‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) 37%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 156

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 156 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 90273 / ڈاؤنلوڈ: 4347
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

چھٹا سبق

۶ہوشیار لڑکا

حسن تیسری جماعت میں پڑھتا تھا وہ بہت ہوشیار اور چالاک تھا _

وہ اپنا سبق اچھی طرح سمجھنا چاہتا تھا اور ہر چیز میں غور و فکر کرتا تھا _ اگر اسے کوئی چیز سمجھ نہ آتی تو پوچھا کرتا تھا ایک دن استاد کلاس میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے بدن کے لئے مختلف اقسام کی غذا کی ضرورت ہوتی ہے _ غذا ہماری بھوک کو دور کرنے کے علاوہ ہمارے بدن کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے _ ہر ایک غذا کی علیحدہ خاصیت ہوتی ہے _ ہم کو دوڑ نے اور کھیلنے کو دنے کے لئے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے _ بدن کی طاقت ہمیں گرم رکھنے کے ساتھ ہمیں کام کرنے اور کھیلنے کی طاقت بھی پہنچاتی ہے _ بعض غذائیں ہمیں طاقت ہم پہنچاتی ہیں جیسے آلو _ چاول_ مٹھاس_ روغن_ کھجور _ سیب _ کشمش _ بادام و غیرہ ہر آدمی کو ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جو لوگ زیادہ کام کرتے ہیں انہیں ان کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے _ بعض غذائیں بدن کے بڑا ہونے اور طاقت پیدا کرنے کے لئے بہت ضروری ہیں _ جیسے گوشت _ انڈا _ دودھ و غیرہ ہمارا بدن وٹامن اور معدنی اجزاء کا بھی محتاج ہے _پھل فروٹ اور سبزیوں میں وٹامن ہوتی ہے _ گوشت _ دودھ _ جگر _ انڈے اور دوسری بعض سبزیوں میں معدنی اجزا ہوتے ہیں _ ہمارے بدن کو سالم رہنے اور غور کرنے کے لئے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے اور جن چیزوں کی بھی اسے ضرورت ہوتی ہے وہ تمام کی تمام

۲۱

مختلف غذاؤں میں پائی جاتی ہیں _ ہمیں مختلف قسم کے میوے اور غذائیں کھانی چاہیئےا کہ پڑھ سکیں اور صحیح و سالم رہ سکیں _ حسن نے استاد سے اجازت لیتے ہوئے کہا: میرا خیال تھا کہ غذا صرف بھوک کو ختم کرتی ہے _ لیکن اب سمجھ میں آیا کہ ہمارے بدن کی طاقت اور سلامتی میں بھی مختلف غذاؤں کی ضرورت ہوتی ہے _ اب میں متوجہ ہوا کہ ہمیں بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے _ استاد نے کہا کہ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ جن چیزوں کی ہمارے بدن کو ضرورت ہوتی ہے وہ اس دنیا میں موجود ہیں _ مختلف قسم کے میوے _ مختلف قسم کی سبزیاں _ چاول _ گیہوں _ چنے _ دلیں _ بادام یہ تمام چیزیں موجود ہیں _ درخت ہم کو میوے دیتے ہیں _ حیوانات ہمیں دودھ اور گوشت دیتے ہیں _ بچو کون ذات ہے جو ہمارے لئے ان چیزوں کو فراہم کرتی ہے _ اور ہماری تمام ضروریات سے واقف ہے _ جن چیزوں کی ہمیں ضرورت تھی اسے پہلے پیدا کردیا ہے _ تمام شاگردوں نے بیک آواز کہا _ خدا خداخدا _ استاد کہنے لگا _ ہاں _ وہی خدا دانا اور قادر ہے

سوالات

۱_ جب ہمیں کوئی چیز سمجھ نہ آئے تو کیا کریں اور کس سے پوچھیں؟

۲_ آج تم نے صبح کیا غذا کھائی تھی کیا اس غذا کے فوائد بتلاسکتے ہو؟

۳_اگر کچھ دن غذا نہ کھائیں تو کیا حالت ہوجائے گی اور کیوں؟

۴_ تم اپنے بدن کی ضروریات کو گنوا سکتے ہو؟

۵_ اپنے بدن کی ضروریات کو کس طرح پورا کروگے ؟

۲۲

۶_ حیوان اور سبزیاں ہمارے کس کام آتی ہیں؟

۷_ کون سی ذات ہمارے ان چیزوں کو فراہم کرتی ہے ؟

۸_ اس عالم میں ہمارے ذمّے کون سی خدمت انجام دینی لازم قرار دی گئی ہے؟

۲۳

ساتواں سبق

۷ اس کی نعمتیں

ہم منہ رکھتے ہیں کہ جس سے غذا کھاتے ہیں اور اس سے باتیں کرتے ہیں

ہم ہاتھ رکھتے ہیں کہ جس سے غذا اٹھاتے ہیں اور کام کرتے ہیں

ہم آنکھ رکھتے ہیں کہ جس سے دیکھتے ہیں

ہم کان رکھتے ہیں کہ جس سے سنتے ہیں

ہم پاؤں رکھتے ہیں کہ جس سے چلتے اور دوڑتے اور کھیلتے ہیں آیا تمہیں علم ہے کہ

کون سی ذات ہے کہ جو ہماری تمام ضروریات کو جانتی تھی اور انکو ہمارے لئے ضرورت جانتے ہوئے خلق کیا ہے

جو چیز بھی ہماری زندگی کے لئے ضروری تھی اس نے ہمیں عنایت کی ہے اب ان تمام نعمتوں کے عوض ہمارا فرض کیا ہے ؟

مہربان خدا

خدا ہمیں دوست رکھتا ہے _ اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور یہ تمام نعمتیں ہمیں عنایت کی ہیں _ آنکھ دی ہے تا کہ ہم دیکھ سکیں _ کان دیئےیں تا کہ ہم سن سکیں _ زبان دی ہے تا کہ ہم بول سکیں اور غذا کا مزا چکھ سکیں _ پاؤں

۲۴

دیئےیں تا کہ چل سکیں _ ہاتھ دیئےیں تا کہ کام کرسکیں اور دوسروں کی مدد کرسکیں عقل دی ہے تا کہ اچھائی او ر برائی کو سمجھ سکیں _ اگر ہم آنکھ _ کان _ زبان _ ہاتھ پاؤں اور عقل نہ رکھتے تو کس طرح زندگی بسر کرسکتے تھے ؟؟

سوالات

۱_ آنکھ سے کیا کام لیتے ہیں؟

۲_ کان سے کیاکام لیتے ہیں؟

۳_ زبان سے کیا کام لیتے ہیں؟

۴_ ہاتھ سے کیا کام لیتے ہیں؟

۵_ پاؤں سے کیا کام لیتے ہیں؟

۶_ عقل سے کیا کام لیتے ہیں؟

۷_ یہ تمام نعمتیں کس نے ہمیں دی ہیں؟

۸_ کیاخدا ہمیں دوست رکھتا ہے ؟

۹_ کہاں سے معلوم ہوا ہے کہ خدا ہمیں دوست رکھتا ہے ؟

۱۰_ اگر آنکھ نہ ہوتی تو کیا ہوتا ؟

۱۱_ اگر کان نہ ہوتے تو کیا ہوتا ؟

۱۲_ اگر زبان نہ ہوتی تو کیا ہوتا ؟

۱۳_ اگر ہاتھ نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟

۱۴_ اگر پاؤں نہ ہوتے تو کیا ہوتا ؟

۲۵

۱۵_اگر عقل نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ خدا ہمیں ... رکھتا ہے اسنے ہمیں پیدا کیا ہے اور ... کی ہیں

۲_ زبان دی ہے تا کہ ... سکیں اور غذا کا مزا چکھ سکیں

۳_ ہاتھ دیئےیں تا کہ ... اور دوسروں کی ... کرسکیں

۴_ عقل دی ہے تا کہ ... سمجھ سکیں

۲۶

آٹھواں سبق

۸ اللہ کی نعمتیں

خدا مہربان ہے اس نے ہمیں بہت کی نعمتیں دی ہیں _ ہوا پیدا کی تا کہ سانس لے سکیں _ پانی پیدا کیا تا کہ اسے پیئں اور اپنے آپ کو دھوئیں _ درخت اور جڑی بوٹیاں پیدا کیں _تا کہ میھٹے اور خوش ذائقہ میوے کھائیں اور عمدہ غذائیں بنائیں _ اگر ہوا پانی درخت نہ ہوتے تو ہم کیسے زندہ رہتے _ خدا ہم پر بہت مہربان ہے کہ جس نے ہمیں یہ نعمتیں فائدہ حاصل کرنے کے لئے عنایت کیں _ ہم بھی شفیق اور مہربان خدا سے محبت کرتے ہیں اور اس کا شکر ادا کرتے ہیں _ خدا ہم پر مہربان ہے اور ہماری اچھائی اور ترقی چاہتا ہے _ ہم بھی اللہ تعالی کے دستور کی پیروی کرتے ہیں تا کہ ہمیشہ کے لئے سعادت مند زندگی بسر کرتے رہیں _

سوالات

۱_ کس طرح ہمیں معلوم ہوا ہے کہ خدا ہم پر مہربان ہے ؟

۲_ خدا کا شکر کیوں ادا کریں؟

۳_ اللہ تعالی کی پانچ نعمتوں کا نام بتایئے

۴_ اگر سعادتمند ہونا چاہیں تو کس کے دستور پر عمل کریں؟

۲۷

مندرجہ ذیل جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ خدا ... ہے اس نے ہمیں بہت ... دی ہیں

۲_ ہوا پیدا کی تا ... ... پانی پیدا کیا تا

۳_ ہم بھی شفیق اور مہربان خدا ...

۴_ خدا ہم پر مہربان اور ہماری ... چاہتا ہے

۵_ ہم بھی اللہ تعالی کے ... کرتے ہیں تا کہ ... زندگی بسر کرتے ہیں

۲۸

نواں سبق

۹ علیم اور قادر خدا

ہمارا جسم مختلف قسم کی غذاؤں کا محتاج ہے_ اگر مختلف غذائیں نہ ہو تیں تو ہم کیا کرتے؟

بدن کی سلامتی کے لئے کچھ مقدار پانی پیتے ہیں اگر پانی نہ ہوتا تو ہم کیا کرتے ؟

اگر منہ نہ ہوتا : کہ جس سے پانی پیتے ہیں : تو کیا کرتے ؟

اگر دانت نہ ہوتے : کہ جس سے غذائیں چباتے ہیں تو کیا کرتے ؟ لیکن خوش بختی سے ہماری زندگی کی تمام وسائل اور ضروریات اس دنیا میں موجود ہیں _ مختلف قسم کے میوے کہ جن کی ضرورت ہے موجو د ہیں _ مختلف قسم کی سبزیاں کہ جن کی ضرورت ہے موجود ہیں _ پیاسے ہوتے ہیں تو پانی موجود ہے _ منہ موجود ہے کہ جس سے غذا کھاتے ہیں _ ہاتھ ہیں کہ جس سے غذا اٹھا کر منہ میں رکھتے ہیں _ معدہ اور آنتیں موجود ہیں جو غذا کو ہضم کرتی ہیں _ آنکھیں ہیں جس سے دیکھتے ہیں _ کان ہیں جس سے سنتے ہیں _ زبان رکھتے ہیں جس سے بولتے اور غذا کامزالیتے ہیں _ جو چیز بھی ہماری سلامتی اور رشد کے لئے ضروری تھی اس دنیا میں موجود ہے _

ان روابط اور ترتیب اور نظم سے جو ہمارے اور دوسرے جہاں میں موجودات کے ساتھ برقرار ہے اس سے ہم سمجھتے ہیں کہ

کوئی ذات عالم اور قادر ہے کہ جس نے ہمیں خلق کیا ہے اور وہ ذات ہماری فکر

۲۹

میں پہلے سے تھے اور ہماری تمام ضروریات کو جانتی تھی اور وہ ذات خداوند عالم کی ہے کہ جو دانا اور توانا ہے اگر دانا اور عالم نہ ہوتا تو اسے معلوم نہ ہوتا کہ ہمیں کن چیزوں کی ضرورت ہے _ اور اگر توانا اور قادر نہ ہوتا تو ان چیزوں کو کہ جن کی ہمیں ضرورت تھی پیدا نہیں کر سکتا تھا _ اب ہم سمجھے کہ خدا عالم ہے یعنی دانا ہے اور خدا قادر ہے یعنی توانا ہے _

نظم و ترتیب

سورج نکلتا ہے گھاس اگتی ہے _ حیوانات گھاس کھاتے ہیں اور ہم انکے دودھ اور گوشت سے استفادہ کرتے ہیں _ پس سورج _گھاس _ حیوان اور انسان کے درمیان ایک ربط ہے

اگر سورج نہ نکلتے تو کیا ہوگا؟

اگر گھاس نہ اگے تو کیا ہوگا؟

اگر حیوانات نہ ہوں تو کیا ہوگا؟

یہ ربط جو ہمارے اور دنیا کے دوسرے موجودات کے درمیان ہے اس سے کیا سمجھتے ہیں:

کون سی ذات ہماری ضروریات کو جانتی تھی اور ان کو ہمارے لئے خلق کیا ہے _

کیا وہ ذات عالم و قادر ہے

۳۰

کیسے جانا کہ وہ دانا اور توانا ہے؟

اگر وہ دانا نہ ہوتا تو اسے معلوم نہ ہوتا کہ

اگر توانا اور قادر نہ ہوتا تو وہ قدرت نہ ...

جی ہاں: وہ ذات دانا بھی ہے اور توانا بھی اور وہ ذات خدا کی ہے :

وہ مہربان ہے اور عطا کرنے والا ہے

ہم بھی اسے بہت دوست رکھتے ہیں اور اس کے حکم اور فرمان کو مانتے ہیں تا کہ ہمیشہ زندگی با سعادت بسر کرسکیں_

۳۱

دسواں سبق

۱۰ میرا بہترین دوست

اس عنوان سے فارسی نظم پیش خدمت ہے

بارالہا دوست می دارم ترا ---- ای با جان و دل من آشنا

ای خدای بے شریک و بے قرین ---- درمیان دوستانم بہترین

نام زیبائے ترا دارم بہ لب ---- شکر می گویم ترا ہر روز و شب

آفریدی آسمانہا را چہ خوب ---- اختران و کہکشانہا را چہ خوب

آفریدی شب چراغ ماہتاب ---- از تو گرما بخش ماشد آفتاب

آفریدی بس شگوفان و قشنگ --- بوتہ ہا گلہا بہ صدہا شکل و رنگ

از برایم آفریدی رایگان ---- ہم پدر ہم مادری بس مہربان

این زبان و چشم و گوش و پا و دست ---- دارم از لطف تو ہر نعمت کہ ہست

مہربانااے خدائے خوب من! ---- دادہ ای تو این ہمہ نعمت بہ من

پس تو ہم بسیار داری دوستم ---- ای خدا اے مہربانتر دوستم

دادگر یارتوانائی منی؟؟ ---- بہترین ہمراہ دانای منی

ای کہ ہستی برتر از افکار من ---- آشناتر کن مرابا خویشتن

(حسان)

حبیب اللہ چایچیان

۳۲

دوسرا حصّہ

معاد ''یعنی'' قیامت

۳۳

پہلا سبق

بطخیں کب واپس لوٹیں گی

داؤد اور سعید اپنے باپ کے ساتھ باغ میں گئے _ سردی کا زمانہ تھا درختوں کے پتے خشک اور بے جان ہو کر زمین پر گرے پڑے تھے _ باپ نے کہا پیارے بیٹو درختوں کو دیکھو یہ سرسبز نہیں ہیں _ ان کے سرسبز پتے تمام خشک ہوچکے ہیں _ اور بے جان ہوکرزمین پر گر پڑے ہیں _ وہ خوبصورت بطخیں بھی یہاں سے چلی گئی ہیں _ داؤد نے پوچھا _ ابا جان کیا بطخیں اب پھر یہاں نہیں آئیں گی ہم بطخوں کو نہیں دیکھ سکیں گے باپ نے جواب دیا کیوں نہیں جب بہار کا موسم آئے گا اور خدا اس باغ کو دوبارہ شاداب کرے گا اوریہ سرسبز ہوجائے گا تو بطخیں بھی دوبارہ لوٹ آئیں گی _ سعید نے پوچھا ابا جان : ہم بھی جب مرجائیں گے تو خدا ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا ؟ باپ نے کہا_ جی ہاں_ ہم بھی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گے اور اپنے کئے کا نتیجہ دیکھیں گے _ نیک لوگ جنت میں اور برے لوگ جہنم میں جائیں گے _

سوالات

۱_ داؤد اور سعید باپ کے ساتھ کس موسم باغ میںگئے ؟

۲_کیا سردی کے موسم میں باغ سرسبز اور شاداب تھا؟

۳۴

۳_ درختوں کے پتے کس موسم میں بے جان ہوکر گر پڑتے ہیں؟

۴_ باپ نے درختوں کے بارے میں داؤد اور سعید سے کیا کہا؟

۵_ اس باغ سے بطخیں کیوں چلی گئی تھیں؟

۶_ باغ کس موسم میں سرسبز ہوتا ہے ؟

۷_ کیا بطخیں دوبارہ واپس لوٹ آئیں گی ؟

۸_ کون سی ذات باغ کو دوبارہ سرسبز و شاداب کرتی ہے؟

۹_ جب ہم مرجائیں گے تو دوبارہ کون زندہ کرے گا؟

۱۰_ جب خدا ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا تو ہم کہاں جائیں گے ؟

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ سردی کا زمانہ تھا درختوں کے ہو کر زمین پر گر پڑے تھے

۲_ ان کے سرسبز ... گر چکے ہیں

۳_ جب بہار کا ... آئے گا تو وہ اس باغ کو ... کرے گا

۴_ باپ نے کہا جی ہاں ہم بھی ... ہوں گے اوراپنے کئے کا نتیجہ دیکھیں گے

۵_ نیک لوگ ...اور برے لوگ ... جائیں گے

۳۵

دوسرا سبق

دو قسم کے لوگ

۱_ بعض لوگ خدا کو دوست رکھتے ہیں اور دیندار ہیں _ سچ بولتے ہیں اچھے کام بجالاتے ہیں _ لوگوں کے ساتھ مہربانی کرتے ہیں ضعیفوں کی مدد کرتے ہیں _ کسی کو آزار نہیں پہونچاتے _ ظالموں کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں _ خدا ان کو دوست رکھتا ہے

۲_ بعض لوگ بے دین اور جھوٹے ہوتے ہیں _ لوگوں کو آزار پہونچاتے ہیں _ برے کام انجام دیتے ہیں_ لوگوں کو مال زبردستی چھیں لیتے ہیں مظلوموں اور بیچاروں کی مدد نہیں کرتے

خدا ان کو دوست نہیں رکھتا

۳۶

تیسرا سبق

معاد یا جہان آخرت

لوگ دو قسم کے ہیں _ ایک گروہ دیندار اور نیکوکاروں کا ہی اور دوسرا بے دین اور بدکاروں کا ہے

کیا نیکوکار لوگ اور بدکار لوگ اللہ کے نزدیک برابر ہیں اور اپنے کاموں کی سزا نہ پائیں گے ؟ نہیں ایسا ہرگز نہ ہوگا _ اللہ تعالی فرماتا ہے _ خدا کے نزدیک برے اور اچھے لوگ مساوی نہیں ہیں _ ہاں _ خدا ئے قادر مطلق نے ایک اور دنیا خلق کی ہے _ جسے '' جہان آخرت'' کہا جاتا ہے _ جب انسان مرجائے گا تو وہ اس جہاں میں منتقل کردیا جائے گا اگر ہم نیک بنے اور ہم نے اللہ تعالی کے فرمان اور دستور پر عمل کیا تو آخرت میں ہمیں اس کی اچھی جزا ملے گی اور بہشت میں جائیں گے اور خوشی اور آرام سے زندگی وہاں بسر کریں گے اور اگر ہم برے بنے اور ہمنے اللہ تعالی کی نافرمانی کی اور اس کے احکام پر عمل نہ کیا تو برے کاموں کی سزا پائیں گے اور آخرت میں سخت زندگی بسر کریں گے

سوالات

۱_ کیا نیک لوگ اور برے لوگ اللہ کے نزدیک مساوی ہیں ؟

۲_ خدا ہمارے کاموں کی سزا کہاں دے گا؟

۳۷

۳_ نیک لوگ آخرت میں کیسی زندگی بسر کریں گے ؟

۴_ برے لوگ کیسی زندگی بسر کریں گے ؟

۵_ جو لوگ نیک کام کرتے ہیں انہیںخدا کیسا اجر دے گا؟

۶_ جو برا کام کرتا ہے اورلوگوں کو آزار پہونچاتا ہے اس کی سزا کیا ہوگی؟

۷_ اگر ہم اللہ تعالی کے تمام دستور کے مطابق عمل کریں تو آخرت میں ہماری کیا کیفیت ہوگی؟

۸_ کون سے لوگ بہشت میں جائیں گے؟

۹_ جہنم کن لوگوں کا ٹھکانا ہے ؟

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ لوگ دو قسم کے ہیں ایک ... ہے اور ... ہے

۲_ کیا نیکوکار اور بدکار لوگ اللہ کے ... ہیں

۳_ خدائے قادر مطلق نے ایک ... کہا جاتا ہے

۴_ اگر ہم نیک بنے اور اللہ تعالی کے فرمان اور دستور پر عمل کیا تو آخرت ... ملے گی

۵_ اگر ہم برے بنے اور اللہ تعالی کی نافرمانی کی اور اس کے احکام پر عمل نہ کیا تو ... گے

۳۸

چوتھا سبق

ردّ عمل

مسعود نے پہاڑے کے سامنے چیخ کر کہا اچھا اچھا _ مسعود کی آواز پہاڑ سے ٹکرائی اور لوٹ آئی اور جب وہ آواز لوٹی تو گویا پہاڑ بھی کہہ رہا تھا _ اچھا _ اچھا ہمارے تمام کام اسی طرح واپس لوٹتے ہیں _ اور لا محالہ ہماری طرف ہی واپس لوٹتے ہیں اگر ہم نے اچھے کام کئے تو ہماری طرف اچھے کام لوئیں گے اور اگر ہم نے برے کام کئے تو ہماری طرف برے کام لوٹیں گے _ اس کو اردو کے محاورے میں استعمال کریں تو یوں ہوگا _ جیسا کروگے ویسا پاؤگے

تمام کاموں کے اپنی طرف لوٹ آنے کو ہم آخرت میں دیکھیں گے

۳۹

پانچواں سبق

آخرت کی زندگی

آخرت میں ہم زندہ ہوجائیں گے

سعیدہ کی عمر نوسال کی تھی تیسری کلاس میں پڑھتی تھی بہت ہوشیار لڑکی تھی وہ ہمیشہ سوال کرتی اور جواب چاہتی تھی _ ایک دن ماں سے پوچھنے لگی _ اماں جان یہ کیا ہوا صبح ہوتی ہے ناشتہ کرتے ہیں _ باپ کام پر چلے جاتے ہیں _ میں مدرسہ چلی جاتی ہوں _ آپ رات تک کام کرنے میں مشغول ہوجاتی ہیں _ باپ گھر واپس آجاتے ہیں _ رات کا کھانا کھاتے ہیں _ اور دستر خوان لپیٹ کر اس کے بعدسوجاتے ہیں _ کل پھر اسی طرح _ اور پر سوں بھی اسی طرح_ بلکہ پوری عمر اسی طرح : یہ کس لئے اور اس کا فائدہ کیا ہے؟ امان جان؟ ہم کس لئے بڑے ہوتے ہیں _ لڑکیاں عورت بن جاتی ہیں _ لڑکے مرد ہوجاتے ہیں ؟ اور بعد میں بوڑھے ہوجاتے ہیں اور ہماری زندگی ختم ہوجاتی ہے _ یہ تمام کام اس لئے کرتے ہیں تا کہ ہم مرجائیں _ جیسے ہماری دادی مرگئی ہیں _

یہ بے فائدہ اور بے نتیجہ زندگی

ماں نے کہا بیٹی سعیدہ ہماری زندگی اور ہمارے کام بغیر نتیجہ کے نہیں ہیں _ ہم مرجانے سے بالکل فنا نہیں ہوجاتے اور ہماری زندگی ختم نہیں ہوتی بلکہ اس دنیا سے دوسری دنیا کی طرف جاتے ہیں اور وہاں

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عقیدۂ اختیار

اہل تشیع نے اس عقیدہ کو ائمہ معصومین علیہم السلام کے ارشادات کی روشنی میں اختیار کیا ہے، یعنی انسانوں کے کام خود اس کی ذات سے مربوط ہیں اور وہ صاحب اختیار ہے لیکن خواستہ الٰہی بھی اس کے شامل حال ہے او رقضا ء وقدر الٰہی کا اثر بھی ہے۔ جس طرح تمام موجودات کاوجود خدا کے وجود کی بنا پر ہے اور ہر صاحب قدرت کی قوت اور ہر صاحب علم کا علم مرہون لطف الٰہی ہے اسی طرح سے ہر صاحب اختیار کا ارادہ اوراختیار خد ا کے ارادے اور اختیارکے سایہ میں جنم لیتا ہے ۔اسی لئے جب انسان کسی کام کاارادہ کرتاہے تویہ اختیار اور قدرت خداکی طرف سے ہے یا یوں کہاجائے کہ ارادہ وقدرت خدا وندی کے سایہ میں انسان کسی کام کا ارادہ کرکے اس کو انجام دے سکتا ہے اوریہی معنی ہیں۔( وما تشاؤن الا أن یشاء اللّه رب العالمین ) ( ۱ ) ''تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگر یہ کہ عالمین کاپرور دگا ر خدا چاہے''(یعنی تمہا را ارادہ خدا کی چاہت ہے نہ یہ کہ تمہارا کام خدا کی درخواست اور ارادہ کی وجہ سے ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ تکویر آخری آیة

(۲) گم شدہ شما ۔محمد یزدی

۱۰۱

عقیدہ اختیار اور احادیث معصومین علیہم السلام

احمد بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے امام علی رضا علیہ السلا م کی خدمت میں عرض کیا مولا بعض لوگ جبر اور''تفویض ''اختیار مطلق کے قائل ہیں امام علیہ السلام نے فرمایا لکھو !

قال علی ابن الحسینںقال عزوجل:''یا بن آدم بمشیتی کنت انت الذی تشاء بقوتی ادیت الی فرائضی وبنعمتی قویت علی معصیتی جعلتک سمیعاً بصیراً ما أصابکَ من حسنة فمِن اللّه وما أصابکَ من سیئةٍ فمن نفسک وذلکَ أنِّی أولیٰ بحسناتکَ منکَ وأنت أولیٰ بسیئاتک منیِ وذلکَ أنِّی لاأسئل عماأفعل وهم یُسئلون قد نظمت لکَ کلّ شیئٍ تُرید''

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا وند کریم کا فرمان ہے کہ اے فرزند آدم !تم ہمارے خواہش کے تحت ارادہ کرتے ہو اور ہماری دی ہو ئی طاقت سے ہما رے واجبات پر عمل کرتے ہو اور ہماری عطا کردہ نعمتوں کے نا جائز استعمال سے گناہ ومعصیت پر قدرت حاصل کرتے ہو ہم نے تم کو سننے او ر دیکھنے والا بنایا جو بھی نیکی تم تک پہنچے وہ خدا کی جانب سے ہے اور جو بھی برائی وجود میں آئے اس کے ذمہ دار تم ہو کیونکہ میں تمہاری نیکیو ں کے سلسلہ میں تم سے زیادہ حق دار ہوں اور تم اپنی برائی کے بابت مجھے سے زیادہ مستحق ہوکیونکہ میں کچھ بھی انجام دوںگا جو اب دہ نہیں ہوںگا لیکن وہ جو اب دہ ہو ں گے تم نے جو کچھ سوچا ہم نے تمہارے لئے مہیا کر دیا۔( ۱ )

ایک صحابی نے امام جعفر صادق سے سوال کیا کہ کیا خدا نے اپنے بندوں کو ان کے اعمال پر مجبور کیا ہے ۔ اما م نے فرمایا :''اللّهُ أعدل مِن أَن یجبر عبداً علیٰ فعلٍ ثُمَّ یعذّبه علیه''خدا عادل مطلق ہے اس کے لئے یہ بات روانہیں کہ وہ بندو ں کو کسی کا م پر مجبور کرے پھر انہیں اسی کام کے باعث سزادے۔( ۲ )

دوسری حدیث میں امام رضاںنے جبر وتفویض کی تردید کی ہے اور جس صحابی نے یہ سوال کیا تھا کہ کیا خدا نے بندوں کو ان کے اعمال میں مکمل اختیار دیا ہے تو آپ نے جو اب میں فرمایا تھا ۔

''اللّه أعدلُ وأحکم من ذلک'' خدا اس سے کہیں زیادہ صاحب عدل وصاحب حکمت ہے کہ ایسا فعل انجام دے۔( ۳ )

____________________

(۱) اصول کا فی باب امربین الامرین حدیث ۱۲

(۲) بحار الانوار ج ۵ ص ۵۱

(۳) اصول کا فی باب امر بین الامرین حدیث ۳

۱۰۲

جبر واختیار کا واضح راہ حل

عمومی فکر اور عالمی فطرت ،دونوں اختیار پر ایک واضح دلیل ہیں اور اختیار وجبر کے معتقد یں بھی ،عملی میدان میں آزادی اور اختیار ہی کو مانتے ہیںلہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ !

۱۔ تمام لوگ اچھا ئی کرنے والوں کی مدح اور تحسین کرتے ہیں اور برائی کرنے والے کی تحقیر اورتوہین کرتے ہیں ،اگر انسان مجبور ہوتا اور اس کے اعمال بے اختیار

ہو تے تو مدح وتحسین، تحقیر وتوہین کو ئی معنی نہیں رکھتی ۔

۲۔ سبھی لوگ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں کوشش کرتے ہیں اگر انسان مجبور ہو تا تو تعلیم و تربیت کا کوئی مقصد نہیں باقی رہتا ہے۔

۳۔ کبھی انسان اپنے ماضی سے شرمندہ ہو تاہے اور اس بات کاارادہ کرتا ہے کہ ماضی کے بحرانی آئینہ میں مستقبل کو ضرور سنوارے گا ، اگر انسان مجبور ہوتا تو ماضی سے پشیمان نہ ہو تا اور مستقبل کے لئے فکر مند نہ ہو تا ۔

۴۔ پوری دنیا میں مجرموںپر مقدمہ چلا یا جاتاہے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے اگر وہ لوگ اپنے کاموں میں مجبور تھے تو ان پر مقدمہ چلانا یاسزا دینا سراسر غلط ہے ۔

۵۔ انسان بہت سارے کاموں میں غور و خو ض کرتا ہے اور اگر اس کی پرواز فکر کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پاتی تو دوسرے افراد سے مشورہ کرتا ہے۔ اگر انسان مجبور ہو تا توغور وفکر او رمشورت کا کوئی فائدہ نہیں ہے( ۱ )

____________________

(۱) تفسیر نمونہ جلد ۲۶ ص ،۶۴ خلاصہ کے ساتھ۔'' عدالت کے سلسلہ میں ان کتب سے استفادہ کیاگیا ہے ۔ اصول کا فی ،نہج البلا غہ ،پیام قران ،تفیسر نمونہ ،اصول عقائد ''

۱۰۳

سوالا ت

۱۔ جبروتفویض اور عقیدہ اختیار کی تعریف کریں ؟

۲۔ انسان کے مختار ہونے کے بارے میں شیعہ عقیدہ کیا ہے ؟

۳۔ عقیدۂ اختیار کے بارے میں سید سجا د کی حدیث پیش کریں ؟

۴۔ عقیدہ ٔجبر واختیار کاکوئی واضح راہ حل بیان کریں ؟

۱۰۴

پندرہواں سبق

نبوت عامہ (پہلی فصل )

اصول دین کی تیسری قسم نبوت ہے توحید وعدل کی بحث کے بعد انسان کی فطرت ایک رہبر ورہنما اور معصوم پیشوا کی ضرورت محسوس کرتی ہے ۔

یہاں وحی، حاملا ن وحی ا ور جو افراد لوگوں کو سعادت وکمال تک پہنچاتے ہیں ان کی شناخت کے سلسلہ میں بحث کی جائے گی ۔

اس بحث میں سب سے پہلے انسان کووحی کی ضرورت اور بعثت انبیاء کے اغراض ومقاصد نیز ان کی صفات وخصوصیا ت بیان کئے جائیں گے جس کو علم کلام کی زبان میں نبوت عامہ کہتے ہیں۔

اس کے بعد پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت اور ان کی خاتمیت کی بحث ہوگی کہ جس کو نبوت خاصہ کہتے ہیں ۔

وحی اور بعثت انبیاء کی ضرورت

۱) مخلوقات کو پہچاننے کے لئے بعثت لا زم ہے ۔

اگر انسان کا ئنات کو دیکھے تو وہ اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ دنیا کی خلقت بغیر ہدف ومقصد کے ہوئی ہے گزشتہ بحث میں یہ بات گذر چکی ہے کہ خدا حکیم ہے اور عبث وبیکا ر کام نہیں کرتا ۔ کا ئنات کا نظم ،موجودات عالم کا ایک ساتھ چلنا بتاتا ہے کہ تخلیق کا کوئی معین ہدف ومقصد ہے لہٰذا یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ :

۱۔ خدا نے اس دنیا کو کس لئے پیدا کیا او رہما ری خلقت کا سبب کیا ہے ؟

۲۔ ہم کس طر ح سے اپنے مقصد تخلیق تک پہنچیں ، کامیا بی اور سعادت کا راستہ کون سا ہے اور اسے کس طرح سے طے کریں۔ ؟

۱۰۵

۳۔ مرنے کے بعد کیا ہو گا کیا مو ت فنا ہے یا کوئی دوسری زندگی ؟ موت کے بعد کی زندگی کیسی ہو گی ؟ا ن سارے سوالوں کے جواب کے لئے ضروری ہے کہ کوئی خدا کی جانب سے آئے جو سبب خلقت اور راہ سعا دت کی نشان دہی کرے اور موت کے بعد کی زندی کی کیفیت کو ہما رے سامنے اجا گر کرے، انسان اپنی عقل کے ذریعہ دنیوی زندگی کے مسائل حل کر لیتا ہے، لیکن سعادت وکمال تک پہنچنے سے مربوط مسائل اور موت کے بعد کی زندگی اور اخروی حیات جو موت کے بعد شروع ہوگی یہ سب اس کے بس کے باہر ہے ۔

لہٰذا اس حکیم خدا کے لئے ضروری ہے کہ وہ معصوم نبیوں کو ان تما م مسائل کے حل اور کمال تک پہنچنے کے لئے اس دنیا میں بھیجے ۔

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ ایک لا مذہب شخص نے امام صادق سے سوال کیاکہ بعثت انبیا ء کی ضرورت کو کیسے ثابت کریں گے۔ ؟

آپنے فرمایا :ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ہمارے پاس ایساخالق ہے جوتمام مخلوقات سے افضل واعلی ،حکیم وبلند مقام والا ہے چونکہ لوگ براہ راست اس سے رابطہ نہیں رکھ سکتے لہٰذا ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ ا پنی مخلوقات میں رسولو ں کو مبعوث کرتا ہے جو لوگو ں کو ان کے فائدے اور مصلحت کی چیزوں کو بتاتے ہیں اور اسی طرح ان چیزوں سے بھی آگا ہ کرتے ہیں جو انسان کی بقاء کے لئے ضروری ہیں اور ترک میں فناونابودی ہے، لہٰذایہ بات ثابت ہو چکی کہ جو خدا کی جانب سے لوگو ں کے درمیان حکم دینے والے او ربرائیو ں سے روکنے والے ہیں، انہیں کو پیغمبر کہا جا تا ہے۔( ۱ )

امام رضا فرماتے ہیں:جبکہ وجود انسان میں مختلف خواہشات اور متعدد رمزی قوتیں ہیں، مگر وہ چیز جو کما ل تک پہنچا سکے اس کے اندر نہیں پا ئی جا تی اور چونکہ خدا دکھا ئی نہیں دیتا اور لوگ اس سے براہ راست رابطہ نہیں رکھ سکتے، لہٰذا اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ خد اپیغمبروں کو مبعوث کرے جو اس کے احکا م کوبندوں تک پہنچا ئیں اور بندو ں کو اچھا ئیوں کاحکم دیں اور برائیو سے بچنا سکھائیں۔( ۲ )

____________________

(۱) اصو ل کا فی کتاب الحجة با ب اضطرار ا لی الحجة حدیث ،۱

(۲) بحارالانوار جلد ۱۱ ،ص ۴۰

۱۰۶

۲) انسان کے لئے قانو ن تکا مل لا نے کے لئے پیغمبر کی ضرورت۔

انسان کو اپنے مقصد خلقت جوکہ کمال واقعی ہے اس تک پہنچنے کے لئے کچھ قانو ن گذار افراد کی ضرورت ہے جو ان شرائط کا حامل ہو۔

۱۔ انسان کو مکمل طریقہ سے پہچانتا ہو اور اس کے تمام جسمانی اسرار ورموز اس کے احساسات و خواہشات ارادے وشہوات سے مکمل آگاہ ہو ۔

۲۔ انسان کی تمام صلا حیت ، اس کے اندر پو شیدہ خصو صیات اور وہ کمالا ت جو امکا نی صورت میں پائے جا سکتے ہیں سب سے باخبر ہو ۔

۳ ۔انسان کو کمال تک پہنچانے والے تمام اصولو ں کو جانتاہو راہ سعادت میں آڑے آنے والی تمام رکاوٹوں سے آگاہ ہو ، اور شرائط کمال سے باخبر ہو ۔

۴۔ کبھی بھی اس سے خطا ،گناہ اور نسیا ن سرزد نہ ہو ۔ اس کے علا وہ وہ نرم دل مہربان ،شجاع ہو او ر کسی بھی قوت سے مرعوب نہ ہو ۔

۵۔ لوگو ں سے کسی قسم کی منفعت کی توقع نہ رکھتا ہو تاکہ اپنی ذاتی منفعت سے متاثر ہو کر لوگوں کے لئے خلاف مصلحت قانون تیار کردے ۔

جس کے اندر مذکورہ شرائط پائے جاتے ہو ں وہ بہترین قانون گذار ہے کیا آپ کسی ایسے شخص کی نشان دہی کر سکتے ہیں جو جرأت کے ساتھ اس بات کادعوی کر سکے کہ میں انسان کے تمام رموز واسرار سے واقف ہو ں، اس کے بر خلا ف تمام علمی شخصیتوں نے اس بات کااعتراف کیاہے کہ ہم ابھی تک انسان کے اندر پائے جا نے والے بعض رموز تک پہنچ بھی نہیں سکے ہیں ۔ اور بعض نے انسان کو لا ینحل معمہ بتایاہے کیا آپ کی نظر میں کو ئی ایسا شخص ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے انسان کے تمام کمالات کو سمجھ لیا ہے ۔اور کمال تک پہنچنے والے تمام شرائط وموانع کو جانتا ہو ں ۔کیا کوئی ایسا ہے جس سے کسی بھی خطاکا امکان نہ پایا جاتا ہو۔ ؟

۱۰۷

یہ بات بالکل مسلّم ہے کہ اگر دنیامیں تلاش کر یں تب بھی کسی کو نہ پا ئیں گے جس میں مذکورہ تمام شرائط پائے جاتے ہوں یابعض شرطیں ہو ں ،اس کی سب سے بڑی دلیل مختلف مقامات پر متعدد قوانین کا پا یا جاناہے ۔لہٰذا ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ بہترین قانون بنا نے والا صرف اور صرف خدا ہے جوانسان کی خلقت کے تمام اسرار ورموز سے واقف ہے، صرف وہ ہے جودنیا کے ماضی، حال ،مستقبل کو جانتا ہے ۔فقط وہ ہر چیز سے بے نیا زہے اور لوگو ں سے کسی چیز کی توقع نہیں رکھتا وہ خد اہے جو سب کے لئے شفیق و مہربان ہے او رانسانوں کے کمال تک پہنچنے کے تمام شرائط کو جانتا ہے ۔

لہٰذا صرف خدا یا وہ افراد جو براہ راست اس سے رابطہ میں ہیں، وہی لوگ قانون بنانے کی صلا حیت رکھتے ہیں اور اصو ل وقانون کو صرف مکتب انبیاء اور مرکز وحی سے سیکھنا چاہئے ۔

قرآن نے اسی حقیقت کی جا نب اشارہ کیا ہے :(وَلَقَد خَلَقنَا النسانَ وَنَعلمُ مَا تُوَسوِسُ بِہ نَفسُہُ)( ۱ ) اور ہم نے ہی انسان کو خلق کیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نفس کیاکیا وسوسے پیدا کرتا ہے ۔

( وَمَا قَدرُوا اللّهَ حَقَّ قَدرِهِ اِذ قَالُوا مَا أنَزَلَ اللّهُ علیٰ بَشَرٍ مِّن

) ____________________

(۱) سورہ ق آیة: ۱۶

۱۰۸

( شیئٍ ) ( ۱ ) اور ان لوگو ں نے واقعی خدا کی قدر نہیں کی جب کہ یہ کہہ دیاکہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ بھی نہیں نازل کیا ۔

نتیجہ بحث

( اِن الحُکم اِلّا للّهِ ) ( ۲ ) حکم صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔

____________________

(۱) سورہ انعام آیة: ۹۱

(۲) سورہ انعام آیة:۵۷

۱۰۹

سوالات

۱۔ سبب خلقت کو سمجھنے کے لئے بعثت انبیا، کیو ں ضروری ہے ؟

۲۔ کیا انبیاء کا مبعوث ہو نا ضروری ہے حدیث امام صادق نقل کریں ؟

۳۔ بعثت کے لا زم ہونے پر امام رضاںنے کیا فرمایا ؟

۴ ۔ قانون گذار کے شرائط کو بطور خلا صہ بیان کریں ؟

۱۱۰

سولھواں سبق

نبوت عامہ (دوسری فصل )

ہدایت تکوینی اور خواہشات کا اعتدال

انبیاء کی بعثت کا مقصد ،خو اہشات کا اعتدال اور فطرت کی جانب ہدایت کرنا ہے ،اس میں کو ئی شک نہیں کہ انسان خو اہشات اور فطرت کے روبرو ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی ضرورت ہے۔

خواہشات، انسان کے اندر مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہو تے ہیں اور فطرت انسان کو حیوانیت سے نکال کر کمال واقعی تک پہنچاتی ہے اگر فطرت کی ہدایت کی جا ئے تو انسان کمال کی بلندیو ں تک پہنچ جائے گا ،ورنہ خو اہشات سے متاثر ہو کر ذلّت کی پاتال میں غرق ہو جا ئے گا لہٰذا ضروری ہے کہ خواہشات معتدل رہیں اور فطرت کی ہدایت ہو اور بغیر کسی شک وتردید کے اس اہم عہدہ کا ذمہ دار وہی ہوسکتا ہے جو انسان کے اندر کے اسرار ورموز سے مکمل باخبر ہو ۔

خو اہشات کے اعتدال کی راہ ،نیز فطرت کی راہنمائی سے مکمل آگاہوباخبر ہو یہ بات ہم عرض کر چکے ہیں کہ دانشمند وں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انسان اسرار ورموز کا معمہ ہے ۔

نتیجة ً انسان کاپیدا کرنے والا جو کا ئنا ت کابھی مالک ہے صرف وہی تمام خصوصیات سے با خبر ہے اس کے لطف وکرم کا تقاضا ہے کہ نعمتوں کی تکمیل او ر انسان کو کمال کی بلندیو ں تک پہنچنے کے لئے ایسے انبیا ء کو مبعوث کرے جوبراہ راست اس سے وحی کے ذریعہ منسلک ہیں تاکہ انسان کی ہدا یت ہوسکے ۔

۱۱۱

بعثت انبیاء کا مقصد

انبیاء کے عنوان سے قرآن نے چند اصول بیان کئے ہیں ۔

۱۔( هُوَ الّذیِ بَعَثَ فیِ الأمِیینَ رَسُولا مِنهُم یَتلُوا عَلَیهِم آیاتِه وَیُزکیّهِم وَیُعلّمُهُمُ الکِتَابَ والحِکمةَ و اِن کَانُوا مِن قَبلُ لَفِی ضَلاَلٍ مُبینٍ ) ( ۱ ) اس نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو انہیں میں سے تھا تاکہ ان کے سامنے آیا ت کی تلا وت کرے ان کے نفسوں کوپاکیزہ بنائے اور انہیںکتاب وحکمت کی تعلیم دے ،اگر چہ یہ لو گ بڑی کھلی ہو ئی گمراہی میں مبتلا تھے اس میں کو ئی شک نہیں کہ سب سے پہلا زینہ جو انسان کے مادی ومعنوی کمال تک رسائی کا سبب ہے وہ علم ہے او رعلم کے بغیر کمال تک پہنچنا ناممکن ہے ۔

مذکو رہ آیت میں علم سے مراد مادی علوم نہیں ہیں کیونکہ مادی علوم دنیا میں آرام وآسائش کی ضمانت لیتے ہیں اور انبیاء انسان کی سعادت کے لئے دنیوی واخروی دونو ں

____________________

(۱)سورہ جمعہ آیة: ۲

۱۱۲

زندگیو ں کی ضما نت لیتے ہیں۔

خداکی عبادت او رطاغو ت سے اجتناب ومقابلہ( وَلَقَد بَعَثنا فیِ کُلِّ أُمةٍ رَسَوُلاً أَن اعبُدُوا اللّه واَجتَنبُوا الطَّاغُوتَ ) ( ۱ ) ''او ریقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو او رطاغوت سے اجتناب کرو'' ۔

۲۔عدالت وآزادی دلا نا ۔( لَقَدْ أَرسَلَنا رُسُلَنَا بِالبَیّنَاتِ وأَنزَلَنا مَعَهُمُ الکِتابَ وَالمِیزَانَ لَیَقُومَ النَّاسُ بِالقِسطِ ) ( ۲ )

بیشک ہم نے اپنے رسولو ں کو واضح دلا ئل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب ومیزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں ۔ اصل مقصد وہ تمام اصول جنہیں پیغمبروں کے مبعوث ہو نے کا سبب بتایا گیا ہے تمام کے تمام انسان کو کمال تک پہنچانے کے لئے ہیں۔

یعنی انبیاء کے آنے کا اصل مقصد بندوں کو خدا پرست بنانا ہے اور یہ اللہ کی بامعرفت عبادت کے ذریعہ ہی میّسرہے اور انسان کی خلقت کا اصل مقصدبھی یہی ہے( ومَا خَلَقتُ الجِنّ وَالانسَ اِلّا لِیَعبُدونَ ) ( ۳ ) '' ہم نے جنا ت وانسان کو نہیں خلق کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں''۔

پیغمبروں کے پہچاننے کا طریقہ

لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیا ء کا مبعوث ہونا اس بحث کے بعد اب یہ بات

____________________

(۱) سورہ نحل آیة :۳۶

(۲) سورہ حدید آیة:۲۵

(۳) سورہ ذاریا ت،۵۶

۱۱۳

سامنے آتی ہے کہ ہم کیسے پہچانیں کہ نبوت کا دعوی کرنے والااپنے دعوی میں سچا ہے۔؟

اگر کو ئی کسی منصب یاعہدے کا دعوی کرے جیسے ،سفیر ،مجسٹریٹ ، یا ڈی ایم، یا اس جیسا کو ئی اورہو جب تک وہ اپنے دعوی پر زندہ تحریر پیش نہ کرے کوئی بھی اس کے حکم کی تعمیل نہیں کرے گا ۔

مقام رسالت او رسفیر ان الٰہی کا دعوی کرنے والوں کی تو بات ہی دیگر ہے نبوت و رسالت سے بلند مرتبہ اور کیاشی ٔ ہو سکتی ہے ؟ ایک انسان دعوی کرے کہ اللہ کا سفیر ہوں اور خدا نے مجھے زمین پر اپنا نمایندہ بناکر بھیجاہے لہٰذاسبھی کو چاہئے کہ میری اتباع کریں ۔

فطرت کسی بھی شخص کو بغیر کسی دلیل کے دعوی کوقبول کرنے کی اجا زت نہیں دیتی ،تاریخ گواہ ہے کہ کتنے جاہ طلب افراد نے سادہ دل انسانوں کو دھو کا دے کر نبوت ورسالت کا دعوی کیا ہے ،اسی لئے علماء علم کلا م نے پیغمبروں کوپہچاننے کے لئے راستے او رطریقے معین کئے ہیں ،ان میں سے ہر ایک پیغمبروں کو پہچاننے او ران کی حقانیت کے لئے زندہ دلیل ہے ۔

پہلی پہچان :معجزہ ہے علماء کلا م او ردیگر مذاہب کا کہنا ہے کہ معجزہ ایسے حیرت انگیز اور خلا ف طبیعت کام کو کہتے ہیں کہ جسے نبوت کا دعوی کرنے والا اپنے اور خدا کے درمیان رابطہ کو ثابت کرنے کے لئے انجام دیتا ہے او ر تمام لوگو ں کواس کے مقابلہ کے لئے چیلنج کرتا ہے اور ہر شخص اس جیسا فعل انجام دینے سے قاصر ہے لہٰذا معجزہ کے تین رخ ہیں ۔

۱۔ایسا کام جو انسانو ں کی طاقت سے حتیٰ نوابغ دہر کی بس سے باہر ہو ۔

۲۔ معجزہ نبو ت ورسالت کے دعوی کے ساتھ ہو او ر اس کا عمل اس کے دعوی کے مطابق ہو۔

۳۔دنیا والو ںکے لئے اس کا مقابلہ کرنا ''اس کے مثل لانا''ممکن نہ ہو سبھی اس سے عاجز ہو ں ۔

اگر ان تینو ں میں سے کو ئی ایک چیز نہیں پائی جا تی تو وہ معجزہ نہیں ہے ابوبصیر کہتے ہیں کہ ہم نے امام صادق سے پوچھا کہ ،اللہ نے انبیاء و مرسلین اور آپ ''ائمہ '' کو معجزہ کیو ں عطاکیا ؟آپ نے جواب میں فرمایا : تاکہ منصب کے لئے دلیل قرار پائے او رمعجزہ ایسی نشانی ہے جسے خدا اپنے انبیاء ،مرسلین اور اماموں کو عطا کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ جھوٹے او رسچے کی پہچان ہو سکے ۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۱۱ ،ص ۷۱

۱۱۴

سوالات

۱۔ فطرت کی راہنمائی او رخو اہشات کے میانہ روی کے لئے انبیا ء کا ہو نا کیوں ضروری ہے ؟

۲۔ قرآن کی نظر میں پیغمبروں کی بعثت کا مقصد کیا ہے ؟

۳۔ پیغمبروں کے پہچاننے کا راستہ کیا ہے؟

۴۔ معجزہ کیاہے اور اس کے شرائط کیا ہیں بیا ن کریں ؟

۱۱۵

سترہواں سبق

نبو ت عامہ (تیسری فصل )

جا دو ،سحر ،نظر بندی اور معجزہ میں فرق !

جب کبھی معجزہ کے بارے میں بات کی جا تی ہے تو کہا جا تا ہے کہ معجزہ ایک ایسے حیرت انگیز فعل کانام ہے جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معجزہ ، جادو ، سحر نیز نظر بندکرنے والوں کے حیرت انگیزکرتبوں میں کیسے فرق قائم کیا جائے ۔

جو اب :معجزہ اور دوسرے خارق العادت کاموں میں بہت فرق ہے ۔

ا۔ نظر بندی او رجادو گری ایک قسم کی ریاضت کانام ہے اور جادوگر استاد سے جادو سیکھتا ہے لہٰذا ا ن کے کرتب مخصوص ہیںجو انھو ںنے سیکھا ہے وہ فقط اسی کو انجام دے سکتے ہیں اس کے علاوہ کسی کام کو انجام نہیں دے سکتے لیکن نبی ورسول معجزے کو کسی استاد سے نہیں سیکھتے ،لیکن پھر بھی معجزے کے ذریعہ ہرکام انجام دے سکتے ہیں جیسا کہ حضرت صالح سے پہاڑ سے او نٹ نکالنے کوکہاگیا انہو ںنے نکا ل دیا ، جب حضرت مریم سے بیٹے کے بارے میں پوچھا گیا تو حضرت عیسی جوکہ گہوارے میں ابھی چند دن کے تھے فرماتے ہیں :

۱۱۶

( قا لَ أِنِّیِ عَبدُاللّهِ آتٰنی الکِتَابَ وَجَعلَنیِ نَبِیّاً ) ''میں اللہ کابندہ ہو ں اللہ نے مجھے کتا ب دی ہے اور نبی بناکر بھیجاہے''۔( ۱ )

یا جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معجزہ کی مانگ کی گئی تو پتھروں نے آنحضرت کے دست مبارک پرآکر ان کے رسالت کی گواہی دی ۔

۲۔ جادو گر وں یا شعبدہ بازوں کے کرتب زمان ومکان او رخاص شرائط میں محدود ہیں او رمخصوص چیزوں کے وسیلوں کے محتاج ہیں، لیکن پیغمبروںورسولوں کے معجزے چونکہ ان کا سرچشمہ خدا کی لا متناہی قدرت ہے لہٰذا کو ئی محددیت نہیں ہے وہ کبھی بھی کو ئی بھی معجزہ پیش کر سکتے ہیں ۔

۳۔جادوگروں اور نظربندوں کے کام زیادہ تر مادی مقصدکے پیش نظر انجام پاتے ہیں ( چاہے پیسوں کی خاطر ہو یا لوگو ں کو اپنی طرف کھینچنے یا دوسرے امور کے لئے ) لیکن انبیاء کامقصد متدین افراد کی تربیت اور معاشرہ کو نمونہ بنانا ہے ۔ اور وہ لوگ (انبیاء ومرسلین ) کہتے تھے( وَمَاَ أَسئَلُکُم عَلَیهِ مِنْ أَجرٍ اِن أَجرِی اِلَّا علیٰ رَبِّ العَالمِینَ ) ( ۲ ) ''اور میں تم سے اس کی کوئی اجرت بھی نہیں چاہتا ہو ں اس لئے کہ میرا اجر تو عالمین کے رب کے ذمہ ہے'' ۔

۴۔جادوگروںاورشعبدہ بازوںکے کرتبوںکامقابلہ ممکن ہے یعنی دوسرے

____________________

(۱) سورہ مریم آیة :۳۰

(۲) سورہ شعراء آیة:۱۸۰ ،۱۶۴،۱۴۵،۱۲۷،۱۰۹

۱۱۷

بھی اس جیسا فعل انجام دے سکتے ہیں ،لیکن پیغمبروں کے معجزہ کی طرح کوئی غیرمعصوم شخص انجام نہیں دے سکتا ۔

ہر پیغمبر کا معجزہ مخصوص کیو ںتھا ؟

جبکہ ہر نبی ہر حیرت انگیز کام کو انجام دے سکتا تھا اور ان میں سے ہر ایک کے پاس متعد د معجزے تھے مگر ایک ہی کوزیادہ شہرت ملی ۔

ابن سکیت نامی ایک مفکر نے امام ہادی ں سے پوچھا :کیو ں خدا نے موسیٰ بن عمران کو ید بیضا اور جادوگروں جیسا معجزہ دیا؟ حضرت عیسیٰ کو مریضوں کو شفادینا اور مردوںکو زندہ کرنے والا معجزہ عطاکیا؟اور رسول اسلا م کو قران جیسے حیرت انگیز کلام کے مجموعے کے ساتھ لوگوں میں بھیجا۔

امام ںنے فرمایا : جب خدا نے حضرت موسی کو مبعوث کیاتو ان کے زمانے میں جادوکا بول با لا تھا لہٰذا خدانے اس زمانے جیسا معجزہ دیا چونکہ اس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں تھا او راپنے معجزہ کے ذریعہ جادوگروں کے جادو کو شکست دی اور ا ن پر حجت تمام کی ۔

جب جنا ب عیسیٰ لوگوں کی ہدایت کے لئے آئے تواس وقت حکمت وطبابت کا شہرہ تھا لہٰذا خدا کی جانب سے اس زمانے کے مطابق معجزہ لے کر آئے اوراس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں تھا، انھوں نے مردو ں کو زندہ کرکے اور مریضو ں کو شفا دے کر، نابینا کو آنکھ عطاکر کے جذام کودور کرکے تمام لوگوں پر حجت تمام کی ۔

۱۱۸

جب نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت فصاحت وبلا غت کا سکہ چل رہا تھا خطبہ او رانشاء اس وقت کے سکۂ رائج الوقت اور مقبول عام تھے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا کی جانب سے ان کو موعظہ ونصیحت کے حوالے سے گفتگو کی جس کا مقابلہ کرنالوگوں کی سکت میں نہیں تھا، اپنے مواعظ ونصائح کو قرآنی پرتو میں پیش کیا او رباطل خیالات کو نقش بر آب کردیا ۔

دوسری پہچان ۔انبیاء کی شناخت کادوسرا طریقہ یہ ہے کہ جس نبی کی نبوت دلیل کے ذریعہ ثابت ہوچکی ہو وہ اپنے آنے والے نبی کے نام اور خصوصیات کو لوگوں کے سامنے پیش کرے جیساکہ تو ریت وانجیل میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالے سے پیشین گوئیاںکی گئی ہیں ،قرآن ان پیشین گو ئیو ں میں سے حضرت عیسیٰ کے قول کو بطور نمونہ پیش کرتا ہے( وَاِذْ قَالَ عِیسیٰ بنُ مَریَم یا بَنی اِسرائِیلَ اِنِّیِ رَسُوُلُ اللّهِ اِلیکُم مُصَدِّقاً لِمَا بَینَ یَدیَّ مِن التوراةِ ومُبشّراً بِرسُولٍ یَأتِی مِن بَعدیِ اسُمُه أحمدُ ) ( ۱ ) اس وقت کویاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہو ںاپنے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا او راپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہو ں، جس کا نام احمد ہے اسی طرح سورہ اعراف کی آیة ۱۵۷ میں ارشاد ہوا( الذین یتبعون )

____________________

(۱) سورہ صف آیة: ۶

۱۱۹

تیسری پہچان ۔ تیسرا طریقہ انبیاء کو پہچاننے کا وہ قرائن وشواہد ہیںجوقطعی طور پر نبوت ورسالت کوثابت کرتے ہیں ۔

خلا صہ

۱۔جو نبوت کا دعوی کرے اس کے روحانی اور اخلاقی خصوصیات کی تحقیق۔ (مدعی نبوت کی صداقت کی نشانیوں میں سے اعلیٰ صفات او ربلند اخلاق ہو نا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ لوگوں میں نیک چلن اور صاحب کردار کے نام سے جانا جائے)

۲۔ عقلی پیرائے میں اس کے احکام وقوانین کو پرکھاجائے کہ کیا اس کے احکام وقوانین ،الٰہی آئین کے تحت اور معارف اسلام وفضائل انسانی کے مطابق ہیں؟یا اس کی دوسری پہچان ہے ۔

۳۔ اپنے دعوی پہ ثابت قدم ہو ا ور اس کا عمل اس کے قول کاآئینہ دار ہو ۔

۴۔ اس کے ہمنوااور مخالفین کی شناخت ۔

۵۔ اسلو ب تبلیغ کے ساتھ یہ دیکھیں کہ اپنے قوانین کے اثبات کے لئے کن وسائل اور کن راستو ں کاسہارالے رہا ہے ۔

جب یہ تمام قرآئن وشواہد اکٹھا ہو جائیں تو ممکن ہے مدعی نبوت کی نبوت کی یقین کاباعث بنے ۔

سوالات

۱۔ سحر ،نظر بندی، اور معجزہ میں کیا فرق ہے ؟

۲ ۔ ہر نبی کا معجزہ مخصوص کیو ں تھا ؟

۳۔ انبیاء کی شناخت کے قرائن وشواہد کیاہیں ؟

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156