‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) 37%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 156

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 156 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92586 / ڈاؤنلوڈ: 4593
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : ‏تعلیم دین - ساده زبان میں-جلد اول

تالیف : آیة الله ابراهیم امینی

ترجمه :شیخ الجامعه مولانا الحاج اختر عباس صاحب

نظرثانی : حجة الاسلام مولانا نثار احمد صاحب

کتابت : جعفرخان سلطانپوری

ناشر : انصاریان پبلیکیشنز قم ایران

طبع : صدر قم

تعداد : سه هزار

تاریخ : ۱۴۱۴ ھ

۳

عرض ناشر

کتاب تعلیم دین سادہ زبان میں حوزہ علمیہ قم کی ایک بلند پایہ علمی شخصیت حضرت آیة اللہ ابراہیم امینی کی گران مایہ تالیفات میں سے ایک سلسلہ ''آموزش دین در زبان سادہ کا اردو ترجمہ ہے _

اس کتاب کو خصوصیت کے ساتھ بچوں اور نوجوانوں کے لئے تحریر کیا گیا ہے _ لیکن اس کے مطالب اعلی علمی پیمانہ کے حامل ہیں اس بناپر اعلی تعلیم یافتہ اور پختہ عمر کے افراد بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں _

بچوں اور جوانوں کی مختلف ذہنی سطحوں کے پیش نظر اس سلسلہ کتب کو چار جلدوں میں تیار کیا گیا ہے _ کتاب ہذا اس سلسلہ کتب کی چوتھی جلد کے ایک حصّہ پر مشتمل ہے جسے کتاب کی ضخامت کے پیش نظر علیحدہ شائع کیا جارہا ہے _

اس سلسلہ کتب کی امتیازی خصوصیات درج ذیل ہے _

_کتاب کے مضامین گوکہ اعلی مطالب پر مشتمل ہیں لیکن انھیں دل نشین پیرائے اور سادہ زبان میں پیش کیا گیا ہے تا کہ یہ بچّوں کے لئے قابل

۴

فہم اور دلچسپ ہوں _

_اصول عقائد کے بیان کے وقت فلسفیانہ موشگافیوں سے پرہیز کرتے ہوئے اتنا سادہ استدلالی طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ نو عمر طلبا اسے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں _

_مطالب و معانی کے بیان کے وقت یہ کوشش کی گئی ہے کہ پڑھنے والوں کی فطرت خداجوئی بیدار کی جائے تا کہ وہ از خود مطالب و مفاہیم سے آگاہ ہوکر انھیں دل کی گہرائیوں سے قبول کریں اور ان کا ایمان استوار پائیدار ہوجائے _

_ہماری درخواست پر حضرت حجة الاسلام و المسلمین شیخ الجامعہ الحاج مولانا اختر عباس صاحب قبلہ دام ظلہ نے ان چاروں کتابوں کا ترجمہ کیا _

ان کتابوں کا پہلا ایڈیشن پاکستان میں شائع ہواتھا اور اب اصل متن مؤلف محترم کی نظر ثانی کے بعد اور اردو ترجمہ حجة الاسلام جناب مولانا نثار احمد ہندی کی نظر ثانی اور بازنویسی کے بعد دوبارہ شائع کیا جارہاہے اپنی اس ناچیز سعی کو حضرت بقیة اللہ الاعظم امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں ہدیہ کرتا ہوں _

_ ہماری دلی آرزو ہے کہ قارئین گرامی کتاب سے متعلق اپنی آراء اور قیمتی مشوروں سے مطلع فرمائیں _

والسلام ناشر محمد تقی انصاریان

۵

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پیش لفظ

یہ کتاب جس کا نام تعلیم دین سادہ زبان میں رکھا گیا ہے '' آموزش دین '' نامی کتاب کا اردو ترجمہ ہے _ جو معارف اسلامی کے مبتدی طلبا کے لئے تدوین اور ترتیب دی گئی ہے _ اس کتاب کے پڑھنے سے اصول عقائد کے ایک کامل باب اور اخلاق و آداب اور احکام اسلامی کے ضروری حصّہ سے واقفیت حاصل کی جا سکتی ہے _ اس میں کسی استاد کی بھی ضرورت نہیں رہتی _ اس کتاب کو خود آموز بھی کہا جا سکتا ہے _ اگر چہ یہ کتاب سادہ زبان میں معارف اسلامی کے مبتدی طلبا کے لئے تدوین اور ترتیب دی گئی ہے لیکن اس کے مطالب بہت گہرے اور بلند پایہ ہیں کہ اس سے بڑے اور زیادہ استعداد رکھنے والے بھی مستفید ہوسکتے ہیں یہ کتاب چھ حصوں پر مشتمل ہے _

پہلا حصّہ خداشناسی _ دوسرا حصّہ معاد_ تیسرا حصّہ نبوت _ چوتھا حصّہ امامت پانچواں حصّہ احکام اور فروع دین اور چھٹا حصّہ اخلاق اور آداب کے بارے میں ہے اس کے ابتدائی حصّہ میں عقائد کا ایک پورا باب نہایت سادہ اور عام فہم ہے اور کچھ مطالب اخلاق و آداب اور ضروری احکام کے بارے میں ہیں_ اس کے حصّہ میں بھی اصول عقائد اور معارف اسلامی بیان کئے گئے ہیں لیکن طرز بیان ذرا

۶

اونچی سطح پر رکھا گیا ہے دیگر وہ اسلامی احکام اور اخلاق و آداب بھی بیان کئے گئے ہیں جن کا جاننا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے _ گویا اس کتاب کے دونوں حصوں کے مطالب ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں _ جیسے ایک بدن کے اعضاء اور جوارح ہر طرح ہم آہنگ اور جڑے ہوئے ہوتے ہیں _

اس کتاب میں مندرجہ ذیل امور کا لحاظ رکھا گیا ہے :

۱_ کتاب کے مطالب کو قصہ کے طور پر سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تا کہ تمام لوگوں کے لئے موجب توجہ اور عام فہم ہوں اور ان کے اذہان میں بہتر طریقے سے اثر انداز ہوکر ان کے ایمان کے لئے موجب تقویت نہیں _

۲_ عقائد کا بیان استدلالی طور سے کیا گیا ہے اور اس کے دلائل سادہ اور مضبوط طریقے سے اس طرح بیان کئے گئے ہیں کہ جسکو ہر چھوٹا اور بڑا سمجھ سکے _

۳_ اس میں فلسفیانہ اور علم کلام کے مشکل طرز کے دلائل سے اجتناب کیا گیا ہے _

۴_ اللہ تعالی اور اس کے صفات کے اثبات کے لئے قرآنی طرز استدلالی کو اپنا یا گیا ہے _ یعنی جہان عالم اور نفوس انسانیہ کے مطالعے کو محور بنایا گیا ہے کہ جسے در حقیقت برہان نظم اور پیدائشے جہان کی غرض کے مشاہدہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے _

۵_ مطالب کے بیان کرنے میں کوشش کی گئی ہے کہ پڑھنے والے کی جستجو اور خدا کی فطرت کو اجاگر کیا جائے تا کہ وہ ان مطالب کو سمجھ سکے اور اس کے اندر نور ایمان پیدا ہوجائے کہ اس قسم کا ایمان مضبوط اور مستحکم اور پائیدار ہوتا ہے _

۶_ اخلاق اور آداب کے بیان کرنے میں بھی یہی کوشش کی گئی ہے کہ پڑھنے

۷

والے کی اس فطرت کو بیدار کیا جائے جو اچھائی کی طرف میلان رکھتی ہے اور کمال کو حاصل کرنے کی خواہشمند ہوتی ہے تا کہ اچھے اور بری صفات کا خود مشاہدہ کرتے ہوئے تکمیل کے راستے کو پالے اور اس کو اپنائے

۷_ ہر سبق کے آخر میں اس سبق کا خلاصہ اور ضروری مطالب کو سوال اور جواب کی صورت میں بیان کیا گیا ہے تا کہ پڑھنے والا ان کے جوابات دینے کے لئے دوبارہ اس سبق کو دیکھے اور پڑھے اور اپنی کوشش اور سعی سے اسے حل کرے

آخر میں یہ بتلانا ضروری ہے کہ یہ کتاب اگر چہ نئی اور حیرت انگیز ہے لیکن یہ کوئی نئی تالیف نہیں بلکہ وہی کتاب ہے کہ جس کا نام آموزش دین تھا جسے پانچ جلدوں میں چھاپا جا چکا ہے لیکن اب اسے'' انصاریان پیبلیشرز'' کی خواہش پر انہیں مطالب کو اس طرز بیان کے ساتھ تبدیل کرکے منظم کردیا گیا ہے _ اور یہ بتلانا بھی ضروری ہے کہ اس کے پہلے اور دوسرے حصّہ میں مسئلہ عدل اور دیگر فروعات دین سے بحث اس لئے انہیں کی گئی کہ اس کا سمجھنا اکثر پڑھنے والوں کے لئے مشکل تھا _ انشاء اللہ یہ مطالب اس کتاب کے تیسرے اور چوتھے حصّہ میں بیان کئے جائیں گے _ امید ہے کہ یہ کاوش بارگاہ خدا میں مقبول اور پڑھنے والوں کے لئے فائدہ مند اور قابل توجہ قرار پائے

ابراہیم امینی

قم _ حوزہ علمیہ

بہمن ماہ سنہ ۱۳۶۱ شمسی

۸

پہلا حصّہ

خداشناسی

۹

پہلا سبق

۱ مچھلی

کیا آپ کے گھر میں مچھلی ہے ؟

کیا آپ مچھلی کو پسند کرتے ہیں؟

مچھلی کہاں زندگی گزارتی ہے؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ مچھلی کس ذریعہ سے پانی میں تیرتی ہے؟

اگر مچھلی کے پر نہ ہوں تو کیا وہ پانی میں تیر سکے گی ؟

کیا مچھلی نے اپنے لئے پر خود بنا لے ہیں؟

نہیں مچھلی نے اپنے پر خود نہیں بنالے اور نہ ہی کسی انسان نے اس کے پر بنائے ہیں بلکہ خداوند قادر و مہربان جانتا تھا کہ اس خوبصورت حیوان کے لئے پر ضرور ی ہیں اس لئے اسے پر عطا کئے تا کہ وہ پانی میں تیر سکے

گھر میں کسی برتن میں مچھلی ڈالٹے اور اپنے دوست کے ساتھ مل کر دیکھئے اور دیکھئے کہ مچھلی کس طرح سانس لیتی ہے ؟ کس طرح تیرتی ہے ؟ کس طرح پانی میں اوپر نیچے جاتے ہیں؟ کس وقت اپنی دم ہلا تی ہے ؟ اس وقت اپنے دوست سے پوچھئے _ کہ مچھلی کو کس نے پیدا کیا ہے _

۱۰

دوسرا سبق

پانی میں مچھلی کا دم کیوں نہیں گھٹتا

ایک دن احمد بچوں کے ساتھ گر میں کھیل رہا تھا_ اس کی ماں نے کہا _ بیٹا احمد ہوشیار حوض کے نزدیک نہ جانا _ ڈرتی ہوں کہ تم حوض میں نہ گرپڑو کیا تم نے ہمسائے کے لڑکے حسن کو نہیں دیکھا تھا کہ وہ حوض میں گر کر مرگیا تھا؟ احمد نے کہا اماں جان ہم اگر حوض میں گر جائیں تو مرجاتے ہیں _ اور مچھلیاں پانی کے نیچے رہتے ہوئے کیوں نہیں مرجاتیں؟ دیکھئے وہ پانی میں کتنا عمدہ تیر رہے ہیں ؟ اس کی ماں نے جواب دیا _ انسان کے لئے سانس لینا ضروری ہے تا کہ وہ زندہ رہ سکے _ اسی لئے ہم پانی کے نیچے زندہ نہیں رہ سکتے لیکن مچھلی کے اندر ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے ذریعے پانی میں سانس لے سکتی ہے اور جو تھوڑی بہت ہوا پانی کے اندر موجود ہے اس سے استفادہ کرتی رہتی ہے_ اسی لئے وہ پانی کے اندر زندہ رہ سکتی

کون مچھلی کیلئے فکرکررہا تھا

احمد نے ماں سے پوچھا: اماں جان کون مچھلی کے لئے ایسا فکر کررہا تھا _ مچھلی از خود تو نہیں جانتی تھی کہ کہاں اسے زندہ رہنا چاہی ے اور کون سی

۱۱

چیز اس کے لئے ضروری ہے _

اس کی ماں نے جواب دیا : بیٹا خدائے علیم اور مہربان مچھلی کے لئے فکر کررہا تھا _ اللہ تعالی جانتا تھا کہ اس خوبصورت جانور کو پانی کے اندر زندگی گزارنا ہے _ اس لئے اس نے مچھلی کے اندر ایسا وسیلہ رکھ دیا کہ جس کے ذریعہ سے وہ سانس لے سکے مچھلی پانی میں آبی پھپیھڑوں کے ذریعہ سانس لیتی ہے _

سوالات

۱_ احمد کی ماں کو کس چیز کا خوف تھا؟

۲_ ہمسائے کے لڑکے کا کیا نام تھا؟

۳_ وہ کیوں ڈوب گیا ؟

۴_ کیا وہ تیرنا جانتا تھا؟

۵_ کیا انسان پانی میں زندہ رہ سکتا ہے؟

۶_ پانی میں مچھلی کیوں نہیں مرتی؟

۷_ کون سی ذات مچھلی کے فکر میں تھی؟

۸_ کسی نے مچھلی کو پیدا کیا ؟

درج ذیل جملے مکمل کیجئے

اللہ _ جانتا _ کہ اس خوبصورت جانور کو پانی کے اندر زندگی گزارنی ہے اس کے لئے _ کہ جس کے ذریعے وہ وہاں سانس لے سکے

۱۲

تیسرا سبق

۳ داؤد اور سعید سیر کو گئے

داؤد اور سعید باپ کے ساتھ باغ میں سیر کرنے گئے _ باغ بہت خوبصورت تھا درخت سرسبز اور بلند تھے _ رنگارنگ عمدہ پھول تھے _ باغ کے وسط میں ایک نہر گزرتی تھی کہ جس میں بطخیں تیر رہی تھیں _ بطخیں بہت آرام سے پانی میں تیر رہی تھیں وہ پانی میں اپنا سرڈبوکرکوئی چیز پکڑکرکھارہی تھیں _ اچانک سعید نے ایک چڑیا دیکھی کہ جس کے پر تر ہو چکے تھے اور وہ نہیں اڑ سکتی تھی اس نے داؤد سے کہا:

بھائی جان دیکھئے : اس بیچاری چڑیا کہ پر پھیگ چکے ہیں اور وہ نہیں اڑ سکتی داؤد نے ایک نگاہ چڑیا پر او دوسری نگاہ بطخوں پر ڈالی اور تعجب سے کہا کہ بطخوں کے پر کیوں نہیں بھیگتے کتنی آرام سے پانی میں تیر رہی ہیں اور جب پانی سے باہر آتی ہیں تو اس کے پر اس طرح خشک ہوتے ہیں _ جیسے وہ پانی میں گئی ہی نہیں _ سعید نے ایک نظر بطخوں پر ڈالی اور کہا آپ سچ کہہ رہے ہیں _ لیکن مجھے یہ علم نہیں کہ ایسا کیوں ہے ؟ بہتر یہی ہے کہ یہ بات اپنے والد سے پوچھیں کہ بطخوں کے پر کیوں نہیں بھیگتے اور چھڑیوں کے پر کیوں بھیگ جاتے ہیں

بطخوں کے پر کیوں نہیں بھیگتے

سعید اور داود ڈرتے ہوئے والد کے پاس گئے اور ان سے کہا _ ابا جان آیئےطخوں کو پانی میں تیرتے دیکھئے کہ ان کے پر بالکل نہیں بھیگتے _ ابا جان بطخوں کے پر کیوں

۱۳

نہیں بھیگتے ؟ یہ سب نہر کے کنارے آئے _ والد نے کہا: شاباش ابھی سے ان چیزوں کو سمجھنے کی فکر میں ہو انسان کو چاہیئے کہ وہ جس چیز کو دیکھے اس میں غور و فکر کرے اور جسے نہیں جانتا وہ اس سے پوچھے کہ جواسے جانتا ہے _ تا کہ یہ بھی اس سے آگاہ ہوجائے _

خوبصورت بطخوں کو خدا نے پیدا کیا ہے

چونکہ بطخوں کے پر چکنے ہوتے ہیں اس لئے پانی کا ان پر اثر نہیں ہوتا ہے اگر بطخوں کے پر چکنے نہ ہوتے تو پانی میں بھیگ جاتے اور بھاری ہوجاتے اور مرغابی پانی میں نہ تیر سکتی اور نہ ہوا میں اڑسکتی _

سعید نہ کہا: ابا جان یہ حکمت کس ذات کی تھی؟ بطخیں خود تو نہیں جانتی تھیں کہ کس طرح اور کس ذریعے سے وہ اپنے پروں کو چکنا بنائیں _ باپ نے جواب دیا : عالم اور مہربان خدا کہ جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے _ وہ جانتا تھا کہ بطخوں کو پانی میں تیرنا ہے انہیں اس طرح پیدا کیا کہ ان کے پر ہمیشہ چکنے رہیں تا کہ وہ آسانی کے ساتھ پانی میں تیرسکیں _ اور ہوامیں اڑسکیں _

سوالات

۱_ سعید اور داؤد باغ میں کس لئے گئے تھے؟

۲_ انہوں نے باغ میں کیا دیکھا؟

۱۴

۳_ نہر کے کنارے چڑیا کیوں گری پڑی تھی اور اڑنہیں سکتی تھی؟

۴_ سعید کو کس چیز سے تعجب ہوا؟

۵_ انسان کو جب کسی چیز کا علم نہ ہو تو کیا کرے ؟

۶_ سوال کرنے کا کیا فائدہ ہے ؟

۷_ جب کسی چیز کو نہ جانے تو کس سے پوچھے؟

۸_ اگر بطخ کے پر چکنے نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟

۹_ کیا بطخیں جانتی تھیں کہ اس کے پروں کو چکنا ہونا چاہیئے؟

۱۰_ کس نے بطخ کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ اس کے پر ہمیشہ کیلئے چکنے ہوتے ہیں؟

۱۱_ ان چیزوں کو کس نے پیدا کیا ہے ؟

یہ جملے مکمل کیجئے

۱_ خوبصورت بطخوں کو ... ... کسے پیدا کیا ہے

۲_ شاباش ابھی سے تم ... ... کے سمجھنے کی فکر میں ہو

۳_ ہم جن چیزوں کو دیکھتے ہیں اس میں ... ... کریں

۴_ اور جسے نہیں جانتے وہ اس سے ... ... جو اسے جانتا ہے

۵_ چونکہ بطخوں کے پر ... ... ... پانی کو وہاں تک نہیں پہونچنے دیتے

۶_ اگر بطخوں کے پر چکنے نہ ہوتے تو ... ... ... جاتے

۷_ اللہ تعالی کی ... ... ... مہربان ذات کہ جسے تمام چیزوں کو پید اکیا ہے ... ... کہ بطخوں کو ... میں تیرنا ہے انہیں ... ... کہ انکے پر ہمیشہ چکنے رہیں

۸_ تاکہ وہ آسانی ... پانی میں ... اور ہوا میں ... سکے

۹_ اللہ تعالی کی ... ... مہربان ذات ... ... ... بطخوں کی فکر میں بھی تھی

۱۵

چوتھاسبق

۴ خوبصورت نو مولود بچہ

زہرا کا ایک بھائی پیدا ہوا جس کا نام مجید تھا _ زہرا بہت خوش تھی اور اسے اپنے نو مولود بھائی سے بہت محبت تھی _ ایک دن اپنے بھائی کے گہوارے کے پاس کھڑی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی تھوڑی دیر بعد اپنی ماں سے کہنے لگی اماں جان مجید کب بڑا ہوگا تا کہ وہ مجھ سے کھیل سکے : میں اپنے بھائی کو بہت چاہتی ہوں اس کی ماں نے کہا: پیاری زہرا صبرکرو _ انشاء اللہ مجید بڑا ہوگا اور تم آپس میں کھیلوگی اچانک مجید جاگ اٹھا اور اپنی نحیف آواز سے رونا شروع کردیا _ زہرا بے تاب ہوکر ماں سے کہنے لگی : اماں جان مجید کیوں رورہا ہے _ اس کی ماں نے جواب دیا _ شاید یہ بھوکا ہے _ زہرا دوڑی اور تھوڑی سی مٹھائی لے کر اس کے منھ میں ڈالنے لگی : جلدی سے ماں نے کہا پیاری زہرا مجید مٹھائی نہیں کھا سکتا _ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اس کے دانت نہیں ہیں خبردار کوئی چیز اس کے منہ میں نہ ڈالنا _ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ گلے میں پھنس جائے اور اس کا دم گھٹ جائے _ زہرا نے پوچھا پھر مجید کی غذا کون سی ہے _ ماں نے کہا: بیٹی مجید کی غذا دودھ ہے _ وہ دودھ پی کر یسر ہو تا ہے _ ماں اٹھی اور اس نے نو مولود کو دامن میں لے کر اپنے پستان اس کے منہ میں دے دیئے مجید نے ماں کے پستان منہ میں لے کر اپنے نازک لبوں سے انہیں چومنا شروع کردیا _ زہرا نے تھوڑی دیر مجید کو اور ماں کو دیکھا: اور پھر تعجب سے بولی اماں جان

۱۶

کیا آپ کے پستانوں میں اسے سے پہلے بھی دودھ تھا ؟ ماں نے کہا : نہیں ان میں پہلے دودھ نہ تھا : لیکن جس دن سے مجید نے دنیا میں قدم رکھا ہے میرے پستانوں میں دودھ بھر گیا ہے _ زہرا بولی اماں جان آپ کیسے مجید کے لئے دودھ بناتی ہیں ماں نے کہا کہ دودھ کا بن جانا میرے ہاتھ میں نہیں ہے میں غذا کھاتی ہوں : غذا سے دودھ بن جاتا ہے _ زہرا بولی کہ آپ اس سے پہلے بھی تو غذا کھاتی تھیں تو اس وقت یہ دودھ کیوں نہیں بنتا تھا؟ ماں نے جواب دیا صحیح ہے : میں اس سے پہلے بھی ہی غذا کی فکر تھی_ خدا جانتا تھا کہ جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو اسے غذا کی ضرورت ہوتی ہے _ اور خدا یہ بھی جانتا تھا کہ مجید کے دانت نہیں ہیں اور وہ ہماری طرح غذا نہیں کھا سکتا اسی لئے خدا نے اس کی ماں کے پستانوں کو دودھ سے بھردیا ہے تا کہ ناتواں بچہ بہتر اور سالم غذا کھا سکے _ پیاری زہرا دودھ ایک مکمل غذا ہے جس میں بچے کے بدن کی تمام ضروریات موجود ہیں _ اور بچہ آسانی سے اسے ہضم بھی کر سکتا ہے _ زہرا نے کہا اماں جان ہمارا خدا کتنا مہربان اور جاننے والا ہے _ اگر دودھ نہ ہوتا تو چھوٹا بچہ کیا کھاتا _ ماں نے کہا جی ہاں بیٹا خدا ہی تو ہے جس نے بچہ کو پیدا کیا ہے اور اسے غذا دیتا ہے _ خدائے مہربان ہی صحیح اور سالم دودھ بچے کے لئے بناتا ہے _ خداوند عالم کو بچے کی کمزوری کا علم تھا اسی لئے اسنے بچہ کی محبت ماں کے دل میں ڈالی تا کہ وہ اس کی نگہداشت اور پرورش کرے

۱۷

خداوند عالم نے کمزور اور بے زبان بچے کو یہ سکھایا ہے کہ جب وہ بھوکا ہو تو وہ رونا شروع کردے تا کہ ماں اس کی مدد کرے_

سوچ کران سوالوں کا جواب دیجئے

۱_ جب زہرا نے مجید کو دیکھا تھا تو اس نے اپنی ماں سے کیا کہا؟

۲_ کیا زہرا اپنے بھائی سے محبت کرتی تھی؟ اس کی دلیل دیجئے؟

۳_ کیا دودھ کا بنانا ماں کی قدرت میں ہے _ اورکیوں؟

۴_ یہ بات تمہیں کہاں سے معلوم ہوئی کہ خداوند عالم کو مجید کے مستقبل کا علم تھا ؟

۵_ کیسے علم ہوا ہے کہ خداوند : عالم اور مہربان ہے ؟

۶_ اگر دودھ نہ ہوتا تو نو مولود بچے کیا کھاتے ؟

۷_ اگر ماں کو بچے سے محبت نہ ہوتی تو کیا ہوتا ؟

۸_ کس نے بچے کی محبت ماں کے دل میں ڈالی ہے ؟

۹_ اگر بچہ بھوک کے وقت نہ روتا تو کیا ہوتا ؟

۱۰_ اگر بچہ چو سنا نہ جانتا تو ماں اسے کیسے دودھ دیتی ؟

۱۱_ رونا اور چوسنا کس نے بچہ کی فطرت میں رکھا ہے ؟

۱۸

پانچو سبق

۵ چروا ہے نے درس دیا

اکبر اور حسین چھٹی کے دن علی آباد نامی گاؤں میں گئے _ علے آباد بہت خوبصورت اور آباد گاؤں ہے اس میں بڑے بڑے باغ اور سبز کھیت ہیں گائے اور بھیڑوں کے گلے آبادی کے اطراف میں چرر ہے تھے _ بکریوں اوربھیڑوں کے بچے اپنی ماؤں کے ساتھ کھیل کودرہے تھے _ اکبر اور حسین ان کا تماشا دیکھ کر لطف اندوز ہورہے تھے _ اچانک اکبر کی نگاہ ایک خوبصورت بھیڑ پر پڑی جس نے ابھی بچہ جنا تھا اور وہ اسے چاٹ رہی تھی _ اکبر نے چروا ہے سے کہا کہ یہ بھیڑ کیوں اپنے بچے کو چاٹ رہی ہے ؟ چروا ہے نے کہا : اس بھیڑنے ابھی بچہ جنا ہے _ بچے کو دوست رکھتی ہے اور اسے صاف کرنا چاہتی ہے _ بچہ صاف ستھرا ہوگیا اور ماں کے تھنوں کی طرف لپکا _ تھن کو منہ میں لیا اور دودھ پینا شروع کردیا _ اکبر نے حسین سے کہا: اس بچے کو دیکھو ابھی دنیا میں آیا ہے لیکن فوراماں کے تھن معلوم کرلئے ہیں اسے کہاں سے معلوم ہوگیا کہ تھنوں میں دودھ ہے اور تھین ماں کے پیٹ کے نیچے ہے ؟ کس نے اسے یہ بتلایا ہے _ اس چوٹے بچے نے اس فہم اور دانائی کو کس سے سیکھا ہے ؟

چرواہا اکبر اور حسین کی یہ گفتگو سن رہا تھا _ اس نے کہا : پیارے بچو اللہ تعالی جو مہربان اور علیم ہے اس نے ایسی سمجھ چھوٹے بچے کو عطا کردی ہے یہ بچہ بھوکا ہے اور علم ہے کہ ماں کے تھنوں میں دودھ ہے اور وہ ماں کے پیٹ کے نیچے ہیں

۱۹

اور وہ بھی جانتا ہے اسکے علاوہ اور غذا اس کے لئے اچھی نہیں ہے _ یہ تمام چیزیں اللہ تعالی نے اسے سکھائی ہیں اگر بچے کو ان چیزوں کا علم نہ ہو تو ممکن ہے کہ یہ مرجائے حسین نہ کہا: اچھا ہے کہ دودھ اس کے گلے میں نہیں پھنستا ور نا یہ مرجاتا _ چرواہے نے کہا : پیارے بچو اللہ بہت دانا اور بہت مہربان ہے اس نے تھنوں میں بڑا سوراخ نہیں رکھاتا کہ اس سے زیادہ دودھ نہ نکل آئے اور بچے کے گلے میں پھنس جائے تھنوں کے سرپر کئی ایک چھوٹے چھوٹے سوراخ ہیں کہ بچے کو چوسنے سے اس سے دودھ باہر آتا ہے _ اس کے علاوہ تھنوں کے سرے کو اس طرح بنا دیا گیا ہے کہ بچہ بہت آسانی سے اس کو منہ میں لے کر دودھ پی لیتا ہے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ تم نے جب بچہ پیدا ہوتا دیکھا تو وہ کیا کرتا ہے ؟

۲_ اگر بچہ کو علم نہ ہوتا کہ دودھ کے تھن کہاں ہیں تو کیا ہوتا؟

۳_ اگر بچہ سنا نہ چانتا تو کیا ہوتا؟

۴_ جب بچہ بھوکا ہوتا ہے تو کیا کرتا ہے ؟

۵_ کس نے یہ ہوش اور دانانی بھیڑ کے بچے کو عنایت کی ہے ؟

۶_ آیا تم نے کبھی بھیڑ کے بچے کو بغل میں لیا ہے کیا تم نے کبھی اسے بوتل سے دودھ پلایا ہے؟

۷_ اگر تھنوں کا سوراخ بڑا ہوتا تو کیا ہوتا؟

۸_ چروا ہے نے اکبر اور حسین کو کون سا درس دیا ؟

۲۰

( یَاأُخْتَ هَارُونَ مَا کَانَ أَبُوکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْهِ قَالُوا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّی عَبْدُ اﷲِ آتَانِی الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّا وَجَعَلَنِی مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنتُ 'وَأَوْصَانِی بِالصَّلَاةِ وَالزَّکَاةِ مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِی وَلَمْ یَجْعَلْنِی جَبَّارًا شَقِیًّا ) (١)

(ترجمہ )اے ہارون کی بہن نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تو تیری ماں بد کارہ تھی (لہٰذا یہ کیاکیا ہے )تو حضرت مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا (کہ کچھ پو چھنا ہے اس سے پوچھ لو ) وہ کہنے لگے کہ ہم پنگوڑے میں موجود بچے سے کیسے گفتگو کریں (اس وقت وہ بچہ ) بولنے لگا کہ بیشک میں خدا کابندہ ہوں مجھ کو اللہ نے کتاب (انجیل ) عطاکی ہے اور مجھ کو نبی قرار دیا ہے ۔اور جہاں کہیں رہوں خدا نے مجھ کو مبارک قرار دیا ہے اور جب تک زندہ رہوں نماز انجام دینے اور زکواۃ دینے کی نصیحت کی ہے اور مجھے اپنی ماں کا فرمانبردار بنایا ہے اور (الحمدللہ) نافرمان اور سرکش قرار نہیں دیا ہے ۔

____________________

( ١)سورہ مریم آیت ٢٨ تا٣٢.

۲۱

تفسیرآیت :

آیہئ شریفہ میں ایک مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ باپ کے بغیر وجود میں آئے جو عادت اور طبیعت کے خلاف تھا اس لئے حضرت مریم کے خاندان والوں نے ان کو برا بھلا کہا اور ان کی سرزنش کی یہاں تک کہ حضرت مریم (ع) کو ہارون نامی بدکار شخض کی بہن کہہ کے پکارا لیکن خدا نے اس تہمت کو اپنی قدرت سے یوں دورکیا کہ اللہ کے حکم سے حضرت عیسی علیہ السلام نے گہوارے میں ہی ان سے ہم کلام ہو کر انہیں لاجواب کردیا .دوسرا مطلب یہ ہے کہ دونوں آتیوںمیں حضرت عیسیٰ (ع) اور حضرت یحيٰ (ع) کی والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے کا تذکرہ ہوا ہے تا کہ یاد دہانی ہوجائے کہ والدین سے خیر وبھلائی کا حکم تمام آسمانی ادیان میں بیان ہوا ہے اور دین اسلام تمام ادیان الٰہی کا نچوڑہونے کی حیثیت سے اس کا ترجمانی کرتا ہے اسی لئے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔

جناب مرحوم کلینی نے اپنی گراں بہاکتاب اصول کافی میں مفصل ایک باب اسی عنوان کے ساتھ مخصوص کیا ہے،جس میں معصومین علیہم السلام سے مروی روایات کو جمع کیا ہے جن میں سے چند روایات بطور نمونہ ذکر کیا جا تا ہے ،ابن محبوب خالدبن نافع سے وہ محمد بن مروان سے روایت کرتا ہے:

۲۲

قال : سمعت ابا عبد اللّٰه علیه السلام یقول ان رجلا اتی النیی صلی اللّٰه علیه واله وسلم فقال یا رسول اللّٰه اوصنی فقال لا تشرک باللّٰه شیأاً وان حرقّت بالنار، وعذبت الا وقلبک مطمئن بالا یمان ووالدیک فاطعمهما وبرّهما حیین کا نا او میتین وان امراک ان تخرج من اهلک ومالک فافعل، فان ذالک من الایمان ۔(١)

(ترجمہ )محمد بن مروان نے کہا کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک دن ایک شخض پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا اے خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھے کچھ نصیحت فرما ئیے ۔تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کبھی بھی خدا کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھر ائے اگر چہ تجھے آگ میں جلادیا جائے اور طرح طرح کی اذیتیں پہنچا دے پھر بھی اطمینان قلبی سے رہو، اپنے والدین کو کھانا کھلاتے رہو اور ان کے ساتھ نیکی کر وںچا ہے وہ زندہ ہوں یا مردہ اگر چہ وہ تجھے اپنے اہل وعیاں اور مال ودولت سے علیحد گی اختیار کرنے کا حکم دیں توپھر بھی اطاعت کریں کیونکہ یہی ایمان کی علامت ہے ۔

تفسیر وتحلیل:

اس حدیث شریف میں امام جعفرصادق علیہ السلام نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے

____________________

(١)کافی ج٢ ص ١٢٦.

۲۳

حوالے سے دو مطلب کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ ایک یہ کہ شرک بہت بڑا جرم ہے۔ کہ اس جرم کا کبھی بھی مرتکب نہ ہو دوسرا والدین کے ساتھ نیکی کرنا کہ ان دو چیزوں کی رعایت سے سعادت دنیوی واخروی سے بہر مند ہو سکتا ہے ۔

دوسری روایت :

دوسری روایت کو حسین بن محمد نے معلی بن محمد سے انہوں نے جناب وشاسے انھوں نے منصور بن حازم سے اور انہوں نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے :

''قال قلت ای الا عمال افضل قال الصلواة بوقتها وبِرُّ الوالدین والجهاد فی سبیل اللّٰه عز وجل ''(١)

(ترجمہ ) ابن حازم نے کہا کہ میں نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے پوچھا کہ اعمال میں سب سے بہترین کو ن سا عمل ہے ؟تو آپ نے فرمایا:

''نماز کو مقررہ وقت پر پڑھنا اوور والدین کے ساتھ نیکی کرنا اور راہ خدا میں جہاد کرنا۔''

اس حدیث میں تین ایسے کاموں کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو باقی سارے اعمال سے افضل ہیں نماز کو اس کے مقرر ہ وقت پر انجام دینا کہ ہمارے معاشرے

____________________

(١)کافی ج ١ص١٢٧

۲۴

میں نماز تو انجام دیتے ہیں لیکن وقت کی رعایت نہیں کرتے ایسے افراد کو اگر چہ تارک الصلوۃنہیں کہا جاتا مگر نماز کو عذر شرعی کے بغیر اسکے مقررہ وقت پر انجا م نہ دینے کی خاطر ثواب میں کمی ہو جاتی ہے ۔

دوسرا والدین کی خدمت ہے .والدین عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے جتنے ضعیف ہوں ،بڑھاپے کی وجہ سے ظاہری حلیے میں تبدیلی آگئی ہو اورمزاج کے اعتبار سے ہمارے مخالف ہوں پھر بھی انکی خدمت خدا کی نظر میں بہتر ین کا موں میں سے ہے۔

تیسرا راہ خدا میں جہاد ہے جواس مادی دور میں انسان کے لئے بہت مشکل کا م ہے لیکن نتیجہ اور عاقبت کے لحاظ سے بہترین اعمال میں سے شمار ہوتاہے۔

تیسری روایت :

علی ابن ابراہیم نے محمد بن عیسی سے وہ یونس بن عبدالرحمن سے انہوں نے درست بن ابی منصور سے اور وہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں:

قال سئل رجل رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ماحق الوالد علی ولده قال لا یسمیه بأ سمه ولا یمشی بین یدیه ولا یجلس قبله ولاسب له ۔(١)

____________________

(١)کافی ج٢ ص ١٢٧

۲۵

ترجمہ: امام ہفتم (ع)نے فرمایا کہ ایک دن کسی شخص نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا کہ باپ کا حق فرزند پر کیا ہے ؟

تو آپ نے فرمایا کبھی نام سے ان کو نہ پکارے پیش قدم نہ ہو ۔چلتے ہوئے ان کے آگے نہ ہو ان کو پشت کرکے نہ بیٹھیں اور گالی گلوچ نہ دے ۔

چوتھی روایت:

علی ابن ابراہیم نے محمد بن علی سے انہوں نے حکم بن مسکین سے اور انھوں نے محمد بن مروان سے اور وہ امام ششم سے نقل کرتے ہیں :

''قال ابوعبداللّٰه علیه السلام ما یمنع الرجل منکم ببر والدیه حیین او متیین یصلی عنهما ویتصدق عنهما ویحج عنهما ویصوم عنهما فیکون الذی صنع لهما وله مثل ذالک فیزیده اللّٰه عز وجل ببرّه وصلته خیراً کثراً'' (١)

محمد بن مروان نے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کون سی چیز تمہارے والدین کے ساتھ نیکی کرنے میں رکاوٹ ہے؟ چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ نیکی کرنا چاہئے ان کی طرف سے نماز پڑھے ان کے نام سے صدقہ دے اور ان کی طرف سے حج بجالائے اور ان کے حق میں روزہ رکھیں تاکہ خداوندعالم اس

____________________

(١)اصول کافی ج٢ ص ١٢٧.

۲۶

نیک برتاؤ اور صلہ رحمی کی خاطر اسے خیر کثیر سے مالامال فرمائے۔

پانچویں روایت:

محمد بن یحيٰ نے احمد بن محمد بن عیسی سے انہوں نے معمر بن خلاد سے نقل کیا ہے:

''قلت لابی الحسن الرضا علیه السلام ادعو لوالدی اذا کانا لا یعرفان الحق قال ادع لهما وتصدق عنهما وان کانا حیین لایعرفان الحق فدارهما فان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم قال ان اللّٰه بعثنی بالرحمة لا بالعقوق''

معمر بن خلاد کہتا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا میں اپنے ماں باپ کے حق میں دعا کرسکتا ہوں جب کہ وہ دونوں حق سے بے خبر ہوں، تو آپ نے فرمایا کہ ان کے حق میں دعا کریں اور ان کی طرف سے صدقہ دیں اگر وہ زندہ ہیں اور حق سے بے خبر ہیں تو ان کے ساتھ مداراکریں، کیونکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا نے مجھے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے نہ جدائی ڈالنے اور آپس میں دوری کے لئے۔(۱)

____________________

(١)اصول کافی ج٢ ص ١٢٧.

۲۷

چھٹی روایت:

علی بن ابراہیم نے اپنے باپ سے انھوں نے ابن ابی عمَیر سے انہوں نے ہشام بن سالم سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے:

''قال جاء رجل الی النبی صلی اللّٰه علیه وآله وسلم فقال یا رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم من ابرُّ قال امّک قال ثم من، قال امّک، قال ثم من؟ قال امّک قال ثم من؟ قال اباک'' (١)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک شخص پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آیا اور پوچھا: اے خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کس کے ساتھ نیکی کروں؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر پوچھا پھر کس کے ساتھ فرمایا:اپنی ماں کے ساتھ، پھر پوچھا:اس کے بعدفرمایا: اپنی ماں چوتھی دفعہ پوچھا کس کے ساتھ فرمایااپنے باپ کے ساتھ نیکی کر۔

اس روایت میں سائل نے تین دفعہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھا:آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تینوں دفعہ ماں کی خدمت کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ماں کی خدمت باپ کی خدمت سے زیادہ اہم ہے ،انشاء اللہ اس سلسلے میںماں کی عظمت کے عنوان سے مفصل بحث ہو گی ۔

____________________

(١)کافی ج٢ ص ١٢٨.

۲۸

ساتویں روایت:

امام جعفرصادق علیہ السلام سے منقول ہے:

'' قال جاء رجل وسأل النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عن برالوالدین فقال اَبرّر امک ابررامکّ ابرر اباک ابرر اباک وبداء بالامّ قبل الأب'' (١)

امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آیا اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں پوچھا تو آنحضرت (ع) نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرے اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر(پھر فرمایا ) اپنے باپ کے ساتھ نیکی کراپنے باپ کے ساتھ نیکی کر اپنے باپ کے ساتھ نیکی کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے باپ کی خدمت سے پہلے ماں کی خدمت کو ذکر فرمایا اس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ ماں کی عظمت اور اہمیت باپ سے زیادہ ہے۔

د ۔ سیرت انبیاء کی روشنی میں

اگر کو ئی شخص انبیا ء علیہم السلام کی سیرت کا مطا لعہ کرے تو بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ والدین کی خدمت انبیاء ،اورآئمہ معصومین کی سیرت ہے لہٰذا ہر نبی نے اپنے دور نبوّت میں اپنی امت سے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی سفارش کی ہے چنانچہ حضرت شیث بن آدم علیہ السلام نے سولہ نیک خصلتوں کی تاکید کی ہے ان

____________________

(١)کافی ج ٢ ص ١٣٠

۲۹

میں سے چوتھی خصلت والدین کی خدمت سے متعلق ہے نیز حضرت نوح علیہ السلام (جو دنیا سے گذرے ہوئے انبیا ء میں سے سب زیادہ دنیا میں زندگی کرنے والی ہستی ہے جیسا کہ روایت ہے :

''روی ان جبرئیل علیه السلام قال لنوح علیه السلام یا اطول الا نبیاء عمر ا کیف وجدت الدنیا قال کدارٍ لها بابان دخلت من احد هما وخرجت من الاخر'' (١)

یعنی روایت کی گئی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت نوح علیہ السلام سے کہا اے سارے پیغمبر وں میں سب سے زیادہ لمبی عمر پانے والے بنی دنیا کو کیسے پایا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا دنیا کو ایک ایسے گھر کی مانند پایا کہ جس کے دو در وازے ہو کہ ایک سے داخل ہوا اور دوسرے سے خارج ہوا ) کی سیرت بھی برالوالدین ہے یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی حیات طیبہ بھی والدین کے احتر ام اور ان کی خدمت گزاری کے لحاظ سے ہمارے لئے مشعل ہدایت ہے چنانچہ ماں باپ کے حق میں آپ کی دعا ء کو قرآن کریم میں یوں حکایت کی ہے:

( رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِی مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلاَتَزِدْ الظَّالِمِینَ إِلاَّ تَبَارًا ) (٢)

____________________

(١)ارزش پدر ومادر.

(٢)سورہ نوح آیت٢٨ )

۳۰

خدا یا مجھ کواورمیرے ماں باپ کو اور جو مومن میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایماندار مردوں اور مومنہ عورتوں کو بخش دے اور ان ظالموں کی صرف تباہی زیادہ کر ۔

اسی طرح حضرت یحیی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کو اللہ تبارک تعالیٰ قرآن مجید میں یوں حکایت کرتا ہے (وکان تقیا وبرا بوالدیہ ) یعنی آنحضرت پر ہیز گار اور ماں باپ کے ساتھ نیکو کار تھے نیز حضرت عیسی علیہ السلام کی سیرت'' وبرا بوالدتی'' تھی حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت ہے کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مصر کی سلطنت سنبھالی تو حضرت یعقوب علیہ السلام آپ سے ملنے کے لئے وارد مصرہوئے حضرت یوسف علیہ السلام استقبال کے موقع پر مرکب پر سوار رہے اس وقت جناب جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے او رکہا اے یوسف ہاتھ کھولو جب یوسف نے ہاتھ کھولا تو ان کے ہاتھ سے ایک نورآسمان کی طرف گیا تو حضرت یوسف (ع) نے سوال کیا اے جبرئیل یہ نور کیا ہے ؟ جو آسمان کی طرف جارہا ہے تو جبرئیل نے فرمایا: یہ نور نبوت تھا جو تمہارے باپ کے استقبال کے موقع پر مرکب سے نہ اترنے کی وجہ سے آپ سے جدا ہوگیا ہے اب تمہارے صلب سے کوئی نبی نہیں ہوگا۔(١)

____________________

(١) ارزش پدر ومادر.

۳۱

نیز حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سیرت بھی یہی تھی چنانچہ روایت ہے کہ حضرت اسماعیل (ع)اپنے والدگرامی حضرت ابراھیم علیہ السلام کے قدمگاہ کی جب بھی زیارت کرتے توفر ط محبت میں گریہ فرماتے اور بوسہ دیتے تھے اسی طرح حضرت ختمی مر تبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ سب سے نمایاں ہے اگر چہ آپ (ع)کے والد گرامی آپ کی تولد سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے اور والدہ گرامی بھی کم سنی میں آپ سے جدا ہو گئی لیکن والدین کے احترام کا اندازہ یہیں سے لگاسکتے ہیں کہ آپ اپنی خواہر رضاعی کے احترام میںکھڑے ہوجاتے تھے اور ہمیشہ اپنی مادر رضاعی کے ساتھ نیکی کرنے اور ان کو خوش رکھنے کی سعی فرماتے اور ہمیشہ والدین کے احترام اور ان کے ساتھ نیک سلوک کی تاکید فرماتے تھے۔

۳۲

دوسری فصل

حقوق والدین

الف: مالی تعاون :

والدین کے حقوق میں سے اہم ترین حق ان کی مالی امداد اور تعاون ہے لہٰذا شریعت اسلام میں واجب النفقہ افراد میں سے سب سے پہلے والدین کو ذکر کیا ہے اگرچہ یہ بات مسلم ہے کہ والدین کا احترام ہر جہات سے اولاد پر لازم ہے لیکن کچھ حقوق ہیں جن کے بارے میں روایات اور آیات میں زیادہ تاکید کی گئی ہے ، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:

( یَسْأَلُونَکَ مَاذَا یُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُمْ مِنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِینَ وَالْیَتَامیٰ وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیل ) (١)

ترجمہ: آپ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ راہ خدا میں کیا خرچ کرے تو

____________________

(١)سورہ بقرہ آیت ٢١٥.

۳۳

( ان کے جواب میں ) کہد و کہ تم اپنی نیک کمائی میں سے جو کچھ خرچ کریں تو وہ (تمھارے ) ماں باپ رشتہ دارں یتیموں حاجت مندوں اور مسا فروں کا حق ہے۔

تشریح :

آیت شریفہ میں دستور دیا ہے کہ بہترین مصرف والدین یتیم اورمسافر ہےں اگر کوئی شخص ماں باپ کی مالی مجبوری کے وقت ان سے تعاون کریں تو گویا اس نے راہ خدا میں تعاون اور خرچ کیا ہے کیو نکہ جس طرح بیوی بچوں کے اخراجات واجب ہے اسی طرح والدین کے اخراجات اولاد پر واجب ہے نیز دو سری آیت میں مالی تعاون کے دستور کو یوں بیان فرمایا ہے :

( کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمْ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِینَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِینَ ) (١)

تم کو حکم دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی پر موت آکھڑی ہو اور اگر وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابت داروں کیلئے دینے کی

____________________

(١)سورہ بقرہ آیت١٨٠.

۳۴

وصیت کرے (کیونکہ ) جو خدا سے ڈرتے ہیں ان پر یہ ایک حق ہے ۔

تفسیر:

اس آیت میںخدا نے ماں باپ اور رشتہ داروں کی مدد اور تعاون کرنے کا حکم دیا ہے لیکن پہلی آیت اور اس میں فرق یہ ہے کہ گذشتہ آیت میں ہر حالت میں والدین کے ساتھ مالی تعاون کرنے کا حکم دیاہے لیکن اس آیت میں فرمایا کہ موت کے وقت بھی مالی تعاون سے دریغ نہ کریں لہٰذا دونوں آیات کو سامنے رکھیں تو یہ نتیجہ نکاتا ہے کہ اولاد پر والدین کی ذمہ داری بہت ہی سنگین ہے کیونکہ مرض الموت کے موقع پر بھی ان کو فراموش نہ کر نے کی تاکید کی گئی ہے ،اور تر کہ میں سے کچھ ان کو دینے کی وصیت کرنے کا حکم ہوا ہے نیزمتعدد روایات میں والدین کے مالی تعاون کرنے کا حکم یوں ذکر ہوا ہے :

١۔وان لاتکلفهما ان یسألاک شیأا مما یحتا جان الیه ۔(١)

یعنی والدین کے حقوق میںسے ایک یہ ہے کہ کسی چیز کی ضرورت کے موقع پر ان کو ما نگنے کی تکلیف تک نہ دینا ۔

٢۔ اسی طرح دوسری روایت میں فرمایا :

''ووالدیک فاطعمهما وبرهما ''(٢)

____________________

(١)کافی،ج٢ص١٢٦.

(٢)اصول کافی جلد ٢

۳۵

جب پیغمبر سے کسی نے کچھ نصیحت کرنے کی سفارش کی تو آپ نے فرمایا اپنے والدین کو کھانا کھلائیں اور ان سے نیکی کریں یعنی ان کے لباس اور اشیاء خورد ونوش کو اپنے احتیاجات پر مقدم کرنا اپنے کھانے کی مانند یا اس سے بہتر کھانا کھلانا ان کے سفر کے مخارج چاہے واجب ہویا مستحب فراہم کرنا اور ان کیلئے گھر وغیرہ کا بندوبست کرنا ،ان کی طرف سے فوت شدہ حج ونماز اور روزہ وغیرہ کو انجام دینا یا ان کاخرچہ دینا نیکی کے کا مل ترین مصادیق میں سے ہیں ۔

لیکن ہمارے معاشرے پر غیر اسلامی تھذیب وتمدن حاکم ہونے کے نتیجہ میں اولاد اپنی ذمہ دار یوں کو انجام دینے میں کو تا ہی کرتے ہیں جب کہ یہ افسوس کا مقام ہے کہ اسلامی تہذیب وتمدن سے عاری ایسے ہے کہ کر وڑوں درہم ودینار کے مالک ہونے کے باوجود والدین کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کی سعادت سے محروم ہیں کیو نکہ والدین اور اولاد کے مابین ہونے والا فطری رابطہ غیراسلامی تھذیب تمدن کا شکارہو چکا ہے لہٰذا ایسے لوگوں کے نزدیک والدین اور دوسروں کے درمیان کو ئی تفاوت نظر نہیں آتا حالانکہ والدین واجب الا طاعہ بھی ہیں اور واجب النفقہ بھی لہٰذا عبدالرحمن بن الحجاج امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں:''قال خمسة لا زمون له لا یعطون فی الزکاة شئیاالاب و الام والولدوالمملوک والمرأة و ذالک انّهم عیاله لازمون له'' (١)

____________________

( وسائل ج ١٥ ،ص٢٢٧)

۳۶

امام علیہ السلام نے فرمایا زکوۃ میں سے کوئی چیز پانچ قسم کے افراد کو نہیں دی جاسکتی ہے ماں باپ فرزند غلام اور بیوی کیو نکہ یہ سب اس کے واجب النفقہ عیال میں سے ہیں نیز دوسری روایت جمیل بن دراج سے منقول ہے :

''لا یجبر الرجل الاعلی نفقة الابوین والولد ''(١)

امام نے فرمایا سوائے ماں باپ اور بچے کے کسی آدمی کو خرچہ دینے پر جبری نہیں کیا جاسکتا ہے اسی طرح تیسری روایت جناب محمد بن مسلم امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں :

''قال قلت له من یلزم الرجل من قرابته ممن ینفق علیه قال الوالدان والولد والزوجه ''(٢)

محمد بن مسلم نے کہا کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا رشتہ داروں میں سے کن کو خرچہ دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا ماں باپ، بچے اور بیوں کیلئے خرچہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

مذکورہ روایات سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ والدین ہمارے بچے اور بیوی کی مانند واجب النفقہ ہیں اسی لئے کتب فقہی میں واجب النفقہ افراد

____________________

(١)وسائل ج١٥.

(٢)وسائل ١٥.

۳۷

میں سرفہرست والدین کا نام ہے پس والدین کے سا تھ مالی تعاون ہر صورت میں انسان پر واجب ہے جس سے انکار کی کوئی گنجایش نہیں کو تا ہی کی صورت میں مقروض اور قیامت کے دن اس کا عقاب یقینا بہت سنگین ہوگا

ب۔ ماں باپ کے قرضے کو ادا کرنا

والدین کے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے قرضوں کو ادا کرے اگرچہ اسلام میں ہر مقروض کا قرض ادا کرنے کی تا کید ہوئی ہے اور اس عمل کیلئے بہتر ین پاداش اور جزا معین کیا ہے لیکن واجب نہیں ہے مگر والدین کے ذمہ قرض کو ادا کر نا لازم قرار دیا ہے پس اگر کو ئی دنیا اور آخرت کی خوش بختی چاہتا ہے تو والدین کی اقتصادی مشکلات میں ان کے ساتھ تعاون کرے شاید ان کا کچھ حق بھی ادا ہو اس طرح امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:

'' قلت لابی جعفر علیه السلام هل یجزی الولد والده فقال لیس له جزء الا فی خصلتین یکون الوالد مملوکا فیشتر یه ابنه فیعتقه او یکون علیه دین فیقضیه عنه'' (١)

(ترجمہ )سدیر نے کہا کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا ۔کیا فرزند باپ کے حق کو ادا کرسکتا ہے؟امام (ع)نے فرمایا دو صورتوں میں فرزند باپ کے

____________________

(١)کا فی ٢ ص ١٤٣.

۳۸

حق کو ادا کر سکتا ہے۔

١۔اگر کسی کا باپ کسی کا غلام ہو اور فرزند اس کو خرید کر آزاد کرے ۔

٢۔ اگر کوئی فرزند باپ کے ذمہ قرضے کو ادا کرے تو ان کا حق ادا ہو سکتا ہے۔

اسی طرح محمد بن مسلم سے وہ امام محمد باقر علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں:

'' قال ان العبد لیکون بارا بوالدیه فی حیا تهما ثم یموتان فلا یقضی عنهما دیو نهماولا یستفغر لهما فیکتبه اللّٰه عاقا وانه لیکون عاقا لهما فی حیا تهما غیر بار بهما فاذا ماتا فرض دینهما واستغفر لهما فیکتبه اللّٰه عزوجل بار'' (١)

(ترجمہ ) امام علیہ السلام نے فرمایا بیشک انسان والدین کی زندگی میں ان کے ساتھ نیکی کرتا ہے لیکن جب وہ دونوں دنیا سے چل بسے تو ان کے ذمے موجود قرضوں کو ادا نہیں کرتا اور ان کے حق میں طلب مغفرت نہیں کرتا تو ایسا شخص اللہ کی نظر میں عاق والدین محسوب ہو گا لیکن اگر والدین دنیا سے چل بسے ہوں اور انکے حق میں دعا کرے اور ان کے قرضوں کو ادا کرتا ہے تو اس کو خدا، والدین کے

____________________

(١)کافی ج ٢ ص ١٣٠١٣٠

۳۹

ساتھ نیکی کرنے والوں میں سے شمار کرتا ہے اگر چہ ان کی زندگی میں ان سے نیکی نہ کی ہو اور عاق ہوچکا ہو۔

تحلیل وتفسیر :

ان دونوں رواتیوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ما ںباپ کے قرضوں کو اپنا قرضہ سمجھ کر ادا کرنا لازم ہے کیونکہ اس کا تعلق حق الناس سے ہے نیز حق اللہ کو بھی ادا کرنا چائیے۔

اگر چہ والدین کی فوت شدہ عبادات کو ادا کرنا اولاد پر واجب ہے یا سنت اس مسئلے میں علماء کے مابین دو نظریے پائے جاتے ہیں:

١۔ماں باپ دونوں کی فوت شدہ عبادتوں کا انجام دینا اولاد پر واجب ہے یہ نظر یہ سید مرتضی علم الہدی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو چوتھی صدی کے نامور شیعہ علما میں سے تھے۔

٢۔ باپ کی قضا ء شدہ عبادتوں کا انجام دینا واجب ہے لیکن ماں کی قضا شدہ عبادتوں کا ادا کرنا مستحب ہے۔

اکثر علما شیعہ کے درمیان مشہور یہی ہے۔

لہٰذا پہلے نظر یے کی بناء پر ماں باپ کے ذمہ موجود ہر قسم کے حقوق اولاد کے ذمہ ہے، جن کی ادا ئیگی شریعت میں لازم قراردی گئی ہے ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156