‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) 37%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 156

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 156 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 90278 / ڈاؤنلوڈ: 4347
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

چھٹا سبق

۶ہوشیار لڑکا

حسن تیسری جماعت میں پڑھتا تھا وہ بہت ہوشیار اور چالاک تھا _

وہ اپنا سبق اچھی طرح سمجھنا چاہتا تھا اور ہر چیز میں غور و فکر کرتا تھا _ اگر اسے کوئی چیز سمجھ نہ آتی تو پوچھا کرتا تھا ایک دن استاد کلاس میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے بدن کے لئے مختلف اقسام کی غذا کی ضرورت ہوتی ہے _ غذا ہماری بھوک کو دور کرنے کے علاوہ ہمارے بدن کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے _ ہر ایک غذا کی علیحدہ خاصیت ہوتی ہے _ ہم کو دوڑ نے اور کھیلنے کو دنے کے لئے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے _ بدن کی طاقت ہمیں گرم رکھنے کے ساتھ ہمیں کام کرنے اور کھیلنے کی طاقت بھی پہنچاتی ہے _ بعض غذائیں ہمیں طاقت ہم پہنچاتی ہیں جیسے آلو _ چاول_ مٹھاس_ روغن_ کھجور _ سیب _ کشمش _ بادام و غیرہ ہر آدمی کو ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جو لوگ زیادہ کام کرتے ہیں انہیں ان کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے _ بعض غذائیں بدن کے بڑا ہونے اور طاقت پیدا کرنے کے لئے بہت ضروری ہیں _ جیسے گوشت _ انڈا _ دودھ و غیرہ ہمارا بدن وٹامن اور معدنی اجزاء کا بھی محتاج ہے _پھل فروٹ اور سبزیوں میں وٹامن ہوتی ہے _ گوشت _ دودھ _ جگر _ انڈے اور دوسری بعض سبزیوں میں معدنی اجزا ہوتے ہیں _ ہمارے بدن کو سالم رہنے اور غور کرنے کے لئے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے اور جن چیزوں کی بھی اسے ضرورت ہوتی ہے وہ تمام کی تمام

۲۱

مختلف غذاؤں میں پائی جاتی ہیں _ ہمیں مختلف قسم کے میوے اور غذائیں کھانی چاہیئےا کہ پڑھ سکیں اور صحیح و سالم رہ سکیں _ حسن نے استاد سے اجازت لیتے ہوئے کہا: میرا خیال تھا کہ غذا صرف بھوک کو ختم کرتی ہے _ لیکن اب سمجھ میں آیا کہ ہمارے بدن کی طاقت اور سلامتی میں بھی مختلف غذاؤں کی ضرورت ہوتی ہے _ اب میں متوجہ ہوا کہ ہمیں بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے _ استاد نے کہا کہ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ جن چیزوں کی ہمارے بدن کو ضرورت ہوتی ہے وہ اس دنیا میں موجود ہیں _ مختلف قسم کے میوے _ مختلف قسم کی سبزیاں _ چاول _ گیہوں _ چنے _ دلیں _ بادام یہ تمام چیزیں موجود ہیں _ درخت ہم کو میوے دیتے ہیں _ حیوانات ہمیں دودھ اور گوشت دیتے ہیں _ بچو کون ذات ہے جو ہمارے لئے ان چیزوں کو فراہم کرتی ہے _ اور ہماری تمام ضروریات سے واقف ہے _ جن چیزوں کی ہمیں ضرورت تھی اسے پہلے پیدا کردیا ہے _ تمام شاگردوں نے بیک آواز کہا _ خدا خداخدا _ استاد کہنے لگا _ ہاں _ وہی خدا دانا اور قادر ہے

سوالات

۱_ جب ہمیں کوئی چیز سمجھ نہ آئے تو کیا کریں اور کس سے پوچھیں؟

۲_ آج تم نے صبح کیا غذا کھائی تھی کیا اس غذا کے فوائد بتلاسکتے ہو؟

۳_اگر کچھ دن غذا نہ کھائیں تو کیا حالت ہوجائے گی اور کیوں؟

۴_ تم اپنے بدن کی ضروریات کو گنوا سکتے ہو؟

۵_ اپنے بدن کی ضروریات کو کس طرح پورا کروگے ؟

۲۲

۶_ حیوان اور سبزیاں ہمارے کس کام آتی ہیں؟

۷_ کون سی ذات ہمارے ان چیزوں کو فراہم کرتی ہے ؟

۸_ اس عالم میں ہمارے ذمّے کون سی خدمت انجام دینی لازم قرار دی گئی ہے؟

۲۳

ساتواں سبق

۷ اس کی نعمتیں

ہم منہ رکھتے ہیں کہ جس سے غذا کھاتے ہیں اور اس سے باتیں کرتے ہیں

ہم ہاتھ رکھتے ہیں کہ جس سے غذا اٹھاتے ہیں اور کام کرتے ہیں

ہم آنکھ رکھتے ہیں کہ جس سے دیکھتے ہیں

ہم کان رکھتے ہیں کہ جس سے سنتے ہیں

ہم پاؤں رکھتے ہیں کہ جس سے چلتے اور دوڑتے اور کھیلتے ہیں آیا تمہیں علم ہے کہ

کون سی ذات ہے کہ جو ہماری تمام ضروریات کو جانتی تھی اور انکو ہمارے لئے ضرورت جانتے ہوئے خلق کیا ہے

جو چیز بھی ہماری زندگی کے لئے ضروری تھی اس نے ہمیں عنایت کی ہے اب ان تمام نعمتوں کے عوض ہمارا فرض کیا ہے ؟

مہربان خدا

خدا ہمیں دوست رکھتا ہے _ اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور یہ تمام نعمتیں ہمیں عنایت کی ہیں _ آنکھ دی ہے تا کہ ہم دیکھ سکیں _ کان دیئےیں تا کہ ہم سن سکیں _ زبان دی ہے تا کہ ہم بول سکیں اور غذا کا مزا چکھ سکیں _ پاؤں

۲۴

دیئےیں تا کہ چل سکیں _ ہاتھ دیئےیں تا کہ کام کرسکیں اور دوسروں کی مدد کرسکیں عقل دی ہے تا کہ اچھائی او ر برائی کو سمجھ سکیں _ اگر ہم آنکھ _ کان _ زبان _ ہاتھ پاؤں اور عقل نہ رکھتے تو کس طرح زندگی بسر کرسکتے تھے ؟؟

سوالات

۱_ آنکھ سے کیا کام لیتے ہیں؟

۲_ کان سے کیاکام لیتے ہیں؟

۳_ زبان سے کیا کام لیتے ہیں؟

۴_ ہاتھ سے کیا کام لیتے ہیں؟

۵_ پاؤں سے کیا کام لیتے ہیں؟

۶_ عقل سے کیا کام لیتے ہیں؟

۷_ یہ تمام نعمتیں کس نے ہمیں دی ہیں؟

۸_ کیاخدا ہمیں دوست رکھتا ہے ؟

۹_ کہاں سے معلوم ہوا ہے کہ خدا ہمیں دوست رکھتا ہے ؟

۱۰_ اگر آنکھ نہ ہوتی تو کیا ہوتا ؟

۱۱_ اگر کان نہ ہوتے تو کیا ہوتا ؟

۱۲_ اگر زبان نہ ہوتی تو کیا ہوتا ؟

۱۳_ اگر ہاتھ نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟

۱۴_ اگر پاؤں نہ ہوتے تو کیا ہوتا ؟

۲۵

۱۵_اگر عقل نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ خدا ہمیں ... رکھتا ہے اسنے ہمیں پیدا کیا ہے اور ... کی ہیں

۲_ زبان دی ہے تا کہ ... سکیں اور غذا کا مزا چکھ سکیں

۳_ ہاتھ دیئےیں تا کہ ... اور دوسروں کی ... کرسکیں

۴_ عقل دی ہے تا کہ ... سمجھ سکیں

۲۶

آٹھواں سبق

۸ اللہ کی نعمتیں

خدا مہربان ہے اس نے ہمیں بہت کی نعمتیں دی ہیں _ ہوا پیدا کی تا کہ سانس لے سکیں _ پانی پیدا کیا تا کہ اسے پیئں اور اپنے آپ کو دھوئیں _ درخت اور جڑی بوٹیاں پیدا کیں _تا کہ میھٹے اور خوش ذائقہ میوے کھائیں اور عمدہ غذائیں بنائیں _ اگر ہوا پانی درخت نہ ہوتے تو ہم کیسے زندہ رہتے _ خدا ہم پر بہت مہربان ہے کہ جس نے ہمیں یہ نعمتیں فائدہ حاصل کرنے کے لئے عنایت کیں _ ہم بھی شفیق اور مہربان خدا سے محبت کرتے ہیں اور اس کا شکر ادا کرتے ہیں _ خدا ہم پر مہربان ہے اور ہماری اچھائی اور ترقی چاہتا ہے _ ہم بھی اللہ تعالی کے دستور کی پیروی کرتے ہیں تا کہ ہمیشہ کے لئے سعادت مند زندگی بسر کرتے رہیں _

سوالات

۱_ کس طرح ہمیں معلوم ہوا ہے کہ خدا ہم پر مہربان ہے ؟

۲_ خدا کا شکر کیوں ادا کریں؟

۳_ اللہ تعالی کی پانچ نعمتوں کا نام بتایئے

۴_ اگر سعادتمند ہونا چاہیں تو کس کے دستور پر عمل کریں؟

۲۷

مندرجہ ذیل جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ خدا ... ہے اس نے ہمیں بہت ... دی ہیں

۲_ ہوا پیدا کی تا ... ... پانی پیدا کیا تا

۳_ ہم بھی شفیق اور مہربان خدا ...

۴_ خدا ہم پر مہربان اور ہماری ... چاہتا ہے

۵_ ہم بھی اللہ تعالی کے ... کرتے ہیں تا کہ ... زندگی بسر کرتے ہیں

۲۸

نواں سبق

۹ علیم اور قادر خدا

ہمارا جسم مختلف قسم کی غذاؤں کا محتاج ہے_ اگر مختلف غذائیں نہ ہو تیں تو ہم کیا کرتے؟

بدن کی سلامتی کے لئے کچھ مقدار پانی پیتے ہیں اگر پانی نہ ہوتا تو ہم کیا کرتے ؟

اگر منہ نہ ہوتا : کہ جس سے پانی پیتے ہیں : تو کیا کرتے ؟

اگر دانت نہ ہوتے : کہ جس سے غذائیں چباتے ہیں تو کیا کرتے ؟ لیکن خوش بختی سے ہماری زندگی کی تمام وسائل اور ضروریات اس دنیا میں موجود ہیں _ مختلف قسم کے میوے کہ جن کی ضرورت ہے موجو د ہیں _ مختلف قسم کی سبزیاں کہ جن کی ضرورت ہے موجود ہیں _ پیاسے ہوتے ہیں تو پانی موجود ہے _ منہ موجود ہے کہ جس سے غذا کھاتے ہیں _ ہاتھ ہیں کہ جس سے غذا اٹھا کر منہ میں رکھتے ہیں _ معدہ اور آنتیں موجود ہیں جو غذا کو ہضم کرتی ہیں _ آنکھیں ہیں جس سے دیکھتے ہیں _ کان ہیں جس سے سنتے ہیں _ زبان رکھتے ہیں جس سے بولتے اور غذا کامزالیتے ہیں _ جو چیز بھی ہماری سلامتی اور رشد کے لئے ضروری تھی اس دنیا میں موجود ہے _

ان روابط اور ترتیب اور نظم سے جو ہمارے اور دوسرے جہاں میں موجودات کے ساتھ برقرار ہے اس سے ہم سمجھتے ہیں کہ

کوئی ذات عالم اور قادر ہے کہ جس نے ہمیں خلق کیا ہے اور وہ ذات ہماری فکر

۲۹

میں پہلے سے تھے اور ہماری تمام ضروریات کو جانتی تھی اور وہ ذات خداوند عالم کی ہے کہ جو دانا اور توانا ہے اگر دانا اور عالم نہ ہوتا تو اسے معلوم نہ ہوتا کہ ہمیں کن چیزوں کی ضرورت ہے _ اور اگر توانا اور قادر نہ ہوتا تو ان چیزوں کو کہ جن کی ہمیں ضرورت تھی پیدا نہیں کر سکتا تھا _ اب ہم سمجھے کہ خدا عالم ہے یعنی دانا ہے اور خدا قادر ہے یعنی توانا ہے _

نظم و ترتیب

سورج نکلتا ہے گھاس اگتی ہے _ حیوانات گھاس کھاتے ہیں اور ہم انکے دودھ اور گوشت سے استفادہ کرتے ہیں _ پس سورج _گھاس _ حیوان اور انسان کے درمیان ایک ربط ہے

اگر سورج نہ نکلتے تو کیا ہوگا؟

اگر گھاس نہ اگے تو کیا ہوگا؟

اگر حیوانات نہ ہوں تو کیا ہوگا؟

یہ ربط جو ہمارے اور دنیا کے دوسرے موجودات کے درمیان ہے اس سے کیا سمجھتے ہیں:

کون سی ذات ہماری ضروریات کو جانتی تھی اور ان کو ہمارے لئے خلق کیا ہے _

کیا وہ ذات عالم و قادر ہے

۳۰

کیسے جانا کہ وہ دانا اور توانا ہے؟

اگر وہ دانا نہ ہوتا تو اسے معلوم نہ ہوتا کہ

اگر توانا اور قادر نہ ہوتا تو وہ قدرت نہ ...

جی ہاں: وہ ذات دانا بھی ہے اور توانا بھی اور وہ ذات خدا کی ہے :

وہ مہربان ہے اور عطا کرنے والا ہے

ہم بھی اسے بہت دوست رکھتے ہیں اور اس کے حکم اور فرمان کو مانتے ہیں تا کہ ہمیشہ زندگی با سعادت بسر کرسکیں_

۳۱

دسواں سبق

۱۰ میرا بہترین دوست

اس عنوان سے فارسی نظم پیش خدمت ہے

بارالہا دوست می دارم ترا ---- ای با جان و دل من آشنا

ای خدای بے شریک و بے قرین ---- درمیان دوستانم بہترین

نام زیبائے ترا دارم بہ لب ---- شکر می گویم ترا ہر روز و شب

آفریدی آسمانہا را چہ خوب ---- اختران و کہکشانہا را چہ خوب

آفریدی شب چراغ ماہتاب ---- از تو گرما بخش ماشد آفتاب

آفریدی بس شگوفان و قشنگ --- بوتہ ہا گلہا بہ صدہا شکل و رنگ

از برایم آفریدی رایگان ---- ہم پدر ہم مادری بس مہربان

این زبان و چشم و گوش و پا و دست ---- دارم از لطف تو ہر نعمت کہ ہست

مہربانااے خدائے خوب من! ---- دادہ ای تو این ہمہ نعمت بہ من

پس تو ہم بسیار داری دوستم ---- ای خدا اے مہربانتر دوستم

دادگر یارتوانائی منی؟؟ ---- بہترین ہمراہ دانای منی

ای کہ ہستی برتر از افکار من ---- آشناتر کن مرابا خویشتن

(حسان)

حبیب اللہ چایچیان

۳۲

دوسرا حصّہ

معاد ''یعنی'' قیامت

۳۳

پہلا سبق

بطخیں کب واپس لوٹیں گی

داؤد اور سعید اپنے باپ کے ساتھ باغ میں گئے _ سردی کا زمانہ تھا درختوں کے پتے خشک اور بے جان ہو کر زمین پر گرے پڑے تھے _ باپ نے کہا پیارے بیٹو درختوں کو دیکھو یہ سرسبز نہیں ہیں _ ان کے سرسبز پتے تمام خشک ہوچکے ہیں _ اور بے جان ہوکرزمین پر گر پڑے ہیں _ وہ خوبصورت بطخیں بھی یہاں سے چلی گئی ہیں _ داؤد نے پوچھا _ ابا جان کیا بطخیں اب پھر یہاں نہیں آئیں گی ہم بطخوں کو نہیں دیکھ سکیں گے باپ نے جواب دیا کیوں نہیں جب بہار کا موسم آئے گا اور خدا اس باغ کو دوبارہ شاداب کرے گا اوریہ سرسبز ہوجائے گا تو بطخیں بھی دوبارہ لوٹ آئیں گی _ سعید نے پوچھا ابا جان : ہم بھی جب مرجائیں گے تو خدا ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا ؟ باپ نے کہا_ جی ہاں_ ہم بھی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گے اور اپنے کئے کا نتیجہ دیکھیں گے _ نیک لوگ جنت میں اور برے لوگ جہنم میں جائیں گے _

سوالات

۱_ داؤد اور سعید باپ کے ساتھ کس موسم باغ میںگئے ؟

۲_کیا سردی کے موسم میں باغ سرسبز اور شاداب تھا؟

۳۴

۳_ درختوں کے پتے کس موسم میں بے جان ہوکر گر پڑتے ہیں؟

۴_ باپ نے درختوں کے بارے میں داؤد اور سعید سے کیا کہا؟

۵_ اس باغ سے بطخیں کیوں چلی گئی تھیں؟

۶_ باغ کس موسم میں سرسبز ہوتا ہے ؟

۷_ کیا بطخیں دوبارہ واپس لوٹ آئیں گی ؟

۸_ کون سی ذات باغ کو دوبارہ سرسبز و شاداب کرتی ہے؟

۹_ جب ہم مرجائیں گے تو دوبارہ کون زندہ کرے گا؟

۱۰_ جب خدا ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا تو ہم کہاں جائیں گے ؟

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ سردی کا زمانہ تھا درختوں کے ہو کر زمین پر گر پڑے تھے

۲_ ان کے سرسبز ... گر چکے ہیں

۳_ جب بہار کا ... آئے گا تو وہ اس باغ کو ... کرے گا

۴_ باپ نے کہا جی ہاں ہم بھی ... ہوں گے اوراپنے کئے کا نتیجہ دیکھیں گے

۵_ نیک لوگ ...اور برے لوگ ... جائیں گے

۳۵

دوسرا سبق

دو قسم کے لوگ

۱_ بعض لوگ خدا کو دوست رکھتے ہیں اور دیندار ہیں _ سچ بولتے ہیں اچھے کام بجالاتے ہیں _ لوگوں کے ساتھ مہربانی کرتے ہیں ضعیفوں کی مدد کرتے ہیں _ کسی کو آزار نہیں پہونچاتے _ ظالموں کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں _ خدا ان کو دوست رکھتا ہے

۲_ بعض لوگ بے دین اور جھوٹے ہوتے ہیں _ لوگوں کو آزار پہونچاتے ہیں _ برے کام انجام دیتے ہیں_ لوگوں کو مال زبردستی چھیں لیتے ہیں مظلوموں اور بیچاروں کی مدد نہیں کرتے

خدا ان کو دوست نہیں رکھتا

۳۶

تیسرا سبق

معاد یا جہان آخرت

لوگ دو قسم کے ہیں _ ایک گروہ دیندار اور نیکوکاروں کا ہی اور دوسرا بے دین اور بدکاروں کا ہے

کیا نیکوکار لوگ اور بدکار لوگ اللہ کے نزدیک برابر ہیں اور اپنے کاموں کی سزا نہ پائیں گے ؟ نہیں ایسا ہرگز نہ ہوگا _ اللہ تعالی فرماتا ہے _ خدا کے نزدیک برے اور اچھے لوگ مساوی نہیں ہیں _ ہاں _ خدا ئے قادر مطلق نے ایک اور دنیا خلق کی ہے _ جسے '' جہان آخرت'' کہا جاتا ہے _ جب انسان مرجائے گا تو وہ اس جہاں میں منتقل کردیا جائے گا اگر ہم نیک بنے اور ہم نے اللہ تعالی کے فرمان اور دستور پر عمل کیا تو آخرت میں ہمیں اس کی اچھی جزا ملے گی اور بہشت میں جائیں گے اور خوشی اور آرام سے زندگی وہاں بسر کریں گے اور اگر ہم برے بنے اور ہمنے اللہ تعالی کی نافرمانی کی اور اس کے احکام پر عمل نہ کیا تو برے کاموں کی سزا پائیں گے اور آخرت میں سخت زندگی بسر کریں گے

سوالات

۱_ کیا نیک لوگ اور برے لوگ اللہ کے نزدیک مساوی ہیں ؟

۲_ خدا ہمارے کاموں کی سزا کہاں دے گا؟

۳۷

۳_ نیک لوگ آخرت میں کیسی زندگی بسر کریں گے ؟

۴_ برے لوگ کیسی زندگی بسر کریں گے ؟

۵_ جو لوگ نیک کام کرتے ہیں انہیںخدا کیسا اجر دے گا؟

۶_ جو برا کام کرتا ہے اورلوگوں کو آزار پہونچاتا ہے اس کی سزا کیا ہوگی؟

۷_ اگر ہم اللہ تعالی کے تمام دستور کے مطابق عمل کریں تو آخرت میں ہماری کیا کیفیت ہوگی؟

۸_ کون سے لوگ بہشت میں جائیں گے؟

۹_ جہنم کن لوگوں کا ٹھکانا ہے ؟

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ لوگ دو قسم کے ہیں ایک ... ہے اور ... ہے

۲_ کیا نیکوکار اور بدکار لوگ اللہ کے ... ہیں

۳_ خدائے قادر مطلق نے ایک ... کہا جاتا ہے

۴_ اگر ہم نیک بنے اور اللہ تعالی کے فرمان اور دستور پر عمل کیا تو آخرت ... ملے گی

۵_ اگر ہم برے بنے اور اللہ تعالی کی نافرمانی کی اور اس کے احکام پر عمل نہ کیا تو ... گے

۳۸

چوتھا سبق

ردّ عمل

مسعود نے پہاڑے کے سامنے چیخ کر کہا اچھا اچھا _ مسعود کی آواز پہاڑ سے ٹکرائی اور لوٹ آئی اور جب وہ آواز لوٹی تو گویا پہاڑ بھی کہہ رہا تھا _ اچھا _ اچھا ہمارے تمام کام اسی طرح واپس لوٹتے ہیں _ اور لا محالہ ہماری طرف ہی واپس لوٹتے ہیں اگر ہم نے اچھے کام کئے تو ہماری طرف اچھے کام لوئیں گے اور اگر ہم نے برے کام کئے تو ہماری طرف برے کام لوٹیں گے _ اس کو اردو کے محاورے میں استعمال کریں تو یوں ہوگا _ جیسا کروگے ویسا پاؤگے

تمام کاموں کے اپنی طرف لوٹ آنے کو ہم آخرت میں دیکھیں گے

۳۹

پانچواں سبق

آخرت کی زندگی

آخرت میں ہم زندہ ہوجائیں گے

سعیدہ کی عمر نوسال کی تھی تیسری کلاس میں پڑھتی تھی بہت ہوشیار لڑکی تھی وہ ہمیشہ سوال کرتی اور جواب چاہتی تھی _ ایک دن ماں سے پوچھنے لگی _ اماں جان یہ کیا ہوا صبح ہوتی ہے ناشتہ کرتے ہیں _ باپ کام پر چلے جاتے ہیں _ میں مدرسہ چلی جاتی ہوں _ آپ رات تک کام کرنے میں مشغول ہوجاتی ہیں _ باپ گھر واپس آجاتے ہیں _ رات کا کھانا کھاتے ہیں _ اور دستر خوان لپیٹ کر اس کے بعدسوجاتے ہیں _ کل پھر اسی طرح _ اور پر سوں بھی اسی طرح_ بلکہ پوری عمر اسی طرح : یہ کس لئے اور اس کا فائدہ کیا ہے؟ امان جان؟ ہم کس لئے بڑے ہوتے ہیں _ لڑکیاں عورت بن جاتی ہیں _ لڑکے مرد ہوجاتے ہیں ؟ اور بعد میں بوڑھے ہوجاتے ہیں اور ہماری زندگی ختم ہوجاتی ہے _ یہ تمام کام اس لئے کرتے ہیں تا کہ ہم مرجائیں _ جیسے ہماری دادی مرگئی ہیں _

یہ بے فائدہ اور بے نتیجہ زندگی

ماں نے کہا بیٹی سعیدہ ہماری زندگی اور ہمارے کام بغیر نتیجہ کے نہیں ہیں _ ہم مرجانے سے بالکل فنا نہیں ہوجاتے اور ہماری زندگی ختم نہیں ہوتی بلکہ اس دنیا سے دوسری دنیا کی طرف جاتے ہیں اور وہاں

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

بعثت کے چودہ سوسال گذرنے کے بعد بھی اسلا م کے اربوں جانی دشمن اور لیچڑ قسم کے لوگ نت نئی سازشیں مسلمانوں کے خلا ف کیاکرتے ہیں ۔

اگر ان میں طاقت ہو تی توقرآن کے جیسا سورہ لے آتے اور یقینا اس کے ذریعہ اسلام سے نبر د آزما ہوتے ۔علم بلا غت کے ماہر افراد نے اعتراف کیاہے کہ قرآن کاجواب لا ناناممکن ہے اس کی فصاحت وبلا غت حیرت انگیز ہے اس کے احکام وقوانین مضبوط ،اس کی پیشین گوئیاں اور خبریں یقینی او رصحیح ہیں، بلکہ زمان ومکان وعلم سے پرے ہیں ۔

یہ خو د اس بات کی بین دلیل ہے کہ یہ انسان کا گڑھا ہو ا کلا م نہیں ہے بلکہ ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ ہے۔

اعجاز قرآن پر تاریخی ثبو ت

جب قرآن نے ان آیتوں کے ذریعہ لوگو ں کو چیلنج کیا تو اس کے بعد اسلام کے دشمنوں نے تمام عرب کے فصیح وبلیغ افراد سے مددمانگی لیکن پھر بھی مقابلہ میں شکست کاسامنا کرنا پڑا اورتیزی سے عقب نشینی کی۔ ان لوگو ں میں سے جومقابلہ کے لئے بلا ئے گئے تھے ولید بن مغیرہ بھی تھا، اس سے کہا گیا کہ غور وخوض کرکے اپنی رائے پیش کرو ولید نے پیغمبر اسلا م سے درخو است کی کہ کچھ قرآنی آیا ت کی تلاوت کریں رسول نے حم سجدہ کی چند آیتوں کی تلا وت کی ۔ ان آیا ت نے ولید کے اندرکچھ ایسا تغییر وتحول پیدا کیاکہ وہ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھا اوردشمنو ں کے بیچ جا کر کہنے لگا خداکی قسم محمد سے ایسی بات سنی جونہ انسانوں کے کلام جیسا ہے او رنہ پریوں کے کلام کی مانند ۔

واِنَّ له لحلاوة وأَنَّ علیه لطلاوة واِنَّ أعلاه لمُثمر وأنَّ أسفله لمغدق أَنّه یعلو ولا یُعلیٰ علیه''اس کی باتوں میں عجیب شیرنی ہے اس کا عجیب سحر ابیان لب ولہجہ ہے اس کی بلندی ایک پھل دار درخت کی مانند ہے اس کی جڑیں مضبوط اور مفید ہیں، اس کا کلام سب پر غالب ہے کسی سے مغلو ب نہیں ''یہ باتیں اس بات کا سبب بنی کہ قریش میں یہ چہ میگو ئیاں شروع ہو گئیں کہ ولید محمد کا شیدائی اورمسلمان ہوگیا ہے ۔

۱۴۱

یہ نظریہ مشرکین کے عزائم پر ایک کا ری ضرب تھی لہٰذا اس مسئلہ پرغور و خو ض کرنے کے لئے ابو جہل کا انتخاب کیا گیا وہ بھی ولید کے پاس آیا اور مشرکین مکہ کے درمیان جو خبر گشت کر رہی تھی اس سے ولید کو باخبر کیا اور اس کو ان کی ایک میٹینگ میں بلا یا وہ آیا اورکہنے لگا تم لوگ سوچ رہے ہو کہ محمد مجنون ہیں کیا تم لوگوں نے ان کے اندر کو ئی جنون کے آثار دیکھے ہیں ؟۔

سب نے ایک زبان ہو کر کہا نہیں ، اس نے کہا تم سوچتے ہو وہ جھو ٹے ہیں (معاذاللہ) لیکن یہ بتائو کہ کیا تم لوگوں میں سچے امین کے نام سے مشہور نہیں تھے۔ ؟

بعض قریش کے سرداروں نے کہا کہ محمد کو پھر کس نام سے یاد کریں ؟ ولید کچھ دیر چپ رہا پھر یکا یک بولا اسے جادوگر کہو کیو ں کہ جو بھی اس پر ایمان لے آتا ہے وہ سب چیز سے بے نیاز ہو جا تا ہے مشرکین نے اس ناروا تہمت کو خوب ہوادی تاکہ وہ افراد جوقرآن سے مانوس ہو گئے تھے انھیں پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے الگ کر دیا جائے لیکن ان کی تمام سازشیں نقش بر آب ہو گئیں اور حق وحقیقت کے پیاسے جوق در جوق پیغمبر کی خدمت میں آکر اس آسمانی پیغام اور اس کی دلکش بیان سے سیراب ہونے لگے ۔

جادوگر کا الزام در حقیقت قرآن کے جذّاب اور ہر دل عزیز ہو نے کا ایک اعتراف تھا، انھوں نے اس کشش کو جادو کانام دے دیا جبکہ اس کا جادو سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں تھا ۔

قرآن علوم کا خزانہ ہے ۔ فقہ کی کتا ب نہیں ہے مگر بندوںکے قانون عبادت ،او رسیاسی و معاشرتی جزاوسزا اور اجرای احکام سب اس میں پائے جا تے ہیں فلسفہ کانصاب نہیں مگر فلسفہ کی بہت ساری دلیلیں اس میں ہیں ،علم نجوم کی کتاب نہیں پھر بھی ستارہ شناسی کے بہت ظریف اور باریک نکا ت اس میں پائے جا تے ہیں جس نے دنیا کے تمام مفکروں کو اپنی جانب کھینچ لیاہے۔

علم حیاتیات کا مجموعہ نہیں پھر بھی بہتیری آیات اس حوالے سے موجود ہیں لہٰذ اقرآن معجزہ ہے او ران علوم سے ارفع واعلی ہے ۔

۱۴۲

اگر نزول قرآن کی فضاپر غور کی جائے تو پیغمبر اسلا م اور قرآن کی عظمت میں مزید اضافہ ہوگا ۔

اس ماحول میں جہا ں بہت کم لوگ پڑھے لکھے تھے وہاںایک ایسا شخص اٹھا جس نے نہ دنیا وی مدرسہ میں علم حاصل کیا نہ کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا اور ایسی کتاب لیکر آیا کہ چودہ سوسال بعد بھی علماء او رمفکرین اس کے معنی ومطلب کی تفسیر میں جوجھ رہے ہیں اور ہر زمانے میں اس سے نئے مطالب کا انکشاف ہو تا ہے۔

قرآن نے اس دنیاکو اس طرح تقسیم کیاکہ جوبہت ہی دقیق او رمنظم ہے توحید کو بہ نحو احسن بیان کیازمین وآسمان کی تخلیق کے اسرار ورموز اور انسان کی خلقت اوردن ورات کی خلقت کے راز کو خد اکے وجود کی نشانیاں قرار دیتے ہو ئے مختلف طریقہ سے ذکر کیا ہے کبھی فطری توحید توکبھی استدلال توحید پر بحث کی ہے یہ پوری کائنات خدا کے ہاتھ میں ہے اسے بہت طریقہ سے بیا ن کیاہے جب معاد اور قیامت کی بات آتی ہے تو مشرکین کے تعجب پر فرمایا ہے : کیا جس نے اس زمین وآسمان کو ان عظمتوں کے ساتھ پیدا کیا اس کے لئے یہ ممکن نہیںکہ تم جیسا خلق کردے جی ہاں پیداکرنے والا قادر اور صاحب حکمت ہے اور اس کی طاقت اس حد تک ہے کہ جس چیز کا ارادہ کرے اور اسے حکم دے دے ہوجابس وہ فوراً وجود میں آجاتی ہے ۔

۱۴۳

خلاصہ یہ کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ جسے لانے والے (پیغمبر ) اور تفسیر کرنے والے (ائمہ معصومین ) کے علا وہ اس کا مکمل علم کسی کے پاس نہیں اس کے باوجود قرآن ہمیشہ ہم لوگوں کے لئے بھی ایک خاص چاشنی رکھتا ہے چونکہ دلوںکی بہار ہے لہٰذا جتناہی پڑھیں گے اتنا ہی زیادہ لطف اندوز ہوںگے جی ہاں قرآن ہمیشہ نیا ہے اور ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے چونکہ یہ پیغمبر اسلام کا دائمی معجزہ ہے ۔

حضرت امیر نے قرآن کے بارے میں فرمایا :واِنَّ القرآنَ ظاهره أنیق وباطنه عمیق لا تُفنیٰ عجائبه ولاتنقضیِ غرائبه ( ۱ )

''بیشک قرآن ظاہر میں حسین اورباطن میں عمیق ہے اس کے عجائبات انمٹ ہیں''۔

اس کے غرائب اور اس کی تازگی میں ہمیشگی ہے وہ کبھی کہنہ او رفرسودہ نہ ہوگی ۔

نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۷۵میں آیا ہے (فیه ربیع القلب وینابیع العلم وماللقلب جلا ء غیره )دلوں کی بہار قرآن میں ہے اس میں دل کے لئے علم کے چشمے ہیں اس کے علا وہ کوئی نور موزون نہیں ہے ۔

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیوں قرآن کی ترویج اور اس میں تفحص کے ساتھ ساتھ اس کی تازگی اور بالیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے ؟

امام نے فرمایا:''لان الله تبارک و تعالیٰ لم یجعله لزمان دون زمان و لالناس دون ناس فهو فی کل زمان جدید و عند کل قوم

____________________

(۱) نہج البلا غہ خطبہ ۱۸

۱۴۴

غض الی یوم القیٰمة ''

''اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کو کسی خاص زمانہ اور کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں کیا (بلکہ یہ کتابِ الٰہی تمام زمانے اور تمام انسانوں کے لئے ہے)پس قرآن ہر زمانہ کے لئے جدید اور تمام انسانوں کے لئے قیامت تک زندہ ہے۔''

سوالات

۱۔ خصوصیات قرآن بیان کریں ؟

۲۔ اعجاز قرآن کے سلسلہ میں ولید کا قصہ بیا ن کریں ؟

۳۔ امیر المومنین نے قرآن کے سلسلہ میں کیا فرمایا ؟

۱۴۵

بائیسواں سبق

نبوت خاصہ (دوسراباب )

خاتمیت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلسلہ رسالت کی آخری کڑی ہیں، نبوت کاسلسلہ ان پر خدا نے ختم کردیااور اسی لئے ان کا لقب بھی خاتم الانبیاء ہے (خاتمِ چاہے زیر ہو یا زبر خاتَم، کسی طرح بھی پڑھا جائے اس کے معنی کسی کام کا اتمام یاختم ہونا ہے، اسی بناپر عربی میں انگوٹھی کوخاتم کہا جاتا ہے چونکہ انگوٹھی اس زمانے میں لوگوں کے دستخط اور مہر کا مقام رکھتی تھی او رجب کہیں خط لکھتے تو اس کے آخر میں اپنی انگوٹھی سے مہر لگا دیتے تھے ۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی نبوت کا اختتام بھی ایک اسلامی ضرورت ہے اور اسے ہر مسلمان مانتا ہے کہ اب حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، اس اصل پر تین دلیل ہے ۔

۱۔ خاتمیت کا لا زم او رضروری ہونا۲۔ قرآن کی آیتیں ۳۔ بہت ساری حدیثیں

۱۔خاتمیت کا ضروری ہو نا:اگر کسی نے اسلا م کو دلیل ومنطق کے ذریعہ مان لیا تو اس نے خاتمیت پیغمبر اسلا م کو بھی قبول کر لیا، اسی لئے مسلمانو ں کا کو ئی فرقہ کسی نئے پیغمبر کے انتظار میں نہیں ہے یعنی خاتمیت مسلمانو ں کی نظر میں ایک حقیقی اورضرور ی چیز ہے ۔

۱۴۶

۲۔قرآن کی آیتیں:( مَاکَانَ مُحمَّدُ أَبَا أحدٍ مِنْ رِجالِکُم وَلکنْ رَسُولَ اللّهِ وخَاتَم النَبِیینَ ) محمد تم مردو ں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں۔( ۱ ) ( وَمَا أَرسَلنَا ک اِلَّا کَافَةً للنَّاسِ ) (اور پیغمبر ہم نے آپ کو تمام لوگو ں کے لئے بھیجا ہے۔( ۲ )

۳۔ احادیث : حدیث منزلت جسے شیعہ وسنی دونو ں نے پیغمبر اسلا م سے نقل کیاہے کہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مولا ئے کا ئنات سے مخاطب ہو کر فرمایا :أنَتَ مِنی بِمنزلة هارون من موسیٰ اِلَّا أَنَّه لا نَبیّ بَعدی : ، تم میرے نزدیک ویسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لئے تھے فرق یہ ہے کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئیگا ۔

معتبر حدیث میں جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ رسو ل خدانے فرمایا میری مثال پیغمبروں کے بیچ بالکل ایسی جیسے کو ئی گھربنایا جائے اور اسے خوب اچھی طرح سجا یا جائے مگر اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی ہو اب جو بھی دیکھے گا کہے گا بہت خوبصورت ہے مگر یہ ایک جگہ خالی ہے میں وہی آخری اینٹ ہو ں اور نبو ت مجھ پر ختم ہے۔( ۳ )

اما م صادق نے فرمایا :حلال مُحمَّد حلال أبداً اِلیٰ یوم

____________________

(۱) سورہ احزاب آیة: ۴۰

(۲) سو رہ سبا آیة: ۲۸۔

(۳) نقل از تفسیر مجمع البیا ن مرحو م طبرسی

۱۴۷

القیامة وحرامه حرام أبداً اِلی یوم القیامة ( ۱ ) ''اِنَّ اللّهَ ختم بنبیّکم النبییَّن فلا نَبیَّ بعده أبداً''

امام صادق نے فرمایا : بیشک اللہ نے تمہا رے پیغمبر کے بعد نبو ت کا سلسلہ ختم کردیا ہے اور اب اس کے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گا ۔( ۲ )

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ کے درمیان فرمایا :أناخاتمُ النبییّن والمُرسلینَ والحُجّة علیٰ جمیع المخلوقین أهل السَّمٰوات والأَرضین'' میں آخری نبی اور آخری الٰہی نمایندہ ہو ں اور تمام اہل زمین وآسمان کے لئے آخری حجت ہو ں''۔( ۳ )

مولائے کا ئنا ت نے نہج البلا غہ کے خطبہ ۹۱ میں فرمایا :''حتیٰ تمت نبیّنا مُحمّد حجتّہ وبلغ المقطع عذرہ ونذرہ''ہاں تک کہ خدا نے ہمارے نبی کے ذریعہ حجت کو تمام کردیااور تمام ضروری احکامات کو ان کے لئے بیا ن کر دیا خطبہ ۱۷۳میں پیغمبر اسلام کے صفات کے سلسلہ میں اس طرح فرمایا :''امین وحیہ وخاتم رسلہ وبشیر رحمتہ'' محمد خداکی وحی کے امین اور خاتم الرسل اور رحمت کی بشارت دینے والے ہیں

____________________

(۱) اصو ل کا فی ج۱، ص ۵۸

(۲) اصول کا فی ج۱،ص ۲۶۹

(۳)مستدرک الوسائل ج۳، ص ۲۴۷

۱۴۸

فلسفہ خاتمیت

ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ انسانیت ہمیشہ تغییر وتحول سے دوچار ہو تی ہے یہ کیسے ممکن ہے ،ایک ثابت اورناقابل تبدیل قانون پوری انسانیت کے لئے جواب دہ ثابت ہو اور یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خاتم النبیین بن جا ئیں

اور دوسرے پیغمبر کی ضرورت نہ پیش آئے !

اس کاجو اب ہم دو طرح سے دیں گے :

۱۔ دین اسلام فطرت سے مکمل ہماہنگی رکھتا ہے اور فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی :

( فَأَقِم وَجهَکَ للدّینِ حَنیفًا فِطرَتَ اللَّهِ التِی فَطَرالنَّاسَ علیها لا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللَّهِ ذَلِکَ الدِّین القَیّمُ وَلَکنَّ أَکثَر النّا سِ لایَعلَمُونَ ) آپ اپنے رخ کو دین کی طرف قائم رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانو ں کو پیدا کیاہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے ۔( ۱ )

جیسے انصاف ، سچائی، ایثار ، درگذر، لطف و کرم ، نیک خصلت ہمیشہ محبوب ہے اور اسی کے مقابل ظلم ، جھوٹ،بے جا اونچ نیچ، بد اخلاقی یہ سب چیزیں ہمیشہ لائق نفرت تھیں اور رہیں گی۔

لہٰذا قوانین اسلام جو کہ انسانوں کی ہدایت کے لئے ہے ہمیشہ اسرار خلقت کی طرح زندہ ہے۔

۲۔ دین اسلام قرآن و اہلبیت کے سہارے ہے ۔ قرآن لامتناہی مرکز علم سے صادر ہوا ہے اور اہل بیت وحی الٰہی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ قرآن و اہل بیت ایک

____________________

(۱)سورہ روم آیت۳۰۔

۱۴۹

دوسرے کے مفسر ہیں ۔ اور رسول اکرم کی حدیث کے مطابق یہ رہبران اسلام ایک دوسرے سے تا قیامت جدا نہیں ہوں گے ۔ لہٰذا اسلام ہمیشہ زندہ ہے ،اور بغیر کسی ردّ و بدل کے ترقی کی راہ پر گامزن اور بشریت کی مشکلات کا حل کرنے والا ہے ۔'' قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا ابدا انهما لن یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض'' میں تمہارے لئے دو گرانقدر چیزیں قرآن و میری عترت چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک ان سے متمسک رہو گے گمراہ نہ ہوگے یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہو نگے یہاں تک حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریںگے۔( ۱ )

____________________

(۱)المراجعات؛سید شرف الدین عاملی۔

۱۵۰

سوالات

۱۔قرآن نے اس دنیا کی تقسیم کس طرح کی ہے مختصر بیان کریں ؟

۲ ۔پیغمبر اسلام کے خاتم النبیین ہونے پر دلیل پیش کریں؟

۳۔ چونکہ دنیا میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں لہٰذا محمد آخری رسول او ر اسلام آخری دین کیسے ہو سکتاہے ؟

۱۵۱

تیئسواں سبق

امامت

دین اسلام کی چوتھی اصل اور اعتقاد کی چوتھی بنیاد امامت ہے لغت میں امام کے معنی رہبر ا ور پیشوا کے ہیں اور اصطلاح میں پیغمبر اکرم کی وصایت وخلافت اور ائمہ معصومین کی رہبری مراد ہے، امامت شیعوں کی نظرمیں اصول دین میں سے ایک ہے اور امام کا فریضہ شیعوں کی نظر میں پیغمبر اسلام کے فرائض کی انجام دہی ہے۔

یعنی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعثت کااور ائمہ کے منصوب ہونے کا مقصد ایک ہے اور جو چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ رسول کو مبعوث کرے وہی چیز اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ خد اامام کو بھی معین کرے تاکہ رسول کی ذمہ داریوںکو انجام دے سکے، امام کے بنیادی شرائط میں سے ہے کہ وہ بے پناہ علم رکھتا ہو اور صاحب عصمت ہو نیز خطا ونسیا ن سے دور ہو اور ان شرائط کے ساتھ کسی شخصیت کا پہچاننا وحی کے بغیر ناممکن ہے اسی لئے شیعہ معتقد ہیںکہ منصب امامت بھی ایک الٰہی منصب ہے اور امام کو خدا کی طرف سے معین ہو نا چاہئے لہٰذا امامت او رخلافت کی بحث ایک تاریخی گفتگو نہیں ہے بلکہ حکومت اسلامی کی حقیقت او رپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اختتام دنیا تک حکو مت کرنا ہے اور ہماری آئندہ کی زندگی سے مکمل طور پر مربوط ہے، اسی طرح یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعداعتقادی اور فکری مسائل میں لوگ کس کی طرف رجوع کریں ۔

شیعوںکاکہنا ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد حضرت علی علیہ السلا م اور ان کے بعد ان کے گیارہ فرزند ایک کے بعد ایک پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی جانشین ہیں، شیعہ او رسنی کے درمیان یہی بنیادی اختلاف ہے ۔

ہمارا اصل مقصد اس بحث میں یہ ہے کہ امامت پر عقلی، تاریخی ،قرآنی اور سنت نبوی سے دلیلیں پیش کریںکیونکہ ہم ا س بات کے معتقد ہیںکہ اسلام حقیقی کانورانی چہرہ مذہب شیعہ میں پایا جاتا ہے اورصرف شیعہ ہیں جو حقیقی اسلا م کو اپنے تمام ترکمالات کے ساتھ پوری دنیا میں پہچنوا سکتے ہیں لہٰذا ہمیں اس کی حقانیت کو دلیل ومنطق کے ذریعہ حاصل کرنا چاہئے ۔

۱۵۲

امامت کا ہو نا ضروری ہے

امامت عامہ

دلیل لطف : شیعہ معتقد ہیں کہ بندو ں پرخداکا لطف اور اس کی بے پناہ محبت اور حکمت کا تقاضا ہے کہ پیغمبر اکرم کے بعد بھی لوگ بغیر رہبر کے نہ رہیں یعنی جو دلیلیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مبعوث ہونے کے لزوم پر دلا لت کر تی ہیں وہی دلیلیںاس بات کی متقاضی ہیں کہ امام کا ہو نابھی ضروری ہے تاکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح دنیا اورآخرت کی سعادت کی طرف لوگوں کی رہبری کر سکیں اوریہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ مہربان خدا بنی نوع انسان کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بغیر کسی ہادی اوررہبر کے چھو ڑدے ۔

مناظرہ ہشام بن حکم

ہشام کا شمار امام جعفر صادق کے شاگردو ںمیں ہے : کہتے ہیں میں جمعہ کوبصرہ گیااور وہاں کی مسجد میں داخل ہوا عمروبن عبید معتزلی (عالم اہل سنت) وہاں بیٹھے تھے اور ان کو لوگ گھیرے میں لئے ہوئے سوال وجواب کر رہے تھے میں بھی ایک گوشہ میں بیٹھ گیا اورکہا :میں اس شہر کانہیں ہوں کیا اجازت ہے کہ میں بھی سوال کروں ؟کہا جو کچھ پوچھنا ہو پوچھو: میں نے کہا آپ کے پاس آنکھ ہے ؟ اس نے کہا دیکھ نہیں رہے ہو یہ بھی کوئی سوال ہے۔ ؟

میں نے کہا میرے سوالات کچھ ایسے ہی ہیں کہا اچھا پوچھو ہر چند کہ یہ بیکارہے انہو ں نے کہا جی ہاں آنکھ ہے ،میں نے کہا ان آنکھو ں سے کیا کام لیتے ہیں؟ کہا دیکھنے والی چیزیں دیکھتا ہو ں ا قسام او ررنگ کو مشخص کرتا ہو ں ، میں نے کہا زبان ہے ؟کہا جی ہا ں ، میں نے کہااس سے کیا کرتے ہیں؟ جواب دیا کہ اس سے کھانے کی لذت معلو م کرتاہوں میں نے کہا ناک ہے ؟کہنے لگے جی ہا ں میں نے کہا اس سے کیا کرتے ہیں؟ کہا خوشبو سونگھتا ہو ں او راس سے خوشبو اور بدبو میں فرق کرتا ہوں میں نے کہا کان بھی ہے ؟جواب دیا جی ہا ں ،میں نے کہا اس سے کیا کرتے ہیں؟ جو اب دیا اس سے مختلف آوازوں کو سنتا ہو ں او ر ایک دوسرے کی تشخیص دیتا ہو ں، میں نے کہا اس کے علا وہ قلب (عقل ) بھی ہے ؟کہا جی ہا ں۔ میں نے پوچھا اس سے کیا کرتے ہیں؟جواب دیا اگر ہما رے اعضاء وجوارح مشکوک ہو جاتے ہیں تواس سے شک کو دور کرتا ہو ں ۔

۱۵۳

قلب اور عقل کاکام اعضا ء وجوارح کو ہدایت کرنا ہے ،ہشام نے کہا:میں نے ان کی بات کی تائید کی کہا بالکل صحیح۔ خدانے عقل کو اعضاء وجوارح کی ہدایت کے لئے خلق کیااے عالم! کیایہ کہنا صحیح ہے کہ خدانے آنکھ کان کو اور دوسرے اعضاء کو بغیر رہبر کے نہیں چھوڑااور مسلمانو ں کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بغیر ہادی ورہبر کے چھوڑ دیا تاکہ لوگ شک و شبہ اور اختلا ف کی باعث فنا ہو جائیں کیاکوئی صاحب عقل اس بات کو تسلیم کرے گا ؟!۔

ہدف خلقت

قرآن میں بہت سی آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں( هَوَ الَّذِی خَلَق لَکُم مَافِی الأَرضِ جَمِیعاً ) وہ خدا وہ ہے جس نے زمین کے تمام ذخیرہ کو تم ہی لوگو ں کے لئے پیدا کیا۔( ۱ ) ( سَخَّرَ لَکُمُ اللَّیلَ وَالنَّهارَ والشَّمسَ وَالقَمَر ) ''اور اسی نے تمہارے لئے رات و دن اورآفتاب وماہتاب سب کو مسخر کردیا ''۔( ۲ )

چونکہ انسان کی خاطر یہ دنیا خلق ہوئی ہے اور انسان عبادت اور خدا تک پہونچنے کے لئے خلق ہو اہے تاکہ اپنے حسب لیاقت کمال تک پہونچ سکے، اس

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة :۲۹

(۲) سورہ نحل آیة :۱۲

۱۵۴

مقصد کی رسائی کے لئے رہبر کی ضرورت ہے اور نبی اکرم کے بعدامام اس تکامل کا رہبر وہادی ہے ۔

مہربا ن ودرد مند پیغمبر او رمسئلہ امامت :

( لَقَد جَا ئَ کُم رَسُولُ مِن أَنفُسِکُم عَزیزُ عَلَیه مَا عَنِتُم حَرِیصُ عَلَیکُم بِالمُؤمنینَ رَؤُفُ رَحِیمُ ) یقینا تمہا رے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہو تی ہے وہ تمہاری ہدا یت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ۔( ۱ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب کبھی کسی کا م کے لئے کچھ دن کے واسطے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تھے چاہے مقصد جنگ ہو یا حج، لوگو ں کی سرپرستی کے لئے کسی نہ کسی کو معین کر جاتے تھے تاکہ ان کی راہنمائی کر سکے آپ شہروں کے لئے حاکم بھیجتے تھے لہٰذا وہ پیغمبر جولوگوں پر اس قدر مہربان ہوکہ بقول قرآن ،اپنی زندگی میں کبھی بھی حتی کہ تھوڑی مدت کے لئے بھی لوگوں کو بغیر رہبر کے نہیں چھوڑا ،تو یہ بات بالکل قابل قبول نہیں کہ وہ اپنے بعد لوگو ں کی رہبری کے لئے امامت و جانشینی کے مسئلہ میں تساہلی وسہل انگا ری سے کام لیں گے اور لوگوں کو سرگردان اور بغیر کسی ذمہ داری کے بے مہار چھوڑ دیںگے ۔عقل وفطرت کہتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ پیغمبر جس نے لوگوں کے چھوٹے سے چھو ٹے مسائل چاہے مادی ہو ں یا معنوی سبھی کو بیان کر

____________________

(۱) سورہ توبہ آیة ۱۲۸

۱۵۵

دیا ہو اور اس نے سب سے اہم مسئلہ یعنی رہبری اور اپنی جانشینی کے تعین میں غفلت سے کام لیا ہو اورواضح طور پر لوگوں سے بیان نہ کیاہو!۔

سوالات

۱۔ امام کا ہو نا ضروری ہے دلیل لطف سے ثابت کریں ؟

۲۔ ہشام بن حکم اور عمروبن عبید کے درمیان مناظرہ کا خلا صہ بیا ن کریں ؟

۳۔ امام کا ہونا لازم ہے خلقت کے ذریعہ کس طرح استدلال کریں گے ؟

۴۔ سورہ توبہ کی آیة ۱۲۸ کے ذریعہ کس طرح امامت کااستدلا ل کریں گے ؟

۱۵۶