سبھي كے جاننے كي باتيں

سبھي كے جاننے كي باتيں0%

سبھي كے جاننے كي باتيں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

سبھي كے جاننے كي باتيں

مؤلف: ‏آیة الله ابراهیم امینی
زمرہ جات:

مشاہدے: 12043
ڈاؤنلوڈ: 2598

تبصرے:

سبھي كے جاننے كي باتيں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12043 / ڈاؤنلوڈ: 2598
سائز سائز سائز
سبھي كے جاننے كي باتيں

سبھي كے جاننے كي باتيں

مؤلف:
اردو

خدا کے صفات

اللہ کے صفات کو کلی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے(۹) صفات ثبوتیہ یا جمالیہ(۱۰) صفات سلبیہ یا جلالیہ ۔

صفات ثبوتیہ

ہر وہ صفت جو اصل وجود کے کمال اور اس کی اہمیت میں اضافہ اور اس کی ذات کو کامل کرنے کے لئے لائی جائے اس شرط کے ساتھ کہ موصوف اور ذات میں کوئی تغیر و تبدیلی لازم نہ آئے، ان صفات کو جمالیہ یا صفات ثبوتیہ کہتے ہیں جیسے علم و قدرت حیات و تکلم ۔

ان صفات کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے آسان سی مثال دیتے ہیں، اگر ہم دو آدمیوں میں علم و جھل کے عنوان سے تقابل کریں تو اس مطلب کو بخوبی درک کر سکتے ہیں کہ جاہل کے مقابلے میں عالم پُر اہمیت اور فائدہ بخش ہے، لہٰذا یہ عالم جاہل کے مقابلے میں برتری و فضیلت کا پھلو رکھتا ہے لہذا ہم فیصلہ کریں گے کہ کمالات کے صفات میں ایک علم بھی ہے، اور ایسے ہی دوسری صفتوں کو مقایسہ کرنے پر حقیقت و برتری صفات جمالیہ کی کھل کر روشن ہوجائیگی اور یہ تمام صفات اس کے لئے ثابت ہیں، اس مطلب کو مزید واضح کرنے کے لئے ہم دو دلیلوں پر اکتفا کرتے ہیں ۔

پہلی دلیل:

خداوند عالم نے خیر و خوبی اور اچھائیوں کو لوگوں کے لئے پیدا کیا ہے کیونکہ انسان اپنے وجود میں خدا کا محتاج ہے ایسے ہی اپنے صفات اور وجودی کمالات میں بھی اسی کا محتاج ہوتا ہے، خداوند عالم نے انسان کو پیدا کیا، لیکن اپنی بقا میں انسان مستقل وجود نہیں رکھتا ہے، تمام خیر و خوبیوں کو خدا نے انسان کے لئے پیدا کیا، مگر خود یہ خوبیاں اپنی بقا میں مستقل وجود نہیں رکھتی ہیں معلوم ہوا خواہ ذات ہوں اور خواہ صفات ہر حال میں اسی کی محتاج ہیں (بے نیاز نہیں ہیں) لہٰذا خدا ہی ان صفات کمال و جمال کا پیدا کرنے والا ہے ۔

اگر ہم تھوڑا دھیان دیں تو یہ حقیقت کھل کر آشکار ہوجائے گی کہ خدا نے انسان کے لئے تمام کمالات کو پیدا کیا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کمالات سے اپنے کو خالی رکھے، یا اس کے پاس موجود نہ ہو اگر اس کے پاس نہ ہوگا تو دوسروں کو کیسے دے سکتا ہے (فاقد الشیء لا یعطی الشی ء) لہذا ماننا پڑے گا کہ خدا کے پاس تمام کمالات و خوبیاں موجود ہیں، اور اسی نے لوگوں کے لئے ان صفات کو قرار دیا ہے، جب تک چراغ روشن نہ ہو، دوسروں کو روشن نہیں کر سکتا جب تک پانی خود تر نہ ہو دوسری چیزوں کو تر نہیں کر سکتا ہے ۔

دوسری دلیل:

ذات پروردگار عالم مطلق ہے یعنی اس کی ذات میں کسی طرح کی قید و حد اور نقص نہیں پایا جاتا ہے جب وہ محدود و ممکن نہیں ہے تو وہ کسی کا محتاج بھی نہیں اور نہ ہی اپنے وجود کو کسی دوسرے سے لیا ہے اس لئے کہ محتاج و ضرورت مند وہ ہوتا ہے جو محدود ہو یا جس میں کمی پائی جاتی ہو لیکن خدا کی ذاتِ مطلق تام و کامل و واجب الوجود ہے لہٰذا جو صفت بھی کمال کے اوپر دلالت کرے گی خدا وند عالم کے لئے ثابت ہے اس سے خدا کی ذات محدود یا مقید نہیں ہوتی، بلکہ اس صفات کا خدا میں نہ پایا جانا اس کی ذات میں نقص کا باعث ہے کیونکہ ان صفات کمالیہ کا خداوندعالم میںنہ پایا جانا ضرورت اور احتیاج کا سبب ہے، جب کہ خدا کی ذات واجب الوجود اوربالذات بے نیاز ہے ۔

صفات ثبوتیہ:

خداوند عالم میں پائی جانے والی صفتیں یہ ہیں:

۔ قدرت:

خدا قادر ہے یعنی جس کام کو انجام دینا چاہے انجام دیتا ہے کسی کام کے کرنے پر مجبور اور عاجز نہیں ہے اور نہ ہی اس کی قدرت کے لئے کوئی جگہ مخصوص ہے بلکہ اس کی قدرت حد بندی سے خالی ہر جگہ موجود ہے ۔

۔ علم:

خدا عالم ہے یعنی تمام چیزوں کو جاننے والا اور تمام موجودات پر احاطہ و قدرت رکھنے والا ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے یہاں تک کہ بندوں کے افکار و خیالات سے بھی واقف ہے اور ہر چیز اس کے سامنے ہے ۔

۔ حیات:

خدا حی ہے خداوند عالم اپنے کاموں کو علم و ارادہ و قدرت سے انجام دیتا ہے خدا انسانوں کی طرح سانس کے آنے اور جانے کے مثل زندہ نہیں ہے وہ چونکہ اپنے کام کو علم و اراد ہ اور قدرت سے انجام دیتا ہے اس لئے اس کو حی کہتے ہیں۔

۔ ارادہ:

خدا مرید ہے اپنے کاموں کو قصد و ارادہ سے انجام دیتا ہے آگ کی طرح نہیں کہ بغیر ارادہ جلادے خداوند عالم کا وجود، وجودِ کامل ہے جو اپنے ارادہ سے کام کو انجام دیتا ہے، مثلِ فاعل مجبور اور بے ارادہ نہیں ہے ۔

۔ بصیر ہے:

خداوند عالم دیکھنے والا ہے تما م پیدا ہونے والی چیزوں کو دیکھنے والا ہے کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے ۔

۔ سمیع ہے:

خدا سننے والا ہے تمام سننے والی چیزوں کو سنتا ہے کسی چیز سے غافل نہیں ہے۔

۔ قدیم و ابدی ہے:

قدیم یعنی ہمیشہ سے ہے اس کی کوئی ابتدا نہیں ہے ابدی یعنی ہمیشہ رہے گا اس کی کوئی انتھانھیں ہے ۔

۔ متکلم ہے:

حقیقت کو دوسروں کے لئے اظہار اور اپنے مقصد کو دوسروں تک پھنچاتا ہے۔

ان صفات کو صفات ثبوتیہ یا جمالیہ کہتے ہیں جو خداوند عالم میں موجود اور اس کی عین ذات ہیں ۔

یاد دہانی

چونکہ ہم ناقص ہیںاس لئے ہم اپنے کام کو بغیر کسی آلات، کے انجام نہیں دے سکتے قدرت و طاقت کے باوجود بھی اپنے اعضا و جوارح کے محتاج ہیں سننے کی طاقت کے باوجود کان کے ضرورت مند ہیں دیکھنے کی طاقت کے ہوتے ہوئے آنکھ کے محتاج ہیں، چلنے کی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی پاؤں کے نیازمند ہیں ۔ خداوند عالم کی ذات جو کمال مطلق کی حامل ہے وہ کسی کام میں دوسروں کی محتاج نہیں ہے، لہذا خداوند عالم قادر مطلق بغیر آنکھ کے دیکھتا ہے، بغیر کان کے سنتا ہے، بغیر اعضا وجوارح (جسم و جسمانیت سے خالی) کے تمام کام کو انجام دیتا ہے، ہر ایک کی بگڑی بناتا ہے ۔

ہمارے خیال میں دیکھنے اور سننے کے لئے فقط آنکھ، کان ہی کی راہ پائی جاتی ہے، لہذا جس کا کان صحیح اور آنکھ دیکھنے والی ہے تو کہتے ہیں کہ وہ دیکھتا اور سنتا ہے، ورنہ اندھا و بہر ہ ہے ۔

لیکن دیکھنے اور سننے کی اس کے علاوہ بھی راہ پائی جاتی ہے اور در حقیقت وھی اصل دیکھنا اور سننا ہے اگر آنکھ کے وسیلہ سے دیکھا تو کیا دیکھا، کان کے ذریعہ سے سنا تو کیا سنا، خدا کسی بھی وسیلہ و اسباب کا محتاج نہیں ہے، لہذا بغیر وسیلہ کے سنتا اور دیکھتا ہے کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے۔

ہم محدود و محتاج ہیں لہذا ہر کام میں کسی کے محتاج ہیں اگر اس دائرہ سے باہر ہوں یعنی محدود و ناقص نہ ہوتے تو ہم بھی بغیر آنکھ کے تمام چیزیں دیکھتے، اور بغیر کان کے تمام آوازیں سنتے اور کہاجائے کہ سننے اور دیکھنے کی حقیقت در اصل اس پر صادق آتی ہے، جیسے ہم خواب میں بغیر آنکھ و کان کے دیکھتے اور سنتے اور تمام کام انجام دیتے ہیں ۔

مگر خداوند عالم کی ذات والا صفات جو نہایت درجہ کمال اپنے وجود میں رکھتا ہے، اس کی بنائی ہوئی تمام چیزیں، اس کا ہر ایک کام، بے عیب و نقص ہے کیونکہ وہ کامل ہے اس کے افعال بھی حد درجہ کمال رکھتے ہیں ۔

خدا کی صفات ذاتیہ اور فعلیہ

صفات ثبوتیہ کی دو قسمیں ہیں:(۱۱)

صفات ذاتیہ(۱۲) صفات فعلیہ

صفات ذاتیہ:

ان صفات کو کہاجاتا ہے جو ہمیشہ خدا کی ذات کے لئے ثابت ہیں اور اس کی ذات کے علاوہ کسی چیز پر موقوف نہیں ہے، ان کو صفات ذاتیہ کہتے ہیں جسے علم و قدرت وغیرہ ۔

یہ صفات ذاتیہ ہمیشہ خدا کے ساتھ ہیں بلکہ اس کی عین ذات ہیں ان کا ثبوت کسی دوسرے وجود پر موقوف نہیں ہے خدا کی ذات عالم تھی دنیا کو خلق کرنے سے پھلے قادر ہے چاہے کسی چیز کو نہ پیدا کرے، ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گا موجودات رہیں یا نہ رہیں، اس کا علم و قدرت و حیات وغیرہ سب عینِ ذات ہیں، کبھی بھی اس کی ذات ان صفات کمالیہ سے خالی نہیں ہو سکتی ہے، اس لئے کہ وہ عین ذات ہے، ورنہ خدا کی ذات کا محدود و ناقص اور محتاج ہونا لازم آئے گا جو خدا کی ذات سے بعید ہے ۔

صفات فعلیہ:

ان صفات کو کہتے ہیںجو خداوند عالم کے بعض کاموں سے اخذ کی جاتی ہیں جیسے رازق و خالق اور جواد وغیرہ، جب اس نے موجودات کو خلق کیا تو خالق پکارا گیا، جب مخلوقات کو رزق عطا کیا تو رازق کہاگیا، جب بخشش و کرم کا عمل انجام دیا تو جواد ہوا، جب بندوں کے گناہوں اور عیبوں کو پوشیدہ اور معاف کیا تو غفور کھلایا،اس طرح کے صفات خدا اور بندوں کے درمیان ایک خاص قسم کے رابطہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

ایک حدیث

حسین بن خالد بیان کرتے ہیں:

میں نے امام علی بن موسيٰ الرضا (ع) کو فرماتے ہوئے سنا: آپ ارشاد فرمارہے تھے: خدا ہمیشہ سے قادر اور عالم و حی ہے، میں نے عرض کی یا بن رسول (ص) اللہ ! بعض لوگوں کا خیال ہے کہ علم خدا زائد بر ذات ہے، قادر ہے مگر زائد بر ذات ہے، زندہ ہے مگر زائد بر ذات ہے، قدیم ہے مگر قدیم زائد بر ذات ہے، ایسے ہی سمیع و بصیر دیکھنے اور سننے والا ہے، مگر دیکھنا اور سننا زائد برذات ہے؟ امام (ع) نے فرمایا: جس شخص نے خدا کے ان صفات کو زائد بر ذات جانا وہ مشرک ہے اور وہ ہمارا پیرو کار اور شیعہ نہیں ہے، خدا ہمیشہ سے عالم و قدیم حی قادر اور سمیع و بصیر ہے (اور رہے گا) لیکن اس کی ذات اور یہ صفات عین ذات ہیں ۔(۱۳)

صفات سلبیہ

ہر وہ صفات جو یہ بیان کرے کہ اس کی ذات نقص و عیب سے پاک و مبرا ہے اسے صفات سلبیہ کہتے ہیں، خداوند عالم کی ذات کامل اور اس میں کوئی عیب و نقص نہیں پایا جاتا ہے، لہذا ہر وہ صفات جو نقص یا عیب خداوند عالم پر دلالت کرے ان صفات کو سلب اور جدا کرنا ضروری ہے ۔

صفات سلبیہ یا جلالیہ یہ ہیں

۱) خدا مرکب نہیں ہے:

ہر وہ چیز جود و جز یا اس سے زائد اجزا سے مل کر بنے اسے مرکب کہتے ہیں، اور خدا مرکب نہیں ہے اور نہ اس میں اجزا کا تصور پایا جاتا ہے، کیونکہ ہر مرکب اپنے اجزا کا محتاج ہے اور بغیر اس اجزا کے اس کا وجود میں آنا محال ہے، اگر اللہ کی ذات بھی مرکب ہو تو، مجبوراً اس کی ذات ان اجزا کی ضرورتمند ہوگی، اور ہر وہ ذات جو محتاج، ناقص اور بہت سے اجزا کا مجموعہ ہو، وہ واجب الوجودا ورخدا نہیں ہو سکتی ۔

دوسرے:

ہر مرکب علت کا محتاج ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے اجزائے ترکیبیہ ملیں اور اس کو تشکیل دیں، پہر علت آکر اس کو وجود میں لائے اگر خدا ایسا ہے تو اس کو اپنے وجود میں علت اور اجزائے ترکیبیہ کا محتاج ہونا لازم آئے گا، لہٰذا جو ذات ناقص اور اپنے وجود میں علت کی محتاج ہو، وہ واجب الوجود خدا نہیں ہو سکتی ۔

۲) خدا جسم نہیں رکھتا:

اجزا سے مرکب چیز کو جسم کہتے ہیں، اور اوپر بیان ہوا کہ خدا مرکب نہیں ہے، لہذا وہ جسم بھی نہیں رکھتا ہے ۔

دوسرے:

ہر جسم کے لئے ایک جگہ و مکان کا ہونا ضروری ہے، اور بغیر مکان کے جسم نہیں رہ سکتا، جب کہ خداوند عالم خود مکان کو پیدا کرنے والا ہے اس کا ضرورتمند و محتاج نہیں ہے اگر خدا جسم رکھے اور مکان کا محتاج ہو تو وہ خدا واجب الوجود نہیں ہو سکتا ہے ۔

۳) خدا مرئی نہیں:

خدا دکھائی نہیں دے سکتا ہے، یعنی اس کو آنکھ کے ذریعہ کوئی دیکھنا چاہے تو ممکن نہیں، اس لئے کہ دکھائی وہ چیز دیتی ہے جو جسم رکھے اور خدا جسم نہیں رکھتا ہے لہذا اس کو نہیں دیکھا جا سکتا ۔

۴) خدا جاہل نہیں ہے:

جیسا کہ صفات ثبوتیہ میں بیان ہوا، خدا ہر چیز کا عالم ہے، اور اس کے علم کے لئے کسی طرح کی قید و شرط و حد بندی نہیں ہے، اور جہالت و نادانی عیب و نقص ہے اور خداوند عالم وجود مطلق عیب و نقص سے پاک ہے۔

۵) خدا عاجز و مجبور نھیں:

پھلے بھی صفات ثبوتیہ میں گذر چکا ہے کہ خدا ہر کام کے کرنے پر قادر اور کسی بھی ممکن کام پر مجبور و عاجز نہیں ہے اور اس کی قدرت کے لئے کسی طرح کی کوئی مجبوری نہیں ہے اسلئے کہ عاجزی و مجبوری نقص ہے اور خدا کی ذات تمام نقائص سے مبراو منزہ ہے۔

۶) خدا کیلئے محل حوادث نھیں:

خداوند عالم کی ذات میں کسی طرح کی تبدیلی و تغییر ممکن نہیں ہے جیسے کمزوری، پیری، جوانی اس میں نہیں پائی جاتی ہے، اس کو بھوک، پیاس، غفلت اور نیند نیز خستگی وغیرہ کا احساس نہیں ہوتا، اسلئے یہ تمام چیزیں جسم و مادہ کے لئے ضروری ہیں اور پھلے گذر چکا ہے کہ خدا جسم و جسمانیات سے پاک ہے لہٰذا خدا کی ذات محل حوادث یعنی تغیر و تبدیلی کی حامل نہیں ہے ۔

۷) خدا کا شریک نھیں:

اس مطلب کی دلیلیں توحید کی بحث میں ذکر کی جائیں گی ۔

۸) خدا مکان نہیں رکھتا:

خدا وند عالم کسی جگہ پر مستقر نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ ہی آسمان میں کیونکہ وہ جسم نہیں رکھتا، اس لئے مکان کا محتاج نہیں ہے ۔

خدا نے مکان کو پیدا کیا،اور خود ان مکانات سے افضل و برتر،نیز تمام موجودات پر احاطہ کئے ہوئے ہے، کوئی جگہ اس کے وجود کو نہیں گھیر سکتی وہ تمام جگہ اور ہر چیز پر تسلط رکھتا ہے، اس کا ہر گز یہ مفھوم نہیں ہوتا کہ اس کا اتنا بڑا جسم ہے، جو اس طرف سے لے کر اس طرف تک پورا گھیرے ہوئے ہے، بلکہ اس کا وجود، وجود مطلق ہے یعنی اس میں جسم و جسمانیات کا گذر نہیں ہے، اور نہ اس کے لئے کوئی قید و شرط (یہاں رہے یا اس وقت وہاں رہے) پائی جاتی ہے لہذا کسی جگہ کا وہ پابند نہیں تمام موجودات پر احاطہ رکھتا ہے، کوئی چیز اس کے دست قدرت سے خارج نہیں ہے، لہذا اس کے لئے یہاں اور وہاں کھنا درست نہیں ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہر دعا کے وقت ہاتھوں کو کیوں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں؟ آسمان کی طرف ہاتھوں کے اٹھانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خداوند عالم کی ذات والا صفات آسمان پر ہے، بلکہ ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرنے سے مراد درگاہ خدا میں فروتنی و انکساری و عاجزی و پریشانی کے ساتھ سوال کرنا ہے ۔

مسجد اور خانہ کعبہ کو خدا کا گہر کیوں کہتے ہیں؟ اس لئے کہ وہاں پر خدا کی عبادت ہوتی ہے، اور خدا نے اس مقام کو اور زمینوں سے بلند و برتر و مقدس بنایا ہے (جیسے خداوند عالم نے مومن کے دل (قلب) کو اپنا گہر کہاہے اور کھتا ہے خدا ہر جگہ و ہر طرف موجود ہے،( فَاَینَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجهُ اللّٰهِ ) (۱۴)

۹) خدا محتاج نھیں:

خداوند عالم کسی شی کا محتاج نہیں ہے، اس لئے کہ اس کی ذات ہر جھت سے کامل و تام ہے اس میں نقص اور کمی موجود نہیں ہے جو کسی چیز کا محتاج ہو اور اگر محتاج ہے تو پہر واجب الوجود خدا نہیں ہو سکتا ہے ۔

پہر خداوند عالم نے ہمارے لئے روزہ و نماز جیسے فریضہ کو کیوں واجب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ خدا کی ذات ناقص ہے اور ان عبادتوں کے ذریعہ اپنی کمی کو پورا کرنا چاہتا ہے، بلکہ خدا کا مطمحِ نظر یہ ہے کہ انسان عبادت کرے اور اپنے نفس کو نورانی اور کامل کرکے اس کی ہمیشہ آباد رہنے والی جنت کے لائق ہو جائے ۔

خدا جو ہم سے چاہتا ہے کہ ہم خمس و زکواة و صدقہ دیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا غریب و فقیر، ضرورتمندوں کی مدد اور ان پر احسان کرنا چاہتا ہے، تاکہ لوگ نیکی و احسان میں آگے آگے رہیں، اس وجہ سے نہیں کہ ہماری معمولی اور مادی مدد سے وہ خود اپنی ضرورت کو پورا کرے کیونکہ خود یہ خمس و زکات اور صدقات ہمارے سماج کی اپنی ضرورت ہے اور لوگوں کے فائدے کے مدنظر بعض کو واجب قرار دیا اور بعض کو مستحب، لیکن ہر ایک کا مصرف انھیں ضرورتمند افراد کو قرار دیا ہے، قطع نظران چیزوں کے، اگر ہم غور و فکر کریں کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنا مجبوروں اور غریبوں پر احسان و مدد کرنا اور سماج کی ضروریات کو پورا کرنا (جیسے مسجد و امام بارگاہ و مدرسہ کی تعمیر کرنا) خود ایک بھترین عبادت اور نفس کو منزل کمال پر پھنچانے اور آخرت میں منزل مقصود تک پھونچنے کا بھترین راستہ ہے ۔

۱۰) خدا ظالم نھیں:

اس کی دلیل عدل کی بحث میں ذکر کی جائیگی ۔

توحید

الله تبارک و تعاليٰ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے اس نے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے، اس کے علاوہ کوئی خالق اور پیدا کرنے والا نہیں اور نہ ہی اس نے کسی کی مدد سے خلق کیا ہے اسی سلسلہ میں چند دلیلوں کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہاہے ۔

پہلی دلیل

اگر دو خدا (یا اس سے زیادہ) ہوتے تو چند حالتیں ممکن ہیں ۔

پہلی حالت یہ کہ دونوں نے (دنیا) موجودات کو مستقل علیحدہ علیحدہ خلق کیا ہے، دوسری حالت یہ کہ ایک دوسرے کی مدد سے دنیا کو خلق کیا ہے، تیسری حالت یہ کہ دونوں نے دنیا کو دو حصوں میں خلق کیا ہے لیکن ایک دوسرے کی خدائی میں دخالت کرتے ہیں ۔

پہلی حالت

دونوں نے دنیا کو مستقل علیحدہ علیحدہ خلق کیا ہے (یعنی ہر چیز دو دفعہ خلق ہوئی ہے) اس کا باطل ہونا واضح ہے ۔

الف) چونکہ ہر ایک شخص میں ایک وجود سے زیادہ وجود نہیں پایا جاتا ہے اس لئے ایک سے زیادہ خدا کا تصور نہیں ہے ۔

ب) ایک خدا نے کسی چیز کو پیدا کیا اور پہر دوسرا خدا اگر دو بارہ اس کو خلق کرے اس کو علماء کی اصطلاح میں تحصیل حاصل کہتے ہیں، (کہ ایک چیز موجود ہو پہر اس کو حاصل کیا جائے) ۔

ج) یا حکماء اور فلاسفر کی اصطلاح میں ایک معلول (موجود) میں دو علت تامہ اثر گذاری کریں محال ہے یعنی ایک موجود کو خلق کرنے میں دو علت ایک وقت میں کار فرما ہو محال و باطل ہے۔

دوسری حالت

ان دونوں خدا نے ایک دوسرے کی مدد (شرکت) سے موجودات کو خلق کیا ہے، یعنی ہر موجود دو خدا کی مخلوق ہو اور دونوں آدھے آدھے برابر کے شریک ہوں یہ احتمال بھی باطل ہے ۔

الف: دونوںخدا ایک دوسرے کے محتاج تھے یعنی تنھاموجودات کو خلق کرنے سے عاجز و مجبور تھے تو یہ بحث پھلے گذرچکی ہے کہ خدا عاجز و محتاج نہیں ہے ۔

ھو سکتا ہے کوئی کھے دونوں خلق پر قادر ہیں لیکن پہر بھی دونوں شریک ہو کر موجودات کو وجود میں لاتے ہیں یہ بھی باطل ہے کیونکہ دو فاعل کسی کام پر قادر ہوتے ہوئے پہر بھی تنھاکسی کام کو انجام نہ دیں اس میں چند صورتیں ممکن ہیں:

الف) یا دونوں بخل کر رہے ہیں جو کہ نصف نصف پر کام کرتے ہیں یعنی چاہتے ہیں کہ زیادہ خرچ نہ ہو ۔

ب) یا دونوں آپس میں ڈرتے ہیں اور اس ڈر کی بنا پر کم خرچ کر رہے ہیں۔

ج) یا دونوں مجبوراً آپس میں شریک ہیں ۔

جواب یہ ہے:

الف) خداوند عالم محتاج و نیاز مند نہیں ہے ۔

ب) دونوں دنیا کے خلق کرنے کی مصلحت اور اس کا علم رکھتے ہیں اور اس کی پیدائش پر قدرت بھی رکھتے ہیں اور ان کی قدرت و علم عین ذات بھی ہے، اور اسی کے ساتھ بخل و کنجوسی بھی پائی جاتی ہے جو خدا کی ذات کے لئے اور مناسب نہیں ہے۔

ج) کوئی کام ایک دوسرے کے تحت خوف سے کرتے ہیں تو یہ، شانِ خدا کے بر خلاف ہے کیونکہ جو خدا ہوتا ہے وہ متاثر و عاجز نہیں ہو سکتا ہے ۔

د) دونوں عالم و قادر اور بخیل و عاجز نہیں ہیں تو چاہے موجود میں فقط ایک علت ہو اپنی مرضی کے مطابق کوئی ایک دنیا اور بنائیں ۔

ان باتوں سے سمجھ میں آتا ہے دونوں کو چاہیے اپنی قدرت و علم کے تحت دو دنیا بنائیں اور اس سے پھلے ثابت ہوچکا ہے کہ ایک معلول میں دو علت کااثر اندازھونا باطل و محال ہے ۔

تیسری حالت

دونوں (مفروض) خدا دنیا کو نصف نصف تقسیم کر کے اپنے اپنے حصہ میں مستقلا موجودات کو خلق کرے (اورمثل بادشاہوں کے اپنے حصہ میں حاکم بنے رہیں، ایسا فرض ہی باطل ہے اس لئے کہ دو خدا نہیں ہو سکتے اور نہ دنیا کے دو حصے ہوسکتے ہیں) اور ایک دوسرے کے حصے میں دخالت کرے یہ احتمال بھی باطل ہے، اس لئے کہ ہر وہ فرضی خدا آپس میں مستقلاً ایک دوسرے کے حصہ میں دخالت (خلق) کی صلاحیت رکھتے ہیں تو چاہیے کہ جدا اور اسے الگ خلق کرے ورنہ اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ دو علت ایک معلول میں موثرہوگی، جب کہ اس کا بطلان پھلے گذر گیا ہے یا اگرصلاحیت و استعداد نہیں رکھتا یا خلق پر قادر نہیں ہے یا کنجوسی کر رہاہے تو وہ ناقص ہے اور ناقص، خدائی کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے ۔

دوسری دلیل

اگر خدا کسی موجود کو پیدا کرے اور دوسرا اس موجود کو تباہ کرنے کا ارادہ کرے تو کیا پہلا خدا اپنی خلق کی ہوئی چیز کا دفاع کر سکتا ہے؟ اور دوسرے کے شر سے اس کو محفوظ رکھ سکتا ہے؟ اگر پہلا اپنی موجودہ چیز کی حفاظت نہیں کر سکتا تو عاجز ہے اور عاجز خدا نہیں ہو سکتا، اور اگر یہ دفاع کر سکتا ہے تو دوسرا خدا نہیں ہو سکتا اس لئے کہ عاجز ہے اور عاجز خدا نہیں ہو سکتا ہے ۔

نتیجہ

ہم خدا کو ایک اور لا شریک موجودات کو خلق کرنے والا جانتے ہیں اور اس کے علاوہ جو بھی ہو اس کو ناتوان، مجبور و عاجز اور مخلوق شمار کرتے ہیں، ہم فقط اللہ تبارک و تعاليٰ کو لائق عبادت جانتے ہیں کسی دوسرے کے لئے سجدہ نہیں کرتے اور نہ ہی کسی اور کے لئے جھکتے ہیں ہم آزاد ہیں اپنی آزادی کو کسی کے حوالے نہیں کرتے اور کسی کی بے حد و انتھاتعریف نہیں کرتے اور چاپلوسی کو عیب جانتے ہیں ۔

ہم انبیاء اور ائمہ (ع) کا احترام اور ان کے بیان کئے گئے احکام کی پیروی اس لئے کرتے ہیں کہ خدا نے ان کو واجب الاحترام اور واجب الاطاعت قرار دیا ہے، یعنی ان کے احترام و اتباع کو واجب قرار دیا ہے، ان کے احکام و قوانین ہمیشہ خدا کے احکام کی روشنی میں رہے ہیں اور ان لوگوں نے کبھی بھی زیادتی اور اپنے حدود سے تجاوز نہیں کیا ہے، ہم انبیاء و ائمہ (ع) کے مرقد پر جاتے ہیں اور ان کے مزار و روضہ کا احترام کرتے ہیں، لیکن یہ پرستش اور ان کی بندگی کے عنوان سے نہیں بلکہ خدا کی بارگاہ میں بلند مقام اور پاکیزگی و بزرگی کا خیال رکھکران کی تکریم کرتے ہیں اور ان کے روضہ کی تعمیر اور ان کی فداکاری و جانثاری و قربانیوں کی قدر دانی کرتے ہیں، اور دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ جو شخص بھی اللہ کے راستے میں زحمت و مشقت کو برداشت کرے اور اس کے احکام و پیغام و ارشاد کو لوگوں تک پھنچائے، تو نہ اس دنیا میں بھلایا جائے گا اور نہ آخرت میں، ہم ان مقدس اللہ کے بندوں،پاک سیرت نمائندوں اور اس کے خاص چاہنے والوں کے حرم میں خداوند ذوالجلال کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی بخشش اور اپنی حاجت کی قبولیت اور رازونیاز کرتے ہیں، اور اپنی دعا و مناجات میں ان مقدس بزرگوں کی ارواح طیباہ کو خدا کے حضور میں واسطہ و وسیلہ قرار دیتے ہیں ۔

عدل

خداوند عالم عادل ہے یعنی کسی پر ظلم نہیں کرتا اور اس سے کوئی بُرا کام صادر نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے تمام کام میں حکمت اور مصلحت پائی جاتی ہے اچھے کام کرنے والوں کو بھترین جزا دے گا کسی چیز میں جھوٹ اور وعدہ خلافی نہیں کرتا ہے، کسی کو بے گناہ اور بے قصور جھنم میں نہیں ڈالے گا، اس مطلب پر دو دلیل پیش خدمت ہے ۔

پہلی دلیل

جو شخص ظلم کرتا ہے یا برے کام کو انجام دیتا ہے اس کی صرف تین صورتیں پائی جاتی ہیں(۱۵) یا وہ اس کام کی اچھائی اور برائی سے واقف نہیں ہے اس وجہ سے ظلم و زیادتی انجام دیتا ہے(۱۶) یاوہ اس کام کی اچھائی اور برائی سے واقف و آگاہ ہے لیکن جو چیزیں دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھتا ہے چونکہ اس کے پاس وہ شی نہیں ہوتی اس لئے اس کو لینے کے لئے ان پر ظلم کرتا ہے تا کہ ان کے اموال کو لے کر فائدہ اٹھائے اپنے عیب و نقص (کمی) کو پورا کرے اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کام کرنے والوں (کارگروں) پر ستم کرتا ہے اور ان کے حقوق کو ضائع و برباد کرتا ہے اور خود قوی ہے اس لئے کمزوروں اور مجبوروں پر ظلم کرتا ہے، اور ان کے اموال و اسباب سے چاہتا ہے کہ اپنی کمی کو برطرف اور اپنے نقص کو پورا کرے(۱۷) یا ظلم و زیادتی سے آگاہی رکھتا ہے اس کو ان کی ضرورت بھی نہیں ہے، بلکہ انتقام اور بدلہ یا لھو و لعب کے لئے ایسا کام انجام دیتا ہے۔

عموما ًہر ظلم و ستم کرنے والے انھیں اسباب کی وجہ سے ان کاموں کے مرتکب ہوتے ہیں، لیکن خداوند عالم کی ذات اس سے منزہ اور پاکیزہ ہے، وہ ظلم و ستم نہیں کرتا اس لئے کہ جہالت و نادانی اس کے لئے قابل تصور نہیں ہے، اور وہ تمام چیزوں کی اچھائی اور برائی کی مصلحتوں سے خوب واقف ہے وہ ہر چیز سے مطلقا بے نیاز ہے، اس کو کسی کام اور کسی چیز کی ضرورت و حاجت نہیں ہے، اس سے لغو و بےھودہ کام بھی صادر نہیں ہوتا اس لئے کہ وہ حکیم ہے در نتیجہ اس کے پاس صرف عدالت ہی عدالت موجود ہے ظلم و ستم کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا ہے ۔

دوسری دلیل

ہماری عقل، ظلم و ستم کو ناپسند اور برا کھتی ہے اور تمام عقلمندوں کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ خداوند عالم نے اپنے بھیجے ہوئے انبیاء کو بھی لوگوں پر ظلم و ستم نیز برے کاموں کے انجام دینے سے منع فرمایا ہے، اس بنا پر کیسے ہو سکتا ہے کہ جس چیز کو تمام عقلمندافراد برا اور ناپسند کریں اور خدا اپنے بھیجے ہوئے خاص بندوں کو ان کاموں سے منع کرے اور خود ان غلط کاموں کو انجام دے ؟!

البتہ سماج اور معاشرے میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ تمام لوگ ہر جھت سے برابر نہیں ہیں، بلکہ بعض ان میں فقیر اور بعض غنی، بد صورت و خوبصورت، خوش فہم و نا فہم، سلامت و بیمار وغیرہ ان کے درمیان فرق پایا جاتا ہے ۔

بعض اشخاص پریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں یہ تمام کی تمام چیزیں بعض اسباب اور علتوں کی بنا پر انسان کے اوپر عارض ہوتی ہیں جس سے فرار اور چھٹکارا ممکن ہے، کبھی یہ اسباب طبعی علتوں کی بنیاد پر اور کبھی خود انسان ان میں دخالت رکھتا ہے لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود خدا کے فیض کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور ہر شخص اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق اس سے فیض حاصل کرتا ہے خداوند عالم کسی بھی شخص کو اس کی قدرت و طاقت سے زیادہ تکلیف و ذمہ داری نہیں دیتا، انسان کی کوشش اور محنت کبھی رائگاں نہیں ہوتی، ہر فرد بشر کی ترقی کے لئے تمام حالات و شرائط میں راستے کھلے ہوئے ہیں ۔