‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) 25%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 156

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 156 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 90263 / ڈاؤنلوڈ: 4347
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اپنے کاموں کا نتیجہ پاتے ہیں _ سعیدہ بیٹی ہم آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اچھے کام کرنے والے لوگ بہشت میں جائیں گے اور بہت راحت و آرام کی زندگی بسرکریں گے _ اور گنہکار جہنم میں جائیں گے _ اور عذاب اور سختی میں رہیں گے _

آخرت کی نعمتیں اور لذتیں دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے بہتر اور برتر ہیں ان میں کوئی عیب اور نقص نہیں ہوگا _ اہل بہشت ہمیشہ اللہ تعالی کی خاص توجہ اور محبت کا مرکز رہتے ہیں _ خدا انہیںہمیشہ تازہ نعمتوں سے نوازتا ہے اہل بہشت اللہ تعالی کی تازہ نعمتوں اور اس کی پاک محبت سے مستفید ہوتے ہیں اور ان نعمتوں اور محبت سے خوش و خرم رہتے ہیں _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ سعیدہ کس چیز کو بے فائدہ اور بے نتیجہ سمجھتی تھی او رکیوں؟

۲_ اس کی ماں نے اسے کیا جواب دیا؟

۳_ کیا ہم مرجانے سے فنا ہوجاتے ہیں اگر مرنے سے ہم فنا ہوجاتے ہوں تو پھر ہمارے کاموں اور کوششوں کا کیا نتیجہ ہوگا؟

۴_ اپنے کاموں کا پورا نتیجہ کس دنیا میں دیکھیں گے ؟

۵_ نیک لوگ آخرت میں کیسے رہیں گے اور گناہ کار کیسے رہیں گے ؟

۶_ '' دنیا آخرت کی کھیتی ہے '' سے کیا مراد ہے ؟

۴۱

چھٹا سبق

آخرت میں بہتر مستقبل

اس جہان کے علاوہ ایک جہان اور ہے جسے جہان آخرت کہا جاتا ہے _ خدانے ہمیں جہان آخرت کے لئے پیدا کیا ہے _ جب ہم مرتے ہیں تو فنا نہیں بلکہ اس جہان سے جہان آخرت کی طرف چلے جاتی ہیں ہم صرف کھا نے پینے سونے کے لئے اس جہاں میں نہیں آئے بلکہ ہم یہاں اس لئے آئے ہیں تا کہ خداوند عالم کی عبادت اور پرستش کریں _ اچھے اور مناسب کام انجام دیں تا کہ کامل ہوجائیں اور جہان آخرت میں اللہ کی ان نعمتوں سے جو اللہ نے ہمارے لئے پیدا کی ہیں _ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں _

جو کام بھی ہم اس دنیا انجام دیتے ہیں اس کا نتیجہ آخرت میں دیکھیں گے _

اگر ہم نے خدا کی عبادت کی اور نیک کام کرنے والے قرار پائے تو ہمارا مستقبل روشن ہو گا اور بہترین زندگی شروع کرینگے اور اگر ہم نے خدا کے فرمان کی پیروی نہ کی اور برے کام انجام دیئے تو آخرت میں بدبخت قرار پائیں گے اور اپنے کئے کی سزاپائیں گے اور سختی اور عذاب میں زندگی بسر کریں گے

۴۲

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ اس جہاں میں ہمارا فرض کیا ہے _ کامل بنے کے لئے ہمیں کیا کام انجام دینے چاہیئے ؟

۲_ اللہ کی بڑی اور اعلی نعمتیں کس جہان میں ہیں ؟

۳_ روشن مستقبل کن لوگوں کے لئے ہے ؟

۴_ آخرت میں سخت عذاب کن لوگوں کے لئے ہے ؟

۵_ کیا تمہیں معلوم ہے کہ کون سے کام اچھے اور مناسب ہیں اور کوں لوگ ہمیں اچھے اور مناسب کاموں کی تعلیم دیتے ہیں ؟

۴۳

تیسرا حصّہ

نبوت

۴۴

پہلا سبق

اللہ نے پیغمبڑ بھیجے ہیں

خدا چونکہ بندوں پر مہربان ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے بند ے اس دنیا میں اچھی اور آرام دہ زندگی بسر کریں اور آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں وہ دستور جوان کی دنیا اور آخرت کے لئے فائدہ مند ہیں _ پیغمبروں کے ذریعہ ان تک پہنچا ئے چونکہ پیغمبروں کی شخصیت عظیم ہوتی ہے اسی لئے خدا نے انہیں لوگوں کی رہنمائی کیلئےچنا_ پیغمبر لوگوں کو نیک کام اور خدائے مہربان کی پرستش کی طرف راہنمائی کرتے تھے _ پیغمبر ظالموں کے دشمن تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کے درمیان مساوات و برابری قائم کریں _

سوالات

۱_ خدانے کیوں لوگوں کے لئے پیغمبر بھیجا ہے ؟

۲_ پیغمبر خدا سے کیا چیز لیکرآئے؟

۳_ پیغمبر کیا کرتے تھے؟

۴_ پیغمبر کس قسم کے لوگ ہوتے تھے؟

۵_ اگر ہم پیغمبروں کے دستور کے مطابق عمل کریں تو کیا ہوگا؟

۴۵

دوسرا سبق

انسانوں کے معلّم

پیغمبرانسانوں کے معلّم ہوتے ہیں _ ابتداء آفرینش سے لوگوں کے ساتھ _ اور ہمیشہ ان کی تعلیم و تربیت میں کوشاں رہے _ وہ بنی نوع انسان کو معاشرتی زندگی اور زندگی کے اچھے اصولوں کی تعلیم دیتے رہے _ مہربان خدا اور اس کی نعمتوں کو لوگوں کو بتلاتے تھے اور آخرت اور اس جہاں کی عمدہ نعمتوں کا تذکرہ لوگوں سے کرتے رہے _ پیغمبر ایک ہمدرد اور مخلص استاد کے مانند ہوتے تھے جو انسانوں کی تربیت کرتے تھے_ اللہ کی پرستش کا راستہ انہیں بتلاتے تھے پیغمبر نیکی اور اچھائی کا منبع تھے وہ نیک اور برے اخلاق کی وضاحت کرتے تھے_ مدد اور مہربانی خیرخواہی اور انسان دوستی کی ان میں ترویج کرتے تھے تمام انسانوں میں پہلے دور کے انسان بے لوث اور سادہ لوح تھے پیغمبروں نے ان کی رہنمائی کے لئے بہت کوشش کی اور بہت زحمت اور تکلیفیں برداشت کیں پیغمبروں کی محنت و کوشش اور رہنمائی کے نتیجے میں انسانوں نے بتدریج ترقی کی اور اچھے اخلاق سے واقف ہوئے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ زندگی کے اصول اور بہتر زندگی بسر کرنے کا درس انسانوں کو کس نے دیا ؟

۴۶

۲_ پیغمبر لوگوں کون سے تعلیم دیتے تھے؟

۳_ پیغمبروں نے کن لوگوں کے لئے سب سے زیادہ محنت اور کوشش کی ؟

۴_ پیغمبروں نے کس قسم کے لوگوں کے درمیان کن چیزوں کا رواج دیا ؟

۴۷

تیسرا سبق

خدا کے عظیم پیغمبر ابراہیم علیہ السلام

کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں کا کیا دین تھا اور وہ کس طرح زندگی گزارتے تھے_ انہوں نے گذشتہ پیغمبروں کی تعلیم کو فراموش کردیا تھا وہ نہیں جانتے تھے کہ اس دنیا میں کس طرح زندگی گذار کر آخرت میں سعادت مند ہوسکتے ہیں وہ صحیح قانون اور نظم و ضبط سے ناواقف تھے اور خدا کی پرستش کے طریقے نہیں جانتے تھے _ چونکہ خدا اپنے بندوں پر مہربان ہے اسلئے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی پیغمبری کے لئے منتخب فرمایا تا کہ لوگوں کو نیکی اور اللہ تعالی کی عبادت کی طرف راہنمائی فرمائیں

خدا کو علم تھا کہ لوگ تشخیص نہیں کر سکتے کہ کون سے کام آخرت کے لئے فائدہ مند اور کون سے کام نقصان دہ ہیں _ خدا جانتا تھا کہ لوگوں کے لئے راہنما اور استاد ضروری ہے اسی لئے جناب ابراہیم علیہ السلام کو چنا اور انہیں عبادت اور خدا پرستی کے طریقہ بتائے _ خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتلاتا تھا کہ کون سے کام لوگوں کی دنیا اور آخرت کے لئے بہتر ہیں اور کون سے کام مضر ہیں _

حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اللہ تعالی کے پیغام اور احکام کو لوگوں تک پہنچاتے اور ان کی رہنمائی فرماتے تھے _

حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کے پیغمبر اور لوگوں کے استاد اور معلّم تھے _

۴۸

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ پیغمبروں کو کون منتخب کرتا ہے ؟

۲_ پہلے انسانوں کا کردار کیا تھا؟

۳_ کون سے حضرات زندگی کا بہتر راستہ بتاتے ہیں؟

۴_ کیا لوگ خود سمجھ سکتے ہیں کہ کون سے کام آخرت کے لئے بہتر اور کون سے مضر ہیں ؟

۵_ حضرت ابراہیم (ع) لوگوں کو کیا تعلیم دیتے تھے ؟

۶_ حضرت ابراہیم (ع) کا پیغام اور احکام کس کی طرف سے تھے؟

۴۹

چوتھا سبق

لوگوں کا رہبر اور استاد

پیغمبر لوگوں کا رہبر اور استاد ہوتا ہے _ رہبری کے لئے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے _ اسے جانتا ہے _ دین کے تمام احکام جانتا ہے _ اچھے اور برے سب کاموں سے واقف ہوتا ہے _ وہ جانتا ہے کہ کون سے احکام آخرت کی سعادت کا موجب ہوتے ہیں اور کون سے کام آخرت کی بدبختی کا سبب بنتے ہیں _ پیغمبر خدا کو بہتر جانتا ہے _ آخرت اور بہشت اور جہنم سے آگاہ ہوتا ہے _ اچھے اور برے اخلاق سے پوری طرح با خبر ہوتا ہے _ علم اور دانش میں تمام لوگوں کا سردار ہوتا ہے اس کے اس مرتبہ کو کوئی نہیں پہنچانتا _ خداوند عالم تمام علوم پیغمبر کو عنایت فرما دیتا ہے تا کہ وہ لوگو۱ں کی اچھے طریقے سے رہبری کر سکے _چونکہ پیغمبررہبر کامل اور لوگوں کا معلم اور استاد ہوتا ہے _ اسلئے اسے دنیا اور آخرت کی سعادت کا علم ہونا چاہیے تا کہ سعادت کی طرف لوگوں کی رہبری کر سکے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ لوگوں کا رہبر اور استاد کون ہے اور ان کو کون سی چیزیں بتلاتا ہے ؟

۵۰

۲_ پیغمبر کا علم کیسا ہوتا ہے کیا کوئی علم میں اس کا ہم مرتبہ ہوسکتا ہے؟

۳_ پیغمبر کا علوم سے کون نواز تا ہے ؟

۴_ رہبر کامل کون ہوتا ہے؟

۵۱

پانچوان سبق

پیغمبر لوگوں کے رہبر ہوتے ہیں

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمام پیغمبران خدا انسان تھے _ اور اانہیں میں زندگی گذار تے تھے خدا کے حکم اور راہنمائی مطابق لوگوں کی سعادت اور ترقی میں کوشاں رہتے تھے _ پیغمبر ابتدائے آفرینش سے لوگوں کے ساتھ ہوتے تھے اور انہیں زندگی بہترین را ستے بتا تے تھے _ خدا شناسی آخرت اور اچھے کاموں کے بارے میں لوگوں سے گفتگو کرتے تھے _ بے دینی اور ظلم کے ساتھ مقابلہ کیا کرتے تھے اور مظلوموں کی حمایت کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کے درمیان محبت اور مساوات کو بر قرار رکھیں پیغمبروں نے ہزاروں سال کوشش کی کہ عبادت کے طریقے خدا شناسی اور اچھی زندگی بسر کرنا لوگوں پر واضح کریں _آج پیغمبروں اور ان کے پیرو کاروں کی محنت اور مشقت سے استفادہ کررہے ہیں _ اس لئے ان کے شکر گزار ہیں اور ان پر درود وسلام بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں ;

... ...اللہ کے تمام پیغمبروں پر ہمارا سلام

... اللہ کے بڑ ے پیغمبر جناب ابراہیم پر ہمارا سلام

... جناب ابراہیم کے پیرو کاروں پر ہمارا سلام

۵۲

چھٹا سبق

اولوا لعزم پیغمبر

اللہ تعالی نے لوگوں کی راہنمائی کے لئے بہت زیادہ پیغمبر بھیجے ہیں کہ ان میں سب سے بڑ ے پیغمبر پانچ ہیں

____ حضرت نوح علیہ السلام

____ حضرت ابراہیم علیہ السلام

____ حضرت موسی علیہ السلام

____ حضرت عیسی علیہ السلام

____ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

جناب موسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو یہودی کہا جاتا ہے اور جناب عیسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو مسیحی یا عیسائی کہا جاتا ہے اور جناب محمڈ کے ماننے والوں کو مسلمان کہا جاتا ہے

تمام پیغمبر خدا کی طرف سے آئے ہیں اور ہم ان سب کا احترام کرتے ہیں

لیکن تمام پیغمبروں سے بزرگ و برتر آخری پیغمبر جناب محمد مصطفی (ص) ہیں آپ کے بعد کوئی اور پیغمبر نہیں آئے گا _

۵۳

سوالات

۱_ بڑے پیغمبرکتنے ہیں اور ان کے نام کیا ہیں ؟

۲_ یہودی کسے کہا جاتا ہے ؟

۳_ مسیحی یا عیسائی کسے کہا جاتا ہے ؟

۴_ جناب محمد مصطفی (ص) کے ماننے والوں کو کیا کہا جاتا ہے ؟

۵_ سب سے بڑ ے اور بہتر اللہ کے پیغمبروں کون ہیں ؟

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ تمام پیغمبر ... آئے ہیں اور ہم ان ... کرتے ہیں

۲_ لیکن جناب محمد مصطفی (ص) تمام پیغمبروں سے ... و ...ہیں

۳_ آپ کے بعد نہیں آئے گا

۵۴

ساتواں سبق

حضرت محمد مصطفے (ص) کا بچپن

جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ مکہّ میں پیدا ہوئے _ آپ کے والد جناب عبد اللہ علیہ السلام تھے اور والدہ ماجدہ جناب آمنہ تھیں _ بچین ہی سے آپ نیک اور صحیح انسان تھے دستر خوان پر با ادب بیھٹتے تھے_ اپنی غذا کھا تے اور دوسرے بچوں کے ہاتھ سے ان غذا نہیں چھینتے تھے _ غذا کھا تے وقت بسم اللہ کہتے تھے _ بچوں کو آزار نہ دیتے تھے بلکہ ان سے اچھا سلوک اور محبت کرتے تھے _ ہر روز زنبیل خرما سے پر کر کے بچوں کے در میان تقسیم کرتے تھے _

سوالات

۱_ جناب محمد مصطفی کس شہر میں پیدا ہوئے ؟

۲_ غذا کھا تے وقت کیا کہتے تھے اور کس طرح بیٹھتے تھے ؟

۳_ دوسرے بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے ؟

۴_ تمہارا دوسروں کے ساتھ کیسا سلوک ہے ؟

۵۵

آٹھواں سبق

آخری نبی حضرت محمد مصطفے (ص)

آپ کے والد کا نام جناب عبداللہ اور والدہ کانام آمنہ تھا _ عام الفیل میں سترہ ربیع الاوّل کو مکہّ میں پیدا ہوئے _ آپ کی پیدائشے سے قبل ہی آپ کے والد جناب عبداللہ کا انتقال ہو گیا _ جناب آمنہ نے آپکی چھ سال تک پرورش کی _ جب آپ چھ سال کے ہوئے تو آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا _ والدہ کے فوت ہونے کے بعد آپ کے دادا جناب عبدالمطلب نے آپ کی _ جناب عبد المطلب آپ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور آپ پر بہت مہربان تھے پیغمبر اسلام کے مستقبل کا آپ کو علم تھا عیسائی اور یہودی علماء سے آپ نے سن رکھا تھا کہ مکہّ سے ایک پیغمبر مبعوث ہو گا _ جناب عبد المطلب عربوں کے سردار تھے _ کعبہ کے نزدیک آپ کے لئے مخصوص جگہ تھی کہ جس پراور کوئی نہیں بیٹھ سکتا تھا _ صرف پیغمبر اسلام اس مخصوص جگہ پراپنے دادا کے پہلو میں بیٹھا کرتے تھے _ اگر آپ کو وہاں بیٹھنے سے کبھی کوئی منع کرتا تو جناب عبد المطلب فرماتے کہ میرے بیٹے کو آنے دو _ بخدا اس کے چہرے پر بزرگی کے آثار موجود ہیں _ میں دیکھ رہاہوں کہ ایک دن محمڈ تم سب کا سردار ہو گا _ جناب عبدالمطلب پیغمبر اسلام کو اپنے نزدیک بٹھا تے اور اپنے دست شفقت کو آپ کے سر پر پھیر تے تھے چونکہ حضوڑ کے مستقبل سے آگاہ تھے اسلئے انہیں کے ساتھ غذا تناول کرتے تھے اور اپنے سے کبھی آپ کو جدا نہیں کرتے تھے _

۵۶

پیغمبر اسلام کا بچپن

پیغمبر اسلام بچپنے میں بھی با ادب تھے _ آپ کے چچا جناب ابو طالب علیہ السلام فرما تے ہیں کہ محمڈ غذا کھا تے وقت بسم اللہ کہتے تھے اور غذا کے بعد الحمدللہ فرماتے _ میں نے محمڈ کونہ تو جھوٹ بولتے دیکھا اور نہ ہی برا اور نارو ا کام کرتے دیکھا _ آپ(ص) او نچی آواز سے نہیں ہنستے تھے بلکہ مسکراتے تھے _

جواب دیجئے

۱_ پیغمبر اسلام (ص) کس سال اور کس مہینہ اور کس دن پیدا ہوئے ؟

۲_ آپ کی والدہ آور آپ کے والدکا کیا نام تھا ؟

۳_ جناب عبدالمطلب کا پیغمبر اسلام (ص) سے کیارشتہ تھا اور آپ کے متعلق وہ کیا فرما تے تھے ؟

۴_ یہودی اور عیسائی علماء کیا کہا کرتے تھے؟

۵_ بچپن میں آپ (ص) کا کردار کیسا تھا اور آپ کے متعلق آپ کے چچا کیا فرمایا کرتے تھے ؟

۵۷

نواں سبق

پیغمبر (ص) کا بچوّں کے ساتھ سلوک

پیغمبر(ص) اسلام بچّوں سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے یہاں تک کہ آپ ان کو سلام کرتے تھے _ آپ(ص) مسلمانوں سے کہتے تھے کہ بچوں کا احترام کیا کرو اور ان سے محبت کیا کرو اور جو بچوں سے محبت نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے _

ایک مسلمان کہتا ہے کہ میں نے رسول (ص) کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ کے ساتھ گھر تک گیا تو میں نے دیکھا کہ بچے گروہ در گروہ آپ کا استقبال کرنے کے لئے دوڑ کر آرہے تھے _ آپ نے انہیں پیار کیا اور اپنا دست مبارک ان کے سر اور چہرے پرپھیرا

سوالات:

۱_ پیغمبر اسلام(ص) کے والد کا نام کیا تھا؟

۲_ آپ کی والدہ کا کیا نام تھا؟

۳_ بچوں کو کیوں سلام کیا کرتے تھے؟

۴_ اپنے اصحاب سے بچوں کے متعلق کیا فرماتے تھے؟

۵_ بچّے کیوں آپ(ص) کے استقبال کیلئے دوڑ پڑتے تھے؟

۶_ کیا تم اپنے دوستوں کو سلام کرتے ہو؟

۵۸

دسواں سبق

امین

ایک زمانے میں مکہ کے لوگ خانہ کعبہ کو از سر نو بنارہے تھے _ تمام لوگ خانہ کعبہ بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کررہے تھے _ جب کعبہ کی دیوار ایک خاص اونچائی تک پہنچی کہ جہان حجر اسود رکھا جانا تھا'' حجر اسود ایک محترم پتھر ہے'' مكّہ کے سرداروں میں سے ہر ایک کی خواہش یہ تھی کہ اس پتھر کو صرف وہی اس کی بناپر رکھے اوراس کام سے اپنے آپ اور اپنے قبیلے کی سربلندی کا موجب بنے _ اسی وجہ سے ان کے درمیان جھگڑا شروع ہوا _ ہر ایک یہی کہتا تھا کہ صرف میں حجر اسود کو اس کی جگہ نصب کروں گا ان کا اختلاف بہت بڑھ گیا تھا اور ایک خطرناک موڑ تک پہنچ گیا تھا قریب تھا کہ ان کے درمیان جنگ شروع ہوجائے _ جنگ کے لئے تیار بھی ہوچکے تھے اسے اثناء میں ایک دانا اور خیرخواہ آدمی نے کہا _ لوگو جنگ اوراختلاف سے بچو کیونکہ جنگ شہر اور گھروں کو ویران کردیتی ہے _ اور اختلاف لوگوں کو متفرق اور بدبخت کردیتا ہے _ جہالت سے کام نہ لو اور کوئی معقول حل تلاش کرو_ مكّہ کے سردار کہنے لگے کیا کریں _ اس دانا آدمی نے کہا تم اپنے درمیان میں سے ایک ایسے آدمی کا انتخاب کرلو جو تمہارے اختلاف کو دور کردے _ سب نے کہا یہ ہمیں قبول ہے یہ مفید مشورہ ہے _ لیکن ہر قبیلہ کہتا تھا کہ وہ قاضی ہم میں سے ہو _ پھر بھی اختلاف اور نزاع برطرف نہ ہوا _ اسی خیرخواہ اور دانا آدمی نے کہا _ جب تم قاضی کے انتخاب میں بھی اتفاق نہیں کرپائے تو سب سے پہلا شخص جو

۵۹

اس مسجد کے دروازے سے اندر آئے اسے قاضی مان لو _ سب نے کہا یہ ہمیں قبول ہے تمام کی آنکھیں مسجد کے دروازے پر لگی ہوئی تھیں اور دل دھڑک رہے تھے کہ کون پہلے اس مسجد سے اندر آتا ہے اور فیصلہ کس قبیلے کے حق میں ہوتا ہے ؟ ایک جوان اندر داخل ہوا _ سب میں خوشی کی امید دوڑگئی اور سب نے بیک زبان کہا بہت اچھا ہو کہ محمد (ص) ہی آیا ہے _ محمد (ص) امین محمد(ص) امین _ منصف اور صحیح فیصلہ دینے والا ہے اس کا فیصلہ ہم سب کو قبول ہے حضرت محمد (ص) وارد ہوئے انہوں نے اپنے اختلاف کی کہانی انہیں سنائی: آپ نے تھوڑا ساتامل کیا پھر فرمایا کہ اس کام میں تمام مكّہ کے سرداروں کو شریک ہونا چاہیے لوگوں نے پوچھا کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اور کس طرح _ حضرت نے فرمایا کہ ہر قبیلے کا سردار یہاں حاضر ہو تمام سردار آپ کے پاس آئے _ آنحضرت (ص) نے اپنی عبا بچھائی پھر آپ نے فرمایا تمام سردار عبا کے کناروں کو پکڑیں اور حجر اسود کو لے چلیں _ تمام سردار نے حجر اسود اٹھایا اور اسے اسکی مخصوص جگہ تک لے آئے اس وقت آپ نے حجر اسود کو اٹھایا اور اسے اس کی جگہ نصب کردیا_ مكّہ کے تمام لوگ آپ کی اس حکمت عملی سے راضی اور خوش ہوگئے _ آپ کے اس فیصلے پر شاباش اور آفرین کہنے لگے _

ہمارے پیغمبر(ص) اس وقت جوان تھے اور ابھی اعلان رسالت نہیں فرمایا تھا لیکن اس قدر امین اور صحیح کام انجام دیتے تھے کہ آپ کا نام محمد(ص) امین پڑچکا تھا _

لوگ آپ پر اعتماد کرتے تھے اور قیمتی چیزیں آپ کے پاس امانت رکھتے تھے اور آپ ان کے امانتوں کی حفاظت کرتے تھے آپ صحیح و سالم انہیں واپس لوٹا دیتے تھے _ سبھی لوگ اپنے اختلاف دور کرنے میں آپ کی طرف

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تیسرا سبق

وضوء

جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے اسے نماز سے پہلے اس ترتیب سے وضوء کرنا چاہیئے پہلے دونوں ہاتھوں کو ایک یا دو دفعہ دھوئے _ پھر تین مرتبہ کلی کرے پھر تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے اور صاف کرے _ پھر وضو کی نیت اس طرح کرے _ :

وضو کرتا ہوں _ یا کرتی ہوں_ واسطے دور ہونے حدث کے اور مباح ہونے نماز کے واجب قربةً الی اللہ '' نیت کے فوراً بعد اس ترتیب سے وضو کرے _

۱_ منہ کو پیشانی کے بال سے ٹھوڑی تک اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے _

۲_ دائیں ہاتھ کو کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۳_ بائیں ہاتھ کو بھی کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۴_ دائیں ہاتھ کی تری سے سرکے اگلے حصّہ پر اوپر سے نیچے کی طرف مسح کرے _

۵_ دائیں ہاتھ کی تری سے دائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

۶_ بائیں ہاتھ کی تری سے بائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

ماں باپ یا استاد کے سامنے وضو کرو اور ان سے پوچھ کہ کیا میرا وضو درست ہے _

۱۲۱

چوتھا سبق:

نماز پڑھیں

ہم کو نماز پڑھنی چاہئے تا کہ اپنے مہربان خدا سے نماز میں باتین کریں _ نماز دین کا ستون ہے _ ہمارے پیغمبر (ص) فرماتے ہیں : جو شخص نماز کو سبک سمجھے اور اس کے بارے میں سستی اور کوتاہی کرے وہ میرے پیروکاروں میں سے نہیں ہے _ اسلام ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد کو نماز سکھائیں اور سات سال کی عمر میں انہیں نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں اور اولاد کو ہمیشہ نماز پڑھنے کی یاددہانی کرتے رہیں اور ان سے نماز پڑھنے کے لئے کہتے رہیں _ جو لڑکے اور لڑکیاں بالغ ہوچکے ہیں انہیں لازمی طور پر نماز پڑھنی چاہیے اور اگر نماز نہیں پڑھتے ہیں تو اللہ کے نافرمان اور گناہگار ہوں گے

سوالات

۱_ ہم نماز میں کس سے کلام کرتے ہیں ؟

۲_ ہمارے پیغمبر (ص) نے ان لوگوں کے حق میں جو نماز میں سستی کرتے ہیں کیا فرمایا ہے ؟

۳_ سات سال کے بچّوں کے بارے میں ماں باپ کا کیا وظیفہ ہے ؟

۴_ کون تمہیں نماز سکھاتا ہے ؟

۵_ نماز دین کا ستون ہے کا کیا مطلب ہے ؟

۱۲۲

پانچواں سبق

نماز آخرت کیلئے بہترین توشہ ہے

نماز بہترین عبادت ہے _ نماز ہمیں خدا سے نزدیک کرتی ہے اور آخرت کیلئے یہ بہترین توشہ ہے _ اگر صحیح نماز پڑھیں تو ہم آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں گے _

حضرت محمد مصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں دنیا میں نماز پڑھنے کو دوست رکھتا ہوں ، میرے دل کی خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے _ نیز آپ(ع) نے فرمایا نماز ایک پاکیزہ چشمے کے مانند ہے کہ نمازی ہر روز پانچ دفعہ اپنے آپ کو اس میں دھوتا ہے _ ہم نماز میں اللہ تعالی کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اور ہمارا دل اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے _ جو شخص نماز نہیں پڑھتا خدا اور اس کا رسول (ص) اسے دوست نہیں رکھتا

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے تھے میں واجب نماز نہ پڑھنے والے سے بیزار ہوں _ خدا نماز پڑھنے والوں کو دوست رکھتا ہے بالخصوص اس بچّے کو جو بچپن سے نماز پڑھتا ہے زیادہ دوست رکھتا ہے _

ہر مسلمان دن رات میں پانچ وقت نماز پڑھے

۱_ نماز صبح دو رکعت

۲_ نماز ظہر چار رکعت

۳_ نماز عصر چار رکعت

۴_ نماز مغرب تین رکعت

۵_ نماز عشاء چار رکعت

۱۲۳

جواب دیجئے

۱_ حضرت محمد مصطفی (ص) نے نماز کے بارے میں کیا فرمایا ہے ؟

۲_ کیا کریں کہ آخرت میں سعادتمند ہوں ؟

۳_ ہر مسلمان دن رات میں کتنی دفعہ نماز پڑھتا ہے اور ہرایک کیلئے کتنی رکعت ہیں؟

۴_ جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کے لئے پیغمبر (ص) نے کیا فرما یا ہے ؟

۶_ کیا تم بھی انہیں میں سے ہو کہ جسے خدا بہت دوست رکھتا ہے اور کیوں؟

۱۲۴

چھٹا سبق

طریقہ نماز

اس ترتیب سے نماز پڑھیں

۱_ قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں اور نیت کریں یعنی قصد کریں کہ کون نماز پڑھنا چاہتے ہیں _ مثلاً قصد کریں کہ چار رکعت نماز ظہر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہوں _

۲_ نیت کرنے کے بعد اللہ اکبر کہیں اور اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اوپر لے جائیں _

۳_ تکبیر کہنے کے بعد سورہ الحمد اس طرح پڑھیں

( بسم الله الرحمن الرحیمی : الحمد لله ربّ العالمین _ الرّحمن الرّحمین _ مالک یوم الدین_ ايّاک نعبد و ايّاک نستعین_ اهدنا الصّراط المستقیم_ صراط الذین انعمت علیهم_ غیر المغضوب علیهم و لا الضّالین)

۴_ سورہ الحمد پڑھنے کے بعد قرآن مجید کا ایک پورا سورہ پڑھیں مثلاً سورہ توحید پڑھیں:

( بسم الله الرّحمن الرّحیم _ قل هو الله احد _ اللّه الصمد_ لم یلد و لم یولد _ و لم یکن له کفواً احد _)

۵_ اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس قدر جھکیں کہ ہاتھ زانو تک پہنچ جائے اور اس وقت پڑھیں

۱۲۵

سبحان ربّی العظیم و بحمده

۶_ اس کے بعد رکوع سر اٹھائیں اور سیدھے کھڑے ہو کر کہیں :

سمع الله لمن حمده

اس کے بعد سجدے میں جائیں _ یعنی اپنی پیشانی مٹی یا پتھر یا لکڑی پر رکھیں اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے زمین پر رکھیں اور پڑھیں:

سبحان ربّی الاعلی و بحمده

اس کے بعد سجدے سے سر اٹھاکر بیٹھ جائیں اور پڑھیں:

استغفر الله ربّی و اتوب الیه

پھر دوبارہ پہلے کی طرح سجدے میں جائیں اور وہی پڑھیں جو پہلے سجدے میں پڑھا تھا اور اس کے بعد سجدے سے اٹھا کر بیٹھ جائیں اس کے بعد پھر دوسری رکعت پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اٹھتے وقت یہ پڑھتے جائیں:

بحول الله و قوته اقوم و اقعد

پہلی رکعت کی طرح پڑھیں_

۷_ دوسری رکعت میں سورہ الحمد اور ایک سورہ پڑھنے کے بعد قنوت پڑھیں _ یعنی دونوں ہاتھوں کو منہ کے سامنے اٹھا کر دعا پڑھیں اور مثلاً یوں کہیں :

ربّنا اتنا فی الدنیا حسنةً و فی الآخرة حسنةً وقنا عذاب الناّر _

۱۲۶

اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس کے بعد سجدے میں جائیں اور انہیں پہلی رکعت کی طرح بجالائیں

۸_ جب دو سجدے کر چکیں تو دو زانو بیٹھ جائیں اور تشہد پڑھیں :

الحمد لله _ اشهد ان لا اله الاّ الله وحده لا شریک له و اشهد انّ محمد اً عبده و رسوله _ اللهم صلّ علی محمد و آل محمد

۹_ تشہد سے فارغ ہونے کے بعد کھڑے ہوجائیں اور تیسری رکعت بجالائیں تیسری رکعت میں سورہ الحمد کی جگہ تین مرتبہ پڑھیں :

سبحان الله و الحمد لله و لا اله الا الله والله اکبر

اس کے بعد دوسری رکعت کی طرح رکوع اور سجود کریں اور اس کے بعد پھر چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اسے تیسری رکعت کی طرح بجالائیں _

۱۰_ چوتھی رکعت کے دو سجدے بجالانے کے بعد بیٹھ کر تشہد پڑھیں اور اس کے بعد یوں سلام پڑھیں:

السّلام علیک ايّها النبی و رحمة الله و برکاته

السلام علینا و علی عباد الله الصالحین

السلام علیکم ورحمة الله و برکاته

یہاں ہماری ظہر کی نمازتمام ہوگئی

۱۲۷

اوقات نماز

صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے سورج نکلتے تک ہے نماز ظہر اور عصر کا وقت زوال شمس سے آفتاب کے غروب ہونے تک ہے _

مغرب اور عشاء کا وقت غروب شرعی شمس سے آدھی رات یعنی تقریباً سوا گیارہ بجے رات تک ہے _

یادرکھئے کہ

۱_ عصر اور عشاء کی نماز کو ظہر کی نماز کی طرح پڑھیں لیکن نیت کریں کہ مثلاً عصر کی یا عشاء کی نماز پڑھتا ہوں ...:

۲_ مغرب کی نماز تین رکعت ہے تیسری رکعت میں تشہد اور سلام پڑھیں _

۳_ صبح کی نماز دو رکعت ہے دوسری رکعت میں تشہد کے بعد سلام پڑھیں _

۱۲۸

ساتواں سبق

نماز پر شکوہ _ نمازجمعہ

نماز ایمان کی اعلی ترین کو نپل اور روح انسانی کا اوج ہے _ جو نماز نہیں پڑھتا وہ ایمان اور انسانیت کے بلند مقام سے بے بہرہ ہے _ نماز میں قبلہ روکھڑے ہوتے ہیں اور خدائے مہربان کے ساتھ کلام کرتے ہیں _ پیغمبر اسلام(ص) نے نماز قائم کرنے کے لئے تاکید کی ہے کہ مسجد میں جائیں اور اپنی نماز دوسرے نماز یوں کے ساتھ با جماعت ادا کریں تنہا نماز کی نسبت دریا اور قطرہ کی ہے اور ان کے ثواب اور اجر میں بھی یہی نسبت ہے جو مسجد میں با جماعت ادا کی جائے _ جو نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں _ ان میں نماز جمعہ کا خاص مقام ہے کہ جسے لازمی طور سے جماعت کے ساتھ مخصوص مراسم سے ادا کیا جاتا ہے _ کیا آپ نماز جمعہ کے مراسم جانتے ہیں ؟ کیا جانتے ہیں کہ کیوں امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لے کر کھڑا ہوتا ہے ؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ امام جمعہ کو خطبوں میں کن مطالب کو ذکر کرنا ہے ؟

امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں اس لئے لیتا ہے تا کہ اسلام کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے خلاف اعلان کرے کہ مسلمان کو اسلامی سرزمین کے دفاع کے لئے ہمیشہ آمادہ رہنا چاہیئے _ ہتھیار ہاتھ میں لے کر ہر ساتویں دن مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ نماز کے برپا کرنے کے لائے لازمی طور پر جہاد اور مقابلہ کرنا ہوگا _ امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لیکر خطبہ پڑھتا ہے تا کہ اعلان کر ے کہ نماز اور جہاد ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں _ اور مسلمانوں کو ہمیشہ ہاتھ میں ہتھیار رکھنا چاہیئےور دشمن

۱۲۹

کی معمولی سے معمولی حرکت پر نگاہ رکھنی چاہیے _ جو امام جمعہ اسلامی معاشرہ کے ولی اور رہبر کی طرف سے معيّن کیا جاتاہے وہ ہاتھ میں ہتھیار لیتا ہے اور لوگوں کی طرف منہ کرکے دو خطبے دیتا ہے اور اجتماعی و سیاسی ضروریات سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے اور ملک کے عمومی حالات کی وضاحت کرنا ہے _ اجتماعی مشکلات اور اس کے مفید حل کے راستوں کی نشاندہی کرتا ہے _ لوگوں کو تقوی _ خداپرستی ایثار اور قربانی و فداکاری کی دعوت دیتا ہے اور انہیں نصیحت کرتا ہے _ نماز یوں کو پرہیزگاری ، سچائی ، دوستی اورایک دوسرے کی مدد کرنے کی طرف رغبت دلاتا ہے _ لوگ نماز کی منظم صفوں میں نظم و ضبط برادری اور اتحاد کی تمرین اور مشق کرتے ہیں _ اور متحد ہوکر دشمن کامقابلہ کرنے کا اظہار کرتے ہیں _ جب نماز جمعہ کے خطبے شروع ہوتے ہیں اور امام جمعہ تقریر کرنا شروع کرتا ہے تو لوگوں پر ضروری ہوجاتاہے کہ وہ خامو ش اور آرام سے بیٹھیں اور نماز جیسی حالت بناکر امام جمعہ کے خطبوں کو غور سے نہیں _

سوالات

۱_ نماز جمعہ کی منظم صفیں کس بات کی نشاندہی کرتی ہیں؟

۲_ امام جمعہ خطبہ دیتے وقت ہاتھ میں ہتھیار کیوں لیکر کھڑا ہوتا ہے ؟

۳_ امام جمعہ کو کون معيّن کرتا ہے ؟

۴_ امام جمعہ نماز جمعہ کے خطبے میں کن مطالب کو بیان کرتا ہے ؟

۵_ نماز جمعہ کے خطبے دیئےانے کے وقت نماز یوں کا فرض کیا ہوتا ہے ؟

۱۳۰

آٹھواں سبق

روزہ

اسلام کی بزرگ ترین عبادات میں سے ایک روزہ بھی ہے

خدا روزا داروں کو دوست رکھتا ہے اور ان کو اچھی جزا دیتا ہے روزہ انسان کی تندرستی اور سلامتی میں مدد کرتا ہے

جو انسان بالغ ہوجاتا ہے اس پر ماہ مرضان کا روزہ رکھنا واجب ہوجاتا ہے اگرروزہ رکھ سکتا ہو اور روزہ نہ رکھے تو اس نے گناہ کیا ہے روزہ دار کو سحری سے لیکر مغرب تک کچھ نہیں کھانا چاہئے

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ اسلام کی بزرگ ترین ...ہے

۲_ خدا روزہ داروں ہے

۳_ روزہ انسان کی مدد کرتا ہے

۴_ روزہ دار کو نہیں کھانا چاہیئے

۵_ اگر روزہ رکھ سکتا ہو اور گناہ کیا ہے

۱۳۱

نواں سبق

ایک بے نظیر دولہا

ایک جوان بہادر اور ہدایت یافتہ تھا _ جنگوں میں شریک ہوتا تھا _ ایمان اور عشق کے ساتھ اسلام و قرآن کی حفاظت اور پاسداری کرتا تھا _ اللہ کے راستے میں شہادت کو اپنے لئے بڑا افتخار سمجھتا تھا کہ میدان جنگ میں شہید ہوجانا اس کی دلی تمنا تھی _ یہ تھا حنظلہ جو چاہتا تھا کہ مدینہ کی اس لڑکی سے جو اس سے منسوب تھی شادی کرلے شادی کے مقدمات مہيّا کرلئے گئے تھے _ تمام رشتہ داروں کو شادی کے جشن میں مدعو کیا جا چکا تھا _ اسی دن پیغمبر اکرم (ص) کو مطلع کیا گیا کہ دشمن کی فوج مدینہ کی طرف بڑھ رہی ہے اور شہر پر حملہ کرنے والی ہے _

پیغمبر (ص) نے یہ خبر بہادر اور مومن مسلمانوں کو بتلائی اور جہاد کا اعلان فرمایا_ اسلام کے سپاہی مقابلہ اور جنگ کے لئے تیار ہوگئے _ جوان محافظ اور پاسداروں نے محبت اور شوق کے جذبے سے ماں باپ کے ہاتھ چومے خداحافظ کہا _ ماؤں نے اپنے کڑیل جوانوں کو جنگ کا لباس پہنایا اور ان کے لئے دعا کی _ چھوٹے بچے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر اپنے باپ اور بھائیوں کو الوداع کررہے تھے _

اسلام کی جانباز فوج اللہ اکبر کہتے ہوئے شہر سے میدان احد کی طرف روانہ ہور ہی تھی _ اہل مدینہ اسلام کی بہادر فوج کو شہر کے باہر تک جاکر الوداع کہہ رہے تھے _ حنظلہ پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پریشانی و شرمندگی کے عالم میں عرض کیا _ یا رسول اللہ (ص) میں چاہتا ہوں کہ میں بھی میدان احد میں حاضر ہوں اور جہاد

۱۳۲

کروں لیکن میرے ماں باپ اصرار کررہے ہیں کہ میں آج رات مدینہ رہ جاؤں _ کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آج رات مدینہ میں رہ جاؤں اور اپنی شادی میں شرکت کرلوں اور کل میں اسلامی فوج سے جا ملوں گا _ رسول خدا (ص) نے اسے اجازت دے دی کہ وہ مدینہ میں رہ جائے _ مدینہ خالی ہوچکا تھا _ حنظلہ کی شادی کا جشن شروع ہوا لیکن اس میں بہت کم لوگ شریک ہوئے _ حنظلہ تمام رات بیقرار رہا کیونکہ اس کی تمام تر توجہ جنگ کی طرف تھی وہ کبھی اپنے آپ سے کہتا کہ اے حنظلہ تو عروسی میں بیٹھا ہوا ہے لیکن تیرے فوجی بھائی اور دوست میدان جنگ میں مورچے بنارہے ہیں وہ شہادت کے راستے کی کوشش میں ہیں وہ اللہ کا دیدار کریں گے اور بہشت میں جائیں گے اور تو بستر پر آرام کررہا ہے _ شاید حنظلہ اس رات بالکل نہیں سوئے اور برابر اسی فکر میں رہے حنظلہ کی بیوی نئی دلہن کی آنکھ لگ گئی _ اس نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان پھٹ گیا ہے _ اور حنظلہ آسمان کی طرف چلا گیا ہے اور پھر آسمان کا شگاف بند ہوگیا ہے خواب سے بیدار ہوئی _ حنظلہ سحر سے پہلے بستر سے اٹھے اورجنگی لباس پہنا اور میدان احد کی طرف جانے کے لئے تیار ہوئے دلہن نے پر نم آنکھوں سے اس کی طرف نگاہ کی اور خواہش کی کہ وہ اتنی جلدی میدان جنگ میں نہ جائے اور اسے تنہا نہ چھوڑے حنظلہ اپنے آنسو پونچھ کر کہنے لگے اے میری مہربان بیوی _ میں بھی تجھے دوست رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تیرے ساتھ اچھی زندگی بسر کروں لیکن تجھے معلوم ہے کہ پیغمبر (ص) اسلام نے کل جہاد کا اعلان کیا تھا پیغمبر (ص) کے حکم کی اطاعت واجب ہے اور اسلامی مملکت کا دفاع ہر ایک مسلمان کا فرض ہے _ اسلام کے محافظ اور پاسدار اب میدان جنگ میں صبح کے انتظار میں قبلہ رخ بیٹھے ہیں تا کہ نماز ادا کریں اور دشمن پرحملہ کردیں میں بھی ان کی مدد کے لئے جلدی جانا چاہتا ہوں اے مہربان بیوی

۱۳۳

میں امید کرتا ہوں کہ مسلمان فتح اور نصرت سے لوٹیں گے اور آزادی و عزت کی زندگی بسر کریں گے اگر میں ماراگیا تو میں اپنی امیدوار آرزو کو پہنچا اور تجھے خدا کے سپرد کرتا ہوں کہ وہ بہترین دوست اور یاور ہے _ دولہا اور دلہن نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور دونوں کے پاک آنسو آپس میں ملے اور وہ ایک دوسرے سے جد ا ہوگئے _ حنظلہ نے جنگی آلات اٹھائے اور میدان احد کی طرف روانہ ہوے وہ تنہا تیزی کے ساتھ کھجوروں کے درختوں اور پتھروں سے گذرتے ہوے عین جنگ کے عروج کے وقت اپنے بھائیوں سے جاملے _ امیر لشکر کے حکم کے مطابق جو ذمہ داری ان کے سپرد ہوئی اسے قبول کیا اور دشمن کی فوج پر حملہ آور ہوئے باوجودیکہ وہ تھکے ہوئے دشمن پر سخت حملہ کیا _ چابکدستی اور پھر تی سے تلوار کا وار کرتے اور کڑکتے ہوئے بادل کی طرح حملہ آور ہوتے اور دشمنوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے دشمن کے بہت سے آدمیوں کو جنہم واصل کیا اور بالآخر تھک کر گرگئے اور زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ میں فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں کو حنظلہ کے جسم پاک کو آسمان کی طرف لے جارہے ہیں اور غسل دے رہے ہیں _ یہ خبر اس کی بیوی کو مدینہ پہنچی

سوالات

۱_ پیغمبر اسلام نے کس جنگ کے لئے اعلان جہاد کیا ؟

۲_ پیغمبر کے اعلان جہاد کے بعد اسلام کے پاسدار کس طرح آمادہ ہوگئے ؟

۳_ حنظلہ پریشانی کی حالت میں پیغمبر (ص) (ص) کی خدمت میں کیوں حاضر ہوئے اور کیا کہا؟

۱۳۴

حنظلہ عروسی کی رات اپنے آپ سے کیا کہا رہے تھے اور ان کے ذہن میں کیسے سوالات آرہے تھے؟

۵_ دلہن نے خواب میں کیا دیکھا؟

۶_ حنظلہ نے چلتے وقت اپنی بیوی سے کیا کہا؟

۷_ حنظلہ کی بیوی نے حنظلہ سے کیا خواہش ظاہر کی؟

۸_ پیغمبر (ص) اسلام نے حنظلہ کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۵

چھٹا حصّہ

اخلاق و آداب

۱۳۶

پہلا سبق

والدین سے نیکی کرو

ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ میرا لڑکا اسماعیل مجھ سے بہت اچھائی سے پیش آتا ہے وہ مطیع اور فرمانبردار لڑکا ہے _ ایسا کام کبھی نہیں کرتا جو مجھے گراں گذرے _ اپنے کاموں کو اچھی طرح انجام دیتا ہے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اس سے پہلے بھی اسماعیل کو دوست رکھتا تھا لیکن اب اس سے بھی زیادہ دوست رکھتا ہوں کیونکہ اب یہ معلوم ہوگیا کہ وہ ماں باپ سے اچھا سلوک روارکھتا ہے ہمارے پیغمبر(ص) ان اچھے بچوں سے جو ماں باپ سے بھلائی کرتے تھے _ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے

'' خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے ''

'' اپنے ماں باپ سے نیکی کرو''

سوالات

۱_ امام جعفر صاد ق (ع) نے اسماعیل کے باپ سے کیا کہا؟

۲_ اسماعیل کا عمل کیسا تھا؟

۳_ گھر میں تمہارا عمل کیسا ہے کن کاموں میں تم اپنے ماں باپ کی مدد کرتے ہو؟

۱۳۷

دوسرا سبق

استاد کا مرتبہ

ہمارے پیغمبر حضرت محمدمصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں لوگوں کامعلّم اور استاد ہوں _ او ر انکو دینداری کا درس دیتا ہوں _

حضرت علی (ع) نے فرمایا : کہ باپ اور استاد کے احترام کے لئے کھڑے ہوجاؤ _

چوتھے امام حضرت سجاد (ع) نے فرمایا ہے : استاد کے شاگرد پر بہت سے حقوق ہیں : پہلا حق شاگرد کو استاد کا زیادہ احترام کرنا _ دوسرا : اچھی باتوں کی طرف متوجہ ہونا _ تیسرا : اپنی نگاہ ہمیشہ استاد پر رکھنا _ چوتھا : درس یاد رکھنے کے لئے اپنے حواس جمع رکھنا _ پانچواں : کلاس میں اس کے درس کی قدر اور شکریہ ادا کرنا _

ہم آپ (ع) کے اس فرمان کی پیروی کرتے ہیں _ اور اپنے استاد کو دوست رکھتے ہیں اور انکا احترام کرتے ہیں _ اور جانتے ہیں کہ وہ ماں باپ کی طرح ہم پر بہت زیادہ حق رکھتے ہیں _

سوالات

۱_ لکھنا پڑھنا کس نے تمہیں سکھلایا؟

۲_ جن چیزوں کو تم نہیں جانتے کس سے یاد کرتے ہو؟

۳_ انسانوں کے بزرگ ترین استاد کوں ہیں؟

۴_ ہمارے پہلے امام (ع) نے باپ اور استاد کے حق میں کیا فرمایا؟

۵_ ہمارے چوتھے امام(ع) نے استاد کے حقوق کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۸

تیسرا سبق

اسلام میں مساوات

ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ (ع) ایک دستر خوان پر اپنے خادموں اور سیاہ غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے میں نے کہا: کاش: آپ (ع) خادموں اور غلاموں کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاتے _ مناسب نہیں کہ آپ (ع) ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں _ امام رضا علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا_ چپ رہو میں کیوں ان کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاؤں؟ ہمارا خدا ایک ہے ہم سب کے باپ حضرت آدم علیہ السلام اور ہم سب کی ماں حضرت حوّا ، علیہا السلام ہیں _ ہر ایک کی اچھائی اور برائی اور جزا اس کے کام کی وجہ سے ہوتی ہے _ جب میں ان سیاہ غلاموں اور خادموں کے ساتھ کوئی فرق روا نہیں رکھتا توان کیلئے علیحدہ دستر خواہ کیوں بچھاؤں

سوالات

۱_ امام رضا علیہ السلام کن لوگوں کے ساتھ کھا ناکھارہے تھے ؟

۲_ اس آدمی نے امام رضا علیہ السلام سے کیا کہا؟

۳_ امام رضا علیہ السلام نے اسے کیا جواب دیا ؟

۴_ تم کس سے کہوگے کہ چپ رہو اور کیوں؟

۵_ ہر ایک کی اچھائی اور برائی کا تعلق کس چیز سے ہے ؟

۶_ امام رضا علیہ السلام کے اس کردار کی کس طرح پیروی کریں گے ؟

۱۳۹

چوتھا سبق

بوڑھوں کی مدد

ایک دن امام موسی کاظم (ع) مسجد میں مناجات اورعبادت میں مشغول تھے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا کہ جس کا عصا گم ہوچکا تھا جس کی وجہ وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھ سکتا تھا آپ(ع) کا دل اس مرد کی حالت پر مغموم ہوا با وجودیکہ آپ (ع) عبادت میں مشغول تھے لیکن اس کے عصا کو اٹھا کر اس بوڑھے آدمی کے ہاتھ میں دیا اور اس کے بعد عبادت میں مشغول ہوگئے _ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ زیادہ عمر والوں اور بوڑھوں کا احترام کرو _ آپ (ع) فرماتے ہیں : کہ بوڑھوں کا احترام کرو جس نے ان کا احترام کیا ہوگیا اس نے خدا کا احترام کیا _

سوالات

۱_ بوڑھا آدمی اپنی جگہ سے کیوں نہیں اٹھ سکتا تھا؟

۲_ امام موسی کاظم (ع) نے اس بوڑھے آدمی کی کس طرح مدد کی ؟

۳_ پیغمبر (ص) بوڑھوں کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟

۴_ کیا تم نے کبھی کسی بوڑھے مرد یا عورت کی مدد کی ہے ؟

۵_ بوڑھوں کے احترام سے کس کا احترام ہوتا ہے ؟

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156