توبہ آغوش رحمت

توبہ آغوش رحمت 20%

توبہ آغوش رحمت مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

توبہ آغوش رحمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25392 / ڈاؤنلوڈ: 6230
سائز سائز سائز
توبہ آغوش رحمت

توبہ آغوش رحمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

سیئات اور برائیاں

سیئات اور برائیاںیا گناھان کبیرہ و صغیرہ یا فحشاء و منکر اس قدر زیادہ ہیں کہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان کا بیان کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باھر ہے۔

کتاب کے اس حصہ میں گزشتہ کی طرح کہ جھاں پر حسنات، نیکی اورمعنوی زیبائیوں کی طرف بطور نمونہ توجہ دلائی ہے یھاں پر بھی نمونہ کے طور پر چند مسائل کو بیان کرتے ہیں جن کی تفصیل آپ تفصیلی کتابوں میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔

معنوی زیبائیوں سے مزین ہونے اور معنوی برائیوں سے دوری اختیار کرنے سے انسان ایک کامل او ررشید موجود میں تبدیل ہوجاتا ہے اور دنیا و آخرت کی سعادت اس کے قدم چومتی ہوئی نظر آتی ہے۔

معنوی زیبائیوں کے ذریعہ رحمت حق نازل ہوتی ہے اور انسان رضوان الٰھی میں داخل ہوجاتا ہے، اسی طرح برائیوں کے انجام دینے سے خداوندعالم ناراض ہوتا ہے جس سے انسان کی شخصیت تباہ و برباد ہوجاتی ہے، اور ان ہیں کی وجہ سے انسان روز قیامت میں درد ناک عذاب میں مبتلا ہوگا۔

قرآن مجید کے فرمان کے مطابق روز قیامت حسنات اور نیکیوں کا بدلہ جنت الفردوس ہوگی، اور برائیوں کے بدلے جہنم میں دردناک عذاب ہوگا، دوسرے الفاظ میں یوں کہئے کہ حسنات او رنیکیوں کے ذریعہ جنت کی عمارت تعمیر ہوتی ہے اور برائیوں کے ذریعہ جہنم کا کنواں کھودا جاتا ہے۔

آئےں اور اس عمر جیسی فرصت کو غنیمت شمار کریں اور اس اپنی زندگی میں نیکیوں سے مزین ہوں اور برائیوں سے دوری کریں تاکہ ھمیشہ کے عذاب سے محفوظ اور جنت میں خداوندعالم کے دسترخوان سے فیضیاب ہوسکیں۔

جھوٹ

جھوٹ بولنا، بھت ہی ناپسند کام اور شیطانی صفت ہے۔

قرآن مجید کی بھت سی آیات میں جھوٹ کو گناھان کبیرہ میں شمار کیا ہے اور جھوٹ بولنے والے کو مستحق لعنت قرار دیا ہے، اور جھوٹے اور جھٹلانے والوں کو دردناک عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے۔

قرآن مجید نے نجران کے عیسائیوں کو جھوٹوں کے عنوان سے یاد کیا اور لعنت خدا کا مستحق قرار دیا ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بحث و گفتگو کے لئے مدینہ میں آئے تھے، اور آخر کار رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مباھلہ ہونا طے پایا۔

جی ھاں، جھوٹ کا گناہ اس قدر سنگین ہے کہ انسان کو لعنت خدا کا مستحق بنادیتا ہے۔

( ثُمَّ نَبْتَهل فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْكَاذِبِینَ ) ۔(۴۸۰)

”اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قراردیں“۔

خداوندعالم نے قرآن مجید میں جھوٹ اور جھوٹے کو منافقین کے کی صفت سے یاد کیا ہے جو کہ دو زبان رکھتے (یھاں کچھ کھتے ہیں اور منافقین کے ساتھ بیٹھ کر کچھ اور باتیں کرتے ہیں )اور خود خداوندعالم ان کی جھوٹے ہونے کی گواھی دیتا ہے:

( وَاللهُ یشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَكَاذِبُونَ ) ۔(۴۸۱)

”اللہ گواھی دیتا ہے کہ یہ منافقین اپنے دعوی میں جھوٹے ہیں “۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے:

كَبُرَتْ خِیانَةً اَنْ تُحَدِّثَ اَخاكَ حَدِیثاً هُوَلَكَ مُصَدِّقٌ وَانْتَ بِهِ کاذِبٌ(۴۸۲)

”اپنے دینی بھائی کے ساتھ سب سے بڑی خیانت اس سے جھوٹ بولنا ہے جبکہ وہ تم ہیں سچا مانتا ہو“۔

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:

تَحَفَّظُوا مِنَ الْكِذْبِ، فَاِنَّهُ مِن اَدْنَی الْاخْلاقِ قَدْراً، وَهُوَ نَوُعٌ مِنَ الْفُحْشِ وَضَرْبٌ مِنَ الدَّناءَ ةِ(۴۸۳)

”اپنے کو جھوٹ سے بچاؤ کیونکہ یہ سب سے پست اخلاقی مرتبہ ہے، جھوٹ ایک بُرا عمل اور ذلت کی ایک قسم ہے“۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

اَعْظَمُ الْخَطایا اللِّسانُ الْكَذوبُ(۴۸۴)

”زبان کی سب سے بڑی خطا جھوٹ کا اپنی حد سے گزرجاناھے“۔

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اِذاكَذَبَ الْعَبْدُ كِذْبَةً تَباعَدَ الْمَلَكُ مِنْهُ مَسیرَةَ میلٍ مِنْ نَتْنِ ما جَاءَ بِهِ(۴۸۵)

”جب انسان ایک جھوٹ بولتا ہے تو اس جھوٹ کی بُری بو کی وجہ سے فرشتہ ایک میل دور ہوجاتا ہے!“۔

حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:

اِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ جَعَلَ لِلشَّرِّ اَقْفالاًوَجَعَلَ مَفاتِیحَ تِلْكَ الْاَقْفالِ الشَّرابَ، وَالْكِذْبُ شَرٌّ مِنَ الشَّرابِ(۴۸۶)

”خداوندعالم نے بُرائیوں کے کچھ تالے مقرر کئے ہیں اور ان تالوں کی کنجی شراب ہے اور جھوٹ شراب سے بھی بدتر ہے“۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے:

اَلْكِذْبُ بابٌ مِنْ اَبْوابِ النِّفاقِ(۴۸۷)

”جھوٹ، نفاق کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے“۔

تھمت

واقعاً کتنی بُری بات ہے کہ انسان کسی پاکدامن مرد یا عورت کو لوگوں کے درمیان ذلیل و رسوا کرے، کتنا بُرا عمل ہے کہ انسان کسی کے سر ایسا گناہ تھونپے جس سے اس کا دامن پاک ہو، اور کس قدر ناپسند ہے کہ انسان ہوا و ہوس اور بے ہودہ چیزوں کی بنا پر کسی محترم انسان کوذلیل و رسوا کرے۔

کسی بے گناہ پر تھمت لگانا، اور پاکدامن انسان کو متھم کرنا بدترین کام ہے۔

( وَمَنْ یكْسِبْ خَطِیئَةً اوْ إِثْمًا ثُمَّ یرْمِ بِهِ بَرِیئًا فَقَدْ احْتَمَلَ بُهتانًا وَإِثْمًا مُبِینًا ) ۔(۴۸۸)

”اور جو شخص بھی کوئی غلطی یا گناہ کرکے دوسرے بے گناہ کے سر ڈال دیتا ہے وہ بھت بڑے بھتان اور کھلے گناہ کا ذمہ دار ہوتاھے “۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ بَهَتَ مُومِناً اَوْ مُومِنَةً قالَ فِیهِ مَا لَیسَ فِیهِ اَقَامَهُ اللّٰهُ تَعاليٰ یوْمَ الْقِیامَةِ عَليٰ تَلٍّ مِنْ نارٍ حَتّيٰ یخْرُجَ مِمّا قَالَهُ فِیهِ(۴۸۹)

”جو شخص کسی مومن پر تھمت لگائے یا اس کے بارے میں وہ چیز کھے جو اس میں نہ پائی جاتی ہو، تو ایسے شخص کو خداوندعالم آگ کی ایک بلندی پر کھڑا کرے گاتاکہ وہ اپنے مومن بھائی کی شان میں کھی جانے والی بات کو ثابت کرے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

مَنْ باهَتَ مُومِناً اَوْ مُومِنَةً بِما لَیسَ فِیهِمَا، حَسَبَهُ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ یوْمَ الْقِیامَةِ فِی طِینَةِ خَبالٍ حَتّيٰ یخْرُجَ مِمّا قَالَقُلْتُ: وَمَا طِینَةُ خَبالٍ؟ قالَ:صَدیدٌ یخْرُجُ مِنْ فُروجِ الْمُومِساتِ - یعْنِی الزَّوانِی(۴۹۰)

” جو شخص کسی مرد مومن یا مومنہ پر تھمت لگائے اور ان کے بارے میں ایسی بات کھے جو ان میں نہ پائی جاتی ہو، تو خداوندعالم اس کو روز قیامت خَبال کی طینت میں مقید کردے گا تاکہ وہ اپنے کھے کو ثابت کرے، راوی کھتا ہے : میں نے حضرت سے سوال کیا: طینت خَبال کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: وہ خون اور گندگی جو زناکرنے والوں کی شرمگاہ سے نکلتی ہے!“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اَلْبُهْتانُ عَلَی الْبَری ءِ اَثْقَلُ مِنَ الْجِبالِ الرّاسیاتِ(۴۹۱)

”کسی پاکدامن مومن پر تھمت لگانا مستحکم ترین پھاڑوں سے بھی زیادہ سنگین و بھاری ہے“۔

غیبت

دوسروں کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا پست ترین اور بری صفت ہے۔

جو صفات انسان میں پائے جاتے ہیں لیکن وہ ان کو دوسروں کے سامنے بیان ہونے پر ناراض ہوتا ہو تو اس کو غیبت کھتے ہیں ۔

قرآن مجید نے تمام لوگوں کو غیبت سے منع کیا ہے، اور اس کو اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے برابر شمار کیا ہے:

( وَلاَیغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ایحِبُّ احَدُكُمْ انْ یاكُلَ لَحْمَ اخِیهِ مَیتًا فَكَرِهتمُوهُ وَاتَّقُوا اللهَ ) (۴۹۲)

”دوسرے کی غیبت بھی نہ کرو کہ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے یقینا تم اسے بُرا سمجھو گے، تو اللہ سے ڈرو“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابوذر سے فرمایا:

یا اباذَرٍّ، اِیاكَ وَالْغیبَةَ، فَاِنَّ الْغیبَةَ اَشَدُّ مِنَ الزِّنا قُلْتُ یا رَسُولَ اللّٰهِ! وَمَا الْغیبَةُ قَالَ:ذِكْرُكَ اَخاكَ بِمَا یكْرَهُقُلْتُ:یا رَسُولَ اللّٰهِ! فَاِنْ کانَ فِیهِ ذاكَ الَّذِی یذْكَرُ بِهِ؟قَالَ:اِعْلَمْ اِنَّكَ اِذا ذَكَرْتَهُ بِما لَیسَ فِیهِ بَهَتَّهُ “۔[۲۴۶]

” اے ابوذر! غیبت سے پرھیز کرو، بے شک غیبت زنا سے بدتر ہے، میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا: غیبت کیا ہے؟ تو آنحضرت نے فرمایا: اپنے دینی بھائی کی شان میں ناپسندیدہ الفاظ کہنا۔ میں نے کھا: اس کی پیٹھ پیچھے ایسی بات کہنا جو اس میں پائی جاتی ہو؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جان لو کہ اگر اس کے بارے میں وہ چیز کھو جو اس میں ن ہیں پائی جاتی تو وہ تھمت ہے“۔

نہ صرف یہ کہ غیبت کرنا حرام ہے بلکہ غیبت کا سننا بھی حرام اور گناہ ہے۔

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:

اَلسّامِعُ لِلْغیبَةِ كَاْلمُغْتابِ(۴۹۳)

”غیبت کا سننے والا (بھی) غیبت کرنے والے کی طرح ہے“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

مَنِ اغْتیبَ عِنْدَهُ اَخُوهُ الْمُسْلِمُ فَاسْتَطاعَ نَصْرَهُ وَلَمْ ینْصُرْهُ خَذَلَهُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیا وَالْآخِرَةِ(۴۹۴)

”اگر کوئی شخص کسی کے سامنے اپنے مسلمان بھائی کی غیبت کرے اور وہ اس کا دفاع کرسکتا ہو لیکن دفاع نہ کرے تو خداوندعالم اس کو دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا کردے گا“۔

استہزاء اور مسخرہ کرنا

دوسرے لوگوں کو ذلیل کرنا اور ان کی تحقیر کرنا بھت بُرا کام اور عظیم گناہ ہے۔

کسی انسان کا مسخرہ اور اس کو ذلیل نہ کیا کروچونکہ اس کا اولیائے خدا اور اس کے خاص بندوں میں سے ہونے کا امکان ہے۔

قرآن مجید نے شدت کے ساتھ ایک دوسرے کا مذاق اڑانے اور مسخرہ کرنے سے منع کیا ہے اور کسی کو ذلیل کرنے کی بھی اجازت ن ہیں دی ہے۔

( یاایها الَّذِینَ آمَنُوا لاَیسْخَرْ قَومٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَی انْ یكُونُوا خَیرًا مِنْهم وَلاَنِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَی انْ یكُنَّ خَیرًا مِنْهُن ) (۴۹۵)

”ایمان والو! خبردار کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے کہ شاید وہ اس سے بھتر ہو اور عورتوں کی بھی کوئی جماعت دوسری جماعت کا مسخرہ نہ کرے شاید وھی عورتیں ان سے بھتر ہوں“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کا مسخرہ کرنے والوں اور مومنین کو ذلیل کرنے والوں کے بارے میں فرمایا:

اِنَّ الْمُسْتَهْزِئینَ یفْتَحُ لِاَحَدِهِمْ بابُ الْجَنَّةِ فَیقالَ:هَلُمَّ، فَیجیءُ بِكَرْبِهِ وَغَمِّهِ، فَاِذا جاءَ اُغْلِقَ دُونَهُ(۴۹۶)

”مسخرہ کرنے والوں کے لئے جنت کا ایک دروزاہ کھولا جائے گا اور ان سے کھا جائے گا: جنت کی طرف آگے بڑھو، جیسے ہی وہ لوگ اپنے غم و غصہ کے عالم میںبہشت کے دروازہ کی طرف بڑ ہیں گے تووہ فوراًبند ہوجائےگا“۔

جی ھاں، مومنین کا مسخرہ کرنے والوں کا روز قیامت مسخرہ کیا جائے گا اور مومنین کو ذلیل کرنے والوں کو ذلیل کیا جائے گا تاکہ اپنے برے اعمال کا مزہ چکھ سکیں۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

لَاتُحْقِرَنَّ اَحَداً مِنَ الْمُسْلِمِینَ، فَاِنَّ صَغِیرَهُمْ عِنْدَاللّٰهِ كَبِیرٌ(۴۹۷)

”کسی بھی مسلمان کا مسخرہ نہ کرو، بے شک ایک چھوٹا مسلمان بھی خدا کے نزدیک بزرگ ہے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

”حَسْبُ ابْنِ آدَمَ مِنَ الشَّرِّ اَنْ یحْقِرَ اَخَاهُ الْمُسْلِمَ“ (۴۹۸)

”انسان کی بدی اورشر کے لئے بس یھی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کا مذاق اڑائے“۔

جھوٹی قسم کھانا

بعض لوگ اپنے مادی اور خیالی مقاصد تک پہنچنے کے لئے جھوٹی قسم کھاتے ہیں اور خدا کی ذات اقدس کی بے احترامی کرتے ہیں ۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلاَتَجْعَلُوا اللهَ عُرْضَةً لِایمَانِكُمْ انْ تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَینَ النَّاسِ وَاللهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ) ۔(۴۹۹)

”خبردار خدا کو اپنے قسموں کا نشانہ نہ بناو کہ قسموں کو نیکی کرنے، تقويٰ اختیار کرنے اور لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے میں مانع بنا دو اوراللہ سب کچھ سننے اورجاننے والا ہے“۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام علی علیہ السلام سے فرمایا:

لَا تَحْلِفْ بِاللّٰهِ کاذِباً وَلاصادِقاً مِنْ غَیرِ ضَرورَةٍ وَلَا تَجْعَلِ اللّٰهَ عُرْضَةً لِیمینِكَ، فَاِنَّ اللّٰهَ لَایرْحَمُ وَلَا یرْعيٰ مَنْ حَلَفَ بِاسْمِهِ کاذِباً(۵۰۰)

”خدا وندعالم کی جھوٹی قسم نہ کھاؤ، اور ضرورت کے بغیر سچی قسم سے بھی اجتناب کرو، خداوندعالم کو اپنی قسم کا ہدف نہ بناؤ، کیونکہ جو شخص خداوندعالم کے نام کی جھوٹی قسم کھاتا ہے خدا اس کو اپنی رحمت سے محروم کردیتا ہے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

مَنْ حَلَفَ عَليٰ یمینٍ وَهُوَ یعْلَمُ اَنَّهُ کاذِبٌ فَقَدْ بارَزَاللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ(۵۰۱)

”جو شخص خدا کی قسم کھائے اور جانتا ہو کہ اس کی قسم جھوٹی ہے تو گویا ایسا شخص خداوندعالم سے جنگ کے لئے آمادہ ہے“۔

حرام شھوت

انسان جو کچھ بھی اپنے شکم، جنسی لذت اور خیالی لذت کے لئے چاھتا ہے اور وہ رضائے الٰھی کے خلاف ہو تو اس کو حرام شھوت کھا جاتا ہے۔

انسان کو یاد خدا، قیامت پر توجہ رکھنا چاہئے اور انجام گناہ پیش کے نظر اپنے نفس کو ہوا و ہوس اور حرام شھوتوں سے محفوظ رکھناچاہئے کیونکہ ان چیزوں سے محفوظ رہنے کی جزا جنت کے علاوہ کچھ ن ہیں ہے۔

( وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهوَيٰفَاِنَّ الْجَنَّةَ هِی الْماوَيٰ ) ۔(۵۰۲)

”اور جس نے اپنے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے۔تو جنت اس کا ٹھکانا اور مرکز ہے“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

طوبيٰ لِمَنْ تَرَكَ شَهْوَةً حَاضِرَةً لِمَوْعِدٍ لَمْ یرَهُ(۵۰۳)

”خوش نصیب ہے وہ شخص جو موجودہ لذت کو نہ دیکھے ہوئے وعدہ (جنت) کی وجہ سے ترک کردے!“

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

ثَلاثٌ اَخافُهُنَّ بَعْدِی عَليٰ اُمَّتِی:الضَّلالَةُ بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ، وَمَضَلّاتُ الْفِتَنِ، وَشَهْوَةُ الْبَطْنِ وَالْفَرْجِ(۵۰۴)

”میں اپنے بعد اپنی امت کے لئے تین چیزوں سے ڈرتا ہوں: معرفت کے بعد گمراھی، گمراہ کرنے والے فتنے، اور شکم و جنسی شھوات“۔

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:

عَبْدُ الشَّهْوَةِ اَذَلُّ مِنْ عَبْدِ الرِّقِّ(۵۰۵)

”شھوت کی غلامی، دوسروںکی غلامی سے زیادہ ذلیل و رسوا کرنے والی ہے“۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اَلْحَقُّ ثَقیلٌ مَرٌّ، وَالْباطِلُ خَفیفٌ حُلْوٌ، وَرُبَّ شَهْوَةِ ساعَةٍ تُورِثُ حُزْناً طَوِیلًا(۵۰۶)

”حق ثقیل اور کڑوا ہے اور باطل سبک اور شیرین ہے، بعض اوقات ایک گھڑی کی شھوت سے بھت زیادہ حزن و ملال پیدا ہوجاتا ہے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

مَنْ عَرَضَتْ لَهُ فاحِشَةٌ اَوْ شَهْوَةٌ فَاجْتَنَبَها مِنْ مَخافَةِ اللّٰهِ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیهِ النّارَ، وَآمَنَهُ مِنَ الْفَزَعِ الْاَكْبَرِ ۔ “( ۵ ۰۷)

”جس شخص کے لئے گناہ یا لذت کا راستہ ھموار ہو لیکن وہ خوف خدا کی بنا پر اس سے پرھیز کرے تو خداوندعالم اس پر آتش جہنم کو حرام کردیتا ہے، اور روز قیامت کے عظیم خوف و وحشت سے امان عطا کردیتا ہے“۔

ظلم و ستم

ظلم و ستم اور حقوق الناس پر تجاوز کرنا، دوسروں کو اپنے حقوق تک پہنچنے میں مانع ہونا، یا مومنین کے دلوں میں ناحق اعمال اور بری باتوں کا ڈالنا، قانون شکنی، بدعت گزاری، حقوق کا پامال کرنا، بدمعاشی کرنا وغیرہ یہ سب ظلم و ستم کے مصادیق ہیں ۔

قرآن مجید نے ظلم و ستم کرنے والوں کو ہدایت کے قابل ن ہیں سمجھا ہے۔

( وَمَنْ اظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرَی عَلَی اللهِ الْكَذِبَ وَهُوَ یدْعَی إِلَی الْإِسْلاَمِ وَاللهُ لاَیهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) ۔(۵۰۸)

”اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹا الزام لگائے جب کہ اسے اسلام کی دعوت دی جارھی ہو اور اللہ کبھی ظالم قوم کی ہدایت ن ہیں کرتا ہے“۔

قرآن مجید نے ظلم و ستم کو ھلاکت و نابودی کا سبب قرار دیا ہے، اور ظلم و ستم کرنے والے معاشرہ کو بلاء و حوادث کا مستحق قرار دیا ہے۔

( وَلَمَّا جَائَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِیمَ بِالْبُشْرَی قَالُوا إِنَّا مُهلكُو اهل هَذِهِ الْقَرْیةِ إِنَّ اهلها كَانُوا ظَالِمِینَ ) ۔(۵۰۹)

”اور جب ھمارے نمائندہ فرشتے ابراھیم کے پاس بشارت لے کر آئے اور انھوں نے یہ خبر سنائی کہ ھم اس بستی والوں کو ھلاک کرنا چاھتے ہیں کیونکہ اس بستی کے لوگ بڑے ظالم ہیں “۔

قرآن مجید نے ظلم و ستم کرنے والوں کو شفاعت سے محروم قراردیا ہے اور یہ لوگ قیامت میں بے کسی اور تنھائی کے عالم میں عذاب الٰھی میں گرفتار ہوں گے:

( وَانذِرْهم یوْمَ الْآزِفَةِ إِذْ الْقُلُوبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ كَاظِمِینَ مَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ حَمِیمٍ وَلاَشَفِیعٍ یطَاعُ ) ۔(۵۱۰)

”اور پیغمبر ان ہیں آنے والے دن کے عذاب سے ڈرایئے جب دم گھٹ گھٹ کر دل منھ کے قریب آجائیں گے اور ظالمین کے لئے نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ شفاعت کرنے والا جس کی بات سن لی جائے“۔

قرآن مجید نے ظلم و ستم کرنے والوں کو ھمیشہ کے لئے مستحق عذاب قرار دیا ہے اور ان کے تابع افراد کے لئے آتش جہنم میں جگہ معین کی ہے:

( إِنَّ الْخَاسِرِینَ الَّذِینَ خَسِرُوا انفُسَهم وَاهلیهم یوْمَ الْقِیامَةِ الاَإِنَّ الظَّالِمِینَ فِی عَذَابٍ مُقِیمٍ ) ۔(۵۱۱)

”گھاٹے والے وھی افراد ہیں جنھوں نے اپنے نفس اور اھل کو قیامت کے دن گھاٹے میں مبتلا کردیا ہے، آگاہ ہو جاو کہ ظالموں کو بھر حال دائمی عذاب میں رہنا پڑے گا“۔

آخر کار قرآن مجید نے یہ اعلان کیا ہے کہ خداوندعالم ظالمین کو دوست ن ہیں رکھتا، اور یہ بات معلوم ہے کہ جس گروہ سے خداوندعالم محبت نہ کرتا ہو تو ایسے لوگ دنیا و آخرت کی بلاؤں میں گرفتار ہوتے ہیں !

( إِنَّهُ لاَیحِبُّ الظَّالِمِینَ ) ۔(۵۱۲)

”وہ یقینا ظالموں کو دوست ن ہیں رکھتا ہے“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

بَینَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ سَبْعُ عِقابٍ اَهْوَنُهَا الْمَوْتُوَقالَ اَنَسٌ:قُلْتُ:یا رَسولَ اللّٰهِ !فَمَا اَصْعَبُها؟ قالَ:الْوُقوفُ بَینَ یدَی اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ اِذْ تَعَلَّقَ الْمَظْلُومُونَ بِالظّٰالِمینَ(۵۱۳)

”جنت و جہنم کے درمیان سات خطرناک مقام ہیں ، جن میں سب سے آسان تر موت کا وقت ہے، انس کھتے ہیں : میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا: ان میں سے سخت ترین کونسا مقام ہے؟ تو آنحضرت نے فرمایا: بارگاہ خداوندی میں کھڑا ہونا کہ جب مظلومین، ظالموں سے اپنے حق لینے کے لئے قیام کریں گے“۔

ایک حدیث قدسی میں بیان ہوا ہے:

اِشْتَدَّ غَضَبی عَليٰ مَنْ ظَلَمَ مَنْ لَایجِدُ ناصِراًغَیرِی(۵۱۴)

”میرا غیظ و غضب اس ظالم کی کی نسبت شدید تر ہے جو ایسے شخص پر ظلم و ستم کرے جس کا میرے علاوہ کوئی ناصر و مددگار ن ہیں ہے“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

”اِتَّقُواالظُّلْمَ فَاِنَّهُ ظُلُماتُ یوْمَ الْقِیامَةِ“ (۵۱۵)

”ظلم و ستم سے پرھیز کرو کیونکہ روز قیامت، ظلم و ستم کی تاریکی اور ظلمت نمایاں ہو گی“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”اَلْعامِلُ بِالظُّلْمِ وَالْمُعینُ عَلَیهِ وَالرَّاضی بِهِ شُرَکاءُ ثَلاثَة(۵۱۶)

”ظلم کرنے والا، ظالم کی مدد کرنے والا اور ظلم پر راضی رہنے والا ؛ھر ایک ظلم میں شریک ہے“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

وَاللّٰهِ لَوْ اُعْطیتُ الْاقالیمَ السَّبْعَةَ بِما تَحْتَ اَفْلاكِها عَليٰ اَنْ اَعْصِی اللّٰهَ فی نَمْلَةٍ اَسْلُبُها جُلْبَ شَعِیرَةٍ ما فَعَلْتُهُ(۵۱۷)

”خدا کی قسم، اگر ساتوں اقلیم اور جو کچھ افلاک کے نیچے ہے وہ سب مجھے دیا جائے تاکہ ایک چیونٹی کے منھ میں موجود چھلکاچھین لوں تو میں اس ظلم کا مرتکب ن ہیں ہوں گا!“۔

غیظ و غضب

بلا وجہ غیظ و غضب سے کام لینا، بے جا غصہ ہونا یااھل و عیال اور رشتہ داروں کی غلطی کی بناپر یا دینی بھائیوں کی غفلت و جھالت کی وجہ سے غیظ و غضب اختیار کرنا واقعاًایک شیطانی حالت، ابلیسی منصوبہ اور ناپسند عمل ہے۔

لہٰذا غیظ و غضب اور غصہ سے پرھیز کرنا ھر مسلمان کے لئے لازم و ضروری ہے، کیونکہ انسان غیظ و غضب کے عالم میں بھت سے گناھوں کا مرتکب ہوجاتا ہے اور ممکن ہے کہ ایسے اعمال کا مرتکب ہوجائے جس کی تلافی ناممکن اور محال ہو ۔

غیظ و غضب کو پی لینا اور لوگوں کے ساتھ عفو و بخشش سے کام لینا، ان کے ساتھ نیکی کرنا تقويٰ کی نشانی ہے جس سے خداوندعالم کے نزدیک محبوبیت پیدا ہوتی ہے۔

( وَالْكَاظِمِینَ الْغَیظَ وَالْعَافِینَ عَنْ النَّاسِ وَاللهُ یحِبُّ الْمُحْسِنِینَ ) ۔(۵۱۸)

”اور یہ لوگ غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اِذَا غَضِبَ اَحَدُكُمْ وَهُوَ قائِمٌ فَلْیجْلِسْ، فَاِنْ ذَهَبَ عَنْهُ الْغَضَبُ وَاِلاَّ فَلْیضْطَجِعْ(۵۱۹)

”جب تم میں سے کوئی شخص غصہ ہوجائے تو اگر وہ کھڑا ہوا ہے تو بیٹھ جائے، اور اگر بیٹھنے کی حالت میں غصہ ختم ہوجائے تو کیا کہنا ورنہ تو پھلو کے بل لیٹ جائے“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امیر المومنین علیہ السلام سے سفارش فرماتے ہیں :

لَا تَغْضَبْ فَاِذَا غَضِبْتَ فَاقْعُدْ، وَ تَفَكَّرْ فِی قُدْرَةِ الرَّبِّ عَلَی الْعِبادِ وَحِلْمِهِ عَنْهُمْ وَاِذَا قِیلَ لَكَ، اتَّقِ اللّٰهَ فَانْبِذْ غَضَبَكَ، وَارْجِعْ حِلْمَكَ(۵۲۰)

”(تم لوگ غصہ نہ کیا کرو، اگر غصہ ہوگئے تو بیٹھ جاؤ، اور بندوں کی نسبت خدا کی قدرت اس کے حلم کے بارے میں غور و فکر کرو، اور اگر اس حال میں تم سے کھا جائے: خدا کا لحاظ رکھو، تو تمھارا غیظ و غضب ختم ہوجائے، اور حلم و بردباری کی طرف پلٹ جاؤ“۔

حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

اِیاكَ وَالْغَضَبَ، فَاَوَّلُهُ جُنونٌ، وَآخِرُهُ نَدَمٌ(۵۲۱)

” غیظ و غضب اور غصہ سے پرھیز کرو کیونکہ اس کی ابتداء دیوانہ پن اور انجام پشیمانی ہوتی ہے“۔

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

مَنْ كَظَمَ غَیظاً وَهُوَ یقْدِرُ عَليٰ اِمْضائِهِ حَشَا اللّٰهُ قَلْبَهُ اَمْناً وَاِیماناً(۵۲۲)

”جو شخص غیظ و غضب اور غصہ پر قابو پالے جب کہ غیظ و غضب سے کام لینے پر قدرت رکھتا تو خداوندعالم اس کے دل کو امن وایمان سے بھر دیتا ہے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

اَلْغَضَبُ مِفْتاحُ كُلِّ شَرٍّ(۵۲۳)

”غیظ و غضب اور غصہ ھر فساد کی جڑ ہے“۔

بغض و کینہ

بغض و کینہ رکھنا اور کسی سے شرعی دلیل کے بغیر دشمنی کرنا، ممنوع اور حرام ہے۔

بغض و کینہ رکھنے والا اپنے کینہ کو ختم کرنے کے لئے مجبور ہے کہ ظلم و ستم کا سھارا لے اور بعض گناھوں کو انجام دے۔

کینہ رکھنے والا دوسروں پر مھربانی ن ہیں کرتا، اسی وجہ سے قرآن مجید کی آیات اور احادیث معصومین علیھم السلام کی رو سے ایسا شخص دنیا و آخرت میں خدا کی رحمت اور اس کے لطف سے محروم رھتاھے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

اَلْحِقْدُ الْامُ الْعُیوبِ(۵۲۴)

”بغض و کینہ، ھر برائی کی جڑ ہے“۔

نیز امام علیہ السلام ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں :

اَلْحِقْدُ مِنْ طَبایعِ الْاَشْرارِ(۵۲۵)

”بغض و کینہ، شریر لوگوں کی فطرت ہوتی ہے“۔

نیز آپ ہی کا فرمان ہے:

اَلْحِقْدُ نارٌ کامِنَةٌ، لَا یطْفیها اِلّا مَوْتٌ اَوْ ظَفَرٌ(۵۲۶)

”بغض و کینہ ایک ایسی مخفی آگ ہے جو مرنے سے پھلے یا مدّمقابل پر کامیابی کے بغیر خاموش ن ہیں ہوتی“۔

نیز یہ کلام بھی آپ سے منقول ہے:

اُحْصُدِ الشَّرَّ مِنْ صَدْرِ غَیرِكَ بِقَلْعِهِ مِنْ صَدْرِكَ(۵۲۷)

”بغض و کینہ کو اپنے سینہ سے نکال کر دوسروں کے دلوں سے بھی ختم کردو“۔

امام علیہ السلام نے ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

سَبَبُ الْفِتَنِ الْحِقْدُ(۵۲۸)

”بغض و کینہ، فتنہ و فساد کی جڑ ہے“۔

نیز امام علیہ السلام نے فرمایا:

مَنِ اطَّرَحَ الْحِقْدَ اسْتَراحَ قَلْبُهُ وَلبُّهُ(۵۲۹)

”جو شخص بغض و کینہ کو اپنے دل سے نکال پھینکے تو اس کے دل و دماغ کو سکون ملتا ہے“۔

ایک دوسری جگہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

لَیسَ لِحَقُودٍ اِخْوَةٌ(۵۳۰)

”کینہ کرنے والے کے لئے کوئی اخوت (بھائی چارگی) ن ہیں ہوتی“۔

جیسا کہ ھم دعائے ندبہ میں پڑھتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد لوگوں نے جو مصائب آپ کے اھل بیت علیہم السلام پرڈھائے، اور جتنے فتنہ و فساد برپا ہوئے اور دین ودنیا میں جو انحرافات ایجاد ہوئے کہ جن کی تلافی قیامت تک محال ہے، ان کی وجہ حاسدوں کے دل میں بغض و حسد تھا۔

بخل

بخل اس حالت کا نام ہے جو انسان کو مال، مقام اور عزت کو راہ خدا میں خرچ کرنے سے مانع ہوتی ہے، انسان کو مشکلات میں گرفتاراور دردمندوں اورکمزوں کی مدد کرنے سے روکنے والی حالت کو بخل کھتے ہیں ۔

بخل شیطانی حالت، ابلیسی اخلاق، ناپاک، شریراور حاسدوں کے اوصاف میں سے ہے۔

بخل اور بخل کرنے والوں کی قرآن مجید نے شدت کے ساتھ مذمت کی ہے، اور روزقیامت بخل کرنے والوں پر دردناک عذاب کی خبر دی ہے۔

( وَلاَیحْسَبَنَّ الَّذِینَ یبْخَلُونَ بِمَا آتَاهم اللهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَیرًا لَهم بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهم سَیطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ یوْمَ الْقِیامَةِ ) ۔(۵۳۱)

”اور خبردار جو لوگ خدا کے دیئے ہوئے مال میں بخل کرتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ سوچنا کہ اس بخل میں کچھ بھلائی ہے۔یہ بھت بُرا ہے اور عنقریب جس مال میں بخل کیا ہے وہ روز قیامت ان کی گردن میں طوق بنادیا جائے گا“۔

( وَالَّذِینَ یكْنِزُونَ الذَّهب وَالْفِضَّةَ وَلاَینفِقُونَها فِی سَبِیلِ اللهِ فَبَشِّرْهم بِعَذَابٍ الِیمٍ یوْمَ یحْمَی عَلَیها فِی نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَی بِها جِبَاهُهم وَجُنُوبُهم وَظُهُورُهم هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِانفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ ) ۔(۵۳۲)

”اور جو لوگ سونے چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ ن ہیں کرتے، اے پیغمبر آپ ان ہیں دردناک عذاب کی بشارت دیدیں۔جس دن وہ سونا چاندی آتش جہنم میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانیوں اور ان کے پھلووں اور پشت کو داغا جائے گا کہ یھی وہ ذخیرہ جوتم نے اپنے لئے جمع کیا تھا اب اپنے خزانوں اور ذخیروں کا مزہ چکھو“۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اَقَلُّ النّاسِ راحَةً الْبَخِیلُ(۵۳۳)

”لوگوں کے درمیان بخیل سب زیادہ پریشان رھتا ہے“۔

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:

اَلْبُخْلُ جامِعٌ لِمَساوِیءِ الْعُیوبِ، وَهُوَ زِمامٌ یقادُ بِهِ اِليٰ كُلِّ سُوءٍ(۵۳۴)

” بخل کی وجہ سے تمام بُرائیاں جمع ہوجاتی ہیں ، یھی وہ لگام ہے جس کے ذریعہ انسان کو ھر بُرائی کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے“۔

حضرت امام موسيٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :

اَلْبَخِیلُ مَنْ بَخِلَ بِمَا افْتَرَضَ اللّٰهُ عَلَیهِ(۵۳۵)

”بخیل وہ شخص ہے جو خداکے واجب کردہ اعمال کو انجام دینے میں بخل سے کام لے“۔

احتکار

احتکاریعنی لوگوں کی ضروری چیزوں مخصوصاً غذائی سامان کو مہنگا بیچنے کی غرض سے جمع کرنا، یہ واقعاً ایک ظلم ہے خصوصاً معاشرہ کے غریب اور کمزور لوگوں پر بھت بڑا ستم ہے۔

احتکار کرنے والا اپنی بے رحمی کی بنا پر اپنے آپ کو دنیا و آخرت میں رحمت خدا سے محروم کرلیتا ہے۔

احتکار کے ذریعہ حاصل کئے ہوئے مال کا بیچنا حرام اور ایسے پیسے کا کھانا قرآن مجید کی لحاظ سے قابل مذمت ہے۔

احتکار کے ذریعہ حاصل کئے ہوئے ناجائز مال کے سلسلہ میں قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے:

( وَمَنْ یفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَی اللهِ یسِیرًا ) ۔(۵۳۶)

”اور جو ایسا اقدام حدود سے تجاوز اور ظلم کے عنوان سے کرے گا ھم عنقریب اسے جہنم میں ڈال دیں گے اور اللہ کے لئے یہ کام بھت آسان ہے“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ جَمَعَ طَعاماً یتَرَبَّصُ بِهِ الْغَلاءَ اَرْبَعِینَ یوْماً فَقَدْ بَرِیٴَ مِنَ اللّٰه وَ بَرِیٴَ اللّٰهُ مِنْهُ(۵۳۷)

”جو شخص بازاری اجناس کو مہنگی ہونے کے لئے چالیس دن تک احتکار کرے تو ایسا شخص خدا سے بیزار اور خدا بھی اس سے بیزار ہے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

مَنِ احْتَكَرَ طَعاماً اَرْبَعِینَ یوْماً وَ تَصَدَّقَ بِهِ لَمْ یقْبَلْ مِنْهُ(۵۳۸)

”جو شخص لوگوں کے کھانے پینے کی چیزوںکو چالیس دن تک احتکار کرے اور پھر رہ خدا میں اس کو صدقہ دےدے، تو اس کا صدقہ قبول ن ہیں ہے“۔

ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

بِئْسَ الْعَبْدُ الْمُحْتَكِرُ اِنْ اَرْخَصَ اللّٰهُ الْاِسْعارَ حَزِنَ، وَاِنْ اَغْلاَهَا اللّٰهُ فَرِحَ(۵۳۹)

”احتکار کرنے والا بُرا آدمی ہے، اگر خداوندعالم اس مال کی قیمت کو کم کردے تو غمگین ہوجاتا ہے اور اگر مہنگا کردے تو خوش ہوجاتا ہے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رشاد ہے:

یحْشَرُ الْحَکاّرُونَ وَقََتَلَةُ الْاَنْفُسِ اِليٰ جَهَنَّم فِی دَرَجةٍ(۵۴۰)

”احتکار کرنے والے اور لوگوں کا قتل کرنے والے، جہنم کے ایک درجہ میں ر ہیں گے“۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

اَلْاِحْتِکارُ شِیمُ الْاَشْرارِ(۵۴۱)

” احتکار کرنا اشرار اور برے لوگوں کی عادت ہے“۔

حبّ دنیا

دنیا کو معقول اور جائز حد تک چاہناتاکہ انسان ایک پاک و سالم زندگی گزار سکے، تو یہ ایک پسندیدہ امر ہے۔

لیکن اگر انسان میں دنیا کی محبت حرص و لالچ اور ہوا و ہوس کی بنا پر ہو اور انسان ھر طریقہ سے مال حاصل کرے، حرام طریقہ سے لذت کی آگ بجھائے تو ایسی دنیا کی محبت نامعقول اور نامشروع ہے جس سے انسان کی آخرت تباہ و برباد ہوجاتی ہے اور ھمیشہ کے لئے لعنت و عذاب کا مستحق بن جاتا ہے۔

اگر ھم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث معصومین علیھم السلام میں دنیا یا دنیا کی محبت کو مذمت کی ہے تو اس سے ناجائز اور نامشروع کاموں کے ذریعہ مال جمع کرنا اور حرام طریقہ سے جسمانی لذت حاصل کرنا مراد ہے، جو واقعاً ظلم و ستم اور خیانت ہے۔

قرآن مجید میں دنیا کے بارے میں اس طرح کے مضامین بیان ہوئے ہیں کہ دنیا متاع غرور ہے، دنیاوی زندگی لھو لعب کے علاوہ کچھ ن ہیں ہے، دنیا کا مال قلیل ہے، دنیاوی زندگی کی زینت قابل توجہ ن ہیں ہے وغیرہ وغیرہ، یہ تمام چیزیں اس وقت کے لئے ہیں جب دنیا کی محبت حرص و لالچ اور جھل و غفلت کی بنا پر ہو۔

جی ھاں، دنیا کے چاہنے والے اور دنیا کے عاشق اس دنیا کے لالچ میں اپنی آخرت کو خراب کرلیتے ہیں ، اور خدا کا قھر و غضب اور اس کی نفرت خرید لیتے ہیں اور ھمیشہ کے لئے رضائے الٰھی اور جنت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔

انسان کا دل، عرش خدا اور حرم الٰھی ہوتا ہے اس کو دنیا کی محبت سے آلودہ ہونے سے محفوظ کیا جائے، کہ یہ محبت طمع و لالچ کا ثمرہ ہے۔

قرآن مجید اور احادیث معصومین علیھم السلام میں بیان شدہ صورت میں ہی دنیا سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔

جائز طریقہ سے مال و دولت جمع کی جائے، اس کو زندگی سنوارنے اور راہ خدا میں خرچ کیا جائے۔

چنانچہ دنیا سے ایسا تعلق رکھنا، خداوندعالم پسند کرتا ہے جس سے انسان کی آخرت آباد ہوتی ہے، لیکن دنیا سے نامعقول محبت انسان کے لئے دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا باعث ہے۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”اِنَّهُ ما سَكَنَ حُبُّ الدُّنْیا قَلْبَ عَبْدٍ اِلّا الْتاطَ فِیها بِثَلاثٍ:شُغْلٍ لَا ینْفَدُ عناوهُ وَ فَقْرٍ لَا یدْرَكُ غِناهُ، وَاَمَلٍ لَا ینالُ مُنْتَهاهُ(۵۴۲)

”جس شخص کے دل میں دنیا کی محبت پیدا ہوجاتی ہے وہ تین چیزوں میں مبتلا ہوجا ہے: ایسا کام جس کا رنج ختم نہ ہوتا ہو، ایسی غربت جو کبھی ختم نہ ہو، اور ایسی آرزو جو کبھی پوری نہ ہو۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

حَرامٌ عَليٰ كُلِّ قَلْبٍ یحِبُّ الدُّنْیا اَنْ یفارِقَهُ الطَّمَعُ(۵۴۳)

”جس دل میں دنیا کا عشق پیدا ہوجائے تو اس سے لالچ کبھی دور ن ہیں ہوسکتا“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :

مَنْ اَحَبَّ الدُّنْیا جَمَعَ لِغَیرِهِ(۵۴۴)

”دنیا کا عاشق دوسروں کے لئے مال و دولت جمع کرتا ہے“۔

کیونکہ دنیا کے عشق کی وجہ سے وہ خرچ بھی ن ہیں کرتا، اور انسان کا کام صرف مال جمع کرنا، اور اس کو دوسروں کے لئے چھوڑکر مرجانا ہے!

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

فَمَنْ اَحَبَّها اَوْرَثَتْهُ الْكِبْرَ، وَمَنِ اسْتَحْسَنَها اَوْرَثَتْهُ الْحِرْصَ، وَمَنْ طَلَبَها اَوْرَدَتْهُ الطَّمَعَ، وَمَنْ مَدَحَها اَكَبَّتْهُ الرِّیاءُ، وَمَنْ اَرادَها مَكَّنَتْهُ مِنَ الْعُجْبِ، وَمَنِ اطْمَانَّ اِلَیها رَكَّبَتْهُ الْغَفْلَةَ(۵۴۵)

”دنیا کا عاشق ہونے والا شخص غرور و تکبر کا شکار ہوجاتا ہے، اور دنیا کو اچھا ماننے والا لالچ کا شکار ہوجاتا ہے، اور جو شخص دنیا کا طالب ہوجائے وہ طمع کا شکار ہوجاتا ہے، اور جس نے دنیا کی مدح کی وہ ریاکاری کا شکار ہوجاتا ہے، اور جو شخص دنیا سے محبت کرے تو وہ خودپسندی کا شکار ہوجاتا ہے، اور جو شخص اس سے مطمئن ہوجائے وہ غفلت کا شکار ہوجاتا ہے“۔

خیانت

لفظ ”خیانت“، امانت کے مقابل اور ”خائن“ امین کے مقابلہ میں ہے، لہٰذا جو شخص امانات الٰھی اور دوسرے لوگوں کی امانتوں میں ناجائز تصرف کرے نیز اگر کوئی شخص کسی کو امین سمجھتا ہو اور وہ اس کے ساتھ خیانت کرے تو ایسے شخص کو ”خائن“ کھا جاتا ہے۔

خیانت بھت ہی ناپسند کام اور شیطانی صفت ہے نیز خیانت، بے دین اور کمزور عقائد رکھنے والوں کی خصوصیت ہے۔

قرآن کریم کی آیات میں خیانت کے بارے میں اشارہ ملتا ہے مثلاً: آنکھوں کی خیانت (نامحرم کو دیکھنا) خود اپنے ذات کے ساتھ خیانت کرنا، (اپنی انسانی شخصیت کو خراب کرنا، اور آخرت کو تباہ و برباد کرنا)، امانت میں خیانت (چاھے الٰھی امانات ہوں جیسے اعضاء و جوارح اور دل و جان کی استعداد اور قابلیت، یا دوسروں کے مال اور اسرار میں خیانت ہو) کاروباری مسائل میں خیانت وغیرہ، نیز قرآن مجید میں اعلان ہوا ہے کہ خداوندعالم خیانت کرنے والے اور ناشکر انسان کو دوست ن ہیں رکھتا۔

( وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیانَةً فَانْبِذْ اِلَیهِمْ عَلَيٰ سَوَاءٍ اِنَّ اللّٰهَ لَا یحِبُّ الْخَائِنِینَ ) ۔(۵۴۶)

”اورا گر کسی قوم سے کسی خیانت یا بد عہدی کا خطرہ ہے تو آپ بھی ان کے عہد کی طرف پھینک دیں کہ اللہ خیانت کاروں کو دوست ن ہیں رکھتا ہے“۔

خداوندعالم چونکہ خیانت سے بھت زیادہ نفرت کرتا ہے اسی وجہ سے مومنین کو خدا و رسول اور امانات میں خیانت سے سخت منع فرماتا ہے:

( یا ایهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللّٰهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا امَانَاتِكُمْ وَانْتُمْ تَعْلَمُونَ ) ۔(۵۴۷)

”ایمان والو! خداو رسول اور اپنی امانتوں کے بارے میں خیانت نہ کرو جب کہ تم جانتے بھی ہو “۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

لَیسَ مِنّا مَنْ خَاَن مُسْلِماً فِی اَهْلِهِ وَمالِهِ(۵۴۸)

”جو شخص کسی مسلمان کے مال یا اس کے اھل و عیال کے ساتھ خیانت کرے تو وہ مسلمان ن ہیں ہے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اِفْشاءُ سِرِّ اَخِیكَ خِیانَةٌ، فَاجْتَنِبْ ذٰلِكَ(۵۴۹)

”کسی مسلمان برادر کے راز کو فاش کرنا خیانت ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرو“۔

اسی طرح ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :

لَا تَخُنْ مَنْ خَاَنَک فَتَكُنْ مِثْلَهُ(۵۵۰)

”جس شخص نے تمھارے ساتھ خیانت کی ہے اس کے ساتھ خیانت نہ کرو، کیونکہ اگرتم نے خیانت کی تو تم بھی اسی کی طرح ہوجاؤگے“۔

نیز آپ ہی کا فرمان ہے:

”چار چیزیں جس گھر میں بھی پائی جائیں وہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے:

خیانت، چوری، شرابخوری اور زنا“(۵۵۱)

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

اَلْمَكْرُ وَالْخَدِیعَةُ وَالْخِیانَةُ فِی النّارِ(۵۵۲)

”فریب کاری (کرنے والا)، دھوکہ (دینے والا)اور خیانت(کرنے والا) آتش جہنم میں ہے“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

اَلْخِیانَةُ دَلیلٌ عَليٰ قِلَّةِ الْوَرَعِ وَعَدَمِ الدِّیانَةِ(۵۵۳)

”خیانت کرنا، تقويٰ کی قلت اور دیانت نہ ہونے کی دلیل ہے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

یجْبَلُ الْمُومِنُ عَليٰ كُلِّّ طَبِیعَةٍ اِلّا الْخِیانَةَ وَالْكِذْبَ(۵۵۴)

”مومن ھر فطرت پر پیدا ہوسکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے “۔

شرابخوری

اسلامی تعلیمات کے پیش نظر شراب بنانے والا اور شراب خوری کی بنیاد ڈالنے والا ابلیس ہوتاھے۔

ھم ن ہیں سمجھتے کہ شراب خوری کا ضرر اور نقصان کسی پر مخفی ہو یھاںتک کہ شراب پینے والے پر بھی مخفی ن ہیں ہے۔

شر اب اور ھر مست کرنے والی چیز انسانی عقل و قدرت تفکر پر ایک کاری ضرب لگاتی ہے، اور آہستہ آہستہ انسان نابود ہوجاتا ہے۔

خداوندعالم کی ھر نعمت جو بدن کو خدا کی عبادت اور بندگان خدا کی خدمت کے لئے عطا کی گئی ہے اس قدرت کو شراب یا دوسری مست کرنے والی چیز کے ذریعہ نابودکرنا بھت ہی ناپسند کام اور گناہ عظیم ہے۔

شراب بنانے کے لئے انگور، خرمہ اور دوسری چیزوں کو بیچنا حرام ہے اور ایک ناپسند امر ہے اور یہ خدا وندعالم اور انسانیت کے ساتھ مقابلہ ہے۔

شراب بنانا، ادھر ادھر لے جانا، بیچنے میں واسطہ بننا، شراب کے کارخانہ میں کام کرنا اور شراب پینا یہ تمام چیزیں حرام اور موجب غضب الٰھی ہیں اور روز قیامت دردناک عذاب کا باعث ہیں ۔

( یاایها الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیسِرُ وَالْانصَابُ وَالْازْلاَمُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ إِنَّمَا یرِیدُ الشَّیطَانُ انْ یوقِعَ بَینَكُمْ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیسِرِ وَیصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَعَنْ الصَّلاَةِ فَهل انْتُمْ مُنتَهُونَ ) ۔(۵۵۵)

”اے ایمان والو! شراب، جوا، بت، پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہٰذا ان سے پر ہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو۔شیطان تو بس یھی چاھتا ہے کہ شراب اور جوے کے بارے میں تمھارے درمیان بغض اور عداوت پیدا کردے اور تم ہیں یادِ خدا اور نماز سے روک دے تو کیا تم واقعاً رک جاوگے“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

شارِبُ الْخَمْرِ لَا تُصَدِّقُوهُ اِذَا حَدَّثَ، وَلَاتُزَوِّجُوهُ اِذَا خَطَبَ، وَلَا تَعُودُوهُ اِذَا مَرِضَ وَلَا تُحْضِرُوهُ اِذَا مَاتَ، وَلا تَامَنُوهُ عَليٰ اَمانَةٍ“ ( ۵ ۵۶)

”شراب پینے والے کی باتوں کی تصدیق نہ کرو، اور اس سے اپنی بیٹی کی شادی نہ کرو، جب بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کے لئے نہ جاؤ، اور جب مرجائے تو اس کے جنازہ میں شریک نہ ہو اور اس کو دی ہوئی امانت پر مطمئن نہ ہو“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

یخْرُجُ الْخَمّارُ مِنْ قَبْرِهِ مَكْتُوبٌ بَینَ عَینَیهِ :آیسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ(۵۵۷)

”جس وقت شراب پینے والا روز قیامت قبر سے باھر آئے گا تو اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا: رحمت خدا سے مایوس“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

اَلْخَمْرُ اُمُّ الْفَواحِشِ، وَاَكْبَرُ الْكَبائِرِ(۵۵۸)

”شراب خوری تمام ہی گناھان کبیرہ کا سرچشمہ ہے“۔

نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے:

لَعْنَ اللّٰهُ الْخَمْرَ وَعاصِرَ ها وَغَاِرسَها وَ شارِبَها وَساقِیهاوَ بائِعَها وَمُشْتَرِیها وَآكِلَ ثَمَنِها وَحامِلَها وَالْمَحْمُولَةَ اِلَیهِ(۵۵۹)

”خداوندعالم شراب، شراب بنانے والے، شراب بننے والے درختوں کو لگانے والے، شراب پینے والے، شراب پلانے والے، شراب خریدنے والے اور شراب بیچنے والے، اس کی تجارت سے حاصل کرنے والے، اس پیسہ کو لے جانے والے، اور (شراب )کو اٹھانے والے، سب پر خداوندعالم نے لعنت کی ہے“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک بھت اھم روایت میں فرماتے ہیں :

مَنْ کانَ یومِنُ بِاللّٰهِ وَالْیوْمِ الْآخِرِ فَلاَ یجْلِسْ عَليٰ مائِدَةٍ یشْرَبُ عَلَیها الْخَمْرُ(۵۶۰)

”جو شخص خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے تو اس کے لئے سزاوار ن ہیں ہے کہ شراب کے دسترخوان بیٹھے“۔

مفضل کھتے ہیں : میں نے امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ خداوندعالم نے مست کرنے والی چیز کو کیوں حرام کیا ہے؟

تو امام علیہ السلام نے فرمایا: کیونکہ اس سے فتنہ و فساد اور نقصان ہوتا ہے، شراب خور کے بدن میں رعشہ پیدا ہوجاتا ہے، اس کے دل سے نور ختم ہوجاتا ہے، اس کی مروت ختم ہوجاتی ہے، گناہ کرنے پر جرات پیدا ہوجاتی ہے، خونریزی کرتا ہے، زناکار ہوجاتا ہے، مستی کی حالت میں اپنے محرم پر تجاوز کرتا ہے، اور اپنی عقل کو گنوادیتا ہے اور اس کی برائیوں اور شر میں اضافہ ہوتاجاتا ہے۔!(۵۶۱)

گالیاں اور نازیبا الفاظ

لوگوں کو نازیباالفاظ کہنا اور گالیاں دینابھت ہی زیادہ بُری بات ہے، جو اخلاق سے دوری کی نشانی ہے، نیز دیندار ی اور انسانی وقار کے برخلاف ہے۔

قرآن مجید نے مومنین کو سبّ وشتم اور گالیوں کی اجازت دشمنان خدا تک کے لئے ن ہیں دی ہے، نیز روایت و احادیث میں لوگوں کو حیوانات اور دوسری اشیاء کے بارے میں ناسزا کہنے سے منع کیا گیا ہے۔

( وَلاَتَسُبُّوا الَّذِینَ یدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَیسُبُّوا اللهَ عَدْوًا بِغَیرعلمٍ ) (۵۶۲)

”اور خبر دار تم لوگ ان ہیں بُرا بھلا نہ کھو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو بُرا بھلا ک ہیں گے۔۔“۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

لَا تَسُبُّوا النّاسَ فَتَكْسِبُوا الْعَداوَةَ بَینَهُمْ ۔(۵۶۳)

”لوگوں کو گالیاں نہ دو، کیونکہ اس سے دشمنی پیدا ہوتی ہے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کا فرمان ہے:

سِبابُ الْمُومِنِ فُسُوقٌ، وَقِتالُهُ كُفْرٌ، وَاَكْلُ لَحْمِهِ مِنْ مَعْصِیةِ اللّٰهِ ۔(۵۶۴)

”مومن کو گالی دینا فسق ہے، اور اس کا قتل کفر ہے اور اس کی غیبت کرنا خدا کی معصیت ہے“۔

ایک دوسری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

لَا تَسُبُّوا الشَّیطانَ، وَتَعَوَّذُوبِاللّٰهِ مِنْ شَرِّهِ(۵۶۵)

”شیطان تک کو گالی نہ دو، صرف شیاطین کے شر سے خدا سے پناہ مانگو“

نیز فرمایا:

لاَ تَسُبُّوا لرِّیاحَ، فَاِنَّها مَامُورَةٌ، وَلَا تَسُبُّوا الْجِبالَ وَلَا السَّاعاتِ وَلَا الْاَیامَ وَلاَ اللَّیالِی فَتَاْثَمُوا وَتَرْجِعْ اِلَیكُمْ(۵۶۶)

”ھوا کو گالی نہ دوکیونکہ یہ خدا کی طرف سے ہے، پھاڑوں، وقت اور روز و شب کے بارے میں ناسزا نہ کھو، چونکہ یہ کام گناہ ہے، اور گناھوں کا نقصان خود تم کو پہنچے گا“۔

اسراف (فضول خرچی)

کھانے پینے، لباس، معاشرت و محبت، دنیاوی عشق اوربخشش و انفاق میں زیادہ روی کرنا اسراف کے مصادیق میں سے ہے، اور اسراف قرآن و حدیث کی نظر میں قابل مذمت اور بُرا عمل ہے۔

اسراف اس قدر بُرا کام ہے کہ خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ اسراف کرنے والے کو خدا دوست ن ہیں رکھتا۔

( كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلاَتُسْرِفُوا إِنَّهُ لاَیحِبُّ الْمُسْرِفِینَ ) ۔(۵۶۷)

”کھاوپیو مگر اسراف نہ کرو کہ خدا اسراف کرنے والوں دوست ن ہیں رکھتا ہے“۔

اسراف کرنے والا، فضول خرچی کرنے والا اور مال و دولت کو تباہ و برباد کرنے والا؛ قرآن مجید کی نظر میں اسراف کرنے والاھے اور اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہوتے ہیں :

( إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّیاطِینِ وَكَانَ الشَّیطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ) ۔(۵۶۸)

”اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی بند ہیں اور شیطان تو اپنے پروردگار کا بھت بڑا انکا ر کرنے وا لاھے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

اِنَّ مِنَ السَّرَفِ اَنْ تَاكُلَ كُلَّ مَا اشْتَهَیتَ(۵۶۹)

”جس ھر چیز کو دل چاھے ان کا کھانا اسراف ہے“۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں :

اِنَّ لِلسَّخاءِ مِقْداراً فَاِنْ زادَ عَلَیهِ فَهُوَ سَرَفٌ(۵۷۰)

”سخاوت کی بھی ایک حد ہے اگر انسان اس حد سے گزر جائے تو اسراف ہے“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

وَیحَ الْمُسْرِفِ، مَا اَبْعَدَ ُه عَنْ صَلَاحِ نَفْسِهِ وَاسْتِدْراكِ اَمْرِهِ(۵۷۱)

”افسوس ہے اسراف کرنے والے پر، کہ وہ اپنے نفس کی اصلاح کرنے اور اپنی زندگی کو درک کرنے سے کس قدر دور ہے “۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

لِلْمُسْرِفِ ثَلاَثُ عَلاماتٍ:یشْتَری مَا لَیسَ لَهُ، وَیلْبِسُ مَا لَیسَ لَهُ، وَیاكُلُ مَا لَیسَ لَهُ ، “( ۵ ۷۲)

” اسراف کرنے والے کی تین نشانیاں ہیں : ایسی چیزیں خریدتا ہے، پہنتا ہے اور کھاتا ہے جو اس کی شان کے مطابق ن ہیں ہے“۔

نیز امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اِنَّ الْقَصْدَ اَمْرٌ یحِبُّهُ اللّٰه عَزَّوَجَلَّ، وَاِنَّ السَّرَفَ یبْغِضُهُ اللّٰهُ، حَتّی طَرْحَكَ النَّواةَ، فَاِنَّها تَصْلُحُ لِشَیءٍ وَحَتّی صَبَّكَ فَضْلَ شَرابِكَ(۵۷۳)

”بے شک میانہ روی ایک ایسی حقیقت ہے جس کو خداوندعالم دوست رکھتا ہے اور اسراف کرنے والے کو دشمن رکھتا ہے، خرمہ کی بوئی جانے والی گٹھلی کو دور پھینک دےنا اور اپنی ضرورت سے زیادہ پانی بھانا، اسراف اور فضول خرچی ہے“۔

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:

مَنْ کانَ لَهُ مالٌ فَاِیاهُ وَالْفَسادَ، فَاِنَّ اِعْطائِكَ الْمالَ فِی غَیرِ وَجْهِهِ تَبْذِیرٌ وَاِسْرافٌ وَهُوَ یرْفَعُ ذِكْرَ صاحِبِهِ فِی النّاسِ، وَیضَعُهُ عِنْدَ اللّٰهِ(۵۷۴)

”جو شخص صاحب مال ودولت ہو اس کو فساد سے پرھیز کرنا چاہئے، بے شک اسراف و تبذیر یہ ہے کہ اپنے مال ودولت کو بلا وجہ صرف کرے، اس طرح خرچ کرنا صاحب مال کے نام کو مٹادیتا ہے، اور ایسا کرنے والا انسان خدا کے نزدیک ذلیل و رسوا ہوجاتا ہے“۔

ملاوٹ اور دھوکہ بازی کرنا

کسی بھی کام میں دھوکہ بازی کرنا اور بیچنے والی چیزوں میں ملاوٹ کرنا مثلاً عیب دار چیز کو بے عیب بناکر بیچنا وغیرہ، یا اسی طرح کے دوسرے کام غشّ اور دھوکہ بازی کے مصادیق ہیں ۔

ملاوٹ اور دھوکہ بازی کے سلسلہ میں اقتصادی مسائل سے متعلق آیات میں قرآن مجید نے بیان فرمایا ہے، اسی طرح احادیث میں بھی اس بُرے کام کے سلسلہ میں تفصیل کے ساتھ بیان ملتا ہے۔

بے شک قرآن مجید اور حدیث کی روشنی میں ملاوٹ ایک حرام کام اور لوگوں کے ساتھ خیانت ہے۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے:

اَلْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ وَلاَ یحِلُّ لِمُسْلِمٍ اِذا باعَ مِنْ اَخِیهِ بَیعاً فِیهِ عَیبٌ اَنْ لاَ یبَینَهُ(۵۷۵)

”مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ، ایک مسلمان کے لئے جائز ن ہیں ہے کہ اپنے عیب دار مال کو فروخت کرتے وقت اس کے عیب کو نہ بیان کرے اور دوسرے مسلمان کو بیچ دے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

مَنْ غَشَّ الْمُسْلِمِینَ حُشِرَ مَعَ الْیهُودِ یوْمَ الْقِیامَةِ، لِاَ نَّهُمْ اَغَشُّ النّاسِ لِلْمُسْلِمینَ(۵۷۶)

”جو شخص مسلمانوں کے ساتھ ملاوٹ اور دھوکہ سے کام لے تو خداوندعالم اس کو روز قیامت یھودی محشور کرے گا کیونکہ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ سب سے زیادہ خیانت یھودی ہی کرتے ہیں “۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

مَنْ باعَ عَیباً لَمْ یبَینْهُ لَمْ یزَلْ فِی مَقْتِ اللّٰهِ، وَلَمْ تَزَلِ الْمَلَائِكَةُ تَلْعَنُهُ(۵۷۷)

”جو شخص کسی عیب دار چیز کو فروخت کرے لیکن اس کے عیب کو نہ بیان کرے تو ھمیشہ اس پر غضب پروردگار ہوتا رھتا ہے، اور فرشتے ھمیشہ لعنت کرتے رھتے ہیں “۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ غَشَّ النّاسَ فِی دِینِهِمْ فَهُوَ مُعانِدٌ لِلّٰهِ وَ رَسُولِهِ(۵۷۸)

”جو شخص اپنے مومن بھائی کے ساتھ ملاوٹ اور دھوکہ بازی سے کام لے تو ایسا شخص خدا و رسول کا دشمن ہے“۔

نیز حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:

اِنَّ اَعْظَمَ الْخِیانَةِ خِیانَةُ الْاُمَّةِ، وَافْظَعَ الْغِشَّ غِشُّ الْاَئِمَّةِ(۵۷۹)

” بے شک سب سے بڑی خیانت ؛ امت (مسلمہ) کے ساتھ خیانت کرنا ہے اور سب سے بڑی دھوکہ بازی (دینی) رھبروں کے ساتھ دھوکہ بازی ہے“۔

ربا (سود)

لوگوں سے سود لینے کی غرض سے قرض دینا، یا کوئی پست چیز دے کر اچھی چیز لینے کی غرض سے معاملہ کرنا جیسے دس کیلو گھٹیا گیھوں، چاول یا خرمادے کر ۸ گلو بھترین گیھوں، چاول یا خرما لینا، یہ بھی ربا، سود کے مصداق اور گناھان کبیرہ میں سے ہے، جس کے سلسلہ میں خدا وندعالم نے قطعی عذاب کا وعدہ دیا ہے:

( یاایها الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوا مَا بَقِی مِنْ الرِّبَا إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِینَفَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَاذَنُوا بِحَرْبٍ مِنْ اللهِ وَرَسُولِهِ ) ۔(۵۸۰)

”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرواور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم صاحبان ایمان ہو۔اگر تم نے ایسا نہ کیا تو خداو رسول سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاو۔۔“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

شَرُّالْمَکاسِبِ كَسْبُ الرِّبَا(۵۸۱)

”سب سے بُرا کسب معاش، سود کے ذریعہ کسب معاش ہے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

مَنْ اَكَلَ الرِّبا مَلَا اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ بَطْنَهُ مِنْ نارِ جَهَنَّمَ بِقَدْرِ مَا اَكَلَ، وَاِنِ اكْتَسَبَ مِنْهُ مَالاً لَایقْبَلِ اللّٰهُ مِنْهُ شَیئاً مِنْ عَمَلِهِ، وَلَمْ یزَلْ فِی لَعْنَةِ اللّٰهِ وَالْمَلَائِكَةِ ماکانَ عِنْدَهُ قِیراطٌ(۵۸۲)

”جو شخص جس قدر سود خوری کرتا ہے خداوندعالم اسی مقدار میں اس کے پیٹ کو آتش جہنم میں بھر دیتا ہے، اگر انسان رباخوری کے ذریعہ دولت کمائے تو خداوندعالم روز قیامت اس کا کوئی عمل قبول ن ہیں کرے گا، اور سود کا ایک پیسہ بھی اس کے پاس ہوتو خداوندعالم اور فرشتہ ھمیشہ اس پرلعنت کرتے رھتے ہیں “۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

دِرْهَمُ رِبَا اَعْظَمُ عِنْدَاللّٰهِ مِنْ سَبْعِینَ زِنْیةً بِذاتِ مَحْرَمٍ فِی بَیتِ اللّٰهِ الْحَرامِ(۵۸۳)

”سود کا ایک پیسہ خدا کے نزدیک اس سے ک ہیں زیادہ بُرا ہے کہ خانہ خدا میں اپنے محرم (ماں بہن)سے ۷۰بار زنا کیاھو“۔

نیز امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

اِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ لَعَنَ آكِلَ الرِّبا وَمُوكِلَهُ وَکاتِبَهُ وَشاهِدَیهِ(۵۸۴)

خداوندعالم، سود لینے والے، سود دینے والے، سود کے معاملہ کو لکھنے والے اور اس معاملہ پر گواہ ہونے والے پر لعنت کرتا ہے“۔

قرآن مجید نے بھت سی آیات میں گزشتہ امتوں کی ھلاکت و تباھی اور ان کے مختلف عذاب کے اسباب و علل بیان کئے ہیں ۔

اگر انسان قرآن مجید کی ان آیات پر غور و فکر کرے جو گزشتہ امتوں کے عذاب کی وجوھات بیان کرتی ہیں تو انسان میں نفسانی کمال پیدا ہوجائیں اور ھلاکت و تباھی سے دور ہوجائے۔

قرآن مجید نے درج ذیل عناوین کو گزشتہ امتوں کی ھلاکت اور ان کے عذاب کے اسباب بتایا ہے:

اپنے نفس پر ظلم، دوسروں پر ظلم، اسراف، حق کا انکار و کفر، فسق، طغیان، غفلت اور جرم(۵۸۵)

حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

اَمَّاالْمُهْلِکاتُ:فَشُحٌّ مُطاعٌ، وَهَوی مُتَّبِعٌ، وَاِعْجابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ(۵۸۶)

”ھلاک کرنے والی چیزیں یہ ہے: ھمیشہ بخل کرنا، ہوائے نفس کی پیروی کرنا، اور انسان کی خود غرضی “۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اِنَّ الدّینارَ وَالدِّرْهَمَ اَهْلَکا مَنْ کانَ قَبْلَكُم وَهُما مُهْلکاكُمْ(۵۸۷)

”بے شک درھم و دینار نے گزشتہ قوموں کو ھلاک کردیااور یھی چیز تم لوگوں کو بھی ھلاک کرنے والی ہے“۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

مَنِ اسْتَبَدَّ بِرَایهِ هَلَكَ(۵۸۸)

”جو شخص اپنی رائے میں استبداد کرے اور قوانین الٰھی اور عاقل لوگوں سے مشورہ نہ کرے تو ھلاک ہوجائے گا“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

هَلَكَ مَنْ لَمْ یعْرِفْ قَدْرَهُ(۵۸۹)

”جو شخص اپنی قدر و منزلت نہ پہچانے اور اپنی موقعیت اور حالت سے آشنا نہ ہو وہ ھلاک ہوجاتا ہے“۔

نیز امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

یهْلِكُ اللّٰهُ سِتّاً بِسِتٍّ :الْاُمَراءَ بِالْجَوْرِ، وَالْعَرَبَ بِالْعَصَبِیةِ، وَالدَّهاقِینَ بِالْكِبْرِ، وَالتُّجارَ بِالْخِیانَةِ، وَاَهْلَ الرُّسْتاقِ بِالْجَهْلِ، وَالْفُقَهاءَ بِالْحَسَدِ(۵۹۰)

”خداوندعالم نے چھ گرھوں کو چھ چیزوں کے ذریعہ ھلاک کیا: حکام کو ظلم و ستم کی وجہ سے، عرب کو تعصب کی وجہ سے، روسا کو تکبر کی وجہ سے، تاجروں کو خیانت کی وجہ سے، دیھاتیوں کو جھالت کی وجہ سے اور (علماء و)فقھاء کو حسد کی وجہ سے“

تکبر

تکبر، شیطانی صفت، خدا کے مدمقابل قرار دینے والی وجہ اور لوگوں کو ذلیل و خوار سمجھنے والی شئے ہے۔

تکبر چاھے خدا، قرآن انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی نسبت ہو یا دوسرے لوگوں کی نسبت ہو (جو شاید اس سے بھتر ہوں) تو تکبر کرنے والا شیطانی گروہ اور ابلیس کا ساتھی، خدا کی طرف سے ملعون اور اس کی رحمت سے محروم ہے۔

جیسا کہ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق ۵۹۱ ابلیس اپنے تکبر اور غرور کی وجہ سے خدا کی بارگاہ سے نکال دیا گیا اور لعنت کاطوق ھمیشہ ھمیشہ کے لئے اس کی گردن میں ڈال دیا گیا، اسی طرح تکبر کرنے والا شخص اپنے تکبر و غرور کی وجہ سے انسانیت اور مقام آدمیت کو کھوبیٹھتا ہے۔

قرآن مجید نے تکبر کرنے والوں اور تکبر کی عادت رکھنے والوں کو روز قیامت کے د ردناک عذاب کا مستحق قرار دیا ہے:

( وَامَّا الَّذِینَ اسْتَنكَفُوا وَاسْتَكْبَرُوا فَیعَذِّبُهم عَذَابًا الِیمًا وَلاَیجِدُونَ لَهم مِنْ دُونِ اللهِ وَلِیا وَلاَنَصِیرًا ) ۔(۵۹۲)

”اور جن لوگوں نے انکار کیا اور تکبر سے کام لیا ہے ان پر دردناک عذاب کرے گا اور ان ہیں خدا کے علاوہ نہ کوئی سرپرست ملے گا اور نہ مدد گار“۔

قرآن مجید نے تکبر کرنے والوں کو خدا کی محبت سے خارج قرار دیتے ہوئے خدا کی لعنت کا مستحق قرار دیا ہے:

( إِنَّهُ لاَیحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِینَ ) ۔(۵۹۳)

”وہ مستکبرین کو ھرگز پسند ن ہیں کرتا ہے“۔

روز قیامت تکبر کرنے والوں کو سختی کے ساتھ حکم دیا جائے کہ جہنم کے دروازوں سے داخل ہوجاؤ۔

( ادْخُلُوا ابْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِینَ فِیها فَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَكَبِّرِینَ ) ۔(۵۹۴)

”اب جہنم کے دروازوں سے داخل ہوجاو اور اسی میں ھمیشہ رھو کہ اکڑنے والوں کا ٹھکانہ بھت بُرا ہے“۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

اِجْتَنِبُوا الْكِبْرَ، فَاِنَّ الْعَبْدَ لَا یزالُ یتَكَبَّرُ حَتّی یقُولَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ:اكْتُبُوا عَبْدِی هٰذا فِی الْجَبَّارِینَ “۔

”تکبر سے اجتناب کرو، بے شک جب انسان ھمیشہ تکبر سے کام لیتا ہے تو خداوندعالم فرماتا ہے : میرے اس بندے کانام جباروں میں لکھ دیا جائے“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

اِیاكَ وَالْكِبْرَ، فَاِنَّهُ اَعْظَمُ الذُّنُوبِ، وَاَلْامُ الْعُیوبِ، وَهُوَحِلْیةُ اِبْلِیسَ “۔

”تکبر سے پرھیز کرو، کیونکہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے اور بھت بُرا عیب ہے، تکبر ابلیس کی زینت ہے۔

نیز امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

عَجِبْتُ لِابْنِ آدَمَ، اَوَّلُهُ نُطْفَةٌ، وَآخِرُهُ جِیفَةٌ، وَهُوَ قائِمٌ بَینَهُما وِعاءً لِلْغائِطِ ثُمَّ یتَكَبَّرُ “۔

”واقعاً انسان پر تعجب ہوتا ہے جس کی ابتداء نطفہ اور جس کا انجام ایک بدبودار مردار ہو یعنی جس کی ابتداء اور انتھا نجاست ہو، لیکن پھر بھی تکبر کرتا ہے“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ اعلان عام تھا:

اِیاكّم وَالْكِبْرَ، فَاِنَّ اِبْلِیسَ حَمَلَهُ الْكِبْرُ عَلَی تَرْكِ السُّجُود لِآدَمَ “۔

”تکبر سے دوری اختیار کرو، کیونکہ اسی تکبر کی وجہ سے شیطان نے حکم خدا کی مخالفت کی اور جناب آدم (علیہ السلام) کو سجدہ نہ کیا“۔

قارئین کرام! گزشتہ صفحات میں بیان ہونے والے عناوین سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تمام بُرائیاں یھی ن ہیں ہیں بلکہ یہ تو بُرائیوں کے چند نمونہ تھے جن کی وجہ سے انسان دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا ہوجاتا ہے۔

بعض دوسری معنوی بُرائیوں کا مرتکب انسان سب سے بُرے حیوانوں سے بھی بُرا ہوجاتا ہے، اور روز قیامت انسان کا باطن انسان کی شکل میں ظاھر ہوگا، وہ برائیاں کچھ یوں ہیں : اپنے کوکفار و مشرکین کی شبیہ بنانا، جھالت و نادانی میں باقی رہنا، نسل و اقتصاد میں فساد کرنا، بدعت گزاری، غرور، سستی اور کاھلی، چوری، قتل، حرام چیزوں میں دوسروں کی پیروی کرنا، دوسروں کی نسبت بدگمانی کرنا، خدا سے بدگمانی کرنا، وسوسہ، پستی و ذلت میں زندگی بسر کرنا، فتنہ و فساد پھیلانا، چغل خوری، شرک، بے جا تمنا کرنا، جلد بازی کرنا، قساوت قلب، لجاجت اور ہٹ دھرمی، جنگ و جدال کرنا، ناچ گانا، اختلاف کرنا، (غیر دینی)گروہ بنانا، غیظ و غضب اور جدائی، بے جا تعصب، لالچ، لوگوں کے عیوب ڈھونڈنا، حرص، زنا، حسد، ماں باپ، اھل و عیال اور دوسرے لوگوں کے حقوق ضائع کرنا۔

اگر ھم ان تمام عناوین کی قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کرنا چا ہیں تو چند جلد کتاب بن جائیں، ان چیزوں کی تفصیل کے سلسلہ قرآنی تفاسیر اور احادیث و اخلاق کی مفصل کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں۔

ھم اس فصل کو پوری کتاب میں بیان ہونے والے مطالب کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ختم کرتے ہیں :

اس کتاب کے ایک حصہ میں خداوندعالم کی مادی اور معنوی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے انسان عبادت و بندگی کی طاقت حاصل کرنے کے لئے فیضیاب ہوتا ہے، نیز اس بات پر بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ خداوندعالم کی مادی اور معنوی نعمتوں کو بے جا اور نامناسب طریقہ پر خرچ کرنا گناہ و معصیت ہے۔

اس کتاب میں اس بات پر بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ توبہ و انابہ اور خدا کی طرف بازگشت یہ ہے کہ خدا کی نعمتوں کو اس کی معین کردہ راہ میں خرچ کرے، دوسرے الفاظ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ توبہ یعنی اپنے گزشتہ پر نادم و پشیمان ہونا اور اپنے گزشتہ کی تلافی اور جبران کرنا ہے، اور آئندہ میں اپنے اصلاح کے لئے کوشش کرنا۔

ایک حصہ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ انسان کتنا ہی گناھوں میں آلودہ ہو ایک بیمار کی طرح ہے اور خدا وندعالم کی طرف سے اس بیماری کے علاج اور شفاء کے لئے تمام دروازے کھلے ہیں ، لہٰذا انسان کو ھرگز ناامید ن ہیں ہونا چاہئے بلکہ اس بات پر یقین رکھنا چاہئے کہ خداوندعالم توبہ قبول کرنے والا ہے، اور خداوندعالم کی بے نھایت رحمت و قدرت اور اس کا لطف و کرم آسانی کے ساتھ توبہ کرنے والے گناھگار کے شامل حال ہوجاتا ہے، خداوندعالم انسان کے تمام گناھوں کو بخش دیتا ہے، اور اس پراپنی رحمت نازل کرتاھے، توبہ کرنے والے کو چاہئے کہ لوگوں کے مالی حقوق کو ادا کرے اور قرآنی روسے واجب مالی حقوق کو ادا کرے، قضا شدہ واجبات کی ادائیگی کرے، اور گناھوں کو ترک کرنے کا قطعی فیصلہ کرے، اور اس قطعی فیصلہ پر پابندرہے ۔

اس کتاب کے اھم حصہ میں توبہ سے متعلق آیات و احادیث کو بیان کیا گیا اور توبہ کرنے والوں کے واقعات بیان کئے گئے خصوصاً ایسے واقعات جن کو کم لکھا گیا اور سنا گیا ہے، اور آخر میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اصلاح نفس کے چالیس عنوان بیان کئے گئے ہیں ۔

حقیر کا نظریہ ہے کہ اگر گناھوں کا مرتکب انسان اس کتاب کا غورسے مطالعہ کرلے یا مجالس یا نماز جمعہ کے خطبوں میں اس کتاب کے مطالب کو بیان کرےں اور بعض گناھوں میں ملوث حضرات جو خود توبہ کی طرف مائل ہیں ؛ ان سبھی کے لئے یہ کتاب مفید ثابت ہوگی۔دینی مبلغ کو لوگوں کی ہدایت سے مایوس اور ناامید ن ہیں ہونا چاہئے، مبلغین عزیز، انبیاء علیھم السلام کی طرح گمراھوں کی نسبت ایک باپ جیسا سلوک کریں، اور گناھگاروں کے ساتھ اپنی اولاد جیسا برتاؤ کرے ان کو پیار و محبت کے ساتھ سمجھائے، بھت ہی پیار و محبت اور لطیف انداز میں حلال و حرام کی تعلیم دیں اور انسانی و اخلاقی حقائق کی وضاحت کریں اور اسی طرح صبر و حوصلہ کے ساتھ کام کرتے ر ہیں ۔

امام عارفین، مولائے عاشقین اور امیر المومنین علیہ السلام نے تمام مبلغین اور معاشرہ کی اصلاح کرنے والے دلسوز علماء کو ایک پیغام دیا ہے کہ بیمار گناہ کے علاج سے ناامید نہ ہوں۔

گناھگاروںکے ساتھ پیار و محبت اور لطف و کرم کا رویہ اختیار کریں ان کو دینی حقائق بتائیں اور ان کو نرم لہجہ میں توبہ کے لئے تیار کریںاور اس سلسلہ میں پیش آنے والی زحمتوں کو برداشت کریں، جو واقعاً دنیا و آخرت میں رحمت الٰھی شامل حال ہونے کا طریقہ ہے۔

ایک شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا:

اُحِبُّ اَنْ یرْحَمَنِی رَبّی، قالَ:ارْحَمْ نَفْسَكَ، وَارْحَمْ خَلْقَ اللّٰهِ یرْحَمْكَ اللّٰهُ “۔

”میں چاھتا ہوں کہ خدامجھ پر رحم و کرم کرے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: تو خودا پنے اوپر اور دوسروں پر رحم کر تو خداوندعالم تجھ پر اپنی رحمت نازل فرمائے گا“۔

بعض وجوھات کی بنا پر انسان گناھوں میں گرفتار ہوجاتا ہے ان ہیں اپنے سے دور ن ہیں کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ سخت رویہ اختیار ن ہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کو ایک بیمار کی نگاہ سے د یکھنا چاہئے، بیمار کو فطری طور پر مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور اپنی نجات کے لئے امداد چاھتا ہے، واقعاً بیمار قابل ترحم ہوتا ہے، اس کو بلائیں اگر وہ نہ آئے تو ھم خود جائیں، اور اس سے نرم لہجہ میں گفتگو کریں، دنیا و آخرت میں گناھوں کے خطرناک آثار کو بیان کریں، اس کو خدا کے لطف و کرم اور نعمتوں کی یاد دلائیںاور اس بات کی امیدرکھنا چاہئے کہ خداوندعالم تمھارے ذریعہ سے اس کو توبہ اور بازگشت کی توفیق عنایت فرمائے گا، کہ اگر کوئی شخص ھمارے ذریعہ سے ہدایت پاگیا اور اپنے گناھوں سے توبہ کرلی تو واقعاً یہ کام ھمارے ھر عمل سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے تبلیغ دین کے لئے یمن بھیجاتو مجھ سے فرمایا: کسی سے بھی جنگ نہ کرنامگر یہ کہ پھلے اس کو اسلام کی دعوت دینا، اور اس کے بعد فرمایا:

”وَایمُ اللّٰهِ لَاَنْ یهْدِی اللّٰهُ عَليٰ یدَیكَ رَجُلاً خَیرٌلَكَ مِمّا طَلَعَتْ عَلَیهِ الشَّمْسُ وَغَرَبَتْ “۔

”ذات خدا کی قسم! اگر کوئی شخص تمھارے ذریعہ ہدایت حاصل کرلے تو یہ تمھارے لئے ھر اس چیزسے بھترہے جس پرسورج چمکتاھے“۔

آخر میں خداوندعالم کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں :

”پالنے والے! ھمارے پاس آنسووں کے علاوہ کوئی سرمایہ ن ہیں ، سوائے دعا کے کوئی اسلحہ ن ہیں ، اور تیرے علاوہ کسی سے امید ن ہیں ہے؛ خدایا! ھمیں حقیقی توبہ کی توفیق عنایت فرما!، اور ھمیں تقويٰ و پرھیزگاری اور عبادت و بندگی سے مزین فرمادے، اور ھماری باقی ماندہ عمر کو ظاھری و باطنی گناھوں سے محفوظ فرما، اور ھماری زندگی و موت کو محمد و آل محمد (علیھم السلام) کی زندگی و موت کی طرح قرار دے۔(آمین یا رب العالمین بحق محمد آل محمد )

دوسرا سبق

خدا کی نعمتوں سے صحیح فائدہ اٹھانے کی ضرورت

*تندرستی اور فرصت ، دو ناشناختہ نعمتیں

*جوانی ،سرور اور زندہ دلی کا دور

*تندرستی اور دولتمندی کی قدر جاننے کی ضرورت

* دنیوی زندگی ،ارتقاء و بلندی کے انتخاب کی راہ

خدا کی نعمتوں سے صحیح فائدہ اٹھانے کی ضرورت

'' یَا اَباذر ! اِحْفظ مَا اُوصِیْکَ بِهِ تَکُنْ سَعِیداً فِی الدُّنیَا وَالآخِرَةِ ، یَا اَبَاذر ! نِعمَتَان مَغْبُون فِیهِمَا کَثِیر مِنَ النَاسِ : الصِّحَةُ وَ الفَرَاغُ ، یَا اَبَاذَر !، اِغْتَنِمْ خمساً قَبْلَ خمسٍ، شَباَبَکَ قَبْلَ هَرَمِکَ وَ صِحَتَکَ قَبْلَ سُقمِکَ وَ غِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَ فَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ وَ حَیٰوتَکَ قَبْلَ مَوْتِک''َ

اے ابو ذر! میری نصیحت پر عمل کرو تاکہ دونوں جہاں میں سعید و نیک بخت رہو ۔ اے ابو ذر ! بہت سے لوگ دو نعمتوں کے بارے میں دھوکہ میں ہیں اور انکی قدر نہیں کرتے ، ان میں ایک تندرستی کی نعمت ہے اور دوسری فرصتاور آسائش کی نعمت ہے ۔

اے ابوذر! اس سے پہلے کہ پانچ چیزوں سے تمھیں دو چار ہونا پڑے ، پانچ چیزوں کو غنیمت جانو: جوانی کو بوڑھاپے سے پہلے ، تندرستی کو بیماری سے پہلے ، مالداری کو پریشانی سے پہلے ، فرصت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے ۔

''یَا اَباذر ! اِحْفظ مَا اُوصِیْکَ بِهِ تَکُنْ سَعِیداً فِی الدُّنیَا وَالآخِرَةِ ''

انسان ہمیشہ اپنی سعادت کے تحفظ کی جستجو میں رہتا ہے اور اسے حاصل کرنے کیلئے ہر قسم کی کوشش کرتا ہے، دوسرے الفاظ میں سعادت انسان کا ذاتی اور بنیادی مقصد ہے لہذا انسان اس کے عوامل و اسباب کو حاصل کرنے اور اس تک پہنچنے کی راہ جاننے کی جستجو میں رہتا ہے اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ابوذر سے تاکید فرماتے ہیں کہ اگر میری نصیحتوں پر عمل کرو گے تو اپنے فطری مقصود ، یعنی دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرلو گے اور اگر اس پر عمل نہ کرو گے تو اس سعادت سے محروم ہوجاؤ گے یہ تاکیداس کے اندر آمادگی پیدا کرنے اور بیشتر قبول کرنے کیلئے ہے جیسے کہ ڈاکٹر بیمار سے نصیحت کرتا ہے : اس نسخہ پر ضرور عمل کرنا تا کہ صحت مند ہوجاؤ ورنہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان اپنی صحت یابی کیلئے ہی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے ۔ اس تاکید کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

''یَا اَبَاذر ! نِعمَتَان مَغْبُون فِیهِمَا کَثِیر مِنَ النَاسِ : الصِّحَةُ وَ الفَرَاغُ ''

تندرستی اور فراغت ،دو ناشناختہ نعمتیں

تندرستی اور فراغت ایسی دو گراں قیمت نعمتیں ہیںجو خداوند عالم نے انسان کو عطا کی ہیں ، لیکن اکثر لوگ ان دو نعمتوں کی قدر نہیں جانتے اور مفت میں انھیں کھودیتے ہیں اس لحاظ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ابوذر سے تاکید فرماتے ہیں کہ ان دو نعمتوں کی قدر کرو اور مفت میں انہیں ہاتھ سے جانے نہ دو ۔

خداوند متعال نے بے شمار اور گراں قیمت نعمتیں انسان کو عطا کی ہیں اور انسان انھیں مفت میں کھودیتا ہے ، شاید اس لئے کہ انسان نے انھیں حاصل کرنے میں کوئی تکلیف نہیں اٹھائی ہے انسان نہ یہ کہ ان کا حق ادا نہیں کرتا ہے بلکہ انہیں معصیت اور ایسی راہ میں استعمال کرتا ہے نہ یہ کہ اس کیلئے کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ نقصان کا بھی متحمل ہوتا ہے ۔

تندرستی ایسی گراں قدر نعمتوں میں سے ایک ہے کہ صحت مند انسان اس کی طرف توجہ نہیں کرتا اور وہ اس وقت اس کی قدر جانتا ہے جب کسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس کی مثال اس مچھلی کی جیسی ہے کہ جب تک پانی میں تیرتی ہے وہ پانی کی قدر نہیں جانتی ، جوں ہی پانی سے باہر آجاتی ہے ، تو پانی کی اہمیت کا احساس کرتی ہے ۔

کچھ عرصہ پہلے ہمارے ایک دوست کو ایک حادثہ پیش آیاتھا ، اس نے نقل کیا: منبر پر تقریر کے دروان اچانک اس کی آواز بیٹھ گئی ، اگر چہ اس نے اپنے بیان اور بحث کو جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوآخرکار منبر سے اتر کر ہسپتال گیا اور خوش قسمتی اور خدا کی مہربانی سے کچھ عرصہ کے بعد اس نے شفا پائی ۔

بہت کم ایسا اتفاق پیش آتا ہے کہ انسان اپنے ارد گرد موجودہ نعمتوں ، جیسے گفتگو کرنے کی صلاحیت جیسی نعمت کے بارے میں غور کرے اور اس نعمت کی وجہ سے خدائے متعال کا شکر بجالائے، بلکہ وہ اس لمحہ میں اس نعمت کے بارے میں متوجہ ہوجاتا ہے جب اس کی آواز اچانک رک جاتی ہے اور بات کرنے کی طاقت اس سے سلب ہوجاتی ہے ایسی حالت میں حتی اس حد تک آمادہ ہوتا ہے کہ اس نعمت کو دوبارہ پانے کیلئے اپنی ساری دولت خرچ کردے ۔

لمحہ بھر کیلئے ہم اپنی تندرستی کے بارے میں فکر کریں اور اس موضوع پر غور کریں کہ اس سے کونسی نعمت بہتر ہے کہ ہم ہزاروں بیماریوں سے محفوظ ہیںجو ممکن ہے ہمارے جسم پر حملہ ور ہوسکتی تھیں۔ تندرستی کے عالم میں زندہ ہیں اور ان بیماریوں میں سے کسی ایک میں بھی مبتلا نہیں ہیں لہذا ہم ہر لمحہ ایک عظیم دولت سے مالامال ہیں ، اگر چہ یہ تندرستی پائدار اور ابدی نہیں ہے اور ہر لمحہ ممکن ہے ہاتھ سے چلی جائے ۔

اسی بیان کے مانند ایک اور جگہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہوا ہے ۔

'' نِعْمَتَانِ مَکْفُورَتَانِ اَلْاَمْنُ وَ الْعَافِیة '' (۱)

دو نعمتیں ہیں جن کی ( ہمیشہ ) ناشکری کی جاتی ہے : امن اور سلامتی ''

دوسری نعمت جس کی طرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے وہ فراغت ہے اور یہ آسودگی اور مصروفیت کے نہ ہونے کے معنی میں ہے انسان اپنی زندگی میں مختلف حالات سے دوچار ہوتا ہے بعض اوقات آسودگی اور سکون و اطمینان کی حالت میں ہوتا ہے لہٰذا اس حالت میں اپنے بارے میں تفکر کرسکتا ہے اور اپنے وجود میں پوشیدہ زاویوں کو پاسکتا ہے اور بعید نہیں اپنی اخلاقی اور نفسیاتی گمراہیوں کو دور کرنے کا عزم و ارادہ کرے ۔ اپنے انجام کے بارے میں غور کرے اور ایک خلوت ( کنج تنہائی )کدہ اور گوشہ میں جاکر عبادت میں مشغول ہوجائے یاسکون قلب کے ساتھ مطالعہ کرے، بہر صورت جسمی اور روحی آسودگی اس کے پورے وجود پر حکم فرما ہے اور یہ آسودگی اس کیلئے ایک سنہری موقع عطا کرتی ہے تا کہ ان فرصتوں سے پورا پورا فائدہ اٹھائے اور ایک ایک لمحہ سے اپنے عروج و کمال کیلئے استفادہ کرے، اس کے بر عکس ممکن ہے کہ اپنی زندگی میں ایسے حالات سے دو چار ہو جس میں مختلف وجوہ کی بنا پر آسائش و فراغت نہ دیکھ سکے اور ایک لمحہ کیلئے دل میں اسکی حسرت رکھتا ہو ، لیکن کیا فائدہ کہ گزرا ہوا زمانہ کبھی واپس نہیں آتا ، فرصتوں سے بہتر استفادہ کرنے کے سلسلہ میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''وَ الفُرصَةُ تَمُرُ مَرَّ السَّحَابِ فانْتَهزُوا فُرَصَ الخَیْرِ'' (۲)

فرصت ( اور عمر ) بادل کے مانند گزر جاتی ہے لہذا نیک فرصتوں کی قدر کرو ''

مشکلات ، بعض اوقات گھریلو مسائل میں مشغولیت اور اہل و عیال کی ذمہ داری قبول کرنے سے پیدا ہوتی ہیں اور بعض اوقات سماجی مصروفیتوں اور ذمہ داریوں کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں ۔ یہ مشکلات انسان کی تمام جسمی اور روحی قوتوں اور صلاحیتوں کو اپنی طرف مشغول کرتی ہیں اور اسے ایک لمحہ کیلئے بھی سوچنے کی فرصت نہیں دیتیں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بہت سے ذمہ دار افراد اسی حالت سے دوچار ہوئے ہیں حتی کہ اپنے ذاتی مسائل کی طرف توجہ کرنے کی فرصت بھی نہیں رکھتے ۔

اس کے برعکس کچھ لوگ ہمیشہ وقت گزاری کی تلاش میں ہوتے ہیں ، اور یہ نہیں جانتے کہ کس طرح اپنی گراں بہا فرصت سے استفادہ کریں ، اخباروں کے معمے حل کریں ؟ یا رات گئے تک ٹی وی کی فلمیں یا ورزشی پروگرام دیکھتے رہیں یا شطرنج کھیلنے میں مشغول رہیں ؟ ان کی مثال اس انسان کی ہے جس نے اپنی ایک بڑی دولت کو ایک جگہ جمع کیا ہے اور ایک ایسی جگہ کی تلاش میں ہے جہاں پر اپنی اس دولت کو تدریجاً آگ لگادے اور اس کا تماشا دیکھتے ہوئے لذت کا احساس کرے۔ اگر ہم ایسے کسی شخص کو دیکھیں گے تو اسے پاگل کہیں گے ہم اس سے غافل ہیں کہ خود ہم میں سے بہت لوگ اسی دیوانگی سے دوچار ہیں اوراپنی عمر کے سرمایہ کو ۔ جو دنیوی دولت سے قابل موازنہ نہیں ہے اپنی ہوس کی آگ میں جلادیتے ہیں ۔

حقیقت میں ایسے ہی انسان کومتضرر اور فریب خوردہ کہنا چاہیئے کیوںکہ فریب خوردہ وہ شخص ہے جو اپنی گراں قیمت اشیا کو بیچتا ہے اور ا سکے عوض میں بے قیمت یا کم قیمت والی چیز حاصل کرتا ہے ۔ کوئی بھی ایسی قیمتی چیز نہیں ہے جس کا عمر کے سرمایہ سے موازنہ کیا جاسکے اور انسان عمر کے سرمایہ کیلئے بہشت سے کم تر چیز پر راضی نہیں ہوسکتا ، لہذاجب تک فرصت ہاتھ سے نہ چلی جائے اس کی قدر کیجئے اور ایسا کام انجام دیجیئے کہ دوسرے تمام کاموں کی بہ نسبت زیادہ سے زیادہ سود مند اور شائستہ ہو

جوانی نشاط اور آغاز زندگی کا دور

''یا ابا ذر !اغنتم خمسا قبل خمس شبابک قبل هرمک''

''اے ابو ذر ! پانچ چیز کو پانچ چیز سے پہلے غنیمت شمار کرو ،جوانی کو بڑھاپے سے پہلے''

جوانی کا مختصر دور جو نشاط اور زندہ دلی کے ہمراہ ہوتا ہے ، انسان کی عمر کا بہترین دور محسوب ہوتا ہے اور وہ دور خصوصیت کا حامل ہوتاہے ، اگر چہ انسان کی پوری زندگی اور عمر ایک بڑی نعمت ہے ، لیکن جوانی کا دور ایک دہری نعمت ہے ، اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے پہلے جوانی کے دور کا ذکر فرماتے ہیں اورپھر آخر میں اصل حیات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں ۔ با وجودیکہ زندگی کا دور مرحلۂ جوانی پر بھی مشتمل ہے ، لیکن چونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظر میں جوانی کا دور خاص اہمیت کاحامل ہے ، اس لئے ابتدا میں اس کی طرف اشارہ فرماتے ہیں ۔

امام خمینی مکرر فرماتے تھے : '' اے جوانو! جوانی کی قدر جانو'' کیونکہ جوانی کی نعمت ایک عظیم نعمت ہے ، اس سے صحیح اور مناسب استفادہ کرکے انسان ترقی اور بلند مقام حاصل کرسکتا ہے ، یہ وہ چیز ہے جو بوڑھاپے میں کم حاصل ہوتی ہے ۔ اسی لئے ائمہ اطہار علیہم السلام کی اقوال میں بھی اس حقیقت کی وضاحت وتشریح کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''مَنْ قَرَاَ الْقُرآنَ وَهُوَ شابّ مُؤمِن ِاخْتَلَطَ الْقُرآنُ بِلَحْمِهِ وَ دَمِهِ ''(۳)

''جو بھی مومن جوان قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے ، قرآن اس کے گوشت و خون میں ممزوج ہوجاتا ہے ''

جوانی کا دور انعطاف اور حق پذیری کا دور ہوتا ہے اس دور میں انسان اپنے آپ کو بنا سکتا ہے اور اپنے آپ کو بری عادتو سے ادور رکھ سکتا ہے جوانی کے دوران ہی انسان :

۔ دوسرے تمام ادوار سے کہیں زیادہ حق بات سے متاثر ہوتا ہے ۔

۔ صحیح و سالم بدن کا مالک ہوتا ہے اس لئے اپنے اجتماعی فرائض کو انجام دے سکتا ہے ۔

۔ قوی جسم اور روح کا مالک ہونے کی وجہ سے عبادت کے فرائض کو بہتر طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔

۔ اخلاقی برائیوں کو دور کرنے کیلئے کافی قدرت رکھتا ہے ۔

۔ اپنے جسم و روح سے استفادہ کرکے علم کے بلند مراحل تک پہنچ سکتا ہے ۔

۔ انسان قوی اور مستحکم عزم و اراد ہ کا مالک بن سکتا ہے ۔

۔ تھکن محسوس کئے بغیر بہتر صورت میں سوچ سکتا اور گھنٹوں تفکر کرسکتا ہے ۔

۔ اچھی عادتوں کو اپنے اندر انتہائی حد تک مستحکم کرسکتا ہے ۔

اس کے برعکس بوڑھاپے کا زمانہ ضعف، سستی کسالت انحطاط ،ناقابل تلافی ، کمزوری، پست ہمتی اور خلاصہ کے طور پر جسم و روح پرفرسودگی ضعیفی کے تسلط کا دور ہوتا ہے ۔

قرآن مجید میں تین مواقع پر بڑھاپے کو '' شَیب'' و '' شَیبہ'' سے تعبیر کیا گیا ہے اور چار مواقع پر '' شیخ '' و''شیوخ'' سے تعبیر کیا گیا ہے ا ور اکثر مقامات پرانسانی زندگی کے اس دور میں فطری ضعف کے بارے میں وضاحت یا اشارہ کیا گیا ہے ۔

مثلاً حضرت زکریا علیہ السلام کے بارے میں آیا ہے :

( قَالَ رَبِّ اِنِّی وَهَن الْعَظْمُ مِنِّی وَ اشْتَعَلَ الرَّاسُ شَیْباً ) (مریم ٤)

کہا کہ پروردگارا !میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور میرے سر کے بال سفید ہوگئے ہیں ۔

اسی طرح انسانی حیات کے مراحل کے بارے میں فرماتا ہے ،

( ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفاً وَ شَیْبَةً ) ( روم ٥٤)

اور پھر طاقت اور امنگ کے بعد کمزوری اور ضعیفی قرار دی ہے ۔

(تمام تعبیروں میں بھی قرآن مجید نے بڑھاپے کے دورکو عجز و ناتوانی کے دور کے عنوان سے اشارہ کیا ہے)

لہذا جوانی کاد ور اخلاقی برائیوں کو دور کرنے کیلئے ایک گراںقیمت زمانہ ہے اور یہ کام بڑھاپے کے دوران انجام پانا بہت مشکل ہے ، لیکن افسوس ہے کہ انسان احساس و تجربہ کے بغیر کسی چیز پر یقین نہیں کرتا ہے ، یعنی جب تک بوڑھا نہ ہوجائے بڑھاپے کا درد محسوس نہیںکرتا ہے اگر اس دور کے مشکلات اسے بتائے جائیںتو اس کے بارے میں کما حقہ باور نہیں کرتا ہے ۔

ہم نے ایسے بزرگوں کو دیکھا ہے جو بڑے کمالات کے مالک تھے ، لیکن ا ن میں جوانی کے زمانہ کی بعض اخلاقی کمزوری باقی رہ گئی تھی اس کی وجہ یہ تھی یا اس دور میں انھوں نے اس کی شناخت نہیں کی تھی یا اس کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی تھی بہر صورت وہ اخلاقی کمزوری ایک ناسور کی صورت اختیار کر کے لاعلاج بیماری میں تبدیل ہوچکی تھی ۔

تندرستی اور دولتمندی کی قدر جاننے کی ضرورت

''صِحَتَکَ قَبْلَ سُقمِکَ وَ غِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ''

دوسرے یہ کہ : تندرستی کو بیماری سے پہلے غنیمت جانو ۔

تیسرے یہ کہ : دولتمندی کو فقر و پریشانی سے پہلے غنیمت جانو ۔

اگر زندگی کو چلانے کی اگر چہ سادہ اورپاک و صاف حالت میں طاقت رکھتے ہو اور مالی کمزوری نے تجھے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہیں کیا ہے ، تو خدا نخواستہ فقر و پریشانی میں مبتلا ہونے اور اپنی روز مرہ کی زندگی کو چلانے کیلئے دوسروں کے محتاج ہونے سے پہلے اس نعمت کی قدر کرو اگر اس وقت تمھارے اختیار میں معمولی امکانات ہیں اور تم قناعت سے اپنی روز مرہ کی زندگی چلاسکتے ہو تو اس کے حصول کو جاری رکھو اور اسے غنیمت جانو اور اس دن سے ڈرو جس دن اس معمولی زندگی کو چلانا تیرے لئے دشورا ہوجائے اور اس کام کو چھوڑ کر دوسرے کام میں مشغول ہوجاؤ ، اگر زاہدانہ زندگی گزار سکتے ہو تو اس فرصت سے استفادہ کرو اورغیر موجود اور نادر چیزوں کے بارے میں سوچنے کے بجائے جو کچھ تمھارے ہاتھ میں ہے ، اسی کی فکر کرو اور اس کی قدر کر و کسی کے محتاج نہ ہونے کے ایام میں تمھارے لئے دوسروں کی مدد کرنے کی اچھی فرصت ہے ، لہذا فرصت کو کھونے اور فقر وناداری سے دوچار ہونے سے پہلے حاجتمندوں کی مدد کرو ۔

اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ شرم آور فقر و تنگدستی انسانی کرامت کے شایان شان نہیں ہے اور ناپسند صفت کے طور پر ا س کی مذمت کی گئی ہے اللہ تعالی اپنے بندہ کیلئے ذلت پسند نہیں کرتا بلکہ وہ اس کی عزت و سربلندی چاہتا ہے لہذا حتی الامکان کوشش کرنی چاہیئے کہ دوسروں کے محتاج نہ رہیں او رمحتاجی سے مقابلہ کرنے کے طریقوں ، جیسے : قناعت اور عالی ظرفی کو اپنا شیوہ بنائے اور عیاشی ، فضول خرچی سے پرہیز کو اچھی طرح سیکھ کر ان پر عمل کرناچاہیئے ۔

'' و فِرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ''

چوتھے یہ کہ: فراغت و آسودگی کی نعمت کو مصروفیت و گرفتاری سے دوچار ہونے سے پہلے غنیمت جانو۔

اس جملہ کے مفہوم پر اس سے پہلے بحث ہوئی ، لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصود یہ نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ذمہ داریوں سے سبکدوش اور سماجی فرائض سے پہلو تہی کرکے بے کاری کو غنیمت سمجھیں ، یہ تصور منفی اور غلط ہے ۔ شاید آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد یہ ہے کہ ناخواستہ ذمہ داریوں کو قبول کرنے پر مجبور ہونے ،تھوپے جانیوالی مصروفیتوں اور انتخاب کا حق سلب ہونے سے پہلے ان فرصتوں کو غنیمت جانوکہ آزادی کے ساتھ انتخاب کیا جائے اور کسی جبرو اکراہ کے بغیر فیصلہ کیا جائے ، لہذا بہتر امر کا انتخاب کرنے میں ان فرصتوں سے استفادہ کرناچا ہیئے۔

دنیوی زندگی رشد و بلندی کے انتخاب کی راہ :

'' وَحیواتک قبل موتک ''

پانچویں : زندگی کی نعمت کو موت آنے سے پہلے غنیمت جانو ۔

زندگی کی نعمت ایک عمومی اور وسیع نعمت ہے ، جس کا تمام نعمتوں کے بعد ذکر کیا گیا ہے ۔ حقیقت میں دوسری نعمتیںزندگی کی نعمت سے وابستہ ہیں اگر زندگی نہ ہو تو دوسری نعمتوں کیلئے کوئی جگہ ہی نہیں ہے، لہذا تمام نعمتوں کی بنیاد دنیوی زندگی کی نعمت ہے ، جو خداوندمتعال کی طرف سے بندوں کو عطا کی گئی ہے اگرچہ انسان اخروی زندگی کی نعمت سے بھی مستفید ہے لیکن اس سے عمل ، انتخاب اور آزادانہ طور پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت سلب ہوجاتی ہے وہاں پر انسان اپنی پہلی زندگی کی فرصتوں کو کھودینے اور اپنے غلط انتخاب پر حسرت کھائے گا اور گزشتہ غلطیوں کی تلاش کرنے کیلئے پھر سے دنیا میں بھیجے جانے کی درخواست کرے گا لیکن کیا فائدہ کہ اس کی یہ درخواست منظور نہیں کی جائے گی۔

( حَتٰی اِذَا جَاءَ اَحَدَهُمُ الْمَوتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّی اَعْمَلُ صَالِحاً فِیْمَا تَرَکْتُ کَلاَّ اِنَّهَا کَلِمَة هَوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخ اِلٰی یَومَ یُبْعَثُونَ ) (مومنون ٩٩۔ ١٠٠)

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آئے تو کہے کہ پروردگارا مجھے پلٹادے شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں ، ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ حسرت سے کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے ۔

بعض بزرگ شخصیتیں تاکید کرتی تھیں کہ سوتے وقت تصور کرناکہ شاید اس نیند سے بیدار نہیں ہوگے اور اسی حالت میں ملک الموت آکرتمھاری روح کو قبض کرے گا کیونکہ قرآن مجید فرماتا ہے :

( ﷲ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِینَ مَوتِهَا وَ الَّتِی لَمْ تَمُتْ فِی مَنَامِهَا ) (زمر ٤٢ )

اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلاتا ہے اور جو نہیں مرتے ہیں ان کی روح کو بھی نیند کے وقت طلب کرلیتا ہے ۔

نیند کی حالت میں ، روح تقریباً بدن سے خارج ہوجاتی ہے اور اگر انسان کی موت آئی ہو تو مکمل طور پر بدن سے اس کا رابطہ منقطع ہوجاتا ہے اس لحاظ سے خداوند عالم مذکورہ آیۂ شریفہ کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فرماتا ہے :

( فَیُمْسِکُ الَّتِی قَضٰی عَلَیْهَا الْمَوتَ وَ یُرْسِلُ الْاُخْریٰ اِلیٰ اَجلٍ مُسَمّیً )

اور پھر جس کی موت کا فیصلہ کرلیتا ہے اس کی روح کواپنے پاس محفوظ کر لیتا ہے اور جس کی موت کا فیصلہ نہیں کیا ہے دوبارہ اس کے جسم میں واپس کر دیتا ہے اس کی موت آنے تک کے لئے۔

حقیقت میں انسان نیند کی حالت میں موت کا نصف سفر طے کرتا ہے لہذا تاکید کی گئی ہے کہ نیند کی حالت میں فرض کریں کہ روح بدن سے جدا ہونے کے بعد واپس بدن میں نہیں لوٹے گی اور جب نیند سے بیدار ہوجاؤ تو خدا کا شکر بجا لائو کیوں کہ خداوند عالم نے تمہارے بدن میں دوبارہ جان ڈال دی ہے اور مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندگی عطا کی ہے، دوسرے الفاظ میں فرض کریں کہ تم عالم برزخ میں گئے تھے اور وہاں پر تمہارے برے اعمال واضح ہوگئے اور تمہیں مجازات کا سامنا کرنا پڑا اور تو نے ملائکہ مقرب الہی سے پھر سے دنیا میں آنے کی درخواست کی اور انھوں نے تمہاری یہ درخواست منظور کی ہے اورتمہیں پھر سے دنیا میں آنے کی اجازت دے دی اب جبکہ تم دوبارہ دنیا میں آئے اور اعمال انجام دینے کی فرصت مل گئی تو تم کیا کرو گے اور کیسے رہو گے ؟ ہمیں ا س دوبارہ دی گئی فرصت کی قدر جاننی چاہیئے اور ا سکے ایک ایک لمحہ کو غنیمت سمجھنا چاہیئے ، کیونکہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جہاں پر ایک''لاالہ الاﷲ''کہنے کی حسرت رہے گی اور بقول امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام

''مَنْ قَصَّر فِی العَمَلِ اُبْتُلِی بَالَهم وَ لٰاحاجَةَ ﷲِ فِیْمَنْ لَیْسَ اِﷲ فِی مَالِهِ وَ نَفْسِهِ نَصیب ''(۴)

جو عمل میں کوتاہی کرتا ہے وہ رنج و اندوہ میں مبتلا رہتا ہے اور جس کے مال و جان میں ﷲ کا کچھ حصہ نہ ہو اللہ کو ایسے کی کوئی ضرورت نہیں ۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ،ج ٨١ ، ص ١٧٠ ،باب ١

۲۔وسائل الشیعہ ، ج ١٦ ، باب ٩١، ص ٨٤

۳۔ بحار الانوار ،ج٧ص٣٠٥

۴۔نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، کلمات قصار ، نمبر ١٢٢ ، ص ١١٤٦)


7

8

9

10