"حی علٰی خیر العمل
" کے جزء اذان ہونے کی دلیل
وہ دلیلیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ "حی علٰی خیر العمل
" اذان و اقامت کا جزء ہے، اور اس کے بغیر اذان و اقامت درست نھیں، مندرجہ ذیل ہیں:
اول: وہ روایتیں جو اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہیں۔
ان احادیث میں سے بطور مثال ہم وہ چند حدیثیں جن کو مندرجہ ذیل اصحاب نے صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے، پیش کر رھے ہیں:
۱) عبداللہ بن عمر
۲) سھل بن حنیف
۳) بلال
۴) ابی محذورہ
۵) ابن ابی محذورہ
۶) زید بن ارقم
عبد اللہ ابن عمر سے مروی احادیث
الف) نافع کا بیان ہے کہ ابن عمر کبھی کبھی "حی علی الفلاح" کے بعد "حی علی خیر العمل
" بھی کھتے تھے۔
ب) لیث بن سعد نے نافع سے روایت کی ہے کہ ابن عمر اپنے سفر میں اذان نہیں کھتے تھے۔ اور اپنی اذان میں "حی علی الفلاح" اور کبھی کبھی "حی علی خیر العمل
" بھی کھتے تھے۔
ج) لیث بن سعد نے نافع سے روایت کی ہے کہ کبھی کبھی ابن عمر اپنی اذان میں "حی علی خیر العمل
" کا اضافہ کیا کرتے تھے۔
د: اسی طرح کی روایت نسیر بن ذعلوق نے ابن عمر سے کی ہے کہ وہ سفر میں ایسا کیا کرتے تھے۔
ھ) عبدالرزاق نے معمر سے، انھوں نے یحییٰ سے، انھوں نے ابی کثیر سے، اور انھوں نے ایک شخص سے روایت کی ہے کہ ابن عمر جب اذان میں "حی علی الفلاح" کھتے تھے تو اس کے بعد "حی علی خیر العمل
" بھی کھتے تھے اور اس کے بعد "اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الٰہ الااللہ" کھتے تھے۔
اور یھی روایت ابن ابی شیبہ
نے ابن عجلان اور عبید اللہ کے توسط سے اور انھوں نے بحوالہ نافع ابن عمر بیان کی ہے۔
سھل بن حنیف کی بیان کردہ احادیث
الف: بیھقی نے روایت کی ہے کہ "حی علیٰ خیر العمل" کے اذان میں ذکر کرنے کی روایت ابی امامہ، سھل بن حنیف سے نقل کی گئی ہے۔
ب: ابن وزیر نے محبّ طبری شافعی کی کتاب احکام الاحکام کے حوالہ سے ان الفاظ میں نقل کیا ہے: صدقہ بن یسار نے ابی امامہ سھل بن حنیف سے روایت کی کہ جب وہ اذان دیتے تھے تو "حی علیٰ خیر العمل" کھتے تھے۔
یہ روایت سعید بن منصور نے بیان کی ہے۔
بلال (رض) سے مروی احادیث
الف) عبداللہ بن محمد بن عمار نے، عمار بن حفص بن عمر اور عمر بن حفص ابن عمر سے اور انھوں نے اپنے آباء و اجداد سے، اور انھوں نے بلال (رض) سے روایت کی ہے کہ بلال (رض) صبح کی اذان دیتے تھے اور اس میں "حی علی خیر العمل
" کھتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ "حی علیٰ خیر العمل" کو ھٹا کر اس کی جگہ پر "الصلاة خیر من النوم
" کہا کرو۔
روایت کا آخری حصہ قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ "الصلاة خیر من النوم
" کا اذان میں اضافہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد (عمر بن خطاب کے زمانہ میں) ہوا ہے۔ جس پر بہت سی روایات گواہ ہیں جن کا تذکرہ ہم آئندہ کریں گے۔
ب) بلال (رض) صبح کی اذان دیتے تھے، اور اس میں "حی علی خیر العمل
" کھتے تھے۔
ابی محزورہ سے منقول روایات
الف) محمد بن منصور نے اپنی کتاب "الجامع" میں اپنی اسناد کے ساتھ رجال مریضیین (پسندیدہ راوی) کے حوالہ سے ابی محزورہ، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک مؤذن تھے، سے روایت کی ہے، کہ وہ کھتے ہیں: مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذان میں "حی علی خیر العمل
" کھنے کا حکم دیا۔
ب) عبد العزیز بن رفیع سے مروی ہے کہ ابی محذورہ نے کہا :میں نوجوان تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اپنی اذان کے آخر میں "حی علیٰ خیر العمل" کہا کرو۔
ابن ابی محذورہ کی روایت
"شفاء" میں ھذیل بن بلال المدائنی سے روایت ہے کہ میں نے ابن ابی محذورہ کو "حی علیٰ الفلاح، حی علیٰ خیر العمل
" کھتے ہوئے سنا۔
زید بن ارقم سے مروی حدیث
روایت ہے کہ انھوں نے اپنی اذان میں "حی علی خیر العمل
" کھا۔
حلبی کھتے ہیں ابن عمر اور علی بن الحسین علیہما السلام کے بارے میں منقول ہے کہ یہ دونوں اپنی اذان میں "حی علی الفلاح" کے بعد "حی علیٰ خیر العمل" کھتے تھے۔
علاء الدین حنفی نے اپنی کتاب "التلویح فی شرح الجامع الصحیح" میں کہا ہے: "حی علی خیر العمل
" کی روایت کے بارے میں ابن حزم کھتا ہے کہ یہ صحیح ہے، کہ عبد اللہ بن عمر اور ابی امامہ سھل بن حنیف "حی علٰی خیر العمل
" کہا کرتے تھے۔ مصنف پھر کھتے ہیں: "علی بن الحسین" (ع) بھی یھی کیا کرتے تھے۔
اور ابن نباح اپنی اذان میں "حی علی خیر العمل
" کہا کرتے تھے۔
دوم: وہ روایتیں جو صحیح سندوں کے ساتھ اہل بیت علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں
حضرت علی علیہ السلام سے مروی حدیث روایت میں ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھتے ہوئے سنا ہے کہ جان لو! تمھارے اعمال میں سب سے بہتر نماز ہے۔ اور بلال (رض) کو "حی علی خیر العمل
" کے ساتھ اذان کھنے کا حکم دیا۔ یہ روایت شفا میں منقول ہے۔
حضرت علی بن الحسین علیہما السلام سے منقول روایات
الف) حاتم بن اسماعیل نے جعفر بن محمد سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے: علی ابن الحسین علیہما السلام جب اذان میں "حی علی الفلاح" کھتے تھے تو اس کے بعد "حی علٰی خیر العمل
" بھی کھتے تھے اور فرماتے تھے کہ یھی اذان اول ہے۔
ھاں پر "اذان اول" کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذان کے علاوہ اور کسی اذان پر حمل کرنا صحیح نہیں ہے۔
ب) اسی روایت کو حلبی، ابن حزم اور دوسرے راویوں نے بھی امام علی بن الحسین زین العابدین علیہما السلام سے نقل کیا ہے۔
ج) علی بن الحسین علیہما السلام سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب موذن کی اذان سنتے تھے تو اس کو دھراتے تھے۔ اور جب موذن "حی علی الصلاة، حی علی الفلاح،حی علٰی خیر العمل
" کھتا تو آپ (ص) "لا حول ولا قوة الا باللہ" کھتے تھے الخ۔
د) امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے پدر بزرگوار علی بن الحسین علیہما السلام سے روایت کی ہے کہ جب آپ "حی علی الفلاح" کھتے تھے تو اس کے بعد "حی علٰی خیر العمل
" ضرور کھتے تھے۔
حضرت محمد باقر علیہ السلام سے مروی احادیث
الف) امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: کلمہ "حی علی خیر العمل
" اذان کا جز تھا۔ عمر بن خطاب نے حکم دیا کہ اس کے کھنے سے پرھیز کیا جائے۔ کھیں ایسا نہ ہو کہ لوگ جھاد سے رک جائیں اور نماز ہی پر اکتفا کرنے لگیں۔
ب) حضرت ابی جعفر (امام محمد باقر) علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اذان "حی علی خیر العمل
" کے ساتھ کھی جاتی تھی۔ اور ابوبکر کے زمانہ خلافت اور عمر کی خلافت کے اوائل میں بھی اذان میں یہ فقرہ رائج تھا۔ پھر عمر نے "حی علٰی خیر العمل
" کے چھوڑنے اور اذان و اقامت سے حذف کرنے کا حکم دیا۔ لوگوں نے اس سے اس کی وجہ درہافت کی تو اس نے کہا :جب لوگ یہ سنیں گے کہ نماز "خیر العمل" (سب سے بہترین عمل) ہے تو جھاد کی بابت سستی اور اس سے روگردانی کرنے لگیں گے۔
اسی طرح کی روایت حضرت جعفر بن محمد الصادق علیہما السلام سے بھی منقول ہے۔
اور پھر گردش لیل و نھار کے ساتھ ساتھ "حی علی خیر العمل
" صرف علویین، اہل بیت (ع) اور ان کے شیعوں کا شعار بن کر رہ گیا۔ یھاں تک کہ حسین بن علی جو "صاحب فتح" کے نام سے مشھور ہیں، کے انقلاب کا آغاز ہی اسی طرح ہوا کہ عبد اللہ بن حسین افطس گلدستۂ اذان پر چڑھ گئے جو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مطھر کے سرھانے واقع تھا، اور موذن سے کہا کہ "حی علٰی خیر العمل
" کے ساتھ اذان کھو۔ موذن نے جب ان کے ھاتھ میں تلوار دیکھی تو ایسا ہی کیا۔ اور جب عمری (منصور کی طرف سے مدینہ کا گورنر) نے اذان میں "حی علٰی خیر العمل
" سنا تو ماحول اپنے خلاف محسوس کیا، وہ دھشت زدہ ہوگیا اور چلایا: "دروازے بند کرو اور مجھے پانی پلاؤ"
تنوخی نے ذکر کیا ہے کہ ابو الفرج نے خبر دی ہے کہ اس نے اپنے زمانہ میں لوگوں کو اپنی اذان میں "حی علٰی خیر العمل
" کھتے ہوئے سنا ہے۔
حلبی کا بیان ہے کہ بعض نے ذکر کیا ہے: آل بویہ کی حکومت میں رافضی حیعلات (حی علی الصلاة، و حی علی الفلاح) کے بعد "حی علی خیر العمل
" کھتے تھے۔ جب سلجوقیہ کی حکومت آئی تو انھوں نے موذن سے "حی علٰی خیر العمل
" کھنے کو منع کردیا، اور حکم دیا کہ صبح کی اذان میں اس کی جگہ پر دو مرتبہ "الصلاة خیر من النوم" کہا جائے۔ یہ ۴۴۸ ھجری کی بات ہے۔