سبھي كے جاننے كي باتيں

سبھي كے جاننے كي باتيں0%

سبھي كے جاننے كي باتيں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

سبھي كے جاننے كي باتيں

مؤلف: ‏آیة الله ابراهیم امینی
زمرہ جات:

مشاہدے: 12123
ڈاؤنلوڈ: 2723

تبصرے:

سبھي كے جاننے كي باتيں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12123 / ڈاؤنلوڈ: 2723
سائز سائز سائز
سبھي كے جاننے كي باتيں

سبھي كے جاننے كي باتيں

مؤلف:
اردو

چھٹی فصل؛ فروع دین

خدا وند عالم نے ہماری زندگی کو صحیح راہ پر لگانے کے لئے خاص دستور العمل کو معین فرمایا ہے کہ اگر ہم اس پر عملی اعتبار سے پابند ہو جائیں تو ہماری دنیاوی زندگی بھترین اور بوجہ احسن گذرے گی، نیز آخرت میں بھی سعادت مند اور نجات یافتہ رہیں گے، ایسے احکام و قوانین کو فروع دین کہتے ہیں، فروع دین تو بھت زیادہ ہیں لیکن جن کا جاننا نہایت ضروری ہے ہم ان کو یہاں پر اجمالاً بیان کر رہے ہیں ۔ان میں سے مہم ترین فروع دین آٹھ ہیں: نماز، روزہ، زکوٰة، خمس، حج، جہاد، امر بالمعروف ونھی عن المنکر ۔

نماز

واجب نمازیں چھ ہیں:

۱۔ نماز پنجگانہ ۔

۲۔ نماز آیات (سورج گھن و چاند گھن)

۳۔ نماز میت۔

۴۔ نماز طواف۔

۵۔ وہ نمازیں جو قسم و نذر وغیرہ کی وجہ سے انسان اپنے اوپر واجب کرلے۔

۶۔ نماز قضاء والدین (جو نمازیں نافرمانی کی وجہ سے ترک نہ کی ہو بلکہ قضا کرنا چاہتا تھا لیکن اس کو انجام نہ دے سکا ہو) اس کی قضا انجام دینا بڑے فرزند پر واجب ہے ۔

نماز پنجگانہ

نماز دین کا ستون ہے، بندے کو خدا سے نزدیک کرتی ہے آنحضرت (ص) نے فرمایا: خدا کی قسم میری شفاعت نماز کو (حقیر) معمولی سمجھنے والے اور ترک کرنے والے کو نہیں پھونچے گی۔(۷۰)

تمام مسلمانوں کو پانچ وقت کی نماز پڑھنا واجب ہے، صبح کی دورکعت، ظہر کی چار رکعت، عصر کی چار رکعت، مغرب کی تین رکعت، اور عشا کی چار رکعت ۔

اوقات نماز

نماز صبح کا وقت، صبح صادق سے لے کر سورج نکلنے کے وقت تک ہے ۔

نمازظہر و عصر کا وقت سورج کے زوال سے لے کر غروب آفتاب تک ہے۔

نماز مغرب و عشا سورج ڈوبنے (مغرب) سے لے کر آدھی رات تک ہے آدھی رات جو تقریباً گیارہ بجکر ۱۵ منٹ پر ہوتی ہے ۔

وضو

وضو کا طریقہ

۱۔ پھلے نیت کرے کہ خدا کی خوشنودی کے لئے وضو انجام دیتا ہوں قربةً الی اللہ۔

۲۔ چہر ے پر بال اگنے کی جگہ سے ٹھڈی کے آخری حصے تک ۔

۳۔ داہنے ہاتھ کو کھنی سے لے کر انگلیوں کے آخری سرے تک (یعنی اوپر سے نیچے کی طرف) دھوئے ۔

۴۔ بائیں ہاتھ کو کھنی سے لے کر انگلیوں کے آخری سرے تک یعنی اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے ۔

۵۔ داہنے ہاتھ کی تری سے، سر کے اگلے حصہ پر اوپر سے نیچے کی طرف کھینچے۔

۶۔ اور داہنے ہاتھ کی بچی ہوئی تری سے داہنے پیر کی انگلیوں سے لے کر پیر کے ابھار تک کھینچے ۔

۷۔ بائیں ہاتھ سے بائیں پیر کی انگلیوں سے لے کر پیر کے ابھار کی جگہ تک کھینچے ۔

اذان

نماز سے پھلے اذان کھنا مستحب ہے، اس کی ترتیب یہ ہے:

اَللّٰهُ اَکبَرُ ۴ مرتبہ

اللہ سب سے بڑا ہے ۔

اَشهَدُ اَن لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُُ ۲ مرتبہ

میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ۔

اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰهِ ۲ مرتبہ

میں گواہی دیتا ہوں کی محمد (ص) بن عبد اللہ، اللہ کے رسول ہیں۔

حَی عَليٰ الصَّلٰوةِ ۲ مرتبہ

نماز کے لئے جلدی کرو ۔

حَی عَليٰ الفَلَاحِ ۲ مرتبہ

کامیابی کے لئے جلدی کرو ۔

حَی عَليٰ خَیرِ العَمَلِ ۲ مرتبہ

بھترین عمل کے لئے جلدی کر و

اَللّٰهُ اَکبَرُ ۲ مرتبہ

خدا اس سے بزرگ و برتر ہے کہ اس کی توصیف کی جائے ۔

لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ۲ مرتبہ

خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ۔

اقامت

نماز کے لئے اذان کے بعداقامت کھنا مستحب ہے،اس کی ترتیب یہ ہے:

اَللّٰهُ اَکبَرُ ۲ مرتبہ

خدا اس سے بزرگ و برتر ہے کہ اس کی توصیف کی جائے ۔

اَشهَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ۲ مرتبہ

میں گواہی دیتا ہوں کہ خداکے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ۔

اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداًرَسُولُ اللّٰهِ ۲ مرتبہ

میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ص) خدا کے بھیجے ہوئے رسول (ص) ہیں۔

حَی عَليٰ الصَّلٰوةِ ۲ مرتبہ

نماز کے لئے جلدی کرو

حَی عَلَيٰ الفَلاَحِ ۲ مرتبہ

کامیابی کے لئے جلدی کرو

حَی عَلَيٰ خَیرِ العَمَلِ ۲ مرتبہ

بھترین عمل کے لئے جلدی کرو ۔

قَد قَامَتِ الصَّلَوٰةُ ۲ مرتبہ

نماز قائم ہوگئی ۔

اَللّٰهُ اَکبَرُ ۲ مرتبہ

اللہ سب سے بڑا ہے۔

لَااِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ۱ مرتبہ

خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ۔

نماز پڑھنے کا طریقہ

نماز میں چند چیزوں کا انجام دینا ضروری ہے:

۱۔ نیت:

قبلہ رخ کھڑے ہونے کے بعد (قصد) نیت کریں میں دو رکعت نماز صبح پڑھتا ہوں واجب قربة ً الی اللہ ۔

۲۔ تکبیرة الاحرام:

نیت کے بعد ہاتھوں کو کان کی لو تک لیجا کر کھیں” اللہ اکبر“ پہر ہاتھوں کو نیچے لائیں ۔

۳۔ قرائت:

تکبیرة الاحرام کے بعد سورہ حمد کو شروع کریں:

( بِسمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ اَلحَمدُ لِلّٰهِ رَبِّ العٰالَمِینَ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ مَالِكِ یومِ الدِّینِ اِیاكَ نَعبُدُ وَاِیاكَ نَستَعِینُ اهدِنَاالصِّرَاطَ المُستَقِیمَ صِرَاطَ الَّذِینَ اَنعَمتَ عَلَیهم غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیهم وَلَا الضَّالِّینَ ) ۔

ترجمہ:

خداوند رحمن و رحیم کے نام سے (شروع کرتا ہوں) ساری تعریفیں اس خدا کے لئے مخصوص ہیں جو جہانوں کو پالنے والا ہے، جو دنیا میں سب پر رحم، اور آخرت میں صرف مومنین پر رحم کرنے والا ہے، قیامت اور جزا کے دن کا مالک ہے، پروردگار صرف تیری عبادت کرتے ہیں، اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں، ہم کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ، ایسے لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اپنی نعمتیں نازل کی ہیں، ان لوگوں کا راستہ نھیں، جن پر تو نے غصب نازل کیا ہے اور گمراہوں کا راستہ ۔

نکتہ ۱) سورہ حمد پڑھنے کے بعد قرآن مجید سے کوئی ایک سورہ پڑھیں مثلا سورہ توحید اس طرح:

بِسمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ قُل هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ اَللّٰهُ الصَّمَدُ لَم یلِد وَلَم یولَد وَلَم یكُن لَّه كُفُواً اَحَدٌ

ترجمہ:

اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو رحمن و رحیم ہے، اے پیغمبر ! کہہ دیجئے وہ خدا یکتا ہے، وہ خدا سب سے بے نیاز ہے مگر سب اس کے نیاز مند ہیں، کوئی اس سے نہیں پیدا ہواہے اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہےاور کوئی اس کا مثل و نظیر نہیں ہے ۔

نکتہ ۲) مردوں پر واجب ہے کہ نماز صبح و مغرب و عشا میں سورہ حمد اور دوسرا سورہ بلند آواز سے پڑھیں ۔

نکتہ ۳) تکبیرة الاحرام (اللہ اکبر) کہتے وقت ہاتھوں کا کان کی لو تک اٹھانا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے ۔

۴۔ رکوع:

سورہ حمد اور دوسرے سورہ کے بعد رکوع میں جائیں، یعنی اس انداز میں جھک جائیں کہ ہاتھ دونوں گھٹنوں تک پھنچ جائے اور پہر پڑھیں:

سُبحَانَ رَبِّی العَظِیمِ وَ بِحَمدِه

یا تین مرتبہ کھیں ”سُبحَانَ اللّٰہ“ِیعنی میرا عظیم پروردگار ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے اور میں اس کی حمد و ثنا، کرتا ہوں، رکوع کے بعد سیدھے کھڑے ہوجائیں اور کھڑے ہو کر کھیں:”سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہ “ (خدا وند عالم اپنے بندے کی حمد وثنا قبول کرنے والا ہے) پڑھنا مستحب ہے ۔

۵۔ سجدہ:

رکوع کے بعد سجدہ میں جائیں یعنی پیشانی کو زمین پر یا جو چیز اس سے اگتی ہے (لیکن کہانے اور پھننے والی نہ ہو) اس پر رکھیں اور حالت سجدہ میں پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ھتھیلی اور دونوں گھٹنے دونوں انگوٹھے کے سرے کو زمین پر رکھیں پہر پڑھیں: ”سُبحَانَ رَبِّی الاَعلَيٰ وَبِحَمدِه “یا تین مرتبہ ”سبحَانَ اللّٰه ِ “ (میرا پروردگار ہر ایک سے بالا وبرتر ہے اور ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے اور میں اس کی حمد کرتا ہوں) پڑھیں ۔ پہر سجدہ سے سر اٹھائے اور تھوڑا ٹھہر کر پہر دوبارہ سجدہ میں جائیں اور سجدہ دوم سے سر اٹھا کر تھوڑی دیر بیٹھیں اور دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو جائیں اور کھڑے ہوتے وقت پڑھیں ” بِحَولِ للّٰہِ وَقُوَّتِہ اَقُومُ وَاَقعُدُ“میں اللہ تبارک وتعاليٰ کی قدرت و مدد سے کھڑا ہوتا اور بیٹھتا ہوں، کھنا مستحب ہے جب سیدھے کھڑے ہوگئے تو مطمئن ہو کر الحمد اور دوسرا سورہ پہلی رکعت کی طرح پڑھیں ۔

۶۔ قنوت:

سورہ حمد اور دوسرے سورہ سے فارغ ہونے کے بعد دونوں ہاتھوں کو چہر ے کے سامنے لا کر قنوت (دعا) پڑھیں: ”( رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنیا حَسَنَةً وَفِی الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ) “ (اے پروردگار! دنیا اور آخرت میں ہم کو حسنہ مرحمت فرما اور جھنم کے عذاب سے بچا) دونوں ہاتھوں کو نیچے لائیں اور مثل سابق رکوع کریں۔

توجہ:

قنوت پڑھنا واجب نہیں بلکہ مستحب اور فضیلت و ثواب کا باعث ہے ۔

۷۔ تشھد:

تمام نمازوں میں دوسری رکعت کے کامل کرنے کے بعد دوسرے سجدہ سے سر اٹھا کر بیٹھ جائیں اور اس طریقے سے تشھد پڑھیں: ”اَلحَمدُ لِلّٰهِ اَشهَدُ اَن لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحدَه لَا شَرِیكَ لَه وَاَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبدُه وَرَسُولُه اَللّٰهم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ “ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی پرستش کے قابل نہیں ہے وہ یگانہ ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ص) خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں خداوند عالم محمد (ص) اور ان کی آل پر درود بھیج ۔

توجہ:

نماز مغرب میں پھلے تشھد کے بعد سلام نہیں پڑھنا چاہیے بلکہ کھڑے ہوجائیں اور کھڑے ہوکر اطمینان کی حالت میں تیسری رکعت کو شروع کریں پہر رکوع و سجود و تشھد کے بعد سلام پڑھیں، اور نماز ظہر و عصر و عشا میں پھلے تشھد کے بعد سلام نہیں پڑھیں گے بلکہ کھڑے ہو کر تیسری اور چوتھی رکعت انجام دینے کے بعد بیٹھ کر تشھد و سلام پڑھا جائے گا ۔

۸۔ سلام:

نماز صبح میں تشھد کے بعد سلام اس طرح سے پڑھیں:

اَلسَّلَامُ عَلَیكَ اَیهَا النَّبِی وَرَحمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُه

اَلسَّلَامُ عَلَینَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِینَ

اَلسَّلاَمُ عَلَیكُم وَرَحمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُه

اے نبی (ص)! آپ پر سلام اور خدا کی رحمت و برکت ہو ہم پر اور خدا کے تمام نیک بندوں پر سلام ہو، اے نماز تم پر سلام اور خدا کی رحمت و برکتیں ہوں ۔

۹۔ تسبیحات اربعہ:

نماز مغرب کی تیسری اور نماز عشا ظہر و عصر کی تیسری و چوتھی رکعت میں سورہ حمد کے بجائے تسبیحات اربعہ پڑھیں گے:

سُبحَانَ اللّٰهِ وَالحَمدُ لِلّٰهِ وَلَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکبَرُ

خداوند عالم پاک ومنزہ ہے حمد و ثنا اس کے لئے مخصوص ہے اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں خدا اس سے کھیں بزرگ ہے کہ اس کی تعریف کی جائے ۔

توجہ:

نماز پڑھنے والے کا جسم و لباس پاک ہونا چاہیے اور لباس کے پاک ہونے کے ساتھ مباح اور حرام گوشت رکھنے والے جانور یا مردار کی جلد اور کہال سے بنا ہوا نہیں ہونا چاہیے ۔

توجہ:

نماز پڑھنے والی عورت، جنابت و حیض و استحاضہ و نفاس سے اور مرد جنابت سے پاک ہو ۔

نماز کے ارکان

نماز کے پانچ ارکان ہیں:

۱۔ نیت۔

۲۔ تکبیرة الاحرام۔

۳۔ قیام، تکبیرة الاحرام کہتے وقت اور رکوع میں جانے سے پھلے جس کو قیام متصل بہ رکوع کہاجاتا ہے یعنی رکوع سے پھلے کھڑے ہونا ۔

۴۔ رکوع۔

۵۔ دونوں سجدے عمداً و سھواً یا ان ارکان کو کم یا زیادہ کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے ۔

نماز کو باطل کرنے والی چیزیں ان کاموں کو انجام دینے سے نماز باطل ہوجاتی ہے:

۱۔ چاہے عمداً ہو یا سھواً وضو کے ٹوٹ جانے سے نماز باطل ہوجاتی ہے ۔

۲۔ جان بوجھ کر دنیا کے متعلق گریہ کرنا ۔

۳۔ عمداًقہقہ کے ساتھ ھنسنا ۔

۴۔ جان بوجھ کر کہانا اور پینا ۔

۵۔ بھول کر یا جان بوجھ کر کسی رکن کو کم یا زیادہ کردینا ۔

۶۔ حمد کے بعد آمین کھنا ۔

۷۔ سھواً یا عمداً قبلہ کی طرف پیٹھ کرنا ۔

۸۔ بات کرنا ۔

۹۔ ایسا کام کرنا جس سے نماز کی صورت ختم ہو جائے جیسے تالی بجانا اوراچھلنا، کودنا وغیرہ۔

۱۰۔ پیٹ پر ہاتھ باندھنا (اہل سنت کی طرح) ۔

۱۱۔ دو رکعتی یا تین رکعتی نماز کی رکعتوں میں شک کرنا ۔

مسافر کی نماز

ان شرائط کے ساتھ مسافر کو چاہیے کہ چار رکعتی نماز کو دو رکعت پڑھے:

۱۔ آٹھ فرسخ جانے کا ارادہ رکھتا ہو ( ۴۳ کلو میٹر) یا چار فرسخ جائے اور واپس آئے ۔

۲۔ کثیر السفر نہ ہو، یعنی ڈرائیور یا ملاح (ناؤ چلانے والے) کے مانند نہ ہو کہ اس کا کام ہی سفر میں رہتا ہے ۔

۳۔ تاجر نہ ہو کہ سفر کی حالت میں تجارت کرتا ہو ۔

۵۔ اس کا سفر کسی حرام کام کے لئے نہ ہو، جیسے سفر کرے چوری یا مومن کے قتل کرنے کے لئے اسی طرح عورت بغیر شوہر کی اجازت کے گہر سے باہر نکلے یا بیٹا اور بیٹی اپنے والدین کی اجازت کے بغیر فرار کریں ۔

۶۔ آٹھ فرسخ سے پھلے اس کا وطن یا دس دن قیام نہ کرے ۔

نکتہ ۱) جو مسافر سفر میں ایک جگہ دس دن رہنے کا ارادہ رکھے تو جب تک وہاں پر قیام ہے نماز پوری پڑھے اور وہ مسافر جو تیس دن تک متردد حالت میں رہ رہاہو تیسویں دن کے بعد چاہیے کہ نماز کو پوری پڑھے ۔

نکتہ ۲) جو شخص سفر کا ارادہ رکھتا ہے اپنے وطن سے یا رہنے کی جگہ سے اس کو چاہیے کہ حد ترخص کے بعد نماز کو قصر اور روزہ کو افطار کرلے اس سے پھلے نماز قصر اور روزہ باطل نہیں کرنا چاہیے (حدِّ ترخص) مسافر اپنے گہر سے اس قدر دور نکل جائے کہ شہر کی آوازِ آذان سنائی نہ دے اور نہ ہی

شہر کی دیوار دکھائی دے، اس سے پھلے وہ شخص شرعی مسافر نہیں ہے ۔

نماز آیات

نماز آیات پڑھنے کا وقت سورج گھن، چاند گھن، زلزلہ اور غیر عادی حادثہ جس سے اکثر لوگ خوف محسوس کریں مثلاً سیاہ و سرخ آندھی اس وقت ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ نماز آیات بجالائے ۔

نماز آیات کا طریقہ

۱۔ وضو کے بعد قبلہ رخ کھڑا ہوکر نیت کرے کہ میں نماز آیات پڑھتا ہوں (قُربَةً اِلَی اللّٰہِ)

۲۔ نیت کے بعد دونوں ہاتھوں کو کانوں کے برابر لے جا کر کھے ” اللہ اکبر“۔

۳۔ سورہ حمد اور دوسرا سورہ پڑھے پہر رکوع میں جائے اور ذکر رکوع کو بجا لائے ۔

۴۔ رکوع سے سر اٹھا کر سورہ حمد اور دوسرا سورہ پڑھے پہر رکوع میں جائے اسی طرح انجام دے یہاں تک کہ پانچ سورہ حمد اور پانچ رکوع تمام ہوجائے ۔

۵۔ پانچویں رکوع کے بعد سجدہ میں جائے اور نماز پنجگانہ کی طرح دو سجدہ بجالائے ۔

۶۔ دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے اور رکعت اول کی طرح اس کو بھی بجا لائے اور پانچویں رکوع کے بعد سجدہ بجالائے ۔

۷۔ دونوں سجدہ کے بعد تشھد اور سلام پڑھکر نماز تمام کرے ۔

توجہ:

نماز آیات کا وقت سورج اور چاند گھن کے وقت سے شروع ہوجاتا ہے یہاں تک کہ یہ گھن ختم ہوجائے لیکن اور دوسری نماز آیات (جیسے زلزلہ و سیاہ و سرخ آندھی) جس وقت بھی پڑھیں، ادا ہے ۔

روزہ

اسلام کے اہم واجبات میں سے روزہ ہے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی (ص) نے فرمایا: روزہ جھنم کی آگ کے مقابلہ میں ڈھال ہے۔(۷۲)

خدا وند تبارک و تعاليٰ فرماتا ہے: روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کا اجر دوںگا ۔(۷۳) یہ عظیم عبادت اپنے دامن میں بھت زیادہ فوائد رکھے ہوئے ہے، ڈاکٹری تحقیق کے مطابق پیٹ کی مشینوں کے لئے آرام کا باعث ہے، اور انسان کی سلامتی کے لئے مفید ہے اور اخلاقی اعتبار سے دشواری اور سختی کے وقت صبر و استقامت بخشتا ہے اور امیروں کو ناتواں اور مفلوک الحال افراد کے بارے میں غور و فکر کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔

امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: روزہ واجب ہے تاکہ پیسے والے، بھوک کا مزہ چکھیں،

مجبوروں اورغریبوں کے حال پر غور و فکر کریں (نیز) ان کے ساتھ احسان و بخشش کریں ۔(۷۴)

تمام مسلمانوں پر رمضان کے مھینے کا روزہ کھنا واجب ہے، یعنی صبح صادق سے لے کر مغرب تک تمام وہ کام جو روزہ کو باطل کر تے ہیں ان سے اجتناب و پرہیز کرے اور روزہ کو باطل کرنے والے امور یہ ہیں:

۱۔ کہانا اور پینا۔

۲۔ غلیظ گرد و غبار کا حلق تک پھنچانا ۔

۳۔ قے کرنا۔

۴۔ جماع (عورت سے ہمبستری کرنا)

۵۔ حقنہ کرنا۔

۶۔ پانی میں سر ڈبونا۔

۷۔ اللہ اور اس کے رسول (ص) پر جھوٹا الزام لگانا۔

۸۔ استمناء (منی نکالنا)

۹- صبح کی اذان تک جنابت و حیض و نفاس پر باقی رہنا ۔

نکتہ:

اگر یہ روزہ توڑنے والی چیزیں عمداً واقع ہو تو روزہ باطل ہوجاتا ہے

لیکن اگر بھول چوک یا غفلت کے سبب واقع ہو تو روزہ باطل نہیں ہوتا ہے سوائے جنابت و حیض و نفاس پر باقی رہنے کے، کہ اگر سھواً اور غفلت کی وجہ سے بھی ہو، تو بھی روزہ باطل ہے ۔

وہ افراد جو روزہ کو توڑ سکتے ہیں ۱۔ بیمار: جس پر روزہ رکھنا ضرر کا باعث ہو ۔

۲۔ مسافر، انھیں شرائط کے ساتھ جو مسافر کی نماز کے متعلق بیان ہوئی ہیں۔

۳۔ وہ عورت جو ماہواری (حیض کی حالت میں) یا نفاس میں ہو ۔

نکتہ:

ان تینوں قسم کے افراد کو چاہیے کہ اپنے روزہ کو توڑدیں اور عذر کو بر طرف ہونے کے بعد روزہ کی قضا کریں ۔

۴۔ حاملہ عورتیں جن کا وضع حمل قریب ہو اور روزہ خود اس کے لئے یا اس کے بچے کے لئے ضرر کا باعث ہو ۔

۵۔ بچے کو دودھ پلانے والی عورتیں جسکو روزہ رکھنے سے دودھ میں کمی آتی ہو اور بچہ کی تکلیف کا سبب ہو۔

۶۔ بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں جن پر روزہ رکھنا سخت اور دشوار ہے ۔

نکتہ ۱) یہ عورتیں عذر کے زائل ہونے کے بعد اپنے روزے کی قضا اور تین پاؤ گیھوں فقیر کو دیں گی ۔

نکتہ ۲) اگر یہ لوگ رمضان کے بعد بآسانی روزہ رکھ سکتے ہوں تو قضا کریں، لیکن اگر ان پر روزہ رکھنا دشواری کا باعث ہے تو قضا واجب نہیں ہے، لیکن ہر روزہ کے بدلے تین پاؤ گیھوں فقیر کو دیں۔

نکتہ ۳) جو شخص عذر شرعی کے بغیر ماہ رمضان کے روزہ کو توڑ دے تو اسے چاہیے کہ اس کی قضا کرے اور ہر روزہ کے بدلے ساٹھ روزہ رکھے یا ساٹھ فقیروں کو کہانا کھلائے ۔

زکوٰة

اسلام کی واجب چیزوں میں سے زکواة ہے، حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا: جو شخص اپنے مال کی زکواة نہ دے وہ نہ مومن ہے اور نہ ہی مسلمان ہے(۷۵)

اور امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: خداوندعالم نے قرآن مجید میں زکواة کو نماز کے ساتھ ذکر کیا ہے، جو شخص نماز پڑھے مگر زکواة نہ دے اس کی نماز قبول نہیں ہے(۷۶)

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں: اگر تمام لوگ اپنے مال کی زکواة ادا کرتے تو (دنیا) میں کوئی فقیر نہ ہوتا(۷۷)

زکوٰة ( ۹) چیزوں پر واجب ہے ( ۱) گیھوں ( ۲) جو ( ۳) کھجور ( ۴) کشمش ( ۵) گائے بھینس ( ۶) بھیڑ بکری ( ۷) اونٹ ( ۸) سونا ( ۹) چاندی ۔

دین اسلام نے ان چیزوں کے لئے ایک حد و مقدار بیان فرمائی ہے اگر اس حد تک پھنچ جائے تو اس میں زکوٰة دینا واجب ہوگی اگر اس مقدار تک نہ پھونچے تو اس پر زکوٰة واجب نہ ہوگی اس حد کو نصاب کہتے ہیں ۔

گیھوں، جو، کھجور اور کشمش: ان چار چیزوں کا نصاب ۲۸۸ من تبریزی ہے اگر اس مقدار سے کم ہوتو اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے، زکوٰة نکالتے وقت یہ نکتہ بھی ذھن نشین رہے کہ جو زراعت پر اخراجات ہوئے ہیں ان سب کو نکال کر اگر نصاب کی حد تک پھنچے تو زکوٰة واجب ہو گی،

زکوٰة کی مقدار

گیھوں، جو، کھجور و کشمش کی آب پاشی اگر بارش، نہر ، زمین کی تری سے ہوئیھو تو اس کی زکوٰة دسواں حصہ ہے اور اگر کنویں کے پانی یا ڈول وغیرہ سے کھینچ کر ہوئی ہے تو اس کی زکوٰة بیسواں حصہ ہوگی ۔

بھیڑ بکری کا نصاب:

اس کا پانچ نصاب ہے:

پہلا :

۴۰ بھیڑوں پر ایک بھیڑ کی زکوٰة ہوگی (اس سے کم پر زکوٰة واجب نہیں ہے)

دوسرا:

۱۲۱ بھیڑوں کی زکوٰة دو بھیڑ ہوگی ۔

تیسرا:

۲۰۱ بھیڑوں کی زکوٰة تین بھیڑ ہوگی

چوتھے:

۳۰۱ بھیڑوں کی زکوٰة چار بھیڑ ہوگی ۔

پانچویں:

چار سو سے زیادہ بھیڑوں میں ہر سو پر ایک بھیڑ بطور زکوٰة ادا کرے ۔

نکتہ:

کوئی گیارہ مھینے بھیڑوں کا مالک رہاہو تو اس کو بارہویں مھینے میں زکوٰة دینا واجب ہے بھیڑ بکریوں پر اس وقت زکوٰة واجب ہوتی ہے جب وہ پورے سال بیابانوں میں چری ہوں اگر تمام سال یا کچھ مھینہ چراگاہ کی گھانس یا خریدی ہوئی گھانس کہائے ہوں تو اس پر زکوٰة واجب نہ ہوگی ۔

گائے کا نصاب:

گائے کے دونصاب ہیں:

(پہلا )

تیس گائے کی زکوٰة، گائے کا ایسا بچہ جو دوسرے سال میں داخل ہوا ہو۔

(دوسرا)

چالیس گائے کی زکوٰة، گائے کا ایسا بچہ (جومادہ ہو) جو تیسرے سال میں داخل ہو۔

اگر چالیس سے زیادہ گائے ہوتو ان دو نصابوں میں سے جو حساب میں بھتر تطبیق ہو اس کی زکوٰة ادا کرنا چاہیے یا تو تیس تیس عدد کا حساب کرے یا چالیس چالیس عدد کا حساب کرے یا دونوں کو ملا کر حساب کرے مثلاً کسی کے پاس ساٹھ گائے ہے تو چاہیے کہ تیس کا حساب کرے اور اگر ستر گائے ہے تو ایک تیس اور ایک چالیس کا حساب کرے اور اگر اسّی گائے ہے تو چاہیے کہ دو چالیس کا حساب کرے ۔

نکتہ ۱:

گائے کی زکوٰة اس وقت واجب ہوتی ہے جب پورے سال بے کار رہی ہو بیابانوں میں چری ہو ۔(۷۸)

سونے کا نصاب:

سونے کا دو نصاب ہے:

پہلا ۔

بیس مثقال شرعی جو ۱۵ مثقال معمولی کے برابر ہوتا ہے اس مقدار کے برابر ہو اس کا چالیسواں حصہ بہ عنوان زکوٰة ادا کرے ۔

(دوسرا)

چار مثقال شرعی جو تین مثقال معمولی کے برابر ہوتا ہے، یعنی اگر ۱۵ مثقال معمولی پر تین مثقال معمولی کا اضافہ ہوجائے تو پورے ۱۸ مثقال معمولی (یعنی ۲۴ مثقال شرعی) کی زکوٰة ڈھائی فیصد کے حساب سے دے اور اگر تین مثقال معمولی (چار مثقال شرعی) سے کم کا اضافہ ہوتو صرف ۱۵ مثقال معمولی کی زکواة ہوگی باقی پر زکوٰة واجب نہ ہوگی ۔

اسی حساب سے چاہے جس قدر اضافہ ہوتا جائے زکوٰة واجب ہوگی، اگر تین مثقال معمولی ( ۴ مثقال شرعی) کا اضافہ ہوجائے تو پورے کی زکوٰة دے اور اگر تین مثقال معمولی سے کم اضافہ ہوتو اس اضافہ پر زکوٰة نہ ہوگی ۔

چاندی کا نصاب

چاندی کے دو نصاب ہیں:

پہلا نصاب:

جب چاندی ۱۰۵ مثقال معمولی کے برابر ہوجائے تو ڈھائی فیصد کے حساب سے اس پر زکوٰة واجب ہوگی اور اگر ۱۰۵ مثقال سے کم ہے تو زکوٰة واجب نہیں ہوگی ۔

دوسرا نصاب:

( ۲۱ مثقال پر ہے) اگر ۱۰۵ مثقال پر ۲۱ مثقال زیادہ ہوجائے تو پورے ۱۲۶ مثقال کی زکوٰة واجب ہوگی اور اگر ۲۱ سے کم کا اضافہ ہوتو صرف ۱۰۵ مثقال پر زکوٰة ہوگی اور باقی پر نھیںاسی طرح چاہے جسقدر اضافہ ہوجائے اسی حساب سے زکوٰة واجب ہوگی ۔

نکتہ ۱:

سونا چاندی سکہ دار، رائج الوقت، اور گیارہ مھینے مالک کے اختیار میں رہاہو، اس پر زکوٰة واجب ہوگی ۔

نکتہ ۲:

اگر سونا، چاندی حد نصاب سے خارج نہ ہوا ہو، تو ہر سال زکوٰة دینا چاہیے چاہیے اس سے پھلے سال زکوٰة ادا کی ہو ۔

نکتہ ۳:

شاید زکوٰة میں اسلام کا فلسفہ یہ ہوکہ سونا چاندی سکہ دار ذخیرہ نہ ہو بلکہ اقتصادی حالات کو صحیح کرنے کے لئے اس کو مصرف اور خرچ میں لانا چاہیے ۔

زکواة کا مصرف

درج ذیل آٹھ مقامات میں سے کسی ایک مقام پر زکوٰة صرف کرنا چاہیے:

۱

۔ فقیر:

یعنی جو شخص اپنے اور اپنے عیال کے سال بہر کے اخراجات نہ رکھتا ہو ۔ ۲۔ مسکین:

یعنی جس شخص کی مالی حالت فقیر کی حالت سے بھی زیادہ بدتر ہو۔

۳۔ فی سبیل اللہ:

یعنی ایسے کاموں میں صرف کرنا جس سے عام طور سے دینی منفعت ہو جیسے مسجد و مدرسہ بنانے میں پل، ہاسپیٹل وغیرہ ۔

۴۔ ابن سبیل:

یعنی جو شخص سفر میں درماندہ و محتاج ہوگیا ہو اس کو زکوٰة سے بقدر ضرورت دیا جائے گا کہ اپنے شہر پھونچ جائے ۔

۵۔ جو مقروض اپنے قرض کو ادا نہ کر سکتے ہوں ان کے قرض کی ادائیگی میں صرف کریں گے ۔

۶۔ غلاموں کو خرید کر آزاد کرنے میں ۔

۷۔ اس کافر کو دیں گے کہ جس کیلئے امکان ہے احسان کے توسط سے اسلام کی طرف مائل ہوجائے گا ۔

۸۔ جو شخص حاکم شرع کی طرف سے زکوٰة اصول کرنے پر مامور ہو ۔

نکتہ:

اگر لوگ زکوٰة کا پیسہ ادا کریں تو حاکم شرع کو چاہیے کہ فقر و بےکاری کے ختم کرنے کی کوشش اور شہر وں اور دیہاتوں کے آباد کرنے میں سعی کرے اور امور خیریہ کی بنیاد ڈالے ۔

خمس

اسلام کے مالی حقوق میں سے خمس ہے جو تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔

سات چیزوں پر خمس دینا واجب ہے:

۱۔ کاروبار کے منافع، انسان کو زراعت و صنعت و تجارت مختلف اداروں میں ملازمت کاریگری وغیرہ سے جو آمدنی ہوتی ہے اس میں سے (مثلاً کہانا، لباس، گہر کا برتن، گہر خریدنا، شادی، مہمان نوازی، مسافرت کے خرچ) سالانہ خرچ سے جو بچ جائے اس بچت کا پانچواں حصہ بعنوان خمس ادا کرے ۔

۲۔ کان سے جو سونا، چاندی، لوھا، تانبہ، پیتل، تیل، نمک، پتہر کا کوئلہ، گندھک معدنی چیز برآمد ہوتی ہے اور جو دھاتیں ملتی ہیں، ان سب پر خمس واجب ہے ۔

۳۔ خزانے ۔

۴۔ جنگ کی حالت میں مال غنیمت ۔

۵۔ دریا میں غوطہ خوری کے ذریعہ حاصل ہونے والے جواہرات ۔

۶۔ جو زمین مسلمان سے کافر ذمی خرید ے اس کو چاہیے کہ پانچواں حصہ اس کا یا اس کی قیمت کا بعنوان خمس ادا کرے ۔

۷۔ حلال مال جو حرام مال میں مخلوط ہوجائے اس طرح کی حرام کی مقدار معلوم نہ ہو اور نہ ہی اس مال کوپہچانتا ہو، تو اسے چاہیے ان تمام مال کا پانچواں حصہ خمس دے تاکہ باقی مال حلال ہوجائے ۔

نکتہ ۱) جو شخص خمس کے مال کا مقروض ہے اس کو چاہیے کہ مجتھد جامع الشرائط یا اس کے کسی وکیل کو دے تاکہ وہ عظمت اور ترویج اسلام اور فقیر سادات کے مخارج کو اس سے پورا کرے۔

نکتہ ۲) خمس و زکوٰة کی رقوم اسلامی مالیات کا سنگین اور قابل توجہ بجٹ ہے۔

اگر صحیح طریقہ سے اس کی وصولی کی جائے اور حاکم شرع کے پاس جمع ہوتو اسے مسلمانوں کے تمام اجتماعی کاموں کو بطور احسن انجام دیا جا سکتا ہے، یا فقیری و بیکاری اور جہالت کا ڈٹ کر مقابلہ اور اس سے لاچار و فقیر لوگوں کی دیکھ ریکھ کی جا سکتی ہے اور لوگوں کی ضروری امور کہ جس کا فائدہ عمومی ہوتا ہے اس کے ذریعہ کرائے جا سکتے ہیں مثلاً ہاسپیٹل، مدرسہ، مسجد، راستہ، پل اور عمومی حمام وغیرہ ۔

حج

جو شخص مالی اور جسمانی قدرت رکھتا ہو پوری عمر میں ایک مرتبہ خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے جانا اور دنیا کے سب سے بڑے اجتماع اور تمام مسلمانوں کے جاہ و جلال کے ساتھ شرکت کرنا واجب ہے ۔

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا: جو شخص مر جائے اس حال میں کہ عذر شرعی کے بغیر اپنے واجبی حج کو ترک کیا ہے تو ایسا شخص دنیا سے مسلمان نہیں جاتا بلکہ وہ یھود و نصاريٰ کے ساتھ محشور ہوگا ۔(۷۹)

حج اسلام کی بڑی عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے اور اپنے دامن میں بڑے فوائد کو رکھے ہوئے ہے مسلمان چاہے تواس حج کے مراسم و مناسک میں اپنے ایمان کی تقویت اور خدا سے اپنے رابطہ کو محکم و استوار کرلے خدا پرستی و فروتنی، برادری و بھائی چارگی اور بخشش و درگذر کرنے کا عملی شاہکار اس بڑی اسلامی درس گاہ میں سیکھ دنیا کے تمام مسلمان ایک جگہ اور ایک مقام پر جمع اور ایک دوسرے کے رسوم و عادات سے آشنا ہوتے ہیں اور ہر ملک کے عمومی حالات کے تبادلہ خیالات کے نتیجہ میں علمی سطح میں اضافہ ہوتا ہے اور جہاں پر مسلمان اسلام کی مشکلات اور مہم خطرات سے با خبر ہوتے ہیں، اسی کے ساتھ ایک دوسرے کے اقتصادی اور سیاسی و فرہنگی پروگراموں کے سلسلہ میں باز پرس کرتے ہیں جہاں اسلام کے عمومی مصالح و فوائد پر آپس میں گفتگو کرتے ہیں اتحاد، ہم فکری نیز آپسی دوستی کے روابط مستحکم ہوتے ہیں۔

نکتہ:

حج ہر مالی استطاعت رکھنے والے شخص پر واجب ہے یعنی اس کے پاس اتنا مال موجود ہو کہ اگر وہ اپنے مال سے حج کے اخراجات نکال لے تو واپس آنے پر بےچارہ حیران و سرگرداں نہ پہر ے بلکہ مثل سابق اپنی زندگی اور کام وغیرہ کو ویسے ہی انجام دے سکتا ہو ۔

جہاد

اسلام کا ایک مہم دستور جہاد ہے ۔ خدا پرستی کی ترویج و احکام اسلام کے نفوذ، کفر و بے دینی اور اسلام کے دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے کو جہاد کہتے ہیں اور جہاد تمام مسلمانوں پر واجب ہے، اس ضمن میں قرآن مجید کھتا ہے:( اِنَّ اللّٰهَ یحِبُّ الَّذِینَ یقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِه صَفًّا كَاَنَّهم بُنیانٌ مَرصُوصٌ ) خدا تو ان لوگوں سے الفت رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف باندھ کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں(۸۰)

اور دوسرے مقام پر اس طرح تشویق کرتا ہے( وَقَاتِلُ المُشرِكِینَ كَافَّةً كَمَا یقَاتِلُونَكُم كَافَّةً ) اور مشرکین جس طرح تم سے سب کے سب لڑتے ہیں تم بھی اسی طرح سب کے سب مل کر ان سے لڑو۔(۸۱)

اور ایک مقام پر قرآن کھتا ہے ان کے رہنماؤں کے پیر اکھاڑدو( فَقَاتِلُوا اَئِمَّةَ الكُفرِ ِلانَّهم لَا اَیمَانَ لَهم لَعَلَّهم ینتَهُونَ ) کفار کے سربرآوردہ لوگوں سے خوب لڑائی کرو، ان کی قسموں کا ہر گز کوئی اعتبار نہیں ہے تاکہ یہ لوگ (اپنی شرارت) سے باز آجائیں۔(۸۲)

اسی طرح ارشاد باری ہے:( وَقَاتِلُوهم حَتَّی لَا تَكُونَ فِتنَةٌ وَیكُونَ الدِّینُ لِلّٰهِ ) کفار سے اس قدر جنگ کرو کہ فتنہ و فساد بر طرف ہوجائے اور (فقط) خدا کا دین (باقی) رہے ۔(۸۳)

اور ایک مقام پر ارشاد رب العزت ہے، ان کو مرعوب کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ طاقتیں فراہم کرو( فَثَبِّتُوا الَّذِینَ آمَنُوا سَاُلقِی فِی قُلُوبِ الَّذِینَ كَفَرُوا الرُّعبَ فَاضرِبُوا فَوقَ الاَعنَاقِ وَاضرِبُوا مِنهم كُلَّ بَنَانٍ ) تم ایمانداروں کو ثابت قدم رکھو میں بھت جلد کافروں کے دلوں میں تمھارا رعب ڈال دونگا (پس پہر کیا ہے اب) تو ان کفار کی گردنوں پر مارو اور ان کی پور پور چٹیلی کر دو ۔(۸۴)

( وَاَعِدُّوا لَهم مَااستَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَمِن رِبَاطِ الخَیلِ تُرهبُونَ بِه عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُم وَآخَرِینَ مِن دُونِهم ) (۸۵)

اور (مسلمانو) کفار کے (مقابلہ کے) واسطے جہاں تک ہوسکے (اپنے بازو کے) زور سے اور بدھے ہوئے گھوڑوں سے (لڑائی کا) سامان مھیا کرو اسے خدا کے دشمن اور اپنے دشمن اور اس کے سوا دوسرے لوگوں کے اوپربھی اپنی دھاک بٹھالوگے ۔ (مترجم)

حضرت علی (ع) ارشاد فرماتے ہیں: جہاد جنت کے دروازے میں سے ایک دروازہ ہے جو شخص جہاد سے انکار کرے خدا اس کو ذلیل و رسوا کرے گا ۔(۸۶)

اسلام نے جہاد کو اسلامی ملکوں کی حفاظت کے لئے تمام مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے اور تمام مسلمانوں کو مجاہد اور اسلامی ملک کو مجاہدوں کی جگہ قرار دی ہے، مجاہدین اسلام کو چاہیے ہمیشہ کفر و الحاد کے مقابلہ میں مسلح اور صف بصف آمادہ رہیں تاکہ دشمن اسلام قدرت و شوکت اور اتحاد مسلمین سے خوف کہائے اور اس کے ذھن سے اسلامی ملکوں پر زیادتی اور تجاوز کے خیالات ہوا ہوجائیں، اگر کفار کی فوج اسلام کے کسی علاقہ پر حملہ آور ہو جائے تو تمام مسلمانوں پر اپنے استقلال کے لئے اس کا دفاع کرنا واجب ہے اور تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ سب کے سب دشمنوں کے مقابلہ میں صف بستہ کھڑے ہوں اور ایک ہی حملہ میں مخالف کی فوج کو تھس نھس اور تباہ و برباد کر کے اپنی جگہ پر بٹھادیں تاکہ دوبارہ وہ اس کی جرات و ہمت نہ کر سکیں ۔

جب تک مسلمان جہاد کو اپنا مقدس دینی وظیفہ سمجھتے تھے اور دشمن کے مد مقابل اسلحہ سے لیس آمادہ اور تمام تیاری کے ساتھ ایک صف میں محاز آرائی کے لئے کھڑے تھے، اس وقت تک کسی دشمن اسلام کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ تھی، اس وقت دشمنان اسلام خوفزدہ اور اپنی قدرت و طاقت کی کمزوری کو درک کرتے تھے ۔

لیکن جب مسلمان (مجاہدین) پراگندہ ہو گئے اور بکہر گئے (بجائے اس کے کہ دشمن کے مقابلہ میں صف بستہ ہوتے) بلکہ اپنی عزت و عظمت کو خود ہی تباہ کر بیٹھے اور دوسروں کے دست نگر اور محتاج ہوکر استعمال ہونے لگے، لہذا اپنی حفاظت و استقلال کے لئے مجبور ہوگئے کہ غیروں کا سہارا لیں، تاکہ وہاں کاسہ لیسی اور خوشامدی کر کے اپنی حفاظت کی بھیک مانگیں لیکن نتیجہ اس کے بر خلاف نکلا (خود ابریشم کے کیڑے کی طرح) روز بروز اس کے فریب کے جال میں گہر تے گئے ۔

نکتہ: جہاد کے لئے مخصوص شرائط ہیں جس کی بابت چاہیے کہ فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے ۔

امر بالمعروف و نھی عن المنکر

اسلام کے واجبات میں سے امر بالمعروف و نھی عن المنکر ہے، ترویج اسلام و تبلیغ احکام میں کوشش کرنا لوگوں کو دینی ذمہ داریوں اور اچھے کاموں سے آشنائی کرانا تمام مسلمانوں پر واجب ہے اگر کسی کو دیکھے کہ اپنے وظیفہ پر عمل پیرا نہیں ہے تو اس کو انجام دینے کے لئے آمادہ کرے اس کام کو امر بالمعروف کہتے ہیں ۔

منکرات (خدا کی منع کردہ چیزیں) سے لوگوں کو منع کرنا بھی اسلام کے واجبات میں سے ہے، اور واجب ہے کہ مسلمان فساد، ظلم و ستم کے خلاف جنگ کرے اور برے و گندے کاموں سے روکے اگر کسی کو دیکھے کہ جو منع کئے ہوئے کاموں (منکرات) کو انجام دیتا ہے تو اس کام کے برے ہونے کی طرف اس کی توجہ دلائے، جس حد تک ممکن ہوسکے اس کو برے کاموں سے روکے اس کام کو نھی از منکر کہتے ہیں۔

لہٰذا امر بالمعروف اور نھی عن المنکر اسلام کی بڑی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے اگر اس وظیفہ پر عمل ہونا شروع جائے تو اسلام کا کوئی بھی قانون بلا عمل باقی نہیں رہے گا جیسا کہ اسلام تمام احکام و قوانین دینی کو مسلمانوں کے اجرا کا مسئول سمجھتا ہے، تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں نیز مسلمانوں پر واجب ہے دین اسلام کے قوانین کا ہر طرح سے دفاع اور اس کی حفاظت اور رائج کرنے میں کوشش کریں، تاکہ اس کے فائدے سے تمام افراد بہر ہ مند ہوسکیں، ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ خود نیک کام کو انجام دے اور لوگوں کو بھی نیک کام پر آمادہ کرے، خود بھی برے اور گندے کاموں سے دوری کرے اور دوسروں کو بھی محرّمات الٰھی سے روکے ۔

مذکورہ دستور العمل سرنامہ اسلام اور قرآن کا مخصوص پروگرام شمار ہوتا ہے قرآن مجید اس دستور العمل کو انجام دینے میں مسلمانوں کی کامیابی و کامرانی شمار کرتا ہے ۔

خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:( كُنتُم خَیرَ اُمَّةٍ اُخرِجَت لِلنَّاسِ تَامُرُونَ بِالمَعرُوفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ وَتُوٴمِنُونَ بِاللّٰهِ ) تم کیا اچھے گروہ ہو کہ لوگوں کی ھدایت کے واسطے پیدا کئے گئے تم (لوگوں) کو اچھے کام کا حکم کرتے اور برے کاموں سے روکتے اور خدا پر ایمان رکھتے ہو(۸۷)

اور ایک جگہ پر ارشاد ہوتا ہے:( وَلتَكُن مِنكُم اُمَّةٌ یدعُونَ اِلَی الخَیرِ وَیامُرُونَ بِالمَعرُوفِ وَینهَونَ عَنِ المُنكَرِ ) اور تم میں سے ایک گروہ (ایسے لوگوں کا بھی) تو ہونا چاہیے جو (لوگوں کو) نیکی کی طرف بلائیں اور اچھے کام کا حکم اور برے کاموں سے روکیں۔(۸۸)

حضرت امام علی رضا (ع) فرماتے ہیں: امر بالمعروف نھی از منکر کرو اگر تم نے اس فرض پر عمل نہیں کیا تو اشرار تم پر مسلط ہوجائیں گے اس وقت اچھے لوگ جس قدر بھی دعائیں کریں اور ان کے ظلم و ستم پر گریہ کریں ان کی دعا محل اجابت میں قبول نہیں کی جائے گی ۔(۸۹)

پیغمبر (ص) اسلام نے فرمایا: جب بھی میری امت امر بالمعروف اور نھی از منکر کو ترک کردے گویا خدا سے اعلان جنگ کر رہی ہے(۹۰)

رسول (ص) خدا نے ارشاد فرمایا: جب بھی میری امت نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے کے کام میں مشغول رہے گی معاشرہ اور سماج آبرومنداور بھتر رہے گا، لیکن جس وقت اس ذمہ داری کو ترک کردے ان کے ہاتھوں سے برکت اٹھ جائے گی، اور ان میں سے بعض (شریر) افراد تمام لوگوں پرغالب آجائیں گے اس وقت یہ فریاد اور مدد کے لئے پکارتے رہیں زمین و آسمان سے کوئی ان کی مدد کے لئے نہیں آئے گا ۔(۹۱)

امام حسن عسکری (ع) فرماتے ہیں: نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے کو ترک نہ کرنا ورنہ تم سب پر (خدا کی طرف سے) عذاب نازل ہوگا اور تم گرفتارِ عذاب ہوجاؤگے جب بھی کوئی تم میں سے کسی کو برا کام کرتے ہوئے دیکھے تو فوراً اس کے روک تھام کے لئے قدم بڑھائے، اگر ایسا نہیں کر سکتا تو اپنی زبان سے منع کرے اگر زبان سے منع کرنے پر قادر نہیں ہے تو چاہیے اس برے کام کے انجام پانے پر دل سے ناراض و غمگین ہو۔(۹۲)

حضرت علی بن ابی طالب (ع) اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں: اگر تم پر کوئی خطرہ اور مصیبت آجائے تو تم اپنے اموال کو اپنے نفس پر فدا کردو، اگر تمھارے دین کے لئے خطرہ اور ھلاکت کا باعث ہوتو اپنی جان کو دین کی مدد و نصرت کے لئے فدا کردو، جان لو کہ بد بخت اور شقی وہ شخص ہے جو اپنے دین کو کھو بیٹھے اور چوری اس کی ہوئی ہے جس کے دین کی چوری ہو جائے ۔(۹۳)

امر بالمعروف اور نھی از منکر کے چند مراحل ہیں

پہلا مرحلہ:

زبان سے نرمی کے ساتھ اس کام کی اچھائی یا برائی اس شخص کے لئے ثابت کی جائے اور نصیحت و موعظہ کی صورت میں اس سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اس کام کو نہ کرے یا برے کام کو چھوڑ دے ۔

دوسرا مرحلہ:

اگر زبان سے موعظہ و نصیحت اسے کوئی فائدہ نہ پھنچائے تو سختی اور غصہ سے، برے کام سے روکا جائے ۔

تیسرا مرحلہ:

سختی و غصہ کی وجہ سے بھی اگر اس پر اثر نہ ہو تو جس حد تک، اگر قدرت رکھتا ہے یا جس وسیلہ و طریقہ سے ممکن ہے برے کام سے منع کرے ۔

چوتھا مرحلہ:

اگر اس کے باوجود بھی اس کو گناہ سے نہ روک سکے تو تمام لوگوں کو چاہیے اس سے اس طرح اظہار نفرت کریں کہ اس کو احساس ہوجائے کہ تمام لوگ اس کے مخالف اور اس سے متنفر ہیں ۔

حرام و باطل معاملات

۱۔عین نجس (جو چیز ذاتا ً نجس ہو) جیسے پیشاب، پاخانہ، خون اور میت۔

۲۔ غصبی مال کی خرید و فروخت حرام و باطل ہے ۔

۳۔ ایسے اسباب و آلات کی خرید و فروخت جو صرف حرام میں استعمال ہوتے ہیں جیسے موسیقی، جوئے کے آلات ۔

۴۔ سودی معاملہ بھی حرام ہے ۔

۵۔ شراب اور ہر مست کرنے والی چیزو ں کی خرید و فروخت ۔

۶۔ ایسی چیزوں کی خرید و فروخت جو اسلام کی نگاہ میں مالیت نہیں رکھتی ہے ۔

۷۔ ان ملاوٹ والی چیزوں کا بیچنا جس کے بارے میں خریدار کو کچھ پتہ نہ ہو جیسے گھی میں چربی یا کوئی اور چیز ملا کر بیچنا ۔

۸۔ انگور و کشمش و کھجور کو ایسے شخص کو بیچنا جو اس سے شراب بناتا ہے (یا بنائے گا)

نجس چیزیں

اسلام کچھ چیزوں کو نجس جانتا، اور مسلمانوں کو اس سے اجتناب کا حکم دیتا ہے:

۱۔۲۔ پیشاب و پاخانہ خواہ انسان کا ہو یا ہر حرام گوشت حیوان جو خون جھندہ رکھتا ہے یعنی اگر اس کی رگ کو کاٹ دیں تو خون بڑی سرعت کے ساتھ نکلے ۔

۳۔اسی طرح خون جھندہ رکھنے والے حیوان کی منی نجس ہے ۔

۴۔ خون جھندہ رکھنے والے حیوان کا مردہ نجس ہے ۔

۵۔ خون جھندہ رکھنے والے حیوان کا خون نجس ہے ۔

۶۔ خشکی کے کتے ۔

۷۔ خشکی کی سور۔

۸۔ کافر جو خدا و رسول (ص) کا منکر ہے ۔

۹۔ شراب ۔

۱۰۔ فقاع (بیئر) جو، جو سے بنائی جاتی ہے ۔

مطہر ات

۱۔ پانی:

مطلق اور پاک پانی ہر چیز کی نجاست کو پاک کر تا ہے ۔

۲۔ زمین:

اگر زمین پاک اور خشک ہے تو انسان کا پیر، جوتے کا تلا، چھڑی کی نوک، گاڑی کا پھیہ وغیرہ کو پاک کرتی ہے شرط یہ ہے کہ چلنے کی وجہ سے ان چیزوں کی نجاست زائل ہو گئی ہو ۔

۳۔ آفتاب:

(سورج) آفتاب کی گرمی زمین، چھت، دیوار، دروازہ، کھڑکی اور درخت وغیرہ کو پاک کرتا ہے شرط یہ ہے کہ عین نجاست بر طرف ہوگئی ہو اور نجاست کی تری آفتاب کی گرمی سے خشک ہو جائے ۔

۴۔ عین نجاست کا دور ہونا:

اگر حیوان کا بدن نجس ہوجائے تو عین نجاست کے دور ہوتے ہی اس کا بدن پاک ہوجاتا ہے، اور پانی سے دھونے کی ضرورت نہیں ہے ۔

۵۔ استحالہ:

اگر عین نجس اس طرح متغیر ہوجائے کہ اس پر اس کے سابقہ نام کا اطلاق نہ ہو بلکہ اسے کچھ اور کہاجانے لگے تو وہ نجاست پاک ہوجاتی ہے، جیسے کتا نمک کی کان میں گر کر نمک بن جائے تو پاک ہو جائے گا یا نجس لکڑی کو آگ جلا کر خاکستر کر دے (تو وہ خاکستر پاک ہوجائیگی)

واجب غسل

چھ غسل واجب ہیں:

( ۱) غسل جنابت ( ۲) غسل حیض ( ۳) غسل نفاس ( ۴) غسل استحاضہ ( ۵) غسل میت ( ۶) غسل مس میت ۔

جنابت: انسان دو چیزوں سے مجنب ہوجاتا ہے، ۱ ۔ جماع (جنسی آمیزش) ۲ ۔ منی کا نکلنا

غسل کا طریقہ

غسل میں چند چیزیں واجب ہیں:

۱۔ نیت: غسل کو خدا کے لئے بجالائے اور معلوم ہونا چاہیے کہ کون سا غسل انجام دے رہاہے (یا دے رہی ہے)

۲۔ نیت کے بعد پورے سر و گردن کو دھوئے اس طریقے سے کہ ایک ذرہ کھیں چھوٹنے نہ پائے ۔

۳۔ سر و گردن کے بعد داہنے طرف کے پورے بدن کو دھوئے ۔

۴۔ اس کے بعد بائیں طرف کے پورے بدن کو دھوئے ۔

نکتہ ۱) مجنب پر چند چیزیں حرام ہیں:

۱۔ خط قرآن، اسم خدا، اور اسماء انبیاء، اسماء ائمہ طاہرین (ع) کو بدن کے کسی حصہ سے مس کرنا

۲۔ مساجد اور ائمہ علیہم السلام کے حرم میں ٹھہر نا ۔

۳۔ کسی چیز کو رکھنے کے لئے مسجد میں داخل ہونا ۔

۴۔ وہ سورہ جن میں سجدہ واجب ہے ان میں سے کسی ایک آیت کا پڑھنا (عزائم کا پڑھنا)

۵۔ مسجد الحرام میں جانا ۔

نکتہ ۲) مجنب کے لئے ضروری ہے کہ نماز اور روزہ کے لئے غسل کرے، اسی طرح وہ عورت جو خون حیض و نفاس سے فارغ ہوئی ہے، نماز و روزہ کے لئے غسل کرنا واجب ہے ۔

تیمم کا طریقہ

تیمم میں پانچ چیزیں واجب ہیں:

۱۔ نیت ۔

۲۔ دونوں ہاتھوں کو ملا کر ھتھیلیوں کو زمین پر مارے ۔

۳۔ دونوں ہاتھوں کی ھتھیلیوں کوپوری پیشانی اور اس کے دونوں طرف جہاں سے سر کے بال اُگتے ہیں ابرو ؤں تک (اور ناک کے اوپر تک کھینچے)

۴۔ بائیں ہاتھ کی ھتھیلی کو داہنے ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرے ۔

۵۔ داہنے ہاتھ کی ھتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرے ۔

نکتہ ۱:

جب انسان کے لئے پانی ضرر رکھتا ہو یا پانی تک رسائی ممکن نہ ہو یا نماز کا وقت تنگ ہو تو چاہیے کہ نماز کے لئے تیمم کرے ۔

نکتہ ۲:

مٹی، کنکر، ریت، ڈھیلہ، پتہر ، پر تیمم کرنا صحیح ہے ۔

نکتہ ۳:

اگر تیمم غسل کے بدلے ہوتو پیشانی کے مسح کے بعد ایک مرتبہ پہر دونوں ہاتھوں کو ملا کر زمین پر مار ے، بائیں ہاتھ کی ھتھیلی سے داہنے ہاتھ کی پشت کا اور داہنے ہاتھ کی ھتھیلی سے بائیں ہاتھ کی پشت کا مسح کرنا چاہیے۔

بعض حرام کام

ظلم کرنا، جھوٹ، غیبت، چاپلوسی، لوگوں کے مال کا غصب کرنا، عیب جوئی، جوا کھیلنا، سود کہانا، سود لینے کے لئے گواہ بننا، سود کے لئے رسید کاٹنا، زنا، لواط، نا محرم کی طرف دیکھنا، زنا کی نسبت دینا، ملاوٹ کرنا، شہادت (گواہی) چھپانا، جھوٹی گواہی دینا، وعدہ خلافی کرنا، میدان جنگ سے بھاگنا، شراب پینا، سور کا گوشت کہانا،مردہ کہانا، انسان کے بیضتین کا کہانا، خون پینا اور کہانا، نجس چیز کا کہانا و پینا، فساد پھیلانا، برے کام کو انجام دینا، مومن کا قتل کرنا، ماں اور باپ کو اذیت پھنچانا، جھوٹی قسم کہانا، کم فروشی (ناپ و تول میں کمی کرنا)، ظالم کی مدد کرنا، خیانت کرنا، ظالم کے پاس نمامی و چغلخوری کرنا، گمراہ کرنا، دین میں بدعت ڈالنا، مسلمانوں کی توھین کرنا، خدا کی ذات سے نا امیدی، گالی دینا، تکبر کرنا، زبان سے اذیت کرنا، ریاکاری کرنا، لوگوں کو دھوکہ دینا، پڑوسی کو ستانا، لوگوں کو رنج پھنچانا (مردم آزاری) رشوت کہانا، طلبِ منی، چوری، احکام خدا کے خلاف فیصلہ کرنا، مردوں کا سونے کے زیورات سے زینت کرنا جیسے انگوٹھی اور سونے کی گھڑی پھننا سونے کے برتن کا استعمال کرنا وغیرہ ۔

بعض واجبات

نماز، روزہ، امر بہ معروف و نھی از منکر، جہاد، زکات، خمس، حج، مظلوموں کی مدد، گواہی دینا، دین کا دفاع کرنا، نفس محترم کی حفاظت، سلام کا جواب دینا، ماں و باپ کی اطاعت کرنا، احکام دین کا سیکھنا، صلہ رحم کرنا، عھد و نذر کا وفا کرنا ۔

تقلید

خداوند عالم نے ہماری سعادت اور دنیا و آخرت میں نجات کے لئے تمام احکام و قوانین کو اپنے نبی (ص) کے ذریعہ لوگوں تک پھنچایا اور آپ (ص) نے اس امانت عظميٰ کو ائمہ طاہرین (ع) کوودیعت اعطا فرمایا ہے اور حضرت کے جانشین اور خلفائے برحق نے اپنی عمر کے تمام نشیب و فراز میں اس ذمہ داری کو پھنچانے کی کوشش فرمائی ہے جو آج تک ان تمام ادوار کو طے کرتا ہوا ہمارے سامنے حدیثوں اور روایتوں کی کتابوں میں موجود ہے ۔

اس زمانہ میں چونکہ امام زمانہ (ع) تک ہماری رسائی ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں اور وظائف کو حضرت (ع) سے دریافت کر سکیں، لہذا مجبور ہیں کہ حدیثوں اور قرآنی آیات سے احکام کا استنباط کریں اور اگر اس پر بھی قادر اور دست رسی نہیں رکھتے تو ضروری ہے کہ کسی مجتھد اعلم (سب سے زیادہ علم رکھنے والا) کی تقلید کریں ۔

ان روایات و احادیث میں کہر ی کھوٹی، صحیح و غلط وضعی جعلی وغیرہ کے سمندر سے گوہر کا الگ کرنا ہر ایک کے بس کا میں نہیں ہے اس لئے ضروری ہے کہ ایسے افراد کا انتخاب کیا جائے جو اس بحر بیکراں میں غواصی کر رہے ہوں، جو اس سمندر کی طغیان اور طوفان سے خوب واقف ہوں جنھوں نے اس کو حاصل کرنے کے لئے رات و دن نہ دیکھا، عمر کے لمحات کو نہ شمار کیا ہو، علوم کے سمندر کی تہہ میں بیٹھے ہوں اس کی راہوں سے خوب واقف ہوں اس میں سے گوہر و موتی نکالنے میں ان کے لئے کوئی مشکل کام نہ ہو، ایسے افراد کو مجتھد کہتے ہیں ۔

لہذا ہم مجبور ہیں کہ اپنی ذمہ داریوں کو طے کرنے کے لئے ان کے دامن کو تھامیں کیونکہ اس کام کے ماہر وھی ہیں، مریض ڈاکٹر ہی کے پاس تو جائے گا، یہ ایک عقلی قاعدہ ہے جس چیز کے متعلق معلوم نہیں اس علمکے ماہر و متخصص سے پوچھو اور حضرات ائمہ طاہرین علیہم السلام نے بھی دور دراز رہنے والوں کے لئے قریب کے عالم کی طرف راہنمائی فرمائی ہے ۔

البتہ تقلید میں یہ چیز ذھن نشین رہے، کہ ایسے مجتھد کی تقلید کی جائے جو تمام مجتھدین میں اعلم (جو احکام خدا کو سمجھنے میں سب سے زیادہ جاننے والا ہو) عادل و پرہیز گار ہو پس اس کے حکم کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے، مجتھدین اکثر موارد میں اتفاق نظر رکھتے ہیں، سوائے بعض جزئیات کے کہ جس میں اختلاف پایا جاتا ہے، ہو سکتا ہے کہ ان جزئیات میں ایک دوسرے کے خلاف فتويٰ دیں ۔

اس مقام پر یہ بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ خداوند عالم کے پاس فقط ایک حکم موجود ہے اس کے علاوہ کوئی حکم نہیں پایا جاتا وھی حق ہے، اور حکم حقیقی و واقعی فتويٰ کے بدلنے سے تبدیل نہیں ہوتا ہے، مجتھدین بھی نہیں کہتے ہیں کہ خدا کے نظریات و احکام ہمارے نظریات و خیالات کے تابع ہیں یا ہمارے حکم کی تبدیلی سے خدا کا حکم بدل جاتا ہے۔

پہر آپ ہم سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہوجائیں گے: فتويٰ میں اختلاف کی نوعیت کیا ہے؟ فقھاآپس میں اختلاف کیوں رکھتے ہیں؟

ایسی صورت میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہوگا کہ: فتويٰ میں اختلاف ان وجوہ میںسے کسی ایک کی بنا پر ممکن ہے ۔

پہلا :

کبھی ایک مجتھد حکم واقعی کو سمجھنے میں شک کرتا ہے تو اس حال میں قطعی حکم دینا ممکن نہیں ہوتا لہذا احتیاط کی رعایت کرتے ہوئے مطابق احتیاط فتويٰ دیتا ہے تاکہ حکم الٰھی محفوظ رہے، اور مصلحت واقعی بھی نہ نکلنے پائے ۔

دوسرا:

کبھی اختلاف اس جھت سے ہوتا ہے، کہ دو مجتھدین جس روایت کو دلیل بنا کر فتويٰ دیتے ہیں وہ روایت کو سمجھنے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں، ایک کھتا ہے امام اس روایت میں یہ کھنا چاہتے ہیں اور دوسرا کھتا ہے امام کا مقصود دوسری چیز ہے، اس وجہ سے ہر ایک اپنی سمجھ کے مطابق فتويٰ دیتا ہے ۔

تیسرا:

حدیث کی کتابوں میں کسی مسئلہ کے اوپر کئی حدیثیں موجود ہیں جو باہم تعارض رکھتی ہیں ہاں فقیہ کو چاہیے کہ ان میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دے اور اس کے مطابق فتويٰ دے۔

یہاں ممکن ہے کہ مجتھدین کا نظریہ مختلف ہو ایک کھے فلاں اور فلاں جھت سے یہ روایت اس روایت پر مقدم ہے اور دوسرا کھے، فلاں و فلاں جھت سے یہ روایت اس روایت پر ترجیح رکھتی ہے پس ہر ایک اپنے مد نظر روایت کے مطابق فتويٰ دیتا ہے ۔

البتہ اس طرح کے جزئی اختلافات کھیں پر ضرر نہیں پھونچاتے بلکہ محققین اور متخصصین و ماہرین کے نزدیک ایسے اختلافی مسائل پائے جاتے ہیں آپ کئی انجینیر، اور مہارت رکھنے والے کو نہیں پا سکتے جو تمام چیزوں میں ہم عقیدہ و اتفاق رای رکھتے ہوں ۔

ہم مذکورہ مطالب سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں:

۱) تقلید کرنا کوئی نئی بات نھیں، بلکہ ہر شخص جس فن میں مہارت نہیں رکھتا ہے اس فن میں اس کے متخصص وماہر کے پاس رجوع کرتا ہے، جیسے گہر وغیرہ بنوانے کے معاملہ میں انجینیراور بیماری میں ڈاکٹر اور بازار کی قیمت کے متعلق دلال کے پاس جاتے ہیں، پس احکام الٰھی حاصل کرنے کے لئے مرجع تقلید کی طرف رجوع کریں اس لئے کہ وہ اس فن کے متخصص و ماہر ہیں ۔

۲) مرجع تقلید:

من مانی اور ہوا و ہوس کی پیروی میں فتويٰ نہیں دیتے بلکہ تمام مسائل میں ان کا مدرک قرآن کی آیات و احادیث پیغمبر (ص) اور ائمہ طاہرین (ع) ہوتی ہے ۔

۳) تمام مجتھدین، اسلام کے کلی مسائل بلکہ اکثر مسائل جزئی میں بھی ہم عقیدہ اور نظری اختلاف نہیں رکھتے ہیں ۔

۴) بعض مسائلِ جزئیہ جس میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے وہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ مجتھدین اختلاف کرنا چاہتے ہیں بلکہ تمام مجتھدین چاہتے ہیں کہ حکم واقعی خدا جو کہ ایک ہے اس کو حاصل کریں اور مقلدین کے لئے قرار دیں، لیکن استنباط اور حکم واقعی کے سمجھنے میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے پہر چارہ ہی کوئی موجود نہیں رہتا مگر یہ کہ جو کچھ سمجھا ہوا ہے اس کو بیان کر یں ا ور لکھیں جب کہ حکم واقعی ایک حکم کے علاوہ نہیں ہے ۔ مقلدین کے لئے بھی کوئی صورت نہیں ہے مگر اعلم کے فتوے پر عمل کریں اور خدا کے نزدیک معذور ہوں ۔

۵) جیسا کہ پھلے بیان ہوا کہ دنیا کا ہر متخصص و محقق و ماہر چاہے جس فن کے بھی ہوں ان کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے، لیکن لوگ امر عادی سمجھتے ہوئے اس پر خاص توجہ نہیں دیتے ہیں اور اس سے اجتماعی امور میں کوئی رخنہ اندازی بھی نہیں ہوتی ہے ۔

مجتھدین کے بعض جزئیات میں اختلافی فتوے بھی اس طرح کے ہیں، اس کو امر غیر عادی نہیں شمار کرنا چاہیے ۔

۶) ہمیں چاہیے کہ ایسے مجتھد کی تقلید کریں جو تمام مجتھدین سے اعلم ہو، اور احکام الٰھی کے حاصل کرنے میں سب سے زیادہ تجرّ رکھتا ہو نیز عادل و پرہیز گار جو اپنے وظیفہ و ذمہ داری پر عمل کرتا ہو اور قانون و شریعت کی حفاظت کے لئے کوشاں ہو۔

اسلام میں رہبری و قیادت

جمھوریہ اسلامی ایران کے رہبر فقھاو مجتھدین صاحب شرائط سے منتخب کئے جاتے ہیں جمھوریہ اسلامی ایران کے بنیادی قانون میں رہبر کے لئے تین شرطیں بیان کی گئی ہے ۔

۱۔ علمی صلاحیت رکھتا ہو جو فقہ کے کسی باب میں فتويٰ دینا چاہے تو دے سکے ۔

۲۔ امت اسلام کی رہبری کے لئے تقويٰ و عدالت ضروری ہے ۔

۳۔ سیاسی و اجتماعی بصیرت کا حامل ہو نیز تدبیر و شجاعت و بہادری رہبری و مدیریت کے لئے کافی قدرت و طاقت رکھتا ہو ۔

سب سے پھلے رہبری کی ذمہ داری اسلامی جمھوریہ کے بانی آیة اللہ العظميٰ امام خمینی قدس سرہ کے اوپر تھی، اور پہر ان کے بعد رہبر کے انتخاب کی ذمہ داری خبرگان کے اوپر ہے (مجلس خبرگان میں مجتھدین و فقھاہیں جو رہبری کے لئے کسی کو منتخب کرتے ہیں) حضرت امام خمینی کے بعد حضرت آیة اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی میں رہبری و قیادت کے تمام شرائط موجود پاکر آپ لوگوں کے سامنے پیش کیا، ولایت امر اور اس سے مربوط تمام تر مسائل کی ذمہ داری رہبر کے اوپر ہے ۔