سبھي كے جاننے كي باتيں

سبھي كے جاننے كي باتيں28%

سبھي كے جاننے كي باتيں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

سبھي كے جاننے كي باتيں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13390 / ڈاؤنلوڈ: 4980
سائز سائز سائز
سبھي كے جاننے كي باتيں

سبھي كے جاننے كي باتيں

مؤلف:
اردو

دوسری فصل؛ نبوت

نبوت

خداوند عالم کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کی ھدایت کے لئے احکام کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کرے اس مطلب پر تین دلائل پیش کررہے ہیں ۔

پہلی دلیل

اس لئے کہ انسان کی پیدائش کا ھدف یہ نہیں ہے کہ ایک مدت تک اس دنیا میں رہے، اور اللہ کی نعمتوں کو استعمال کرے اور ہر طرح کی عیش و عشرت یا دنیاوی ہزاروں دکھ درد اور پریشانیوں کے داغ کو اپنے سینہ پر برداشت کرکے رخت سفر باندھ کر فنا کے گھاٹ اتر جائے، اگر ایسا ہے تو انسان کی خلقت عبث و بے فائدہ ہوگی!(۱۸)

جب کہ خدائے تبارک و تعاليٰ کی ذات ایسے کاموں سے پاک اور مبرا ہے۔

انسان، خداوند عالم کی بھترین و افضل ترین مخلوق ہے اور اس کو پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کے ذریعہ کمالات و فضائل کے اعليٰ مرتبہ پر پھونچ جائے تاکہ قیامت کے دن بھترین ثواب و جزا کا مستحق قرار پائے۔

لہٰذا پروردگار عالم کی ذات نے انسان کو نظم و قانون کا محتاج پایا تو ان کے لئے انبیاء (ع) کے دستور العمل بھی بھیجا تاکہ انسان کو تعلیم دیں اور انسان کو ضلالت و گمراہی کی تاریکی سے نکالیں، یہ وھی احکام ہیں جو ساتھ قوانین اور انسان کی زندگی اور آخرت دونوں کو سدھارتے ہیں، لوگوں کو

زیادتی اور زور و زبردستی سے روکتے ہیں اور انسان کی آزادی کے حقوق کے محافظ ہیں نیز انسان کو کمال و صراط مستقیم اور اللہ تک پھونچاتے ہیں ۔ کیا انسان کی ناقص عقل ایسا جامع دستور العمل اور منظم پروگرام لوگوں کے حوالے کر سکتی ہے؟ ہر گز ممکن نھیں، اس لئے کہ انسان کی عقل اور اس کی معلومات ناقص و محدود ہے،لوگوں کی عقل اچھے، برے جلوت و خلوت انفرادیت و اجتماعیت کے حالات پر کافی اور کامل معلومات نہیں رکھتی ہے ۔

اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ انسان نے ابتدائے خلقت سے لیکر آج تک ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور بے حد دولتوں کا سیلاب بہاد یا کہ محکم و کامل اور جامع انسانیت کے لئے قانون بنائے لیکن ابھی تک نہ بنا سکا، قانون تو بے شمار بنتے رہتے ہیں، لیکن کچھ ہی دنوں میں اس کی خامیاں اور غلطیاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں لہذا یا تو لوگ اس کو پورے طور پر ختم کر دیتے ہیں یا اس میں تبدیلی اور نظر ثانی کے در پے ہو جاتے ہیں ۔

دوسری دلیل

خود انسان کی طبیعت میں خود خواہی اور خود غرضی کے میلان پائے جاتے ہیں لہذا وہ ہر طرح کے فوائد کو اپنے اور اپنے اقارب کے لئے سب سے زیادہ پسند کرنے لگتا ہے لہذا نتیجتاً یہ عادت و فطرت مساوات کا قانون بنانے سے مانع ہوتی ہے ۔

جب بھی انسان ارادہ کرتا ہے کہ کوئی ایسا قانون بنائے جس میں ہوائے نفس اور خود خواہی نیز خود پسندی کا کوئی دخل نہ ہو، اپنے اور پرائے ایک صف میں کھڑے ہوں اور ہر ایک کو ایک نگاہ سے دیکھا جا رہاہو لیکن کھیں نہ کھیں طبیعت اور خواہش نفسانی تو غلبہ کر ہی لیتی ہے لہذا عدل و انصاف پر مبنی قانون کا سد باب ہو جاتاہے ۔

تیسری دلیل

قانون بنانے والے حضرات انسان کے فضائل اور روحانی کمالات کا علم نہیں رکھتے اور اس کی معنوی زندگی سے بے خبر ہیں وہ انسان کی فلاح اور بھبود، مادیات کے زرق و برق اور دنیا کی رنگینیوں میں تلاش کرتے ہیں جب کی انسان کی روحانی اور دنیاوی زندگی کے درمیان ایک خاص اور محکم رابطہ پایا جاتا ہے فقط خداوند عالم کی ذات والا صفات ہے جو اس دنیا و ما فیھاکا پیدا کرنے والا ہے اور انسان کی اچھائی و برائی سے خوب واقف اور با خبر ہے،نیزتمام موجودات پر احاطہ کئے ہوئے ہے کوئی بھی چیز اس کے دست قدرت سے باہر نھیں، وھی ہے جو بلندی کی راہ اور ھلاکت کے اجتناب سے بخوبی واقف ہے لہذا اپنے قانون و احکام بلکہ انسانیت کی باگ ڈور ایسے حضرات کے حوالے کرتا ہے جو لوگوں کے لئے نمونہ اور اس کی زندگی آنے والوں کے لئے مشعل راہ ہوتی ہے ۔

اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں خداوند عالم حکیم ہے کبھی بھی انسان کو حیرانی اور جہالت و گمراہی کے اتھاہ سمندر میں نہیں چھوڑ سکتا بلکہ اس کی مصلحت و لطف کا تقاضا یہ ہے کہ انبیاء کو قواعد و قانون کے ساتھ لوگوں کی ھدایت کے لئے مبعوث کرے ۔

انبیا، اللہ کے خاص بندے اور بساط بشر کی ممتاز فرد ہوتے ہیں جو خدا سے جس وقت چاہیں رابطہ پیدا کر سکتے ہیں اور جس چیز کی حقیقت معلوم کرنا چاہیں اسے معلوم کر کے لوگوں تک پھنچا سکتے ہیں اس طرح کے رابطے کو ”وحی“ کہتے ہیں وحی یعنی اللہ اور اس کے خاص بندے کے درمیان رابطے کو کہتے ہیں، انبیاء اپنی باطنی بصیرت سے دنیا کی حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں اور دل کے کانوں سے غیبی باتیں سنتے اور لوگوں تک پھنچاتے ہیں ۔

نبی کے شرائط

۔عصمت:

نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے یعنی نبی کے پاس ایسی قدرت و طاقت موجود ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے گناہ کے ارتکاب اور ہر طرح کی خطا و غلطی اور نسیان سے محفوظ رہ سکیں تاکہ خداوند عالم کے احکام جو انسان کی ھدایت کے لئے بنائے گئے ہیں بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں تک پھونچا سکیں ۔

اگرنبی خود گناہ کا مرتکب ہو جائے اور اپنے قول کے برخلاف عمل کرنے لگے تو اس کی بات اپنے اعتبار و اعتماد سے گر جائے گی یعنی وہ اپنے اس فعل سے اپنی ہی باتوں کا قلع قمع اور اپنے عمل کے ذریعہ لوگوں کو برائی اور خدا کی نافرمانی کی طرف راہنمائی کر نے لگے گا، جب کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عملی تبلیغ زبان سے زیادہ موثر ہے اگر نبی غلطی و نسیان کا پلندا ہوجائے تو لوگوں کے دلوں سے محبوبیت اور اس کا بہر وسہ ختم ہوجائے گا اور اس کی باتوں کی معاشرے کے سامنے کوئی اہمیت و عزت نہ ہوگی ۔

۔علم:

نبی کے لئے ضروری ہے کہ ہر وہ قوانین جو انسان کی سعادت اور نیک بختی کے لئے لازم و ضروری ہیں اس سے خوب واقف ہو، اور ہر وہ مطالب و موضوع جو راہنمائی و تبلیغ کے لئے کارساز ہیں اس کا کماحقہ علم رکھتا ہو تاکہ انسان کی فلاح اور بلندی کے حصول کے لئے خاص پروگرام لوگوں کے اختیار میں دے سکے اور راہ مستقیم (سیدھا راستہ) جو فقط ایک راستہ ہے اس کے سوا کوئی راستہ نھیں، اس راہ کے عظیم اجزا کو باہم اور دقیق ملاکر لوگوں کے سامنے پیش کرے ۔

۔ معجزہ:

خارق عادت کام کو کہتے ہیں یعنی نبی کا اپنے دعويٰ نبوت کے اثبات میں ایسے کام کا انجام دینا جس سے تمام لوگ عاجز ہوں چونکہ نبی عادت کے خلاف کسی چیز کا دعويٰ کرتا ہے اور نظروں سے اوجھل دنیا اور اللہ کی ذات سے رابطہ رکھتا ہے اور معارف و علوم کو اسی سے حاصل کرتا ہے اور تمام احکام کو اسی کی طرف نسبت دیتا ہے تو ضروری ہے کہ نبی ایسے کام کو اپنے مدعيٰ کے لئے انجام دے جس سے اس زمانے کے تمام افراد عاجز و حیران ہوں اور دعويٰ چونکہ غیبی ہے لہذا معجزہ بھی عادت کے بر خلاف ہونا چاہیے تاکہ اس امر غیبی کو ثابت کر سکے ایسے کام کو معجزہ کہتے ہیں۔

خلاصہ چونکہ نبی خدا سے رابطے کا دعويٰ کرتا ہے تو ضروری ہے کہ خدا کے ہم مثل کام کو انجام دے تاکہ لوگ اس کی بات پر یقین کریں مخفی نہ رہے کہ انبیاء کے تمام پروگرام اسباب و علل کے دائرے ہی میں انجام پاتے ہیں، مگر بعض مقامات پر جہاں وہ اس کی ضرورت سمجھتے ہیں، معجزہ سے کام لیتے ہیں ۔

نبی کو پہچاننے کا طریقہ

یہ مسلم ہے کہ نبی ایک عظیم مقام و رتبے پر فائز ہوتا ہے جب چاہے خدا سے رابطہ پیدا کر سکتا ہے اور وحی کے ذریعہ حقائق کو حاصل کر سکتا ہے پیغمبر اور نبی میںما فوق العادت عصمت جیسی طاقت بھی موجود ہوتی ہے، (کہ جسکی وجہ سے گناہ اور نسیان وغیرہ سے محفوظ رہتے ہیں) اور یہ بھی معلوم ہے کہ ایسا مقام اور راز پنہانی ہر کسی کے بس کا نہیں ہے لہذا انسان ان دو راستوں کے ذریعہ نبی کی حقانیت و صداقت کو بخوبی معلوم کر سکتا ہے اور تشخیص دے سکتا ہے ۔

پہلا راستہ:

ایک نبی دوسرے (آنے والے) نبی کی خبر دے یا اس کی تصدیق کرے یا اس کے علائم اور قرائن کو بیان کرے ۔

دوسرا راستہ:

وہ اپنے دعوے کی صداقت اور حق گوئی کے لئے معجزہ پیش کرے، یعنی ایسے کام کو انجام دے کہ انسان اس جیسے کام انجام دینے سے عاجز ہو جب انسان دیکھے کہ کوئی پیغمبری کا دعويٰ کرتا ہے اور کھتا ہے کہ میں خد اکی طرف سے تمھاری ھدایت کے لئے مامور کیا گیا ہوں اور اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے ایسے کام کو انجام دے رہاہو جو انسان کے اختیار سے باہر ہے، پس یقین ہو جائیگا کہ یہ شخص سچا ہے اس لئے کہ اگر یہ جھوٹا ہوتا تو خدا اس کی معجزہ کے ذریعہ تائید نہ کرتا چونکہ جھوٹے کی تائید کرنا لوگوں کو جہالت میں ڈالنا ہے ایک امر قبیح ہے اور خدا کوئی قبیح امر انجام نہیں دیتا ہے مقام عصمت و نبوت کو پہچاننے کے لئے ان دو عمومی قاعدے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں پایا جاتا ہے ۔

لیکن جاننا چاہیے کہ عقلمندوں اور تحقیق کرنے والوں کے لئے دوسرا راستہ بھی کھلا ہوا ہے کہ لوگ قانونِ شریعت اور احکام اسلام کا بہ نظر غائر مطالعہ کریں،اور قانون اسلام کو دنیا کے اور دوسرے قوانین سے تقابل کریں اور اس کے امتیازات اور مصلحتوں کو خوب درک کریں، اس وقت نبی کی سیرت اور طور طریقہ نیز رفتار و گفتار کو اس کے آئینے میں تلاش کریں اور اس طریقے سے ان کے دعوے کی سچائی کی تائید اور تصدیق کر کے اپنے ایمان کو مضبوط کرسکتے ہیں، لیکن اس راہ سے آنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے یا یہ کہ خدا کا لطف خاص شامل حال ہو اور انسان ایمان کی قوت سے مالامال ہو، قرآن مجید نے انبیاء کے لئے معجزات کو بیان کیا ہے جو شخص قرآن کے آسمانی اور خدا کی کتاب ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے اس کو لامحالہ انبیاء کے معجزات پر بھی اعتقاد رکھنا پڑے گا جیسے حضرت موسيٰ علیہ السلام کے عصا کا اژدھاہونااور حضرت عیسيٰ علیہ السلام کا مردے کو زندہ کرنا وغیرہ کسی کے لئے قابل انکار نہیں ہے، جناب عیسيٰ علیہ السلام کا گھوارے میں باتیں کرنا قرآن کی نص ہے ۔

انبیاء کی تعداد

حدیثوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ انبیاء کی تعدادایک لاکھ چوبیس ہزار ہے جو لوگوں کی ھدایت کے لئے بھیجے گئے ہیں جس میں سب سے پھلے حضرت آدم (ع) اور آخر میں حضرت محمد مصطفی ابن عبد الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں(۱۹)

انبیاء کے اقسام: بعض انبیاء اپنے فرائض کو وحی کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں لیکن تبلیغ پر مامور نہیں ہوتے ۔بعض تبلیغ پر بھی مامور تھے ۔بعض صاحب دین اور شریعت تھے ۔ بعض انبیاء مخصوص شریعت لے کر نہیں آئے تھے، بلکہ دوسرے نبی کی شریعت کی تبلیغ و ترویج کرتے تھے اور ایسا بھی ہوا ہے کہ متعدد انبیاء مختلف شہر وں میں تبلیغ و ھدایت کے لئے مامور کئے گئے ہیں ۔

اولو العزم انبیاء:

حضرت نوحعلیہ السلام، حضرت ابراہیمعلیہ السلام، حضرت موسيٰ علیہ السلام، حضرت عیسيٰ علیہ السلاماور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، یہ صاحب شریعت تھے اور تمام انبیاء میں سب سے افضل ہیں، ان کو اولو العزم پیغمبر (ع) بھی کہاجاتا ہے۔

بعض انبیاء صاحب کتاب تھے: حضرت نوح (ع)، حضرت ابراہیم (ع)، حضرت موسيٰ علیہ السلام، حضرت عیسيٰ علیہ السلامحضرت محمد (ص)، اور باقی انبیاء صاحب کتاب نہیں تھے بعض انبیاء تمام لوگوں کیلئے مبعو ث کئے گئے تھے اور بعض مخصوص جمعیت و گروہ کیلئے مبعوث کئے گئے تھے ۔(۲۰)

حضرت محمد (ص) آخری نبی ہیں

اولو العزم انبیاء میں سے ہمارے نبی حضرت محمد ابن عبد اللہ (ص) ہیں آپ کی امت مسلمان کھلاتی ہے۔ آنحضرت (ص) اس وقت مبعوث برسالت ہوئے جب گذشتہ انبیاء کی کوششیں اور ان کی قربانیاں اور طولانی زحمات اپنا ثمرہ دکھا رہی تھیں، لوگوں کی دینی سوجھ بوجھ اس حد تک پھنچ چکی تھی کہ چاہتے تو بھترین اور کامل ترین قوانین کو اخذ کرتے اور بلند ترین معارف کو سمجھتے نیز گذشتہ انبیاء کے علمی آثار کو ہمیشہ باقی رکھ سکتے تھے، اس وقت حضرت محمد مصطفی (ص) مبعوث ہوئے، اور لوگوں کے اختیار میں ایک جامع اور مکمل دستور العمل قرار دیا ۔

اگر اسلامی قوانین اور اس کے احکام پر پابندی سے عمل کیا جائے تو انسان کی دنیوی و اخروی سعادت کو اسکے ذریعہ سے تامین کیا جا سکتا ہے اور اسی طریقے سے اس زمانہ اور آنے والی نسلوں کی خیر و صلاح کے لئے کافی ہیں۔ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ قواعد و قوانین اور معارف اسلامی میں تلاش و جستجو کرے اور اسلام کے قوانین کا دنیا کے اور قوانین سے تقابل کرے تو اسلام کے قوانین کی برتری اس کے اوپر روز روشن کی طرح واضح و ظاہر ہوجائے گی یھی علت ہے کہ آنحضرت (ص) آخری پیغمبر اور خاتم الانبیاء ہیں اور ان کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا قرآن مجید نے آپ کو خاتم النبیین سے تعبیر کیا ہے(۲۱) حضرت محمد کے آخری نبی ہونے کا اعتقاد رکھنا، دین کی ضروریات میں سے ہے اور اس سے انکار کرنے والا مسلمان نہیں ہے ۔

ہمیشہ رہنے والا معجزہ

حضرت محمد مصطفی (ص) آپ صاحب معجزہ تھے اور اپنی زندگی کے مختلف ایام میں لوگوں کو معجزہ سے روشناس کرایا ہے اور کثرت سے حدیث اور تاریخی کتابوں میں اس کی طرف اشارہ ملتا ہے، ان سب کے علاوہ قرآن مجید ہمیشہ رہنے والا معجزہ اور آپ کی نبوت پر قطعی ثبوت ہے قرآن کریم خود اپنے کو معجزہ سے تعبیر کرتا ہے اور خدالوگوں سے کھتا ہے جو ہم نے قرآن مجید اپنے بندے (محمدمصطفی (ص) ) پر نازل کیا ہے اس پر شک کرتے ہو تو اس کے مثل ایک سورہ ہی لے آؤ ۔(۲۲) اورقرآن کھتا ہے اگر تمام جن و انس قرآن کا مثل لانے پر اتفاق کرلیں تب بھی نہیں لا سکتے ۔(۲۳)

اسلام کے دشمن اسلام سے ہر طریقے سے لڑنے کے لئے آمادہ ہو گئے کسی راہ کو باقی نہیں چھوڑا، اور خطرناک سے خطرناک جنگوں سے سامنا کرنے سے منھ تک نہ موڑا اور جانی و مالی بے انتھانقصان برداشت کئے لیکن قرآن سے جنگ کرنے کے لئے اصلاً آمادہ نہ ہوئے، ہاں اگر ان کے بس کا ہوتا تو قرآن کے سورہ کی طرح کسی ایک سورہ کا جواب لاکر رکھ دیتے! اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو اتنی بڑی بڑی جنگوں کے مقابل سورہ لانے کو زیادہ ترجیح دیتے اور ہزارہازحمت و پریشانی سے سبکدوش ہوجاتے مثلِ سورہ قرآن کوئی سورہ پیش کرنے پر اصلاً قدرت ہی نہیں رکھتے تھے ۔(۲۴)

قرآن مجید آنحضرت (ص) کی تیئیس سال کی زندگی میں رفتہ رفتہ نازل ہوا ہے آںحضرت (ص) کے اصحاب ِکرام ان آیات کو حفظ کرتے تھے اس کے بعد جمع آوری ہوئی اور کتاب کی صورت میں لوگوں کے سامنے آگیا، قرآن مجید پہلی آسمانی کتاب ہے جس میں کسی طرح کی کوئی تغییر و تحریف نہیں پائی جاتی ہے، اور بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں کے سامنے موجود ہے ۔

قرآن کتاب عمل ہے:

اگر مسلمان دارین کی سر بلندی چاہتے ہیں اور انکی چھنی ہوئی شان و شوکت، جاہ و حشم واپس آجائے تو چاہیے کہ قرآن کے بیان کردہ محکم قوانین اور دستور کی پیروی و اتباع کریں ا ور اپنے تمام کاموں نیز تمام لا علاج امراض میں قرآن سے تمسک و توسل کر کے ان اجتماعی و انفرادی مشکلوں کو حل کریں ۔

حضرت رسول خدا (ص) کے حالاتِ زندگی

آپ (ص) کے والد عبد اللہ اور ماں کا نام آمنہ تھا سترہ ربیع الاول سن ایک عام الفیل کو مکہ معظمہ میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی، ستائیس رجب المرجب کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے، تیرہ سال مکہ میں رہکر لوگوں کو پوشیدہ اور ظاہری طور پر اسلام کی دعوت دیتے رہے اسی مدت میں ایک گروہ مسلمان ہوا اور آپ پر ایمان لے آیا۔ لیکن کفار اور بت پرست افراد ہر طرف سے اسلام کی تبلیغ کے لئے موانع اور رکاوٹیں کھڑی کر رہے تھے اور آںحضرت (ص) کو اذیت مسلمانوں پر سختی و عذاب سے کوئی لمحہ فرو گذاشت نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ آنحضرت (ص) کی جان ایک دن خطرے میںآ گئی لہٰذا مجبور ہو کر مدینہ کی طرف ھجرت فرمائی اور آھستہ آھستہ مسلمان بھی آپ سے آملے اور مدینہ شہر سب سے پھلے اسلامی حکومت کا پائے تخت اور فوجی اڈا بن گیا ۔ آںحضرت (ص) اس مقدس شہر میں دس سال تک احکام کی تبلیغ لوگوں کی راہنمائی اور اجتماعی امور کے سنبھالنے میں مشغول رہے اور اسلامی لشکر ہر وقت حریم اسلام کے دفاع کے لئے آمادہ رہتا ۔

ہمارے نبی (ص) ترسٹھ سال اس دار فانی میں رہ کر اٹھائیس صفر ھجرت کے گیارہویں سال دار بقا کی طرف رحلت فرماگئے اور اسی شہر مقدس (یثرب) مدینہ میں مدفون ہوئے ۔

آں حضرت (ص) بچپنے سے ہی با ادب سچے اور امانتدار تھے اسی وجہ سے لوگ آپ کو محمد امین (ص) کہتے تھے، اخلاقی لحاظ سے نیک، اپنے زمانہ کے لئے نمونہ تھے کبھی آپ (ص) سے جھوٹ اور خیانت دیکھی نہیں گئی کسی پر ظلم و ستم نہیں کرتے اور برے کاموں سے دوری، لوگوں کا احترام، خوش اخلاق و متواضع و بردبار تھے مجبور و بے سہاروں کے ساتھ احسان و مہر بانی سے پیش آتے آپ جو کہتے اس پر عمل کرتے تھے اسی پسندیدہ اخلاق کا نتیجہ تھا کہ لوگ ہر طرف سے اسلام کے گرویدہ ہونے لگے اور آزادی و اختیار کے ساتھ اسلام قبول کرتے تھے، امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: ایک فقیر نے آنحضرت (ص) کے قریب آکر آپ (ص) سے سوال کیا حضرت نے ایک انصاری سے کھجور قرض لے کرسائل کو عطا کیا کافی دن گذر گئے مگر آپ اس کا قرض نہ چکا سکے پہر ایک دن طلبگار آیا اور اس نے اپنی کھجور کا مطالبہ کیا حضرت نے فرمایا: ابھی میرے پاس نہیں ہے جب ہو جائے گا تو میں انشاء الله دے دونگا، دوسری دفعہ آیا اور پہر وھی جواب سنا، تیسری مرتبہ جب اس نے اِس جواب کو سنا تو کھنے لگا: یا رسول اللہ ! کب تک یہ کہتے رہیں گے انشاء اللہ دونگا؟ پہر وہ آں حضرت (ص) کی شان میں گستاخی کرنے لگا حضرت اس کے نا زیبا کلمات سن کر مسکرانے لگے اور اصحاب سے فرمایا: کیا تم میں کوئی ہے جو مجھے کھجور قرض کے طور پر دے؟ ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ ! میں آپ کو دونگا فرمایا: اس مقدار میں (خرما) کھجور اس شخص کو دے دو، طلبگار نے کہامیں تو اس کے نصف کا طلبگار ہوں حضرت (ص) نے فرمایا اس نصف کو میں نے تجھے بخش دیا ۔(۲۵)

اسلامی احکام

دین اسلام کے قوانین فقط فردی عبادت اورظائف پرمشتمل نہیں ہیں بلکہ نظام اجتماعی کو بھی اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے انسان کی زندگی کے ہر ایک لمحات کے لئے دین اسلام، احکام اور دستور العمل رکھتا ہے جیسے اجتماعی سیاسی اور حقوقی زندگی کے مسائل، پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی (ع) انھیں قوانین کو اجرا کرنے کے لئے مسلمانوں پر حکومت کی انھیں پروگرام کے نافذ ہونے کی وجہ سے صدر اسلام کے مسلمانوں نے حیرت انگیز ترقیاں حاصل کیں اور محکم طاقتور حکومت کا قیام وجود میں آیا ۔ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام کے احکام (دنیا کے) تمام قوانین سے افضل و اکمل ہیں ۔ اگر بطور کامل اس کو اجرا اور اجتماعات میں اس سے استفادہ کیا جائے تو انسان سعادت و خوشبختی کے مراتب پر فائز ہو سکتا ہے، ظلم و زیادتی اپنی بنیاد سے ختم ہو جائے گی جنگ وجدال کی جگہ صلح و صفائی لے لے گی، اور فقر و بیکاری کا بوریہ بستر بندھ جائے گا ۔

ہمارا عقیدہ ہے، اسلام کے قوانین ناقص نہیں ہیں اور نہ ہی کسی کے کامل اور اصلاح کرنے کے محتاج ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ آنحضرت (ص) انسان کے واقعی مسائل و مصالح سے بخوبی واقف تھے اس لئے بھترین قوانین کو انسان کے اختیار میں دئے ہیں ۔

ہم عقیدہ رکھتے ہیں، جو بھی قانون قرآن مجید کے مخالف ہو وہ لوگوں کی مصلحت و مفاد کے لئے نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی حقیقت ہے، ہم یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں، ہماری سعادت مندی کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ ہم اپنی زندگی کے تمام حالات میں دین اسلام کے احکام کی پابندی کریں ۔

ہمیں اطلاع ہے اسلامی فرقوں کی زبوں حالی اسلام کی وجہ سے نھیں، بلکہ یہ تمام بد بختی کا سر چشمہ قوانین اور احکام اسلامی سے سر پیچی اور رو گردانی کا نتیجہ ہے، جب ہم نے اسلامی احکام کو پس پشت ڈال کر اپنے اجتماعی درد کا مداوا دوسروں سے مانگنے لگے یعنی ہم نے اسلام کے فقط نام پر اکتفا کیا جس کے نتیجہ میں بد بختی کے یہ سیاہ بادل ہمارے اوپر منڈلانے لگے ۔

ہم اعتقاد رکھتے ہیں، اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ اپنی عزت و بزرگی، شان و شوکت مثلِ سابق واپس آجائے اور دنیا کے ترقی پزیر ملکوں کی فہر ست میں ہمارا بھی شمار ہونے لگے تو ہمیں چاہیے کہ ہم حقیقی اور صحیح معنی میں مسلمان بن جائیں، اور تمام اسلامی قوانین کو اپنے اوپر نافذ کریں اپنے اجتماعی پروگراموں میں احکام قرآن کو حاکم قرار دیں جب تک قانون اسلام صفحہ قرطاس پر جملہ مرکبہ کی صورت میں رہے گا اور اس پر کوئی عمل در آمد نہ ہوگا تو ہمیں ترقی اور عظمت کے لئے سوچنا اپنے کو خواب غفلت میں ڈالنے کے مترادف ہوگا ۔

خدا کے صفات

اللہ کے صفات کو کلی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے(۹) صفات ثبوتیہ یا جمالیہ(۱۰) صفات سلبیہ یا جلالیہ ۔

صفات ثبوتیہ

ہر وہ صفت جو اصل وجود کے کمال اور اس کی اہمیت میں اضافہ اور اس کی ذات کو کامل کرنے کے لئے لائی جائے اس شرط کے ساتھ کہ موصوف اور ذات میں کوئی تغیر و تبدیلی لازم نہ آئے، ان صفات کو جمالیہ یا صفات ثبوتیہ کہتے ہیں جیسے علم و قدرت حیات و تکلم ۔

ان صفات کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے آسان سی مثال دیتے ہیں، اگر ہم دو آدمیوں میں علم و جھل کے عنوان سے تقابل کریں تو اس مطلب کو بخوبی درک کر سکتے ہیں کہ جاہل کے مقابلے میں عالم پُر اہمیت اور فائدہ بخش ہے، لہٰذا یہ عالم جاہل کے مقابلے میں برتری و فضیلت کا پھلو رکھتا ہے لہذا ہم فیصلہ کریں گے کہ کمالات کے صفات میں ایک علم بھی ہے، اور ایسے ہی دوسری صفتوں کو مقایسہ کرنے پر حقیقت و برتری صفات جمالیہ کی کھل کر روشن ہوجائیگی اور یہ تمام صفات اس کے لئے ثابت ہیں، اس مطلب کو مزید واضح کرنے کے لئے ہم دو دلیلوں پر اکتفا کرتے ہیں ۔

پہلی دلیل:

خداوند عالم نے خیر و خوبی اور اچھائیوں کو لوگوں کے لئے پیدا کیا ہے کیونکہ انسان اپنے وجود میں خدا کا محتاج ہے ایسے ہی اپنے صفات اور وجودی کمالات میں بھی اسی کا محتاج ہوتا ہے، خداوند عالم نے انسان کو پیدا کیا، لیکن اپنی بقا میں انسان مستقل وجود نہیں رکھتا ہے، تمام خیر و خوبیوں کو خدا نے انسان کے لئے پیدا کیا، مگر خود یہ خوبیاں اپنی بقا میں مستقل وجود نہیں رکھتی ہیں معلوم ہوا خواہ ذات ہوں اور خواہ صفات ہر حال میں اسی کی محتاج ہیں (بے نیاز نہیں ہیں) لہٰذا خدا ہی ان صفات کمال و جمال کا پیدا کرنے والا ہے ۔

اگر ہم تھوڑا دھیان دیں تو یہ حقیقت کھل کر آشکار ہوجائے گی کہ خدا نے انسان کے لئے تمام کمالات کو پیدا کیا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کمالات سے اپنے کو خالی رکھے، یا اس کے پاس موجود نہ ہو اگر اس کے پاس نہ ہوگا تو دوسروں کو کیسے دے سکتا ہے (فاقد الشیء لا یعطی الشی ء) لہذا ماننا پڑے گا کہ خدا کے پاس تمام کمالات و خوبیاں موجود ہیں، اور اسی نے لوگوں کے لئے ان صفات کو قرار دیا ہے، جب تک چراغ روشن نہ ہو، دوسروں کو روشن نہیں کر سکتا جب تک پانی خود تر نہ ہو دوسری چیزوں کو تر نہیں کر سکتا ہے ۔

دوسری دلیل:

ذات پروردگار عالم مطلق ہے یعنی اس کی ذات میں کسی طرح کی قید و حد اور نقص نہیں پایا جاتا ہے جب وہ محدود و ممکن نہیں ہے تو وہ کسی کا محتاج بھی نہیں اور نہ ہی اپنے وجود کو کسی دوسرے سے لیا ہے اس لئے کہ محتاج و ضرورت مند وہ ہوتا ہے جو محدود ہو یا جس میں کمی پائی جاتی ہو لیکن خدا کی ذاتِ مطلق تام و کامل و واجب الوجود ہے لہٰذا جو صفت بھی کمال کے اوپر دلالت کرے گی خدا وند عالم کے لئے ثابت ہے اس سے خدا کی ذات محدود یا مقید نہیں ہوتی، بلکہ اس صفات کا خدا میں نہ پایا جانا اس کی ذات میں نقص کا باعث ہے کیونکہ ان صفات کمالیہ کا خداوندعالم میںنہ پایا جانا ضرورت اور احتیاج کا سبب ہے، جب کہ خدا کی ذات واجب الوجود اوربالذات بے نیاز ہے ۔

صفات ثبوتیہ:

خداوند عالم میں پائی جانے والی صفتیں یہ ہیں:

۔ قدرت:

خدا قادر ہے یعنی جس کام کو انجام دینا چاہے انجام دیتا ہے کسی کام کے کرنے پر مجبور اور عاجز نہیں ہے اور نہ ہی اس کی قدرت کے لئے کوئی جگہ مخصوص ہے بلکہ اس کی قدرت حد بندی سے خالی ہر جگہ موجود ہے ۔

۔ علم:

خدا عالم ہے یعنی تمام چیزوں کو جاننے والا اور تمام موجودات پر احاطہ و قدرت رکھنے والا ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے یہاں تک کہ بندوں کے افکار و خیالات سے بھی واقف ہے اور ہر چیز اس کے سامنے ہے ۔

۔ حیات:

خدا حی ہے خداوند عالم اپنے کاموں کو علم و ارادہ و قدرت سے انجام دیتا ہے خدا انسانوں کی طرح سانس کے آنے اور جانے کے مثل زندہ نہیں ہے وہ چونکہ اپنے کام کو علم و اراد ہ اور قدرت سے انجام دیتا ہے اس لئے اس کو حی کہتے ہیں۔

۔ ارادہ:

خدا مرید ہے اپنے کاموں کو قصد و ارادہ سے انجام دیتا ہے آگ کی طرح نہیں کہ بغیر ارادہ جلادے خداوند عالم کا وجود، وجودِ کامل ہے جو اپنے ارادہ سے کام کو انجام دیتا ہے، مثلِ فاعل مجبور اور بے ارادہ نہیں ہے ۔

۔ بصیر ہے:

خداوند عالم دیکھنے والا ہے تما م پیدا ہونے والی چیزوں کو دیکھنے والا ہے کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے ۔

۔ سمیع ہے:

خدا سننے والا ہے تمام سننے والی چیزوں کو سنتا ہے کسی چیز سے غافل نہیں ہے۔

۔ قدیم و ابدی ہے:

قدیم یعنی ہمیشہ سے ہے اس کی کوئی ابتدا نہیں ہے ابدی یعنی ہمیشہ رہے گا اس کی کوئی انتھانھیں ہے ۔

۔ متکلم ہے:

حقیقت کو دوسروں کے لئے اظہار اور اپنے مقصد کو دوسروں تک پھنچاتا ہے۔

ان صفات کو صفات ثبوتیہ یا جمالیہ کہتے ہیں جو خداوند عالم میں موجود اور اس کی عین ذات ہیں ۔

یاد دہانی

چونکہ ہم ناقص ہیںاس لئے ہم اپنے کام کو بغیر کسی آلات، کے انجام نہیں دے سکتے قدرت و طاقت کے باوجود بھی اپنے اعضا و جوارح کے محتاج ہیں سننے کی طاقت کے باوجود کان کے ضرورت مند ہیں دیکھنے کی طاقت کے ہوتے ہوئے آنکھ کے محتاج ہیں، چلنے کی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی پاؤں کے نیازمند ہیں ۔ خداوند عالم کی ذات جو کمال مطلق کی حامل ہے وہ کسی کام میں دوسروں کی محتاج نہیں ہے، لہذا خداوند عالم قادر مطلق بغیر آنکھ کے دیکھتا ہے، بغیر کان کے سنتا ہے، بغیر اعضا وجوارح (جسم و جسمانیت سے خالی) کے تمام کام کو انجام دیتا ہے، ہر ایک کی بگڑی بناتا ہے ۔

ہمارے خیال میں دیکھنے اور سننے کے لئے فقط آنکھ، کان ہی کی راہ پائی جاتی ہے، لہذا جس کا کان صحیح اور آنکھ دیکھنے والی ہے تو کہتے ہیں کہ وہ دیکھتا اور سنتا ہے، ورنہ اندھا و بہر ہ ہے ۔

لیکن دیکھنے اور سننے کی اس کے علاوہ بھی راہ پائی جاتی ہے اور در حقیقت وھی اصل دیکھنا اور سننا ہے اگر آنکھ کے وسیلہ سے دیکھا تو کیا دیکھا، کان کے ذریعہ سے سنا تو کیا سنا، خدا کسی بھی وسیلہ و اسباب کا محتاج نہیں ہے، لہذا بغیر وسیلہ کے سنتا اور دیکھتا ہے کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے۔

ہم محدود و محتاج ہیں لہذا ہر کام میں کسی کے محتاج ہیں اگر اس دائرہ سے باہر ہوں یعنی محدود و ناقص نہ ہوتے تو ہم بھی بغیر آنکھ کے تمام چیزیں دیکھتے، اور بغیر کان کے تمام آوازیں سنتے اور کہاجائے کہ سننے اور دیکھنے کی حقیقت در اصل اس پر صادق آتی ہے، جیسے ہم خواب میں بغیر آنکھ و کان کے دیکھتے اور سنتے اور تمام کام انجام دیتے ہیں ۔

مگر خداوند عالم کی ذات والا صفات جو نہایت درجہ کمال اپنے وجود میں رکھتا ہے، اس کی بنائی ہوئی تمام چیزیں، اس کا ہر ایک کام، بے عیب و نقص ہے کیونکہ وہ کامل ہے اس کے افعال بھی حد درجہ کمال رکھتے ہیں ۔

خدا کی صفات ذاتیہ اور فعلیہ

صفات ثبوتیہ کی دو قسمیں ہیں:(۱۱)

صفات ذاتیہ(۱۲) صفات فعلیہ

صفات ذاتیہ:

ان صفات کو کہاجاتا ہے جو ہمیشہ خدا کی ذات کے لئے ثابت ہیں اور اس کی ذات کے علاوہ کسی چیز پر موقوف نہیں ہے، ان کو صفات ذاتیہ کہتے ہیں جسے علم و قدرت وغیرہ ۔

یہ صفات ذاتیہ ہمیشہ خدا کے ساتھ ہیں بلکہ اس کی عین ذات ہیں ان کا ثبوت کسی دوسرے وجود پر موقوف نہیں ہے خدا کی ذات عالم تھی دنیا کو خلق کرنے سے پھلے قادر ہے چاہے کسی چیز کو نہ پیدا کرے، ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گا موجودات رہیں یا نہ رہیں، اس کا علم و قدرت و حیات وغیرہ سب عینِ ذات ہیں، کبھی بھی اس کی ذات ان صفات کمالیہ سے خالی نہیں ہو سکتی ہے، اس لئے کہ وہ عین ذات ہے، ورنہ خدا کی ذات کا محدود و ناقص اور محتاج ہونا لازم آئے گا جو خدا کی ذات سے بعید ہے ۔

صفات فعلیہ:

ان صفات کو کہتے ہیںجو خداوند عالم کے بعض کاموں سے اخذ کی جاتی ہیں جیسے رازق و خالق اور جواد وغیرہ، جب اس نے موجودات کو خلق کیا تو خالق پکارا گیا، جب مخلوقات کو رزق عطا کیا تو رازق کہاگیا، جب بخشش و کرم کا عمل انجام دیا تو جواد ہوا، جب بندوں کے گناہوں اور عیبوں کو پوشیدہ اور معاف کیا تو غفور کھلایا،اس طرح کے صفات خدا اور بندوں کے درمیان ایک خاص قسم کے رابطہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

ایک حدیث

حسین بن خالد بیان کرتے ہیں:

میں نے امام علی بن موسيٰ الرضا (ع) کو فرماتے ہوئے سنا: آپ ارشاد فرمارہے تھے: خدا ہمیشہ سے قادر اور عالم و حی ہے، میں نے عرض کی یا بن رسول (ص) اللہ ! بعض لوگوں کا خیال ہے کہ علم خدا زائد بر ذات ہے، قادر ہے مگر زائد بر ذات ہے، زندہ ہے مگر زائد بر ذات ہے، قدیم ہے مگر قدیم زائد بر ذات ہے، ایسے ہی سمیع و بصیر دیکھنے اور سننے والا ہے، مگر دیکھنا اور سننا زائد برذات ہے؟ امام (ع) نے فرمایا: جس شخص نے خدا کے ان صفات کو زائد بر ذات جانا وہ مشرک ہے اور وہ ہمارا پیرو کار اور شیعہ نہیں ہے، خدا ہمیشہ سے عالم و قدیم حی قادر اور سمیع و بصیر ہے (اور رہے گا) لیکن اس کی ذات اور یہ صفات عین ذات ہیں ۔(۱۳)

صفات سلبیہ

ہر وہ صفات جو یہ بیان کرے کہ اس کی ذات نقص و عیب سے پاک و مبرا ہے اسے صفات سلبیہ کہتے ہیں، خداوند عالم کی ذات کامل اور اس میں کوئی عیب و نقص نہیں پایا جاتا ہے، لہذا ہر وہ صفات جو نقص یا عیب خداوند عالم پر دلالت کرے ان صفات کو سلب اور جدا کرنا ضروری ہے ۔

صفات سلبیہ یا جلالیہ یہ ہیں

۱) خدا مرکب نہیں ہے:

ہر وہ چیز جود و جز یا اس سے زائد اجزا سے مل کر بنے اسے مرکب کہتے ہیں، اور خدا مرکب نہیں ہے اور نہ اس میں اجزا کا تصور پایا جاتا ہے، کیونکہ ہر مرکب اپنے اجزا کا محتاج ہے اور بغیر اس اجزا کے اس کا وجود میں آنا محال ہے، اگر اللہ کی ذات بھی مرکب ہو تو، مجبوراً اس کی ذات ان اجزا کی ضرورتمند ہوگی، اور ہر وہ ذات جو محتاج، ناقص اور بہت سے اجزا کا مجموعہ ہو، وہ واجب الوجودا ورخدا نہیں ہو سکتی ۔

دوسرے:

ہر مرکب علت کا محتاج ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے اجزائے ترکیبیہ ملیں اور اس کو تشکیل دیں، پہر علت آکر اس کو وجود میں لائے اگر خدا ایسا ہے تو اس کو اپنے وجود میں علت اور اجزائے ترکیبیہ کا محتاج ہونا لازم آئے گا، لہٰذا جو ذات ناقص اور اپنے وجود میں علت کی محتاج ہو، وہ واجب الوجود خدا نہیں ہو سکتی ۔

۲) خدا جسم نہیں رکھتا:

اجزا سے مرکب چیز کو جسم کہتے ہیں، اور اوپر بیان ہوا کہ خدا مرکب نہیں ہے، لہذا وہ جسم بھی نہیں رکھتا ہے ۔

دوسرے:

ہر جسم کے لئے ایک جگہ و مکان کا ہونا ضروری ہے، اور بغیر مکان کے جسم نہیں رہ سکتا، جب کہ خداوند عالم خود مکان کو پیدا کرنے والا ہے اس کا ضرورتمند و محتاج نہیں ہے اگر خدا جسم رکھے اور مکان کا محتاج ہو تو وہ خدا واجب الوجود نہیں ہو سکتا ہے ۔

۳) خدا مرئی نہیں:

خدا دکھائی نہیں دے سکتا ہے، یعنی اس کو آنکھ کے ذریعہ کوئی دیکھنا چاہے تو ممکن نہیں، اس لئے کہ دکھائی وہ چیز دیتی ہے جو جسم رکھے اور خدا جسم نہیں رکھتا ہے لہذا اس کو نہیں دیکھا جا سکتا ۔

۴) خدا جاہل نہیں ہے:

جیسا کہ صفات ثبوتیہ میں بیان ہوا، خدا ہر چیز کا عالم ہے، اور اس کے علم کے لئے کسی طرح کی قید و شرط و حد بندی نہیں ہے، اور جہالت و نادانی عیب و نقص ہے اور خداوند عالم وجود مطلق عیب و نقص سے پاک ہے۔

۵) خدا عاجز و مجبور نھیں:

پھلے بھی صفات ثبوتیہ میں گذر چکا ہے کہ خدا ہر کام کے کرنے پر قادر اور کسی بھی ممکن کام پر مجبور و عاجز نہیں ہے اور اس کی قدرت کے لئے کسی طرح کی کوئی مجبوری نہیں ہے اسلئے کہ عاجزی و مجبوری نقص ہے اور خدا کی ذات تمام نقائص سے مبراو منزہ ہے۔

۶) خدا کیلئے محل حوادث نھیں:

خداوند عالم کی ذات میں کسی طرح کی تبدیلی و تغییر ممکن نہیں ہے جیسے کمزوری، پیری، جوانی اس میں نہیں پائی جاتی ہے، اس کو بھوک، پیاس، غفلت اور نیند نیز خستگی وغیرہ کا احساس نہیں ہوتا، اسلئے یہ تمام چیزیں جسم و مادہ کے لئے ضروری ہیں اور پھلے گذر چکا ہے کہ خدا جسم و جسمانیات سے پاک ہے لہٰذا خدا کی ذات محل حوادث یعنی تغیر و تبدیلی کی حامل نہیں ہے ۔

۷) خدا کا شریک نھیں:

اس مطلب کی دلیلیں توحید کی بحث میں ذکر کی جائیں گی ۔

۸) خدا مکان نہیں رکھتا:

خدا وند عالم کسی جگہ پر مستقر نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ ہی آسمان میں کیونکہ وہ جسم نہیں رکھتا، اس لئے مکان کا محتاج نہیں ہے ۔

خدا نے مکان کو پیدا کیا،اور خود ان مکانات سے افضل و برتر،نیز تمام موجودات پر احاطہ کئے ہوئے ہے، کوئی جگہ اس کے وجود کو نہیں گھیر سکتی وہ تمام جگہ اور ہر چیز پر تسلط رکھتا ہے، اس کا ہر گز یہ مفھوم نہیں ہوتا کہ اس کا اتنا بڑا جسم ہے، جو اس طرف سے لے کر اس طرف تک پورا گھیرے ہوئے ہے، بلکہ اس کا وجود، وجود مطلق ہے یعنی اس میں جسم و جسمانیات کا گذر نہیں ہے، اور نہ اس کے لئے کوئی قید و شرط (یہاں رہے یا اس وقت وہاں رہے) پائی جاتی ہے لہذا کسی جگہ کا وہ پابند نہیں تمام موجودات پر احاطہ رکھتا ہے، کوئی چیز اس کے دست قدرت سے خارج نہیں ہے، لہذا اس کے لئے یہاں اور وہاں کھنا درست نہیں ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہر دعا کے وقت ہاتھوں کو کیوں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں؟ آسمان کی طرف ہاتھوں کے اٹھانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خداوند عالم کی ذات والا صفات آسمان پر ہے، بلکہ ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرنے سے مراد درگاہ خدا میں فروتنی و انکساری و عاجزی و پریشانی کے ساتھ سوال کرنا ہے ۔

مسجد اور خانہ کعبہ کو خدا کا گہر کیوں کہتے ہیں؟ اس لئے کہ وہاں پر خدا کی عبادت ہوتی ہے، اور خدا نے اس مقام کو اور زمینوں سے بلند و برتر و مقدس بنایا ہے (جیسے خداوند عالم نے مومن کے دل (قلب) کو اپنا گہر کہاہے اور کھتا ہے خدا ہر جگہ و ہر طرف موجود ہے،( فَاَینَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجهُ اللّٰهِ ) (۱۴)

۹) خدا محتاج نھیں:

خداوند عالم کسی شی کا محتاج نہیں ہے، اس لئے کہ اس کی ذات ہر جھت سے کامل و تام ہے اس میں نقص اور کمی موجود نہیں ہے جو کسی چیز کا محتاج ہو اور اگر محتاج ہے تو پہر واجب الوجود خدا نہیں ہو سکتا ہے ۔

پہر خداوند عالم نے ہمارے لئے روزہ و نماز جیسے فریضہ کو کیوں واجب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ خدا کی ذات ناقص ہے اور ان عبادتوں کے ذریعہ اپنی کمی کو پورا کرنا چاہتا ہے، بلکہ خدا کا مطمحِ نظر یہ ہے کہ انسان عبادت کرے اور اپنے نفس کو نورانی اور کامل کرکے اس کی ہمیشہ آباد رہنے والی جنت کے لائق ہو جائے ۔

خدا جو ہم سے چاہتا ہے کہ ہم خمس و زکواة و صدقہ دیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا غریب و فقیر، ضرورتمندوں کی مدد اور ان پر احسان کرنا چاہتا ہے، تاکہ لوگ نیکی و احسان میں آگے آگے رہیں، اس وجہ سے نہیں کہ ہماری معمولی اور مادی مدد سے وہ خود اپنی ضرورت کو پورا کرے کیونکہ خود یہ خمس و زکات اور صدقات ہمارے سماج کی اپنی ضرورت ہے اور لوگوں کے فائدے کے مدنظر بعض کو واجب قرار دیا اور بعض کو مستحب، لیکن ہر ایک کا مصرف انھیں ضرورتمند افراد کو قرار دیا ہے، قطع نظران چیزوں کے، اگر ہم غور و فکر کریں کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنا مجبوروں اور غریبوں پر احسان و مدد کرنا اور سماج کی ضروریات کو پورا کرنا (جیسے مسجد و امام بارگاہ و مدرسہ کی تعمیر کرنا) خود ایک بھترین عبادت اور نفس کو منزل کمال پر پھنچانے اور آخرت میں منزل مقصود تک پھونچنے کا بھترین راستہ ہے ۔

۱۰) خدا ظالم نھیں:

اس کی دلیل عدل کی بحث میں ذکر کی جائیگی ۔

توحید

الله تبارک و تعاليٰ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے اس نے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے، اس کے علاوہ کوئی خالق اور پیدا کرنے والا نہیں اور نہ ہی اس نے کسی کی مدد سے خلق کیا ہے اسی سلسلہ میں چند دلیلوں کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہاہے ۔

پہلی دلیل

اگر دو خدا (یا اس سے زیادہ) ہوتے تو چند حالتیں ممکن ہیں ۔

پہلی حالت یہ کہ دونوں نے (دنیا) موجودات کو مستقل علیحدہ علیحدہ خلق کیا ہے، دوسری حالت یہ کہ ایک دوسرے کی مدد سے دنیا کو خلق کیا ہے، تیسری حالت یہ کہ دونوں نے دنیا کو دو حصوں میں خلق کیا ہے لیکن ایک دوسرے کی خدائی میں دخالت کرتے ہیں ۔

پہلی حالت

دونوں نے دنیا کو مستقل علیحدہ علیحدہ خلق کیا ہے (یعنی ہر چیز دو دفعہ خلق ہوئی ہے) اس کا باطل ہونا واضح ہے ۔

الف) چونکہ ہر ایک شخص میں ایک وجود سے زیادہ وجود نہیں پایا جاتا ہے اس لئے ایک سے زیادہ خدا کا تصور نہیں ہے ۔

ب) ایک خدا نے کسی چیز کو پیدا کیا اور پہر دوسرا خدا اگر دو بارہ اس کو خلق کرے اس کو علماء کی اصطلاح میں تحصیل حاصل کہتے ہیں، (کہ ایک چیز موجود ہو پہر اس کو حاصل کیا جائے) ۔

ج) یا حکماء اور فلاسفر کی اصطلاح میں ایک معلول (موجود) میں دو علت تامہ اثر گذاری کریں محال ہے یعنی ایک موجود کو خلق کرنے میں دو علت ایک وقت میں کار فرما ہو محال و باطل ہے۔

دوسری حالت

ان دونوں خدا نے ایک دوسرے کی مدد (شرکت) سے موجودات کو خلق کیا ہے، یعنی ہر موجود دو خدا کی مخلوق ہو اور دونوں آدھے آدھے برابر کے شریک ہوں یہ احتمال بھی باطل ہے ۔

الف: دونوںخدا ایک دوسرے کے محتاج تھے یعنی تنھاموجودات کو خلق کرنے سے عاجز و مجبور تھے تو یہ بحث پھلے گذرچکی ہے کہ خدا عاجز و محتاج نہیں ہے ۔

ھو سکتا ہے کوئی کھے دونوں خلق پر قادر ہیں لیکن پہر بھی دونوں شریک ہو کر موجودات کو وجود میں لاتے ہیں یہ بھی باطل ہے کیونکہ دو فاعل کسی کام پر قادر ہوتے ہوئے پہر بھی تنھاکسی کام کو انجام نہ دیں اس میں چند صورتیں ممکن ہیں:

الف) یا دونوں بخل کر رہے ہیں جو کہ نصف نصف پر کام کرتے ہیں یعنی چاہتے ہیں کہ زیادہ خرچ نہ ہو ۔

ب) یا دونوں آپس میں ڈرتے ہیں اور اس ڈر کی بنا پر کم خرچ کر رہے ہیں۔

ج) یا دونوں مجبوراً آپس میں شریک ہیں ۔

جواب یہ ہے:

الف) خداوند عالم محتاج و نیاز مند نہیں ہے ۔

ب) دونوں دنیا کے خلق کرنے کی مصلحت اور اس کا علم رکھتے ہیں اور اس کی پیدائش پر قدرت بھی رکھتے ہیں اور ان کی قدرت و علم عین ذات بھی ہے، اور اسی کے ساتھ بخل و کنجوسی بھی پائی جاتی ہے جو خدا کی ذات کے لئے اور مناسب نہیں ہے۔

ج) کوئی کام ایک دوسرے کے تحت خوف سے کرتے ہیں تو یہ، شانِ خدا کے بر خلاف ہے کیونکہ جو خدا ہوتا ہے وہ متاثر و عاجز نہیں ہو سکتا ہے ۔

د) دونوں عالم و قادر اور بخیل و عاجز نہیں ہیں تو چاہے موجود میں فقط ایک علت ہو اپنی مرضی کے مطابق کوئی ایک دنیا اور بنائیں ۔

ان باتوں سے سمجھ میں آتا ہے دونوں کو چاہیے اپنی قدرت و علم کے تحت دو دنیا بنائیں اور اس سے پھلے ثابت ہوچکا ہے کہ ایک معلول میں دو علت کااثر اندازھونا باطل و محال ہے ۔

تیسری حالت

دونوں (مفروض) خدا دنیا کو نصف نصف تقسیم کر کے اپنے اپنے حصہ میں مستقلا موجودات کو خلق کرے (اورمثل بادشاہوں کے اپنے حصہ میں حاکم بنے رہیں، ایسا فرض ہی باطل ہے اس لئے کہ دو خدا نہیں ہو سکتے اور نہ دنیا کے دو حصے ہوسکتے ہیں) اور ایک دوسرے کے حصے میں دخالت کرے یہ احتمال بھی باطل ہے، اس لئے کہ ہر وہ فرضی خدا آپس میں مستقلاً ایک دوسرے کے حصہ میں دخالت (خلق) کی صلاحیت رکھتے ہیں تو چاہیے کہ جدا اور اسے الگ خلق کرے ورنہ اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ دو علت ایک معلول میں موثرہوگی، جب کہ اس کا بطلان پھلے گذر گیا ہے یا اگرصلاحیت و استعداد نہیں رکھتا یا خلق پر قادر نہیں ہے یا کنجوسی کر رہاہے تو وہ ناقص ہے اور ناقص، خدائی کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے ۔

دوسری دلیل

اگر خدا کسی موجود کو پیدا کرے اور دوسرا اس موجود کو تباہ کرنے کا ارادہ کرے تو کیا پہلا خدا اپنی خلق کی ہوئی چیز کا دفاع کر سکتا ہے؟ اور دوسرے کے شر سے اس کو محفوظ رکھ سکتا ہے؟ اگر پہلا اپنی موجودہ چیز کی حفاظت نہیں کر سکتا تو عاجز ہے اور عاجز خدا نہیں ہو سکتا، اور اگر یہ دفاع کر سکتا ہے تو دوسرا خدا نہیں ہو سکتا اس لئے کہ عاجز ہے اور عاجز خدا نہیں ہو سکتا ہے ۔

نتیجہ

ہم خدا کو ایک اور لا شریک موجودات کو خلق کرنے والا جانتے ہیں اور اس کے علاوہ جو بھی ہو اس کو ناتوان، مجبور و عاجز اور مخلوق شمار کرتے ہیں، ہم فقط اللہ تبارک و تعاليٰ کو لائق عبادت جانتے ہیں کسی دوسرے کے لئے سجدہ نہیں کرتے اور نہ ہی کسی اور کے لئے جھکتے ہیں ہم آزاد ہیں اپنی آزادی کو کسی کے حوالے نہیں کرتے اور کسی کی بے حد و انتھاتعریف نہیں کرتے اور چاپلوسی کو عیب جانتے ہیں ۔

ہم انبیاء اور ائمہ (ع) کا احترام اور ان کے بیان کئے گئے احکام کی پیروی اس لئے کرتے ہیں کہ خدا نے ان کو واجب الاحترام اور واجب الاطاعت قرار دیا ہے، یعنی ان کے احترام و اتباع کو واجب قرار دیا ہے، ان کے احکام و قوانین ہمیشہ خدا کے احکام کی روشنی میں رہے ہیں اور ان لوگوں نے کبھی بھی زیادتی اور اپنے حدود سے تجاوز نہیں کیا ہے، ہم انبیاء و ائمہ (ع) کے مرقد پر جاتے ہیں اور ان کے مزار و روضہ کا احترام کرتے ہیں، لیکن یہ پرستش اور ان کی بندگی کے عنوان سے نہیں بلکہ خدا کی بارگاہ میں بلند مقام اور پاکیزگی و بزرگی کا خیال رکھکران کی تکریم کرتے ہیں اور ان کے روضہ کی تعمیر اور ان کی فداکاری و جانثاری و قربانیوں کی قدر دانی کرتے ہیں، اور دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ جو شخص بھی اللہ کے راستے میں زحمت و مشقت کو برداشت کرے اور اس کے احکام و پیغام و ارشاد کو لوگوں تک پھنچائے، تو نہ اس دنیا میں بھلایا جائے گا اور نہ آخرت میں، ہم ان مقدس اللہ کے بندوں،پاک سیرت نمائندوں اور اس کے خاص چاہنے والوں کے حرم میں خداوند ذوالجلال کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی بخشش اور اپنی حاجت کی قبولیت اور رازونیاز کرتے ہیں، اور اپنی دعا و مناجات میں ان مقدس بزرگوں کی ارواح طیباہ کو خدا کے حضور میں واسطہ و وسیلہ قرار دیتے ہیں ۔

عدل

خداوند عالم عادل ہے یعنی کسی پر ظلم نہیں کرتا اور اس سے کوئی بُرا کام صادر نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے تمام کام میں حکمت اور مصلحت پائی جاتی ہے اچھے کام کرنے والوں کو بھترین جزا دے گا کسی چیز میں جھوٹ اور وعدہ خلافی نہیں کرتا ہے، کسی کو بے گناہ اور بے قصور جھنم میں نہیں ڈالے گا، اس مطلب پر دو دلیل پیش خدمت ہے ۔

پہلی دلیل

جو شخص ظلم کرتا ہے یا برے کام کو انجام دیتا ہے اس کی صرف تین صورتیں پائی جاتی ہیں(۱۵) یا وہ اس کام کی اچھائی اور برائی سے واقف نہیں ہے اس وجہ سے ظلم و زیادتی انجام دیتا ہے(۱۶) یاوہ اس کام کی اچھائی اور برائی سے واقف و آگاہ ہے لیکن جو چیزیں دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھتا ہے چونکہ اس کے پاس وہ شی نہیں ہوتی اس لئے اس کو لینے کے لئے ان پر ظلم کرتا ہے تا کہ ان کے اموال کو لے کر فائدہ اٹھائے اپنے عیب و نقص (کمی) کو پورا کرے اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کام کرنے والوں (کارگروں) پر ستم کرتا ہے اور ان کے حقوق کو ضائع و برباد کرتا ہے اور خود قوی ہے اس لئے کمزوروں اور مجبوروں پر ظلم کرتا ہے، اور ان کے اموال و اسباب سے چاہتا ہے کہ اپنی کمی کو برطرف اور اپنے نقص کو پورا کرے(۱۷) یا ظلم و زیادتی سے آگاہی رکھتا ہے اس کو ان کی ضرورت بھی نہیں ہے، بلکہ انتقام اور بدلہ یا لھو و لعب کے لئے ایسا کام انجام دیتا ہے۔

عموما ًہر ظلم و ستم کرنے والے انھیں اسباب کی وجہ سے ان کاموں کے مرتکب ہوتے ہیں، لیکن خداوند عالم کی ذات اس سے منزہ اور پاکیزہ ہے، وہ ظلم و ستم نہیں کرتا اس لئے کہ جہالت و نادانی اس کے لئے قابل تصور نہیں ہے، اور وہ تمام چیزوں کی اچھائی اور برائی کی مصلحتوں سے خوب واقف ہے وہ ہر چیز سے مطلقا بے نیاز ہے، اس کو کسی کام اور کسی چیز کی ضرورت و حاجت نہیں ہے، اس سے لغو و بےھودہ کام بھی صادر نہیں ہوتا اس لئے کہ وہ حکیم ہے در نتیجہ اس کے پاس صرف عدالت ہی عدالت موجود ہے ظلم و ستم کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا ہے ۔

دوسری دلیل

ہماری عقل، ظلم و ستم کو ناپسند اور برا کھتی ہے اور تمام عقلمندوں کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ خداوند عالم نے اپنے بھیجے ہوئے انبیاء کو بھی لوگوں پر ظلم و ستم نیز برے کاموں کے انجام دینے سے منع فرمایا ہے، اس بنا پر کیسے ہو سکتا ہے کہ جس چیز کو تمام عقلمندافراد برا اور ناپسند کریں اور خدا اپنے بھیجے ہوئے خاص بندوں کو ان کاموں سے منع کرے اور خود ان غلط کاموں کو انجام دے ؟!

البتہ سماج اور معاشرے میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ تمام لوگ ہر جھت سے برابر نہیں ہیں، بلکہ بعض ان میں فقیر اور بعض غنی، بد صورت و خوبصورت، خوش فہم و نا فہم، سلامت و بیمار وغیرہ ان کے درمیان فرق پایا جاتا ہے ۔

بعض اشخاص پریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں یہ تمام کی تمام چیزیں بعض اسباب اور علتوں کی بنا پر انسان کے اوپر عارض ہوتی ہیں جس سے فرار اور چھٹکارا ممکن ہے، کبھی یہ اسباب طبعی علتوں کی بنیاد پر اور کبھی خود انسان ان میں دخالت رکھتا ہے لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود خدا کے فیض کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور ہر شخص اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق اس سے فیض حاصل کرتا ہے خداوند عالم کسی بھی شخص کو اس کی قدرت و طاقت سے زیادہ تکلیف و ذمہ داری نہیں دیتا، انسان کی کوشش اور محنت کبھی رائگاں نہیں ہوتی، ہر فرد بشر کی ترقی کے لئے تمام حالات و شرائط میں راستے کھلے ہوئے ہیں ۔


3

4

5

6

7