‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) 37%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 156

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 156 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92708 / ڈاؤنلوڈ: 4596
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلد اول) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اپنے کاموں کا نتیجہ پاتے ہیں _ سعیدہ بیٹی ہم آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اچھے کام کرنے والے لوگ بہشت میں جائیں گے اور بہت راحت و آرام کی زندگی بسرکریں گے _ اور گنہکار جہنم میں جائیں گے _ اور عذاب اور سختی میں رہیں گے _

آخرت کی نعمتیں اور لذتیں دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے بہتر اور برتر ہیں ان میں کوئی عیب اور نقص نہیں ہوگا _ اہل بہشت ہمیشہ اللہ تعالی کی خاص توجہ اور محبت کا مرکز رہتے ہیں _ خدا انہیںہمیشہ تازہ نعمتوں سے نوازتا ہے اہل بہشت اللہ تعالی کی تازہ نعمتوں اور اس کی پاک محبت سے مستفید ہوتے ہیں اور ان نعمتوں اور محبت سے خوش و خرم رہتے ہیں _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ سعیدہ کس چیز کو بے فائدہ اور بے نتیجہ سمجھتی تھی او رکیوں؟

۲_ اس کی ماں نے اسے کیا جواب دیا؟

۳_ کیا ہم مرجانے سے فنا ہوجاتے ہیں اگر مرنے سے ہم فنا ہوجاتے ہوں تو پھر ہمارے کاموں اور کوششوں کا کیا نتیجہ ہوگا؟

۴_ اپنے کاموں کا پورا نتیجہ کس دنیا میں دیکھیں گے ؟

۵_ نیک لوگ آخرت میں کیسے رہیں گے اور گناہ کار کیسے رہیں گے ؟

۶_ '' دنیا آخرت کی کھیتی ہے '' سے کیا مراد ہے ؟

۴۱

چھٹا سبق

آخرت میں بہتر مستقبل

اس جہان کے علاوہ ایک جہان اور ہے جسے جہان آخرت کہا جاتا ہے _ خدانے ہمیں جہان آخرت کے لئے پیدا کیا ہے _ جب ہم مرتے ہیں تو فنا نہیں بلکہ اس جہان سے جہان آخرت کی طرف چلے جاتی ہیں ہم صرف کھا نے پینے سونے کے لئے اس جہاں میں نہیں آئے بلکہ ہم یہاں اس لئے آئے ہیں تا کہ خداوند عالم کی عبادت اور پرستش کریں _ اچھے اور مناسب کام انجام دیں تا کہ کامل ہوجائیں اور جہان آخرت میں اللہ کی ان نعمتوں سے جو اللہ نے ہمارے لئے پیدا کی ہیں _ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں _

جو کام بھی ہم اس دنیا انجام دیتے ہیں اس کا نتیجہ آخرت میں دیکھیں گے _

اگر ہم نے خدا کی عبادت کی اور نیک کام کرنے والے قرار پائے تو ہمارا مستقبل روشن ہو گا اور بہترین زندگی شروع کرینگے اور اگر ہم نے خدا کے فرمان کی پیروی نہ کی اور برے کام انجام دیئے تو آخرت میں بدبخت قرار پائیں گے اور اپنے کئے کی سزاپائیں گے اور سختی اور عذاب میں زندگی بسر کریں گے

۴۲

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ اس جہاں میں ہمارا فرض کیا ہے _ کامل بنے کے لئے ہمیں کیا کام انجام دینے چاہیئے ؟

۲_ اللہ کی بڑی اور اعلی نعمتیں کس جہان میں ہیں ؟

۳_ روشن مستقبل کن لوگوں کے لئے ہے ؟

۴_ آخرت میں سخت عذاب کن لوگوں کے لئے ہے ؟

۵_ کیا تمہیں معلوم ہے کہ کون سے کام اچھے اور مناسب ہیں اور کوں لوگ ہمیں اچھے اور مناسب کاموں کی تعلیم دیتے ہیں ؟

۴۳

تیسرا حصّہ

نبوت

۴۴

پہلا سبق

اللہ نے پیغمبڑ بھیجے ہیں

خدا چونکہ بندوں پر مہربان ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے بند ے اس دنیا میں اچھی اور آرام دہ زندگی بسر کریں اور آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں وہ دستور جوان کی دنیا اور آخرت کے لئے فائدہ مند ہیں _ پیغمبروں کے ذریعہ ان تک پہنچا ئے چونکہ پیغمبروں کی شخصیت عظیم ہوتی ہے اسی لئے خدا نے انہیں لوگوں کی رہنمائی کیلئےچنا_ پیغمبر لوگوں کو نیک کام اور خدائے مہربان کی پرستش کی طرف راہنمائی کرتے تھے _ پیغمبر ظالموں کے دشمن تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کے درمیان مساوات و برابری قائم کریں _

سوالات

۱_ خدانے کیوں لوگوں کے لئے پیغمبر بھیجا ہے ؟

۲_ پیغمبر خدا سے کیا چیز لیکرآئے؟

۳_ پیغمبر کیا کرتے تھے؟

۴_ پیغمبر کس قسم کے لوگ ہوتے تھے؟

۵_ اگر ہم پیغمبروں کے دستور کے مطابق عمل کریں تو کیا ہوگا؟

۴۵

دوسرا سبق

انسانوں کے معلّم

پیغمبرانسانوں کے معلّم ہوتے ہیں _ ابتداء آفرینش سے لوگوں کے ساتھ _ اور ہمیشہ ان کی تعلیم و تربیت میں کوشاں رہے _ وہ بنی نوع انسان کو معاشرتی زندگی اور زندگی کے اچھے اصولوں کی تعلیم دیتے رہے _ مہربان خدا اور اس کی نعمتوں کو لوگوں کو بتلاتے تھے اور آخرت اور اس جہاں کی عمدہ نعمتوں کا تذکرہ لوگوں سے کرتے رہے _ پیغمبر ایک ہمدرد اور مخلص استاد کے مانند ہوتے تھے جو انسانوں کی تربیت کرتے تھے_ اللہ کی پرستش کا راستہ انہیں بتلاتے تھے پیغمبر نیکی اور اچھائی کا منبع تھے وہ نیک اور برے اخلاق کی وضاحت کرتے تھے_ مدد اور مہربانی خیرخواہی اور انسان دوستی کی ان میں ترویج کرتے تھے تمام انسانوں میں پہلے دور کے انسان بے لوث اور سادہ لوح تھے پیغمبروں نے ان کی رہنمائی کے لئے بہت کوشش کی اور بہت زحمت اور تکلیفیں برداشت کیں پیغمبروں کی محنت و کوشش اور رہنمائی کے نتیجے میں انسانوں نے بتدریج ترقی کی اور اچھے اخلاق سے واقف ہوئے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ زندگی کے اصول اور بہتر زندگی بسر کرنے کا درس انسانوں کو کس نے دیا ؟

۴۶

۲_ پیغمبر لوگوں کون سے تعلیم دیتے تھے؟

۳_ پیغمبروں نے کن لوگوں کے لئے سب سے زیادہ محنت اور کوشش کی ؟

۴_ پیغمبروں نے کس قسم کے لوگوں کے درمیان کن چیزوں کا رواج دیا ؟

۴۷

تیسرا سبق

خدا کے عظیم پیغمبر ابراہیم علیہ السلام

کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں کا کیا دین تھا اور وہ کس طرح زندگی گزارتے تھے_ انہوں نے گذشتہ پیغمبروں کی تعلیم کو فراموش کردیا تھا وہ نہیں جانتے تھے کہ اس دنیا میں کس طرح زندگی گذار کر آخرت میں سعادت مند ہوسکتے ہیں وہ صحیح قانون اور نظم و ضبط سے ناواقف تھے اور خدا کی پرستش کے طریقے نہیں جانتے تھے _ چونکہ خدا اپنے بندوں پر مہربان ہے اسلئے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی پیغمبری کے لئے منتخب فرمایا تا کہ لوگوں کو نیکی اور اللہ تعالی کی عبادت کی طرف راہنمائی فرمائیں

خدا کو علم تھا کہ لوگ تشخیص نہیں کر سکتے کہ کون سے کام آخرت کے لئے فائدہ مند اور کون سے کام نقصان دہ ہیں _ خدا جانتا تھا کہ لوگوں کے لئے راہنما اور استاد ضروری ہے اسی لئے جناب ابراہیم علیہ السلام کو چنا اور انہیں عبادت اور خدا پرستی کے طریقہ بتائے _ خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتلاتا تھا کہ کون سے کام لوگوں کی دنیا اور آخرت کے لئے بہتر ہیں اور کون سے کام مضر ہیں _

حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اللہ تعالی کے پیغام اور احکام کو لوگوں تک پہنچاتے اور ان کی رہنمائی فرماتے تھے _

حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کے پیغمبر اور لوگوں کے استاد اور معلّم تھے _

۴۸

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ پیغمبروں کو کون منتخب کرتا ہے ؟

۲_ پہلے انسانوں کا کردار کیا تھا؟

۳_ کون سے حضرات زندگی کا بہتر راستہ بتاتے ہیں؟

۴_ کیا لوگ خود سمجھ سکتے ہیں کہ کون سے کام آخرت کے لئے بہتر اور کون سے مضر ہیں ؟

۵_ حضرت ابراہیم (ع) لوگوں کو کیا تعلیم دیتے تھے ؟

۶_ حضرت ابراہیم (ع) کا پیغام اور احکام کس کی طرف سے تھے؟

۴۹

چوتھا سبق

لوگوں کا رہبر اور استاد

پیغمبر لوگوں کا رہبر اور استاد ہوتا ہے _ رہبری کے لئے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے _ اسے جانتا ہے _ دین کے تمام احکام جانتا ہے _ اچھے اور برے سب کاموں سے واقف ہوتا ہے _ وہ جانتا ہے کہ کون سے احکام آخرت کی سعادت کا موجب ہوتے ہیں اور کون سے کام آخرت کی بدبختی کا سبب بنتے ہیں _ پیغمبر خدا کو بہتر جانتا ہے _ آخرت اور بہشت اور جہنم سے آگاہ ہوتا ہے _ اچھے اور برے اخلاق سے پوری طرح با خبر ہوتا ہے _ علم اور دانش میں تمام لوگوں کا سردار ہوتا ہے اس کے اس مرتبہ کو کوئی نہیں پہنچانتا _ خداوند عالم تمام علوم پیغمبر کو عنایت فرما دیتا ہے تا کہ وہ لوگو۱ں کی اچھے طریقے سے رہبری کر سکے _چونکہ پیغمبررہبر کامل اور لوگوں کا معلم اور استاد ہوتا ہے _ اسلئے اسے دنیا اور آخرت کی سعادت کا علم ہونا چاہیے تا کہ سعادت کی طرف لوگوں کی رہبری کر سکے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ لوگوں کا رہبر اور استاد کون ہے اور ان کو کون سی چیزیں بتلاتا ہے ؟

۵۰

۲_ پیغمبر کا علم کیسا ہوتا ہے کیا کوئی علم میں اس کا ہم مرتبہ ہوسکتا ہے؟

۳_ پیغمبر کا علوم سے کون نواز تا ہے ؟

۴_ رہبر کامل کون ہوتا ہے؟

۵۱

پانچوان سبق

پیغمبر لوگوں کے رہبر ہوتے ہیں

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمام پیغمبران خدا انسان تھے _ اور اانہیں میں زندگی گذار تے تھے خدا کے حکم اور راہنمائی مطابق لوگوں کی سعادت اور ترقی میں کوشاں رہتے تھے _ پیغمبر ابتدائے آفرینش سے لوگوں کے ساتھ ہوتے تھے اور انہیں زندگی بہترین را ستے بتا تے تھے _ خدا شناسی آخرت اور اچھے کاموں کے بارے میں لوگوں سے گفتگو کرتے تھے _ بے دینی اور ظلم کے ساتھ مقابلہ کیا کرتے تھے اور مظلوموں کی حمایت کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کے درمیان محبت اور مساوات کو بر قرار رکھیں پیغمبروں نے ہزاروں سال کوشش کی کہ عبادت کے طریقے خدا شناسی اور اچھی زندگی بسر کرنا لوگوں پر واضح کریں _آج پیغمبروں اور ان کے پیرو کاروں کی محنت اور مشقت سے استفادہ کررہے ہیں _ اس لئے ان کے شکر گزار ہیں اور ان پر درود وسلام بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں ;

... ...اللہ کے تمام پیغمبروں پر ہمارا سلام

... اللہ کے بڑ ے پیغمبر جناب ابراہیم پر ہمارا سلام

... جناب ابراہیم کے پیرو کاروں پر ہمارا سلام

۵۲

چھٹا سبق

اولوا لعزم پیغمبر

اللہ تعالی نے لوگوں کی راہنمائی کے لئے بہت زیادہ پیغمبر بھیجے ہیں کہ ان میں سب سے بڑ ے پیغمبر پانچ ہیں

____ حضرت نوح علیہ السلام

____ حضرت ابراہیم علیہ السلام

____ حضرت موسی علیہ السلام

____ حضرت عیسی علیہ السلام

____ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

جناب موسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو یہودی کہا جاتا ہے اور جناب عیسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو مسیحی یا عیسائی کہا جاتا ہے اور جناب محمڈ کے ماننے والوں کو مسلمان کہا جاتا ہے

تمام پیغمبر خدا کی طرف سے آئے ہیں اور ہم ان سب کا احترام کرتے ہیں

لیکن تمام پیغمبروں سے بزرگ و برتر آخری پیغمبر جناب محمد مصطفی (ص) ہیں آپ کے بعد کوئی اور پیغمبر نہیں آئے گا _

۵۳

سوالات

۱_ بڑے پیغمبرکتنے ہیں اور ان کے نام کیا ہیں ؟

۲_ یہودی کسے کہا جاتا ہے ؟

۳_ مسیحی یا عیسائی کسے کہا جاتا ہے ؟

۴_ جناب محمد مصطفی (ص) کے ماننے والوں کو کیا کہا جاتا ہے ؟

۵_ سب سے بڑ ے اور بہتر اللہ کے پیغمبروں کون ہیں ؟

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ تمام پیغمبر ... آئے ہیں اور ہم ان ... کرتے ہیں

۲_ لیکن جناب محمد مصطفی (ص) تمام پیغمبروں سے ... و ...ہیں

۳_ آپ کے بعد نہیں آئے گا

۵۴

ساتواں سبق

حضرت محمد مصطفے (ص) کا بچپن

جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ مکہّ میں پیدا ہوئے _ آپ کے والد جناب عبد اللہ علیہ السلام تھے اور والدہ ماجدہ جناب آمنہ تھیں _ بچین ہی سے آپ نیک اور صحیح انسان تھے دستر خوان پر با ادب بیھٹتے تھے_ اپنی غذا کھا تے اور دوسرے بچوں کے ہاتھ سے ان غذا نہیں چھینتے تھے _ غذا کھا تے وقت بسم اللہ کہتے تھے _ بچوں کو آزار نہ دیتے تھے بلکہ ان سے اچھا سلوک اور محبت کرتے تھے _ ہر روز زنبیل خرما سے پر کر کے بچوں کے در میان تقسیم کرتے تھے _

سوالات

۱_ جناب محمد مصطفی کس شہر میں پیدا ہوئے ؟

۲_ غذا کھا تے وقت کیا کہتے تھے اور کس طرح بیٹھتے تھے ؟

۳_ دوسرے بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے ؟

۴_ تمہارا دوسروں کے ساتھ کیسا سلوک ہے ؟

۵۵

آٹھواں سبق

آخری نبی حضرت محمد مصطفے (ص)

آپ کے والد کا نام جناب عبداللہ اور والدہ کانام آمنہ تھا _ عام الفیل میں سترہ ربیع الاوّل کو مکہّ میں پیدا ہوئے _ آپ کی پیدائشے سے قبل ہی آپ کے والد جناب عبداللہ کا انتقال ہو گیا _ جناب آمنہ نے آپکی چھ سال تک پرورش کی _ جب آپ چھ سال کے ہوئے تو آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا _ والدہ کے فوت ہونے کے بعد آپ کے دادا جناب عبدالمطلب نے آپ کی _ جناب عبد المطلب آپ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور آپ پر بہت مہربان تھے پیغمبر اسلام کے مستقبل کا آپ کو علم تھا عیسائی اور یہودی علماء سے آپ نے سن رکھا تھا کہ مکہّ سے ایک پیغمبر مبعوث ہو گا _ جناب عبد المطلب عربوں کے سردار تھے _ کعبہ کے نزدیک آپ کے لئے مخصوص جگہ تھی کہ جس پراور کوئی نہیں بیٹھ سکتا تھا _ صرف پیغمبر اسلام اس مخصوص جگہ پراپنے دادا کے پہلو میں بیٹھا کرتے تھے _ اگر آپ کو وہاں بیٹھنے سے کبھی کوئی منع کرتا تو جناب عبد المطلب فرماتے کہ میرے بیٹے کو آنے دو _ بخدا اس کے چہرے پر بزرگی کے آثار موجود ہیں _ میں دیکھ رہاہوں کہ ایک دن محمڈ تم سب کا سردار ہو گا _ جناب عبدالمطلب پیغمبر اسلام کو اپنے نزدیک بٹھا تے اور اپنے دست شفقت کو آپ کے سر پر پھیر تے تھے چونکہ حضوڑ کے مستقبل سے آگاہ تھے اسلئے انہیں کے ساتھ غذا تناول کرتے تھے اور اپنے سے کبھی آپ کو جدا نہیں کرتے تھے _

۵۶

پیغمبر اسلام کا بچپن

پیغمبر اسلام بچپنے میں بھی با ادب تھے _ آپ کے چچا جناب ابو طالب علیہ السلام فرما تے ہیں کہ محمڈ غذا کھا تے وقت بسم اللہ کہتے تھے اور غذا کے بعد الحمدللہ فرماتے _ میں نے محمڈ کونہ تو جھوٹ بولتے دیکھا اور نہ ہی برا اور نارو ا کام کرتے دیکھا _ آپ(ص) او نچی آواز سے نہیں ہنستے تھے بلکہ مسکراتے تھے _

جواب دیجئے

۱_ پیغمبر اسلام (ص) کس سال اور کس مہینہ اور کس دن پیدا ہوئے ؟

۲_ آپ کی والدہ آور آپ کے والدکا کیا نام تھا ؟

۳_ جناب عبدالمطلب کا پیغمبر اسلام (ص) سے کیارشتہ تھا اور آپ کے متعلق وہ کیا فرما تے تھے ؟

۴_ یہودی اور عیسائی علماء کیا کہا کرتے تھے؟

۵_ بچپن میں آپ (ص) کا کردار کیسا تھا اور آپ کے متعلق آپ کے چچا کیا فرمایا کرتے تھے ؟

۵۷

نواں سبق

پیغمبر (ص) کا بچوّں کے ساتھ سلوک

پیغمبر(ص) اسلام بچّوں سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے یہاں تک کہ آپ ان کو سلام کرتے تھے _ آپ(ص) مسلمانوں سے کہتے تھے کہ بچوں کا احترام کیا کرو اور ان سے محبت کیا کرو اور جو بچوں سے محبت نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے _

ایک مسلمان کہتا ہے کہ میں نے رسول (ص) کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ کے ساتھ گھر تک گیا تو میں نے دیکھا کہ بچے گروہ در گروہ آپ کا استقبال کرنے کے لئے دوڑ کر آرہے تھے _ آپ نے انہیں پیار کیا اور اپنا دست مبارک ان کے سر اور چہرے پرپھیرا

سوالات:

۱_ پیغمبر اسلام(ص) کے والد کا نام کیا تھا؟

۲_ آپ کی والدہ کا کیا نام تھا؟

۳_ بچوں کو کیوں سلام کیا کرتے تھے؟

۴_ اپنے اصحاب سے بچوں کے متعلق کیا فرماتے تھے؟

۵_ بچّے کیوں آپ(ص) کے استقبال کیلئے دوڑ پڑتے تھے؟

۶_ کیا تم اپنے دوستوں کو سلام کرتے ہو؟

۵۸

دسواں سبق

امین

ایک زمانے میں مکہ کے لوگ خانہ کعبہ کو از سر نو بنارہے تھے _ تمام لوگ خانہ کعبہ بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کررہے تھے _ جب کعبہ کی دیوار ایک خاص اونچائی تک پہنچی کہ جہان حجر اسود رکھا جانا تھا'' حجر اسود ایک محترم پتھر ہے'' مكّہ کے سرداروں میں سے ہر ایک کی خواہش یہ تھی کہ اس پتھر کو صرف وہی اس کی بناپر رکھے اوراس کام سے اپنے آپ اور اپنے قبیلے کی سربلندی کا موجب بنے _ اسی وجہ سے ان کے درمیان جھگڑا شروع ہوا _ ہر ایک یہی کہتا تھا کہ صرف میں حجر اسود کو اس کی جگہ نصب کروں گا ان کا اختلاف بہت بڑھ گیا تھا اور ایک خطرناک موڑ تک پہنچ گیا تھا قریب تھا کہ ان کے درمیان جنگ شروع ہوجائے _ جنگ کے لئے تیار بھی ہوچکے تھے اسے اثناء میں ایک دانا اور خیرخواہ آدمی نے کہا _ لوگو جنگ اوراختلاف سے بچو کیونکہ جنگ شہر اور گھروں کو ویران کردیتی ہے _ اور اختلاف لوگوں کو متفرق اور بدبخت کردیتا ہے _ جہالت سے کام نہ لو اور کوئی معقول حل تلاش کرو_ مكّہ کے سردار کہنے لگے کیا کریں _ اس دانا آدمی نے کہا تم اپنے درمیان میں سے ایک ایسے آدمی کا انتخاب کرلو جو تمہارے اختلاف کو دور کردے _ سب نے کہا یہ ہمیں قبول ہے یہ مفید مشورہ ہے _ لیکن ہر قبیلہ کہتا تھا کہ وہ قاضی ہم میں سے ہو _ پھر بھی اختلاف اور نزاع برطرف نہ ہوا _ اسی خیرخواہ اور دانا آدمی نے کہا _ جب تم قاضی کے انتخاب میں بھی اتفاق نہیں کرپائے تو سب سے پہلا شخص جو

۵۹

اس مسجد کے دروازے سے اندر آئے اسے قاضی مان لو _ سب نے کہا یہ ہمیں قبول ہے تمام کی آنکھیں مسجد کے دروازے پر لگی ہوئی تھیں اور دل دھڑک رہے تھے کہ کون پہلے اس مسجد سے اندر آتا ہے اور فیصلہ کس قبیلے کے حق میں ہوتا ہے ؟ ایک جوان اندر داخل ہوا _ سب میں خوشی کی امید دوڑگئی اور سب نے بیک زبان کہا بہت اچھا ہو کہ محمد (ص) ہی آیا ہے _ محمد (ص) امین محمد(ص) امین _ منصف اور صحیح فیصلہ دینے والا ہے اس کا فیصلہ ہم سب کو قبول ہے حضرت محمد (ص) وارد ہوئے انہوں نے اپنے اختلاف کی کہانی انہیں سنائی: آپ نے تھوڑا ساتامل کیا پھر فرمایا کہ اس کام میں تمام مكّہ کے سرداروں کو شریک ہونا چاہیے لوگوں نے پوچھا کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اور کس طرح _ حضرت نے فرمایا کہ ہر قبیلے کا سردار یہاں حاضر ہو تمام سردار آپ کے پاس آئے _ آنحضرت (ص) نے اپنی عبا بچھائی پھر آپ نے فرمایا تمام سردار عبا کے کناروں کو پکڑیں اور حجر اسود کو لے چلیں _ تمام سردار نے حجر اسود اٹھایا اور اسے اسکی مخصوص جگہ تک لے آئے اس وقت آپ نے حجر اسود کو اٹھایا اور اسے اس کی جگہ نصب کردیا_ مكّہ کے تمام لوگ آپ کی اس حکمت عملی سے راضی اور خوش ہوگئے _ آپ کے اس فیصلے پر شاباش اور آفرین کہنے لگے _

ہمارے پیغمبر(ص) اس وقت جوان تھے اور ابھی اعلان رسالت نہیں فرمایا تھا لیکن اس قدر امین اور صحیح کام انجام دیتے تھے کہ آپ کا نام محمد(ص) امین پڑچکا تھا _

لوگ آپ پر اعتماد کرتے تھے اور قیمتی چیزیں آپ کے پاس امانت رکھتے تھے اور آپ ان کے امانتوں کی حفاظت کرتے تھے آپ صحیح و سالم انہیں واپس لوٹا دیتے تھے _ سبھی لوگ اپنے اختلاف دور کرنے میں آپ کی طرف

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

مستحب ہے کہ جب انسان اپنے گھرسے نمازکے لئے مسجدکی طرف روانہ ہو تو بہترین لباس پہن کراورعطر وخوشبو لگاکرمسجدمیں آئے اوراگرگھرمیں بھی نمازپڑھے توخشبولگاکرنمازپڑھے،عورت کے لئے مستحب ہے کہ جب گھرمیں نمازاداکرے توعطرخوشبوکااستعمال کرے ،عطرلگاکرنماز پڑھنے کے بارے میں روایت میں آیاہے:قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم رکعتان علیٰ اثرطیب افضل من سبعین رکعة لیست کذلک (۱)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:خوشبوکے ساتھ دورکعت نمازپڑھناان ستررکعت نمازوں سے افضل ہیں جوعطرلگائے بغیر پڑھی جاتی ہیں ۔قال الرضاعلیه السلام :کان یعرف موضع جعفرعلیه السلام فی المسجد بطیب ریحه وموضع سجوده ۔(۲)

حضرت امام صادق کے بارے میں امام رضا فرماتے ہیں:کہ امام صادق کی محل نمازوسجدہ کومسجدمیں ان کی خوشبوکے ذریعہ پہچان لیاجاتاتھا۔حسین دیلمی نے اپنی کتاب“ہزارویک نکتہ دربارہ ”میں ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت امام زین العابدین جب بھی نماز پڑھنے کا ارادہ کرتے تھے اور محل نمازپر کھڑے ہوتے تھے تو ) اپنے آپ کو اس عطرسے جو آپ کے مصلّے میں رکھا رہتا تھا معُطّرکر تے تھے۔(۳)

حمام ، گِل،نمک زارزمین،کسی بیٹھے یاکھڑے ہوئے انسان کے مقابلے میں،کھلے ہوئے دروازے کے سامنے ،شاہروں اورسڑکوں پر،گلیوں میں جبکہ آنے جانے والے کے لئے باعث زحمت نہ ہو، اگرباعث زحمت ہوتوحرام ہے،آگ اورچراغ کے سامنے ،باورچی خانہ میں،جہاں اگ کی بھٹی ہو، کنویں کے سامنے ،ایسے گڑھے کے سامنے کہ جہاں حمام ولیٹرین وغیرہ کاپانی پہنچتاہے ،ذی روح کی تصویریامجمسہ کے سامنے،جس کمرہ میں مجنب موجودہو، قبرکے اوپریاقبرکے سامنے یاقبرستان میں نمازپڑھنامکروہ ہے۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:عشرة مواضع لایصلی فیها:الطین والماء والحمام والقبورومسان الطریق وقری النمل ومعاطن الابل ومجری الماء والسبخ والثلج .

امام صادق فرماتے ہیں:دس مقام ایسے کہ جہاں نمازنہ پڑھی جائے : گِل،پانی،حمام،قبور، گذرگاہ ،چیونٹی خانہ ،اونٹوں کی جگہ ،(گندے )پانی کی نالی یاگڑھے کے پاس ،نمک زارزمین پر،برف پر۔(۴)

____________________

. ١)آثارالصادقین /ج ١٢ /ص ١٠٢

٢)مکارم الاخلاق /ص ۴٢

. ٣)ہزارویک نکتہ دربارہ نماز/ش ٢٢٣ /ص ۶٩

۴)وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ۴۴١

۱۰۱

عن معلی بن خنیس قال:سئلت اباعبدالله علیه السلام عن الصلاة علی ظهرالطریق؟فقال:لا،اجت نبواالطریق .

معلی بن خنیس سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے راستے پر نمازکے پڑھنے کے بارے میں سوال کیاتوآپ نے فرمایا:صحیح نہیں ہے ،او رفرمایا:راستے پرنمازپڑھنے سے پرہیزکرو۔(۱)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:لاتصل فی بیت فیه خمرولامسکرلان الملائکة لاتدخله . امام صادق فرماتے ہیں:کسی ایسے گھرنمازنہ پڑھوکہ جس میں شراب یاکوئی مسکرشے مٔوجودہوکیونکہ ایسے گھروں میں ملائکہ داخل نہیں ہوتے ہیں۔(۲)

____________________

.۱) وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ۴۴۶

. ۲)استبصار/ج ١/ص ١٨٩

۱۰۲

مسجد

مسجدکی اہمیت

مسجدروئے زمین پرالله کاگھرہے اورزمین کی افضل ترین جگہ ہے ،اہل معارف کی جائیگاہ اورمحل عبادت ہے،صدراسلام سے لے کرآج تک مسجدایک دینی والہٰی مرکزثابت ہوئی ہے،مسجد مسلمانوں کے درمیان اتحادپیداکرنے کامحورہے اوران کے لئے بہترین پناہگاہ بھی ہے، مسجدخانہ ہدایت و تربیت ہے مسجدمومنین کے دلوں کوآباداورروحوں کوشادکرتی ہے اورمسجدایک ایساراستہ ہے جوانسان کوبہشت اورصراط مستقیم کی ہدایت کرتاہے ۔ دین اسلام میں مسجد ایک خاص احترام ومقام رکھتی ہے ، کسی بھی انسان کو اس کی بے حرمتی کرنے کا حق نہیں ہے اور اسکا احترام کرنا ہر انسان پر واجب ہے ۔ ا بو بصیر سے مروی ہے: میں نے حضرت امام صادق سے سوال کیا کہ: مسجدوں کی تعظیم واحترام کاحکم کیوں دیاگیاہے ؟آپ (علیه السلام)نے فرمایا:

انّماامربتعظیم المساجدلانّهابیوت اللهفی الارض ۔(۱)

مسجدوں کے احترام کا حکم اس لئے صادرہواہے کیونکہ مسجدیں زمین پر خداکا گھر ہیں اور خدا کے گھر کا احترام ضروری ہے۔

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اپنے ایک طولانی خطبہ اورگفتگومیں ارشادفرماتے ہیں:من مشیٰ الی مسجد من مساجدالله فله بکل خطوة خطاهاحتی یرجع الی منزله عشرحسنات ،ومحی عنه عشرسیئات ، ورفع له عشردرجات.

ہروہ جوشخص کسی مسجدخداکی جانب قدم اٹھائے تواس کے گھرواپسی تک ہراٹھنے والے قدم پردس نیکیان درج لکھی جاتی ہیں اوردس برائیاں اس نامہ أعمال سے محوکردی جاتی ہیں اوردس درجہ اس کامقام بلندہوجاتاہے۔(۲)

قال النبی صلی الله علیه وآله:من کان القرآن حدیثه والمسجدبیته بنی الله له بیتافی الجنة.

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جس شخص کی گفتگوقرآن کریم ہواورمسجداس کاگھرہوتوخداوندعالم اس کے لئے جنت میں ایک عالیشان گھرتعمیرکرتاہے۔(۳)

____________________

. ١)علل الشرئع /ج ٢/ص ٣١٨

۲). ثواب الاعمال/ص ٢٩١

۳). تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۵۵

۱۰۳

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:من مشی الی المسجد لم یضع رجلاعلی رطب ولایابسالّاسبحت له الارض الی الارض السابعة.

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص مسجد کی طرف قدم اٹھائے اب وہ زمین کی جس خشک وترشے بٔھی قدم رکھے توساتوںزمین تک ہرزمین اس کے لئے تسبیح کرے گی۔(۱)

عن الصادق علیه السلام:ثلٰثة یشکون الی الله عزوجل مسجدخراب لایصلی فیه اهله وعالم بین الجهال ومصحف معلق قدوقع علیه غبارلایقرء فیه ۔(۲)

امام جعفر صادق فرماتے ہیں : تین چیزیں الله تبارک وتعالی کی بار گاہ میں شکوہ کرتی ہیں:

١۔ویران مسجدکہ جسے بستی کے لوگ آباد نہیں کر تے ہیں اور اس میں نماز نہیں پڑھتے ہیں

٢۔وہ عالم دین جو جاہلوں کے درمیان رہتا ہے اور وہ لوگ اس کے علم سے فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں

٣۔ وہ قرآن جو کسی گھر میں گرد وغبارمیں آلودہ بالا ئے تاق رکھا ہوا ہے اور اہل خانہ میں سے کوئی شخص اس کی تلاوت نہیں کرتا ہے۔

قال النبی صلی الله علیه وآله وسلم :من سمع النداء فی المسجد فخرج من غیرعلة فهومنافق الّاان یریدالرجوع الیه ۔(۳)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: منافق ہے وہ شخص جو مسجد میں حاضر ہے اور اذان کی آواز سن کر بغیر کسی مجبوری کے نماز نہ پڑھے اور مسجد سے خارج ہو جائے مگر یہ کہ وہ دوبارہ مسجد میں پلٹ آئے۔

____________________

۱) تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۵۵

. ۲)سفینة البحار/ج ١/ص ۶٠٠

. ۳)امالی(شیخ صدوق )/ص ۵٩١

۱۰۴

قال رسول الله صلی الله علیه وآله :ان اللهجل جلاله اذارا یٔ اهل قریة قداسرفوافی المعاصی وفیهاثلاثة نفرمن المومنین ناداهم جل جلاله وتقدست اسمائه:یااهل معصیتی !لولامَن فیکم مِن المومنین المتحابّین بجلالی العامرین بصلواتهم ارضی ومساجدی والمستغفرین بالاسحارخوفاًمِنّی ،لَاَنزَلْتُ عَذَابِیْ ثُمَّ لااُبَالِی ۔(۱)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب خداوندعالم کسی بستی کے لوگوں کوگناہوں میں آلودہ دیکھتاہے او راس بستی میں فقط تین افرادمومن باقی رہ جاتے ہیں تواس وقت خدائے عزوجل ان اہل بستی سے کہتاہے:

اے گنا ہگا ر انسانو ! اگرتمھارے درمیان وہ اہل ایمان جومیری جلالت کے واسطے سے ایک دوسرے کودوست رکھتے ہیں،اورمیری زمین ومساجدکواپنی نمازوں کے ذریعہ آبادرکھتے ہیں،اورمیرے خوف سے سحرامیں استغفارکرتے ہیں نہ ہوتے تومیں کسی چیزکی پرواہ کئے بغیرعذاب نازل کردیتا۔

وہ لوگ جومسجدکے ہمسایہ ہیں مگراپنی نمازوں کومسجدمیں ادانہیں کرتے ہیں ان کے بارے میں چندروایت ذکرہیں:

قال النبی صلی الله علیه وآله:لاصلاة لجارالمسجدالّافی المسجده ۔(۲) .

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:مسجد کے ہمسایو ں کی نماز قبول نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ وہ اپنی نمازوں کو اپنی مسجد میں اداکریں۔

عن الصادق علیه السلام انه قال::شکت المساجدالی الله الّذین لایشهدونهامن جیرانهافاوحی الله الیهاوعزتی جلالی لاقبلت لهم صلوة واحدة ولااظهرت لهم فی الناس عدالة ولانالتهم رحمتی ولاجاورنی فی الجنة ۔(۳)

حضرت امام صادق فرماتے ہیں: مسجد وں نے ان لوگوں کے بارے میں جو اس کے ہمسایہ ہیں اور بغیر کسی مجبوری کے نماز کے لئے مسجد میں حاضر نہیں ہو تے ہیں درگاہ خداوندی میں شکایت کی ،خدا وندعالم نے ان پر الہام کیا اور فرمایا : میں اپنے جلال وعزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں ، میں ایسے لوگوں کی ایک بھی نماز قبول نہیں کر تا ہوں اور ان کو معا شرے میں اور نیک اورعادل آدمی کے نام سے شہرت وعزت نہیں دیتا ہوں اور وہ میری رحمت سے بہرہ مندنہ ہونگے اوربہشت میں میرے جوار میں جگہ نہیں پائیں گے ۔

____________________

. ۱)علل الشرایع /ج ٢/ص ۵٢٢

۲)وسائل الشیعہ /ج ٣/ص ۴٧٨

. ۳)سفیتة البحار/ج ١/ص ۶٠٠

۱۰۵

عن ابی جعفرعلیه السلام انه قال:لاصلاة لمن لایشهدالصلاة من جیران المسجد الّامریض ا ؤمشغول.

امام محمدباقر فرماتے ہیں:ہروہ مسجدکاہمسایہ جونمازجماعت میں شریک نہیں ہوتاہے اس کی نمازقبول نہیں ہوتی ہے مگریہ کہ وہ شخص مریض یاکوئی عذرموجہ رکھتاہو۔(۱)

مسجدکوآبادرکھنااورکسی نئی مسجدکی تعمیرکرنابہت زیادہ ثواب ہے،اگرکوئی مسجدگرجائے تواس کی مرمت کرنابھی مستحب ہے اوربہت زیادہ ثواب رکھتاہے، اگر مسجدچھوٹی ہے تواس کی توسیع کے لئے خراب کرکے دوبارہ وسیع مسجدبنانابھی مستحب ہے( اِنَّمَایَعْمُرُمَسَاْجِدَاللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الآخِروَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَی الزَّکٰوةَ وَلَمْ یَخْشَ اِلّااللّٰهَ فَعَسَیٰ اُوْلٰئِکَ اَنْ یَکُوْنُوامِنَ الْمُهْتَدِیْنَ ) .(۲)

الله کی مسجدوں کوصرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا اور روزآخرت پر ایمان رکھتے ہیں اورجنھوں نے نمازقائم کی ہے اورزکات اداکی ہے اور خداکے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو عنقریب ہدایت یافتہ لوگوں میں شمارکئے جائیں گے۔

عن ابی عبیدة الحذاء قال سمعت اباعبدالله علیه السلام یقول :من بنیٰ مسجدا بنی اللهله بیتاًفی الجنة ۔(۳)

ابوعبیدہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے سناہے:ہروہ شخص جو کسی مسجدکی بنیادرکھے توخداوندعالم اسکے لئے بہشت میں ایک گھربنادیتاہے ۔

تاریخ میں لکھاہے کہ جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو آپ نے سب سے پہلے ایک مسجدکی بنیادرکھی (جو مسجد النبی کے نام سے شہرت رکھتی ہے )اوراس کے تعمیرہونے کے بعدحضرت بلال /نے اس میں بلندآوازسے لوگوں کونمازکی طرف دعوت دینے کاحکم دیا ۔

____________________

۱). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٧۶

. ٢)سورہ تٔوبہ/آیت ١٨

۳)تہذیب الاحکام /ج ٣/ص ٢۶۴

۱۰۶

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:اذادخل المهدی علیه السلام الکوفة قال الناس: یاابن رسول الله(ص انّ الصلاة معک تضاهی الصلاة خلف رسول الله(ص، وهذا المسجد لایسعنا فیخرج الی العزی فیخط مسجدا له الف باب یسع الناس ویبعث فیجری خلف قبر الحسین علیه السلام نهرایجری العزی حتی فی النجف.

امام صادق فرماتے ہیں:جب امام زمانہ (ظہورکے بعد)کوفہ میں واردہونگے تووہاں کے لوگ آپ سے نماز پڑھانے کی فرمائش کریں گے ،اورکہیں گے آپ پیچھے نمازپڑھنارسول خدا(ص)کے پیچھے نمازپڑھنے کے مانندہے مگریہ مسجد بہت چھوٹی ہے پ،یہ سن کرامام (علیه السلام) عزیٰ کے جانب حرکت کریں گے اورزمین ایک خط کھینچ کرمسجدکاحصاربنائیں گے اوراس مسجدکے ہزاردروازے ہونگے جس میں تمام (شیعہ)لوگوں کی گنجائش کی جگہ ہوگی اورسب لوگ اس میں حاضرہوجائیں،امام حسینکی قبرمطہرکی پشت سے ایک نہرجاری ہوگی جوعزی تک پہنچے گی یہاں تک کہ شہرنجف میں بھی جار ی ہوگی۔(۱)

.عن ابی عبدالله علیه السلام قال:ان قائمنااذاقام یبنی له فی ظهرالکوفة مسجدله الف باب.

امام صادق فرماتے ہیں:جب امام زماں قیام کریں گے توپشت کوفہ میں ایک مسجدتعمیرکریں گے جسکے ہزاردروازے ہونگے ۔(۲)

مساجدفضیلت کے اعتبارسے

سنت مو کٔدہ ہے کہ انسان اپنی نمازوں کومسجدمیں اداکرے اورمسجدوں میں سب سے افضل مسجدالحرام ہے جس میں نمازپڑھناسوہزارثواب رکھتاہے اس کے بعدمسجدالنبی (صلی الله علیه و آله)ہے اس کے مسجدکوفہ اس کے بعدبیت المقدس اس کے بعدہرشہرکی جامع مسجداس کے بعدمحلہ اوربازار کی مسجدہے اورجیسے ہی مسجدمیں داخل ہوتودورکعت نمازتحیت مسجدپڑھے۔

عن النبی صلی الله علیه انه قال:اذادخل احدکم المسجد فلایجلسحتی یصلی رکعتین

رسول اسلام (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:تم میں جب بھی کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تومحل نمازپر بیٹھنے سے پہلے دورکعت نماز(تحیت مسجد) پڑھے ۔(۳)

____________________

۱) بحارالانوار/ج ٩٧ /ص ٣٨۵

۲). بحارالانوار/ج ٩٧ /ص ٣٨۵

۳) المبسوط/ج ٨/ص ٩٠

۱۰۷

مسجدالحرام میں نمازپڑھنے کاثواب

عن ابی جعفرعلیه السلام انه قال:من صلی فی المسجد الحرام صلاة مکتوبة قبل اللهبهامنه کل صلاة صلاهامنذیوم وجبت علیه الصلاة وکل صلاة یصلیهاالی ان یموت .

امام باقر فرماتے ہیں:جوشخص مسجدالحرام میں ایک واجب کواداکرے توخداوندعالم اس کی ان تمام نمازوں کوجواس نے واجب ہونے کے بعدسے اب تک انجام دی ہیں قبول کرتاہے اوران تمام کوبھی قبول کرلیتاہے جووہ آئندہ مرتے دم تک انجام دے گا۔(۱)

قال محمدبن علی الباقرعلیه السلام: صلاة فی المسجدالحرام ا فٔضل من مئة الف صلاة فی غیره من المساجد ۔(۲)

امام باقر فرماتے ہیں:مسجدالحرام میں ایک نمازپڑھنادوسری مسجدوں میں سوہزار نمازیں پڑھنے سے افضل ہے۔

مسجدالنبی (صلی الله علیه و آله)میں نمازپڑھنے کاثواب

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:صلاة فی مسجدی تعدل عندالله عشرة آلاف فی غیره من المساجدالّامسجدالحرام فانّ الصلاة فیه تعدل ما ئٔة ا لٔف صلاة ۔

( ١ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:میری مسجد(مسجدالنبی)میں ایک نمازپڑھنامسجدالحرام کے علاوہ دوسری مساجدمیں ایک ہزارنمازپڑھنے سے افضل ہے کیونکہ مسجدالحرام میں ایک نمازپڑھنادوسری مساجدمیں سوہزارنمازیں پڑھنے سے افضل ہے۔(۳)

قال ابوعبدالله علیه السلام : صلاة فی مسجد النبی صلی الله علیه وآله تعدل بعشرة آلاف صلاة .

امام صادق فرماتے ہیں:مسجدالنبی (صلی الله علیه و آله)میں ایک نمازپڑھناہزارنمازوں کے برابرہے۔(۴)

____________________

۱)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٢٨

. ۲) ثواب الاعمال /ص ٣٠

۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٢٨

۴). کافی/ج ۴/ص ۵۵۶

۱۰۸

مسجدکوفہ میں نمازپڑھنے کاثواب

مسجدکوفہ وہ مسجدہے کہ جس ایک ہزارانبیا ء اورایک ہزاراوصیاء نے نمازیں پڑھیں ہیں ،وہ ت نوربھی اسی مسجدمیں ہے کہ جس سے حضرت نوح کے زمانے میں پانی کاچشمہ جاری ہوااورپوری دنیامیں پانی ہی پانی ہوگیاتھا،یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں سے کشتی نوح (علیه السلام)نے حرکت کی اوراس میں سوارہونے والے لوگوں نے نجات پائی،یہ وہ مسجدہے کہ جسے معصومین نے جنت کاایک باغ قراردیاہے ،یہ وہ مسجدہے کہ جس میں امام اول علی ابن ابی طالب کو شہیدکیاگیاہے ،اس مسجدمیں نمازپڑھنے کے بارے میں روایت میں ایاہے:

عن محمدبن سنان قال: سمعت اباالحسن الرضاعلیه السلام یقول:الصلاة فی مسجدالکوفة فرداا فٔضل من سبعین صلاة فی غیرها جماعة ۔

محمدبن سنان سے مروی کہ میں نے امام علی رضا کویہ فرماتے ہوئے سناہے: مسجدکوفہ میں فرادیٰ نمازپڑھنا(بھی)دوسری مساجدمیں جماعت سے سترنمازیں پڑھنے سے افضل ہے ۔(۱)

عن المفضل بن عمرعن ابی عبدالله علیه السلام قال:صلاة فی مسجدالکوفة تعدل الف صلاة فی غیره من المساجد ۔

مفضل ابن عمر سے مروی کہ امام صادق فرماتے ہیں: مسجدکوفہ میں ایک نمازپڑھنادوسری مساجدمیں جماعت سے پڑھنے سے افضل ہے ۔(۲)

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:صلاة فی مسجدالکوفة،الفریضة تعدل حجة مقبولة والتطوع فیه تعدل عمرة مقبولة

امام محمدباقر فرماتے ہیں:مسجدکوفہ میں ایک واجب نمازپڑھناایک حج مقبولہ کاثواب ہے اورایک مستحبی نمازپڑھناایک عمرہ مٔقبولہ کاثواب ہے۔(۳)

____________________

۱). بحارالانوار/ج ٨٠ /ص ٣٧٢

۲). ثواب الاعمال/ص ٣٠

.۳) کامل الزیارات/ص ٧١

۱۰۹

امام صادق سے مروی ہے :حضرت علی مسجدکوفہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص مسجدمیں داخل ہوااورکہا:“السلام علیک یاامیرالمومنین ورحمة الله وبرکاتہ ”امام علی (علیه السلام)نے اس کے سلام کے جواب دیا،اس کے بعداس شخص نے عرض کیا:اے میرے مولا! آپ پرقربان جاؤں،میں نے مسجدالاقصیٰ جانے کاارادہ کیاہے ،لہٰذامیں نے سوچاکہ آپ کو سلام اورخداحافظی کرلوں ،امام (علیه السلام) نے پوچھا:تم نے کس سبب سے وہاں جانے کاقصدکیاہے ؟جواب دیا:خداکافضل کرم ہے اوراس نے مجھے ات نی مال ودولت عطاکی ہے میںفلسطین جاکرواپسآسکتاہوں ،پسامام (علیه السلام)نے فرمایا:

فبع راحلتک وکلّ ذادک وصلّ فی هذاالمسجدفانّ الصلاة المکتوبة فیه مبرورةوالنافلة عمرة مبرورة ۔

تم اپنے گھوڑے اورزادسفرکوفروخت کردواوراس مسجدکوفہ میں نمازپڑھوکیونکہ اس مسجدمیں ایک واجب نمازاداکرناایک مقبولی حج کے برابرثواب رکھتاہے اورمستحبی نمازپڑھناایک مقبولی عمرہ کے برابرثواب رکھتاہے۔(۱)

قال النبی صلی الله علیه وآله:لمااسری بی مررت بموضع مسجدکوفة واناعلی البراق ومعی جبرئیل علیه السلام فقال:یامحمد!انزل فصل فی هذاالمکان ، قال: فنزلتُ فصلیتُ .

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب مجھے آسمانی معراج کے لئے لے جایاگیاتومیں براق پہ سوارتھااورجبرئیل (علیه السلام)بھی میرے ساتھ تھے ،جب ہم مسجدکوفہ کے اوپرپہنچے توجبرئیل (علیه السلام) نے مجھ سے کہا:اے محمد!زمین پراترجاؤاوراس جگہ پرنمازپڑھو،میںزمین پرنازل ہوااور(مسجدکوفہ میں)نمازپڑھی۔(۲)

____________________

۱). کافی/ج ١/ص ۴٩١

۲). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٣١

۱۱۰

حرم آئمہ اطہار میں نمازپڑھنے کاثواب

آئمہ اطہار کے حرم میں نمازپڑھنابہت ہی زیادہ فضیلت رکھتاہے ،یہ وہ مقامات ہیں کہ جہاں نمازپڑھنے کابہت زیاد ہ ثواب ہے ، دعائیں مستجاب ہوتی ہیں،رویات میں ایاہے کہ امام علی کے حرم میں ایک نمازپڑھنادولاکھ نمازوں کے برابرثواب رکھتاہے۔ حرم آئمہ اطہار میں نمازپڑھنے اوردعاکرنے کے بارے میں دعاکے باب میں ذکرکریں گے۔

مسجدقبااورمسجدخیف میں نمازپڑھنے کاثواب

مدینہ میں ایک مسجدقباہے کہ جس کی بنیادروزاول تقویٰ وپرہیزگاری پررکھی گئی ہے ، مسجدفضیح جسے مسجدردّشمس بھی کہاجاتاہے اسی مسجدکے پاس ہے مسجدقبامیں نمازپڑھنے کے بارے میں روایت میں ایاہے:

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:من اتیٰ مسجدی قبافصلی فیه رکعتین رجع بعمرة

. نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص میری مسجدمسجدقبامیں دورکعت نمازپڑھے وہ ایک عمرہ کے برابرثواب لے کرواپسہوتاہے ۔(۱)

مسجدخیف وہ مسجدہے کہ جومنی میں واقع ہے اوراس مسجدمیں ایک ہزارانبیاء نے نمازیں پڑھی ہیں اوربعض روایت کے مطابق اس میں سات سوانبیائے الٰہی نے نمازپڑھی ہیں معاویہ ابن عمارسے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے معلوم کیا:اس مسجدکومسجدکہنے وجہ کیاہے ؟

امام (علیه السلام) نے فرمایا:لانه مرتفع عن الوادی وکل ماارتفع عن الوادی سمی خیفا . کیونکہ یہ مسجدوادی منی کی بلندجگہ ہے اوروادی میں جوچیزبلندہوتی ہے اسے خیف کہتے ہیں(۲)

عن ابوجمزة الثمالی عن ابی جعفرعلیه السلام انه قال:من فی مسجد الخیف بمنی مئة رکعة قبل ان یخرج منه عدلت سبعین عاما ومن سبح فیه مئة تسبیحة کتب له کاجرعتق رقبة

. ابوحمزہ ثمالی سے روایت ہے امام باقر فرماتے ہیں:جوشخص مسجدخیف میں منی میں اس سے باہرآنے سے پہلےسورکعت نمازپڑھے اس کی وہ نمازسترسال کی عبادت کے برابرثواب رکھتی ہے اورجوشخص اس میں سومرتبہ تسبیح پروردگارکرے اس کے لئے راہ خدامیں ایک غلام آذارکرنے کاثواب لکھاجاتاہے۔(۳)

____________________

۱) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٢٩

۲). علل الشرائع /ج ٢/ص ۴٣۶

۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٣٠

۱۱۱

مسجدسہلہ میں نمازپڑھنے ثواب

مسجدسہلہ کوفہ میں واقع ہے ،جس میں حضرت ابراہیماورحضرت ادریس کاگھرہے ،روایت میں ایاہے کہ وہ سبزپتھرکہ جس پرتمام انبیائے کرام کی تصویربنی ہے اسی مسجدمیں واقع ہے اوروہ پاک پتھربھی اسی مسجدمیں ہے کہ جس کے نیچے کی خاک سے خداوندعالم نے انبیاء کوخلق کیاہے۔

عن الصادق علیه السلام قال:اذادخلت الکوفة فات مسجدالسهلة فضل فیه واسئل الله حاجتک لدینک ودنیاک فانّ مسجدالسهلة بیت ادریس النبی علیه السلام الذی یخیط فیه ویصلی فیه ومن دعالله فیه بمااحبّ قضی له حوائجه ورفعه یوم القیامة مکاناعلیاالی درجة ادریس علیه السلام واجیرمن الدنیاومکائد اعدائه.

امام صادق فرماتے ہیں:جب آپ شہرکوفہ میں داخل ہوں اورمسجدسہلہ کادیدارکریں تومسجدمیں ضرورجائیں اوراس میں مقامات مقدسہ پرنمازپڑھیں اورالله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی دینی اوردنیاوی مشکلات کوحل کرنے کی دعاکریں،کیونکہ مسجدسہلہ حضرت ادریس کاگھرہے جسمیں خیاطی کرتے تھے اورنمازبھی پڑھتے تھےجوشخص اس مسجدمیں الله تعالیٰ کی بارگاہ میں ہراس چیزکے بارے میں جسے وہ دوست رکھتاہے دعاکرے تواس کی وہ حاجت پوری ہوگی اورروزقیامت حضرت ادریس کے برابرمیں ایک بلندمقام سے برخوردارہوگااوراس مسجدمیں عبادت کرنے اورنیازمندی کااظہارکرنے کی وجہ سے دنیاوی مشکلیں اوردشمنوں کے شرسے خداکی امان میں رہے گا۔(۱)

روی ان الصادق علیه السلام انه قال:مامن مکروب یاتی مسجدسهلة فیصلی فیه رکعتین بین العشائین ویدعوالله عزوجل الّافرج الله کربته.

امام صادق فرماتے ہیں:ہروہ شخص جوکسی بھی مشکل میں گرفتارہو مسجدسہلہ میں ائے اورنمازمغرب وعشاکے میں درمیان دورکعت نمازپڑھ کرخدائے عزوجل سے دعاکرے توخداوندعالم اس کی پریشانی دورکردے گا۔(۲)

قال علی بن الحسین علیهماالسلام :من صل فی مسجدالسهلة رکعتین ، زادالله فی عمره سنتین .

امام زین العابدین فرماتے ہیں:جوشخص مسجدسہلہ میں دورکعت نمازپڑھے ،خداوندعالم اس کی عمرمیں دوسال کااضافہ کردیتاہے۔(۳)

____________________

۱) بحارالانوار/ج ١١ /ص ٢٨٠

۲). تہذیب الاحکام/ج ۶/ص ٣٨

۳). مستدرک الوسائل /ج ٣/ص ۴١٧

۱۱۲

مسجدبراثامیں نماپڑھنے کاثواب

مسجدبراثاعراق کے شہربغدامیں واقع ہے ،اس مسجدکی چندفضیلت یہ ہیں کہ یہ حضرت عیسیٰ کی زمین ہے ،جب حضرت علی جنگ نہروان سے واپس ہورہے تھے اوراس جگہ پرپہنچے توآپ نے یہاں پرنمازپڑھی اورحسن وحسین نے بھی اس مسجدمیں نمازپڑھی ہے ،اس مسجدمیں ایک پتھرہے کہ جس پرحضرت مریم نے حضرت عیسیٰ کوقراردیاتھا،اسی جگہ پرحضرت مریم کے لئے چشمہ حاری ہواتھا،یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت علی کے لئے سورج پلٹااورآپ نے نمازعصرکواس کے وقت میں اداکیا، اورکہاجاتاہے کہ حضرت یوشع اسی مسجدمیں دفن ہیں(۱)

بیت المقدس ، مسجدجامع ،محله وبازارکی مسجدمیں نمازپڑهنے کاثواب

عن السکونی عن جعفربن محمدعن آبائه عن علی علیهم السلام قال:صلاة فی البیت المقدس تعدل ا لٔف صلاة ، وصلاة فی مسجدالاعظم مائة صلاة ، وصلاة فی المسجدالقبیلة خمس وعشرون صلاة ، وصلاة فی مسجدالسوق اثنتاعشرة صلاة ، وصلاة الرجل فی بیته وحده صلاة واحد ۔

حضرت علی فرماتے ہیں:بیت المقدس میں ایک نمازپڑھناہزارنمازوں کے برابرہے اورشہرکی جامع مسجد میں ایک نمازپڑھناسونمازوں کے برابرہے اورمحلہ کی مسجدمیں ایک نمازپڑھنا پچیس نمازوں کے برابرہے اوربازارکی مسجدمیں ایک نمازپڑھنابارہ نمازوں کے بابرہے اورگھرمیں ایک نمازپڑھناایک ہی نمازکاثواب رکھتاہے ۔(۲)

مسجدکے میں مختلف حصوں میں نمازپڑھنے کی وجہ

جب انسان مسجدمیں جائے اوراپنی نمازکی جگہ کوبدلنامستحب ہے یعنی دوسری کودوسری پرپڑھے

عن الصادق جعفربن محمد علیهما السلام انّه قال:علیکم بِاتْیَان الْمساجد فانّهابیوت الله فی الارض،مَن اَتاهامتطهراًطَهره الله مِن ذنوبه،وکتب من زوّارهِ، فاکثروفیهامن الصلاة والدعاء وصلوا المساجدفی بقاع المختلفة فان کل بقعة تشهد للمصلی علیهایوم القیامة تم مسجد میں حاضر ہوا کروکیونکہ مسجد یں زمین پر خدا کا گھر ہیں پس جو شخص طہارت کے ساتھ مسجدمیں داخل ہو تا ہے خدا وند عالم اس کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس کا نام زائرین خدا میں لکھاجاتاہے پس تم مسجدمیں بہت زیادہ نمازیں پڑھاکرواوردعائیں کرواورمسجدمیں مختلف جگہوں پرنمازپڑھاکروکیونکہ مسجدکاہرقطعہ روزقیامت اپنے اوپرنمازپڑھنے والے کے لئے نمازکی گواہی دے گا(۳)

____________________

.۱) رہنمائے زائرین کربلا/ص ٢۵---.۲) ثواب الاعمال /ص ٣٠

.۳)امالی(شیخ صدوق )/ص ۴۴٠

۱۱۳

مسجدمیں داخل ہوتے ہوئے دائیں قدم رکھنے کی وجہ

مستحب ہے کہ مسجدمیں داخل ہوتے وقت پہلے داہناقدم اندررکھیں اورمسجدسے نکلتے وقت بایاں قدم باہررکھیں کیونکہ داہناقدم بائیں قدم سے اشرف ہوتاہے،اورتاکہ خداوندعالم اسے اصحاب یمین میں قراردے اورقدم رکھتے وقت بسم الله کہیں ،حمدوثنائے الٰہی کریں محمدوآل محمد علیہم الصلاة والسلام پردرودبھیجیں اورخداسے اپنی حاجتوں کوطلب کریں

عن یونس عنهم علیهم السلام قال قال:الفضل فی دخول المسجد ان تبدا بٔرجلک الیمنی اذادخلت وبالیسری اذاخرجت .

یونس سے روایت ہے ،معصوم(علیه السلام) فرماتے ہیں:مسجدمیں داخل ہونے کے لئے بہترہے کہ آپ دائیں پیرسے داخل ہواکریں اوربائیں پیرسے باہرآیاکریں۔(۱)

روایت میں ایاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)مسجدمیں داخل ہوتے تھے وقت “بسم الله اللہمّ صل علی محمدوآل محمد ، واغفرلی ذنوذبی وافتح لی ابواب رحمتک”اورمسجدسے کے باہرآتے وقت دروازے کے پاس کھڑے ہوکر“اللهمّ اغفرلی ذنوذبی وافتح لی ابواب فضلک ”کہتے تھے(۲)

اہل مدینہ کی ایک بزرگ شخصیت ابوحفص عطارسے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے ہوئے سناہے :رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب بھی تم میں سے کوئی شخص نمازواجب پڑھے اورمسجدسے باہرآنے لگے تودروازہ میں کھڑے ہوکریہ دعاپڑھے:

اَللّٰهُمَّ دَعَوْت نی فَاَجَبْتُ دَعْوَتَکَ وَصَلَّیْتُ مَکْتُوْبَتَکَ وَانْتَشَرْتُ فِیْ اَرْضِکَ کَمَااَمَرْت نیْ فَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَمَلَ بِطَاعَتِکَ وَاجْت نابَ مَعْصِیَتِکَ وَالْکِفَافَ مِنَ الرِّزقِْ بِرَحْمَتِکَ .

ترجمہ:بارالٰہا!تونے مجھے دعوت دی ،پس میں نے تیری دعوت پرلبیک کہااورتیرے واجب کواداکیااورمیں تیرے فرمان کے مطابق تیری زمین پر(روزی کی تلاش میں)نکلا، پس میں تیرے فضل وکرم سے تجھ سے اپنے عمل میں تیری اطاعت کی درخواست کرتاہوں اورگناہ ومعصیت سے دوری چاہتاہوں اورتجھ سے تیری رحمت کے وسیلے سے رزق وروزی میں کفاف ) چاہتاہوں۔(۳)

____________________

۱) کافی/ج ٣/ص ٣٠٩

.۲) مستدرک الوسائل/ج ٣/ص ٣٩۴

. ۳)وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ۵١٧

۱۱۴

مسجدکے صاف وتمیزرکھنے کی وجہ

مسجدمیں جھاڑولگانااوراس کی صفائی کرناسنت مو کٔدہ ہے اوراسے نجس کرناحرام ہے۔

مسجدمیںصفائی کرنے اوراس میں چراغ کے جلانے سے انسان کے دل میں نورانیت پیدا،خضوع وخشوع اورتقرب الٰہی ہوتی ہے اورلوگ اسے ایک اچھاانسان محسوب کرتے ہیں

قال رسول الله صلی الله صلی الله علیه وآله:من کنس فی المسجدیوم الخمیس لیلة الجمعة فاخرج منه التراب قدرمایذر فی العین غفرالله له ۔(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص جمعرات کے دن شب جمعہ مسجدمیں جھاڑولگائے اورآنکھ میں سرمہ لگانے کے برابرگردوخاک کومسجدسے باہرنکالے توخداوندعالم اس کے گناہوں بخشدیتاہے ۔

حکایت کی گئی ہے کہ ایک مجوسی اپنی کمرپرمجوسی کمربندباندھے اورسرپرمجوسی ٹوپی لگائے ہوئے مسجدالحرام میں داخل ہوا،جب وہ خانہ کعبہ کے گردگھوم رہاتھاتواس نے دیکھاکہ دیوارکعبہ پرکسی کالعاب دہن لگاہواہے ،اس نے دیوارکعبہ سے لعاب دہن کوصاف کردیااورمسجدالحرام سے باہرنکل آیا،جیسے ہی وہ باہرآیاتوناگہان ہواکاایک تیزجھونکاآیااوراس کے سرپہ لگی ہوئی ٹوپی ہوامیں اڑھ گئی،اس نے اپنی ٹوپی کوہرچندپکڑنے کی کوشش کی مگروہ اس کے ہاتھ نہ آئی ،ناگاہ ہاتف غیبی سے ایک آوازاس کے کانوں سے ٹکرائی :جب تجھے ہمارے گھرپہ کسی کالعاب دہن لگے ہوئے دیکھناپسندنہیں ہے توہمیں بھی تیرے سرپرکفرکی نشانی لگے ہوئے دیکھناپسندنہیں ہے ،یہ بات سن کراس آتش پرست نے اپنی کمرسے وہ کمربندبھی کھول کرپھینک دیااورمسلمان ہوگیا۔(۲)

روایت میں آیاہے کہ ایک بوڑھی اوربےنوا عورت اس مسجد میں کہ جس میں پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله) نمازپڑھتے تھے ، جھاڑو لگا یا کرتی تھی اورمسجدکوصاف رکھتی تھی ،وہ عورت بہت ہی زیادہ غریب وفقیرتھی اورمسجد کے کسی ایک گوشہ میں سویا کرتی تھی ، نمازجماعت میں حاضرہونے والے لوگ اس کے لئے آب وغذا کا انتظام کرتے تھے ،ایک دن پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)اور مسجد میں داخل ہوئے اوراس ضعیفہ کو مسجد میں نہ پایاتومسجدموجودلوگوں سے اس عورت کے بارے میں دریافت کیا،حاضرین مسجدنے جواب دیا:

____________________

١)ثواب الاعمال/ص ٣١

. ۲)نماز،حکایتہاوروایتہا/ص ١۴

۱۱۵

یانبی الله! وہ عورت شب گذشتہ انتقال کر گئی ہے اور اسے دفن بھی کردیا گیا ہے ،پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) اس کے انتقال کی خبر سن کر بہت زیادہ غمگین ہوئے اور کہا : تم نے مجھ تک اس کے مرنے کی خبر کیوں نہیں پہنچائی تھی تم مجھے اس عورت کی قبرکاپتہ بتاؤ، ان لوگوں نے آنحضرت کو اس ضعیفہ کی قبرکاپتہ بتایااورنمازکے بعدچندلوگ آپ کے ہمراہ اس کی قبر پرپہنچے ،پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے اس کی قبرنمازپڑھنے کے لئے کہا،آنحضرت آگے کھڑے ہوئے اورآپ کے ساتھ آئے ہوئے لوگ صف باندھ کرپیچھے کھڑے ہوگئے اور سب نے پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)کے ساتھ کھڑے ہوکرنمازمیت پڑھی اور ) اس کی مغفرت کے لئے دعائیں مانگی ۔(۱)

بدبودارچیزکھاکرمسجدمیں انے کی کراہیت کی وجہ

مسجدمیں کوئی ایسی چیزکھاکرآنایاساتھ میں لانامکروہ ہے کہ جس کی بوسے مومنین کواذیت پہنچے ، لہسن یاپیازوغیرہ کھاکرمسجدمیں آنے سے پرہیزکیاجائے ۔

عن محمدبن مسلم عن ابی جعفرعلیه السلام قال:سئلته عن اکل الثوم فقال:انمانهی رسول صلی الله علیه واله عنه لریحه فقال:من اکل هذه البقلة المنت نة فلایقرب مسجدنا .

محمدابن مسلم سے مروی ہے کہ میں امام باقر سے لہسن کے بارے میں معلوم کیاتوامام (علیه السلام) نے فرمایا: نبی اکرم (صلی الله علیه و آله):نے اس کی بدبوکی وجہ سے (اسے کھاکرمسجدمیں جانے کو)منع کیاہے اورفرمایاہے :جوشخص اس بدبودارگھاس کوکھائے تووہ ہمارے مسجدوں کے قریب بھی نہ آئے ۔(۲)

عن محمدبن سان قال:سئلت اباعبدالله علیه السلام عن اکل البصل الکراث، فقال:لاباس باکله مطبوخاوغیرمطبوخ ،ولکن ان اکل منه ماله اذافلایخرج الی المسجد کراهیة اذاه علی من یجالس .

محمدابن سان سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے پیازاورترہ کے بارے میں سوال کیاتوامام (علیه السلام) نے فرمایا:ان دوچیزوں کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ پختہ استعمال کیاجائے یاغیرپختہ ، لیکن اگر انھیں کھاکرمسجدمیں نہ جائے کیونکہ اس کی بدبوسے مسجدمیں بیٹھے والوں کواذیت ہوتی ہے۔(۳)

____________________

. ١)ہزاریک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٧۵٨ /ص ٢٣٨

. ۲)علل الشرائع/ج ٢/ص ۵١٩

. ۳)علل الشرائع/ج ٢/ص ۵٢٠

۱۱۶

مسجدوں کااس طرح بلندبناناکہ اس سے اطراف میں موجودگھروں کے اندرنی حصے نظرآتے ہوں مکروہ ہے

عن جعفربن محمد عن ابیه علیه السلام : انّ علیارا یٔ مسجدا بالکوفة قدشرف فقال:کانهابیعة ،وقال:ان المساجدلاتشرف تبنی جما.

روایت میں آیاہے کہ حضرت علی نے کوفہ میں ایک مسجدکو اطراف کے گھروں سے بلنددیکھاتوآپ نے فرمایا:یہ گرجاگھر(معبدیہودونصاریٰ )ہے اورفرمایا:مسجدوں کوبلندنہیں بناناچاہئے بلکہ انھیں پست وکوتاہ بنایاجائے۔(۱)

قبلہ

جب بندہ مومن اس چیزکاعلم رکھتاہے کہ خداوندعالم ہرجگہ اورہرسمت میں موجودہے،نہ اس کے رہنے کی کوئی جگہ مخصوص ہے وہ لامکان ہے ،ہم جدھربھی اپنا رخ رکھیں وہ ہمیں دیکھ رہاہے اورسن رہاہے پھرکیاضروری ہے کہ انسان کسی ایک مخصوص سمت رخ کرکے پروردگارکی عبادت کرے اوراس سے رازونیازکرے؟ صرف ظاہری طورسے جس طرف بھی کھڑے ہوکر نمازپڑھنے ،رکوع وسجودکرنے کوعبادت نہیں کہتے ہیں بلکہ باطنی طورسے بھی عبادت کرناضروری ہے یعنی دل کوپروردگارعالم کی طرف متوجہ کرناضروری ہے ،اگردل خداکی طرف نہ ہوتواسے عبادت نہیں کہتے ہیں

خداوندعالم یہی چاہتااوردوست رکھتاہے اوراسی چیرکاامرکرتاہے میرابندہ باطنی طورسے بھی میری ہی عبادت کرے اورظاہری طورکے علاوہ معنوی اعتبارسے بھی میری طرف توجہ رکھے اورغیرخداکاخیال بھی نہ کرے لہٰذاپروردگارنے زمین پرایک جگہ معین کیاتاکہ بندے اس طرف رخ کرکے اس کی عبادت کریں اوراپنے دل میںغیراخداکاارادہ بھی نہ کریں۔ خداوندعالم کی حمدوثنااورتسبیح وتقدیس کرنے میں کسی دوسرے کادل میں خیال بھی نہیں آناچاہئے بلکہ دل کوپروردگار کی طرف مائل رکھنازیادہ ضروری ہے ،کیونکہ اگرکتاب وسنت کی طرف رجوع کیاجائے توسب کاحکم یہی ہے کہ انسان رب دوجہاں کی عبادت کرنے میں اپنے دل کوبھی متوجہ رکھے بلکہ کتاب وسنت میں دل وباطن کوخداکی طرف متوجہ رکھنے کوزیادہ لازم قراردیاگیاہے

____________________

۱) علل الشرئع/ ٢/ص ٣٢٠

۱۱۷

قرآن وسنت میں کسی چیزکوقبلہ قراردینے کاجوحکم دیاگیاہے اس کی اصلی وجہ دل وباطن کوخداکی طرف توجہ کرنامقصودہے، تاکہ انسان کے تمام اعضاوجوارح میںثبات پایاجائے کتاب وسنت میں ایک مخصوص سمت رخ کرکے نمازپڑھنے کاحکم دیا ہے کیونکہ جب دل ایک طرف رہے گاتواس میںزیادہ سکون واطمینان لیکن اگراعضاوجوارح مختلف جہت وسمت میں ہوں توپھردل بھی ایک طرف نہیں رہے گااوربارگاہ خداوندی میں حاضرنہیں رہ سکے گااورعبادت میں اصلی چیزدل وباطن کوخداکی طرف توجہ کرناہے اوروہ آیات وروایات کہ جن میں ذکروعبادت اورتقوائے الٰہی اختیارکرنے کی تاکیدکی گئی ہے وہ سب قلب کے متوجہ ہونے کولازم قراردیتی ہیں۔

جس سمت رخ کرکے تمام مسلمان اپنی نمازوں اورعبادتوں کوانجام دیتے ہیں ،اورجس کی طرف اپنے دلوں کومتوجہ کرتے ہیں اسے قبلہ کہاجاتاہے اسی لئے کعبہ کوقبلہ کہاجاتاہے کیونکہ تمام مسلمان اپنی نمازوعبادت کواسی کی سمت انجام دیتے ہیں خانہ کعبہ مکہ مکرمہ میں واقع ہے جوپوری دنیاتمام مسلمانوں کا مرکزاورقبلہ ہے خانہ کعبہ کے بارے میں چند اہم نکات وسوال قابل ذکرہیں:

١۔خانہ کعبہ کوکعبہ کیوں کہاجاتاہے؟

اس بارے میں روایت میں آیاہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں ائی اورانھوں نے آنحضرتسے چندسوال کئے ،ان میں سے ایک یہودی نے معلوم کیا:کعبہ کوکعبہ کیوں کہاجاتاہے ؟نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:لانّهاوسط الدنیا ۔ کیونکہ کعبہ دنیاکے درمیان میں واقع ہے ۔(۱)

٢۔خانہ کعبہ کے چارگوشہ کیوں ہیں؟

یہودی نے بنی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے معلوم کیا:خانہ کعبہ کوچارگوشہ بنائے جانے کی وجہ کیاہے؟

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:کلمات اربعہ(سبحان الله ، والحمدلله ، ولااله الّالله ، والله اکبر )کی وجہ سے ۔(۲)

____________________

۱). امالی (شیخ صدوق )/ص ٢۵۵

۲). امالی (شیخ صدوق )/ص ٢۵۵

۱۱۸

روایت میں آیاہے کہ کسی نے امام صادق سے معلوم کیا:کعبہ کوکعبہ کیوں کہاجاتاہے ؟آپ نے فرمایا؟کیونکہ کعبہ کے چارگوشہ ہیں،اس نے کہا:کعبہ کے چارگوشہ بنائے جانے کی وجہ کیاہے ؟ امام (علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ کعبہ بیت المعمور کے مقابل میں ہے اوراس کے چارگوشہ (لہٰذاکعبہ کے بھی چارگوشہ ہیں)اس نے معلوم کیا:بیت المعورکے چارگوشہ کیوں ہیں؟فرمایا:کیونکہ وہ عرش کے مقابل میں ہیں اوراس کے چارگوشہ ہیں (لہٰذابیت المعمور کے بھی چارگوشہ ہیں)روای نے پوچھا:عرش کے چارگوشہ کیوں ہیں؟فرمایا:کیوں وہ کلمات کہ جن پراسلام کی بنیادرکھی گئی ہے وہ چارہیں جوکہ یہ ہیں:

سبحان الله ، والحمدلله ، ولااله الّالله ، والله اکبر .(۱)

٣۔خانہ کعبہ کو“بیت الله الحرام ”کیوں کہاجاتاہے؟

حسین بن ولیدنے حنان سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ:میں نے امام صادق سے معلوم کیا:خانہ کعبہ کو“بیت الله الحرام ”کیوں کہاجاتاہے ؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ اس میں مشرکوں کاداخل ہوناحرام ہے اس لئے کعبہ کو“بیت الله الحرام” کہاجاتاہے

۴ ۔خانہ کعبہ کوعتیق کیوں کہاجاتاہے ؟

ابوخدیجہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے معلوم کیا:خانہ کعبہ کوعتیق کیوں کہاجاتاہے ؟ آپ نے فرمایا:کعبہ اس لئے عتیق کہاجاتاہے کہ یہ جگہ سیلاب میں عرق ہونے سے آزاداورمحفوظ ہے (جب طوفان نوح (علیه السلام) آیاتھاتواسوقت بھی کعبہ غرق نہیں ہواتھااورنوح نے کشتی میں بیٹھے ہوئے کعبہ کادیدارکیاتھا(۲)

ابن محاربی سے مروی ہے امام صادق فرماتے ہیں:

خداوندعالم نے حضرت نوح کے زمانہ میںطوفان کے وقت کعبہ کے علاوہ پوری زمین کوپانی میں غرق کردیاتھااسی لئے اس بقعہ مبارکہ کوبیت عتیق کہاجاتاہے کیونکہ یہ جگہ اس وقت بھی غرق ہونے سے آزادومحفوظ تھی ،راوی کہتاہے کہ میں نے امام (علیه السلام) سے عرض کیا:کیایہ بقعہ مبارکہ اس دن آسمان پرجلاگیاتھاجوغرق ہونے سے محفوظ رہا؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:نہیں بلکہ اپنی جگہ پرتھااورپانی اس تک نہیں پہنچااوریہ بیت پانی سے مرتفع قرارپایا۔(۳)

____________________

. ۱)علل الشرائع/ج ٢/ص ٣٩٨

۲). علل الشرئع /ج ٢/ص ٣٩٨

۳) تفسیرنورالتقلین/ج ٣/ص ۴٩۵

۱۱۹

ابوحمزہ ثمالی سے مروی ہے کہ میں نے امام محمدباقر سے معلوم کیا: خداوند عالم نے کعبہ کوعتیق کے نام سے کیوں ملقب کیاہے ؟آپ (علیه السلام)نے فرمایا: خداوندعالم نے روئے زمین پرجت نے بھی گھربنائے ہیں ہرگھرکے لئے ایک مالک اورساکن قراردیاہے مگرکعبہ کاکسی کومالک وساکن قرارنہیں دیابلکہ پروردگاراس گھرکامالک وساکن ہے اورامام (علیه السلام) نے فرمایا:خداوندعالم نے اپنی مخلوقات میں سب سے پہلے اس گھرپیداکیااس کے بعدزمین کواس طرح وجودمیں لایاکہ کعبہ کے نیچے سے مٹی کوکھینچااورپھراسے پھیلادیا۔(۱)

کعبہ کب سے قبلہ بناہے؟

کیا اسلام کے آغازہی سے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)اورتمام مسلمان خانہ کعبہ کی طرف نمازپڑھتے آرہے ہیں اورکیاخانہ کعبہ اول اسلام سے مسلمانوں کاقبلہ ہے یاکعبہ سے پہلے کوئی دوسرابھی قبلہ تھااوراس طرف نمازپڑھی جاتی تھی اوربعدمیں قبلہ تبدیل کردیاگیاہے؟

جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)درجہ رسالت پرمبعوث ہوئے تواس وقت مسلمانوں کاقبلہ بیت المقدس تھاجسے قبلہ اوّل کہاجاتاہے لیکن بعدمیں خداکے حکم سے قبلہ کوبدل دیاگیا اورخانہ کعبہ مسلمانوں کادوسراقبلہ قرارپایا نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے درجہ نبوت پرفائز ہونے کے بعد ١٣ /سال تک مکہ مکرمہ میں قیام مدت کے درمیان بیت المقدس کی سمت نماز پڑھتے رہے اور مدینہ ہجرت کرنے کے بعد بھی سترہ مہینہ تک اسی طرف نماز یں پڑھتے رہے ۔

معاویہ ابن عمارسے مروی ہے کہ : میں نے امام صادق معلوم کیاکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے چہرے کوکس وقت کعبہ کی طرف منصرف کیاگیا؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:

بعدرجوعه من بدر،وکان یصلی فی المدینة الی بیت المقدس سبعة عشرشهرا ثمّ اعیدالی الکعبة ۔(۲)

جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)جنگ بدرسے واپس ہوئے توقبلہ کو تغییر کردیا گیا اورمدینہ ہجرت کے بعدآنحضرت سترہ مہینہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھتے رہے اس کے بعد قبلہ کوکعبہ کی طرف گھمادیاگیا۔

____________________

۱). کافی /ج ۴/ص ١٨٩

۲)وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ٢١۶

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156