‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) 25%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 156

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 156 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 90311 / ڈاؤنلوڈ: 4351
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

اس کے علاوہ کتاب بخاری ، شرح فتح الباری '' کتاب الاعتصام بالکتاب و السنة ' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی فرمائش :

لتتبعن سنن من کان قبلکم '' (١٧ ٦٣ ۔ ٦٤)

٥۔ کنز ل العمال '' ( ١٢٣١١)

حدیث ابو ہریرہ :

١۔ '' فتح الباری '' در شرح صحیح بخاری ( ٦٣١٧)

٢۔ '' سنن '' ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ٣٩٩٤۔

٣۔ '' مسند '' احمد بن حنبل (٢ ٣٢٧ ، ٣٦٧، ٤٥٠، ٥١١، ٥٢٧)

٤۔ کنز العمال (١١ ١٢٣)

ابو واقد لیثی کی حدیث:

١۔'' سنن'' ترمذی ( ٩ ٢٧ ۔٢٨)

٢۔ '' مسند '' طیالسی ، حدیث نمبر ١٣٤٦۔

٣۔ '' مسند '' احمد ( ٥ ٢١٨)

٤۔ '' کنز ل العمال '' ( ١٢٣١١) باب ( الاقوال من کتاب الفتن)

عبدا للہ بن عمرو کی حدیث :

١۔ '' سنن'' ترمذی ( ١٠ ١٠٩) ابواب الایمان۔

٢۔ '' در المنثور '' سیوطی ( ٤ ٦٢) تفسیر آیۂ ' ' وَلَا تَکُونوا کَالَّذِین تَفَرَّقُوا '' آل عمران مستدرک حاکم کے مطابق ۔

۶۱

ابن عباس کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٧ ٢٦١) بزاز اور حاکم سے روایت کی ہے۔

٢۔ '' کنزل العمال '' ( ١١ ١٢٣) مستدرک حاکم سے نقل کیا ہے۔

سہل بن سعد کی حدیث :

١۔ '' مسند'' احمد بن حنبل ( ٥ ٢٤٠)

٢۔ '' مجمع الزوائد'' (٧ ٢٦١) طبرانی سے نقل کرکے۔

عبد اللہ مسعود کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٢٦١٧) طبرانی سے نقل کرکے۔

مستورد کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٧ ٢٦١)

٢۔ کنز ل العمال ( ١١ ١٢٣) طبرانی کی '' اوسط '' سے نقل کرکے ۔

شداد بن اوس کی حدیث:

١۔ '' مسند '' احمد ( ٤ ١٢٥)

٢۔ '' مجمع الزوائد '' ( ٧ ٢٦١)

٣۔ قاموس الکتاب المقدس '' تالیف: مسٹر ماکس ، امریکی ، طبع امریکی مطبع، بیروت١٩٢٨ ئ

٤۔ '' توریت'' ، طبع ، امریکی مطبع، بیروت ، ١٩٠٧ ء

۶۲

آیۂ رجم کے بارے میں عمر کی روایت :

١۔ '' صحیح '' بخاری ( ٤ ١٢٠) کتاب حدود۔

٢۔ '' صحیح'' مسلم ( ٥ ١١٦)

٣۔ '' سنن '' ابی داؤد ( ٢ ٢٢٩) باب رجم ، کتاب حدود۔

٤۔ '' صحیح '' ترمذی ( ٢٠٤٦)باب '' ما جاء فی تحقیق الرجم '' کتاب حدود

٥۔'' سنن '' ابن ماجہ ، باب رجم ، کتاب حدود، نمبر: ٢٥٥٣

٦۔ '' سنن'' دارمی( ٢ ١٧٩) باب حد زنائے محصنہ ، کتاب حدود۔

٧۔ ''موطاء مالک'' ( ٣ ٤٢) کتاب حدود۔

٨۔ '' مسند'' احمد ( ١ ٤٠) : ٢٧٦،نمبر ( ١ ٤٧) ٣٣١ ، نمبر : (٥٥١)٣٩١' نمبر

بناوٹی آیت لا تَرغبُو عَنْ آبَائِکُمْ کی روایت:

١۔ '' مسند'' احمد ( ١ ٤٧) نمبر: ٣٣١

٢۔ ''مسند '' احمد (٥٥١) نمبر ٣٩١

'' دس مرتبہ دودھ پلانے '' کے بارے میں عائشہ کی روایت :

١۔'' صحیح'' مسلم (٤ ١٦٧) باب '' التحریم بخمس رضعات '' کتاب رضاع

٢۔ '' سنن'' ابی داؤد ١ ٢٧٩ ) باب '' ھل یحرم ما دون خمس رضعات؟'' کتاب نکاح

٣۔ '' سنن '' نسائی ( ٢ ٨٢) باب '' القدر الذی یحرم من الرضاعة '' کتاب نکاح سے ۔

٤۔ سنن ابن ماجہ ( ١ ٦٢٦ ) باب '' رضاع الکبیر '' کتاب نکاح ، نمبر ١٩٤٤۔

٥۔ سنن دارمی ( ١ ١٥٧) باب '' کم رضعة ترحم '' کتاب نکاح

٦۔ '' موطأ '' مالک ( ٢ ١١٨) باب '' جامع ما جاء فی الرضاعة '' کتاب نکاح

دو خیالی سورتوں کے بارے میں ابو موسیٰ کی روایت

١۔'' صحیح '' مسلم ( ٣ ١٠٠) باب '' لو ان لابن آدم '' کتاب زکات۔

٣۔ '' حلیہ'' ابو نعیم ، '' ابو موسی'' کے حالات کی تشریح میں ۔

۶۳

دوسرا حصہ

سیف بن عمر تمیمی کا تحفہ

*سیف کے جعلی اصحاب کا ایک اور گروہ۔

*رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے نمائندے

*رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارندے

*پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند ایلچی

*ہم نام اصحاب

*گروہ انصار سے چند اصحاب

۶۴

سیف کے جعلی اصحاب کا ایک اور گروہ

ہم نے اس کتاب کی پہلی اور دوسری جلد کو سیف کے قبیلۂ تمیم سے جعل کئے گئے اصحاب اور ان کے بارے میں خیالی عظمت و افتخارات کیلئے مخصوص کیا ، اور اس کے افسانوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیف کی نظر میں پوری دنیا قبیلۂ تمیم میں خلاصہ ہوتی ہے ۔ کیونکہ سیف کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ صرف اسی خاندان کے افراد تھے جنہوں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرد جمع ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت اور اطاعت کا شرف حاصل کیا ہے۔ حد یہ ہے کہ سیف کے خیال میں رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پروردہ ، گماشتے اور کارندے ، نمائندے اور ایلچی بھی قبیلۂ تمیم سے تعلق رکھتے تھے !

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد بھی اسی قبیلہ کی معروف شخصیتیں تھیں جنہوں نے سقیفۂ بنی ساعدہ کی میٹینگ میں شریک ہوکر ، ابو بکر کی بیعت کی اور اس سلسلے میں اپنے نظریات پیش کئے !!

ارتداد کی جنگوں میں بھی ، تمیمیوں کی ایک جماعت دین سے منحرف ہوکر مرتد ہو گئی تھی۔ اورانہوں نے اپنے عقائدکے دفاع میں سخت جنگ کرکے اپنی پائیداری کا ثبوت دیا ہے ۔

اور اس خاندان کے ان لوگوں نے بھی اپنے ایمان و عقیدہ کے دفاع میں مجاہدانہ طور پر تلوار کھینچ کر شجاعت کے جوہر دکھائے ہیں ، جو اسلام پر باقی اور پائندہ رہے تھے۔

اسی قبیلۂ تمیم کے افراد تھے ، جنہوں نے جنگوں اور لشکر کشیوں میں سپہ سالاری کے عہدے سنبھال کر میدان کارزار میں شجاعت ، بہادری اور دلاوریوں کے جوہر دکھائے ہیں اور کافی رجز خوانیاں کی ہیں ۔

خلاصہ کے طور پر یہ تمیمی ہی تھے جنہوں نے رزم و بزم کے تمام میدانوں میں دوسروں پر سبقت حاصل کرکے پہلا مقام حاصل کیا ہے :

٭پہلا شخص جس نے راہ خدا میں مکہ میں شہادت پائی تمیمی تھا۔

٭پہلا شہسوار جس نے جنگ اور کشور گشائی کیلئے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا اسی قبیلہ سے تھا ۔

٭پہلا شخص اور دلاور جس نے دمشق کے قلعہ کی سر بفلک دیوار پر کمند ڈالکر اوپر چڑھنے کے بعد اسے فتح کیا ، ایک تمیمی سردار تھا۔

٭پہلا شخص جس نے سرزمیں '' رہا '' پر قدم رکھا انہی میں سے تھا۔

٭پہلا بہادر جس نے گھوڑے پر سوار ہوکر دریائے دجلہ کو عبور کرکے اسلامی فوج کے حوصلے بلند کئے تا کہ اس کی اطاعت کریں ، تمیمی تھا ۔

۶۵

٭پہلا سورما جو فاتح کی حیثیت سے مدائن میں داخل ہوا انہی میں سے تھا ۔

٭پہلا بہادر جو کسی خوف و وحشت کے بغیر جلولا کی جنگ میں دشمن کے مورچوں پر حملہ کرکے انھیں شکست دینے میں کامیاب ہوا، تمیمی تھا۔

''ارماث ، اغواث و عماس '' کے خونین دنوں کو خلق کرنے والے یہی ہیں ۔ یہی ہیں جنہوں نے اس وقت کے دنیا کے پادشاہوں ، جیسے کسریٰ ، ہرمز ، قباد ، فیروز، ہراکلیوس ، چین کے خاقان ، ہندوستان کے پادشاہ داہر ، بہرام ، سیاوش ،نعمان اور دیگر عرب پادشاہوں کے جنگی ساز و سامان کو غنیمت کے طور پر حاصل کیا ہے ۔

انہوں نے ہی علاقوں اور شہروں پر حکومت اور فوجی کیمپوں اور چھاؤنیوں کی کمانڈ سنبھالی ہے

عمر کے قاتل کو موت کی سزا دینے والے بھی یہی ہیں ۔

خلافتِ عثمان کے دوران کوفیوں کی بغاوت کو کچلنے والے بھی یہی ہیں ۔

یہی تھے جو عثمان کی مدد کیلئے دوڑپڑے۔

انہوں نے ہی جنگِ جمل میں امیر المؤمنین علی اور عائشہ ، طلحہ و زیبر کے درمیان صلح کرنے کی کوشش کی ۔

جنگِ جمل میں عام معافی کا اعلان کرکے جنگ کے شعلوں کو خاموش کرنے والا بھی انہی میں سے تھا ۔

جنگلی جانوروں نے جس سے فصیح زبان میں گفتگو کی ہے وہ ان ہی میں سے تھا ۔

جس کی زبان پر فرشتوں نے فارسی کے کلمات جاری کئے اور وہ ایک بڑی فتح کا سبب بنا ، ان ہی میں سے تھا۔

جی ہاں ! یہی خیالی خصوصیات سبب بنی ہیں کہ فرشتے اور جنات یک زبان ہوکر قبیلۂ تمیم کے فضائل اور افتخارات کے نغموں کو سیف کے خیالی راویوں کے کانوں تک پہنچائیں تا کہ وہ بھی اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے ان افسانوں کو سیف کے کان میں گنگنائیں ۔

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیاہے اسے بلکہ اور بھی بہت سی چیزیں ہم نے سیف کے تئیس (٢٣) جعلی اصحاب کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرنے کے دوران حاصل کی ہیں ۔

اب ہم اس جلد میں بھی خاندان تمیم سے متعلق سیف کے چھ جعلی اصحاب کے علاوہ دیگر عرب قبائل سے خلق کئے گئے سیف کے انیس جعلی اصحاب کے سلسلہ میں حسب ذیل مطالعہ اور بحث وتحقیق کریں گے :

۶۶

تیسرا حصہ: رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے نمائندے :

٢٤ ۔ عبدة بن قرط تمیمی عنبری ۔

٢٥۔ عبدا ﷲ بن حکیم ضبی

٢٦۔ حارث بن حکیم ضبی

٢٧۔ حلیس بن زید ضبی

٢٨۔ حر ، یا حارث بن حکیم خضرامہ ضبی

٢٩۔ کبیس بن ہوذہ ، سدوسی ۔

چوتھا حصہ : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارندے

٣٠۔ عبید بن صخر بن لوذان ، انصاری۔

٣١۔ صخر بن لوذان انصاری۔

٣٢ عکاشہ بن ثور ، الغوثی۔

٣٣۔ عبدا ﷲ بن ثور، الغوثی۔

٣٤۔ عبید اللہ بن ثور الغوثی

پانچواں حصہ : رسول خدا کے ایلچی اور کارندے

٣٥۔ وبرة بن یحنس خزاعی

٣٦۔ اقرع بن عبد اللہ ، حمیری۔

٣٧۔ جریر بن عبدا للہ حمیری ۔

٣٨۔ صلصل بن شرحبیل

٣٩۔ عمرو بن محجوب عامری

٤٠۔ عمرو بن خفاجی عامری

۶۷

٤١۔ عمر بن خفاجی عامری

٤٢۔ عوف ورکانی

٤٣۔ عویف ، زرقانی۔

٤٤۔ قحیف بن سلیک ،ہالکی۔

٤٥۔ عمر وبن حکیم ، قضاعی ، قینی۔

٤٦۔ امرؤ القیس ، از بنی عبدا للہ۔

چھٹا حصہ : ہم نام اصحاب

٤٧۔ خزیمة بن ثابت انصاری ( غیو از ذی شہادتین )

٤٨۔ سماک بن خرشہ ، انصاری ( غیر از ابی دجانہ )

ساتواں حصہ : گروہ انصار سے چند اصحاب

٤٩۔ ابو بصیرہ

٥٠۔ حاجب بن زید۔

٥١۔ سہل بن مالک

٥٢۔ سہل بن یربوع

٥٣۔ ام زُمل ، سلمیٰ بنت حضیفہ

۶۸

تیسرا حصہ :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے مختلف قبائل کے منتخب نمائندے

*٢٤ ۔ عبدة بن قرط تمیمی عنبری

*٢٥۔ عبدا ﷲ بن حکیم ضبی

*٢٦۔ حارث بن حکیم ضبی

*٢٧۔ حلیس بن زید ضبی

*٢٨۔حر، یا حارث بن خضرامہ ضبی

*٢٩۔کبیس بن ہوذہ ، سدوسی۔

۶۹

چوبیسواں جعلی صحابی عبدة بن قرط تمیمی

اس نام کا ابن حجر کی '' الاصابہ'' میں یوں تعارف ہوا ہے :

عبدة بن قرط، خباب بن حرث تمیمی عنبری کا پوتا ہے ۔ ابن شاہین نے سیف بن عمر سے نقل کرکے ، قیس بن سلیمان بن عبدہ عنبری سے اس نے اپنے باپ اور جد سے ، انہوں نے عبدة بن قرط سے ۔۔ جو بنی عنبر کے نمائندوں کے ساتھ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔۔ روایت کی ہے :

'' وردان '' اور '' حیدہ '' ، محزم بن مخرمہ بن قرط کے بیٹے نمائندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی ہے ۔

میں ۔۔ ابن حجر ۔۔ نے '' حیدہ '' کے حالات کی تشریح میں اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

ابن حجر نے اس سے قبل '' حیدہ '' کے حالات کی تشریح میں یوں لکھا ہے :

انشاء اللہ اس کے حالات کی تشریح حرف '' ع'' میں '' عبدہ '' کی تشریح کے دوران آئے گی ۔ یہ بھی کہدوں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں دعا کی ہے ۔

عبدہ کا خاندان اور اس کی داستان کا آغاز

سیف نے عبدہ کو ' عمرو بن تمیم '' کے خاندان ِبنی عنبر سے خلق کیا ہے ۔ اس کی داستان کے آغاز کو یوں جعل کیاہے کہ بنی عنبر کے نمائندوں کا ایک گروہ ، جس میں ' ' حیدہ'' اور '' وردان '' کے علاوہ عبدة بن قرط بھی تھا ، پیغمبر خدا کی خدمت میں پہنچے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' حیدہ '' اور '' وردان '' کے لئے مخصوص دعائے خیر کی ۔

۷۰

داستان کے مآخذ کی تحقیق

سیف کہتا ہے کہ مذکورہ داستان عبدة بن قرط نے اپنے بیٹے عبدہ سے اور اس نے اپنے بیٹے سلیمان سے اور سلیمان نے بھی اپنے بیٹے قیس سے بیان کی ہے ۔ جبکہ جس عبدة بن قرط کو ۔۔ سیف نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں قبیلے کے سفیر کے عنوان سے پہنچوایا ہے اس کا حقیقت میں کوئی وجود تھا اور نہ اس کے ان بیٹوں کا جن کی فہرست سیف نے مرتب کی ہے۔

بلکہ عبدة بن قرط نامی سیف کا صحابی۔ جسے اس نے نمایندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچایاہے ۔ اور اس کے بیٹے '' عبدہ ، سلیمان ، اور قیس'' سب کے سب سیف کی تخلیق ہیں ۔

روایت کی تحقیق

ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں ،جہاں '' اسود بن ربیعہ '' کے بارے میں گفتگو کی ہے ، تمیم کے نمائندوں کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے تاریخی حقائق بیان کئے ہیں اور واضح کیا ہے کہ سیف نے مذکورہ روایت میں کیوں اور کس طرح تحریف کی ہے !! یہاں پر اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ۔

یہ بھی ہم بتادیں کہ تمیم کے نمائندوں کے بارے میں سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں میں نہ تو عبدة بن قرط کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ہے اور نہ ہی اس کی روایت کے راویوں کے سلسلہ کا سراغ ملتا ہے ، کیونکہ یہ صرف سیف بن عمر ہے جس نے یہ داستان خلق کی ہے اور ابن حجرنے بھی اس پر اعتماد کرکے عبدة بن قرط کے نام کو حرف '' ع'' میں اپنی کتاب '' الاصابة '' میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلے درجے کے اصحاب میں درج کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

'' عبدة بن قرط '' کے حالات :

١۔الاصابتہ' ابن حجر' (٤٢٧٢) نمبر ٥٢٨٦ کے نیچے

۷۱

حیدہ کے حالات

١۔ الاصابة '' ابن حجر ، ( ٢ ٣٦٤)

بنی عنبر کا شجرۂ نسب :

١۔ '' جمہرۂ انساب '' ابن حزم ( ٢٠٨ ۔ ٢٠٩)

اقرع بن حابس اور قعقاع بن معبدکے حالات :

١۔ '' الاصابة'' ابن حجر اور اس کے علاوہ دیگر منابع میں بھی آئے ہیں ۔

۷۲

پچیسواں جعلی صحابی عبد اللہ بن حکیم ضبی

ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :

سیف بن عمر نے صعب بن عطیہ بن بلال بن ہلال سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے '' عبد الحارث بن حکیم '' سے روایت کی ہے کہ وہ ۔۔ عبد الحارث بن حکیم ۔۔ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے پوچھا :

تمہارا نام کیا ہے ؟

اس نے جواب دیا: عبدا لحارث بن حکیم

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: آج کے بعد تمہارا نام عبد اللہ ہوگا۔

اس کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے قبیلہ '' بنی ضبہ''کے صدقات جمع کرنے کے لئے ممور فرمایا:

ابو موسیٰ نے اس صحابی کو ابن مندہ سمجھ لیا ہے

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' الاصابة'' میں یوں بیان کیا ہے :

دار قطنی نے سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے صعب ابن عطیہ سے روایت کی ہے ...اور اسی مذکورہ داستان کونقل کیا ہے

اس صحابی کی زندگی کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے کتاب '' التجرید'' میں اس طرح درج کئے گئے ہیں :

سیف بن عمر کے ذریعہ نقل ہوا ہے کہ وہ ۔۔ عبد الحارث بن حکیم ۔۔ نمائندہ کی حیثیت سے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے۔

چھبیسواں جعلی صحابی حارث بن حکیم ضبی

ابن اثیر نے کتاب '' اسد الغابہ '' میں اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :

ابو موسیٰ کی کتاب میں آیا ہے ( اس کے بعد عبد الحارث کی وہی داستان اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں نمائندہ کے طور پر پہنچنے کا موضوع بیان کیا ہے !)

۷۳

کتاب ' ' الاصابة'' میں یوں آیا ہے :

ابن شاہین اور ابو موسیٰ دونوں نے سیف سے نقل کیا ہے ( یہاں پر عبدا لحارث کی وہی مذکورہ داستان بیان ہوئی ہے )

ذہبی بھی اپنی '' التجرید'' میں لکھتا ہے :

ناقابل اطمینان طریقے سے روایت کی گئی ہے کہ اس کا نام عبد الحارث تھا اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام بدل کر عبد اللہ رکھا ۔

ہم نے سیف کی گزشتہ روایت میں دیکھا کہ اس نے ایک نمائندہ کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کی خبر دی ہے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام عبد الحارث بن حکیم سے بدل کر '' عبداللہ بن حکیم '' رکھا ہے۔

لیکن دانشوروں نے سیف کے تخلیق کردہ اسی ایک آدمی کو دو آدمیوں میں تبدیل کرکے صحابی رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عنوان سے زندگی کے حالات پر الگ الگ روشنی ڈالی ہے۔

لیکن '' اسد الغابہ '' کے مطابق سیف نے دوسری روایت میں ان کی اس داستان کو '' عبدا للہ بن زید بن صفوان '' سے ٍمنسوب کیا ہے ۔ ابن اثیر لکھتا ہے :

دارقطنی نے سیف بن عمر سے اس نے صعب بن عطیہ سے ، اس نے بلال بن ابی بلال ضبی سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ عبد الحارث بن زید ضبی نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اس نے اپنا تعارف کرایا، اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں دعا کی ۔

یہ صحابی نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے کے بعد اسلام لایا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا:کہ

اس کے بعد تمہارا نام '' عبدا للہ '' ہوگا نہ عبد الحارث۔ اس نے جواب میں کہا :

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق پر ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا اچھا فرمایا ہے ۔ کیونکہ کسی بھی قسم کی پرہیز گاری اور تقویٰ تائید الٰہی کے بغیر میسر نہیں ہوتی اور کوئی بھی کام توفیق الٰہی کے بغیر ممکن نہیں ہے ، شائستہ ترین کام وہ ہے جس کی انجام دہی میں ثواب ہو اور جس چیز سے دوری اختیار کرنا چاہئے وہ ایسا کام ہے جس کے پیچھے عذاب الٰہی ہوتا ہے۔

اللہ جیسے خدا کو رکھتے ہوئے ہم خوش ہیں ، ہم اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں تاکہ اس کے اچھے اور خیر خواہانہ وعدوں سے استفادہ کرسکیں اور اس کے غضب اور عذاب سے امان میں رہیں !

عبد الحارث جو '' عبدا للہ '' بن چکا تھا اپنے قبیلے کی طرف لوٹا اور اس نے ہجرت نہیں کی۔

۷۴

اس مطلب کو ابو موسیٰ نے بھی ذکر کیا ہے

ابن حجر کی '' الاصابة'' میں بھی آیا ہے :

دار قطنی نے سیف بن عمر سے اس نے بلال بن ابی بلال سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )

مذکورہ روایت ابن کلبی کی '' جمہرہ '' میں یوں آئی ہے :

عبد الحارث بن زید... ( اس کا نسب بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے :)

وہ نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے نام کو بدل کر '' عبداللہ '' رکھا۔

ابن حزم نے بھی اپنی کتاب '' جمہرہ''' میں ان ہی مطالب کو بیان کیا ہے ۔

مذکورہ داستان کو ابن عبدا لبر نے '' استیعاب '' میں ، ابن اثیر نے '' اسدا لغابہ'' میں اور ابن حجر نے ''الاصابہ'' میں ابن کلبی ، محمد بن حبیب اور ابن ماکولا جیسے دانشوروں سے نقل کیا ہے۔

اس بناء پر اس روایت کی سند ابن کلبی پر ختم ہوتی ہے ۔ کیونکہ ابن حبیب ابن حزم اور ابن ماکولا سب کے سب ابن کلبی سے روایت کرنے والے تھے۔ اور چونکہ اس دانشور نے ٢٠٤ ھ میں وفات پائی ہے اور سیف کی کتاب '' فتوح'' بھی اس تاریخ سے آدھی صدی سے زیادہ پہلے لکھی جا چکی ہے ۔ لہذا یہ اطلاعات ہمیں یہ حق دیتے ہیں کہ ہم یہ کہیں کہ : ابن کلبی نے مذکورہ خبر کو سیف سے نقل کرکے اسے خلاصہ کیا ہے ۔

بہر حال ہم زید بن صفوان کو سیف کی تخلیق شمار نہیں کرتے ہیں ، کیونکہ ہمیں ابن کلبی کی کتاب '' جمہرہ'' نہیں ملی جس کے ذریعہ ہم اس کی خبر کی یقینی طور پر تائید کرتے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہی ایک شخص ۔۔۔ زید بن صفوان ۔۔ رجال کی تشریح میں لکھی گئی کتابوں میں حسب ذیل تین روپوں میں درج ہوا ہے :

۷۵

١۔ عبدا للہ بن حارث بن زید بن صفوان '' جو '' اسد الغابہ'' ، '' تجرید'' ، '' الاصابہ'' اور ابو موسی کے ذیل میں اسی نام سے آیا ہے۔

٢۔ '' عبد اللہ بن حارث بن زید بن صفوان '' جو '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ'' ، '' تجرید'' اور ابو موسیٰ ذیل میں اسی نام سے ذکر ہوا ہے۔

٣۔ ابن حجر کی '' الاصابہ'' میں عبدا للہ بن حارث کا دو شخصیتوں کے عنوان سے دوجگہ پر تعارف کیا گیا ہے ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے ہوئے نمائندہ '' عبدا للہ بن حارث'' کے نام میں تعدّد کا سر چشمہ شاید پہلی بار '' استیعاب '' میں واقع ہونے والی تحریف جس کے نتیجہ میں ابو موسیٰ ہے نے بھی غلطی کی ہے اور اپنی کتاب ذیل میں ایک بار '' عبد اللہ بن حارث بن زید '' دوسری بار '' عبد اللہ بن زید '' کی زندگی کے حالات لکھے ہیں اور اس کے بعد دانشوروں نے اس کی پیروی کی ہے۔

ابن حجر اس غلطی کے علاوہ ایک دوسری غلطی کا بھی مرتکب ہوا ہے اور '' عبد اللہ بن حارث بن زید''کی زندگی کے حالات پر دوبار' دو جگہوں پر اپنی کتاب میں روشنی ڈالی ہے۔ اس طرح ایک جعلی شخص تین روپوں میں نمودار ہوا ہے۔

ستائیسواں جعلی صحابی حلیس بن زید بن صفوان

اس صحابی کا ' ' اسد الغابہ '' میں یوں تعارف کیا گیا ہے :

ابو موسیٰ نے ابن شاہین سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ وہ حلیس بن زید بن صفوان اپنے بھائی ' ' حارث'' کی وفات کے بعد نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے سر پر دست شفقت پھیرنے کے بعدا س کے حق میں د عا فرمائی ہے ۔

حلیس نے اس ملاقات میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :

اگر مجھ پر کسی قسم کا ظلم ہوتو اس کی تلافی کیلئے اٹھتا ہوں تا کہ اپنا حق حاصل کرسکوں ۔

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا:

۷۶

شائستہ ترین کا م جسے انجام دیا جا سکتا ہے ، عفو و بخشش ہے ۔

حلیس نے کہا:

اگر کوئی حسد کرے گا تو اس سے زبردست مقابلہ کرکے تلافی کروں گا۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

کون ہے جو کرم کرنے والوں کے لطف و کرم کا برا جواب دے ؟! جو بھی لوگوں سے حسدکرتا ہے اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا اور اس کا دل آرام نہیں پاتا۔یہ مطالب ابو موسی نے بیان کئے ہیں ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )

کتاب '' اصابہ'' میں ہم یوں پڑھتے ہیں :

ابن شاہین نے اس کا نام لیا ہے اور سیف بن عمر سے نقل کرکے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر مندرجہ بالا داستان نقل کی گئی ہے )

لیکن کتاب '' تجرید'' میں اس صحابی '' حلیس بن زید '' ۔۔ کے تعارف اور زندگی کے حالات کے بارے میں حسب ذیل مطالب پر اکتفا کی گئی ہے :

غیر مطمئن طریقہ سے روایت ہوئی ہے کہ وہ ۔۔ حلیس ۔۔ نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے۔

اٹھائیسواں جعلی صحابی حر، یا حارث بن خضرامہ ، ضبی

'' اسدا لغابہ'' میں یوں ذکر ہوا ہے:

حارث بن خصرامہ ضبی ہلالی کے بارے میں '' حارث بن حکیم '' کے سلسلے میں بیان کئے گئے مآخذ کے مطابق آیا ہے کہ سیف بن عمر نے صعب بن ہلال ضبی اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

حر، پیغمبر خدا کی خدمت میں پہنچا ( تا آخر )

۷۷

حر بن خضرامہ ضبی یا ہلالی :

ابن حجر کی کتاب '' اصابہ'' میں حر کی داستان یوں درج ہوئی ہے :

ابن شاہین نے سیف سے نقل کرکے صعب بن ہلال ضبی سے اور اس نے اپنے باپ سے یوں روات کی ہے :

حر بن خضرامہ بنی عباس کا ہم پیمان تھا ۔ گوسفندوں کے ایک ریوڈ اور چند غلاموں کے ہمراہ مدینہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ایک کفن اور قدرے حنوط عنایت فرمایا ! اس کے بعد زیادہ وقت نہ گزرا کہ حر مدینہ میں فوت ہوگیا ۔ اس کے پسماندگان مدینہ آگئے ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے گوسفندوں کو انھیں لوٹا دیا اور حکم دیا کہ غلاموں کو مدینہ میں بیچ کر انکی قیمت انہیں دی جائے۔ابو موسی مدائنی نے دار قطنی سے ابن شاہین کے راوی سے روایت کی ہے کہ اس نے اس صحابی کے بارے میں کہا ہے : حارث بن خضرامہ ، ! اور خدا زیادہ جاننے والا ہے !

ضبّہ کا شجرۂ نسب

ضبی ، یہ ایک نسبتی لفظ ہے اور یہ نسبت تمیم کے چچا ''صنبتہ بن ادبن طابختہ بن الیاس بن مضر '' تک پہنچتیہے ۔

داستان کے مآخذ کی تحقیق:

علماء نے سیف کے اسنادحلیس کی داستان میں ذکر نہیں کئے ہیں ۔ لیکن باقی حدیث کو سیف کے ذریعہ ، صعب سے، بلال بن ابی بلال اور اس کے باپ سے نقل کیا ہے۔

یعنی حقیقت میں ایک بناوٹی راوی نے دوسرے جعلی اور خیالی راوی سے اور اس نے بھی ایک جعلی شخص سے نقلِ قول اور روایت کی ہے۔

ساتھ ہی سیف نے اپنے افسانوں میں سے ایک افسانہ کو اسی ماخذ کے ذریعہ اپنے جعلی صحابی تک ربط دیکر نقل کیا ہے ۔ ہم نے اس موضوع کے بارے میں ا پنی کتاب '' رواة مخلتقون'' میں اشارہ کیا ہے ۔

۷۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

سیف تنہا شخص ہے جس نے مذکورہ داستانوں کی روایت کی ہے ۔ جبکہ جن افراد نے انتہائی دقت اور احتیاط کے ساتھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں پہنچے وفود اورنمائندوں کے بارے میں تفصیلات لکھے ہیں ،ان میں سیف کے مذکورہ مطالب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابن سعد جیسے عالم نے اپنی کتاب ''طبقات'' میں سیف کی روایتوں پر کوئی توجہ نہیں کی ہے اور ان پر اعتماد بھی نہیں کیا ہے۔

بلاذری نے بھی ۔۔ اپنی کتاب ' ' انساب '' کے پہلے حصہ میں ، جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت سے مخصوص ہے ۔۔ سیف کی روایتوں پر کوئی اعتماد نہیں کیا ہے اور اسی طرح یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ میں سیف کی روایتوں پر بھروسہ نہیں کیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ '' عبدا للہ بن زید صفوان '' کے بارے میں نمائندگی کی روایت کو ہم نے ابن کلبی کے ہاں پایا ۔ مگر خود ابن کلبی نے اس روایت کو کہاں سے حاصل کیا ہے ، ہمیں اب تک اس کے مآخذ کا پتہ نہ مل سکا۔

خلاصہ :

سیف نے قبیلہ بنی ضبّہ کے چند افراد کے نمائندہ کے طور پر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کی داستان کو چار روایتوں میں بیان کیا ہے ۔علماء نے بھی دیگر صحابیوں کے ضمن میں ان کی زندگی کے حالات پر حسب ذیل روشنی ڈالی ہے :

١۔ سیف کی روایت کے پیش نظر '' عبد الحارث بن حکیم ضبی'' کی نمایندگی ، رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اس کا نام بدل کر '' عبدا للہ '' رکھنے اور اسے اپنے قبیلہ کے صدقات جمع کرنے کی ماموریت دینے کے مسئلہ کو علماء نے دو صحابیوں کے حق میں الگ الگ بیان کیا ہے :

الف : حارث بن حکیم ضبی

ب: عبد اللہ بن حکیم ضبی

اور اسی ترتیب سے مذکورہ دو صحابی پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی فہرست میں ثبت ہوئے ہیں ۔

۷۹

٢۔ سیف' عبد الحارث بن زید بن صفوان کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بعنوان نمایندہ پہنچنے کی روایت نقل کرکے مدعی ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام بدل کر '' عبد اللہ بن زید '' رکھا ہے ، اور نام بدلنے کے بعد یہ نیا عبد اللہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تعلیم و نصیحت کرنے پر اتر کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہتا ہے:

کوئی پرہیز گاری و تقویٰ خدا کی توفیق حفاظت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور کوئی بھی کام توفیق الٰہی کے بغیر انجام نہیں پاسکتا ۔ بہترین اور شائشتہ ترین کام جسے انجام دیا جاسکتا ہے وہ ہے جس میں ثواب ہو اور جس کام سے پرہیز کرنا چاہئے وہ ایسا کام ہے جس پر پروردگار غصہ اور غضب کرے

اس طرح یہ عبدا للہ بن زید صفوان ہے جو خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تعلیم اور درس دیتا ہیچہ جائے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے درس دیں !!!

اس کے علاوہ اس صحابی کی نمائندگی کی خبر ' اس کی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نصیحت اور تعلیم کے ذکر کے بغیر ہمیں ابن کلبی اور اس کی حدیث کے راویوں کے ہاں ملی ہے۔ چونکہ سیف زمانہ ابن کلبی سے پہلے ہے لہذا ہمیں یہ کہنے کا حق ہے کہ ابن کلبی نے بھی اس خبر کو سیف سے نقل کیا ہوگا!

ہم نے مشاہدہ کیا کہ یہی ایک شخص، اصحابِ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات لکھنے والوں کے ہاں تین روپوں میں ظاہر ہوا ہے !!!

٣۔ سیف بن عمر نے حلیس بن زید کی نمائندگی کا ذکر اس کے بھائی '' حارث بن زید '' کی وفات کے بعد کیا ہے اور اس امر کی تاکید کی ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے سر پر دستِ شفقت پھیر کہ اس کیلئے دعا کی پھر نصیحت کی ہے۔

علماء نے اسی روایت کے پیش نظر اور اسی پر اعتماد کرکے حلیس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اور حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔

٤۔ سیف نے حر یا حارث بن خضرامہ کی گوسفندوں کے ریوڑ اور چند غلاموں کے ہمراہ پیغمبر خدا کی خدمت میں نمائندگی کو بیان کیا ہے لیکن اتنی طاقت نہیں رکھتا تھا کہ اپنے اس نئے خلق کئے ہوئے صحابی کو صحیح و سالم اپنے وطن اور اہل و عیال کے پاس لوٹا دے ، بلکہ اس کے بر عکس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کیلئے کفن اور قدرے حنوط لے لیتا ہے اور اس مفلس کو وہیں پر مسافرت میں مار ڈالتا ہے اور وہیں پر اسے دفن کرتا ہے ! پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ایسی شخصیت کے مرنے کے بعد حکم دیتے ہیں کہ اس کے غلاموں کے بیچنے کے بعد ان کی قیمت اور گوسفندوں کے ریوڑ کو مرحوم کے پسماندگان کے حوالے کردیں ۔ اس طرح اسے اصحاب کی فہرست میں قرار دیکر اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

پانچواں سبق

حیوانات پر رحم کرو

ایک دن امام حسن علیہ السلام کھانا کھارہے تھے آپ(ع) کے سامنے ایک کتا کھڑا دیکھ رہا تھا _ امام حسن علیہ السلام ایک لقمہ اپنے منہ میں رکھتے اور دوسرا اس کتّے کے سامنے ڈال دیتے کتّا اسے کھاتا اور شکریہ ادا کرنے کے لئے اپنی دم ہلا تا او رغرغر کرتا پھر اپنا سر ادھر کرتا اور آپ (ص) کو دیکھنے لگتا _ امام حسن علیہ السلام پھر لقمہ اس کے سامنے ڈال دیتے ایک آدمی وہاں سے گذررہا تھا _ وہ آپ (ع) کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یہ اچھا نہیں کہ یہ کتّا آپ(ع) کے سامنے کھڑا ہے اور آپ کو آرام سے کھانا نہیں کھانے دیتا _ اگر آپ اجازت دیںتو میں اسے یہاں سے بھگا دوں _ امام حسن علیہ السلام نے فرمایا _ نہیں نہیں _ اس بے زبان حیوان کو خدا نے پیدا کیا ہے _ اور خدا اسے دوست رکھتا ہے یہ بھوکا ہے میں خدا سے ڈرتا ہوں کہ میں اسکی نعمت کھاؤں اور اس حیوان کو جو اسکی مخلوق ہے کچھ نہ دوں وہ بھوکا ہے اور مجھے دیکھ رہا ہے _

سوالات

۱_ امام حسن (ع) اس کتے کو کس طرح غذا دے رہے تھے؟

۲_ کیا تم نے کبھی کسی حیوان کو غذا دی ہے؟

۳_ وہ کتا کس طرح شکریہ ادا کررہا تھا؟

۴_ وہ آدمی کتے کو کیوں ہٹا نا چاہتا تھا؟

۱۴۱

چھٹا سبق

مزدور کی حمایت

چند آدمی امام صادق (ع) کے باغ میں کام کررہے تھے _ معاہدہ یہ تھا کہ وہ عصر تک کام کریں گے _ جب انکا کام ختم ہوچکا _ امام جعفر صادق (ع) نے خادم سے فرمایا کہ ان مزدوروں نے صبح سے عصر تک محنت کی ہے مزدوری حاصل کرنے کے لئے اور پسینہ بہایا ہے اپنی عزت کو محفوظ رکھنے کے لئے ان کی مزدوری میں تاخیر کرنا صحیح نہیں ہے _ جلدی کرو پسینہ خشک ہونے سے پہلے ان کی مزدوری ادا کرو_ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ: کام کرنے والے ک حق اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کیا کرو

سوالات

۱_ کاریگروں کا حق کس وقت دیا جائے؟

۲_ امام صادق (ع) نے مزدوروں کے متعلق کیا فرمایا ہے ؟

۳_ ہمارے عظیم پیغمبر(ص) نے کاری گروں کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۴_ کاریگری کس طرح حمایت کی جائے ؟

۱۴۲

ساتواں سبق

کھانا کھانے کے آداب

اسلام نے ہمیں زندگی بسر کرنے کے لئے ایک دستور دیا ہے کہ اگر ہم اس پر عمل کریں تو خوش بخت ہوجائیں گے یہاں تک کہ کھانے اور پینے کے آداب بھی ہمارے لئے بیان کئے ہیں _ اسلام کہتا ہے کہ :

۱_ کھانا کھانے سے پہلے پاک پانی سے اپنے ہاتھ دھوؤ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ تمہارے ہاتھ میلے ہوں اور ان میں جراثیم ہوں اور وہ تمہارے جسم میں داخل ہوجائیں اور وہ بیماری کا باعث بن جائیں _

۲_ کھانا اللہ کے نام سے شروع کرو اور بسم اللہ پڑھو

۳_ چوٹھے نوالے بناکر منہ میں ڈالو اور آہستہ چباؤ کیونکہ غذا جتنی چبائی جائے بہتر اور جلدی ہضم ہوتی ہے اور انسان کی سلامتی میں مددگار ہوتی ہے _

۴_ ہمیشہ اپنے سامنے والی غذا کھاؤ اور دوسروں کے سامنے کی غذا کی طرف ہاتھ نہ بڑھاؤ_

۵_ شکم سیر ہونے سے قبل کھانا کھانا چھوڑدو اور زیادہ نہ کھاؤ:

۶_ کھانا کھانے کے بعد اللہ کا شکر اداکرو_ یعنی کہو الحمد للہ رب العالمین_

۱۴۳

سوالات

۱_ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ کیوں دھوئیں ؟

۲_ کھانا کھانے سے قبل بسم اللہ کیوں پڑھیں؟

۳_ کھانا کھانے کے بعد خدا کا کیوں شکر کریں؟

۱۴۴

آٹھواں سبق

حفظان صحت کا ایک مہم دستور

ایک عیسائی طبیب نے امام صادق (ع) سے پوچھا کہ کیا آپ(ع) کے قرآن اور آپ(ع) کے پیغمبر (ص) کے دستور میں صحت کے متعلق کوئی چیز وارد ہوئی ہے _ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہاں _ قرآن کا ارشاد ہے کہ کھاؤ اور پیو لیکن کھانے پینے میں زیادہ جلدی نہ کرو اور ہمارے پیغمبر (ص) نے فرمایا ہے کہ : تمام بیماریوں کی جڑ زیادہ کھانا ہوتا ہے اور کم کھانا اور پرہیز کرنا ہر درد کی دوا ہے _ عیسائی طبیب اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا :

آپ (ع) کے قرآن نے کتنا بہتر اور کامل دستور صحت کیلئے پیش کیا ہے _

''خدا فرماتا ہے کھاؤ اور پیو لیکن اسراف نہ کرو''

سوالات

۱_ عیسائی طبیب نے امام جعفر صادق (ع) سے کیا پوچھا؟

۲_ امام جعفر صادق (ع) نے اس کا کیا جواب دیا ؟

۳_ حفظان صحت کا ایک ایسا دستور جو قرآن میں موجود ہے بیان کرو ؟

۴_ پیغمبر (ص) کا ایک دستور بھی بیان کرو؟

۵_ پیٹ بھر کے کھانے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے ؟

۶_ عیسائی طبیب نے امام جعفر صادق (ع) سے گفتگو کرنے کے بعد کیا کہا؟

۷_ امام جعفر صادق (ع) کے اس دستور کی ہم کیسے پیروی کریں؟

۱۴۵

نواں سبق

سلام محبت بڑھاتا ہے

ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی (ص) اپنے صحابہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے محو گفتگو تھے کہ ایک آدمی اجازت لئے بغیر آیا اور سلام بھی نہیں کیا _پیغمبر(ص) نے اس سے فرمایا کہ سلام کیوں نہیں کیا : اور کیوں اجازت نہیں لی؟ واپس جاؤ اور اجازت لے کر آؤ اور سلام کرو آپ (ص) نے سلام کرنے کے متعلق یہ بھی فرمایا ہے کہ : مسلمانو تم بہشت میں نہیں جاؤ گے جب تک ایک دوسرے سے نیکی سے پیش نہیں آؤگے اور اس وقت تک آپس میں مہربان نہیں بن سکتے ہو جب تک کہ ایک دوسرے کو دیکھ کر سلام نہ کرو_ ہمیشہ بلند آواز سے سلام کرو اور سلام کا جواب بھی بلند آواز سے دو _ جو شخص پہلے سلام کرتا ہے اللہ تعالی اسے زیادہ اور بہترین اجر عنایت فرماتا ہے اور اسے بہت دوست رکھتا ہے

''ہمیشہ پہلے سلام کرو اور پھر باتیں کرو''

۱۴۶

دسواں سبق

ایک باادب مسلمان بچہ

ناصر با ادب اور اچھا لڑکا ہے کوشش کرتا ہے کہ اسلامی آداب کو اچھی طرح سیکھے اوران پر عمل کرے وہ دوسروں کو گرم جوشی سے سلام کرتا ہے یعنی کہتا ہے السلام علیکم _ جو شخص اسے سلام کرتا ہے اسے خندہ پیشانی سے جواب دیتا ہے اور کہتا ہے و علیکم السلام جب بھی اپنے دوستوں کو دیکھتا ہے بہت خوش ہوتا ہے _ گرم جوشی سے مصافحہ کرتا ہے اور ان سے احوال پرسی کرتا ہے _ اور جب اس سے کوئی احوال پرسی کرتا ہے تو اس کے جواب میں کہتا ہے : الحمد للہ بخیر ہوں _ جب گھر آتا ہے ماں باپ اور تمام اہل خانہ کو سلام کرتا ہے اور جب گھر سے باہر جاتا ہے تو خدا حافظ کہتا ہے _ جو بھی اس سے نیکی کرتا ہے اس کا شکریہ ادا کرتا ہے یعنی کہتا ہے کہ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اگر ممکن ہوتا ہے تو اس کا بدلہ دیتا ہے _ جب کسی محفل میں جاتا ہے تو دلنشین آواز سے سلام کرتا ہے اور جہاں بھی جگہ ہوتی ہے بیٹھ جاتا ہے کسی کے سامنے نہ اپنی ناک صاف کرتا ہے اور نہ تھوکتا ہے _ دوسروں کے سامنے پاؤں پھیلاکر نہیں بیٹھتا _ دوسروں کی گفتگو کے درمیان بات کاٹ کر کلام نہیں کرتا زیادہ باتیں نہیں کرتا بغیر کسی وجہ کے دادو فریاد نہیں کرتا ہمیشہ آہستہ اور باادب بات کرتا ہے _ چھینکتے وقت ناک اور منہ کے آگے رومال رکھتا ہے اور اس کے بعد الحمد للہ کہتا ہے _ چونکہ ناصر کا کردار اچھا ہے لہذا خدا اسے دوست رکھتا ہے اور اسے نیک جزادے گا _ شریف اور نیک افراد اسے دوست رکھتے ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں _

۱۴۷

جواب دیجئے

۱_ پیغمبر اسلام (ص) نے اس مرد سے کیا فرمایا جو بغیر اجازت کے آیا تھا اور اس نے کون سی غلطی کی تھی؟

۲_ کس طرح سلا م کرنا چاہیے اور کس طرح جواب دینا چاہیئے ؟

۳_ تمہارے دوستوں میں سے کون سے پہلے سلام کرتا ہے ؟

۴_ جب تم کسی کمرے میں داخل ہونا چاہتے ہو تو کیا کرتے ہو؟

۵_ کس کو خدا زیادہ دوست رکھتا ہے اسے جو سلام کرتا ہے یا اسے جو جواب دیتا ہے ؟

۱۴۸

گیارہواں سبق

مال حرام

ایک دن ہمارے پیغمبر حضرت محمد (ص) مصطفی نے فرمایا کہ بعض لوگ دنیا میں بہت عجیب کام بجالاتے ہیں مثلاً نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں _ رات کو عبادت کرتے ہیں لیکن جب یہی لوگ قیامت کے دن حساب کے لئے حاضر ہوں گے توان کے یہ کام بالکل قبول نہیں ہوں گے اور ان کی ساری عبادت رائیگان اور باطل ہوگی اور اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوگا کہ انہیں ضرور جہنم میں ڈالا جائے _ لوگ اس حکم سے تعجب کریں گے _ سلمان فارسی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ (ص) یہ لوگ با وجودیکہ نماز پڑھتے رہے روزہ رکھتے رہے صدقہ دیتے رہے حج کرتے رہے پھر بھی جہنم میں جائیں گے ؟

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں اس عبادت کے باوجودیہ لوگ جہنم میں جائیں گے _ سلمان فارسی نے دوبارہ تعجب سے پوچھا کہ انہوں نے کون سا کام انجام دیا ہے کہ ان کے تمام نیک کام باطل ہوجائیں گے؟ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چونکہ یہ لوگ حرام مال کھانے سے پرہیز نہیں کرتے تھے اور حرام روزی کماتے تھے _ اسی وجہ سے خدا ان کی عبادت کو قبول نہیں کرے گا اور ضرور جنہم میں ڈالے گا _ جو شخص بھی حرام مل کھاتا ہے خداوند عالم اس کے اچھے کام اورعبادت کو قبول نہیں کرتا _

۱۴۹

جواب دیجئے

۱_ جو شخص چوری کرتا یا جو اکھیلتا ہے کیا خدا اس کے کاموں کو قبول کرے گے ؟

۲_ کون سے کام انسان عبادت کو باطل کردیتے ہیں؟

۳_ اگر مدرسہ میں کوئی قلم یا کاپی یا کوئی بھی چیز تمہیں ملے تو تم کیا کرو گے ؟

۴_ کوئی امانت تمہارے پاس ہے کیا بہتر نہیں کہ اسے اس کے مالک کو جلدواپس کردو_

۱۵۰

بارہواں سبق

کام کی بروقت انجام دہی

حمید معمول کے خلاف آج جلدی گھر آگیا تھا وہ بہت خوش تھا باپ نے اس سے پوچھا : حمید آج کیوں جلدی آگئے ہو؟ ہر روز تم دیر سے آتے تھے_ حمید نے کہا: ابا جان بس میں سوار ہونے والوں کی قطار بہت لمبی تھی مجھے کام تھا اور تھکا ہوا بھی تھا صبر نہیں کر سکتا تھا _ چالاکی سے قطار میںسب سے آگے جاکر کھڑا ہوگیا اور سب سے پہلے سوارہوگیا اور گھر آگیا _ اب میرے پاس بہت وقت ہے _ کھیل بھی سکتا ہوں اور مدرسہ کا کام بھی انجام دے سکتا ہوں _ باپ نے کہا بیٹے تم نے اچھا کام نہیں کیا : چونکہ دوسرے لڑکے بھی گھر جاکر کام کرنا چاہتے تھے اس لئے تمہیں اپنی باری پر بس میں سوار ہونا چاہیئے تھا اور اس شخص کی باری نہیں یعنی چاہیئےھی جو بھی قطار میں پہلے کھڑا ہوگیا _ اسے سب سے پہلے سوار ہونے کا حق ہوتا ہے _ تو نے اس کا حق ضائع کیا ہے _ حمید نے آہستہ سے کہا: میں صبر نہیں کرسکتا تھا _ چالاکی کی اور جلدی سوار ہوگیا _ انسان کو چالاک ہونا چاہیئے _ باپ نے حمید کی بات ان سنی کردی _ چند دن کے بعد روٹی لینے کے لئے روٹی والے کی دکان پر گیا_ وہاں بہت بھیڑنہ تھی صرف تھوڑے سے آدمی حمید سے پہلے کھڑے تھے ان میں سے ایک دو آدمیوں نے روٹی لی اور چلے گئے اور آدمی آئے اور کھڑے ہوگئے _ ہر ایک آتا سلام کرتا اور روٹی لے کر چلا جاتا _ دوسرا جاتااور کہتا اے روٹی بیچنے والے خوش رہو سلام ہو تم پر اور روٹی لیتا اور چلا جاتا _ کافی وقت گذرگیا _ سب آتے اورروٹی لیکر چلے جاتے

۱۵۱

لیکن حمید اور کئی دوسرے بچّے ابھی کھڑے تھے _ جتنا وہ کہتے کہ اب تو ہماری باری آگئی ہے کوئی بھی ان کی باتوں پر کان نہ دھرتا _ حمید غصّہ میں آگیا اور بلند آواز سے کہنے لگا: اے روٹی والے میری باری پہلے تھی وہ گذر گئی ہے _مجھے روٹی کیوں نہیں دیتے _ روٹی والا سامنے آیا اور سخت لہجے میں کہنے لگا: بچے کیوں شور مچاتے ہو _ تھوڑا صبر کرو ، تحمل رکھنا چاہیئے حمید پھر کھڑا رہا لیکن قریب تھا کہ رونا شروع کردے _ بالآخر بہت دیرکے بعد اس نے دور روٹیاں لیں اور گھر واپس لوٹا _ باپ گھر کے سامنے اس کا منتظر تھا پوچھا کہ کیوں دیر کی _ حمید نے رو کر کہا: سب آرہے تھے اور روٹی لیکر جارہے تھے لیکن میں کہتا رہا کہ اب میری باری ہے کسی نے میری بات نہ سنی _ باپ نے کہا : بہت اچھا: انہوں نے چالاکی سے تیری باری لے لی جیسی تم نے چالاکی کی تھی اور جلدی بس میں سوار ہوگئے تھے کیا تم نے خود نہیں کہا تھا کہ انسان کو چالاک ہونا چاہیئے _ لیکن اب تمہیں پتہ چلا کہ ایسا کام چالاکی نہیں ہے اب تم سمجھے کہ یہ کام ظلم ہے _ یہ دوسروں کے حق کو ضائع کرنا ہے بیٹا چالاکی یہ ہے کہ نہ تم کسی کی باری لو اور نہ کسی کو اپنی باری ظلم سے لینے دو _ ایک مسلمان انسان کو تمام حالات میں دوسروں کے حق اور باری کا خیال رکھنا چاہیئے پیارے حمید : دوسروں کے حق کا احترام کرو _ اگرتمہیں پسند نہیں ہے کہ دوسرے تمہاری باری لیں تو تم بھی کسی کی باری نہ لو _ جو بھی کسی کی باری لیتا ہے وہ ظلم ہے اور خدا ظالموں کا دشمن ہے او رانہیں سزادے گا _ حضرت امیر المؤمنین (ع) نے اپنے فرزند امام حسن (ع) سے فرمایا تھا: کہ بیٹا جو چیز اپنے لئے پسند کرتے ہو دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کرو اور جو چیز اپنے لئے پسند نہیں کرتے دوسروں کے لئے بھی پسند نہ کرو _

۱۵۲

جواب دیجئے

_ آپ بھی اس واقعہ کے متعلق کچھ لکھ سکتے ہیں ، شاید یہ واقعہ کبھی تمہیں بھی پیش آیا ہو

_ اس واقعہ کی وضاحت کیجئے اور باری کی رعایت کرنے کے فوائد بیان کیجئے _ اور اس کی رعایت نہ کرنے کے مضر اثرات کو بیان کیجئے _

۱۵۳

تیرہواں سبق

مہربان بہن اور پشیمان بھائی

زہرا بھی مدرسہ میں داخل ہوئی تھی _ سعید تیسرے درجہ میں پڑھتا تھا سعید کا سلوک گھر میں بالکل اچھا نہ تھا _ اور ہمیشہ اپنی بہن زہرا کے ساتھ لڑتا تھا _ سعید خود کہتا ہے کہ میں اپنی بہن سے حسد کیا کرتا تھا _ زہرا جب اسکول سے واپس آتی اور استاد سے حاصل کردہ اچھے نمبر ماں کو دکھاتی تو میں کڑھ جاتا اور اپنی بہن کی کاپی پھاڑ ڈالتا تھا اگر والد میرے اور زہرا کے لئے جوتے خریدتے تو بھی میرادل چاہتا کہ زہرا کے جوتے پر انے ہوں اور میرے نئے _ ایک دن والد نے میرے لئے جراب کا جوڑا خریدا اور زہرا کے لئے سرکاپھول _ مجھے یادہے کہ میں نے اس قدر شور مچایا ، رویا اور دل گیر ہوا کہ بیمار پڑگیا _ میں یہی کہتا تھا کہ میں بھی سرکاپھول چاہتا ہوں _ ماں نے مجھے بہت سمجھایا کہ یہ پھول تمہارے لئے مناسب نہیں مگر میں نے ایک نے سنی اور رونے لگا _ آخر زہرا نے مجھے وہ پھول دے دیا اور کہا پیارے سعید مت روؤ آؤ اور یہ پھول لے لو _ سب سوگئے لیکن مجھے ناراضگی کی وجہ سے نیند نہیں آرہی تھی _ آہستہ آہستہ اٹھا مطالعہ کے لئے چراغ جلایا_ کتاب کو ہاتھ میں لیا اور ورق الٹنے لگا _ کتاب میں ایک جگہ لکھا تھا : کہ حاسد انسان اس دنیا میں بھی رنج و غم مبتلا رہتا ہے اور آخرت میں بھی عذاب میں مبتلا ہوگا حاسد اپنا بھی نقصان کرتا ہے اور دوسروں کا بھی نقصان کرتا ہے _ جب بچے بہت چھوٹے ہوں تو ممکن ہے کہ وہ حسد کریں لیکن جب بڑے ہوجاتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ مہربانی خیر خواہی بہت ہی مفید ہے _ میں نے تھوڑی دیر

۱۵۴

سوچا اور اپنے کئے پر شرمندہ ہوا اوررونا شروع کردیا _ رونے کی آواز سن کر زہرا بیدار ہوگئی _ وہ میرے سرہانے آئی اور کہا : پیارے سعید کیوں روتے ہو _ میرے آنسو پونچھنے لگی _ میری پیشانی پر بوسہ دیا میرے لئے پانی لائی اور کہا بھیا کیوں روتے ہوکیا تکلیف ہے؟ کل ماں کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس لے جائیں گے _ زہرا کو علم نہ تھا کہ مجھے حسد اور دل گیری نے بیمار کررکھا ہے _

صبح مدرسہ گیا تمام دن سست رہا اور فکرمند رہا _ عصر کے وقت جب مدرسہ سے لوٹ رہا تھا تو ایک سفید بٹوا اور سرکاپھول زہرا کے لئے خریدا اور اسے بطور تحفہ دیا _ ماں بہت خوش ہوئی _ اس دن سے میری حالت بالکل ٹھیک ہے پہلے میرا چہرہ زرداور مرجھایا ہوارہتا تھا _ اب سرخ اور سفید ہوگیا _ اب میں اور زہرا آپس میں بہت مہربان تھے اور بڑی خوشی محسوس کرتے تھے _

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حاسد ہمیشہ غمناک اور غمگین رہتا ہے

جواب دیجئے

۱_ حسد کسے کہتے ہیں؟

۲_ کیا حسد بری عادت ہے اور کیوں ؟

۳_ حاسد انسان کیوں رنج میں مبتلا ہوتا ہے ؟

۴_ جو شخص حسد کی وجہ سے رنج میں ہو اس سے کیا سلوک کیا جائے زہرا کا سلوک سعید کے ساتھ کیسا تھا؟

۵_ حسد کی بیماری میں مبتلا ہونا چاہیئےو کون سے کام انجام دیں ؟

۶_ سعید نے کیا کیا کہ وہ خوش ہوگئی؟

۷_ حضرت امیر المؤمنین (ع) نے حاسدوں کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۱۵۵

فہرست

عرض ناشر ۴

پیش لفظ ۶

پہلا حصّہ ۹

خداشناسی ۹

پہلا سبق ۱۰

۱ مچھلی ۱۰

دوسرا سبق ۱۱

پانی میں مچھلی کا دم کیوں نہیں گھٹتا ۱۱

کون مچھلی کیلئے فکرکررہا تھا ۱۱

سوالات ۱۲

درج ذیل جملے مکمل کیجئے ۱۲

تیسرا سبق ۱۳

۳ داؤد اور سعید سیر کو گئے ۱۳

بطخوں کے پر کیوں نہیں بھیگتے ۱۳

خوبصورت بطخوں کو خدا نے پیدا کیا ہے ۱۴

سوالات ۱۴

یہ جملے مکمل کیجئے ۱۵

چوتھاسبق ۱۶

۴ خوبصورت نو مولود بچہ ۱۶

سوچ کران سوالوں کا جواب دیجئے ۱۸

پانچو سبق ۱۹

۵ چروا ہے نے درس دیا ۱۹

سوچ کر جواب دیجئے ۲۰

چھٹا سبق ۲۱

۶ہوشیار لڑکا ۲۱

سوالات ۲۲

ساتواں سبق ۲۴

۷ اس کی نعمتیں ۲۴

مہربان خدا ۲۴

سوالات ۲۵

ان جملوں کو مکمل کیجئے ۲۶

آٹھواں سبق ۲۷

۸ اللہ کی نعمتیں ۲۷

سوالات ۲۷

مندرجہ ذیل جملوں کو مکمل کیجئے ۲۸

نواں سبق ۲۹

۹ علیم اور قادر خدا ۲۹

نظم و ترتیب ۳۰

دسواں سبق ۳۲

۱۰ میرا بہترین دوست ۳۲

دوسرا حصّہ ۳۳

معاد ''یعنی'' قیامت ۳۳

پہلا سبق ۳۴

بطخیں کب واپس لوٹیں گی ۳۴

سوالات ۳۴

ان جملوں کو مکمل کیجئے ۳۵

دوسرا سبق ۳۶

دو قسم کے لوگ ۳۶

تیسرا سبق ۳۷

معاد یا جہان آخرت ۳۷

سوالات ۳۷

ان جملوں کو مکمل کیجئے ۳۸

چوتھا سبق ۳۹

ردّ عمل ۳۹

پانچواں سبق ۴۰

آخرت کی زندگی ۴۰

آخرت میں ہم زندہ ہوجائیں گے ۴۰

سوچ کر جواب دیجئے ۴۱

چھٹا سبق ۴۲

آخرت میں بہتر مستقبل ۴۲

تیسرا حصّہ ۴۴

نبوت ۴۴

پہلا سبق ۴۵

اللہ نے پیغمبڑ بھیجے ہیں ۴۵

سوالات ۴۵

دوسرا سبق ۴۶

انسانوں کے معلّم ۴۶

سوچ کر جواب دیجئے ۴۶

تیسرا سبق ۴۸

خدا کے عظیم پیغمبر ابراہیم علیہ السلام ۴۸

سوچ کر جواب دیجئے ۴۹

چوتھا سبق ۵۰

لوگوں کا رہبر اور استاد ۵۰

سوچ کر جواب دیجئے ۵۰

پانچوان سبق ۵۲

پیغمبر لوگوں کے رہبر ہوتے ہیں ۵۲

چھٹا سبق ۵۳

اولوا لعزم پیغمبر ۵۳

سوالات ۵۴

ان جملوں کو مکمل کیجئے ۵۴

ساتواں سبق ۵۵

حضرت محمد مصطفے (ص) کا بچپن ۵۵

سوالات ۵۵

آٹھواں سبق ۵۶

آخری نبی حضرت محمد مصطفے (ص) ۵۶

پیغمبر اسلام کا بچپن ۵۷

جواب دیجئے ۵۷

نواں سبق ۵۸

پیغمبر (ص) کا بچوّں کے ساتھ سلوک ۵۸

سوالات: ۵۸

دسواں سبق ۵۹

امین ۵۹

جواب دیجئے ۶۱

گیارہواں سبق ۶۲

دین اسلام آسمانی ادیاں میں سب سے بہتر اور آخری دین ہے ۶۲

مسلمان کون ہے : ۶۳

بارہواں سبق ۶۴

قرآن اللہ کا پیغام ہے ۶۴

جواب دیجئے ۶۴

قرآن ۶۶

فارسی نظم ۶۶

تیرہواں سبق ۶۷

باغ جل گیا اور کیوں جلا؟ ۶۷

چودھواں سبق ۶۸

اصحاب فیل ۶۸

جواب دیجئے ۷۰

پندرہواں سبق ۷۱

دین کیا ہے؟ ۷۱

دین کیا ہے : ۷۱

دین دار کون ہے : ۷۲

سوالات ۷۲

سولہواں سبق ۷۳

دین اسلام بہترین زندگی کیلئے بہترین دین ہے ۷۳

دین اسلام کیا ہے؟ ۷۳

مسلمان کون ہے ؟ ۷۳

ہماری دینی کتاب کا کیا نام ہے ۷۴

سوالات ۷۴

یہ جملے مکمل کیجئے ۷۴

چوتھا حصّہ ۷۶

امامت ۷۶

پہلا سبق ۷۷

امام ۷۷

سوالات ۷۷

دوسرا سبق ۷۸

امام دین کا رہبر اور پیغمبر (ص) کا جانشین ہوتا ہے ۷۸

امام دین کا محافظ اور نگہبان ہوتا ہے ۷۸

تیسرا سبق ۷۹

بارہ امام ۷۹

پہلاسبق ۸۰

پہلے امام ۸۰

حضرت علی علیہ السلام ۸۰

جواب دیجئے ۸۱

دوسرا سبق ۸۲

یتیم نوازی ۸۲

سوالات ۸۳

یہ جملہ مکمل کیجئے ۸۳

تیسرا سبق ۸۴

حضرت علی (ع) بچون کو دوست رکھتے تھے ۸۴

سوالات ۸۴

چوتھا سبق ۸۵

کام او رسخاوت ۸۵

جواب دیجئے ۸۶

پہلا سبق ۸۸

دوسرے امام حضرت امام حسن علیہ السلام ۸۸

جواب دیجئے ۸۹

دوسرا سبق ۹۰

خوش اخلاقی درگذری ۹۰

جواب دیجئے ۹۱

تیسرا سبق ۹۲

امام حسن علیہ السلام کے مہمان ۹۲

سوالات ۹۲

پہلا سبق ۹۴

تیسرے امام حضرت امام حسین علیہ السلام ۹۴

دوسرا سبق ۹۵

آزادی اور شہادت ۹۵

سوالات ۹۷

تیسرا سبق ۹۸

دستگیری اور مدد کرنا ۹۸

جواب دیجئے ۹۹

پہلا سبق ۱۰۰

چوتھے امام حضرت امام زین العابدین (ع) ۱۰۰

جواب دیجئے ۱۰۱

دوسرا سبق ۱۰۲

اللہ سے راز و نیاز ۱۰۲

پہلا سبق ۱۰۴

پانچویں امام حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ۱۰۴

دوسرا سبق ۱۰۶

امام(ع) سے سیکھیں ۱۰۶

جواب دیجئے ۱۰۸

پہلا سبق ۱۰۹

چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق (ع) ۱۰۹

دوسرا سبق ۱۱۱

ذخیرہ اندوزی کی مذمّت ۱۱۱

جواب دیجئے ۱۱۲

پہلا سبق ۱۱۴

ساتویں امام حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ۱۱۴

دوسرا سبق ۱۱۵

ہدایت امام ۱۱۵

پانچواں حصّہ ۱۱۸

فروع دین ۱۱۸

پہلا سبق ۱۱۹

پاکیزگی ۱۱۹

سوالات ۱۱۹

دوسرا سبق ۱۲۰

ہمیشہ پاکیزہ رہیں ۱۲۰

تیسرا سبق ۱۲۱

وضوء ۱۲۱

چوتھا سبق: ۱۲۲

نماز پڑھیں ۱۲۲

سوالات ۱۲۲

پانچواں سبق ۱۲۳

نماز آخرت کیلئے بہترین توشہ ہے ۱۲۳

جواب دیجئے ۱۲۴

چھٹا سبق ۱۲۵

طریقہ نماز ۱۲۵

اوقات نماز ۱۲۸

یادرکھئے کہ ۱۲۸

ساتواں سبق ۱۲۹

نماز پر شکوہ _ نمازجمعہ ۱۲۹

سوالات ۱۳۰

آٹھواں سبق ۱۳۱

روزہ ۱۳۱

ان جملوں کو مکمل کیجئے ۱۳۱

نواں سبق ۱۳۲

ایک بے نظیر دولہا ۱۳۲

سوالات ۱۳۴

چھٹا حصّہ ۱۳۶

چھٹا حصّہ ۱۳۶

اخلاق و آداب ۱۳۶

پہلا سبق ۱۳۷

والدین سے نیکی کرو ۱۳۷

سوالات ۱۳۷

دوسرا سبق ۱۳۸

استاد کا مرتبہ ۱۳۸

سوالات ۱۳۸

تیسرا سبق ۱۳۹

اسلام میں مساوات ۱۳۹

سوالات ۱۳۹

چوتھا سبق ۱۴۰

بوڑھوں کی مدد ۱۴۰

سوالات ۱۴۰

پانچواں سبق ۱۴۱

حیوانات پر رحم کرو ۱۴۱

سوالات ۱۴۱

چھٹا سبق ۱۴۲

مزدور کی حمایت ۱۴۲

سوالات ۱۴۲

ساتواں سبق ۱۴۳

کھانا کھانے کے آداب ۱۴۳

سوالات ۱۴۴

آٹھواں سبق ۱۴۵

حفظان صحت کا ایک مہم دستور ۱۴۵

سوالات ۱۴۵

نواں سبق ۱۴۶

سلام محبت بڑھاتا ہے ۱۴۶

دسواں سبق ۱۴۷

ایک باادب مسلمان بچہ ۱۴۷

جواب دیجئے ۱۴۸

گیارہواں سبق ۱۴۹

مال حرام ۱۴۹

جواب دیجئے ۱۵۰

بارہواں سبق ۱۵۱

کام کی بروقت انجام دہی ۱۵۱

جواب دیجئے ۱۵۳

تیرہواں سبق ۱۵۴

مہربان بہن اور پشیمان بھائی ۱۵۴

جواب دیجئے ۱۵۵

فہرست ۱۵۶

۱۵۶