‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 156

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول)

مؤلف: ‏آیة الله ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 156
مشاہدے: 73327
ڈاؤنلوڈ: 2341


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 156 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73327 / ڈاؤنلوڈ: 2341
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد 1

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : ‏تعلیم دین - ساده زبان میں-جلد اول

تالیف : آیة الله ابراهیم امینی

ترجمه :شیخ الجامعه مولانا الحاج اختر عباس صاحب

نظرثانی : حجة الاسلام مولانا نثار احمد صاحب

کتابت : جعفرخان سلطانپوری

ناشر : انصاریان پبلیکیشنز قم ایران

طبع : صدر قم

تعداد : سه هزار

تاریخ : ۱۴۱۴ ھ

۳

عرض ناشر

کتاب تعلیم دین سادہ زبان میں حوزہ علمیہ قم کی ایک بلند پایہ علمی شخصیت حضرت آیة اللہ ابراہیم امینی کی گران مایہ تالیفات میں سے ایک سلسلہ ''آموزش دین در زبان سادہ کا اردو ترجمہ ہے _

اس کتاب کو خصوصیت کے ساتھ بچوں اور نوجوانوں کے لئے تحریر کیا گیا ہے _ لیکن اس کے مطالب اعلی علمی پیمانہ کے حامل ہیں اس بناپر اعلی تعلیم یافتہ اور پختہ عمر کے افراد بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں _

بچوں اور جوانوں کی مختلف ذہنی سطحوں کے پیش نظر اس سلسلہ کتب کو چار جلدوں میں تیار کیا گیا ہے _ کتاب ہذا اس سلسلہ کتب کی چوتھی جلد کے ایک حصّہ پر مشتمل ہے جسے کتاب کی ضخامت کے پیش نظر علیحدہ شائع کیا جارہا ہے _

اس سلسلہ کتب کی امتیازی خصوصیات درج ذیل ہے _

_کتاب کے مضامین گوکہ اعلی مطالب پر مشتمل ہیں لیکن انھیں دل نشین پیرائے اور سادہ زبان میں پیش کیا گیا ہے تا کہ یہ بچّوں کے لئے قابل

۴

فہم اور دلچسپ ہوں _

_اصول عقائد کے بیان کے وقت فلسفیانہ موشگافیوں سے پرہیز کرتے ہوئے اتنا سادہ استدلالی طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ نو عمر طلبا اسے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں _

_مطالب و معانی کے بیان کے وقت یہ کوشش کی گئی ہے کہ پڑھنے والوں کی فطرت خداجوئی بیدار کی جائے تا کہ وہ از خود مطالب و مفاہیم سے آگاہ ہوکر انھیں دل کی گہرائیوں سے قبول کریں اور ان کا ایمان استوار پائیدار ہوجائے _

_ہماری درخواست پر حضرت حجة الاسلام و المسلمین شیخ الجامعہ الحاج مولانا اختر عباس صاحب قبلہ دام ظلہ نے ان چاروں کتابوں کا ترجمہ کیا _

ان کتابوں کا پہلا ایڈیشن پاکستان میں شائع ہواتھا اور اب اصل متن مؤلف محترم کی نظر ثانی کے بعد اور اردو ترجمہ حجة الاسلام جناب مولانا نثار احمد ہندی کی نظر ثانی اور بازنویسی کے بعد دوبارہ شائع کیا جارہاہے اپنی اس ناچیز سعی کو حضرت بقیة اللہ الاعظم امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں ہدیہ کرتا ہوں _

_ ہماری دلی آرزو ہے کہ قارئین گرامی کتاب سے متعلق اپنی آراء اور قیمتی مشوروں سے مطلع فرمائیں _

والسلام ناشر محمد تقی انصاریان

۵

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پیش لفظ

یہ کتاب جس کا نام تعلیم دین سادہ زبان میں رکھا گیا ہے '' آموزش دین '' نامی کتاب کا اردو ترجمہ ہے _ جو معارف اسلامی کے مبتدی طلبا کے لئے تدوین اور ترتیب دی گئی ہے _ اس کتاب کے پڑھنے سے اصول عقائد کے ایک کامل باب اور اخلاق و آداب اور احکام اسلامی کے ضروری حصّہ سے واقفیت حاصل کی جا سکتی ہے _ اس میں کسی استاد کی بھی ضرورت نہیں رہتی _ اس کتاب کو خود آموز بھی کہا جا سکتا ہے _ اگر چہ یہ کتاب سادہ زبان میں معارف اسلامی کے مبتدی طلبا کے لئے تدوین اور ترتیب دی گئی ہے لیکن اس کے مطالب بہت گہرے اور بلند پایہ ہیں کہ اس سے بڑے اور زیادہ استعداد رکھنے والے بھی مستفید ہوسکتے ہیں یہ کتاب چھ حصوں پر مشتمل ہے _

پہلا حصّہ خداشناسی _ دوسرا حصّہ معاد_ تیسرا حصّہ نبوت _ چوتھا حصّہ امامت پانچواں حصّہ احکام اور فروع دین اور چھٹا حصّہ اخلاق اور آداب کے بارے میں ہے اس کے ابتدائی حصّہ میں عقائد کا ایک پورا باب نہایت سادہ اور عام فہم ہے اور کچھ مطالب اخلاق و آداب اور ضروری احکام کے بارے میں ہیں_ اس کے حصّہ میں بھی اصول عقائد اور معارف اسلامی بیان کئے گئے ہیں لیکن طرز بیان ذرا

۶

اونچی سطح پر رکھا گیا ہے دیگر وہ اسلامی احکام اور اخلاق و آداب بھی بیان کئے گئے ہیں جن کا جاننا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے _ گویا اس کتاب کے دونوں حصوں کے مطالب ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں _ جیسے ایک بدن کے اعضاء اور جوارح ہر طرح ہم آہنگ اور جڑے ہوئے ہوتے ہیں _

اس کتاب میں مندرجہ ذیل امور کا لحاظ رکھا گیا ہے :

۱_ کتاب کے مطالب کو قصہ کے طور پر سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تا کہ تمام لوگوں کے لئے موجب توجہ اور عام فہم ہوں اور ان کے اذہان میں بہتر طریقے سے اثر انداز ہوکر ان کے ایمان کے لئے موجب تقویت نہیں _

۲_ عقائد کا بیان استدلالی طور سے کیا گیا ہے اور اس کے دلائل سادہ اور مضبوط طریقے سے اس طرح بیان کئے گئے ہیں کہ جسکو ہر چھوٹا اور بڑا سمجھ سکے _

۳_ اس میں فلسفیانہ اور علم کلام کے مشکل طرز کے دلائل سے اجتناب کیا گیا ہے _

۴_ اللہ تعالی اور اس کے صفات کے اثبات کے لئے قرآنی طرز استدلالی کو اپنا یا گیا ہے _ یعنی جہان عالم اور نفوس انسانیہ کے مطالعے کو محور بنایا گیا ہے کہ جسے در حقیقت برہان نظم اور پیدائشے جہان کی غرض کے مشاہدہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے _

۵_ مطالب کے بیان کرنے میں کوشش کی گئی ہے کہ پڑھنے والے کی جستجو اور خدا کی فطرت کو اجاگر کیا جائے تا کہ وہ ان مطالب کو سمجھ سکے اور اس کے اندر نور ایمان پیدا ہوجائے کہ اس قسم کا ایمان مضبوط اور مستحکم اور پائیدار ہوتا ہے _

۶_ اخلاق اور آداب کے بیان کرنے میں بھی یہی کوشش کی گئی ہے کہ پڑھنے

۷

والے کی اس فطرت کو بیدار کیا جائے جو اچھائی کی طرف میلان رکھتی ہے اور کمال کو حاصل کرنے کی خواہشمند ہوتی ہے تا کہ اچھے اور بری صفات کا خود مشاہدہ کرتے ہوئے تکمیل کے راستے کو پالے اور اس کو اپنائے

۷_ ہر سبق کے آخر میں اس سبق کا خلاصہ اور ضروری مطالب کو سوال اور جواب کی صورت میں بیان کیا گیا ہے تا کہ پڑھنے والا ان کے جوابات دینے کے لئے دوبارہ اس سبق کو دیکھے اور پڑھے اور اپنی کوشش اور سعی سے اسے حل کرے

آخر میں یہ بتلانا ضروری ہے کہ یہ کتاب اگر چہ نئی اور حیرت انگیز ہے لیکن یہ کوئی نئی تالیف نہیں بلکہ وہی کتاب ہے کہ جس کا نام آموزش دین تھا جسے پانچ جلدوں میں چھاپا جا چکا ہے لیکن اب اسے'' انصاریان پیبلیشرز'' کی خواہش پر انہیں مطالب کو اس طرز بیان کے ساتھ تبدیل کرکے منظم کردیا گیا ہے _ اور یہ بتلانا بھی ضروری ہے کہ اس کے پہلے اور دوسرے حصّہ میں مسئلہ عدل اور دیگر فروعات دین سے بحث اس لئے انہیں کی گئی کہ اس کا سمجھنا اکثر پڑھنے والوں کے لئے مشکل تھا _ انشاء اللہ یہ مطالب اس کتاب کے تیسرے اور چوتھے حصّہ میں بیان کئے جائیں گے _ امید ہے کہ یہ کاوش بارگاہ خدا میں مقبول اور پڑھنے والوں کے لئے فائدہ مند اور قابل توجہ قرار پائے

ابراہیم امینی

قم _ حوزہ علمیہ

بہمن ماہ سنہ ۱۳۶۱ شمسی

۸

پہلا حصّہ

خداشناسی

۹

پہلا سبق

۱ مچھلی

کیا آپ کے گھر میں مچھلی ہے ؟

کیا آپ مچھلی کو پسند کرتے ہیں؟

مچھلی کہاں زندگی گزارتی ہے؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ مچھلی کس ذریعہ سے پانی میں تیرتی ہے؟

اگر مچھلی کے پر نہ ہوں تو کیا وہ پانی میں تیر سکے گی ؟

کیا مچھلی نے اپنے لئے پر خود بنا لے ہیں؟

نہیں مچھلی نے اپنے پر خود نہیں بنالے اور نہ ہی کسی انسان نے اس کے پر بنائے ہیں بلکہ خداوند قادر و مہربان جانتا تھا کہ اس خوبصورت حیوان کے لئے پر ضرور ی ہیں اس لئے اسے پر عطا کئے تا کہ وہ پانی میں تیر سکے

گھر میں کسی برتن میں مچھلی ڈالٹے اور اپنے دوست کے ساتھ مل کر دیکھئے اور دیکھئے کہ مچھلی کس طرح سانس لیتی ہے ؟ کس طرح تیرتی ہے ؟ کس طرح پانی میں اوپر نیچے جاتے ہیں؟ کس وقت اپنی دم ہلا تی ہے ؟ اس وقت اپنے دوست سے پوچھئے _ کہ مچھلی کو کس نے پیدا کیا ہے _

۱۰

دوسرا سبق

پانی میں مچھلی کا دم کیوں نہیں گھٹتا

ایک دن احمد بچوں کے ساتھ گر میں کھیل رہا تھا_ اس کی ماں نے کہا _ بیٹا احمد ہوشیار حوض کے نزدیک نہ جانا _ ڈرتی ہوں کہ تم حوض میں نہ گرپڑو کیا تم نے ہمسائے کے لڑکے حسن کو نہیں دیکھا تھا کہ وہ حوض میں گر کر مرگیا تھا؟ احمد نے کہا اماں جان ہم اگر حوض میں گر جائیں تو مرجاتے ہیں _ اور مچھلیاں پانی کے نیچے رہتے ہوئے کیوں نہیں مرجاتیں؟ دیکھئے وہ پانی میں کتنا عمدہ تیر رہے ہیں ؟ اس کی ماں نے جواب دیا _ انسان کے لئے سانس لینا ضروری ہے تا کہ وہ زندہ رہ سکے _ اسی لئے ہم پانی کے نیچے زندہ نہیں رہ سکتے لیکن مچھلی کے اندر ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے ذریعے پانی میں سانس لے سکتی ہے اور جو تھوڑی بہت ہوا پانی کے اندر موجود ہے اس سے استفادہ کرتی رہتی ہے_ اسی لئے وہ پانی کے اندر زندہ رہ سکتی

کون مچھلی کیلئے فکرکررہا تھا

احمد نے ماں سے پوچھا: اماں جان کون مچھلی کے لئے ایسا فکر کررہا تھا _ مچھلی از خود تو نہیں جانتی تھی کہ کہاں اسے زندہ رہنا چاہی ے اور کون سی

۱۱

چیز اس کے لئے ضروری ہے _

اس کی ماں نے جواب دیا : بیٹا خدائے علیم اور مہربان مچھلی کے لئے فکر کررہا تھا _ اللہ تعالی جانتا تھا کہ اس خوبصورت جانور کو پانی کے اندر زندگی گزارنا ہے _ اس لئے اس نے مچھلی کے اندر ایسا وسیلہ رکھ دیا کہ جس کے ذریعہ سے وہ سانس لے سکے مچھلی پانی میں آبی پھپیھڑوں کے ذریعہ سانس لیتی ہے _

سوالات

۱_ احمد کی ماں کو کس چیز کا خوف تھا؟

۲_ ہمسائے کے لڑکے کا کیا نام تھا؟

۳_ وہ کیوں ڈوب گیا ؟

۴_ کیا وہ تیرنا جانتا تھا؟

۵_ کیا انسان پانی میں زندہ رہ سکتا ہے؟

۶_ پانی میں مچھلی کیوں نہیں مرتی؟

۷_ کون سی ذات مچھلی کے فکر میں تھی؟

۸_ کسی نے مچھلی کو پیدا کیا ؟

درج ذیل جملے مکمل کیجئے

اللہ _ جانتا _ کہ اس خوبصورت جانور کو پانی کے اندر زندگی گزارنی ہے اس کے لئے _ کہ جس کے ذریعے وہ وہاں سانس لے سکے

۱۲

تیسرا سبق

۳ داؤد اور سعید سیر کو گئے

داؤد اور سعید باپ کے ساتھ باغ میں سیر کرنے گئے _ باغ بہت خوبصورت تھا درخت سرسبز اور بلند تھے _ رنگارنگ عمدہ پھول تھے _ باغ کے وسط میں ایک نہر گزرتی تھی کہ جس میں بطخیں تیر رہی تھیں _ بطخیں بہت آرام سے پانی میں تیر رہی تھیں وہ پانی میں اپنا سرڈبوکرکوئی چیز پکڑکرکھارہی تھیں _ اچانک سعید نے ایک چڑیا دیکھی کہ جس کے پر تر ہو چکے تھے اور وہ نہیں اڑ سکتی تھی اس نے داؤد سے کہا:

بھائی جان دیکھئے : اس بیچاری چڑیا کہ پر پھیگ چکے ہیں اور وہ نہیں اڑ سکتی داؤد نے ایک نگاہ چڑیا پر او دوسری نگاہ بطخوں پر ڈالی اور تعجب سے کہا کہ بطخوں کے پر کیوں نہیں بھیگتے کتنی آرام سے پانی میں تیر رہی ہیں اور جب پانی سے باہر آتی ہیں تو اس کے پر اس طرح خشک ہوتے ہیں _ جیسے وہ پانی میں گئی ہی نہیں _ سعید نے ایک نظر بطخوں پر ڈالی اور کہا آپ سچ کہہ رہے ہیں _ لیکن مجھے یہ علم نہیں کہ ایسا کیوں ہے ؟ بہتر یہی ہے کہ یہ بات اپنے والد سے پوچھیں کہ بطخوں کے پر کیوں نہیں بھیگتے اور چھڑیوں کے پر کیوں بھیگ جاتے ہیں

بطخوں کے پر کیوں نہیں بھیگتے

سعید اور داود ڈرتے ہوئے والد کے پاس گئے اور ان سے کہا _ ابا جان آیئےطخوں کو پانی میں تیرتے دیکھئے کہ ان کے پر بالکل نہیں بھیگتے _ ابا جان بطخوں کے پر کیوں

۱۳

نہیں بھیگتے ؟ یہ سب نہر کے کنارے آئے _ والد نے کہا: شاباش ابھی سے ان چیزوں کو سمجھنے کی فکر میں ہو انسان کو چاہیئے کہ وہ جس چیز کو دیکھے اس میں غور و فکر کرے اور جسے نہیں جانتا وہ اس سے پوچھے کہ جواسے جانتا ہے _ تا کہ یہ بھی اس سے آگاہ ہوجائے _

خوبصورت بطخوں کو خدا نے پیدا کیا ہے

چونکہ بطخوں کے پر چکنے ہوتے ہیں اس لئے پانی کا ان پر اثر نہیں ہوتا ہے اگر بطخوں کے پر چکنے نہ ہوتے تو پانی میں بھیگ جاتے اور بھاری ہوجاتے اور مرغابی پانی میں نہ تیر سکتی اور نہ ہوا میں اڑسکتی _

سعید نہ کہا: ابا جان یہ حکمت کس ذات کی تھی؟ بطخیں خود تو نہیں جانتی تھیں کہ کس طرح اور کس ذریعے سے وہ اپنے پروں کو چکنا بنائیں _ باپ نے جواب دیا : عالم اور مہربان خدا کہ جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے _ وہ جانتا تھا کہ بطخوں کو پانی میں تیرنا ہے انہیں اس طرح پیدا کیا کہ ان کے پر ہمیشہ چکنے رہیں تا کہ وہ آسانی کے ساتھ پانی میں تیرسکیں _ اور ہوامیں اڑسکیں _

سوالات

۱_ سعید اور داؤد باغ میں کس لئے گئے تھے؟

۲_ انہوں نے باغ میں کیا دیکھا؟

۱۴

۳_ نہر کے کنارے چڑیا کیوں گری پڑی تھی اور اڑنہیں سکتی تھی؟

۴_ سعید کو کس چیز سے تعجب ہوا؟

۵_ انسان کو جب کسی چیز کا علم نہ ہو تو کیا کرے ؟

۶_ سوال کرنے کا کیا فائدہ ہے ؟

۷_ جب کسی چیز کو نہ جانے تو کس سے پوچھے؟

۸_ اگر بطخ کے پر چکنے نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟

۹_ کیا بطخیں جانتی تھیں کہ اس کے پروں کو چکنا ہونا چاہیئے؟

۱۰_ کس نے بطخ کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ اس کے پر ہمیشہ کیلئے چکنے ہوتے ہیں؟

۱۱_ ان چیزوں کو کس نے پیدا کیا ہے ؟

یہ جملے مکمل کیجئے

۱_ خوبصورت بطخوں کو ... ... کسے پیدا کیا ہے

۲_ شاباش ابھی سے تم ... ... کے سمجھنے کی فکر میں ہو

۳_ ہم جن چیزوں کو دیکھتے ہیں اس میں ... ... کریں

۴_ اور جسے نہیں جانتے وہ اس سے ... ... جو اسے جانتا ہے

۵_ چونکہ بطخوں کے پر ... ... ... پانی کو وہاں تک نہیں پہونچنے دیتے

۶_ اگر بطخوں کے پر چکنے نہ ہوتے تو ... ... ... جاتے

۷_ اللہ تعالی کی ... ... ... مہربان ذات کہ جسے تمام چیزوں کو پید اکیا ہے ... ... کہ بطخوں کو ... میں تیرنا ہے انہیں ... ... کہ انکے پر ہمیشہ چکنے رہیں

۸_ تاکہ وہ آسانی ... پانی میں ... اور ہوا میں ... سکے

۹_ اللہ تعالی کی ... ... مہربان ذات ... ... ... بطخوں کی فکر میں بھی تھی

۱۵

چوتھاسبق

۴ خوبصورت نو مولود بچہ

زہرا کا ایک بھائی پیدا ہوا جس کا نام مجید تھا _ زہرا بہت خوش تھی اور اسے اپنے نو مولود بھائی سے بہت محبت تھی _ ایک دن اپنے بھائی کے گہوارے کے پاس کھڑی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی تھوڑی دیر بعد اپنی ماں سے کہنے لگی اماں جان مجید کب بڑا ہوگا تا کہ وہ مجھ سے کھیل سکے : میں اپنے بھائی کو بہت چاہتی ہوں اس کی ماں نے کہا: پیاری زہرا صبرکرو _ انشاء اللہ مجید بڑا ہوگا اور تم آپس میں کھیلوگی اچانک مجید جاگ اٹھا اور اپنی نحیف آواز سے رونا شروع کردیا _ زہرا بے تاب ہوکر ماں سے کہنے لگی : اماں جان مجید کیوں رورہا ہے _ اس کی ماں نے جواب دیا _ شاید یہ بھوکا ہے _ زہرا دوڑی اور تھوڑی سی مٹھائی لے کر اس کے منھ میں ڈالنے لگی : جلدی سے ماں نے کہا پیاری زہرا مجید مٹھائی نہیں کھا سکتا _ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اس کے دانت نہیں ہیں خبردار کوئی چیز اس کے منہ میں نہ ڈالنا _ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ گلے میں پھنس جائے اور اس کا دم گھٹ جائے _ زہرا نے پوچھا پھر مجید کی غذا کون سی ہے _ ماں نے کہا: بیٹی مجید کی غذا دودھ ہے _ وہ دودھ پی کر یسر ہو تا ہے _ ماں اٹھی اور اس نے نو مولود کو دامن میں لے کر اپنے پستان اس کے منہ میں دے دیئے مجید نے ماں کے پستان منہ میں لے کر اپنے نازک لبوں سے انہیں چومنا شروع کردیا _ زہرا نے تھوڑی دیر مجید کو اور ماں کو دیکھا: اور پھر تعجب سے بولی اماں جان

۱۶

کیا آپ کے پستانوں میں اسے سے پہلے بھی دودھ تھا ؟ ماں نے کہا : نہیں ان میں پہلے دودھ نہ تھا : لیکن جس دن سے مجید نے دنیا میں قدم رکھا ہے میرے پستانوں میں دودھ بھر گیا ہے _ زہرا بولی اماں جان آپ کیسے مجید کے لئے دودھ بناتی ہیں ماں نے کہا کہ دودھ کا بن جانا میرے ہاتھ میں نہیں ہے میں غذا کھاتی ہوں : غذا سے دودھ بن جاتا ہے _ زہرا بولی کہ آپ اس سے پہلے بھی تو غذا کھاتی تھیں تو اس وقت یہ دودھ کیوں نہیں بنتا تھا؟ ماں نے جواب دیا صحیح ہے : میں اس سے پہلے بھی ہی غذا کی فکر تھی_ خدا جانتا تھا کہ جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو اسے غذا کی ضرورت ہوتی ہے _ اور خدا یہ بھی جانتا تھا کہ مجید کے دانت نہیں ہیں اور وہ ہماری طرح غذا نہیں کھا سکتا اسی لئے خدا نے اس کی ماں کے پستانوں کو دودھ سے بھردیا ہے تا کہ ناتواں بچہ بہتر اور سالم غذا کھا سکے _ پیاری زہرا دودھ ایک مکمل غذا ہے جس میں بچے کے بدن کی تمام ضروریات موجود ہیں _ اور بچہ آسانی سے اسے ہضم بھی کر سکتا ہے _ زہرا نے کہا اماں جان ہمارا خدا کتنا مہربان اور جاننے والا ہے _ اگر دودھ نہ ہوتا تو چھوٹا بچہ کیا کھاتا _ ماں نے کہا جی ہاں بیٹا خدا ہی تو ہے جس نے بچہ کو پیدا کیا ہے اور اسے غذا دیتا ہے _ خدائے مہربان ہی صحیح اور سالم دودھ بچے کے لئے بناتا ہے _ خداوند عالم کو بچے کی کمزوری کا علم تھا اسی لئے اسنے بچہ کی محبت ماں کے دل میں ڈالی تا کہ وہ اس کی نگہداشت اور پرورش کرے

۱۷

خداوند عالم نے کمزور اور بے زبان بچے کو یہ سکھایا ہے کہ جب وہ بھوکا ہو تو وہ رونا شروع کردے تا کہ ماں اس کی مدد کرے_

سوچ کران سوالوں کا جواب دیجئے

۱_ جب زہرا نے مجید کو دیکھا تھا تو اس نے اپنی ماں سے کیا کہا؟

۲_ کیا زہرا اپنے بھائی سے محبت کرتی تھی؟ اس کی دلیل دیجئے؟

۳_ کیا دودھ کا بنانا ماں کی قدرت میں ہے _ اورکیوں؟

۴_ یہ بات تمہیں کہاں سے معلوم ہوئی کہ خداوند عالم کو مجید کے مستقبل کا علم تھا ؟

۵_ کیسے علم ہوا ہے کہ خداوند : عالم اور مہربان ہے ؟

۶_ اگر دودھ نہ ہوتا تو نو مولود بچے کیا کھاتے ؟

۷_ اگر ماں کو بچے سے محبت نہ ہوتی تو کیا ہوتا ؟

۸_ کس نے بچے کی محبت ماں کے دل میں ڈالی ہے ؟

۹_ اگر بچہ بھوک کے وقت نہ روتا تو کیا ہوتا ؟

۱۰_ اگر بچہ چو سنا نہ جانتا تو ماں اسے کیسے دودھ دیتی ؟

۱۱_ رونا اور چوسنا کس نے بچہ کی فطرت میں رکھا ہے ؟

۱۸

پانچو سبق

۵ چروا ہے نے درس دیا

اکبر اور حسین چھٹی کے دن علی آباد نامی گاؤں میں گئے _ علے آباد بہت خوبصورت اور آباد گاؤں ہے اس میں بڑے بڑے باغ اور سبز کھیت ہیں گائے اور بھیڑوں کے گلے آبادی کے اطراف میں چرر ہے تھے _ بکریوں اوربھیڑوں کے بچے اپنی ماؤں کے ساتھ کھیل کودرہے تھے _ اکبر اور حسین ان کا تماشا دیکھ کر لطف اندوز ہورہے تھے _ اچانک اکبر کی نگاہ ایک خوبصورت بھیڑ پر پڑی جس نے ابھی بچہ جنا تھا اور وہ اسے چاٹ رہی تھی _ اکبر نے چروا ہے سے کہا کہ یہ بھیڑ کیوں اپنے بچے کو چاٹ رہی ہے ؟ چروا ہے نے کہا : اس بھیڑنے ابھی بچہ جنا ہے _ بچے کو دوست رکھتی ہے اور اسے صاف کرنا چاہتی ہے _ بچہ صاف ستھرا ہوگیا اور ماں کے تھنوں کی طرف لپکا _ تھن کو منہ میں لیا اور دودھ پینا شروع کردیا _ اکبر نے حسین سے کہا: اس بچے کو دیکھو ابھی دنیا میں آیا ہے لیکن فوراماں کے تھن معلوم کرلئے ہیں اسے کہاں سے معلوم ہوگیا کہ تھنوں میں دودھ ہے اور تھین ماں کے پیٹ کے نیچے ہے ؟ کس نے اسے یہ بتلایا ہے _ اس چوٹے بچے نے اس فہم اور دانائی کو کس سے سیکھا ہے ؟

چرواہا اکبر اور حسین کی یہ گفتگو سن رہا تھا _ اس نے کہا : پیارے بچو اللہ تعالی جو مہربان اور علیم ہے اس نے ایسی سمجھ چھوٹے بچے کو عطا کردی ہے یہ بچہ بھوکا ہے اور علم ہے کہ ماں کے تھنوں میں دودھ ہے اور وہ ماں کے پیٹ کے نیچے ہیں

۱۹

اور وہ بھی جانتا ہے اسکے علاوہ اور غذا اس کے لئے اچھی نہیں ہے _ یہ تمام چیزیں اللہ تعالی نے اسے سکھائی ہیں اگر بچے کو ان چیزوں کا علم نہ ہو تو ممکن ہے کہ یہ مرجائے حسین نہ کہا: اچھا ہے کہ دودھ اس کے گلے میں نہیں پھنستا ور نا یہ مرجاتا _ چرواہے نے کہا : پیارے بچو اللہ بہت دانا اور بہت مہربان ہے اس نے تھنوں میں بڑا سوراخ نہیں رکھاتا کہ اس سے زیادہ دودھ نہ نکل آئے اور بچے کے گلے میں پھنس جائے تھنوں کے سرپر کئی ایک چھوٹے چھوٹے سوراخ ہیں کہ بچے کو چوسنے سے اس سے دودھ باہر آتا ہے _ اس کے علاوہ تھنوں کے سرے کو اس طرح بنا دیا گیا ہے کہ بچہ بہت آسانی سے اس کو منہ میں لے کر دودھ پی لیتا ہے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ تم نے جب بچہ پیدا ہوتا دیکھا تو وہ کیا کرتا ہے ؟

۲_ اگر بچہ کو علم نہ ہوتا کہ دودھ کے تھن کہاں ہیں تو کیا ہوتا؟

۳_ اگر بچہ سنا نہ چانتا تو کیا ہوتا؟

۴_ جب بچہ بھوکا ہوتا ہے تو کیا کرتا ہے ؟

۵_ کس نے یہ ہوش اور دانانی بھیڑ کے بچے کو عنایت کی ہے ؟

۶_ آیا تم نے کبھی بھیڑ کے بچے کو بغل میں لیا ہے کیا تم نے کبھی اسے بوتل سے دودھ پلایا ہے؟

۷_ اگر تھنوں کا سوراخ بڑا ہوتا تو کیا ہوتا؟

۸_ چروا ہے نے اکبر اور حسین کو کون سا درس دیا ؟

۲۰