مقدمہ
عرصہ دراز سے مسلمانوں میں یہ اختلاف چلا آرھا ہے کہ "حی علی الفلاح" کے بعد "حی علی خیر العمل
" اذان کا جز ہے یا نہیں۔
اہل سنت کا نظریہ یہ ہے کہ "حی علی خیر العمل
" کا اذان میں ذکر کرنا صحیح نہیں ہے۔ جب کہ ان میں سے بعض اس کو صرف مکروہ جانتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ فقرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں ہے (لھذا یہ اضافہ ہوا) اور اذان میں اضافہ مکروہ ہے۔
اہل بیت علیہم السلام اور شیعیان اہل بیت (ع) کی نظر میں یہ جملہ اذان و اقامت کا جزء ہے اور اس کے بغیر اذان و اقامت درست نھیں۔ اور یہ حکم (شیعوں کے مطابق) اجماعی ہے،
اور کوئی بھی اس کا مخالف نظر نہیں آتا اپنے اس دعویٰ پر یہ لوگ اجماع سے استدلال کرتے ہیں اور بہت سی روایات کو بھی اپنے مدعا کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، مثلاً علی، محمد بن حنفیہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، ابی الربیع، زرارہ، فضیل بن یسار، محمد بن مھران نے امام محمد باقر علیہ السلام سے، آٹھویں امام علیہ السلام کی روایت فقہ الرضا، ابن سنان ، معلیٰ بن خنیس ابی الخصرمی، وکلیب الاسدی نے چھٹے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ابو بصیر نے پانچویں یا چھٹے امام علیہ السلام سے، محمد بن ابی عمیر نے ابوالحسن اور عکرمہ نے ابن عباس سے اس سلسلہ میں روایتیں نقل کی ہیں۔
اس اختلاف کے پیش نظر ہمارے پاس اہل بیت علیہم السلام کے نظریہ کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، اور اس سلسلہ میں ہماری دلیل صرف اجماعی ہی نہیں ہے بلکہ ہمارا مبنیٰ اہل بیت علیہم السلام، جو حدیث ثقلین اور آیۂ تطھیر کے مصداق ہیں، سے مروی روایتیں ہیں۔
اور اس کے علاوہ اور بہت سی دلیلیں ہیں جو اہل سنت کی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔
لیکن اس موضوع کی تفصیلات میں غور کرنے اور اس کے سلسلہ میں دلائل و شواھد پیش کرنے سے پہلے فریقین کے نزدیک اذان کی شرعی حیثیت کے بارے میں گفتگو کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ بحث، "حی علی خیر العمل
" کے جزء اذان ہونے یا نہ ہونے کے مسئلہ سے بہت مربوط ہے جو ہمارا اصل موضوع ہے۔
اور اسی کے ضمن میں اس موضوع سے متعلق دوسرے بہت سے حقائق بھی روشن ہوجائیں گے۔
ترویج اذان: اہل سنت کی نظر میں
۱) ابو داؤود راوی ہیں کہ مجھ سے عباد بن موسیٰ ختلی اور زیاد بن ایوب نے روایت کی ہے (جب کہ ان دونوں میں سےعباد کی روایت زیادہ مکمل ہے)یہ دونوں کھتے ہیں کہ ہم سے ھشیم نےابو بشیر سے روایت نقل کی ہے کہ زیاد راوی ہیں کہ ہم سے ابو عمیر بن انس نے اور ان سے انصار کے ایک گروہ نے روایت کی ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فکر ہوئی کہ نماز کے وقت لوگوں کو کیسے جمع کیا جائے۔ بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ نماز کے وقت ایک پرچم بلند کردیا جائے۔ جب لوگ اس کو دیکھیں گے تو ایک دوسرے کو نماز کے لئے متوجہ کردیں گے۔ آپ کو یہ مشورہ پسند نہیں آیا۔ بعض صحابہ نے کہا کہ سنکھ بجایا جائے۔ آپ کو یہ بات بھی پسند نہیں آئی، اور فرمایا کہ یہ یھودیوں کا طریقۂ کار ہے۔ کچھ لوگوں نے عرض کیا: گھنٹیاں بجائی جائیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ نصاریٰ کی روش ہے۔
اس کے بعد عبد اللہ بن زید (بن عبداللہ) اپنے گھر چلے گئے در حالیکہ ان کو وہی فکر لاحق تھی جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھی۔ پس ان کو خواب میں اذان کی تعلیم دی گئی؟۔
راوی کھتا ہے کہ وہ اگلے دن صبح کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں خواب و بیداری کے عالم میں تھا کہ کوئی میرے پاس آیا اور مجھے اذان سکھائی۔ راوی کھتا ہے کہ عمر بن خطاب، ان سے پہلے خواب میں اذان دیکھ چکے تھے لیکن بیس دن تک انھوں نے کسی کو اس کی خبر نہیں کی، اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا، تو آپ (ص) نے فرمایا کہ تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ تو کھنے لگے کہ عبد اللہ بن زید نے مجھ سے پہلے آپ کو بتا دیا لھذا مجھے ذکر کرنے میں شرم محسوس ہوئی۔ اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! کھڑے ہوجاؤ اور جو تم سے عبد اللہ بن زید کھیں اس کو انجام دو۔ اس طرح بلال (رض) نے اذان دی۔ ابو بشیر کھتے ہیں: مجھے ابو عمیر نے خبر دی ہے کہ انصار یہ گمان کرتے تھے کہ اس دن اگر عبد اللہ بن زید مریض نہ ہوتے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انھیں کو مؤذن بناتے۔
۲) محمد بن منصور طوسی نے یعقوب سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے محمد بن اسحاق سے، انھوں نے محمد بن ابراھیم بن حارث تیمی سے، انھوں نے محمد بن عبداللہ بن زید بن عبداللہ سے روایت نقل کی ہے کہ مجھ سے عبداللہ بن زید نے کہا کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناقوس (گھنٹی) بجانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ نماز کے وقت ناقوس بجایا کرو تاکہ لوگ جمع ہوجائیں تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص ھاتھ میں ناقوس لئے ہوئے میرے گرد چکر لگا رھا ہے، میں نے اس سے کہا :اے بندۂ خدا! یہ ناقوس بیچتے ہو؟ اس نے کہا کہ تم اس کا کیا کرو گے؟ میں نے کہا کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو نماز کے لئے مطلع کروں گا۔ وہ کھنے لگا: کیا میں اس سے اچھی چیز بتاؤں؟ میں نے کہا :ھاں، بتاؤ۔ اس نے کہا کہ (نماز کے وقت لوگوں کو جمع کرنے کے لئے) یہ کلمات کہا کرو:
"الله اکبر، الله اکبر، الله اکبر، الله اکبر، اشهد ان لا الٰه الا الله، اشهد ان لا الٰه الا الله، اشهد ان محمداً رسول الله، اشهد ان محمداً رسول الله، حی علی الصلاة، حی علی الصلاة، حی علی الفلاح، حی علی الفلاح، الله اکبر، الله اکبر، لا الٰه الا الله، "
راوی کھتا ہے کہ پھر وہ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوا اور کہا :جب نماز کے لئے کھڑے ہوجاؤ تو یہ کھو:
" الله اکبر، الله اکبر، اشهد ان لا الٰه الا الله، اشهد ان لا الٰه الا الله، اشهد ان محمداً رسول الله، اشهد ان محمداً رسول الله، حی علی الصلاة، حی علی الصلاة، حی علی الفلاح، حی الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله اکبر، الله اکبر، لا الٰه الا الله "
جب صبح ہوئی تو میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا اور اپنا خواب سنایا۔
آپ (ص) نے فرمایا: "انشاء اللہ یہ خواب سچا ہے۔ بلال کے ساتھ جاؤ اور جو کچھ خواب میں دیکھا ہے وہ ان کو سکھاؤ تاکہ وہ اس کے ذریعہ لوگوں کو نماز کے لئے بلائیں۔ کیونکہ وہ تم سے زیادہ خوش لحن ہیں۔" میں بلال کے ساتھ گیا، اور ان کو بتاتا گیا وہ اذان دیتے گئے۔ عمر بن خطاب اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے، جیسے ہی انھوں نے اس آواز کو سنا، دوڑے ہوئے آئے۔ وہ اتنی عجلت میں تھے کہ ان کی ردا زمین پر گھسٹ رھی تھی، وہ آئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا :"اس خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، میں نے بھی یھی خواب دیکھا ہے، جو عبد اللہ بن زید نے دیکھا تھا۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فللّٰہ الحمد (تمام تعریفیں خدا سے مخصوص ہیں۔)
یہی روایت ابن ماجہ نے مندرجہ ذیل دو سندوں سے ذکر کی ہے۔
۳) ہم سے ابو عبید محمد بن میمون مدنی نے، ان سے محمد بن سلمہ الحرانی نے، ان سے محمد بن ابراھیم تیمی نے، انھوں نے محمد بن عبداللہ بن زید سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے وقت لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لئے ناقوس کے بارے میں حکم دینے کے لئے سوچ رھے تھے، اور اسی کی طرف مائل تھے کہ عبد اللہ بن زید کو خواب میں اذان سکھائی گئی الخ۔
۴) ہم سے محمد بن خالد بن عبد اللہ واسطی نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے عبد الرحمان بن اسحاق نے، ان سے زھری نے، ان سے سالم نے، ان سے ان کے والد نے روایت کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے مشورہ کیا کہ نماز کے لئے لوگوں کو جمع کرنے کے لئے کیا کیا جائے؟ کچھ لوگوں نے "سنکھ" کی پیشکش کی۔ آپ کو یہ رائے پسند نہ آئی۔ کیو نکہ سنکھ یھودیوں سے مخصوص ہے۔ بعض نے "ناقوس" کا تذکرہ کیا۔ مگر ناقوس نصاریٰ کی روش ہونے کی وجہ سے آپ کو یہ مشورہ بھی مناسب نہیں لگا۔ اسی رات عمر بن خطاب اور انصار کے ایک شخص عبد اللہ بن زید کو خواب میں اذان کی تعلیم دی گئی۔
زھری کا بیان ہے کہ صبح کی اذان میں بلال نے "الصلاة خیر من النوم
" کا اضافہ کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنی رضا مندی کا اظھار بھی فرما دیا۔
ترمذی نے یہ روایت مندرجہ ذیل سند کے ذریعہ نقل کی ہے:
۵) ہم سے سعد بن یحییٰ بن سعید اموی نے، ان سے ان کے والد نے، انھوں نے محمد بن اسحاق سے، انھوں نے محمد بن حارث تیمی سے، انھوں نے محمد بن عبد اللہ بن زید سے، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ جب صبح ہوئی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے، اور خواب کے بارے میں آپ سے بتایا الخ۔
۶) ترمذی کھتے ہیں: اس حدیث کو ابراھیم بن سعد نے محمد بن اسحاق سے، زیادہ بہتر اور کامل طور پر نقل کیا ہے۔ اس کے بعد ترمذی کھتے ہیں: عبد اللہ ابن زید سے مراد ابن عبدر بہ ہیں، اور ہمارے نزدیک اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو بھی روایت نقل کی ہیں، ان میں سے صرف یھی ایک حدیث، جو اذان کے بارے میں ہے، صحیح ہے۔
یہ روایتیں ہم نے "صحاح ستہ" اور بعض مخصوص "سبب صحاح" جیسے سنن دارمی یا دارقطنی، سے نقل کی ہیں، کیونکہ ان کتابوں کو جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی دوسری سنن کو حاصل نھیں۔ مثلاً سنن دارمی یا دارقطنی یا وہ روایتیں جو ابن سعد نے اپنی طبقات یا بیھقی نے اپنی سنن میں نقل کی ہیں۔ ان کتابوں کی خاص اہمیت اور منزلت کی وجہ سے ہم نے ان کو دوسری مشھور سنن سے جدا رکھا ہے۔
اب ہم حقیقت کو واضح کرنے کے لئے ان روایات کے بارے میں متن اور سند کے اعتبار سے گفتگو کریں گے، اس کے بعد اس سلسلہ کی باقی روایات کا تذکرہ کریں گے۔
ہمارے نزدیک یہ تمام روایات کئی وجھوں سے اپنے مدعا پر دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
پہلی وجہ: ان روایات کا منصب رسالت سے سازگار نہ ہونا
خداوند عالم نے اپنے رسول کو مبعوث کیا تاکہ وہ لوگوں کے ساتھ نماز کو اس کے وقت میں قائم کریں اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ خداوند عالم اس کو انجام دینے کی کیفیت سے بھی آگاہ کرے۔
لھٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس سلسلہ میں بہت دنوں (یا ایک روایت کے مطابق بیس دن) تک حیران و پریشان رھنا کیا معنیٰ رکھتا ہے، کہ وہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے طریقے سے نا واقف ہوں جو ان کے کاندھوں پر آچکی ہے؟؟ اور اپنے مقصود کو حاصل کرنے کے لئے ھر کس و ناکس سے مدد مانگتے پھریں۔ جب کہ نص قرآنی(
کان فضل الله علیک عظیماً
)
کے مطابق سب پر آپ کی فوقیت مسلم ہے۔ یھاں پر فضل سے مراد علمی برتری ہے جو سیاق آیت(
و علّمک ما لم تکن تعلم
)
سے واضح ہے۔ اور پھر نماز و روزہ عبادتی امور ہیں، جنگ و جدال کی طرح نہیں کہ جن کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعض اصحاب سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ اور یہ مشورہ بھی اس لئے نہیں ہوتا تھا کہ آپ بہتر طریقہ نہیں جانتے تھے، بلکہ یہ لوگوں کو متوجہ کرنے اور ان کی تشویق کے لئے ہوتا تھا۔ جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے(
ولو کنت فظّاً غلیظ القلب لا نفضوا من حولک فاعف عنهم واستغفرلهم وشاورهم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی الله
)
"اے رسول اگر تم بد مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمھارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔ لھذا اب انھیں معاف کردو، اور ان کے لئے استغفار کرو اور جنگی امور میں ان سے مشورہ کرو اور جب ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔"
کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ دینی امور میں عوام کے خواب و خیالات کو مصدر قرار دیا جائے؟ اور وہ بھی اذان و اقامت جیسی اہم عبادتوں کے لئے!! کیا یہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ان پر بہتان نہیں ہے؟
معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت عبداللہ بن زید کے قبیلہ والوں نے گڑھی ہے، اور اس خواب کو خوب مشھور کیا، تاکہ فضیلت ان کے قبیلہ کے نام ہوجائے۔ لھذا ہم بعض مسندات میں دیکھتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی وہی ہیں۔ اور اس سلسلہ میں جس نے بھی ان پر اعتماد کیا، وہ ان سے حسن ظن کی بنیاد پر کیا ہے۔
دوسری وجہ: روایات میں بنیادی اختلاف
وہ روایتیں جو اذان کی تشریع اور آغاز کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں، ان میں سرے سے ہی اختلاف اور تضاد پایا جاتا ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہے:
الف) پہلی یعنی "سنن ابو داؤد" کی روایت کے مطابق عمر ابن خطاب نے عبد اللہ ابن زید سے بیس دن پہلے خواب دیکھا، لیکن چوتھی یعنی "ابن ماجہ" کی روایت کے مطابق انھوں نے اسی رات خواب دیکھا جس رات عبد اللہ بن زید نے دیکھا تھا۔
ب) اذان، عبداللہ ابن زید کے خواب کے ذریعہ شروع ہوئی۔ اور عمر ابن خطاب نے جب اذان کو سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور کہا :میں نے بھی یھی خواب دیکھا تھا، لیکن شرم کی وجہ سے آپ سے تذکرہ نہیں کیا۔
ج) اذان کو عمر ابن خطاب نے رواج دیا، نہ کہ ان کے خواب نے۔ اس لئے کہ انھوں نے خود اذان کو ایجاد کیا جیسا کہ ترمذی نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے: مسلمان جب مدینہ آئے (یھاں تک کہ وہ کھتے ہیں) اور بعض لوگوں نے کہا :سنکھ سے استفادہ کیا جائے۔ جیسا کہ یھودی کرتے ہیں۔ عمر ابن خطاب نے کہا کہ کسی سے اذان دینے کے لئے کیوں نہیں کھتے؟ لھذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یا بلال!قم فناد بالصلاة
" اے بلال! اٹھو اور نماز کے لئے دعوت دو یعنی اذان کھو۔
ھاں ابن حجر نے "نداء بالصلاة
" (نماز کے لئے اذان دینا)
سے اذان نہیں بلکہ "الصلاة جامعة
" کی تکرار مراد لی ہے۔ لیکن ابن حجر کی اس بات پر کوئی واضح دلیل نہیں پائی جاتی ہے۔
د) اذان کو خود رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع کیا۔ بیھقی کی روایت ہے: لوگوں نے ناقوس بجانے یا آگ روشن کرنے (کے ذریعہ نماز کی طرف بلانے) کا مشورہ دیا تو حضور (ص) نے بلال کو حکم دیا کہ اذان کو شفعاً (ھر فقرہ کو دوبار) اور اقامت کو وتراً (ھر فقرہ کو ایک بار) کھو۔ بیھقی کا بیان ہے کہ بخاری نے محمد بن عبد الوہاب اور مسلم نے اسحاق بن عمار سے یھی روایت نقل کی ہے۔
ان تعارضات اور اختلافات کے ہوتے ہوئے بھلا ان روایات پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے؟
تیسری وجہ: خواب: ایک نہیں بلکہ چودہ اشخاص نے دیکھا
حلبی کی روایت سے یہ ظاھر ہوتا ہے کہ اذان کا خواب صرف عبد اللہ ابن زید یا عمر بن خطاب سے ہی مخصوص نھیں، بلکہ عبد اللہ بن ابوبکر نے بھی اسی طرح کے خواب دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انصار میں سے سات آدمیوں، اور ایک دوسرے قول کے مطابق چودہ لوگوں نے اذان خواب میں دیکھنے کا ادعا کیا ہے۔
کیا کوئی صاحب عقل ان روایات، بلکہ خرافات کو قبول کرسکتا ہے؟؟ ارے بھائی! شریعت اور اسلامی احکام کوئی بازیچہ اطفال نھیں! جو خوابوں اور خیالوں سے تیار کر لئے جائیں۔ اور اگر اسلام کی یھی حقیقت ہے تو پھر ایسے اسلام کو سلام ہے۔ اس سلسلہ میں حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احکام شریعت کو وحی کے ذریعہ حاصل فرمایا کرتے تھے، نہ کہ ھر کس و ناکس کے خواب سے۔
چوتھی وجہ: بخاری سے منقول روایت اور دوسری روایات کے درمیان تعارض
بخاری نے صراحت کے ساتھ روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجلس مشاورت میں بلال (رض) کو یہ حکم دیا کہ نماز کے لئے لوگوں کو بلاؤ، اور حضرت عمر اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔ خود ابن عمر راوی ہیں کہ مسلمان جب مدینہ آئے تو نماز کے وقت، نماز کے لئے متوجہ کرنے اور اس کی طرف بلانے والے کی ضرورت کا احساس کر رھے تھے۔
ایک دن اس سلسلہ میں گفتگو کرنے لگے۔ بعض افراد نے "نصاریٰ" کی طرح ناقوس بجانے کا مشورہ دیا۔ بعض نے کہا کہ یھودیوں کی طرح قرن یا سینگ سے استفادہ کیا جائے۔ عمر بولے: کسی کو نماز کی دعوت دینے کے لئے کیوں نہیں بھیجتے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! اٹھو اور لوگوں کو نماز کے لئے بلاؤ۔
اور وہ صریحی روایت جو خواب کے بارے میں ہیں ان کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال (رض) کو اذان کا حکم، فجر کے ھنگام اس وقت دیا جب کہ ابن زید نے اذان کے سلسلہ میں اپنا خواب حضور سے بیان کیا۔ اور عبد اللہ بن زید کا خواب مجلس مشاورت کے کم از کم ایک رات بعد قابل تصور ہے۔
اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلال (رض) کو اذان کا حکم دے رھے تھے تو حضرت عمر وہاں موجود نہیں تھے، بلکہ جب اذان دی گئی تو وہ اپنے گھر میں تھے۔ وہ دوڑتے ہوئے آئے اس حالت میں، کہ ان کے کپڑے زمین پر گھسٹ رھے تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کھنے لگے کہ یا رسول اللہ! قسم ہے اس پروردگار کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا، یھی خواب میں نے بھی دیکھا ہے۔
اور ہمارے پاس ایسا کوئی قرینہ نہیں جس کی روشنی میں یہ کہا جاسکے کہ بخاری کی روایت میں "نداء بالصلاة" سے مراد "الصلاة جامعہ" کی تکرار ہے اور خواب کی روایتیں اذان کے سلسلہ میں ہیں۔ اور اگر کوئی اس طرح کی بات کھے بھی تو یہ بغیر کسی دلیل کے ہوگا۔
دوسرے یہ کہ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب بلال (رض) کو یہ حکم دیتے کہ الصلاة جامعہ کو با آواز بلند کھو تو مسئلہ ہی حل ہوجاتا، اور خصوصاً اگر اس کی تکرار کا حکم دیتے، تو حیرانی و پریشانی کی بات ہی نہ رہ جاتی۔
لھذا یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کی دعوت دینے کا جو حکم دیا اس سے مراد یھی معروف اذان شرعی تھی۔
یہ چار مذکورہ وجوہات، احادیث کے مضمون کی تحقیق کا تقاضہ کرتی ہیں۔ اور یہ اشکالات مذکورہ، احادیث کے غیر قابل قبول ہونے کے لئے کافی ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم ان کی اسناد کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ (تاکہ ہماری بات کی اور وضاحت ہوجائے) ان میں سے بعض کی سندیں موقوف ہیں، اور ان کا سلسلہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک نہیں پھونچتا۔ اور بعض، مسند تو ہیں مگر ان کے راوی یا تو مجھول ہیں یا غیر موثق ہیں یا ضعیف۔ اور اسی وجہ سے علم رجال میں انھیں کوئی اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ اب ہم ان تمام چیزوں کو آپ کے سامنے ترتیب وار، وضاحت کے ساتھ بیان کر رھے ہیں۔
پہلی روایت
جس کو ابو داؤد نے نقل کیا ہے، ضعیف ہے۔کیونکہ :
۱) یہ روایت ایک، بلکہ کئی نا معلوم افراد سے منقول ہے، کیونکہ اس کی سند میں بعض راویوں کے نام کے بجائے اس طرح کے کلمات آئے ہیں: "انصار میں سے ان کے بعض خاندان والے" یا "یا انصار کے ایک گروہ نے ان سے روایت کی ہے۔"
۲) یہ روایت ابو عمیر بن انس کے کچھ خاندانی رشتہ داروں سے منقول ہے۔ جیسا کہ ابن حجر کھتے ہیں: "روایت ھلال اور اذان کی روایت" کو ابو عمیر کے خاندانی رشتہ داروں نے، جن کا تعلق انصار و اصحاب نبی (ص) سے تھا، نقل کیا ہے۔
اور ابن سعد کھتے ہیں کہ یہ موثق راوی تھا، لیکن اس سے کم احادیث نقل ہوئی ہیں۔ ابن عبد البر رقمطراز ہیں: یہ مجھول اور غیر معروف ہے، اور اس کا قول دلیل نہیں بن سکتا۔
مروی کا بیان ہے کہ اس نے صرف دو عنوان کے تحت احادیث بیان کی ہیں۔ یا چاند دیکھنے کے سلسلہ میں یا اذان کے بارے میں۔
دوسری روایت
اس روایت کی سند میں ایسے راویوں کا تذکرہ ہے جن کا قول قابل قبول نھیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں:
الف) محمد بن ابراھیم بن حارث خالد تیمی، ابو عبداللہ (سن وفات تقریباً ۱۲۰ ھجری): ابو جعفر عقیلی نے عبد اللہ بن احمد بن حنبل کا قول نقل کیا ہے کہ وہ کھتے ہیں: میں نے اپنے والد سے سنا (انھوں نے محمد بن ابراھیم تیمی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا) کہ اس کی احادیث میں اشکال ہے، اس نے بہت سی غیر قابل قبول احادیث نقل کی ہیں۔
ب) محمد بن اسحاق بن یسار بن خیار: اہل سنت اس کی روایت پر اعتماد نہیں کرتے۔ (اگر چہ سیرۂ ابن ھشام کی اساس یھی ہے)
احمد بن ابی خیثمہ کھتے ہیں کہ یحییٰ بن معین سے اس (محمد بن اسحاق) کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ میرے نزدیک ضعیف اور غیر قابل قبول ہے۔
ابوالحسن میمونی کا بیان ہے کہ میں نے یحییٰ بن معین کو کھتے ہوئے سنا ہے کہ محمد بن اسحاق ضعیف ہے۔ اور نسائی کھتے ہیں کہ وہ قوی نہیں ہے۔
ج) عبد اللہ بن زید: اس کے بارے میں اتنا ہی کھنا کافی ہے کہ اس نے بہت کم احادیث کی روایت کی ہے۔ ترمذی اس کے بارے میں رقمطراز ہیں: حدیث اذان کے علاوہ جو بھی حدیث اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ حاکم کھتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ وہ جنگ احد میں قتل کردیا گیا تھا۔
اور اس کی تمام روایات منقطعہ (جس کی سند نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک نہیں پھونچتی) ہیں۔ ابن عدی کا بیان ہے: حدیث اذان کے علاوہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو بھی حدیث بیان کی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔
ترمذی نے بخاری سے روایت کی ہے کہ حدیث اذان کے علاوہ اس سے مروی اور کسی حدیث کے بارے میں ہم نہیں جانتے۔
حاکم کا بیان ہے: عبداللہ بن زید وہ شخصیت ہیں، جنھیں خواب میں اذان سکھائی گئی۔ اور یکے بعد دیگرے فقھاء اسلام اسے قبول کرتے رھے لیکن صحیحین میں اس کو نقل نہیں کیا گیا۔ کیونکہ اس کی سند میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
تیسری روایت
اس کی سند "محمد بن اسحاق بن یسار، اور محمد بن ابراھیم تیمی، پر مشتمل ہے۔ اور آپ ان کے حالات سے واقف ہوچکے ہیں۔ نیز یہ بھی جان چکے ہیں کہ عبداللہ بن زید بہت کم روایت بیان کرنے والا تھا۔ اور اس کی تمام روایات منقطعہ ہیں۔
چوتھی روایت
اس کی سند میں مندرجہ ذیل راوی پائے جاتے ہیں:
۱۔ عبد الرحمٰن بن اسحاق بن عبد اللہ مدنی: یحییٰ بن سعید قطان کھتے ہیں: میں نے مدینہ میں اس کے (عبدالرحمٰن بن اسحاق) کے بارے میں معلوم کیا تو مجھ سے کسی نے بھی اس کی تعریف نہیں کی۔ اس بارے میں علی بن مدنی کا بھی یھی کھنا ہے۔
بلکہ علی تو یھاں تک کھتے ہیں کہ جب سفیان سے عبدالرحمٰن بن اسحاق کے بارے میں سوال کیا گیا تو میں نے اس کو یہ کھتے ہوئے سنا کہ وہ فرقۂ قدریہ
میں سے تھا۔ مدینہ والوں نے اسے مدینہ سے باھر نکال دیا تھا، وہ ہمارے پاس "مقتل ولید" میں آیا تو ہم نے اس کو اپنا ہم نشین بنایا۔ ابوطالب کھتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ اس نے ابو زناد سے بہت سی غیر قابل قبول روایات نقل کی ہیں۔
احمد بن عبداللہ العجلی کا بیان ہے: وہ ضعیف احادیث نقل کرتا تھا۔ ابو حاتم کا قول ہے: وہ ایسی احادیث نقل کرتا تھا جن کے اوپر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ بخاری تحریر کرتے ہیں: اس کے حافظہ پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ اور مدینہ میں موسیٰ زمعی کے علاوہ اس کا کوئی شاگرد بھی نہیں تھا۔ موسیٰ زمعی نے اس سے ایسی روایت بھی نقل کی ہیں جن میں اضطراب پایا جاتا ہے۔
دارقطنی رقمطراز ہیں: وہ ضعیف ہے اور اس پر "قدری" ہونے کا الزام ہے۔
ابن عدی کھتے ہیں: اس کی احادیث میں بعض ایسی چیزیں ہیں جو نادرست ہیں۔ اور غلط بیانی پر مشتمل ہیں۔
۲۔ محمد بن عبداللہ واسطی: جمال الدین مزی اس کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ ابن معین نے اس کو "لاشی" (جس کی کوئی اہمیت نھیں) سے تعبیر کیا ہے۔ اور اس کی ان روایتوں کا انکار کیا ہے جو اس نے اپنے باپ سے نقل کی ہیں۔ ابو حاتم کا بیان ہے کہ میں نے یحییٰ بن معین سے اس کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا :وہ بہت برا اور جھوٹا آدمی ہے۔ اس نے بہت سی ناقابل قبول اور جھوٹی روایتیں نقل کی ہیں۔ ابو عثمان سعید بن عمر بردعی کھتے ہیں کہ میں نے "ابازرعہ" سے محمد بن خالد کے بارے میں سوال کیا۔ وہ بولے: برا انسان ہے۔ ابن حیان نے کتاب "الثقاة" میں ذکر کیا ہے: وہ خطا کار اور مخالف حق تھا۔
شوکانی نے اس کی روایت کو نقل کرنے کے بعد تحریر کیا ہے کہ اس روایت کی اسناد بہت ضعیف ہیں
پانچویں روایت
اس کی سند میں مندرجہ ذیل راوی ہیں:
۱) محمد بن اسحاق بن یسار۔
۲) محمد بن حارث تیمی۔
۳) عبد اللہ بن زید۔
ان میں سے پہلے اور دوسرے راوی کے بارے میں بحث گزر چکی ہے کہ وہ ضعیف اور ناقابل اعتبار ہیں۔ اور ان دونوں نے جو روایت بھی تیسرے راوی (عبد اللہ بن زید) سے نقل کی ہے اس کی سند منقطعہ ہے۔ اور یھیں سے چھٹی روایت کا ضعف بھی ثابت ہوجاتا ہے۔ (چونکہ اس کاراوی محمد بن اسحاق ہے۔)
یہ وہ روایتیں ہیں جو بعض صحاح میں وارد ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ اس (اذان کے) سلسلہ میں امام احمد، دارمی، دارقطنی نے اپنی مسانید، امام مالک نے اپنی موطاء، ابن سعد نے طبقات اور بیھقی نے اپنی سنن میں روایات نقل کی ہیں۔ جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جارھا ہے:
الف) امام احمد کی روایت جو انھوں نے اپنی مسند میں ذکر کی ہے
امام احمد نے اذان کے خواب کی روایت اپنی مسند میں عبداللہ بن زید سے تین سندوں کے ذریعہ نقل کی ہے۔
پہلی سند میں زید بن حباب بن ریان تمیمی (م/ ۲۰۳ ھجری) موجود ہے۔ اس کو علماء نے بہت زیادہ خطا کرنے والا کہا ہے۔ اس نے سفیان بن ثوری سے ایسی احادیث نقل کی ہیں جو سند کے لحاظ سے عجیب و غریب ہیں۔
ابن معین کھتے ہیں: اس کی ثوری سے نقل کردہ احادیث تحریف شدہ ہیں۔
اسی طرح اس روایت کے راویوں میں سے ایک عبداللہ بن محمد بن عبداللہ بن زید بن عبدربہ ہے۔ اور تمام صحاح اور مسندوں میں اس کی صرف یھی ایک روایت ہے اور اس میں بھی اس کے قبیلہ کی فضیلت کا تذکرہ ہے، اسی وجہ سے اس پر اعتماد اور بھی کم ہوجاتا ہے۔
دوسری روایت محمد بن اسحاق بن یسار سے مروی ہے۔ اس کے بارے میں آپ گذشتہ بحث میں جان چکے ہیں۔
تیسری حدیث کا راوی محمد بن ابراھیم حارث تیمی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ محمد بن اسحاق بھی۔ اور روایت کی سند، عبداللہ بن زید پر منتھی ہوتی ہے، جس نے بہت کم روایتیں بیان کی ہیں۔
جب کہ دوسری روایت میں اذان کے خواب، اور پھر جناب بلال کو اذان سکھائے جانے کے تذکرہ کے بعد مذکور ہے کہ جناب بلال (رض) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گئے۔ آپ (ص) سو رھے تھے۔ تو جناب بلال (رض) نے چلا کر "الصلاة خیر من النوم
" کھا۔ لھذا یہ کلمہ نماز صبح کی اذان میں داخل کردیا گیا۔
ب) وہ روایت جس کو دارمی نے اپنی مسند میں ذکر کیا
دارمی نے اپنی مسند میں اذان کے خواب کی روایت کو ایسی سندوں سے ذکر کیا ہے جو سب کی سب ضعیف ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
۱) ہمیں محمد بن حمید نے خبر دی ہے کہ ہم سے مسلم نے حدیث بیان کی کہ مجھ سے محمد بن اسحاق نے روایت کی ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس آئے الخ۔
۲) یہ روایت بھی مندرجہ بالا سند کے ساتھ ہے۔ محمد بن اسحاق کے بعد یہ اضافہ ہے: ہم سے یہ حدیث محمد بن ابراھیم بن حارث تیمی نے، محمد بن عبداللہ بن زید بن عبدربہ سے اور انھوں نے اپنے باپ سے نقل کی ہے۔
۳) ہمیں محمد بن یحییٰ نے خبر دی کہ ہم سے یعقوب بن ابراھیم بن سعد نے ابن اسحاق سے حدیث بیان کی ہے بقیہ وہی راوی ہیں جو دوسری حدیث کی سند میں مذکور ہیں۔
پہلی روایت کی سند منقطع ہے، دوسری اور تیسری روایت محمد بن ابراھیم بن حارث تیمی پر مشتمل ہے۔ اور قارئین گذشتہ صفحات میں اس کی حقیقت سے آگاہ ہوچکے ہیں۔
اسی طرح ابن اسحاق کی حقیقت بھی واضح ہوچکی ہے۔
ج) وہ روایت جس کو امام مالک نے موطاء میں ذکر کیا ہے
امام مالک نے اپنی موطاء میں اذان کے خواب کی روایت یحییٰ سے، انھوں نے مالک سے اور انھوں نے یحییٰ بن سعید سے نقل کی ہے۔ وہ کھتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارادہ رکھتے تھے کہ دو لکڑیوں سے استفادہ کیا جائے۔
اس کی سند منقطع ہے اور یھاں پر اس سے یحییٰ بن سعید بن قیس مراد ہے جو ۷۰ ھجری میں پیدا ہوئے اور ھاشمیہ میں ۱۴۳ ھجری کو انتقال کرگئے۔
د) وہ روایت جس کو ابن سعد نے طبقات میں ذکر کیا ہے
محمد بن سعد نے اپنی طبقات میں ایسی سندوں سے یہ روایت کی ہے جو موقوفہ ہیں اور ان کے ذریعہ حجت قائم کرنا ممکن نھیں۔
پہلی روایت نافع بن جبیر تک پھونچتی ہے، جو نوے کی دھائی میں اس دنیا سے اٹھ گیا اور ایک قول کے مطابق اس نے ۹۹ ھجری میں وفات پائی۔
دوسری روایت عروہ بن زبیر پر منتھی ہوتی ہے، جو ۲۹ ھجری میں پیدا ہوا اور ۹۳ ھجری میں فوت ہوگیا۔
تیسری روایت زید بن اسلم پر ختم ہوتی ہے، جس کی وفات ۱۳۶ ھجری میں ہوئی۔
چوتھی روایت سعید بن مسیّب، جس نے ۹۴ ھجری میں انتقال کیا اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ جو ۸۲ ھجری یا ۸۳ ھجری میں فوت ہوا، پر تمام ہوتی ہے۔
ذھبی نے عبداللہ بن زید کے سلسلہ میں کہا ہے کہ اس سے سعید بن مسیّب اور عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے احادیث بیان کی ہیں لیکن اس نے کبھی راوی کو دیکھا بھی نہیں ہے۔
ابن سعد نے مندرجہ ذیل سند کے ذریعہ بھی یہ روایت نقل کی ہے:
احمد بن محمد بن ولید ازرقی نے مسلم بن خالد سے، انھوں نے عبدالرحمٰن بن عمر سے، انھوں نے ابن شھاب سے، انھوں نے سالم بن عبداللہ بن عمر سے اور انھوں نے عبد ابن عمر سے روایت کی ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارادہ کیا کہ ایسا راستہ نکالا جائے جس سے لوگوں کو اکٹھا کیا جاسکے یھاں تک کہ انصار میں سے عبداللہ بن زید نامی ایک شخص کو خواب میں اذان کی تعلیم دی گئی اور اسی رات عمر بن خطاب کو بھی خواب ہی میں اذان سکھائی گئی اس کے بعد وہ کھتے ہیں: پھر بلال (رض) نے نماز صبح کی اذان میں "الصلاة خیر من النوم
" کا اضافہ کردیا۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اذان میں شامل کرلیا۔ یہ سند مندرجہ ذیل راویوں پر مشتمل ہے:
الف) مسلم بن خالد بن قرة: جس کو ابن جرحہ بھی کہا جاتا تھا۔
یحیٰی بن معین نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ علی بن مدینی نے اسے لاشی (کچھ بھی نھیں) کہا ہے۔ بخاری نے اسے حدیث کا انکار کرنے والال بتایا ہے۔ نسائی کا کھنا ہے کہ یہ قوی نہیں ہے۔ ابو حاتم نے بھی کہا ہے کہ یہ قوی نہیں ہے حدیث کا انکار کرنے والا ہے اور یہ ایسی حدیثیں نقل کرتا ہے جو دلیل بننے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ اچھی بری سبھی باتیں نقل کرتا رھا ہے۔
ب) محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبداللہ بن شھاب زھری مدنی (۵۱۔ ۱۲۳ ھجری)۔
انس بن عیاض، عبیداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے بارھا دیکھا کہ زھری کو کتاب دی جاتی تھی تو وہ اس کو نہ تو خود پڑھتے تھے اور نہ ہی کوئی دوسرا پڑھ کر سناتا تھا۔ پھر بھی جب کبھی ان سے پوچھا جاتا تھا کہ کیا ہم تمھارے حوالے سے یہ روایت نقل کردیں؟ تو وہ کہہ دیتے تھے: "ھاں"۔
ابراھیم بن ابی سفیان القیسر انی نے فریابی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ میں نے سفیان ثوری کو کھتے ہوئے سنا ہے: میں زھری کے پاس گیا۔ وہ میرے ساتھ اس طرح پیش آیا جیسے میرا آنا اس پر گراں گذرا ہو۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر تم ہمارے بزرگوں کے پاس آتے اور وہ تمھارے ساتھ اسی طرح کا برتاؤ کرتے تو تم پر کیا گذرتی؟ وہ بولا: تمھاری بات صحیح ہے۔ پھر وہ اندر گیا اور کتاب لاکر مجھے دی اور کہا کہ اس کو لے لو اور اس کی روایتوں کو میرے نام سے نقل کرو۔ ثوری کھتے ہیں: میں نے اس میں سے ایک حرف بھی نقل نہیں کیا ہے۔
ھ۔) وہ روایت جو بیھقی نےا پنی سنن میں نقل کی ہے
بیھقی نے اذان کے خواب کی روایت ایسی اسناد کے ذریعہ نقل کی ہے جن میں بہت سی کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ اس کے ضعف کی طرف ہم یھاں اشارہ کر رھے ہیں۔
اول) روایت، ابو عمیر بن انس پر مشتمل ہے، جنھوں نے انصار میں سے اپنے خاندان کے لوگوں سے روایت کی ہے۔ اور آپ ابو عمیر بن انس کے بارے میں یہ جان ہی چکے ہیں کہ ابن عبدالبر نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ مجھول ہے، اس کی روایت قابل استفادہ نھیں۔ انھوں نے اپنی روایت، گمنام اور نامعلوم اشخاص سے نقل کی ہے اور انھیں "عمومہ" سے تعبیر کیا ہے
۔ اگر ہم تمام صحابہ کی عدالت کے قائل بھی ہوجائیں تو اس پر کوئی دلیل نہیں کہ یہ افراد صحابی تھے۔ اور اگر یہ بھی فرض کرلیں کہ یہ اصحاب تھے تب بھی اصحاب کی موقوفہ روایات حجت نہیں ہیں، اس لئے کہ یہ نہیں معلوم کہ اس صحابی نے بھی یہ روایت کسی صحابی ہی سے نقل کی ہے یا نھیں۔
دوم) یہ روایت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو قابل اعتماد نہیں ہیں۔ وہ مندرجہ ذیل میں:
۱)محمد بن اسحاق بن یسار۔
۲) محمد بن ابراھیم بن حارث تیمی۔
۳) عبداللہ بن زید۔
ان تمام افرا دکے ضعیف ہونے کے بارے میں بحث کی جاچکی ہے۔
سوم: روایت، ابن شھاب زھری پر مشتمل ہے۔ جس نے سعید بن مسیّب (م/ ۹۴ھجری)، اور اس نے عبداللہ بن زید سے روایت کی ہے۔ اور آپ جان چکے ہیں کہ اس نے عبداللہ بن زید کو دیکھا بھی نہیں تھا
و) دارقطنی کی روایت
دارقطنی نے اذان کے خواب کی روایت مندرجہ ذیل اسناد سے کی ہے:
۱) ہمیں محمد بن یحییٰ بن مراد نے، ان سے ابوداؤد نے، ان سے عثمان بن ابی شیبہ نے، ان سے حماد بن خالد نے، ان سے محمد بن عمرو نے، ان سے محمد بن عبداللہ نے اور ان سے ان کے چچا عبداللہ بن زید نے بیان کیا ہے
۲) ہم سے محمد بن یحییٰ نے، ان سے ابوداؤد نے، ان سے عبید اللہ ابن عمر نے، ان سے عبدالرحمان بن مھدی نے اور ان سے محمد بن عمرو نے روایت کی ہے کہ میں نے عبداللہ بن محمد کو کھتے ہوئے سنا: میرے جد عبداللہ بن زید اس خبر کے بارے میں۔
یہ دونوں سندیں محمد بن عمرو پر مشتمل ہیں، جس کے بارے میں یہ نہیں معلوم کہ آیا یہ وہ انصاری ہے، جس سے مسانید اور صحاح میں صرف یھی ایک روایت منقول ہے اور اس کے بارے میں ذھبی کھتا ہے کہ یہ پھچانا نہیں جاسکا، یعنی یہ مجھول الحال ہے، یا وہ محمد بن عمر و ابو سھل انصاری ہے جس کو یحییٰ قطان، ابن معین اور ابن عدی نے ضعیف قرار دیا ہے۔
۳) ہم سے ابو محمد بن ساعد نے، ان سے حسن بن یونس نے، ان سے اسود بن عامر نے، ان سے ابوبکر بن عیاش نے، ان سے اعمش نے، ان سے عمر و بن مرہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے، اور ان سے معاذ بن جبل نے روایت کی ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی (عبداللہ بن زید) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا :میں نے خواب میں دیکھا ہے ۔
یہ سند منقطع ہے۔ کیونکہ معاذ بن جبل ۲۰ ھجری یا ۱۸ ھجری میں فوت ہوئے اور عبدالرحمٰن بن ابو لیلیٰ ۱۷ ھجری میں پیدا ہوئے۔ یھی نہیں بلکہ دارقطنی نے عبدالرحمٰن کو ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ضعیف الحدیث اور برے حافظہ والا ہے۔ اور یہ ثابت نہیں کہ ابن ابی لیلیٰ نے یہ روایت عبداللہ بن زید سے سنی ہے۔
ھاں تک کہ بحث سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اذان کی مشروعیت کی بنیاد عبداللہ بن زید، عمر بن خطاب یا کسی اور کے خواب کو کسی بھی صورت میں نہیں قرار دیا جاسکتا اس کے علاوہ ان احادیث میں تعارض بھی پایا جاتا ہے اور ان کی سند بھی کامل نہیں ہے۔ لھذا ان سے کوئی بھی بات ثابت نہیں ہوتی۔ اور ان کے علاوہ یہ باتیں عقل قبول نہیں کرتی۔ جیسا کہ ہم اول بحث میں عرض کرچکے ہیں۔
اہل بیت اور ترویج اذان کی کیفیت
جب ہم اذان کی مشروعیت کے بارے میں اہل بیت علیہم السلام کی روایتوں کو دیکھتے ہیں تو وہ مقام و منزلت نبوت سے سازگار نظر آتی ہیں۔ جب کہ گذشتہ احادیث، مقام رسالت سے میل نہیں کھاتی تھیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "جب جبرئیل علیہ السلام اذان لے کر نازل ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر اقدس علی علیہ السلام کی آغوش میں تھا۔ جبرئیل نے اذان اور اقامت کھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متوجہ ہوئے تو امیر المومنین علیہ السلام سے فرمایا: "اے علی (ع)! تم نے سنا؟ آپ نے فرمایا: جی ھاں، یا رسول اللہ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے حفظ کرلیا؟ فرمایا: جی ھاں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بلال (رض) کو بلاؤ اور ان کو سکھاؤ۔ آپ نے بلال (رض) کو بلایا اور اذان و اقامت کی تعلیم دی۔"
مذکورہ روایت اور وسائل الشیعہ کی پہلی روایت (عن ابی جعفر علیہ السلام قال لما اسری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الی السماء فبلغ البیت المعمور و حضرت الصلاة فاذن جبرئیل علیہ السلام واقام فتقدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصف الملائکة والنبیون خلف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
میں اختلاف صرف یہ ہے کہ پہلی روایت میں جبرئیل علیہ السلام نافلہ بجا لانا چاھتے تھے لیکن دوسری روایت کے مطابق جبرئیل علیہ السلام نافلہ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرنا چاھتے تھے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ بلال کو بلاؤ اور اذان و اقامت کی تعلیم دو۔
اس نظریہ کی تائید وہ روایتیں بھی کرتی ہیں جن کو عسقلانی نے ذکر کیا ہے۔ اور ان کی سندوں کے بارے میں مناقشہ کیا ہے۔ وہ کھتا ہے: ان احادیث کے مطابق، اذان مکہ میں ھجرت سے پہلے شروع ہوئی۔ انھیں روایتوں میں سے طبرانی کی روایت بھی ہے جو سالم بن عبداللہ بن عمر بن ابیہ کی سند سے مروی ہے۔ انھوں نے کہا :جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج ہوئی تو خدا نے آپ (ص) پر کلمات اذان کی وحی کی۔ جب آپ (ص) معراج سے واپس آئے تو بلال کو اس کی تعلیم دی۔ اس کی سند میں طلحہ بن زید ہے جو کہ متروک ہے۔ وہ روایات جنھیں عسقلانی نے نقل کیا ہے، اذان کی تشریع کے سلسلہ میں اہل بیت علیہم السلام کے موقف (نظریہ) کے صحیح ہونے اور اذان کی بنیاد عبداللہ بن زید یا عمر بن خطاب کے خواب کو قرار دیئے جانے کے نادرست ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ جیسا کہ چھٹے امام علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ (ع) نے ان لوگوں پر لعنت کی ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذان عبداللہ بن زید سے لی۔ آپ (ع) نے فرمایا کہ وحی، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتی تھی پھر بھی تم یہ گمان کرتے ہوکہ آپ (ص) نے اذان کو عبداللہ بن زید سے لیا ہے؟
الف) عسقلانی نے بزار کے حوالہ سے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: جس وقت خداوند عالم نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذان کی تعلیم دے تو جناب جبرئیل علیہ السلام ایک سواری کے ذریعہ آپ (ص) کے پاس آئے، جس کو براق کہا جاتا ہے۔ آپ (ص) اس پر سوار ہوئے ۔
ب) ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام سے حدیث معراج کے سلسلہ میں روایت ہے کہ پھر آپ نے جبرئیل علیہ السلام کو حکم دیا اور انھوں نے اذان اقامت کھی۔ اور اذان میں "حی علٰی خیر العمل
" پڑھا۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے بڑھے اور قوم کے ساتھ نماز پڑھی۔
ج) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج ہوئی اور اذان کا وقت ہوا تو جناب جبرئیل علیہ السلام نے اذان کھی۔
د) عبد الرزاق نے معمر سے، انھوں نے ابن حماد سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے اپنے دادا سے اور انھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث معراج کے سلسلہ میں روایت کی ہے کہ پھر جبرئیل کھڑے ہوئے اور اپنے داھنے ھاتھ کی انگشت شھادت کو اپنے کان پر رکھ کر دو دو فقرے کر کے اذان کھی۔ آخر میں دوبار "حی علیٰ خیر العمل" کھا۔