‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) 25%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 156

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 156 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92877 / ڈاؤنلوڈ: 4609
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

جواب دیجئے

۱_ ہمارے چوتھے امام کا کیا نام ہے آپ(ع) کے والداور والدہ کا کیا نام ہے ؟

۲_ والد کی شہادت کے بعد انکے مشن کو کس طرح عیاں فرماتے تھے؟

۳_ زین العابدین اور سجاّد کے معنی بتلاؤ اور آپ(ع) کو ان دو ناموں سے کیوں یادکیا جاتا تھا؟

۴_ آپ کی عمر مبارک کتنی تھی کس دن اور کس سال آپ(ع) نے وفات پائی ؟

۵_ آپ کو کہاں دفن کیا گیا ؟

۶_ تم اس وقت تک چار اماموں کے حالات زندگی پڑھ چکے ہوانکے نام ترتیب وار بیان کرو؟

۱۰۱

دوسرا سبق

اللہ سے راز و نیاز

ایک آدمی کہتا ہے کہ میں خانہ کعبہ کا طواف کررہا تھا کہ ایک خوبصورت جوان کو دیکھا کہ خانہ کعبہ کے پردے سے لپٹا ہوا رورہا ہے اور اپنے خالق سے راز و نیاز کی باتیں کررہا ہے _ اور کہہ رہا ہے _

پروردگار تمام آنکھیں سوچکی ہیں سورج غروب ہوچکا ہے _ ستارے آسمان پر ظاہر ہوچکے ہیں لیکن اے ساری دنیا کے مالک تو ہمیشہ زندہ اور پایندہ ہے_ اور جہاں اور جہان میں رہنے والوں کے لئے انتظام کررہاہے _ پرودگار: بادشاہوں نے اپنے محلوں کے دروازے مضبوطی سے بندکرلئے ہیں اور اس پر پہرہ دار بٹھادیئے ہیں لیکن تیرے گھر کا دروازہ ہمیشہ تمام لوگوں کے لئے کھلا ہوا ہے اور تو بیماروں کی شفا اور مظلوموں کی مدد کے لئے حاضر و آمادہ ہے _

اے خدائے مہربان اور تمام جہانوں کے محبوب یہ ناتوان اور کمزور بندہ رات کی تاریکی میں تیری چوکھٹ پر حاضر ہوا ہے شاید تو اس پر نگاہ کرم فرمائے _

ائے خدا تو اندھیری رات میں بیچاروں کی فریادرسی کرتا ہے _ اے خدا گرفتار لوگوں کو قید و بند سے نجات دیتا ہے _ اے خدا تو اپنے بندوں کی سختی اور دشواری میں مدد کرتا ہے _ اے خدا تو درندوں کو شفاء دیتا ہے _ پروردگار: تیرے مہمان تیرے گھر کے اطراف میں سوچکے ہیں لیکن اے قادر صرف تیری ذات ہے کہ جسے نیند نہیں آتی اور جہاں اور جہاں میں رہنے والوں کے لئے انتظام کرتا ہے : پروردگار:

۱۰۲

میں آج رات تیرے گھر آیا ہوں اور تجھے پکارتا ہوں کیوں کہ تو نے خود فرمایا ہے کہ مجھے ہی پکارو خدایا تجھے اس محترم گھر کی قسم میری روتی آنکھوں پر رحم فرما _ پروردگار اگر تیرے گھر نہ آئیں تو کس کے گھر جائیں اور کس سے امیدوابستہ کریں _

وہ آدمی کہتا ہے کہ '' اس آدمی کی یہ گفتگو جو اپنے خدا سے وجد کی حالت میں کررہا تھا مجھے بہت پسند آئی میں اس کے نزدیک گیا کہ دیکھوں وہ کون ہے _ میں نے دیکھا کہ امام زین العابدین حضرت سجاد ہیں کہ جو اس طرح سے مناجات کر رہے ہیں'':

۱۰۳

پہلا سبق

پانچویں امام حضرت امام محمد باقر علیہ السلام

امام محمد باقر علیہ السلام ستاون(۵۷) ہجری تیسری صفر کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کے والد امام زین العابدین (ع) اور والدہ ماجدہ فاطمہ دختر امام حسن علیہ السلام تھیں امام زین العابدین(ع) نے اللہ تعالی کے حکم سے اور پیغمبر کی وصیت کے مطابق اپنے بعد امام محمد باقر علیہ السلام کو لوگوں کا امام و پیشوا معيّن کیا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام دوسرے اماموں کی طرح علم و دانش میں بے نظیر تھے بڑے بڑے علماء اور دانشمند آپ(ع) کے علم سے استفادہ کرتے تھے اور اپنی علمی مشکلات آپ سے بیان کرتے تھے _ امام محمد باقر علیہ السلام لوگوں کو دین کے احکام کی تعلیم دیتے تھے اور ان کو زندگی کے آداب بتلاتے تھے _ لوگوں کی تعلیم و تربیت اورراہنمائی میں بہت کوشش فرماتے تھے آپ نے اپنی زندگی میں ہزاروں احادیث اور علمی مطالب لوگوں کو بتلائے جو آج ہم تک پہنچ چکے ہیں _

آپ کا علم و فضل اتنا زیادہ تھا کہ آپ (ع) کو باقر العلوم کہا جاتا تھا ، یعنی مختلف علوم کو بیان کرنے والا _

امام محمد باقر علیہ السلام ستاون '' ۵۷'' سال زندہ رہے اور ایک سو چودہ ہجری'' ۱۱۴'' سات ذی الحجہ کو مدینہ منورہ میں شہید کردیئےئے

۱۰۴

آپ (ع) کے جسد مبارک کو بقیع میں امام حسن علیہ السلام اور امام زین العابدین (ع) کے پہلو میں دفن کیا گیا _

۱۰۵

دوسرا سبق

امام(ع) سے سیکھیں

ایک مرد جو اپنے آپ کو زاہد اور تارک دنیا سمجھتا تھا کہتا تھا کہ میں ایک دن کھیتوں اور باغ سے گذر رہا تھا _ گرمی کا زمانہ تھا _ سورج تیزی سے چمک رہا تھا _ ہوا بہت گرم تھی میں نے ایک قومی آدمی کو دیکھا کہ وہ زراعت کے کام میں مشغول ہے اس سے پسینہ ٹپک رہا میں نے سوچا یہ کون انسان ہے جو اس گرمی میں دنیا کی طلب میں کوشش کررہا _ کون ہے جو اس قدر دنیا کے ماں کا طلب گار ہے اور خود کو تکلیف میں مبتلا کررکھا ہے _ میں اس کے نزدیک گیا لیکن وہ اپنے کام میں مشغول رہا _ مجھے یہ دیکھ کر بیحد تعجب ہوا کہ وہ امام باقر علیہ السلام ہیں یہ شریف انسان دنیا کا مال حاصل کرنے کے لئے کیوں اپنے آپ کو اتنی زحمت دے رہے ہیں _ کیوں دنیا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں _ ضروری ہے کہ اسے نصیحت کروں اور اس روش سے اسے روکوں _ زیادہ نزدیک ہوا اور سلام کیا _ امام علیہ السلام کی سانس پھولی ہوئی تھی اسی حالت میں آپ نے سلام کا جواب دیا _ اور اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کیا _ میں نے کہا کہ کیا یہ آپ (ع) کی شایان شان ہے کہ اس گرمی میںدنیا کی طلب میں اپنی آپ کو زحمت میں ڈالیں _ کیا درست ہے کہ اس گرمی میں مال دنیا حاصل کرنے کے لئے کوشش کریں _ اگر آپ (ع) کی موت اس حالت میں ہوجائے تو خدا کو کیا جواب دیں گے ؟ امام محمد باقر علیہ السلام نے میری طرف ایک نگاہ کی اور فرمایا اگر میری موت اس حالت میں آجائے تو میں اللہ کی اطاعت اور

۱۰۶

اس کی عبادت میں دنیا سے جاؤں گا _ میں نے سخت تعجب سے کہا کہ کیا اس حالت میں موت اطاعت خدا ہوگی؟ امام(ع) نے بہت با ادب لہجے اور نرم انداز میں فرمایا _ ہاں اطاعت خدا میں _ کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ کی اطاعت فقط نماز و روزہ ہے نہیں _ ایسا نہیں _ میں صاحب عیال ہوں زندگی کے لئے مصارف چاہئیں _ ضروری ہے کہ کام کروں اور محنت کروں تا کہ لوگوں کا محتاج نہ بنوں اور اپنی زندگی کو خود چلا سکوں اور غریبوں کی مدد کر سکوں اگر کام نہیں کروں گا تو میرے پاس پیسہ نہ ہوگا اور پھر اچھے کاموں میں شرکت نہیں کر سکوں گا اگر گناہ کی حالت میں دنیا سے جاؤں تو اللہ تعالی کے نزدیک شرمسار ہوں گا لیکن اب میں اللہ کی اطاعت اور بندگی کی حالت میں ہوں؟

خداوند عالم نے حکم دیا ہے کہ اپنی زندگی کا بوجھ دوسروں پرمت ڈالو_ اور حلال روزی کمانے کے لئے کوشش کرو _ لہذا یہ کام اور میری کوشش خداوند عالم کی اطاعت ہے نہ دنیا پرستی '' اور نہ دنیا کی محبّت ''

وہ آدمی کہتا ہے کہ '' میں اپنی پر نادم ہواور امام علیہ السلام سے معذرت طلب کی اور عرض کیا کہ مجھے معاف کردیجئے میں چاہتا تھا کہ آپ کو نصیحت کروں _ لیکن میں خود نصیحت اور راہنمائی کا محتاج نظر آیا _ آپ (ع) نے مجھے نصیحت کی ہے اور میری راہنمائی فرمائی ہے _ اس کے بعد ندامت سے سر جھکائے وہاں سے چل پڑا_

۱۰۷

جواب دیجئے

۱_ امام محمد باقر (ع) کس سال کی دن او رکہاں پیدا ہوئے؟

۲_ آپ (ع) کے والد اور والدہ کا کیا نام تھا؟

۳_ کس نے آپ(ع) کو امامت کیلئے معین فرمایا؟

۴_ باقر العلوم کا کیا مطلب ہے آپ کو یہ لقب کیوں دیا گیا ؟

۵_ امام محمد باقر (ع) کتنے سال زندہ رہے اور کس سال اور کس دن وفات پائی اور کہاں دفن ہوئے ؟

۶_ وہ آدمی جو خود کو زاہد اور تارک دنیا سمجھتا تھا اسے دوسرے پر کیوں شبہ ہوا؟

۷_ امام (ع) کی تعلیم کیسی ہوتی ہے اور امام کا علم و فضل کیسا ہوتا ہے ؟ کیا کوئی دوسرا آدمی امام(ع) کو تعلیم دے سکتا ہے ؟

۸_ امام محمد باقر(ع) کس لئے کام کرتے تھے اور ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے _ اللہ تعالی کا زندگی بسر کرنے کے لئے کیا حکم ہے ؟

۹_ حلال روزی کمانے کے لئے کام کرنا کیا ہے ؟

۱۰_ اس واقعہ سے اور امام کے فرمان سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ہم امام (ع) کے اخلاق اور کردار کی کس طرح پیروی کریں ؟

۱۰۸

پہلا سبق

چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق (ع)

امام جعفر صادق علیہ السلام تراسی ''۸۳'' ہجری سترہ''۱۷'' ربیع الاول کو پیدا ہوئے _ آپ(ع) کے والد گرامی امام محمد باقر علیہ السلام اور والد ماجدہ فاطمہ تھیں _ امام محمد باقر علیہ السلام نے اللہ کے حکم اور پیغمبر اسلام کی وصیت کے مطابق امام جعفر صادق علیہ السلام کو لوگوں کا امام و پیشوا معيّن کیا اور لوگوں کو آپ (ع) سے متعارف کرایا _ امام جعفر صادق علیہ السلام کو دین کی تبلیغ اور احکام قرآنی کے بیان کرنے کا زیادہ موقع ملا تھا کیونکہ آپ(ع) کے زمانے کے حاکم جنگوں میں مشغول تھے اور انہوں نے امام (ع) کی راہ میں بہت کم مزاحمت کی تھی _ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس سے فائدہ اٹھا یا _ دین کی تعلیم اوراسلام کی اشاعت میں بہت زیادہ کوشاں ہوئے _ لوگوں کو اسلام کے اعلی اخلاق اور عقائد سے آشنا کیا اور بہت سے شاگردوں کی تربیت کی _ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد مختلف علوم میں آپ(ع) سے درس لیتے تھے آپ (ع) کے شاگرد چار ہزار تھے __ انہوں نے بہت گراں مایہ کتابیں تحریر کیں ہیں _

آپ(ع) نے مسلمان ، شیعہ اور حقیقی شیعہ کی علامتیں بیان فرمائی ہیں اسی لئے مذہب شیعہ کو مذہب جعفری بھی کہا جاتا ہے _ امام جعفر صادق علیہ السلام پیسٹھ ''۶۵'' سال زندہ رہے اور ایک سو اڑتالیس ہجری پچیس '' ۲۵'' شوال کو مدینہ میں شہید

۱۰۹

ہوئے آپ (ع) کے جسم مبارک کو بقیع میں امام محمد باقر علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا گیا _ اللہ تعالی کا آپ(ع) پر ہمیشہ سلام ہو _

۱۱۰

دوسرا سبق

ذخیرہ اندوزی کی مذمّت

پہلے زمانے میں ہر گھر میں تنور ہوتا تھا اور چکی بھی ہوتی تھی ہر آڈمی روٹی کیلئے گندم مہیا کرتا اور اسے گھرلاتا تھا اور عورتیں گندم چکی میں پیس کرروٹی پکاتی تھیں جو مالدار ہوتے دہ سال کے مصرف کے لئے گندم خرید کر گھر میں ذخیرہ کرلیتے تھے _ ایک سال گندم کم ہوگیا جسکے نیتجہ میں اسکی قیمت بہت بڑھ گئی _ لوگوں کو ڈر ہوا کہ کہیں گندم نایاب نہ ہوجائے اور بھوکار ہنا پڑے جس کے پاس جتنے گیہوں تھے اسے محفوظ کرلیا اور جن کے پاس گندم نہ تھے اس نے بھی سال بھر کے مصرف کے لئے مہنگے خرید کر ذخیرہ کر لئے _ صرف غریب لوگ مجبور تھے کہ اپنی ضرورت کے گندم ہر روز خرید تے اور اگر انہیں گندم نہ ملتے تو بھوکے رہ جاتے _ امام جعفر صادق علیہ السلام کے خادم کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کو گندم کی کمیابی کا علم ہوچکا تھا _ آپ نے مجھے بلایا اور مجھ سے پوچھا'' کیا اس سال گھر میں گندم موجود ہے'' میں خوش تھا کہ ایسے سال کے لئے میں نے کافی گندم خرید رکھا تھا اوراما م جعفر صادق علیہ السلام کے خانوادے کو بھوک سے نجات دلوادی ہے _ میں منتظر تھا کہ امام مجھے شاباش کہیں گے اور سوچ رہا تھا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام مجھ سے فرمائیں گے کہ تم نے کتنا اچھا کیا _ گندم کو محفوظ رکھنا اور اگر ہوسکتے تو اور گندم خرید لینا _ لیکن میری امید کے خلاف امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: گندم کو گندم کے بازار میں لے جاؤ اور بیچ دو _ میں نے تعجب کیا اور پریشانی میں عرض کیا ، کیا گندم کو فروخت

۱۱۱

کردوں؟ مدینہ میں گندم نایاب ہے اگر اسے فروخت کرڈالا تو پھر مہيّا نہیں کر سکوں گا اور اس وقت بھوکا رہنا ہوگا

لیکن امام علیہ السلام نے مصمم ارادے سے دوبارہ فرمایا: وہی کرو جو میں نے کہا ہے _ جتنی جلدی ہو سکے گندم کو لوگوں کے اختیار میں دے دو _ میں گندم بازار لے گیا اور بہت سستی قیمت میں لوگوں کے ہاتھ فروخت کرڈالے جب گھر واپس آکر امام علیہ السلام کو اطلاع دی تو امام علیہ السلام بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ آج سے ہمارے گھر کے لئے روٹی آدھی گندم کی اور آدھی جوکی ہر روز بازار سے خریداکرو_ اگر گندم اور جو بازار میں موجود ہوا تو ہم روٹی پکائیں گے اور اگر موجود نہ ہوا تو غریب لوگوں کی طرح جو گندم ذخیرہ نہیں کر سکتے زندگی گذاریں گے _ ایسے زمانہ میں ہمیں زیب نہیں دیتا کہ مسلمانوں کی خوراک کو گھرمیں ذخیرہ کرلیں _ میں یہ کر سکتا تھا کہ اپنے خاندان کے لئے پورے سال کا مصرف کرلوں لیکن یہ کام میں نے نہیں کیا _ آج سے گھر کے لئے روٹی ہر روز مہيّا کریں گے تا کہ ہمارا کردار فقیروں کے لئے مدد کا باعث ہو اور زندگی بسر کرنے میں اللہ تعالی کے فرمان کی اطاعت بھی ہوجائے _

جواب دیجئے

۱_ شیعہ مذہب کو کیوں مذہب جعفری کہا جاتا ہے ؟

۲_ اما م جعفر صادق (ع) کے کتنے شاگر د تھے اور انہوں نے کیا یادگار یں چھوڑی ہیں؟

۳_ امام جعفر صادق (ع) نے کتنے سال عمر پائی اور اپنے والد کے سامنے کتنے سال زندہ رہے ؟

۱۱۲

۴_ امام علیہ السلام کو دین اسلام کی تبلیغ کے لئے کس وجہ سے زیادہ آزادی حاصل ہوئی تھی؟

۵_ جب امام (ع) کے والد کا انتقال ہوا تو امام جعفر صادق (ع) کی کتنی عمر تھی؟

۶_ امام صادق علیہ السلام کو کہاں دفن کیا گیا _ آپ (ع) کے پہلو میں تین امام اور بھی ہیں ان کے نام بتایئے

۷_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے خادم سے کیا فرمایا اور کیوں حکم دیا کہ گندم کو بیچ ڈالے؟

۸_ امام (ع) کے اس کردار کی ہم کیسے پیروی کر سکتے ہیں _ تنگدستی کے عالم میں مسلمانوں کی کس طرح مدد کرسکتے ہیں؟

۱۱۳

پہلا سبق

ساتویں امام حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام

امام موسی کاظم (ع) ۷ صفر المظفر سنہ ۱۲۸ ھ کو پیدا ہوئے _ آپ (ع) کے والد کا نام امام جعفر صادق (ع) اور والدہ کا نام حمیدہ تھا _ امام جعفر صادق (ع) نے اللہ تعالی کے حکم اور پیغمبر (ص) کی وصیت کے مطابق اپنے بعد امام موسی کاظم (ع) کو لوگوں کا امام اور پیشوا معین کیا اور لوگوں کو اس سے آگاہ فرمایا

امام موسی کاظم (ع) عالم اور متقی انسان تھے آپ (ع) کا علم و فضل آسمانی اور اللہ کی طرف سے تھا آپ (ع) کی عبادت اور زہد اتنا تھا کہ آپ(ع) کو عبد صالح یعنی نیک بندہ کہا جاتا تھا _ آپ (ع) بہت صابر و شاکر تھے _ مصائب کو برداشت کرتے تھے اور لوگوں کی غلطیوں کو درگزر کردیتے تھے اگر کوئی شخص جہالت کی وجہ سے آپ(ع) سے ایسی ناشائستہ حرکت کرتا جو غصہ کا موجب ہوتا تھا _ تو آپ (ع) غصہ کوپی جاتے تھے اور محبت و مہربانی سے اس کی رہنمائی فرماتے تھے _ اسی لئے آپ(ع) کو کاظم ''یعنی غصّہ پی جانے والا'' کہا جاتا تھا _ حضرت امام موسی کاظم (ع) پچیس سال اس دنیا میں زندہ رہے اور اپنی امامت کے زمانے کو صبر و شکر کے ساتھ گزاردیا آپ(ع) لوگوں کی دستگیری اور راہنمائی فرماتے میں مشغول رہے _ ۵ رجب سنہ ۱۸۳ ھ کو بغداد میں شہید کردیئےئے _ خدا اور فرشتوں کا آپ (ع) پر ہمیشہ سلام اور درود ہو _

۱۱۴

دوسرا سبق

ہدایت امام

ایک فقیر و نادار شخص کاشتکاری کرتا تھا _ جب بھی امام موسی کاظم علیہ السلام کو دیکھتا آپ (ع) سے گستاخی کرتا اور انکو گالیاں دیتا تھا ہر روز امام علیہ السلام اور آپ (ع) کے دوستوں کو تنگ کرتا تھا _ امام موسی کاظم علیہ السلام برابر اپنا غصہ پی جاتے تھے _ اور اس کی اذیت اور گالیوں کا جواب نہ دیتے تھے_ لیکن آپ (ع) کے دوست اس شخص کی بے ادبی اور گستاخی سے سخت آزردہ خاطر ہوتے _ ایک دن جب اس آدمی نے حسب معمول اپنی زبان بدگوئی کے لئے کھولی تو امام علیہ السلام کے دوستوں نے ارادہ کرلیا کہ اسے سزا دینگے اور اتنا ماریں گے مرجائے تا کہ اس کی بدزبانی ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے اور اس دنیا میں بھی اپنے کئے کا نتیجہ بھگت جائے امام موسی کاظم علیہ السلام کو ان کے ارادے کا علم ہو گیا _ آپ (ع) نے انہیں ایسا کرنے سے منع کردیا _ اور فرمایا اے میرے دوستو صبرکرومیں خود اسے ادب سکھاؤں گا _ چنددن گذر گئے اور اس شخص کی ناشائستہ حرکت میں فرق نہ آیا امام علیہ السلام کے اصحاب اسکے اس رویہ سے بہت ناراض تھے لیکن جب وہ ارادے کرتے کہ اسے خاموش کریں تو آپ (ع) انہیں روک دیتے تھے اور فرماتے تھے دوستو صبر کرو: میں خود اسے نصیحت کروں گا _ ایک دن امام موسی کاظم علیہ السلام نے پوچھا کہ وہ آدمی کہاں ہے _ دوستوں نے کہا _ شہر کے باہر اپنی زمین پر زراعت کرنے میں مشغول ہے _ امام موسی کاظم علیہ السلام سوار ہوئے اور اس کی طرف چلے

اس نے جب امام کو آتے دیکھا تو اپنے بیلچے کو زمین میں گاڑکرہاتھ کمر پر رکھ کر کھڑا

۱۱۵

ہوگیا _ وہ اپنی زبان بدگوئی کے لئے کھولنا چاہتا تھا کہ امام علیہ السلام اترے اور اس کی طرف بڑھے ، مہربانی سے سلام کیا اور نہایت نرمی سے ہنس کر اس سے گفتگو شروع کی _ آپ (ع) نے کہا تم تھک تو نہیں گے رہو _ تمہاری زمین کتنی سرسبز و شاداب ہے _ اس سے کتنی آمدنی ہوتی ہے _ اور کاشت کرنے پر کتنا خرچ ہوتا ہے _ وہ امام علیہ السلام کی تہذیب اور خوش اخلاقی سے تعجب میں پڑگیا اور کہنے لگا ایک سو طلائی سكّہ : امام علیہ السلام نے پوچھا کہ تم کو اس زمین کی پیدا وار سے کس قدر آمدنی کی توقع ہے _ اس نے سوچ کرکہا: دو سو طلائی سكّے _ امام (ع) نے ایک تھیلی نکالی اور اس کودی اور فرمایا کہ تجھے اس سے بھی زیادہ آمدنی ہوگی جب اس مرد نے اپنے برے کردار اور اذیت اور آزارکے مقابلے میں یہ اخلاق دیکھا تو بہت شرمندہ ہوا اور لرزتی ہوئی آواز میں کہا : کہ میں برا انسان تھا اور آپ کو تکلیف دیتا تھا _ لیکن آپ (ع) بلند پایہ اور بزرگ انسان کے فرزند ہیں _ آپ (ع) نے مجھ سے اچھائی کی ہے اور میری مدد فرمائی ہے _ میں گذارش کرتا ہوں کہ :

آپ مجھے معاف کریں _ امام علیہ السلام نے مختصر کلام کے بعد اس کو خدا حافظ کہا اور مدینہ کی طرف پلٹ آئے اس کے بعد جب بھی وہ مرد امام علیہ السلام کو دیکھتا تھا با ادب سلام کرتا تھا امام (ع) اور آپ کے دوستوں کا احترام کرتا اور کہتا تھا : کہ خدا بہتر جانتا ہے کہ کس طرح آزار اور گالیاں دینے والا انسان اس قدر باادب اور مہربان ہوگیا ہے _ شاید انہیں یہ علم ہی نہ تھا کہ امام علیہ السلام نے اس کی کس طرح تربیت کی تھی

۱۱۶

ان سوالوں اور ان کے جوابات کو اپنی کاپیوں میں لکھو:

۱_ کاظم (ع) کے کیا معنی ہیں _ حضرت امام موسی (ع) کو کیون کاظم کہا جاتا ہے ؟

۲_ امام موسی کاظم (ع) کس دن کس مہینے اور کس سال پیدا ہوئے ؟

۳_ آپ کے والد اور والدہ کا کیا نام تھا؟

۴_ آپ کا کوئی اور لقب تھا اور وہ کیوں آپ کو دیا گیا ؟

۵_ امام (ع) نے اس کاشتکاری کی کس طرح تربیت کی؟

۶_ امام (ع) کے دوست اس مرد کی کس طرح تربیت کرنا چاہتے تھے اور امام علیہ السلام نے انہیں کیا فرمایا؟

۷_ وہ آدمی امام(ع) کے حق میں کیا کہا کرتا تھا؟

۸_ جب آپ (ع) سے کوئی برائی کرتا تھا تو آپ اس سے کیا سلوک کرتے تھے؟

۹_ اگر کوئی جہالت کی وجہ سے تم سے بد سلوکی کرے تو تم اس کی کس طرح تربیت کروگے ؟

۱۰_ جب تم کو غصّہ آتا ہے تو کیا اپنا غصہ پی جاتے ہو؟

۱۱۷

پانچواں حصّہ

فروع دین

۱۱۸

پہلا سبق

پاکیزگی

ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی (ص) نے ایک آدمی کو دیکھا کہاس کا سر اور چہرہ گردو غبار سے اٹا ہوا ہے بال میلے کچیلے ہیں ہاتھ منہ دھویا نہیں ہے اور لباس گنداہے پیغمبر اسلام اس سے ناراض ہوئے اور فرمایا: کہ ایسی زندگی کیوں گذارتے ہو کیا تمہیں علم نہیں کہ پاکیزگی دین کا جزو ہے _ مسلمان کو ہمیشہ صاف و ستھرارہنا چاہیئے اور اللہ کی نعمتوں سے استفادہ کرنا چاہئے _

سوالات

۱_ ہمارے پیغمبر (ص) اس آدمی کو دیکھ کر کیوں ناراض ہوئے ؟

۲_ آپ (ع) نے اس سے کیا فرمایا؟

۳_ تم اپنے لباس کو دیکھو کہ کیا صاف ستھرا ہے ؟

۴_ اپنے ہاتھوں کو دیکھو کیا صاف ہیں اور ناخن کیسے ہیں؟

۵_ تم اپنے دانتوں کو کتنی بار صاف کرتے ہو ؟

۵_ تمہارے سب سے صاف ستھرے دوست کا کیا نام ہے ؟

۱۱۹

دوسرا سبق

ہمیشہ پاکیزہ رہیں

ہم سب جانتے ہیں کہ ناپاک اور گندی چیزیں ہماری سلامتی کے لئے مضرہیں اور ہمیں ان سے دور رہنا چاہیئے _ مثلاً انسان کا پیشاب اور غلاظت کثیف اور گندی ہوتی ہیں اسلام نے ان دونوں کو نجس اور ناپاک قرار دیا ہے اسلام کہتا ہے : کہ اگر بدن یا لباس ان دو سے ملوث ہوجائے تو اسے پانی سے دھوئیںتا کہ پاک ہوجائے _ نماز پڑھنے والے کا بدن یا لباس پاک ہونا چاہیے_ نجس غذا کا کھانا حرام اور گناہ ہے _ اسلام کہتا ہے : کہ جب پائخانہ جاتے ہو تو اس طرح بیٹھو کہ پیشاب کا قطرہ بھی تمہارے لباس اور بدن پر نہ پڑسکے _ کیونکہ پیشاب کا قطرہ اگر چہ بہت ہی معمولی کیوں نہ ہو بدن اور لباس کو آلودہ اور نجس کردیتا ہے _ پیشاب کے نکلنے کی جگہ کو پانی سے دھونا چاہیتے یعنی دو یا تین دفعہ اس جگہ پانی ڈالیں تا کہ پاک ہوجائے _ پائخانہ کرنے کے بعد اس جگہ ( مقعد) کو پانی یا کاغذ یا تین عدد ڈھیلے سے دھوئیں دائیں ہاتھ سے پانی ڈالیں اور بائیں ہاتھ سے دھوئیں _ پائخانہ سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھ کو پانی اور صابوں سے دھوئیں تا کہ اچھی طرح پاک و پاکیزہ ہوجائے _ قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے پیشاب کرنا حرام اور گناہ ہے بیٹھ کر بیشاب کرنا چاہیئے _ ہمارے پیغمبر (ص) فرماتے ہیں کہ کھڑے ہوکر کنویں کے کنارے ، میوہ دار درخت کے نیچے پیشاب نہ کرو _ دین اسلام پاکیزگی والا دین ہے اور پاکیزگی دین کا جزو ہے _ مسلمان بچّہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے بدن اور لباس کو پاک رکھے اور خود ہمیشہ پاکیزہ رہے _

۱۲۰

تیسرا سبق

وضوء

جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے اسے نماز سے پہلے اس ترتیب سے وضوء کرنا چاہیئے پہلے دونوں ہاتھوں کو ایک یا دو دفعہ دھوئے _ پھر تین مرتبہ کلی کرے پھر تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے اور صاف کرے _ پھر وضو کی نیت اس طرح کرے _ :

وضو کرتا ہوں _ یا کرتی ہوں_ واسطے دور ہونے حدث کے اور مباح ہونے نماز کے واجب قربةً الی اللہ '' نیت کے فوراً بعد اس ترتیب سے وضو کرے _

۱_ منہ کو پیشانی کے بال سے ٹھوڑی تک اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے _

۲_ دائیں ہاتھ کو کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۳_ بائیں ہاتھ کو بھی کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۴_ دائیں ہاتھ کی تری سے سرکے اگلے حصّہ پر اوپر سے نیچے کی طرف مسح کرے _

۵_ دائیں ہاتھ کی تری سے دائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

۶_ بائیں ہاتھ کی تری سے بائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

ماں باپ یا استاد کے سامنے وضو کرو اور ان سے پوچھ کہ کیا میرا وضو درست ہے _

۱۲۱

چوتھا سبق:

نماز پڑھیں

ہم کو نماز پڑھنی چاہئے تا کہ اپنے مہربان خدا سے نماز میں باتین کریں _ نماز دین کا ستون ہے _ ہمارے پیغمبر (ص) فرماتے ہیں : جو شخص نماز کو سبک سمجھے اور اس کے بارے میں سستی اور کوتاہی کرے وہ میرے پیروکاروں میں سے نہیں ہے _ اسلام ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد کو نماز سکھائیں اور سات سال کی عمر میں انہیں نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں اور اولاد کو ہمیشہ نماز پڑھنے کی یاددہانی کرتے رہیں اور ان سے نماز پڑھنے کے لئے کہتے رہیں _ جو لڑکے اور لڑکیاں بالغ ہوچکے ہیں انہیں لازمی طور پر نماز پڑھنی چاہیے اور اگر نماز نہیں پڑھتے ہیں تو اللہ کے نافرمان اور گناہگار ہوں گے

سوالات

۱_ ہم نماز میں کس سے کلام کرتے ہیں ؟

۲_ ہمارے پیغمبر (ص) نے ان لوگوں کے حق میں جو نماز میں سستی کرتے ہیں کیا فرمایا ہے ؟

۳_ سات سال کے بچّوں کے بارے میں ماں باپ کا کیا وظیفہ ہے ؟

۴_ کون تمہیں نماز سکھاتا ہے ؟

۵_ نماز دین کا ستون ہے کا کیا مطلب ہے ؟

۱۲۲

پانچواں سبق

نماز آخرت کیلئے بہترین توشہ ہے

نماز بہترین عبادت ہے _ نماز ہمیں خدا سے نزدیک کرتی ہے اور آخرت کیلئے یہ بہترین توشہ ہے _ اگر صحیح نماز پڑھیں تو ہم آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں گے _

حضرت محمد مصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں دنیا میں نماز پڑھنے کو دوست رکھتا ہوں ، میرے دل کی خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے _ نیز آپ(ع) نے فرمایا نماز ایک پاکیزہ چشمے کے مانند ہے کہ نمازی ہر روز پانچ دفعہ اپنے آپ کو اس میں دھوتا ہے _ ہم نماز میں اللہ تعالی کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اور ہمارا دل اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے _ جو شخص نماز نہیں پڑھتا خدا اور اس کا رسول (ص) اسے دوست نہیں رکھتا

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے تھے میں واجب نماز نہ پڑھنے والے سے بیزار ہوں _ خدا نماز پڑھنے والوں کو دوست رکھتا ہے بالخصوص اس بچّے کو جو بچپن سے نماز پڑھتا ہے زیادہ دوست رکھتا ہے _

ہر مسلمان دن رات میں پانچ وقت نماز پڑھے

۱_ نماز صبح دو رکعت

۲_ نماز ظہر چار رکعت

۳_ نماز عصر چار رکعت

۴_ نماز مغرب تین رکعت

۵_ نماز عشاء چار رکعت

۱۲۳

جواب دیجئے

۱_ حضرت محمد مصطفی (ص) نے نماز کے بارے میں کیا فرمایا ہے ؟

۲_ کیا کریں کہ آخرت میں سعادتمند ہوں ؟

۳_ ہر مسلمان دن رات میں کتنی دفعہ نماز پڑھتا ہے اور ہرایک کیلئے کتنی رکعت ہیں؟

۴_ جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کے لئے پیغمبر (ص) نے کیا فرما یا ہے ؟

۶_ کیا تم بھی انہیں میں سے ہو کہ جسے خدا بہت دوست رکھتا ہے اور کیوں؟

۱۲۴

چھٹا سبق

طریقہ نماز

اس ترتیب سے نماز پڑھیں

۱_ قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں اور نیت کریں یعنی قصد کریں کہ کون نماز پڑھنا چاہتے ہیں _ مثلاً قصد کریں کہ چار رکعت نماز ظہر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہوں _

۲_ نیت کرنے کے بعد اللہ اکبر کہیں اور اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اوپر لے جائیں _

۳_ تکبیر کہنے کے بعد سورہ الحمد اس طرح پڑھیں

( بسم الله الرحمن الرحیمی : الحمد لله ربّ العالمین _ الرّحمن الرّحمین _ مالک یوم الدین_ ايّاک نعبد و ايّاک نستعین_ اهدنا الصّراط المستقیم_ صراط الذین انعمت علیهم_ غیر المغضوب علیهم و لا الضّالین)

۴_ سورہ الحمد پڑھنے کے بعد قرآن مجید کا ایک پورا سورہ پڑھیں مثلاً سورہ توحید پڑھیں:

( بسم الله الرّحمن الرّحیم _ قل هو الله احد _ اللّه الصمد_ لم یلد و لم یولد _ و لم یکن له کفواً احد _)

۵_ اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس قدر جھکیں کہ ہاتھ زانو تک پہنچ جائے اور اس وقت پڑھیں

۱۲۵

سبحان ربّی العظیم و بحمده

۶_ اس کے بعد رکوع سر اٹھائیں اور سیدھے کھڑے ہو کر کہیں :

سمع الله لمن حمده

اس کے بعد سجدے میں جائیں _ یعنی اپنی پیشانی مٹی یا پتھر یا لکڑی پر رکھیں اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے زمین پر رکھیں اور پڑھیں:

سبحان ربّی الاعلی و بحمده

اس کے بعد سجدے سے سر اٹھاکر بیٹھ جائیں اور پڑھیں:

استغفر الله ربّی و اتوب الیه

پھر دوبارہ پہلے کی طرح سجدے میں جائیں اور وہی پڑھیں جو پہلے سجدے میں پڑھا تھا اور اس کے بعد سجدے سے اٹھا کر بیٹھ جائیں اس کے بعد پھر دوسری رکعت پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اٹھتے وقت یہ پڑھتے جائیں:

بحول الله و قوته اقوم و اقعد

پہلی رکعت کی طرح پڑھیں_

۷_ دوسری رکعت میں سورہ الحمد اور ایک سورہ پڑھنے کے بعد قنوت پڑھیں _ یعنی دونوں ہاتھوں کو منہ کے سامنے اٹھا کر دعا پڑھیں اور مثلاً یوں کہیں :

ربّنا اتنا فی الدنیا حسنةً و فی الآخرة حسنةً وقنا عذاب الناّر _

۱۲۶

اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس کے بعد سجدے میں جائیں اور انہیں پہلی رکعت کی طرح بجالائیں

۸_ جب دو سجدے کر چکیں تو دو زانو بیٹھ جائیں اور تشہد پڑھیں :

الحمد لله _ اشهد ان لا اله الاّ الله وحده لا شریک له و اشهد انّ محمد اً عبده و رسوله _ اللهم صلّ علی محمد و آل محمد

۹_ تشہد سے فارغ ہونے کے بعد کھڑے ہوجائیں اور تیسری رکعت بجالائیں تیسری رکعت میں سورہ الحمد کی جگہ تین مرتبہ پڑھیں :

سبحان الله و الحمد لله و لا اله الا الله والله اکبر

اس کے بعد دوسری رکعت کی طرح رکوع اور سجود کریں اور اس کے بعد پھر چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اسے تیسری رکعت کی طرح بجالائیں _

۱۰_ چوتھی رکعت کے دو سجدے بجالانے کے بعد بیٹھ کر تشہد پڑھیں اور اس کے بعد یوں سلام پڑھیں:

السّلام علیک ايّها النبی و رحمة الله و برکاته

السلام علینا و علی عباد الله الصالحین

السلام علیکم ورحمة الله و برکاته

یہاں ہماری ظہر کی نمازتمام ہوگئی

۱۲۷

اوقات نماز

صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے سورج نکلتے تک ہے نماز ظہر اور عصر کا وقت زوال شمس سے آفتاب کے غروب ہونے تک ہے _

مغرب اور عشاء کا وقت غروب شرعی شمس سے آدھی رات یعنی تقریباً سوا گیارہ بجے رات تک ہے _

یادرکھئے کہ

۱_ عصر اور عشاء کی نماز کو ظہر کی نماز کی طرح پڑھیں لیکن نیت کریں کہ مثلاً عصر کی یا عشاء کی نماز پڑھتا ہوں ...:

۲_ مغرب کی نماز تین رکعت ہے تیسری رکعت میں تشہد اور سلام پڑھیں _

۳_ صبح کی نماز دو رکعت ہے دوسری رکعت میں تشہد کے بعد سلام پڑھیں _

۱۲۸

ساتواں سبق

نماز پر شکوہ _ نمازجمعہ

نماز ایمان کی اعلی ترین کو نپل اور روح انسانی کا اوج ہے _ جو نماز نہیں پڑھتا وہ ایمان اور انسانیت کے بلند مقام سے بے بہرہ ہے _ نماز میں قبلہ روکھڑے ہوتے ہیں اور خدائے مہربان کے ساتھ کلام کرتے ہیں _ پیغمبر اسلام(ص) نے نماز قائم کرنے کے لئے تاکید کی ہے کہ مسجد میں جائیں اور اپنی نماز دوسرے نماز یوں کے ساتھ با جماعت ادا کریں تنہا نماز کی نسبت دریا اور قطرہ کی ہے اور ان کے ثواب اور اجر میں بھی یہی نسبت ہے جو مسجد میں با جماعت ادا کی جائے _ جو نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں _ ان میں نماز جمعہ کا خاص مقام ہے کہ جسے لازمی طور سے جماعت کے ساتھ مخصوص مراسم سے ادا کیا جاتا ہے _ کیا آپ نماز جمعہ کے مراسم جانتے ہیں ؟ کیا جانتے ہیں کہ کیوں امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لے کر کھڑا ہوتا ہے ؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ امام جمعہ کو خطبوں میں کن مطالب کو ذکر کرنا ہے ؟

امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں اس لئے لیتا ہے تا کہ اسلام کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے خلاف اعلان کرے کہ مسلمان کو اسلامی سرزمین کے دفاع کے لئے ہمیشہ آمادہ رہنا چاہیئے _ ہتھیار ہاتھ میں لے کر ہر ساتویں دن مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ نماز کے برپا کرنے کے لائے لازمی طور پر جہاد اور مقابلہ کرنا ہوگا _ امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لیکر خطبہ پڑھتا ہے تا کہ اعلان کر ے کہ نماز اور جہاد ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں _ اور مسلمانوں کو ہمیشہ ہاتھ میں ہتھیار رکھنا چاہیئےور دشمن

۱۲۹

کی معمولی سے معمولی حرکت پر نگاہ رکھنی چاہیے _ جو امام جمعہ اسلامی معاشرہ کے ولی اور رہبر کی طرف سے معيّن کیا جاتاہے وہ ہاتھ میں ہتھیار لیتا ہے اور لوگوں کی طرف منہ کرکے دو خطبے دیتا ہے اور اجتماعی و سیاسی ضروریات سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے اور ملک کے عمومی حالات کی وضاحت کرنا ہے _ اجتماعی مشکلات اور اس کے مفید حل کے راستوں کی نشاندہی کرتا ہے _ لوگوں کو تقوی _ خداپرستی ایثار اور قربانی و فداکاری کی دعوت دیتا ہے اور انہیں نصیحت کرتا ہے _ نماز یوں کو پرہیزگاری ، سچائی ، دوستی اورایک دوسرے کی مدد کرنے کی طرف رغبت دلاتا ہے _ لوگ نماز کی منظم صفوں میں نظم و ضبط برادری اور اتحاد کی تمرین اور مشق کرتے ہیں _ اور متحد ہوکر دشمن کامقابلہ کرنے کا اظہار کرتے ہیں _ جب نماز جمعہ کے خطبے شروع ہوتے ہیں اور امام جمعہ تقریر کرنا شروع کرتا ہے تو لوگوں پر ضروری ہوجاتاہے کہ وہ خامو ش اور آرام سے بیٹھیں اور نماز جیسی حالت بناکر امام جمعہ کے خطبوں کو غور سے نہیں _

سوالات

۱_ نماز جمعہ کی منظم صفیں کس بات کی نشاندہی کرتی ہیں؟

۲_ امام جمعہ خطبہ دیتے وقت ہاتھ میں ہتھیار کیوں لیکر کھڑا ہوتا ہے ؟

۳_ امام جمعہ کو کون معيّن کرتا ہے ؟

۴_ امام جمعہ نماز جمعہ کے خطبے میں کن مطالب کو بیان کرتا ہے ؟

۵_ نماز جمعہ کے خطبے دیئےانے کے وقت نماز یوں کا فرض کیا ہوتا ہے ؟

۱۳۰

آٹھواں سبق

روزہ

اسلام کی بزرگ ترین عبادات میں سے ایک روزہ بھی ہے

خدا روزا داروں کو دوست رکھتا ہے اور ان کو اچھی جزا دیتا ہے روزہ انسان کی تندرستی اور سلامتی میں مدد کرتا ہے

جو انسان بالغ ہوجاتا ہے اس پر ماہ مرضان کا روزہ رکھنا واجب ہوجاتا ہے اگرروزہ رکھ سکتا ہو اور روزہ نہ رکھے تو اس نے گناہ کیا ہے روزہ دار کو سحری سے لیکر مغرب تک کچھ نہیں کھانا چاہئے

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ اسلام کی بزرگ ترین ...ہے

۲_ خدا روزہ داروں ہے

۳_ روزہ انسان کی مدد کرتا ہے

۴_ روزہ دار کو نہیں کھانا چاہیئے

۵_ اگر روزہ رکھ سکتا ہو اور گناہ کیا ہے

۱۳۱

نواں سبق

ایک بے نظیر دولہا

ایک جوان بہادر اور ہدایت یافتہ تھا _ جنگوں میں شریک ہوتا تھا _ ایمان اور عشق کے ساتھ اسلام و قرآن کی حفاظت اور پاسداری کرتا تھا _ اللہ کے راستے میں شہادت کو اپنے لئے بڑا افتخار سمجھتا تھا کہ میدان جنگ میں شہید ہوجانا اس کی دلی تمنا تھی _ یہ تھا حنظلہ جو چاہتا تھا کہ مدینہ کی اس لڑکی سے جو اس سے منسوب تھی شادی کرلے شادی کے مقدمات مہيّا کرلئے گئے تھے _ تمام رشتہ داروں کو شادی کے جشن میں مدعو کیا جا چکا تھا _ اسی دن پیغمبر اکرم (ص) کو مطلع کیا گیا کہ دشمن کی فوج مدینہ کی طرف بڑھ رہی ہے اور شہر پر حملہ کرنے والی ہے _

پیغمبر (ص) نے یہ خبر بہادر اور مومن مسلمانوں کو بتلائی اور جہاد کا اعلان فرمایا_ اسلام کے سپاہی مقابلہ اور جنگ کے لئے تیار ہوگئے _ جوان محافظ اور پاسداروں نے محبت اور شوق کے جذبے سے ماں باپ کے ہاتھ چومے خداحافظ کہا _ ماؤں نے اپنے کڑیل جوانوں کو جنگ کا لباس پہنایا اور ان کے لئے دعا کی _ چھوٹے بچے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر اپنے باپ اور بھائیوں کو الوداع کررہے تھے _

اسلام کی جانباز فوج اللہ اکبر کہتے ہوئے شہر سے میدان احد کی طرف روانہ ہور ہی تھی _ اہل مدینہ اسلام کی بہادر فوج کو شہر کے باہر تک جاکر الوداع کہہ رہے تھے _ حنظلہ پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پریشانی و شرمندگی کے عالم میں عرض کیا _ یا رسول اللہ (ص) میں چاہتا ہوں کہ میں بھی میدان احد میں حاضر ہوں اور جہاد

۱۳۲

کروں لیکن میرے ماں باپ اصرار کررہے ہیں کہ میں آج رات مدینہ رہ جاؤں _ کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آج رات مدینہ میں رہ جاؤں اور اپنی شادی میں شرکت کرلوں اور کل میں اسلامی فوج سے جا ملوں گا _ رسول خدا (ص) نے اسے اجازت دے دی کہ وہ مدینہ میں رہ جائے _ مدینہ خالی ہوچکا تھا _ حنظلہ کی شادی کا جشن شروع ہوا لیکن اس میں بہت کم لوگ شریک ہوئے _ حنظلہ تمام رات بیقرار رہا کیونکہ اس کی تمام تر توجہ جنگ کی طرف تھی وہ کبھی اپنے آپ سے کہتا کہ اے حنظلہ تو عروسی میں بیٹھا ہوا ہے لیکن تیرے فوجی بھائی اور دوست میدان جنگ میں مورچے بنارہے ہیں وہ شہادت کے راستے کی کوشش میں ہیں وہ اللہ کا دیدار کریں گے اور بہشت میں جائیں گے اور تو بستر پر آرام کررہا ہے _ شاید حنظلہ اس رات بالکل نہیں سوئے اور برابر اسی فکر میں رہے حنظلہ کی بیوی نئی دلہن کی آنکھ لگ گئی _ اس نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان پھٹ گیا ہے _ اور حنظلہ آسمان کی طرف چلا گیا ہے اور پھر آسمان کا شگاف بند ہوگیا ہے خواب سے بیدار ہوئی _ حنظلہ سحر سے پہلے بستر سے اٹھے اورجنگی لباس پہنا اور میدان احد کی طرف جانے کے لئے تیار ہوئے دلہن نے پر نم آنکھوں سے اس کی طرف نگاہ کی اور خواہش کی کہ وہ اتنی جلدی میدان جنگ میں نہ جائے اور اسے تنہا نہ چھوڑے حنظلہ اپنے آنسو پونچھ کر کہنے لگے اے میری مہربان بیوی _ میں بھی تجھے دوست رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تیرے ساتھ اچھی زندگی بسر کروں لیکن تجھے معلوم ہے کہ پیغمبر (ص) اسلام نے کل جہاد کا اعلان کیا تھا پیغمبر (ص) کے حکم کی اطاعت واجب ہے اور اسلامی مملکت کا دفاع ہر ایک مسلمان کا فرض ہے _ اسلام کے محافظ اور پاسدار اب میدان جنگ میں صبح کے انتظار میں قبلہ رخ بیٹھے ہیں تا کہ نماز ادا کریں اور دشمن پرحملہ کردیں میں بھی ان کی مدد کے لئے جلدی جانا چاہتا ہوں اے مہربان بیوی

۱۳۳

میں امید کرتا ہوں کہ مسلمان فتح اور نصرت سے لوٹیں گے اور آزادی و عزت کی زندگی بسر کریں گے اگر میں ماراگیا تو میں اپنی امیدوار آرزو کو پہنچا اور تجھے خدا کے سپرد کرتا ہوں کہ وہ بہترین دوست اور یاور ہے _ دولہا اور دلہن نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور دونوں کے پاک آنسو آپس میں ملے اور وہ ایک دوسرے سے جد ا ہوگئے _ حنظلہ نے جنگی آلات اٹھائے اور میدان احد کی طرف روانہ ہوے وہ تنہا تیزی کے ساتھ کھجوروں کے درختوں اور پتھروں سے گذرتے ہوے عین جنگ کے عروج کے وقت اپنے بھائیوں سے جاملے _ امیر لشکر کے حکم کے مطابق جو ذمہ داری ان کے سپرد ہوئی اسے قبول کیا اور دشمن کی فوج پر حملہ آور ہوئے باوجودیکہ وہ تھکے ہوئے دشمن پر سخت حملہ کیا _ چابکدستی اور پھر تی سے تلوار کا وار کرتے اور کڑکتے ہوئے بادل کی طرح حملہ آور ہوتے اور دشمنوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے دشمن کے بہت سے آدمیوں کو جنہم واصل کیا اور بالآخر تھک کر گرگئے اور زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ میں فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں کو حنظلہ کے جسم پاک کو آسمان کی طرف لے جارہے ہیں اور غسل دے رہے ہیں _ یہ خبر اس کی بیوی کو مدینہ پہنچی

سوالات

۱_ پیغمبر اسلام نے کس جنگ کے لئے اعلان جہاد کیا ؟

۲_ پیغمبر کے اعلان جہاد کے بعد اسلام کے پاسدار کس طرح آمادہ ہوگئے ؟

۳_ حنظلہ پریشانی کی حالت میں پیغمبر (ص) (ص) کی خدمت میں کیوں حاضر ہوئے اور کیا کہا؟

۱۳۴

حنظلہ عروسی کی رات اپنے آپ سے کیا کہا رہے تھے اور ان کے ذہن میں کیسے سوالات آرہے تھے؟

۵_ دلہن نے خواب میں کیا دیکھا؟

۶_ حنظلہ نے چلتے وقت اپنی بیوی سے کیا کہا؟

۷_ حنظلہ کی بیوی نے حنظلہ سے کیا خواہش ظاہر کی؟

۸_ پیغمبر (ص) اسلام نے حنظلہ کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۵

چھٹا حصّہ

اخلاق و آداب

۱۳۶

پہلا سبق

والدین سے نیکی کرو

ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ میرا لڑکا اسماعیل مجھ سے بہت اچھائی سے پیش آتا ہے وہ مطیع اور فرمانبردار لڑکا ہے _ ایسا کام کبھی نہیں کرتا جو مجھے گراں گذرے _ اپنے کاموں کو اچھی طرح انجام دیتا ہے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اس سے پہلے بھی اسماعیل کو دوست رکھتا تھا لیکن اب اس سے بھی زیادہ دوست رکھتا ہوں کیونکہ اب یہ معلوم ہوگیا کہ وہ ماں باپ سے اچھا سلوک روارکھتا ہے ہمارے پیغمبر(ص) ان اچھے بچوں سے جو ماں باپ سے بھلائی کرتے تھے _ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے

'' خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے ''

'' اپنے ماں باپ سے نیکی کرو''

سوالات

۱_ امام جعفر صاد ق (ع) نے اسماعیل کے باپ سے کیا کہا؟

۲_ اسماعیل کا عمل کیسا تھا؟

۳_ گھر میں تمہارا عمل کیسا ہے کن کاموں میں تم اپنے ماں باپ کی مدد کرتے ہو؟

۱۳۷

دوسرا سبق

استاد کا مرتبہ

ہمارے پیغمبر حضرت محمدمصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں لوگوں کامعلّم اور استاد ہوں _ او ر انکو دینداری کا درس دیتا ہوں _

حضرت علی (ع) نے فرمایا : کہ باپ اور استاد کے احترام کے لئے کھڑے ہوجاؤ _

چوتھے امام حضرت سجاد (ع) نے فرمایا ہے : استاد کے شاگرد پر بہت سے حقوق ہیں : پہلا حق شاگرد کو استاد کا زیادہ احترام کرنا _ دوسرا : اچھی باتوں کی طرف متوجہ ہونا _ تیسرا : اپنی نگاہ ہمیشہ استاد پر رکھنا _ چوتھا : درس یاد رکھنے کے لئے اپنے حواس جمع رکھنا _ پانچواں : کلاس میں اس کے درس کی قدر اور شکریہ ادا کرنا _

ہم آپ (ع) کے اس فرمان کی پیروی کرتے ہیں _ اور اپنے استاد کو دوست رکھتے ہیں اور انکا احترام کرتے ہیں _ اور جانتے ہیں کہ وہ ماں باپ کی طرح ہم پر بہت زیادہ حق رکھتے ہیں _

سوالات

۱_ لکھنا پڑھنا کس نے تمہیں سکھلایا؟

۲_ جن چیزوں کو تم نہیں جانتے کس سے یاد کرتے ہو؟

۳_ انسانوں کے بزرگ ترین استاد کوں ہیں؟

۴_ ہمارے پہلے امام (ع) نے باپ اور استاد کے حق میں کیا فرمایا؟

۵_ ہمارے چوتھے امام(ع) نے استاد کے حقوق کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۸

تیسرا سبق

اسلام میں مساوات

ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ (ع) ایک دستر خوان پر اپنے خادموں اور سیاہ غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے میں نے کہا: کاش: آپ (ع) خادموں اور غلاموں کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاتے _ مناسب نہیں کہ آپ (ع) ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں _ امام رضا علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا_ چپ رہو میں کیوں ان کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاؤں؟ ہمارا خدا ایک ہے ہم سب کے باپ حضرت آدم علیہ السلام اور ہم سب کی ماں حضرت حوّا ، علیہا السلام ہیں _ ہر ایک کی اچھائی اور برائی اور جزا اس کے کام کی وجہ سے ہوتی ہے _ جب میں ان سیاہ غلاموں اور خادموں کے ساتھ کوئی فرق روا نہیں رکھتا توان کیلئے علیحدہ دستر خواہ کیوں بچھاؤں

سوالات

۱_ امام رضا علیہ السلام کن لوگوں کے ساتھ کھا ناکھارہے تھے ؟

۲_ اس آدمی نے امام رضا علیہ السلام سے کیا کہا؟

۳_ امام رضا علیہ السلام نے اسے کیا جواب دیا ؟

۴_ تم کس سے کہوگے کہ چپ رہو اور کیوں؟

۵_ ہر ایک کی اچھائی اور برائی کا تعلق کس چیز سے ہے ؟

۶_ امام رضا علیہ السلام کے اس کردار کی کس طرح پیروی کریں گے ؟

۱۳۹

چوتھا سبق

بوڑھوں کی مدد

ایک دن امام موسی کاظم (ع) مسجد میں مناجات اورعبادت میں مشغول تھے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا کہ جس کا عصا گم ہوچکا تھا جس کی وجہ وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھ سکتا تھا آپ(ع) کا دل اس مرد کی حالت پر مغموم ہوا با وجودیکہ آپ (ع) عبادت میں مشغول تھے لیکن اس کے عصا کو اٹھا کر اس بوڑھے آدمی کے ہاتھ میں دیا اور اس کے بعد عبادت میں مشغول ہوگئے _ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ زیادہ عمر والوں اور بوڑھوں کا احترام کرو _ آپ (ع) فرماتے ہیں : کہ بوڑھوں کا احترام کرو جس نے ان کا احترام کیا ہوگیا اس نے خدا کا احترام کیا _

سوالات

۱_ بوڑھا آدمی اپنی جگہ سے کیوں نہیں اٹھ سکتا تھا؟

۲_ امام موسی کاظم (ع) نے اس بوڑھے آدمی کی کس طرح مدد کی ؟

۳_ پیغمبر (ص) بوڑھوں کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟

۴_ کیا تم نے کبھی کسی بوڑھے مرد یا عورت کی مدد کی ہے ؟

۵_ بوڑھوں کے احترام سے کس کا احترام ہوتا ہے ؟

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156