علی ذنوبه ذنبا ذنبا، ثم غفر ها له لا یطلع علی ذلک ملکا مقربا ولا نبیا مرسلا ۔

۲۹۸. امالی طوسی ص۲۱۲، مجلس ۸، حدیث ۳۶۹؛بحار الانوار ج۷، ص۲۶۲، باب ۱۱، حدیث ۱۴۔

۲۹۹.عن یونس بن عمار، قال:قال ابو عبد الله علیه السلام :ان الدواوین یوم القیامة دیوان فیه النعم ودیوان فیه الحسنات، ودیوان فیه السیئات، فیقابل بین دیوان النعم ودیوان الحسنات، فتسغرق النعم دیوان الحسنات ویبقی دیوان السیئات، فیدعا ابن آدم المومن للحساب فیتقدم القرآن امامه فی احسن صورة فیقول:یارب !انا القرآن وهذا عبدک المومن قدکان یتعب نفسه بتلاوتی، و یطیل لیله بترتیلی، و تفیض عیناه اذا تهجد، فارضه کما ارضانی، قال:فیقول العزیز الجبار:ابسط یمینک فیملوها من رضوان الله العزیز الجبار، ویملا ٴشماله من رحمة الله ثم یقال:هذه الجنة مباحة لک، فاقرا واصعد فاذا قرا آیة صعد درجة

۳۰۰. سورہ آل عمران آیت ۱۹۔

۳۰۱. سورہ رعد آیت ۱۸۔

۳۰۲. سورہ طلاق آیت ۸۔

۳۰۳. سورہ غاشیہ آیت ۲۳۔۲۶۔

۳۰۴. سورہ اسراء آیت ۳۶۔(ترجمہ آیت:”سماعت، بصارت اور قوت قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔“

۳۰۵. تفسیر عیاشی ج۲، ص۲۹۲، حدیث ۷۵؛بحار الانوار ج۷، ص۲۶۷، باب ۱۱، حدیث ۳۰۔

۳۰۶. کافی ج۸، ص۱۰۴، حدیث ابی بصیر مع المراة، حدیث۷۹؛بحار الانوار ج۷، ص۲۷۰، باب۱۱، حدیث۳۵۔

۳۰۷. سورہ نساء آیت ۴۸۔۵۴.الا وان الظلم ثلاثة :فظلم لا یغفر، وطلم لا یترک، و ظلم مغفور لا یطلب فاما الظلم الذی لا یغفر :فالشرک بالله قال الله سبحانه ( إ ِنَّ اللهَ لاَیغْفِرُ انْ یشْرَكَ بِه ) واما الظلم الذی یغفر:فظلم العبد نفسه عند بعض الهناتوا ما الظلم الذی لا یترک :فظلم العباد بعضهم بعضا القصاص هناک شدید الیس هو جرحا بالمدی ولا ضربا بالسیاط ولکنه ما یستصغر ذلک معه ۔

۳۰۸. علل الشرایع ج۲، ص۵۲۸، باب ۳۱۲، حدیث۶؛بحار الانوارج۷، ص۲۷۴، باب۱۱، حدیث۴۶۔

۳۰۹. سورہ اعراف آیت ۸۔

۳۱۰. سورہ انبیاء آیت ۴۷۔

۳۱۱. معانی الاخبار ص۳۱، حدیث ۱؛بحار الانوار ج۷، ص۲۴۹، باب ۱۰، حدیث۶۔

۳۱۲. سورہ اعراف آیت ۸۔۹۔

۳۱۳. سورہ انبیاء آیت ۴۷۔

۳۱۴. سورہ قارعہ آیت ۶۔۱۱۔

۳۱۵. اما لی صدوق :۱۰، مجلس ۳، حدیث۳؛خصال ج۲، ص۳۶۰، حدیث ۴۹؛بحار الانوار ج۷، ص۲۴۸، باب ۱۰، حدیث ۲۔

۳۱۶. کافی ج۲، ص۹۹، باب حسن الخلق، حدیث۲؛بحار الانوار ج۷، ص۲۴۹، باب۱۰، حدیث۷۔

۳۱۷. عیون اخبار الرضا ج۲، ص۱۲۵، باب ۳۵، حدیث ۱؛بحار الانوار ج۷، ص۲۴۹، باب۱۰، حدیث۵۔

۳۱۸. سورہ مائدہ آیت ۱۱۹۔

۳۱۹. سورهٴ یونس آیت ۲۷۶۷. عن ابی جعفر علیه السلام قال:اذا کان یوم القیامة امر الله تبارک و تعالی منادیا ینادی بین یدیه: این الفقراء ؟فیقوم عنق من الناس کثیر، فیقول: عبادیفیقولون :لبیک ربنافیقول:انی لم افقرکم لهوان بکم علی، ولکن انما اخترکم لمثل هذا الیوم تصفحوا وجوه الناس، فمن صنع الیکم معروفا لم یصنعه الا فی فکافوه عنی بالجنة

۳۲۰. عن ابی عبدالله علیه السلام قال:ایما مومن منع مومنا شیئا مما یحتاج الیه وهو یقدر علیه من عنده اومن عند غیره، اقامه الله القیامة مسودا وجهه، مزرقة عیناه، مغلولة یداه الی عنقه، فیقال:هذا الخائن الذین خان الله ورسوله ثم یومر به الی النارکافی ج۲، ص۳۶۷، باب من منع مومنا سیئا، حدیث ۱؛بحا الانوار ج۷، ص۲۰۱، باب۸، حدیث(۸۴)

۳۲۱. عن عبد الله بن الحسین عن ابیه عن جده عن امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیهم السلام قال:قال رسول الله(ص) : یا علی! کذب من زعم انه یحبنی و یبغضک یا علی!انه اذا کان یوم القیامة نادی مناد من بطنان العرش :این محبو علی و شیعته؟این محبوا علی و من یحبه؟این المتحابون فی الله؟این المتباذلون فی الله ؟این الموثرون علی انفسهم ؟این الذین جفت الستنهم من العطش ؟این الذین یصلون فی اللیل والناس این الذین یبکون من خشیة الله؟لا خوف علیکم الیوم ولا؛انتم تحزنون انتم رفقاء محمد صلی الله علیه و آله و سلم قروا عینا ادخلوا الجنة انتم وازواجکم تحبرون

۳۲۲. سورہ بقرہ آیت ۳۔، ”جو لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں -۔“

۳۲۴. سورہ اسراء آیت ۸۸۔

۳۲۵. سورہ بقرہ آیت ۱۱۰۔

۳۲۶. سورہ بقرہ آیت ۴۵۔

۳۲۷. سورہ انفال آیت ۲۔۳۔

۳۲۸. سورہ نساء آیت ۴۳۔

۳۲۹. سورہ مریم آیت ۵۵۔

۳۳۰. سورہ عنکبوت آیت ۴۵۔

۳۳۱. سورہ مدثر آیت ۴۳۔۴۶۔

۳۳۲. سورہ ماعون آیت ۴۔۶۔

۳۳۳. من لا یحضرہ الفقیہ ج۱، ص۲۰۶، باب فرض الصلاة، حدیث ۶۱۷؛علل الشرایع ج۲، ص۳۵۶، باب ۷۰، حدیث ۱؛بحار الانوار ج۸۰، ص۹، باب ۶، حدیث۳۔

۳۳۴. امالی صدوق ص۲۰۷، مجلس ۳۷، حدیث ۸؛بحا ر الانوار ج۸۰، ص۹، باب۶، حدیث ۶۔

۳۳۵. مشکاة الانوار، ۵۳، الفصل الرابع عشر فی اداء الامانة ؛بحار الانوار ج۸۰، ص۱۱، باب۶، حدیث ۱۰۔

۳۳۶. خصال ج۱، ص۱۶۳، حدیث ۲۱۳؛وسائل الشیعہ ج۴، ص۱۱۲، باب ۱، حدیث ۴۶۵۱۔

۳۳۷. عیون اخبار الرضا ج۲، ص۳۱، باب۳۱، حدیث ۴۶؛بحار الانوار ج۸۰، ص۱۴، باب ۶، حدیث ۲۳۔

۳۳۸. محاسن ج۱، ص۲۵۴، باب ۳۰، حدیث۲۸۱؛بحار الانوار ج۸۰، ص۲۰، باب ۶، حدیث۳۶؛مستدرک الوسائل ج۳، ص۹۶، باب۱، حدیث۳۱۰۶۔

۳۴۰. سورہ بقرہ آیت ۳۔

۳۴۱. سورہ بقرہ آیت ۱۹۵۔

۳۴۲. سورہ بقرہ آیت ۲۵۴۔

۳۴۳. سورہ تغابن آیت ۱۶۔

۳۴۴. سورہ بقرہ آیت ۲۶۱۔

۳۴۵. سورہ بقرہ آیت ۲۷۴۔

۳۴۶. سورہ فاطر آیت ۲۹۔

۳۴۷. مصباح الشریعہ :۱۵، باب الثانی والعشرون فی الزکاة؛بحار الانوار ج۹۳، ص۷، باب ۱، حدیث۱۔

۳۴۸.قوله عزوجل: ( وَآ تُوا الزَّکوٰةَ ) من المال والجاه وقوة البدنفمن المال:مواساة اخوانکم المومنین؛ ومن الجاه:ایصالهم الی ما یتقا عسو ن عنه لضعفهم عن حوائجهم المترددة فی صدورهم ؛وبالقوة:معونة اخ لک قد سقط حماره او جمله فی صحراء او طریق، وهو یستغیث فلا یغاث تعینه، حتی یحمل علیه متاعه، وترکبه (علیه)و تنهضه حتی تلحقه القافله، وانت فی ذلک کله معتقد لموالاة محمد وآله الطیبین، فان الله یزکی اعمالک ویضاعفها بموالاتک لهم، وبراء تک من اعدائهم ۔

۳۴۹. بصائر الدرجات ص۱۱، حدیث ۴؛بحار الانوار ج۹۳، ص۱۱۴، باب۱۴، حدیث۲۔

۳۵۰. زید بن علی عن ابیه عن جده علیهم السلام قال:قال امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیه السلام :ان فی الجنة لشجرة یخرج من اعلاها الحلل ومن اسفلها خیل بلق مسرجة ملجمة ذوات اجنحة لا تروث ولا تبول، فیرکبها اولیاء الله فتطیر بهم فی الجنة حیث شاء وا، فیقول الذین اسفل منهم:یا ربنا !ما بلغ بعبادک هذه الکرامة ؟فیقول الله جل جلاله :انهم کانوا یقومون اللیل ولا ینامون، ویصومون النهار ولا یاکلون ویجاهدون العدوا ولا یجبنون، ویتصدقون ولا یبخلون ۔

۳۵۱. من لایحضرہ الفقیہ ج۴، ص ۱۷، باب ذکر جمل من مناھی النبی، حدیث۴۹۶۸؛بحار الانوار ج۹۳، ص۱۱۵، باب ۱۴، حدیث ۵۔

۳۵۲. کافی ج۴، ص۲۷، باب فضل المعروف، حدیث ۴؛بحار الانوار ج۹۳، ص۱۱۹، باب ۱۴، حدیث ۲۰۔

۳۵۳. عیون اخبار الرضا ج۲، ص۴، باب ۳۰، حدیث ۹؛وسائل الشیعہ ج۹، ص۳۹۰، باب۱۰، حدیث۱۲۳۰۹؛ بحارالانوار ج۹۳، ص۱۲۰، باب ۱۴، حدیث ۲۳۔

۳۵۴. کافی ج۴، ص۴۳، باب الانفاق، حدیث ۵؛عیون اخبار الرضاج۲، ص۸، باب ۳۰، حدیث۲۰؛بحار الانوار ج۹۳، ص۱۲۱، باب۱۴، حدیث۲۴۔

۳۵۵. سورہ بقرہ آیت(۲۶۲)

۳۵۶. سورہ بقرہ آیت ۲۶۴۔

۳۵۷. سورہ بقرہ آیت ۵۔

۳۵۸. سورہ فرقان آیت ۷۰۔

۳۵۹. سورہ بقر ہ آیت ۸۳۔

۳۶۰. سورہ نساء آیت ۳۶۔

۳۶۱. سورہ اسراء آیت ۲۳۔۲۴۔

۳۶۲. سورہ آل عمران آیت ۹۲۔

۳۶۳. کافی ج۲، ص۱۵۷، باب البر بالوالدین، حدیث ۱؛بحارالانوار ج۷۱، ص۳۹، باب ۲، حدیث ۳۔

۳۶۴. عن حدید بن حکیم عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال ادنی العقوق اف ولو علم اللہ عز وجل شیئا اھون منہ لنھی عنہ۔

۳۶۵. کافی ج۲، ص۳۴۹، باب العقوق، حدیث۷۔

۳۶۶. کافی ج۲، ص۱۵۸، باب البر بالوالدین، حدیث ۵؛بحار الانوار ج۷۱، ص۴۵، باب۲، حدیث۶۔

۳۶۷. تفسیر صافی ج۳، ص۱۸۵، ذیل سورہ اسراء، آیت ۲۴۔

۳۶۸. تفسیر صافی ج۳، ص۱۸۶، ذیل سورہ اسراء، آیت ۲۴ ۔

۳۶۹. تفسیر امام حسن عسکری ص۳۳۰، حدیث ۱۸۹، ذیل سورہ اسرائآیت ۲۴ ؛بحار الانوار ج۲۳، ص۲۵۹، باب۱۵، حدیث۸۔

۳۷۰. تفسیر صافی ج۱، ص۱۵۰، ذیل سورہ اسرائآیت ۸۳، تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام ص۳۳۰، حدیث ۱۹۰؛بحار الانوار ج۲۳، ص۲۵۹، باب ۱۵، حدیث ۸۔

۳۷۱. سورہ بقرہ آیت ۲۷۔

۳۷۲. سورہ رعد آیت ۳۹۔

۳۷۳. نہج البلاغہ ص۶۴۲، نامہ ۳۱، فی الرای فی المراة ؛بحار الانوار ج۷۱، ص۱۰۵، باب۳، حدیث۶۷۔

۳۷۴. امالی صدوق ص۲۰۷، مجلس ۳۷، حدیث ۸؛بحار الانوار ج۶۶، ص۳۸۳، باب۳۸، حدیث۴۶۔

خداوند عالم کی طرف واپسی

( وَإِنِّی لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهتدَی ) (۹۵)

” میں زیادہ بخشنے والاھوں اس شخص کے لئے جو توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے اور پھر راہ ہدایت پر ثابت قدم رہے “۔

گناھگار اور توبہ کرنے کی طاقت

کوئی بھی ماں نے اپنے بیٹے کو گناھگار پیدا ن ہیں کرتی، رحم مادر سے کوئی بچہ بھی عاصی او رخطاکار پیدا ن ہیں ہوتا۔

جب بچہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے تو علم و دانش اورفکر و نظر سے خالی ہوتا ہے، اور اپنے اطراف میں ہونے والے واقعات سے بالکل بے خبر رھتا ہے۔

جس وقت بچہ اس دنیاکی فضا میں آتا ہے تو رونے اور ماں کا دودھ پینے کے علاوہ اور کچھ ن ہیں جانتا، بلکہ شروع شروع میں اس سے بھی غافل ہوتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ اس میںاحساسات، خواہشیں اور شھوات پیدا ہونے لگتی ہیں ، اپنے کارواں زندگی کو آگے بڑھانے کے لئے اپنے گھروالوںاور پھر باھر والوں سے سیکھتا جاتا ہے۔

اسی طرح اس کی زندگی کے دوران اس کے بدن میں مختلف بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں ، اس کی فکر و روح، نفس اور قلب میں خطائیں ہوجاتی ہیں ، اسی طرح عمل و اخلاق کے میدان میں گناھوںکا مرتکب ہونے لگتا ہے، پس معلوم یہ ہوا کہ گناہ بدن پر طاری ہونے والی ایک بیماری کی طرح عارضی چیز ہے، ذاتی ن ہیں ۔

انسان کے بدن کی بیماری طبیب کے تجویز کئے ہوئے نسخہ پر عمل کرنے سے ختم ہوجاتی ہے، بالکل اسی طرح اس کی باطنی بیماری یعنی فکر و روح اور نفس کی بیماری کا علاج بھی خداوندمھربان کے احکام پر عمل کرنے سے کیا جاسکتا ہے۔

گناھگار جب خود کو پہچان لیتا ہے اور اپنے خالق کے بیان کردہ حلال و حرام کی معرفت حاصل کرلیتا ہے یقینااس روحانی طبیب کے نسخہ پر عمل کرتے ہوئے گناھوں سے توبہ کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، اور خداوندمھربان کی ذات سے امید رکھتا ہے کہ وہ اس کو گناھوں کے دلدل سے باھرنکال دے گا اور پھر وہ اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے شکم مادر سے ابھی پیدا ہواھو۔

گناھگار یہ ن ہیں کہہ سکتا کہ میں توبہ کرنے کی طاقت ن ہیں رکھتا، کیونکہ جو شخص گناہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے بے شک وہ توبہ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔

جی ھاں، انسان کھانے پینے، آنے جانے، کہنے سننے، شادی کرنے، کاروبار میں مشغول ہونے، ورزش کرنے، زندگی گذارنے اور زورآزمائی کے مظاھرے پر قدرت رکھتا ہے، وہ اپنی خاص بیماری کی وجہ سے ڈاکٹر کے کہنے پر بعض چیزوں سے پرھیز بھی کرسگتا ہے اور بیماری کے بڑھنے کے خوف سے جس طرح کچھ چیزیں ن ہیں کھاتا، اسی طرح جن گناھوں میں ملوث ہے ان سے بھی تو پرھیز کرسکتا ہے، اور جن نافرمانیوں میں مبتلا ہے اس سے بھی تو رک سکتا ہے۔

خداوندعالم کی بارگاہ میں توبہ کی قدرت نہ رکھنے کا عذر و بھانہ کرنا قابل قبول ن ہیں ہے، اگر گناھگار توبہ کی قدرت نہ رکھتا ہوتا تو خداوندعالم کبھی بھی توبہ کی دعوت نہ دیتا۔

گناھگار کو اس حقیقت پر یقین رکھنا چاہئے کہ وہ ھر موقع و محل پر تركِ گناہ پر قادرہے ، اور قرآنی نقطہ نظر سے خداوندعالم کی ذات گرامی بھی تواب و رحیم ہے، وہ انسان کی توبہ قبول کرلیتا ہے، اور انسان کے تمام گناھوں کو اپنی رحمت و مغفرت کی بنا پر بخش دیتا ہے اگرچہ تمام ریگزاروں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں، اور اس کے سیاہ نامہ اعمال کو اپنی مغفرت کی سفیدی سے مٹادیتا ہے۔

گناھگار کو اس چیزکا علم ہونا چاہئے کہ اگر تركِ گناہ اور اپنے ظاھر و باطن کی پاکیزگی کے لئے قدم نہ اٹھائے اور گناہ و معصیت میں اضافہ کرتا رہے ، تو پھر خداوندعالم بھی اس کو دردناک عذاب میں گرفتار کردیتا ہے اور سخت سے سخت عقوبت اس کے لئے مقرر فرماتاھے۔

خداوندعالم نے قرآن مجید میں خود کو اس طرح سے پہچنوایا ہے:

( غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَاب ) (۹۶)

”وہ گناھوں کا بخشنے والا، توبہ کا قبول کرنے والا اور شدید عذاب کرنے والا ہے “۔

امام معصوم علیہ السلام دعائے افتتاح میں خداوندعالم کی اس طرح حمد و ثنا فرماتے ہیں :

وَاَیقَنْتُ اَنَّكَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ فِی مَوْضِعِ الْعَفْوِوَالرَّحْمَةِ، وَاَشَدُّ المُعَاقِبِینَ فِی مَوْضِعِ النَّکالِ وَالنَّقِمَةِ “۔

”مجھے اس بات پر یقین ہے کہ تو رحمت و بخشش کے مقام میں سب سے زیادہ مھربان ہے، اور عذاب و عقاب کے مقام میں شدید ترین عذاب کرنے والاھے“۔

اسی طرح خداوندعالم نے قرآن مجید میں گناھگاروں سے خطاب فرمایا ہے:

( قُلْ یاعِبَادِی الَّذِینَ اسْرَفُوا عَلَی انْفُسِهم لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ ) (۹۷)

”(اے )پیغمبر آپ پیغام پہنچا دیجئے کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہوں، اللہ تمام گناھوں کا

معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ہے“۔

لہٰذا ایک طرف خداوندعالم کا تواب و غفور ہونا اور دوسری طرف سے گناھگار انسان کا گناھوں کے ترک کرنے پر قادر ہونا اس کے علاوہ قرآن مجید کی آیات کا گناھگار انسان کو خدا کی رحمت و مغفرت کی بشارت دیناان تمام باتوں کے باوجود ایک گناھگار کو اپنے گناھوں کے ترک کرنے میں کوئی عذر و بھانہ باقی ن ہیں رہنا چاہئے، اسی لئے گناھگار کے لئے توبہ کرنا عقلی اور اخلاقی لحاظ سے ”واجب فوری“ھے۔

اگر گناھگار توبہ کے لئے قدم نہ بڑھائے، اپنے گزشتہ کا جبران وتلافی نہ کرے اور اپنے ظاھر و باطن کو گناہ سے پاک نہ کرے، تو عقل و شرع، وجدان اور حکمت کی نظر میں اس دنیا میں بھی محکوم و مذموم ہے، اور آخرت میں بھی خداوندعالم کے نزدیک مستحق عذاب ہے۔ ایسا شخص روز قیامت حسرت و یاس اور ندامت و پشیمانی کے ساتھ فریاد کرے گا:

( لَوْ انَّ لِی كَرَّةً فَاكُونَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ ) (۹۸)

”اگر مجھے دوبارہ واپس جانے کا موقع مل جائے تو میں نیک کردار لوگوں میں سے ہو جاوں “۔

اس وقت خداوندعالم جواب دے گا:

( بَلَی قَدْ جَائَتْكَ آیاتِی فَكَذَّبْتَ بِها وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنْ الْكَافِرِینَ ) (۹۹)

”ھاں ھاں تیرے پاس میری آیت یں آئی ت ہیں تو نے ان ہیں جھٹلا دیا اور تکبر سے کام لیا اور کافروں میں سے ہو گیا“۔

روز قیامت گناھگار شخص کی نجات کے لئے دین و عمل کے بدلے میں کوئی چیز قبول نہ ہوگی، اور اس کی پیشانی پر سزا کی مھر لگادی جائے گی:

( وَلَوْ انَّ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا مَا فِی الْارْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لاَفْتَدَوْا بِهِ مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ یوْمَ الْقِیامَةِ وَبَدَا لَهم مِنْ اللهِ مَا لَمْ یكُونُوا یحْتَسِبُونَ ) (۱۰۰)

”اور اگر ظلم کرنے والوں کو زمین کی تمام کائنات مل جائے اور اتنا ہی اور بھی دیدیا جائے تو بھی یہ روز قیامت کے بدترین عذاب کے بدلے میں سب دیدیں گے، لیکن ان کے لئے خدا کی طرف سے وہ سب بھر حال ظاھر ہوگا جس کا یہ وھم و گمان بھی ن ہیں رکھتے تھے“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام دعائے کمیل میں فرماتے ہیں :

خدا کی بارگاہ میں گناھگار کے توبہ نہ کرنے میں کوئی عذر قبول ن ہیں کیا جائے گا، کیونکہ خدا نے گناھگار پر اپنی حجت تمام کردی ہے:

فَلَكَ الحُجةُ عَلَيَّ فی جَمیعِ ذٰلِكَ، وَلاٰحُجَّةَ لِی فِی مٰاجَريٰ عَلَيَّ فیهِ قَضٰاوكَ “۔

”تمام معاملات میں میرے اوپر تیری حجت تمام ہوگئی ہے اور اسے پورا کرنے میں تیری حجت باقی ن ہیں رھی “۔

بندوں پر خدا کی حجت کے سلسلے میں ایک اھم روایت

”عبد الاعليٰ موليٰ آل سام کھتے ہیں : میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا: روز قیامت ایک حسین و جمیل عورت کو لایا جائے گا جس نے دنیا میں اپنے حسن و جمال کی وجہ سے گناہ ومعصیت کو اپنا شعار بنایا تھا، وہ اپنی بے گناھی ثابت کرنے کے لئے کھے گی: پالنے والے! تو نے مجھے خوبصورت پیدا کیا، لہٰذا میں اپنے حسن و جمال کی بنا پر گناھوں کی مرتکب ہوگئی، اس وقت جناب مریم (سلام اللہ علیھا) کو لایا جائے گا، اور کھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ہے یا یہ باعظمت خاتون؟ ھم نے اس کو بھت زیادہ خوبصورت خلق فرمایا، لیکن پھر بھی انھوں نے اپنے کو محفوظ رکھا، برائیوں سے دور ر ہیں ۔

اس کے بعد ایک خوبصورت مرد کو لایا جائے گاوہ بھی اپنی خوبصورتی کی بنا پر گناھوں میں غرق رھا، وہ بھی کھے گا: پالنے والے ! تو نے مجھے خوبصورت پیدا کیا، جس کی بنا پر میں نامحرم عورتوں کے ساتھ گناھوں میں ملوث رھا۔ اس وقت جناب یوسف (علیہ السلام) کو لایا جائے گا، اور کھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ہے یا یہ عظیم الشان انسان، ھم نے ان ہیں بھی بھت خوبصورت پیدا کیا لیکن انھوں نے بھی اپنے آپ کو گناھوں سے محفوظ رکھااور فتنہ و فساد میں غرق نہ ہوئے۔

اس کے بعد ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا، جو بلاء اور مصیبتوں میںگرفتار رہ چکا تھا اور اسی وجہ سے اس نے اپنے کو گناھوں میں غرق کرلیا تھا، وہ بھی عرض کرے گا: پالنے والے! چونکہ تونے مجھے مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار کردیا تھا جس سے میرا حوصلہ اور استقامت جاتی رھی اور میں گناھوں میں غرق ہوگیا، اس وقت جناب ایوب (علیہ السلام) کو لایا جائے گااور کھا جائے گا: تمھاری مصیبتیں زیادہ ہیں یا اس عظیم انسان کی، یہ بھی مصیبتوں میں گھرے رہے ، لیکن انھوں اپنے آپ کو محفوظ رکھا اور فتنہ وفساد کے گڑھے میں نہ گرے“( ۱ ۰۱)

توبہ، آدم و حوا کی میراث

جناب آدم علیہ السلام روئے زمین پر خداوندعالم کے خلیفہ اور اس کے نائب کے عنوان سے پیداکئے گئے، اور پتلہ بنانے کے بعد اللہ نے اس میں اپنی روح کو پھونکی(۱۰۲) اور ان کو ”اسماء“ کا علم دیا، فرشتوں نے ان کی عظمت و کرامت کے سامنے حکم خدا کے سے سجدہ کیا، اس وقت خدا کے حکم سے وہ اور جناب حوّابہشت میں رہنے لگے(۱۰۳) بہشت کی تمام نعمتیں ان کے اختیار میں دیدیں گئی، اور ان ہیں تمام نعمتوں سے فیضیاب ہونے کے لئے کوئی رکاوٹ ن ہیں تھی، مگر دونوں سے یہ کھا گیا کہ فلاں درخت کے نزدیک نہ ہونا، کیونکہ اس کے نزدیک ہونے کی صورت میں تم ظالمین اور ستمگاروں میں سے ہوجاؤگے(۱۰۴)

وہ شیطان جس نے جناب آدم کو سجدہ نہ کرنے میں حکم خدا کی مخالفت کی اور خدا کی بارگاہ سے نکال دیا گیا، اسے خدا کی لعنت تکلیف دی رھی تھی، اس کا غرور و تکبر اس بات کی اجازت ن ہیں دیتا تھا کہ خدا کی بارگاہ میں توبہ کرلے، کینہ اور حسد کی وجہ سے جناب آدم و حوا علیھماالسلام سے دشمنی نکالنے کی فکر میں لگ گیا تاکہ ان کا چھپا ہوا بدن ظاھر ہوجائے، اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے اپنی عظمت و کرامت سے ھاتھ دھو بیٹ ہیں ، اور بہشت عنبر سے باھر نکال دئے جائیں نیز خدا کے لطف و کرم سے منھ موڑلیں۔

چنانچہ ان جملوں کے ذریعہ اس درخت کا پھل کھلانے کے لئے ان ہیں وسوسہ میں ڈال دیا:

”اے آدم و حوا ! خداوندعالم نے اس درخت کا پھل کھانے سے اس لئے منع کیا ہے کہ اگر تم اس کا پھل کھالوگے تو فرشتے بن جاؤگے یا اس ھرے بھرے باغ میں ھمیشہ ھمیشہ کے لئے رہ جاؤگے“۔

اپنے وسوسہ کو ان دونوں کے دلوں میں ثابت و مستحکم کرنے کے لئے اس نے (جھوٹی) قسم کھائی کہ میں تمھارا خیرخواہ ہوں۔(۱۰۵) شیطان کا حسین وسوسہ اور اس کی قسم نے دونوں حضرات کے حرص کو شعلہ ور کردیا، ان دونوں کا حرص خداوندعالم کی نھی کے درمیان حجاب بن گیا شیطان ان دونوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگیا، او ر یہ خدا کی نافرمانی میں مبتلا ہوگئے ۔اس درخت کا پھل کھالیا، ان کا بدن ظاھر ہوگیا، وقار و ہیبت اور نور و کرامت کا لباس اترگیا، اپنے بدن کو بہشت کے درخت کے پتوں سے چھپانا شروع کیا، اس وقت خداوندعالم نے خطاب فرمایا کہ کیا ھم نے تم ہیں اس درخت کے قریب جانے سے منع ن ہیں کیا تھا اور اعلان نہ کیا تھا کہ شیطان تمھارا كُھلا دشمن ہے؟!( ۱ ۰۶)

جناب آدم و حوا بہشت سے نکال دئے گئے، مقام خلافت و علم اور مسجود ملائکہ ہونے سے کوئی کام نہ چلا، اور جو عظمت ان کو دی گئی تھی اس سے ھبوط کرگئے، اور زندگی کے لئے زمین پر بھیج دئے گئے۔

مقام قرب سے دوری، فرشتوں کی ھم نشینی سے محرومی، بہشت سے خروج، نھی خدا پر بے توجھی اور شیطان کی اطاعت کی وجہ سے دونوں غم و اندوہ اور حسرت میں غرق ہوگئے، خود پسندی کے خوفناک اور محدود زندان میں پہنچ گئے، کیونکہ اسی خود پسندی اور خود بینی کی وجہ سے رحمت و عنایت اور لطف و کرم سے محروم ہوچکے تھے، اورغیر اللہ کے جال میں پھنس گئے تھے، اور ایمان، عشق اور بیداری کی فضا میں وارد ہوگئے، جھاں سے دنیاوی فائدے اور آخرت کے لئے بے نھایت فوائد انسان کو ملنے والے ہیں ۔

جب آدم و حوّا (علیھما السلام) اس طرح اپنے آپ میں آئے تو فریاد کی کہ ھم انانیت اور غفلت کے سبب فراق یار کے زندان گرفتار ہوگئے ہیں ، خودخواھی اور حرص و غرور کے اندھیرے میں غرق ہوگئے اور( ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا ) سے دچار ہوگئے۔

اپنی حالت پر متوجہ ہونے، حرّیت و آزادی کے میدان میںوارد ہونے، شیطان کے جال سے نجات پانے، خداوندعالم کی طرف متوجہ ہونے اور بارگاہ خداوندی میں تواضع و انکساری سے پیش آنے کا سبب ہے، کہ اگر شیطان بھی اسی طریقہ سے اپنی حالت پر توجہ کرتا تو خداوندعالم کی بارگاہ سے مردود نہ ہوتا اوراس کے گلے میں ھمیشہ کے لئے لعنت کا طوق نہ ڈالا جاتا۔جناب آدم و حوا علیھماالسلام غور و فکر او راندیشہ، تعقل، توجہ، بینائی اور بیداری کی معنوی اور قیمتی فضاء میں وارد ہوئے، ندامت و پشیمانی اور اشک چشم کے ساتھ اس طرح ادب اور خاکساری دکھائی کہ یہ ن ہیں کھا کہ: ”اِغْفِرْ لَنَا “، بلکہ خدا کی بارگاہ میں عرض کیا:( وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا ) اگر ھمیں ن ہیں بخشے گا اور ھم پر رحم نہ کرے گا( لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ ۔) (۱۰۷) تو ھم خسارہ اٹھانے والوں میں ہوجائیں گے۔

اس توجہ، بیداری، تواضع و انکساری، ندامت و پشیمانی، گریہ و توبہ اور خودی سے نکل کر خدائی بن جانے کی بنا پر ہی رحمت خدا کے دروازے کھل گئے، خدائے مھربان کا لطف و کرم شامل حال ہوا اور خدا کی عنایت و توجہ نے بڑھ کر استقبال کیا:

( فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیم ) (۱۰۸)

”پھر آدم نے پروردگار سے کلمات کی تعلیم حاصل کی اور ان کی بر کت سے خدانے ان کی توبہ قبول کر لی کہ وہ توبہ قبول کرنے والا اور مھربان ہے “۔

نور ربوبیت نے کلمات میں تجلی کی اور جناب آدم کی روح نے درک کیا، اس تینوں حقیقت یعنی نور ربوبی کی تجلی، کلمات اور روح آدم کی ھم آہنگی کے سبب ہی توبہ وجود میں آئی، وہ توبہ جس نے ماضی کا تدارک کردیا، اور توبہ کرنے والوں کے مستقبل کو روشن اور تابناک بنادیا۔

حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ جن کلمات کے ذریعہ جناب آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی وہ کلمات یہ تھے:

اَللّٰهُمَّ، لا اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ، سُبْحانَكَ وَ بِحَمْدِكَ، رَبِّ اِنّی ظَلَمْتُ نَفْسی، فَاغْفِرْلِی، اِنَّكَ خَیرُ الْغٰافِرِینَ اَللّٰهُمَّ، لا اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ، سُبْحانَكَ وَ بِحَمْدِكَ، رَبِّ اِنّی ظَلَمْتُ نَفْسی، فَارْحَمْنی اِنَّكَ خَیرُالرّاحِمینَ اَللّٰهُمَّ، لا اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ، سُبْحانَكَ وَ بِحَمْدِكَ، رَبِّ اِنّی ظَلَمْتُ نَفْسی فَتُبْ عَلَی اِنَّكَ اَنْتَ التَّوّابُ الرَّحیمُ(۱۰۹)

”پالنے والے! تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری حمد کرتا ہو ںتیرے علاوہ کوئی خدا ن ہیں ہے، پالنے والے میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، لہٰذا مجھے معاف کردے، کیونکہ تو بھترین معاف کرنے والا ہے، تیرے علاوہ کوئی خدا ن ہیں ہے، تو پاک و پاکیزہ ہے، میں تیری حمد کرتا ہو ں، پالنے والے ! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تو میرے اوپر رحم فرما کہ تو بھترین رحم کرنے والا ہے، پالنے والے! تیرے علاوہ کوئی خدا ن ہیں ہے، تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری حمد کرتا ہو ں، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، تو میری توبہ کو قبول کرے کیونکہ تو بھت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور مھربان ہے“۔

اس سلسلے میں یہ روایت بھی ملتی ہے : جناب آدم (علیہ السلام )نے عرش الٰھی پر چند عظیم الشان اسماء لکھے دیکھے، تو انھوں نے ان کے بارے میں سوال کیا تو آواز آئی: یہ کلمات مقام و منزلت کے اعتبار سے تمام موجودات عالم پر فضیلت رکھتے ہیں : اور وہ ہیں :

محمد، علی، فاطمہ، حسن و حسین (علیھم السلام)، جناب آدم نے اپنی توبہ کے قبول ہونے اور اپنے مقام کی بلندی کے لئے ان اسماء گرامی کی حقیقت سے توسل کیا اور ان اسماء کی برکت سے جناب آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول ہوگئی(۱۱۰)

جی ھاں! جیسے ہی کلمات کی تجلیات کے لئے خداوندعالم کے الھامات کی بارش جناب آدم کے دانہ عشق و محبت پربرسی، تو اپنے نفس پر ظلم کے اقرار و اعتراف کا پودا اُگ آیا، جناب آدم نے دعا و گریہ اور استغاثہ کیا، احساس گناہ کا درخت ان کی روح میں تناور ہوگیا اور اس پر توبہ کا پھول کھل اٹھا:

( ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَیهِ وَهَدَی ) ۔(۱۱۱)

”پھر خدا نے ان ہیں چن لیااوران کی توبہ قبول کرلی اور ان ہیں راستہ پرلگادیا“۔

کیا کیاچیزیں گناہ ہیں ؟

حضرت امام صادق علیہ السلام ”توبہ نامہ “کے عنوان سے بھترین و خوبصورت کلام بیان فرماتے ہیں ، جس میں ان گناھوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جن سے توبہ کرناواجب فوری، واجب شرعی اور واجب اخلاقی ہے، اور اگر ان گناھوں کا تدارک نہ کیا گیا اور حقیقی توبہ کے ذریعہ اپنے نامہ اعمال کو دھویانہ گیا تو روز قیامت عذاب الٰھی اور دردناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا، امام علیہ السلام گناھوں کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

”واجبات الٰھی کا ترک کرنا، حقوق الٰھی جیسے نماز، روزہ، زکوٰة، جھاد، حج، عمرہ، وضوء، غسل، عبادت شب، کثرت ذکر، کفارہ قسم، مصیبت میں کلمہ استرجاع کہنا، (انا لله و انا الیه راجعون ) وغیرہ سے غفلت کرنا، اور اپنے واجب و مستحب اعمال میں کوتاھی ہونے کے بعد ان سے روگردانی کرنا۔

گناھان کبیرہ کا مرتکب ہونا، معصیت الٰھی کی طرف رغبت رکھنا، گناھوں کا انجام دینا، بری چیزوں کو اپنانا، شھوات میں غرق ہونا، کسی خطا کو اپنے ذمہ لینا، غرض یہ کہ عمدی یا غلطی کی بنا پر ظاھری اور مخفی طور پر معصیت خدا کرنا۔

کسی کا ناحق خون بھانا، والدین کا عاق ہونا، قطع رحم کرنا، میدان جنگ سے فرار کرنا، باعفت شخص پر تھمت لگانا، ناجائز طریقہ سے یتیم کا مال کھانا، جھوٹی گواھی دینا، حق کی گواھی سے کترانا، دین فروشی، ربا خوری، خیانت، مال حرام، جادو، ٹوٹا، غیب کی باتیں گڑھنا، نظر بد ڈالنا، شرک، ریا، چوری، شراب خوری، کم تولنا اور کم ناپنا، ناپن تول میں خیانت کرنا، کینہ و دشمنی، منافقت، عہد و پیمان توڑدینا، خوامخواہ الزام لگانا، فریب اور دھوکہ دینا، اھل ذمہ سے کیا ہوا عہدو پیمان توڑنا، قسم، غیبت کرنایا سننا، چغلی کرنا، تھمت لگانا، دوسروں کی عیب تلاش کرنا، دوسروں کو بُرا بھلا کہنا، دوسروں کو بُرے ناموںسے پکارنا، پڑوسی کو اذیت پہچانا، دوسروں کے گھروں میں بغیر اجازت کے داخل ہونا، اپنے اوپر بلا وجہ فخر و مباھات کرنا، گناھوں پر اصرار کرنا، ظالموں کا ھمنوا بننا، تکبر کرنا غرور سے چلنا، حکم دینے میں ستم کرنا، غصہ کے عالم میں ظلم کرنا، کینہ و حسد رکھنا، ظالموںکی مدد کرنا، دشمنی اور گناہ میں مدد کرنا، اھل و عیال اور مال کی تعداد میں کمی کرنا، لوگوں سے بدگمانی کرنا، ہوائے نفس کی اطاعت کرنا، شھوت پرستی، برائیوں کا حکم دینا، نیکیوں سے روکنا، زمین پر فتنہ و فساد پھیلانا، حق کا انکار کرنا، ناحق کاموں میں ستمگروں سے مدد لینا، دھوکا دینا، کنجوسی کرنا، نہ جاننے والی چیز کے بارے میں گفتگو کرنا، خون اور یا سور کا گوشت کھانا، مردار یا غیر ذبیحہ جانور کا گوشت کھانا، حسد کرنا، کسی پر تجاوز کرنا، بری چیزوں کی دعوت دینا، خدا کی نعمتوں پر مغرور ہونا، خودغرضی دکھانا، احسان جتانا، قرآن کا انکار کرنا، یتیم کو ذلیل کرنا، سائل کو دھتکارنا، قسم توڑنا، جھوٹی قسم کھانا، دوسروں کی ناموس اور مال پر ھاتھ ڈالنا، برا دیکھنا، برا سننا اور برا کہنا، کسی کو بری نظر سے چھونا، دل میں بُری بُری باتیں سوچنااور جھوٹی قسم کھانا“(۱۱۲)

واجب چیزوں کو ترک کرنا اور حرام چیزوں کا مرتکب ہونا، حضرت امام صادق علیہ السلام کے اس ملکوتی کلام میں یہ سب باتیں گناہ کے عنوان سے بیان ہوئی ہیں جن سے توبہ کرنا ”واجب فوری“ ہے۔

گناھوں کے برے آثار

قرآن مجید کی آیات اور اھل بیت علیھم السلام کی تعلیمات کے پیش نظر دنیا و آخرت میں گناھوںکے برُے آثارنمایاں ہوتے ہیں کہ اگر گناھگار اپنے گناھوں سے توبہ نہ کرے تو بے شک ان کے برے آثار میں گرفتار ہوجاتا ہے۔

( بَلَی مَنْ كَسَبَ سَیئَةً وَاحَاطَتْ بِهِ خَطِیئَتُهُ فَاوْلَئِكَ اصْحَابُ النَّارِ هم فِیها خَالِدُونَ ) ۔(۱۱۳)

”یقینا جس نے کوئی برائی کی اور اس کی غلطی نے اسے گھیر لیا، تو ایسے لوگوں کے لئے جہنم ہے اور وہ اس میں ھمیشہ رہنے والے ہیں “۔

( قُلْ هل نُنَبِّئُكُمْ بِالْاخْسَرِینَ اعْمَالًا الَّذِینَ ضَلَّ سَعْیهم فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا وَهم یحْسَبُونَ انَّهم یحْسِنُونَ صُنْعًا اولَئِكَ الَّذِینَ كَفَرُوا بِآیاتِ رَبِّهم وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ اعْمَالُهم فَلاَنُقِیمُ لَهم یوْمَ الْقِیامَةِ وَزْنًا ) ۔(۱۱۴)

”اے پیغمبر کیا ھم تم ہیں ان لوگوں کے بارے میں اطلا ع دیں جو اپنے اعمال میں بدترین خسارہ میں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش زندگانی دنیا میں بہک گئی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجا م دیں رہے ر ہیں ، یھی وہ لوگ ہیں جنھوں نے آیات پروردگار اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، ان کے اعمال برباد ہو گئے ہیں اور ھم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم ن ہیں کریں گے “۔

( فِی قُلُوبِهم مَرَضٌ فَزَادَهم اللهُ مَرَضًا وَلَهم عَذَابٌ الِیمٌ ) ۔(۱۱۵)

”ان کے دلوں میں بیماری ہے اور خدا نے نفاق کی بنا پر اسے اور بھی بڑھا دیا ہے، اب اس جھوٹ کے نتیجہ میں دردناک عذاب ملے گا“۔

( فَتَرَی الَّذِینَ فِی قُلُوبِهم مَرَضٌ یسَارِعُونَ فِیهم ) (۱۱۶)

”اے پیغمبر آپ دیک ہیں گے کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان کی طرف جا رہے ہیں “۔

( وَامَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهم مَرَضٌ فَزَادَتْهم رِجْسًا إِلَی رِجْسِهم ) ۔(۱۱۷)

”اور جن کے دلوں میں مرض ہے ان کے مرض میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ کفر ہی کی حالت میں مر جاتے ہیں “۔

( إِنَّ الَّذِینَ یاكُلُونَ امْوَالَ الْیتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا یاكُلُونَ فِی بُطُونِهم نَارًا وَسَیصْلَوْنَ سَعِیرًا ) ۔(۱۱۸)

”جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں وہ در حقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ عنقریب واصل جہنم ہوں گے “۔

مذکورہ آیہ اور اس سے ملتی جلتی آیتوں کی بناپر بعض محققین کا عقیدہ ہے کہ روز قیامت گناھگاروں کو ملنے والا عذاب یھی اس کے گناہ ہوں گے، یعنی یھی انسان کے گناہ ہوں گے جو روز قیامت دردناک عذاب کی شکل میں ظاھر ہوں گے، اور گناھگار کو ھمیشہ کے لئے اپنا اسیر بناکر عذاب میں مبتلا رک ہیں گے۔

( إِنَّ الَّذِینَ یكْتُمُونَ مَا انزَلَ اللهُ مِنْ الْكِتَابِ وَیشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِیلًا اوْلَئِكَ مَا یاكُلُونَ فِی بُطُونِهم إِلاَّ النَّارَ وَلاَیكَلِّمُهم اللهُ یوْمَ الْقِیامَةِ وَلاَیزَكِّیهم وَلَهم عَذَابٌ الِیمٌ اوْلَئِكَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَی وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا اصْبَرَهم عَلَی النَّارِ ) ۔(۱۱۹)

”جو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا، روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گا اور نہ ان کا تذکیہ کرے گا (بلکہ) ان کے لئے دردناک عذاب قرار دے گا۔یھی وہ لوگ ہیں جنھوں نے گمراھی کو ہدایت کے عوض اور عذاب کو مغفرت کے عوض خرید لیا ہے، آخر یہ آتش جہنم پر کتنا صبر کریں گے “۔

( مَثَلُ الَّذِینَ كَفَرُوا بِرَبِّهم اعْمَالُهم كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیحُ فِی یوْمٍ عَاصِفٍ لاَیقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَی شَیءٍ ذَلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِیدُ ) ۔(۱۲۰)

”جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی مانند ہے جسے آندھی کے دن کی تند ہوا اڑا لے جائے کہ وہ اپنے حاصل کئے ہوئے پر بھی کوئی اختیار ن ہیں رکھتے اور یھی بھت دور تک پھیلی ہوئی گمراھی ہے“۔

لہٰذا اس طرح کی آیات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ گناھوں کے بُرے آثار اس سے ک ہیں زیادہ ہیں ، مثلاً:

آتش جہنم میں جلنا، عذاب کا ابدی ہونا، دنیا و آخرت میںنقصان اور خسارہ میں رہنا، انسان کی ساری زحمتوں پر پانی پھرجانا، روز قیامت (نیک) اعمال کا حبط (یعنی ختم) ہوجانا، روز قیامت اعمال کی میزان قائم نہ ہونا، توبہ نہ کرنے کی وجہ سے گناھوں میں اضافہ ہونا، دشمنان خدا کی طرف دوڑنا، انسان سے خدا کا تعلق ختم ہوجانا، قیامت میں تزکیہ نہ ہونا، ہدایت کا گمراھی سے بدل جانا، مغفرت الٰھی کے بدلہ عذاب الٰھی کا مقرر ہونا۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک تفصیلی روایت میں گناھوں کے برے آثار کے بارے میں اس طرح ارشاد فرماتے ہیں :

جن گناھوں کے ذریعہ نعمتیں تبدیل ہوجاتی ہیں :

عوام الناس پرظلم و ستم کرنا، کار خیر کی عادت چھوڑ دینا، نیک کام کرنے سے دوری کرنا، کفران نعمت کرنا اور شکر الٰھی چھوڑ دینا۔

جو گناہ ندامت اور پشیمانی کے باعث ہوتے ہیں :

قتل نفس، قطع رحم، وقت ختم ہونے تک نماز میں تاخیر کرنا، وصیت نہ کرنا، لوگوں کے حقوق ادا نہ کرنا، زکوٰة ادانہ کرنا، یھاں تک کہ اس کی موت کا پیغام آجائے اور اس کی زبان بند ہوجائے۔

جن گناھوں کے ذریعہ نعمتیں زائل ہوجاتی ہیں :

جان بوجھ کر ستم کرنا، لوگوں پر ظلم و تجاوز کرنا، لوگوں کا مذاق اڑانا، دوسرے لوگوں کو ذلیل کرنا۔

جن گناھوں کے ذریعہ انسان تک نعمتیں ن ہیں پہنچتیں:

اپنی محتاجگی کا اظھار کرنا، نماز پڑھے بغیر رات کے ایک تھائی حصہ میں سونا یھاں تک کہ نماز کا وقت نکل جائے، صبح میں نماز قضا ہونے تک سونا، خدا کی نعمتوں کو حقیر سمجھنا، خداوندعالم سے شکایت کرنا۔

جن گناھوں کے ذریعہ پردہ اٹھ جاتا ہے:

شراب پینا، جوا کھیلنا یا سٹہ لگانا، مسخرہ کرنا، بیھودہ کام کرنا، مذاق اڑانا، لوگوں کے عیوب بیان کرنا، شراب پینے والوں کی صحبت میں بیٹھنا۔

جو گناہ نزول بلاء کا سبب بنتے ہیں :

غم زدہ لوگوں کی فریاد رسی نہ کرنا، مظلوموں کی مدد نہ کرنا، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر جیسے الٰھی فریضہ کا ترک کرنا۔

جن گناھوں کے ذریعہ دشمن غالب آجاتے ہیں :

کھلے عام ظلم کرنا، اپنے گناھوں کو بیان کرنا، حرام چیزوں کو مباح سمجھنا، نیک و صالح لوگوں کی نافرمانی کرنا، بدکاروں کی اطاعت کرنا۔

جن گناھوں کے ذریعہ عمر گھٹ جاتی ہے:

قطع تعلق کرنا، جھوٹی قسم کھانا، جھوٹی باتیں بنانا، زناکرنا، مسلمانوں کا راستہ بند کرنا، ناحق امامت کا دعويٰ کرنا۔

جن گناھوں کے ذریعہ امیدٹوٹ جاتی ہے:

رحمت خدا سے ناامیدھونا، لطف خدا سے زیادہ مایوس ہونا، غیر حق پر بھروسہ کرنا اور خداوندعالم کے وعدوں کو جھٹلانا۔

جن گناھوں کے ذریعہ انسان کا ضمیر تاریک ہوجاتا ہے:

سحر و جادو اور غیب کی باتیں کرنا، ستاروں کو موثر ماننا، قضا و قدر کو جھٹلانا، عقوق والدین ہونا۔

جن گناھوں کے ذریعہ (احترام کا) پردہ اٹھ جاتا ہے:

واپس نہ دینے کی نیت سے قرض لینا، فضول خرچی کرنا، اھل و عیال اور رشتہ داروں پر خرچ کرنے میں بخل کرنا، بُرے اخلاق سے پیش آنا، بے صبری کرنا، بے حوصلہ ہونا، اپنے کو کاھل جیسا بنانااوراھل دین کو حقیر سمجھنا۔

جن گناھوں کے ذریعہ دعا قبول ن ہیں ہوتی:

بری نیت رکھنا، باطن میں برا ہونا، دینی بھائیوں سے منافقت کرنا، دعا قبول ہونے کا یقین نہ رکھنا، نماز میں تاخیر کرنا یھاں تک کہ اس کا وقت ختم ہوجائے، کار خیر اور صدقہ کو ترک کرکے تقرب الٰھی کو ترک کرنا اور گفتگو کے دوران نازیبا الفاظ استعمال کرنا اور گالی گلوچ دینا۔

جو گناہ باران رحمت سے محرومی سبب بنتے ہیں :

قاضی کاناحق فیصلہ کرنا، ناحق گواھی دینا، گواھی چھپانا، زکوٰة اور قرض نہ دینا، فقیروں اور نیازمندوں کی نسبت سنگدل ہونا، یتیم اورضرورت مندوں پر ستم کرنا، سائل کو دھتکارنا، رات کی تاریکی میں کسی تھی دست اور نادار کو خالی ھاتھ لوٹانا۔(۱۲۱)

حضرت امیر المومنین علیہ السلام گناھوں کے سلسلے میں فرماتے ہیں :

”لَوْ لَمْ یتَوَعَّدِ اللّٰهُ عَلٰی مَعْصِیتِهِ لَکانَ یجِبُ ان لا یعْصيٰ شُكْراً لِنِعَمِهِ :“(۱۲۲)

”اگر خداوندعالم نے اپنے بندوں کو اپنی مخالفت پر عذاب کا وعدہ نہ دیا ہوتا، تو بھی اس کی نعمت کے شکرانے کے لئے واجب تھا کہ اس کی معصیت نہ کی جائے“۔

قارئین کرام! خداوندعالم کی بے شمار نعمتوں کے شکرکی بنا پر ھمیں چاہئے کہ ھر طرح کی معصیت اور گناہ سے پرھیز کریں اور اپنے بُرے ماضی کی بدلنے کے لئے خداوندعالم کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کریں کیونکہ توبہ استغفار کی بنا پر خداوندعالم کی رحمت و مغفرت اور اس کا لطف و کرم انسان کے شامل حال ہوتا ہے۔

حقیقی توبہ کا راستہ

توبہ (یعنی خداوندعالم کی رحمت و مغفرت اور اس کی رضا و خوشنودی تک پہنچنا، جنت میں پھونچنے کی صلاحیت کا پیدا کرنا، عذاب جہنم سے امان ملنا، گمراھی کے راستہ سے نکل آنا، راہ ہدایت پر آجانا اور انسان کے نامہ اعمال کا ظلمت و سیاھی سے پاک و صاف ہوجانا ہے)؛ اس کے اھم آثار کے پیش نظریہ کھا جاسکتا ہے کہ توبہ ایک عظیم مرحلہ ہے، توبہ ایک بزرگ پروگرام ہے، توبہ عجیب و غریب حقیقت ہے اور ایک روحانی اور آسمانی واقعیت ہے ۔

لہٰذا فقط ”استغفر الله“ کہنے، یا باطنی طور پر شرمندہ ہونے اور خلوت و بزم میں آنسو بھانے سے توبہ حاصل ن ہیں ہوتی، کیونکہ جولوگ اس طرح توبہ کرتے ہیں وہ کچھ اس مدت کے بعد دوبارہ گناھوں کی طرف پلٹ جاتے ہیں !

گناھوں کی طرف دوبارہ پلٹ جانا اس چیز کی بھترین دلیل ہے کہ حقیقی طور پر توبہ ن ہیں ہوئی اور انسان حقیقی طور پر خدا کی طرف ن ہیں پلٹا ہے۔

حقیقی توبہ اس قدر اھم اور باعظمت ہے کہ قرآن کریم کی بھت سی آیات اور الٰھی تعلیمات اس سے مخصوص ہیں ۔

امام علی علیہ السلام کی نظر میں حقیقی توبہ

امام علی علیہ السلام نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جس نے زبان پر ”استغفر الله“ جاری کیا تھا:

اے شخص ! تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، کیا تو جانتا ہے کہ توبہ کیا ہے؟ یاد رکھ توبہ علّیین کا درجہ ہے، جو ان چھ چیزوں سے مل کر محقق ہوتا ہے:

۱۔ اپنے ماضی پر شرمندہ اور پشیمان ہونا۔

۲۔ دوبارہ گناہ نہ کرنے کا مستحکم ارادہ کرنا۔

۳۔ لوگوں کے حقوق کاادا کرنا۔

۴۔ ترک شدہ واجبات کو بجالانا۔

۵۔ گناھوں کے ذریعہ پیدا ہونے والے گوشت کواس قدر پگھلادینا کہ ہڈیوں پر گوشت باقی نہ رہ جائے، اور حالت عبادت میں ہڈیوں پر گوشت پیدا ہو۔

۶۔ بدن کو اطاعت کی تکلیف میں مبتلا کرنا جس طرح گناہ کا مزہ چکھا ہے۔

لہٰذا ان چھ مرحلوں سے گزرنے کے بعد ”استغفر الله“ کہنا۔(۱۲۳)

جی ھاں، توبہ کرنے والے کو اس طرح توبہ کرنا چاہئے، گناھوں کو ترک کرنے کا مصمم ارادہ کرلے، گناھوں کی طرف پلٹ جانے کا ارادہ ھمیشہ کے لئے اپنے دل سے نکال دے، دوسری، تیسری بار توبہ کی امید میں گناھوں کو انجام نہ دے، کیونکہ یہ امید بے شک ایک شیطانی امید اور مسخرہ کرنے والی حالت ہے، حضرت امام رضا علیہ السلام ایک روایت کے ضمن میں فرماتے ہیں :

مَنِ اسْتَغْفَرَ بِلِسانِهِ وَلَمْ ینْدَمْ بِقَلْبِهِ فَقَدِ اسْتَهْزَا بِنَفْسِهِ(۱۲۴)

”جو شخص زبان سے توبہ و استغفار کرے لیکن دل میں پشیمانی اور شرمندگی نہ ہو تو گویا اس نے خود کا مذاق اڑایاھے!“

واقعاً یہ ہنسی کا مقام اور افسوس کی جگہ ہے کہ انسان دوا او رعلاج کی امید میں خود کو مریض کرلے، واقعاً انسان کس قدر خسارہ ہے کہ وہ توبہ کی امید میں گناہ و معصیت کا مرتکب ہوجائے، اور خود کو یہ تلقین کرتا رہے کہ ھمیشہ توبہ کا دروازہ كُھلا ہوا ہے، لہٰذا اب گناہ کرلوں، لذت حاصل کرلوں !! بعد میں توبہ کرلوں گا!

اگر حقیقی طور پر توبہ کی جائے اور اگر تمام شرائط کے ساتھ توبہ ہوجائے، تو پھر انسان کی روح یقینا پاک ہوجاتی ہے نفس میں پاکیزگی اور دل میں صفا پیدا ہوجاتی ہے، اور انسان کے اعضاء و جوارح نیز ظاھر و باطن سے گناھوں کے آثار ختم ہوجاتے ہیں ۔

توبہ بار بار ن ہیں ہونا چاہئے کیونکہ گناہ ظلمت و تاریکی اور توبہ نور و روشنی کا نام ہے، اندھیرے اور روشنی میں زیادہ آمد و رفت سے روح کی آنک ہیں خراب ہوجاتی ہیں ۔ اگر کوئی گناہ سے توبہ کرنے کے بعد دوبارہ پھر اسی گناہ سے ملوث ہوجائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ توبہ ہی ن ہیں کی گئی ہے، (یا مکمل شرائط کے ساتھ توبہ ن ہیں ہوئی ہے۔)

انسانی نفس جہنم کے منھ کی طرح ہے جو کبھی بھرنے والا ن ہیں ہے، اسی طرح انسانی نفس گناھوں سے ن ہیں تھکتا، اس کے گناھوں میں کمی ن ہیں ہوتی، جس کی وجہ سے انسان خدا سے دور ہوتا چلا جاتا ہے لہٰذا اس تنورکے دروازہ کو توبہ کے ذریعہ بند کیا جائے اور اس عجیب و غریب غیر مرئی موجود کی سرکشی کو حقیقی توبہ کے ذریعہ باندھ لیاجائے۔

توبہ؛ انسانی حالت میں انقلاب اور دل و جان کے تغیر کا نام ہے، اس انقلاب کے ذریعہ انسان گناھوں کی طرف کم مائل ہوتا ہے اور خداوندعالم سے ایک مستحکم رابطہ پیدا کرلیتا ہے۔

توبہ؛ ایک نئی زندگی کی ابتداء ہوتی ہے، معنوی اور ملکوتی زندگی جس میں قلب انسان تسلیم خدا، نفس انسان تسلیم حسنات ہوجاتا ہے اور ظاھر و باطن تمام گناھوں کی گندگی اور کثافتوں سے پاک ہوجاتا ہے۔

توبہ؛ یعنی ہوائے نفس کے چراغ کو گُل کرنا اور خدا کی مرضی کے مطابق اپنے قدم اٹھانا۔

توبہ؛ یعنی اپنے اندر کے شیطان کی حکومت کو ختم کرنا اور اپنے نفس پر خداوندعالم کی حکومت کا راستہ ھموار کرنا۔

ھر گناہ کے لئے مخصوص توبہ

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر خدا کی بارگاہ میں اپنے مختلف گناھوں کے سلسلہ میں استغفار کرلیا جائے اور ”استغفرالله ربی و اتوب الیہ“ زبان پر جاری کرلیاجائے، یا مسجد اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے روضوں میں ایک زیارت پڑھ لی جائے یا چند آنسو بھالئے جائیں تو اس کے ذریعہ توبہ ہوجائے گی، جبکہ آیات وروایات کی نظر میں اس طرح کی توبہ مقبول ن ہیں ہے، اس طرح کے افراد کو توجہ کرنا چاہئے کہ ھر گناہ کے اعتبار سے توبہ بھی مختلف ہوتی ہے، ھر گناہ کے لئے ایک خاص توبہ مقرر ہے کہ اگر انسان اس طرح توبہ نہ کرے تو اس کا نامہ اعمال گناہ سے پاک ن ہیں ہوگا، اور اس کے بُرے آثار قیامت تک اس کی گردن پر باقی ر ہیں گے، اور روز قیامت اس کی سزا بھگتنا پڑے گی۔

اور ان تمام گناھوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

۱۔ عبادت اور واجبات کو ترک کرنے کی صورت میں ہونے والے گناہ، جیسے نماز، روزہ، زکوٰة، خمس اور جھاد وغیرہ کو ترک کرنا۔

۲۔ خداوند عالم کے احکام کی مخالفت کرتے ہوئے گناہ کرناجن میں حقوق الناس کا کوئی دخل نہ ہو، جیسے شراب پینا، نامحرم عورتوں کو دیکھنا، زنا، لواط، استمناء، جُوا، حرام میوزیک سننا وغیرہ ۔

۳۔ وہ گناہ جن میں فرمان خدا کی نافرمانی کے علاوہ لوگوں کے حقوق کو بھی ضایع کیا گیا ہو، جیسے قتل، چوری، سود، غصب، مالِ یتیم ناحق طور پر کھانا، رشوت لینا، دوسروں کے بدن پر زخم لگانا یا لوگوں کو مالی نقصان پہچانا وغیرہ وغیرہ۔

پھلی قسم کے گناھوںکی توبہ یہ ہے کہ انسان تمام ترک شدہ اعمال کو بجالائے، چھوٹی ہوئی نماز پڑھے، چھوٹے ہوئے روزے رکھے، ترک شدہ حج کرے، اور اگر خمس و زکوٰة ادان ہیں کیا ہے تو ان کو ادا کرے۔

دوسری قسم کے گناھوں کی توبہ یہ ہے کہ انسان شرمندگی کے ساتھ استغفار کرے اور گناھوں کے ترک کرنے پر مستحکم ارادہ کرلے، اس طرح کہ انسان کے اندر پیدا ہونے والا انقلاب اعضاء و جوارح کو دوبارہ گناہ کرنے سے روکے رکھے۔

تیسری قسم کے گناھوں کی توبہ یہ ہے کہ انسان لوگوں کے پاس جائے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کرے، مثلاً قاتل، خود کو مقتول کے ورثہ کے حوالے کردے، تاکہ وہ قصاص یا مقتول کا دیہ لے سکیں، یا اس کو معاف کردیں، سود خورتمام لوگوں سے لئے ہوئے سود کے حوالے کردے، غصب کرنے والا ان چیزوں کو ان کے مالک تک پھونچادے، مال یتیم اور رشوت ان کے مالکوں تک پہنچائے، کسی کو زخم لگایا ہے تو اس کا دیہ ادا کرے، مالی نقصان کی تلافی کرے، پس حقیقی طور پر توبہ قبول ہونے کے تین مذکورہ تین چیزوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔

۱۔ شیطان

لفظ شیطان اور ابلیس قرآن مجید میں تقریباً ۹۸ بار ذکر ہوا ہے، جو ایک خطرناک اور وسوسہ کرنے والا موجود ہے، جس کا مقصد صرف انسان کو خداوندعالم کی عبادت و اطاعت سے روکنا اور گناہ و معصیت میں غرق کرنا ہے۔

قرآن مجید میں گمراہ کرنے والے انسان اور دکھائی نہ دینے والا وجودجو انسان کے دل میں وسوسہ کرتا ہے، ان کو شیطان کھا گیا ہے۔

شیطان، ” شطن“ اور ”شاطن“ کے مادہ سے ماخوذھے اور خبیث، ذلیل، سرکش، متمرد، گمراہ اور گمراہ کرنے کے معنی میں آیا ہے، چاھے یہ انسانوں میں سے ہو یا جنوں میں سے۔

قرآن مجید اور اس کی تفسیر و توضیح میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے بیان ہونے والی احادیث وروایات میں شیطان جنّ وانس کی خصوصیات کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے:

قسم کھایا ہوا اور کھلم کھلا دشمن، برائی اور فحشاء و منکر کا حکم کرنے والا، خداوندعالم کی طرف ناروا نسبت دینے والا، صاحبان حیثیت کو ڈرانے والا کہ ک ہیں نیک کام میںخرچ کرنے سے فقیر نہ بن جائیں، انسانوں کو لغزشوں میں ڈالنے والا، گمراھی میں پھنسانے والا تاکہ لوگ سعادت و خوشبختی سے کوسوں دور چلے جائیں، شراب پلانے کا راستہ ھموار کرنے والا، جوا کھیلنے، حرام شرط لگانے اور لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی نسبت کینہ و دشمنی ایجاد کرنے والا، برے کام کو اچھا بناکر پیش کرنے والا، جھوٹے وعدے دینے والا، انسان میں غرور پیدا کرنے والا، اور اسے ذلت کی طرف ڈھکیلنے والا، راہ حق میں رکاوٹ پیدا کرنے اور جہنم میں پہنچانے والے کاموں کی دعوت دینے والا، میاں بیوی کو طلاق کی منزل تک پہنچانے والا، لوگوںمیں گناھوں اور برائیوںکا راستہ فراھم کرنے او ران ہیں دنیا کا اسیر بنانے والا، انسان کو توبہ کی امید میں گناھوں پر اُکسانے والا، خودپسندی ایجاد کرنے والا، بخل، غیبت، جھوٹ اور شھوت کو تحریک کرنے والا، کھلم کھلا گناہ کرنے کی ترغیب کرنے والا، غصہ اور غضب کو بھڑکانے والا۔

جب تک انسان شیاطین جن و انس کے جال میں پھنسا رھتا ہے تو پھر وہ حقیقی طور پر توبہ ن ہیں کرسکتا، کیونکہ جب تک اس کے دل پر شیطان کی حکومت رہے گی، تو توبہ کے بعد شیطان پھر گناہ کرنے کے لئے وسوسہ پیدا کردے گا، اور توبہ کے ذریعہ کئے گئے عہد کو توڑنے اور اپنی اطاعت کرنے پر مجبور کردے گا۔

توبہ کرنے والے کو چاہئے کہ خداوندعالم سے توفیق طلب کرتے ہوئے گناھوں سے ھمیشہ پرھیز کرے اور شیطان سے سخت بیزار رہے ، تاکہ آہستہ آہستہ اس خبیث وجود کے نفوذ کو اپنے وجود سے ختم کردے، اور اس کی حکومت کا بالکل خاتمہ کردے، تاکہ انسان کے دل میںتوبہ و استغفار کی حقیقت باقی رہے ، اور اس نورانی عہدو پیمان کو ظلمت کے حملے توڑ نہ سکےں۔

۲۔ دنیا

تمام مادی عناصر اور انسانی زندگی کی ضروری اشیاء سے رابطہ ہی انسان کی دنیا ہے۔

اگر یہ رابطہ خداوندعالم کی مرضی کے مطابق ہو تو بے شک انسان کی یہ دنیا قابل حمد و ثنا ہے، اور اُخروی سعادت کی ضامن ہے، لیکن اگر انسان کا یھی رابطہ مادی اور ہوائے نفس کی بنا پر ہو جھاں پر کسی طرح کی کوئی حد و حدود نہ ہو تو اس وقت انسان کی یہ دنیا مذموم اور آخرت میں ذلت کا باعث ہوگی۔

بے شک اگر ہوائے نفس کی بنیاد اور بے لگام خواہشات کے ساتھ مادی چیزوں سے لگاؤ ہو تو یقینا انسان گناھوں کے دلدل میں پھنس جاتا ہے۔

اسی ناجائز رابطہ کی بنا پر انسان شھوت اور مال و دولت کا عاشق بن جاتا ہے، اور اس راستہ کے ذریعہ خدا کے حلال و حرام کی مخالفت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

اس طرح کے رابطہ کے ذریعہ انسان ؛مادی چیزوں اور شھوت پرستی میں کھوجاتا ہے، جس کا بھت زیادہ نقصان ہوتا ہے، اور جس کی بدولت آخرت میں سخت خسارہ اٹھانا پڑے گا۔

حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں بیان فرماتے ہیں :

اَلدُّنْیا تَغُرُّ وَ تَضُرُّوَ تَمُرُّ “۔(۱۲۵)

”دنیا، مغرور کرتی ہے، نقصان پہنچاتی ہے اور گزرجاتی ہے“۔

خداوندعالم نے اپنے محبوب رسول(ص) کو شب معراج اس مذموم دنیا میں گرفتار لوگوں کی خصوصیت کے بارے میں اس طرح فرمایا:” اھل دنیا وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا کھانا پینا، ہنسنا، رونا اور غصہ زیادہ ہوتا ہے، خدا کی عنایت پر بھت کم خوشنود ہوتے ہیں ، لوگوں سے کم راضی رھتے ہیں ، لوگوں کی شان میں بدی کرنے کے بعد عذر خواھی ن ہیں کرتے، اور نہ ہی دوسروں کی عذر خواھی کو قبول کرتے ہیں ، اطاعت کے وقت سست و کاھل اور گناہ کے وقت شجاع او رطاقتور ہوتے ہیں ، ان کی آرزوئیں طولانی ہوتی ہیں ، ان کی گفتگو زیادہ، عذاب جہنم کا خوف کم ہوتا ہے اور کھانے پینے کے وقت بھت زیاہ خوش و خرم نظر آتے ہیں ۔

یہ لوگ چین و سکون کے وقت شکر اور بلاء و مصیبت میں صبر ن ہیں کرتے، دوسروں کو ذلیل سمجھتے ہیں ، نہ کئے ہوئے کام پر اپنی تعریفیں کرتے ہیں ، جن چیزوں کے مالک ن ہیں ہوتے ان کی ملکیت کے بارے میں دعويٰ کرتے ہیں ، اپنی بے جا آرزوں کو دوسروں سے بیان کرتے ہیں ، لوگوں کی برائیوں کو اچھالتے ہیں ، اور ان کی اچھائیوں کو چھپاتے ہیں ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرض کیا: پالنے والے! کیا ان عیوب کے علاوہ کوئی دوسرا عیب بھی ان میں پایا جاتا ہے؟ آواز آئی: اے احمد! دنیا والوں کے عیب زیادہ ہیں ، ان میں حماقت و ونادانی پائی جاتی ہے، اپنے استاد کے سامنے تواضع سے پیش ن ہیں آتے، اپنے کو (بھت) بڑا عاقل سمجھتے ہیں ، جبکہ وہ صاحبان علم کے نزدیک احمق ہوتے ہیں ۔(۱۲۶)

اگر کوئی شخص اپنے گناھوں سے توبہ کرلے لیکن توبہ کے ساتھ مادی زرق و برق میں اسیر ہو، تو کیا اس کی توبہ باقی رہ سکتی ہے اور توبہ کے میدان میں ثابت قدم رہ سکتا ہے؟۔

توبہ کرنے والا اگر اس طرح کی چیزوں کے نفوذ سے آزاد نہ ہو تو پھر اس کے لئے حقیقی طور پر توبہ کرنا ناممکن ہے، کیونکہ ایسا انسان توبہ تو کرلیتا ہے، لیکن جیسے ہی مادی چیزوں نے حملہ کیا تو وہ اپنی توبہ کو توڑلیتا ہے۔

۳۔ آفات

غلط رابطے، بے جا محبت، لذتوں میں بھت زیادہ غرق ہونا، نا محدود شھوات، بے لگام خواہشیں، حرام شھوت اورھوائے نفس یہ سب خطرناک آفتیں ہیں کہ اگر انسان کی زندگی میں یہ سب پائی

حقیقی توبہ کرنے والوں کے لئے الٰھی تحفہ

معصوم علیہ السلام کا ارشادھے: خداوندعالم توبہ کرنے والوں کو تین خصلتیں عنایت فرماتا ہے کہ اگر ان میں سے ایک خصلت بھی تمام اھل زمین و آسمان کو مرحمت ہوجائے تو اسی خصلت کی بنا پر ان کو نجات مل جائے:

( إِنَّ اللهَ یحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیحِبُّ الْمُتَطَهرینَ ) ۔(۱۲۷)

”بے شک خدا توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے“۔

لہٰذا جس کو خداوندعالم دوست رکھتا ہے اس پر عذاب ن ہیں کرے گا۔

( الَّذِینَ یحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ یسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهم وَیؤْمِنُونَ بِهِ وَیسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِینَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِیلَكَ وَقِهم عَذَابَ الْجَحِیمِ رَبَّنَا وَادْخِلْهم جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِی وَعَدْتَهم وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهم وَازْوَاجِهم وَذُرِّیاتِهم إِنَّكَ انْتَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ وَقِهم السَّیئَاتِ وَمَنْ تَقِ السَّیئَاتِ یوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ) ۔(۱۲۸)

”جو فرشتے عر ش الٰھی کو اٹھا ئے ہوئے ہیں اور جواس کے گرد معین ہیں سب حمد خدا کی تسبیح کر رہے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور صاحبان ایمان کے لئے استغفار کررہے ہیں کہ خدایا! تیری رحمت اور تیرا علم ھر شئے پر محیط ہے لہٰذا ان لوگوں کو بخش دے جنھوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستہ کا اتباع کیا ہے اور ان ہیں جہنم کے عذاب سے بچالے۔پروردگارا! ان ہیں اور ان کے باپ دادا، ازواج اور اولاد میں سے جو نیک اور صالح افراد ہیں ان کو ھمیشہ رہنے والے باغات میں جگہ عنایت فرما، جن کا تونے ان سے وعدہ کیا ہے بیشک تو سب پر غالب اور صاحبِ حکمت ہے۔اور ان ہیں برائیوں سے محفوظ فرما کہ آج جن لوگوں کو تونے برائیوںسے بچا لیا گویا ان ہیں پر رحم کیا ہے اور یہ بھت بڑی کامیابی ہے “۔

( وَالَّذِینَ لاَیدْعُونَ مَعَ اللهِ إِلَها آخَرَ وَلاَیقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَیزْنُونَ وَمَنْ یفْعَلْ ذَلِكَ یلْقَ اثَامًا یضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یوْمَ الْقِیامَةِ وَیخْلُدْ فِیهِ مُهانًا إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاوْلَئِكَ یبَدِّلُ اللهُ سَیئَاتِهم حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا ) ۔(۱۲۹)

”اور وہ لوگ خدا کے ساتھ کسی اور خدا کو ن ہیں پکارتے ہیں اور کسی بھی نفس کو اگر خدا نے محترم قرار دیدیا ہے تو اسے نا حق قتل ن ہیں کرتے ہیں اور زنا بھی ن ہیں کرتے کہ جو ایسا عمل کرے گا وہ اپنے عمل کی سزا بھی برداشت کرے گا۔جسے روز قیامت دوگنا کردیا جائے گااور وہ اسی میں ذلت کے ساتھ ھمیشہ ھمیشہ پڑا رہے گا۔ علاوہ اس شخص کے جو توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل بھی کرے کہ پروردگار اس کی برائیوں کو اچھائیوں سے تبدیل کر دے گا، اور خدا بھت بڑا مھربان ہے“(۱۳۰)

توبہ جیسے باعظمت مسئلہ کے سلسلہ میں قرآن کا نظریہ

قرآن کریم میں لفظ ”توبہ“ اور اس کے دیگر مشتقات تقریباً ۸۷ مرتبہ ذکر ہوئے ہیں ، جس سے اس مسئلہ کی اھمیت اور عظمت واضح جاتی ہے۔

قرآن کریم میں توبہ کے سلسلہ میں بیان ہونے والے مطالب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

۱۔توبہ کا حکم۔

۲۔حقیقی توبہ کا راستہ۔

۳۔توبہ کی قبولیت۔

۴۔توبہ سے روگردانی۔

۵۔توبہ قبول نہ ہونے کے اسباب۔

۱۔ توبہ کا حکم

( اَنِ اسْتَغْفِرُوارَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا اِلَیهِ ) ۔(۱۳۱)

”اور اپنے رب سے استغفار کروپھر اس کی طرف متوجہ ہو جاو“۔

( تُوبُوا إِلَی اللهِ جَمِیعًا ایها الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) ۔(۱۳۲)

”توبہ کرتے رھو کہ شاید اسی طرح تم ہیں فلاح اور نجات حاصل ہو جائے“۔

راغب اصفھانی اپنی کتاب ”مفردات“ میں کھتے ہیں :قیامت کی فلاح و کامیابی یہ ہے جھاں انسان کے لئے ایسی زندگی ہوگی جھاں موت نہ ہوگی، ایسی عزت ہوگی کہ جھاںذلت نہ ہوگی، ایسا علم ہوگا کہ جھاں جھالت کا نام ونشان تک نہ ہوگا، وھاں انسان ایسا غنی ہوگا جس کو تنگدستی ن ہیں ہوگی۔(۱۳۳)

( یا اَیهاَ الَّذینَ آمَنُوا تُوبُوا اِلَی اللّٰهِ تَوْبَةً نَصوحاً ) ۔(۱۳۴)

”اے ایمان والو! خلوص دل کے ساتھ توبہ کر و“۔

ان آیات میں خداوندعالم نے مومنین اور غیر مومنین سبھی کو توبہ کی دعوت دی ہے، خدا کی اطاعت واجب اورباعث رحمت و مغفرت ہے، اسی طرح خدا وندعالم کی معصیت حرام اور باعث غضب الٰھی اور مستحق عذاب الٰھی ہے، جس کی وجہ سے دنیا و آخرت میں ذلت و خواری اور ھمیشہ کے لئے ھلاکت و بدبختی ہے۔

۲۔حقیقی توبہ کا راستہ

حقیقت تو یہ ہے کہ ”توبہ“ ایک سادہ اور آسان کام ن ہیں ہے، بلکہ معنوی اور عملی شرائط کے ساتھ ہی توبہ محقق ہوسکتی ہے۔

شرمندگی، آئندہ میں پاک و پاکیزہ رہنے کا مصمم ارادہ، برے اخلاق کو اچھے اخلاق و عادات میں بدلنا، اعمال کی اصلاح کرنا، گزشتہ اعمال کا جبران اور تلافی کرنااور خدا پر ایمان رکھنا اور اسی پر بھروسہ کرنا یہ تمام ایسے عناصر ہیں جن کے ذریعہ سے توبہ کی عمارت پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے، اور ان ہیں کے ذریعہ استغفار ہوسکتا ہے۔

( إِلاَّ الَّذِینَ تَابُوا وَاصْلَحُوا وَبَینُوا فَاوْلَئِكَ اتُوبُ عَلَیهم وَانَا التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ) ۔(۱۳۵)

”علاوہ ان لوگوں کے جو توبہ کرلیں اور اپنے کئے کی اصلاح کر لیں اور جس کو چھپایا ہے اس کو واضح کر دیں، تو ھم ان کی توبہ قبول کرلیتے ہیں کہ ھم بھترین تو بہ قبول کر نے والے اور مھربان ہیں “۔

( إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللهِ لِلَّذِینَ یعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهالَةٍ ثُمَّ یتُوبُونَ مِنْ قَرِیبٍ فَاوْلَئِكَ یتُوبُ اللهُ عَلَیهم وَكَانَ اللهُ عَلِیمًا حَكِیمًا ) ۔(۱۳۶)

”تو بہ خدا کے ذمہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو جھالت کی بنا پر برائی کرتے ہیں لیکن پھر فوراً توبہ کرلیتے ہیں کہ خدا ان کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے وہ علیم ودانا بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی “۔

( فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَاصْلَحَ فَإِنَّ اللهَ یتُوبُ عَلَیهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔(۱۳۷)

”پھر ظلم کے بعد جو شخص توبہ کر لے اور اپنی اصلاح کر لے، تو خدا(بھی) اس کی توبہ کو قبول کر لے گا اور اللہ بڑابخشنے والا اور مھربان ہے“۔

( وَالَّذِینَ عَمِلُوا السَّیئَاتِ ثُمَّ تَابُوا مِنْ بَعْدِها وَآمَنُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِها لَغَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔(۱۳۸)

”اور جن لوگوں نے بُرے اعمال کئے اور پھر توبہ کر لی اور ایمان لے آئے، توبہ کے بعد تمھارا پروردگاربھت بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والاھے“۔

( فَإِنْ تَابُوا وَاقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوْا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِی الدِّینِ ) ۔(۱۳۹)

”پھر اگر یہ تو بہ کر لیںاور نماز قائم کریں اور زکواة ادا کریں، تو (یہ لوگ) دین میں تمھارے بھائی ہیں “۔

قارئین کرام! مذکورہ آیات کے پیش نظر، خدا و قیامت پر ایمان، عقیدہ، عمل اوراخلاق کی اصلاح، خدا کی طرف فوراً لوٹ آنا، ظلم و ستم کے ھاتھ روک لینا، نماز قائم کرنا، زکوٰة ادا کرنا اور لوگوں کے حقوق اداکرنا؛ حقیقی توبہ کے شرائط ہیں ، اور جو شخص بھی ان تمام شرائط کے ساتھ توبہ کرے گا بے شک اس کی توبہ حقیقت تک پہنچ جائے گی اور حقیقی طور پر توبہ محقق ہوگی نیزاس کی توبہ یقینا بارگاہ خداوندی میں قبول ہوگی۔

۳۔ توبہ قبول ہونا

جس وقت کوئی گناھگار توبہ کے سلسلہ کے خداوندعالم کی اطاعت کرتا ہے اور توبہ کے شرائط پر عمل کرتا ہے، اور توبہ کے سلسلہ میں قرآن کا تعلیم کردہ راستہ اپناتا ہے، توبے شک خدائے مھربان؛جس نے گناھگار کی توبہ قبول کرنے کا وعدہ فرماتا ہے، وہ ضرور اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اس کے نامہ اعمال میں توبہ قبول ہونے کی نشانی قرار دے دیتا ہے اور اس کو گناھوں سے پاک کردیتا ہے، نیز اس کے باطن سے ظلمت و تاریکی کو سفیدی اور نور میں تبدیل کردیتا ہے۔

( الَمْ یعْلَمُوا انَّ اللهَ هُوَ یقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ ) ۔(۱۴۰)

”کیا یہ ن ہیں جانتے کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے“۔

( وَهُوَ الَّذِی یقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَیعْفُو عَنْ السَّیئَاتِ ) ۔(۱۴۱)

”اور وھی وہ ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور ان کی برائیوں کو معاف کرتا ہے“۔

( غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ ) ۔(۱۴۲)

”وہ گناھوں کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول کرنے والا ہے“۔

۴۔ توبہ سے منھ موڑنا

اگر گناھگار خدا کی رحمت سے مایوس ہوکر توبہ نہ کرے تو اس کو جاننا چاہئے کہ رحمت خدا سے مایوسی صرف اور صرف کفار سے مخصوص ہے(۱۴۳)

اگر گناھگار انسان اس وجہ سے توبہ ن ہیں کرتا کہ خداوندعالم اس کے گناھوں کو بخشنے پر قدرت ن ہیں رکھتا، تو اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ تصور بھی یھودیوں کا ہے۔(۱۴۴)

اگر گناھگار انسان کا تکبر، خدائے مھربان کے سامنے جرائت اور ربّ کریم کے سامنے بے ادبی کی بنا پر ہو تو اس کو جاننا چاہئے کہ خداوندعالم اس طرح کے مغرور، گھمنڈی اور بے ادب لوگوں کو دوست ن ہیں رکھتا، اور جس شخص سے خدا محبت نہ کرتا ہوتو دنیا و آخرت میں ان کی نجات ممکن ن ہیں ہے۔(۱۴۵)

گناھگار کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ توبہ سے منھ موڑنا، جبکہ باب توبہ کھلا ہوا ہے اور لازمی شرائط کے ساتھ توبہ کرنا ممکن ہے نیز یہ کہ خداوندعالم توبہ قبول کرنے والا ہے، لہٰذا ان تمام باتوں کے پیش نظر توبہ نہ کرنا اپنے اوپر اور آسمانی حقائق پر ظلم وستم ہے۔

( وَمَنْ لَمْ یتُبْ فَاوْلَئِكَ هم الظَّالِمُونَ ) ۔(۱۴۶)

”اگر کوئی توبہ نہ کرے تو سمجھو کہ درحقیقت یھی لوگ ظالم ہیں “۔

( اِنَّ الَّذینَ فَتَنُوا الْمُومِنینَ وَالْمُومِناتِ ثُمَّ لَمْ یتُوبُوا فَلَهُمْ عَذابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذابُ الْحَریقِ ) ۔(۱۴۷)

”بیشک جن لوگوں نے ایماندار مردوں اور عورتوں کو ستایا اور پھر توبہ نہ کی، ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اورا ن کے لئے جلانے والاعذاب بھی ہے“۔

۵۔ توبہ قبول نہ ہونے کے اسباب

اگر گناھگار انسان کو توبہ کرنے کی توفیق حاصل ہوجائے اور تمام تر لازمی شرائط کے ساتھ توبہ کرلے تو بے شک اس کی توبہ بارگاہ خداوندی میں قبول ہوتی ہے، لیکن اگر توبہ کرنے کا موقع ھاتھ سے کھوبیٹھے اور اس کی موت آپہنچے اور پھر وہ اپنے گزشتہ سے توبہ کرے یا ضروری شرائط کے ساتھ توبہ نہ کرے یا ایمان لانے کے بعد کافر ہوجائے تو ایسے شخص کی توبہ ھرگز قبول ن ہیں ہوسکتی۔

( وَلَیسَتْ التَّوْبَةُ لِلَّذِینَ یعْمَلُونَ السَّیئَاتِ حَتَّی إِذَا حَضَرَ احَدَهم الْمَوْتُ قَالَ إِنِّی تُبْتُ الْآنَ وَلاَالَّذِینَ یمُوتُونَ وَهم كُفَّارٌ اوْلَئِكَ اعْتَدْنَا لَهم عَذَابًا الِیمًا ) ۔(۱۴۸)

”اور توبہ ان لوگوں کے لئے ن ہیں ہے جو پھلے برائیاں کرتے ہیں اور پھر جب موت سامنے آجاتی ہے توکھتے ہیں کہ اب ھم نے توبہ کرلی اور نہ ان کے لئے ہے جو حالت کفر میں مرجاتے ہیں کہ ان کے لئے ھم نے بڑا دردناک عذاب مھیا کر رکھا ہے“۔

( إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِهم ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهم وَاوْلَئِكَ هم الضَّالُّونَ ) ۔(۱۴۹)

”جن لوگوں نے کفر اختیار لیا اور پھر کفر میں بڑھتے ہی چلے گئے ان کی توبہ ھرگز قبول نہ ہوگی اور وہ حقیقی طورپر گمراہ ہیں “۔

توبہ، احادیث کی روشنی میں

حضرت امام باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے: جناب آدم (علیہ السلام) نے خداوندعالم کی بارگاہ میں عرض کی: پالنے والے مجھ پر (اور میری اولاد) پرشیطان کو مسلط ہے اور وہ خون کی طرح گردش کرتا ہے، پالنے والے اس کے مقابلہ میں میرے لئے کیا چیز مقرر فرمائی ہے؟

خطاب ہوا: اے آدم یہ حقیقت آدم کے لئے مقرر کی ہے کہ تمھاری اولاد میں کسی نے گناہ کا ارادہ کیا، تو اس کے نامہ اعمال میں ن ہیں لکھا جائے گا، اور اگر اس نے اپنے ارادہ کے مطابق گناہ بھی انجام دے لیا تو اس کے نامہ اعمال میں صرف ایک ہی گناہ لکھا جائے گا، لیکن اگر تمھاری اولاد میں سے کسی نے نیکی کا ارادہ کرلیا تو فوراً ہی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا، اور اگر اس نے اپنے ارادہ پر عمل بھی کیا تو اس نے نامہ اعمال میں دس برابر نیکی لکھی جائےں گی؛ اس وقت جناب آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا: پالنے والے! اس میں اضافہ فرمادے؛ آواز قدرت آئی: اگر تمھاری اولاد میں کسی شخص نے گناہ کیا لیکن اس کے بعد مجھ سے استغفار کر لیا تو میں اس کو بخش دوں گا؛ ایک بار پھر جناب آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا: پالنے والے! مزید اضافہ فرما؛ خطاب ہوا: میںنے تمھاری اولادکے لئے توبہ کورکھا اور اس کے د روازہ کو وسیع کردیا کہ تمھاری اولاد موت کا پیغام آنے سے قبل توبہ کرسکتی ہے، اس وقت جناب آدم )علیہ السلام) نے عرض کیا: خداوندا! یہ میرے لئے کافی ہے۔(۱۵۰)

حضرت امام صادق علیہ السلام نے حضرت، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی ہے: جو شخص اپنی موت سے ایک سال پھلے توبہ کرلے تو خداوندعالم اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے، اس کے بعد فرمایا: بے شک ایک سال زیادہ ہے، جو شخص اپنی موت سے ایک ماہ قبل توبہ کرلے تو خداوندعالم اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے، اس کے بعد فرمایا: ایک مھینہ بھی زیادہ ہے، جو شخص ایک ہفتہ پھلے توبہ کرلے اس کی توبہ قابل قبول ہے، اس کے بعد فرمایا: ایک ہفتہ بھی زیاد ہے، اگر کسی شخص نے اپنی موت سے ایک دن پھلے توبہ کرلی تو خداوندعالم اس کی توبہ بھی قبول کرلیتا ہے، اس کے بعد فرمایا: ایک دن بھی زیادہ ہے اگر اس نے موت کے آثار دیکھنے سے پھلے توبہ کرلی تو خداوندعالم اس کی بھی توبہ قبول کرلیتا ہے۔(۱۵۱)

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :

اِنَّ اللّٰهَ یقْبَلُ تَوْبَةَ عَبْدِهِ ما لَمْ یغَرْغِرْ، تُوبُوا اِلٰی رَبِّكُمْ قَبْلَ اَنْ تَمُوتُوا، وَبادِرُوا بِالاَعْمالِ الزّاكِیةِ قَبْلَ اَنْ تُشْتَغِلُوا، وَ صِلُوا الَّذی بَینَكُمْ وَ بَینَهُ بِكَثْرَةِ ذِكْرِ كُمْ اِیاهُ :“(۱۵۲)

”خداوندعالم، اپنے بندے کی توبہ دم نکلنے سے پھلے پھلے تک قبول کرلیتا ہے، لہٰذا اس سے پھلے پھلے توبہ کرلو، نیک اعمال انجام دینے میں جلدی کرو قبل اس کے کہ کسی چیز میں مبتلا ہوجاؤ، اپنے اور خدا کے درمیان توجہ کے ذریعہ رابطہ کرلو“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :

لَاشَفیعَ اَنْجَحُ مِنَ التَّوْبَةِ(۱۵۳)

”توبہ سے زیادہ کامیاب کرنے والا کوئی شفیع ن ہیں ہے“۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے:

اَلتَّوْبَةُ تَجُبُّ ما قَبْلَها(۱۵۴)

”توبہ ؛ انسان کے گزشتہ اعمال کو ختم کردیتی ہے“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

اَلتَّوْبَةُ تَسْتَنْزِلُ الرَّحْمَةَ :“۔(۱۵۵)

”توبہ کے ذریعہ رحمت خدا نازل ہوتی ہے“۔

نیز حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :

تُوبُوا اِلَی اللّٰهِ وَ ادْخُلُوا فِی مَحَبَّتِهِ، فَاِنَّ اللّٰهَ یحِبُّ التَّوّابینَ وَ یحِبُّ الْمُتَطَهِّرینَ، وَالْمُومِنُ تَوّابٌ “۔(۱۵۶)

”خداوندعالم کی طرف لوٹ آؤ، اپنے دلوں میں اس کی محبت پیدا کرلو، بے شک خداوندعالم توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ لوگوں کو دوست رکھتا ہے اور مومن بھت زیادہ توبہ کرتا ہے“۔

حضرت امام رضا علیہ السلام اپنے آباء و اجداد علیہم السلام کے حوالے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں :

مَثَلُ الْمُومِنِ عِنْدِاللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ كَمَثَلِ مَلَكٍ مُقَرَّبٍ وَ اِنَّ الْمُومِنَ عِنْدَ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ اَعْظَمُ مِنْ ذٰلِكَ، وَلَیسَ شَیءٌ اَحَبَّ اِلَی اللّٰهِ مِنْ مُومِنٍ تائِبٍ اَوْ مُومِنَةٍ تائِبَةٍ “۔(۱۵۷)

”خدا وندعالم کے نزدیک مومن کی مثال ملک مقرب کی طرح ہے، بے شک خداوندعالم کے نزدیک مومن کا مرتبہ فرشتہ سے بھی زیادہ ہے، خداوندعالم کے نزدیک مومن او رتوبہ کرنے والے مومن سے محبوب تر کوئی چیز ن ہیں ہے۔“

امام ہشتم اپنے آباء و اجداد کے حوالے کے ذریعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت فرماتے ہیں :

اَلتّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لا ذَنْبَ لَهُ “۔(۱۵۸)

”گناھوں سے توبہ کرنے والا، اس شخص کی طرح ہے جس نے گناہ کیا ہی نہ ہو“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

اِنَّ تَوْبَةَ النَّصوحِ هُوَ اَنْ یتوبَ الرَّجُلُ مِنْ ذَنْبٍ وَ ینْوِی اَنْ لا یعودَ اِلَیهِ اَبَداً “۔(۱۵۹)

”توبہ نصوح یہ ہے کہ انسان گناھوں سے توبہ کرے اور دوبارہ گناہ نہ کرنے کا قطعی ارادہ رکھے“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

لِلّٰهِ اَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنَ الْعَقِیمِ الْوالِدِ، وَ مِنَ الضّالِّ الْواجِدِ، وَمِنَ الظَّمْآنٍ الْوارِدِ(۱۶۰)

” خداوندعالم اپنے گناھگار بندے کی توبہ پر اس سے ک ہیں زیادہ خوشحال ہوتا ہے جتنی ایک عقیم عورت بچہ کی پیدائش پر خوش ہوتی ہے، یا کسی کا کوئی کھویا ہوا مل جاتا ہے اور پیاسے کو بھتا ہوا چشمہ مل جاتا ہے“!

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے:

اَلتَّائِبُ اِذالَمْ یسْتَبِنْ عَلَیهِ اَثَرُ التَّوَبَةِ فَلَیسَ بِتائِبٍ، یرْضِی الْخُصَماءَ، وَیعیدُ الصَّلَواتِ، وَ یتَواضَعُ بَینَ الْخَلْقِ، وَیتَّقی نَفْسَهُ عَنِ الشَّهَواتِ، وَیهْزِلُ رَقَبَتَهُ بِصِیامِ النَّهارِ “۔(۱۶۱)

”جس وقت توبہ کرنے والے پر توبہ کے آثار ظاھر نہ ہوں، تو اس کو تائب (یعنی توبہ کرنے والا) ن ہیں کھا جانا چاہئے، توبہ کے آثار یہ ہیں : جن لوگوںکے حقوق ضائع کئے ہیں ان کی رضایت حاصل کرے، قضا شدہ نمازوں کو ادا کرے، دوسروں کے سامنے تواضع و انکساری سے کام لے، اپنے نفس کو حرام خواہشات سے روکے رکھے اور روزے رکھ کر جسم کو کمزور کرے “۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

اَلتَّوْبَةُ نَدَمٌ بِالْقَلْبِ، وَاسْتِغْفارٌ بِاللِّسانِ، وَ تَرْكٌ بِالْجَوارِحِ، وَاِضْمارٌ اَنْ لایعودَ “۔(۱۶۲)

” توبہ؛ یعنی دل میں شرمندگی، زبان پر استغفار، اعضاء و جوارح سے تمام گناھوں کو ترک کرنا اور دوبارہ نہ کرنے کا مستحکم ارادہ کرنا“۔

نیز حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:

مَنْ تابَ تابَ اللّٰهُ عَلَیهِ، وَاُمِرَتْ جَوارِحُهُ اَنْ تَسْتُرَ عَلَیهِ، وَبِقاعُ الاَرْضِ اَنْ تَكْتُمَ عَلَیهِ، وَ اُنْسِیتِ الْحَفَظَةُ ما کانَتْ تَكْتُبُ عَلَیهِ “۔(۱۶۳)

” جو شخص توبہ کرتا ہے خداوندعالم اس کی توبہ قبول کرتا ہے، اور اس کے اعضاء و جوارح کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس کے گناھوں کو مخفی کرلو، اور زمین سے کھا جاتا ہے کہ اس کے گناہ کو چھپالے اور جو کچھ کراماً کاتبین نے لکھا ہے خدا ان کو نظر انداز کر دیتا ہے “۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ خداوندعالم نے جناب داؤد نبی (علیہ السلام) پروحی فرمائی:

اِنَّ عَبْدِی الْمُومِنَ اِذا اَذْنَبَ ذَنْباً ثُمَّ رَجَعَ وَ تابَ مِنْ ذٰلِكَ الذَّنْبِ وَاسْتَحْیيٰ مِنّی عِنْدَ ذِكْرِهِ غَفَرْتُ لَهُ، وَاَنْسَیتُهُ الْحَفَظَةُ، وَ اَبْدَلْتُهُ الْحَسَنَةَ، وَلا اُبالی وَ اَنَا اَرْحَمُ الرّحِمینَ “۔(۱۶۴)

”بے شک جب میرا بندہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اورپھر اپنے گناہ سے منھ موڑلیتا ہے اور توبہ کرلیتا ہے، اور اس گناہ کو یاد کرکے مجھ سے شرمندہ ہوتا ہے تو میں اس کو معاف کردیتا ہوں، اور کراماً کاتبین کو(بھی) بھلادیتا ہوں، اور اس کے گناہ کو نیکی میں تبدیل کردیتا ہوں، مجھے کوئی پرواہ ن ہیں ہے کیونکہ میں ارحم الراحمین ہوں “۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک اھم روایت میں فرماتے ہیں :کیا تم جانتے ہوں ہو کہ تائب (یعنی توبہ کرنے والا) کون ہے؟ اصحاب نے کھا: یا رسول اللہ ! آپ بھتر جانتے ہیں ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جب کوئی بندہ توبہ کرے اور دوسروں کے مالی حقوق کو ادا کرکے ان کو راضی نہ کرلے تو وہ تائب ن ہیں ہے، جو شخص توبہ کرے لیکن خدا کی عبادتوں میں اضافہ نہ کرے تو وہ شخص (بھی) تائب ن ہیں ہے، جو شخص توبہ کرے لیکن اپنے (مال حرام سے بنے ہوئے ) لباس کو نہ بدلے وہ (بھی) تائب ن ہیں ہے، جو شخص توبہ کرے لیکن اپنی صحبت کو نہ بدلے تو وہ (بھی) تائب ن ہیں ہے، جو شخص توبہ کرے لیکن اپنے اخلاق اور اپنی نیت کو نہ بدلے تو وہ شخص(بھی) تائب ن ہیں ہے، جو شخص توبہ کرے اور اپنے دل سے حقائق کو نہ دیکھے، اور صدقہ و انفاق میں اضافہ نہ کرے تو وہ شخص(بھی) تائب ن ہیں ہے، جو شخص توبہ کرے لیکن اپنی آرزوں کو کم نہ کرے اور اپنی زبان کو محفوظ نہ رکھے، تو وہ شخص(بھی) تائب ن ہیں ہے، جو شخص توبہ کرے لیکن اپنے بدن سے اضافی کھانے کو خالی نہ کرے، تو وہ شخص(بھی) تائب ن ہیں ہے۔ بلکہ وہ شخص تائب ہے جو ان تمام خصلتوں کی پابندی کرے ۔(۱۶۵)

توبہ کے منافع اور فوائد

گناھوں سے توبہ کے متعلق قرآن کریم کی آیات اور اھل بیت علیھم السلام سے مروی احادیث و روایات کے پیش نظر دنیا و آخرت میں توبہ کے بھت سے منافع و فوائد ذکر ہوئے ہیں ، جن کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:

( اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا یرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَیكُمْ مِدْرَارًا وَیمْدِدْكُمْ بِامْوَالٍ وَبَنِینَ وَیجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَیجْعَلْ لَكُمْ انْهارًا ) ۔(۱۶۶)

”اور کھا کہ اپنے پروردگار سے استغفار کرو کہ وہ بھت زیادہ بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار پانی برسائے گا۔اور اموال واولاد کے ذریعہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے لئے باغات اور نھریں قرار دے گا“۔

( تُوبُوا اِلَی اللّٰهِ تَوْبَةً نَصوحاً عَسٰی رَبُّكُمْ اَنْ یكَفِّرَ عَنْكُمْ سَیئاتِكُمْ وَ یدْخِلَكُمْ جَنّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِهَا الاَنْهارُ ) ۔(۱۶۷)

”توبہ کرو، عنقریب تمھارا پرودگار تمھاری برائیوں کو مٹادے گا اور تم ہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نھریں جاری ہوں گی“۔

توبہ سے متعلق اکثر آیات خداوندعالم کی دو صفات ”غفور“ و ”رحیم“ پر ختم ہوتی ہیں ، جس کا مطلب یہ ہے کہ خداوندعالم حقیقی توبہ کرنے والے پر اپنی بخشش اوررحمت کے دروازے کھول دیتاھے۔(۱۶۸)

( وَلَوْ انَّ اهل الْقُرَی آمَنُواوَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیهم بَرَكَاتٍ مِنْ السَّمَاءِ وَالْارْضِ ) ۔(۱۶۹)

”اور اگر بستی کے لوگ ایمان لے آتے ہیں اور تقويٰ اختیا رکر لیتے تو ھم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے “۔

”مجمع البیان“ جو ایک گرانقدر تفسیر ہے اس میں ایک بھترین روایت نقل کی گئی ہے:

” ایک شخص حضرت امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں آکر قحط اور مہنگائی کی شکایت کرتا ہے، اس وقت امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا: اے شخص اپنے گناھوں سے استغفار کرو، ایک دوسرے شخص نے غربت اور نداری کی شکایت کی، اس سے (بھی) امام علیہ السلام نے فرمایا: اپنے گناھوں سے مغفرت طلب کرو، اسی طرح ایک اور شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور عرض کی: مولا دعا کیجئے کہ مجھے خداوندعالم اولاد عطا کرے تو امام علیہ السلام نے اس سے بھی یھی فرمایا: اپنے گناھوں سے استعفار کرو۔

اس وقت آپ کے اصحاب نے عرض کیا: (فرزند رسول!) آنے والوں کی درخواستیں اور شکایات مختلف تھی، لیکن آپ نے سب کو توبہ و استغفار کرنے کاحکم فرمایا! امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے یہ چیز اپنی طرف سے ن ہیں کھی ہے بلکہ سورہ نوح کی آیات سے یھی نتیجہ نکلتا ہے جھاں خداوندعالم نے فرمایا ہے:( استغفروا ربّکم ) (اپنے رب کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرو)، لہٰذا میں نے سبھی کو استغفار کے لئے کھا، تاکہ ان کی مشکلات، توبہ و استغفار کے ذریعہ حل ہوجائیں۔(۱۷۰)

بھر حال قرآن مجید اور احادیث سے واضح طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ توبہ کے منافع و فوائد اس طرح سے ہیں : گناھوں سے پاک ہوجانا، رحمت الٰھی کا نزول، بخشش خداوندی، عذاب آخرت سے نجات، جنت میں جانے کا استحقاق، روح کی پاکیزگی، دل کی صفائی، اعضاء و جوارح کی طھارت، ذلت و رسوائی سے نجات، باران نعمت کا نزول، مال و دولت اور اولاد کے ذریعہ امداد، باغات او رنھروں میں برکت، قحطی، مہنگائی اور غربت کا خاتمہ۔

____________________

۹۵. سورہ طہ آیت ۸۲۔

۹۶. (ورہ مومن (غافر)آیت ۳۔

۹۷. سورہ زمر آیت ۵۳۔

۹۸. سورہ زمر آیت، ۵۸۔

۹۹. سورہ زمر آیت، ۵۹۔

۱۰۰. سورہ زمر آیت، ۴۷۔

۱۰۲. اصول کافی ج، ص۷۲۔

۱۰۳. سورہ بقرہ آیات ۳۳ تا ۳۵۔

۱۰۴. ((وَیاآدَمُ اسْكُنْ انْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلاَمِنْ حَیثُ شِئْتُمَا وَلاَتَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنْ الظَّالِمِینَ ))سورہ اعراف آیت نمبر۱۹۔

۱۰۵. ((فَوَسْوَسَ لَهما الشَّیطَانُ لِیبْدِی لَهما مَا وُورِی عَنْهما مِنْ سَوْآتِهما وَقَالَ مَا نَهاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلاَّ انْ تَكُونَا مَلَكَینِ اوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِینَ وَقَاسَمَهما إِنِّی لَكُمَا لَمِنْ النَّاصِحِینَ )) سورہ اعراف آیت نمبر۲۰۔۲۱۔

۱۰۶. ((فَدَلاَّهما بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهما سَوْآتُهما وَطَفِقَا یخْصِفَانِ عَلَیهما مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاهما رَبُّهما الَمْ انْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَاقُلْ لَكُمَا إِنَّ الشَّیطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُبِینٌ ))سورہ اعراف آیت نمبر۲۲۔

۱۰۷. سورہ اعراف آیت ۳۲۔

۱۰۸. سورہ بقرہ آیت ۳۷۔

۱۰۹. مجمع البیان، ج۱، ص۱۱۲؛بحار الانوار ج۱۱، ص۱۵۷، باب۳۔

۱۱۰. مجمع البیان، ج۱، ص۱۱۳؛بحار الانوار ج۱۱، ص۱۵۷، باب۳۔

۱۱۱. سورہ طہ آیت، ۱۲۲۔

۱۱۲. بحار الانوار ج ۹۴، ص ۳۲۸ باب ۲۔

۱۱۳. سورہ بقرہ آیت ۸۱۔

۱۱۴. سورہ کہف آیت، ۱۰۳۔۱۰۵۔

۱۱۵. سورہ بقرہ آیت ۱۰۔

۱۱۶. سورہ مائدہ آیت ۵۳۔

۱۱۷. سورہ توبہ آیت ۱۲۵۔

۱۱۸. سورہ نساء آیت، ۱۰۔

۱۱۹. سورہ بقرہ آیت ۱۷۴۔۱۷۵۔

۱۲۰. سورہ ابراھیم آیت، ۱۸۔

۱۲۱. معا نی الاخبار ۲۷۰، باب معنی الذنوب التی تغیر النعم، حدیث ۲؛وسائل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۸۱، باب ۴۱، حدیث ۲۱۵۵۶؛ بحار الانوار، ج۷۰، ص۳۷۵، باب ۱۳۸، حدیث ۱۲۔

۱۲۲. نہج البلاغہ، حکمت ۸۴۲، حکمت ۲۹۰؛بحار الانوار ج۷۰، ص۳۶۴، باب ۱۳۷، حدیث ۹۶۔

۱۲۳. نہج البلاغہ، ۸۷۸حکمت ۴۱۷؛وسائل الشیعہ ج۱۶، ص۷۷، باب ۸۷، حدیث ۲۱۰۲۸؛بحار الانوارج۶، ص۳۶، باب ۲۰، حدیث۵۹۔

۱۲۴. کنزالفوائد ج۱، ص۳۳۰، فصل حدیث عن الامام الرضا(ع)؛بحار الانوار ج۷۵، ص۳۵۶، باب ۲۶، حدیث۱۱۔

۱۲۵. نہج البلاغہ، ۸۷۷، حکمت ۴۱۵؛غرر الحکم، ص۱۳۵، الدنیا دارالغرور، حدیث ۲۳۴۷؛روضة الواعظین ج۲ص۴۴۱، مجلس فی ذکر الدنیا۔

۱۲۶. ارشادالقلوب ج۱، ص۲۰۰، باب ۵۴؛ بحار الا نوارج۷۴، ص۲۳، باب ۲، حدیث۶۔

۱۲۷. سورہ بقرہ آیت ۲۲۲۔

۱۲۸. (۲)سورہ غافر(مومن)آیت ۷تا ۹۔

۱۲۹. سورہ فرقان آیت ۶۸تا۷۰۔

۱۳۰. کافی ج۲ص۴۳۲، حدیث ۵؛بحا الانوار ج۶، ص۳۹، باب۲۰، حدیث۷۰۔

۱۳۱. سورہ ہود آیت ۳۔

۱۳۲. سورہ نور آیت ۳۱۔

۱۳۳. مفردات راغب ص۶۴، مادہ (فلح)۔

۱۳۴. سورہ تحریم آیت ۸۔

۱۳۵. سورہ بقرہ آیت، ۱۶۰۔

۱۳۶. سورہ نساء آیت ۱۷۔

۱۳۷. سورہ مائدہ آیت ۳۹۔

۱۳۸. سورہ اعراف آیت ۱۵۳۔

۱۳۹. سورہ توبہ آیت ۱۱۔

۱۴۰. سورہ توبہ آیت ۱۰۴۔

۱۴۱. سورہ شوری آیت ۲۵۔

۱۴۲. سورہ غافر(مومن)آیت ۳۔

۱۴۳. سورہ یوسف آیت ۸۷۔

۱۴۴. سورہ مائدہ آیت ۶۴۔

۱۴۵. ((لاَجَرَمَ انَّ اللهَ یعْلَمُ مَا یسِرُّونَ وَمَا یعْلِنُونَ إِنَّهُ لاَیحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِینَ ))سورہ نحل آیت نمبر۲۳۔((إِنَّ اللهَ یدَافِعُ عَنْ الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ اللهَ لاَیحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ ))سورہ حج آیت ۳۸۔((إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَی فَبَغَی عَلَیهم وَآتَینَاهُ مِنْ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ اولِی الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لاَتَفْرَحْ إِنَّ اللهَ لاَیحِبُّ الْفَرِحِینَ ))سورہ قصص آیت ۶۷۔((وَلاَتُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلاَتَمْشِ فِی الْارْضِ مَرَحًا إِنَّ اللهَ لاَیحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ))سورهٴ لقمان آیت ۱۸((لِكَیلاَتَاسَوْا عَلَی مَا فَاتَكُمْ وَلاَتَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللهُ لاَیحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ))سورہ حدید آیت ۲۳۔

۱۴۶. سورہ حجرات آیت ۱۱۔

۱۴۷. سورہ بروج آیت ۱۰۔

۱۴۸. سورہ نساء آیت ۱۸۔

۱۴۹. سورہ آل عمران آیت ۹۰۔

۱۵۰. ”عن ابی جعفر علیه السلام قال:ان آدم علیه السلام قال :یارب ! سلطت علی الشیطان واجریته منی مجری الدم فاجعل لی شیئا فقال:یا آدم !جعلت لک ان من هم من ذریتک بسیئة لم تکتب علیه فان عملها کتبت علیه سیئة ومن هم منهم بحسنة فان لم یعملها کتبت له حسنة وان هو عملها کتبت له عشرا، قال:یا رب! زدنیقال: جعلت لک ان من عمل منهم سیئة ثم استغفر غفرت له قال: یارب ! زدنی قال: جعلت لهم التوبة وبسطت لهم التوبة حتی تبلغ النفس هذه قال:یا رب!حسبی “۔

۱۵۱.عن ابی عبد الله علیه السلام قال :قال رسول الله صلی الله علیه و آله وسلم من تاب قبل موته قبل الله توبته ثم قال :ان السنة الکثیرة، من تاب قبل موته بشهر قبل الله توبته، ثم قال:ان الشهر لکثیر، من تاب قبل موته بجمعة قبل الله توبته ثم قال:ان الجمعة لکثیرة، من تاب قبل موته بیوم قبل الله توبته، ثم قال:ان الیوم لکثیر، من تاب قبل ان یعاین قبل الله توبته “۔

۱۵۲. دعوات راوندی، ص۲۳۷، فصل فی ذکر الموت ؛بحار الانوار، ج۶، ص۱۹، باب۲۰، حدیث۵۔

۱۵۳. نہج البلاغہ ص۸۶۳، حکمت ۳۷۱، من لایحضرہ الفقیہ ج۳، ص۵۷۴، باب معرفة الکبائر التی او عداللہ، حدیث ۴۹۶۵؛ بحار الانوار ج۶، ص۱۹، باب ۲۰، حدیث۶۔

۱۵۴. عوالی اللئالی ج۱، ص۲۳۷، الفصل التاسع، حدیث ۱۵۰؛مستدرک الوسائل ج ۱۲، ص۱۲۹، باب ۸۶، حدیث ۱۳۷۰۶؛ میزان الحکمہ، ج۲، ص۶۳۶، التوبة، حدیث۲۱۱۱ ۔

۱۵۵. غرر الحکم ص۱۹۵، آثار التوبة، حدیث ۳۸۳۵؛مستدرک الوسائل ج ۱۲، ص۱۲۹، باب ۸۶، حدیث ۱۳۷۰۷؛میزان الحکمہ، ج۲، ص۶۳۶، التوبة، حدیث ۲۱۱۲۔

۱۵۶. خصال ج۲، ص۶۲۳، حدیث ۱۰؛بحار، ج۶، ص۲۱، باب ۲۰، حدیث ۱۴۔

۱۵۷. عیون اخبارالرضاج۲، ص۲۹، باب۳۱، حدیث۳۳؛جامع الاخبارص۸۵، الفصل الحادی والاربعون فی معرفة المومن؛ وسائل الشیعہ ج۱۶، ص۷۵، باب ۸۶، حدیث ۲۱۰۲۱۔

۱۵۸. عیون اخبار الرضا ج۲، ص۷۴، باب ۳۱، حدیث ۳۴۷؛وسائل الشیعہ ج۱۶، ص۷۵، باب ۸۶، حدیث ۲۱۰۲۲؛بحار، ج۶، ص۲۱، باب ۲۰، حدیث ۱۶۔

۱۵۹. معانی الاخبار ص۱۷۴، باب معنی التوبة النصوح، حدیث ۳؛وسائل الشیعہ ج۱۶، ص۷۷، باب ۸۷، حدیث ۲۱۰۲۷؛ بحارالانوار، ج۶، ص۲۲، باب ۲۰، حدیث۲۳۔

۱۶۰. کنزل العمال ص۱۰۱۶۵؛میزان الحکمہ، ج۲، ص۶۳۶، التوبہ، حدیث ۲۱۲۳۔

۱۶۱. جامع الاخبار، ۸۷، الفصل الخامس والاربعون فی التوبة، مستدرک الوسائل ج۱۲، ص۱۳۰، باب ۸۷، حدیث ۱۳۷۰۹۔

۱۶۲. غرر الحکم ص۱۹۴، حدیث ۳۷۷۷؛مستدرک الوسائل ج۱۲، ص۱۳۷، باب ۸۷، حدیث ۱۳۷۱۵۔

۱۶۳. ثواب الاعمال ص۱۷۹، ثواب التوبة؛بحارالانوارج۶، ص۲۸، باب۲۰، حدیث۳۲۔

۱۶۴. ثواب الاعمال، ۱۳۰، ثواب من اذنب ذنباًثم رجع و تاب؛وسائل الشیعہ ج۱۶، ۷۴، باب ۸۶، حدیث۲۱۰۱۷۔

۱۶۵. جامع الاخبار ص۸۸، الفصل الخامس والاربعون فی التوبة ؛بحار الانوار ج۶، ص۳۵، باب۲۰، حدیث۵۲؛مستدرک الوسائل ج۱۲، ص۱۳۱، باب ۸۷، حدیث ۱۳۷۰۹۔قارئین کرام! اس روایت میں جن چیزوں کے بدلنے کا حکم ہوا ہے ان سے وہ چیزیں مراد ہیں جو حرام طریقہ سے حاصل کی گئی ہوںیا حرام چیزوں سے متعلق ہوں۔

۱۶۶. سورہ نوح آیت ۱۰۔۱۲۔

۱۶۷. سورہ تحریم آیت ۸۔

۱۶۸. آل عمران، ۸۹۔مائدہ، ۳۴۔اعراف، ۱۵۳۔توبہ، ۱۰۲۔نور، ۵۔

۱۶۹. سورہ اعراف آیت ۹۶۔

۱۷۰. مجمع البیان ج۱۰، ص۳۶۱؛وسائل الشیعہ ج۷، ص۱۷۷، باب ۲۳، حدیث ۹۰۵۵۔


5

6

7

8

9

10