‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) 25%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 156

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 156 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 90286 / ڈاؤنلوڈ: 4347
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

اسلام انسان کو انسانی زندگی گزارنے کی ترغیب اور حیوانوں کی طرح زندگی کرنے سے منع کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں حیوانوں کے زمرے میں زندگی گذارنے والے افراد نظام اسلام کو سلب آزادی اور خواہشات کے منافی سمجھتے ہیں لہٰذا اس روایت میں ایسی خام خیالی کا جواب دیتے ہوئے فرمایا، اگر کسی وقت مادی لذت اور معنوی اور روحی لذتوں کا آپس میں ٹکراؤہو یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ عشق انسانی عشق خدا کے ساتھ ٹکراجائے تو عشق الٰہی کو عشق انسانی پر مقدم کیا جائے کہ جس کے نتیجہ میں خدا وند ابدی زندگی میں خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے گا لہٰذا نمازی اور اسلام کے اصولوں کی پابندرہنے والے کسی مادی لذت سے محروم نہیں ہے بلکہ حقیقت میں اگر کوئی شخص آدھا گھنٹہ کے ارام کو چھوڑدے اور نماز شب انجام دے تو خدا قیامت کے دن اس کے بدلے میں دائمی لذت عطا فرمائے گا لہٰذا اس مختصر وقت کی مادی لذت کا قیامت کی دائمی لذت کے حصول کی خاطر ترک کرنا لذت مادی سے محروم نہیں ہے ۔

٧۔نماز شب پڑھنے کا ثواب

انسان روز مرہ زندگی میں جو کام انجام دیتا ہے وہ دوطرح کا ہے۔

١۔ نیک ۔

٢۔ بد ۔

نیک عمل کو قرآن وسنت میں عمل صالح سے یادکیا گیا ہے جب کہ بداوربرُے اعمال کو غیر صالح اور گناہ سے یاد کیا گیا ہے مندرجہ زیل روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر عمل صالح کا نتیجہ ثواب ہے اورہر بُرے اعمال کا نتیجہ عقاب ہے لیکن ثواب اور عقاب کا استحقاق اور کمیت وکیفیت کے بارے میں محققین اور مجتہدین کے مابین اختلاف نظر ہے علم اصول اور علم کلام میں تفصیلی بحث کی گئی ہیں اس کا خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے ۔

ثواب وعقاب کے بارے میں تین نظرئیے ہیں:

١) ثواب وعقاب اور جزاء وعذاب جعل شرعی ہے۔

٢)عقاب وثواب جعل عقلائی ہے ۔

٣) دونوں عقلی ہے یہ بحث مفصل اور مشکل ترین مباحث میںسے ایک ہے۔

۶۱

جس کا اس مختصر کتاب میں نقدوبررسی کی گنجائش نہیں ہے فقط اشارہ کے طور پر ثواب وعقاب کے بارے میں استاد محترم حضرت آیت اللہ العظمی وحید خراسانی کا نظریہ قابل توجہ ہے کہ آپ نے درس اصول کے خارج میں فرمایا کہ ثواب وعقاب کا استحقاق عقلی ہے لیکن ثواب وعقاب کا اہدٰی اور اعطا امر شرعی ہے یعنی اگر کوئی شخص کسی نیک کام کو انجام دے تو عقلا عمل کرنے والا مستحق ثواب ہے اسی طرح اگر کوئی شخص کسی برے کام کا مرتکب ہو تو عقاب وسزا کا عقلا مستحق ہے لیکن ان کا اہدی کرنا اور دنیا امر شرعی ہے یعنی اگر مولٰی دنیا چاہے تو دے سکتا ہے نہ دنیا چاہے تو مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ عبد کسی چیز کا مالک نہیں ہے لہٰذا ثواب وعقاب کا مطالبہ کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا ہے پس ثواب وعقاب ہر نیک اور بد عمل کا نتیجہ ہے کہ جس کی طرف حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے یوں اشارہ فرمایا ہے :

''مامن عمل حسن یعمله العبد الا وله ثواب فی القرآن الاصلوة اللیل فان الله لم یبین ثوابها لعظیم خطرها عنده فقال تتجا فاجنوبهم عن المضاجع فلا تعلم نفس ما اخفی لهم من قرة اعین جزاء بما کا نو یکسبون ''(٣)

یعنی ہر نیک کام جیسے بندہ انجام دیتا ہے تو اس کا ثواب بھی قرآن میں مقرر کیا گیا ہے مگر نماز شب کا ثواب اتنازیادہ ہے کہ جس کی وجہ سے قرآن میں اس کا ثواب مقرر نہیں ہوا ہے (لہٰذا )خدا نے (نماز شب کے بارے میں ) فرمایا کہ( تتجافا جنوبهم عن المضاجع ) یعنی نماز شب پرھنے والے اپنے پہلوں کو رات کے وقت بستروں سے دور کیا کرتے ہیں اور اس طرح فرمایا :( فلا تعلم نفس ما اخفی من قرة عین بما کا نو ایکسبون ) یعنی اگر کوئی شخص نماز شب انجام دے تو اس کا مقام اور ثواب مخفی ہے اسے وہ نہیں جانتے ۔

____________________

(٣)بحارج ٨ ص٣٨٢

۶۲

توضیح وتفسیر

توضیح اس حدیث شریف میں فرمایا کہ ہر نیک کام کرنے کے نتیجہ میں ثواب ہے اور ان کا تذکرہ بھی قرآن میں کیا گیا ہے صرف نماز شب کے ثواب کو قرآن میں مقرر نہیں کیا گیا ہے اس کی علت یہ ہے کہ اس کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ جیسے خالق نے پردہ راز میں رکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز شب تمام مشکلات کو دور کرنے کا ذریعہ کامیابی کا بہترین وسیلہ اور سعادت دنیا وآخرت کے لیے مفید ہے لہٰذا خدا سے ہماری دعا ہے کہ ہم سب اس نعمت سے مالامال ہوں پس مذکورہ آیات وروایات سے نماز شب کی اہمیت اور عظمت قرآن وسنت کی روشنی میں واضح ہوگئی ۔

ج۔نماز شب اور چہاردہ معصومین )ع( کی سیرت

الف: پیغمبر اکرم )ص( کی سیرت

مذہب تشیع کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ انبیاء وائمہ علیہم السلام کے علاوہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا ) جیسی ہستی کو بھی معصوم مانتے ہیں کہ جو ہماری کتابوں میں چہاردہ معصومین کی عنوان سے مشہورہیں جن میں سے پہلی ہستی حضرت پیغمبر اکرم )ص(ہے اور پیغمبر اکرم )ص( اور باقی انسانوں کے مابین کچھ احکام الہیہ میں فرق ہے یعنی خدا کی طرف سے کچھ احکام پیغمبر اکرم )ص( پر واجب ہے جبکہ یہی احکام دوسرے انسانوں کے لئے مستحب کی شکل میں بیان ہوئے ہیں جیسے نماز شب پس اسی مختصر تشریح سے بخوبی یہ علم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم )ص(کی سیرت میں نماز شب کا کیا نقش واثر تھا لہٰذا پیغمبر اکرم کی سیرت طیبہ پر چلنے کی خواہش رکھنے والوں کو نماز شب ہمیشہ انجام دینا ہوگا کیونکہ آنحضرت بطور واجب ہمیشہ انجام دیتے تھے

ب۔حضرت علی کی سیرت

چہاردہ معصومین میں سے دوسری ہستی حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام ہیں اگر ہم نماز شب کے بارےے میں علی کی سیرت جاننا چاہے تو علی کے ذرین جملات سے آگاہ ہونا صروری ہے آپ نے فرمایا جب پیغمبر اکرم )ص( نے فرمایا نماز شب نورہے تو میں نے اس جملہ کے سننے کے بعد کبھی بھی نماز شب کو ترک نہیں کیا اس وقت ابن کویٰ نے آپ سے پوچھا یاعلی کیا آپ نے لیلۃ الھریر کو بھی نہیں چھوڑی ؟ جی ہاں.

۶۳

توضیح :

لیلۃ الہریر سے مراد جنگ صفین کی راتوں میں سے ایک رات ہے کہ جس رات امرالمومنین کے لشکر نے دشمنوں سے مقابلہ کیا اور خود حضرت علی نے دشمنوں کے پانچ سو تئیس (٥٢٣) افراد کو واصل جہنم کیا اس فضا اورماحول میں بھی حضرت علی نے نماز شب کو ترک نہیں فرمایا(١)

یہی نماز شب کی اہمیت اور فضیلت کی بہترین دلیل ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے تمام تر سختیوں اور مشکلات کے باوجود قرآن وسنت کی حفاظت کی خاطر بہتر (٧٥) جنگہوں میں شرکت کی اور ہر وقت اصحاب سے تاکید کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ ہماری کامیابی صرف واجبات کی ادائیگی میں نہیں ہے بلکہ نماز شب جیسے نافلہ میں پوشیدہ ہے اسی لئے آپ سے منقول ہے کہ ایک دن ایک گروہ حضرت علی کے پیچھے پیچھے جارہے تھے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے ماننے والے ہیں آپ نے فرمایا تو پھر کیوں ہمارے ماننے والوں کی علامات تم میں دیکھائی نہیں دیتی۔

تو انہوں نے پوچھا آپ کے ماننے والوںکی علامت کیا ہے ؟آپ نے فرمایا کہ ان کے چہرے کثرت عبادت سے زرد اور بدن کثرت عبادت کی وجہ سے کمزور ،زبان ہمیشہ ذکر الہی کے نتیجہ میں خشک اور ان پر ہمیشہ خوف الہی غالب آنا ہمارے پیروکاروں کی علامتیں ہیں کہ جو تم میں نہیں پائی جاتی ،(۲)

پس خلاصہ یہ ہے کہ حضرت علی کی سیرت نماز شب کے بارے میں وہی ہے جو حضور اکرم اور باقی انبیاء علیہم السلام کی تھی

____________________

(١)کتاب صفات الشیعہ

(۲)بحارالانوار ج ٢١

۶۴

ج۔حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت

چہاردہ معصومین )ع( میںسے تیسری ہستی حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا ) ہے کہ جو عبادات اور تہجد میں ایسی سیرت کے مالک ہے کہ جس کے پیغمبر اکرم )ص( اورعلی علیہ السلام تھے لہٰذا جب آپ محراب عبادت میں مشغول عبادت ہوتی تھی تو فرشتے دولت سراء میں حاضر ہوجاتے تھے اور آپ کے گھریلوکاموں کو انجام دیتے تھے کہ اس مطلب کو حضور اکرم کے مخلص صحابی جناب ابوذر غفاری نے یوں بیان کیا ہے کہ ایک دن پیغمبر اکرم نے مجھے حضرت علی کو بلانے کے لئے بھیجا تو میں نے دیکھا کہ علی اور زہرا (سلام اللہ علیہا ) مصلی پر عبادت الہٰی میں مشغول ہیں اور چکی بغیر کسی پسینے والے کے حرکت کر ر ہی تھی میں نے اس منظرکو پیغمبر ؐکی خدمت میں عرض کیا تو پیغمبر اکر م ؐنے فرمایا اے ابوذر تعجب نہ کیجئے کیونکہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ) کی اتنی عظمت اور شرافت خدا کی نظر میں ہے کہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے گھریلو ذمہ داریوں میں سے ایک چکی چلانا بھی ہے لیکن جب زہرا (سلام اللہ علیہا ) خدا کی عبادت میںمصروف ہوجاتی ہے تو خدا ان کی مدد کےلئے فرشتے مأمور فرما تے ہیں لہٰذا چکی کو چلانے والے فرشتے ہیں نیز امام حسن مجتبٰی علیہ السلام نے فرمایا جب ہماری والدہئ گرامی شب جمعہ کو شب بیداری کرتی تھی تو نماز شب انجام دینے کے بعد جب صبح نزدیک ہوجاتی تو مؤمنین کے حق میں دعائیں کرتی تھی لیکن ہمارے حق میں نہیں کرتی تھی میں نے پوچھا ہمارے حق میں دعا کیوں نہیں فرماتیں تو آپ نے فرمایا پہلے ہمسائے کے حق میں دعا کرنا چاہیئے پھر خاندان پس حضرات زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت پر چلنے کی خواہش رکھنے والی خواتین کو چاہے کہ نماز شب نہ بھولے کیونکہ نماز شب ہی میں تمام سعادتیں پوشیدہ ہے ۔

۶۵

د۔حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کی سیرت

جس طرح جناب فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا )کی معرفت وعظمت سے ابھی تک اہل اسلام بخوبی آگاہ نہیں ہوسکے اسی طرح جناب زینب کبری (سلام اللہ علیہا ) کی انقلاب ساز شخصیت سے آشنا ئی نہیں رکھتے لہٰذا بی بی زینب (سلام اللہ علیہا ) زندگی کے ہر میدان میں انسانیت کے لئے ایک کامل نمونہ عمل ہے یہی وجہ ہے کہ آپ (سلام اللہ علیہا ) ہمیشہ اپنی والدہ گرامی کی طرح رات کی تاریکی میں محراب عبادت میںخدا سے راز ونیاز میں مشغول رہتی تھی۔

اس امر کا انکشاف تاریخ کر تی ہے کہ کربلا ء کوفہ اور شام میں درپیش عظیم مصائب کے باوجود بی بی تلاوت قرآن اور نماز شب انجام دیتی تھی اور ساتھ اپنے اہل بیت اور رشتہ داروں کو بھی اس کی تلقین فرماتی تھی اسی طرح نماز شب کا انجام دینا نہ صرف بی بی زہرا (سلام اللہ علیہا اور زینب (سلام اللہ علیہا ) کی سیرت ہے بلکہ زہرا (سلام اللہ علیہا کی خادمہ فضہ کی بھی سیرت تھی۔

پس خواتین اگر جناب زہرا (سلام اللہ علیہا ) جناب زینب (سلام اللہ علیہا ) اور فضہ خادمہ کی سیرت پر چلنا چاہتی ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ نماز شب فراموش نہ کریں ۔

ز۔نماز شب اور باقی ائمہ )ع(کی سیرت

آئمہ علیہم السلام میں سے دوسرا اور چہاردہ معصومین میںسے چوتھی ہستی حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ہے اگر آپ کی سیرت کا مطالعہ نماز شب کے حوالے سے کیا جائے تو وہی سیرت ہے جو پیغمبر اکرم )ص( کی سیرت طبیہ تھی لہٰذا آپ ہمیشہ رات کے آخری وقت میں نماز شب انجام دیتے تھے اسی لئے حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد اس پر آشوب فضاء اور ماحول میں اسلام اور قرآن اور خاندان رسالت کے نام زندہ رہنا نا ممکن تھا لیکن آپ کی عبادت اور شب بیداری کے نتیجہ میں قرآن واسلام کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنی حقانیت کو بھی ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے نیز حضرت امام حسین علیہ السلام کی پوری زندگی عبادت الہی اور قرآن وسنت کی حفاظت میں گزری۔

۶۶

لہٰذا کہا جاتاہے کہ آپ کی سیرت طیبہ میں اہم ترین سیرت نماز شب ہے آپ رات کو خدا سے راز ونیاز کرنے کے اتنے عاشق تھے کہ جب کربلاء میں پہنچے تو آپ اپنے بھائی جناب عباس سے تاسوعا( نویں) محرم کے دن کہنے لگے کہ آپ دشمنوں سے ایک رات کی مہلت لیجئے تاکہ آخری شب قرآن کی تلاوت اور عبادت الہی میں گزار سکوں کیونکہ خدا جانتا ہے کہ مجھے نماز شب اور تلاوت قرآن سے کتنی محبت ہے نیز امام سجاد علیہ السلام کی سیرت بھی عبادت الہی کے میدان میں کسی سے مخفی نہیں ہے کیونکہ آپ کو دوست ودشمن دونوں سیدالساجدین اور زین العاہدین کے لقب سے یاد کرتے تھے لہٰذا آپ کی پوری زندگی یزید (لعنۃ اللہ علیہ) کی سختیوں کے باوجود سجدے اور شب بیداری میں گذاری چنانچہ اس کا اندازہ ہم ان سے منقول ادعیہ جو صحیفہ سجادیہ کے نام سے معروف ہے کرسکتے ہیں یہ آپ کی شب بیداری کا نتیجہ تھا کہ جس سے دشمنوں کو ناکام ہونا پڑا اسی لئے آپ کی شب بیداری اور عبادت کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے :

''وکان علی ابن الحسین یقول العفو تلاثماة مرة فی الوترفی السحر ۔''

امام سجاد علیہ السلام کی زندگی کا یہ معمول تھا کہ آپ ہمیشہ وتر کے قنوت میں سحر کے وقت تین سو مرتبہ العفو کا ذکر کہا کرتے تھے۔

لہٰذا ہر سختی ومشکل کے موقع پر کام آنے والا واحد ذریعہ نماز شب ہے جو تمام انبیاء اور ائمہ کی تعلیمات سے بھی واضح ہو جاتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اس عظیم وسیلہ سے مددلی ہے اور دوسروں کو اس کی دعوت دی ہے اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیرت کا اندازہ ان سے منقول روایات سے بخوبی کرسکتے ہیں نیز امام موسی کاظم باب الحوائج علیہ السلام امام رضاعلیہ السلام امام محمد تقی علیہ السلام امام علی نقی علیہ السلام امام حسن العسکری علیہ السلام اور امام زمان علیہ السلام ان تمام حضرات کی سیرت میں بھی نماز شب واضح طور پر نظر آتی ہے کہ جو ہر سختی کے لئے کامیابی کا ذریعہ ہے ۔

۶۷

د۔علماء کی سیرت اور نماز شب

علم ومعنویت کے میدان میں ہماری ناکامی کی دووجہ ہوسکتی ہیں:

١) قرآنی تعلیمات اور چہاردہ معصومین کی سیرت کو اپنی روز مرہ زندگی کے لئے نمونہ عمل قرار نہ دینا۔

٢) بزرگ علمائے دین حضرات کی سیرتوں پر نہ چلنا جس سے انسان اخلاقی اور اصول وفروع کے مسائل سے بے خبر رہ جاتا ہے لہٰذا اگر انسان ان کی سیرت پر نہ چلے تو دنیوی زندگی میں ناکام اور شقاوت سے ہمکنار اوراخروی زندگی میں بد بختی اور نابودی کے علاوہ کچھ نہیں پا سکتا لہٰذا نماز شب کے بارے میں علماء اور مجتہدین کی سیرت کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ تہجد گزار حضرات کے لئے اطمنان قلب اور تشویق کا باعث بنے کیونکہ مجتہدین، عصر غیبت میں ائمہ علیہم السلام کے نائب اور حجت خدا ہیں تب ہی تو قرآن میں فرمایا:

''انما یخشی الله من عباده العلمائ ۔''

اور ائمہ علیہم السلام نے فرمایا:

''العلماء امنا العلماء ورثة الانبیاء ۔''

الف )نماز شب اورامام خمنی کی سیرت :

دور حاضر کے مجتہدین میں سے ایک آیت اللہ العظمیٰ امام خمینی ہے جنہوں نے اسلام کے پرچم کو بیسویں صدی کے اواخر میں بلند کرکے مذہب تشیع کے اس نظرئیے کی ایک بار پھر تجدید کردی کہ علمائے ربانی ہی ائمہ علیہم السلام کے حقیقی وارث اور نائب ہیں اور انہیں کی پیروی، چاہے دنیوی امور میں ہو یا دینی تمام میں لازم ہے ان کی زندگی آنحضرت ؐاور ائمہ اطہار کی سیرت کے مطابق تھی یہی وجہ ہے کہ وہ تمام انسانوں میں ایک بڑے مقا م پر فائز ہوئے اور دنیا ان کے عظیم کارناموں کو ہمیشہ یاد رکھے گی اور دنیاء کے اہل علم حضرات کو چاہئے کہ وہ ان کہ اسلامی اورانقلابی افکار کو ہمیشہ اپنے لئے مشعل راہ بنائیں وہ عالم باالزمان تھے اسی لیئے انہوں نے معاشرے کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی اور شرق وغرب کے طاغوت کو عبرت ناک شکست سے دوچار کرکے رکھ دیا یہ تمام طاقت اور مدد اسلام کے انسان ساز عبادی پہلوںسے کما حقہ فیض اٹھانے کی وجہ سے حاصل ہوئی چنانچہ یہی وجہ ہے کہ فرعون ایران کے سپاہی آپ کوگرفتار کرکے تہران لے جارہے تھے

۶۸

تو انہوں نے مامورین سے نماز شب انجام دینے کی اجازت مانگی اسی طرح جب وہ ایک روز بیمار ہوئے تو ہسپتال میں مرض کی حالت میں بھی نماز شب کو قضا نہ ہونے دیا.تیسرا موقع وہ ہے کہ جب امام خمینیؒ نجف اشرف سے کویت جانے پر مجبورہوئے توسفر کے باوجود انھوں نے نمازشب انجام دی اسی طرح اوربھی متعد دموارد ا ن کی حالات زندگی میں ملتے ہیں اسی لئے آج اکیسویں صدی کی دنیا حیران ہے کہ ایک عمررسیدہ ناتواں انسان نے اڈھائی ہزار سالہ شہنشا ہیت کے بت کو اس طرح سر نگون کر کے رکھ دیا اس کی وجہ کیا تھی؟جبکہ وہ کسی خاص سیاسی ترتیب گاہ کے ترتیب یا فتہ نہ تھے اورنہ ہی کسی سیاسی گھرانے میں پرورشںپائی تھی۔اس کا راز نماز شب جیسی انسان ساز عبادت اور اسلامی تعلیمات پرعمل پیرا ہوناہے اسی لیے انہوں نے اس دنیا میںاپنے جانے سے پہلے اس فکرکو چھوڑا کہ اسلام کانظام ہی فقط دنیاء کے قوانین پرحاکم ہے اورکسی شرق وغرب کے قوانین کو یہ حق حاصل نہیںہے کہ وہ عوام پرحکومت کرلے.

(ب) شہیدمطہری کی سیرت

چنانچہ آپ جانتے ہیںکہ شریعت اسلام میںجام شہادت نوش کرنے کی فضیلت اوراہمیت کیاہے جام شہادت نوش کرنے کی توفیق ہرانسان کونہیںملتی تب ہی تو خداوندنے فرمایا(بل احیاء عند ربھم یرزقون) لہٰذا جام شہادت نوش کرنے کیلےئ کچھ خاص اسباب در کار ہیں شہید مطہری کو بار گاہ ایزدی میں سجدہ زیر ہونے کی توفیق حاصل ہوئی تھی اس لیے شہادت نصیب ہوئی شہید ہونے کا سبب ان کی نماز شب اور خدا سے راز ونیاز اوردیگرمستحبات کو انجام دنیا تھا کہ جس کوپابندی کے ساتھ انجام دینے کا سلسلہ طالب علمی کے زمانہ ہی سے شروع کررکھا تھاچنانچہ اس مطلب کو ان کے ساتھیوں میں سے کچھ نے یوں نقل کیا ہے کہ شہید مطہری مدرسہ میں نماز شب کے سختی سے پابند تھے اور ہمیں بھی تہّجد انجام دینے کی نصیحت کرتے تھے لیکن ہم شیطان کے فریب اور دھوکے کی وجہ سے بہانے کیا کرتے تھے جیساکہ کہاایک دن کسی دوست کو نماز شب انجام دینے کی نصیحت فرمائی لیکن انہوں نے کہا مدرسہ کاپانی میرے لیے مضرہے لہٰذا میںوضوء نہیں کرسکتا کیونکہ مدرسہ کاپانی نمکین ہے جومیری آنکھ کے لیے نقصان دہ ہے.شہیدمطہری نے دوست کے اس عذر کے پیش نظر آدھی رات کے وقت مدرسہ سے دورایک نالہ بہتا تھااس سے پانی لے آئے تاکہ ان کادوست نمازشب جیسی نعمت سے محروم نہ رہے۔

۶۹

اسی طرح شہیدکے بارے میںرہبر نے نقل کیا کہ شہیدمطہری نماز شب کے بے حدپابند تھے یہی وجہ ہے کہ آج کل محققین پریشان نظرآتے ہیںکہ مطہری کے افکار کیوںاس قدرمعاشرے میںزیادہ مئوثر ہیں؟جبکہ ان کے نظریہ دوسرے محققین کے نظریات سے ذیادہ مستدل نہیں ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نماز شب اورشب بیداری کے ساتھ نظریات کو جمع کیئے ہوئے تھے اس کے نتیجہ میں معاشرے پران کے افکارذیادہ مؤثر ہیں.

(ج) نماز شب اورعلاّمہ طباطبائی کی سیرت:

دنیاکاہردانشمند جانتاہے کہ علاّمہ طبا طبایئ دینی اورفلسفی مسائل میں اکیسویں صدی کے تمام محققین سے آگے تھے چنانچہ شہیدمطہری نے علاّمہ طباطبائی کے بارے میں یوں فرمایا علاّمہ طباطبائی کی شخصیت اوران کے عمیق نظریات کولوگ مزیدایک صدی کے بعد سمجھ سکیںگے کہ جس کی تائیدالمیزان جیسی تفسیرقرآن کے مطالعہ سے ہوتی ہے کہ اتنی توفیق ہمّت اورفہم وادراک کسی عام انسان کوحاصل ہونا محال عادی ہے۔

اسی لیئے سوال کیا جاتا ہے کیوں اتنی مالی مجبوری ہونے کے باوجودکوئی اورپشت پناہ نہ ہونے کے علاوہ علم کے سمندراوربے بہاگوہرآج حوزہ علمیہ قم اوردیگر جہاںکے گوشے میں علاّمہ طباطبائی کے نام سے منّورہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ علوم دینی کے حصول کی خاطر نجف اشرف تشریف لے گےئ تو کھبی کہبار مرحوم عارف زمان قاضی کی زیارت کو جاتے تھے انہوں نے ان کے حوالے دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک دن قاضی نے مجھ سے فرمایا:

.اے طباطبائی دنیاچاہتے ہویاآخرت؟اگر آخرت کے خواہاںہو تو نماز شب انجام دو کیونکہ آخرت کی زندگی نمازشب میں مخفی ہے اس بات نے مجھ پراتنا اثر کیاکہ نجف سے ایران آنے تک شب وروز قاضی کی مجلس میں جاتاتھا تاکہ ایسے مؤثرنصائح سے زیادہ متفید ہوسکوں اس وقعہ میں علاّمہ نے صریحاً نہیں کہا کہ میں ایران واپس آنے تک ہمیشہ ان کی نصیحت کی وجہ سے پابندی کے ساتھ نماز شب انجام دیتا رہا ہوںلیکن اشارتاً مطلب روشن ہے لہذا آپ کی تہجدّاور تقویٰ کانتیجہ ہے کہ آج ان کی عملی تالئیفات پر حوزے کے تمام دانشمدناز کرتے ہو ئے نظرآتے اور ان کے تربیت یافتہ شاگرد علم تقویٰ میں دوسروں سے آگے نظر آتے ہیںپس توفیق اور ہمّت کا عظیم سر چشمہ نماز شب ہے کہ جس سے ہمیں کھبی فراموش نہیں کرناچاہےئ.

۷۰

(د) نمازشب اور شہید قدّوسی کی سیرت

شہیدقدّوسی مستحبّات کی انجام دہی اورمکروہات کو ترکرنے میں خاصہ پابندتھے.وہ نمازشب کی اہمیت کے اس قدر قائل تھے کہ مدارس دینیہ طلاّب اور علمائے کرام کے لیئے نمازشب کوپابندی کے ساتھ انجام دینا لازم سمجھتے تھے یعنی اگر کویئ طالب علم نماز شب انجام دینے میںکوتاہی کرے توان کی نظر میںطالب علم شمار نہیں ہوتا تھا اسی طرح بہت سی علماء اور مجتہدین کی سیرت نماز شب اوررات کو خداسے رازونیاز کرناہی رہی لہٰذااگر خلاصہ کہا جائے تویہ نتیجہ نکلتا ہے جتنے بھی مجتہدین گزرے ہیں یا اس وقت زندہ ہیں ان تمام حضرات کی زندگی نمازشب میںخلاصہ ہو جاتا ہے اور محترم اساتذہئ کرام مرحوم آیۃ اﷲ العظمیٰ بروجردی کے حوالہ سے نقل کرتے تھے کہ آقای بروجردی نے کہا مرحوم آیۃاﷲ محمدباقرآیۃاﷲمیرزا آیۃاﷲقوچانی وغیرہ نماز شب کے قنوت میں قیام کی حالت میں دُعائے ابوحمزہ ثمالی پڑھاکرتے تھے۔

(ر)نماز شب اور مرحو م شیخ حسن مہدی آبادی کی سیرت:

ہمارے استاد محترم مؤ سس مدارس دینیہ و مراکز علمیہ محسن ملت مرحوم شیخ مہدی آبادی کی سیرت ہم سب کے لئے نمونہ عمل ہے کیونکہ آپ ہمیشہ طلباء اور علماء سے تہجد کی سفارش کے ساتھ ہمیشہ پابند رہتے تھے اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بلتستان جیسے پسماندہ علاقہ میں علوم آل محمد کے شمع جلائے اور بیسیوں مدارس سیکڑوں دینیات سینٹر ز مساجد امام بارگاہیں اور دینی مراکز قائم کر کے مذہب اہل البیت ؑ کی ترویج کا ایسا وسیلہ فراہم کیا جو رہتی دنیا تک جاری رہے گا اللہ تعالیٰ ان کو تہجد گذاروں کے ساتھ محشور فرمائیں۔

۷۱

دوسری فصل

نمازشب کے فوائد

جب کسی فعل کے نتائج اور فوائدکے بارے میںگفتگوہوتی ہے تو ہر انسان کے ذہن میںفوراًیہ تصور پیداہوتا ہے کہ کیا چیز ہے کہ جس کے خاطرانسان ہرقسم کی زحمات کوبرداشت کرتاہے تاکہ اس فائدہ اورنتیجہ سے محروم نہ رہے لہٰذاضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے فائدہ کی حقیقت اورنتیجے کاخاکہ ذہن میںڈالیں تاکہ ہمیں اپنے کاموں میں زیادہ مطمئن ہوفائدہ اور نتیجہ کی دواصطلاح ہیں:

١)اصطلاح فقہی۔

٢)اصلاح عوامی وعرفی ۔

اصطلاح فقہی میںفائدہ اس چیزکو کہا جاتا ہے جوفعل کے مقدار سے ذیادہ ہو جیسے ایک شخص کسی کے ہاں مزدوری کرتاہے تواس کی اجرت کام کے گھنٹوں کی مقدارسے زیادہ ہو تواس وقت فائدہ کہا جاتا ہے لہذا اگر کوئی شخص کسی کے ہاں کام کرتاہو لیکن اجرت کی مقدارگھنٹوںکی مقدار سے کم ہوتواس کونقصان اورخسارہ کہاجاتا ہے.اسی طرح اگرکسی چیزکی اُجرت وقت کے مقدارکے برابرہو تواس وقت فائدہ اورنقصان دونوںتعبیراستعمال نہں ہوتے.

لیکن عرف اورعوامی اصطلاح میں فعل کے نتیجے کو فائدہ کہا جاتاہے چاہے وہ نتیجہ فعل کے مقدار سے کم ہویازیادہ ہویابرابرہواسی لیے عوامی اصطلاح میں فائدہ کا مفہوم فقہی اصطلاح سے زیادہ وسیع ہے اور ہماراموردبحث نمازشب کے فوائدکواصطلاح عرف میں بیان کرنامقصدہے کہ جس کوبیان کرنے سے عاشقین الٰہی کواطمینان حاصل ہواورفائدے کی حقیقت سے بھی آگاہ ہو ، لہٰذااس مختصرکتاب میں نماز شب کے فوائدکے اقسام کی طرف بھی اشارہ کیا جاتا ہے.

نماز شب کے اہم فائدے تین طرح کے ہیں:

۷۲

١)دنیامیںنمازشب کے آثاراورفوائد۔

٢)نمازشب کے فوائدبرزخ میں۔

٣)نمازشب کے فوائداورنتائج آخرت میں۔

البتہ ان تین قسموں کوبعض علماء اورمحققین نے دوقسموں میں تقسیم کیئے ہیں:

نمازشب کے مادی فوائدیعنی دینوی فوائد کومادی کہا جاتا ہے اور اخروی فوائد۔

لہٰذااس تقسیم کے بنا پرعالم برزخ اورعالم آخرت سے مربوط فوائد کو معنوی کہاجاتا ہے۔لیکن وہ فوائدجودینوی اورمادی ہیںان کی خود متعددقسمیں ہیں۔

(١)نمازشب باعث صحت

اگرآپ نمازشب پڑھیں گے تو نماز شب آپ کی تندرستی اورصحت بدن کا باعث بنتا ہے کہ دنیا میںتندرستی اورصحت اتنااہم اوردوررس موضوع ہے جس کو ہرانسان شخصی اوراجتماعی طورپر سرمایہ اورنعمت سمجھتا ہے۔نیزدنیا کے ہرنظام خواہ اسلامی ہویاغیر اسلامی اسے ضروری اورمحبوب قرار دیتاہے لہٰذا اگرہم کڑی نظر سے دیکھیںاوردقت کریںتومعلوم ہوتا ہے کہ دنیاکے کسی گوشے میںایسی کوئی حکومت اورملک نہیں ہے کہ جس میںاس معاشرے کے صحت اور تندرستی کہ خاطر کوئی پروگرام اورشعبہ مقررنہ کیا گیا ہولہٰذاہرحکومت اورنظام کی کوشش یہی رہی ہے کہ معاشرہ ہر قسم کے امراض اور بیماریوںسے پاک ہواورا مراض سے روک تھام کی خاطر ایک ماہر شخص کو وزیر صحت کے نام سے مقررکیا جاتا ہے اور وزیر تعلیم کی کوشش اور جدو جہد بھی یہی رہی ہے کہ سائنس اور علم الطب میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنائے اور ان کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ معاشرہ کے امراض اور بیماریوں کو صحیح طریقے سے ٹھیک کرسکیں لہٰذا ہر گورنمنٹ اور حکومت اپنی درآمدات کے حساب سے سب سے زیادہ رقم تندرستی کے لوازمات کو فراہم اور مہلک امراض سے تحفظ کرنے کی خاطر مقرر کرتی ہے تاکہ تندرستی اور صحت یابی سے معاشرہ محروم نہ رہے ۔

اس طرح ہر حکومت اور نظام انسان کی صحت اور تندرستی کو بحال رکھنے کی خاطر کھیلوں اور دیگر مفید تفریحی پروگرام کی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے تاکہ معاشرہ صحت اور تندرستی جیسی نعمت سے مالامال ہو ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دنیا میں تمام موضوعات سے اہم موضوع صحت اور تندرستی کا موضوع ہے لہٰذا اس موضوع میں کامیاب ہونے کی خاطرہر انسان ہزاروں زحمات اور تکالیف برداشت کرتا ہے اور کروڑوں روپیہ امراض سے بچنے اور تندرست رہنے کے لئے خرچ کرتا ہے چونکہ صحت اور تندرستی جیسی نعمت دنیا میں کمیاب ہے لیکن نظام اسلام اور باقی نظاموں میں صحت کے حوالے سے ایک فرق ہے وہ فرق یہ ہے

۷۳

کہ غیر اسلامی نظاموں میں صرف مادی صحت اور تندرستی مورد نظر ہے لیکن اسلامی نظام کی نگاہ انسان کے دونوں پہلؤں کی طرف ہے یعنی روح اور بدن دونوں کی تندرستی اور صحت یابی مورد نظر ہے صحت کے اصولوں کی نشاندہی بھی کی ہے کہ جس کی رعایت کرنے سے انسان روحی اور جسمی تندرستی سے مالامال ہوسکتا ہے لہٰذا فقہ میں مستقل ایک بحث ہے کہ اگر کوئی شخص مریض ہو تو کیا علاج کروانا واجب ہے یا نہیں کہ اس مسئلہ میں مذاہب خمسہ کے آپس میں نظریات مختلف ہیں۔

١۔امام احمد نے اس مسئلہ کے بارے میں کہا ہے کہ علاج رخصۃٌ و ترکہ درجۃٌ اعلیٰ۔ یعنی علاج کرنا جائز ہے لیکن نہ کرنا بہتر ہے ۔

٢۔ شافعی نے کہاہے کہ التداوی افضل من ترکہ یعنی علاج کرنا نہ کرنے سے بہتر ہے۔

٣۔ ابوحنیفہ نے کہا ہے کہ التداوی مؤاکد یعنی علاج کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

٤۔مالک نے کہا ہے کہ التداوی یستوی فعلہ و ترکہ یعنی علاج کرنا اور نہ کرنا مساوی ہے۔

٥۔ امامیہ کانظر یہ ہے کہ علاج کرنا واجب ہے۔(١)

لہٰذاعلاج کے بارے میں جتنی روایات امام رضاعلیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے جن کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں صحّت اورتندرستی کے موضوع کوکتنااہم اورضروری قراردیاگیاہے لہٰذاصحت اورتندرستی کوہمیشہ برقراررکھنے کے طریقوں میں سے ایک شب بیداری اورنمازشب کاانجام دیناہے کہ جس کے بارے میںپیغمبر اکرم)ص(نے فرمایا:

____________________

(١)المسائل الطیبہ استاد:محسنی دامت عزہ.

۷۴

''علیکم وصلوٰة اللّیل فانّهاسنّةنبیکم ودأب الصالحین فعلیکم و مطرة الداء عن اجسادکم ۔''(١)

آپ نے فرمایا کہ تم لوگ نمازشب پڑھوکیونکہ نمازشب تمھارے نبی کی سیرت اورسنت ہے اورتم سے پہلے والے صالحین کی بھی سیرت ہے اورنمازشب پڑھنے سے تمھارے بدن کی بیماریاںدوراورٹھیک ہوجاتی ہے۔

تفسیروتحلیل روایت:

دنیامیںانسان کی عادت ہے کہ جب کوئی شخص کسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے توفوراًکسی ڈاکٹرسے مراجعہ کرتاہے تاکہ علاج کرسکے لیکن بسااوقات کچھ امراض ایسے ہیںکہ جن کاعلاج ڈاکٹروںکی قدرت اورتجربے سے خارج ہے لہٰذاان امراض کولاعلاج امراض سے تعبیرکرتے ہیںچنانچہ یہ مطلب تجربے اور مشاہدات میںآچکاہے یعنی بہت سارے بیمارافرادکوڈاکٹروںنے لاعلاج قراردیاہے لیکن قوانین اسلام اورنظام اسلامی نے تمام امراض کے لےئ علاج اور دوائیوںکی نشاندہی کی ہے جسے نمازشب،دعاء وصدقات اوردیگرکارخیرکوانجام دینا۔

لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوتاہے اگرانسان کے بدن پرکوئی مرض ہوجوڈاکٹروںکے نزدیک قابل علاج ہویاقابل علاج نہ ہو،نمازشب ہرایک

____________________

(١)علل الشرائع.

۷۵

بیماریوںکے علاج کاذریعہ ہے چنانچہ اس مطلب کی طرف یوںاشارہ فرمایا:نمازشب مطرۃ الداء عن اجسادکم یعنی نمازشب بدن سے امراض کے ٹھیک ہونے کاوسیلہ ہے لہٰذاآپ اگرصحّت بدن اورتندرستی جسمی کے جوا ہاں ہیں اور لاعلاج امراض کے علاج کوبغیرکسی خرچ اورزحمت کے کرناچاہتے ہیںتونمازشب پڑھیںکہ جس کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے بدن کوتندرست اورنفسیاتی امراض کوٹھیک کرتی ہے اسی طرح دوسری روایت۔

مولیٰ امیرؑکایہ قول ہے کہ آپ نے فرمایا:شب بیداری صحت یابی بدن اورتندرستی جسمی کاذریعہ ہے :

''قیام اللیل مصححة للبدن'' ( ١)

اگرچہ اس روایت میںنمازشب کوصریحاً باعث صحت اورتندرستی قرار نہیں دیابلکہ مطلق شب بیداری کے فوائدمیںسے ایک صحّت بدن قراردیاہے لیکن دوقرینوںسے معلوم ہوتاہے کہ قیام اللیل سے مراد نماز شب ہے. ایک قرینہ یہ ہے کہ اگر ہر قیام اللیل بدن کے تندرست اور صحت کا ذریعہ ہو تو نماز شب کے لئے قیام اللیل کرنا بطریق اولیٰ صحت اور تندرستی بدن کا ذریعہ ہے ۔

دوسرا قرینہ یہ ہے کہ دوسری روایت میں قیام اللیل کی وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد نماز شب ہے لہٰذا ان دونوں قرینوں کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ

____________________

(١)۔کتاب الدعوات للراوندی ص٧٦.

۷۶

اس روایت میں قیالم اللیل سے مراد نماز شب ہے کہ جس کے فوائد دنیوی میں سے ایک فائدہ صحت بدن اور تندرستی ہے ۔

تیسری روایت:

امام المسلمین والمتقین حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' قیام اللیل مصححة للبدن و مرضاة للرب عزوجلّ وتعرض للرحمة وتمسک باخلاق اللنبیین'' (١)

آپ نے فرمایا کہ شب بیداری صحت بدن اور تندرستی انسان کا ذریعہ اور خداوند تبارک وتعالیٰ کی رضایت حاصل ہونے ، رحمت پرورگار سے مالامال ہونے اور سارے انبیاء کے رفتار و کردار سے منسلک ہونے کا سبب ہے ۔

توضیح وتفسیر:

اس روایت میں مولائے کائنات امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے نماز شب کے چار فوائد کا ذکر فرمایا.

١۔ نماز شب پڑھنے سے صحت ٹھیک اور تندرستی بحال ہوتی ہے کہ اس مطلب کی طرف تین روایات میں اشارہ فرمایا

٢۔دوسرا مطلب کہ نماز شب رضایت الٰہی حاصل ہونے کا ذریعہ ہے

____________________

(١)۔ بحار الانوار ج ٨٧.

۷۷

اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ایک آسان کام ہے کیونکہ پورے کائنات کے مخلوقات کی خلقت کا ہدف ہی رضایت الٰہی کو حاصل کرنا اور خدا کی بندگی کا شرف حاصل کرنا ہے لہٰذا رضایت خداوند حاصل کرنا بہت مشکل اور دشوار کام ہے لیکن اگر کوئی شخص اس مشکل کام کو باآسانی حاصل کرنا چاہتا ہے تو نماز شب انجام دے کیونکہ نماز شب رضایت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے لہٰذا نماز شب کو نہ چھوڑیں تاکہ اس کے فوائد سے محروم نہ ہو.

٣۔تیسرا فائدہ :

جو اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے سے اچھے اور صالحین کی سیرت پر گامزن ہوتا ہے کیونکہ نماز شب سارے صالحین کی سیرت ہے لہٰذا دنیا میں ہر انسان اچھے اور نیک حضرات کی سیرت کو اپنانے کی کوشش میں ہوتا ہے اور ان کی سیرت پر چلنے کی خاطر ہر قسم کے حربے مادی ہو یا معنوی اور دیگر وسائل سے کمک لیتے ہیں تاکہ ان کی سیرت پر گامزن ہو لہٰذا ہر معاشرہ میں اگر کوئی شخص اس معاشرہ کے اصول و ضوابط کے پابند ہو امانتدار ہو اور دیگر ہر قسم کے عیب و نقص سے ظاہراً مبرّیٰ ہو تو دوسرے لوگ نہ صرف اس کو قابل احترام سمجھتے بلکہ اس کی سیرت کو اپنے لئے نمونہئ عمل قرار دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں

۷۸

لہٰذا نماز شب صالحین کی سیرت ہے کہ صالحین کے مصداق اتم انبیاء اور اوصیاء ہے پس نماز شب کا تیسرا فائدہ صالحین کی سیرت پر گامزن رہنا یعنی خود کو دوسروں اور آئندہ آنے والوں کے لئے نمونہئ عمل بنانا کہ جس سے بڑھ کر کوئی نعمت اور مقام انسان کے لئے قابل تصور نہیں چنانچہ اس مطلب کی طرف پیغمبر اکرم)ص( نے اشارہ فرمایا:

'' علیکم قیام اللیل فإنّه دأب الصالحین فیکم وإنّ قیام اللیل قربة الیٰ اﷲ ومنهاة عن الاثم'' (٣)

یعنی تم لوگ نماز شب انجام دو کیونکہ نماز شب نیکی کرنے والوں کی سیرت اور خدا سے قریب ہونے کا ذریعہ اور گناہوں سے بچنے کا وسیلہ ہے نیز اسی مضمون کی روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوںنقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''علیکم بصلاة اللیل فإنّها سة نبیکم و دأب الصالحین و مطرة الدّاء عن اجسادکم ۔ ''

جس کا ترجمہ اور تفصیل پہلے گذر چکی ہے لہٰذا پہلی روایت کی تحلیل اور حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اکرم)ص(نے اس روایت میں نماز شب کے فوائد میں سے تین فائدوں کی طرف اشارہ فرمایا :

١۔نماز شب صالحین کی سیرت پر گامزن ہونے کا وسیلہ ہے

٢۔ نماز شب خدا سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے کہ خدا سے قریب ہونےکی

____________________

(٣) کنز العمال.

۷۹

چاہت ہر انسان کی فطرت میں مخفی ہے لیکن عوامل خارجی کی وجہ سے کبھی بظاہر یہ چاہت مردہ نظر آتی ہے لہٰذا صرف مسلمانوں کی چاہت سمجھا جاتا ہے لیکن خدا سے قریب ہونے سے مراد قرب مکانی اور زمانی نہیں ہے بلکہ معنوی مراد ہے کیونکہ خدا مکان و زمان کا خالق ہے لہٰذا خدا زمان و مکان سے بالاتر ہے یعنی خدا من جمیع الجہات مجرد محض ہے اور نماز شب پڑھنے والے حضرات کا رتبہ بلند ہوتاہے اور خدا کے نزدیک وہ عزیز ہے

٢۔نماز شب گناہوں سے بچنے کا ذریعہ

دوسرا فائدہ جو اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے کہ نماز شب گناہوں سے بچنے کا ذریعہ ہے یعنی اگر نمازشب انجام دینگے تو خدا آپ کو نافرمانی سے نجات دیتا ہے چنانچہ اس مطلب کی طرف خدا نے قرآن میں اشارہ فرمایا ہے :

( انّ الصلاة تنهیٰ عن الفحشاء والمنکر )

بیشک نماز ہی برائی اور نافرمانی سے نجات دیتی ہے کہ گناہ اور نافرمانی خدا اور انسان کے درمیان حجاب ہے کہ جس کی وجہ سے خالق حقیقی مخلوق سے دور اور مخلوق کو خالق حقیقی نظر نہیں آتا لہٰذا عبد اور مولا کے آپس کارابطہ ٹوٹ جانے کا سبب گناہ اور نافرمانی ہے لیکن اگر نماز شب انجام دی جائے تو یہ رابطہ دوبارہ بحال ہوجاتا ہے کیونکہ گناہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی زندگی کو تباہ کرتی ہے اور اس کی عمر میں کمی کا سبب بھی بنتی ہے جبکہ گناہ سے پرہیز کرنے سے زندگی آباد اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور اسی طرح نفسیاتی امراض کو ٹھیک کرنے کا بھی ذریعہ ہے تب بھی تو معصوم نے ایک روحی طبیب کی حیثیت سے فرمایا :(ومطرۃ ا لد اء عن اجسادکم) یعنی نماز شب بیماریوں کو ٹھیک کرتی ہے ۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تیسرا سبق

وضوء

جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے اسے نماز سے پہلے اس ترتیب سے وضوء کرنا چاہیئے پہلے دونوں ہاتھوں کو ایک یا دو دفعہ دھوئے _ پھر تین مرتبہ کلی کرے پھر تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے اور صاف کرے _ پھر وضو کی نیت اس طرح کرے _ :

وضو کرتا ہوں _ یا کرتی ہوں_ واسطے دور ہونے حدث کے اور مباح ہونے نماز کے واجب قربةً الی اللہ '' نیت کے فوراً بعد اس ترتیب سے وضو کرے _

۱_ منہ کو پیشانی کے بال سے ٹھوڑی تک اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے _

۲_ دائیں ہاتھ کو کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۳_ بائیں ہاتھ کو بھی کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۴_ دائیں ہاتھ کی تری سے سرکے اگلے حصّہ پر اوپر سے نیچے کی طرف مسح کرے _

۵_ دائیں ہاتھ کی تری سے دائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

۶_ بائیں ہاتھ کی تری سے بائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

ماں باپ یا استاد کے سامنے وضو کرو اور ان سے پوچھ کہ کیا میرا وضو درست ہے _

۱۲۱

چوتھا سبق:

نماز پڑھیں

ہم کو نماز پڑھنی چاہئے تا کہ اپنے مہربان خدا سے نماز میں باتین کریں _ نماز دین کا ستون ہے _ ہمارے پیغمبر (ص) فرماتے ہیں : جو شخص نماز کو سبک سمجھے اور اس کے بارے میں سستی اور کوتاہی کرے وہ میرے پیروکاروں میں سے نہیں ہے _ اسلام ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد کو نماز سکھائیں اور سات سال کی عمر میں انہیں نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں اور اولاد کو ہمیشہ نماز پڑھنے کی یاددہانی کرتے رہیں اور ان سے نماز پڑھنے کے لئے کہتے رہیں _ جو لڑکے اور لڑکیاں بالغ ہوچکے ہیں انہیں لازمی طور پر نماز پڑھنی چاہیے اور اگر نماز نہیں پڑھتے ہیں تو اللہ کے نافرمان اور گناہگار ہوں گے

سوالات

۱_ ہم نماز میں کس سے کلام کرتے ہیں ؟

۲_ ہمارے پیغمبر (ص) نے ان لوگوں کے حق میں جو نماز میں سستی کرتے ہیں کیا فرمایا ہے ؟

۳_ سات سال کے بچّوں کے بارے میں ماں باپ کا کیا وظیفہ ہے ؟

۴_ کون تمہیں نماز سکھاتا ہے ؟

۵_ نماز دین کا ستون ہے کا کیا مطلب ہے ؟

۱۲۲

پانچواں سبق

نماز آخرت کیلئے بہترین توشہ ہے

نماز بہترین عبادت ہے _ نماز ہمیں خدا سے نزدیک کرتی ہے اور آخرت کیلئے یہ بہترین توشہ ہے _ اگر صحیح نماز پڑھیں تو ہم آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں گے _

حضرت محمد مصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں دنیا میں نماز پڑھنے کو دوست رکھتا ہوں ، میرے دل کی خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے _ نیز آپ(ع) نے فرمایا نماز ایک پاکیزہ چشمے کے مانند ہے کہ نمازی ہر روز پانچ دفعہ اپنے آپ کو اس میں دھوتا ہے _ ہم نماز میں اللہ تعالی کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اور ہمارا دل اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے _ جو شخص نماز نہیں پڑھتا خدا اور اس کا رسول (ص) اسے دوست نہیں رکھتا

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے تھے میں واجب نماز نہ پڑھنے والے سے بیزار ہوں _ خدا نماز پڑھنے والوں کو دوست رکھتا ہے بالخصوص اس بچّے کو جو بچپن سے نماز پڑھتا ہے زیادہ دوست رکھتا ہے _

ہر مسلمان دن رات میں پانچ وقت نماز پڑھے

۱_ نماز صبح دو رکعت

۲_ نماز ظہر چار رکعت

۳_ نماز عصر چار رکعت

۴_ نماز مغرب تین رکعت

۵_ نماز عشاء چار رکعت

۱۲۳

جواب دیجئے

۱_ حضرت محمد مصطفی (ص) نے نماز کے بارے میں کیا فرمایا ہے ؟

۲_ کیا کریں کہ آخرت میں سعادتمند ہوں ؟

۳_ ہر مسلمان دن رات میں کتنی دفعہ نماز پڑھتا ہے اور ہرایک کیلئے کتنی رکعت ہیں؟

۴_ جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کے لئے پیغمبر (ص) نے کیا فرما یا ہے ؟

۶_ کیا تم بھی انہیں میں سے ہو کہ جسے خدا بہت دوست رکھتا ہے اور کیوں؟

۱۲۴

چھٹا سبق

طریقہ نماز

اس ترتیب سے نماز پڑھیں

۱_ قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں اور نیت کریں یعنی قصد کریں کہ کون نماز پڑھنا چاہتے ہیں _ مثلاً قصد کریں کہ چار رکعت نماز ظہر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہوں _

۲_ نیت کرنے کے بعد اللہ اکبر کہیں اور اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اوپر لے جائیں _

۳_ تکبیر کہنے کے بعد سورہ الحمد اس طرح پڑھیں

( بسم الله الرحمن الرحیمی : الحمد لله ربّ العالمین _ الرّحمن الرّحمین _ مالک یوم الدین_ ايّاک نعبد و ايّاک نستعین_ اهدنا الصّراط المستقیم_ صراط الذین انعمت علیهم_ غیر المغضوب علیهم و لا الضّالین)

۴_ سورہ الحمد پڑھنے کے بعد قرآن مجید کا ایک پورا سورہ پڑھیں مثلاً سورہ توحید پڑھیں:

( بسم الله الرّحمن الرّحیم _ قل هو الله احد _ اللّه الصمد_ لم یلد و لم یولد _ و لم یکن له کفواً احد _)

۵_ اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس قدر جھکیں کہ ہاتھ زانو تک پہنچ جائے اور اس وقت پڑھیں

۱۲۵

سبحان ربّی العظیم و بحمده

۶_ اس کے بعد رکوع سر اٹھائیں اور سیدھے کھڑے ہو کر کہیں :

سمع الله لمن حمده

اس کے بعد سجدے میں جائیں _ یعنی اپنی پیشانی مٹی یا پتھر یا لکڑی پر رکھیں اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے زمین پر رکھیں اور پڑھیں:

سبحان ربّی الاعلی و بحمده

اس کے بعد سجدے سے سر اٹھاکر بیٹھ جائیں اور پڑھیں:

استغفر الله ربّی و اتوب الیه

پھر دوبارہ پہلے کی طرح سجدے میں جائیں اور وہی پڑھیں جو پہلے سجدے میں پڑھا تھا اور اس کے بعد سجدے سے اٹھا کر بیٹھ جائیں اس کے بعد پھر دوسری رکعت پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اٹھتے وقت یہ پڑھتے جائیں:

بحول الله و قوته اقوم و اقعد

پہلی رکعت کی طرح پڑھیں_

۷_ دوسری رکعت میں سورہ الحمد اور ایک سورہ پڑھنے کے بعد قنوت پڑھیں _ یعنی دونوں ہاتھوں کو منہ کے سامنے اٹھا کر دعا پڑھیں اور مثلاً یوں کہیں :

ربّنا اتنا فی الدنیا حسنةً و فی الآخرة حسنةً وقنا عذاب الناّر _

۱۲۶

اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس کے بعد سجدے میں جائیں اور انہیں پہلی رکعت کی طرح بجالائیں

۸_ جب دو سجدے کر چکیں تو دو زانو بیٹھ جائیں اور تشہد پڑھیں :

الحمد لله _ اشهد ان لا اله الاّ الله وحده لا شریک له و اشهد انّ محمد اً عبده و رسوله _ اللهم صلّ علی محمد و آل محمد

۹_ تشہد سے فارغ ہونے کے بعد کھڑے ہوجائیں اور تیسری رکعت بجالائیں تیسری رکعت میں سورہ الحمد کی جگہ تین مرتبہ پڑھیں :

سبحان الله و الحمد لله و لا اله الا الله والله اکبر

اس کے بعد دوسری رکعت کی طرح رکوع اور سجود کریں اور اس کے بعد پھر چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اسے تیسری رکعت کی طرح بجالائیں _

۱۰_ چوتھی رکعت کے دو سجدے بجالانے کے بعد بیٹھ کر تشہد پڑھیں اور اس کے بعد یوں سلام پڑھیں:

السّلام علیک ايّها النبی و رحمة الله و برکاته

السلام علینا و علی عباد الله الصالحین

السلام علیکم ورحمة الله و برکاته

یہاں ہماری ظہر کی نمازتمام ہوگئی

۱۲۷

اوقات نماز

صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے سورج نکلتے تک ہے نماز ظہر اور عصر کا وقت زوال شمس سے آفتاب کے غروب ہونے تک ہے _

مغرب اور عشاء کا وقت غروب شرعی شمس سے آدھی رات یعنی تقریباً سوا گیارہ بجے رات تک ہے _

یادرکھئے کہ

۱_ عصر اور عشاء کی نماز کو ظہر کی نماز کی طرح پڑھیں لیکن نیت کریں کہ مثلاً عصر کی یا عشاء کی نماز پڑھتا ہوں ...:

۲_ مغرب کی نماز تین رکعت ہے تیسری رکعت میں تشہد اور سلام پڑھیں _

۳_ صبح کی نماز دو رکعت ہے دوسری رکعت میں تشہد کے بعد سلام پڑھیں _

۱۲۸

ساتواں سبق

نماز پر شکوہ _ نمازجمعہ

نماز ایمان کی اعلی ترین کو نپل اور روح انسانی کا اوج ہے _ جو نماز نہیں پڑھتا وہ ایمان اور انسانیت کے بلند مقام سے بے بہرہ ہے _ نماز میں قبلہ روکھڑے ہوتے ہیں اور خدائے مہربان کے ساتھ کلام کرتے ہیں _ پیغمبر اسلام(ص) نے نماز قائم کرنے کے لئے تاکید کی ہے کہ مسجد میں جائیں اور اپنی نماز دوسرے نماز یوں کے ساتھ با جماعت ادا کریں تنہا نماز کی نسبت دریا اور قطرہ کی ہے اور ان کے ثواب اور اجر میں بھی یہی نسبت ہے جو مسجد میں با جماعت ادا کی جائے _ جو نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں _ ان میں نماز جمعہ کا خاص مقام ہے کہ جسے لازمی طور سے جماعت کے ساتھ مخصوص مراسم سے ادا کیا جاتا ہے _ کیا آپ نماز جمعہ کے مراسم جانتے ہیں ؟ کیا جانتے ہیں کہ کیوں امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لے کر کھڑا ہوتا ہے ؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ امام جمعہ کو خطبوں میں کن مطالب کو ذکر کرنا ہے ؟

امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں اس لئے لیتا ہے تا کہ اسلام کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے خلاف اعلان کرے کہ مسلمان کو اسلامی سرزمین کے دفاع کے لئے ہمیشہ آمادہ رہنا چاہیئے _ ہتھیار ہاتھ میں لے کر ہر ساتویں دن مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ نماز کے برپا کرنے کے لائے لازمی طور پر جہاد اور مقابلہ کرنا ہوگا _ امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لیکر خطبہ پڑھتا ہے تا کہ اعلان کر ے کہ نماز اور جہاد ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں _ اور مسلمانوں کو ہمیشہ ہاتھ میں ہتھیار رکھنا چاہیئےور دشمن

۱۲۹

کی معمولی سے معمولی حرکت پر نگاہ رکھنی چاہیے _ جو امام جمعہ اسلامی معاشرہ کے ولی اور رہبر کی طرف سے معيّن کیا جاتاہے وہ ہاتھ میں ہتھیار لیتا ہے اور لوگوں کی طرف منہ کرکے دو خطبے دیتا ہے اور اجتماعی و سیاسی ضروریات سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے اور ملک کے عمومی حالات کی وضاحت کرنا ہے _ اجتماعی مشکلات اور اس کے مفید حل کے راستوں کی نشاندہی کرتا ہے _ لوگوں کو تقوی _ خداپرستی ایثار اور قربانی و فداکاری کی دعوت دیتا ہے اور انہیں نصیحت کرتا ہے _ نماز یوں کو پرہیزگاری ، سچائی ، دوستی اورایک دوسرے کی مدد کرنے کی طرف رغبت دلاتا ہے _ لوگ نماز کی منظم صفوں میں نظم و ضبط برادری اور اتحاد کی تمرین اور مشق کرتے ہیں _ اور متحد ہوکر دشمن کامقابلہ کرنے کا اظہار کرتے ہیں _ جب نماز جمعہ کے خطبے شروع ہوتے ہیں اور امام جمعہ تقریر کرنا شروع کرتا ہے تو لوگوں پر ضروری ہوجاتاہے کہ وہ خامو ش اور آرام سے بیٹھیں اور نماز جیسی حالت بناکر امام جمعہ کے خطبوں کو غور سے نہیں _

سوالات

۱_ نماز جمعہ کی منظم صفیں کس بات کی نشاندہی کرتی ہیں؟

۲_ امام جمعہ خطبہ دیتے وقت ہاتھ میں ہتھیار کیوں لیکر کھڑا ہوتا ہے ؟

۳_ امام جمعہ کو کون معيّن کرتا ہے ؟

۴_ امام جمعہ نماز جمعہ کے خطبے میں کن مطالب کو بیان کرتا ہے ؟

۵_ نماز جمعہ کے خطبے دیئےانے کے وقت نماز یوں کا فرض کیا ہوتا ہے ؟

۱۳۰

آٹھواں سبق

روزہ

اسلام کی بزرگ ترین عبادات میں سے ایک روزہ بھی ہے

خدا روزا داروں کو دوست رکھتا ہے اور ان کو اچھی جزا دیتا ہے روزہ انسان کی تندرستی اور سلامتی میں مدد کرتا ہے

جو انسان بالغ ہوجاتا ہے اس پر ماہ مرضان کا روزہ رکھنا واجب ہوجاتا ہے اگرروزہ رکھ سکتا ہو اور روزہ نہ رکھے تو اس نے گناہ کیا ہے روزہ دار کو سحری سے لیکر مغرب تک کچھ نہیں کھانا چاہئے

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ اسلام کی بزرگ ترین ...ہے

۲_ خدا روزہ داروں ہے

۳_ روزہ انسان کی مدد کرتا ہے

۴_ روزہ دار کو نہیں کھانا چاہیئے

۵_ اگر روزہ رکھ سکتا ہو اور گناہ کیا ہے

۱۳۱

نواں سبق

ایک بے نظیر دولہا

ایک جوان بہادر اور ہدایت یافتہ تھا _ جنگوں میں شریک ہوتا تھا _ ایمان اور عشق کے ساتھ اسلام و قرآن کی حفاظت اور پاسداری کرتا تھا _ اللہ کے راستے میں شہادت کو اپنے لئے بڑا افتخار سمجھتا تھا کہ میدان جنگ میں شہید ہوجانا اس کی دلی تمنا تھی _ یہ تھا حنظلہ جو چاہتا تھا کہ مدینہ کی اس لڑکی سے جو اس سے منسوب تھی شادی کرلے شادی کے مقدمات مہيّا کرلئے گئے تھے _ تمام رشتہ داروں کو شادی کے جشن میں مدعو کیا جا چکا تھا _ اسی دن پیغمبر اکرم (ص) کو مطلع کیا گیا کہ دشمن کی فوج مدینہ کی طرف بڑھ رہی ہے اور شہر پر حملہ کرنے والی ہے _

پیغمبر (ص) نے یہ خبر بہادر اور مومن مسلمانوں کو بتلائی اور جہاد کا اعلان فرمایا_ اسلام کے سپاہی مقابلہ اور جنگ کے لئے تیار ہوگئے _ جوان محافظ اور پاسداروں نے محبت اور شوق کے جذبے سے ماں باپ کے ہاتھ چومے خداحافظ کہا _ ماؤں نے اپنے کڑیل جوانوں کو جنگ کا لباس پہنایا اور ان کے لئے دعا کی _ چھوٹے بچے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر اپنے باپ اور بھائیوں کو الوداع کررہے تھے _

اسلام کی جانباز فوج اللہ اکبر کہتے ہوئے شہر سے میدان احد کی طرف روانہ ہور ہی تھی _ اہل مدینہ اسلام کی بہادر فوج کو شہر کے باہر تک جاکر الوداع کہہ رہے تھے _ حنظلہ پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پریشانی و شرمندگی کے عالم میں عرض کیا _ یا رسول اللہ (ص) میں چاہتا ہوں کہ میں بھی میدان احد میں حاضر ہوں اور جہاد

۱۳۲

کروں لیکن میرے ماں باپ اصرار کررہے ہیں کہ میں آج رات مدینہ رہ جاؤں _ کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آج رات مدینہ میں رہ جاؤں اور اپنی شادی میں شرکت کرلوں اور کل میں اسلامی فوج سے جا ملوں گا _ رسول خدا (ص) نے اسے اجازت دے دی کہ وہ مدینہ میں رہ جائے _ مدینہ خالی ہوچکا تھا _ حنظلہ کی شادی کا جشن شروع ہوا لیکن اس میں بہت کم لوگ شریک ہوئے _ حنظلہ تمام رات بیقرار رہا کیونکہ اس کی تمام تر توجہ جنگ کی طرف تھی وہ کبھی اپنے آپ سے کہتا کہ اے حنظلہ تو عروسی میں بیٹھا ہوا ہے لیکن تیرے فوجی بھائی اور دوست میدان جنگ میں مورچے بنارہے ہیں وہ شہادت کے راستے کی کوشش میں ہیں وہ اللہ کا دیدار کریں گے اور بہشت میں جائیں گے اور تو بستر پر آرام کررہا ہے _ شاید حنظلہ اس رات بالکل نہیں سوئے اور برابر اسی فکر میں رہے حنظلہ کی بیوی نئی دلہن کی آنکھ لگ گئی _ اس نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان پھٹ گیا ہے _ اور حنظلہ آسمان کی طرف چلا گیا ہے اور پھر آسمان کا شگاف بند ہوگیا ہے خواب سے بیدار ہوئی _ حنظلہ سحر سے پہلے بستر سے اٹھے اورجنگی لباس پہنا اور میدان احد کی طرف جانے کے لئے تیار ہوئے دلہن نے پر نم آنکھوں سے اس کی طرف نگاہ کی اور خواہش کی کہ وہ اتنی جلدی میدان جنگ میں نہ جائے اور اسے تنہا نہ چھوڑے حنظلہ اپنے آنسو پونچھ کر کہنے لگے اے میری مہربان بیوی _ میں بھی تجھے دوست رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تیرے ساتھ اچھی زندگی بسر کروں لیکن تجھے معلوم ہے کہ پیغمبر (ص) اسلام نے کل جہاد کا اعلان کیا تھا پیغمبر (ص) کے حکم کی اطاعت واجب ہے اور اسلامی مملکت کا دفاع ہر ایک مسلمان کا فرض ہے _ اسلام کے محافظ اور پاسدار اب میدان جنگ میں صبح کے انتظار میں قبلہ رخ بیٹھے ہیں تا کہ نماز ادا کریں اور دشمن پرحملہ کردیں میں بھی ان کی مدد کے لئے جلدی جانا چاہتا ہوں اے مہربان بیوی

۱۳۳

میں امید کرتا ہوں کہ مسلمان فتح اور نصرت سے لوٹیں گے اور آزادی و عزت کی زندگی بسر کریں گے اگر میں ماراگیا تو میں اپنی امیدوار آرزو کو پہنچا اور تجھے خدا کے سپرد کرتا ہوں کہ وہ بہترین دوست اور یاور ہے _ دولہا اور دلہن نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور دونوں کے پاک آنسو آپس میں ملے اور وہ ایک دوسرے سے جد ا ہوگئے _ حنظلہ نے جنگی آلات اٹھائے اور میدان احد کی طرف روانہ ہوے وہ تنہا تیزی کے ساتھ کھجوروں کے درختوں اور پتھروں سے گذرتے ہوے عین جنگ کے عروج کے وقت اپنے بھائیوں سے جاملے _ امیر لشکر کے حکم کے مطابق جو ذمہ داری ان کے سپرد ہوئی اسے قبول کیا اور دشمن کی فوج پر حملہ آور ہوئے باوجودیکہ وہ تھکے ہوئے دشمن پر سخت حملہ کیا _ چابکدستی اور پھر تی سے تلوار کا وار کرتے اور کڑکتے ہوئے بادل کی طرح حملہ آور ہوتے اور دشمنوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے دشمن کے بہت سے آدمیوں کو جنہم واصل کیا اور بالآخر تھک کر گرگئے اور زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ میں فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں کو حنظلہ کے جسم پاک کو آسمان کی طرف لے جارہے ہیں اور غسل دے رہے ہیں _ یہ خبر اس کی بیوی کو مدینہ پہنچی

سوالات

۱_ پیغمبر اسلام نے کس جنگ کے لئے اعلان جہاد کیا ؟

۲_ پیغمبر کے اعلان جہاد کے بعد اسلام کے پاسدار کس طرح آمادہ ہوگئے ؟

۳_ حنظلہ پریشانی کی حالت میں پیغمبر (ص) (ص) کی خدمت میں کیوں حاضر ہوئے اور کیا کہا؟

۱۳۴

حنظلہ عروسی کی رات اپنے آپ سے کیا کہا رہے تھے اور ان کے ذہن میں کیسے سوالات آرہے تھے؟

۵_ دلہن نے خواب میں کیا دیکھا؟

۶_ حنظلہ نے چلتے وقت اپنی بیوی سے کیا کہا؟

۷_ حنظلہ کی بیوی نے حنظلہ سے کیا خواہش ظاہر کی؟

۸_ پیغمبر (ص) اسلام نے حنظلہ کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۵

چھٹا حصّہ

اخلاق و آداب

۱۳۶

پہلا سبق

والدین سے نیکی کرو

ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ میرا لڑکا اسماعیل مجھ سے بہت اچھائی سے پیش آتا ہے وہ مطیع اور فرمانبردار لڑکا ہے _ ایسا کام کبھی نہیں کرتا جو مجھے گراں گذرے _ اپنے کاموں کو اچھی طرح انجام دیتا ہے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اس سے پہلے بھی اسماعیل کو دوست رکھتا تھا لیکن اب اس سے بھی زیادہ دوست رکھتا ہوں کیونکہ اب یہ معلوم ہوگیا کہ وہ ماں باپ سے اچھا سلوک روارکھتا ہے ہمارے پیغمبر(ص) ان اچھے بچوں سے جو ماں باپ سے بھلائی کرتے تھے _ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے

'' خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے ''

'' اپنے ماں باپ سے نیکی کرو''

سوالات

۱_ امام جعفر صاد ق (ع) نے اسماعیل کے باپ سے کیا کہا؟

۲_ اسماعیل کا عمل کیسا تھا؟

۳_ گھر میں تمہارا عمل کیسا ہے کن کاموں میں تم اپنے ماں باپ کی مدد کرتے ہو؟

۱۳۷

دوسرا سبق

استاد کا مرتبہ

ہمارے پیغمبر حضرت محمدمصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں لوگوں کامعلّم اور استاد ہوں _ او ر انکو دینداری کا درس دیتا ہوں _

حضرت علی (ع) نے فرمایا : کہ باپ اور استاد کے احترام کے لئے کھڑے ہوجاؤ _

چوتھے امام حضرت سجاد (ع) نے فرمایا ہے : استاد کے شاگرد پر بہت سے حقوق ہیں : پہلا حق شاگرد کو استاد کا زیادہ احترام کرنا _ دوسرا : اچھی باتوں کی طرف متوجہ ہونا _ تیسرا : اپنی نگاہ ہمیشہ استاد پر رکھنا _ چوتھا : درس یاد رکھنے کے لئے اپنے حواس جمع رکھنا _ پانچواں : کلاس میں اس کے درس کی قدر اور شکریہ ادا کرنا _

ہم آپ (ع) کے اس فرمان کی پیروی کرتے ہیں _ اور اپنے استاد کو دوست رکھتے ہیں اور انکا احترام کرتے ہیں _ اور جانتے ہیں کہ وہ ماں باپ کی طرح ہم پر بہت زیادہ حق رکھتے ہیں _

سوالات

۱_ لکھنا پڑھنا کس نے تمہیں سکھلایا؟

۲_ جن چیزوں کو تم نہیں جانتے کس سے یاد کرتے ہو؟

۳_ انسانوں کے بزرگ ترین استاد کوں ہیں؟

۴_ ہمارے پہلے امام (ع) نے باپ اور استاد کے حق میں کیا فرمایا؟

۵_ ہمارے چوتھے امام(ع) نے استاد کے حقوق کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۸

تیسرا سبق

اسلام میں مساوات

ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ (ع) ایک دستر خوان پر اپنے خادموں اور سیاہ غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے میں نے کہا: کاش: آپ (ع) خادموں اور غلاموں کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاتے _ مناسب نہیں کہ آپ (ع) ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں _ امام رضا علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا_ چپ رہو میں کیوں ان کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاؤں؟ ہمارا خدا ایک ہے ہم سب کے باپ حضرت آدم علیہ السلام اور ہم سب کی ماں حضرت حوّا ، علیہا السلام ہیں _ ہر ایک کی اچھائی اور برائی اور جزا اس کے کام کی وجہ سے ہوتی ہے _ جب میں ان سیاہ غلاموں اور خادموں کے ساتھ کوئی فرق روا نہیں رکھتا توان کیلئے علیحدہ دستر خواہ کیوں بچھاؤں

سوالات

۱_ امام رضا علیہ السلام کن لوگوں کے ساتھ کھا ناکھارہے تھے ؟

۲_ اس آدمی نے امام رضا علیہ السلام سے کیا کہا؟

۳_ امام رضا علیہ السلام نے اسے کیا جواب دیا ؟

۴_ تم کس سے کہوگے کہ چپ رہو اور کیوں؟

۵_ ہر ایک کی اچھائی اور برائی کا تعلق کس چیز سے ہے ؟

۶_ امام رضا علیہ السلام کے اس کردار کی کس طرح پیروی کریں گے ؟

۱۳۹

چوتھا سبق

بوڑھوں کی مدد

ایک دن امام موسی کاظم (ع) مسجد میں مناجات اورعبادت میں مشغول تھے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا کہ جس کا عصا گم ہوچکا تھا جس کی وجہ وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھ سکتا تھا آپ(ع) کا دل اس مرد کی حالت پر مغموم ہوا با وجودیکہ آپ (ع) عبادت میں مشغول تھے لیکن اس کے عصا کو اٹھا کر اس بوڑھے آدمی کے ہاتھ میں دیا اور اس کے بعد عبادت میں مشغول ہوگئے _ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ زیادہ عمر والوں اور بوڑھوں کا احترام کرو _ آپ (ع) فرماتے ہیں : کہ بوڑھوں کا احترام کرو جس نے ان کا احترام کیا ہوگیا اس نے خدا کا احترام کیا _

سوالات

۱_ بوڑھا آدمی اپنی جگہ سے کیوں نہیں اٹھ سکتا تھا؟

۲_ امام موسی کاظم (ع) نے اس بوڑھے آدمی کی کس طرح مدد کی ؟

۳_ پیغمبر (ص) بوڑھوں کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟

۴_ کیا تم نے کبھی کسی بوڑھے مرد یا عورت کی مدد کی ہے ؟

۵_ بوڑھوں کے احترام سے کس کا احترام ہوتا ہے ؟

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156